Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 34 Issue 2 of Al-Idah

قرآن مجید بطور معجزاتی چیلنج: قدیم و جدید آراء کا تقابل |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

34

Issue

2

Year

2017

ARI Id

1682060034497_1045

Pages

1-19

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/62/57

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/62

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

معجزہ کا لغوی معنی

معجزہ کا مادہ ’’ ع ج ز‘‘ ہے، اس کا معنی ضعف و کمزوری، درماندگی، شکستگی، کوتاہ ہمتی کے ہیں. (۱) یہ ثلاثی مجرد ہے اوراس سے باب الافعال’’ الاعجاز‘‘ہے. یعنی دوسرے کو عاجز و درماندہ اور اس طرح بے بس اور عاجز کرنا کہ وہ کام اس کے بس میں ہی نہ ہو.  

الازہری کہتے ہیں:

اعجاز کا معنی’’ الفوت و السبق‘‘ کھو جانا اور سبقت کے ہیں. کہا جاتا ہے:  أعجزني فلان أي فاتني.

یعنی فلاں آدمی نے مجھے عاجز و درماندہ کر دیایعنی اس نے مجھے کھو دیا.  

لیث کہتے ہیں: ’’ ’’ أعجزني فلان‘‘ اذا عجزت عن طلبه وإدراکه‘‘

یہ اس وقت کہتے ہیں جب تم اس کے طلب و حصول میں عاجز آ جاؤ. (۲)

اور . کہتے ہیں: ’’الاعجاز ‘‘ کا معنی ہے’’ الفوت‘‘ (کھو دینا) اعشیٰ کا قول ہے:

فذاك و لم يعجز من الموت ربه ولکن أتاہ الموت لا يتأبق (۳)

اور القاموس میں ہے:

’’أعجزه شيئ، فاته فلانا، وجده عاجزا وصيره عاجزا والتعجيز التشبيط، والنسبة الی العجز ومعجزۃ النبي عليه السلام أعجز به الخصم عند التحدي، والهاء للمبالغة ‘‘ (۴)

کسی چیز نے اسے بے بس اور عاجز کر دیا اور فلاں کو اس نے عاجز پایا اور اسے عاجز کر دیا. تعجیز و تشبیط بھی دوسرے کو بے بس کرنا ہے اور نسبت عجزکی طرف ہے اور جناب نبی کریم عليه السلام کا معجزہ وہ ہے کہ چیلنج کے وقت جس جیسا مقابل لانے سے قاصر ہو اور ’’ ھاء‘‘ مبالغۃ کے لیے ہے.

معجزہ کا اصطلاحی معنی

اصطلاح میں اس کا مفہوم ہے:

المعجزۃ أمر خارق للعادۃ يدعو إلی الخير والسعادۃ مقرون بدعوی النبوۃ قصد به إظهار صدق من ادعی أنه رسول الله. (۵)

’’اصطلاح میں معجزہ ایک ایسا کام جو خلاف عادت ہو جو نیکی اور سعادت کی دعوت دے، دعوائے نبوت سے متصل ہو اور مقصود اس سے اللہ تعالیٰ کے رسول ہونے کا دعویٰ کرنے والے کی صداقت کا اظہار ہے ‘‘.

یہاں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قرآن عظیم معجزہ اس طرح ہے کہ روئے زمین پر بسنے والے تمام لوگوں میں سے کوئی بھی اس جیسا کلام لانے سے عاجز و درماندہ اور قاصرہے.  مختلف لوگوں کااس کی وجوہ اعجاز کے بارے میں آغاز ہی سے اختلاف چلا آ رہا ہے. یہ اختلاف اس وقت منظر عام پر آیا جب معتزلہ کے ظہور کے ساتھ علم کلام وجود میں آیا. اعجاز کے مسئلہ پر کلام شروع ہوا جیسا کہ تیسری صدی ہجری میں یہ اختلاف ظاہر ہوا. اس بارے میں کتاب ’’الدين والدولة فی الدفاع عن الاسلام‘‘ ، ’’إثبات النبوة للرسول العربي عليه السلام‘‘ لکھیں گئیں. ان کے مؤلف علی بن ربن الطبری ہیں(۶). جو متوکل (۲۳۲. ۲۴۷ھ) کے غلام تھے. اس میں جناب رسول اللہ عليه السلام کی نبوت پر دلائل وارد ہیں. اور اس کا ساتواں باب خاص کر اس بات پر مشتمل ہے کہ قرآن نبوت کا معجزہ ہے. (۷)

اس بارے ابو الحسن الاشعری (۳۲۴ھ) نے بھی گفتگو کی ہے. ان کی اکثر کتابیں ضائع ہو چکی ہیں. ان میں صرف ’’مقالات الاسلامیین‘‘ کے علاوہ کسی کا وجود دکھائی نہیں دیتا. مشہور متکلمین جنہوں نے قرآن کریم کے اعجاز پر بحث کی ہے ان میں محمد بن یزید الواسطی (۳۰۶ھ)، علی بن عیسیٰ المرمانی (۳۸۴ھ) ہیں ان کی تالیف ’’ النکت فی إعجاز القرآن‘‘ ہے. یہ ایک چھوٹا سا رسالہ ہے. دراصل یہ ایک سوال کا جواب ہے جس میں مؤلف کی توجہ اس بات کی طرف دلائی گئی ہے کہ طوالت سے گریز کرتے ہوئے اعجاز القرآن کے حوالے سے مختصراً تحریر کیا جائے. اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اس میں وجوہ اعجاز کی سات جہات بیان کی گئی ہیں. احمد بن محمد الخطابی ۳۸۸ھ نے اپنی کتاب اعجاز القرآن میں لکھا ہے:

یہ قرآن معجزہ ہے کہ فصیح الفاظ کے ساتھ بہترین نظم تالیف میں اپنے اندر توحید، تحلیل وتحریم کے معانی لیے ہوئے ہے. . . . . الخ .

اور ظاہر ہے کہ ان جیسے امور کا بجا لانااور ان کے مختلفات کے درمیان جمع و تطبیق سے حسن نظم وتنسیق کا شاہکاربنانا، یہ ایسا کام ہے جو انسانی طاقت سے باہر ہے اور ابو بکر محمد الباقلانی (۴۰۳ھ) ہیں، کی کتاب ’’ اعجاز القرآن‘‘ بڑی معروف ومشہور ہے.

محمد بن یحیی بن سراہ (۴۱۰ھ) ، الشریف المرتضیٰ (۴۳۶ھ) نے بھی اس حوالے سے تحریر کیا ہے.

ان کے علاوہ اور بہت سے جنہوں نے جزوی طور پر اس موضوع پر تحریر کیا ہے. جو ہم تک پہنچ پائی ہیں درج ذیل ہیں:

۱. ابن حزم (۴۵۶ھ) الفصل فی الملل والأهواء والنحل

۲. إمام غزالی (۵۰۵ھ) الاقتصاد فی الاعتقاد

۳. قاضی عياض الأندلسی (۵۴۴ھ) الشفاء

اس موضوع پر لکھنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے جن کی تفصیل کا یہ مختصر مرقومہ متحمل نہیں ہو سکتا. بہت سے محدثین نے ان علماء کے نام تحریر کیے ہیں جنہوں نے اعجاز القرآن کی فکر کوبیان کیا ہے. اور اس میں انہوں نے اپنی رائے کا اظہار بھی کیا ہے. (۸) یہ قرآن عظیم کا ایسا اعجاز ہے کہ لوگ ورطۂ حیرت میں پڑ جاتے ہیں. مسلسل اس کے اعجاز پر گفتگو کر تے رہتے ہیں. ان میں ایسے بھی ہیں جو کلمات کی فصاحت، اور اسلوب بلاغت میں اس کی معجز بیانی میں محو رہے ہیں. کوئی حکایات و قصص میں، کوئی اخبار میں، کوئی غیب اور مستقبل کی خبروں میں وغیرہ وغیرہ. (۹)

قرآن مجید آسمانی وعدہ کے وفا کی صورت ہے جو اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو زمین پر اتارتے وقت کیا تھا. یہ کامل و اکمل ہدایت ہے جو ایک مخلص طالب بآسانی اخذ کر سکتا ہے. یہ اسے سعادت ابدی اورنجات دائمی سے سرفراز کر سکتی ہے اور یہی تمام بنی نوع انسان کے لیے نوید ہے. انسان کے غم و آلام کو دور کرنے اور اس کے دکھوں کا مداوا کرنے والی ہے، اور اسے ہر طرح کے خطرات سے تحفظ اور امان فراہم کرنے والی ہے. ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اهْبِطُواْ مِنْهَا جَمِيعاً فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ‘‘ (۱۰)

’’تم سب جنت سے اتر جاؤپھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کا پیرو ہوا اسے نہ کوئی اندیشہ ہو گا اور نہ کوئی غم. ‘‘

انسان مسلسل ہدایت و راہنمائی کا محتاج رہا ہے جو آسمان سے وقتا فوقتا نازل ہوتی رہی. اس کی عقل نموپاتی رہی، دانش پروان چڑھتی رہی، اس کی ذہانت و فطانت مسلسل بڑھتی رہی، اوراس کی ذکاوت پختہ ہوتی رہی تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اپنی رحمت ،بحر و بر پر اپنا فضل و کرم عام کرنے،عالم بشریت کو جہالت و گمراہی کی تاریکیوں سے نکال کر نور ہدایت سے آشنا کرنے کا ارادہ کیا، تو فرمایا:

’’هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ‘‘ (۱۱)

’’وہ ذات ہے جس نے امیین میں ان میں سے ایک عظیم الشان رسول بھیجا، جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا. ان کا تزکیہ نفس فرماتا ، اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے. ‘‘

اللہ تعالیٰ نے اسے انسانیت کا خلاصہ اور گزشتہ انبیاء و رسل کا انتخاب بنایا ہے. اسے کامل رسالت و نبوت سے سرفراز فرمایا ہے: ’’يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا‘‘ (۱۲)’’آپ فرمائیے اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں. ‘‘

’’ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ‘‘(۱۳)’’اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت‘‘

اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے انسانیت کو بشارت عظمیٰ سے ہمکنار کیا، اپنے احکامات کی مخالفت کرنے اور راہ راست سے انحراف کے عواقب و انجام سے ڈرایا. آپ کے متبعین اور پیروکاروں کو اپنے فضل و کرم سے نوازا اور اپنے انتہائی لطف و کرم سے انہیں اس کا سزوار ٹھہرایا:

’’يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا. وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا. وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ بِأَنَّ لَهُم مِّنَ اللَّهِ فَضْلًا كَبِيرًا ‘‘ (۱۴)

’’اے نبی ہم نے آپ کو شاہد و مبشر، نذیر اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے داعی بنا کراور چمکتا آفتاب بنا کر بھیجا،اور ایمان والوں کو خوشخبری دیجئے کہ ان پر اللہ کا بڑا فضل ہے. ‘‘

آپ کی نبوت و رسالت کے لیے گوشہ تنہائی کو مقدر کیا اور سرمدی معجزہ سے اس کی تائید کی، تاکہ وہ ہر دور اور زمانہ کے ساتھ ہم آہنگ ہو اور جب تک آثار حیات موجود اور ناطہ زیست برقرار ہے، ان کے ساتھ ساتھ رہے. طاعت شعار اہل ایمان کی راہنمائی کا فریضہ ادا کرتا رہے. اور معاندین و منکرین کو مسلسل چیلنج کرتا رہے. ان کے لیے جاذب و پرکشش ہو اور ان کے افکار میں تغیر پیدا کر دے، تا کہ خواب غفلت سے بیدار ہوکر اپنے خالق و مالک کی طرف لوٹ آئیں. اور فلاح و نجات کا سامان کر پائیں.

جناب سید انام عليه السلام کا یہ سرمدی معجزہ قرآن عظیم ہے اور یہ کوئی انوکھا یا عجیب معجزہ نہیں جیسا کہ آپ عليه السلام کی ذات انبیاء میں عجیب نہیں.

ارشاد باری تعالیٰ ہے:.

’’ قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنْ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ‘‘ (۱۵)

میں رسولوں میں انوکھا نہیں ہوں اور مجھے نہیں معلوم کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا ہو گا. میں تو اسی کی اتباع کرتا ہوں جو میری طرف وحی کیا جاتا ہے اور میں نہیں مگر واضح ڈر سنانے والا. ‘‘

یہ اللہ تعالیٰ کا طریقہ کار ہے کہ وہ لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے رسول مبعوث فرماتا ہے اور انہیں معجزات سے نواز کر ان کی تائید کرتا ہے جو ان کی صداقت پر دال ہیں کہ انہیں خالق کائنات کی طرف سے رسول برحق مبعوث کیا گیا ہے.  

یہ بات طے ہے کہ یہ دلیل خارق عادت (خلاف معمول)ہے کیونکہ دیگر تمام لوگ ایسا کرنے سے عاجز و قاصر ہیں، اسی لیے اسے معجزہ کہتے ہیں. یہاں دلیل اور چیلنج درست ہو جاتا ہے.  

قرآنی نصوص سے اس بات کا استنباط ہوتا ہے کہ علماء کے نزدیک یہ بات ثابت ہے کہ انبیاء کی تاریخوں کی جستجو کی جائے کہ یہ تائید(معجزات) انبیاء کی دعوت کے لیے ہے، اس کا تعلق ان علوم و فنون سے ہے جو ان اقوام میں بام عروج پر تھے. اگر کسی رسول کے ہاتھ سے کسی ایسی امر کا ظہور ہوا جو لوگوں کے فہم و ااراک اور ان کی عقل ودانش سے ماورا تھاتوپھر یہ بات واضح ہے کہ وہ طاقت انسانی سے باہر ہے، اوردوسرے لوگ ایسے کرنے سے عاجز و قاصر رہے تو یہی ہے اعجاز. یہی خارق عادت ہے. بھڑکتی آگ کو پر امن اور سکون و سلامتی والی بنانا، یہ خارق عادت ہیں.  

ڈاکٹر حفنی شرف معجزات موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہیں:

جب موسیٰ علیہ السلام کو اپنی قوم کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا، وہ سحر میں مشہور تھے. اور اس میں وہ بہت آگے نکل گئے تھے. اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ آپ کو وہ معجزہ دیا جائے جو انوکھا ہو، نرالا ہو تو : 

’’ فَأَلْقَى عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُّبِينٌ. وَنَزَعَ يَدَهُ فَإِذَا هِيَ بَيْضَاء لِلنَّاظِرِينَ‘‘. (۱۶) ’’آپ نے اپنا عصا پھینکا تو اسی وقت وہ واضح اژدہا بن گیااور اپنا ہاتھ نکالا تو وہ دیکھنے والوں کے لیے روشن وسفید تھا‘‘

اس کے بعد ڈاکٹر حفنی محمد شرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کے حوالے سے لکھتے ہیں:

جب آپ کو اپنی قوم کی طرف مبعوث کیا گیا تو ان کی طب و حکمت میں شہرت تھی. اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ حضرت عیسیٰ کے ہاتھ سے کوڑھ زدہ ، ابرص رسیدہ، افراد کو شفایاب کرے اور وہ باذن الٰہی مردوں کو زندہ کریں.

ان دو مثالوں کو بیان کرنے کے بعد وہ ان پر تعلیق لاتے ہیں:

یہ کہا جاتا ہے کہ معجزات ایسی نوع سے تعلق رکھتے ہیں جو عام ہو.  

میں کہتا ہوں، کہ بیشک معجزات در حقیقت شائع و ذائع قبیل سے تعلق رکھتے ہیں لیکن یہ اپنے اندر ایسا جذب و طاقت ، کشش و فروغ اور ایسی فضیلت رکھتے ہیں کہ ان کے آگے ہمتیں جواب دے جاتی ہیں، ارادے دم توڑ جاتے ہیں، حوصلے پست ہو جاتے ہیں،موسیٰ علیہ السلام کا عصا ان کے جھوٹے افتراء کا قلع قمع کر رہا تھا. حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حکمت و طباطت تمام طرح کی حکمت پر بازی لے گئی. جب آپ نے باذن الٰہی مردوں کو زندہ کر دیا تو کسی اور کے پاس کوئی تریاق تھا نہ دوائی جو تن مردہ کے لیے جاں بخش ہوتی. (۱)

یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ جناب سرور کون ومکان کے معجزات کا تعلق فقط زمینی نہیں آسمانی بھی ہے. شق القمر، آفتاب کا پلٹنا، یہ ایسی تسخیر ہے کہ جہاں تک انسانی رسائی امر محال ہے، توڑنا اور لوٹانا تو بعد کی بات ہے. واقعہ اسراء و معراج تو اس پر مستزاد. آپ کے یہ معجزات بھی اپنی نظیر آپ ہیں.  

جب ان تمام چیزوں سے آگہی ہو گئی اور جناب سرور کون ومکاں عليه السلام کے معجزات کی نفاست، قدر و قیمت، اور بر تری واضح ہو گئی اور دنیائے حیرت میں ڈال دینے والے معجزات کوپہچان لیاتو پھر کیا خیال ہے؟ . . . یہ قرآن مجید ہے. آپ کی رسالت پر حجت، آپ کی دعوت کی صداقت پر دلیل اور یہ آپ کی قوم میں اپنی فصاحت و بلاغت، پراثر تعلیمات، دلکش اسلوب، الفاظ و تراکیب کے شکوہ، سحر آفریں بیان کی وجہ سے عروج پر رہی. جہاں مثالی شاعر اور کمال کے خطیب اور بڑے بڑے فصحاء و بلغاء بھی اس کے آگے دم بخود تھے.  

ڈاکٹر حفنی معانی کی وسعت کے حوالے سے رقمطراز ہیں:

قرآن کریم، بلاغت کے تمام فنون کا جامع ہے. فصاحت و بیان کے تمام اطراف اور گوشوں کو شامل ہے،اپنے نظم میں پختہ ہے،اسلوب میں یکتا ہے،اس کے الفاظ کے جمال و رعنائی کو دیکھیں کہ وہ کس خوبصورت انداز میں اپنے معانی کے دھارے میں ڈھلے آتے ہیں. جب آپ اس کے بحر معانی میں غوطہ زن ہوں گے تووہ گوہر ہاتھ آئے گا جس کے ذریعے اس کے معانی کو دیکھیں گے کہ وہ اپنے الفاظ کے کس طرح مطیع ہیں. بار بار باریک بینی سے غورکرنے کے بعد آپ یہ دیکھ کر کر حیران ہو ں گے کہ الفاظ معانی کے مطیع ہیں یا معانی الفاظ کے. تب آپ یقیناًاس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ آپ ایسا کلام پڑھ رہے ہیں جو کسی بشر کا کلام نہیں بلکہ اس خالق کائنات کا کلام ہے کہ جس کی کائنات کی رنگینیوں نے انسان کو حیرت میں ڈالا ہوا ہے. جس کی ندرت و نضارت آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے. (۱۸)

جناب رسول خدا عليه السلام کے دست اقدس سے بہت سے ایسے امور کا صدور ہوا ہے جن کی نیرنگی نے روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کو ایسا کرنے سے عاجز کر دیا ہے. آپ کے معجزات میں شق القمر، انگشت ہائے مبارکہ سے پانی کے چشمے پھوٹنا، درخت کا چلنا،دودھ میں برکت، غزوہ احزاب کے دوران کھانے میں برکت وغیرہ دیگر بہت سے معجزات ہیں. یہ تمام معجزات کتب سیر و تاریخ، خصائص میں مروی ہیں لیکن یہ سارے وقتی ہیں. ان تمام کا تعلق ایک خاص موقع و محل اور وقت سے ہے اور غزوہ حنین میں کائنات والوں کو یہ منظر بھی دیکھنے کو ملا کہ ایک طرف لاکھوں کی تعداد میں ، مسلح لشکر عظیم ہے ، جس کی ہیبت سے لشکر اسلام پسپا ہو رہا ہے، مگر وہاں پر صرف اللہ تعالیٰ کے رسول جناب محمد مصطفی عليه السلام اس کے سامنے کوہ ثبات بنے کھڑے ہیں. علامہ محمد فیومی میں کہتے ہیں:

اذ فی حنين تولی الجيش من هزماوالمصطفی لم يزل بالله معتصمارمی الأعادي فأعمی کل حين رمینبذا به بعد تسبيح ببطنهما(۱۹)

یہ ذات رسول خداعليه السلام کے مقدس آثار ہیں. مگر آپ عليه السلام کا عظیم معجزہ جو اپنے اندر ابدیت کا جذب لیے ہوئے ، ہر دور میں معانی و مفاہیم کا عروج ہے، ہر زمانہ اور دور سے ہم آہنگ تعلیمات کا حامل ہے، تغیرات احوال میں ترقی کی نت نئی جہتوں سے آشنا کر رہا ہے، وہ معجزہ قرآن عظیم ہے، جو وقت نزول سے آپ کی اور آپ سے پہلے رسولوں اور کتابوں کی تصدیق کر رہا ہے اور آپ کی دعوت کو ثابت کر رہا ہے، منکر و معاند کو چیلنج کر رہا ہے. چیلنج کا آغاز اس جیسا کلام لانے سے ہو رہا ہے. اگر وہ اپنے دعویٰ میں حق بجانب ہیں تو اس جیسا کلام لا کر دکھائیں.  

فليأتوا بحديث مثله ان کانوا صادقين (۲۰) اگر وہ سچے ہیں تو اس جیسا کلام لائیں.

وہ ایسا کلام لانے سے قاصر تھے. اور ان کی کیا مجال کہ وہ ایسا کر پاتے. کیا بندے کے لیے ممکن ہے کہ درجہ ربوبیت تک رسائی پائے. یہ قرآن تو بڑی قدرتوں والی اور بہت علم والی ہستی کا کلام ہے تو پھر بندے کے لیے کہاں ممکن کہ وہ ایسا کلام لائے. جب ان میں بہت سے حقیقت کا ادراک نہ کر سکے اور مسلسل اپنی گمراہی میں سرگرداں رہے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کی ناقص فہمی اور فساد عقلی پر تنبیہ فرمائی اور اس حقیقت کی طرف ان کے ذہنوں کومتوجہ کرکے فرمایا:

’’ أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّثْلِهِ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ‘‘ ( ۲۱)

’’یا کہتے ہیں: گڑھ لیا ہے اسے، فرمائیے: اس جیسی گڑھی ہوئی دس سورتیں لے آؤ اور اللہ کے علاوہ جس کو چاہو بلا لو اگر تم سچے ہو. ‘‘

اس کے نزول میں ان کے لیے بڑی وسعت اور رعایت ہے. اس کے باوجود ہر چیز سے ان کا عجز اور درماندگی کوتاہ ہمتی ظاہر ہو رہی ہے. اس کے نتیجہ میں یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو رہی ہے کہ قرآن ایک بلند و برتر ہستی کا کلام ہے. انہیں اس قدر رعایت اور وسعت دی گئی ہے، لیکن اس کے باوجود ان میں یہ ملکہ و اہلیت نہیں کہ وہ اس قرآن جیسا کلام لانے میں ان کا معین و یاور ہو سکے. جب ان کا عجز واضح ہو گیا تو انہیں ہر طرح کی چھوٹ دے دی گئی اور ان سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ اس جیسی ایک ہی سورت لے آئیں اورحدیث میں آتا ہے کہ یہ چیلنج ان سے کسی بڑی سورت لانے کے لیے نہ تھا بلکہ ایک چھوٹی سورت لانے کے لیے تھا جیسا کہ ان کے سامنے سورہ کوثر کوبطور چیلنج لایا گیا جو صرف تین آیات پر مشتمل تھی. ان میں معاندین و مخالفین کے لئے سخت وارننگ اور تحذیر ہے. اور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ و السلام کو مژدہ دیا گیا ہے اور قلب اطہر کی تسکین و تثبیت کا سامان ہے. اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 

وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُواْ شُهَدَاءكُم مِّن دُونِ اللّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ. فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ وَلَن تَفْعَلُواْ فَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ ‘‘(۲۲)

’’اگر تمہیں کچھ شک ہو اس میں جو ہم نے اپنے (خاص) بندے پر اتارا تو اس جیسی ایک سورت تو لے آؤ اور اللہ کے سوا اپنے تمام حمائتیوں کو بلا لو، اگر تم سچے ہو. ‘‘

ڈاکٹر حفنی محمد شرف رقمطراز ہیں:

جب ایک چھوٹی اور انتہائی مختصر سورت لانے سے وہ عاجز آ گئے تواس سے دلیل ہی کا سدباب ہو گیا، ان کو منہ توڑ جواب دیدیا گیا. اللہ تعالیٰ کے ارشاد ’’مثلہ ‘‘ میں ضمیر کا مرجع منزل ہے نہ کہ منزل علیہ. کہ چیلنج میں کسی طرح کوئی تنگ دامانی نہ ہو، پوری وسعت اور چھوٹ دے دی گئی . پہلے سارے قرآن کے مقابلہ میں صرف دس سورتیں لانے کا تقاضا تھا، پھر دس سے ایک سورت. اس میں مکمل طور پرتوسیع ہے. وہ اس کے مقابل نہ لاسکے. اگر کوئی چیز اس کے مقابل لائی جاتی تو یہ پردۂ خفا میں نہ رہتی بلکہ عام ہوتی اور اس سے کسی صورت بھی صرف نظر نہ کیا جاتا. مسلسل نقل کی جاتی، کیونکہ نقل کے اسباب ناپید نہ تھے بلکہ بہت تھے، باقی قطعیات کی طرح اس کا علم بھی قطعی حیثیت رکھتا ، اس میں ذرا بھر بھی جرح و قدح کا احتمال و شائبہ نہ رہتا کہ انہوں نے تو مقابلہ و معارضہ کیا لیکن لاپرواہی اور عدم التفات اور ضروری امور میں مصروفیات جیسے موانع کی وجہ یہ منتقل نہ ہو سکا. میں وہی بات کہہ رہا ہوں جو علامہ تفتازانی نے شرح المقاصد میں کہی کہ’’ رسول اللہ عليه السلام نے قرآن کریم کے ساتھ چیلنج دیا اور عرب کے فصحاء وبلغا وغیرہ کو دعوت دی کہ وہ اس جیسی کوئی ایک سورت لائیں. حالانکہ فصحاء کی تعداد بھی کوئی کم نہ تھی. ایک سے ایک بڑھ کر موجود تھا. ان کی شہرت آسمانوں سے باتیں کر رہی تھی، جاہلی حمیت و غیرت اس پر مستزاد. وہ اس جیسی مثال لانے سے عاجز آ گئے یہاں تک کہ انہوں نے مقابلہ پر مقارعہ(مخالفت) کو ترجیح دی اور مدافعت کی خاطر اپنی جانیں لڑا دیں. اگر وہ مقابلہ پر کوئی چیز لاسکتے تو ضرور لاتے اور اگر وہ سامنا کرتے اور کوئی چیز لاتے تو ضرور وہ ہم تک نقل ہوکرپہنچ جاتی. کیونکہ نقل کے ذرائع کی بھی کمی نہ تھی. (۲۳)

جناب رسول اللہ عليه السلام کا معجزہ قرآن کریم ہے. وہ لوگوں کو اپنے رب کی طرف بلاتا ہے، اپنے پیروکاروں کو کامیابی و کامرانی کی نوید دیتا ہے، ان کی اصلاح و درستی، نجات اور سعادت اور فیروز بختی کا ضامن ہے، اپنے معاند و مخالف کو برے انجام سے ڈراتا ہے، وہ انسانی ہدایت کا خواہاں ہے، ان کی فوزوفلاح اور نجات اس کے اہداف واغراض ہیں، اس لیے کہ یہ علوم اولین و آخرین کا حامل و جامع ہے.   استاذ مصطفی صادق الرافعی کہتے ہیں:

ہمارے بعض علماء نے قرآن کریم سے ایسی چیزوں کا استخراج کیا ہے جو اختراع وایجاد کے وقوع پذیر ہونے اور علوم طبعی کے بعض غوامض کے ثبوت و تحقق کی طرف اشارہ کرتی ہیں اورانہوں نے اسے پورے شرح و بسط سے بیان کیاہے، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان جدید علوم کا متحقق اگر قرآن کریم کا بنظر عمیق مطالعہ کرکے اس میں تدبر اور غور وفکر کرے جب فہم و ادراک میں کوئی چیز سد راہ نہ ہو اور کوئی اور رکاوٹ اس میں حائل نہ ہو تو پھر اس سے بہت سے ایسے اشارات نکلیں گے جو حقائق علوم سے آشنا کریں گے. اگرچہ ان کا پہلے کوئی نام اور ذکر نہ بھی ہو. ہاں البتہ یہ مختلف علوم قرآن کریم کی بعض آیات کے معانی اور مفاہیم کی تفسیر سمجھنے اور اس کے حقائق سے نقاب کشائی میں ضرور معاون ہوں گے. اوراس میں غواصی کرنے والے کے لیے اس میں بڑی وسعت اور کشادگی ہے، اس سے ایک طرف تو اس کے لیے درست روی یقینی ہو گی اور دوسری جانب اس کی رائے مضبوط ہو گی یہی چیز ذہن کو شاداب اورزرخیز بناتی ہے اور اسے اس میں سے لینے کے لیے ایک بہترین کفگیر میسر آ جائے گا جس کے ذریعے وہ دلیل اور برہان نکال لائے گا اگرچہ وہ تحت الثری میں ہی کیوں نہ ہو، اوراس پر حجت نازل ہو گی اگرچہ وہ آسمان پر ہی کیوں نہ ہو. (۲۴)

اور اس میں ذرا بھر بھی شک نہیں کہ یہ علوم تحقیق اورصحیح آثار کے انسانی نفوس کے ساتھ متصل ہو جانے کے بعد انہیں ایک غایت ومقصد سے ہمکنار کردیتے ہیں اور یہ اسلام کی صداقت کا واضح ثبوت ہے. یہ ایسی واضح حقیقت ہے جس میں کسی شک و شبہ کی قطعا کوئی گنجائش نہیں اور یہی اللہ تعالیٰ کی فطرت جس پر اس نے انسانوں کو پیدا فرمایا ہے. یہی انسانیت کا دین فطرت ہےاورروئے زمین پر عقل انسانی آخری نبی ہو گی، کیونکہ جو قرآن لے کر آئے ہیں وہ لوگوں میں تمام انبیاء کے بعد آئے ہیں. وہ ان کے پاس دین کامل لے کر جلوہ گر ہوئے ہیں. اور جو اللہ تعالی کی طرف بلانے والے کی دعوت پر لبیک نہیں کہتا وہ زمین پر معجز نہیں ہے.

قرآن کریم نے ان علوم کی بنیاد اورتحقیق وغایت کی طرف اشارہ کیا ہے، جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے. اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ‘‘(۲۵)

’’ہم جلد انہیں آفاق میں اور ان کی اپنی ذات میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ حق ان کے سامنے آشکارا ہو جائے. کیا آپ کا رب ہر چیز پر گواہ کافی نہیں . ‘‘

اگرتمام اقسام کے انسانی علوم جمع کر لیے جائیں پھر بھی وہ (فی الآفاق و فی أنفسهم) میں پنہاں معانی تک رسائی حاصل نہ کر پائیں گے. یہ آفاق ہیں ، اور وہاں اور بھی آفاق ہیں. اگر ظاہر اعجاز کی یہ تعبیر بدیہی نہیں تو پھر افہام میں کوئی چیز بھی درست نہیں.

یہ تو اس کتاب کے دلائل اعجاز ہیں کہ انسان اپنے کمزور علمی وسائل کی وجہ سے یا آسمانوں پر کمندیں ڈالنے اور زمین کا احاطہ نہ کرنے کی وجہ سے مختلف ادوار میں اس کی تفسیر میں غلطی کرے. جب بھی فکر ونظر کی جولانیاں پروان چڑھتی ہیں ، علوم کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے، تو ان کی وجہ سے نئی راہیں کھلتی ہیں، نئی چیزیں دریافت ہوتی ہیں، حقائق آشکارا ہوتے ہیں. جب تحقیق و تفحص کے تمام ذرائع پایۂ تکمیل کو پہنچ جاتے ہیں تو فطرتی حقائق کی نقاب کشائی ہوتی ہے. گویا یہ ایسا مقصد تھا جس کی جانب عقل انسانی مسلسل سفر کرتی رہی ہے. یہاں تک کہ گویا یہ علمی ذرائع جب زمین و آسمان کی نشانیوں کی طرف دعوت فکر دیتے ہیں تو یہ قرآن عظیم کی آیات میں بھی غور و فکر کی طرف متوجہ کرتے ہیں.

(وَاللّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ)(۲۶)،(۲۷) اللہ تعالیٰ اپنے امر پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ اس حقیقت سے آشنا نہیں ہیں۔

)یہی وہ قرآن عظیم ہے . جناب خاتم الانبیاء عليه السلام کا معجزہ ہے جس سے قصر نبوت اور اللہ تعالیٰ کے دین کی تکمیل ہوتی ہے، بندوں پر اس کی نعمت تمام ہوتی ہے اور لوگوں پر اس کی رحمت عام ہوتی ہے. اور یہ بھی ضروری تھا کہ آپ عليه السلام کو ایسے معجزے سے نواز جاتا جو ان معجزات سے یکسر مختلف ہو جو دیگر انبیاء کو عطا فرمائے گئے. شیخ محمد عبدہ کہتے ہیں:

وکان السائد فی الديانات السابقة أن تکون الآيات الدالة علی صدق الأنبياء حسية لأنها کانت لا تخاطب العقول، لأن العقول لم تبلغ بعد درجة النضج و الرشاد، وانما کانت تعتمد علی خوارق العادات من المعجزات المادية الملموسة لأن الطفل لايؤمن الا بما تدركه حواسه تمام الادراک، فالنار تتحول الی برد و سلام، العصا تنقلب ثعبانا، والجبل يرتفع فوق الرؤوس ثم يعود إلی مکانه، والبحر ينفلق الی شقين، کل شق منها کالطود العظيم، والصخرۃ تنشق فتخرج منها ناقة ثمود، وعيسی يبرئ الأکمه والأبرص والأعمی ويحي الموتی باذن الله، وهكذا کانت تتوالی المعجزات الحسية المادية لتأييد الرسالات بدلا من أن تتوالی الأدلة العقلية و البراهين المنطقة، والشواهد العلمية لأن الله ادخرها الی أن یبلغ العقل البشري النضج والتمام، فتهبط عليه رسالة الاسلام، وقد جرت علی يد محمد عليه السلام وعلی آله، بعض المعجزات المادية یعتبر بها من تخلف عقله عن ادراک المعنویات، ولکن معجزۃ آخر الأنبياء عليهم جمیعا أفضل الصلاۃ والسلام ، کانت معجزۃ عقلية خالدۃ، ليست محدودۃ بزمان ولا مکان، وليست مقصورۃ علی من يشاهدون المعجزات المادية وحدهم، في فترۃ محدودۃ، وهم قلة محدودۃ، وهم غير حجة علی من لم يشاهد أمثال هذه المعجزات.

أما معجزة الاسلام المعنوية الخالدة التي یعرضها الله تعالی علی جميع العقول في جميع العصور هي ’’القرآن الکريم ‘‘وهو کمعجزة قائمة علی النظر العقلي، والتدبر الفکري والاستدلال العلمي، مهما اختلفت الصور وتعددت الغايات. ‘‘ (۲۸)

’’سابقہ ادیان میں یہ طریقہ رائج رہا ہے کہ وہ معجزات جو انبیاء کی صداقت پر دلالت کرتے ہیں وہ حسی تھے. اس لیے کہ ان کے مخاطب عقول نہ تھیں، کیونکہ عقول تو پختہ تھیں نہ راہنمائی حاصل کرنے کے درجے پر پہنچی تھیں، وہ مادی معجزات میں خوارق عادات پر اعتماد کرتی تھیں. کیونکہ بچہ اس وقت تک ایمان نہیں لاتا جب تک اس کے حواس مکمل طور پر کسی چیز کا ادراک نہ کرلیں. آگ کا ٹھنڈک وسلامتی میں بدلنا، عصا کا اژدہا بننا، پہاڑ کا سروں پر بلند ہونا اور پھر اپنی جگہ پلٹ آنا، سمندر کا دو حصوں میں پھٹ جانا اور ہر حصہ ایک بڑے پہاڑ کی مانند ہونا، چٹان کا پھٹنا اور اس سے ثمود کی اونٹنی کانمودار ہونا، حضرت عیسیٰ کا کوڑھے، بر ص زدہ اور اندھے کو درست کرنا اور اللہ کے حکم سے مردے کو زندہ کرنا، اسی طرح سابقہ رسالتوں کی تائید میں عقلی دلائل، منطقی براہین، علمی شواہد کے تسلسل کے بجائے حسی معجزات کا ایک تسلسل تھا . کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جمع رکھا کہ عقل انسانی پختہ اور مکمل ہو جائے، پھر اس پر رسالت اسلام کی عمارت قائم کر دی جائے.

جناب رسول اللہ عليه السلام کے دست اقدس پر بعض مادی معجزات کا ظہور بھی ہوتاکہ جس کی عقل معنویات کے ادراک سے قاصر ہے،وہ اس سے سامان عبرت کرلے. لیکن خاتم الانبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا معجزہ (قرآن)عقلی سرمدی معجزہ ہے، یہ کسی زمان و مکان کی قید میں مقید نہیں ، نہ یہ حسی اور مادی معجزات کا مشاہدہ کرنے والوں تک محدودعرصہ تک محدود ہے اور وہ بہت کم لوگ ہیں اور جس نے اس طرح کے معجزات نہ دیکھے ہوں ان کے لیے یہ لوگ کوئی دلیل اور حجت بھی نہیں ہیں.

جہاں تک اسلام کے دائمی و سرمدی معنوی معجزے کا تعلق ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تمام زمانوں میں تمام عقول کے سامنے رکھا ہے،وہ ’’قرآن کریم‘‘ ہے. اور یہ معجزہ، نظرعقلی ، تدبر فکری، اور استدلال علمی پر قائم ہے. خواہ اس کی صورتیں اور مقاصد کتنے ہی مختلف اور متعدد ہوں.

قرآن کریم، جناب امام الانبیاء ، ختم المرسلین عليه السلام کا معجزہ ہے، آپ کی رسالت اس پر قائم ہے اور یہ ابدی و سرمدی ہے، جب تک نظام دنیا قائم وباقی اور یہ ہستی آباد ہے یہ بھی باقی ہے . اس لیے اس رسالت کے لیے ایسے معجزہ کی ضرورت تھی جو ہمیشہ اور باقی رہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے.  انا نحن نزلنا الذکر وانا له لحافظون(۲۹)

قرآن مجید کے لطائف و اعجاز کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے انسان کو انتہائی حیرت و استعجاب میں ڈال دیا ہے. زمانہ نزول سے لے کرآج تک لوگ اس کی اثر آفرینی سے محو حیرت ہیں، اس کے جمال و رعنائی اور عمدگی و دلآویزی پر انگشت بدنداں ہیں. ایک مومن ، اس کا دل و جان سے چاہنے والا ہے، اور مخالف و معاند اس کی اثر آفرینی سے مسحور ہے. آغاز نزول سے آج تک ہر دور میں لوگ اس کی سحر آفرینی میں یکسر محو چلے آ رہے ہیں. وہ اس کے آگے تصویر حیرت بنے کھڑے ہیں،جو اس کے اعجاز کے معترف ہیں وہ اسے خاتم النبیین جناب محمد مصطفی عليه السلام کا عظیم معجزہ گردانتے ہیں. جیسے ہی وہ کسی بات اور رائے پر متفق ہوتے ہیں وہ قرآن عظیم کی توصیف کرنے لگ جاتے ہیں. غالباً یہی اس کا اعجاز ہے، ہر شخص مختلف زاویوں سے اس کے اعجاز سے لطف اندوز ہو رہا ہے. ہر کوئی اس میں ایسی چیز محسوس کرتا ہے جو انسانی طاقت سے برتر ہے. یا خلاف عادت ہے، کوئی تو اس کے الفاظ میں اعجاز دیکھ رہا ہے، کوئی اسلوب میں، کوئی بلاغت میں، کوئی اس کے قصوں اور حکایات میں، اور علماء زمانہ ماضی اور مستقبل میں اس کے علوم اور اخبار میں اعجاز دیکھ رہے ہیں. اعیان ظاہری یا احساسات قلبی جن کو صرف رب ذوالجلال کی ذات ہی جانتی ہے، میں اعجاز دیکھتا ہے. ایک نکتہ داں ، اس کے عجائبات نکات پر مجسمہ حیرت بنا ہوا ہے، ایک فقیہ اس کی فقہی موشگافیوں پہ سر دھندتا ہوا نظر آتا ہے. ایک ادیب اس کے اسلوب اور اس کی فصاحت و بلاغت پر عش عش کر رہا ہے. ایک فلسفی اور منطقی اس کی کلامیت پر دم بخود ہے، ایک سائنسدان اس کی پہلے سے بیان کردہ تعلیمات پر سر پکڑے بیٹھا ہے. غرض شعبہ ہائے زیست کے تمام نواحی و جوانب کے لیے وہ کامل واکمل تعلیمات کا سامان ہے کہ ہر کوئی اس کے اعجاز سرمدیت کے آگے سرتسلیم کررہا ہے.  

حقیقت یہ ہے کہ قرآن عظیم نے آج تک جن لا تعداد حقائق و مسائل اور انکشافات و ایجادات کی راہ دکھائی ہے، وہی اس کے معجز ہونے پر دال ہے. ابھی بہت کچھ پردۂ خفاء میں ہے، جب ان کی حقیقت انسان کے سامنے جلوہ گر ہو گی تو اس کی حیرت کا کوئی ٹھکانا نہیں رہے گا. روز افزوں ناقابل یقین حقیقتیں سامنے آ رہی ہیں، جن کو اپنے سامنے دیکھ کر تو انکار کی قطعا کوئی گنجائش نہیں رہتی. علماء محققین و مجتہدین کا تحقیق و مطالعہ جس قدر بڑھتا چلا جائے گا ، اس قدر نئے علوم و فنون اور ایجادات کی جلوہ گری ہو گی اور جیسے جیسے کائنات کے اسرار سے پردہ سرکتا جائے گا، نت نئی حیران کن چیزیں وجود میں آئیں گی توانسان یہ کہنے پر مجبور ہو گا کہ جن چیزوں کو قرآن عظیم نے صدیوں پہلے بیان کر دیا وہ آج حقیقت کا روپ دھار کر سامنے آ چکی ہیں. زمانے کے تسلسل نے انہیں نئے انداز عطا کر دیئے ہیں. حالانکہ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ عیاں ہے کہ قرآن مجیدکوئی سائنس کی کتاب نہیں ہے. یہ روئے زمین پر بسنے والوں کے لیے پیغام الٰہی ہے، تا کہ وہ اس کی تعلیمات کی روشنی میں اپنی دنیوی زندگی کو اچھے انداز سے سے گزار کر سعادتمندی سے بہرہ اندوز ہوکر اخروی زندگی کے لیے اپنی نجات و فلاح کا سامان کر سکیں، کیونکہ دارین میں ترقی اور کامیابی و سرفرازی اس کے احکامات کی بجاآوری اور منہیات کو ترک کرنے میں ہی مضمر ہے.  

جب قرآن عظیم رسول خدا عليه السلام کا عظیم ترین معجزہ ہے تو اس کا سب سے بڑا اعجاز ان عربی امتوں میں سے ایک نئی امت کی تخلیق ہے جو اس وقت انسانی معاشرے سے ہٹ کر زندگی گزار رہی تھی، جن کا کسی گروہ اور جماعت میں شمار نہ تھا. لیکن جب وہ قرآنی نصوص سے آشنا ہوئے تو اس کے معانی کے بحر ذخار سے ایسے ایسے مفہوم کے جواہرات ڈھونڈ ڈھونڈ نکال لائے جن کی چکا چوند سے زمانے کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں. قرآن کریم نے ان کی راہنمائی اوردستگیری کی اور اسے اوج کمال تک پہنچا دیا. اس میں روح تازہ پھونکی، اسے وہ عزت ،شان و شوکت، وجاہت و شہامت، عظمت و وقار، رعب و دبدبہ عطا کیاکہ تاریخ انسانی میں اس نے اسی شان و عظمت سے زندگی گزاری. پھر اس امت میں ایسے علماء پیدا ہوئے جن کے علمی کمالات کی رسائی نے آسمانوں پر کمندیں ڈالیں، ہر شعبہ ہائے زندگی میں قائدین اور مردان آہن پیدا ہوئے جن کی سطوت کے آگے کشیدہ اور تنی گردنیں بھی خم ہو گئیں، جن کی شوکت قیادت کے پھریرے چاردانگ عالم میں لہرائے اور یہ اعلان وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (۳۰) اس کے لیے مہمیزکا کام دے رہا تھا.  

یہ سب قرآن کریم کی بدولت ہے، اس نے لوگوں کے ذہنوں پر قبضہ کیا، ان کی عقلوں کو اسیر کیا، ان کو نفوس کو اپنے سحر میں لیا. انہیں سیادت کلی اور قیادت عالمی کا اعزاز حاصل ہوا،اسی قرآن کے اجالے میں وہ جادۂ حیات کے مرحلے طے کر تے رہے، انہوں نے اسے دستور حیات بنا لیا، اپنے افکار کا پیشوا، اپنا ہادی و راہنما بنا لیا اور یہ قرآن حکیم کا سب سے بڑا اعجاز ہے.  

قرآن کریم جب کسی موضوع کو لیتا ہے یا کسی حکم اور مسئلہ کی تشریح و توضیح کرتا ہے تو وہ اس انداز سے بیان کرتا ہے کہ اس کے بعد کوئی گنجائش باقی رہتی ہے نہ کوئی فصاحت اس سے برتر ہوتی ہے. اگر کوئی قصہ و حکایت کا بیان ہے تو اس کو اسی اسلوب اور انداز میں بیان کیا ہے جو اس کا مقتضی ہے. اس میں حقیقت کا نور جھلکتا ہے. اگر موضوع احکامات میں کوئی حکم ہے تو الفاظ کا شکوہ ،اسلوب کا جمال، بیان کا حسن اور کلام کی چاشنی اور سحرآفرینی بھی جولانیوں پر ہے. یہ قرآن کریم ہی ہے کہ اپنے قصص کی وسعت اور اخبار میں حکمت و عبرت سے متعلق سچائی اور حقیقت کو نظر انداز نہیں کرتا. اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے، جب وہ اس بارے میں بیان فرماتا ہے:

’’تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ‘‘(۳۱)

’’اس کی ہیبت سے ان لوگوں کے جسم لرزہ بر اندام ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں،پھر ان کے جسم اور دل ذکر الٰہی کے لیے نرم پڑ جاتے ہیں. ‘‘

اور صاحب معجزہ جناب رسول خدا عليه السلام ارشاد فرماتے ہیں:

’’عن علی ابن أبي طالب قال: سمعت رسول الله عليه السلام يقول: أتانی جبريل عليه السلام فقال: يا محمد! ان أمتک مختلفة بعدك.

قال: فقلت له: فأين المخرج يا جبريل؟ قال: کتاب الله تعالیٰ، به يقصم الله کل جبار، من اعتصم به نجا، ومن تركه هلك، قول فصل، وليس بالهزل، لا تختلفه الألسن، ولا تفني أعاجيبه، فيه نبأ ما کان قبلکم، وفصل ما بينکم، وخبر ما هو کائن بعدکم. ‘‘ (۳۲)

اور مزید دیکھئے جناب رسول اللہ عليه السلام ارشاد فرماتے ہیں:

عن ابن مسعود عن النبی عليه السلام قال: ان هذا القرآن مأدبة الله فأقبلوا مأدبة ما استطعتم، ان هذا القرآن حبل الله و النور المبين، والشفاء النافع، عصمة لمن تمسک، ونجاۃ لمن تبعه، لا يزيغ فيستعتب، ولايعوج فيقوم، ولا تنقضي عجائبه ولا يخلق من کثرۃ الرد. (۳۳)

استاذ حسن ضیاء الدین لمتر کہتے ہیں:

سب سے بڑی اور جلیل ترجو چیز ہے وہ قرآن کریم کی خوبیاں ہیں، اور ان سب کی اصل اور چابی رسالت الٰہیہ ، اور اس کا معجزہ ہے. وہ دعوت ہے اوراس کے عمدہ دلائل . اس میں ذرا بھی مضائقہ نہیں کہ اس میں دلیل و مدلول اس طرح جڑے ہوئے ہیں جس طرح روح جسم کے ساتھ. بلکہ اس کا ملاپ اور جڑاؤ اس سے بھی مضبوط. قرآن کریم بذات خود رب ذوالجلال کی نازل کردہ وحی ہے، یہ ایسا خارق ہے جو تمام مخلوق کو عاجز درماندہ کر رہا ہے، جو اپنے مصدرکی الوہیت کو بتا رہا ہے. زمانے کے تیور بدلنے اور گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی صداقت آفتاب نصف النہار کی طرح عیاں ہے، اور آنے والی نسلوں کے لیے ایسے منہ توڑ دلائل قائم کرتا ہے کہ روشن ضمیر، اعلیٰ ذوق اور غلط روی سے محفوظ فطرتیں اس پر ایمان لانے اور اس کے مبلغ جناب محمد مصطفی علیہ التحیۃ و الثناء کی نبوت کو تسلیم کرنے کے سواکوئی چارہ کار نہ پائیں گی. (۳۴)

اور مزید کہتے ہیں: اور آپ دیکھیں گے کہ اپنی قدیم و جدید تاریخ میں، امت اسلامیہ نے اللہ تعالیٰ کی اس مقدس کتاب کا جس قدر علم حاصل کیا اسی قدر ترقی اور عروج کے مقامات مسلسل حاصل کرتی رہی اور اس کی تعلیم سے اعراض اور ترک کرنے میں انحطاط اور تنزل وزوال کا شکار ہوتی رہی.  ملت کی سرفرازی اس کو اپنانے میں ہے اب اس تناظر میں ہمارے اوپر اور ساری امت مسلمہ پر یہ بہت بھاری ذمہ داری ہے جس میں کسی طرح کا کوئی عذر بھی قابل قبول نہیں، کہ پوری ملت اسلامیہ اس کی روشن تعلیمات کو حرز جاں بنا کر اس پر عمل پیرا ہو. اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ ذمہ داری یاد بھی دلائی ہے.۳۵)

اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے:

فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ إِنَّكَ عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ، وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ وَسَوْفَ تُسْأَلُونَ (۳۶)

’’پس مضبوطی سے تھامے رہو جو وحی تمہاری طرف کی گئی بیشک تم سیدھی راہ پر ہو، اور بیشک وہ شرف ہے تمہارے لیے اور تمہاری قوم کے لیے اور عنقریب تم سے پوچھا جائے گا. ‘‘

قرآن کرىم کے اعجاز کو بىان کرتے ہوئے اللہ تعاليٰ نے ارشاد فرماىا ہے:

’’وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ‘‘(۳۷) اگر تمہیں (اس کے کلام الٰہی ہونے کے بارے میں) شک ہے جو ہم نے اپنے بندہ خاص پراتارا ہے تو اس جیسی ایک سورت لے آؤ.

اور اس چیلنچ کا سامنا نہ کرنے کی صورت میں ، ان سے کسی تاوان کا یا معاوضہ کا مطالبہ نہیں کیا گیا بلکہ ان کی رہبری کی بات کی گئی ہے اور عدم یقین و ایمان کی صورت میں انجام سے آگاہ کر دیا گیا ہے.

’’ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ وَلَن تَفْعَلُواْ فَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ‘‘(۳۸)

’’اگرتم نہ لا سکے اور تم ہرگز نہ لا سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں،جو انکار کرنے والے کے لیے تیار کی گئی ہے. ‘‘

حواشی وحوالہ جات

۱. ابن فارس ، احمد ، ابو الحسین القزوینی : معجم مقابيس اللغة ج ۱، ص ۲۳۲، مطبعہ الاعلام الاسلامی، طہران، ۱۴۰۴ھ

۲. الازہری، محمد بن احمد الہروی: تہذیب اللغۃ: ج ۱، ص ۳۴۰، وابن منظور، محمد بن مکرم، جمال الدین: لسان العرب (ع ج ز) ج۵، ص ۳۶۹. ۳۷۰

۳. ديوان الاعشیٰ: والبیت فی لسان العرب (عجز. أبق)

۴. الفیروزآبادی، محمد بن یعقوب ، ابوطاہر، مجدالدین القاموس المحیط: (ع ج ز) ج ۲، ص۱۸۸

۵. المناوی ،عبد الروؤف، التعاریف، طبعہ اول ۱۴۱۰ھ، دار الفکر ، بیروت، ت: د. محمد رمضان الدایہ، ج ۱ ص ۶۶۵

۶. علی بن ربن الطبری: یگانہ روز گار طبیب تھے. ۱۹۲ھ میں مرو میں پیدا ہوئے، عیسائی خاندان سے تعلق تھا. ان کے والد فلسفہ اور طب کے عالم تھے. والد نے انہیں بھی طب و فلسفہ، اور عربی کی تعلیم دلوائی. طبرستان میں حالات خراب ہونے اور فتنہ و فساد کی وجہ سے ’’رے ‘‘ آئے، محمد بن زکریا الرازی نے ان سے طب کی تعلیم حاصل کی، پھر یہاں سے ’’سامرا‘‘ آئے. معتصم کے عہد میں دیوان الانشاء کے سربراہ مقرر ہوئے. ۲۴۰ھ میں متوکل کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا. ۸۶۱ء؍۲۴۷ھ میں وفات پائی. (دائرہ معارف اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی۱۴؍۲، ص ۸۷. ۸۸

۷. الحمصی نعیم : فکرۃ اعجاز القرآن، ص ۴۰، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت

۸. تفصیلات کے لئے دیکھئے: اعجاز القرآن از عبد الکریم الخطیب، فکرۃ اعجازالقرآن از نعیم الحمصی، اور الاعجاز البیانی للقرآن الکریم از ڈاکٹر عائشہ عبد الرحمن بنت الشاطی، طبعہ دار المعارف، مصر.

۹. امام جلال الدین سیوطی نے اس حوالے سے اپنی کتاب ’’معترک الاقران فی اعجاز القرآن‘‘ (ت: علی محمد البجاوی،مطبوعہ دار الفکر العربی ، مصر)میں بڑی شرح و بسط سے لکھا ہے.

۱۰. البقرۃ: ۳۸

۱۱. الجمعۃ:۲ 

۱۲. الاعراف: ۱۵۸

۱۳. الانبیاء : ۱۰۷

۱۴. الاحزاب: ۴۵. ۴۶ 

۱۵. الاحقاف: ۹ 

۱۶. الشعراء: ۳۲. ۳۳

۱۷. حفنی محمد شرف، ڈاکٹر، اعجاز القرآن البیانی بین النظریۃ و التطبیق، ص ۴

۱۸. ایضاً

۱۹. الفیومی: الشیخ محمد ،شمس الدین، الکواکب الدریہ ،تخمیس علی البردۃ البوصیریۃ فی مدح خیر البریہ ، ص ۱۴، مکتبہ القاھرہ، میدان الازہر، مصر

۲۰. الطور: ۳۴ (ترجمہ) اگر وہ سچے ہیں تو اس جیسا کلام لائیں.

۲۱. ہود: ۱۳

۲۲. البقرۃ : ۲۳. ۲۴

۲۳. حفنی محمد شرف،ڈاکٹر، اعجاز القرآن البیانی بین النظریۃ و التطبیق، ص ۷،۸

۲۴. مصطفی صادق الرافعی، اعجاز القرآن والبلاغۃ النبویۃ، ص ۱۲۷،۱۲۸، دار الکتاب العربی، بیروت

۲۵. فصلت : ۵۳

۲۶. یوسف : ۲۱

۲۷. الرافعی ،مصطفی صادق ، اعجاز القرآن والبلاغۃ النبویۃ، ص ۱۲۷،۱۲۸

۲۸. من محاضرۃ ألقاھا الشیخ محمد عبدہ ، ضمن المحاضرات العامۃ للموسم الثقافی الثانی . الدورۃ الأولی. ص ۸۰، مطبعۃ الأزھر

۲۹. الحجر: ۹

۳۰. آل عمران: ۱۳۹

۳۱. الزمر: ۲۳ 

۳۲. دیکھئے الفتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد بن حنبل الشیبانی، احمد بن الرحمن البناء، ج ۱۸، ص ۲. ۳، دار الحدیث ، القاھرۃ

۳۳. دارمی، عبد اللہ بن عبد الرحمن ابو محمد ، السنن، حدیث نمبر ۳۳۱۵،۲؍۵۲۳ دار الکتاب العربی، بیروت، طبع اول ۱۴۰۷ھ

۳۴. لمتر، ضیاء الدین، الاستاذ، المعجزۃ الخالدۃ، ص ۹. ۱۰، دار ابن حزم، بیروت، الطبعۃ الثانیہ، ۱۴۰۹ھ؍۱۹۸۹م

۳۵. ایضاً: ص ۳۹۱

۳۶. الزخرف : ۴۳. ۴۴ 

۳۷. البقرۃ: ۲۳

۳۸. البقرۃ: ۲۴

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...