Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 35 Issue 2 of Al-Idah

مروجہ جاگیردارانہ نظام کا تاریخی ارتقاء اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تقابلی جائزہ |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

35

Issue

2

Year

2017

ARI Id

1682060034497_1110

Pages

112-132

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/46/40

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/46

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

فیو ڈل ازم کا لفظ لا طینی زبان کے ’’فیوڈال ‘‘ (Feodalis) سے نکلا ہے۔فرانسیسی میں آکر یہ ’’فیوڈالتے‘‘ (Feadalite) ہو گیا اور پھر یہاں سے یہ یورپ کی د وسری زبانوں میں گیا۔ ( ۱)جاننا چا ہیے کہ عصرِحاضر میں جاگیر دارانہ نظام کودرست ثابت کرنے کے لیے مختلف تاویلیں و مختلف دلا ئل دے کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کو ششیں کی جا رہی ہیں ‘ کہ اسلام جا گیر دارانہ نظام کی اجازت دیتا ہے‘ اور اسلام میں اقطا ع کی اجازت ہے‘ حضور اکرم ﷺ نے متعدد صحابہ کرام کو جا گیریں عطا فرمائیں ‘ اور پھر عالم اسلام میں بھی خلا فتِ عثمانیہ اور مغل شہنشا ہی کے بعض ادوار میں یہ جاگیردارانہ نظام رہا وغیرہ وغیرہ۔ ان سوالو ں کی ا!صل حقیقت کیا ہے ؟ اسکی وضاحت آگے کی جا ئیگی ۔ ابھی ہم بات کرینگے کہ یہ نظام کس طرح وجود میں آیا ؟ یہ نظام کہاں کہاں رہا ؟ پھر اس کا زوال کس طرح آیا ؟ اور اب عصرِ حاضر میں اس نظام کا کیا کردار ہے ؟ 

یورپی فیو ڈل ازم !:

یورپ میں فیوڈل ازم رومی سلطنت کے زوال اور جرمن قبا ئل کی فتوحات کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ اگرچہ اس نظام کی خرابیاں اس فوجی نظام میں مو جود تھیں جو کہ رومیوں کے دور میں قا ئم تھا جب یہ پرانا نظام ٹوٹا تواس کی وجہ سے پیدا واری رشتوں نے پیداواری ذرائع کے لئے فیوڈل ازم کے نظام کی تشکیل کی ۔ وا ضح رہے کہ اس نظام کا ارتقاء آہستہ آہستہ ہوا ۔ جا گیر دارانہ نظام یورپ کے قرونِ وسطی کا ایک نظام تھا۔ تاریخ شا ہد ہے کہ یورپ پر ایک زما نہ ایسابھی آیا کہ جس میں یورپ کے بیشتر ممالک کو جنگوں کا واسطہ پیش آتا تھا ۔ کبھی انگلستا ن وفرانس کی آپس میں معرکہ آرائی ہوئیں ۔ تو کبھی اٹلی اور اسکے اتحادی ممالک کی جر منی سے زور آزمائی ہو ئیں ۔ (۲)جن ادوار میں ان ممالک کی آپس میں جنگیں ہواکرتی تھیں اس دور میں اسلام ایک بڑی طاقت بن کر اُبھر رہا تھا۔ تو مسلمانوں کے ساتھ بھی ان یورپین ممالک کی جنگیں چلتی رہتی تھیں ۔ بلا تعطل جنگوں کی وجہ سے یورپین ممالک کی معا شی حالت بہت نازک ہو چکی تھی۔ چونکہ اس دور میں جنگوں کے فنون میں ترقی کا آغاز تھا اس لیے جنگ کے مصارف بھی اسی حساب سے بڑھتے جا رہے تھے ایک ایک فوجی پر بڑا خرچ آتا تھا اوران فوجیوں کی تنخواہ بھی زیا دہ ہوا کرتی تھیں ۔اس لیے جنگوں کا خرچہ برداشت کرنا ان یورپین ممالک کے لیے آسان نہ رہاتھا ۔ تواس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے اس نظام کو وجود میں لایا گیا جس کوجا گیر دارانہ نظام کہتے ہیں ۔ 

تو اب یہ جا گیر دارانہ نظام جو ظاہر ہے ضرورت کے تحت وجود میں لا یا گیا اس کے جواز کے لیے ایک فلسفہ بھی گھڑ لیا گیا ۔ وہ فلسفہ یہ تھا کہ حاکم و محکوم کا رشتہ زمین سے وابستہ ہے جو زمین کا مالک ہے وہ حاکم ہے اور جو زمین کو استعمال کر رہا ہے وہ محکوم۔ (۳)

اس فلسفہ کے مطابق چونکہ ساری زمین کا مالک اللہ تعالیٰ ہے تو اللہ تعالیٰ حاکم ہے۔ اب یہ زمین بادشاہ کو دی گئی تو بادشاہ اللہ تعالیٰ کا محکوم ہے ۔ پھر بادشاہ کسی جا گیردار کو زمین دے تو وہ بادشاہ کا محکوم ہے۔ پھرجا گیردار کا شت کار کو زمین دے تو وہ جاگیر دار کا محکوم ہے ۔

غرض جب یہ نظام وجود میں لا یا گیا تو ابتداء سے ہی ان یورپین ممالک میں یہ صورتحال رہی کہ بادشاہ جب کسی جاگیر دارکو زمین دیتا تو اس زمین کے دینے پر بادشاہ جا گیرداروں سے معاہدہ کرتا کہ جا گیردار مجھے اتنا خراج دے گا، جب جنگ ہو گی تو اتنے فوجی دے گا وغیرہ وغیرہ۔چنا نچہ بادشاہ کے اس معاہدے کے تحت جا گیر دار کو خراج اور جب جنگ کی صورتحال پیش آتی تو فوجی دینے پڑتے ۔بادشاہ ایک دفعہ جا گیرداروں کو زمین دے کر فارغ ہو گیا اب اس کا واسطہ فقط زمین کے خراج اور دشمنوں سے لڑنے کے لیے فوجیوں سے پڑتا جو جا گیر دار بادشاہ کو زمین کے عوض مہیا کر تا ۔رفتہ رفتہ یہ جا گیردار قوت پکڑتے گئے اور ہوتے ہوتے پھر یہ وقت بھی آیا کہ یہ جا گیردار اپنے ملک میں حاکم کی حیثیت سے اپنے اختیا رات استعمال کرنے لگے ۔ رعایا پر جو چاہے ٹیکس لگا دیں ،جو چاہے قانون بنادیں، ان سے پوچھنے والا کوئی نہ ہوتا تھا۔چونکہ بادشاہ تو جا گیرداروں کو زمین دے کر فا رغ ہو گیا اب یہ جا گیردار ظاہر ہے جن کو زمین دیتے وہ محکوم بن جاتے اور جاگیردارحاکم۔ 

جا گیردار جو ٹیکس لگا تا اپنے محکومین پر، اپنے محکومین کو زمین دینے پر جو شرائط رکھتا وہ محکومین مانتے ۔کیونکہ ان کو زمین چاہیے ہوتی تھی۔ تو رفتہ رفتہ یہ معاملہ چلتا رہا پھر حاکم و محکومین کے نتیجے میں جا گیرداروں نے ایک متوازن حکومت کی شکل اختیا ر کر لی ۔جا گیردار نہ صرف حاکم کی حیثیت سے اپنے اختیا رات استعمال کرنے لگے بلکہ یہ جا گیردار عملاً حاکم بھی بن گئے اور یہی وجہ ہے کہ جب جا گیردار عملاً حاکم بنے تو پھر پورا ملک بھی ان کے زیرِ اثر آگیا۔ 

رفتہ رفتہ یہ جا گیردار اتنے خود سر ہو گئے کہ رعایا پر جو چا ہے شرائط عائد کرتے ،جو چاہے قانون نافذ کرتے، لیکن ان سے پوچھنے والا کوئی نہ ہوتا تھا ۔بادشاہ ظاہر ہے مجبو ر ہوتا بادشاہ کو ان جا گیرداروں کی محتاجگی ہوتی کیونکہ بادشاہ کو دوسرے ممالک سے لڑنے کے لیے فو ج چا ہیے ہوتی تھی لہٰذ ا بادشاہ ان جا گیرداروں کے ناجا ئز مطالبات ماننے پر مجبور ہوتا۔ (۴)

غرض یہ جا گیردارسیا ست پر عملاً قابض ہو گئے ان کا اثرو رسوخ اتنا تھا کہ جو چاہے قانون منظور کروالیتے۔ چنا نچہ کچھ عرصے تک تو یہ نظام بادشاہ اور جا گیرداروں کے گٹھ جوڑ سے چلتا رہا ۔لیکن بلآخر جب بادشاہ اور جا گیرداروں کے مفادات کے ٹکرا ؤ ہوئے تو پھر ان کے درمیان آپس میں لڑائیاں ہو ئیں ،تنا زعات کھڑے ہوئے ،اور پھر خوب قتل و غارت بھی ہو ئیں ۔یہ تھایورپ کا جاگیردارانہ نظام کہ جس کے طفیل یورپ سالہا سال تک مصیبت و پر یشانی میں رہا۔ 

واضح رہے کہ اس نظام کی خرابیا ں واضح ہیں جا گیردار اپنے ماتحت نچلے لوگوں کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کرتا اور ملک کی سیاست پر یہ لوگ اس طرح قابض ہو گئے تھے کہ ان کی مرضی کے خلاف کو ئی کام نہ ہوسکتا تھا نتیجتاً لوگ اس نظا م سے متنفر ہوئے ۔ اور یہ سلسلہ چلتے چلتے عصرِ حاضر تک اس معیار پر پہنچا کہ آج جا گیردارانہ نظام ایک گالی بن کر رہ گیا ہے۔

یورپ کے جاگیر دارانہ نظام کی کچھ جھلکیاں عالمِ اسلام میں بھی رہیں ۔ جیسے خلافتِ عثمانیہ کے بعض ادوار‘ اسی طر ح مغل شہنشاہی کے کچھ ادوار میں اگرچہ یہ جاگیردارانہ نظام رہا مگر یہ نظام اتنی سختی کے ساتھ ان میں نہیں رہا جتنا یورپ میں تھا۔ (۵))ہند وستا نی نظام جا گیرداری !فیو ڈل ازم ہر ملک اور معاشرے میں وقت کے ساتھ ساتھ ارتقا ء پذ یر ہوا۔ اور حالات کے تحت اس میں تبدیلی آتی رہی۔ ہند وستان میں اگر فیو ڈل ازم ( جاگیر دارانہ نظام ) کا جائز ہ لیا جائے تو ہمیں یہ بات جاننے میں اور سمجھنے میں یقیناً آسانی ہو گی کہ ہندوستان میں فیوڈل ازم کے مختلف ادوار ر ہے ہیں۔ہندوستان میں جاگیر دارانہ نظام کے حوالے سے قدیم ہندوستان کی تاریخ الگ ہے تو مسلمانوں کے دورِ حکومت اور برطانوی اقتدارکی تاریخ الگ ہے۔ 

ہندوستان میں جاگیر دارانہ نظام کے تین ادوار!:

غرض انہی الگ الگ تاریخ کو دیکھتے ہوئے ہندوستان میں جاگیر دارانہ نظام کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔(۱) قدیم ہندوستان (۲) مسلمانوں کا دورِ حکومت اور (۳) بر طا نوی اقتدار ۔یہاں اس نقطۂ کو بیان کرنا ضروری ہے کہ ان تینوں زمانوں میں اس نظام ( جاگیردارانہ نظام ) کی شکل اور ہیئت مختلف رہی ہیں۔ سب سے پہلے ہم قدیم ہندوستان پر قلم اٹھا نا چا ہینگے اور پھر اس کے بعدبر طا نوی اقتدار اور مسلمانوں کے دورِ حکومت پر۔ 

قدیم ہندوستان ! :

قدیم ہندوستان کے ابتدائی دور میں معا شرے کا انحصا ر مو یشیوں پر تھا جس کی وجہ سے زمین کی اتنی اہمیت نہ تھی چراگاہ کی فراوانی تھی اور معیشت کا انحصار مو یشیوں کی تعداد پر ہوا کرتا تھا۔جب پانچ سے چھ صدی قبلِ مسیح میں ہندوستان کا زراعتی نظام تبدیل ہونا شروع ہوا تو خانہ بدو شوں کے بجائے مختلف قبائل نے آبادیاں بناکر زراعتی پیداوار کے عمل کو بڑ ھا نا شروع کردیا کہ جس کی وجہ سے زمین کی اہمیت ہوئی۔(۶) اس عہد میں کشتری ذات کے با شندوں نے زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کردیا لیکن زمینیں ابھی بھی کسی ایک فرد کی ملکیت میں نہ تھیں بلکہ یہ برادری کے طور پر استعمال ہو تی تھیں۔ اگر اس (زمین ) کاتبادلہ بھی کیا جاتا تو اس طرح کہ ایک برادری دوسری برادری کو زمینیں دے دیتی تھیں ۔ جو زمین پر کاشت کرتا اس کا قبضہ زمین پر مستقل ہوتا اور یہ ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہو تی رہتی تھیں۔ (۷)جب بادشاہتیں قا ئم ہونا شروع ہو ئیں تو اس وقت انہوں نے زمینوں کو اپنے حمایتوں اور وفا دار ساتھیوں میں بطورِ تنخواہ دینا شروع کردیا۔ 

وا ضح رہے کہ یہ زمینیں حکومت کے بڑے عہدے داروں اوراُمراء کو دی جاتی‘ اس کے علاوہ پر وہتوں اور مذہبی عا لموں کواُن کی حیثیت کے مطا بق جا گیر یں دی جاتی تھیں۔ مگر ان کے لئے یہ شرط تھی کہ یہ نہ تو رہن ر کھیں گے او ر نہ ہی فروخت کر ینگے ۔ حکومت ان لوگوں سے کو ئی لگان نہیں لیتی تھی۔ (۸)حکومت کی جانب سے جب کسی کو جاگیر یں دی جاتی تو اس کا باقا عدہ فرمان جاری ہوا کرتا تھا کہ جس پر بادشاہ کی مہر ہو تی تاکہ اس (جاگیر)کو قا نونی حیثیت حاصل ہو جائے۔جب حکومت کسی کو جاگیر دیتی تو اس کے دو مقصدہوتے تھے ۔ ایک تو یہ کہ وہ حکومت کے لئے جو خدمات سر انجام دیتا ہے اس کے معا وضے کے طور پر اس کو زمین دی جائے تاکہ اس کی آمدنی کا وہ حق دار ہو جائے۔ اور دوسرا یہ کہ جب کسی خاندان کی مستقل آمدنی ہو گی تو اس سے اسے تحفظ کا احساس ہوگا اور وہ زیادہ دلجمعی و محنت سے حکومت کے کا م کر سکے گا۔ ساتویں صدی عیسوی میں شمالی ہندوستان میں سانتی نظام کا رواج ہوا‘ سامنت یا جاگیردار سالانہ اخراج دیتا بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور ضرورت کے وقت اس کی فوجی خدمات کے لئے تیار رہتا تھا ۔ (۹)نویں صدی سے بارہویں اور تیر ہویں صدی میں ’’ٹھاکر‘‘ کی اصطلا ح سردار ،جنگی سورما کے چیف کے معنوں میں استعمال ہو نے لگی تھی چو نکہ اب زمین کی اہمیت بڑھ گئی تھی اس لیے زمینوں پر قبضے کے خاطر جنگوں کی ابتدا ء ہو گئی تھی۔ (۱۰)

ہندوستان کی تاریخ میں کسی بھی عہد میں بھی چا ہے وہ ہندوؤں کا عہد ہو یا بدھ مت کا یا پھر مسلمانوں کا‘ یہ کو شش نہیں کی گئی کہ زمین کو شاہی ملکیت میں لے لیا جائے یا مالکانہ حقوق دے کر ایک جاگیردار طبقہ پیدا کیا جائے ۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں سیاسی اقتدار کی جنگ اسی بات پر ہوتی تھی کہ گاؤں کی زمین پر ریو نیو حاصل کرنے کا حق کس کو ہے؟ اسی فرق کی وجہ سے ہندوستانی اور یورپی فیو ڈل ازم دو مختلف شکلوں کے ساتھ ارتقاء پذیر ہوا۔

یو رپی فیو ڈل ازم میں زمین نجی ملکیت ہوتی تھی اس لئے فیوڈل کسانوں سے نہ صرف ر یو نیو وصو ل کرتا تھا بلکہ اس پر دوسرے ٹیکس بھی لگاتا تھا ۔ہندوستان میں چونکہ جاگیردار کاشت میں دلچسپی نہیں لیتا تھا اس لئے کسان اپنے روایتی طریقوں کو برقرار ر کھتے تھے ان کی دلچسپی صرف ریو نیوکی و صو لیابی سے تھی۔ اسی وجہ سے جنگوں اور تصا دموں میں ہندوستان کا کسان علیحدہ رہا۔ 

جب ہندوستان میں بادشا ہتیں قا ئم ہو ئیں تواس وقت جاگیروں کو چار درجوں میں تقسیم کیا جانے لگا۔ایک ریاست کی ضرورت پوری کرنے او ر قربانی کی رسومات کی ادائیگی کی اخراجات کے لئے ۔ دوم وزیروں اور عہدے داروں کی تنخواہوں کے عوض ۔ سوم باصلاحیت افراد کو بطورِ انعام۔ چہارم مذہبی خیرات او ر بر ہمنوں کی مدد کے لئے‘ خاص طور سے بر ہمنوں کوزمینیں دینے کا رواج ہو گیا تھا۔ (۱۱)

یاد رہے کہ بادشاہوں کے علاوہ ایسے تاجر جو مالدار تھے اورجو سرمایہ رکھتے تھے وہ بھی زمین خرید کر بطورِ عطیہ ان کو دیتے تھے ۔لیکن یہ اُصول وا ضح تھا کہ زمین نہیں خریدی جاتی تھی بلکہ اس پر کاشت کرنے کا حق خریدا جاتا تھا۔

بر طا نوی اقتدار !:

ہند و ستان میں انگریزوں نے اقتدار میں آنے کے بعد ہندوستان کے زراعتی نظام میں تبدیلیاں شروع کیں۔اور ہندوستان کے اس روایتی نظام کو ختم کیا کہ جس کے تحت گا ؤں کی برادری کا زمین پر حق ہوتا تھا۔وا ضح رہے کہ ہندوستان میں انگریزوں نے زمین کی ملکیت کو دو طر ح سے تقسیم کیا ۔ ایک تو جا گیرداروں کا طبقہ جنہیں موروثی طور پر زمینیں الاٹ کی گئیں۔دوسرے وہ کسان جو جن زمینو ں پر خود کاشت کرتے تھے یہ زمینیں انہیں کو دے دیں۔ 

جب انگریز ہندوستان میں آیاتو اس کو اپنی حمایت کے لئے ایک ایسے اثر و رسوخ والے طبقے کی ضرورت تھی کہ جوان کے او ر عوام کے درمیان رابطے و وسیلے کا کام دے۔اس کے لئے جاگیرداروں کا ایک مستقل طبقہ ’’ لارڈ کارنوالس ‘‘کی وجہ سے پیدا ہواجواس نے بنگال اور بہار میں ۱۷۹۲ ؁ ء میں نافذ کیا تھا۔(۱۲)

یاد رہے کہ’’لارڈ کارنو الس‘‘ کے ذہن میں انگلستان کا فیو ڈل ازم تھا کہ جس میں فیوڈل ازم کا طبقہ حکومت کی ایک اہم بنیاد ہوا کرتا تھا ۔ اس لئے وہ ہندوستان میں ایک ایسا ہی طبقہ پیدا کرنا چا ہتا تھا کہ جو ہندوستان میں برطانوی حکومت کی مدد کر سکے۔جاگیرداروں کا یہ طبقہ ان اجارہ داروں کی وجہ سے پیدا ہوا کہ جنہیں بنگا ل کے نوا بین نے ریو نیو کی و صولیابی کا ٹھیکہ دیا تھا ۔

رفتہ رفتہ بر طانوی حکومت نے چھوٹے چھوٹے راجاؤں ،سرداروں اور نوابوں کو بھی جا گیر داروں میں تبدیل کردیا۔ اور یہ پہلے خود خراج دیتے تھے اب اسے ریو نیو کر دیا گیا اس کے ساتھ ہی ان کے تحفظ کی ذمہ داری بھی خود لے لی۔ایسا کرنے سے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چھوٹے چھوٹے سردار ،نواب ، اور راجو جاگیر داروں کے تسلط میں آگئے۔ 

ہندوستان میں بر طا نوی حکومت نے ایسے افراد کو بھی جا گیر یں دیں کہ جنہوں نے ہندوستان میں برطانوی حکومت کی مدد کی اور وہ مدد اس لحاظ سے تھی کہ جب بر طانیہ ہندوستان آیا جب اس نے ہندوستان میں اپنی حکومت قا ئم کی تو ان لو گوں نے بر طانوی حکومت کے قیام اور استحکام میں خوب دل کھول کر بر طا نوی حکومت کاساتھ دیا ۔برطا نوی حکومت کے خلاف کسی قسم کی کو ئی مذمت کسی قسم کا کو ئی احتجاج نہ کیا اور برطانوی حکومت کے قیام اور اس کے استحکام میں کو ئی رکاوٹ نہ ڈالی۔ بر طا نوی حکومت کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ ان کو خوش آمدید بھی کہا۔ 

اسی طرح بر طا نوی حکومت نے اپنے عہد میں ان ہندوستانیوں کو بھی جا گیر یں دیں کہ جنہوں نے ہندوستا ن کی جنگوں میں افغانستان و برما کی لڑائیوں میں ان کی خدمات سرانجام دی تھیں۔اسی طرح اس نظا م کو مزید مضبوط بنانے کے لئے ان لو گوں کو بھی زمینیں دی گئیں کہ جو برطانوی حکومت کے عہدے دار تھے اور جن کا تعلق انتظامیہ کے ساتھ تھا۔ (۱۳)وا ضح رہے کہ برطانوی حکومت کے جاگیریں دینے کے اس سلسلے نے نہ صرف نئے جاگیردار طبقے کی تشکیل کی ۔بلکہ اس نظام کو مزید مستحکم و مضبوط بھی بناڈالا۔ 

بر طا نوی حکومت نے جب ہندوستان میں اپنی حکومت قا ئم کی تو بر طا نوی حکومت کے ابتدائی دور میں برطا نوی حکمرانوں کے لئے ایک اہم سوال یہ تھا کہ کس طبقے کو فوقیت و اہمیت دی جائے؟ اور کس طر ح سے اس سے مدد حاصل کی جائے ؟ یاد رہے کہ ہندوستان میں اُس وقت دو طبقے بہت ہی با اثر تھے ایک تاجر برادری اور دوسرے جاگیر دار۔ (۱۴)

ان ہی دو طبقوں کے درمیان یہ فیصلہ کرنا تھا کہ کس طبقے کو اہمیت دی جائے ؟اور کس طرح اس طبقے سے مدد حاصل کی جائے؟ابتداً تو برطانوی حکومت کا رجحان زیادہ تر تاجر برادری کی طرف تھا ۔ایسٹ انڈیا کمپنی کے ابتدائی دنوں میں انہیں مقا می تاجروں کی طرف سے اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں مدد ملی تھی کیو نکہ کمپنی کی تجارتی سر گرمیوں کی طرف سے مقا می تاجروں کو یہ موقع ملا تھا کہ وہ ان جہازوں میں اپنا سامان ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اور باہر کے ملکوں میں بھیجیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے کمپنی کے ساتھ مل کر تجارت بھی کی کہ جس کی وجہ سے ان کے اور کمپنی کے تجارتی مفادات ایک ہو گئے۔لیکن جب کمپنی نے سیاسی اقتدار حاصل کرلیا تو اب انہیں تا جروں سے زیادہ جاگیرداروں اور زمینداروں کی حمایت درکار تھی کیونکہ اب ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ تجارت نہیں بلکہ ریو نیو تھا ۔اس کے علاوہ جاگیرداروں اور زمینداروں کی حمایت اس لئے بھی ضرورت تھی کیو نکہ ان جاگیر داروں اور زمینداروں کا اثر دیہاتی آبادی پر تھا اور وہ اس اثر کے ذریعے رعیت کو با آسانی کنٹرول کر سکتے تھے۔اس کے بر خلاف تاجر برادری کو اس لحاظ سے معا شرہ میں اتنا اثر و رسوخ حاصل نہ تھا۔ اور نہ ہی زراعتی معا شرے میں ان کے سماجی رتبے کو کوئی اہمیت و فوقیت حاصل تھی۔ اس کے علاوہ تاجر ایک جگہ نہ رہتے تھے بلکہ گھومتے رہتے تھے اس لئے ان کو دیہاتی آبادی پر کنٹرول کے لئے استعمال نہ کیا جا سکتا تھا اس لئے بر طا نوی مفاد میں تھا کہ جاگیر دار طبقے کو نہ صرف بر قرار رکھا جائے بلکہ اس طبقے کو مضبوط سے مضبوط بنایا جائے ۔

مسلمانوں کا دورِ حکومت:

پیچھے اس بات کا ذکر ہوا کہ ہندوستان میں جاگیر دارانہ نظام کے حوالے سے قدیم ہندوستان کی تاریخ الگ ہے تومسلمانوں کے دورِ حکومت اور بر طانوی اقتدار کی تاریخ الگ۔ غرض انہی الگ الگ تاریخ کو دیکھتے ہوئے ہندوستان میں جاگیر دارانہ نظام کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔(۱) قدیم ہندوستان (۲) مسلمانوں کا دورِ حکومت اور (۳) بر طا نوی اقتدار ۔یہاں اس نقطۂ کو بیان کرنا ضروری ہے کہ ان تینوں زمانوں میں اس نظام( جاگیردارانہ نظام ) کی شکل اور ہیئت مختلف رہی ہیں۔ 

سب سے پہلے ہم نے قدیم ہندوستان پربات کی‘ اور پھر اس کے بعدبر طا نوی اقتدار پر‘ اب ہم مسلمانوں کے دورِ حکومت پر بات کر ینگے کہ ہندوستان میں جاگیر دارانہ نظام کے حوالے سے مسلمانوں کے دورِ حکومت کا کیا کردار رہا ہے۔ جاگیر کی اصطلا ح ہندوستان میں پند ر ہو یں صدی میں استعمال ہو نا شروع ہوئی ورنہ اس سے پہلے تیول یا قطا ع کے الفا ظ استعمال کیے جاتے تھے۔ (۱۵)

ہندوستان میں مسلمان فا تحین اپنے ساتھ مشرقِ و سطی کا نظام جاگیرداری لے کر آئے جیسے مثال کے طور پر غوری فاتحین ۔اس نظام میں زمین کو تین اقسام میں تقسیم کیا گیا تھا ۔ پہلی خالصہ زمین کہ جو حکمران کے اخراجات کے لئے ہو تی تھیں۔ اسی طرح دوسری اقطاع کہ جو فو جیوں کو دی جاتی تھیں۔ اور تیسری وہ جاگیریں کہ جو مذہبی و سماجی بہبود کے لئے دی جاتی تھیں۔ (۱۶)

غوری دورمیں اقطا ع داروں کا طبقہ حکمران خاندانوں کے ساتھ بدلتا رہتا تھا ۔ غوری دور میں جن اُمراء کو اقطاع دیے گئے ان میں غلام اور آزاد دونوں شا مل تھے ۔چونکہ اس ابتدائی عہد میں مرکزی حکومت مستحکم نہ تھی اس لیے انہوں نے اپنے اثرو رسوخ کو بڑھا لیا تھا ۔وا ضح رہے کہ خاندانِ غلاماں کے حکمران کا تعلق کسی شاہی خاندان سے نہ تھا اس لئے وہ دوسرے اُمراء سے خود کو بر تر ثابت نہ کر سکتا تھا اس لئے اُمراء ہر وقت بغاوت کے لئے تیار رہتے تھے ۔

اُمراء کے عروج کے زمانہ التمش کے بعد کا ہے کہ جب امیر چہل گانہ کے نام سے اُمراء کا ایک گروپ بن گیا تھا کہ جو جائیداد و خطا بات میں برابر کے تھے ۔یہ طبقہ اس قدر طاقت ور ہو گیا تھا کہ بادشاہ تک کو خاطر میں نہ لاتا تھے اور اپنی پسند و مرضی کا بادشاہ بنانا ان کے منشور کا ایک حصہ تھاان لو گوں نے اپنے مفادات کے خاطر اپنی پسند کے بادشاہ کو تخت نشین کیا ۔جب رضیہ سلطا نہ ان کی مرضی کے خلاف حکمران بنی تو انہوں نے ہی مل کر اسے شکست دی ۔ (۱۷)

ا س طبقے کا زور تب ٹوٹا کہ جب’’ بلبن‘‘ بادشاہ بنا ۔وا ضح رہے کہ ایک عرصے دراز تک بلبن کا تعلق اسی طبقے کے ساتھ تھا اور بلبن اسی طبقے کی نہ صرف تقلید کرتا تھا بلکہ ان کی ہر طر ح سے معا ونت بھی کرتا تھا ۔چونکہ بلبن اس طبقے کی کمزوریوں سے واقف تھا اور جانتا تھا کہ انہیں کس طرح سے شکست دی جائے اور کس طرح سے ان کا صفایاکیا جائے ۔ بلبن کو اس بات کا پورا احساس تھا کہ بادشاہت کا ادارہ اس وقت تک مضبوط نہیں ہوسکتا ہے کہ جب تک ان اُمراء کی طاقت کو توڑانہ جائے۔لہٰذابلبن نے بڑی ہو شیاری کے ساتھ بڑی مصلحت کے ساتھ ان طا قتور اُمراء کے خلاف ایک ایک کرکے اقدامات کیے اور بلآخربلبن نے ان سر بر آوردہ اُمراء کو شراب میں زہر دلو اکر مار ڈالا۔ (۱۸)

اس طبقے کے خاتمے کے بعد بلبن کی توجہ اس بات پر دلو ائی گئی کہ التمش زمانے کے اقطا ع دار نااہل و ناکارہ ہو گئے ہیں اور اپنے فرائض میں چشم پو شی سے کام لینے لگے ہیں۔ وہ ہدایات کے مطابق مقررہ تعداد میں فوجی نہیں رکھتے ہیں اور دیوان عرض کے ساتھ مل کر گا ؤں کو اپنے قبضے میں لئے ہو ئے ہیں۔چنا نچہ جب بلبن نے اس کے متعلق معلومات اکٹھا کیں تو اسے معلوم ہوا کہ ان اقطاع داروں میں سے تو ایک بہت بڑی تعداد بوڑھی ہو چکی ہے اور کچھ لو گ وفات بھی پا چکے ہیں۔یاد رہے کہ ان اقطاع داروں میں جو لوگ وفات پاچکے تھے ان کی جائیدادیں ان کی اولادوں نے بطورِ میراث اپنے قبضے میں لے لی تھیں یہ اقطا ع دار خود کو مالکی یا انعامی سمجھتے تھے اور اس کے جواز کے لئے یہ دلیل پیش کرتے تھے کہ یہ جائیدادیں التمش نے ان کو انعام کے طور پر دی تھیں ۔ 

بلبن نے ان اقطا ع داروں کا یہ حل نکالا کہ جو بہت بوڑھے ہو چکے تھے اور جنگ کے قابل نہ رہے تھے ان کے لئے بلبن نے تقریباًچالیس سے پچاس سکہ و ظیفہ مقرر کردیا اور ان کی جائیدادیں خالصہ میں شامل کرنے کا حکم دیا ۔ (۱۹)

اسی طرح دوسر اگروہ کہ جس میں ادھیڑ عمر کے لو گ شامل تھے ان کے لئے بلبن نے یہ کیا کہ ان کی تنخواہیں ان کی قابلیت و استعدادکے مطابق مقرر کیں اور حکم دیا کہ جائیداد کی فاضل آمدنی ان سے لے لی جائے مگر گاؤں ان کے پاس رہے۔ (۲۰)

اسی طرح تیسرا گروہ وہ تھا کہ جس میں یتیم اور بیوائیں تھیں بلبن نے اس گروہ کے متعلق یہ حکم دیا کہ جائیداد کی آمدنی سے ان کے اخراجات ادا کر کے باقی خزانے میں جمع کرادیئے جائیں۔ (۲۱)ہندوستان میں اگر عہدِ مغلیہ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہو گا کہ بابر نے سلاطین کی روایات کو قا ئم رکھتے ہو ئے اقطاع کے نظام کو بر قرار رکھا اور فتح کے بعد اپنے اُمراء کو مفتوحہ زمین بطورِ عطیہ دیں۔بابر کے بعد جب ہمایوں تخت نشین ہوا تو اس کو اتنا وقت نہ مل سکا کہ وہ اس نظام کو مضبو ط کرتا ۔اسی لئے اس نظام کی تشکیلِ نو جب ہو ئی کہ جب ہمایوں کے بعد اکبر تخت نشین ہوا واضح رہے کہ اکبرکا یہ دور ۱۵۵۶ ؁ء سے ۱۶۰۵ ؁ء پر محیط تھا۔ (۲۲)جب اکبر کے دور میں اس نظام کی تشکیلِ نو ہو ئی تو اس نظام کی تشکیلِ نو کی وجہ سے اب جاگیر یں صرف اس غرض سے دی جاتی تھیں کہ جاگیردار مرکزی حکومت کو فوج فراہم کر یگا ۔ 

غرض اس تشکیلِ نو کی وجہ سے جاگیردار کا تین سے چار سال بعد تبادلہ کردیا جاتا تھا اسے کبھی جاگیریں سندھ میں دی جاتی تھیں تو کبھی بنگال میں ۔یہ تبادلے اس وجہ سے کیے جاتے تھے تاکہ جاگیردار اپنے علاقے میں اپنا اثر و رسوخ قا ئم نہ رکھ سکے ۔جاگیر وں کے اس تبادلوں کی وجہ سے جاگیردار اس کی بہتری کی طرف پوری توجہ نہیں دے پاتا تھا اور اس کے انتظامات کو ماتحت پرچھوڑ دیتا تھا ۔ مغل دربار جاگیرکی آمدنی و اخراجات کا پو را حساب رکھتا تھا اس طرح مغل منصب دار ریو نیو وصول کرنے کا تو حق رکھتا تھا مگر جاگیر پر اس کا کو ئی حق نہ تھا ۔ 

عہدِ مغلیہ میں بڑے منصب دار ایک سے زیادہ بھی جاگیریں رکھ سکتے تھے اور یہ جا گیر یں کئی کئی فاصلوں پر مشتمل ہو تی تھیں ان کے لئے ضروری نہ تھا کہ جاگیریں قریب قریب ہوں۔ مغلیہ دور میں بڑے جاگیر دار اپنی جاگیرو ں کو ایک لمبے عرصے تک اپنے پاس بھی رکھ سکتے تھے انہیں اس بات کی اجازت تھی کہ وہ ایک طویل عرصہ جاگیریں اپنے پاس رکھ سکتے ہیں اوریہ طویل عرصہ دس سال یا پندرہ سال پر بھی محیط ہوسکتاتھا۔ (۲۳)

یہ تھا ہندوستان کا فیو ڈل ازم( جاگیردارانہ نظام) کہ جس میں فیوڈل ازم کے مختلف ادوار ر ہے ہیں‘ یعنی قدیم ہندوستان، مسلمانوں کے دورِ حکومت ، اور بر طانوی اقتدار۔ ہندوستان کے فیوڈل ازم (جاگیردارانہ نظام ) پربحث کرنے کے بعد ا ب ہم پاکستان کے فیوڈل ازم پربحث کر ینگے کہ کیا پاکستان میں جاگیر دارانہ نظام ہے ؟ اگر ہے تو یہ کس سے مما ثلت رکھتا ہے ؟ 

پاکستان اور جاگیردارانہ نظام :

پاکستان میں جاگیر دارانہ نظا م کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہو گا کہ پاکستان کا جاگیر دارانہ نظام نہ تو یورپ کے قرونِ وسطی جیسا ہے اور نہ ہی عہد سلا طین و مغلیہ جیسا۔کیو نکہ ہندوستان میں جاگیر بطور تنخواہ دی جاتی تھی اور ان جاگیر وں کی حیثیت نجی جائیداد کی تھی ۔ وا ضح رہے کہ عہدِ برطانیہ میں اس کو مو روثی بھی بنایا گیا۔ اور اس کی تشکیل اس طرح سے ہو ئی کہ اس طبقے کی وفا داریاں ،اس طبقے کی طر ف داریاں ، اس طبقے کی قربانیاں حکومت کے ساتھ رہیں۔ 

پاکستان میں اس طبقے نے اپنے شکنجے اس قدر مضبوطی سے گا ڑ لئے ہیں کہ الا مان الحفیظ ‘پاکستان کی سیاسی تا ریخ اور سیاستِ حاضرہ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں اس بات کا اندازہ بخوبی احسن انداز میں ہو گا کہ اس طبقے نے سیاسی اقتدار میں رہنے کی وجہ سے اپنے اختیارات کو بڑ ھا لیا ہے ۔اُصولاً ہو نا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت اس طبقے کو اپنے کنٹرول اپنے تسلط میں رکھتی لیکن ہو ا اس کے بالکل بر عکس یعنی کہ اس جاگیر دار طبقے نے حکومت کو اپنے کنٹرول اپنے تسلط میں رکھا ہوا ہے۔

پاکستان میں جاگیر دار طبقہ اتنا مضبوط ہے کہ حکومت بھی ان کے سامنے بالکل بے بس ہے حکومت ان کے خلاف کسی قسم کی کو ئی تا دیبی کاروائی کو ئی ایکشن کو ئی نوٹس نہیں لے سکتی۔ کیو نکہ ایک تو شروع ہی سے اس طبقے کی حکومت میں شمو لیت رہی ہے اور دوسری یہ کہ چو نکہ یہ طبقہ بہت با اثر ہے اس لئے اس طبقے نے حکو مت کو اپنی مکمل گرفت میں لیا ہوا ہے۔یہاں کاجاگیردار کسانوں کو کھیتوں پر کا م کرنے کے لئے مجبور کرتا ہے اور اس کے لئے نہ صرف سختی سے کام لیتا ہے‘ بلکہ کسا نوں پرتشدد بھی کرتا ہے۔ 

کسانوں پر جاگیر دار کے سختی کرنے کا طریقہ یہ ہو تا ہے کہ جاگیردار کسانوں کو پیشگی رقم دے کر مجبور کرتا ہے کہ اس کے لئے انتہائی سستی تنخواہ پر مزدورى کرے۔ اور تشدد کے مختلف طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کسانوں کو بیڑ یوں میں باندھ کر نجی جیلوں میں رکھا جاتا ہے۔اگر اُن میں سے کوئی کسان جیل سے بھاگ جاتا ہے تو اس کے بدلے اس کسان کے اہلِ خانہ کو سزا دی جاتی ہے کہ جس میں قتل جسمانی تشدد اور عورتوں کی بے حرمتی کرنا شامل ہو تا ہے۔وا ضح رہے کہ کسانوں کے لئے جاگیر داروں کی یہ نجی جیلیں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ ان جاگیر داروں کا انتظامیہ (حکومت) پر کتنا اثر ہے۔ 

جاگیر دار اپنا اثر و رسوخ برقرار و قا ئم رکھنے کے لئے سختی و تشدد سے کام لیتا ہے ۔ اگر اُس کے علاقے میں کو ئی اُس کااحترام نہ کرے یا ادب کے طور پر اُس کے آگے سر نہ جھکائے تو جاگیردار اس بات کو اپنی انا کا مسئلہ سمجھتا ہے اور اپنی انا کے خاطر اپنے اثرورسوخ کو برقرار و قا ئم کرنے کے خاطر ان لو گوں کو سخت سے سخت سزا دلواتا ہے۔ 

یہاں یہ بات قا بلِ ذکر ہے کہ پاکستان میں اس جاگیر دار طبقے نے معا شرے کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ نہ کیاِ اس لئے لو گ اب اس کی افادیت پر سوال کرنے لگے ہیں۔ نہ صر ف اس جاگیردار طبقے کی سیاست میں نااہلی ثابت ہو چکی ہے ۔بلکہ اس جاگیردار طبقے کو ملکی خرابی کا ذمہ داربھی قرار دیا جارہا ہے۔ موجودہ دور میں آئی ۔ایم۔ ایف، ور لڈ بینک، اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مطالبات کے تحت معا شر ے کی جو تشکیلِ نو ہو رہی ہے اس میں اس نظام کے لئے کو ئی جگہ نہیں ہے ۔ (۲۴) 

غالباً یہی وجہ ہے کہ یہ جا گیر دارانہ نظام بہت سے ممالک میں رہا اور اس نظام نے بہت سے ممالک کو متاثر کیا۔ لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ ما سوائے پا کستا ن کے یہ نظام پوری دنیا سے بتدریج ختم ہوتا گیا۔ فرانس میں انقلاب کے بعد اس نظام کا فرانس میں وجود نہیں رہا۔ اسی طر ح روس میں کمیو نسٹ انقلاب آنے کے بعد یہ نظام وہا ں سے بھی معدوم ہو گیا ۔ چین میں بھی یہ نظام تقریباً ڈھا ئی ہزار سال تک قائم رہا لیکن ۱۸۳۹ ؁ء سے ۱۸۶۲ ؁ء کے دوران برطانیہ اور چنگ سلسلہ بادشاہت کے درمیان مشہور زمانہ افیم کی جنگوں (Opium Wars) کے نتیجے میں اس نظام کا خاتمہ ہو گیا۔

اسی طرح ترکی میں اتا ترک نے سلطنت عثما نیہ کے زوال کے بعد جا گیردارانہ نظام کو ختم کردیا ۔ جاپان میں بھی جاگیردارانہ نظام کی ایک قسم موجود تھی لیکن سمورائی کلچر کے خاتمے کے بعد یہ نظام وہا ں سے بھی ختم ہوگیا۔

پاکستان کاپڑوسی ملک بھارت میں اُس وقت کے سر براہ جوا ہر لال نہرو نے بھا رتی آئین میں چوالیس ترامیم کے ذریعے زمینداری نظام کو ختم کر دیا ۔ یہا ں تک کے سابق مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش میں بھی یہ نظام پاکستان سے الگ ہوتے ہی جلد ختم ہوگیا۔یہی وجہ ہے کہ اس جا گیردارانہ نظام کے خاتمے کی وجہ سے ان ممالک میں دولت کی عدم مساوات میں کمی آئی اور سماجی و معاشی ترقی کو بھی تیزی سے راہ ملی۔ 

اس کے برعکس پاکستان واحد ملک ہے جہاں جاگیردارانہ ذہنیت کی جڑیں بہت گہری ہیں ۔ واضح رہے کہ قیام پاکستان کے وقت مسلم لیگ میں بھی چند اہم رہنما جاگیردار تھے ۔ یہ جاگیردار ہر آنے والی حکومت میں شامل ہوتے رہے اور پارلیمنٹ و وزارتوں کے ذریعے اپنا کنٹرول واپنا تسلط برقرار کرتے رہے ہیں۔ فیوڈل ازم کا زوال :

دنیا میں مختلف سیاسی نظاموں نے ایک طویل عرصے تک اپنی طاقت کو منوایا ہے ۔ چا ہے وہ پاپائیت ہو یا بادشاہت اشتراکیت ہو یا سیکولر جمہو ریت ،سر مایہ دارانہ نظام ہو یا جا گیر دارانہ نظام۔غرض مختلف نظام مختلف ادوار میں اپنی طاقت کو منواتے رہے ہیں اپنا اثرو رسوخ دکھاتے رہے ہیں‘ لیکن تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ تاریخی عمل ایک جگہ ٹھہرا ہوا نہیں رہتا زندگیاں بد لتی رہتی ہیں ادوار بدلتے رہتے ہیں۔دنیا میں بیشک مختلف نظام آئے اور ایک طویل عرصے تک اپنا لوہا بھی منواتے رہے۔ لیکن تاریخِ دنیا ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ دنیاکااُصول ہے جب کو ئی چیز کا رآمد نہیں رہتی تو اس کی جگہ دوسری نئی چیز لے لیتی ہے ۔تو تاریخِ دنیا ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ دنیا میں مختلف نظام آتے گئے اور جاتے رہے جب ایک نظام دنیا کی نظرمیں کارآمد نہ رہا جب اس کی افادیت معا شرے میں ختم ہو گئی تو اس نظام کی جگہ دوسرے نظام نے لے لی۔

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ فیو ڈل ازم (جاگیر دارانہ نظام) تقریباً دنیا کے اکثرممالک میں رہالیکن رفتہ رفتہ جب اس کا زوال شروع ہوا تو وہ زوال ایسا تھا کہ اب عصرِ حاضر میں اس نظام کا وجود ما سوائے پاکستان کے کہیں بھی نہ رہا۔ اس نظام نے صدیوں دنیا کو اپنی لپیٹ میں لئے رکھا اوراپنی طاقت کا توازن برقرار کیے رکھا ۔

یورپ پر اگر تاریخی نظر دوڑائی جائے تو ہمیں اس بات کا اندازہ بخوبی احسن انداز میں ہو گا کہ فیوڈل ازم کے ادارے نے یورپ میں اٹھا رہویں صدی تک خود کو قا ئم ر کھا لیکن جب صنعتی وٹیکنا لو جیکل ایجادات نے تبدیلیا ں شروع کیں تو اس ادارے کے استحکام میں زبردست دراڑیں پڑ ی۔ (۲۵)یو رپ میں فیوڈل ازم کا زوال تین طریقوں سے عمل میں آیا۔ ایک نیچے سے آنے والی معا شی تبدیلیاں،دوسرے انقلابی اقدامات، اور تیسرے حکمران طبقے کی جانب سے اوپر سے اصلاحات کے ذریعے نظام کو بدلا گیا۔ (۲۶)

برطانیہ میں فیو ڈل ازم کا زوال!:

برطانیہ پر اگر مختصراً بات کر لی جائے تو ہمیں اس بات کا اندازہ بخوبی احسن انداز میں ہو گا کہ بر طا نیہ میں فیوڈل ازم کی جڑیں بہت گہری تھیں۔تاریخ ہمیں یہ بتا تی ہے کہ بر طانیہ میں جاگیر داروں اور بادشاہوں میں سیاسی اختیارات پر ہمیشہ سے تنازع رہا۔ایک طرف جاگیر دار چا ہتے تھے کہ وہ اپنی خود مختاری برقرار رکھیں تو دوسری طرف بادشاہوں کی یہ کوشش ہو تی تھیں کہ وہ فیوڈل ازم کے اثر کو ختم کر کے مطلق العنان حیثیت اختیار کریں۔

۱۲۱۵ ؁ء میں برطانیہ میں بادشاہ اور فیوڈلز کے اختیارات کا تعین ہوا۔لیکن جب ’’چارلس اوّل‘‘ اور پارلیمنٹ کے درمیان رسّہ کشی شروع ہوئی تو اس رسّہ کشی نے بادشاہ کی طاقت کو کمزور کردیا جس کی وجہ سے فیوڈلز کا اثر پارلیمنٹ میں بڑھ گیا ۔واضح رہے کہ برطانیہ میں چارلس اوّل اور پارلیمنٹ کے درمیان یہ رسّہ کشی تقریباً ۱۶۴۲ ؁ء سے ۱۶۴۹ ؁ء تک چلتی رہی۔ (۲۷)

غرض جب اس رسّہ کشی کی وجہ سے فیوڈلز کا اثر پارلیمنٹ میں بڑھ گیاتو اس کے بعد سے ہی یہ سوال اٹھنے لگا کہ اب حکومت کرنے کا اختیار کس کو ہے؟ بادشاہ کو ہے یاپارلیمنٹ کو ؟ ستر ہویں صدی میں برطانیہ میں دو اہم تبدیلیاں آئیں۔ایک زراعتی انقلاب کہ جس نے فیوڈل ازم(جاگیردارانہ نظام) کو مزید تقویت بخشی ۔اسی زراعتی ا نقلاب کی وجہ سے فیوڈلز کے طبقے کو دولت اور سیاسی اختیارات دیئے گئے۔اور دوسرایہ کہ برطانیہ میں اسی زراعتی انقلاب کے نتیجے میں صنعتی انقلاب آیا کہ جس نے اس نظام کوتبا ہ و بربادکر ڈالا۔ (۲۸)بر طانیہ میں جب زراعتی انقلاب آیا تو اس کے منفی اثرات کسانوں پر پڑے ۔چونکہ پرانے نظام میں بے روزگاری نہیں تھی پورا خاندان کھیتوں میں کام کرتا تھا۔لیکن اس نئے نظام میں مشینوں نے بہت سے کاموں کی جگہ لے لی ۔ جب مشینوں نے بہت سے کاموں کی جگہ لی تو ظاہر ہے کسانوں کو تو بے روزگا ر ہونا ہی تھا۔غرض بے شمار کسان بے روزگار ہو نے لگے اور اسی بے روزگاری کی تنگی کی وجہ سے کسانوں نے شہروں کا رُخ اختیار کرنا شروع کردیا تاکہ وہ مناسب روزگار حاصل کر سکیں ۔شہروں میں چونکہ صنعت کار کو کم تنخواہ پر مزدورں کی ضرورت تھی اس لیے اس نے کسانوں کو شہروں میں (اپنے مفادات کے خاطر)خوش آمدیدWelcome) )کہا ۔

واضح رہے کہ دیہاتوں سے شہروں میں کسانوں کی اسی منتقلی نے دیہات کی اہمیت کو کم کردیا۔ اور اسی منتقلی کی وجہ سے شہروں میں عروج و بلندی کا دور دورہ شروع ہو گیا۔او ر انہی تبدیلیوں کی وجہ سے برطانیہ میں مرحلہ وارفیوڈ ل ازم(جاگیر دارانہ نظام) ختم ہوتا گیا۔

فرانس میں فیو ڈل ازم کا زوال:

فرانس پر اگر مختصراً بات کر لی جائے تو ہمیں اس بات کا اندازہ بخوبی احسن انداز میں ہو گا کہ فرانس میں فیوڈل ازم کا خاتمہ برطانیہ کی طر ح مرحلہ وار اصلاحات کے ذریعے نہیں ہوا بلکہ فرانس میں اس کا خاتمہ انقلاب کے ذریعے ہوا۔اس کی ایک وجہ ان دونوں ملکوں کے فیوڈل ازم (جاگیر دارانہ نظام) میں فرق تھا ۔برطانیہ میں فیوڈلز سیاست اور انتظامیہ میں حصہ لیتے تھے ۔ جبکہ اس کے بر عکس فرانس میں انتظامیہ کو ریاست کے عہدے داروں پر چھوڑ دیا گیا تھا ۔ (۲۹) فرانس کے جاگیردار ’’ بورژوا ‘‘ طبقے میں نہ تو شادی کرتے تھے ۔ اور نہ ہی اپنے چھوٹے لڑکوں کو تجارت میں آنے دیتے تھے۔

برطانیہ کا فیوڈلز دیہات میں رہتا تھا اور اپنی جائیداد کے معا ملات سے واقف رہتا تھاجبکہ اس کے برعکس فرانس کا فیوڈلز شہروں میں رہتا تھا اور اپنی جائیداد کے معاملات سے کم ہی واقف ہوتا تھا ۔ اسی فرق کی وجہ سے برطانیہ کافیوڈلز کا وژن فرانسیسی لارڈ کے مقا بلے میں زیادہ وسیع تھا ۔

برطانیہ کا فیوڈلز پارلیمنٹ کی سر گر میوں میں پورا پورا شریک ہو تا تھا اور سیاست کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کرتا تھا ۔جبکہ اس کے برعکس فرانس کافیوڈلز پارلیمنٹ سے دوسرے طبقوں واداروں سے کوئی واسطہ کو ئی رابطہ نہ کھتا تھا۔(۳۰) غالباً یہی وجہ تھی کہ فرانس کا فیوڈلز یہ اندازہ نہیں کر پاتا تھا کہ لو گ کیا سوچ رہے ہیں ؟اور ان کی کیا خواہشات ہیں ؟ 

چودہ جولائی ۱۷۸۹ ؁ء میں لوگوں نے فرانس کے شہر پیرس میں ایک زبردست مظاہرہ کیا (کہ جو انقلابِ فرانس ہی کی ایک کڑی تھی) اور قلعہ ہیتل کو مسمار کر کے شہر پر اپنا اقتدار قا ئم کرلیا ۔ (۳۱) انقلابِ فرانس اور ان ہی جیسی کڑیوں سے متاثر ہو کر فرانس کے کسانوں نے دیہاتوں میں فیوڈلز کے خلاف بغاوت کردی ۔ اور یہ بغاوت ایسی تھی کہ فرانس کے فیوڈلز کو اپنی جانوں کے لالے پڑ گئے۔فرانس کے کسانوں نے بے شمار ایسی دستا ویزات کو آگ لگا کر ختم کردیا کہ جو ان کے خلاف تھیں۔ یا پھر اُن دستاویزات پر قرضے نقش تھے۔ اس کے علاوہ فرانس کے کسانوں نے اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اور موقع کی تلاش پاکر بے شمار فیوڈلز کو قتل بھی کیا ۔

غرض اس بغاوت کے نتیجے میں فرانس میں دیہاتوں سے فیوڈ ل ازم کے نشانات کو مٹانے کی مہم شروع ہو ئی ۔ اور انہی ہنگا می حالات کو دیکھتے ہوئے نیشنل اسمبلی کا اجلاس ہوا ۔کہ جس میں چار اگست ۱۷۸۹ء کو نیشنل اسمبلی نے فیوڈل ازم کے خاتمے کا اعلان کردیا۔ (۳۲) واضح رہے کہ پھر فرانس کا فیوڈ ل ازم انقلاب کے بعد اپنی حیثیت بحال نہ کرسکا او ر تاریخِ دنیا کا ایک سیاہ باب بن گیا۔

جرمنی میں فیو ڈل ازم کا زوال:

اسی طرح جرمنی پر اگر مختصراً بات کر لی جائے تو ہمیں اس بات کا اندازہ بخوبی احسن انداز میں ہو گا کہ نیپولین نے جب جرمنوں کو شکست دی اورجرمنی قوم کو جب سیاسی طور پر ذلت کا سامنا کرنا پڑا ۔ تو جرمنی قوم میں ایک قومی شعور پیدا ہوااور یہ احساس پیدا ہواکہ جرمنی قوم کو شکست کیوں ہو ئی ؟وہ کیا عوامل و محرکات تھے کہ جس کی وجہ جرمنی کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ؟ غرض جرمنی قوم نے اس شکست پر بہت کچھ سوچااور وہ اسباب تلاش کیے کہ جس کی وجہ سے جرمنی کو شکست ہو ئی ۔جرمنی قوم چا ہتی تھی کہ وہ اس شکست سے کچھ سبق سیکھے اور اس شکست کوبھلا کر آگے کی طرف بڑھے۔توانہوں نے خوب سوچ و بچا ر کیا اورحالات کا جائزہ لیا بلآخر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ جرمن قوم کی شکست کی وجہ نااتفاقی،ریاستوں کی باہمی چپقلش ،او ر ان کا فیوڈل نظام ہے۔واضح رہے کہ اُس وقت جرمنی کا فیوڈل نظام بڑا ہی مستحکم تھا۔ نہ صرف ذرائع پیداوار پر ان کا قبضہ تھا بلکہ فوج اور انتظامیہ کے تمام بڑے بڑے عہدے ان کے پاس تھے ۔ (۳۳))جرمنی میں انتظامی ،سماجی و معاشی ڈھانچے میں تبدیلی کی ابتدا ء خود جرمنی کے حکمراں طبقے نے کی ‘ وا ضح رہے کہ ان تبدیلیوں کی دو وجوہات تھیں۔ ایک فرانس سے شکست ، اور دوسری برطانیہ کی صنعتی ترقی۔ (۳۴)فرانس نے جب جرمنی کو شکست دی تو اس شکست سے جرمنی کے قدیم نظام کی کمزوریاں ظاہر ہوئیں اس لئے حکمراں طبقے نے یہ ضروری سمجھا کہ قدیم نظام میں اصلاحات کی جائیں۔غرض ان دو و جوہات کو مدّ نظر رکھتے ہو ئے جرمنی کے حکمرانوں نے جرمنی کے فیوڈل نظام میں اصلاحات کیں۔پہلی فرانس سے شکست ‘ جرمن حکمرانوں نے جب اپنی شکست کے محرکات و عوامل تلاش کیے تو اُن کو ریاست کی آپس میں چپقلش،اور آپس کی نا اتفا قیاں وغیرہ تو نظر آئیں‘لیکن اس کے ساتھ ساتھ جرمنی کافیوڈل نظام بھی ان کی نظروں کا مرکز بنا۔ 

اور دوسری وجہ برطانیہ کا صنعتی انقلاب‘جب برطانیہ میں صنعتی انقلاب آیا توجرمن حکمرانوں میں یہ احساس پیدا ہوا کہ اس صنعتی انقلاب کامقا بلہ کیا جائے۔یعنی کہ اگر دنیامیں کچھ نام بنانا ہے، اگر مضبوط ممالک کے سامنے دیوار بن کر کھڑا ہو ناہے تو ہمیں برطانیہ کے صنعتی انقلاب کا مقا بلہ کرنا ہوگا ۔ توبنیادی طور پر جرمنی میں فیوڈل نظام کے خاتمے کے لئے یہ دو وجو ہات سبب بنیں ۔وا ضح رہے کہ یہ خاتمہ یہ اصلاحات خودجرمن حکمرانوں نے کی ۔ حاصل کلام یہ نکلا کہ فیو ڈل ازم ( جاگیر دارانہ نظام ) تقریباً دنیا کے اکثر ممالک میں رہا۔ لیکن رفتہ رفتہ جب اس کا زوال شروع ہوا تووہ زوال ایسا تھا کہ اب عصرِ حاضر میں اس نظام کا وجود ما سوائے پاکستان کے کہیں بھی نہ رہا۔اس نظام نے صدیوں دنیا کو اپنی لپیٹ میں لئے رکھا اوراپنی طاقت کا توازن برقرار کیے رکھا ۔ فرانس ،برطانیہ اور جرمنی میں فیوڈل نظام کے زوال پر ہم نے مختصراً بحث کی۔اب ہم مختصراً دوسرے ممالک پر بحث کر ینگے۔

مختلف ممالک میں فیو ڈل ازم کا زوال:

روس میں کمیو نسٹ انقلاب آنے کے بعد یہ فیوڈل نظام وہا ں سے بھی معدوم ہو گیا ۔ اسی طرح چین میں بھی یہ فیوڈل نظام تقریباً ڈھا ئی ہزار سال تک قائم رہا۔ لیکن ۱۸۳۹ ؁ء سے ۱۸۶۲ ؁ء کے دوران برطانیہ اور چنگ سلسلہ بادشاہت کے درمیان مشہور زمانہ افیم کی جنگوں Opium Wars ) ( کے نتیجے میں اس نظام کا خاتمہ ہو گیا۔

اسی طرح ترکی میں اتا ترک نے سلطنت عثما نیہ کے زوال کے بعد جا گیردارانہ نظام کو ختم کردیا ۔ جاپان میں بھی جاگیردارانہ نظام کی ایک قسم موجود تھی لیکن سمورائی کلچر کے خاتمے کے بعد یہ نظام وہا ں سے بھی ختم ہو گیا۔پاکستان کاپڑوسی ملک بھارت میں اُس وقت کے سر براہ جوا ہر لال نہرو نے بھارتی آئین میں چوالیس ترامیم کے ذریعے زمینداری نظام کو ختم کر دیا ۔ یہا ں تک کے سابق مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش میں بھی یہ نظام پاکستان سے الگ ہوتے ہی جلد ختم ہو گیا۔

یہی وجہ ہے کہ اس جا گیردارانہ نظام کے خاتمے کی وجہ سے ان ممالک میں دولت کی عدم مساوات میں کمی آئی اور سماجی و معاشی ترقی کو بھی تیزی سے راہ ملی۔ اس کے برعکس پاکستان واحد ملک ہے جہاں جاگیردارانہ ذہنیت کی جڑیں بہت گہری ہیں ۔ یاد رہے کہ قیام پاکستان کے وقت مسلم لیگ میں بھی چند اہم رہنما جاگیردار تھے ۔ یہ جاگیردارہر آنے والی حکومت میں شامل ہوتے رہے اور پارلیمنٹ و وزارتوں کے ذریعے اپنا کنٹرول واپنا تسلط برقرار کرتے رہے ہیں۔ 

اسلام اور فیوڈل ازم ! ( تقا بلی جائزہ):

اب ہم بحث کر ینگے اسلام اور فیوڈل ازم پر‘ یعنی کہ اسلام جو نظریہ پیش کرتا ہے، جو نظام پیش کرتا ہے وہ کس قدر فیوڈل ازم سے مختلف ہے ؟اسلام کے سیاسی نظریے اور سیاسی نظام میں ایسی کون سی خصو صیات ہیں کہ جو فیوڈل ازم ( جاگیردارانہ نظام ) میں نہیں؟عصرِ حاضر میں فیوڈل ازم (جاگیردارانہ نظام) کے حوالے سے ایک غلط من گھڑت تصور بہت پھیلا ہوا ہے اورمزید پھیلا یا جارہا ہے کہ اسلام جا گیردارانہ نظام کی اجازت دیتا ہے ۔ یعنی دوسرے لفظوں میں یہ کہ اسلام میں اقطاع کی اجازت ہے وغیرہ وغیرہ۔

توواضح رہے کہ یورپ کے جا گیردارانہ نظام کااقطا ع سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔جب یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام میں اقطاع کی اجازت ہے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ یورپ کا جاگیردارانہ نظام جا ئز ہے ۔ اقطاع ایک الگ چیز ہے جبکہ یورپ کا جاگیردارانہ نظام ایک دوسری چیز۔ 

اقطاع کی اجازت حضوراکرمﷺ کے وقت سے ہے۔ یہ آپ ﷺنے خود فرمایا متعدد صحابہ کرام کو جاگیریں عطا فرما ئیں۔ جیسے آپ ﷺ نے صدیق اکبر،ؓ اسی طرح فاروق اعظمؓ و امیر معاویہ،ؓ اور متعدد صحابہ کرام کو جا گیر یں دیں۔ (۳۵) لیکن اوّل تو جا گیر یں دینے کا مقصد یہ نہ تھاکہ جو یورپ کے جاگیردارانہ نظام کا تھا ‘ بلکہ ان کا مقصد مجمو عی ریا ست کے مفاد کو مدّ نظررکھنا تھا ۔ جیسے کہ جو زمینیں بنجر پڑی تھیں اُ نہیں لوگوں کے ذریعے آباد کیا جائے۔چنانچہ جو بنجر زمینیں جا گیر کے طور پر دی جا تی تھیں تو یہ شرط ہوتی تھی کہ وہ شخص اِسے تین سال کے اندر اند ر آباد کرے۔بصورتِ دیگر ایسا نہ کرنے سے وہ زمین واپس لے لی جا ئیگی ۔ (۳۶) اب اگر کوئی شخص تین سالوں کے اندر اندر زمین آباد نہ کر پاتا تو اس سے وہ زمین واپس لے لی جا تی تھی۔

اسی طرح بعض اوقات یہ زمینیں غریبوں کو بطورِ امداد کے طور پر دی جاتی تھیں ۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ زمین دینے پر جو بھی شرائط ہوتی تھیں وہ شرعی اعتبار سے ہوتی تھیں ۔ یعنی زمین کے اوپر جو واجبات ہوتے تھے وہ شرعاً متعین تھے ۔یا تو عشر یا پھرخراج (۳۷) یہ متعین تھے اس میں تبدیلی کوئی نہیں کر سکتا تھا۔چاہے وہ جا گیردار ہو ،چا ہے زمیندار ہو، یا چا ہے کوئی بھی ہو۔ بہر حال تبدیلی کسی صورت بھی ممکن نہ تھی۔

جب ہی یہ بات بڑے بے باک طریقے سے کی جاتی ہے کہ اقطاع کا جا گیردارانہ نظام سے کوئی تعلق تو کیا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے‘ اور اگر اسلام کے اقطاع پر عمل کیا جائے تو جو خرابیاں یورپ کے جا گیردارانہ نظام میں ہو ئیں وہ یہا ں پیدا ہونے کا کو ئی تصور ہی نہیں۔ غرض عصرِ حاضر میں جس طرح تھیو کریسی (Theocracy) کا عیسائی مفہوم بیان کر کے اسلامی حکومت کے بارے میں عوام الناس کو گمراہ کرنے کی کو ششیں کی جارہی ہیں ‘ بلکل اسی طرح جاگیر دارانہ نظام کا لفظ بھی ہمارے یہاں بہت کثرت سے استعمال کیا جارہا ہے۔اور بعض اوقات اُسے کاشت کاری کے اس نظام پر چسپاں کرنے کی کو شش کی جاتی ہے کہ جس کی اسلام میں اجازت ہے۔ 

یورپ کا جاگیردارانہ نظام ہو یا اس کے علاوہ دوسرے ممالک کا ۔ اس نظام( فیوڈ ل ازم ) کی خرابیاں بالکل ظاہر ہیں جیسے جاگیردار اپنے ماتحت و نچلے لو گوں کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کرتا تھا۔جب کہ اسلامی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ عہدِ نبویﷺ میں یا عہدِ صحابہؓ میں جب کسی کوجاگیریں دی جاتیں تو اُن کے ساتھ حُسنِ سلوک و بہتری کا معا ملہ کیا جاتا تھا ۔

اسی طرح مختلف مما لک میں جب اس نظام (جاگیردارانہ) کا عروج تھا تو یہ عروج اتنی بلندیوں پر پہنچا ہوا تھا کہ سیاسی اختیارات پر ان جاگیرداروں کی گرفت بہت مضبوط تھی دوسرے لفظوں میں یہ کہ ان کی مرضی کے خلاف کو ئی کام نہ ہو سکتا تھا۔ جب کہ اس کے بر خلاف اسلامی تاریخ ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ جب بھی عہدِ نبوی ﷺ یاعہدِ صحابہؓ میں کسی کو جاگیریں دی گئیں تو ان جاگیریں دینے کا مقصد یہ نہیں رہا کہ رعایا پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا جائے، یا ان کو غلام بنا لیا جائے ، یا ان پر اپنی مرضی کو مسلط کیا جائے۔اسی طرح جاگیردارانہ نظام میں جاگیر دار جو ٹیکس لگا تا اپنے محکومین پر یا جو شرائط عا ئد کرتا وہ ان محکومین کو ماننی پڑتی (واضح رہے کہ ان شرائط میں سے اکثر شرا ئط بلکل خلافِ شرع ہوا کرتی تھیں ) ۔جب کہ ا س کے برخلاف اسلام کی تعلیمات یہ ہے کہ عہدِ نبوی ﷺ اور عہدِ صحابہؓ میں جب کسی کو کو ئی جاگیر دی گئیں تو اس پر جو بھی شرائط رکھی گئیں وہ شرعی اعتبار سے رکھی گئیں ۔ یعنی عہدِ نبوی ﷺ اور عہدِ صحابہؓ میں جو بھی زمین کے اوپر واجبات ہو تے تھے وہ شرعاً متعین ہوتے تھے یا تو عشر یا پھر خراج ۔ یہ متعین تھے اور اس میں کو ئی تبدیلی نہ کرسکتا تھا۔ چا ہے وہ جاگیردار ہو یا زمیندار ہو یا چا ہے کو ئی بھی ہو بہر حال تبدیلی کسی صورت بھی ممکن نہ تھی۔ 

اسی طرح یورپ اور دوسرے ممالک کے فیوڈل ازم( جاگیردارانہ نظام ) میں جا گیریں دینے کا مقصد یہی ہو اکرتا تھا کہ ان سے خراج حاصل کیا جائے ، ان پر اپنی د ھو نس جمائی جائے ، ان پر ضرورت سے زیادہ ٹیکس لگا یا جا ئے، ان پر اپنا تسلط برقرار رکھا جائے اور ان پر اپنی گرفت کو مضبو ط کیا جائے۔جب کہ اس کے برخلاف عہدِ نبوی ﷺ اور عہدِ صحابہؓ میں جاگیریں دینے کا مقصد یہ نہ تھا کہ جو یورپ اور دوسرے ممالک کا تھا۔ بلکہ جاگیریں دینے کا مقصد مجمو عی ریاست کے مفاد کو مدّ نظر رکھنا تھا ۔جیسے مثال کے طور پر عہدِ نبوی ﷺاور عہدِ صحابہؓ میں جو زمینیں بنجر پڑی تھیں ان بنجر زمینوں کو بطورِ جاگیردیاگیا تاکہ لو گوں کے ذریعے ان بنجر زمینوں کو آباد کیاجاسکے ۔ (۳۸)چنا نچہ یہ بنجرز مینیں جب کسی شخص کو بطور جاگیر دی جاتی تو یہ شر ط ہوتی کہ وہ شخص اس زمین کو تین سال کے اندر اندر آباد کریگا ۔

اسی طرح عہدِ نبوی ﷺ اور عہدِ صحابہؓ میں یہ جاگیریں غریبوں کو بطورِ امداد کے طور پر بھی دی گئیں اور زمین دینے پر جو بھی شرائط رکھی گئیں وہ شرعی اعتبار سے رکھی گئیں۔جب کہ یو رپ یا دوسرے ممالک کے فیوڈل نظام میں غریبوں کو بطور امداد جاگیریں دینے کا کو ئی تصور ہی نہیں۔غرض ان بنیادی فرق کو دیکھتے ہو ئے ہم یہ با آسانی کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کا اقطاع ارض یورپی اور دوسرے ممالک کے فیوڈل نظام سے بہت مختلف ہے ۔ اسلام کے اقطا ع میں جو افادیات ہیں وہ یو رپی اور دوسرے ممالک کے فیوڈل نظام میں نہیں ہے۔جب ہی یہ بات بڑے بے باک طریقے سے کی جاتی ہے کہ اقطاع کا جاگیردارانہ نظام سے کوئی تعلق تو کیا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اور اگر اسلام کے اقطاع پر عمل کیا جائے تو جو خرابیاں یورپ اور دوسرے ممالک کے جا گیردارانہ نظام میں ہو ئیں وہ یہا ں پیدا ہونے کا کو ئی تصور‘ کوئی امکان نہیں۔

حوالہ جات:

(۱)مبارک ،علی ڈاکٹر،جا گیر دار ی اور جا گیر دارانہ کلچر، لاہور مشعل بکس ۱۹۹۶ص۱۵

(۲)عثمانی، محمد تقی مفتی، اسلام اورسیاسی نظریات ، کراچی ،مکتبہ معا رف القر آن ،۱۴۳۱ھ ،ص۶۲

(۳) ایضاً ، ص۶۴ 

(۴) ایضاً ، ص۶۷ 

(۵) ایضاً ، ص۶۸ 

(۶)ایضاً مبارک ، علی ڈاکٹر،جا گیر دار ی اور جا گیر دارانہ کلچر، ص۵۱

(۷) رومیلا تھا پر، Ancient Indian Social History: Orient Longman

Delhi, 1978, P.43. 

(۸) ارتھ شا ستر، ، صفحہ نمبر)۲۲۳) ، مکتبہ چرا غ راہ کراچی، ۱۹۹۱ء۔صفحہ نمبر۲۲۳

(۹) مبارک ،علی ڈاکٹر ،جا گیر دار ی اور جا گیر دارانہ کلچر، ص،۵۲

(۱۰) ایضاً ، ص،۵۲

(۱۱) ایضاً ، ص۵۴ 

(۱۲) ایضاً ، ص۹۶ 

(۱۳)A.R. Desai: Social Background of Indian Nationalism Bombay,1948.P.37. 

(۱۴)مبارک ،علی ڈاکٹر ،جا گیر دار ی اور جا گیر دارانہ کلچر، ص،۹۸

(۱۵) ایضاً ، ص،۶۴

(۱۶) ایضاً ، ص،۵۷

(۱۷)ضیاء الدین برنی ،تاریخ فیروز شاہی ،لاہور ، ادارہ ثقا فت اسلامیہ لاہور،۱۹۶۹ء۔ص۱۰۵۔۱۰۴

(۱۸( ایضاً ، ص،۱۴۲ ؛

(۱۹)ایضاً ، ص،۴۱۶ 

(۲۰)ایضاً ، ص،۴۲۳ 

(۲۱)ایضاً ، ص،۶۲۸

(۲۲)مبارک ،علی ڈاکٹر ،جا گیر دار ی اور جا گیر دارانہ کلچر، ص،۶۴

(۲۳) John F. Richards: The New Cambridge History of India The Mughal Empire,Cambridge, 1993, P.18. 

(۲۴)مبارک ، علی ڈ اکٹر،جا گیر دار ی اور جا گیر دارانہ کلچر، ص،۵۵

(۲۵)ایضاً ، ص،۳۷ 

(۲۶)ایضاً ، ص،۳۸ 

(۲۷)ایضاً ، ص۳۹ 

(۲۸)ایضاً ، ص۳۹ 

(۲۹) G.M Trevelyan: English Social History, Longman London,1962 P.307 . 

(۳۰)G.M Trevelyan: English Social History, Longman London,1962 P.308.  (۳۱)Well dewrant,The Age of Nepolean , New York, 1973, P.22 

(۳۲) ایضاً ، صفحہ نمبر)۲۳ ) ۔ 

(۳۳) J.J Sheehan: Genman History,)1770-1866)Oxford Elarendon 1989, P.295.  

(۳۴) J.J Sheehan: Genman History,)1770-1866)Oxford Elarendon 1989, P.300.  (۳۵) ثمانی، ایضاً ،ص۶۸

(۳۶) ایضاً ، ص۶۹ 

(۳۷) ایضاً ، ص۷۰ 

(۳۸) ایضاً ، ص۶۹ 

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...