Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 34 Issue 2 of Al-Idah

مسیحیت، اناجیل اربعہ اور بنیادی مسیحی عقائد کا مختصر تعارف |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

34

Issue

2

Year

2017

ARI Id

1682060034497_1120

Pages

73-84

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/66/61

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/66

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

مسیح کی لغوی تحقیق

مَسِیح کا لفظ مصدر ہے اور لغوى اعتبار سےکسی شے کادوسرے شے پربسط کے ساتھ گزرنے کوکہتے ہیں۔ہاتھ سے چھونے کوبھی کہتے ہیں۔ مسیح پسینے کواوراسی طرح مٹے ہوئے نقش والے درہم کوبھی کہتے ہیں۔اُس شخص کو بھی مسیح کہاگیاہے جس کے چہرے کاایک جانب ہموارہوىا جس پرنہ آنکھ ہواورنہ بھنویں۔اسی مناسبت سے دجال کومسیح کہاجاتاہے کیوں کہ وہ ممسوح العین ہے ىا اس کے چہرے کاایک طرف ہموارہے۔سیدنامسیح علیہ السلام کوحسین وجمیل ہونے کی وجہ سے مسیح کہاجاتاہے[1]۔

قرآن مجیدمیں لفظ’’مَسِیحُ‘‘تین مرتبہ واردہے[2]

قرآن مجید میں مذکورہ اِن تمام مقامات پرمسیح سے مرادسیدناعیسیٰ ابن مریم علیہ السلام ہیں۔قرآن مجیدمیں لفظ مسیح سے صرف اورصرف سیدناعیسیٰ علیہ السلام مرادہیں’قرآن مجیدمیں کسی بھی مقام پردجال کے لیے یہ لفظ استعمال نہیں ہواہے۔

عیسیٰ کی لغوی تحقیق

لفظ‘‘ عیسیٰ ’’ عجمی نام ہے۔ جوعربی میں منتقل ہوا،اس کامصدر عَیَسَ یاعَوس ہے ۔جس کے معنی ہیں سیاست۔سرىانى زبانى مىں اللہ تعالیٰ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام کااسم مبارَک ’’یَشُوع ‘‘سے معدول ہواہے[3]۔

’’عیسیٰ‘‘ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نبی کانام ہے جس کی جمع عیسون[ جیم کے پیش کے ساتھ]ہے کیوں کہ اس سے یائے زائدہ ساقط ہوئی ہے[4]۔

قرآن مجیدمیں لفظ‘‘عیسیٰ ’’۲۵پچیس مختلف مقامات پرسیدناعیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے لیے اسم علم کی حیثیت سے واردہے[5]۔

قرآن مجیدمیں کسی بھی مقام پرانہیں یسوع ’اَبیل الابیلین[6] کے نام سے موسوم نہیں کیاگیاہے۔اگرچہ اس کے علاوہ دوسرے اسمائے صفت استعمال کیے گئے ہیں‘جیسے:کلمہ اورروح۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِّنْهُ﴾[7]

’’مسیح(یعنی)مریم کے بیٹے عیسیٰ(نہ اللہ تھے نہ اللہ کے بیٹے بلکہ)اللہ کے رسول اوراس کاکلمہ (بشارت)تھے جواس نے مریم کی طرف بھیجاتھااوراس کی طرف سے ایک رُوح تھے۔‘‘

مسیحیت وعیسائیت کی اصطلاحی تعریف

انسائیکلوپیڈیابرٹانیکامیں مسیحیت کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:

“وہ مذہب جواپنی اصلیت کوناصرہ کےباشندےیسوع کی طرف منسوب کرتاہےاوراسے خداکامنتخب(مسیح) مانتاہے[8]۔”

انسائیکلوپیڈیاآف ریلیجن اینڈایتھکس میں ہےکہ:

’’عیسائیت کی تعریف اس طرح کی جاسکتی ہےکہ یہ وہ اخلاقی، تاریخی، کائناتی، موحدانہ اورکفارےپرایمان رکھنےوالامذہب ہے۔جس میں خدااورانسان کےتعلق کوخداوندیسوع مسیح کی شخصیت اورکردارکےذریعے پختہ کردیاگیاہے[9]۔‘‘

عجیب بات یہ ہے کہ ان تینوں عقیدوں میں سے کوئی ایک عقیدہ بھی سیدناعیسیٰ علیہ السلام کے کسی ارشادسےثابت نہیں۔موجودہ انجیلوں میں سیدناعیسیٰ علیہ السلام کی جوارشادات منقول ہیں۔ان میں سےکوئی ایک بھی ایسانہیں ہےجس سےواضح طریقےپریہ عقائدثابت ہوتےہوں اوراس کےبرعکس ایسےاقوال کی تعدادبےشمارہیں جن میں ان عقائدکےخلاف باتیں کہی گئی ہیں۔

سیدناعیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کازمانہ

مؤرخ ابن جوزیؒ[10] لکھتے ہیں:

کان بين موسیٰ بن عمران وعيسیٰ عليهما السلام ألف سنة وسبع ماة سنة ولم يکن بينهما فترة وانها أرسل بينهما ألف نبی من بنی اسرائيل سوی من أرسل من غيرهم وکان بين ميلاد عيسیٰ والنبی صلی الله عليه وسلم خمس ماءة وتسع وستون سنة بعث فی أولها ثلاثة أنبياء وهو قوله عزوجل: ﴿إِذْ أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوا إِنَّا إِلَيْكُم مُّرْسَلُونَ﴾[11]وکانت الفترة التی لم يبعث الله فيها رسولا أربع مئة سنة وأربع وثمانين[12]

’’سیدناموسیٰ بن عمران اورسیدناعیسیٰ علیہماالسلام کے درمیان سترہ سو1700سال کاعرصہ ہے۔ان دونوں کے درمیان ایسازمانہ نہیں گزراجس میں کوئی نبی نہیں بھیجاگیاہو۔دوسروں کوچھوڑ کر صرف بنی اسرائیل کے خاندان میں ہزارپیغمبرمبعوث کیے گئے تھے۔عیسیٰ علیہ السلام اورسیدنامحمدکی پیدائش کے درمیان 569 سال کاعرصہ ہے۔ان سالوں کی ابتداءمیں تین پیغمبربھیجے گئے تھے جس کی طرف سورة یٰس میں اشارہ کیاگیاہے۔وہ زمانہ جس میں اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی رسول مبعوث نہیں کیاوہ چارسوچوراسی484سال بنتے ہیں‘‘۔

سیدنازکریاعلیہ السلام اُس زمانے میں بنی اسرائیلی نبی تھے: وکان زکریا نبيهم فی ذلك الزَّمان[13]۔

قاموس الکتاب بائبل کی لغات میں مسیح کی پیدائش کی تاریخ یوں لکھی ہے کہ :عام خیال یہ ہے کہ خداوندمسیح سن۱ء(ایک عیسوی)میں پیداہوئے۔انگریزی میں A.Dسے جوAnno Dominiکامخفف ہیں مرادہے:“ہمارے خداوندکاسال”۔لیکن جب لوگوں کویہ بتایاجاتاہے کہ خداوندمسیح اس سے چاریاپانچ سال پہلے پیداہوئے تواُنہیں تعجب ہوتاہے۔سچ تویہ ہے کہ عیسوی کیلنڈرچھٹی صدی میں مرتب کیاگیا۔راہب ڈایونیسیساکسی گوس Monk Dionysius Exiguusنے ۵۲۶ءمیں حساب لگاکر سنہ عیسوی کااعلان کیا۔لیکن بدقسمتی سے اس کے حساب میں چارسال کی غلطی رہ گئی۔اس نے مسیح کی پیدائش رومی کلینڈرکے سال ۷۵۴ میں رکھی۔لیکن ہیرودیس اعظم [14]جس نے بیت لحم[15] کےمعصوم بچوں کاقتل عام کیاتھا۔رومی سال ۷۵۰ میں فوت ہواتھا۔اس سےظاہرہےکہ مسیح کی پیدائش ۷۵۰سےکم ازکم چندسال پہلے ہوئی ہوگی۔غالباً وہ رومی سنہ۷۴۹ کےشروع میں پیداہوئےتھےیعنی۵ق م(قبل مسیح)کے آخرمیں۔جب اس غلطی کاپتہ چلاتویہ ناممکن تھاکہ بےشمارچھپی ہوئی کتابوں میں اس کودرست کیاجائے،سوسنہ عیسوی کویوں ہی رہنےدیاگیا[16]۔

انجیل

یہ یونانی لفظ Euangelionکامعرب ہے۔اس کالفظى ترجمہ ہے:’’خوش خبری‘‘۔ یہ لفظ غالباً براستہ حبش(ایتھوپیا)عربی میں داخل ہوا۔کیوں کہ یمن میں اہل حبش کی ایک مسیحی جماعت رہتی تھی۔نئے عہدنامہ میں اس لفظ کامفہوم خوشخبری ہےاورکسی بھی آیت میں اس کامطلب ‘‘کتاب’’یا‘‘صحیفہ’’نہیں ہے۔۱۵۰عیسوی کےبعدہی اس لفظ کوکتاب(عہدنامہ)کےلیےاستعمال کیا جانےلگاتھا[17]۔

اناجیل اربعہ

قاموس الکتاب میں اس عنوان کےذیل میں لکھا[18]ہےکہ:متی،مرقس،لُوقا اوریوحناکی اناجیل میں یسوع کےحالات زندگی’تعلیمات اورکاموں کوبیان کیاگیاہے۔

پہلی تین اناجیل‘‘اناجیل متوافقہ’’کہلاتی ہیں۔کیوں کہ ان میں بڑی حدتک یکسانیت پائی جاتی ہے۔ متی کی انجیل یسوع کو‘‘موعودہ مسیح’’ کےطورپرپیش کرتی ہے۔مرقس کی انجیل مىں اُن کے کاموں اور دعوت وتبلىغ کا تذکرہ ہے ۔لُوقاانسانوں کے بارے میں یسوع کی دلچسپی کوبیان کرتاہے۔یوحناکی انجیل منتخب یادداشتوں پرمشتمل ہےجنہیں ایمان کوتحریک دینےکےلیے بڑی احتیاط سےترتیب دیاگیاہے۔

اناجیل ایک نئےقسم کےادب کاتعارف کراتی ہیں۔گوان کی ساخت تواریخی ہےلیکن یہ خالص تاریخ نہیں ہےکیوں کہ ہم عصرواقعات کاذکراتفاقی ہےاوراناجیل انہیں آگےبڑھانے کی کوشش نہیں کرتیں۔ان میں سوانح عمری کےمتعلق موادتوملتاہےلیکن انہیں اس لفظ کےموجودہ وسیع معنوں میں سوانح حیات نہیں کہاجاسکتا۔کیوں کہ یہ یسو ع مسیح کی زندگی کامکمل خلاصہ بیان نہیں کرتیں۔اناجیل کابڑامقصدیہ ہےکہ وہ قاری کےدل میں خواہ وہ ایمان دارہےیانہیں’ایمان پیداکریں۔

زبانی(تحریری)انجیل کی تصدیق کلیسیاکےایک ابتدائی بزرگ پیپاس نےکی ہےجوکہ پہلی صدی کےآخرتک زندہ رہے۔

لوقااوریوحناکی اناجیل کےتعارفی بیانات سےیہ اشارہ ملتاہےکہ انہیں زبانی منادی سےتحریری صورت میں لایاگیا۔لوقارسول اپنےتعارف میں اس بات کی تصدیق کرتاہےکہ جوکچھ وہ تھیفلس کی زبانی سن چکاہےوہ اب اسےتحریری شکل دےرہاہے[19]۔

اس نےاُن حقائق کوبیان کیاجس پرایمانداروں کاایمان تھااورظاہرکرتاہےکہ انہیں تحریرمیں لانےکی کئی مرتبہ کوشش کی جاچکی ہے۔اس سے ظاہرہوتاہےکہ اس ضمن میں کئی ایک رسالےپہلےبھی معرض وجودمیں آئےتھےجواب یاتومعدوم ہوچکےہیں یاغیرتسلی بخش تھے۔

لُوقااس بات کی تصدیق کرتاہےکہ اس نےان حقائق کواُن لوگوں سے اخذ کیاہے‘‘جوشروع سےخوددیکھنےوالےاورکلام کےخادم تھے[20]۔

’’ان حقائق کی اطلاع دینےوالےنہ صرف ان واقعات میں خودشامل تھےبلکہ ان کااثران کی زندگی میں اتناہواکہ وہ خوداس نئےایمان کےپرچار کرنے والے بن گئے۔لوقاخودان گواہوں کاہم عصرتھااوراس نےان کےدعووں کی درستگى کی خودتفتیش کی تھی تاکہ وہ مسیح کےکاموں کاصحیح اورمعتبرریکارڈپیش کرسکے۔

یوحنارسول نےبھی اپنی انجیل کوتحریری شکل اس لیےدی تاکہ قاری کےدل میں یہ ایمان پیداہوجائےکہ مسیح ہی خداکابیٹاہے[21]۔

وہ یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ وہ مسیح کی تمام ترسرگرمیوں کوبیان کررہاہےبلکہ وہ یہ جانتاہےکہ اُن میں سےبہتوں سےاُس کےقارئین واقف ہوں گے۔وہ اس سلسلہ میں جوخاص طریقہ استعمال کرتاہےوہ اس کےبشارتی مقصداورعلم الٰہی کےنظریہ کانتیجہ ہے۔

گومتی اورمرقس اپنےماخذ توبیان نہیں کرتےلیکن ان پربھی اسی عام اُصول کااطلاق ہوتاہے۔متی اپنی انجیل کاتعارف اس آیت سےکراتاہے‘‘یسوع مسیح ابن داودابن ابرہام کانسب نامہ[22]۔‘‘

وہ پیدائش کی کتاب کےاسلوب بیان کی تقلیدکررہاہے۔جس سےوہ یہ تاثردیناچاہتاہےکہ وہ بھی پیدائش کی کتاب کی طرح خداکےانسان کےساتھ سلوک کی تاریخ میں ایک نمایاں باب کااضافہ کررہاہے۔

مرقس رسول اپنی انجیل یوں شروع کرتاہے‘‘یسوع مسیح ابن خداکی خوشخبری کاشروع۔یہ عنوان ظاہرکرتاہےکہ اس کامتن موجودہ منادی کاملخص ہے۔یہ دونوں انجیل نویس ان کی اشاعت کی وجہ بیان نہیں کرتے۔لیکن ہم بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ اناجیل اس لیےاحاطہ تحریر میں لائی گئیں تاکہ آئندہ نسل کےلیےجوکچھ چشم دیدگواہوں کےذہن میں موجودتھااورجس بات کی انہوں نےعوام میں منادی کی اُسےمحفوظ کرلیاجائے۔

یہ دستاویزات سب سےپہلےکہاں اورکب عوام کودی گئیں،اس کےبارےمیں یقین سےکچھ نہیں کہاجاسکتا۔سب سےپہلےاناجیل سےاقتباسات اغناطسیوس کےخطوط،برنباس کاخط،بارہ رسولوں کی تعلیمات اورپولی کارپ کےخط میں پیش کیےگئے۔ان سب کاتعلق شام کے شہرانطاکیہ سےہےاوران کےیہ اقتباسات متی کی انجیل سےزیادہ مطابقت رکھتےہیں۔اگرجیساکہ پیپیاس نےکہا کہ متی کی انجیل سب سےپہلےیروشلم میں عبرانی یاارامی کلیساکےلیےلکھی گئی توممکن ہےکہ یہ اُس یونانی ایڈیشن کی بنیادہوجوکہ انطاکیہ سےغیریہودی کلیسا کی نشوونماکےدوران جاری کیاگیا۔پس یہ ۵۰ عیسوی کے بعداور۷۰عیسوی میں یروشلم کی بربادی سےپہلےکسی وقت جاری کیاگیاہوگا۔

ممکن ہےکہ لوقاکی انجیل ایک ذاتی دستاویزہوجواُس نےسب سےپہلےاپنےدوست اورمربی تھیفلس کوبھیجی۔یہ غالباً ۶۲ءکےقریب لکھی گئی کیوں کہ اعمال کی کتاب اس سےپہلےتھی جوکہ پولس کی پہلی قیدکےاختتام پرلکھی گئی تھی۔

یوحناکی انجیل کاآخری باب اس افواہ کی تردیدکرتاہےکہ یہ رسول کبھی نہیں مرے گا۔ظاہرہےکہ افواہ کوہوانہ دی جاتی اگریہ رسول اس آخری باب کےلکھےجانےکےوقت عمررسیدہ نہ ہوتا۔یہ ممکن ہےکہ یہ ۵۰ عیسوی سےپہلےلکھی گئی ہو۔لیکن زیادہ تراعتدال پسندعلماءیہ کہتےہیں کہ یہ ۸۵ءکےقریب لکھی گئی۔روایت کےمطابق یہ یوحنارسول سےمنسوب کی جاتی ہے۔جو کہ پہلی صدی کےآخرمیں افسس میں خدمت کرتاتھا۔

کلیساوں میں بڑھتےہوئےاختلاط اوربدعت اوربت پرستوں کےاعتراضات نےاناجیل کی فہرست مسلمہ میں اُن کی دلچسپی کواوربھی بڑھادیا۔۱۷۰ءتک ان چاروں اناجیل کومکمل طورپرمستندماناجانےلگا۔ یوسیسیس ۳۵۰ءاوراس کے بعد کے بزرگوں نےدیگرتمام انجیلوں کوفہرست سےخارج کردیااورصرف ان چاروں کومسیح کی زندگی اورکاموں کےبارےمیں علم حاصل کرنےکےلیےمستندقراردیا[23]۔

مسیحیوں کے چند عقائد

تثلیث فی التوحید(Trinity)

مسیحیوں کامانناہےکہ:’’خداواحدہے۔اُس کی ذات میں تین اقانیم [24]کی کثرت ہےجوبمنزلہ محل صفات ہیں۔جوجوہر،قدرت ازلیت میں برابراورذات وصفات میں متحد،مگرفعل میں متمائزہیں[25]۔‘‘

انسائیکلوپیڈیابرٹانیکامیں تثلیث کی وضاحت یوں کی گئی ہے:

[26]The father is God, the son is God and the Holy spirit is God

’’باپ بھی خداہے،بیٹابھی خداہےاوررُوح القدس بھی خداہے۔تاہم وہ تین خدانہیں بلکہ ایک ہی خداہے۔‘‘

مسیحیوں کےنزدیک باپ سےمرادخداکی تنہا ذات ہے’بیٹےسےمرادخداکی صفت کلام (Word God)ہے۔انجیل یوحنامیں ہےکہ ابتداءمیں کلام تھااورکلام خداکےساتھ تھا[27]۔

مسیحیت میں عقیدہ رسالت کاجائزہ

قاموس الکتاب میں اس بارےمیں لکھا[28]ہے کہ رسول خدا کی طرف سےپیغام لانے والا ایلچی’قاصد۔نئےعہدنامہ میں یونانی لفظ apostolosکاترجمہ اردوکی طرح یونانی لفظ بھی دومعنوں میں استعمال ہواہے۔

مسیحی اصطلاح

مسیح کےاُن بارہ شاگردوں کےلیےجنہیں اُنہوں نےچُنا اوراپنےساتھ رکھ کرتربیت دی اورپھرمنادی کےلیےبھیجااوراُنہیں بدروحوں کونکالنے کااختیاربخشا[29]۔اُنہیں رسول کالقب دیا[30]۔یہوداہ اسکریوتی کی خودکشی کےبعدبارہویں جگہ پرکرنےکےلیےپطرس نےرسول کےچناوکےلیےیہ معیارتجویزکیاکہ وہ یسوع کےبپتسمہ سےلےکراُن کےآسمان پر اُٹھائےجانے تک برابراُن کےساتھ رہاہواوراُن کےجی اُٹھنےکاگواہ ہو[31]۔

عام وسیع ترمعنوں میں

ہم یہ وثوق سےنہیں کہہ سکتےکہ آیایونانی لفظapostolosکسی عبرانی اصطلاح کی طرف اشارہ کرتاہے،تاہم عبرانی کاایک لفظ شلیخ اس قسم کالفظ ہےجس کےمعنی ہیں کسی کاباضابطہ نمائندہ بناکرکوئی خاص کام اُس کےسپردکرنا۔شایدپولس اسی قسم کاشلیخ تھاجب وہ کاہنوں کی طرف سے پروانےلےکردمشق کوجارہاتھا[32]۔

مختصریہ کہ لفظ رسول اُن لوگوں کےلیےبھی استعمال ہواہےجنہیں خدانےبنی اسرائیل میں منادی کےلیےبھیجاتھا[33]۔

انبیائےکبریٰ اورانبیائےصغریٰ

’’بڑےاورچھوٹےنبی پرانےعہدنامہ کی آخری سترہ کتابیں جوسولہ انبیاءنےلکھی ہیں وہ دوحصوں میں تقسیم کی گئی ہیں۔پہلی پانچ کتابیں جویسعیاہ’یرمیاہ’حزقی ایل اوردانی ایل نبی کی ہیں۔کیتھولک ترجمہ میں انبیائےکبریٰ یعنی بڑےنبیوں کی تصنیف کہلاتی ہیں۔

باقی بارہ جو ان کےمقابلےمیں مختصرہیں انبیائےصغریٰ یعنی چھوٹےنبیوں کی تصانیف کہلاتی ہیں۔ان ناموں سےیہ ہرگزمرادنہیں کہ بعض نبی چھوٹےاوربعض بڑےتھے۔ان کااشارہ اُن کی کتابوں کی ضخامت پرہے۔اُن کےاپنےدرجےیااہمیت پرنہیں[34]۔

مسیحیت میں ملائکہ کے متعلق عقائد:

یونانی انگیلوس angelosپیغمبرفوق الفطرت یاآسمانی ہستیاں جوانسان سےمرتبہ میں تھوڑااونچے ہیں[35]۔

[۱]وہ مخلوق ہیں[36]۔

[۲]انہیں روحیں بھی کہاگیاہے[37]۔

[۳]وہ شادی نہیں کرتےاورنہ وہ مرتےہیں[38]۔

[۴]وہ فوق الفطرت علم رکھتےہیں لیکن وہ ہمہ دان نہیں ہیں[39]۔

[۵]وہ انسان سےزیادہ طاقت ورہیں لیکن وہ قادرمطلق نہیں[40]۔

[۶]بعض اوقات وہ انسان پربیماری لاتےہیں[41]۔

[۷]بعض اوقات وہ انسان پرخداکی مرضی کوظاہرکرتےہیں[42]۔

[۸]وہ غلط تعلیم پھیلاتےہیں[43]۔

[۹]آئندہ زمانےمیں نیک فرشتےخداکی خدمت کرتےہیں جب کہ بدکارفرشتوں کواجرکےطورپرآگ کی جھیل میں ڈال دیاجائےگا[44]۔

[۱۰]بدکارفرشتےایمان داروں کوخداسےجداکرنےکی کوشش کرتےہیں[45]۔

[۱۱]وہ نیک فرشتوں کےکاموں کی مخالفت کرتےہیں[46]۔

[۱۲]وہ انسان کوگناہ پراُکساتےہیں[47]۔

[۱۳]مسیح خداوندکی زندگی اورخدمت میں فرشتوں کابڑاحصہ تھا۔وہ ان کی پیدائش کےسلسلہ میں مریم،یوسف اورگڈریوں پرظاہرہوئے۔جنگل میں آزمائش کےبعدوہ ان کی خدمت کرتےتھے[48]۔

[۱۴]گستمنی کےباغ میں ایک فرشتہ انہیں تقویت دیتاتھا[49]۔

مسیحیت میں عقیدہ کتب سماویہ کاجائزہ

یہود توارة کےسواکچھ نہیں مانتے’عیسائی توراة کےاحکام نہیں مانتےلیکن اس کی اخلاقی نصیحتوں کوقبول کرتےہیں۔تاہم وہ انجیل سےپہلےکی دوسری زبانوں اورملکوں کی آسمانی کتابوں کی نسبت مسلمانوں کی طرح ادب اوراحتیاط کاپہلوبھی اختیارنہیں کرتے[50]۔

مسیحیت میں عقیدہ یوم آخرت کاجائزہ

[۱]قیامت پرایمان کی جڑاس اعتمادمیں ہےکہ خداوندزندہ خداہے۔اس لیےوہ اپنےلوگوں کوموت کی حالت مىں نہیں رہنےدےگا[51]۔

[۲]جب کہ نیاعہدنامہ اس حقیقت کوبیان کرتاہےکہ تمام لوگ جی اُٹھیں گے[52]۔

[۳]اپنی قیامت کےوسیلہ سےمسیح نےموت کوختم کردیااورزندگی اوربقاکوجِلابخشی[53]۔

[۴]قیامت مسیح محض یہ نہیں تھی کہ ایک مردہ جسم کوزندگی ملی بلکہ یوم الآخرت کی قیامت کایہ پہلامرحلہ تھا۔مسیح کاجی اُٹھنا’معادی یعنی آخرت کی فصل کا‘‘پہلاپھل’’یعنی شروع تھا[54]۔

[۵]چونکہ قیامت شروع ہوچکی ہےاس لیےایمان دارمسیح کی جی اُٹھی زندگی میں شریک ہیں[55]۔

[۶]پس جومسیح میں ہیں ان کی قیامت کی ضمانت مسیح کی قیامت ہے[56]۔

 

حوالہ جات

  1. ۔معجم مقاییس اللغۃ’ابوالحسین احمدبن فارس’ص:۹۴۸’داراحیاء التراث العربی’بیروت’لبنان’۲۰۰۱ء
  2. ۔الدلیل المفہرس لالفاظ القرآن الکریم’حسین محمدفہمی’ص:۷۹۲’دارالسلام’مصر’۱۴۲۲ھ
  3. ۔معانی القرآن واعرابہ’ابراہیم بن سری زجاج’۱ : ۴۱۹’عالم الکتب بیروت’۱۹۸۸ء
  4. ۔مفردات القرآن’حسین بن محمد راغب اصفہانی’۱ : ۵۹۶’دارالقلم’الدارالشامیۃ’۱۴۱۲ھ
  5. ۔الدلیل المفہرس’ص:۵۸۵
  6. ۔اَبیل الابیلین:اَبیل کے معنی ہے:رئیس النصاریٰ۔[ المحکم والمحیط الاعظم’ ابن سیدہ’۱۰: ۴۱۰’دارالکتب العلمیہ’بیروت’۲۰۰۰ء] علامہ جوہری صحاح میں لکھتے ہیں کہ ابیل کے معنی ہے: راہب النصاری ٰنصرانیوںکاراہب۔[ الصحاح فی اللغۃ ’اسماعیل بن حماد جوہری’۱: ۲’احیاء التراث’بیروت’لبنان’س۔ن]
  7. ۔سورۃ النساء ۴ : ۱۷۱
  8. ۔برٹانیکا۵ : ۶۹۳
  9. Encyclopedia of religion and ethics,james hastings,v:3,p:518,Newyork,1910 .
  10. ۔عبدالرحمن بن علی بن محمد، جوزی، قرشی، بغدادی، ابوالفرج، بغدادمیں ۵۰۸ھ=۱۱۱۴ء کو پیداہوئے۔ حدیث،تفسیر،تاریخ اورمواعظ کےکثیر التصانیف بزرگ تھے۔تین سوکے قریب کتابیں لکھیں ۔مقام جوزپرپانی کےایک گھاٹ کی طرف ان کےآباءواَجدادمیں سےکوئی ایک منسوب تھے، اسی لیے ابن جوزی کہلائے۔۵۹۷ھ=۱۲۰۱ءکوبغدادہی میں وفات پائی۔[وفیات الاعیان ۳ : ۱۴۰۔۔۔تذکرة الحفاظ۴ : ۱۳۴۲۔۔۔الاعلام ۳ : ۳۱۶]
  11. ۔سورة یٰس۳۶ : ۱۴
  12. ۔المنتظم فی تاریخ الملوک والامم’عبدالرحمٰن ابن جوزی’۲ : ۱۶’دارالکتب العلمیہ’بیروت’س۔ن
  13. ۔قصص الانبیاء’ابن کثیر’ص:۴۴۵’سن طبع ومطبع ندارد
  14. ۔یہودیوں کابادشاہ ہیرودیس اعظم (۴۰۔۴ ق م)تقریباً۷۳ ق م میں پیداہوا۔اُس کے باپ انتیپترنے جوادُومی النسل یہودی تھارومی فتوحات کے بعدیہودیہ میں بڑااثرورسوخ حاصل کرلیا۔چنانچہ ۴۷ق م میں قیصرپولس سیزرنے اُسے یہودیہ کاحاکم مقررکردیا۔اپنی تخت نشینی کے بعدانتیپترنےاپنےبیٹےہیرودیس کوگلیل کافوجی سردارمقررکیا۔ہیرودیس نےبڑےجوش کےساتھ اُس علاقےمیں لوٹ مارکاخاتمہ کیا۔اس سےمتاثرہوکرسوریہ کےگورنرنےاُسےکوئیلےسوریہ یعنی بقاکی وادی کافوجی سردارمقررکردیا۔قیصرکےقتل اورخانہ جنگی کےبعدبھی ہیرودیس کوانطونی کااعتمادحاصل رہا۔جب پارتھیوں نےسوریہ اورفلسطین پرحملہ کیااوریہودیہ کےتخت پرخشمونی اورانتی گونس کوبٹھادیا(۴۰۔۳۷ق م)تورومی سینٹ نے انطونی اوراوکتاویان کی صلاح کےمطابق ہیرودیس کو”یہودیوں کابادشاہ“کالقب عطاکیا۔سن وفات معلوم نہ ہوسکی۔[قاموس اللغات’ص:۱۰۸۹]
  15. ۔یروشلیم کےجنوب مغرب میں پانچ میل پرایک قصبہ۔یہ حبرون اورمصرکی شاہ راہ پریہودیہ کےکوہستان میں سطح سمندرسے۲۵۵۰ فٹ کی بلندی پرواقع ہے۔یعقوب کےزمانہ میں اس کانام فراتہ(پھل دار)تھا اوریہاں راخل کودفن کیاگیاتھا۔[پیدائش۳۵ : ۶۱- ۱۹]اسےداؤدکاشہربھی کہاجاتاہے۔[لوقا۲ : ۴’ ۱۱]ہیرودیس نےیہودیوں کےبادشاہ کوہلاک کرنےکی کوشش میں اس کےدو سال سےکم عمرکےلڑکوں کوقتل کروادیا۔[متی۲ : ۱۶]
  16. ۔قاموس الکتاب’ص: ۹۱۲
  17. ۔قامو س الکتاب’ص : ۹۳
  18. ۔قاموس الکتاب’ص : ۹۱
  19. ۔لوقا۱ : ۱۔۴
  20. ۔لوقا۱ : ۲
  21. ۔یوحنا۲۰ : ۳۰’۳۱
  22. ۔متی۱ : ۱
  23. ۔قاموس الکتاب’ص:۹۲
  24. ۔اس کاواحداقنوم ہے۔توحیدفی التثلیث کے بیان میں ایک اصطلاح ’جسے تثلیث کی شخصیت کے لیے استعمال کیاگیاہے۔اس کے معنی عام شخصیت سے مختلف بلکہ بالاترہیں۔[قاموس الکتاب’ص:۷۲]
  25. ۔قاموس الکتاب’ص : ۲۳۴
  26. ۔انسائیکلوپیڈیابرٹانیکا’۲۲ : ۴۷۹’۱۹۶۲ء
  27. ۔یوحنا۱ : ۱
  28. ۔قاموس الکتاب’تحت:رسول’ص: ۴۳۵
  29. ۔مرقس۳ : ۱۳’۱۵
  30. ۔لوقا۶ : ۱۳
  31. ۔اعمال۱ : ۲۱۔۲۶
  32. ۔اعمال۹ : ۲
  33. ۔لوقا۱۱ : ۴۹
  34. ۔قامو س الکتاب’صفحہ: ۹۲
  35. ۔قاموس الکتاب’صفحہ: ۶۹۲
  36. ۔زبور۱۴۸ : ۲۔۵
  37. ۔عبرانیوں۱ : ۱۴
  38. ۔لوقا۲۰ : ۳۴۔۳۶
  39. ۔متی۲۴ : ۳۶
  40. ۔زبور۱۰۳ : ۲۰’۲۔۔۔پطرس۲:۱۱
  41. ۔لوقا۱۳ : ۱۱۔۔۔اعمال۱۰ : ۲’۳۸
  42. ۔دانی ایل ۱۰ : ۱۲’۱۳’۲۰
  43. ۔ا:سلاطین۲۲ : ۲۱۔۲۳
  44. ۔متی۲۵ : ۴۱
  45. ۔رومیوں۸ : ۳۸
  46. ۔دانی ایل۱۰ : ۱۲’۱۳
  47. ۔متی۴ : ۳
  48. ۔متی۴ : ۱۱
  49. ۔لوقا۲۲ : ۴۳
  50. ۔سیرة النبی۴ : ۴۰۱
  51. ۔متی۲۲ : ۳۲
  52. ۔اعمال۲۴ : ۱۵
  53. ۔۲:تیمتھیس۱ : ۱۰
  54. ۔۱:کرنتھیوں۱۵ : ۲۳
  55. ۔رومیوں۶ : ۴
  56. ۔۱:کرنتھیوں۱۵ : ۱۲۔۲۰
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...