Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 31 Issue 2 of Al-Idah

مسیحى دینیات اور بىن المذاہب تعلقات |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

31

Issue

2

Year

2015

ARI Id

1682060034497_1119

Pages

188-197

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/171/163

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/171

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.


قرآن کریم یہودی مسیحی دنیا کے لیے مجموعی طور پر اہل کتاب کی اصطلاح وضع کرتا ہے۔ اور اسى طرز پر انہیں خطاب کر کے اسلا م کی طرف بلاتا ہے۔ اسلام کی طرح مسیحیت بھی ایک دعوتی مذہب رہا ہے۔ اور خود یہودیت کی طرح ماسوائے چند کے عظیم حوادث کا شکار نہیں بنا ہے۔ قرآ ن کریم کی رُو سے مسیحىت کا دینی ادب انجیل ہے، جس پر باب دوم کے فصل دوم میں پوی شرح و بسط کے ساتھ بحث ہوچكى ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات در اصل یہودیت کے بگڑے ہوئے صور تحال کی اصلاحی کوششوں کا مظہر ہیں۔ ان کا تعلق ایک یہودی فریسی خاندان سے تھا۔ اور ان کے درمیان ہی ان کی پرورش ہوتی تھی۔ ابتداء میں وہ یہودیت کے اساسى مصادر، اصطلاحات اور نصوص کی تعبیر کے منہج کو بطور سند مانتے تھے۔ اس حد تک یہودی اس سے خوش رہے اور انھیں مسیح موعود سمجھا۔ لیکن جب حضرت عیسیٰؑ نے دو نکات پر زور دیاتو یہودی طبقہ نے ان کے خلاف تحرىك چلائى۔ اولََان کا مؤقف تھا کہ موعود بادشاہت آسمانی، سے مراد روحانی جدو جہد کے ذریعے اخروی نجات حاصل کرنا ہے۔ا س کے برعکس یہودیوں کا مؤقف تھا کہ آسمانی بادشاہت ، دنیاوی اور مادی حکمرانی کے نا م کی کوئی چیز ہے، جس میں بر سرِ اقتدار طبقہ ڈنڈا ہاتھ میں لیکر محکوم طبقے کو مارتا رہتا ہے۔ یہ آسمانی بادشاہت سے متعلق یہ تصوّر ہر دور میں یہودیت کے اندر پائی جاتی ہے۔ ہر دور میں انھوں نے مسیح موعود اور آسمانی بادشاہت کے ذریعے اپنے مظالم کے انتقام کی خوشخبری سنائی ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کے مؤقف کے تحت آسمانی بادشاہت کا دارومدار روحانیت پر مبنی تھی اور اس کا انعقاد وقوع قیامت پر منحصر تھا۔ اس میں رجوع الی اللہ کا تصّوّر شامل تھا۔

چنانچہ ایک بار اس سے پوچھا گیا کہ خدا کی بادشاہی کب آئیگی تو اس نے جواب میں کہا:

خدا کی بادشاہی ظاہری طور پر نہیں آئیگی اور لوگ یہ نہ کہىں گے کہ دیکھو یہاں ہے ، وہاں ہے، کیونکہ دیکھو خدا کی بادشاہی تمہارے درمیان ہے"[1]۔

ثانیاََ ۔ ان کا مؤقف تھا کہ شریعت موسوی نسلی نہیں بلکہ عالمی پیغام ہے ۔ اور یہ کہ تمام دنیا کے لوگوں کو بلا لحاظ رنگ و نسل تورات کو قبول کرنے، اس کو سمجھنے، اس کی اشاعت کرنے اور اس کے پیرو کار کہلانے کا حق حاصل ہے۔ اس حوالے سے ان کے نزدک یہودیت کوئی اخراجی Exclusive نہیں بلکہ دعوت اور روحانیت Inclusiveness کا ہم معنی مذہب تھا۔

ان دونوں تصوّرات نے وہ بندھن اور گرہیں توڑ ڈالے جو یہودی فرقوں نے دىنىات کی شکل میں بُنے تھے۔ مثلاََ اللہ کا صرف یہود کے لئے ہونا یا دنیا کا یہود کے لئے ہونا، یا صرف یہود کا عباد منتخبہ Chosen People اور عبادِمحبوبہ Beloved people ہونا، تورات کا صرف یہودیت کے لئے اور یہودیت پر صرف نسلی یہودیوں کا قبضہ رہنا وغیرہ۔

اس تناظر میں جب یہودیوں نے ان کو غیر یہودی لوگوں کے ساتھ ملتے جلے دیکھا تو انکے اس عمل کو شریعت کے خلاف سمجھا۔ کیونکہ عالمگیریت کا دعویٰ ان کے مذہبی اور مخصوص دینیاتی طرزِ فکر کے خلاف ایک بغاوت کے مترادف تھا۔ اس سے پہلے کہا جا چکا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ نے یہودی فریسیوں کے غیر عالمگیر نظریہ کے خلاف اپنے خطاب میں اد عائی طرز تکلم اختیار کیا تھا ۔ اور وہ ان کے سامنے غیر یہودیوں کے ساتھ ملکر کھانا کھانے بیٹھ جاتے تھے[2]۔

ان کے عالمی اور معاشرتی تعلیمات تحمل و برداشت کا کھلا ثبوت ہىں۔

مثلاً انہوں نے فرمایا:

اپنے پڑوسی سے محبت کر۔ اپنے دشمنوں سے محبت کر اور اپنے ستانے والوں کے لئے دعا کر[3]۔

"جو تمھیں بیگار کے لئے بلائے اس کے ساتھ چل۔ جو تم سے قرض مانگے قرض دو۔ جو تمہیں ایک تھپڑ مارے تو دوسرا پھیر۔ شریر کا مقابلہ مت کر۔ انتقام مت لو[4]۔

حالانکہ یہودی فلسفہ اخلاق و معيشت کی رو سے غیر یہودی یہودی دشمن ہے۔ جس کی نہ گناہ معاف ہو سکتی ہے۔ اور نہ اس کو بلا سود قرضہ دیا جا سکتا ہے۔

حضرت عیسیٰؑ کے تصوّر و تعلیمات کے مطابق یہودیت کسی خاص قوم کا مذہب نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ آسمانی بادشاہت کا وعدہ صرف یہودی قوم کے ساتھ محدود نہیں بلکہ کوئی بھی قوم روحانیت کی بنیاد پر اسے حاصل کر سکتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے ایک موقع پر آسمانی بادشاہت سے متعلق خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔

"اے ریاکار فقہیوں / فریسىو! تم پر افسوس کہ آسمان کی بادشاہی لوگوں پر بند کرتے ہو۔ کیونکہ نہ تو آپ داخل ہوتے ہو اور نہ داخل ہونے والوں کو داخل ہونے دیتے ہو"[5]۔

دیگر قوموں کو یہودی دشمن سمجھتے تھے۔ اور اپنے ہم قوموں کو دوست خیال کرتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ دوسروں کے ساتھ دشمنی اور اپنے ہم قوموں کے ساتھ دوستی ہی شریعت کی بنیاد ہے۔ حضرت عیسیٰؑ نے اس تصوّر کو ردّ کرتے ہوئے فرمایا:

"تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا۔ کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھو اور دشمن سے عداوت ۔ لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت اور اور اپنے ستانے والوں کے لئے دعا کرو"[6]۔

"اگر تم اپنے محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو تو تمہارے لئے کیا اجر ہے کیا محصول لینے والے ایسا نہیں کرتے؟ اگر تم فقط اپنے بھائیوں ہی کو سلام کرو ، یہ زیادہ کرتے ہو کیا غیر قوموں کے لوگ ایسا نہیں کرتے۔ پس چاہیئے کہ تم کامل ہو جیسا تمہارا آسمانی باپ (اللہ ) کامل ہے"[7]۔

اس سے پہلے حضرت یسعیاہؑ نے حضرت عیسیٰؑ سے متعلق یہ پیشنگوئی کی تھی:

" یہ غیر قوموں کو انصاف دیگا، نہ جھگڑا کریگا، نہ شور اور اللہ کے نام سے غیر قومیں امید رکھیں گے"ْ[8]۔

انھوں نے آسمانی بادشاہت کو خفیہ خزانے سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا:

"آسمانی کی بادشاہی کھیت میں چھپے ہوئے خزانہ کی مانند ہے۔ جس آد می نے پاکر چھپا دیا اور خوشی کے مارے جا کر جو کچھ اسکا تھا بیچ ڈالا اور اس کھیت کو مول لیا"[9]۔

حضرت یسعیا ہؑ کی طرح حضرت شمون ربیّ نے بھی حضرت عیسیٰؑ کو غیر قوموں کے حق میں روشن دھندہ قرار دیا ہے۔ انھوں نے فرمایا:

"غیر قوموں کو روشنی دینے والا اور اسرائیل کا جلال"[10]۔

حضرت عیسیٰؑ کا موقف تھا کہ شریعت کی مثال چراغ کی مانند ہے ۔ اور اس کا کام بلا تفریق روشنی فراہم کرنا ہوتا ہے، جب وہ جلایا جاتا ہے۔ تو اسکی روشنی کو محدود نہیں کیا جا سکتا ۔ انھوں نے فرمایا:

"کوئی شخص چراغ جلا کر برتن سے نہیں چھپاتا نہ پلنگ کے نیچے رکھتا ہے۔ بلکہ چراغدان پر رکھتا ہے، تاکہ اندر آنے والوں کو روشنی دکھائی دے"[11]۔

"اے شرع کے عالمو! تم پر افسوس ہے کہ تم نے نجات کی کنجی چھین لی ، آپ بھی داخل نہ ہوئے اور داخل ہونے والوں کو بھی روکا"[12]۔

روحانی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت عیسیٰؑ نے بنی آدم کا ذکر کیا ہے صرف بنی اسرائیل کا نہیں۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ معاصر اقوام سے متعلق حضرت عیسیٰؑ اوراس کے دین کا موقف دوستانہ اور مشئیت تھا۔ انھوں نے فرمایا:

"اگر تم ابن آدم کو اوپر جاتے دیکھو گے جہاں وہ پہلے تھا تو کیا ہوگا۔ زندہ کرنے والی تو روح ہے جسم سے کچھ فائدہ نہیں"[13]۔

"میں نور ہو کر دنیا میں آیا ہوں تاکہ جو کوئی مجھ پر ایمان لائے اندھیرے میں نہ رہے۔ میں دنیا کو مجرم ٹھہرانے نہیں بلکہ دنیا کو نجات دینے آیا ہوں"[14]۔

حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں مندرجہ بالا بائبلی اقتباسات غیر قوموں سے متعلق ان کے دینی رویہ اور رحجان کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہی وہ چیز تھی جو ان کے خلاف یہودیوں کے سازش کا موجب بنی۔ یہ بات یوحنا نے یہودی فریسی عالموں کی زبانی خود تحریر کی ہے۔ یوحنا کہتا ہے کہ فریسی یہودیوں نے آپس میں کہا:

"اگر ہم اسے یوں ہی چھوڑ دیں تو سب اس پر ایمان لائیں گے اور رومی آکر ہمارے جگہ اور قوم دونوں پر قبضہ کر لیں گے۔۔ یسوعؑ اس قوم کے واسطے آگیا۔ اور نہ صرف اس قوم کے واسطے بلکہ اس واسطے بھی کہ خدا کے پروگندہ فرزندوں کوجمع کر کے ایک کر دے".[15]

موجودہ مسیحی ادب کا سب سے بڑا ضابط Streamliner پولس ہے۔ جو سینٹ پال کے نام سے معروف ہے۔ اور جو خود یہودی نژاد ہے۔ اس کا پرانا یہودی نام ساؤل ہے۔ مسیحی ادب خصوصاََ انا جیل اربعہ، اعمال اور خطوط Epistlesپر اسکی افکار، نظریات اور اختراعات کی چھاپ نمایاں ہے۔ وہ موجودہ مسیحی عقائد و شعائر جیسے تثلیث، کفارہ اور تہواروں کا موجد ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جدید مسىحيت میں سینٹ پال خود حضرت عیسیٰؑ سے بڑھ کر چلنے پھرتے نظر آتے ہیں۔ بہر حال اور قطع نظر اس سے کہ سینٹ پال نے مسیحيت کا بیڑا کس حد تک عرق کر دیا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سینٹ پال نے مسیحيت کو غیروں تک پہنچانے میں کوئی رقیقہ فروگذرشت نہیں کیا ہے۔ اس سے حضرت عیسیٰؑ کے باقی شاگردوں پطرس، برناباس اور متی یعقوب، یوحنا اور دیگر حوارین نے دورِ ابتلا Age of Persecution کے پہلے مرحلے میں مسیحىت کو بیرونی دنیا میں متعارف کیا۔ ان کے فوراََ بعد ان کے شاگروں جیسے لوقا اور مرقس نے بھی تبلیغ مسیحت کا بیڑا اُٹھایا۔

ىہودىت كے برعكس سىنٹ پال بھى عالمى مسىحىت كا پرچارى ہے اور عبرانى الہىات (Hebrew theology) كو غىر قوموں كے درمىان تعلقات كى نوعىت كو اجاگر كر كے سىنٹ پال كہتاہے:

"پس تم کو معلوم ہو کہ خدا کی اس نجات کا پیغام غیر قوموں کے پاس بھیجا گیا ہے اور وہ اسے سُن بھی لیں گے"[16]۔

"بھائیو! میں اس سے تمہارا ناواقف نہیں رہنا چاہتا کہ میں نے بارہا تمہارے پاس آنے کا ارادہ کیا۔ تاکہ جیسا مجھے اور غیر قوموں میں پھل مِلا ویسا ہی تم میں بھی ملے۔۔۔ میں یونانیوں اور غیر یونانیوں، داناؤں اور نادانوں کا قرضدار ہوں"[17].

"کیا خدا صرف یہودیوں کا ہے غیر قوموں کا نہیں۔ بے شک غیر قوموں کا بھی ہے۔ کیونکہ ایک ہی خدا ہےجو مختونوں اور نامختونوں کو ایمان کے وسیلے سے راستباز ٹھہرائے گا"[18]۔

"یہ وعدہ کہ وہ دنیا کا وارث ہوگا۔۔۔۔وہ وعدہ کل نسل کے لئے قائم ہے نہ صرف اس نسل کے لئے جو شریعت والی ہے بلکہ اس کے لئے بھی جو ابراہام کی مانند ایمان والی ہے"[19]۔

"ہمارے ذریعہ سے جن کو اس نے نہ فقط یہودیوں میں سے بلکہ غیر قوموں میں سے بھی بلایا۔۔۔ چنانچہ ہو سیع کی کتاب میں بھی خدایوں فرماتا ہے کہ جو میری امت نہ تھی اسے اپنی امت لکھوں گا اور جو پیاری نہ تھی اسے پیاری کہوں گا "[20]۔

"اور غیر قومیں بھی رحم کے سبب سے خدا کی حمد کریں۔ چنانچہ لکھا ہے کہ اس واسطے میں غیر قوموں میں تمھارا اقرار کروں گا۔ ۔۔۔

اے غیر قومو!اسکی امت کے ساتھ خوشی کرو۔

اے سب غیر قومو! خداوند کی حمد کرو اور سب امتیں اسکی ستائش کریں"[21]۔

"جب غیر قومیں روحانی باتوں میں ان کی شریک ہوئی ہیں لازم ہے کہ جسمانی باتوں میں بھی ان کی خدمت کریں"۔[22]

"مجھے خدا کی طرف سے غیر قوموں کے لئے مسیح یسوع کے خا دم ہونے کی توفیق ملی ہے۔ کہ میں خدا کی خوشخبری کی خدمت کاھن کی طرح انجام دوں۔ تاکہ غیر قومیں نذر کے محور پر روح القدس سے مقدس بن کر مقبول ہو جائیں"[23]۔

"ہم سب نے خواہ یہودی ہوں ، خواہ یونانی، خواہ غلام خواہ آزاد۔ ایک ہی روح کے وسیلہ سے ایک بدن ہونے کے لئے بپتسمہ لیا"[24]۔

"مگر تم جو پہلے دور تھے۔ اب مسیح یسوع میں مسیح کے خون کے سبب نزدیک ہو گئے ہو۔ کیونکہ وہی ہماری صلح ہے جس نے دونوں کو ایک کر لیا۔ اور جدائی کی دیوار جو بیچ میں تھی ڈھا دیا۔۔۔"[25] ۔

اسی سبب سے میں پولس تم غیر قوم والوں کی خاطر مسیح یسوع کا قید ی ہوں"[26]۔

مذکور اقتباسات پولس کے چند خطوط سے لی گئی ہیں جو انہوں نے رومیوں، کرنتھیوں اور افیسون کے نام لکھی ہیں۔ اور جو عہد نامہ جدید کا ایک بڑا حصہ تشکیل کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ پولس نے گلتیوں، فلپیوں، مکسیوں ، تھسلُسنیکیوں ، تہمتھس ، قطس ، فلیمون اور عرانیوں کے نام اسی مفاہم پر مشتمل خطوط لکھے۔ یہ خطوط بھی عہد نامہ جدید کا حصہ ہیں۔

یہ تمام خطوط ابتدائی مسیحیت کی نمائندگی کرتی ہیں کہ غیر قوموں کے بارے میں مسیحی پرچاری یعنی پولس کا رویہ کیسا تھا۔ یہ خطوط اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں۔ کہ پولس نے یہودی روش سے ہٹ کر مسیحىت کو ادخالی Inclusive مذہب کے نام سے متعارف کیا۔ اور دور دراز کی تبشىرى سفر طے کر کے اور مراسالات کے ذریعے بھی مذکورہ بالا اقوام کو مسیحیت کیطرف بلایا۔

شمعون پطرس (St. Peter) اور غیر قومیں:

شمعون پطرس کا شمار حضرت عیسیٰؑ کے نامور صحابہ میں ہوتا ہے۔ گو مسیحی ادب میں وہ نمایاں نظر نہیں آتے پھر بھی پطرس کے دو خطوط عہد نامہ جدید میں شامل ہیں۔ جو اس نے پنطس ، گلنیہ، کپدکیہ، آسیہ اور بتھنیہ کے باشندوں کے نام لکھیں ہیں۔

اس سے پہلے عہد نامہ جدید کے کتاب اعمال (Acts) میں شمعون پطرس نے غیر قوموں کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ:

"اے بھائیو! تم جانتے ہو۔ کہ بہت عرصہ ہوا جب خدا نے تم لوگوں میں سے مجھے اس لے چُنا کہ غیر قومیں میری زبان سے خوشخبری کا کلام سن کر ایمان لائیں"[27]۔

شمعون پطرس اپنے ساتھیوں کو خطاب کرکے کہتا ہے:

"اور غیر قوموں میں اپنا چال چلن نیک رکھو تاکہ جن باتوں میں وہ تمہیں بدکار جان کر تمہاری بد گوئی کرتے ہیں تمھارے نیک کاموں کو دیکھ کر انہی کے سبب ملاحظہ کے دن خدا کی تمجید کریں"[28]۔

شمعون پطرس نے غیر قوموں کو آسمانی بادشاہت میں حصہ دار ٹھہراتے ہوئے فرمایا:

"اے بھائیو! اپنے بلاوے اور برگزید گی کو ثابت کرنے کی زیادہ کوشش کرو کیونکہ اگر ایسا کرو گے تو کبھی ٹھوکر نہ کھاؤ گے۔ بلکہ اس سے تم ہمارے خداوند اور منجی یسوع مسیح کی ابدی بادشاہی میں بڑی عزت کے ساتھ داخل کئے جاو گے"[29]۔

یعقوب حواری اور غیر قومیں:

یعقوب حواری بارہ شاگردوں میں سے ہیں۔ وہ غیر قوموں کو ترغیب دیتے ہیں کہ وہ بھی خدا کو تلاش کریں۔

" سب قومیں جو برائے نام کی کہلاتی ہیں، خدا وند کو تلاش کریں"[30]۔

بارہ قبائل کے نام یعقوب حواری کا خط عہد نامہ جدید میں شامل ہے۔ اپنے رفقاء کے ارسال کردہ خطوط کی طرح یہ بھی ایک عالمی دعوت پر مشتمل ہے۔

اس خط میں پطرس نے مساوات بین الناس کا عام درس دیا ہے اور کہا ہے۔

"یسوع مسیح کا بیان تم میں طرفداری کے ساتھ نہ ہو کیونکہ اگر ایک شخص تو سونے کی انگوٹھی اور عمدہ پوشاک پہنے ہوئے تمہاری جماعت میں آئے اور ایک غریب آدمی میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے آئے۔ اور تم اس عمدہ پوشاک والے کا لحاظ کرکے کہو کہ تو یہاں اچھی جگہ بیٹھ اور اس غریب شخص سے کہو کہ وہاں کھڑا رہ یا میرے پاؤں کی چوکی کے پاس بیٹھ۔تو کیا تم نے آپس میں طرفدانی نہیں کی۔ اور بد نیت منصب دار نہ بنے؟ اے پیارے بھائیو! سنو! کیا خدا نے اس جہان کی غریبوں کو ایمان میں دولتمند اور اس بادشاہی کے وارث ہونے کے لئے برگزیدہ نہیں کہا جس کا اس نے اپنے محبت کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے؟ـ"[31]۔

یوحنا (John) بارہ حوارئین میں سے ہے۔ مسیحی عقائد کے مطابق عہد نامہ جدید کا چوتھا حصہ بنام انجیل یوحنا اسکی طرف منسوب ہے۔ جس میں اس نے حضرت عیسیٰؑ کے حالاتِ زندگی ، تعلیمات اور افکار کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ انجیل یوحنا کے علاوہ یوحنا کے تین خطوط عہد نامہ جدید میں شامل ہیں۔

یوحنا غیر قوموں میں مسیحی ملبغین کی بے غرض تبلیغ کی ستائش کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور کہتا ہے:

"اے پیارے ۔ جو کچھ تو ان بھائیوں کے ساتھ کرتا ہے جو پردیسی بھی ہیں وہ دیانت سے کرتا ہے۔ انہوں نے کلیسا کے سامنے تیری محبت کی گواہی دی تھی۔ اگر تو انہیں اس طرح روانہ کریگا جس طرح خدا کے لوگوں کو مناسب ہے تو اچھا کریگا۔ کیونکہ وہ اس نام کی خاظر نکلے ہیں اور غیر قوموں سے کچھ نہیں لیتے۔ پس ایسوں کی خاطر داری کرنا ہم پر فرض ہے تاکہ ہم بھی حق کی تائید میں انکے ہم خدمت ہوں"[32]۔

مذکورہ بالا بحث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابتدائی ادوار میں دیگر اقوام سے متعلق مسیحی مذہب کی پالیسی دوستانہ اور انتہائی حدتک دعوتی تھی۔ محبت تواضع، خندہ پیشانی، تحمل و برداشت غىرکی اصولوں کی بنیاد پر مسیحی مذہب نے دیگر اقوام کے ساتھ رابطہ کیا۔ اور اسی بناء پر مسیحیت کو فروغ ملا،تاآنکہ رومی جو کسی زمانے میں یہودی ایما پر مسیحىوں کے جانی دشمن تھے اور جو تین سو سال تک مسیحی مبلغين کا چمڑا اتارنے میں مصروف رہے انھوں نے 325ء میں نہ صرف مسیحیت کو قبول کیا بلکہ چاردانگ عالم میں اسکی اشاعت بھی کی۔ اس کے برعکس یہودیت اس اعزاز سے محروم رہی۔

 

References

  1. لوقا:۱۷: ۲۰
  2. متی :۱۳: ۱۰۔۹۔
  3. مذكور ،۵: ۲۳
  4. مذکور۔ ۵: ۲۲۔ ۲۰۔
  5. مذكور: ۲۳: ۱۲
  6. مذكور ۵: ۴۵۔
  7. مذکور: ۵: ۶۵۔
  8. ىسعىاہ۲: ۱ ومابعد
  9. متى، ۱۴: ۱۳
  10. لوقا:۳۲: ۳۱
  11. مذکور، ۸: ۱۶
  12. مذکور، ۱۱: ۵۱۔
  13. یوحنا:۶: ۶۲۔
  14. مذکور، ۱۳: ۴۴, ۴۸۔
  15. یوحنا،۵۲۔ ۵۳۔
  16. اعمال ۲۸: ۲۸
  17. رومیوں،۲: ۲۳, ۲۴۔
  18. مذکور، ۳: ۴۰۔
  19. مذکور، ۴: ۱۳
  20. مذکور،:۱۰: ۵۔
  21. مذکور، ۱۱: ۱۵۔ ۱۹
  22. مذکور:۱۵: ۲۷۔
  23. مذکور ،۱۵: ۱۵۔۱۷۔
  24. کرنتھیوں، ۱۲: ۱۳۔
  25. افسیون، ۲: ۱۳, ۱۴۔
  26. مذکور، ۳: ۱۔
  27. اعمال، ۱۵ :۷
  28. نامہ پطرس اوّل، ۲ :۱۲
  29. ۰ نامہ پطرس دوم :۱۰: ۱۔ ۱۰
  30. اعمال:۱۷: ۱۵۔
  31. نامہ یعقوب: ۱: ۲۔۵۔
  32. یوحنا، ۵: ۱۔ ۸۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...