Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Milal: Journal of Religion and Thought > Volume 1 Issue 2 of Al-Milal: Journal of Religion and Thought

اسلامی اور مغربی تناظر میں آزادی اظہار رائے کا تقابلی جائزہ |
Al-Milal: Journal of Religion and Thought
Al-Milal: Journal of Religion and Thought

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید

دنیا میں انسان ایک آزاد حیثیت سےتشریف لایا ہے اور ایک اللہ سبحانہ وتعالی کی غلامی اور بندگی سے آغاز کیا ہے۔ تدریجاً انسانوں کا معاشرہ وسعت پذیر ہوا ۔قوم اورقبیلے بنے۔مرور ِ زمانہ کے ساتھ ان کی ہدایت کے لئے انبیاء اور رسل دنیا میں آئے۔ اس طرح دنیا کے مختلف خطوں اور ممالک میں آدم کی اولاد بس گئی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف مذاہب وجود میں آگئے ۔اختلافِ فکروعقیدہ کے بنیادپرنزاعات وقوع پزیر ہوتے گئے۔اور خون خرابے کےساتھ ایک دوسرے کو غلام بنانے کا مرحلہ بھی ان پر آیا ،جس کی عمومی وجہ آسمانی ہدایات سےروگردانی بنی ہے ۔ غلامی کی جائز و ناجائزسےقطع نظر ، بھر حال ایک آزاد انسان خوش قسمت اور آزادی بہت بڑی نعمت ہے ۔اس کی قدروقیمت کا اندازہ حالت غلامی میں لگایا جاسکتاہے ۔

انسان کے لیے ایک ذات باری تعالی کی غلامی سزاوار ہے۔ حقیقت میں وہ کسی دوسرے انسان کا غلام نہیں ہوسکتا۔ انسان جب بھی غلام بنا یا گیا، اس کےساتھ غیر انسانی سلوک ہوا ہے،لیکن انسان کےلیےسوچنے کی بات یہ ہےکہ اسے غلامی سے اگر نجات ملی ہے تو وہ بھی خالص اللہ کے دین کی نصرت سے ، لیکن مرور زمانہ کے ساتھ انسان دین کی اہمیت اورآزادی کی قدر و قیمت سے غافل ہو گیا ۔

دنیا کو اللہ نے انسان کے لیے چمن زار اور گلزار بنایا ہے ۔جبکہ انسان کواس دنیا کا گل ِ سر سبد ، سب سے پیارا اور اشرف المخلوق بنایاہے ۔ اس کی افضلیت کا ثبوت یہ ہے کہ اللہ ، مالک ِ کائنات نے اس کے لیے دنیا کی ہر چیز کو مسخر کر دیا ہے۔ اس خوبصورت چمن زار دنیاسے انسان اس وقت کما حقہ فائدہ نہیں اٹھا سکتا ، جب تک اس کے باسی ایک دوسرے کے ساتھ اچھے سلوک کے خواہاں نہ ہوں اور ان کوامن وامان کا ماحول میسر نہ ہو، تاہم امن وسلامتی اس وقت ممکن نہیں ہے جب تک انسان ایک دوسرےکی آزادی اور انسانی اقدار کا احترام نہ کریں۔

جس طرح انسان معاشرتی پسند ہے ،اور ایک دوسرے سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا ، اسی طرح ایک دوسرے سے عقل وفہم میں تفاوت بھی رکھتاہے۔اس انسانی اختلافی مزاج اورسوچ کی وجہ سے اکثراوقات نزاعات پیداہوتےہیں ،جوقانون کےمتقاضی ہوتے ہیں۔ انہی مسائل میں سےایک اظہار آزادی رائے کی حدودکا تعین بھی ہے تاکہ اس رنگ برنگ دنیا میں رہتے ہوئے انسان ایک دوسرے کی وجہ سے اذیت کا شکار نہ ہوں، اور ایک دوسرے کی انسانیت کو پامال کرکے نہ رکھ دیں۔ ان حدودکی تعین اور احترام میں اسلام اور غیر اسلام میں کوئی امتیازنہیں ۔تمام انسان بلا تفریق مذہب اس کی ضرورت و اہمیت پر متفق نظرآتے ہیں ،تاہم دورِجدیدمیں جہاں مسائل رونمانظرآتے، وہ ان قوانین کے تطبیق میں انسانوں کے اندر رنگ و نسل اورقوم و مذہب میں تفر یق کرنے کی سےوجہ سے جنم شدہ ہیں ،جواس مقالہ میں زیر ِ بحث لائے گئےہیں۔

آزادی اظہار رائے کا مفہوم

یہ دو الفاظ؛ اظہار اور رائے کا مجموعہ ہے ۔ پہلے لفظ کا مطلب ہے ظاہر کرنا ، واضح اور مبرہن کرنا۔ جبکہ دوسرے کا مطلب سوچ فکر ، رائے اور خیال ، یعنی خیالات مافی الضمیر کو سامنے لانا اورظاہر کرنا ۔بالفاظِ دیگر کھل کر اپنا نقطہ نظر بیان کرنا،یا سوال اٹھانا اور اختلافی و تنقید ی نقطہ نگاہ کوظاہر کرنا۔جیساکہ محیط فی اللغہ میں ہے:"أظْهَرَ واعْتَلَنَ: مِثْلُ اشْتَهَرَ. وعَالَنْتُه: أظْهَرَ كُلُّ مِنّا للآخَرِ ما في نَفْسه[1]والرَّأْيُ: رَأْيُ القَلْبِ، والجَمِيْعُ الآرَاءُ. ويَقُولُوْنَ: لا أفْعَلُ كذا حَتّى يُرِيني حِيْنٌ برَأْيِه: أي حَتّى أرى الطَّرِيْقَ الواضِحَ. وما رَأَيْتُ أرْأَى منه: اي أجْوَدَ رَأْياً"[2] یعنی " اظہار اور اعلان اشتہارکےمعنی میں ہے۔یعنی باہم ا ظہار کرنا ۔ ہم نےآپس میں اظہار مافی الضمیر کیا ۔ اسی طرح رائے کی جمع آراء ہیں۔کہتے ہیں : میں یہ کام نہیں کروں گا جب تک مجھے واضح رائے یعنی راستہ نہ دکھائی دے ۔ اور یوں ہی کہتے ہیں کہ میں نے اس سےزیادہ صحیح رائے والا نہیں دیکھا۔"آزادی اظہار رائے کا مطلب یہ ہےکہ ایک فردجو سوچ وفکراور خیالات رکھتا ہے ، اس کا اظہار بلا خوف وخطر کرسکتا ہے۔ اس کی دعوت دوسروں کو دےسکتا ہے۔یعنی وہ اپنے خیالات اور افکار رکھنے میں آزاد ہے۔ اس پر کوئی ریاست یا فرد قدغن نہیں لگا سکتا ،لیکن اس آزادی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس سے کسی دوسرے کی تذلیل اور کردار کشی ہو۔ یا کسی پر تہمت لگائے،جس سےاس کی عزت ِنفس مجروح ہو۔ اس لحاظ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آزادی اظہار رائے کے مفہوم کومغربی و اسلامی دونوں تناظرمیں دیکھاجائے۔

مغربی تناظر سےآزادی اظہار رائے کا مفہوم

نیو ورلڈ انسائیکلوپیڈیا کے مطابق: ’’آزادئ گفتگو بغیرحدود و قیود اور احتساب کے بولنے کی قابلیت کا نام ہے۔اسے آزادی اظہاربھی کہا جاتا ہے اس سے مراد صرف زبانی گفتگو نہیں ہے بلکہ کوئی بھی گفتگو یا خیالات کے اظہار کا ذریعہ بشمول طباعت، نشریات، فن،تشہیر، فلم اور انٹرنیٹ شامل ہیں“[3]

اسلامی تناظر سےآزادی اظہار رائے کا مفہوم

اسلام نے نہ صرف فکر وخیال اور تقریر و تحریر کی آزادی دی بلکہ قید وبند کی عملی غلامی سے بھی نجات دلائی ہے۔ اسلام نےبلکل کھلی ڈھلی آزادی دی ہے الا یہ کہ اسلام کی کوئی بنیادی قدر مجروح ہوتاہویا پھر کسی دوسرےکی حق تلفی ہو،یا پھر اس سے کسی دوسرے پر ظلم اور استحصال ہو۔اس سلسلے میں قرآن و سنت کی نصوص موجود ہیں۔

آزادی اظہار رائے کی ضرورت و اہمیت

کسی بھی ریاست کی تعمیر وتہذیب میں آزادی اورآزادی اظہار رائے کی ضرورت مسلم ہےاس کوکسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، بلکہ یہ آزادی اس کی تعمیر وتہذیب اور ترقی کی جان ہے ۔ معاشرت وتمدن ہویا معیشت وسیاست کی تہذیب ہویا سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی اور ایجاد ، سب اس آزادی کی بدولت ممکن ہوئی ہے۔

الغرض ! آزادی اظہار ِ رائےقدیم و جدید دنیا میں انسان کےلیےایک امرِضروری ہے ۔البتہ انسانی سماج میں اس کی مطلق آزادی قدیم و جدید فکرکی رو سےسُم ِ قاتل کی حیثیت رکھتاہے۔ یہی وجہ کہ اسلامی شریعت میں بلکہ شرائع سماویہ میں اس قسم کی بے قیدآزادی کا تصور نہیں ملتا ۔ مطلق آزادی سے معاشرتی امن ومان اوراجتماعی سلامتی داو پر لگ جاتی ہےاور معاشرہ زوال پذیر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ امام بیہقی دلائل النبوۃ کے مقدمے میں رقمطراز ہے: "أما الغلو في الحرية والتهتك وراء الشهوات البهيمية، فلا تجيزه الشريعة الإسلامية والدين الإسلامى، هو الدين الذي يعمّم النظام بين الورى، ويقمع النفس عن الهوى، ويحرم إراقة الدماء، والقسوة في معاملة الحيوان والأرقاء، ويوصي بالإنسانية، ويحض على الخيرات والأخوة"[4] "آزادی وحریت میں غلو اوربہیمی خواہشات کے پیچھے لگ جانا اسلامی شریعت میں جائز نہیں ۔ یہ وہ دین ہے جو تمام نظام کائنات پر محیط ہے اور انسانی خواہشات کی قلع قمع کرتا ہے۔ خون کرنے اور حیوانات و غلاموں کے حق میں سختی کو حرام ٹھہراتا ہے ۔ انسانیت کو خیر اور بھائی چارے پر ابھارنے کی وصیت کرتاہے ۔"عالمی قوانین اور دساتیر و چارٹروں میں جہاں آزادی اظہاررائے کی اہمیت پر زور دیاگیاہے، وہاں اس قدر اس کی حدود و قیود کو بھی بیان کیا ہے۔البتہ توہین مذہب ان حدود و قیود میں سرفہرست ہے۔ مثلاآرٹیکل 19(3) ICCPR ، جہاں آزادئ اظہار رائے کا حق دیتا ہے، وہیں اس کی حدود کا تعین بھی کرتا ہے- مثلاً دوسرے کےحقوق اور ان کی عزت کے حقوق کی حفاظت کرنا،قومی استحکام کی حفاظت کرنا،عوامی امن، عوامی صحت اور اخلاقیات ICCPR آرٹیکل20 میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی ایسی سرگرمی کہ جس سے قومی،نسلی یا مذہبی نفرت یا کسی بھی قسم کی امتیازی سرگرمی،جو ظلم اور تشدد کو ہوا دے قانون اس کی اجازت نہیں دیتا اور اسے ممنوع قرار دیتا  ہے ۔[5]

حریت فکر اورانسانی سماج

انسانی سماج میں حریت فکر اس لیےمفیدہےکہ ہر فردِ بشرجوایک منفرد سوچ و ذہن کا مالک ہے،اپنےخدادادصلاحیتوں کااظہارآسانی سےکرسکیں۔اورتمام معاشرہ اس سے فائدہ اٹھائے ۔ انہی وجوہات کی بنیاد پر رسول ﷺنے اسے ریاست ِ مدینہ میں یقینی بنایا۔ حمیدی لکھتے ہیں :

حریت فکر کی آزادی ، جس پر رسول اللہ ﷺنے اپنے صحابہ کرام   کی تربیت کی تھی ،اورجس کی وجہ سے انہوں نے اپنے سوسائٹی کے بہترین دماغ اور اہل رائے سے استفادہ کیا تھا۔اور مسلمانوں کے مصالح عامہ کو مد ِ نظر رکھا تھا اور تمام لشکر کے اجتماعی آراء سے سوچا تھا۔جس کےلیے بعض اوقات ایک صحیح رائے اس فرد سے مل سکتی ہے جو ان میں سے کم شہرت والے اور مرتبے کے لحاظ سے بھی ان میں کمتر ہولیکن اللہ کے رسول اللہﷺ کے لئے اس میں کوئی مانع نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ اپنے رائے کا بے دھڑک اظہار کر سکتےتھے۔[6]جیساحباب بن منذر کےاظہار ِ رائے سے آپﷺ نےاستفادہ کرتے ہوئےایک معرکے میں ایک ایسی جگہ پڑاو ڈالا جس میں مسلمانوں کا فائدہ تھا ، اوریوں اس آزادی رائے کے نتیجے میں تزویراتی (Strategic) تبدیلی عمل میں آئی۔[7]

اسلام شرعی آداب کا خیال کرتےہوئے حریت ِ فکر کوبہت اہمیت دیتا ہے، بلکہ اسلامی معاشرے میں حریت ِ فکر کی اس قدر آبیاری کی گئی ہے کہ ایک فرد حاکم وقت کی موقف پر بھی نقد کرسکتا ہے۔ لہذا اسلامی ریاست میں فرد کو حق حاصل ہے کہ امن وامان کے ماحول میں اپنی رائے کا اظہار کرے بغیر کسی تشدد اور تسلط کے کہ جس سے کلمہ حق اور آزادی کا گلہ گھونٹا جائے۔[8]

اسلام میں خود انحصاری اور حریت فکرکی اہمیت

کلمہ حق کہنا اورپہنچانا سماج کی جان ہے ۔ اسے نافذ کر نا انسانیت کی ضرورت ہے ۔ اس میں غفلت برتنا معاشرےکے لیے موت ہے۔اس میں سستی کسی بھی صورت ناقابلِ برداشت ہے۔ اس لحاظ سے انبیائے کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس کو پہنچانے اورنافذ کرنےمیں کبھی بھی مداہنت اور سستی نہیں کی ۔ اس سلسلے میں آپﷺ کو یہ الزام سنناپڑا کہ وہ ملک میں اقتدار چاہتے ہیں اور یوں انہیں سختیاں اٹھانی پڑیں جیساکہ قرآن مجید میں موسیٰ و ہارون علیہم السلام کے بارے میں فرعون کا رویہ ذکر فرمایا ہے:"کیا تو اِس لیے آیا ہے کہ ہمیں اس طریقے سے پھیر دے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور زمین میں بڑائی تم دونوں کی قائم ہو جائے؟ تمہاری بات تو ہم ماننے والے نہیں ہیں"[9] اسی طرح اسلام حق کی بالادستی چاہتاہے، لیکن دنیا داروں کو اپنا اقتدار عزیز ہوتا ہے،وہ کسی قدر اس کے لیےتیار نہیں ہوتے،جیسا کہ فرعون نے موسی ٰ علیہم السلام سے کہا تھا ، لیکن موسیٰ علیہم السلام نے اس کو رد کرتے ہوئے فرمایا: "اور اے برادرانِ قوم ، میں اِس کام پر تم سے کوئی مال نہیں مانگتا، میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے ۔ اور میں ان لوگوں کو دھکے دینے سے بھی رہا جنہوں نے میری بات مانی ہے، وہ اپنے ربّ کے حضور جانے والے ہیں ۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ جہالت برت رہے ہو"[10]پیغمبروں نے ہاتھ سےحلال کمائی کا راستہ اپنایا اور حریت ِ فکر کی تنفیذ پر حرف نہیں آنے دیا ۔ امام بخاریؒ بیان کرتے ہیں:"مَا أَكَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ خَيْرًا مِنْ أَنْ يَأْكُلَ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ وَإِنَّ نَبِيَّ اللهِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ كَانَ يَأْكُلُ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ" [11]اس میں شک نہیں کہ حلال کمائی کلمہ حق نافذ کرنےاورحریت فکرکے لیے ضروری ہے، ورنہ بے شمار لوگ ایسے ہیں کہ وہ باطل پر ہونے کےباوجودظالموں کے سامنے اپنی نوکریاں بچانے کے خاطرگردن جھکا دیتے ہیں ۔ ڈاکٹر يحيىٰ ابراهيم لکھتے ہیں: "ولاشك أن الاعتماد على الكسب الحلال تكسب الانسان الحرية التامة والقدرة على قول كلمة الحق والصدع بها، وكم من الناس يطأطئون رؤسهم للطغاة، ويسكتون على باطلهم، ويجاورونهم في أهوائهم خوفاً على وظائفهم عندهم"[12]

اسلامی نقطہ نظرسےآزادی اظہار رائے کی حکمت

رسول للہﷺنے بغاوت اور سرکشی کا مقابلہ اپنے صحابہ کرام   کے اندر مساوات قائم کرنے اوران کی حریت وآزادی کے ذریعے کیا ۔ اسی حریت اور آزادی کے ساتھ وہ اسلام کے سوسائٹی میں داخل ہوئے، جن میں ان کو داخلی حریت،تعبیر اور مشورہ کی آزادی حاصل تھی،جس میں تمام رعایا ، حاکم ومحکوم ،غنی و فقیر بلکہ تمام طبقات کے اندر مکمل مساوات تھی۔اس وجہ سے ان پر نبی ﷺ کا بےحد اثر تھا ۔ان میں باہم محبت تھی اور آپس میں جڑے ہوئے تھے اورآپﷺ پر دل وجان سے فدا ہونے کےلیے تیار تھے ۔اس لحاظ سے ان میں حسب و نسب، رنگ و نسل اور وطن وغیرہ کا کوئی تفریق نہیں تھا ،جو ان کے حقوق، واجبات یا عبادات میں تفریق کا ذریعہ ہو ۔اہل ِ مکہ نے آپ ﷺسے ان مسلمان غلاموں ، غریب اور فقیر صحابہ کرام   سے علیحدہ مجلس میں ملنے کا مطالبہ کیا لیکن منظور نہیں ہوا۔اورقرآن مجید کے ذریعے یہ راہنمائی نازل ہوئی:" وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا "[13] "اور اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اسے پکارتے ہیں، اوران سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔ کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو؟ کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریق کار افراط و تفریط پر مبنی ہے"

اس لحاظ سےآزادی اسلام میں اساس وبنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔آپﷺ نے اس کی طرف دعوت دی اور غلامی اور عبودیت سے نجات کی طرف بلایا جو دعوت اورمسلمانوں کی زندگی بلکہ انسانیت کی بھی اساس اور بنیاد ہے کیونکہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے ۔ اورچاہئیے کہ اس کی یہ آزادی پوری زندگی قائم ودائم رہے ، تاکہ وہ زندگی سے متمتع ہو کیونکہ یہ زندگی اس کے پاس اس کے خالق ،رازق اور مدبراللہ کی ایک نعمت ہے، اگر اس پر کوئی کسی قسم کی قدغن لگا دیتا ہے تو یہ غلامی ہے جو ان کے لیے عبودیت اور ذلت ہے۔[14]

لیکن افسوس ! انسانیت جس آزادی کا تقاضا کرتاہے(کہ وہ ایک اللہ کی غلامی اور بندگی بجالائے)اس سےوہ بہت دور ہوگیا ہے۔صحابہ کرام  نےہر قسم سختی برداشت کی ،لیکن ایک اللہ کی غلامی کےسواکسی کی غلامی کو قبول نہیں کیا ۔اسلام نے نہ صرف اس حقیقی آزادی کی طرف لوگوں کو بلایابلکہ اپنے زمانہ حکمرانی میں اس کاعملی تطبیق اور نفاذبھی کیا۔ اس کے مقابلے میں کفر کی آزادی فسق وفجور، نافرمانی اور الحاد کی آزادی ہے، جس پر بعض حکمران فخر کرتے ہیں ،جس سےمسلمان ملت آزمائشوں میں مبتلا ہوگیا ہے۔انہوں نے مسلمانوں پر حریت کے نام سےظلم اور جبر کی حد کردی ہے ۔اوراپنے ملکوں کے دروازے ان کے لیے کھول دئے ہیں ، جن کا نہ کوئی دین ہےاور نہ عہد کا پاس اور نہ ان کے حقوق کا لحاظ، بلکہ انہوں نے زمین کو فساد سےبھردیا ہے، اور اہل وطن میں شر، تفریق، اور بغض و عناد کا بیج بو دیا ہے ۔انہوں نےآزادی اظہار رائے اور تعبیر کی تمام اقسام؛ بات کرنے، کتاب لکھنے اور اشاعت کے اظہار پر قدغنیں لگا دی ہیں اِلَّا یکہ ان کی اغراض ومقاصد اور خواہشات و مصالح کی موافقت کی جائے۔بےشک اس میں قوم ووطن کی تباہی ہو۔ اس کےبرخلاف ملحدین اوربےمروتوں کو ہر قسم کی آزادی ہے جو چاہےکہتے ہیں اور جو چاہے چھاپ دیتے ہیں۔یا للعجب ! استعمار سے آزادی کے بعد اکثر بلکہ تمام مسلم ممالک کی عملاًیہ حال ہے ، جو مسلمانوں کے لیے کسی مصیبت سے کم نہیں۔[15]

الغرض !آزادی اظہار ِ رائے پر قدغن کا مطلب انسانی تہذیب کی ترقی اور معراج کو پابند ِ سلاسل کرناہے۔ انسانی سوچ اور عقل پر تالا لگا کر وقت اور حالات کےمناسبت سے مستفید ہونے کو حرام ٹھہرانے کے مترادف ہے۔اس کے برعکس آزادی اظہار رائے کو یقینی بنالینا، انسانیت کی معراج ہے اورترقی کے راہ میں ایک قدم آگے کا نام ہے ،جسے اسلام نے مستحسن قراردیا ہے ۔

آزادی اظہار ِ رائےکا اسلامی اور مغربی تناظر میں تقابلی جائزہ

اللہ تعالی ٰاور اس کےرسولوں اور الہامی تعلیمات کی تعظیم پر آسمانی مذاہب کا اتفاق ہے ۔ اس کی توہین کرنے والوں کے لیے ان تعلیمات میں سخت سزا کا حکم ہے ۔لیکن جدید دور کے ملحدین کا طر امتیاز ہے کہ جو صاف انکار بھی نہیں کرتے اور صریح اقرار بھی نہیں کرتے، بلکہ اپنے مقاصد کو مد ِ نظر رکھتے ہیں ، جہاں ان کےیہ مقاصد پورا ہوتے ہوں تو آزادی جائز ورنہ نا جائز ۔

'فریڈم آف اسپیچ اینڈ ایکسپریشن' کے ماسبق بحث سےیہ امربخوبی واضح ہے کہ اسلام نےآزادی اظہار رائے کو نہ صرف واضح اہمیت دی ہے ،بلکہ اسلامی نظامِ زندگی میں ہر طرح کے اختلاف رائے کی اجازت ہے اِلَّا یہ کہ نصوص قطعی‌ یعنی قرآن و سنت کے واضح احکامات کے خلاف ہو، مثلاً شعائر اسلام کی سبکی اور توہینِ انبیاء ۔ انبیاءعلیہم السلام کے علاوہ کوئی بھی فرد معصوم نہیں۔ان کے وہ افعال جو احکامات الہیہ کے خلاف ہوں، تنقید سے بالاتر نہیں ہیں۔

الہامی نصوص اور آزادی

اسلامی نظام زندگی میں حقوق اللہ ، حقوق الرسول اورحقوق العباد کا جو نظریہ پیش کیا گیا ہے ، نہایت جامع ہونےکےساتھ ساتھ ہر قسم کےلغویات سے پاک اوردیگر انسانوں کی آزادی سلب کرنے، دل آزاری اور ہنسی اڑانے سے منع کرتا ہے ۔لیکن مغربی دنیا کا عجیب المیہ ہے کہ ایک طرف ان کے ہاں آزادی اظہار رائے کی حد بندی پر یقین و ایمان کا تصور بھی ملتا ہے،جبکہ دوسری طرف بےقید آزادی بھی جائز سمجھتے ہیں۔ جو اسلام کے اندر بعض اوقات قابل ِ مواخذہ جرم بن جاتاہے ، بلکہ کتاب ِ مقدس بھی اس کی یہی سزا قرار دیتی ہے ۔ مثلاًاگر کوئی اللہ تعالیٰ ،شعائر اللہ اور اللہ کے پیغمبروں کو نشانہ تضحیک بنائے اور الہامی تعلیمات کا مذاق اڑائے ۔عمداً اس کی مخالفت کرے، تو یہ قابلِ مواخذہ جرم ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :" إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا 0 وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا"[16] یعنی"جو لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺکو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ تعالی ٰنے لعنت فرمائی ہے اور ان کے لیے رسوا کن عذاب مہیا کر دیا ہے" ایک اور مقام پر کہا گیا: "وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ"[17] یعنی"اور جو لوگ اللہ کے رسول کو دکھ دیتے ہیں ان کے لیے دردناک سزا ہے" اسی طرح کہا گیا" وَمَنْ يُشَاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِن اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ"[18] یعنی"اور جو شخص خدا اور اسکے رسول کی مخالفت کرتا ہے۔ تو خدا بھی سخت عذاب دینے والا ہے"

اسی طرح قرآن مجید کی کئی آیات میں یہ باتیں کہی گئی ہے کہ توہین الہ اورتوہین انبیاءیا شعائر اللہ اور تعلیماتِ الہی کو بےوقعت بنانےوالے اور اس کی طرف توہین آمیز جملے اور اشارے کنائے منصوب کرنےوالے اللہ کے ہاں ملعون اور عذاب علیم کے مستحق ہیں ۔ اسی طرح کتاب مقدس کی کئی آیات کو اس ضمن میں پیش کیا جاسکتا ہے ،بطور ِ مثال توہین کر نے والوں کے بارےمیں کتاب مقدس سے کچھ حوالے پیش کرتے ہیں ۔قوم موسیٰ ؑ کو اللہ تعالیٰ نےفرعون کی غلامی سے نجات دی اور یہ حقیقت ان پر آشکارا کی کہ تمام تر قوتوں کی مالک وہی یکتا ذات ہے اور تمجید وتقدیس کے لائق ہے ،جس نے تمہیں آزادی دلائی ہے۔لہذاکسی اور کی بندگی اور غلامی تمہارے لیے جائز ہی نہیں ہے ۔ کتاب مقدس کے مطابق: ” خداوند تیرا خدا جو تجھے مصر کی غلامی سے نکال لایا، میں ہوں ۔ میرے حضور تو غیر معبودوں کو نہ ماننا ۔۔۔تو خداوند اپنے خداکا نام بری نیت سے نہ لینا کیونکہ جو کوئی اس کا نام بری نیت سے لے گا خداوند اسے بے گناہ نہ ٹھہرائے گا “[19]دوسری جگہ کتاب احبارمیں لکھاہے : ”تم میرے پاک نام کی بے حرمتی نہ کرنا اور تمام بنی اسرائیل پر لازم ہے کہ وہ مجھے پاک تسلیم کریں۔ میں خداویدِ خدا ہوں میں تمہیں پاک کرتا ہوں“[20] اسی کتاب میں اللہ کے پاک نام کی بے حرمتی اورکفر بکنے والے کے بارے میں واضح الفاظ میں سنگسار کرنے کا حکم ہے:

“And he that blaspheme the name of the Lord, he shall surely be put to death, and all the congregation shall certainly stone him as well as the stranger, as he that is born in the land, when he blaspheme the name of the Lord, shall be put to death”[21]

” تب خدا وندنے موسیٰ سے کہا کہ کفر بکنے والے کو لشکر سے باہر لے جاو اور وہ تمام جنہوں نے اسےکفر بولتے سنا اس کے سر پر اپنے ہاتھ رکھیں اور ساری جماعت اسے سنگسار کرے۔ اور تو بنی اسرائیل سے کہہ کہ اگر کوئی اپنے خدا پر لعنت کرے تو اس کا گناہ اسی کے سر لگے گا۔ اور جو کوئی خداوند کے نام پرکفر بکے وہ ضرور جان سے مارا جائے اورپوری جماعت اسے ضرور سنگسار کرےاور خواہ کوئی دیسی ہو یا پردیسی جب وہ پاک نام لیتے وقت گستاخی کرے تو وہ ضرور جان سے مارا جائے۔ “ [22]

پیغمبروں کو نشانہ تضحیک بنانےوالوں کے بارےمیں عہد نامہ جدید لکھتی ہے :

“Whenever I say unto you, all manner of sin and blasphemy shall be forgiven unto men, but to blasphemy against the Holy Christ, shall not be forgiven unto men” [23]

”اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ آدمیوں کا ہر گناہ اور کفر تو معاف ہوسکتا ہے مگر جو کفر روحِ قدس کے بارے میں ہو وہ معاف نہیں کیا جائے گا “[24]

الہامی تعلیمات کی توہین کاحکم

شعائر اللہ اور الہامی تعلیمات کا مذاق اڑانے اور قصداً عمداً اس کی مخالفت کرنے اور اس کوچھپانےوالوں کے بارے میں اللہ تعالی ٰنےفرمایا:"وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا" [25]اللہ اس کتاب میں تم کو پہلے ہی حکم دے چکا ہے کہ جہاں تم سنو کہ اللہ کی آیات کے خلاف کفر بکا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے وہاں نہ بیٹھو جب تک کہ لوگ کسی دوسری بات میں نہ لگ جائیں ۔ اب اگر تم ایسا کرتے ہو تو تم بھی انہی کی طرح ہو ۔یقین جانو کہ اللہ منافقوں اور کافروں کو جہنم میں ایک جگہ جمع کرنے والا ہے " اسی طرح الہامی تعلیمات اور احکامات کو چھپانا بھی ایک جرمِ عظیم ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے فرمایا: "إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ"[26]"جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں درآں حال یہ کہ ہم نےانھیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کردیاہے ، یقین جانو کہ اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔" اسی طرح الہامی تعلیمات کا مذاق اڑانے اور قصداً عمداً اس کی مخالفت والے کے بارے میں کتاب مقدس میں آیا ہے :

لیکن اگر تم اور تمہاری اولاد مجھ سے برگشتہ ہوجاو اور ان احکام اور فرمانوں پر جو میں نے دیئے ہیں عمل نہ کرو اورد یگر معبودوں کے عبادت کرنے اور انہیں سجدہ کرنے لگو تو میں اسرائیل کو اس ملک سے جو میں نے انہیں دیا ہے، کاٹ ڈالوں گا اور اس گھر کو جیسے میں نے اپنے نام کے لئے مقدس کیا ہے نظر سے دور کروں گا۔ پھر اسرائیل تمام اقوام میں ضرب المثل اور مذاق بن کر رہ جائے گا۔اور اگر چہ یہ گھر اب شاندار دکھائی دیتا ہے لیکن بعد میں جو بھی اس کے پاس سے گزرے گا حیرت زدہ ہوگا اور حقارت سے کہے گا کہ خداوند نے اس ملک اور اس گھر کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا ؟ تب لوگ کہیں گے کہ چونکہ انہوں نے خداوند اپنے خدا کو جو ان کے باپ دادا کو مصر سے نکا کر لایا، چھوڑ دیا ہے اور دوسرے معبودوں کو قبول کر لیا ہے اورانہیں سجدہ اور ان کی پرستش کرنے لگے۔ اس لئے خداوندنےان پریہ تمام مصیبتیں نازل کی ہیں۔[27]

ایک اور مقام پر لکھا ہے :”جو شریعت پر کان نہیں لگاتا، اس کی دعائیں بھی مکروہ ہوتی ہے “[28]تیسری جگہ یوں لکھا ہے : ”خداوند کی راہ صادقوں کے لئےپناہ گاہے، لیکن وہ بدکرداروں کی بر بادی ہے “[29]الہامی تعلیمات عمل کے متقاضی ہوتے ہیں ،جس کے بارے میں کتاب مقدس لکھتی ہے :”میرے سب آئین اور سارے احکام کو ماننا اور ان پر عمل کرنا“[30]

اسلامی تعلیمات کی روسے کسی کا اشارے کنائے میں بھی غیبت کرنا، تمسخراڑانا ،الزام تراشی، یاکسی کی ذاتی زندگی کے عیب ٹٹولنا جائز نہیں، حتی کہ کسی کو برے نام اور القاب سے نہیں پکاراسکتا۔ اس سےمنع کیا گیا ہے،ارشاد باری تعالی ٰ ہے : " يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَسْخَرْ قَومٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْراً مِنْهُمْ وَلا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْراً مِنْهُنَّ وَلا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلا تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ" [31]"اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو ایمان کے بعد فسق برا نام ہے، اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں۔"

تعظیم ِ شعائر اللہ اور الہامی مذاہب

تمام الہامی مذاہب شعائرللہ کی تعظیم پر متفق ہیں ۔ جن چیزوں کو اللہ تعالی ٰ نےمحترم قرار دیا ۔ ان کا احترام اورتعظیم ملحوظ ِ خاطر رکھنا تمام انسانوں کے اوپر لازم ہے ۔ان میں الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ ،الشَّهْرَ الْحَرَامَ ، الْهَدْيَ وَالْقَلَائِدَ ، آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ،اور دوران ِ حج و عمرہ شکار،قربانی کے جانور، السبت اور عبادت خانے وغیرہ شامل ہیں لہذاان کا احترام اللہ کے ہاں پسندیدہ اور علامت ایمان قرار دیاگیاہے۔باری تعالی ٰ نےفرمایا :"ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ" [32]یہ سن لیا اب اور سنو! (اللہ کی نشانیوں کی جو عزت و حرمت کرے اس کے دل کی پرہیزگاری کی وجہ سے یہ ہے )"ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ عِنْدَ رَبِّهِ" [33]"یہ جو کوئی اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے اس کے اپنے لئے اس کے رب کے پاس بہتری ہے"

اسی طرح کتاب ِ مقدس میں بھی شعائر اللہ کے تعظیم اور احترام کے احکامات ملتے ہیں اورتوہین کر نے سے انسانوں کو روکا گیا ہے۔ اس بارےمیں کتاب ِ مقدس (احبار)لکھتی ہے : ”تم میرے سبتوں کو ماننا اور میرے مقدس کی تعظیم کرنا، میں خداوند خداہوں“[34] ”اور خدا نے موسیٰ سے کہا کہ ہارون اور اس کے بیٹوں کو بتا کہ وہ مقدس نذروں کا جو بنی اسرائیل میرے لئے مخصوص کرتے ہیں، احترام کیا کریں ۔ یوں وہ میرے پاک نام کی بے حرمتی کرنے کے مرتکب نہ ہوں گے۔ میں خداوند ِ خدا ہوں“[35]”کاہن میرے احکام کومانیں تاکہ وہ مجرم نہ ٹھہریں اور ان کی بے حرمتی کرنے کے باعث مر نہ جائیں۔ میں خداوندِ خداہوں جو انہیں مقدس کرتا ہوں“[36] الہامی تعلیمات نے اگر ایک طرف انسان کو رائے دہی کی آزادی دی ہے ،تو دوسری طرف بہترین اخلاقی اقدار فراہم کئے ہیں اورساتھ حدود کا بھی پابند بنایا کہ نہ کسی کی آزادی کوچھینا جائےاور نہ عزت وناموس کو پامال کیا جائے ۔اگر اس الہامی قانون کا خیال رکھا جائے توانسان کبھی بھی مسائل کاشکار نہیں ہوں گے ۔اور جب بھی اس کو نظرانداز کیا گیاہےتو انسان ہی اذیت کا شکار ہوا ہے۔

مغرب میں آزادی اظہار ِ رائے قدیم و جدید تناظر میں

جب یورپ میں کلیسا کی حکمرانی تھی تو آزادی اظہار ِ رائےکے بہت برے نتائج نکلا کرتے تھے،جس سائنس کی بدولت مغرب نے ترقی کی ہے ،اس راستے میں گلیلیو جیسے عظیم بڑے بڑے دماغوں کی قربانیاں شامل ہیں اوران کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ صدیوں کا ‘وچ ہنٹ’ کلیسا کے مظالم کی ایک چھوٹی سی مثال ہے ،جس نے مغربی اقوام کو آزادی اظہارپر پابندی اور ظلم و جبر کو ایک ہی سکے کے دو رخ سمجھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اسی لیے انہوں نے اپنے دساتیر ،قوانین اور آئینوں میں آزادی اظہارِرائے کو بنیادی حیثیت دی ہے۔ قیام امریکہ کے بنیادی مقاصد میں کہا گیاہے کہ یہ وطن یورپ سے بھاگ کر آنےوالےان مسافروں’پلگرمز‘ کی بدولت وجود میں آیا جو کلیسا کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر نئی دنیا میں پناہ لینے آئے تھے۔ لہذا یہ قرار پایا کہ یہاں انہیں تحریر و تقریر، مذہب اورعقیدے کی مکمل آزادی ہوگی۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آزادی اظہارِرائے کا تعلق مغربی تہذیب کے ارتقا سے ہے ،جو اس کو اس معاشرت کا بنیادی عنصربناتی ہے۔

مغربی دنیا کے دساتیر اور کوڈوں میں آزادی اظہار رائے کا بہت ہی واضح طور پر ذکر موجود ہے۔ اور اس کی ایک خوبی اور ترقی کی راز بھی ہے۔اس کی وضاحت سےنہ صرف باہمی عزت ،محبت کا ماحول بنتا ہے،بلکہ امن و سلامتی بھی میسر آتی ہے۔اس لیے ان ممالک میں آزادی اظہار رائے کی حدود کے تعین کابھی تذکرہ موجود ہے۔مثلاً :افریقی چارٹر برائے انسانی اور عوامی حقوق آرٹیکل 9 ،[37]آسیان ڈیکلریشن برائے انسانی حقوق آرٹیکل 23[38]، یورپیئن کنونشن برائے انسانی حقوق آرٹیکل10[39]،ساؤتھ افریقن آئین سیکشن 16 [40]،کینیڈین کریمینل کوڈ سیکشن 319 [41](2) ،کریمینل کوڈ آف نیدرزلینڈ آرٹیکل137 [42]بلجئیم اینٹی ریس ازم لاء [43]وغیرہ جتنے بھی دساتیر کے آزادی سے متعلق دفعات اور سیکشنز ہیں ، سب میں کسی کے ساتھ مذہب ، جنس،یا رنگ و ثقافت،نسل وغیرہ کی بنیاد پر،نفرت کو ہوا دینا،ہتک امیز وریہ رکھناممنوع ہےاور اسے جرم قرار دی گیا ہے۔

لیکن ایک عرصے سےیہ بات محسوس کی جارہی ہے کہ مغربی اقوام اپنے دعوی ٰاور پروگرام سے منحرف ہوکر بنیادی آزادیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں مصروف ہیں ۔ اس بات کا اندازامغربی لیڈروں کے بیانات سے لگانا مشکل نہیں ہے۔ اس سلسلے میں اٹلی کے وزیر اعظم ” برلسكونی “ نے 26 ستمبر 2001م کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا :” مغربی معاشرہ اسلامی تہذیب سے فائق ہے اور مغربی تہذیب کو اسلامی تہذیب پر برتری حاصل ہونی چاہئے جو ضروری بھی ہے کیونکہ اسلامی تہذیب میں نہ کوئی آزادی ہے اورنہ انسانی حقوق کا لحاظ۔۔۔ جب کہ مغرب اس کو عام کر رہا ہے۔ “[44]موصوف وزیر اعظم ” برلسكونی “ کوئی عام آدمی نہیں ہے بلکہ ایک ذمہ دار فرد کی حیثیت سے وہ اپنا بیان ریکارڈ کر ا رہا ہے لیکن افسوس کہ ان کے بیان سے جہالت جھلک رہی ہے ، جو اسلام ا ورمسلمانوں کو آزادی کے دشمن گردانتا ہے۔ جس طرح یہ بات واضح ہےکہ اسلام عقیدہ اور مذہب کے ضمن میں کسی پر کوئی پابندی نہیں لگاتا بلکہ آزادی کی طرف دعوت دی ہے کہ کوئی بھی شخص کوئی مذہب چاہے اختیار کرے جو"لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ"[45]سےیہ بالکل واضح ہے۔تاہم اسلام اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ جوجس طرح چاہے اسلام کے اندرمداخلت کرے ۔

اسی طرح اسلام سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے ”إِدموند شتويبر“ جو جرمنی کی مسیحی جماعت کےرئیس اور ضلع ”بافاريا“ کا وزیر بھی ہے ؛ ”بيلد“ اسرائیل نوازمجلہ کو انٹرویو دیتےہوئےکہتاہے: ” عیسائیت اسلام سے تعصب ، رواداری ، دینی آزادی اور مرد وعورت کے کامل مساوات اور زبردستی کی شادی میں بہت ہی مختلف ہے۔ اسی طرح مسیحیت اسلام کے بالمقابل انسان کوایک آزاد فرد تصور کرتی ہے، جس کی قدرو قیمت ہے،اسےحریت اور مساوات کا کامل حق ہے۔ “ [46]

موصوف مسیحی لیڈر کےاس دورے کے بعد بش نے ان تصریحات کی توثیق کی۔ گویا یہ اتفاقی بات نہیں تھی بلکہ اسلام کے خلاف مغرب کااجماعی اورایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے ۔مغربی اور یورپی دنیا میں اسلام پر تعصب ، عدم رواداری کا الزام لگایا جارہا ہے جو خود آج کل کے تناظر میں ان پر فٹ ہوتاہے، کیونکہ آج پوری مغربی و یورپی دنیا میں اسلام کے خلاف زہر پھیلایا جارہاہے ۔کبھی انتہاپسندی اور کبھی دہشت گردی کے نام پر۔ حالانکہ مسلمان بے دست وپا ہے نہ ان کے پاس وہ ظاہری ومعنوی قوت ہے کہ جس کےبنیاد پر کہا جائے کہ انہوں نے فلاں جگہ دہشت گردی کی اور کسی پر ظلم ڈھایا ۔ اس کے مقابلے میں آج ہر جگہ ایٹمی قوتوں اور نیٹو و مغربی ممالک نے دنیا میں خون خرابےکا بازار گرم کیا ہوا ہے ۔

امریکہ کے موجودہ صدر ٹرمپ نےمسلمانوں کے خلاف اپنے ہی ملک میں ایک طوفان برپاکیا اورانتہاپسندی کی طرف دعوت دی ۔ان تمام تر الزامات کی ایک ہی وجہ ہے کہ ہر طرح سے کمزوری کے باوجود دین اسلام جو الہامی تعلیمات کا مہیمن ہے ،تیزی کے ساتھ خود ان کے ممالک میں پھیل رہا ہے۔اظہار ِ رائے کی یہ آزادی ٹرمپ جیسے لیڈروں کے لیے قابل ِ قبول نہیں ۔لہذا مسلمانوں پر طرح طرح پابندیاں لگانے کےمطالبے وقتا فوقتا کئے جارہے ہیں ۔

اس تناظر میں اس کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ ان بے چاروں کے اوپر تعصب ، ہٹ دھرمی اور دہشت سوار ہے ،جو ان کو دہشت گردی، انتہاپسندی اور ظلم وبربریت پر ابھار رہے ہیں ۔نہ ان کو الہامی تعلیمات سے کوئی سروکار ہے اور نہ اپنے بنائے ہوئے چارٹروں کا کوئی پاس ولحاظ ۔ الہامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ وہ اپنے دستورں کی بھی دھجیاں اڑائے جا رہے ہیں ،جس سےوہ انسانی حقوق اور آزادیاں پامال کر رہے ہیں ۔

بنیادی انسانی حقوق کی این جی اوز اورآزادی اظہار رائے

آزادی اظہار ِ رائےیا 'فریڈم آف اسپیچ اینڈ ایکسپریشن' اسلامی والہامی اور جدید مغربی دساتیر کی روشنی میں بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک ہے۔اور جن کےلیےقومی وبین الاقوامی تنظیمیں اور این جی اوزبنی ہوئی ہیں اور عرصہ دراز سے اس کےحصول کےلیے دنیا میں کوشاں ہیں ۔ تاہم اس بنیادی انسانی حق (آزادی رائے) کی پاسداری کے لیے یہ تنظیمیں مغربی نقطہ نگاہ سےکام تو کر سکتی ہیں ،لیکن مسلمانوں کی حق میں اس آزادی کی حمایت نہیں کی جاسکتی ۔ اس کے لیے کسی مثال کی بھی ضرورت نہیں جوایک حقیقت ہے ۔* بہتر (72) سال ہوگئے کشمیریوں کو آزادی کا حق نہیں دلوایا جاسکا ۔بلکہ تادمِ تحریرکشمیری بےچارے65 دنوں سےمودی سرکار کےکرفیومیں زندگی کےسانس لے رہے ہیں ۔اس صورتحال میں دنیا کے کسی این جی اوزکا یہ فرض نہیں بنتا کہ ان کے حق میں کوئی آوازبلند کریں، جوبنیادی انسانی حقوق اور آزادی اظہاررائےوغیرہ کےنام پرلاکھوں کروڑوں کا بجٹ ہضم کرہرے ہیں ۔

  • افغانستان کو کھنڈر بنایا جاسکتا ہے ، اس میں بین الاقوامی این جی اوز کردار بھی ادا کرسکتے ہیں ،مگر افغانیوں کی آزادی کے یہ این جی اوز ان کے دین و مذہب اور عقیدہ کےبنیادرپرقائل ہی نہیں ہیں ۔
  • عراق کو اسی طرح بےبنیاد الزامات کےبنیادپرتباہ کیا گیا لیکن عراقیوں کواپنے نقطہ نگاہ سے آزادی نہیں دی جاسکتی ۔
  • مصر کےجمہوری وشرعی (محمدمرسی)حکومت کوغمال بنانے اوراسےختم کرنے کے لیے بین الاقوامی این جی اوز کردار ادا کرسکتے ہیں ، لیکن ان کے نقطہ نگاہ سے انہیں آزادی نہیں دی جاسکتی ۔
  • آزادی بنیادی انسانی حق ہے ۔عورت کو عورت سےاور مرد کو مردسے شادی کا حق بھی دیا جاسکتا ہے، لیکن فرانس میں اور اسی طرح دیگر مغربی ویورپی ممالک میں مسلمان عورت کواپنی نقطہ نگا سےنقاب وحجاب کی آزادی نہیں دی جاسکتی
  • کشمیر میں ظلم کی انتہا سب کے سامنے ہے ،وقتا فوقتا ان پر کرفیو لگانا،جس سےان کامال و املاک تباہ ہوااور نسل کشی ہوئی،لیکن ان کو نہ توبین الاقومی دساتیرکی رو سےاورنہ ان کواپنی نقطہ نگاہ سے آزادی دی جاسکتی۔اور نہ ان کی اس انسانی حق کی حمایت کی جاسکتی ہے۔
  • اسی طرح فلسطین اوربرمی مسلمانوں کی انسانی حقوق کی بھی حمایت بھی نہیں کی جاسکتی اورنہ ان کوآزادی دی جاسکتی ۔ وعلی ھذا لاقیاس موجودہ عالمی قریہ میں ہر شعبہ اور ہر کام کی نوعیت میں اس قدر تیزی آگئی ہے کہ کسی بھی حوالے سےحقائق سے انکار ممکن نہیں۔اس تناظر میں بین الاقوامی تنظیمات کے کام کا جائزہ لینا بھی کوئی مشکل کام نہیں رہاہے ۔

اسلام سے پہلے خصوصاً اور خلافت ِ اسلامیہ کےانقراض کےبعد عموماً اورآج ایک مرتبہ پھردنیا میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں بڑے پیمانےپرجاری وساری ہیں،جن میں مغربی دنیا کا تناسب اور حصہ سب سے زیادہ ہے ، جس سے انکار ممکن نہیں۔اس دور میں 'فریڈم آف اسپیچ اینڈ ایکسپریشن' کا معنی یہ سمجھ لیا گیا ہےکہ زور آورممالک اور ان کے ہمنوادوسروں کو گالیاں دیں، تذلیل و بدنام کریں اور تہمتیں لگائیں تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔جو کمزور ہیں ان پر یہ فرض ہے کہ وہ امنا و صدقنا کہ کرسنیں اوراطاعت اختیار کریں ۔ان احوال میں باری تعالیٰ کا یہ فرمان ہی مناسب ہے :"جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں درآں حال یہ کہ ہم انھیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں ، یقین جانو کہ اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں "[47]

انسانی حقوق کا عالمی منشوراقوامِ متحدہ نے 1948ءمیں منظور کیا۔دیگر باتوں کے علاوہ موضوع زیربحث سےمتعلق اس میں درج ذیل حقوق کاتذکرہ ملتا ہے:* تمام انسان آزاد ہیں اور حقوق وعزّت کے لحاظ سے برابری رکھتے ہیں ۔

  • تمام انسانوں کے لئے قطع نظر مذہب ،نسل، جنس،سیاسی سوچ اور قومیّت کےایک جیسے انسانی حقوق ہیں۔
  • سب انسان آزادی اور ذاتی تحفظ کا حق رکھتے ہیں۔
  • ہر قسم کا تشدّد ممنو ع ہے ۔
  • تمام انسان تحفظ کاقانونی حق رکھتے ہیں، علاوہ ازیں آزادی کے تحدید کا ذکردفعہ ۲۹ :۲ میں یوں ملتا ہے:

"اپنی آزادی اور حقوق سے فائدہ اٹھانے میں ہر شخص صرف ایسی حدود کا پابند ہوگا، جو دوسروں کی آزادیوں اور حقوق کو تسلیم کرانے اور ان کا احترام کرانے کی غرض سے یا جمہوری نظام میں اخلاق ، امن عامہ اور عام فلاح و بہبود کے مناسب لوازمات کو پورا کرنے کے لئے قانون کی طرف سے عائد کئے گئے ہیں " [48]

اس عالمی دستور کے رو سے: تمام انسان آزاد اورعزّت ، تحفظِ مذہب،نسل، جنس، قوم اور آزادی اظہارِ رائے کے اعتبار سے برابر حق رکھتے ہیں،لیکن دنیا میں اس دعوی کے باوجود بنیادی انسانی حقوق پامال ہورہےہیں، جو اس دور کے باشعور انسان کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے ۔اس سے عہدہ براں ہونا تمام دنیا کے انسانوں کی ذمہ داری ہے ۔بطورِ خصوصی وہ تنظیمات اور این جی اوز اس ضمن میں درجہ اول کے ذمہ دار ہیں جو بنیادی انسانی حقوق اور آزادی کےقیام کا یبڑا اٹھائے ہوئے ہیں ۔

لیکن مقام ِافسوس ہے! کہ نہ صرف پرنٹ میڈیا پر بلکہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر رائے کی آزادی کے نام پر مسلمانوں کے خلاف بڑی بے رحمی اوربےدردی سے تعصب اور منافرت کوپھیلایا جارہا ہے ۔اس کی روک تھام کے لیے مناسب اور راس قدام نہ اٹھانا نہ صرف یہ تاثر دیتا ہے کہ انسانی حقوق کے لیے بنی ہوئی یہ تمام تنظیمیں اور این جی اوز ڈراما ہیں بلکہ یہ بھی صحیح ہے کہ یہ ساری تنظیمیں دو رنگی و منافقت سےکام لےرہے ہیں ۔ ظاہری حالات بتا رہے ہیں کہ جب معاملہ مسلمانوں کے خلاف ہو، توواقعات رونما ہونے سے پہلے ہی اس کےلیےمنصوبہ بندی کی جاتی ہے اور دنیا بھر کی این جی اوز اس پراودھم مچاتی ہیں ۔لیکن جب حادثہ اورواقعہ مسلمانوں کے حق میں ہوتاہے تومعاملے کو بہت ہی ہلکا بنا دیا جاتا ہے اور دیگر عنوانات کے علاوہ آزادی اظہار ِ رائے کےنام نظر کیا جاتا ہے۔

ان این جی اوز کے تحت وقتاً فوقتاً بنیادی انسانی حقوق اور آزادی اظہار ِ رائے کے نام سے کانفرنسیں ،سیمینارز اور اجتماعات منعقد کئے جاتے ہیں اورقوموں کی چیرٹیز(خیرات) کو ان پر پانی کی طرح بہایا جاتا ہے ،لیکن کسی قسم کی تباہ کاری اوربدحالی کو نہیں روکا جا سکا ، بلکہ یہ شعر ان پر صادق آتاہے :

"مریض عشق پہ رحمت خدا کی مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی "[49]

اس روش کے خلاف ، یورپ میں انسانی حقوق اور ہر ایک کے لیے برابری کی بنیادوں پر اُن کے دین و دھرم اور قومیت  و ثقافت کا احترام کرائے جانے کے لیے متحرک  یورپی تنظیمیں دن رات کام کر رہی ہیں جن میں"OSCE" نامی ستاون(57) ملکوں کے نمائندوں پر مشتمل تنظیم سر فہرست ہے ۔ مذکورہ تنظیم نے عرصہ پہلے ویانا میں" اظہار رائے " کی طریقوں کا جائزہ لینے اور انٹرنیٹ پر مسلمانوں کے خلاف بطور خاص نفرت پھیلائے جانے کے محرکات اور ان کے سد باب کے لیے ممکنہ اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے ایک دو روزہ کانفرنس کا بطور خاص بندوبست کیا ۔ جس میں تنظیم کے رکن ممالک کے نمائندوں کے علاوہ یورپی سول سوسائیٹی اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی متعدد دوسری یورپی و عالمی تنظیموں کے نمائندوں نےشمولیت کی۔نفرنس میں ڈنمارک سمیت یورپی یونین کےرکن ممالک میں نسلی تعصب کے خلاف جدوجہد کرنے والی تنظم” اینار“کے چیئرپرسن پاکستانی نژاد باشی قریشی نے اپنی تنظیم کی نمائندگی کرتے ہوئے یورپ میں اظہار رائے کی آزادی کے نام پر مسلمانوں کے مخالف اُن رویوں کو بطور خاص اجاگر کیا جو انٹرنیٹ پر روز مرہ کا معمول بن چکا ہے اور جن میں بڑی بے شرمی سے محض مفروضوں کی بنا پرمسلمانوں کے دین ، تمدن اور ثقافت کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔

سویٹزرلینڈ کی سربراہی میں ”OSCE“اور ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ اینڈ ہیومن رائٹس ’’ او ڈی آئی ایچ آر ‘‘ کی اس مشترکہ کانفرنس میں ایک سو سے زائد مندوبین نے، بنیادی انسانی حقوق اور ذمہ داریوں کے حوالے سے” آزادی اظہار رائے “ پر غور وخوض کیا گیااور آپس میں تجربات کی روشنی میں نسلی تعصب کے خلاف اقدامات پر روشنی ڈالی تاکہ عالمگیر سطح پر انسانی حقوق کا تحفظ اور افراد کی شخصی آزادی کا احترام کیا جا سکے اور انہیں محفوظ بھی بنایا جا سکے۔کانفرنس میں اقوامِ عالم کے کمشنر برائے حقوق ِ انسانی ناوی پیلے نے افتتاحی خطاب میں کہا کہ:”اظہار رائے کی آزادی کے حق کے بیجا استعمال نےدوسروں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو مجروح کیا ہے“[50]

EMISCO“ نامی تنظیم نے’ ‘OSCEاورODIHR’ ‘ دونوں تنظیموں کے ساتھ مل کر پچھلے کئی سالوں سے مشترکہ طور پر یورپی سطح پر مردم آگاہی کے لیے کئی پروگرام شروع کر رکھے ہیں جن میں غیر سرکاری یعنی این جی اوز مسلم تنظیموں کو ”ہیٹ کرائمز “ کے خلاف آگاہی اور تدارک کی تربیت دینا بھی شامل ہے ۔ اس مقصد کی حصول کے لیے یورپی پارلیمنٹ ،یورپی کونسل کے ارکان کے علاوہ یونیسکو اور اقوام متحدہ کے نمائندگان پر مشتمل کئی کانفرنسیں بھی منعقد کر چکی ہے اور ہنوزیہ کام جاری ہے۔

یورپ میں نسلی تعصب کے خلاف متحرک تنظیم ”اینار “اور یورپی سماج میں ہر سطح پر مسلمانوں کی سوشل ہم آہنگی و برابری کے لیے اقدامات کرلینے والی تنظیم EMISCO“ کی  نمائندگی کرتے ہوئےتنظیم کے سیکریٹری باشی قریشی نے کانفرنس کے مندوبین کو بتایا کہ ان کی تنظیمات اظہار رائے کی آزادی کو چیلنج نہیں کرنا چاہتیں کیونکہ یہ بنیادی حقوق کے فروغ کے لیے بہت اہم ہے لیکن یہ بات یاد رکھنی اور سامنے لانی چاہیئے کہ اظہار رائے کی آزادی کے نام پر مسلمانوں کو کس انداز اور کن طریقوں سے انٹرنیٹ ، ذرائع ابلاغ ، اخبارات، ریڈیو اور ٹیلیویژن کےاوپرزبان و تحریرکےذریعےہراساں کیا جاتا ہے۔مفروضوں کی بنیادوں پر الزام تراشی کی جاتی ہے۔یوں انہیں ذہناًوجسماً ہراساں کیا جاتا ہے ۔ انہیں کئی یورپی اور خاص کر مغربی یورپی ممالک میں بطوردشمن پیش کیا جاتا ہے۔ باشی قریشی نے مغربی میڈیا کےاندرمسلمانوں کے بارے میں رپورٹنگ کرتےہوئے بڑےوضاحت سے کہا ہےکہ  وہ مغربی صحافی جو ”اظہار خیال“کی آزادی پر اپنی اجارہ داری سمجھتے ہیں اکثر و بیشتر وہی صحافی اسلام مخالف رجحان کو ہوا دیتے اور پھیلاتے ہیں ۔ [51]

اسی طرح”اسلامو فوبیا “کی اصطلاح کےکھلے عام استعمال کے ذریعے مغربی دنیا میں مسلمانوں کی تذلیل کی جاتی ہے ، حالانکہ عالمی منشور کے مطابق کسی کی دل آزاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں سے ہے،جس کی بحالی کے لیے حقوق ِانسانی کی تنظیمیں سرگرم ِ عمل ہیں ، تاہم وہ تمام ان ظالمانہ رویوں کے روک تھام میں ناکام نظر آتی ہیں ۔ یا یہ کہ وہ جان بوجھ کر منافقانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔کیونکہ مغربی ویورپی معاشرےمیں کانفرنسوں ،سیمیناروں اور اجتماعات کا انعقاد اور ان میں سفارشات پیش کرنا ایک فیشن بن چکا ہے ،ورنہ کسی بھی یورپی اور مغربی ملک میں آزادی اظہار ِ رائے مطلق نہیں، بلکہ مقید ہے ،حتی کہ اقوام ِ متحدہ عالمی منشور میں بھی یہ آزادی مقید ہے، جیسا کہ دفعہ نمبر ۲۹(۲) میں ذکر ہے ۔اور اسی طرح ہر ملک کے قانوں میں مطلق العنان آزادی کا تصور نہیں ورنہ انسانی معاشرہ انتہائی تنگی اور پریشانی کا شکار ہو جائے گا ۔

ناروے میں آزادی اظہارِ رائے کی آزادی ہے، لیکن اس کے باوجو د انسان کے لکھنے اور کہنے کی آزادی اور دوسروں کے بارے میں بْرے خیالات کے اظہار کے درمیان ایک حد مقررہے۔ اسی لیےان کے کچھ قوانین ہیں جو آزادیِ اظہارِ رائے کی حدود کا تعیّن کرتے ہیں۔ مثلاً وہاں پبلک بحث مباحثوں میں نسلی تعصب اور متعصّبانہ خیالات کے زبانی اور تحریری اظہار کی اجازت نہیں۔اسی طرح کسی کو اس کی مذہبی وابستگی کی وجہ سے اذا رسانی یا سزا کی اجازت نہیں۔ جتنا اہم ہرکسی کے لیے اپنےمذہب اور نظریہ حیات کے ا نتخاب کا حق ہے، اسی طرح کسی مذہب اور نظریہ حیات سے تعلق نہ رکھنے کی بھی ایسی ہی آزادی ہے۔ اگر کوئی دانستہ یا ا نتہائی غفلت میں عوامی سطح پر تعصباتی یا نفرت انگیز خیالات کا اظہار کرے تو اسے جرمانے یا قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔[52]

لہذا ثابت ہوا کہ مغرب کے ہاں آزادی اظہار رائے کاجو تصور پایا جاتاہے اس میں منافقت اورتضاد پایاجاتا ہے۔ ایک طرف ان کے ہاں عملًا اظہار رائے کی آزادی کی کوئی حدود نہیں، چنانچہ چغل خوری، عیب جوئی، تمسخر، مذاق وغیرہ وہاں معمول ہے۔ دوسرا آزادی اظہار رائے کے نام پر جو چیزیں وہ خود پسند نہیں کرتے مسلمانوں سے ان کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مثلاً ہولوکاسٹ پر بات کرنا، دونوں جنگ عظیم میں ہلاک ہونے والے لوگوں پر بات کرنا، امریکہ کے قومی پرچم ، قومی پرندے کی قید ، عدلیہ اور دیگر بعض دفاعی اداروں پر بات کرنا جرم سمجھاجاتاہے۔ کینیڈا کے قانون میں عیسائیت کی توہین وتنقیص جرم ہے۔ جبکہ دوسری طرف مسلمانوں کو پیغمبر اسلام کی توہین پر عدم برداشت کا طعنہ دیا جاتاہے۔ مغرب کی دوغلی پالیسی کا اندازہ ان مثالوں سے بخوبی لگایاجاسکتاہےکہ ایک مرتبہ آسٹریلیا میں ایک مراکشی عالم نے تنگ وچست لباس پر بات کی تو پورا آسٹریلیا ان کے خلاف ہوگیا۔

27 جنوری 2003 میں ٹیلی گراف اخبارنے اسرائیلی وزیر اعظم کا خاکہ شائع کیا جس میں فلسطینی بچوں کی کھوپڑیاں کھاتا ہوادکھائے دیا تھا۔ اس پر اسرائیل اور ان کے ہمنواوں نے ہنگامہ کھڑا کردیا جس پر اخبار نے معذرت کی۔اسی طرح ایک مرتبہ اٹلی کے وزیراعظم نے حضرت عیسیٰ ؑکے مشابہ حکومت کی بات کی تو پورا یورپ ان کے خلاف ہوگیا۔ آزادی اظہار رائے کے نام نہاد علمبردار امریکہ کاحال یہ ہے کہ وہاں لوگوں کے فون تک ٹیپ کیے جاتے ہیں۔ آزادی اظہار رائے کے نام پر امریکہ کے غیرمنصفانہ اخلاق کا اندازہ اس واقعہ سے ہوسکتاہےکہ جب لیبیا میں توہین قرآن اورتوہین رسالت ﷺکا واقعہ ہوا تومشتعل مظاہرین نے امریکی ایمبیسی میں آگ لگادی اور چندامریکی مارے گئے۔ جس کے فوری بعد اقوام متحدہ کا اجلاس بلایا گیا، اجلاس سے خطاب کے دوران امریکی صدر نے کہا کہ ”توہین رسالت ﷺوتوہین قرآن آزادی اظہار رائے کی ایک شکل ہے۔ امریکی آئین اسے تحفظ دیتاہے۔ امریکی اکثریت عیسائی ہے ، ہم باوجود عیسائی ہونے کے عیسیٰ ؑ کی توہین پر قدغن نہیں لگاسکتے“۔ پیغمبروں اورمقدس شعائر کی توہین تو انہیں قابل برداشت ہے،تاہم امریکہ کے قومی پرچم، قومی پرندے کی قید اور عدالتوں کی توہین پر سزائیں اور جرمانے ہیں۔ ابھی حال ہی کا واقعہ ہے کہ امریکہ میں ایک ڈینٹل ڈاکٹر کو حجاب پہننے پر نوکری سے برطرف کردیاگیا، فرانس اور جرمنی میں حجاب پر پابندی تو پوری دنیا کے سامنے ہے۔ ان مثالوں سے با آسانی فیصلہ کیا جاسکتاہے کہ اظہاررائے، عمل اور مذہب کی جس آزادی کا ڈھنڈورا اقوام متحدہ ، یورپ اور امریکہ پیٹتاہے وہ صرف ایک دھوکہ ہے۔لیکن افسوس یہ ہے کہ ہمارے ہاں بعض سیکولر اور لبرل دانشور مغرب کے اس دھوکے میں آکر اسلام پسندوں کو شدت پسندی کا طعنہ دیتے ہیں کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کے خلاف ہیں۔ حالانکہ کوئی بھی منصف مزاج مسلمان اس کے خلاف نہیں، بلکہ آزادی کاحامی ہےلیکن اسلام اعتدال پسند ہے، فساد کے خلاف ہے، چنانچہ اسلام نے رائے کی آزادی کے ساتھ یہ فلسفہ بھی پیش کیا کہ وہ رائے دینے میں حیوانوں کی طرح بے مہار نہیں، بلکہ اس کی کچھ حدود ہیں۔[53]جن پر تنبیہ کرتے ہوئے اللہ نےارشاد فرمایا: مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ۔ [54]" انسان کوئی لفظ زبان سے نکال نہیں پاتا مگر اس پر نگران مقرر ہوتا ہے " جبکہ نبی مہربان نے اپنی ایک حدیث میں فرمایا جس کے راوی خَالِدُ بْنُ أَبِي عِمْرَانَ کہتے ہیں کہ:" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى ﷺ أَمْسَكَ لِسَانَهُ طَوِيلًا، ثُمَّ أَرْسَلَهُ، ثُمَّ قَالَ" : «أَتَخَوَّفُ عَلَيْكُمْ هَذَا، رَحِمَ اللَّهُ عَبْدًا قَالَ خَيْرًا وَغَنِمَ، أَوْ سَكَتْ عَنْ سُوءٍ فَسَلِمَ"[55] "یقین کرلو نبیﷺ نے اپنی زبان کو کافی دیر تک پکڑے رکھا، پھر چھوڑا اور فرمایا: میں تمہارے اوپر اس کے شر سے ڈرتا ہوں۔ اللہ نےاس بندے پر رحم کیا جس نے خیر کی بات کی اور اسے غنیمت جانا یا بری بات نہ کہنے سےخاموش رہا اور اس کی برائی سے محفوظ رہا" اسلام ایک ایسا دین ہے کہ نہ تو وہ برائی پر خاموشی اختیار کرنے کی اجازت دیتا ہے اور نہ مطلق اظہار ِ رائے کی ، بلکہ خیر و بھلائی عام کرنے اور برائی کوروکنے کا حکم دیتا ہے جو تمام انسانوں کی ضرورت اور خیر خواہی ہے ، لیکن مطلق العنانیت کےچاہنے والے اس بات کواور اس کی حکمت کو نہیں سمجھتے۔ بالفاظ دیگر وہ انسانیت کی خیر خواہی نہیں چاہتے، کیونکہ فحش گوئی، بے حیائی، برائی، بدکرداری،بدزبانی،دروغ گوئی، تہمت،الزام تراشی اور اس جیسے تمام رذائل اخلاق اور بے قید آزدای سےانسانوں کو فائدہ نہیں بلکہ نقصان پہنچتا ہے ۔لہذا اس کو عام کرنا ان کی بدخواہی ہے ۔

نتائج بحث

آزادی اظہار ِ رائے کا معاملہ ہو یا انسانی حقوق کا تذکرہ یا اس کے بارے میں اسلام کے فراہم کردہ دلائل کا تذکرہ کرنا انسانی سماج میں جاری ظلم و ناانصافی کا مداوانہیں کرسکتے، اورنہ مسلمانوں کی بدحالی کا علاج اس سے ممکن ہے۔ دنیا ئےانسانیت میں مسلمانوں کی بدحالی کاسبب ان کا کمزورہونا ہے۔اس کا علاج ناگزیرہے ۔سوائے اس کے کہ وہ اس کمزوری کا علاج کریں ،ان کی اور دیگر انسانوں کی بدحالی دور نہیں ہو سکتی اور وہ کمزوریاں بزدلی،بے حمیتی، بے اتفاقی، جہالت اور سب سے بڑکر دنیا سے محبت اور موت سے ڈر وخوف ہیں ۔ اگر ان کمزوریوں کا علاج ہوسکے تو پوری دنیا میں کوئی بھی فرد ہو یا ملک ،نہ تومسلمانوں پر اس قسم کے الزامات لگانےاور تشدد کی جرات کرسکے گا اور نہ دیگر قوموں اور مذاہب کے ساتھ زیادتی کرسکتا ہے۔کیونکہ وہ اپنے سامنےایک جرءت مند قوم کو کھڑاپائے گا۔

سفارشات

  1. آزادی اظہار رائے،عدل وانصاف اور انسانی حقوق کو یقینی بنانا محض وعظ و نصیحت سے ممکن نہیں ورنہ سید الکونین والثقلین ﷺ اور آپﷺ کے صحابہ کو 84 غزوات و سرایا کا سامنا نہ کرنا ہوتا۔
  2. عزم وہمت انسانی صفت اس لئے توہےکہ تمام تر مشکلاتِ راہ کو اس سے ہٹایا جائے، اب وقت پھرسے انسانوں کو اس کی طرف متوجہ کررہا ہے،کہ انسان ظلم کے خلاف نہ صرف نفرت کا اظہار کریں ،بلکہ صبرو عزم سےاس کےخلاف صفِ آراء ہوجائے۔
  3. ظلم و نا انصافی دنیا میں عام ہے، اس پر دلائل دینے کی قطعا ضرورت نہیں ،البتہ اب وقت ہے کہ ظلم اور ظالموں کے خلاف کھڑے ہونے والوں کےساتھ کمر ِہمت باندھا جائے۔

 

حوالہ جات

  1. إسماعيل بن عباد بن العباس الطالقانی،المحيط في اللغة (بیروت: عالم الكتب ،1994ء)، 1: 99۔
  2. ایضاً 2: 447۔
  3. http://www.newworldencyclopedia.org/entry/Freedom_of_Speech/, accessed on August 29, 2019.
  4. أحمد بن الحسين البيهقی ، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة( بيروت: دار الكتب العلمية،1405ھ)، 81۔
  5. https://treaties.un.org/doc/publication/unts/volume%20999/volume-999-i-14668-english.pdf, accessed on November 10, 2019.
  6. عبد العزيز بن عبد الله الحميدی،التاريخ الإسلامی مواقف وعبر( الإسكندرية: دار الدعوة، 1997ء)4: 110۔
  7. البيهقی ، دلائل النبوة ، 3 : 4
  8. علی محمد الصّلابی، السيرة النبوية دروس و عبر (ریاض : دارلسلام ،2000ء)1: 679۔
  9. القرآن 10: 78
  10. القرآن 11: 29
  11. محمد بن اسماعیل البخاری، الجامع الصحیح، كتاب البيوع ، باب كسب الرجل وعمله بيده ( قاہرة: دار الشعب، 1987ء)، حدیث نمبر: 1966 ، 2:730۔
  12. منير محمد الغضبان ، فقه السيرة (مکہ:جامعة أم القرى ،1992ء)، 93۔
  13. القرآن 18: 28
  14. عبد اللطيف بن علی القنطری ، فی سبيل العقيدة الإسلامية (قستنطينة: دار البعث للطباعة والنشر ،1982ء)، 1: 216۔
  15. الصلابی ، السيرة النبوية ، 1: 222۔
  16. القرآن 33: 57،58
  17. القرآن 9: 61
  18. القرآن 8: 13
  19. خروج :20: 1- 7
  20. احبار: 22: 23
  21. Leviticus 24:11-16
  22. احبار: 24: 13۔17
  23. Mathew: 12:31
  24. متی 12:31
  25. القرآن 4: 140
  26. القرآن 2: 159
  27. سلاطین:9: 6
  28. امثال :28: 9
  29. امثال :10: 29
  30. امثال :19: 37
  31. القرآن 11:49
  32. القرآن22: 32
  33. القرآن 22: 30
  34. احبار: 19: 30
  35. احبار: 22: 1
  36. احبار: 22: 9
  37. http://www.ohchr.org/EN/HRBodies/SP/Pages/Engagementwithotherintergovernmentalfora.aspx, accessed on November 27, 2019.
  38. http://www.asean.org/links-3-2/asean-related-sites/, accessed on November 27, 2019.
  39. "European Court of Human Rights," European Convention on Human Rights, Article 10, https://www.echr.coe.int/Documents/Convention_ENG.pdf, accessed on November 27, 2019.
  40. https://nationalgovernment.co.za/units/view/63/constitutional-court-of-south-africa, accessed on November 27, 2019.
  41. See further s 13(1) of the 1891 Human Rights Code of Ontario and s 2 of the 1984 Human Rights Act of British Columbia, as amended by the 1993 Human Rights Amendment Act. https://laws.justice.gc.ca/PDF/c-46.pdf, accessed on November 27, 2019.
  42. "Criminal Code Netherland Article 137," https://www.legislationline.org/documents/section/criminal-codes/country/12/Netherlands/show, accessed on November 27, 2019.
  43. "Belgium: Discrimination on the basis of race and national origin in the provision of goods," http://adapt.it/adapt-indice-a-z/wp-content/uploads/2014/04/discrimination_belgium_2013.pdf, accessed on November 27, 2019.
  44. أبو التراب سيد بن حسين العفاني، وَا مُحَمَّدَاهُ {إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ} (مصر: دار العفانی ، 2006ء )، 3: 229۔
  45. القرآن 2:256
  46. "جريدة الأسبوع"- مقال "حملة شرسة منظمة ضد الإسلام" العدد (497)،۷7 https://www.sana.sy/?p=396981 , accessed on November 27, 2019.
  47. القرآن 2: 159
  48. http://www.unhchr.ch/udhr/lang/urd.htm/, accesses on October 19, 2019.
  49. حبیب خان، افکار میر ،شعری مجموعہ میر تقی میر( دہلی: عبدالحق اکیڈمی،س۔ن)،۱۱۳۔
  50. http://www.bathak.com/world/freedom-of-expression-denmark-muslims-53179, accessed on November 27, 2019.
  51. ایضاً۔
  52. http://azadiizhar.blogspot.com/2018/02/blog-post.html, accessed on November 27, 2019.
  53. اظہار رائے کی آزادی پر (اسلام اور مغرب کا نقطہ نظر اور سائبرکرام بل)، مضمون: غلام نبی مدنی،17 اگست 2016۔ https://dailypakistan.com.pk/07-Aug-2016/425467
  54. القرآن 50:18
  55. عبد الله بن المبارك ، الزهد والرقائق ، تحقیق۔حبيب الرحمن الأعظمي (بیروت: دار الكتب العلمية ، س ۔ن ) ،1:128۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...