Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 29 Issue 2 of Al-Idah

مشہور روایت |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

29

Issue

2

Year

2014

ARI Id

1682060034497_1123

Pages

49-60

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/view/226/214

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/226

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف:

آج کا دور جسے کمیونیکیشن کا دور کہا جاتاہے کی وجہ سے باہمی رابطوں اور سماجی تعلقات میں روز بروز اضافہ ہو رہاہے۔ایک دوسرے کے خیالات و افکار کو جاننے اور ترویج میں آسانیا ں پیدا ہورہی ہے۔ ایک دوسرے کے علم و تجربےسے استفادہ کوجدید ذرائع ابلاغ نےجس میں انٹرنٹ بھی شامل ہے جتنا آسان بنایا ہے پہلے کبھی نہ تھا۔ان ذرائع کو اگر نیکی،خیر ،بھلائی اور دین کی ترویج کے لئے استعمال کیا جائے تو لا محالہ یہ ترقی خیر و برکت کی چیز ہے۔خاص طور پر امت وسط کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے دینی بیداری اور صحیح دینی تعلیمات کی فروغ میں اس سے استفادہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔اس سلسلے میں جید علماء کرام کو جدید ذرائع ابلاغ سے کما حقہ استفادہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ لوگوں کی دینی تعلیم اور تربیت سے عہدہ برآہوں۔

لیکن ہم من حیث القوم زندگی کےجتنے اور شعبوں میں زوال کا شکار ہیں وہاں دینی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں کہیں زیادہ مجرمانہ غفلت کا شکار ہیں ۔ پہلے تو اسلامی تعلیمات کی فروغ کو وہ coverage نہیں دی جاتی جو بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہےبلکہ ہفتہ میں ایک آدھ دینی پروگرام کرنے ، اخبارات میں روزانہ ایک آیت اور حدیث کی اشاعت یا ہفتہ وار دینی ایڈیشن سےہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنی دینی ذمہ داریاں پوری کر دی ہیں ۔لیکن افسوس کہ اس محدود کاوش میں بھی عموما اسلامی تعلیمات کی صحت و ضعف کا التزام نہیں رکھا جاتا جس کی وجہ سے بہت سی ایسی روایات لوگوں میں عام ہوجاتی ہیں جن کا قرآن و سنت سے دور تک تعلق نہیں ہوتا ۔

اس قسم کی ایک حدیث قدسی جو آج کل کیلنڈروں، اسٹیکروں اور پوسٹروں کی زینت بنی نظر آتی ہے اور بطور تبرک ،ایمانی جذبے کے ساتھ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس (Social Media websites) پر بھی upload ہے لیکن کہیں پر بھی اس کے ساتھ حوالہ ذکر نہیں ہوتا کہ یہ مصادر شرعیہ میں سے کس مصدر سے ماخوذ ہے؟ اس کی کوئی اصل ہے بھی کہ نہیں؟ تاکہ وہاں جاکر اس کی سند دیکھی جائے اور اس کی صحت یا عدم صحت معلوم کی جائے اور صحت متعین ہونے کے بعد اس کیuploading کی جائے۔وہ حدیث ہے:

"اے ابن آدم ! ایک تیری چاہت ہے ایک میری چاہت ہے اور ہو گا وہی جو میری چاہت ہے پس!! اگر تو نے سپرد کر دیا خود کو اس کے جو میری چاہت ہے تو میں بخش دوں گا تجھے وہ بھی جو تیری چاہت ہے اور اگر تو نے نافرمانی کی اس کی جو میری چاہت ہے تو میں تھکا دوں گا تجھے اس میں جو تیری چاہت ہے اور ہو گا وہی جو میری چاہت ہے !!!"

حدیث قدسی: (Attributed to Allah)

حدیث : کا لغوی معنی ہے جدیدیا خبراور اصطلاح میں حدیث سے مراد وہ اقوال،افعال تقریر ہے جو رسول اللہﷺ کی جانب منسوب ہوں۔

امام ابن تیمیہؒ ٍنے حدیث کی تعریف کرتےہوئے فرمایا:

الحديث النبوي هو عند الإطلاق ينصرف إلى ما حُدِّث به عنه بعد النبوة : من قوله وفعله وإقراره، فإن سنته ثبتت من هذه الوجوه الثلاثة.

(شرعی اصطلاح میں حدیث سے وہ اقوال،اعمال اور تقریر مراد ہیں جو رسول اللہﷺ کی جانب بعثت کے بعد منسوب ہوں)۔

"قدس"(دال کے سکون اور ضمہ کے ساتھ) بمعنی پاکیزگی کے ہے ۔ اصطلاح میں حدیث قدسی سے مراد رسول اللہﷺ سے منسوب اس روایت کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہﷺ روایت کو اللہ تعالی سے منسوب کرتے ہیں:

وهو ما ورد من الأحاديث الإلهية وتسمى القدسية

حدیث قدسی کو قدسی اس کی عظمت اور رفعت کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔قدسی کی نسبت قدس کی طرف ہے جو اس حدیث کے عظیم ہونے کی دلیل ہے۔

تخریج حدیث:

یہ حدیث مختلف کتب حدیث اور کتب تفسیر میں مروی ہے جن میں سے کچھ مشہور کتابوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے: حکیم ترمذی نے "نوادر الاصول" میں، امام الباقلانی نے " الانصاف" میں، عبد الحق بن غالب اندلسی (۵۴۲ھ )نے " المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز" میں ، امام غزالی نے" احیاء العلوم " میں ، ملا علی قاری نے "المرقاۃ شرح المشکوۃ" اور"جمع الوسائل فی شرح الشمائل" میں، الحر العاملی محمد بن حسین(1104ھ)نے الجواہر السنیۃ فی الاحادیث القدسیۃ"میں، إسماعيل حقي بن مصطفى، نے اپنی تفسیر " روح البيان " میں روایت کیا ہے۔

یہ روایت کسی قدر اختلاف کے ساتھ مذکورہ کتابوں میں مذکور ہے۔ اس سلسلے میں جو روایات ملتی ہیں مندرجہ ذیل ہیں۔

پہلی روایت:

أوحى الله إلى داود (يا داود تريد وأريد فإن رضيت بما أريد كفيتك ما تريد وإن لم ترض بما أريد أتعبك ثم لا يكون إلا ما أريد

دوسری روایت:

وفي بعض الكتب عبدي تريد وأريد ولا يكون إلا ما أريد فإن رضيت بما أريد كفيتك ما تريد وإن لم ترض بما أريد أتعبتك فيما تريد ثم لا يكون إلا ماأريد

تیسری روایت:

وقيل أوحى الله إلى بعض الأنبياء: تريد وأريد ولا يكون إلا ما أريد، فإن لم تسلم لما أريد أتعبتك فيما تريد، ثم لا يكون إلا ما أريد

چوتھی روایت:

وجاء في بعض الآثار إن الله تعالى يقول {ابن آدم تريد وأريد ولا يكون إلا ما أريد فإن سلمت لي فيما أريد أعطيتك ما تريد وإن نازعتني فيما أريد أتعبتك فيما تريد ثم لا يكون إلا ما أريد

تحقیق حدیث:

قرآن مجید کے بعد حدیث کا درجہ ہے اس لئے اس کے ایک ایک لفظ اور حرف کی تصدیق اور تحقیق ضروری ہوجاتی ہے کہ جو بات آپ ﷺکی طرف منسوب کی جا رہى ہے واقعی آپﷺ کی ہے؟ یا فلاں عمل واقعی آپ سے سرزد ہوا؟ یا فلاں عمل کو آپﷺ کی تائید حاصل تھی یا نہیں؟اس نسبت کو جانچنے کے لئے اہل فن نے حدیث کےسند اور متن سے متعلق ایک معیار قائم کیا ہے جس پر پورا اترنے کے بعد حدیث کی صحت و عدم صحت، مقبولیت اور عدم مقبولیت کا اندازا لگایا جاتا ہے۔

متن ،اصل حدیث ہے جس میں آپﷺ کے مافی الضمیر کا اظہار ہوتا ہےاور سند اس تک پہنچنے کا راستہ اور ذریعہ ہے اس لحاظ سے اگرچہ سند حدیث کا جزء نہیں ہے لیکن چونکہ حدیث کی صحت کا دارومدار اولا سند ہی پر ہوتا ہے اس لئے محدثین کے نزدیک اس کی حیثیت "جزء" سے کسی طرح کم نہیں ہے۔

سند کو روایت اور متن کو درایت بھی کہا جاتا ہے۔ گویا حدیث کی صحت جانچنے کا دارومدار دو اصولوں پرہے۔ اصول روایت (خارجی نقد) اور اصول درایت(داخلی نقد)۔

اصول روایت یا خارجی نقد :

فن روایت میں سند کی چھان بین کی جاتی ہے۔ راوی(حدیث نقل کرنے والے )کی بابت معلوم کیا جاتا ہے کہ وہ کب اور کہاں پیدا ہوا؟اس کا حافظہ قوی تھا یا کمزور؟ نظر سطحی تھی یا گہری؟ فقیہ تھا یا غیر فقیہ؟ جاہل تھا یا عالم؟ اخلاق و کردار کیسے تھے؟ ذرائع معاش اور مشاغل کیا تھے؟ روایت میں مقررہ شرائط کا لحاظ کیا ہے یا نہیں؟

گویا اس میں راویوں کے حالات ، روزمرہ کا معمول ، ان کی ذاتی زندگی اور کردار کی تفصیلات معلوم کی جاتی ہےکہ آپﷺ کے بارےمیں بات کرنے والا کس نوعیت اور کردار کا حامل شخص ہے۔یہ سب کچھ جاننے کی ضرورت اس لئے بھی تھی کہ چونکہ آپﷺ کی اطاعت در حقیقت اللہ تعالی کی اطاعت ہے اس لئے اس میں احتیاط کا پہلومزید بڑھ جاتا ہے۔

اصول درایت یا داخلی نقد:

حدیث کی صحیح معرفت کے لئے دوسرا اہم اصول درایت ہے ۔ مولانا تقی امینی صاحب اصول درایت کے بارے میں فرماتے ہیں:

"مروی (روایت )کے بارے میں معلوم ہو کہ اس کے الفاظ و مفہوم میں عقل، مشاہدہ، تجربہ، زمانے کے علمی تقاضے ، کسی مسلمہ اصول اور قرآنی تصریحات کے خلاف ورزی تو نہیں لازم آتی ہے جن سے کسی طرح بھی شان نبوت پر حرف آئے یا فرمودات نبویﷺ میں سطحیت ظاہر ہونے کا اندیشہ ہو ۔

علامہ ابن صلاح نے اصول روایت اور درایت پر بحث کرتے ہوئے کہا:

وقد يفهمون الوضع من قرينة حال الراوي أو المروي فقد وضعت أحاديث طويلة يشهد بوضعها ركاكة ألفاظها ومعانيها

(کبھی حدیث کی وضعیت راوی یا مروی کی حالت سے سمجھی جاتی ہے، چنانچہ بہت سی طویل حدیثوں کے الفاظ و معانی کی رکاکت خود وضعی ہونے کی شہادت دیتی ہے)۔

ابو الحسن علی بن محمد کنانیؒ کہتے ہیں:

قرينة في المروى كمخالفته لمقتضى العقل بحيث لا يقبل التأويل ويلتحق به ما يدفعه الحس والمشاهدة أو العادة ۔

مروی (متن) میں و ضعی ہونے کا قرینہ یہ ہے کہ وہ مقتضائے عقل کے خلاف اس طرح ہو کہ کوئى تاویل قبول نہ کر سکے اسی میں وہ بھی شامل ہے جو حس، مشاہدہ اور عادت کے خلاف ہو۔

گویا علماء نے نقد حدیث کے معاملہ میں صرف سند پر اکتفا نہیں کیا بلکہ متن کی طرف بھی توجہ دی کہ آپﷺ کی طرف منسوب ارشاد سے جو چیز ثابت ہے وہ شریعت کے عمومی مقاصد، اصول اور تصورات کے مطابق ہے کہ نہیں؟ اس مقصد کے لئے انھوں نے اصول وضع کئے جس کی روشنی میں کئی ایسی حدیثوں کو"وضعی "قرار دیا گیا جن کی سندیں اگرچہ درست تھیں لیکن ان کی متن میں خرابیاں پائی جاتی تھیں جن کی بنیاد پر وہ قابل قبول نہ تھیں۔

گویا رجال کے ذریعے اسناد کا تعین ہوتا ہےاور اسناد خارجی نقد کے لئے بنیاد بنتی ہے جس پر بات کرنے سے تحقیق کا ایک پہلو مکمل ہوجاتا ہےکہ خارجی وسائل اور نقد کے لحاظ سے حدیث کا کیا درجہ ہے جبکہ داخلی نقد سے متن کی صحت و ضعف کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ ان دونوں اصولوں کی روشنی میں مذکورہ روایت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

علم حدیث میں سند/اسناد کی اہمیت:

علم الاسناداس امت کا طرہ امتیاز ہے ۔ پچھلے اقوام یا امتوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ سند جزو حدیث ہونے کی وجہ سے بلا سند حدیث کو امت کے ائمہ جرح و تعدیل اور محدثین کرام نے قبول ہی نہیں کیا۔ جلیل القدر امام عبد اللہ بن مبارک کا قول ہے:

الإسناد من الدين لولا الإسناد لقال من شاء ما شاء

سفیان بن عیینؒہ فرماتے ہیں کہ ایک دن امام زہریؒ نے ایک حدیث بیان کی میں نے عرض کیا اسی کو بغیر سند کے پھر بیان فرما دیجئے، انھوں نے فرمایا:

تم بغیر زینے کہ کوٹھے پر چڑھنا چاہتے ہو؟ اس طرح امام ثوریؒ نے فرمایا:اسناد مؤمن کا سلاح(ہتھیار ) ہے۔

یحیی بن سعید القطان کا قول ہے:

لا تنظروا الى الحديث ولكن انظروا الى الاسناد فإن صح الإسناد وإلا فلا تغتر بالحديث إذا لم يصح الإسناد

اصول ِ حدیث کی روشنی میں زیرِ بحث حدیث پر تبصرہ:

سند کے حوالے سے دیکھا جائے تومذکورہ حدیث جن کتب حدیث یا تفسیر میں منقول ہے سند کے بغیر منقول ہے، صرف متن پر اکتفا کیا گیا ہے ۔

یہاں یہ ہات ملحوظ خاطر رہے کہ حدیث کی قبولیت اور معتبر ہونے کے لئے معتمد سند کا ہونا لازمی ہے یا کم از کم اس پر کسی معتمد امام یا محدث نے اعتماد کرتے ہوئے اپنی کتاب میں درج کیا ہو یا سند قبولیت بخشی ہو۔ صرف متاخرین کی کتابوں میں نقل در نقل منقول ہونے سے اس کا قابل اعتماد ہونا ضروری نہیں ہے۔چنانچہ مولانا عبد الحئ فرماتے ہیں :

من ههنا نصوا علي أنه لا عبرة للاحاديث المنقولة في الكتب المبسوطة ما لم يظهر سندها أو يعلم اعتماد ارباب الحديث عليها وان كان مصنفها فقيها جليلاً يعتمد عليه فى نقل الأحكام وحكم الحلال والحرام.

(اس لئے علماء نے تصریح کی ہے کہ کتب مبسوطہ میں جو حدیثیں منقول ہیں ان پر اعتماد نہیں ہے جب تک ان کی سند ظاہر نہ ہو یا محدثین کا اعتماد اس کی نسبت معلوم نہ ہو، اگر چہ ان کتابوں کا مصنف بڑا زبردست فقیہ ہو کہ نقل احکام و حکم میں حلال و حرام میں اس پر اعتماد کیا جاتا ہو)۔

اس حدیث کا بے سند ہونا تو ثابت ہے ،ساتھ ہی کسی محد ث کا اس پر اس کا اعتمادکرنا بھی ثابت نہیں ہے۔

صیغہ تمریض کے ساتھ مذکور ہونا:

بعض کتب میں یہ روایت صیغہ تمریض کے ساتھ مذکور ہے۔جیسا کہ اما م باقلانیؒ نے اپنی کتاب الانصاف میں ذکر کیا ہے:

وقيل أوحى الله إلى بعض الأنبياء: تريد وأريد ولا يكون إلا ما أريد......

امام غزالی ؒ نے "احیاء العلوم" میں نقل کىا ہے:

ويروى أن الله تعالى أوحى إلى داود عليه السلام يا داود إنك تريد وأريد......

صیغۂ تمریض کے ساتھ مروی حدیث کا حکم:

تمریض لغت میں تیماداری ، دیکھ بال اور خدمت کو کہتے ہیں اور مجازاً کسی کام یا گفتگو وکلام کی کمزوری یا ضعف کی طرف بھی اس کے ذریعہ اشارہ کیا جاتا ہے، امام ابن درید فرماتے ہیں:

مَرَّضَ الرَّجُلُ في كلامِهِ ، إِذا ضَعَّفَهُ ، ومَرَّضَ في الأَمْرِ ، إِذا لم يُبالِغْ فيه

(مَرَّضَ الرَّجُلُ في كلامِهِ اس وقت کہا جاتا ہے جب کہنے والے کو اس کی بات میں ضعیف قرار دیا جائے، اور مَرَّضَ في الأَمْرِکہا جاتا ہے جب وہ کسی کام کو پوری پختگی سے نہ کرے)

علماء حدیث کے اصطلاح میں تمریض، راوی یا حدیث کا ضعیف ہونا ہے یا حدیث کو ایسے صیغہ کے ساتھ ادا کرنا جو عدم ثبوت یا عدم صحت کا احتمال رکھتی ہو جیسے قیل، یُذکر، رُوی، یُقال ، یحکی وغیرہ کے صیغے ،جس میں قیل کا قائل، روی کا راوی، یحکی کا حکایت بیان کرنے والا معلوم نہیں ہوتا۔امام زرکشیؒ تحریر کرتے ہیں:

أن صيغة الجزم تدل على صحة الحديث والتمريض على ضعفه قد تبعه عليه أكثر الناس

صیغہ ٔ تمریض کے بارے میں مذکورہ اصول قاعدۃ کلیہ نہیں بلکہ قاعدہ اکثریہ ہے ،جیسے صحیح بخاری میں یہ صیغہ کئی جگہ استعمال ہوا ہے اور امام بخاریؒ صیغۂ ضعف ،روایت بالمعنی کرنے یا متن کو مختصر کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے،لہذا وہاں یہ حدیث کے ضعف پر دلالت نہیں کرتا۔جیسا کہ امام ابن حجر ؒ نے بھی اس بات پر تنبیہ کی ہے:

ذلك محمول على قاعدة ذكرها لي شيخنا أبو الفضل بن الحسين الحافظ رحمه الله وهي: إن البخاري لا يخص صيغة التمريض بضعف الإسناد؛ بل إذا ذكر المتن بالمعنى أو اختصره أتى بها أيضا۔

لہٰذا اکثر مواقع پر جب صیغہ تمریض استعمال ہو تا ہے تو وہ سند کے معلق ہونے کی وجہ سے ضعف پر دلالت کرے گا۔

روایتِ مذکورہ ٔ کے حکم کے بارے میں محاکمہ:

زیرِ نظر روایت جو لوگوں میں حدیث قدسی کے نام سے مشہور و معروف ہےاور متاخرین کی بعض کتابوں میں بھی حدیث قدسی کے نام سے منقول ہے ،جیسے إسماعيل حقي الحنفي نے روح البیان میں سورہ التکویر کی تفسیر میں اس کو حدیث قدسی کے نام سے روایت کیا ہے:

(وفي الحديث القدسي يا ابن آدم تريد وأريد فتتعب فيما تريد ولا يكون إلا ما أريد)

لیکن مفسر مذکور نے سورۃ یوسف کی تفسیر میں یہ روایت اثر کے طور پر بیان کی ہے:

(وجاء في بعض الآثار أن الله تعالى يقول : ابن آدم تريد وأريد)

جبکہ سورہ البقرہ میں اسی مفہوم میں یہ روایت داؤد علیہ السلام کے حوالے سے روایت کیا ہے۔

ملا علی قاری نےمرقاۃ المفاتیح کےباب اسماء اللہ تعالیٰ میں اثر کے طور پر جبکہ باب الاستغفار میں حدیث قدسی کے طور پر روایت کی ہے

اس روایت کاسب سے قدیم ترین مصدر حکیم ترمذیؒ کی "نوادر الاصول" ہےجو تیسری صدی کی مشہور تصنیف ہے ۔ غالب گمان یہ ہے کہ یہ روایت نوادر الاصول سے نقل ہوتے ہوئے متاخرین کی کتابوں میں در آئی ہے لیکن حکیم ترمذیؒ نےبھی اس کو"حدیث "نہیں کہا بلکہ ایک اسرائیلی روایت کے طور پر بیان کیا ہے:

(قال الله تعالى: يا داود تريد وأريد)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض متاخرین علماء کو اس حدیث کے نقل در نقل کرنے میں وہم ہوا ہےاور اللہ تعالی کی جانب نسبت کی وجہ سے اس کو حدیث قدسی کہہ دیا، جب کہ ما قبل میں ثابت ہو چکا کہ یہ روایت اصول ِ حدیث کی روشنی میں حدیث ہی نہیں کہلائی جا سکتی، تو حدیث قدسی کیسے قرار دی جا سکتی ہے!!

البتہ جہاں تک مذکورہ روایت کے متن کا تعلق ہے تو درایتا ً اس کا مضمون درست معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ اور مشیت پر اور اس بات پر کہ جب بندہ اللہ تعالی کے لیے اپنی خواہشات کو قدموں تلے روندتا ہے تو اللہ تعالی اس کو نوازتا ہے، قرآن مجید کی بہت سی آیات دلالت کرتی ہیں۔ارشاد ہے:) إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ۔ قُلْ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ۔ لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ) ۔

لہٰذا اس روایت کو زیادہ سے زیادہ ایک اسرائیلی روایت کے طور پیش کرنا چاہیے ، "حدیث" یا "حدیث قدسی" کہنے سے اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ یہ روایت نبی کریمﷺ سے ثابت نہیں ہے۔

اسرائیلی روایات کا حکم:

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی روایت کی تعریف اور حکم کو بھی بیان کیا جائے تاکہ روایتِ مذکورہ کے بارے میں واضح راہنمائی دی جا سکے۔

اسرائیلی روایات سے مراد وہ روایات ہیں جو یہودیوں یا عیسائیوں سے ہم تک پہنچی ہیں ۔

حکم کے لحاظ سے ان روایات کی تین قسمیں :

1.وہ روایات جو بسند صحیح رسول اللہﷺ سے منقول ہیں۔ یہ اس اعتبار سے صحیح ہیں کہ قرآن کریم اور دوسرے صحیح روایات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے اس لئے یہ قسم صحیح اور مقبول ہے۔

2.دوسری وہ اسرائیلیات جس کا جھوٹا ہونا خارجی دلائل سے ثابت ہوچکا ہے جو شریعت کے معروف مسائل اور عقل سلیم سے ٹکراتی ہیں۔ ایسی روایات کی نقل اور روایت جائز نہیں ہے۔

3.تیسری قسم ان اسرائیلیات کى ہے جو پہلی اور دوسری قسم میں شامل نہیں ہیں جن کے بارے میں محدثین نے سکوت اختیار کیا ہے۔ایسی اسرائیلیات کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "لا تصدقوها ولا تکذبوها"۔ اس قسم کی روایات کو بیان کرنا تو جائز ہے؛ لیکن ان پرنہ کسی دینی مسئلہ کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے نہ ان کی تصدیق یا تکذیب کی جاسکتی ہے اوراس قسم کی روایات کو بیان کرنے کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں ۔

خلاصۃ البحث:

خلاصہ بحث یہ ہے کہ:

1.اصول درایت کے لحاظ سے مذکورہ روایت اگرچہ صحیح ہے تا ہم اسے رسول اللہﷺ سے منسوب کرنا اس لئے درست نہیں کیونکہ یہ روایت بلا سند منقول ہے۔

2.مذکورہ روایت کی حیثیت ، خبر مقطوع، موقوف یا مرفوع کسی لحاظ سے ثابت نہیں ہے۔

3.مذکورہ روایت کو " حدیث قدسی" کہنے میں توقف کیا جائے۔

4.مذکورہ روایت کو زیادہ سے زیادہ اسرائیلی روایت کے طور پر روایت کیا جا ئے۔

5.اس روایت کے مضمون کی نشر و اشاعت اور وعظ و تبلیغ کرنے کے لیے آیاتِ قرآنیہ اور دیگر احادیث صحیحہ کا سہارا لیا جائے۔

حواشی و مصادر:

۱۔أبو البقاء، أيوب بن موسى، الكليات، تحقيق: عدنان درويش ،اور محمد المصري، مؤسسۃ الرسالۃ ، بيروت ، 1998م ، ج1، ص573؛ ابن حجر، ، احمد بن علی بن محمد عسقلانی ، فتح الباری شرح صحیح البخاری، تحقیق: احمد بن علی بن حجر عسقلانی، دارالمعرفۃ، بیروت، 1959م،ج1، ص 193۔

۲۔ابن تیمیہ، أحمد بن عبد الحليم بن تيميۃ، مجموع الفتاوی ،دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، 2000م، ج18، ص5۔

۳۔الزبیدی، محمد بن محمد بن عبدالرزاق، تاج العروس من جواھر القاموس، تحقیق: عبدالسلام احمد وآخرین ، وزارۃ الأعلام بالکویت، 1965 م، مادہ:قدس۔

۴۔ محمد جمال الدين بن محمدالقاسمي،قواعد التحديث من فنون مصطلح الحديث،دار الکتب العلمیۃ بیروت،1976م،ص64۔

۵۔ الحكيم الترمذي، نوادر الأصول فى أحاديث الرسول، دار النشر / دار الجيل ، بيروت ، 1992م،ج4 ،ص 152؛ الباقلانی، الانصاف فیما یجب اعتقادہ و لا یجوز جہلہ، بتحقیق شیخ الاسلام محمد زاہد الکوثری،المکتبہ الازہریہ للتراث، الطبعۃ الاولی، 2000ء،ص 35 ؛ عبد الحق بن غالب بن عطيۃ الأندلسي، المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز، بتحقيق،عبد السلام عبد الشافي محمد، دار الكتب العلميۃ ، لبنان ، 1993 م،ط1،ج5،ص418؛ الغزالي، محمد بن محمد، إحياء علوم الدين، دار االمعرفۃ ،بيروت بدون التاریخ، ج4،ص 346؛ الھروی، ملا علی قاری، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح،تحقیق شیخ جمال عیتانی، دار الکتب العلمیۃ بیروت، ط1، 2001، باب اسماء اللہ تعالی ،رقم: 5173، باب الاستغفار، رقم:5260 ؛ الھروی، ملا علی قاری، جمع الوسائل فی شرح الشمائل، المطبعۃ الشرقیۃ،مصر،ج1،ص49؛ الحر العاملي، محمد بن الحسن بن علي، الجواهر السنيۃ في الاحاديث القدسيۃ ، منشورات مكتبۃ المفيد قم ، ايران، بدون طبع و تاریخ طبع،ص 93؛ إسماعيل حقي بن مصطفى، تفسير روح البيان، دار إحياء التراث العربى، بدون طبع، ج4،ص 149 ۔

۶۔إسماعيل حقي بن مصطفى، تفسير روح البيان، سورۃ بقرہ، ج1، ص318۔

۷۔ملا علی قاری، المرقاۃ شرح المشکوٰۃ، باب اسماء اللہ تعالی ،ج8 ، ص 61۔62: ، باب الاستغفار:ج8،ص200۔

۸۔الباقلانی، الانصاف ،ص 35۔

۹۔ تفسير حقي ،المؤلف : حقي، سورہ یوسف :21ج6، ص68۔

۱۱۔ابن حجر، أحمد بن علي بن محمد، نزهۃ النظر في توضيح نخبۃ الفكر في مصطلح أهل الأثر، تحقیق، عبد الله بن ضيف الله الرحيلي، ، مكتبۃ المدينۃ الرقميۃ، ط1،ص234۔

۱۲۔ محمد تقی امینی،حدیث کا درایتی معیار، قدیمی کتب خانہ، کراچی،1986 م، ص 15

۱۳۔محمد تقی امینی ،حدیث کا درایتی معیار، ص 15

۱۴۔ ابو عمرو عثمان بن عبد الرحمن الشهرزوي ،مقدمۃ ابن الصلاح، ، دار الكتب العلميۃ بيروت، لبنان،ص 18۔

۱۵۔ابن العراق الكناني، على بن محمد، تنزيه الشريعۃ المرفوعۃ، دار الكتب العلميۃ ط2، 1981 م ، ج،1 ص6۔

۱۶۔امام مسلم ،مسلم بن حجاج نیشاپوری، صحیح مسلم، دار إحياء التراث العربي ، بيروت، باب بيان أن الإسناد من الدين،رقم : 5

۱۷۔السیوطی، عبد الرحمان بن ابی بکر، تدریب الراوی، مكتبۃ الرياض الحديثۃ ، الرياض،ج2 ،ص 160۔

۱۸۔ أحمد بن علي بن ثابت الخطيب البغدادي أبو بكر ،الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع، مكتبۃ المعارف ،الرياض ، 1403 م ، ج2، ص 102۔

۱۹۔لکھنوئی، الاجوبۃ الفاضلۃ للاسئلۃ العشرۃ الکاملۃ، بتحقیق العلامۃ عبد الفتاح ابی غدۃ، مکتب المطبوعات الاسلامیۃ، بیروت، ط2 ،بدون التاریخ، ص29۔

۲۰۔الباقلانی، الانصاف ،ص 35۔

۲۱۔الزبیدی، محمد بن محمد مرتضی، تاج العروس من جواہر القاموس، دار الہداِیۃ، بدون التاریخ و الطبعۃ، مادہ:مرض، ج 19، ص 56۔

۲۲۔الزركشي، محمد بن جمال الدين ،النكت على مقدمۃ ابن الصلاح، أضواء السلف ، الرياض ،ط1 ، 1998م، ج1،ص236۔

۲۳۔ابن حجر، أحمد بن علي بن حجر، ، فتح الباری ،دار المعرفۃ ، بيروت ، 1379،ج1، ص111۔

۲۴۔إسماعيل حقي بن مصطفى، تفسير روح البيان، ج10، ص 274۔

۲۵۔إسماعيل حقي بن مصطفى، تفسير روح البيان،ج4،ص149

۲۶۔إسماعيل حقي بن مصطفى، تفسير روح البيان،ج1،ص318

۲۷۔ الملا على القاري،مرقاۃ المفاتيح شرح مشكاۃ المصابيح،کتاب الدعوات، باب الاستغفار،ج8،ص200

۲۷۔الزرکلی، خير الدين بن محمود بن محمد،الأعلام،دار العلم للملايين،ط15، 2002م،ج6، ص272؛ الذهبي،محمد بن أحمد بن عثمان،تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام،دار الغرب الإسلام،ط1، 2003 م،ج6،ص814۔

۲۸۔الحكيم الترمذي، نوادر الأصول فى أحاديث الرسول، ج4 ،ص 152۔

۲۹۔القرآن الکریم:ھود:107۔

۳۰۔ القرآن الکریم:النساء: 78

۳۱۔القرآن الکریم: الانبیاء:23

۳۲۔ تقی عثمانی، علوم القرآن، مکتبہ دار العلوم کراچی،1415ھ، ص 345

۳۳۔تقی عثمانی، علوم القرآن، ص345،346 ؛ غلام احمد حریری، تاریخ تفسیر و مفسرین، ملک سنز پبلیشرز، ص212۔

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...