Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 29 Issue 2 of Al-Idah

فن حدیث میں مولانا عبد الرحمن مبارک پوری کی خدمات کا جائزہ |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

29

Issue

2

Year

2014

ARI Id

1682060034497_1012

Pages

17-48

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/view/225/213

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/225

Subjects

Keywords=

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

 

جماعت محدثین میں امام ترمذی ؒکی حیثیت چند امور کے لحاظ سے زیادہ نمایاں ہے ان میں ایک تو یہ کہ انہوں نے پہلی مرتبہ روایات پر صحت وضعف کا حکم لگایا ہے۔اس کے لیے وہ أصح شيء فى هذا الباب، شيء فى هذا الباب هذا حديث حسن صحيح، هذا حديث صحيح، هو أحسن حديث، هذا حديث حسن، هذا حديث جيد، هذا حديث ضعيف، هذا حديث غريب، هذا حديث حسن غريب، هذا حديث مرسل، هذا حديث فيه اضطراب، هذا حديث مضطرب، هذا حديث غير صحيح، هذا حديث غير محفوظ وغيرهکے الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔

دوسرے انہوں نے اپنی کتاب میں احادیث بالاحکام کا التزام کیا ہے جو امت میں معمول بہ تھیں اپنے اس منہج کے بارے میں وہ فرماتے ہیں کہ میری اس کتاب میں صرف دو کے علاوہ تمام احادیث معمول بہ ہیں پھر ان کی نشاندہی بھی فرمائی ہے۔پہلی حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ نبی ﷺنے مدینہ میں ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کو بغیر خوف وبارش کے جمع فرمایا ۔دوسری حدیث یہ ہے کہ آپﷺ نے فرمایا شارب خمر کو کوڑے مارو اوراگر چوتھی مرتبہ بھی ایسا کرے تو اسے قتل کردو[1] امام ترمذی ؒ احادیث کی صحت وضعف کے بیان کرتے ہوئے یہ بھی ذکرکرتے ہیں کہ ان پر تعامل امت ہے یا نہیں ۔

تیسرے یہ کہ قبولیت وعدم قبولیت حدیث میں تعامل امت کو مدار بناتے ہیں ۔ایک ضعیف روایت پر اگر تعامل امت ثابت ہو اس کو ایسی صحیح روایت پر ترجیح دیتے ہیں جس پر تعامل امت نہ ہو ۔

چوتھے یہ کہ سنن الترمذی میں کسی ایک مسئلہ پرکئی روایات لاتے ہیں ۔ان میں جب متعدد اسناد سے ایک روایت مروی ہو تو اس کو ایک سند سے بیان کر کے وہی روایت جن باقی صحابہ سے مروی ہے ان کا نام”فی الباب “ اعنوان قائم کر کے ذکر کردیتے ہیں امام ترمذی ؒنے”وفی الباب “ کا انداز شاید اس وجہ سے اپنایا ہے کہ انہوں نے اپنے دور کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تفصیل کی ضرورت کو محسوس نہ کیا ہولیکن بعد کے دور میں”وفی الباب “ کی روایات کی تخریج کی ضرورت کو شارحین حدیث نے محسوس کیا اور اپنی کتب میں کہیں کہیں ان روایات کو ذکر کیاہے ۔ مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوریؒ پہلے عظیم محدث ہیں جنہوں نے سنن الترمذی کی شرح اور رواۃ کی بحث کے ساتھ ساتھ”فی الباب “ میں مذکورصحابہ ؓکی روایات کی تخریج کی ہے۔ لیکن سنن الترمذی کی”وفی الباب “کی تقریبا 4000 روایات میں 87روایات ایسی ہیں جن کے بارے میں شیخ ؒ نے ”لم اقف عليه“ کا قول کیا ہے اور417 روایات ایسی ہیں جن کے بارے میں شیخ ؒکا قول”لینظر من اخرج هذا الحديث" کا ہے ۔

شیخؒ ولادت سے طفولیت تک:

آپکا نام محمد عبدالرحمٰن بن العلامۃ الحافظ الحاج الشیخ عبدالرحیم بن الحاج الشیخ بھادر المبارکپوری ہے[2] آپ اعظم گڑھ کے علاقے مبارک پور میں1283 ھ بمطابق 1865ء میں پیدا ہوئے [3]

تعلیم:

آپ نے بچپن ہی میں قرآن کریم حفظ کرلیا اوراردو اور فارسی کے کئی رسائل پڑھ لیے۔پھر اپنے والد اورشہر کے دیگر علماء سے ادب،انشاء اوراخلاق کے موضوعات پر فارسی کتب پڑھیں۔حتی کہ اپنے ہم عصروں پر فوقیت حاصل کرلی۔ آپ نے علوم عربیہ ، منطق،فلسفہ،ہیئت ،فقہ اوراصول فقہ کئی علماء سے حاصل کیے[4]اور مولانا عبداللہ غازی پوری ؒسے تعلیم حاصل کی ۔پھر دہلی میں الشیخ نذیر حسین الدھلویؒ سے علم حدیث حاصل کیا [5]شیخ ؒنے تحصیل علم میں کوئی کسر نہ چھوڑی حتی کہ مال اور وقت میں بھی بخل نہیں کیا یہی وجہ ہے اپنے زمانے کے شیوخ سے ہر وہ علم حاصل کیا جو ان کے پاس موجود تھا۔

شیخؒ کا دور شباب:

 آپ کے شیوخ میں سرفہرست الشیخ عبداللہ غازی پوریؒ ہیں جو مدرسہ چشمہ رحمت کے صدر مدرس تھے۔آپ نے ان سے پانچ سال تک علم حاصل کیا ۔علوم عربیہ میں نحو،صرف،معانی اورادب حاصل کیے۔فنون عقلیہ میں منطق ،فلسفہ ،ہیئت ،ہندسہ اورحساب اور علوم دینیہ شرعیہ میں حدیث ،تفسیر،اصول حدیث اور اصول تفسیر حاصل کیے ۔اس کے بعد آپ الشیخ نذیر حسین الدھلویؒ کے ہاں پہنچے اوران سے الجامع الصحیح للبخاری،الجامع الصحیح للمسلم،الجامع للترمذی،السنن لابی داود،السنن للنسائی کے اواخر،السنن لابن ماجہ کے اوائل ،مشکوٰۃ المصابیح ،بلوغ المرام،تفسیر جلالین ،تفسیر البیضاوی،ھدایۃ کے اوائل اور شرح نخبۃ الفکر کا اکثر حصہ پڑھا۔ اس کے بعدآپ قاضی حسین بن محسن الانصاری الخزرجی الیمانی کے پاس حاضر ہوئےاوران کے پاس صحاح ستہ اوردیگر کتب حدیث مثلا موطا امام مالک ،مسند الدارمی،مسند امام الشافعی،مسند امام احمد بن حنبل،الادب المفرد للبخاری،معجم الطبرانی الصغیر،اورسنن دارقطنی پڑھیں۔ شیخؒ نے آپ کو ان کتب کی اسناد کے ساتھ روایت کرنے کی اجازت دی جو ان کے مولفین تک متصل تھیں۔اس کے علاوہ تمام کتب حدیث کی روایت کی اجازت دی ۔یہ ایسا فضل عظیم ہے جس تک بہت کم لوگ پہنچ سکے ہیں ۔آپ نے بڑے بڑے شیوخ سے تلمذ کیا جس کا طبیعی نتیجہ نکلا کہ آپ نےتحصیل علم کے بعد اشاعت علم کی مسند سنبھالی اوراپنی عمر کا ایک تہائی حصہ تدریس وافادہ میں گزار دیا[6]۔

تدریس:

فراغت تعلیم کے بعد آپ نے اپنے وطن جاکر دارالتعلیم کے نام سے ایک دینی مدرسہ قائم کیا اوراس میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا۔اس کے بعد کئی سال تک مدرسہ بلرام پور (گونڈہ) میں تدریس کے بعد مدرسہ اللہ نگر (گونڈہ)میں کئی سال تک تدریس فرمائی۔پھر کچھ مدت تک مدرسہ سراج العلوم (کونڈوبونڈیھار)میں تدریس فرمائی ۔بعد ازاں اپنے استاذ حافظ عبد اللہ غازی پوری ؒکے حکم پر مدرسہ احمدیہ آرہ (مدراس)میں کئی سال تک تدریس فرمائی ۔پھر استاذہی کے حکم پر مدرسہ دارالقرآن والسنۃ کلکتہ گئے ۔یہاں کافی عرصہ تدریس کے بعد درس وتدریس کا سلسلہ ترک کرکے تصنیف وتالیف کی طرف متوجہ ہوئے [7]۔

تلامذہ:

شاگردوں کی ایک کثیر تعداد نے آپ سے علم حاصل کیا اورہر شہر میں اشاعت علم کے لیے پہنچے۔ ان شاگردوں میں الشیخ عبدالسلام المبارکپوری ( مصنف سیرۃ البخاری)،ان کے بیٹے عبیداللہ الرحمانی (استاذ الحدیث مدرسہ الرحمانیہ دہلی)،الاستاذمحمد بن عبدالقادرالھلالی المراکشی،الشیخ عبداللہ النجدی القویعی المصری،رقیہ بنت العلامۃالاستاذ خلیل بن محمد بن حسین بن محسن الانصاریؒ،مولانا الشیخ عبدالجبار الکھنڈیلوی الجیفوریؒ،الشیخ محمداسحاق الآرویؒ صدر مدرس مدرسہ احمدیہ السلفیہ بدربھنکہ ،فاضل ادیب الشیخ عبدا لرحمن النگرنھسوی، استاذ العربیہ مدرسہ الرحمانیہ اوردیگر لاتعداد شاگر دشامل ہیں [8]

مرض اور وفات:

آخر عمر میں شیخؒ کی بینائی چلی گئی ۔ آپ نے ثواب واجر کے لیے صبرکیا ۔آپ کے اہل خانہ نے علاج کا اصرار کیا لیکن آپ نے توکل کرتے ہوئے آخرت میں انعامات خداوندی کے حصول کو ترجیح دی ۔اس کے بعد آپ نے تحفۃ الاحوذی کی طبع کی تکمیل کے لیے دہلی کا سفر کیا ۔وہاں آپ کے دوستوں نے آنکھوں کے علاج پر اصرار کیا ۔کچھ عرصہ کے علاج سے آپ کی بینائی درست ہو گئی ۔لیکن مشیت ایزدی کے مطابق آپ ضعف قلب کے عارضہ میں مبتلا ہوگئے جو روز بروز بڑھتا گیا یہاں تک1352 ھ کا آدھا شعبان اور اکثر رمضان اس عارضہ میں گزر گیا تو آپ کو بخار ہوگیایہاں تک کہ تقدیر کا فیصلہ قریب آن پہنچا اورآپ16 شوال 1353ھ رات کی آخری تہائی میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔آپ کا جنازہ مبارک پور کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا [9]

تصانیف :

شیخؒ نے کئی مفید تصانیف کى ہیں۔ان میں سے بعض سنت نبوی کے دفاع پر مشتمل ہیں جبکہ بعض ایسے مسائل پر ہیں جو ائمہ اربعہؒ کے درمیان مختلف فیہ ہیں ۔ان کتب میں نادر بحثیں موجود ہیں اورہر کتاب علوم ومعارف کا خزانہ ہے۔ شیخؒ کی تصانیف درج ذیل ہیں ۔

  1. ابکارالمنن فی تنقید آثار السنن:۔ یہ کتاب آثار السنن للشیخ ظہیر احسن النیموی پر نقد ہے ۔ابکار المنن سنن نبویہ کی حفاظت کی خاطر لکھی گئی ہے ۔اس کتاب کے قاری کو بے اختیار اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ شیخ ؒعلوم الحدیث میں بحر بے کنار تھے ،نقد رجال میں ذہبی زماں،علل الحدیث کی معرفت میں بخاری وقت اور بحث میں وقت کے ابن تیمیہ تھے[10] اس کتاب کو شیخؒ نے فقہی طرز کے ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ شیخؒ پہلے علامہ نیموی کا قول ذکر کرتے ہیں اور پھر "قلت" سے اس کا جواب دیتے ہیں ۔
  1. تحقيق الکلام فی وجوب القراء ۃ خلف الامام:۔ یہ کتاب اردو زبان میں دوبڑی جلدوں پر مشتمل ہے ۔ شیخؒ نے پہلی جلد میں قائلین وجوب قراء ۃ خلف الامام کے دلائل ذکر کیے ہیں اوردوسری جلد میں مخالفین کے دلائل ذکر کیے ہیں اوران پر رد کیا ہے ۔
  2. خیر الماعون فی منع الفرار من الطاعون: یہ تصنیف اردوزبان میں ہے اوردو متوسط جلدوں پر مشتمل ہے اس میں ایک مقدمہ ،دو ابواب اورایک خاتمہ ہے ۔مقدمہ میں طاعون کے بارے میں چند تنقیح طلب امور کی وضاحت ہے ۔پہلی جلد میں آیات قرآنیہ واحادیث صحیحہ اورآثارصحابہ سے ثابت کیا گیا ہے کہ طاعون سے بھاگنا نا جائز ہے اور دوسری جلد میں طاعون سے بھاگنے والوں کے تمام اعذار اوران کے حیلوں بہانوں کا شافی جواب دیا گیا ہے ۔خاتمہ میں رفع طاعون کے لیے قنوت پڑھنے اور دعا کرنے اورنہ کرنے میں مجوزین ومانعین کے دلائل ذکر فرمائے ہیں ۔
  3. المقالة الحسنی فی سنية المصافحة باليد اليمنی: یہ رسالہ ایک مقدمہ اور دو ابواب پر مشتمل ہے ۔پہلے باب میں ایک ہاتھ سے مصافحہ کے مسنون ہونے کے ثبوت میں 13 روایات ذکر کی ہیں اور 8علماء اور فقہاء کے اقوال ذکر کیے ہیں جبکہ دوسرے باب میں دوہاتھوں سے مصافحہ کرنے والوں کی 8 دلیلوں کا جواب دیا گیا ہے ۔
  4. کتاب الجنائز:۔یہ کتاب ایک مقدمہ اور دس ابواب پر مشتمل ہے ۔جومحتضر،غسل میت،کفن،جنازہ کے ساتھ چلنے،نماز جنازہ،قبرودفن،اہل میت کو کھانا بھیجنے،تعزیت،زیارت قبوراورثواب رسانی کے بیان میں ہیں ۔
  5. نورالابصار فی اقامة الجمعة فی القری:۔یہ رسالہ جامع الآثار مصنفہ مولوی ظہیر احسنؒ کا جواب ہے اوردو ابواب پر مشتمل ہے ۔پہلے باب میں ظہیر احسن ؒکے ادلۃ ثمانیۃ کا جواب ہے اور دوسرے باب میں جمعہ فی القری کے دلائل پر علامہ نیموی ؒکے اعتراضات کا جواب ہے ۔
  6. تنوير الابصار فی تأييد نور الابصار:۔ اس رسالہ میں بھی علامہ نیموی کے رسالہ جامع الآثار کا جواب دیا گیا ہے۔
  7. ضياء الابصارفی رد تبصرۃ الانظار: اس رسالہ میں جمعہ فی القری پر علامہ نیموی ؒکے رسالہ تبصرۃ الانظار فی رد تنویر الابصارکا رد کیا گیا ہے ۔
  8. القول السديد فيما يتعلق بتکبيرات العيد:۔یہ رسالہ ایک مقدمہ، دوابواب اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے۔مقدمہ میں 12 سوال ذکر کیے ہیں اوران کا جواب دیا ہے ۔پہلے باب میں بارہ تکبیرات عیدین کے ثبوت میں 10 روایات ذکر کرتے ہیں ۔اوران روایات پر وارد ہونے والے سوالوں کا جواب دیتے ہیں۔ دوسرے باب میں چھ تکبیرات عیدین کے بارے میں سوالات کا جواب دیے ہیں اورخاتمہ میں نماز عیدین کے متفرق مسائل سوالا ًجوابا ًذکر فرماتے ہیں ۔
  9. اعلام اهل الزمن من تبصرہ آثار السنن:۔ یہ آثار السنن کے جواب میں ایک اشتہار ہے جو بوجہ طوالت رسالہ کی شکل میں شائع ہو ا۔ اس میں آثار السنن کے مولف علامہ نیموی ؒکی اغلاط کا جواب دیا ہے جو انہوں نے قصدا کی ہیں۔
  10. تنقيد الدرة الغرة:۔ علامہ نیموی ؒنے نماز میں ہاتھ باندھنے کے حوالے سے ”الدرۃ الغرۃ فی وضع الیدین علی الصدر وتحت السرۃ “ کے نام سے ایک رسالہ لکھا ۔شیخ مبارک پوریؒ اسی کو ہدف تنقید بنایا ہے اورنماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنے کو ہی مسلک راجح قرار دیاہے ۔یہ رسالہ اردو زبان میں ہے لیکن نامکمل ہے[11]۔
  11. الحق المبين فی سنية المصافحة باليمين:۔ یہ9 صفحات پر مشتمل ایک غیر مطبوع رسالہ ہے ۔یہ” المجانسة فی المصافحه “میں اہل حدیث سے 39 سوالات کیے گئے ہیں کا جواب ہے [12]۔
  12. الکلمة الحسنی فی تائيد المقالة الحسنی:۔ یہ نامکمل مخطوط ہے [13]۔
  13. رساله فی رکعة الوتر:۔ یہ اردو زبان میں مسئلہ وتر پر ایک مخطوط ہے جو ”کشف الستر عن جلستی الوتر “ کا رد ہے اور74 صفحات پر مشتمل ہے ۔
  14. الدرر المکنون فی تأييد خير الماعون :۔ یہ رسالہ خیرالماعون کی تائید ہے [14]۔
  15. الوشاح الابريزی فی حکم الدواء الانکليزی:۔یہ رسالہ اردو زبان میں ہے اورانگریزی دواوں کے استعمال کے متعلق ہے[15]۔
  16. ارشاد البهائم الی منع خصاء البهائم:۔یہ رسالہ جانوروں کو خصی نہ کرنے کے متعلق ہے ۔
  17. رسالہ فی رفع الیدین فی الدعا بعد صلوۃ المکتوبۃ:۔یہ دعا بعد صلوۃ مکتوبۃ پر ایک نامکمل رسالہ ہے[16]۔
  18. رساله فی مسائل العشر:۔یہ مسائل عشر پر ایک نامکمل رسالہ ہے [17]۔
  19. تنقيد الجوهر النقی :۔یہ رسالہ علامہ ماردینیؒ کا رد ہے ۔اس رسالہ کا ذکر شیخ ؒنے القول السدید میں کیا ہے [18]یہ نامکمل رسالہ ہے [19]۔
  20. شرح موطا:۔ شیخؒ نے موطا امام مالک کی شرح لکھنے کا ارادہ کیا مگر زندگی نے ان کے ساتھ وفا نہ کی اور یہ کام ابتدائی مراحل میں ہی رہا [20]۔
  21. مقدمه تحفة الاحوذی:۔ شیخؒ آخری عمر میں مکفوف البصر ہو گئے جس کی وجہ سے مقدمہ کے بعض مباحث مکمل نہ کر سکے تاآنکہ آپ نے سفر آخرت اختیار کیا اس کے بعد آپ کے تلمیذ رشید مولانا عبد الصمد حسین آبادی نے نا مکمل مباحث کی تکمیل کیں لیکن یہ پتہ نہیں چل سکا کہ شاگرد کا کام کہاں سے شروع ہے۔ مقدمہ تحفۃ الاحوذی 1358ھ/1939 ء میں برقی پریس دہلی سے شائع ہوا [21]۔

مقدمہ ایک جلد پر مشتمل ہے ۔مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری ؒ کی اس تصنیف کو علوم ومعارف کا خزانہ کہا جائے تویہ بے جا نہ ہوگا۔یہ مقدمہ دو ابواب پر مشتمل ہے ۔پہلے باب میں 41 فصول ہیں ۔پہلی فصل میں مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری ؒنے علم حدیث کی تعریف ،اس کا موضوع اور علم حدیث کی کتب پر بحث کی ہے ۔دوسری فصل میں علم حدیث اور اہل حدیث کی فضیلت کا بیان ہے ۔تیسری فصل میں تدوین حدیث کے متعلقات ہیں ۔چوتھی فصل میں کتابت حدیث پر بحث کی ہے اور کتابت حدیث کی تاریخ بیان کی ہے۔ پانچویں فصل میں احادیث نبویہ کی حجیت بیان کی ہے اور حجیت حدیث پر آیات قرآنیہ سے استدلال کیا ہے۔ چھٹی فصل میں اس کا بیان ہے کہ اسلام میں اکثر اہل علم عجمی ہیں جن میں صرف ونحو کے علماء ،مفسرین ،اصول فقہ کے تمام علماء عجمی تھے ۔ساتویں فصل ہندوستان میں علم حدیث کی اشاعت کے بارے میں ہے ۔جس میں مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری ؒنے شاہ ولی اللہؒ کے بعد اپنے دورتک کے محدثین کا مختصرا تذکرہ کیا ہے۔آٹھویں فصل میں اس کا بیان ہے کہ محدثین کا منہج مختلف اس وجہ سے ہے کہ ان کی اغراض مختلف تھیں۔مثلا کسی کی احادیث کی ترتیب صحابہ کی ترتیب پر ہے اور کسی کتاب میں ترتیب فقہی ہے ۔نویں فصل میں کتب حدیث کے طبقات کا بیان ہے جس میں شاہ ولی اللہؒ کی حجۃ اللہ البالغہ کے حوالہ سے پانچ طبقات کا تذکرہ ہے اور شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کا رسالہ العجالة النافعة مىںچار طبقات کا تذکرہ ہے ۔دسویں فصل میں علم حدیث میں تصنیف شدہ کتب کی انواع کا ذکر ہے جس میں جوامع، مسانيد، معاجم، اجزاء، اربعينات لاحاديث، مستدرکات،کتب العلل،کتب الاطراف شامل ہیں۔گیارھویں فصل میں جوامع کا ذکر ہے۔ بارہوىں فصل میں کتب السنن کا بیان ہے ۔ تیرہویں فصل میں مسانید کا بیان ہے ۔چودہوىں فصل میں مستخرجات اور مستدرکات کا تذکرہ ہے۔ پندرہوىں فصل میں مسلسلات کا بیان ہے ۔ سولہویں فصل میں معاجم کا بیان ہے ۔سترہوىں فصل میں کتب امالی کا بیان ہے ۔اٹھارویں فصل میں الاجزاء کا بیان ہے ۔انیسویں فصل میں اربعینات اور بیسویں فصل میں صحاح ستہ اور ان کے مولفین کے حالات زندگی ہیں ۔اکیسویں فصل میں اس کا بیان ہے کہ تمام احادیث صحیحہ صحت میں برابر کا درجہ نہیں رکھتیں ۔بائیسویں فصل ان کتب صحاح کے بارے میں ہے جو صحاح ستہ میں شامل نہیں جیسے صحیح ابن خزیمہ،صحیح ابن حبان،صحیح ابو عوانہ وغیرہ۔تیئیسویں فصل ائمہ اربعہ کے حالات اوران کی طرف منسوب کتب کے بارے میں ہے جیسے مسند امام ابی حنیفہ ،موطا امام مالک اوراس کی شروحات ،مسند امام شافعی ،مسند احمدبن حنبل۔چوبیسویں فصل میں ائمہ حنفیہ کی کتب حدیث کے بارے میں ہے جیسے کتاب الآثار،شرح معانی الآثار۔پچیسویں فصل صحاح ستہ کے اسماء الرجال کے بارے میں ہے ۔چھبیسویں فصل جرح وتعدیل و اسماء الرجال کے ائمہ اوران کتب کےمصنفین کے بارے میں ہے جن کا صاحب کشف الظنون نے تذکرہ کیا ہے ۔ستائیسویں فصل علم اصول حدیث کے ذکر میں ہےجس میں شیخؒ نے اصول حدیث کی کتب کا تذکرہ کیا ہے اوران کے مولفین کا تعارف بھی کرایا ہے جن میں ابو نعیم اصفہانی، ابن الصلاح،قاضی عیاض ،خطیب بغدادی شامل ہیں ۔اٹھائیسویں کتب غریب الحدیث کے بارے میں ہے۔ انتیسویں فصل میں مشہور شروح الحدیث کا بیان ہے جن میں شروح البخاری ،شروح المسلم،شروح موطا امام مالک،شروح المصابیح شامل ہیں ۔تیسویں فصل ان کتب حدیث کے بارے میں ہے جو احکام پر مشتمل ہیں جن میں بلوغ المرام،البدر التمام،سبل السلام،فتح العلام ،مسک الختام،منتقی الاخبار،الاحکام الکبری،الاحکام الوسطی، الاحکام الصغری اورالمنتقی فی الاحکام وغیرہ شامل ہیں ۔اکتیسویں فصل مختصرات فی الحدیث کی کتب کے بارے میں ہےان میں مشارق الانوار النبویہ اوراس کی شروح شامل ہیں ۔بتیسویں فصل کتب تخریج الحدیث کے بارے میں ہے ان میں نصب الرایۃ،تخریج احادیث الھدایۃ اورتخریج احادیث احیاء العلوم،تلخیص الحبیر،تخریج الاربعین النوویۃ بالاسانید العالیۃ ،نشر العبیر للسیوطی شامل ہیں۔تیتیسویں فصل ان کتب حدیث پر مشتمل ہے جو احادیث موضوعہ پر لکھی گئی ہیں جن میں اللالی المصنوعہ للسیوطی،کتاب الموضوعات الکبری،تذکرۃ الموضوعات،،تذکرہ فی الاحادیث الموضوعۃ شامل ہیں ۔چونتیسویں فصل کتب احادیث الناسخہ والمنسوخہ کے بارے میں ہےان میں شیخؒ نے اخبار اھل الرسوخ بمقدار الناسخ والمنسوخ،عدۃ المنسوخ لابن الجوزی،افادۃ الشیوخ بمقدار الناسخ و المنسوخ لصدیق بن حسن قنوجی اورکتاب الاعتبار للحازمی کا تعارف کرایا ہے۔ پینتیسویں فصل ان احادیث کی تلفیق وتوفیق کے بارے میں ہے جن میں بظاہر تناقض ہے ۔چھتیسویں فصل ان کتب کے بارے میں ہے جو انساب ورجال اہل حدیث پر ہیں ۔سینتیسویں فصل ان کتب کے تذکرہ میں ہے جو وفیات محدثین پر لکھی گئِ ہیں ۔اٹھتیسویں فصل ان کتب کے بارے میں ہے جو اسماء صحابہ کے بارے میں لکھی گئی ہیں ۔انتالیسویں فصل ان کتب کے بارے میں ہے جو المختلف والموتلف ،المتفق والمفترق، المشتبہ من الاسماء والالقاب والانساب وغیرھا پر لکھی گئی ہیں جن میں سے شیخؒ نے کتاب الموتلف والمختلف لابن الترکمانی ، کتاب الموتلف والمختلف للحضرمی ، کتاب الموتلف والمختلف للعسکری ، کتاب الموتلف والمختلف للمعاوی الابیوروی،المتفق والمفترق للخطیب اورتلخیص المتشابہ کا تعارف کرایا ہے ۔چالیسویں فصل احناف وغیرہ کے احادیث صحیحہ کو رد کرنے کے اصول اوران پر کلام کے بارے میں ہے ۔اکتالیسویں فصل ان کتب حدیث میں جو قلمی اورنادر ہیں اس میں شیخؒ نے 36 کتب کا تذکرہ کیا ہے صحیح ابن خزیمہ ،صحیح ابن حبان اورکتاب العلل شامل ہیں ۔

دوسرا باب 17 فصول پر مشتمل ہے۔پہلی فصل میں اما م ترمذی کے حالات ہیں اورترمذی کی نسبت سے مشہور تین ائمہ حدیث کا تعارف کرایا ہے اوریہ بھی ذکر کیا ہے کہ امام ترمذی ؒ جلیل القدر محدث ہونے کے باوجود احادیث کی تصحیح و تحسین میں متساہل تھے ۔دوسری فصل جامع الترمذی کے فضائل ومحاسن پر ہے اس فصل میں شیخؒ نے سنن الترمذی کے محاسن وفضائل پر محدثین کے اقوال ذکر کیے ہیں۔تیسری فصل جامع الترمذی کے 6رواۃ کے بارے میں ہے ۔چوتھی فصل ترمذی کے شرط کے بیان میں ہے۔پانچویں فصل جامع الترمذی کے رتبہ کے بیان میں ہےکہ صحاح ستہ میں اس کا کیا مقام ہے شیخؒ کے ہاں جامع الترمذی کا مقام سنن ابی داود اور نسائی سے بلند ہے ۔چھٹی فصل اس بیان میں ہے کہ ترمذی میں کوئی حدیث موضوع نہیں ہے(یہ شیخؒ کی تحقیق ہے ) ۔ساتویں فصل اس بیان میں ہے کہ جامع الترمذی کی تمام احادیث معمول بہا ہیں یا ان میں سے بعض غیر معمول بہا بھی ہیں( شیخؒ کی تحقیق کے مطابق جامع الترمذی کی تمام احادیث معمول بہا ہیں ) آٹھویں فصل کتاب سنن الترمذی کے نام کے بیان میں ہےکہ اس کا نام جامع الترمذی زیادہ مشہور ہے اورحاکم اور خطیب نے اس کو صحیح بھی کہا ہے ۔نویں فصل جامع الترمذی کی شروحات اوران کے مصنفین کے تراجم کے بارے میں ہے ۔ ان میں شیخؒ نے عارضۃ الاحوذی ،شرح ابن سید الناس،شرح زین الدین العراقی ،شرح حافظ ابن ملقن اور عرف الشذی شامل ہیں ۔دسویں فصل امام ترمذی ؒ کی اپنی جامع میں اختیار کردہ بعض عادات کے بیان میں ہے جن میں ترجمۃ الباب کا قائم نہ کرنا ،اس کے تحت ایک یا دو احادیث ذکر کرنا ،”فی الباب “ میں باقی روایات کے رواۃ میں سے صحابہ کا نام ذکر کرنااور تصحیح،تحسین اورغرابت وغیرہ کی اصطلاحات شامل ہیں۔ گیارھویں فصل ان بعض الفاظ کی شرح کے بارے میں ہے جو امام ترمذی ؒ نےتصحیح وتضعیف احادیث،جرح وتعدیل اور بیان مذہب کے بارے میں استعمال کیے ہیں جیسےحدیث حسن صحیح ،حدیث جید، ذاھب الحدیث،مقارب الحدیث ،اسنادہ لیس بذاک وغیرہ۔بارھویں فصل ان فقہاء حدیث کے حالات میں ہے جن کا امام ترمذی ؒ نے ذکر کیا ہے اوران نقاد ائمہ حدیث کا تذکرہ کیا ہے جن کا نام ترمذی نے جرح وتعدیل اورعلل الحدیث میں ذکر کیا ہےان میں امام احمدبن حنبل،ابراھیم نخعی ،اسحاق بن راھویہ اورایوب سختیانی وغیرہ شامل ہیں ۔تیرھویں فصل میں ان ائمہ تفسیر کے حالات ہیں جو جامع الترمذی میں مذکور ہیں یہ مجاہد، قتادہ،عکرمہ، ضحاک ، سعید بن جبیر،طاوس ،عطاء حسن بصری،محمد بن کعب قرظی،رفیع بن مھران ،زید بن اسلم اورمرۃ الطیب ہیں ۔چودھویں فصل میں بعض بڑے اور مشہور ائمہ لغت کےحا لات مذکور ہیں جن میں اصمعی ،قاسم بن سلام ،معمر بن المثنی ،الصنعانى ،ابن قتیبہ ،فارابی اور ابن سیدہ شامل ہیں ۔پندرھویں فصل میں ان مکرر احادیث وابواب کا تذکرہ ہے جو جامع الترمذی میں موجود ہیں۔سولہویں فصل میں جامع الترمذی کے رواۃ کا باعتبار حروف تہجی ذکر ہے ۔سترھویں فصل میں ان بعض الفاظ کی توضیح وتشریح ہے جو مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری ؒنے اپنی شرح تحفۃ الاحوذی میں استعمال کیے ہیں ۔آخر میں خاتمۃ المقدمۃ کے عنوان کے تحت سنن الترمذی کے نسخہ احمدیہ میں واقع اغلاط کی تصحیح فرمائی ہےہر مقام پر فائدہ کا عنوان قائم کیا ہے یہ کل 22 مقامات ہیں ۔

مقدمہ کے آخر میں ترجمۃ المولف کےعنوان سے مولانا عبد السمیع مبارک پوری نے مولانا عبدالرحمن مبارک پوری ؒ کے حالات ،تالیفات ،اساتذہ وتلامذہ کا ذکر ہے اوریہ 14 صفحات پر مشتمل ہے ۔یہ دار الکتاب العربی بیروت لبنان کے شائع کردہ مقدمۃ تحفۃ الاحوذی کے آخر میں ہے ۔

  1. تحفۃ الاحوذی:۔تحفۃ الاحوذی کی آخری دو جلدیں آپ کے شاگردوں عبید اللہ مبارک پوریؒ اور عبد الصمد مبارک پوری ؒنے تصنیف کی ہیں ۔شیخ مبارکپوریؒ نے اپنی شرح میں جو منہج اختیار کیا ہے وہ درج ذیل نکات پر مشتمل ہے
  2. پہلے سنن الترمذی کی روایت ذکر کرتے ہیں اورپھر اس کی شرح کرتے ہیں۔اس سلسلے میں پوری شرح کا کوئی بھی مقام دیکھا جا سکتا ہے ۔
  3. جن الفاظ حدیث یا اسماء پر اعراب کی ضرورت ہوتی ہے ان کا اعراب ضبط کرتے ہیں جیسےحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، وحَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَلَمَةَ مِنْ آلِ ابْنِ الأَزْرَقِ، أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ أَبِي بُرْدَةَ وَهُوَ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: سَأَلَ رَجُلٌ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّا نَرْكَبُ البَحْرَ، وَنَحْمِلُ مَعَنَا القَلِيلَ مِنَ الْمَاءِ، فَإِنْ تَوَضَّأْنَا بِهِ عَطِشْنَا، أَفَنَتَوَضَّأُ مِنَ الْبَحْرِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ، الحِلُّ مَيْتَتُهُ[22]۔ اب اس روایت کی سند میں موجود راوی صفوان بن سلیم میں سلیم کا اعراب ضبط کرتے ہوئے فرماتے ہیں بِضَمِّ السِّيْنِ وَفَتْحِ اللَّامِ اور الطھور کا اعراب بفتح الطاء کے ساتھ ضبط کرتے ہیں[23]۔
  4. سند میں مذکور رواۃ کا تعارف کراتے ہیں اورعلماء اسماء الرجال کا رواۃ پر حکم ذکر کرتے ہیں مثلا سنن الترمذی کی پہلی روایت میں راوی قتیبہ،ابوعوانہ اور سماک کا یوں تعارف کراتے ہیں کہ قتیبہ بن سعید الثقفی ان کا مولی ابور جاء ہے اور قتیبہ خراسان کے محدث ہیں جو149 ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے مالک،لیث،ابن لھیعہ،شریک،ان کے طبقہ سے سماع کیا ہے اوران سے ابن ماجہ کے سوا ایک جماعت نے سماع کیا ہے ۔آپ ثقہ،عالم ،صاحب حدیث اور حدیث کی خاطر سفر کرنے والے تھے۔ان کو ابن معین اورنسائی نے ثقہ قرار دیا ہے اوران کی وفات 240ھ میں ہوئی۔

اسی طرح ابوعوانہ کا تعارف کراتے ہیں کہ ان کا نام وضاح بن عبداللہ الیشکری الواسطی البزار ہے آپ نے قتادہ ،ابن المنکدر اورکثیر محدثین سے سماع کیا ہے اورآپ سےقتیبہ،مسدداورخلق کثیر نے روایت کیا ہے آپ ثقہ اور ثبت ہیں اورآپ کی وفات176 ھ میں ہوئی۔

سماک بن حرب بن اوس بن خالد الذھلی البکری الکوفی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ صدوق ہیں لیکن خاص طور پر ان کی عکرمہ سے روایت مضطرب ہے اور ان کا آخر عمر میں حافظہ متغیر ہو گیا تھا اور بسااوقات ان کو تلقین کی جاتی تھی [24]۔

  1. شیخؒ اپنی کتاب میں حدیث کے قابل وضاحت الفاظ کی وضاحت کرتے ہیں مثلا سنن الترمذی کی روایت میں موجود ایک جملہ کی یوں وضاحت فرماتے ہیں فَلَا تَخْفِرُوا اللَّهَ فِي ذِمَّتِهِ قَالَ فِي النِّهَايَةِ خَفَرْتَ الرَّجُلَ أَجَرْتَهُ وَحَفِظْتَهُ وَأَخْفَرْتَ الرَّجُلَ إِذَا نَقَضْتَ عَهْدَهُ وَذِمَامَهُ وَالْهَمْزَةُ فِيهِ لِلْإِزَالَةِ أَيْ أَزَلْتَ خَفَارَتَهُ كَأَشْكَيْتُهُ إِذَا أَزَلْت [25]۔
  2. حدیث کے شواہد ذکر کرتے ہیں اور ترمذی کے”فی الباب “میں موجود اسماء صحابہ کی روایات کے الفاظ ذکر کرتے ہیں اوران روایات کے رواۃ پر بھی فن اسماء الرجال کےعلماء کے اقوال ذکر کرتے ہیں [26]۔
  3. شیخؒ احادیث کی تشریح وتوضیح میں وہ اقوال ذکر کرتے ہیں جو فقہاء محدثین اورسلف صالح کے ہاں معتبر ہوں احتمالی اور ناپسندیدہ اقوال کے ذکر سے گریز کیا ہے [27]۔
  4. امام ترمذی ؒ کی ”فی الباب “ کی روایات کے علاوہ اگر کوئی روایت حدیث الباب کے موافق ہو اس کو بھی ذکر کرتے ہیں [28]۔
  5. امام ترمذی ؒ نے حدیث باب سے ملتی جلتی روایات کو ”فی الباب “میں ذکر کیا ہے ایسی روایات جن کو ”فی الباب “ کے تحت درج کیا جا سکتا ہو ان روایات پر اگر مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری ؒمطلع ہوں تو اس کو ”فی الباب “ کے تحت یوں درج فرماتے ہیں وفی الباب عن فلان وفلان ایضا اور اس کے بعد اس کی تخریج بھی کرتے ہیں [29]۔
  6. علماء کے مذاہب کے بیان میں امام ترمذی ؒ چند فقہاء پر اکتفا کرتے ہیں ۔مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری ؒاختلاف کے بیان میں وسعت کرتے ہوئے ان علماء کے اقوال کو بھی ذکر کرتے ہیں جن کا امام ترمذی ؒ نے ذکر نہیں کیا [30]۔
  7. امام ترمذی ؒ کا تصحیح و تحسین حدیث میں تساہل مشہور ہے اس لیے مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری ؒ امام ترمذی ؒ کی تصحیح وتحسین کے عقب میں امام ترمذی ؒ کے علاوہ کئی اہل حدیث کی تصحیح وتحسین ذکر کرتے ہیں تاکہ اطمینان قلب وانشراح صدر ہو [31]۔
  8. مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری ؒنے ایسے مقامات کی نشاندہی کی ہے جہاں امام ترمذی ؒ سے احادیث کی تصحیح وتحسین میں تساہل وتسامح ہوا ہے ۔
  9. امام ترمذی ؒ اکثر مقامات پر اہل علم کا اختلاف تو ذکر فرماتے ہیں لیکن ان میں سے کسی کو راجح قرار نہیں دیتے۔ ایسے مقامات پر مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری ؒراجح مرجوح کو واضح کرتے ہیں [32]۔
  10. امام ترمذی ؒ فقہاء کے اقوال ومذاہب ذکر کرتے ہیں لیکن ان میں سے اکثر کے دلائل نہیں دیتے ۔ مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری ؒان مذاہب کے دلائل ذکر کرتے ہیں جن کو امام ترمذی ؒ نے بیان نہیں کیا ۔پھر احادیث وآثار کی روشنی میں جو قول راجح ہو اس کوترجیح اورمرجوح قول کی تردید کرتے ہیں اور ترجیح اقوال میں انتہاء درجہ کی احتیاط برتتے ہیں [33]۔
  11. امام ترمذی ؒ علماء کے مذاہب کے بیان میں قوم کا لفظ استعمال کرتے ہیں مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری ؒوضاحت کرتے ہیں کہ لفظ قوم سے امام ترمذی ؒ کی کیا مرا د ہے [34]۔
  12. شیخؒ کے مطابق علماء کے مذہب کو نقل کرنے میں امام ترمذی ؒ سے تساھل ہوا ہے ۔مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری ؒنے ان مقامات کو واضح کیا ہے اور امام ترمذی ؒ کے تساھل پر تنبیہ کی ہے[35]۔
  13. مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری ؒپہلے امام ترمذی ؒ کی تصحیح وتحسین ذکر کرتے ہیں پھر تحقیق کے بعد امام ترمذی ؒ کی موافقت یا مخالفت کرتے ہیں [36]
  14. حدیث کی شرح اور اس کے متعلقات کو اپنے قول”قولہ کذا“کے ساتھ کرتے ہیں ۔
  15. علماء کے درمیان مختلف فیہ مسائل میں اختلاف کو ذکر کرتے ہیں اوراگر آپ کا کسی ایک جانب میلان ہو تو اس کو اپنے قول”والظاھر کذا“یا ”یوید ھذا القول کذا“سے ذکر کرتے ہیں ۔ایسے اقوال جن کو صحیح نہیں سمجھتے ان کو صیغہ تضعیف”وقیل کذا“سے ذکر کرتے ہیں یا پھر اس ضعیف قول کا آخر میں ذکر کرتے ہیں [37]مثلاإِنَّ الصَّدَقَةَ لاَ تَحِلُّ لَنَا، وَإِنَّ مَوَالِيَ القَوْمِ مِنْ أَنْفُسِهِمْ[38]اس روایت کے بارے فرماتے ہیں کہ یہ نبی ﷺ ، آپؐ کی آل اورآل بنی ہاشم کے موالی پر صدقہ کی حرمت پر دلالت کرتی ہے اگرچہ یہ مزدوری کے عوض لیا جائے۔حافظ ابن حجرؒ فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ امام احمدؒ ،امام ابوحنیفہؒ اوربعض مالکیہ جیسے ابن ماجشونؒ کا یہی قول ہے ۔جبکہ شافعیہ کے نزدیک یہ صحیح ہے اورجمہور کہتے ہیں کہ ان کے لیے جائز ہے کیونکہ وہ حقیقت میں ان میں سے نہیں ہیں اوراسی طرح ان کو خمس الخمس میں سے نہیں دیا جاتا۔ منشاء اختلاف یہ ہے کہ ان کا قول منهم يا من انفسهم یہ تحریم صدقہ میں مساوات کو شامل ہے یانہیں ۔جمہور کی حجت یہ ہے کہ یہ تمام احکام کو شامل نہیں ہے اس میں تحریم صدقہ کی کوئی دلیل نہیں ہے البتہ یہ سبب صدقہ پر وارد ہوئی ہے۔ان کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سبب خارج نہیں ہوگا اگرچہ ان کااس بات میں اختلاف ہے کہ اس كو صرف اسی کے ساتھ خاص کیا جائے گا یا نہیں ۔ (قلت)میں کہتا ہو ں کہ ظاہر وہ ہے جس کی طرف امام احمدؒ اور امام ابوحنیفہؒ وغیر ہ گئے ہیں واللہ تعالی اعلم [39]۔
  16. اسنادی ومتنی اشکالات کو حل کیا گیا ہے ۔
  17. علامہ نیمویؒ کی آثار السنن کی اس کتاب میں تردید کی گئی ہے ۔

تحفۃ الاحوذی میں شیخ مبارک پوریؒ کے مصادر:۔

شیخ مبارکپوری ؒ نے اپنی اس شرح میں سابقہ علماء کی کثیر مولفات سے استفادہ کیا ہے۔جن کا ہم مرحلہ وار تذکرہ کرتے ہیں ۔

مصادر کتب التفاسیر:

  1. تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر:۔ شیخ ؒنے بہت سے مقامات پر ابن کثیرؒ سے رجوع کیا ہے اور ان کے کلام سے استشھاد کیا ہے اور شیخؒ نے ان کے قول کو دوسرے مفسرین کے اقوال پر مقدم کیا ہے۔ایسے 57مقامات ہیں جہاں شیخؒ نے ابن کثیر کے قول کو ذکر کیاہےمثال کے طور پردرج ذیل آیت کی تفسیر میں ابن کثیرؒ کا قول یوں ذکر کرتے ہیں قوله (يوم ندعو كل أناس بإمامهم) قال الحافظ بن كَثِيرٍ فِي تَفْسِيرِهِ يُخْبِرُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى عَنْ يَوْمِ الْقِيَامَةِ أَنَّهُ يُحَاسِبُ كُلَّ أُمَّةٍ بِإِمَامِهِمْ وَاخْتَلَفُوا فِي ذَلِكَ فَقَالَ مُجَاهِدٌ وَقَتَادَةُ أَيْ نَبِيِّهِمْ اور پھر اس قول کو ترجیح دیتے ہوئے فرماتے ہیں قُلْتَ وَيُؤَيِّدُ الْقَوْلَ الْأَرْجَحَ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ هَذَا فَإِنَّهُ نَصٌّ صَرِيحٌ فِي أَنَّ الْمُرَادَ بِقَوْلِهِ بِإِمَامِهِمْ كِتَابُ أَعْمَالِهِمْ (فَيُعْطَى كِتَابَهُ) أَيْ كِتَابَ أَعْمَالِهِ (وَيُمَدُّ لَهُ فِي جِسْمِهِ) أَيْ يُوَسَّعُ لَهُ فِيهِ (اللَّهُمَّ أَخْزِهِ) بِفَتْحِ الْهَمْزَةِ مِنَ الْإِخْزَاءِ بِمَعْنَى الْإِذْلَالِ وَالْإِهَانَةِ[40]
  2. جامع البیان فی تفسیر آی القرآن للطبری :۔ شیخ ؒبعض مقامات پرطبری ؒکا قول ذکر کرتے ہیں اورایسے مقامات 111کے قریب ہیں اورکبھی طبری ؒکے قول کو ترجیح دیتے ہوئے اخیتار بن جریر،اختارہ ابن جریر، واختار ھذا ابن جریر،ھو اختیار بن جریر،کے الفاظ ذکر کرتے ہیں۔مثلا آیت وَأَذَانٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ [41]میں الحج الاکبر سے کون سا دن مراد ہے یوم النحر یا یوم عرفہ۔تو پہلے قول کے بارے میں فرماتے ہیں واختاره بن جرير وهو قول مالك والشافعي والجمهوراوردوسرے قول کے بارے میں فرماتے ہیں وَقال آخرون منهم عمروبن عباس وطاؤس إنه يوم عرفة[42] اورپھر ابن جریر کے قول کو ترجیح دیتے ہوئے فرماتے ہیں وَالْأَوَّلُ أَرْجَحُ۔
  3. تفسیر مفاتیح الغیب للرازی:۔ شیخ ؒنے امام رازی کاتفسیری قول 14مقامات پر ذکر کیا ہے اور کبھی امام رازیؒ کے قول کوترجیح بھی دیتے ہیں مثلاآیت جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا [43]کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس کا ظاہر آدم علیہ السلام کے شرک میں واقع ہونے میں صریح ہے حالانکہ انبیاء شرک سے معصوم ہیں توہرایک نے اس کی مختلف تاویلات کی ہیں حتی کہ مفسرین کی ایک جماعت نے تو اس واقعہ کا انکار کیا ہے جن میں امام رازیؒ بھی شامل ہیں پھر شیخ ؒفرماتے ہیں اقوی الاقوال اوراصح قول میرے نزدیک وہی ہے جس کو امام رازی ؒنے اختیار کیا ہے [44]
  4. تفسیر خازن :۔ شیخؒ نے 34مقامات پر خازن کے قول کو ذکر کیا ہے مثلاآیت”اقم الصلوة لذکری“میں لذکری کی تفسیر میں مختلف اقوال بیان کرنے کے بعد آخری قول ذکر کرتے ہیں: وَقِيْل معناه إذا تركت صلاة ثم ذكرتها فأقمها پھر فرماتے ہىںكذا في الخازن. [45]
  5. تفسیر بیضاوی :۔ شیخؒ نے اپنی شرح میں 16 مقامات پر علامہ بیضاوی کا قول ذکر کیا ہے ۔
  6. روح المعانی :۔ شیخؒ نے دو مقامات پر اس تفسیر کا حوالہ دیا ہے ۔

مصادر کتب الحدیث وشروح الحدیث:

  1. فتح الباری شرح صحیح البخاری:۔ شیخؒ نے تحفۃ الاحوذی میں 229مقامات پر حافظ ابن حجر عسقلانیؒ کا قول وحوالہ ذکر کیا ہے جن میں14مقامات مقدمہ فتح الباری کے ہیں ۔
  2. شرح البخاری للکرمانی:۔ شیخؒ نے تحفۃ الاحوذی میں 40مقامات پر علامہ کرمانیؒ کا قول ذکر کیا ۔
  3. شرح مشکوۃ المصابیح لملا علی قاری:۔ شیخؒ نے تحفۃ الاحوذی میں 495 مقامات پر مرقاۃ کا حوالہ دیا ہے ۔
  4. عارضۃ الاحوذی لابن العربی المالکی:۔ شیخؒ نے تحفۃ الاحوذی میں 206مقامات پرابن العربی کاقول ذکر کیا ہے اور عارضۃالاحوذی کا حوالہ 17 مقامات پر دیا ہے ۔
  5. ارشاد الساری للقسطلانی:۔ شیخؒ نے تحفۃ الاحوذی میں 29٠ مقامات پر قسطلانی کا قول ذکرکیا ہےلیکن عارضۃ الاحوذی کاصرف دو مقامات پر ذکر کیا ہے
  6. قوت المغتذی :۔ شیخؒ نے اپنی شر ح میں سنن الترمذی کی سیوطی کی شرح کا85مقامات پر حوالہ دیا ہے
  7. المسوی للشاہ ولی اللہ :۔ شیخؒ نے 3مقامات پر اس کتاب کا حوالہ دیا ہے
  8. حُجَّةِ اللَّهِ الْبَالِغَةِ:۔ کا شیخؒ نے 5 مقامات پر حوالہ دیا ہے
  9. بذل المجہود :۔ شیخؒ نے اپنی کتاب میں 9 مقامات پر اس شرح سے حوالہ لیا ہے ۔
  10. الطیب الشذی :۔ شیخؒ نے تحفۃ الاحوذی میں 3 مقامات پر اس شرح سے صاحب کتاب کا قول ذکر کیا ہے ۔
  11. شرح الترمذی لابی الطیب السندی:۔ شیخؒ نے 36 مقامات پر اس شرح سے صاحب کتاب کا قول ذکر کیا ہے۔
  12. اعلام الموقعین:۔ شیخؒ نے تحفۃ الاحوذی میں 15 مقامات پر اس کتاب سے علامہ ابن قیمؒ کا قول ذکر کیا ہے ۔
  13. غایۃ المقصودللعلامہ ابو الطیب:۔ شیخؒ نے اپنی کتاب میں 6 مقامات پر اس کتاب سے مصنف کا قول ذکر کیا ہے ،
  14. شرح الترمذی لابن سید الناس:۔ شیخؒ نے اپنی کتاب میں 38 مقامات پر ابن سید الناسؒ کا قول ان کی اس کتاب سے ذکر کیا ہے ۔
  15. شرح السنۃ للبغوی :۔ شیخؒ نے اپنی کتاب میں 100 مقامات پر علامہ بغویؒ کا اسی کتاب کے حوالہ سے قول ذکر کیا ہے ۔
  16. التلخیص الحبیر :۔ شیخؒ نے اپنی کتاب میں حافظ ابن حجرؒ کی اس کتاب کا 320 مقامات پر حوالہ دیا ہے۔
  17. کتاب الامام:۔ شیخؒ نے ابن دقیق العیدؒ کا 70 مقامات پر قول ذکر کیا ہے لیکن صرف ایک مقام پر اس کتاب کے حوالہ سے قول ذکر کیا ہے ۔
  18. الترغیب للمنذری :۔ شیخؒ نے تحفۃ الاحوذی میں 165 مقامات پر حافظ منذریؒ کے اس کتاب کے حوالہ سے قول ذکر کیاہے ۔
  19. الجوھرا لنقی :۔ شیخؒ نے اپنی کتاب مىں 8 مقامات پر ابن ترکمانیؒ کا قول ذکر کرے ہیں ۔
  20. شرح الموطا للزرقانی:۔ شیخؒ نے 20 مقامات پر زرقانیؒ کا قول ذکر کیا ہے اور ایک جگہ شرح موطا کے حوالہ سے علامہ زرقانیؒ کا قول ذکر کیا ہے ۔
  21. العرف الشذی :۔ شیخؒ نے صاحب عرف الشذی کا قول 42 مقامات پر ذکر کیا ہے ۔
  22. اشعۃ اللمعات للشیخ عبد الحق:۔ شیخؒ نے اس کتاب سے 92 مقامات پر مولانا عبدالحق ؒکے اقوال ذکر کیے ہیں ۔
  23. معالم السنن للخطابی :۔ شیخؒ نے خطابیؒ کا قول 300 مقامات پر ذکر کیا ہے ۔لیکن معالم السنن کے حوالہ سے 6 مقامات پر قول ذکر کیا ہے ۔
  24. کتاب الاعتبار للحازمی:۔ شیخؒ نے 50 مقامات پر حازمی کے قول کو ذکر کیا ہے جن میں سے 28 مقامات پر اسی کتاب کے حوالہ سے قول ہے ۔
  25. شرح بخاری لابن بطال:۔ شیخؒ نے 106 مقامات پر شرح صحیح البخاری لابن بطال کا حوالہ دیا ہے ۔
  26. الترغیب والترھیب للمنذری:۔ شیخؒ نے 290 مقامات پر علامہ منذریؒ کا قول نقل کیا ہے جن میں سے 100 مقامات پر الترغیب کا حوالہ دیا ہے
  27. شرح المشکاۃ للطیبی :۔ شیخؒ نے الطیبی ؒکے اقوال 747 مقامات پر ذکر کیے ہیں لیکن تحفۃ الاحوذی میں صرف ایک مقام پر شرح مشکاۃ کا حوالہ دیاہے ۔
  28. نصب الرایۃ:۔ شیخؒ نے اپنی شرح میں حافظ زیلعی ؒکے اقوال 159 مقامات پر ذکر کیے ہیں اور 119 مقامات پر نصب الرایۃ کا حوالہ دیا ہے ۔
  29. شرح مھذب للنووی :۔ شیخؒ نے علامہ نووی ؒکے 23 اقوال بحوالہ شرح مھذب ذکر کیے ہیں
  30. مجمع الزوائد للھیثمی :۔ شیخؒ نے 18 مقامات پر علامہ ھیثمی ؒکے اقوال بحوالہ مجمع الزوائد نقل کیے ہیں ۔
  31. صحیح ابن خزیمہ:۔ شیخؒ نے 45 مقامات پر ابن خزیمہؒ کا قول بحوالہ صحیح نقل کیا ہے ۔
  32. المنتقی لابن تیمیہ :۔ شیخؒ نے اپنی شرح میں 137 مقامات پر المنتقی کا حوالہ دیا ہے ۔
  33. فتح القدیر :۔ شیخؒ نے ابن ھمامؒ کی اس کتاب کا 16 مقامات پر حوالہ دیا ہے ۔
  34. شرح الآثار للطحاوی :۔ شیخؒ نے 32 مقامات پر علامہ طحاویؒ کا قول ذکر کیا ہے ۔
  35. شرح الترمذی للعراقی:۔ شیخؒ نے177 مقامات پر عراقی ؒکا قول ذکر کیا ہے جن میں سے 30 مقامات پر شرح الترمذی کا حوالہ دیا ہے
  36. احیاء العلوم للغزالی :۔ شیخؒ نے امام غزالی ؒکا11 مقامات پر قول ذکر کیا ہے اور ایک مقام پر احیاء العلوم کا حوالہ دیا ہے ۔
  37. الدرایۃ :۔ شیخؒ نے 47 مقامات پر حافظ ابن حجرؒ کا قول ذکر کیاہے اور 66 مقامات پر الدرایۃ کا حوالہ دیا ہے

مصادرکتب علوم الحدیث والرجال:

  1.  تدریب الراوی للسیوطی:۔ شیخؒ نے تحفۃ الاحوذی میں 9 مقامات پرتدریب الراوی کا حوالہ دیا ہے ۔
  2. مقدمہ ابن الصلاح:۔ شیخؒ نے تحفۃ الاحوذی میں 30مقامات پر ابن الصلاحؒ کا حوالہ دیا ہے ۔
  3. تحفۃ الاشراف بمعرفۃ الاطراف للحافظ المزی:۔ شیخؒ نے 21 مقامات پر حافظ المزی ؒکا قول ذکر کیا ہے اورتحفۃ الاحوذی میں 3مقامات پر تحفۃ

الاشراف کا حوالہ دیا ہے ۔

  1. النھایۃ فی غریب الاثرلابن الاثیر:۔ شیخؒ نے تحفۃ الاحوذی میں 600سے زائد مقامات پر النہایۃ کا حوالہ دیا ہے ۔
  2. الطبقات الکبری لابن سعد:۔ شیخؒ نے تحفۃ الاحوذی میں 8مقامات پرالطبقات کا حوالہ دیا ہے ۔
  3. الْأَزْهَارِ الْمُتَنَاثِرَةِ فِي الْأَخْبَارِ الْمُتَوَاتِرَةِ:۔ شیخؒ نے تحفۃ الاحوذی میں 18مقامات پر علامہ سیوطیؒ کی اس کتاب کا حوالہ دیا ہے ۔
  4. التقریب :۔ شیخؒ نے التقریب لابن حجر کا 900 مقامات پر حوالہ دیا ہے ۔
  5. تہذیب التہذیب:۔اس کتاب کا 400 مقامات پر حوالہ دیا ہے ۔
  6. تذکرۃ الحفاظ:۔ شیخؒ نے 25 مقامات پر اس سے صاحب کتاب کا قول ذکر کیا ہے ۔
  7. میزان الاعتدال:۔ شیخؒ نے 200 مقامات پر صاحب کتاب کا قول ذکر کیا ہے ۔
  8. شرح نخبۃ الفکر:۔ شیخؒ نے 4 مقامات پر حافظ ابن حجرؒ کا قول اس کتاب کے حوالہ سے ذکر کیا ہے ۔

مصادر کتب فقہ:

  1. الجامع لاحکام القرآن للقرطبی:۔ شیخؒ نے تحفۃ الاحوذی میں 152مقامات پرقرطبیؒ کا قول ذکر کیا ہے ۔
  2. الشرح الکبیر للرافعی:۔ شیخؒ نے تحفۃ الاحوذی میں 28 مقامات پررافعی ؒکا قول ذکر کیا ہے جبکہ ایک جگہ الشرح الکبیر کا نام بھی ذکر کرتے ہیں
  3. نیل الاوطار للشوکانی:۔ شیخؒ نے تحفۃ الاحوذی میں483 مقامات پر علامہ شوکانیؒ کا قول ذکر کیا ہے جن میں سے 400 مقامات پر نیل الاوطار کا حوالہ دیا ہے ۔
  4. شرح النووی علی صحیح مسلم:۔ شیخؒ نے تحفۃ الاحوذی میں 1000 مقامات پر نوویؒ کا قول ذکر کیا ہے جبکہ164مقامات پرشرح نووی کا حوالہ دیا ہے ۔
  5. شَرْحِ الْجَامِعِ الصَّغِيرِ:۔ شیخؒ نے علامہ مناوی ؒکی شرح کا 31 مقامات پر حوالہ دیا ہے ۔
  6. تُحْفَةِ الذَّاكِرِينَ:۔ شیخؒ نےاپنی شرح میں 6 مقامات پر علامہ شوکانیؒ کی اس کتاب کا حوالہ دیا ہے ۔
  7. الفوائد المجموعة:۔ شیخؒ نےاپنی شرح میں 5 مقامات پر علامہ شوکانی ؒکی اس کتاب کا حوالہ دیا ہے ۔
  8. المغنی لابن القدامۃ :۔ شیخؒ نے 18مقامات پر ابن قدامۃؒ کے المغنی کے حوالہ سے قول ذکر کیا ہے ۔

کتب اللغۃ:

  1. القاموس:۔ شیخؒ نے 600 مقامات پر القاموس کا حوالہ دیا ہے ۔
  2. مجمع البحار للشیخ محمد طاھر:۔ شیخؒ نے 60 مقامات پر صاحب کتاب کا حوالہ دیا ہے ۔

فن حدیث میں مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری ؒکے رحجانات:

امام بخاری ؒ کی طرح مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری ؒنےبھی اخذ ورد حدیث کےسلسلے میں اپنے اصولوں کا ذکر کہیں نہیں کیا بلکہ تحفۃ الاحوذی اور ابکار المنن کے مطالعہ کے بعد ہم نے ان کتب سے چند اصول اخذ کیے ہیں جوشیخ ؒکے ہاں مستعمل ہیں ۔ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جو متقدمین محدثین کے ہاں مستعمل ہیں ۔جو اصول متقدمین محدثین کے ہاں مستعمل ہیں ان کا حوالہ بھی ہم ذکر کریں گے ۔لیکن جو اصول ابکار المنن سے ہم نے اخذ کیے ہیں وہ ہمیں متقدمین محدثین سے نہیں مل سکے ۔ذیل میں ہم ان اصولوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔

اصول نمبر1:

مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری ؒکے ہاں مرسل حدیث ضعیف ہے ۔یہ اصول شیخ ؒتحفۃ الاحوذی(باب فی الرکعتین اذا جاء الرجل والامام یخطب)کے تحت موجود سلیمان التیمی کی روایت پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں قُلْتُ الْحَدِيثُ الْمُرْسَلُ وَإِنْ كَانَ حُجَّةً عِنْدَ الْحَنَفِيَّةِ لَكِنِ الْمُحَقَّقُ أَنَّهُ لَيْسَ بِحُجَّةٍ كَمَا تَقَرَّرَ فِي مَقَرِّهِ فَحَدِيثُ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ الْمُرْسَلُ لَيْسَ بِحُجَّةٍ بَلْ هُوَ ضَعِيفٌ[46]

مراسیل صحابہ کے بارے میں شیخؒ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ایسی روایت موصول ہے چنانچہ (باب ما جاء ان الاقامۃ مثنی مثنی )کے تحت عبد اللہ بن زید کی روایت کے بارے میں فرماتے ہیں فَلَا عِلَّةَ لِلْحَدِيثِ لِأَنَّهُ عَلَى الرِّوَايَةِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بِدُونِ تَوْسِيطِ الصَّحَابَةِ مُرْسَلٌ عَنِ الصَّحَابَةِ وَهُوَ فِي حُكْمِ الْمُسْنَدِ[47]۔

اگرمرسل روایت کے ساتھ شواہد مل جائیں تب بھی وہ صحت کا درجہ حاصل کر لیتی ہے ۔اس اصول کو شیخؒ (باب ما جاء فی وضع الیمین علی الشمال)کے ذیل میں موجود روایت پر حکم لگاتے ہوئے یوں بیان کرتے ہیں وَقَدِ اعتضد هَذَا الْمُرْسَلُ بِحَدِيثِ وَائِلٍ وَبِحَدِيثِ هُلْبٍ الطَّائِيِّ الْمَذْكُورَيْنِ فَالِاسْتِدْلَالُ بِهِ عَلَى وَضْعِ الْيَدَيْنِ عَلَى الصَّدْرِ فِي الصَّلَاةِ صَحِيحٌ[48]۔یہ اصول متقدمین میں سے ابن الصلاح کے ہاں ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے اعْلَمْ أَنَّ حُكْمَ الْمُرْسَلِ حُكْمُ الْحَدِيثِ الضَّعِيفِ[49]۔

اصول نمبر2:

مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری ؒکے ہاں شاذ روایت ضعیف ہے ۔یہ اصول شیخؒ نے تحفۃ الاحوذی میں (باب ما جاء فی وضع الیمین علی الشمال)کے تحت ھلب کی روایت کے ذیل میں یوں بیان کیا ہے وَجْهُ عَدَمِ صِحَّتِهِ أَنَّهُ يَلْزَمُ مِنْهُ أَنْ يَكُونَ كُلُّ زِيَادَةٍ زَادَهَا ثِقَةٌ وَلَمْ يَزِدْهَا جَمَاعَةٌ مِنَ الثِّقَاتِ أَوْ لَمْ يَزِدْهَا مَنْ هُوَ أَوْثَقُ مِنْهُ وَلَيْسَتْ مُنَافِيَةً لِأَصْلِ الْحَدِيثِ شَاذَّةً غَيْرَ مَقْبُولَةٍ [50]۔ یہ اصول تدریب الراوی میں زرکشیؒ کے حوالہ سے ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے قَالَ الزَّرْكَشِيُّ فِي مُخْتَصَرِهِ: مَا ضَعْفُهُ لَا لِعَدَمِ اتِّصَالِهِ سَبْعَةُ أَصْنَافٍ، شَرُّهَا: الْمَوْضُوعُ، ثُمَّ الْمُدْرَجُ، ثُمَّ الْمَقْلُوبُ، ثُمَّ الْمُنْكَرُ، ثُمَّ الشَّاذُّ، ثُمَّ الْمُعَلَّلُ، ثُمَّ الْمُضْطَرِبُ. انْتَهَى[51]۔

اصول نمبر3:

مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری ؒکے ہاں مضطرب روایت ضعیف ہے ۔یہ اصول شیخؒ نے تحفۃ الاحوذی میں (باب ما جاء فی الرجل طلق امرءتہ البتہ) میں حدیث رکانہ پر بحث کرتے ہوئے یوں بیان کیا ہے قُلْتُ حَدِيثُ رُكَانَةَ هَذَا ضَعِيفٌ مُضْطَرِبٌ[52] ۔یہ اصول متقدمین کے ہاں مستعمل ہے ۔یہ اصول مقدمہ ابن الصلاح میں ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے الِاضْطِرَابُ مُوجِبٌ ضَعْفَ الْحَدِيثِ[53]۔

اصول نمبر4:۔

مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری ؒکے ہاںمدلس جب عن فلان سے روایت کرے تو اس کی روایت قابل حجت نہیں ۔یہ اصول تحفۃ الاحوذی میں (باب ماجاء من الرخصۃ فی ذالک ای فی استقبال القبلۃ )کے تحت حدیث عبادۃ پر بحث کرتے ہوئے یوں بیان فرماتے ہیں حَدِيثِ عُبَادَةَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنُ يَسَارٍ وَهُوَ مُدَلِّسٌ قَالَ النَّوَوِيُّ لَيْسَ فِيهِ إِلَّا التَّدْلِيسُ قُلْتُ الْمُدَلِّسُ إِذَا قَالَ عَنْ فُلَانٍ لَا يُحْتَجُّ بِحَدِيثِهِ عِنْدَ جَمِيعِ الْمُحَدِّثِينَ مَعَ أَنَّهُ كَذَّبَهُ مَالِكٌ وَضَعَّفَهُ أَحْمَدُ وَقَالَ لَا يَصِحُّ الْحَدِيثُ عَنْهُ وَقَالَ أَبُو زُرْعَةَ الرَّازِيُّ لَا يَصِحُّ الْحَدِيثُ عَنْهُ وَقَالَ أَبُو زُرْعَةَ الرَّازِيُّ لَا يُقْضَى لَهُ بِشَيْءٍ[54] یہ اصول تدریب الراوی میں زرکشی کے حوالہ سے ان الفاظ کے ساتھ موجود ہےقَالَ الزَّرْكَشِيُّ فِي مُخْتَصَرِهِ: مَا ضَعْفُهُ لَا لِعَدَمِ اتِّصَالِهِ سَبْعَةُ أَصْنَافٍ، شَرُّهَا: الْمَوْضُوعُ، ثُمَّ الْمُدْرَجُ، ثُمَّ الْمَقْلُوبُ، ثُمَّ الْمُنْكَرُ، ثُمَّ الشَّاذُّ، ثُمَّ الْمُعَلَّلُ، ثُمَّ الْمُضْطَرِبُ. انْتَهَى. [55]۔

اصول نمبر5:

مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری ؒکے ہاں مجہول روایت قابل احتجاج نہیں ہے ۔یہ اصول تحفۃ الاحوذی میں (باب ما جاء فی سجود القرآن ای سجدۃ التلاوۃ) کے تحت حضرت ابودرداء کی روایت پر بحث میں ان الفاظ کے ساتھ ملتا ہے قلت ومع هذا فهو حَدِيثٌ ضَعِيفٌ فَإِنَّ فِي سَنَدِهِ عُمَرَ الدِّمَشْقِيَّ وَهُوَ مَجْهُولٌ كَمَا عَرَفْتَ[56] یہ اصول تحریر علوم الحدیث میں امام شافعیؒ کے حوالہ سے اس طرح منقول ہے فإذا كان الحديث مجهولاً أو مرغوباً عمن حمله كان كما لم يأت؛ لأنه ليس بثابت [57]۔

اصول نمبر6:

مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری ؒکے ہاں صحت سند صحت متن کو مستلزم نہیں ۔اس اصول کو شیخؒ تحفۃ الاحوذی میں (باب ما جاء ان الماء لاینجسہ شیئ) کے تحت حضرت ابو سعید خدری کی روایت پر بحث کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں قلت سلفا أَنَّ إِسْنَادَهُ صَحِيحٌ لَكِنْ قَدْ تَقَرَّرَ أَنَّ صِحَّةَ الْإِسْنَادِ لَا تَسْتَلْزِمُ صِحَّةَ الْمَتْنِ [58]یہ اصول شرح قسطلانی میں ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے لا يلزم من صحة الإسناد صحة المتن [59]۔

اصول نمبر7:

مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری ؒکے ہاں حدیث ضعیف شواہد کے ملنےسے قوی ہو جاتی ہے۔یہ اصول ہمیں تحفۃ الاحوذی میں (باب ما جاء فی الفصاحۃ والبیان)کے تحت عبد الجبار بن عمر ایلی پر بحث کے دوران درج ذیل عبارت سے معلوم ہوا ہے فَالْحَدِيثُ ضَعِيفٌ لَكِنْ لَهُ شَوَاهِدُ ذَكَرَهَا الْمُنْذِرِيُّ فِي التَّرْغِيبِ [60]دوسرے مقام پر باب فی النضح بعد الوضوء میں حضرت ابو ھریرۃ کی روایت کے تحت فرماتے ہیں قُلْتُ فَحَدِيثُ الْبَابِ ضَعِيفٌ وَفِي الْبَابِ أَحَادِيثُ عَدِيدَةٌ مَجْمُوعُهَا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ لَهُ أَصْلًا [61]یہ اصول ہمیں شرح قسطلانی میں باب حق اجابۃ الولیمۃ کے تحت ان الفاظ کے ساتھ ملا ہےوفيه عبد الملك بن حسين وهو ضعيف جدًّا وأحاديث أُخر ضعيفة، لكن مجموعها يدل على أن للحديث أصلًا وقد عمل بظاهر ذلك الحنابلة والشافعية [62]۔

اصول نمبر8:

مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری ؒکے ہاںکسی حدیث کی سند کا حسن ہونا اس بات کو مستلزم نہیں کہ وہ حدیث بھی حسن ہو ۔ یہ بات شیخؒ ابکار المنن میں باب التیمم کے تحت یوں بیان فرماتے ہیں ومن المعلوم ان حسن الاسناداو صحته لايستلزم حسن الحديث او صحته [63]۔

اصول نمبر9:

امام احمد کا کسی شخص کے بارے میں قول ’’روی مناکیر‘‘ اس شخص کے ضعف کو مستلزم نہیں ۔یہ اصول ابکار المنن میں ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے

ان قول احمد فی رجل روی مناکير لا يستلزم ضعفه[64] ۔

اصول نمبر10:

مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری ؒکے ہاںکسی حدیث کے رواۃ ثقہ ہونے کے باوجود مدلس ہونے کی وجہ سے ضعیف ہو سکتے ہیں ۔یہ اصول ہمیں ابکار المنن سے باب ما جاء فی صلاۃ العشاء کے تحت شیخؒ کے اس قول سے ملا ہے قلت وان کان رجاله ثقات لکنه ضعيف فان مداره علی جببيب بن ابی ثابت وهو مدلس [65]یہ اصول ابکار المنن میں ان الفاظ کے ساتھ بھی موجود ہے فلو سلم ان رجاله ثقات فلايلزم من کون رجاله ثقات صحته [66]۔

اصول نمبر11:۔

مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری ؒکے ہاںسوء حفظ کا تدارک متابعات سے ہو سکتا ہے ۔یہ اصول ابکار المنن میں باب فی افراد الاقامۃ کے تحت ایک راوی محمد بن اسحاق کے بارے میں بحث کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں فان محمد بن اسحاق وان کان فی حفظه شئی لکنه لم يتفرد بهذا الحديث بل تابعه يونس ومعمر وشعيب [67]۔

اصول نمبر12:

شیخؒ کے ہاں تدلیس کا تدارک متابعات سے ہو سکتا ہے ۔محمد بن اسحاق کا زہری سے روایت کرنا اس کا متابع یونس ،معمر اورشعیب کا زہری سے روایت کرنا ہے ۔اس سے تدلیس کا احتمال ختم ہو جاتا ہے اس کو شیخؒ یوں بیان فرماتے ہیں رواه يونس ومعمروشعيب وابن اسحاق عن الزهری ومتابعة هولاء لمحمد بن اسحاق عن الزهری ترفع احتمال التدليس الذی يحتمله عنعنة ابن اسحاق [68]۔

اصول نمبر13:

ایک صحیح روایت کے راوی کسی دوسری روایت میں موجود ہوں تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ حدیث صحیح ہو ۔شیخؒ اپنا یہ اصول ابکار المنن میں باب خروج النساء الی المساجد کے تحت یوں بیان فرماتے ہیں قلت لايلزم من کون رجاله رجال الصحیح صحته [69]۔

اصول نمبر14:

کسی روایت کو اگر شیخین نے اپنی کتب میں ذکر نہیں کیا تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ حدیث صحیح نہ ہو۔ یہ اصول ابکار المنن میں باب الجھر بالتامین میں ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے وقد تقرر انه لا یلزم من عدم التخریج الشیخین حدیثا عدم صحته [70]۔

اصول نمبر15، 16:

بخاری کا کسی راوی کو اپنی کتاب التاریخ میں ذکر نہ کرنا اس کے ضعیف ہونے کو مستلزم نہیں ۔اسی طرح ابن ابی حاتم کا کسی راوی کو ذکر نہ کرنا اس کے ضعف کو مستلز م نہیں ہے ۔یہ اصول ابکار المنن میں ان الفاظ کے ساتھ موجود ہیں قلت عدم اخراج الشيخين لراو لايستلزم ضعفه وکذا عدم ذکر البخاری راويا فی تاريخه وکذا عدم ذکر ابن ابی حاتم ليس مستلزما للضعف [71]۔

اصول نمبر17:

مجمل کا بیان خبر واحد کے ذریعے ہو سکتا ہے ۔یہ اصول ابکار المنن میں ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے بيان المجمل يجوز بخبر الواحد [72]۔

اصول نمبر18:

بیان کی جگہ میں سکوت اس وقت بیان شمار ہو گا جب متنازع فیہ کا حکم کسی دوسری جگہ سے معلوم نہ ہو۔ اوراگر اس کا صریح حکم معلوم ہو جائے وہ موافق ہو یا مخالف تو اس وقت وہ سکوت بیان شمار نہیں ہو گا۔یہ اصول ابکار المنن میں ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے ان اعتبار السکوت فی موضع البيان انما هو اذا لم يوجد حکم المتنازع فیه من موضع آخر واما اذا وجد حکمه صريحا موافقا او مخالفا فلا اعتبار له[73]۔

اصول نمبر19:

قول اورفعل نبوی ﷺ میں سے قول فعل پر صرف اس وقت مقدم ہو گا جب وہ فعل کے خلاف صریح دلالت کرتا ہو ۔یہ اصول ابکار المنن میں ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے هذا اذا کان القول دالا صراحة علی خلاف الفعل [74]۔

اصول نمبر20:

کسی حدیث کا غریب ہونا اس کی معلولیت یا ضعف کو مستلزم نہیں ۔یہ اصول ابکار المنن میں ان الفاظ کے ساتھ موجو د ہے کون الحديث غريبا لا يستلزم معلوليته وضعفه [75]۔

اصول نمبر21:

ہیثمی کا قول رجالہ ثقات اس حدیث کی صحت پر دلالت نہیں کرتا ۔یہ اصول ابکار المنن میں ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے اما قول الهيثمی رجاله ثقات فلا يدل علی صحته [76]۔

’’فی الباب ‘‘ کی تخریج میں شیخؒ کا منہج:

شیخؒ” فی الباب“ کی روایات کو مکمل الفاظ کے ساتھ ذکر کرتے ہیں اوراس کتاب کا نام ذکر کرتے ہیں جس میں وہ روایت موجود ہوتی ہے ۔ لیکن کبھی ایساہوتا ہے کہ شیخؒ صرف کتاب کا نام بتلانے پر اکتفا کرتے ہیں اور الفاظ حدیث ذکر نہیں کر تے اور فرماتے ہیں”من شاء الوقوف فلیرجع الیہ “کبھی شیخؒ ”لم اقف علیہ“کا قول فرماتے ہیں اور کبھی” لینظر من اخرج ھذ االحدیث “کا قول کرتے ہیں۔بسااوقات شیخؒ”فی الباب“ کی روایت ذکر کرنے کے بعد اس کے رواۃ پر بھی بحث کرتے ہیں ۔اورکبھی ”من شاء الاطلاع علیہ،علیھا فلیرجع“ کا قول بھی فرماتے ہیں ۔کسی کسی مقام پر جلد اور صفحہ بھی دے دیتے ہیں۔

شیخؒ” وفی الباب“ کی روایات کو مکمل الفاظ کے ساتھ ذکر کرتے ہیں اوراس کتاب کا نام ذکر کرتے ہیں جس میں وہ روایت موجود ہوتی ہے ۔ لیکن کبھی شیخؒ صرف کتاب کا نام بتلانے پر اکتفا کرتے ہیں اور الفاظ حدیث ذکر نہیں کر تےمثلا اگر وہ روایت بخاری میں موجود ہے تو صرف اتنا فرماتے ہیں اخرجہ البخاری ۔ ”فی الباب “ کی تخریج میں شیخؒ نے 150 سے زائد مقامات پر اخرجہ البخاری کا قول فرمایاہے لیکن ان روایات کے الفاظ ذکر نہیں فرمائے ۔18 مقامات ایسے ہیں جہاں شیخؒ نے بخاری کے الفاظ بھی ذکر کیے ہیں ۔ایسے مقام پر شیخؒ اخرجہ البخاری بلفظ کا قول فرماتے ہیں ۔بسااوقات شیخؒ”فی الباب“ کی روایت ذکر کرنے کے بعد اس کے رواۃ پر بھی بحث کرتے ہیں ۔

اگر ”فی الباب “ میں موجود صحابہ کی روایات کے علاوہ بھی اگر ایسے صحابہ ہوں جن کی روایات کو ”فی الباب “ کے تحت درج کیا جا سکتا ہو ایسے مقامات کی تعداد تحفۃ الاحوذی میں تقریبا ایک سو چار ہے ۔ایسے مقام پر بعض اوقات شیخؒ ”من شاء الوقوف فلیرجع الیہ “کا قول فرماتے ہیں ۔مثلا ترمذی کی حدیث «إِذَا تَوَضَّأْتَ فَخَلِّلِ الْأَصَابِعَ» کے تحت فرماتے ہیں وَفِي الْبَابِ أَيْضًا أَحَادِيثُ أُخْرَى عَنْ غَيْرِ هَؤُلَاءِ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ مَنْ شَاءَ الْوُقُوفَ عَلَيْهَا فَلْيَرْجِعْ إِلَى النَّيْلِ [77]۔

شیخؒ کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ وہ ”فی الباب “ کی روایات ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ دوسرے کئی صحابہ کی روایات کو ”فی الباب “ کے تحت درج کیا جا سکتا ہے ۔جیسے باب ما جاء فی فضل الطھور میں فرماتے ہیں وَفِي الْبَابِ عَنْ عِدَّةٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِوَى الْمَذْكُورِينَ ذَكَرَ أَحَادِيثَهُمْ الْمُنْذِرِيُّ فِي التَّرْغِيبِ وَالْهَيْثَمِيُّ فِي مَجْمَعِ الزَّوَائِدِ [78]۔

بعض اوقات حدیث کی صحت وضعف کے متعلق فیصلہ کرتے ہیں اوردلیل کے لیے اس کتاب کی طرف اشارہ فرماتے ہیں جس میں تفصیل موجود ہو۔جیسے ترمذی کی حدیث «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاءَ، فَتَوَضَّأَ»کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ قائلین ناقض نصب الرایۃ اور الدرایۃ کی جن احادیث سے استدلال کرتے ہیں وہ تمام ضعیف ہیں اوران میں سے ایک روایت بھی استدلال کے قابل نہیں ہے اورپھر فرماتے ہیں مَنْ شَاءَ الْوُقُوفَ عَلَيْهَا وَعَلَى مَا فِيهَا مِنَ الْكَلَامِ فَلْيَرْجِعْ إِلَى هَذَيْنِ الْكِتَابَيْنِ[79]۔

شیخ ؒکبھی حدیث کی تخریج کرتے ہوئے مکمل حدیث ذکر نہیں کرتے بلکہ اختصار فرماتے ہیں جیسے باب کراھیۃ الاستنجاء بالیمین کے ذیل میں ”فی الباب “ کی روایت کو یوں مختصر ذکر کرتے ہیں أمَّا حَدِيثُ سَلْمَانَ فَأَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ بِلَفْظِ قَالَ نَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ لِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ أَوْ نَسْتَنْجِيَ بِالْيَمِينِ [80]۔

بوقت ضرورت شیخؒ ”فی الباب “ میں موجودصحابہ ؓکے اسماء کا اعراب بھی ضبط فرماتے ہیں اور صحابی کا تعارف بھی کراتے ہیں جیسے (بَاب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)كَانَ إِذَا أَرَادَ الْحَاجَةَ أَبْعَدَ فِي الْمَذْهَبِکے ”فی الباب “ میں فرماتے ہیں قَوْلُهُ(وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي قُرَادٍ) بِضَمِّ الْقَافِ وَتَخْفِيفِ الرَّاءِ الْأَنْصَارِيِّ صَحَابِيٌّ لَهُ حَدِيثٌ ويقال له بن الفاكه [81]۔

”فی الباب “ میں موجود صحابہ کی روایات کی تخریج کے بعد ان روایات کی اسناد میں موجود رواۃ کی صحت وضعف پر بھی بحث کرتے ہیں جیسے باب التسمیۃ عند الوضو کے تحت ”فی الباب “ میں موجود سھل بن سعد کی روایت میں موجود رواۃ پر یوں بحث فرماتے ہیں وَأَمَّا حديث سهل بن سعد فأخرجه بن مَاجَهْ وَالطَّبَرَانِيُّ وَفِيهِ عَبْدُ الْمُهَيْمِنِ بْنِ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلِ بْنِ سعد وَهُوَ ضَعِيفٌ وَتَابَعَهُ أَخُوهُ أُبَيُّ بْنُ عَبَّاسٍ وَهُوَ مُخْتَلَفٌ فِيهِ وَأَمَّا حَدِيثُ أَنَسٍ فَأَخْرَجَهُ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ حَبِيبٍ الْأَنْدَلُسِيُّ وَعَبْدُ الْمَلِكِ شَدِيدُ الضَّعْفِ [82]۔

احادیث ”فی الباب “ کی تخریج میں شیخؒ کا یہ انداز بھی ہے کہ روایت کی تخریج فرماتے ہوئے حدیث کے صرف وہ الفاظ ذکر کرتے ہیں جو ترمذی کی حدیث سے مختلف ہوں جیسے باب ماجاء فی المضمضۃ والاستنشاق کے تحت حضرت لقیط بن صبرۃ کی روایت کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں وَأَمَّا حَدِيثُ لَقِيطِ بْنِ صَبِرَةَ فَأَخْرَجَهُ أَحْمَدُ وَأَهْلُ السنن الأربع والشافعي وابن الجارود وبن خزيمة وابن حِبَّانَ وَالْحَاكِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ وَفِيهِ وَبَالِغْ فِي الِاسْتِنْشَاقِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَائِمًا وَفِي رِوَايَةٍ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ إِذَا تَوَضَّأْتَ فَمَضْمِضْ أَخْرَجَهَا أَبُو دَاوُدَ وَغَيْرُه [83]۔

کسی حدیث کی تخریج ہو چکی ہو تو اس کے بارے میں فرماتے ہیں تقدم تخریجہ جیسے باب فی المضمضۃ والاستنشاق من کف واحد کے تحت حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت کے بارے میں فرماتے ہیں قَوْلُهُ (وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عباس) تقدم تخريجه [84]۔

”فی الباب “ میں موجود کسی صحابی سے اسی باب سے متعلق دیگر روایات کا حوالہ دیتے ہیں ۔ جیسے باب الوضو ءکے تحت حضرت عائشہ کی روایت کے الفاظ ذکر کرنے کے بعد حضرت عائشہ کی اسی باب سے متعلق دیگر روایات کا یوں حوالہ دیتے ہیں أَمَّا حَدِيثُ عَائِشَةَ فَأَخْرَجَهُ الشَّيْخَانِ قَالَتْ كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ مِنْ قَدَحٍ يُقَالُ لَهُ الْفَرَقُ وَلَهَا رِوَايَاتٌ أُخْرَى فَفِي بَعْضِهَا كَانَ يَغْتَسِلُ بِخَمْسِ مَكَاكِيكَ وَيَتَوَضَّأُ بِمَكُّوكٍ وَفِي أُخْرَى يُغَسِّلُهُ الصَّاعُ وَيُوَضِّئُهُ الْمُدُّ [85]۔

”فی الباب “ مىں کسی روایت پربحث کو موخر کرنا ہو تو اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس پر آگے چل کر بحث ہوگی جیسے باب المسح علی الجوربین والنعلین کے تحت ”فی الباب “ میں موجو د حضرت ابو موسی کی روایت کے بارے میں یوں فرماتے ہیں وقوله (وفي الباب عن أبي موسى) وأخرجه بن مَاجَهْ وَالطَّحَاوِيُّ وَغَيْرُهُمَا وَسَيَأْتِي الْكَلَامُ عَلَى هَذَا الحديث [86]۔

”فی الباب “ کی تخریج میں ایک مقام پر باب فی من یستیقظ و یری بللا ولایذکر احتلاما میں ”فی الباب “ کے تحت فرماتے ہیں کہ ان صحابہ سے یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ نہیں ملی ۔چنانچہ فرماتے ہیں قَوْلُهُ (وَفِي الْبَابِ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَالزُّبَيْرِ وَطَلْحَةَ وَأَبِي أَيُّوبَ وَأَبِي سَعِيدٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ) لَمْ أَجِدْ عِنْدَهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ بِهَذَا اللَّفْظِ [87]۔

”فی الباب “ کی روایات کی تخریج میں بعض اوقات شیخؒ اختصار سے کام لیتے ہوئے وغیرہ کا لفظ ذکرکرتے ہیں جیسے باب ماجاء فی المنی والمذی میں ”فی الباب “ کے تحت حضرت ابی بن کعب کی روایت کی یوں تخریج فرماتے ہیں وأما حديث أبي بن كعب فأخرجه ابن أَبِي شَيْبَةَ وَغَيْرُهُ [88]۔

”فی الباب “ کی کسی بھی روایت تخریج کے لیے ’’واما حدیث‘‘ کے الفاظ ذکرکرتے ہیں مثلا ابو موسی کی روایت کی تخریج مقصود ہو تو یوں فرماتے ہیں ’’وَأَمَّا حَدِيثُ أَبِي مُوسَى فَأَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ وَأَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَأَبُو عَوَانَةَ‘‘۔

”فی الباب “ کی تخریج میں شیخؒ نے سنن الترمذی کو بہت اہمیت دی ہے اور فی االباب کی کئی ایسی روایات ہیں جن کے بارے میں فرمایا کہ ”فی الباب “ کی روایت سنن الترمذی میں ہی موجود ہے جیسے باب ما جاء فی وصف صلوۃ النبیﷺکے تحت حضرت فضل بن عباس کی روایت کی تخریج یوں فرماتے ہیں وَأَمَّا حَدِيثُ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ فَأَخْرَجَهُ التِّرْمِذِيُّ فِي بَابِ مَا جَاءَ فِي التَّخَشُّعِ فِي الصَّلَاةِ [89]۔

”فی الباب “ کی روایت اگر مرفوع ہو تو اس کا بھی تذکرہ کرتے ہیں جیسے باب ’’ما جاء ان الامام ضامن والموذن موتمن‘‘ کے تحت حضرت سھل بن سعد کی روایت کی تخریج کرتے ہوئے فرماتے ہیں وَأَمَّا حَدِيثُ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ فأخرجه بن مَاجَهْ وَالْحَاكِمُ فِي الْمُسْتَدْرَكِ عَنْهُ مَرْفُوعًا بِلَفْظِ الْإِمَامُ ضَامِنٌ فَإِنْ أَحْسَنَ فَلَهُ وَلَهُمْ وَإِنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهِ وَلَا عَلَيْهِمْ [90]۔

بعض اوقات شیخؒ ”فی الباب “ کی روایت کی تخریج کرتے ہوئے صرف کتاب کا نام ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں اور الفاظ آگے جا کر ذکر کرتے ہیں جیسے باب ما جاء فی اقامۃ الصفوف کے ذیل میں حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت کی تخریج کرتے ہوئے فرماتے ہیں وَأَمَّا حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ فَأَخْرَجَهُ أَحْمَدُ وَغَيْرُهُ وَسَيَأْتِي لَفْظُهُ [91]۔

اگر”فی الباب “ کی روایت کے ہم معنی روایت دوسری کتاب میں ہو تو اس کی نشاندہی کرتے ہوئے اخرج معناہ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں جیسے باب ’’ما جاء فی الرجل یصلی مع الرجلین‘‘ میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں وَأَخْرَجَ أَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ مَعْنَاهُ[92]اوربعض اوقات ایسے مقامات پر نحو کا لفظ استعمال کرتے ہیں جیسے باب ’’ما جاء فی التکبیر عند الرکوع‘‘ کے تحت حضرت ابو ھریرۃ کی روایت کی تخریج کرتے ہوئے فرماتے ہیں فَأَخْرَجَهُ الشَّيْخَانِ نَحْوَ حَدِيثِ الْبَابِ [93]۔

اگر ”فی الباب “ کی روایت سے مختصر روایت یا اس سے مفصل روایت ہو تواس کی نشاندہی بھی فرماتے ہیں جیسے باب ما جاء فی الرجل یصلی مع الرجلین میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں وَأَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ مُطَوَّلًا وَمُخْتَصَرًا [94]۔

”فی الباب “ کی روایت کو اگر کئی محدثین نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے تو شیخؒ اس کے بارے میں فرماتے ہیں اخرجہ جماعۃ جیسے باب من احق الامامۃ کے ذیل میں حضرت مالک بن حویرث کی روایت کی تخریج یوں فرماتے ہیں وَأَمَّا حَدِيثُ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ فَأَخْرَجَهُ الْجَمَاعَةُ وَأَمَّا حَدِيثُ عَمْرِو [95]۔

”فی الباب “ کی تخریج کرتے ہوئے شیخؒ اسماء الرجال کی بحث بھی کرتے ہیں جیسے باب ما جاء فی وضع الیمین علی الشمال میں فرماتے ہیں کہ صحابی کا نام سھل بن سھل کی بجائے سھل بن سعد ہے اوریہی درست ہے جیسے فرماتے ہیں قَوْلُهُ (وَفِي الْبَابِ عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ وَغُطَيْفِ بن الحارث وبن عباس وبن مَسْعُودٍ وَسَهْلِ بْنِ سَهْلٍ كَذَا وَقَعَ فِي النُّسْخَةِ الْأَحْمَدِيَّةِ سَهْلُ بْنُ سَهْلٍ) وَوَقَعَ فِي غَيْرِهَا مِنَ النُّسَخِ سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ وَهُوَ الصَّحِيحُ وَالْأَوَّلُ غَلَطٌ [96]۔

خلاصہ کلام یہ کہ شیخؒ کی تصانیف سے ان کی تبحر علمی ،تفقہ فی الحدیث اور ہر علم وفن میں دسترس جھلکتی ہے ۔ ”فی الباب “ کی احادیث کی تخریج اوران روایات کی صحت وضعف پر بحث،کتب حدیث کا تعارف، صحت وضعف کی بحث ،تفسیری مسائل کی بحث ،فقہی مسائل کاحل اورترجمۃ الباب کے تحت ”فی الباب “ کے علاوہ مزید روایات کا اندراج تحفۃ الاحوذی کی ایسی خصوصیات ہیں جو اس کو سنن الترمذی کی باقی شروح سے ممتاز کرتی ہیں ۔

حوالہ جات

  1. ۔ الترمذی، محمد بن عیسی،السنن (ایچ ایم سعید کمپنی،ادب منز ل پاکستان چوک کراچی)2/233،حدیث نمبر69۔
  2. ۔مباکپوری،عبدالرحمٰن ،مقدمۃ تحفۃ الأحوذی ( دار الکتاب العربی ،بیروت ۔لبنان) ص1۔
  3. ۔الحسینی، عبد الحي بن فخر الدین، الإعلام بمن فى تاريخ الهند من الأعلامالمسمي بنزهة الخواطر وبهجة المسامع والمناظر ( دار ابن حزم ۔بیروت ۔لبنان۔الطبعۃ الاولی ،1999ء)8/1272۔
  4. .کحالۃ، ، رضا ، عمر بن رضا،معجم المؤلفین )دار إحياء التراث العربي بيروت) 5/166۔
  5. ۔نزهة الخواطر 8/1272۔
  6. ۔العراقی ،عبد الرشید ،تذکرۃ النبلاء فی تراجم العلماء )بیت الحکمت لاہور،2004ء) ص334۔
  7. ۔العراقی ،عبد الرشید،چالیس علماء اہل حدیث ،)نعمانی کتب خانہ حق سٹریٹ اردو بازار لاہور) ص142۔
  8. ۔مقدمۃ تحفۃ الأحوذی،ص5۔
  9. ۔چالیس علماء اہل حدیث ،ص148۔
  10. ۔مباکپوری،عبدالرحمٰن ،مقدمہ ابکار المنن ) مارکیٹ محلہ جنکی پشاور،پاکستان) ص 3۔
  11. ۔باکپوری،عبد الرحمٰن ،مقالات محدث مبارک پوری)ادارۃ العلوم الاثریہ منٹگمری بازار فیصل آباد، 2009ء) ص 50۔
  12. ۔مقالات محدث مبارک پوری ، ص 50
  13. .مقدمۃ تحفۃ الاحوذی )دار الکتاب العربی ،بیروت ۔لبنان)ص11۔
  14. ۔مقالات محدث مبارک پوری، ص 51۔
  15. ۔مقدمۃ تحفۃ الاحوذی ،ص11
  16. ۔ایضاً
  17. ۔ایضاً
  18. ۔مباکپوری،عبدالرحمٰن ،القول السدید)مکتبہ السنۃ،الدارالسلفیۃ لنشر التراث الاسلامی، سولجر بازارنمبر1،کراچی)ص 55۔
  19. ۔مقدمۃ تحفۃ الاحوذی ، ص11۔
  20. ۔ایضاً
  21. ۔چالیس علماء اہل حدیث، ص147
  22. ۔الترمذی، محمد بن عیسی،سنن الترمذی ، )ایچ ایم سعید کمپنی،ادب منز ل پاکستان چوک کراچی) 1/21،حدیث نمبر64۔
  23. ۔مباکپوری،عبدالرحمٰن ،تحفۃ الأحوذی)دار الكتب العلمية - بيروت) 1/187۔
  24. ۔تحفۃ الأحوذی 1/18۔
  25. ۔ایضاً 2/12۔
  26. ۔مقدمۃ تحفۃ الاحوذی، ص9۔
  27. ۔ایضاً
  28. ۔ایضاً
  29. ۔ایضاً
  30. ۔ایضاً
  31. ۔ایضاً
  32. ۔ایضاً
  33. ۔ایضاً
  34. ۔مقدمۃ تحفۃ الاحوذی ، ص10۔
  35. ۔ایضاً
  36. ۔ایضاً
  37. ۔تحفۃ الأحوذی3/260۔
  38. ۔سنن الترمذی 2/39،حدیث نمبر657
  39. ۔تحفۃ الأحوذی 3/260۔
  40. ۔تحفۃ الأحوذی 8/453۔
  41. ۔التوبۃ:3
  42. ۔تحفۃ الأحوذی8/385۔
  43. ۔الأعراف: 190۔
  44. ۔تحفۃ الأحوذی 8/366۔
  45. ۔ایضاً 8/486۔
  46. ۔ایضاً 3/29۔
  47. ۔ایضاً 1/497۔
  48. ۔ایضاً 2/81۔
  49. ۔ابن الصلاح ، عثمان بن عبد الرحمن (المتوفى: 643هـ)،مقدمة ابن الصلاح)دار الفكر- سوريا، دار الفكر المعاصر – بيروت، 1406هـ ) ص 53۔
  50. ۔تحفة الأحوذي 2/82۔
  51. ۔السيوطي، عبد الرحمن بن أبي بكر (المتوفى: 911هـ) تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي، )دارطيبة) 1/348۔تحفة الأحوذي 4/288۔
  52. ۔تحفة الأحوذي 4/288۔
  53. ۔مقدمة ابن الصلاح ،ص: 94 ۔
  54. ۔تحفة الأحوذي 1/52۔
  55. ۔تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي ،1/348۔
  56. ۔تحفة الأحوذي 3/127۔
  57. ۔الجديع ، عبد الله بن يوسف ،تحرير علوم الحديث )مؤسسة الريان للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت، الطبعة: الأولى، 1424 هـ) 2/999۔
  58. ۔تحفة الأحوذي 1/17۔
  59. ۔القسطلاني، أحمد بن محمد (المتوفى: 923هـ)، إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري) المطبعة الكبرى الأميرية، مصر ،الطبعة: السابعة، 1323 ه) 5/252۔
  60. ۔تحفة الأحوذي 8/121۔
  61. ۔ایضاً 1/139۔
  62. ۔شرح القسطلاني = إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري 8/72۔
  63. ۔ابکار المنن 72/1۔
  64. ۔ایضاً 79/1۔
  65. ۔ایضاً 77/1۔
  66. ۔ایضاً 59/1۔
  67. ۔ایضاً 89/1۔
  68. ۔ایضاً 89/1۔
  69. ۔ایضاً 102/1۔
  70. ۔ایضاً 185/1۔
  71. ۔ایضاً 137/1۔
  72. ۔ایضاً 225/1 ۔
  73. ۔ایضاً 228/1۔
  74. ۔ایضاً 228/1۔
  75. ۔ایضاً 230/1۔
  76. ۔ایضاً 252/1۔
  77. ۔تحفة الأحوذي 1/123۔
  78. ۔ایضاً 1/30۔
  79. ۔ایضاً 1/243۔
  80. ۔ایضاً 1/65۔
  81. ۔ایضاً 1/79۔
  82. ۔ایضاً 1/95۔
  83. ۔ایضاً 1/98۔
  84. ۔ایضاً 1/104۔
  85. ۔ایضاً 1/154۔
  86. ۔ایضاً 1/278۔
  87. ۔ایضاً 1/311۔
  88. ۔ایضاً 1/314۔
  89. ۔ایضاً 2/429۔
  90. ۔ایضاً 1/524۔
  91. ۔ایضاً 2/15۔
  92. ۔ایضاً 2/25۔
  93. ۔ایضاً 2/86۔
  94. ۔ایضاً 2/25۔
  95. ۔ایضاً 2/30۔
  96. ۔ایضاً 2/73۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...