Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 28 Issue 1 of Al-Idah

قرآن کا تصور رنگ: ایک تجزیاتی مطالعہ |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

28

Issue

1

Year

2014

ARI Id

1682060034497_1047

Pages

50-66

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/303/241

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/303

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

قرآن مجید میں مختلف رنگوں کےنام کئی معنوں کے اعتبار سے مذکورہے۔ رنگ آفاقی قوت کا ایک مظہر ہے۔ ہمارے اسلاف نے رنگوں کو سمجھنے کے بڑی عرق ریزی سےمطالعہ کیا ہے، ہر رنگ کی اپنی اپنی خصوصیت ہے ،زرد رنگ کو مسرت لانے والے رنگ کے عنوان سےتعبیر کیا گیاہے،سفید رنگ ایک طرف قرآن مجید میں صبح کی سفیدی سے کنایہ ہے تو دوسری طرف شدت سرور اور اندھاہونے کی خبر بھی دیتا ہے۔کالا رنگ رات کی تاریکی اور غم وحزن کا مظہر ہے۔اسی طرح أخضر ،أحمر ،أزرق ،لون الورد اور لون الحوّة ہیں جو قرآن میں مختلف معنوں پر دلالت کرنے کے لیے مستعمل ہیں۔رنگوں میں سب سے زیادہ صفات کاحامل سفید رنگ ہے۔زیر نظر آرٹیکل میں قرآن کریم کے اندر وارد رنگوں کا تذکرہ مختلف ہائے زاویوں سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ قرآن مجید میں سب سے پہلےسفیدرنگ کا تذکرہ موجودہے ،لہذا راقم اسی ترتیب کی پاسداری کرتے ہوئے" لون الأبیض" سے آغازکرنے کى جسارت کرتا ہے ۔

  • لون الأبیض: Whitish

أبَیَض سفید رنگ کو کہتے ہیں ،اس کی مؤنث بَیضَاء اور جمع بِیض آتی ہے ([1])۔قرآن میں أبیَضَّ ،تَبیَضُّ(افعلال سے فعل مضارع) ، بَیضَاء ، بَیض اور بِیض ،یہ پانچ قسم کے الفاظ مستعمل ہیں ۔اس لفظ کا تذکرہ قرآن مجيدمیں بارہ آیات میں بارہ مرتبہ مذکور ہےجو مندرجہ ذیل معنوں پر دلالت کرتا ہے :

معنی اول:

اللہ کا فرمان ہے حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْر ([2]

یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے۔

اس آیت میں الْأَبْيَضُ ، الْخَيْطُ کی صفت ہے اور الْخَيْطُ عربی میں دھاگے کو کہتے ہیں ([3])۔الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ سے دن اور صبح کی سفیدی مراد ہے۔

سيدناعدی بن حاتم ؓ ([4])سے مروی ہے کہ اُس آیت کے نازل ہونے کے بعد میں نے دو دھاگے اپنے تکیے کے نیچے رکھے ،اور اس وقت تک کھاتےپیتے جب تک وہ دونوں دھاگے صاف طور پر نظر آجاتے ۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :إن وِسَادَتَکَ لَعَرِیض أن کَانَ الخَیطُ الأبیَض وَ الأسوَد تَحتَ وِسَادَتِکیعنی تمہاراتکیہ تو اتنا بڑا ہے کہ دونوں دھاگے اس میں سما گئے،پھر فرمایا کہ اس سے مراد صبح کی سفیدی ہے([5]) ۔

معنی دوم:

اللہ کا فرمان ہے يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ([6]

جس دن بہت سے منہ سفید ہوں گے اور بہت سے منہ سیاہ تو جن لوگوں کے منہ سیاہ ہوں گے (ان سے خدا فرمائے گا) کیا تم ایمان لا کر کافر ہوگئے تھے؟ سو (اب) اس کفر کے بدلے عذاب (کے مزے) چکھو۔

تَبیَضُّ باب افعلال سے مضارع کا صیغہ ہے ابیضاض الوجه کو حقیقی معنی پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے کہ قیامت میں ان کے چہرے نعتوں کی وجہ سے سفید اور روشن ہوں گے([7])یا یہ انتہائی خوشی سے کنایہ ہے۔علامہ راغب اصفہانیؒ ([8])فرماتے ہیں:ابْیِضَاضُ الوَجهِ عِبَارَة عَنِ المسَرَّةِ واسوِدَادُهَا عَنِ الغَمِّیعنی ابیضاض الوجهخوشی سے کنایہ ہے اور اسوداد الوجهغم وحزن سے کنایہ ہے([9])۔سيدناعبد اللہ بن عباس ؓ([10])سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا، تو فرمایا کہ اس سے مراد اہل السنت والجماعت ہیں ([11])۔امام شعبی ؒ([12]) فرماتے ہیں کہ اس سے مراد اہل قبلہ ہیں([13]) ۔

دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَةِ اللَّهِ هُمْ فِيهَا خَالِدُون ([14]

اور جن لوگوں کے منہ سفید ہوں گے وہ اللہ کی رحمت (کے باغوں) میں ہوں گے اور ان میں ہمیشہ رہیں گے۔

معنی سوم :

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: َتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَا أَسَفَى عَلَى يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيم ([15])

پھر ان کے پاس سے چلا گیا اور کہنے لگا ہائے افسوس یوسف (ہائے افسوس) اور رنج والم میں (اس قدر روئے کہ) اس کی آنکھیں سفید ہوگئیں اور اس کا دل غم سے بھر رہا تھا۔

ابیِضَاضُ العَینِ اندھا ہونے سے کنایہ ہے،چونکہ آنسو زیادہ بہنے کی وجہ سے آنکھوں کا کالا ڈھیلا ختم ہو کر سفیدی سے تبدیل ہو جاتا ہے، اس کو عربی میں ابیِضَاضُ العَینِ کہا جاتا ہے ۔([16])سیدناعبدا للہ بن عباسؓ فرماتے ہیں یہ زیادہ رونے سے کنایہ ہے۔([17])علامہ زمخشری ؒ ([18])فرماتے ہیں جب آنسو آنکھوں سے زیادہ بہہ پڑے تو اس سے آنکھ کاڈھیلا ختم ہو جاتا ہے اور اس میں سفیدی پیدا ہوجاتی ہے ۔([19])

معنی چہارم:

سیدنا موسٰی علیہ السلام نے ہاتھ گریبان میں ڈال کر اور بغل میں دبا کر نکالا تو وہ غیر معمولی طور پر سفید اور چمک دار تھا ،سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں ،اس میں ایسی غیر معمولی چمک ہوتی جو زمین وآسمان کے درمیان خلا کو روشن کر دیتا۔([20])

ید بیضا کا معجزہ قرآن میں پانچ آیات میں صراحۃ مذکور ہے :

۱۔ وَنَزَعَ يَدَهُ فَإِذَا هِيَ بَيْضَاءُ لِلنَّاظِرِينَ ([21])

اور اپنا ہاتھ باہر نکالا تو اسی دم دیکھنے والوں کی نگاہوں میں سفید براق (تھا)۔

۲۔ وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلَى جَنَاحِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ آيَةً أُخْرَى([22])

اور اپنا ہاتھ اپنی بغل سے لگالو وہ کسی عیب (وبیماری)کے بغیر سفید (چمکتا دمکتا) نکلے گا۔ (یہ) دوسری نشانی (ہے)۔

۳۔ وَنَزَعَ يَدَهُ فَإِذَا هِيَ بَيْضَاءُ لِلنَّاظِرِين ([23])

اور اپنا ہاتھ نکالا تو اسی دم دیکھنے والوں کے لیے سفید (براق نظر آنے لگا)۔

۴۔ وَأَدْخِلْ يَدَكَ فِي جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ فِي تِسْعِ آيَاتٍ إِلَى فِرْعَوْنَ وَقَوْمِهِ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ ([24])

اور اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو سفید نکلے گا۔ (ان دو معجزوں کے ساتھ جو) نو معجزوں میں (داخل ہیں) فرعون اور اس کی قوم کے پاس جاؤ کہ وہ بےحکم لوگ ہیں۔

۵۔ اسْلُكْ يَدَكَ فِي جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوء([25]

اپنا ہاتھ گریبان میں ڈالو تو بغیر کسی عیب کے سفید نکل آئے گا۔

بعض ملحدین سیدناموسیٰؑ کے دونوں معجزوں(ید بیضاء اور عصا)سے انکار کرتے ہیں کہ ثعبان اور ید بیضاء سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے سیدناموسیؑ کو ایسے دلائل عطا کئے تھے ،جو ثعبان کی طرح مخالفین کے دلائل اور اقوال کو ختم کر دیتے،اور ایسے ظاہر تھے کہ اس کو ید بیضاء سے تعبیر کیا،ید بیضا عرب کے ہاں ضرب المثل ہے اور وہ ہر بے ضرر وبے خطر نعمت کے لیے استعمال کرتے ہیں([26])،مگر ان معجزات کو اس تأویل پر محمول کرنا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کو جھٹلانے کے مترادف ہے ۔([27])

معنی پنجم:

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهَا وَغَرَابِيبُ سُودٌ ([28]) ۔

اور پہاڑوں میں سفید اور سرخ رنگوں کے قطعات ہیں اور (بعض) کالے سیاہ ہیں۔

بِیض،أبیَض کی جمع اور جُدَد،جُدَّة کی جمع ہے ،پہاڑوں میں جو گھاٹیاں ہوتی ہیں ان کو عربی میں جُدَّةکہتے ہیں ([29])۔اس آیت میں ﮰ ﮱکی ضمیر یاتو بِیض اور حُمر کی طرف راجع ہے ۔مطلب یہ ہے سفید اور سرخ رنگ کئی قسم پر ہے ،اس وجہ سے اللہ نےسود کو غربیب کے ساتھ مؤکد کرکے مؤخر ذکر فرمایا ([30])یا یہ ضمیر جدد کی طرف راجع ہے کہ پہاڑ کی گھاٹیوں میں بعض سفید،بعض سرخ اور بعض انتہائی کالے ہیں ([31]

معنی ششم:

جنتیوں کے شراب کے بارے میں اللہ کا ارشاد ہے ﭽ بَيْضَاءَ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ ﭼ ([32]

جو رنگ کی سفید اور پینے والوں کے لیے (سراسر) لذت ہوگی۔

بَیضَاء،أبیَض کی مؤنث اورکَأس کی صفت ہے ،کَأس ہر اس گلاس یا برتن کو کہتے ہیں جس میں شراب ہو ([33])۔سیدناعبد اللہ بن مسعود ؓ ([34])کی قراءت میں بَیضَاء کی بجائے صَفرَاء ہے ([35])،بَیضَاء والی قراءت میں وہ کأس کی بھی صفت بن سکتی ہے اور خمر کی بھی ، صفراء والی قرأت میں صرف خمر کی صفت بنے گی([36]) ۔

معنی ہفتم:

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ([37]

گویا وہ محفوظ انڈے ہیں۔

بیض انڈے کو کہتے ہیں ،زجاج ؒ ([38])فرماتے ہیں کہ اس آیت میں جنت کے حوروں کے رنگوں کو شترمرغ کے انڈوں کےرنگ کے ساتھ تشبیہ دی ہے ([39])۔سعید بن جبیرؒ کے نزدیک بیض سے مراد انڈے کی زردی ہے([40])اور عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اس سے مرادلؤلؤ(موتی) ہیں([41]

*لون الأسود: Blackish

أسود،کالے رنگ کو کہتے ہیں ،اس کی مؤنث سَودَاء اور جمع سُود آتی ہے ۔قرآن میں أسوَد،اسوَدّت،مُسوَدّ،سُود،تَسوَدُّاورمُسوَدَّةیہ چھ قسم کے الفاظ مستعمل ہیں اس رنگ کا تذکرہ قرآن میں چھ آیات میں سات مرتبہ آیاہے ،یہ تین معنوں پر دلالت کرتا ہے:

معنی اول:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْر([42])

یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگےاس آیت میں الخیط الأسود سے رات کی تاریکی مراد ہے ([43]) ۔

معنی دوم:

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُون ([44])

جس دن بہت سے منہ سفید ہوں گے اور بہت سے منہ سیاہ تو جن لوگوں کے منہ سیاہ ہوں گے (ان سے اللہ فرمائے گا) کیا تم ایمان لا کر کافر ہوگئے تھے؟ سو (اب) اس کفر کے بدلے عذاب (کے مزے) چکھو۔

اسی طرح وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيم ([45])

حالانکہ جب ان میں سے کسی کو بیٹی (کے پیدا ہونے) کی خبر ملتی ہے تو اس کا منہ (غم کے سبب) کالا پڑ جاتا ہے اور (اس کے دل کو دیکھو تو) وہ اندوہناک ہوجاتا ہے۔

وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ تَرَى الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّهِ وُجُوهُهُمْ مُسْوَدَّةٌ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْمُتَكَبِّرِينَ ([46])

اور جن لوگوں نے اللہ پر جھوٹ بولا تم قیامت کے دن دیکھو گے کہ ان کے منہ کالے ہو رہے ہوں گے۔ کیا غرور کرنے والوں کو ٹھکانا دوزخ میں نہیں ہے۔اور ﭽ وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمَنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ ([47])

حالانکہ جب ان میں سے کسی کو اس چیز کی خوشخبری دی جاتی ہے جو انہوں نے رحمن کے لیے بیان کی ہے تو اس کا منہ سیاہ ہوجاتا اور وہ غم سے بھر جاتا ہے

اسوِدَادُ الوَجهغم سے کنایہ ہے،کیونکہ جب انسان کا غم حد سے بڑھ جاتا ہے،تو روح دل کے اندر منجمد جاتا ہےاور چہرے کے ظاہر پر کوئی اثر باقی نہیں رہتا،جس کی وجہ سے چہراکبھی کالا ،کبھی سرخ اور کبھی مٹیالے رنگ کا ہوجاتا ہے([48])۔ابیضاض الوجه،خوشی سے کنایہ ہے اور اسوداد الوجهغم وحزن سے کنایہ ہے([49]

معنی سوم:

اللہ تعالی کا ارشاد ہے وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهَا وَغَرَابِيبُ سُودٌ ([50]

اور پہاڑوں میں سفید اور سرخ رنگوں کے قطعات ہیں اور (بعض) کالے سیاہ ہیںاس آیت میں گھاٹیوں کےرنگ بیان کئے گئے ہیں ،غَرَابِیب،غِربِیب کی جمع ہے ،جس طرح أصفَر فَاقِع شدت زردی کے لیے آتا ہے ، اسی طرح شدت سَوَاد کے لیے أسوَد غِربِیب مستعمل ہے([51]) ۔یعنی گھاٹیوں میں بعض انتہائی کالے ہیں ۔

  • لون الأخضر: Greenish

أخضَرعربی میں سبزرنگ کوکہتےہیں،مؤنثخَضرَاءاورجمعخُضرآتی ہے([52])قرآن میں اس رنگ کےلیےأخضَر،خَضرَاء،خُضر، مُخضَرَّةاور خَضِرمستعمل ہیں ،قرآن میں ساتھ سورتوں میں آٹھ مقامات پر مذکور ہے ،جو قرآن میں چار معنوں پر دلالت کرتا ہے :

معنی اول:

بارش کے بعد کھیتیوں کے رنگ سرسبر و شاداب ہو جاتے ہیں ،اس کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ نَبَاتَ كُلِّ شَيْءٍ فَأَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُتَرَاكِبًا ([53])

اور وہی تو ہے جو آسمان سے مینہ برساتا ہے، پھر ہم ہی (جو مینہ برساتے ہیں) اس سے ہر طرح کی روئیدگی اگاتے ہیں۔ پھر اس میں سے سبز کونپلیں نکالتے ہیں۔

خَضِر اور أخضَر ایک ہی معنی میں ہیں ،الخَضِرُ فِی کِتَابِ الله هوَ الزَّرعُ،یعنی قرآن مجید میں خضر سے مرد تر کھیتی ہے ([54]

معنی دوم:

(وَقَالَ الْمَلِكُ إِنِّي أَرَى سَبْعَ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعَ سُنْبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ)([55])

اور بادشاہ نے کہا کہ میں (نے خواب دیکھا ہے) دیکھتا (کیا) ہوں کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات خوشے سبز ہیں اور (سات) خشک۔

خُضر،خَضرَاء کی جمع ہے اور خَضرَاء أخضَر کی مؤنث ہے اور آیات کریمہ میں سبز خوشوں سے سات زرخیز سال مراد ہیں ([56]

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِير ([57])

کیا تم نہیں دیکھتے کہ خدا آسمان سے مینہ برساتا ہے تو زمین سرسبز ہوجاتی ہے۔ بےشک خدا باریک بین اور خبردار ہے۔

مُخضَرَّة باب افعلال سے اسم فاعل ہے ،یعنی سرسبز وشاداب ہونا ([58]

معنی سوم:

جنتیوں کا لباس بھی سبز رنگ کا ہوگا ،اللہ فرماتے ہیں ﭽ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَيَلْبَسُونَ ثِيَابًا خُضْرًا مِنْ سُنْدُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ ﭼ([59])ان کو وہاں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور وہ باریک دیبا اور اطلس کے سبز کپڑے پہنا کریں گے۔

اور ﭽ عَالِيَهُمْ ثِيَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَإِسْتَبْرَق ﭼ ([60]

ان (کے بدنوں) پر دیبا سبز اور اطلس کے کپڑے ہوں گے۔

وَخُصَّ الأَخضَرُ بِالذِّکرِ لِأَنَّه المُوَافِقُ لِلبَصَرِ([61])،یعنی اللہ نے سبز رنگ کو خاص اس وجہ سے کیا کہ یہ رنگ نظروں کو اچھا لگتا ہے ۔

سُندُس سے مراد باریک ریشم اور استَبرَق سے مراد موٹا ریشم ہے ([62]

معنی چہارم:

جنتیوں کے تکیوں کا رنگ بھی سبز ہوگا ،اللہ کا ارشاد ہے مُتَّكِئِينَ عَلَى رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَعَبْقَرِيٍّ حِسَان ([63])سبز قالینوں اور نفیس مسندوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔

رفرف کی تفسیر میں مندرجہ ذیل اختلاف ہے :

عبد اللہ بن عباس ؓ کے ہاں اس کا معنی بُسُط ہے ،یہ جمع ہے بساط کی ،جس کا معنی ہے بچھونا ([64]

سعید بن جبیر([65]) ؓ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ریاض الجنۃ ہے([66]) ۔

قتادہ ؓ ([67])کے نزدیک اس سے مراد وسائد اور مرافق ہیں ،جو تکیوں کو کہتے ہیں ([68]

جو معنی بھی لیا جائے اور جنتی جس چیز پر بھی تکیہ لگائیں گے وہ سبز ہوں گے ۔

  • لون الأزرق: :Bluish

أزرقنیلے رنگ کو کہتے ہیں ،مؤنث زرقاء او ر جمع زُرق آتی ہے([69]) ،قرآن میں ایک ہی مرتبہ مذکور ہے ۔اللہ کا ارشاد ہے يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ زُرْقًا ([70])

جس روز صور پھونکا جائے گا اور ہم گنہگاروں کو اکھٹا کریں گے اور ان کی آنکھیں نیلی نیلی ہوں گی۔

علامہ راغب فرماتے ہیں زرقةسفیداور کالے رنگ کے درمیان ایک رنگ کانام ہے([71])۔امام فراءؒ ([72])کے نزدیک زرقاکنایہ ہےاندھے ہونے سے ([73])۔علامہ زجاجؒ کے نزدیک شدت پیاس سے کنایہ ہے([74])اور یا یہ انتہائی خوف کی وجہ سے آنکھوں کا ہکا بکا رہ جانے سےکنایہ ہے([75])۔عبداللہ بن عباس ؓ کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ ایک جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى ([76])اور دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ﭽ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ زُرْقًا ﭼ([77])۔آپ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت میں مختلف حالات ہوں گے کبھی اندھے ہوں گے اور کبھی شدت پیاس کی وجہ سے آنکھیں نیلی ہوں گی ([78]) ۔

  • لون الأحمر: :Redish

أحمر سرخ رنگ کو کہتے ہیں ،مؤنث حمراء اور جمع حمرآتی ہے ،گہرے کالے رنگ کے لیے أحمَر قَانٍ استعمال ہوتا ہے ([79]) ۔یہ لفظ قرآن میں ایک مرتبہ مذکور ہے، پہاڑ کی گھاٹیوں کے رنگوں میں ایک رنگ أحمر بھی ہے ،اللہ کا ارشاد ہے وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهَا وَغَرَابِيبُ سُودٌ ([80])

اور پہاڑوں میں سفید اور سرخ رنگوں کے قطعات ہیں اور (بعض) کالے سیاہ ہیں۔

* لون الورد: :Pinkish

وردگلابی رنگ کو کہتے ہیں ،یہ رنگ قرآن میں ایک مرتبہ مذکور ہے ، آسمان پٹنے کے بعد اس کا رنگ کس طرح ہوگا،قرآن میں اللہ فرماتے ہیں فَإِذَا انْشَقَّتِ السَّمَاءُ فَكَانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهَان ([81])

پھر جب آسمان پھٹ کر تیل کی تلچھٹ کی طرح گلابی ہوجائے گا (تو) وہ کیسا ہولناک دن ہوگا۔

فراء رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ وردة یہاں حمراءکے معنی میں ہے ،چونکہ گھوڑوں میں بعض گھوڑے الفرس الورد کے نام سے مشہور ہے،یہ گھوڑا فصل ربیع میں زرد اور سردیوں میں خاکستری رنگ کا ہوتا ہے ۔رنگوں کے مختلف ہونے کی وجہ سے آسمان کو اس سے تشبیہ دی گئی ([82])۔علامہ رازیؒ([83])فرماتے ہیں کہ وَردَۃ لِلمَرَّة مِنَ الوُرُودِ أی الحَرَکَة اللَّتِی بِها الاِنشِقَاقُ کَانَت وَردَة وَاحِدَة([84]) یعنی وہ حرکت جس کی وجہ سے آسمان میں پھٹن پیدا ہوگا وہ ایک ہی حرکت ہوگی۔

* لون الأدهم:Greenish:

رات کی تاریکی کو دُهمَة کہا جاتا ہے،انتہائی گہرےسبز رنگ کو بھی دُهمَةسے تعبیر کیا جاتا ہےکیوں کہ یہ دونوں رنگ دیکھنے میں ایک جیسے معلوم ہوتے ہیں([85])۔یہ بھی قرآن میں ایک ہی مرتبہ مذکور ہے،جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے اللہ کا ارشاد ہے مُدْهَا مَتَانْ([86]

دونوں خوب گہرے سبز۔

فراء ؒفرماتےہیں وہ دونوں جنت خوش منظر ہونے کی وجہ سے انتہائی گہرے سبز ہوں گے([87])۔سعید بن جبیرؒ فرماتےہیں کہ اس سےمراد سبز رنگ ہےاورمجاہدؒ فرماتےہیں کہ وہ دونوں سیاہ رنگ کےہوں گے([88]

  • لون الحوة :Blackish:

حوة انتہائی کالے رنگ کو بھی کہتے ہیں اور انتہائی سبز رنگ کو بھی کہا جاتا ہے([89])۔اللہ کا ارشاد ہے فَجَعَلَهُ غُثَاءً أَحْوَى([90]) پھر اس کو سیاہ رنگ کا کوڑا کر دیا۔

اگرپہلا معنی مراد لیا جائے تو یہ خشک ہونے سے کنایہ ہے ،اس صورت میں احوی ،غثاء کی صفت ہوگی اور اگر دوسر ا معنی مراد لیا جائے تو احوی ،المرعی سے حال ہوگا([91])۔علامہ امین احسن اصلاحیؒ ([92])اپنی تفسیر تدبر قرآن میں رقم طراز ہیں:

أحوٰی ہرگز اس سیاہی کے لیے نہیں آتا جو کسی شئی میں اس کی کہنگی ،بوسیدگی،اور پامالی کے سبب سے پیدا ہوتی ہو بلکہ یہ اس سیاہی مائل یا سبزی کے لیے آتا ہے جو کسی شئی پر اس کی تازگی ،شادابی ،زرخیزی اور جوش نمو کے سبب سے بنایاں ہوتی ہو([93]

* نتائج بحث:* اللہ تعالٰی کی بنائی ہوئی کائنات اور اس میں مختلف رنگوں کی موجودگی اللہ کے وجود کی گواہی دیتی ہے ۔

  • قرآن مجید ایک معجز کتاب ہے جس میں ایک ہی لفظ مختلف معانی پر دلالت کرتا ہے۔
  • سیدنا عدی بن حاتم ؓ کی حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نفس عربی قرآن فہمی کے لیے کافی نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کی احادیث مبارکہ کا علم ہونابھی ضروری ہے۔

حوالہ جات

  1. () معجم مقاییس اللغۃ،احمد بن فارس الرازی،ج۱،ص۳۲۶،دار الفکر ،بیروت ،۱۳۹۹ھ/۱۹۷۹ء۔
  2. () البقرۃ،۱۸۷:۲۔
  3. () صحاح تاج اللغۃ ،ابو نصر اسماعیل فارابی ،ج۳،ص۱۱۲۵،دار العلم للملایین ،بیروت،۱۴۰۸ھ/۱۹۸۷ء۔
  4. () عدی بن حاتم الطائی بن عبد اللہ بن سعد(وفات:۶۸ھ)،کنیت ابو طریف ،قبیلہ طیٔ سے تعلق رکھتے تھے ،بہت عاقل صحابی تھے ۔کوفہ میں رہتے تھے،ہمیشہ علی ؓ کے ساتھ رہے ،جنگ جمل اور صفین میں شریک رہے۔[الطبقات الکبری،ابو عبد اللہ محمد بن سعد،ج۶،ص۹۹،دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، ۱۴۱۰ھ =۱۹۹۰ء]
  5. () صحیح البخاری،محمد بن اسماعیل،باب قول اللہ جل ذکره :وکلوا وارشربوا حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود من الفجر ، ج۶، ص۲۶، رقم۴۵۰۹، دار طرق النجاۃ،۱۴۲۲ھ ۔
  6. () ال عمران ،۱۰۶:۳۔
  7. () روح المعانی فی تفسیر القرآن ،شہاب الدین الآلوسی،ج۲،ص۲۴۱،دار الکتب العلمیۃ ،بیروت،۱۴۱۵ھ۔
  8. () ابو القاسم حسین بن محمد بن فضل الاصفہانی (وفات:۵۰۲ھ=۱۱۰۸ء)،راغب کے نام سے مشہورہیں ،بغداد میں رہے اور اپنے زمانے میں امام غزالی کے برابر سمجھے جاتے تھے ۔آپ نے کئی کتابیں لکھی ،جن میں اخلاق الرغب ،المفردات فی القرآن ،حل متشابہات القرآن وغیرہ ہیں،بغدار میں رہے اور وہی وفات پائی۔[الاعلام ، خیر الدین زرکلی ،ج۲،ص۲۵۵،دار العلم للملایین ،بیروت ،۱۹۷۴ء]
  9. () تفسیر الراغب الاصفہانی ،ابو القاسم الحسین بن محمد ،ج۲،ص۷۸۱،کلیۃ الآداب جامعۃطنطا،الطبعۃ الاولی:۱۴۲۰ھ/۱۹۹۹ء۔
  10. () عبداللہ بن عباس بن عبد المطلب بن ہاشم ،ہجرت سے تین سال پہلے عام الشعب کو پیدا ہوئے ،آپ ﷺ کی وفات کے وقت اِن کی عمر پندرہ سال تھی۔آپ ﷺ نے ان کو"حبر الامۃ اور ترجمان القرآن "کے لقب سے نوازا ،طائف میں ۶۸سال کی عمر میں وفات پائی ۔[معرفۃ الصحابۃ،ابو نعیم احمد بن عبداللہ الاصبہانی،ج۳ ،ص۱۷۰۰،دار الوطن للنشر ،الریاض،الطبعۃالاولی:۱۴۱۹ھ/۱۹۹۸ء]
  11. () تفسیر ابن ابی حاتم ،ابو محمد عبد الرحمن بن محمد الرازی ،ج۳،ص۷۲۹،رقم۳۹۴۹،مکتبہ نزار مصطفی الباز،المملکۃ العربیۃ،۱۴۱۹ھ۔
  12. () عامر بن شرحبیل بن عبد ، الشعبی الحمیری ( ۱۹۔۱۰۳ھ / ۶۴۰۔۷۲۱م)، ابوعمرو اپنے عہد کے امام کبیر تھے۔ سیدنا عمر فاروق ؓ کے عہد خلافت میں کوفہ میں پیداہوئے۔ ] الطبقات الکبریٰ، ج ۶ ، ص ۲۵۹، رقم: ۲۳۱۶]
  13. () تفسیر ابن ابی حاتم، ج۳،ص۷۲۹،رقم۳۹۴۹۔
  14. () ال عمران ،۱۰۷:۳۔
  15. () یوسف ،۸۴:۱۲۔
  16. () مفاتیح الغیب ،محمد بن عمرالرازی ،ج۱۸،ص ۴۹۸،دار احیاء التراث،بیروت،۱۴۲۰ھ۔
  17. () مفاتیح الغیب، ج۱۸،ص۴۹۸۔
  18. () ابو القاسم محمود بن عمر بن محمد بن احمد خوارزمی(۴۶۷ھ۔۵۳۸ھ=۱۰۷۵ء۔۱۱۴۴ء)،علم تفسیر اور علم لغت وادب خوب مہارت رکھتے تھے، خوارزم کے ایک گاؤں زمخشر میں پیدا ہوئے۔خوارزم کے ایک گاؤں جرجانیہ آئے او وہی وفات پائی۔[وفیات الاعیان،ابن خلکان شمس الدین احمد بن محمد ،ج۵،ص۱۷۰،دار صادر ، بیروت ،الطبعۃ السابعۃ،۱۹۹۴ء]
  19. () تفسیر الکشاف ،ابو القاسم محمود الزمخشری،ج۲،ص۴۹۷،دار الکتاب العربی ،۱۴۰۷ھ۔
  20. () مفاتیح الغیب ،ج۱۴،ص۳۳۰۔
  21. () الاعراف،۱۰۸:۷۔
  22. () طہ،۲۲:۲۰۔
  23. () الشعراء،۳۳:۲۶۔
  24. () النمل،۱۲:۲۷۔
  25. () القصص،۳۲:۲۸۔
  26. () المحکم و المحیط الاعظم ،ابو الحسن علی بن اسماعیل ،ج۲،ص۱۹۵،دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، ۱۴۲۱ھ/۲۰۰۰ء۔
  27. () مفاتیح الغیب،ج۱۴،ص۳۳۰۔
  28. () فاطر،۲۷:۳۵۔
  29. () غریب القرآن ،ابو محمد عبد اللہ الدینوری،ج۱،ص۳۱۰(ت ن)۔
  30. () مفاتیح الغیب ج۲۴،ص۲۳۶۔
  31. () معانی القرآن ،یحیی بن زیاد الفراء،ج۲،ص۳۶۹،دار المصریۃ للتالیف والترجمۃ،مصر۔
  32. () الصافات،۴۶:۳۷۔
  33. () معانی القرآن واعرابہ للزجاج،ابو اسحاق الزجاج ابراہیم بن السری ،ج۴،ص۳۰۳،عالم الکتب، بیروت ،۱۴۰۸ھ/۱۹۸۸ء۔
  34. () عبداللہ بن مسعود ؓ بن غافل بن حبیب (وفات:۳۲ھ=۶۵۳ء)،کنیت ابو عبد الرحمن ،جلیل القدر صحابی ہیں ،مفسر قرآن ہیں ،صحیحین میں ان سے ۶۴ احادیث مروی ہیں ۔[الطبقات الکبری ،ج۳،ص۱۱۱،]
  35. () تفسیر طبری،محمدبن جریرالطبری ،ج۲۱،ص۳۶،مؤسسۃ الرسالۃ،۱۴۲۰ھ=۲۰۰۰ء۔
  36. () الجوہر الحسان فی تفسیر القرآن (تفسیر ثعالبی )،ابوزید عبد الرحمن بن محمد الثعالبی ،ج۵،ص۲۸،دار احیاء التراث العربی ،بیروت ،۱۴۱۸ھ۔
  37. () الصافات،۴۹:۳۷۔
  38. () ابو اسحاق ابراہیم بن سری الزجاج(۲۴۱ھ۔۳۱۱ھ=۸۵۵ء۔۹۲۳ء)،لغت اور علم صرف میں مہارت رکھتےتھے۔[وفیات الأعیان،ج۱،ص۴۹]
  39. () معانی القرآن واعرابہ للزجاج،ج۴،ص۳۰۴۔
  40. () تفسیر طبری،ج۲۱،ص۴۳۔
  41. () تفسیر قرطبی،ابو عبد اللہ محمد بن احمدالقرطبی،ج۱۵،ص۸۱،دار الکتب المصریۃ، القاہرۃ، ۱۳۸۴ھ =۱۹۶۴ء۔
  42. () البقرۃ،۱۸۷:۲۔
  43. () صحیح البخاری ،باب قول اللہ جل ذکره :وکلوا وارشربوا حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسودمن الفجر ،ج، ص۲۶،رقم۴۵۱۱۔
  44. () ال عمران ،۱۰۶:۳۔
  45. () النحل،۵۸:۱۶۔
  46. () الزمر،۶۰:۳۹۔
  47. () الزخرف،۱۷:۴۳۔
  48. () مفاتیح الغیب،ج۲۰،ص۲۲۵۔
  49. () تفسیر الراغب الاصفہانی ،ج۱،ص۷۸۱۔
  50. () فاطر،۲۷:۳۵۔
  51. () صحاح تاج اللغۃ،ج۱،ص۱۹۲۔
  52. () معجم مقاییس اللغۃ ،ج۲،ص۱۹۵۔
  53. () الانعام ،۹۹:۶۔
  54. () معانی القرآن للفراء ،ج۱،ص۳۴۷۔
  55. () یوسف ،۴۳:۱۲۔
  56. () تفسیر قرطبی،ج۹،ص۹۰۹۔
  57. () الحج،۶۳:۲۲۔
  58. () تفسیر کشاف ،ج۳،ص۴۳۶۔
  59. () الکہف،۳۱:۱۸۔
  60. () الانسان،۲۱:۷۶۔
  61. () تفسیر قرطبی،ج۱۰،ص۳۹۷۔
  62. () تفسیر کشاف،ج۲،ص۷۲۰۔
  63. () الرحمن ،۷۶،۵۵۔
  64. () تفسیر طبری،ج۲۳،ص۸۳۔
  65. () سعید بن جبیر ،مشہور تابعی ہیں ،کنیت ابوعبداللہ ہے۔قبیلہ بنو اسد سے تعلق رکھتے تھے،۴۵ھ کو پیدا ہوئے۔حجاج بن یوسف نے آپ کو ۹۴ھ میں شہید کیا ،اس وقت آپ کی عمر ۴۹سال تھی۔[الطبقات الکبری،ج۶،ص۲۶۷]
  66. () تفسیر طبری ،ج۲۳،ص۸۳۔
  67. () قتادہ بن دِعامہ بن قتادہ بن عُزیر ،بصرہ سے تعلق رکھتے تھے،مفسر قرآن و حدیث تھے۔ابن سیرین فرماتے ہیں کہ وہ حافظ حدیث تھے اور احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ عالم بالتفسیر تھے،طاعون کی بیماری میں مبتلا ہوئےاور ۱۱۸ھ کو وفات پائی،تقدیر کے منکر تھے ،متأخرین تمام اس کے دلائل سے استدلال کرتے ہیں ۔[تذکرۃ الحفاظ،شمس الدین محمد بن احمد،ج۱،ص۹۳،دار الکتب العلمیۃ،ب یروت، لبنان، ۱۴۱۹ھ=۱۹۹۸ء]
  68. () تفسیر طبری،ج۲۳،ص۸۴۔
  69. () صحاح تاج اللغۃ،ج۴،ص۱۴۸۹۔
  70. () طہ،۱۰۲:۲۰۔
  71. () المفردات فی غریب القرآن،ج۱،ص۳۷۹۔
  72. () ابو زکریایحیی بن زیاد بن عبد اللہ(وفات:۲۰۷ھ=۸۲۲ء) ،کوفہ میں رہتے تھے ،فراء کے نام سے مشہورہوئے۔مشہور مفسر قرآن ،نحوی اور ادیب تھے،فقیہ ومتکلم بھی تھے۔[تاریخ بغداد،ابو بکر احمد بن علی البغدادی،ج۴۱،ص۱۰۶،دار الغرب السلامی،بیروت،۱۴۲۲ھ=۲۰۰۲ء]
  73. () معانی القرآن ،ابو زکریایحیی بن زیاد الفراء،ج۲،ص۱۹۱،دار المصریۃ للتألیف والترجمۃ،مصر۔
  74. () معانی القرآن للزجاج،ج۳،ص۳۷۶۔
  75. () تفسیر قرطبی،ج۱۱،ص۲۴۴۔
  76. () طہ ۱۲۴:۲۰۔
  77. () طہ،۱۰۲:۲۰۔
  78. () تفسیر ابن ابی حاتم ،ج۷،ص۲۴۳۴،رقم۱۳۵۱۸۔
  79. () صحاح تاج اللغۃ،ج۲،ص۶۳۶۔
  80. () فاطر،۳۵:۲۷۔
  81. () الرحمن ،۳۷:۵۵۔
  82. () معانی القرآن للفراء ،ج۳،ص۱۱۷۔
  83. () محمد بن عمر الحسن البکری الرازی(۵۴۴ھ۔۶۰۶ھ=۱۱۵۰ء۔۱۲۱۰ء)،علوم عقلیہ اور نقلیہ دونوں میں دسترس حاصل تھی۔کئی تصانیف لکھی۔[سیر اعلام النبلاء،شمس الدین محمد بن احمدالذہبی، ج۱۶، ص۵۲، دار الحدیث ، القاہرۃ،۱۴۲۷ھ=۲۰۰۲ء]
  84. () مفاتیح الغیب،ج۲۹،ص ۳۶۵۔
  85. () المفردات فی غریب القرآن،ج۱،ص۳۲۰۔
  86. () الرحمن،۶۴:۵۵۔
  87. () معانی القرآن للفراء،ج۳،ص۱۱۹۔ٖ
  88. () تفسیر مجاہد،مجاہد بن جبر القرشی،ج۱،ص۶۳۹،دار الفکر الاسلامی الحدیثۃ،مصر،۱۴۱۰ھ/۱۹۸۹ء
  89. () المفردات فی غریب القرآن ،ا بو القاسم حسین بن محمد الراغب الاصفہانی ،ج۱،ص۲۷۱،دار القلم ،الدار الشامیۃ،دمشق بیروت،۱۴۱۲ھ۔
  90. () الأعلیٰ،۵:۸۷۔
  91. () تفسیر کشاف،ج۴،ص۷۳۸۔
  92. () مولانا امین احسن اصلاحی(۱۲۷۱ھ۔۱۴۱۴ھ=۱۹۰۴ء۔۱۹۹۷ء)مدرسہ فراہی کے ایک جلیل القدر عالم دین ،مفسر قرآن تھے ۔مولانا حمید اللہ فراہی کے آخری عمر کے تلمیذ خاص ہیں۔کئی کتابیں تصنیف کی۔ دیکھیے[www.akhbaroafkar.com]
  93. () تفسیر تدبر قرآن ،مولانا امین احسن اصلاحی، ج۹، ص۳۱۵، فاران فاؤنڈیشن،لاہور، پاکستان ، ۱۴۳۰ھ=۲۰۰۹ء۔ مصادر ومراجع (1)القرآن الکریم (2)الاعلام ، خیر الدین الزرکلی ،دار العلم للملایین ،بیروت ،۱۹۷۴ء۔ (3)تاریخ بغداد،ابو بکر احمد بن علی البغدادی،دار الغرب الأسلامی،بیروت،۱۴۲۲ھ=۲۰۰۲ء۔ (4)تذکرۃ الحفاظ،شمس الدین محمد بن احمد،دار الکتب العلمیۃ،بیروت،لبنان،۱۴۱۹ھ=۱۹۹۸ء۔ (5)تفسیر ابن ابی حاتم ،ابو محمد عبد الرحمن بن محمد الرازی ،مکتبہ نزار مصطفی الباز،المملکۃ العربیۃ،۱۴۱۹ھ۔ (6)تفسیر الراغب الاصفہانی ،ابو القاسم الحسین بن محمد ،کلیۃ الآداب جامعۃ طنطا، الطبعۃ الاولی: ۱۴۲۰ھ/ ۱۹۹۹ء۔ (7)تفسیر تدبر قرآن ،مولانا امین احسن اصلاحی،فاران فاؤنڈیشن،لاہور ،پاکستان،۱۴۳۰ھ=۲۰۰۹ء۔ (8)تفسیر طبری،محمدبن جریرالطبری،مؤسسۃ الرسالۃ،۱۴۲۰ھ=۲۰۰۰ء۔ (9)تفسیر مجاہد،مجاہد بن جبر القرشی،دار الفکر الاسلامی الحدیثۃ،مصر،۱۴۱۰ھ/۱۹۸۹ء۔ (10)تفسیر الکشاف ،ابو القاسم محمود الزمخشری،دار الکتاب العربی ،۱۴۰۷ھ۔ (11)الجوہر الحسان فی تفسیر القرآن (تفسیر ثعالبی )،ابوزید عبد الرحمن بن محمد الثعالبی ،دار احیاء التراث العربی، بیروت ،۱۴۱۸ھ۔ (12)روح المعانی فی تفسیر القرآن ،شہاب الدین الآلوسی،دار الکتب العلمیۃ ،بیروت،۱۴۱۵ھ۔ (13)سیر اعلام النبلاء،شمس الدین محمد بن احمدالذہبی،دار الحدیث ،القاہرۃ،۱۴۲۷ھ=۲۰۰۲ء (14)صحاح تاج اللغۃ ،ابو نصر اسماعیل فارابی،دار العلم للملایین ،بیروت ،۱۴۰۸ھ/۱۹۸۷ء۔ (15)صحیح البخاری،محمد بن اسماعیل،دار طرق النجاۃ،۱۴۲۲ھ ۔ (16)الطبقات الکبری،ابو عبد اللہ محمد بن سعد،ج۶،ص۹۹،دار الکتب العلمیۃ ،بیروت،۱۴۱۰ھ=۱۹۹۰ء۔ (17)غریب القرآن ،ابو محمد عبد اللہ الدینوری،(ت ن)۔ (18)تفسیر قرطبی،ابو عبد اللہ محمد بن احمدالقرطبی،دار الکتب المصریۃ،القاہرۃ،۱۳۸۴ھ=۱۹۶۴ء۔ (19)المحکم و المحیط الاعظم ،ابو الحسن علی بن اسماعیل ،دار الکتب العلمیۃ ، بیروت ،۱۴۲۱ھ/۲۰۰۰ء۔ (20)معانی القرآن ،یحیی بن زیاد الفراء،دار المصریۃ للتالیف والترجمۃ،مصر۔ (21)معانی القرآن واعرابہ للزجاج،ابو اسحاق الزجاج ابراہیم بن السری ،عالم الکتب ،بیروت، ۱۴۰۸ھ/ ۱۹۸۸ء۔ (22)معرفۃ الصحابۃ،ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبہانی،دار الوطن للنشر ، الریاض، الطبعۃالاولی: ۱۴۱۹ھ/ ۱۹۹۸ء۔ (23)معجم مقاییس اللغۃ،احمد بن فارس الرازی،دار الفکر ،بیروت ،۱۳۹۹ھ/۱۹۷۹ء۔ (24)مفاتیح الغیب ،محمد بن عمرالرازی ،دار احیاء التراث،بیروت،۱۴۲۰ھ۔ (25)وفیات الاعیان،ابن خلکان شمس الدین احمد بن محمد،دار صادر ، بیروت ،الطبعۃ السابعۃ،۱۹۹۴ء۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...