Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 33 Issue 2 of Al-Idah

مسئلہ حجاب: فرانسیسی مسلمان خواتین اور اسلامی تعلیمات |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

33

Issue

2

Year

2016

ARI Id

1682060034497_1113

Pages

86-110

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/94/87

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/94

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

انسانی تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتاہے کہ عورت ہمیشہ افراط وتفریط کا شکار رہی ہے کہیں تو اس کے ساتھ حیوانوں سے بھی بدتر قرار دے کر شرمناک سلوک کیا گیا اور کہیں اسے مردوں سے بھی اعلی وارفع سمجھا گیامگر اسلام نے عورت کے مقام ومرتبہ اور حقوق وفرائض کے حوالے سے انتہائی متوازن لائحہ عمل پیش کیاہے یہی وجہ ہے کہ جب تک اسلام سربلند رہا اور مسلم معاشروں میں اسلامی تعلیمات کے مطابق عمل ہوتارہا تب عورت کی طرف سے کبھی حق تلفی اور عدم مساوات کا شکوہ نہیں کیا گیا ،کبھی ایسا نہ ہوا کہ عورتوں نے اپنے حقوق کے لیے انجمنیں( NGOs)بناکر احتجاج کیا ہو یامردوں کے خلاف واک کی ہو اس لیے کہ عورت کے حقوق وفرائض کے حوالے سے اسلام کی دی گئی تعلیمات پرعمل کرنے سے کبھی ان چیزوں کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوسکتی ۔

مغربی دنیا میں عورت ہمیشہ ظلم وستم کا نشانہ رہی تھی اور پچھلے دوسوسال سے اس کاردعمل یہ سامنے آیا کہ عورت کو ہرمیدان میں مردوں کے ساتھ اب یکساں طورپر شریک کا ر تسلیم کرلیاگیاہے ۔اسے مرد کے مقابلہ میں ایک عورت تسلیم کرنے کی بجائے مرد ہی سمجھا جارہاہے ۔اسے گھر میں رہ کر بچے پالنے اور گھر سنبھالنے کی بجائے اپنی فطرت کے منافی امور بھی سونپے جارہے ہیں ۔گویا عورت کو اب ایک دوسری انتہاء پر پہنچادیا گیا ہے اور اس کے نتیجہ میں پید ا ہونے والے نقصانات سے چشم پوشی کی جارہی ہے بلکہ الٹا یہ دلائل دیے جارہے ہیں کہ عورت کے لیے اپنے گھر کی چار دیواری تک محدود رہنے سے اس کی حق تلفی ہوتی ہے اور مردوں کے شانہ بشانہ نہ چلنے سے معاشرتی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے ۔اسلامی تعلیمات میں عورتوں کے لیے حکم حجاب ان کو قید کرنا ہے جو کہ ان کے ساتھ زیادتی ہے ۔

چنانچہ یورپ کے بعض ممالک میں حجاب پر پابندی کی بحثیں ہورہی ہیں اور فرانس نے تو حجاب پر پابندی کا قانون منظور کرلیاہے اورعجیب بات یہ ہے کہ ایک طرف توعیسائی نن اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے اسکارف سر پر لینے میں آزاد ہیں لیکن وہیں پر مسلمان عورت اگرخود کو حجاب میں محفوظ تصور کرتی ہے تو اس پر طعن وتشنیع کیا جاتا ہے۔زیر نظرآرٹیکل میں حجاب(چہرہ کا پردہ) کے حوالہ سے فرانس کا موقف اورحجاب کے کے خلاف قانون سازی سے متاثر ہونے والی مسلمان خواتین کے لیے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حل پیش کیا گیاہے ۔

فرانس میں حجاب کے خلاف قانون سازی

موجودہ مغربی تہذیب نے اہل یورپ کی مذہبی اقدار کو مٹادیاہے ۔اس وقت وہ اخلاقی انحطاط کا بری طرح شکار ہیں۔مردوعورت کے آزادانہ میل جول کے نتیجہ میں یورپیئن اقوام جنسی بے راہ روی میں مبتلا ہیں ۔مگر اس کے باوجوداپنے اخلاقی اور معاشرتی زوال سے قطع نظر کرتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں منفی افکار کو ترویج دے رہے ہیں ۔

اسی سلسلہ میں آج کل اسلامی ثقافت کی پہچان حجاب کو موضو ع سخن بنا یا ہوا ہے ۔ کہ اسلا م نے عورتوں کو کمتر درجہ دیاہے انہیں گھر کی چار دیواری میں قید کرکے ان کی آزادی چھین لی ہے انہیں مردوں کے تابع بنا کر ان کی حق تلفی کی ہے ،عورت کی شخصی آزادی کو بھی اسلام نے سلب کرلیاہے وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا تو درکنار لباس وغیر ہ کا انتخاب بھی نہیں کرسکتی ،اور پردے کی اوٹ میں ہوکر وہ کسی کام کے سلسلے میں نکل سکتی ہے، قید حجاب کے بغیر اس کے لیے چاردیواری سے باہر نکلنے پر پابندی عائدکرنا عورت کے ساتھ ظلم ہے ۔ اس قسم کے نظریات اور خیالات عصر حاضر میں اسلام دشمنی میں تیزی سے پھیلا ئے جارہے ہیں ۔

چنانچہ اس حوالے سے شمالی امریکہ کا پہلا اور سب سے بڑا اخبار‘‘اردو ٹائمز’’ کی رپورٹ جو بروز بدھ ۱۵ ستمبر ۲۰۱۰ کو شائع ہوئی اس کے مطابق :

’’ پیرس میں فرانسیسی سینٹ نے چہرے کے پردے پر پابندی کے قانون کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت عوامی مقامات پر چہرے کا پردہ کرنے کی صورت میں خواتین کو 190 ڈالر جرمانہ اور کسی بھی مرد کی طرف سے اپنی بیوی اور بیٹی کو چہرے کا پردہ کرنے پر مجبور کرنے کی صورت میں 30 ہزار یورو جرمانہ اور ایک سال قید کی سزا دی جا سکے گی۔ فرانسیسی قومی اسمبلی نے جولائی میں 335 ووٹوں سے اس قانون کی منظوری دی تھی جس کی اب سینٹ نے بھی منظوری دے دی ہے ، اگرچہ اس بل میں اسلام کاحوالہ نہیں دیا گیا تاہم صدر نکولیس سرکوزی کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد مسلم خواتین کو چہرے کے پردے کیلئے زبردستی سے روکنا ہے۔ اس قانون کے بعد مسلم خواتین کسی عوامی مقام پر چہرے کا پردہ نہیں کر سکیں گی تاہم فرانس کی آئینی عدالت اس قانون پر عملدرآمد روکنے کا اختیار رکھتی ہے ۔ فرانس کے بعض اعتدال پسند حلقوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس قانون کی مخالفت کی ہے اور ا ن کا موقف ہے کہ یہ فرانس کی اقدار کے خلاف ہے اس قانون کے بعد تمام گلیوں مارکیٹوں، تجارتی مراکز اور تفریحی مقامات پر خواتین چہرے کا پردہ نہیں کر سکیں گی ۔ بیلجیئم اسپین اور بعض دیگر ممالک میں بھی اس حوالے سے قانون سازی کا عمل جاری ہے ۔ اس قانون کی منظوری کے بعد 6 ماہ کی مدت کے دوران خواتین کو اس قانون کی تعلیم دی جائے گی اور اس کے بعد خلاف ورزی پر جرمانہ اور ایک سال قید کی سزا ہوسکے گی۔مذکورہ قانون سینیٹ میں 246 ووٹوں کی حمایت سے منظور ہوا جبکہ مخالفت میں صرف ایک ووٹ ڈالا گیا۔1

اس رپورٹ کی روشنی میں اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ایک بڑی رقم بطور جرمانہ ادا کرنی ہو گی اور ایک سال قیدکی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا ۔

لمحہ فکریہ کی بات یہ ہے کہ اگر اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کوجرمانہ دینا پڑے تو یہ ایک اہم مسئلہ ہےکہ جہاں وہ لوگ ضروریات زندگی اور دیگر استعمال کی اشیاء پر خرچ کریں وہاں حجاب کا بھی جرمانہ دیں۔اور جن لوگوں کی گزر بسر ہی مشکل سے ہورہی ہے یا متوسط طبقہ وہ ان حالات میں کیاکرے؟ اور اگروہ اس جگہ کو چھوڑنا چاہیں تو بھی ان کے لیے بہت سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں ایک جگہ ان کاجماہوا کاروبار ،زمینیں وجائیداد ہے اور نئی جگہ ونئے علاقے میں درپیش مسائل بالخصوص معاشی مسئلہ کاحل خاصی اہمیت کا حامل ہے ۔اور غربت وفاقہ کی وجہ سے دین کے دیگر اہم شعبہ جات متاثر نہ ہوں اور«كَادَ الْفَقْرُ أَنْ يَكُونَ كُفْرًا»2 کا مصداق نہ بن جائیں۔

اب یہاں چند باتیں غور طلب ہیں ۔

  1. احکام حجاب سے شریعت کا مقصود کیاہے ۔؟
  2. کیا اسلام نے ہرحال میں عورت کو گھر میں رہنے کا حکم دیا ہے ؟تعلیمی ،تجارتی یا کسی ہنگامی صورت میں وہ باہرنہیں نکل سکتی؟اگر نکل سکتی ہے تواس کی نوعیت اور دائرہ کار کیاہے ؟
  3. حجاب کی کیا شرائط ہیں ۔؟
  4. احکام حجاب میں کن لوگوں سے رخصت ہے ۔ ؟
  5. کونسے اعضاء کا حجاب ہے اور بالخصوص عورت کے چہرے کا حجاب ہے یا نہیں ۔؟
  6. فرانس کے موجودہ حالات میں اگرمسلمان عورتیں مجبوری کی حالت میں حجاب نہ کریں تو شریعت کا کیا حکم ہے ۔؟

حجاب اور اسلامی تعلیمات

حجاب کے احکامات اسلام میں پانچ ہجری کو نازل ہوئے۔3

ستر اورحجاب میں فرق

عام طور پر ستر اورحجاب کو مترادف سمجھ لیا جاتاہے حالانکہ ان کے درمیان فرق ہےجو مختصرا ذکر کیاجاتاہے۔

1۔ستر عورت بذات خود فرض ہےعام ازیں کوئی دیکھنے والا ہو یانہ ہو جبکہ حجاب کا تعلق دوسروں سے ہے اگر کوئی غیرمحرم موجود ہے تو عورت کے لیے حجاب کی پاسداری ضروری ہو گی ۔

2۔ستر عورت ہرمسلمان کے لیے لازم ہے خواہ وہ مردہو یا عورت جبکہ حجاب کا تعلق صرف خواتین سے ہے ۔4

قرآن کریم میں حجاب سے متعلقہ سات آیات نازل ہوئی ہیں ۔تین سورہ نور میں اور چا ر سورہ احزاب میں ہیں۔حجاب کا حکم نبی کریمﷺ کی حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے ساتھ شادی کے بعد نازل ہوا ۔اس پر سب کااتفاق ہے کہ حجاب کے متعلق سب سے پہلے نازل ہونے والی یہی آیت ہے جس کو آیت حجاب کہاجاتاہے۔5

آیت حجاب یہ ہے :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنْكُمْ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمً 6

’’اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں داخل نہ ہو مگر اس وقت کہ تمہیں کھانے کے لئے اجازت دی جائے نہ اس کی تیاری کا انتظام کرتے ہوئے لیکن جب تمہیں بلایا جائے تب داخل ہو پھر جب تم کھا چکو تو اٹھ کر چلے جاؤ اور باتوں کے لیے جم کر نہ بیٹھو کیونکہ اس سے نبی کو تکلیف پہنچتی ہے اور وہ تم سے شرم کرتا ہے اور حق بات کہنے سے اللہ شرم نہیں کرتا اور جب نبی کی بیویوں سے کوئی چیز مانگو تو پردہ کے باہر سے مانگا کرو اس میں تمہارے اور ان کے دلوں کے لیے بہت پاکیزگی ہے اور تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم رسول اللہ کو ایذا دو اور نہ یہ کہ تم اپ کی بیویوں سے آپ کے بعد کبھی بھی نکاح کرو بیشک یہ اللہ کے نزدیک بڑا گناہ ہے۔ ‘‘

ان آیات میں ازواج مطہرات سے سوال کرتے وقت پردے کی آڑ اور اوٹ کا ذکر ہے مگر یہ حکم تمام خواتین اسلام کے لیے ہے ۔

امام ابو بکر جصاصؒ(م -370ھ )آیت حجاب کی تفسیرمیں لکھتے ہیں :

وهذا الحكم وإن نزل خاصا في النبي صلى الله عليه وسلم وأزواجه فالمعنى عام فيه وفي غيره إذ كنا مأمورين باتباعه والاقتداء به إلا ما خصه الله به دون أمته7

’’اور یہ حکم اگر چہ نبی کریم ﷺ کی ازواج کے بارے میں نازل ہواہے تاہم اس کا معنی عام ہے اور ہم احکامات کی پیروی کرنے کے پابند ہیں مگر وہ احکامات جن کو اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کے ساتھ خاص کیاہے۔‘‘

قرآن کریم میں دوسرے مقام پر ارشاد ربانی ہے :

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ 8

’’ اے نبی!اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنے اوپر چادریں لٹکایا کریں ۔اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر ستائی نہ جائیں گی ۔‘‘

امام جصاص اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

هذه الآية دلالة على أن المرأة الشابة مأمورة بستر وجها عن الأجنبيين وإظهار الستر والعفاف عند الخروج لئلا يطمع أهل الريب فيهن 9

’’ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نوجوان عورت کوحکم دیا گیاہے کہ اجنبی مردوں سے اپنے چہرے کو چھپائے،اوروہ اس بات پر بھی مامورہے کہ گھر سے باہرنکلتے وقت ستر اور اور عفت مآبی کا اظہار کرے تاکہ مشکوک افراد ان سے غلط امید وطمع نہ کرپائیں۔‘‘

اسی طرح احادیث سے بھی پردہ کا ثبوت ہوتاہے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:

«كَانَ الرُّكْبَانُ يَمُرُّونَ بِنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْرِمَاتٌ، فَإِذَا حَاذَوْا بِنَا سَدَلَتْ إِحْدَانَا جِلْبَابَهَا مِنْ رَأْسِهَا عَلَى وَجْهِهَا فَإِذَا جَاوَزُونَا كَشَفْنَاهُ» 10

’’کہ (دوران حج و عمرہ) سوار ہمارے سامنے سے گذرتے اور ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ احرام باندھے ہوئے ہوتے پس جب سوار ہمارے سامنے آجاتے تو ہم اپنے جلباب اپنے سر سے منہ پر ڈال لیتیں(اس طرح کہ کپڑا منہ سے الگ رہتا)اور جب وہ گذر جاتے تو ہم پھر منہ کھول لیتے۔‘‘

حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :

«أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ نُخْرِجَهُنَّ فِي الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى، الْعَوَاتِقَ، وَالْحُيَّضَ، وَذَوَاتِ الْخُدُورِ، فَأَمَّا الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الصَّلَاةَ، وَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ، وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ،» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ إِحْدَانَا لَا يَكُونُ لَهَا جِلْبَابٌ، قَالَ: « لِتُلْبِسْهَا أُخْتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا»11

’’ رسول اللہ ﷺ نے عیدا لفطر و عید الاضحیٰ کے دن ہمیں اور پردہ نشین اور جوان عورتوں کو نکلنے کا حکم دیا، بہر حال حائضہ نماز سے علیحدہ رہ کر بھلائی اور مسلمانوں کی دعا میں حاضر ہوں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ﷺہم میں سے جس کے پاس چادر نہ ہو تو آپﷺ نے فرمایا چاہیے کہ اس کی بہن اپنی چادر اس کو پہنا دے۔‘‘

یہ نصوص حجاب کی اہمیت پر بڑی وضاحت سے دلالت کررہی ہیں ۔بہرکیف ان کے علاوہ اور بھی دلائل ہیں جو حجاب کی تاکید واہمیت پر دلالت کرتے ہیں طوالت کے خوف سے انہی پر اکتفا کیا جاتاہے ۔

تعامل الناس

تعامل الناس بھی یہی ہے کہ ہمیشہ سے اس بات پر عمل ہوتا چلا آرہاہے کہ عورتیں نقاب وحجاب میں باہر نکلتی ہیں ۔

حجۃ الاسلام امام غزالی ؒ (م -505ھ)فرماتے ہیں :

إذ لم تزل الرجال على ممر الزمان مكشوفي الوجوه والنساء يخرجن منتقبات فلو استووا لأمر الرجال بالتنقب أو منعن من الخروج 12

’’ اس لیے کہ ہمیشہ سے یہ طریقہ کار چلا آرہاہے کہ مرد ہرزمانے میں کھلے چہرے کے ساتھ باہر نکلتے ہیں ،جب کہ عورتیں نقاب پہن کر باہرنکلتی ہیں ۔ ‘‘

احکام حجاب سے شریعت اسلامیہ کا مقصود

حجاب کے احکام سے شریعت اسلامیہ کا مقصود عفت وعصمت کی حفاظت ہے اسی لیے وہ تمام وسائل وذرائع اختیار کرنے کا حکم دیا گیاہے جو اس مقصد کے حصول میں مددگار ہوسکتے ہیں ۔اسی سلسلہ میں پردہ کاحکم ہے کیونکہ بے پردگی غیر محرم مردوں کے لیے دیکھنے کا ذریعہ ہے اورمردوں کوعورتوں کے خدوخال کا جائزہ لینے کا موقع ملتاہے جو مسائل کا باعث ہے ۔نیز آیت حجاب میں ازواج مطہرات سے پردہ کے پیچھے سے سوال کرنے کا حکم دیا گیا ۔اور اس کی علت پاکیزگی قلب بیان ہوئی ہے ۔چونکہ طہارت قلب کی ضرورت جیسے ازواج مطہرات کو ہے ویسے ہی عام عورتوں کو ہے اس لیے شریعت چاہتی ہے کہ مرد وعورت دونوں اپنی عزت وناموس کی حفاظت کریں اور اپنے دلوں میں پاکیزگی کو پیدا کریں ۔

حجاب کا دائرہ کار

حجاب کے دائرہ کار کے حوالہ سے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ(م-1176ھ)نے جو تفصیل بیان کی اس کا مفہوم درج ذیل ہے ۔

’’خواتین کا اپنے جسم کو گھر کی چار دیواری میں اس طرح چھپانا کہ ان کی ذات اور ان کے لباس اور ان کی ظاہری اور چھپی ہوئی زینت کا کوئی حصہ کسی اجنبی مرد کو نظر نہ آئے۔وہ اپنے گھر میں رہیں اور بلاضرورت گھر سے باہر نہ نکلیں۔‘‘

اس کا ثبوت قرآن کریم سے ملتاہےارشاد باری تعالی ہے :

وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ 13

قرآن کریم کی طرح احادیث مبارکہ بھی اسی بات کی تائید کی کرتی ہیں کہ صنف نازک کو بلاضرورت گھروں سے باہر نہیں نکلنا چاہیے ۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے حضوراکرم ﷺنے فرمایا:

«المَرْأَةُ عَوْرَةٌ، فَإِذَا خَرَجَتْ اسْتَشْرَفَهَا الشَّيْطَانُ»14

’’عورت چھپانے کی چیز ہے جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک جھانک میں لگ جاتاہے ۔ ‘‘

مندرجہ بالا حدیث بالکل وضاحت کے ساتھ اس بات پر دلالت کررہی ہے کہ عورت کے لیے اصل حکم یہ ہے کہ گھر میں رہے اور اپنی ذات کو اجنبی مردوں سے چھپائے ۔مگر بعض اوقات عورت کو اپنی حوائج طبعیہ کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی ضرورت پیش آتی ہے اس صورت میں شریعت نے اس کے لیے گھر سے نکلنے کی اجازت دی ہے ۔15

حدیث میں ہے : «إِنَّهُ قَدْ أُذِنَ لَكُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَاجَتِكُنَّ»16 ’’تحقیق تمہیں اپنی حاجت کے لئے باہر جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔‘‘

لیکن اس سلسلے میں قرآن کریم نے لائحہ عمل دیا کہ باہرنکلتے وقت خود کو بڑی چادر میں چھپا کر نکلیں ۔

ارشاد ربانی ہے :

يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ17

’’اے نبی!اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنے اوپر چادریں لٹکایا کریں ۔اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر ستائی نہ جائیں گی۔‘‘

قرآن کریم نے عورتوں کو بوقت ضرورت باہر جانے کی اجازت دی اور بڑ ی چادر اوڑھ کر ان کو نکلنے کی ہدایت کی۔اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ شریعت نے عورتوں کے بالکلیہ باہر نکلنے پر پابندی نہیں عائد کی بلکہ جلباب کے ساتھ نکلنے کی اجازت دی ہے۔

حجاب کی شرائط

۱۔حجاب اس قسم کا ہو جس سے پورا بدن چھپ جائے الا وہ جس کا استثناء کیا گیاہے ۔18

۲۔ایسا حجاب نہ اختیار کیا جائے جو بذات خود زینت بن جائے اس کو قرآن کریم میں تبرج کہا گیاہے۔19

۳۔اتنا باریک کپڑا نہ ہو اور نہ ہی اتنا چست ہو جس سے بدن کے نشیب وفراز واضح ہو ں ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضورﷺ نے فرمایا:

«صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا، قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ، وَنِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلَاتٌ مَائِلَاتٌ، رُءُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ، لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ، وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ كَذَا وَكَذَا»20

’’دوزخ والوں کی دو قسمیں ایسی ہیں کہ جنہیں میں نے نہیں دیکھا ایک قسم تو ان لوگوں کی ہے کہ جن کے پاس بیلوں کی دموں کی طرح کوڑے ہیں جس سے وہ لوگوں کو مارتے ہیں اور دوسری قسم ان عورتوں کی ہے جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہیں وہ سیدھے راستے سے بہکانے والی اور خود بھی بھٹکی ہوئی ہیں اس عورتوں کے سر بختی اونٹوں کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے ہیں وہ عورتیں جنت میں داخل نہیں ہوں گی اور نہ ہی جنت کی خوشبو پا سکیں گی جنت کی خوشبو اتنی اتنی مسافت سے محسوس کی جا سکتی ہے ۔‘‘

۴۔خوشبو میں بسا ہوا نہ ہو۔

ارشاد نبویﷺہے:

«المَرْأَةُ إِذَا اسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ بِالمَجْلِسِ فَهِيَ كَذَا وَكَذَا» يَعْنِي زَانِيَةً»21

’’وہ عورت جو خوشبو لگا کر کسی(مردوں )مجلس کے پاس سے گزرے وہ ایسی اور ایسی ہے یعنی زانیہ ہے۔‘‘

۵۔مرد کے مشابہ نہ ہو۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

«لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ، وَالمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ» 22

’’کہ حضورﷺنے ان مردوں پر لعنت کی ہے جو عورتوں کے مشابہ بنیں،اور ان عورتوں پر لعنت کی ہے جو مردوں کے مشابہ بنیں۔ ‘‘

۶۔کافر عورتوں کے مشابہ نہ ہو ۔

ارشاد باری تعالی ہے :

وَلَا يَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ۭ وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ23

’’ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب (آسمانی) ملی تھی پھر ان پر مدت لمبی ہو گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے اور ان میں سے بہت سے نافرمان ہیں۔‘‘

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ (م -728ھ)اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

وَلَا يَكُوْنُوْا نهي مطلق عن مشابهتهم24

’’ (آیت کریمہ ) میں مطلقا غیرمسلموں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ۔ ‘‘

علامہ ابن کثیرؒ(م -774ھ)اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

ولهذا نهى الله المؤمنين أن يتشبهوا بهم في شيء من الأمور الأصلية والفرعية25

’’اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو غیرمسلموں کی ہرقسم کے معاملات میں مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا ۔‘‘

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضوراکرمﷺنے فرمایا :

«مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ»26

’’ جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہوگا ۔‘‘

معلوم ہوا کہ عورتوں کے لیے ایسا لباس جو کافر وں کے ساتھ مشابہت رکھے اس سے بچنا چاہیے ۔

احکام حجاب سے استثنائی صورتیں

جن لوگوں کے سامنے اور جن صورتوں میں عورت اپنا چہرہ کھول سکتی ہے وہ درج ذیل ہیں ۔

۱۔وہ لوگ جن سے احکام حجاب کا استثناء سورۃ احزاب اور سورۃ نور میں مذکور ہے ۔

لَا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِيْٓ اٰبَاۗىِٕـهِنَّ وَلَآ اَبْنَاۗىِٕهِنَّ وَلَآ اِخْوَانِهِنَّ وَلَآ اَبْنَاۗءِ اِخْوَانِهِنَّ وَلَآ اَبْنَاۗءِ اَخَوٰتِهِنَّ وَلَا نِسَاۗىِٕـهِنَّ وَلَا مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ ۚ وَاتَّـقِيْنَ اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدًا 27

’’ ان پر اپنے باپوں کے سامنے ہونے میں کوئی گناہ نہیں اور نہ اپنے بیٹوں کے اور نہ اپنے بھائیوں کے اور نہ اپنے بھتیجوں کے اور نہ اپنے بھانجوں کے اور نہ اپنی عورتوں کے اور نہ اپنے غلاموں کے اور اللہ سے ڈرتی رہو بیشک ہر چیز اللہ کے سامنے ہے۔‘‘

وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اٰبَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَاۗىِٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلٰي عَوْرٰتِ النِّسَاۗءِ 28

’’اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں پر یا اپنے باپ یا خاوند کے باپ یا اپنے بھائیوں یا بھتیجوں یا بھانجوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنے غلاموں پر یا ان خدمت گاروں پر جنہیں عورت کی حاجت نہیں یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کی پردہ کی چیزوں سے واقف نہیں۔‘‘

مذکورہ بالا دونوں آیات میں قرآن کریم نے ان اعزہ اور متعلقین کی فہرست دیدی ہے جن کے سامنے حجاب کی پابندی ضروری نہیں اور اظہارزینت کیا جاسکتاہے ۔

باپ، بیٹے ، بھائی (حقیقی ہو ں یا سوتیلے اور رضاعی )، بھتیجے (مذکورہ بالا تینوں قسم کے بھائیوں کی اولاد)

بھانجے، شوہر ، سسر ، میل جول کی عورتیں ، مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ (لونڈیاں مرادہیں ) 29، ملازم(جو جنسی میلان سے خالی ہو ، بچے (جو بلوغت کے تقاضوں سے ناواقف ہیں (

واضح رہے کہ ان آیات میں ماموں اور چچا کا ذکر نہیں ہے مگر ان سے بھی پردہ نہیں ہے ۔اس لیے کہ باپ ،بیٹے ،بھائی، بھتیجے اور بھانجے کا حکم ذکر کیا گیاہے کہ عورت کے لیے ان سے پردہ ضروری نہیں ہے ۔اور اس کی علت یہ ہے کہ یہ سب اس کے محرم رشتے ہیں ان سے نکاح نہیں ہوسکتا، اب اگرچہ ماموں او رچچا کا اس آیت میں ذکر نہیں ہے ،لیکن محرم ہونے والی علت ان میں بھی موجود ہے اس لیے ان کا حکم بھی یہی ہے کہ ان سے عورت کے لیے پردہ ضروری نہیں ہے۔30

۲۔ مخطوبہ عورت ،پیغام نکاح دینے والے کے سامنے چہرہ کھول سکتی ہے۔ 31واضح رہے کہ جمہور اہل علم کے نزدیک مخطوبہ عورت کے صرف چہرہ اور ہاتھ کو دیکھا جاسکتاہے ۔اس لیے کہ چہرہ دیکھنے سے اس کا حسن وجمال معلوم ہوجائے گا اور ہاتھ دیکھنے سے بدن کی ساخت وبناوٹ کا اندازہ ہوجا ئے گا ۔32

۳۔ حالت احرام میں عورت کے لیے چہرہ کھولنا جائز ہے ۔

عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضورﷺ نے فرمایا :

’’اور احرام والی عورت منہ پر نقاب نہ ڈالے اور نہ دستانے‘‘ 33

لیکن غیر محرموں کی موجودگی میں چہرہ کو چھپا یا جائے گا ۔جیسا کہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ سے معلوم ہوتاہے :

’’ کہ (دوران حج و عمرہ) سوار ہمارے سامنے سے گذرتے اور ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ احرام باندھے ہوئے ہوتے پس جب سوار ہمارے سامنے آجاتے تو ہم اپنے جلباب اپنے سر سے منہ پر ڈال لیتیں(اس طرح کہ کپڑا منہ سے الگ رہتا) اور جب وہ گذر جاتے تو ہم پھر منہ کھول لیتے۔‘‘34

۴۔ علاج کے وقت پردہ کی پاسداری ضروری نہیں ہے ۔35

امام بدرالدین عینی ؒ (م-855ھ)لکھتے ہیں:

لأن الطبيب يجوز أن ينظر موضع العورة لضرورة المداواة 36

’’طبیب بغرض علاج پردے کی جگہ کو دیکھ سکتاہے ۔‘‘

علامہ حصکفی (م -1088ھ)لکھتے ہیں :

ومداواتها ينظر الطبيب إلى موضع مرضها بقدر الضرورة 37

’’اور علاج کی غرض سے طبیب مرض کی جگہ کو بقدر ضرورت دیکھ سکتا ہے۔‘‘

لیکن واضح رہے کہ اجنبی طبیب کے سامنے بغرض علاج اتنا جسم کا حصہ کھولا جاسکتا ہے جس کی ضرورت ہے اس لیے کہ مشہور اصول ہے:

إذ الضرورات تتقدر بقدرها38

’’مجبور ی اور ضرورت سے جو چیز ثابت ہوتی ہے وہ بقدر ضرورت ہوتی ہے۔‘‘

مرد طبیب سے علاج کے لیے چند شرائط ہیں ۔

۱۔اس مرض کا علاج سوائے مرد کے اور عورت نہ کرسکتی ہو تو طبیب کے لیے عورت کو دیکھنا جائز ہے ۔39

۲۔عورت موضع مرض کے علاوہ باقی جسم کو اچھی طرح چھپائے ۔40

۳۔ دیندار اور شریف الطبع طبیب کے ہوتے ہوئے دوسرے کسی ایسے طبیب سے علاج نہیں کرایا جاسکتا جس میں یہ مذکورہ صفات نہ ہوں ۔41

۴۔بوقت علاج ،عورت کا شوہر یا کوئی اور محرم وہاں موجود ہونا چاہیے ۔42

۵۔مسلمان طبیب کی موجودگی میں غیر مسلم طبیب سے علاج نہ کرا یا جائے ۔43

۶۔قاضی کے پاس عورت اپنا چہرہ کھول سکتی ہے۔جب فیصلہ اور گواہی عورت کے خلاف ہو ۔44

۷۔ہنگامی حالات میں حجاب کی پابندی نہیں ہے۔مثلا غرقابی یا آگ کی حالت ہو ۔ 45

۸۔معاملہ کرتے وقت یعنی ،اشیاء کے لیتے ،دیتے اور بیع وشرا کے وقت بھی عورت کے چہرے کی طرف نظر کی جاسکتی ہے۔46

۹۔تعلیم وتعلم کے وقت عورت کے لیے چہرہ کھولنے کی گنجائش ہے مگر اس کی چند شرائط ہیں ۔

۱۰۔وہ تعلیم ضروری ہو جیسا کہ سورۃ فاتحہ کی تعلیم۔یا کوئی ایسا پیشہ یا ہنر جس کی شدید ضرورت ہے۔

۱۱۔اس علم وفن کو پڑھانے کے لیے کوئی دوسری عورت بھی میسر نہیں ہےاور نہ ہی کوئی محرم پڑھانے والا ہے۔

۱۲۔حجاب کے ساتھ پڑھنے میں دشواری ہے۔

۱۳۔پڑھنے اورپڑھانے والی عورت ،مرد کے ساتھ تنہا نہ ہو،ساتھ کو ئی محرم یا دیگر خواتین ہوں۔47

چہرے کے پردہ کا مسئلہ

چہرے کاپردہ علماء کے درمیان شروع سے ہی زیربحث رہاہے ۔متقدمین فقہاء احناف کے ہاں عورت کے چہرے کا پردہ نہیں ہے ۔جبکہ ائمہ ثلاثہ کے ہاں عورت کے لیے چہرے کاچھپانا واجب ہے ۔اور اس اختلاف کی وجہ سورۃ النور کی درج ذیل آیت میں تفسیری اقوال کامختلف ہوناہے ۔

وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا48 ’’اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے۔‘‘

اس آیت میں مَا ظَهَرَ مِنْهَا کی تفسیر حضرت عبداللہ بن عباس نے چہرہ اور ہتھیلیوں سے کی ہے جس کو فقہائے احناف نے اختیار کیاہے اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے اس کی تفسیر کپڑوں سے کی ہے جس کو ائمہ ثلاثہ نے اختیار کیاہے ۔جس کی تفصیل درج ذیل ہے ۔

امام محمد بن حسن شیبانی ؒ (م-189 ھ )لکھتے ہیں :

’’امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک آزاد عورت کے چہرہ اور ہتھیلیوں کی طرف دیکھنا جائز ہے۔ اس لیے کہ مفسرین نے اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَاکی تفسیر سرمہ اور انگوٹھی سے کی ہے ۔سرمہ چہرہ کی زینت ہے اور انگوٹھی ہتھیلی کی،چونکہ ان دو زینتوں کی رخصت دی گئی ہے ۔اس لیے اجنبیہ عورت کے چہرہ او ر ہتھیلیوں کی طرف دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر عورت کی طرف دیکھنے سے شہوت کا اندیشہ ہو تو پھر عورت کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے۔’’ 49

علامہ مرغینانی ؒ(م -593ھ )نے اس مسئلہ پر تفصیلی بحث کی ہے جس کاخلاصہ درج ذیل ہے ۔

اجنبیہ عورت کے چہرہ اور ہتھیلیوں کے ماسوا کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے ۔اور ا س کی دلیل اللہ تعالی کا قولوَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَاہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مَا ظَهَرَ مِنْهَا کی تفسیر سرمہ اور انگوٹھی سے کی ہے اور اس سے مرادان کی جگہ ہے اور وہ چہرہ اور ہتھیلی ہیں۔ اور اس حکم کی وجہ یہ ہے کہ چہرہ اور ہاتھ کے کھولنے کی ضرورت رہتی ہے کیونکہ مردوں کے ساتھ لینے اوردینے کے معاملات کی ضرورت پڑتی ہے ۔اس لیے یہ نص ہے اس بات پر کہ اجنبی عورت کے پاوں کو دیکھنا جائز نہیں ہے ،اور امام ابو حنیفہ ؒسے روایت ہے کہ پاوں کا دیکھنا بھی جائز ہے کیونکہ اس میں کچھ نہ کچھ ضرورت ہے ۔اور امام ابو یوسف ؒ کا یہ قول ہے کہ اجنبی عورت کی کلائیوں کا دیکھنا بھی جائز ہے کیونکہ عادۃ وہ بھی کھلی رہتی ہیں ۔اور اگر مرد کو عورت کی طرف نظر کرنے میں شہوت کا اندیشہ ہو تو ضرور ت کے سوا عورت کے چہرہ کو نہ دیکھے ۔50

مذکورہ بالا حوالوں سے احناف کا موقف بڑی وضاحت کے سامنے آگیا کہ عورت کے چہرہ کی طرف بلا شہوت نظر کرنا مباح ہے ۔اور ظاہری بات ہے نظر تب ہی ہوگی جب عورت کا چہرہ کھلا ہوگا ۔مگر بعد میں آنے والے فقہاء احناف نے فساد زمانہ کے پیش نظر نوجوان عورت کی طرف نظر کرنے سے منع کیاہے ۔51اورعورت کو بھی مردوں کے درمیان چہرہ کھولنے سے منع کیاہے۔52

مذکورہ بالا حوالوں کی روشنی میں عورت کے پردہ کے بارے میں احناف کے موقف کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

  1. چہرہ اور ہاتھ کے علاوہ پورے جسم کا چھپانا ضروی ہے ۔
  2. امام ابوحنیفہ ؒسے ایک روایت ہے کہ عورت کے پاوں کا پردہ بھی ضروری نہیں ہے ۔
  3. قاضی ابو یوسف ؒکے نزدیک عورت کے بازو کا پردہ بھی ضرور ی نہیں اس لیے کہ کام کاج کے دوران عام طور پر یہ کھلا ہوتاہے۔
  4. اگر کسی شخص کوشہوت کا اندیشہ ہو تو وہ عورت کے چہرہ کو نہ دیکھے ۔
  5. مگر موجودہ حالات کے تنا ظر میں متا خرین فقہاء احناف نے مطلقا عورت کی طرف دیکھنے سے منع کیاہے ۔
  6. متاخرین فقہاء احناف نے فتنہ کے خوف کے پیش نظر عورتوں کو مردوں کے درمیان چہرہ سے کھولنے منع کیاہے ۔

ائمہ ثلاثہ کا موقف

شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ ؒ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَاکے تحت لکھتے ہیں :

والسلف قد تنازعوا في الزينة الظاهرة على قولين فقال: ابن مسعود ومن وافقه؛ هي الثياب وقال ابن عباس ومن وافقه: هي في الوجه واليدين مثل الكحل والخاتم. وعلى هذين القولين تنازع الفقهاء في النظر إلى المرأة الأجنبية. فقيل: يجوز النظر لغير شهوة إلى وجهها ويديها وهو مذهب أبي حنيفة والشافعي وقول في مذهب أحمد قيل: لا يجوز وهو ظاهر مذهب أحمد؛ فإن كل شيء منها عورة حتى ظفرها. وهو قول مالك 53

’’زینت ظاہرہ کی تعریف میں دو اقوال کے واقع ہونے کی وجہ سے سلف کے درمیان بحث ہوئی ہے۔حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور ان کے موافقین کاخیال ہے اس سے مراد کپڑے ہیں اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ان کے موافقین کے خیال میں اس سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں اور انہی دو اقوال کی وجہ سے فقہاء کے درمیان اجنبیہ عورت کی طرف نظر کرنے کے بارے میں بحث ہوئی ہے ۔پس یہ بات کہی گئی ہے کہ بغیر شہوت کے اجنبیہ کے چہرہ کی طرف نظرکرنا جائز ہے ۔اور یہ مذھب امام ابو حنیفہ ؒاور اما م شافعی ؒ کاہے ۔اور امام احمد ؒکا بھی ایک قول یہی ہے ۔اور یہ بھی کہا گیا کہ اجنبیہ عورت کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے اور یہ امام احمدؒکا مشہور مذھب ہے کہ بے شک عورت کا پورا جسم ستر ہے حتی کہ اس کے ناخن بھی ستر میں شامل ہیں ۔اورامام مالک ؒ کا بھی یہی قول ہے ۔‘‘

واضح رہے کہ شوافع کے اس بارے میں دو قول ہیں ایک جواز کا اوردوسرا عدم جواز کا مگر امام نووی ؒ (م-676ھ)ؒ نے صراحت کی ہےکہ ہمارے اصحاب نے حرمت والے قول کو اصح قرار دیاہے ۔54

ائمہ ثلاثہ کے موقف کونقل کرتے ہوئے مفتی شفیع ؒ لکھتے ہیں :

أما عند الجمهور فلانهم لم یجدوا دلیلا علی جوازہ، لاختیارهم تفسیر ابن مسعود فی قوله تعالی اِلَّا مَا ظَهَهرَ مِنْهَا بالثیات والجلباب، فبقی الوجه والکفان تحت الجلباب المامور به55

’’بہرحال جمہور علماء کے نزدیک عورت کے چہرہ اور ہھتیلیاں کھول کر باہر نکلنے کے جواز پر کوئی دلیل نہیں ہے ۔اور ان حضرات نے (اِلَّا مَا ظَهَهرَ مِنْهَا)کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ کا قول ،ثیاب اور جلباب مراد لیاہے ۔پس ان کے نزدیک چہرہ اورہتھیلیاں جلباب کے نیچے چھپانے کاحکم باقی رہا جس کا حکم دیا گیاتھا۔‘‘

معلوم ہوا ائمہ ثلاثہ کے نزدیک عورت کے چہرے کا چھپانا ضروری ہے ۔

فرانس میں رہنے والی مسلمان عورتوں کے لیے شرعی حل

فرانس کے موجود حالات جن میں حجاب کے خلاف قانون سازی کی گئی ہے ۔ متقدمین فقہائے احناف کی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اختیار کردہ رائے کے پیش نظر فرانس کی مسلمان عورتوں کے لیے یہ حل نکالا جاسکتاہے کہ وہ اگر مجبوری کی حالت میں چہرہ کا پردہ نہ کریں تو ان کے لیے گنجائش ہے ۔مولانااشرف علی تھانویؒ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ تفسیر کی بھی یہی تو جیہ کی ہے کہ چہرہ اور ہاتھ کا کھولنا مجبور ی کی حالت میں ہے۔ 56

اور درج ذیل دلائل سے بھی اس موقف کو تقویت حاصل ہوتی ہے ۔

۱۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

«كَانَ الفَضْلُ رَدِيفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَتِ امْرَأَةٌ مِنْ خَشْعَمَ، فَجَعَلَ الفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا وَتَنْظُرُ إِلَيْهِ، وَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَصْرِفُ وَجْهَ الفَضْلِ إِلَى الشِّقِّ الآخَرِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ فِي الحَجِّ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا، لاَ يَثْبُتُ عَلَى الرَّاحِلَةِ، أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ: «نَعَمْ» ، وَذَلِكَ فِي حَجَّةِ الوَدَاعِ»57

’’ کہ فضل، رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سوار تھے۔ قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی تو فضل اس عورت کی طرف دیکھنے لگے اور وہ عورت فضل کی طرف دیکھ رہی تھی اور نبی اکرم ﷺ فضل کی نگاہ دوسری طرف پھیر رہے تھے، اس عورت نے عرض کیا، یا رسول ﷺ اللہ نے اپنے بندوں پر حج فرض کیا ہے، لیکن میرا باپ بہت بوڑھا ہوگیا ہے وہ سواری پر ٹھہر نہیں سکتا۔ تو کیا میں اس کی طرف سے حج کروں ؟ آپ نے فرمایاہاں اور یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔‘‘

اور ترمذی کی روایت میں ہے:

فَقَالَ العَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَ لَوَيْتَ عُنُقَ ابْنِ عَمِّكَ؟ قَالَ: «رَأَيْتُ شَابًّا وَشَابَّةً فَلَمْ آمَنِ الشَّيْطَانَ عَلَيْهِمَا» 58

’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا آپ نے اپنے چچازاد بھائی کی گردن کیوں پھیردی،آپﷺنے فرمایا میں نے نوجوان مرد اور عورت کو دیکھا تو میں ان پر شیطان سے بے خوف نہیں ہوا۔‘‘

حضوراکرمﷺ نے حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کا رخ پھیر دیا لیکن اس عورت کو چہرہ چھپانے کاحکم نہیں دیا ،اگر چہرہ چھپانا ضروری ہوتا تو آپ ﷺاس عورت کو بھرے مجمع میں چہرہ کھلا رکھنے پرتنبیہ کرتے اور اورخاص طور پر ایسی حالت کہ لوگ اس عورت کے حسن کی وجہ اس کی طرف متوجہ ہورہے تھے ۔گو اس حدیث کے بہت سے جواب دیے گئے ہیں ،مگر اس حدیث میں بہرحال یہ احتمال ہے کہ عورت کے لیے چہرہ کا پردہ واجب نہ ہو ۔

چنانچہ قاضی ثناء اللہ (م -1225ھ)لکھتے ہیں :

واستنبط ابن القطان من هذا الحديث جواز النظر عند الامن من الفتنة من حيث انه لم يأمرها بتغطية وجهها 59

’’ابن قطان نے اس حدیث سے مستنبط کیا کہ فتنہ سے امن میں ہونے کی صورت میں عورت کی طرف دیکھنا جائز ہے اس لیے کہ آپ ﷺنے اس عورت کو چہرہ چھپانے کاحکم نہیں دیا ۔‘‘

۲۔حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

قَالَ شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ يَوْمَ الْعِيدِ، فَبَدَأَ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ، بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ«ثُمَّ قَامَ مُتَوَكِّئًا عَلَى بِلَالٍ، فَأَمَرَ بِتَقْوَى اللهِ، وَحَثَّ عَلَى طَاعَتِهِ، وَوَعَظَ النَّاسَ وَذَكَّرَهُمْ، ثُمَّ مَضَى حَتَّى أَتَى النِّسَاءَ، فَوَعَظَهُنَّ وَذَكَّرَهُنَّ، فَقَالَ: «تَصَدَّقْنَ، فَإِنَّ أَكْثَرَكُنَّ حَطَبُ جَهَنَّمَ» فَقَامَتِ امْرَأَةٌ مِنْ سِطَةِ النِّسَاءِ سَفْعَاءُ الْخَدَّيْنِ، فَقَالَتْ: لِمَ؟ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: «لِأَنَّكُنَّ تُكْثِرْنَ الشَّكَاةَ، وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ» ، قَالَ: فَجَعَلْنَ يَتَصَدَّقْنَ مِنْ حُلِيِّهِنَّ، يُلْقِينَ فِي ثَوْبِ بِلَالٍ مِنْ أَقْرِطَتِهِنَّ وَخَوَاتِمِهِنَّ»60

’’کہ میں رسول اللہ ﷺکے ساتھ عید کے دن نماز کے لئے حاضر ہوا تو آپﷺنے خطبے سے پہلے بغیر اذان اور اقامت کے نماز پڑھائی پھر بلا ل رضی اللہ عنہ پر ٹیک لگائے کھڑے ہوگئے، اللہ سے ڈرنے کاحکم دیا اور اس کی اطاعت کی ترغیب دی اور لوگوں کو وعظ ونصیحت کی پھر عورتوں کے پاس جا کر ان کو وعظ و نصیحت کی اور فرمایا کہ صدقہ کرو کیونکہ تم میں سے اکثر جہنم کا ایندھن ہیں، عورتوں کے درمیان سے ایک سرخی مائل سیاہ رخساروں والی عورت نے کھڑے ہو کر عرض کیا کیوں؟ یا رسول اللہ ﷺفرمایا: کیونکہ تم شکوہ زیادہ کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری، حضرت جابر فرماتے ہیں وہ اپنے زیوروں کو صدقہ کرنا شروع ہوگئیں حضرت بلال رضی اللہ کے کپڑے میں اپنی بالیاں اور انگوٹھیاں ڈالنے لگیں۔‘‘

حضوراکرمﷺنے عورتوں کو صدقہ کرنے کاحکم دیا اور فرمایا کہ اکثر جہنم کا ایندھن ہیں تو ایک سرخی مائل رخسار والی عورت نے کھڑے ہوکر سوال کیا،حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو اس کے گالوں کی کیفیت کا علم اس لیے ہوسکا کہ اس کا چہرہ کھلا ہوا تھا معلوم ہو ا عورتوں کے لیے چہرے کا چھپانا ضرور ی نہیں ہے ۔اس حدیث کے بھی بہت سے جوابات دیے گئے ہیں مگر بہرحال یہ احتمال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ عورت کے لیے چہرہ کا پردہ واجب نہ ہو ۔

عورتوں کے چہرہ کے پردہ کے حوالہ سے دونوں قسم کی روایات موجود ہیں بعض نصوص چہرہ کے پردہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں تو بعض سے جواز معلوم ہورہاہے لہذا رویات میں مطابقت وموافقت پیدا کرتے ہوئے یہ قول اختیار کرلیا جائے کہ عمومی حالات جس میں کوئی مجبوری نہ ہو عورت کے لیے چہر ہ کا پردہ ضرور ی ہے اور ہنگای ومجبوری کے حالات میں رخصت ہے ۔اسی کے ساتھ لاحق کرتے ہوئے فرانس کے موجودہ حالات کے تناظر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی بیان کردہ تفسیر جس کو احناف نے اختیار کیا ہے ۔اس پر عمل کرتے ہوئے یورپ میں حجا ب کے خلاف قانون سازی سے متاثر ہونے والی خواتین اسلام کے لیے حالت اضطرار کے ساتھ لاحق کرتے ہوئے یہ حل نکالا جاسکتا ہے کہ چہرہ کے علاوہ باقی جسم کو اچھی طرح چھپا کرنکلیں تو اس کی گنجائش ہے ۔

اس لیے کہ شریعت اسلامیہ نے حالت اضطراری کا اعتبار کیاہے ۔اورحالت اضطرار میں احکام شرعیہ پر عمل کی رخصت دی گئی ہے ۔

امام سرخسی ؒ(م-483ھ )لکھتے ہیں:

الضرورات تبيح المحظورات 61 ’’ضرورتیں ممنوع چیزوں کو مباح کردیتی ہیں ۔‘‘

قرآن کریم نے مجبوری کی حالت میں بقدر ضرورت مرداراور خنزیر کھانے کی اجازت دی ہے 62اسی اصول پر فقہاء نے بہت سے مسائل کا حل پیش کیا ہے۔مثلا حلق میں لقمہ اٹک جائے اور شراب کے علاوہ کوئی اور چیز نہ ہو تو شراب کا استعمال مباح ہوگا،جان بچانے کے لیے زبان سے کلمہ کفر کا تلفظ کیا جاسکتا ہے وغیرہ63چنانچہ اگر فرانس میں مقیم خواتین جن کو اس پابندی کی وجہ سے دشواری کا سامنا ہے ان کی حالت کو اضطرار ی قرار دیتے ہوئے چہرے کے پردہ سے رخصت دی جاسکتی ہے ۔اس لیے کہ شریعت اسلامیہ کے احکامات کا اصل مقصد لوگوں کو تکلیف دینا نہیں بلکہ آسانیا ں پیدا کرنا ہے ۔لہٰذا احکام وقوانین میں ایسی تنگی اور دشواری نہیں ہے ہو جو انسان کی برداشت سے باہر ہو۔

ارشاد باری تعالی ٰہے :

وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ 64 ’’اور دین میں تم پر کسی طرح کی سختی نہیں۔‘‘

ایک اور مقام پر ارشاد ہے : لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا 65 ’’اللہ کسی کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی گنجائش کے مطابق۔‘‘

احکام شرعیہ سے مقصود سہولت اور آسانی بیان کرتے ہوئے ارشاد باری تعالی ٰہے :

يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ 66 ’’اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر تنگی نہیں چاہتا۔‘‘

اسی طرح ایک حدیث میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

«مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا أَخَذَ أَيْسَرَهُمَا، مَا لَمْ يَكُنْ إِثْمًا»67 ’’نبی کریم ﷺ کو جب دو کاموں میں اختیار دیا جاتا تو آپ ﷺآسان کو لیتے جو گناہ نہ ہوتا ۔‘‘

اسی طرح احکام شرعیہ کے نزول میں تدریجی اصول کار فرما رہاہے۔ایک ہی دفعہ تمام اوامر ونواہی کا مطالبہ نہیں کیا گیا بلکہ سا ل کے عرصہ میں حالات وزمانہ کی مطابق احکامات پر عمل درآمد کرایا گیا۔ مثلا پہلے شراب کی حرمت سے پہلے اس حکم پر عمل کرانے کے لیے راہ ہموار کرتے ہوئے شراب اور جوئے کو بڑا گناہ قرار دیا گیا68اور اس کے بعد نشہ کی حالت میں نماز پڑھنے سے منع کیا۔69اور پھر آخر میں ان سے بچنے کاحکم دیا گیا ۔70 تدریجی اصول اور حالات وزمانہ کی رعایت کے ثبوت میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی روایت سے واضح ہے :

إِنَّمَا نَزَلَ أَوَّلَ مَا نَزَلَ مِنْهُ سُورَةٌ مِنَ المُفَصَّلِ، فِيهَا ذِكْرُ الجَنَّةِ وَالنَّارِ، حَتَّى إِذَا ثَابَ النَّاسُ إِلَى الإِسْلاَمِ نَزَلَ الحَلاَلُ وَالحَرَامُ، وَلَوْ نَزَلَ أَوَّلَ شَيْءٍ: لاَ تَشْرَبُوا الخَمْرَ، لَقَالُوا: لاَ نَدَعُ الخَمْرَ أَبَدًا، وَلَوْ نَزَلَ: لاَ تَزْنُوا، لَقَالُوا: لاَ نَدَعُ الزِّنَا أَبَدًا،71

’’سورت مفصل میں سب سے پہلے وہ سورت نازل ہوئی ہے جس میں جنت اور جہنم کا ذکر ہے یہاں تک کہ جب لوگ اسلام کی طرف مائل ہوئے تو حلال و حرام کی آیت نازل ہوئی اگر پہلے ہی یہ آیت نازل ہو جاتی کہ شراب نہ پیو تو لوگ کہتے کہ ہم کبھی شراب نہ چھوڑیں گے اور اگر یہ آیت نازل ہوتی کہ زنانہ نہ کرو تو لوگ کہتے کہ ہم ہرگز زنا نہیں چھوڑیں گے۔‘‘

مذکورہ بالاحدیث اس بات کی وضاحت کررہی ہے کہ قرآنی احکام کا نزول مصلحت کے ساتھ تدریجا ہوا ہے ۔جس میں حالات اورزمانہ کو پیش نظر رکھاگیاہے۔مذکورہ بالا نصوص کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتاہے کہ فرانس کے موجودہ حالات میں فرانسیسی خواتین کے لیے حالت اضطرار کے پیش نظر چہرے کا پردہ ضروری نہیں ہے ۔

خلاصہ کلام

اسلامی تعلیمات فطرت انسانی کے عین مطابق ہیں جن پر عمل کرکے دنیا وآخرت کی کامیابیوں کا حصول ممکن ہے ۔اسلام نے انسانی زندگی کے مختلف گوشوں کے بارے میں مکمل ہدایات وتفصیلات پیش کی ہیں ۔ان میں کچھ مسائل ایسے ہیں جن کا تعلق مردوں سے ہے اور کچھ کا تعلق عورتوں سے ہے ۔حجاب کاتعلق عورتوں سے ہے تاکہ اسلامی معاشرہ میں رہنے والے مردوعورت کی عفت کی حفاظت ہو ۔ائمہ ثلاثہ کے نزدیک عورت کے لیے پورے جسم بشمول چہرہ کا چھپانا ضروری ہے ۔جبکہ متقدمین فقہائے احناف کے ہاں عورت اپنی ہتھیلیاں اور چہرہ کو کھول سکتی ہے ۔اور شہوت سے بے خوف ہونے کی صورت میں مرد ان کی طرف دیکھ سکتاہے،لیکن اگر شہوت کا خوف ہوتو پھروہ ان کی طرف نہ دیکھے ۔اور متاخرین احناف نے فتنہ کے خوف سے چہرہ کا پردہ ضروری قراردیاہے ۔فرانس کے موجودہ حالات کے تناظر میں کہ عورتوں کے لیے چہرے کے حجاب پر پابندی عائد کردی گئی ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں جرمانہ وسزا مقرر ہے۔وہاں پر رہنے والی مسلمان عورتوں کے لیے متقدمین فقہائے احناف کے مطابق مجبوری کی حالت میں چہرہ کھولنے کی گنجائش نکالی جاسکتی ہے ۔عوامی مقامات جہاں مردوں کی کثرت ہے اور وہ جگہیں جہاں عورتوں کے چہرہ کی شناخت کی ضرور ی ہے وہاں وہ کم سے کم جائیں اور نہایت سادگی کے ساتھ باہر نکلیں ۔

حوالہ جات

۱http://www.urdutimes.com/international/35-general/47060-2010-09-15-10-10-14

۲البیہقی،احمد بن الحسین،ابوبکر،شعب الایمان،بیروت،دارالکتب العلمیہ،1410ھ،جلد5،صفحہ267

۳مفتی شفیع ،احکام القرآن،کراچی ،ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ ،1413ھ ،جلد 3،صفحہ،406

۴ایضاً،جلد،صفحہ407

۵مفتی شفیع،معارف القرآن،کراچی، ادارۃ المعارف ،طبع جدید مئی 2005ء ،جلد 7 ،صفحہ210

۶ القرآن،الاحزاب:53

۷الجصاص ،ابوبکر احمد بن علی بن الرازی ،احکام القران ،بیروت،داراحیا التراث العربی،1405ھ ،جلد 5،صفحہ 242

۸ القرآن،الاحزاب :59

۹جصاص،احکام القرآن،جلد5،صفحہ245

۱۰ابو داؤد،سلیمان بن اشعث،السجستانی،السنن،بیروت ،المکتبۃ العصریہ،س ن ،جلد2،صفحہ167

۱۱مسلم بن الحجاج،الامام،الصحیح،بیروت،دار احیاء التراث العربی ،س ن ،جلد2،صفحہ606

۱۲ابن حجر،احمد بن علی ،فتح الباری شرح صحیح البخاری،بیروت ،دارالمعرفت، 1379ھ،جلد9،صفحہ 337

۱۳القرآن،الاحزاب:33

۱۴الترمذی،محمد بن عیسی ،ابو عیسی ،السنن ،مصر ،مکتبہ ومطبعۃمصطفی البابی الحلبی،1395ھ،جلد3، صفحہ476

۱۵الدھلوی،شاہ ولی اللہ ،الامام،حجۃ اللہ البالغہ،بیروت،دارالجیل،1426ھ،جلد2،صفحہ193

۱۶مسلم ،جلد4،صفحہ1709

۱۷القرآن،الاحزاب :59

۱۸اس کی دلیل وماخذ قرآن کریم کی سورۃ نور کی آیت 31،اور سورۃ احزاب کی آیت 59ہے۔جس پر تفصیلی بحث آگے آرہی ہے کہ استثناء سے کیا مراد ہے ۔

۱۹القرآن،الاحزاب:33

۲۰مسلم ،جلد3،صفحہ 1680

۲۱الترمذی، جلد،5،صفحہ 106

۲۲البخاری،محمد بن اسماعیل ،ابو عبداللہ ،الجامع الصحیح،دار طوق النجاۃ،1422ھ،جلد7،صفحہ159

۲۳ القرآن،الحدید:16

۲۴ ابن تیمیہ،تقی الدین ،احمد بن عبدالحلیم،اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم ،بیروت، دار عالم الکتب، 1419ھ،جلد1،صفحہ290

۲۵ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، ابو الفداء،تفسیرالقرآن العظیم، بیروت، دارالکتب العلمیہ،1419ھ، جلد8، صفحہ53

۲۶ابو داؤد ،جلد4،صفحہ44

۲۷ القرآن،الاحزاب:55

۲۸القرآن،النور :31

۲۹الخازن ،علاء الدین علی بن محمد بن ابراہیم ،تفسیر الخازن المسمی لباب التاویل فی معانی التنزیل،بیروت، دارالفکر ،1979ء ،جلد5،صفحہ 70

۳۰ ڈھلوں، خالد عرفان ،ڈاکٹر،علم اصول فقہ ایک تعارف،اسلام آباد،شریعہ اکیڈمی ،2006 ،جلد1،صفحہ348

۳۱الکاسانی، علاؤ الدین، البدائع والصنائع فی ترتیب الشرائع،بیروت، دارالکتاب العربی، 1982ھ، جلد5، صفحہ122

۳۲النووی،یحی بن شرف ،ابو زکریا ،المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج ،بیروت ،دار احیاء التراث العربی،1392ھ، جلد9،صفحہ 210

۳۳ابو داود،السنن،جلد2،صفحہ165

۳۴ابو داؤد،جلد2،صفحہ167

۳۵رازی ،محمد بن عمر بن حسین ،ابو عبداللہ ،مفاتیح الغیب ،بیروت ،داراحیاء التراث العربی ،جلد1 ،صفحہ 3317

۳۶العینی، بدرالدین، محمود بن احمد، البنایہ شرح الھدایہ، بیروت، دارالکتب العلمیۃ،1420ھ، جلد6، صفحہ345

۳۷ حصکفی ،علاء الدین،درمختار ،بیروت ،دارالفکر،1386ھ،جلد6،صفحہ370

۳۸حصکفی ،درمختار ،جلد6،صفحہ370

۳۹ابن نجیم ،زین الدین ،البحرالرائق شرح کنزالدقائق،بیروت،دارالمعرفت،س ن ،جلد8،صفحہ218

۴۰ابن نجیم ، البحرالرائق ،جلد8،صفحہ218

۴۱ رازی ،مفاتیح الغیب ،جلد1 ،صفحہ 3317

۴۲درویش مصطفی حسن،فصل الخطاب فی مسئلۃ الحجاب والنقاب،قاہرہ ،دارالاعتصام،س ن ،صفحہ 71،72

۴۳درویش مصطفی حسن،فصل الخطاب فی مسئلۃ الحجاب والنقاب، صفحہ 71،72

۴۴حصکفی،الدرالمختار،بیروت ،دارالفکر،1386ھ،جلد6،صفحہ370

۴۵رازی ،محمد بن عمر بن حسین ،ابو عبداللہ ،تفسیر الفخرالرازی ،بیروت ،داراحیاء التراث العربی ،جلد1 ، صفحہ 3317

۴۶الکاسانی،البدائع والصنائع ،جلد5،صفحہ122

۴۷ الزحیلی،وھبۃ ،ڈاکٹر ،الفقہ االاسلامی وادلتہ،دمشق ،دارالفکر،س ن ،جلد4،صفحہ 203

۴۸القرآن،النور :31

۴۹الشیبانی،محمد بن حسن ،ابو عبداللہ،الامام،الاصل المعروف بالمبسوط للشیبانی،کراچی،ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ،س ن،جلد3،صفحہ58

۵۰المرغینانی،علی بن ابی بکر،برھان الدین،الہدایہ فی شرح بدایۃالمبتدی،بیروت،دار احیاء التراث العربی،س ن، جلد4،صفحہ368

۵۱ابن نجیم ،البحرالرائق شرح کنزالدقائق،جلد1،صفحہ 284

۵۲الحصکفی ،الدرالمختار،جلد1،صفحہ406

۵۳ ابن تیمیہ،تقی الدین ،احمد بن عبدالحلیم ،مجموع الفتاوی،السعودیہ ،مجمع الملک فہد لطبا عۃ المصھف الشریف ،مجمع الملک فہد لطباعۃ ،1416ھ،جلد22،صفحہ 110

۵۴النووی ،یحی بن شرف،المنھاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج ،بیروت،دار احیاء التراث العربی، 1392ھ، جلد6، صفحہ184

۵۵مفتی شفیع ،احکام القرآن،جلد3،صفحہ469

56مفتی شفیع ،احکام القرآن ،جلد3،صفحہ470

57البخاری،الصحیح ،جلد3،صفحہ81

58الترمذی،السنن، جلد3،صفحہ 223

59المظھری،ثناء اللہ ،قاضی،التفسیر المظھری،پاکستان،مکتبۃ الرشیدیہ،1412ھ،جلد6،صفحہ394

۶۰ مسلم ،جلد2،صفحہ306

۶۱السرخسی،محمد بن احمد،المبسوط ،بیروت،دار المعرفت ،1414ھ،جلد10،صفحہ154

۶۲القرآن:البقرہ:173

۶۳ابن نجیم،زین الدین ابراہیم،الاشباہ والنظائر،بیروت،دارالکتب العلمیہ،1419ھ جلد1،صفحہ73

۶۴القرآن، الحج:78

۶۵ القرآن، البقرہ:286

۶۶ القرآن،البقرہ:185

۶۷ البخاری،الجامع لصحیح ،جلد4،صفحہ189

۶۸ القران:البقرہ:219

۶۹القران:النساء :43

70 القرآن :المائدہ:90

71 البخاری،الجامع لصحیح ،جلد6،صفحہ185

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...