Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 33 Issue 2 of Al-Idah

مسئلہ خلافت کی عملیت میں عرب و عجم زاویہ فکر کے اثرات کا علمی جائزہ |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

33

Issue

2

Year

2016

ARI Id

1682060034497_1114

Pages

19-37

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/90/83

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/90

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

مجھے نہیں معلوم کہ رڈیارڈکپلنگ نے یہ جملہ کہ ’مشرق‘ مشرق ہے اور مغرب‘ مغرب‘‘ یہ کبھی بھی آپس میں مل نہیں سکتے‘‘۔[1] کس تناظر میں کہا تھا لیکن میں اس بات کی معمولی مطالعہ مغرب و مشرق کے پیش نظر یہ ضرور کہتا ہوں کہ اس مغربی فلاسفر نے کمال کیا ہے۔ بات دو ٹوک کہی ہے اور بغیر لگی لپٹی کے کہی ہے۔ مغرب اور مشرق میں اتنا ہی فرق ہے جتنا زمین و آسمان میں۔ ایک طرف سے سورج طلوع ہوتا ہے تو دوسری طرف غروب ہوتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس وسیع کائنات کے ان دو مخالف خطوں میں جس طرح جغرافیائی بعد ہے اسی طرح ان خطوں میں رہنے والے انسانوں کے افکار اور زندگی کے بنیادی معاملات میں بہت بڑا فرق و اختلاف ہے۔مغرب کی موجودہ ترقی یافتہ دور سے قبل انسانی سماج کی سطح پر کچھ کچھ مشترکات موجود تھیں لیکن سائنسی ترقی اور اس کے تحت وہاں کے فلاسفر اور سائنسدانوں کے نظریات نے انسانی زندگی کو جس طرح متاثر کیا اور مشرق (اسلامی تہذیب و تمدن) سے دور کیا‘ اس کے پیش نظر متذکرہ بالا مغربی فلاسفر و دانشور کے یہ الفاظ بے ساختہ یادآجاتے ہیں۔ انیسویں وبیسویں صدی میں مشرق پر مغربی استعماری تسلط اور وہاں کی سائنسی ایجادات و تخلیقات نے اگرچہ مسلمان ممالک کے عوام کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ لیکن اس کے باوجود کشمکش جاری ہے۔ مغربی ممالک اور امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کے طرز زندگی سے وہ لوگ کیوں خائف ہیں۔ کیوں مسجد کے مینار اور خواتین کے حجاب سے پر خاش رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ یہ سب ممالک سیکولر ازم کے دعویدار ہیں لیکن ان کی سیکو لر ازم اندر سے اتنی کمزور ہے کہ فرانس کے ساحلوں پر مسلمان خواتین کی برقینی پہننے سے تھر تھر کانپنے لگتی ہے اور برقینی پر پابندی لگوا دیتے ہیں۔مغرب کی حکومتیں اور ان کے دانشور ظاہراً اسلام کی تعریف کرتے اور مسلمان حکومتوں اور عوام کے ساتھ اچھے تعلقات اور انسانی حقوق کی پاسداری کا نعرہ لگاتے نظر آتے ہیں اور ہمارے ہاں کا حکمران‘ اشرافیہ اور نو دولتیا طبقہ ان کا مداح بھی ہے اور ان کی تہذیب میں رنگا ہوا بھی۔ لیکن اس کے باوجود مغرب اور مشرق کے درمیان وہ تعلقات استوار نہ ہوسکے جو بنی نوع انسان کے لئے باہمی استفادے اور بقائے باہمی پر مبنی ہوں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں؟ جب آج ہم سب یعنی مغرب و مشرق‘ شمال و جنوب‘ مواصلات کی ترقی کے سبب ایک عالمگیر معاشرے اور نئے ورلڈ آرڈ کی تشکیل کی بات کرتے ہیں تو اس کے لئے انسانیت کی سطح پر بقائے باہمی کے لئے اقوام متحدہ کے ذریعے وہ بنیادی اصول وضع کرنے اور ان پر عمل کرنے میں کون سی چیز یا عوامل مانع ہیں۔ انیسویں صدی کے بعد مسلمانوں نے مغرب کے ساتھ بقائے باہمی کی ہر ممکن کوشش کرلی‘ لیکن مغرب کا ذہن و داغ اور دل صاف نہ ہوسکا۔ اس کی وجہ اس کے پیچھے وہ موروثی فکر (Legacy) ہے جو مغربی تہذیب کو اسلامی تہذیب کے ساتھ کشمکش کی صورت میں ملی ہے۔1989ء میں دیوار برلن کے گرنے سے دنیا میں بہت بڑی تبدیلی واقع ہوئی۔ اس دیوار کے گرنے یا گرانے میں مسلمانوں کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ اس کے گرنے کے بعد ہم مسلمانوں میں ایسے دانشوروں اور پالیسی سازوں کی بہت کمی محسوس ہوئی جو اس عظیم واقعہ سے فائدہ اٹھاتے اور امت مسلمہ کے مستقبل کی حفاظت و ترقی کے لئے نیا لائحہ عمل تیار کرتے۔ ہم اس کام میں بری طرح ناکام ہوئے اور جنرل حمید گل مرحوم کے ڈرائنگ روم میں دیوار برلن کاٹکڑا دھرے کادھرا رہ گیا۔ لیکن مغربی سیاستدانوں‘ پالیسی سازوں اور دانشوروں اور لکھاریوں نے اس کے لئے خوب تیاری کرکے اپنے ملکوں کی خارجہ پالیسی کے لئے نئے اصول اور حکمت عملیاں وضع کیں۔جاپانی نژاد امریکی مفکر فرانس فوکویاما نے امریکی رسالے (ذرا نام پر غور فرمائیں) نیشنل انٹرسٹ میں ’’انتہائے تاریخ‘‘ (The end of History) کے عنوان سے اپنے شہرہ مضمون میں دنیا بالخصوص عالم اسلام کو یہ پیغام دیا کہ کسی نے اس دنیا میں رہنا ہے تو امریکی تہذیب و فکر کے ساتھ رہنا ہوگا کیونکہ اس تہذیب کو گزشتہ سو سال کی عملی جدوجہد کے طفیل جو ترقی ملی ہے یہ انسان کی نظریاتی و فکری معراج ہے اور اس کے علاوہ دنیا میں کوئی ایسی تہذیب و فکر نہیں جو اس کا مقابلہ کرسکے یا اس کے متوازی چل سکے۔ اس لئے اب دنیا میں جتنی بھی قابل ذکر تہذیبیں ہیں ان کے درمیان کشمکش ہمیشہ کیلئے ختم ہوگئی ہے اور اب ’’راج کرے گا خالصہ‘‘ اور ساری دنیا میں مغربی جمہوریت کے سوا کوئی دوسرا نظریہ یا نظام نہ آنے والا ہے اور نہ چلنے والا ہے۔فوکویاما نے اپنی دانست میں بہت بڑی بات کی اور اپنے ملک و قوم کے مفادات کو تحفظ دینے کے لئے بہت دور کی کوڑی لائے لیکن انکی یہ بات علمی‘ فکری اور دنیا میں موجود دیگر ٹھوس و مدلل نظریات کے پیش نظر درست نہ تھی۔ چاہئے تو یہ تھا کہ مسلمان دنیا سے کوئی اٹھتا اور مدلل جواب پیش کرتا لیکن اللہ کی قدر ت دیکھئے کہ اپنے دین کی حفاظت و حقانیت کے لئے عجیب انتظام و تدابیر فرماتا ہے۔فوکویاما کی اس فکر کے برعکس برنارڈ لیوس جو بش کے مذہبی امور کے مشیر بھی رہے ہیں نے ایک بڑا ہی الارمنگ مضمون بعنوان (The Roots of Muslim Rage) (مسلم غم و غصہ کی جڑیں) لکھا اور اس میں تہذیبوں بالخصوص اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کے درمیان تصادم کے نظریے کو پورے پس منظر کے ساتھ ایک حقیقت کے طور پر پیش کیا۔ اس نے لکھا کہ ’’اسلام خیر و شر کی کشمکش میں سیاست اور عسکری قوت کاحصول ضروری سمجھتا ہے۔ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو یاد کریں‘ وہ صرف ایک پیغمبر اور معلم ہی نہ تھے دوسرے مذاہب کے بانیوں کی طرح، بلکہ وہ ایک قوم (امت) ‘ ریاست کے سربراہ ‘ حکمران اور سپاہی (سپہ سالار) بھی تھے۔‘‘[2]

ہن ٹنگٹن نے اپنی کتاب میں تہذیبوں پر بحث کرتے ہوئے واضح الفاظ میں لکھا کہ مغربی تہذیب اپنی سیاسی‘ معاشی اور علمی طاقت اور غلبہ کے زور پر پوری دنیا کو اپنے مخصوص نظریات (سیکولر ازم وغیرہ) کے تحت دیکھنا اور پرکھنا چاہتی ہے اور یہ اس کا بنیادی حق ہے۔ کیونکہ یہ تہذیب ترقی کے سبب غالب رہنے کے قابل اور مستحق ہے۔[3]

1990ء کے عشرے میں جس کتاب پر سب سے زیادہ بحثیں اور سیمینارز اور مکالمہ وغیرہ ہوئے وہ اسی امریکی مصنف کا ایک مضمون تھا جو امریکی رسالے فارن آفیئرز میں چھپا تھا۔ لیکن اس مضمون پر دنیا بھر کے دانشور اور علمی حلقوں سے جو رد عمل ظاہر ہوا اور اس کو جو اہمیت ملی ہن ٹنگٹن نے اس کو موقع غنیمت جانتے ہوئے اپنے اس مضمون کو 1996ء میں وسعت دے کر (The Clash of Civilization and Remarking of the new world order)کے نام سے دنیا کے سامنے کتابی صورت میں پیش کیا۔ 9/11 کے بعد امریکی صدر بش کی زبان سے یہ جملہ افغانستان اور عراق پر حملہ آور ہونے کے بعد جب صلیبی جنگوں کا آغاز دوبارہ ہوگیا ہے کی صورت میں سامنے آیا اور بعد میں اسے زبان کی پھسلن قرار دیاگیا جو قرآن کریم کے الفاظ میں ’’ان کی دل کی بات زبان پر آہی جاتی ہے‘‘ کے مصداق بالکل صحیح تھا‘ نے اس کتاب (تہذیبوں کا تصادم) پر بحث و مباحثہ ایک نئے انداز میں شدت کے ساتھ آگے بڑھایا۔ پاکستان اور عالم اسلام تک اس کتاب میں پیش کئے گئے نظرئیے کی حدت پہنچ تو گئی لیکن عالم اسلام میں فکری و نظریاتی انارکی و انتشار اور علمی ضعف اور نا قدری کے سبب بہت کم حلقوں میں اس کی باز گشت سنائی دی۔ یہاں تک کہ عالم اسلام اور پاکستان کی جامعات میں کسی ڈھنگ کا سیمینار یا کانفرنس تک اس کتاب پر بحث و تمحیص کے حوالے سے منعقد نہ ہوسکی۔ بدقسمتی سے ہماری جامعات میں علوم کو وہ وقیع اور ٹھوس توجہ ابھی تک حاصل نہیں ہوسکی ہے جو جامعات کا خاصہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے دینی حلقوں اور رائٹ ونگ کی جانب سے ایک آدھ مضمون یا کتاب و کتابچہ وغیرہ اگر کہیں آیاتو آیا ورنہ ٹو دی پوائنٹ جواب آج تک میری نظر سے نہیں گزرا۔ یہ بھی ہماری بڑی بدقسمتی ہے کہ ہمارے مدارس اور دائیں بازو کے اکثر علماء اور دانشور مغربی فلسفے اور بالخصوص 9/11 کے بعد مغربی سائیکی اور ذہن کو پڑھنے کے لئے مطلوبہ علمی قابلیت‘ زبان اور اسلوب و لہجہ سے لیس نہیں۔ ہن ٹنگٹن نے بہت کھلے الفاظ میں لکھا ہے کہ اسلامی اور مغربی تہذیب کے درمیان تصادم ناگزیر ہے بلکہ یہ تصادم شروع ہوچکا ہے۔ اس وقت اسلامی دنیا اور مغرب اور امریکہ وغیرہ کے درمیان جو صورتحال برپا ہے ا س کو ریاستی اور حکومتی مجبوریوں کے تحت جو بھی نام دیا جائے اس کے لئے کوئی نہ کوئی جواز و بہانہ وغیرہ تلاش کیا جاسکتا ہے۔ لیکن در حقیقت یہ تہذیبی تصادم 9/11 کے بعد بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور یہ تصادم اور ٹکراؤ یا جنگ سیاست‘ معاشیات اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدانوں میں نہیں ہے کہ وہ تو مغرب کب کا جیت چکا ہے بلکہ یہ تصادم خالص تہذیبی بنیادوں پر جاری ہے۔[4]

افسوس کہ عالم اسلام میں علمی اور تحقیقی ادارے موجود نہیں اگر کہیں ہیں تو برائے نام اور اگر کہیں نجی شعبہ میں چند سخت جان اور سر پھرے قسم کے لوگ مغرب کو علمی اور تہذیبی بنیادوں پر جواب دے بھی رہے ہیں تو حکومتی حوصلہ افزائی کے بجائے اکثر ان کے بارے میں نا پسندیدگی کا اظہار ہی ہوتا ہے۔

مغرب کا جنگجو اور اسلحہ مافىا بھرپور کوشش مىں ہے کہ ہنٹنگن کے نظرىات کو عملى شکل جتنا جلد ممکن ہوديدے۔ اس کى وجہ ىہ ہے کہ مغربى تہذىب اپنى سارى رعنائىوں اور عالمگىر دعوؤں کے باوجود بعض بنىادى نقائص کى وجہ سے (بالخصوص دہرے عالمى معىارات کے سبب) روبہ زوال ہے۔ لىکن اس کى بھرپور کوشش ہے کہ وہ آئندہ اىک صدى اور سپرپاور کى حىثىت سے دنىا پر حکمرانى کرے۔

ہن ٹنگٹن سے پہلے مغرب کے کئى اىک مؤرخىن نے دنىا کى تہذىبوں کے حوالے سے بات کى ہے اور ان کے درمىان اختلافات کى نوعىت بىان کى ہے لىکن ہن ٹنگٹن نے عجىب بات ىہ کہى ہے کہ دنىا مىں تىن تہذىبىں قابل ذکر ہىں۔ مغربى تہذىب، اسلامى تہذىب اور چىنى (کنفوشس) تہذىب۔ امرىکہ اور مغرب کو خطرہ ہے کہ اگر کہىں کنفوشس تہذىب نے اسلامى تہذىب کے ساتھ ہاتھ ملاىا تو آئندہ کى سپرپاور کے تخت پر چىن براجمان ہوسکتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ اس کے پہلو مىں اسلامى تہذىب اپنى محبت وعفو درگزر اور اخلاقى عظمت کى نشأت ثانىہ کے ذرىعے دوبارہ چىن کو اپنے دامن مىں لے کر غالب ہوجائے۔ سى پىک کے خلاف امرىکہ، بھارت، اسرائىل اور بعض دىگر ممالک کى لن ترانىاں کہىں تہذىبى تصادم کى صورت تو نہىں ہے۔ اسلامى تہذىب کے ساتھ مغرب کا اختلاف تہذىبى اور ثقافتى بنىادوں پر روز بروز بڑھ رہا ہے۔ اس مىں چار عوامل اہم کردار ادا کر رہے ہىں۔ (۱) مسلمانوں کى آبادى مىں اضافے کے ساتھ بے روزگارى مىں اضافہ کے سبب نوجوانوں کا اپنے مسائل کے حل کے لئے مغرب کى طرف ہجرت (۲) مغرب کا طاقت کے بل بوتے پر اپنے تہذىبى اقدار کو مسلمانوں پر بزور مسلط کرنا (۳) اشتراکىت کے خاتمہ کے بعد مغرب اور اسلام کا آمنے سامنے ہونا (۴) مغرب کى عالمگىرىت مىں مسلمانوں کو اپنى شناخت کى فکر کا دامن گىر ہونا[5]، برنارڈ لىوس امرىکہ کى مشہور پرسٹن ىونىورسٹى کا پروفىسر ہے۔ اسلام اور مشرق وسطىٰ (عرب دنىا) پر اسلامى تہذىب وتمدن وتارىخ کے مطالعہ وتحقىق کے حوالے سے بہت زہرىلى تحرىروں وتالىفات کے لئے معروف ہىں۔ لىکن اپنى تحرىروں مىں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تعصب اور بغض کو ملفوف کرکے پىش کرنے مىں بہت مہارت رکھتے ہىں اور ڈپلومىسى سے کام لىتے ہوئے کھل کر اپنے مخالفانہ جذبات کا اظہار کرنے سے پہلو بچاکر کلتے ہىں۔ تہذىبوں کے درمىان تصام کےنظرىات کے اصل خالق ىہى صاحب ہىں لىکن ان کے نظرىات سے استفادہ کرتے ہوئے زىادہ منظم انداز مىں جس شخص نے تصادم کے نظرىے کو پىش کىا وہ سىموئىل پى ہن ٹنگٹن ہىں جو امرىکہ کى نىشنل سىکىورٹى کوسنل مىں منصوبہ بندى کے ڈائرىکٹر رہے ہىں۔ انہوں نے اپنى کتاب تہذىبوں کے تصادم مىں تہذىبوں کے تصادم (Clash of Civilization) مىں فوکوىاما کے نظرىات کو رد کرتے ہوئے آئندہ کے لئے تصادم کى بنىاد تہذىبوں کے درمىان جنگ کو پىش کىا۔ ہن ٹنگٹن کے مطابق (تو بجا ہے) اسلامى اور مغربى تہذىب کے درمىان تصادم کوئى نئى بات نہىں کىونکہ ىہ اختلاف اور کشمکش گذشتہ تىرہ سو برس سے جارى ہے۔ مغرب کے اکثر وبىشتر سکالرز اور مؤرخىن اس بات کا کھل کر اعتراف کرتے ہىں اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ساشوں اور چالبازىوں کے علاوہ موقع بہ موقع جارحانہ ردعمل کے اظہار سے کبھى نہىں ہچکچاىا۔ ۱۱/۹ کے بعد تو عالم اسلام کو اپنے دفاع وسلامتى کى اىسى پڑ گئى ہے کہ اپنے مرض کے اسباب کو جانتے بوجھتے ہوئے اسى ’’عطار‘‘ کے لونڈے سے دو الىنے پر مصر ہے جس کے ہاتھوں وہ بىمار ہوئے ہىں۔[6] ’’تہذىبوں کے تصادم‘‘ مىں پچھلے ۳۰۰برسوں کى تارىخ کى طرف اشارہ کرتے ہوئے بتاىا گىا ہے کہ اسلام کے طلوع وعروج کے فوراً بعد عربوں نے مغرب پر چڑھائى کى جس کے ردعمل کے طور پر صلىبىوں نے مسىحى (پاپائىت) حکومت قائم کرکے مسلمانوں پر جوابى حملہ کىا اور ىوں صلىبى جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا جو خلافت عثمانى کے زوال پر منتج ہوا۔ تب برطانىہ، فرانس، اٹلى اور بعض دىگر مغربى ممالک مشرق وسطىٰ اور شمالى افرىقہ کے مسلمان ملکوں پر قابض ہوئے۔ لىکن مغرب کے علماء، سىاستدانوں اور دانشوروں کو بخوبى معلوم تھا کہ مغرب اسلام کے خلاف سازشوں اور مکرو فرىب سے زىادہ دىر تک مخاصمت اور مقاومت کا ىہ سلسلہ جارى نہىں رکھ سکتا۔ اور وہى ہوا کہ بىسوىں صدى کى سترھوىں عشرے تک سارے مسلمان ممالک مغربى استعمار سے آزاد ہوئے۔ لىکن مغرب نے بہت سوچ سمجھ اور اپنى سائنسى، علمى برترى کے زور پر اپنى تہذىب اور اقتدار کو دنىا بالخصوص عالم اسلام مىں موجود اپنے اىجنٹوں اور آلہٴ کار کے ذرىعے مسلط کرنے کى منصوبہ بندى کى اور اسلامى تہذىب کو مغرب کے عوام کے لئے اىک بڑے خطرے کے طور پر پىش کىا۔ مغرب کو معلوم ہے کہ اسلام اىک زندہ اور ہداىت ورہنمائى پر مبنى اصولوں پر قائم ضابطہ حىات ہے جس کو آج اسلامى بنىاد پرستى کا نام دىا گىا ہے اور ۱۱/۹ کے بعد اس کو دہشت گردى سے جوڑ دىا گىا ہے جبکہ قرآن وسنت پر نظر رکھنے والے ہر صاحب نظر کو معلوم ہے کہ اسلام دہشت گردى کا دنىا کے سارے مذاہب اور تہذىبوں سے بڑھ کر مخالف ہے۔ ’’اللہ تعاليٰ فساد کو پسند نہىں کرتا‘‘ اس لئے ہن ٹنگٹن لکھتا ہے کہ ’’مغرب کا بنىادى مسئلہ اسلامى بنىاد پرستى نہىں ہے۔ بلکہ ىہ اسلام ہے جو اىک مکمل نظام اور تہذىب کى صورت مىں اپنى بقاء واظہار کا قائل ہے اور دنىا کے اکثر مسلمان اپنى تہذىب کى کمترى پر پرىشان ہے۔[7]

مغرب ہى کے اىک فرزند (مسلمان) مرد ہووف مىن نے ہن ٹنگٹن کے نظرىئے کے بارے مىں جابجا فرماىا ہے کہ ’’ہن ٹنگٹن غلط ہوسکتا ہے لىکن وہ بے وقوف نہىں ہرگز نہىں۔ اسلامى بنىاد پرستى، دہشت گردى، انتہا پسندى، رىڈىکل اور پولىٹىکل اسلام جىسے الزمات اور عنوانات لگانے اور پھىلانے مىں مغرب کا اصل ہدف اسلام اور اسلامى تہذىب وثقافت ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ مسلمانوں کى رگ جاں اسلامى تہذىب وثقافت ہى ہے۔ اس لئے اس نے اس کو نشانہ ملامت بنانے کے لئے اپنے ترکش کے سارے تىر آزماتے ہوئے آج کے طاقتور مىڈىا کے ذرىعے سارى دنىا مىں اس کے خلاف پرزور پروپىگنڈا کىا تاکہ پورى دنىا اسلام، اسلامى تہذىب اور اسلامى دنىا کے خلاف ىکجا ہوکر صف آراء ہوجائے اور اس وقت دنىا مىں اسلام، پاکستان، سعودى عرب اور دىگر عرب اسلامى ممالک کے خلاف جو تماشا بنا ہوا ہے اس کا اندازہ اس سے لگاىا جاسکتا ہے کہ ہمارا پڑوسى مسلمان ملک افغانستان امرىکہ سے درخواست کر رہا ہے کہ پاکستان پر دباؤ بڑھاکر کورىا کى طرح تنہا کىا جائے۔ (ان کے منہ مىں خاک)

مغرب اور دنىا کے سارے دانشور بخوبى جانتے ہىں کہ اسلام دنىا کے دىگر مذاہب کى طرح صرف مذہب نہىں ہے بلکہ ىہ دىن (Law of the Land) کے طور پر دنىا کے طاقتور ترىن تہذىب بننے کى صلاحىت رکھتا ہے کىونکہ اس کے پاس پورى دنى اکے لئے اىک متبادل معتدل اور عادلانہ نظام حىات پىش کرنے کى پورى استعداد جو ہم مسلمانوں کے ہاتھوں فى الوقت روبہ عمل نہىں ہے۔ لىکن مستقبل مىں ضرور اىسا اور عادلانہ نظام حىات پىش کرنے کى پورى استعداد ہے جو ہم مسلمانوں کے ہاتھوں فى الوقت روبہ عمل نہىں ہے۔ لىکن مستقبل مىں ضرور اىسا ہوگا۔ ىہى وجہ ہے کہ مغرب کے مؤرخىن، مفکرىن، پالىسى ساز، سىاستدان، ادباء ىہاں تک کہ صحافى اور فلم کى سکرپٹ لکھنے والے سب اس بات کا کھل کر اظہار کرتے ہىں کہ The Red manance is gone but here is Islam (سرخ خطرہ (اشتراکى سوىت ىونىن) تو ختم ہوگىا لىکن اب اسلام ہے)۔[8]

اسى لئے مغرب کى حکومتىں اور ان کے دانشور اسلام کو اپنے عوام کے لئے اىک دشمن اور واضح دشمن کے طور پر پىش کرتے ہىں۔ اور کہتے ہىں کہ ہمارا ىہ دشمن اىک واضح اور جامع نام رکھتا ہے اور وہ ہے اسلام از اسلام۔ اس لئے ہن ٹنگٹن اپنے اىک انٹروىو مىں کھل کر اظہار کرچکا ہے کہ ’’رىڈىکل‘‘ اسلام اىک مسئلہ بنا ہوا ہے اور جدىد اسلام (تصوف وغىرہ) کے ذرىعے اس مسئلے سے نمٹا جاسکتا ہے۔

اىڈورڈ سعىد (جو لبنانى نژاد مسىحى امرىکى نامور سکالر گزرا ہے اور بعض لوگ کہتے ہىں کہ امرىکہ اور مغرب کو اندر سے دىکھنے کے بعد وہ غىر اعلانىہ طور پر اسلام قبول کرچکا تھا۔ (واللہ اعلم)۔ مغرب کے اسى طرز فکر کے بارے مىں کہتا ہے ’’ىورپ اور امرىکہ کے عوام کے لئے ان کى حکومتوں نے مىڈىا (نشرواشاعت کے سارے ذرائع استعمال کرتے ہوئے) کى ذرىعے اسلام کو اىک ناپسندىدہ وناگوار خبر کا عنوان بناکر پىش کىا ہے اور اس کا لب لباب ىہ ہے کہ اسلام مغربى تہذىب کے لئے سخت خطرہ ہے‘‘۔ امرىکہ کے مشہور تھنک ٹىنک رىنڈر کارپورىشن نے دنىا کے مسلمانوں کے بارے مىں اىک سروے رپورٹ تىار کى تھى جس کا نتىجہ ىہ سامنے لاىا گىا تھا کہ امرىکہ اور مسلمان اىک دوسرے کے حرىف ہىں اور اس کى بنىادى وجہ مسلمانوں کا اپنے دىن وتہذىب سے جڑے رہنا ہے‘‘۔[9]

مغرب نے اسلام کے ساتھ مخاصمت ثابت کرنے کے لئے بے شمار اسباب وذرائع بىان کئے۔ مستشرقىن کى پہلى کھىپ نے اسلام کو مشکوک ومشتبہ بنانے کے لئے اىک صدى لگائى اور کتب کے انبار لگالئے۔ دوسرے مرحلے مىں الزامات کے ذرىعے تصادم کى راہىں تلاش کرکے جنگىں کروائىں۔ آج اىک دفعہ پھر جدىد دنىا مىں حدىد الزامات کے ساتھ مغرب اسلام کے مقابل کھڑا ہوکر پانى گدلا کرنے کى بھرپور کوشش مىں ہے اور بار بار سٹرىوٹائپ باتىں کہ اسلام جدىدىت اور جدىد تضاضوں کے ساتھ مطابقت نہىں رکھتا۔ عورتوں کے حقوق اور آزادى کے خلاف ہے۔ اسلام اور جمہورىت کے درمىان کوئى مطابقت نہىں، وغىرہ وغىرہ۔

ان سارے الزامات کے باوجود ىہ بات روز روشن کى طرح واضح ہے ہ اسلام تہذىبوں کے تصادم کا نہ قائل ہے اور نہ کوئى ارادہ رکھتا ہے۔ اسلام کا ماضى کھلى کتاب کى طرح ہے جس مىں اسلام نے دوسرى تہذىبوں سے جنگ وتصادم کى جگہ تحمل، برداشت، عفو ددرگزر اور دعوت واصلاح ہى کو ترجىح دى ہے۔ پروفىسر خورشىداحمد نے کىا خوب فرماىا ہے کہ ’’تہذىبوں مىں مکالمہ، تعاون، مسابقت حتى کہ مثبت مقابلہ سب درست لىکن تہذىبوں مىں تصادم، جنگ وجدال، خون خرابہ اور اىک دوسرے کو مغلوب ومحکوم بنانے کے لئے قوت قوت کا استعمال انسانىت کے شرف اور ترقى کا راستہ نہىں ہے۔ مرادہوف مىن نے اس سلسلے مىں کمال کى فکر عطا کى ہے ’’تہذىبوں کے ارتقاء مىں کبھى کوئى زىروپوائنٹ نہىں ہوتا۔ دنىا مىں ہر شخص نے کسى دوسرے شخص سے فىض پاىا اور ہر شخص نے کسى دوسرے کى کامىابىوں پر اپنى عمارت کھڑى کى ہے‘‘۔[10]

Bibliography

1.Robert Lawson, World Religion and World Community, Columbia University Press, New York, 1963

2.Saeedullah Qazi, Islam and Challenges of the Contemporary World, N.B. Printers, Mohallah Gani, Peshawar, 1994.

3.Said E.W. Covering Islam: How the Media and the Experts Determine; How we see the rest of the world; Pantheon Books, New York, 1981

4.Zafar Ali Qureshi, Prof. Prophet Medean and Western Critics, Mansura- Lahore, 1992.

5.Maryam Jamila, Islam and Orientalism, Al-Matbaat ul Arabia, Old Anarkali, Lahore.

 

مغرب کو چاہئے کہ اپنى کامىابىوں مىں دنىا بالخصوص اسلامى دنىا کو شرىک کرے اور مسلمانوں پر فرض ہے کہ اپنے عمل وفکر کے ذرىعے اسلام کى حقانىت اور روحانىت سے پورى دنىا بالخصوص مغرب کى اندر کى تارىکىوں کو روشن کرے تاکہ اس دنىا کو جنت نظىر بن کر آخرت کى راہىں ہموار ہوں۔

 

حوالہ جات

  1. ۔Rudyard Kipling, “The Balled of East &West and never the twain shall meet”… is a poem by. It was first published in 1889 and has been much Collected.
  2. ۔Francis Fukuyama, The End of History and the Last Man, International Affairs Journal, 1989.
  3. ۔Bernard Lewis, The Roots of Muslim Rage, The Atlantic Manthly, Sept., 1990.
  4. ۔Samuel Hintington, Clash of Civilization, Oxford University Press, 1992.
  5. ۔ترجمان القرآن، شمارہ نومبر ۲۰۱۶، ڈاکٹر انىس احمد۔
  6. ۔Zafar Ali Qureshi, Prof. Prophet Muhammad and Western Critics, Mansora, Lahore, 1992
  7. ۔S. Hingtington, Clash of Civilization.
  8. ۔Saeedullah Qazi, Islam and Challenges of the Contemporary World, N.B. Printers, Peshawar, 1994.
  9. ۔Said E.W. Covering Islam, Pantheon Books, New York, 1981
  10. ۔ترجمان القرآن، پروفىسر خورشىد احمد، شمارہ ستمبر 2016
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...