Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Milal: Journal of Religion and Thought > Volume 1 Issue 2 of Al-Milal: Journal of Religion and Thought

اسلامی ریاست کے خلاف سازشوں کے سدباب کے لئے راہنما اصول: مسجدِ ضرار کے انہدام کا فقہ السیرہ اور عصری قوانین کی روشنی میں تجزیاتی مطالعہ |
Al-Milal: Journal of Religion and Thought
Al-Milal: Journal of Religion and Thought

تمہید

ریاست کے خلاف سازش ایک مذموم عمل ہے، عصر حاضر میں اسلامی ریاستوں کے خلاف سازش تو ایک المیہ بن گیا ہے۔ عالم اسلام کے سرکردہ ممالک کے خلاف ایک منصوبے کے تحت کبھی بغاوت، تو کبھی فرقہ واریت کی شکل میں تحریکیں چلائی جاتی ہے۔ جس کا مقصد ان اسلامی ممالک کی بنیادیں کھوکھلا کردینا ہے۔اس قسم کی تخریبی کاروائیوں سے متاثر ریاستوں کے باسی سخت تکلیف اور پریشانی سے دو چار ہوا کرتے ہیں۔عراق، لیبیا ، فلسطین، ترک اور شام کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اب تو ہمارے پیارے وطن پاکستان اور ہمارے دینی مرکز سعودی عرب کے خلاف بھی اس قسم کی سازشیں کی جارہی ہیں،جس کا مشاہدہ ہم آئے روز کرتے آرہے ہیں۔ اس لئے عالم اسلام کےہر ملک اورہر ریاست کی حفاظت اور اس کے خلاف سازشوں کی روک تھام کے لئے مؤثر حکمت عملی اختیار کرنا چاہئے۔ قرآن وسنت سے اس بارے میں کافی راہنمائی ملتی ہے، نبی کریم ﷺکی عملی زندگی سے بھی ہمیں اس باب میں ایک مؤثر حکمت عملی اختیار کرنے کی ہدایات ملتی ہیں۔ اس لئے اس امر کی ضرورت ہے کہ دورِحاضر کے اس اہم مسئلے کے حل کے لئے ہم سیرت ِ طیبہ سے استفادہ کرکے وہی طریقہ کار اپنائیں، جو نبی کریم ﷺ نے مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست کے بچاؤ کے لئے اپنایا تھا۔

مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بعد رسول اللہ ﷺ نے یہاں ریاست کی ضرورت واہمیت کو مدنظر رکھ کر اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی۔ جس کے تمام نظام ہائے ریاست ایک قابل تقلید نمونہ ہیں، چاہے وہ عدالتی نظام ہو یا تعلیمی نظام، داخلی پالیسی ہو یا بین الاقوامی، معاشی نظام ہو یا دفاعی، ہر حوالے سے عہدِرسالت میں جو اصول وضع ہوئے ، وہ ایک معیاری ریاست کی بنیادی ضرورت ہے۔ نبی مکرم ﷺ مثالی ریاست قائم کرنے کے لئے جس طرح تدابیر اختیار فرماتے، اسی طرح ریاست کی حفاظت کے لئےبھی آپﷺ ہر موقع پر مؤثر حکمتِ عملی اختیار فرماتے تھے۔داخلی اور خارجی ہر طرح کی سازشوں کا ادراک کرکے اس کا قلع قمع کرتے۔ جس کی ایک مثال سیرت طیبہ میں مسجد ضرار کی تعمیر ہے۔ جو ظاہراً مسجد تھی لیکن حقیقتاً منافقین کے بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے مدینہ منورہ کے اسلامی ریاست میں رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے خلاف روم کی سازش کو کامیاب بنانے کی منصوبہ بندی تھی۔ اس حوالے سے منافقین یہ مقصد تھا کہ مسجدِ ضرار کو مرکز بنا کر اس سےپیغمبرﷺ، اُن کے متبعین صحابہ کرامؓ اور مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست کو نشانہ بنایا جائے۔ منافقین کی یہ سازش ناکام ہوئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اطلاع دی ، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو حکم دیا کہ وہ اس مسجد کو ڈھادیں اور جلاکر پیوندِزمین کریں۔ مسجدِ ضرار کا یہ واقعہ صرف عہد رسالت تک محدود نہیں بلکہ آنے والے ہر دور میں اس واقعہ نے عالمِ اسلام میں مختلف اسلامی ریاستوں کے خلاف سازشوں اور مذموم منصوبوں سے بچنے کے لئے وہ اصول وقوانین چھوڑ دئے،جو رہتی دنیا تک قابلِ عمل رہیں گے۔ ایک معاصر محقق دكتور علی محمد الصّلابی اس حوالے سے تحریر فرماتے ہیں: "إن مسجد الضرار ليس حادثة في المجتمع الإسلامي الأول وانقضت بل هي فكرة باقية، يخطط لها باختيار الأهداف العميقة، وتختار الوسائل الدقيقة لتنفيذها، وخططها تصب في التآمر على الإسلام وأهله بالتشويه وقلب الحقائق، والتشكيك، وزرع بذور الفتن لإبعاد الناس عن دينهم وإشغالهم بما يضرهم ويدمر مصيرهم الأخروي"[1]

ترجمہ: "مسجد ضرار کا واقعہ محض ابتدائی اسلامی معاشرہ کا کوئی حادثہ نہیں ہے جورونما ہوکرختم ہوا بلکہ یہ رہتی دنیا کے لئے ایک سوچ اور فکر کا نام ہے، یہ واقعہ گہرے اہداف کے حصول کے لئے طریقہ کار اور اس کے نفاذ کے لئے دقیق وسائل اختیار کرنے کی رہنمائی کرتا ہے، اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہونے والی سازشوں، دینی حقائق کو مسخ کرنے کی کاوشوں، مسلمانوں میں شک پھیلانے اور فتنوں کے بیج بونے کی کارروائیوں اور انہیں بے راہروی کی طرف لے جانے والے اقدامات اور اخروی بربادی کے اسباب اختیار کرنے کے خلاف منظم اقدامات کی راہنمائی کرتا ہے۔"

اس واقعہ سے ریاست کے خلاف مذموم سازشوں کی روک تھام کے حوالے سے کئی پہلو سامنے آتے ہیں،اس طرح عصر حاضر کی قومی اور بین الاقوامی قوانین میں بھی اس حوالے سے کئی شقیں ایسی ہیں جو ان اصول کی تائید کرتی ہیں، اس لئے اس آرٹیکل میں مسجدِ ضرار کے واقعہ کے تناظر میں اسلامی ریاست کے خلاف مذموم عزائم اور خطرناک منصوبہ بندیوں کی روک تھام کے لئے بعض اہم حکمت عملیوں اور احتیاطی تدابیر کی نشاندہی کی جائے گی، ساتھ ہی اسلامی ریاست کے بچاو میں واقعہ مسجدِ ضرار سے مستنبط اصول کی تائید میں عصری قوانین کا بھی تجزیہ پیش کیا جائے گا، تاہم اس سے پہلے ریاست کا تعارف بیان کیا جاتا ہے۔

سابقہ تحقیقات کا جائزہ

مسجدِ ضرار کا واقعہ قرآن اور سیرت دونوں سے تعلق رکھتا ہے، اس لئے اس واقعہ سے مسائل کے استنباط میں احکام القرآن کی تفاسیر اہم مصادر ہیں۔ أبو عبد الله محمد بن أحمدکی تفسیرقرطبی، ابوبکر جصاص کی تفسیر أحكام القرآن،امام رازي کی تفسير الكبير سمیت احکام القرآن کی تفاسیر میں اس واقعہ سے استنباطات کئے گئے ہیں، جو اس باب میں سابقہ کام ہے۔ جہاں تک سیرت کا تعلق ہے تو فقہ السیرہ کے عنوان سے جو کتابیں ہیں، وہ اس حوالے سے سابقہ کام ہے۔ محمد بن محمد ابو شهبہ کی السیرة النبوية فی ضوء القرآن والسنة، البوطي، محمد سعيد رمضان البوطی کی فقه السيرة، محمد بن عبد الوهاب کی زاد المعاد، علي بن نايف کی السيرة النبوية: دروس وعبر اور دكتور علي محمد الصّلابی کی "السيرة النبوية، دروس وعبر في تربية الأمة وبناء الدولة"جیسی کتابوں میں اس واقعہ کے ذیل میں مسائل اور احکام واصول کا استنباط کیا گیا ہے۔ اس موضوع یعنی "مسجد ضرار اور ریاستی اصولِ دفاع " پر مقالہ نگار کے معلومات کے مطابق نہ کوئی مستقل کتاب ہے اور نہ ہی آرٹیکل۔ مذکورہ تفاسیر اور فقہ السیرہ کی کتابوں سے اس مقالہ میں صرف ان اصول کو جمع کیا گیا ہے،جو ریاست کی دفاع سے متعلقہ ہیں، پھر ان اصول وقوانین کی تائید میں قومی اور بین الاقوامی قوانین کوبطورِ استشہاد پیش کیا گیا ۔ اس مقالے اور سابقہ کام میں فرق یہ ہے کہ سابقہ کام میں یہ اصولِ دفاع مختلف کتابوں میں بکھرےپڑےتھے، اس مقالے میں ان اصول کو جمع کیا گیا اور معاصر قومی اور بین الاقوامی قوانین سے اس کا تطبیقی مطالعہ پیش کیا گیا ہے، جو سابقہ کام میں نہیں ہے۔

ریاست کی تعریف

لفظ "ریاست" کا مادہ"راس" ہے، جس کو لفظ "رئیس" سے اخذ کی گئی ہے، جس کے معنیٰ ہیں: سردار، سربراہ۔ اس مادہ کے متعلق علامہ ابن منظور فرماتے ہیں:رَأَسَ القومَ صار رئيسَهم ومُقَدَّمَهم"[2] رَأَسَ القومَ کا معنیٰ ہے قوم کا رئیس اور سردار بننا"۔

ریاست کے معنیٰ ایسی معاشرتی تنظیم ہے، جس میں ایک یا ایک سے زیادہ افراد کی حاکمانہ سربراہی یا حاکمیت قائم ہو۔ انگلش میں ریاست کے لئے " State" کا لفظ استعمال ہوتا ہے، جو لاطینی زبان میں Status Rei Publicae سے ماخوذ ہے، جس کے معنیٰ "عوامی معاملات کا قیام" ہے۔ لاطینی اصطلاح کے دوسرے حصے میں ترمیم ہو کر انگریزی میں ری پبلک Republic یعنی جمہوریہ بن گیا۔[3]

یونانی فلسفی ارسطو کے مطابق ریاست شہروں اور دیہاتوں کا ایسا اتحاد ہے، جس کا مقصد ایک مکمل اور خود کفیل زندگی کا حصول ہے۔ جسے ہم بہتر اور باعزت زندگی سے تعبیر کرسکتے ہیں۔[4] ماہرِ عمرانیات میک آئیور ریاست کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے: "ریاست ایک انجمن ہے جو قانون کے ذریعے قائم ہوتی ہےاور اس قانون کو ایک ایسی حکومت نافذ کرتی ہے جو جابرانہ قوت کے ساتھ ایسا کرنے کی مُجاز ہو۔ اور ایک مخصوص علاقے کے لوگوں میں معاشرتی نظم کے عالمگیر خارجی حالات کو برقرار رکھتی ہے۔"[5]ماہرِ سیاسیات پروفیسر لاسکی کا کہنا ہے کہ "ریاست ایک علاقائی معاشرہ ہے جو حکومت اور رعایا میں منقسم ہوتا ہے اور جو مقررہ طبعی علاقے میں باقی تمام اداروں پر برتری رکھتا ہے"۔[6]اسلامی معاشرے میں ریاست محض چند ہئیتوں کا نام نہیں ہے جیسا کہ دیگر معاشروں میں ہوتا ہے بلکہ اسلامی معاشرے میں ریاست ایک نامیاتی وجود بن جاتی ہے، جس کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں عوام اور حکمرانوں کا ایک رابطہ اور تعلق ہوتا ہے :

It can scarcely be doubted that the government in an Islamic State is not merely a set of forms, but an organism intimately associated with the structure of society and the character and ideas of the governed, and there is a constant interplay between governors and governed.[7]

"اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی ریاست محض چند ہیئتوں کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک نامیاتی حقیقت ہے جو معاشرے کی ساخت، عوام کے کردار اور تصورات کے ساتھ براہِ راست وابستہ ہے اور اس میں عوام اور حکمرانوں کے درمیان ایک مستقل رابطہ اور تعلق کار موجود رہتا ہے۔"

خلاصہ یہ کہ ریاست سے مراد ایک ایسی معاشرتی تنظیم ہے جس میں ایک یا ایک سے زیادہ افراد کی حاکمانہ سربراہی قائم ہو، ریاست افراد پر مشتمل ایسا ادارہ ہوتا ہے جس کی تشکیل کے لئے ایک ایسی مستقل خطہ زمین کی ضرورت ہوتی ہے جہاں کچھ لوگ آباد ہوں، وہ خود مختار ہو، اور اس کے نظام کو چلانے کے لئے حکومت کا وجود لازمی ہوتا ہے۔ مختصراً یہ کہ چار عناصر "آبادی، خطہ زمین، حکومت اور حاکمیت" مل کر ایک ریاست کی تشکیل کرتے ہیں اور جب یہ ریاست قرآن و سنت کے اصول کے مطابق قائم ہو تو اسلامی ریاست کہلاتی ہے۔

مسجد ضرار کا تاریخی پس منظر

مدینہ کے قبیلہ خزرج سے تعلق رکھنے والے ابو عامر الراھب اس واقعہ کے بنیادی شخص تھے۔ عہد جاہلیت میں اس نے عیسائیت اختیار رکھی تھی۔ قبیلہ خزرج میں اس کی بڑی قدر کی جاتی تھی۔ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں مسلمانوں کی اجتماعیت قائم ہوگئی اور اسلام کا بول بالاہوگیا جس پر دیگر بہت سے حاسدین اور اسلام دشمنوں کی طرح ابو عامر بھی پریشان ہوئے اور کھل کر رسول اللہ ﷺ کی دشمنی پر اتر آئے۔ کچھ عرصہ بعد بھاگ کر مکہ مکرمہ کےکفار کے پاس پہنچے اور انھیں مسلمانوں کے خلاف جنگ پر اکساتے رہے۔ پھر جب اس نے دیکھا کہ مسلمانوں کا معاملہ مسلسل ترقی پذیرہے تو شاہِ روم ہرقل [8]کے پاس گئے۔[9] اس کے ساتھ قبیلہ ثقیف سے عبد بن یا لیل اور قبیلہ قیس سے علقمہ بن علاثہ بھی تھے، لیکن آخر الذکر دونوں حضرات نے واپس آکرنبی کریم ﷺ کے ساتھ بیعت کی اور مشرف بہ اسلام ہو ئے۔[10] جب کہ ابو عامر وہاں رہے اور نبی کریم ﷺ کے خلاف شاہِ روم سے مدد چاہی، ہرقل نے اس سے وعدہ کیا اور اپنے تعاون کی یقین د ہانی کی تو اس نے وہاں قیام اختیار کرکے منافقینِ مدینہ کی اپنی جماعت کو ہرقل کے وعدے کی خبر دی اور انھیں یہ حکم دیا:"ابنوا مسجداً واستعدوا بما استطعتم من قوة ومن سلاح فإني ذاهب إلى قيصر ملك الروم فآتي بجنود من الروم وأخرج محمداً وأصحابه۔"[11] یعنی"ایک مسجد بنا دیں اور اسلحے اور سامان کے اعتبار سے تیار ی کرلیں، میں روم کے بادشاہ قیصر کے پاس گیا ہوں، وہ روم سے ایک لشکر بھیجے گا اور میں (مدینہ منورہ سے )محمد ﷺ اور ان کےصحابہؓ کو نکالوں گا۔"

منافقین نے ابو عامر کے حکم پر اس سازشی منصوبے کی تکمیل کے لئے مسجد کی تعمیر شروع کی، اس مسجد کی تعمیر میں بارہ افراد نے حصہ لیا۔ علامہ عبد الرحمن سہيلی کے مطابق ان بارہ افراد میں خذام بن خالد ، معتب بن قشیر، ابو حبيبہ بن الأزعر، ثعلبہ بن حاطب ، عباد بن حنيف ، ابن عامر کی باندی اور اس کے دو بیٹے ، نبتل بن الحارث ، بحزج ، بجاد بن عثمان اوروديعہ بن ثابت شریک تھے۔[12] جب رسول اللہ ﷺ رجب 9ھ کو غزوہ تبوک کے لئے جا رہے تھے تو مسجد ضرار کی تحریک چلانے والے یہی لوگ آئے اور عرض کیا کہ ہم نے ان کمزور اور معذور لوگوں کے لئے مسجد بنائی ہے جو ٹھنڈی اور اندھیری رات میں مسجد نبوی ﷺ نہیں جاسکتے ہیں اس لئے ہم یہ پسند کرتے ہیں کہ آپ آئیں اور اس میں نماز پڑھائیں، آپ ﷺ نے فرمایا:"إني على جناح سفر وحال شغل، ولو قدمنا إن شاء الله أتيناكم فصلينا بكم فيه"[13] یعنی"میں ابھی پابہ رکاب ہوں اور مصروف ہوں اور اگر ہم واپس آئے تو ان شاءاللہ آپ کے پاس آوں گا اور آپ کے لئے اس (مسجد)میں نماز پڑھا دوں گا۔ نبی کریم ﷺ تبوک گئے، بیس دن تک وہاں قیام کرنے کے بعد جب واپس روانہ ہوئے تو ابھی راستے میں ذی اوان مقام ہی کو پہنچے تھےکہ جبرائیل علیہ السلام آئے اور یہ خبر دی کہ یہ مسجدمنافقین نے کفار اور مسلمانوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے کے مقصد سے بنائی ہے، چنانچہ نبی کریم ﷺ پر وحی نازل ہوئی ۔[14]"وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَى وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ"[15]یعنی "اور جنھوں نے ایک مسجد بنائی اسلام کو نقصان پہنچانے ، کفر کو تقویت دینے، اہل ایمان کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور ان لوگوں کے واسطے اڈا فراہم کرنے کی غرض سے جو اللہ اور اس کے رسول سے پہلے جنگ کر چکے ہیں اور یہ قسمیں کھائیں گےکہ ہم نے یہ کام صرف بھلائی کی غرض سے کیا تھا اور اللہ شاہد ہے کہ یہ بالکل جھوٹے ہیں۔" چنانچہ ان آیات کے نزول کے بعد نبی کریمﷺ نے مالک بن دخشمؓ اور معن بن عدی ؓ یا اس کے بھائی عاصم بن عدی ؓ کو بھیجا اور حکم دیا کہ اس مسجد کو منہدم کرکے جلادیں، یہ حضرات گئے اور اس مسجد کو جلاکر خاکستر بنادیا۔[16] اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست کو بیرونی سازشوں اور تخریب کاری سے بچانے کے لئے ہر قسم کے تدابیر اختیار کئے ، حتیٰ کہ اس سلسلے میں مسجد ڈھانے کا بھی حکم دیا۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ اگر کوئی شخص یا ٹیم کسی اسلامی ریاست کے خلاف سازش میں مصروفِ عمل ہو تو اس کے سدباب کے لئے ہر ممکن کوشش کرنا مسلمان حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔

اسلامی ریاست کے خلاف سازش اور مسجد ضرارکےمقاصدِ فاسدہ

سیرت طیبہ میں مسجد ضرار اسلامی ریاست کے خلاف ایک سازش بنانے والوں کے لئے ایک مثال ہے۔ منافقین نے روم کی افواج کو پناہ گاہ دینے کے لئے مسجد کا حیلہ بنایا، جیساکہ قرآن کریم سے معلوم ہورہا ہے، مذکورہ آیت میں اس مسجد کے چار اوصاف اور منافقین کے چار مقاصد بیان کئے گئے ہیں، پہلی وصف یہ کہ منافقین نے مسلمانوں کو ضرر پہنچانے کے لئے بنائی۔ دوسری یہ کہ اس مسجد سے اسلام تعلیمات پر شبہات کے ساتھ ساتھ پیغمبرِ اسلامﷺ پر لعن طعن کرنے کی تحریک اٹھے گی۔ تیسری مقصدیہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کیا جا سکے۔ اور چوتھی یہ کہ یہ اسلام مخالف لوگوں کی آماجگاہ ہوگی۔[17] اس طرح قومی اور بین الاقوامی قوانین میں بھی اس قسم کی سازشوں کے روک تھام کے قوانین موجود ہیں، جس سے کسی ریاست کی دفاع ممکن ہے، علمائے تفسیر اور اصحابِ سیر نے اس واقعہ سے ریاست کے حوالے سے جو احکام مستنبط کئے ہیں، جن کی تائید عصری قوانین سے بھی ہوتی ہیں، ان میں سے چند حسبِ ذیل ہیں:

1۔ ریاست کے خلاف سازش کا ادراک کرکے بے نقاب کرنا

ریاست کے خلاف سازش کا ادراک کرنا اور اسی سازش کو بے نقاب کرکےاس سے بچنے کے لئے مؤثر حکمِت عملی اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنا حکومت وقت کا فریضہ ہے۔رسول ہاشمی ﷺ نےمنافقین کی اس سازش سے تجاہل نہیں برتا بلکہ اس سلسلے میں وحی کے منتظر تھے، اور وحی کی روشنی میں موقف اختیار کرنے کا ارادہ تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اطلاع دی تو نبی کریم ﷺ نے اس سازش کا پردہ چاک کرکے اس کو آخری انجام تک پہنچانے کی تدبیر کی۔عالم عرب کے معروف سیرت نگار ڈاکٹر رمضان البوطی لکھتے ہیں:

وكان هذا الموقف هو الكشف عن حقيقة المنافقين وتعرية أهدافهم عن تلك الأقنعة التى ستروها بها، ثم هدم وتحريق ذلك البناء الذى زعموه مسجداً، وهم إنما بنوه مرصداً لنفاق المنافقين ومئلاً لتنظيم المكائد ضد المسلمين، وذريعة للتفريق بينهم، وإن قصة هذا الكيد الأخير من المنافقين مع القصص السابقة لنفاقهم وكيدهم - تعطينا صورة كاملة عن مجموع حكم الشريعة الإسلامية فى حقهم.[18]

ترجمہ:وہ موقف یہ تھا کہ منافقین کی حقیقت کو بے نقاب کردیا گیا، اور انھوں نے اپنے مقصدپر جو پردے ڈال رکھے تھے اس کوہٹایا گیا۔ پھر انھوں نے جس عمارت کے بارے میں مسجد ہونے کا دعوی کیا تھااسے جلا کر خاکستر کردینے کا حکم دیا۔ اس لئے کہ انھوں نے اس کی تعمیر اس مقصد سے کی تھی کہ اس کی آڑ میں منافقین کا نفاق چھپ جائے، وہاں سے مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیوں کو منظم کیا جاسکے اور ان کے درمیان پھوٹ ڈالی جاسکے۔ منافقین کی اس آخری سازش کے اس واقعے کو ان کے نفاق اور ریشہ دوانیوں کے گزشتہ واقعات لے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو ہمارے سامنے ان کے بارے میں اسلامی شریعت کے مجموعی حکم کی مکمل تصویر آجاتی ہے۔

ریاست کے خلاف جو لوگ سازش کرتے ہیں، مسجد ضرار کے مطالعے کی روشنی میں ان مجرموں کو قوم کے سامنے لانا چاہئے، اسلامی ممالک کا یہی طرز عمل ہے کہ وہ ان لوگوں کو میڈیا کے ذریعے قوم کو دکھاتے ہیں، الایہ کہ اگر کوئی نقصان ہو تو پھر ان کو میڈیا کی آنکھ دے دور رکھتے ہیں۔بین الاقوامی قوانین میں بھی اگر کسی مجرم کو ظاہر کرنے سے مسئلہ بنتا ہے تو قومی مفاد کی خاطر اس کو میڈیا سے چھپانا چاہئے، بین الاقوامی قوانین میں بھی یہ قانون موجود ہے، کہ جس منصوبے سے قومی تحفظ کو خطرہ لاحق ہو اس کو بے نقاب کرنا چاہئے، چنانچہ Tshwane principles [19]اس کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:

"Disclosure of the information must pose a real and identifiable risk of significant harm to a legitimate national security interest" [20]

"قومی تحفظ کی مفاد کے لئے حقیقی اور قابلِ شناخت خطرات کی نشاندہی کے بارے میں معلومات ونکشافات بے نقاب کرنا ضروری ہے۔"

2۔ حساس اداروں کا ملک میں بیرونی ایجنڈے کے خوشنماء نعروں پر اعتماد نہ کرنا

ریاست میں بعض اوقات اس طرح کے خوشنماء نعرے لگائے جاتے ہیں جس کا اشتہار میڈیا پر دیکھ کر یا سن کرلوگ متاثر ہوجاتے ہیں، مسجد ضرار کے واقعہ سے یہی ہدایات ملتی ہیں کہ یہ خوشنماء نعرے اکثر اوقات کلمة حق ارید به الباطل کے مصداق ہوتے ہیں۔اس لئے ان پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے ورنہ یہی نعرے اور یہی خوشنماء اشتہارات ریاست اور اس کے باسیوں کے لئے نقصان یا تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔مسجد ضرار کے محرکین نے بھی بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے جو اڈا بنایا اس کو مسجد سےموسوم کیا۔ مسجد کس قدر باعزت لفظ ہے اوراسلامی معاشرے میں لوگ مسجد کی بڑی عزت وتکریم کرتے ہیں۔ تو انھوں نے اس مقدس کلمے کو اپنے فاسد مقصد کے لئے استعمال کرنے کی ناکام کوشش کی۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ مسجد ضرار کے محرکین کے مقاصدِ فاسدہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

مقصود تو ان کا یہ تھا کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو سازشیں وہ کرنا چاہتے ہیں اس کے لئے ایک اڈا مہیا کریں۔ لیکن اس کو نام مسجد کا دیا تاکہ اس طرح پیغمبر ﷺ اور مسلمانوں پر اپنی دینداری کی دھونس بھی جمائیں اور اپنے مقاصد بھی پورے کرسکیں۔ اس کو مسلمانوں کی نظروں میں اور مقبول بنانے اور مقدس بنانے کے لئے انھوں نے یہ کوشش بھی کیں کہ خود پیغمبرﷺ اس میں ایک مرتبہ نماز پڑھ دیں۔ [21]

ریاست کے خلاف سازشوں میں خوشنماء الفاظ کے استعمال اور بعد میں اس کے تلخ حقائق کا مشاہدہ مسلمانوں نے بے شمار مرتبہ کیا ہے اور تاریخ اس پرگواہ ہے۔یہ واقعات صرف ایک دور تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر دور میں اور ہر ملک وریاست میں اس طرح کے واقعات رونما ہوسکتے ہیں، آج بھی ہم ان خوشنماء الفاظ اور مقدس کلمات کا استعمال میڈیا پر دیکھ رہے ہیں، کبھی ایک نام سے تو کبھی دوسرے نام سے، جس کے پیچھے مقصد کچھ اور ہوا کرتا ہے، ان مقدس نعروں نے قوم اور ریاست کو کئی بار ڈسا ۔ اس لئے مسجد ضرار کے اس واقعہ سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ اسلامی ریاست کے خلاف اس قسم کے خوشنماء نعروں کے بجائے اصل حقائق کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے اور ہر نعرے کا ساتھ نہیں دینا چاہئے ورنہ "فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِين"[22] کے مصداق بن جاوگے۔

3۔ ریاستی سازش کےخلاف حساس اداروں کو سخت کاروائی کا حکم

اسلامی ریاست اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہوا کرتی ہے اس لئے اس کے خلاف کسی قسم کی سازش کو کامیاب ہونے نہیں دینا چاہئے ۔ اگر ریاست کے خفیہ اداروں کو کوئی تخریب کار منصوبہ معلوم ہوجائے تو اس کو طشت ازبام کردینا چاہئے ، اگرکسی عام شہری کو معلوم ہو جائے تو وہ بھی ملکی اداروں کا ساتھ دے کر اس مذموم سازش سے ملک وقوم کو بچانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ تخریب کا رکے حوالے سے متعلقہ حکام کو چاہئے کہ وہ اس کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کرلیں تاکہ آئندہ کے لئے کسی کو اس قسم کے اقدم کرنے کے جرات نہ ہو۔ڈاکٹر رمضان البوطی تحریر فرماتے ہیں:

ولكنهم فيما قد يصدرون عنه من مؤامرات ومساع ضد المسلمين، يؤخذون من النواصى متلبسين بجريمتهم، كما ينبغى أن يدك ويهدم كل ما قد بنوه من مكائد ومؤامرات .وقد دل على ذلك مجموع سياسته صلى الله عليه وسلم ومعاملته مع هؤلاء المنافقين وهو ما اتفق عليه عامة الأئمة الباحثين استناداً الى هديه صلى الله عليه وسلم فى ذلك۔[23]

ترجمہ:"لیکن جو لوگ مسلمانوں کے خلاف سرگرمیاں دکھاتے ہیں اور ریشہ دوانیاں کرتے ہیں،ان پر ان کی سخت گرفت کی جاتی ہے، ان جرائم پر انھیں رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے اور ان کی سازشوں کی عمارت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی ہے، اور اسے پیوند خاک کردیا جاتا ہے،ان امور کا اثبات ان منافقین کے ساتھ آں حضرتﷺ کی مجموعی پالیسی سے ہوتا ہے اور اسی کی بنیاد پر تمام ائمہ محققین نے بھی اس سے اتفاق کیا ہے۔"

تخریب کاروں کے خلاف کاروائی اسلامی ریاستوں کی حفاظت کا ذریعہ ہے، لیکن عصر حاضر میں بعض اسلامی ممالک کے حکمران غیروں سے اس قدر مرغوب ہیں کہ وہ ان کے افراد تخریبی کاروائی میں پکڑ کر واپس ان کو دیتے ہیں جن کی کئی مثالیں تاریخ میں موجود ہے جو عالم اسلام کے مختلف ریاستوں کی ناکامی کا بنیادی سبب ہے۔ اس اصول کے اطلاق کے لئے نڈر قیادت کی ضرورت ہے۔ اس طرح ملک کے اندر جو لوگ ریاست کے خلاف جنگ یا جنگ کرنے والوں کی اعانت کا اقدام کرتے ہیں، ان کے بارے میں ملکی قوانین بھی بہت سخت ہیں، Pakistan Penal Code کے دفعہ نمبر A121 Conspiracy to commit offences punishable by Section اس بات تشریح ہوئی ہے کہ کوئی شخص اگر ملک کے خلاف سازش کرے تو اس کو عمر قید ، یا کمتر میعاد کی قید، یا قید اور سزا دونوں دی جائے گی۔ جو دس سال تک ہوسکتی ہے، اور جرمانے کا بھی مستوجب ہوگا۔ [24]

4۔ اسلامی ریاست میں تفرقہ بازی کی روک تھام کے لئے حکمت عملی

اسلامی ریاست کا حسن اجتماعیت میں ہے، جو لوگ ریاست میں اجتماعیت کا شیرازہ ختم کردیتے ہیں، وہ قومی مجرم قرار پاتے ہیں، اسلام میں مسجد ہی وہ مقام ہے جو مسلمانوں کو ایک سلک میں پروتی ہے اور ان کی اجتماعی زندگی میں وحدت پیدا کرتی ہے، جب کہ ان ہی مسجدِضرار کے محرکین نے اسی مسجد ہی کو تفرقے کا مرکز بنانے کی کوشش کی جس کی قرآن نے بھر پور مذمت کی۔ عصرحاضر میں ہر فرد کو ان افراد واشخاص اور ان اداروں سے دور رہنا چاہئے جو نفرت، تشدد اور فرقہ واریت معاشرے میں پھیلاتے ہیں۔ یہ اسلامی ریاست کا حق ہے کہ وہ حکمت ومصلحت سے اس قسم کی تحریکوں کا قلع قمع کرے اور وحدت اور اجتماعیت پر لوگوں کو اکٹھا کرلیں۔ چنانچہ معاصر محقق علی نائف الشحوذ تحریر فرماتے ہیں:

وقد اتخذت حركة النفاق وسائل عديدة لتحقيق أهدافها الخبيثة في واقع الناس ، وقد ذُكر في القرآن الكريم جزء من هذه الوسائل التخريبية التي اتخذتها حركة النفاق ضد المشروع الإسلامي الجديد ، وكيف احتوت قيادة الأمة الإسلامية هذه الحركة بطريقة سياسية احتوائية بارعة ؛ استطاعت من خلالها أن تحافظ على وحدة الأمة ، وتماسك الجبهة الداخلية ، وتذويب قيادات حركة النفاق من خلال حركة المجتمع الإسلامي المتحرك والمتجدد۔[25]

ترجمہ:"منافقانہ تحریکوں نے اپنے مذموم اور ناپاک مقاصد کی خاطر مختلف حربے استعمال کئے ہیں۔ قرآن کریم میں ان تخریبی ذرائع میں سے بعض کا تذکرہ ملتا ہے جو منافقین کے جدید اسلامی معاشرے کے خلاف اختیار کر رکھے تھے۔ اور امتِ مسلمہ کی قیادت نے کس طرح بہادری، اجتماعیت اور سیاسی طریقے سے اس طرح کے اقدامات اور سازشوں کا مقابلہ کیا،جس کے ضمن میں انہوں نے امت کی وحدت کو برقرار رکھا، اور داخلی استحکام کو برقرار رکھا۔اور جدید مسلم معاشرے سے نفاقی تحریکوں کی قیادتوں کا خاتمہ کیا۔"

مسلمان ممالک کی کمزوری کا ایک سبب تفرقہ بازی ہے، ہر ایک فرقہ اپنے آپ کو حق اور دوسروں کو باطل سمجھتا ہے، حتی کہ فروعی اختلافات پر بھی مشرک اور کافرکے فتووے لگائے جاتے ہیں، ایک مسلک کے لوگ دوسرے مسلک کے لوگوں کو برداشت نہیں کرتے ہیں، جس کی وجہ سے بغض اور نفرت کی فضاء بنتی جارہی ہے۔ اور محبت واخوت کا ماحول عنقاء ہوتا جارہا ہے۔جولوگ یہ نفرت پھیلاتے ہیں، ان کے لئے عصری قوانین میں بھی قانون سازی کئی گئی ہے، Pakistan Penal Code کے دفعہ نمبر 505 یعنی Statements conducing to public mischief کے شق نمبر2 میں اس کی توضیح ہوئی ہے کہ جو شخص ایسا بیان یا رپورٹ شائع کرے ، یا کوئی ایسی افواہ یا کھبلی پھیلائے ، جس سے مختلف مذاہب،جماعت ، نسلی،لسانی یا علاقائی وجوہات کی بنا پر دشمنی، نفرت یا بدخواہی کے جذبات پیدا کرے یا بڑھائے تو اس شخص کو سات سال کی سزائے قید ہوسکتی ہے، اور ساتھ ہی وہ جرمانے کا مستوجب بھی ہوگا۔ [26]اس قرآنی اصول اور عصری قانون کی روشنی میں ملک کوتخریب کاری سے بچانے کے لئے مختلف مسالک کے لوگوں کو اتفاقی اصول پر متحد ہونے کی ضرورت ہے، جو ملک کی استحکام کا بنیادی ذریعہ ہے۔

5 ۔ اسلامی ریاست میں فواحش ومنکرات کے مراکز کے سدباب کے لئے تدابیراختیار کرنا

جو لوگ اسلامی ریاست میں فواحش ومنکرات کے اڈے چلاتے ہیں، یا ایسے پیشے اختیار کرتے ہیں ہیں جن سے فواحش ومنکرات پیدا ہوتے ہیں، تو مسجد ضرار کے واقعہ سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ فحش ومنکرات کے ان مراکز کو بند کرنا اور بے حیائی وفحاشی کے ان پیشوں پر پابندی لگانا اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ سیرت کی مشہور کتاب زاد المعاد کے مصنف محمد بن عبد الوهاب مسجد ضرار کے واقعے کے تناظر میں اس اصول کے بارے میں لکھتے ہیں:

ومنها تحريق أمكنة المعصية كما حرق مسجد الضرار، وكل مكان مثله فواجب على الإمام تعطيله إما بهدم أو تحريق، وَإِمَّا بِتَغْيِيرِ صُورَتِهِ وَإِخْرَاجِهِ عَمَّا وُضع لَهُ، وَإِذَا كَانَ هَذَا شَأْنَ مَسْجِدِ الضِّرَارِ، فَمَشَاهِدُ الشرك أحق وأوجب، وكذا بيوت الخمارين، وأرباب المنكرات، وقد حرق عمر قَرْيَةً بِكَمَالِهَا يُبَاعُ فِيهَا الْخَمْرُ، وَحَرَقَ حَانُوتَ رويشد الثقفي وَسَمَّاهُ فُوَيْسِقًا.[27]

ترجمہ:"اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جن جگہوں میں گناہ کے کام کئے جاتے ہیں اس کو جلا دیا جائے جیساکہ مسجد ضرارکو جلایا گیا تھا، اوراس طرح کے ہر ایک مکان کو ویران کردینا، ڈھادینا یا نذر آتش کردینا بادشاہ کے لئے ضروری ہےیا اس کی شکل کو بدل ڈالے یا جس چیز کے لئے بنایا گیا ہو اس کو نکال کر ختم کر دے، جب مسجد ضرار کی یہ حالت ہے تو شرک کے اڈے اس کے زیادہ مستحق ہیں، اسی طرح شراب نوشی اور فواحش ومنکرات کی جگہوں کو بھی ڈھانا اور جلانا چاہئے، حضرت عمر ؓ نے پوری بستی کو جلا دیا جہاں شراب کی خرید وفروخت ہوتی تھی، اس کے ساتھ انھوں نے رویش ثقفی کی شراب کی دکان کو بھی نذر آتش کروادیا،اور اسے فویسق کا نام دیا۔"

مسجدِ ضرار کے تناظر میں مفسرین اور سیرت نگاروں نے یہ وضاحت کی ہے کہ اگر کسی اسلامی ریاست میں فحاشی وعریانی کے مراکز ہوں تو حکومت کا یہ فرئضہ ہے کہ اس کا قلع قمع کرے۔

6۔ عسکری اداروں کا ریاستی تخریب کاروں کے وسائل اور ذرائع پر نظر رکھنا

اسلامی ریاست کے خلاف جو سازش یا منصوبہ بندی ہورہی ہو تو اسلا می ریاست کے حساس اداروں کو چاہئے کہ وہ ان کے ان وسائل پر نظر رکھیں جو تخریب کار استعمال کررہے ہیں اسی طرح اس بنیاد کو پہنچ جائیں کہ یہ جو منصوبہ بندی ہے اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے، ہر دور میں منافقین کی سازشوں کا مزاج ایک رہا۔ اس لئے ان کے واردات کا طریقہ کار عموماً ایک ہی ہوتا ہے کہ "ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور" کے مصداق کہتے کچھ اور ہیں اور کرتے کچھ اور۔فقہ السیرہ کے ماہرین نے اس واقعہ کے تناظر میں تحریر فرمایا ہے :"هذا وإنك إذا تأملت فى خطوات هذا الكيد التلصص من المنافقين وكيفيته ووسائله، علمت أن طبيعة النفاق واحدة فى كل عصر وزمن۔"[28] یعنی"منافقین کی طرف سے برپا کی جانے والی اس سازش کے مراحل، اس کی کیفیت اور اس کے وسائل وذرائع میں غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہر زمانے میں نفاق کا ایک مزاج ہے۔"عصری قوانین میں بھی اس جرم کے لئے سزا متعین ہوئی ہے،penal code Pakistan میں دفعہ نمبر 121 کا عنوان ہی Waging or attempting to wage or abetting waging of war against Pakistan ہے، جس کے تحت کسی بھی تخریب کار جو ریاست کے خلاف سازش کرتا ہو یا اس کی اعانت کرتا ہو، اس کی سزا موت یا عمر قیدہے، اور ساتھ ہی وہ مجرم جرمانے کا بھی مستوجب بھی ہوگا۔ [29]

عصر حاضر میں عسکری تربیت کے جدید مناہج نے تحقیق وتفتیش میں ایک انقلاب برپا کیا ہے، کسی بھی ملک کے خلاف کاروائیوں کے حوالے سے معلومات کرناخفیہ اداروں کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے، لیکن بعض اوقات ان اداروں کی غفلت کی وجہ سے تخریب کاروں کے ہاتھ سے ان کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے، اس قانون کے تناظر میں غفلت سے کام نہیں لینا چاہئے، بلکہ تخریب کاروں کے عزائم سے باخبررہنے کے لئے جاسوسی نظام کومضبوط رکھنا چاہئے، تاکہ ریاست کے خلاف سازشوں کا سدباب ہوسکے۔

7۔ ریاست کے شہریوں میں وحشت پھیلانے کی ممانعت

ریاست میں امن اور محبت ایک ناگزیر امر ہے، لوگوں کے درمیان امن اور محبت اس طرح اخوت اور بھائی چارے کی تعلیمات عام کرنا چاہئے ۔ ریاست میں وحشت پھیلانا جرم ہے، جو لوگ شہریوں میں مختلف تحریکوں کی وحشت ڈال دیتے ہیں، ان کو ڈراتے ہیں، یہ لوگ قومی مجرم قرار پاتے ہیں، یہ اصول ضرار کے لفظ سے مستنبط ہوتے ہیں، چنانچہ سراج الدین عمر بن علی الحنبلی لکھتے ہیں: "و الضرار ﹹﹹ : هو المضارَّةُ؛ قال تعالى: ﹹﹹوالذين اتخذوا مَسْجِداً ضِرَاراً[30] ، ومعناه راجعٌ إلى إثارة العداوة، وإزالة الألفة، وإيقاع الوحشة۔"[31] یعنی "ضرار، ضرر پہنچانے کو کہتے ہیں قرآن کریم نے اس مسجد کو ضرار کا لقب دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا مقصد لوگوں میں دشمنی پھیلانا، محبت ختم کرنا اور وحشت برپا کرنا تھا۔" معاشرے میں کسی قسم کے وحشت کو پھیلانا ضرر کے زمرے میں شامل ہے، چاہئے وہ ملکی سطح پر تخریب کاری اور دہشت گردی ہو یا معمولی سطح پر محلے کے لوگوں کو ڈرانے کا عمل ہو، یا راہ گیروں میں خوف وہراست پھیلانا ہو، ہر طرح کی وحشت سے لوگوں کو تکلیف پہنچتا ہے، جو کسی طرح جائز نہیں ہے۔ اس لئے اس قسم کے جرائم سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔

8۔ شہریوں کے ایمان اور عقائد کا تحفظ کرنا

اسلامی ریاست میں حکمرانوں کا یہ فرئضہ ہے کہ وہ ان لوگوں یا ان تنظیموں سے عوام کو بچائیں، جو آسائش اور خوشحال زندگی دینے کے بہانے مسلمانوں کے ایمان اور عقائد پر ڈھاکہ ڈال دیتے ہیں، جیساکہ مسجد ضرارکے محرکین نے آرام و آسائش اور قریب مسجد میں نماز پڑھنے کا نعرہ لگا کر مسلمانوں کے ایمان پر ڈھاکہ ڈالنا چاہا، لیکن نبی کریم ﷺ کو جب معلوم ہوا تو آپ ﷺ نے اس کا خاتمہ کیا، مولانا عبد الماجد دریا آبادیؒ تحریر فرماتے ہیں: "منافقین کا دعوی تھا کہ ہمیں امت اسلامیہ کی عین آسائش اور اس کے لئے مزید گنجائش ہی مقصود ہے، بجائے ایک کے دو مسجدیں ہوگئیں، قریب والوں کو کتنی آسانی ہوگی۔ وقس علی ھذا۔۔۔ آہ کہ آج بھی کتنے الاالحسنیٰ کہنے والے اس طرح مسلمانوں کے ایمان پر چھاپے مار رہے ہیں۔"[32]

عصر حاضر میں اس قسم کی کئی تنظیمیں ہیں، جو مسلمانوں کو خدمت خلق اور حسن معاشرت کے آڑ میں مسلمانوں کو گمراہ کررہے ہیں، تعلیم، صحت اور تعمیری کاموں کے ساتھ ساتھ اپنے عقائد کی تعلیم بھی دیتے ہیں، یہودیت اور عیسائیت سے لئے قادیانیت اور پرویزیت تک تمام تنظیموں کا مقصد خدمت خلق کے نام پر لوگوں کو گمراہ کرنا ہے، اس لئے حکومت وقت ، سیاسی اور مذہبی راہنماوں کا یہ فرئضہ ہے کہ وہ اس میدان میں لوگوں کے عقائد کی تحفظ کا فریضہ سرانجام دیں۔

9۔ ریاست میں دین کو غرضِ فاسد کے لئے آلہ کار نہ بنا نا

بعض لوگ دین کو اپنے فاسد مقاصد کے حصول کے لئے سامنے لاتے ہیں، مسجد ِ ضرار کے اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دین کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی گنجائش نہیں ہے، اور اس کو شنیع افعال میں شمار کیا گیا ہے۔ مولانا عبدالماجد دریا آبادیؒ اپنے مرشد مولانا اشرف علی تھانویؒ کا قول نقل کرتے ہوئےتحریر فرماتے ہیں:"آیت سے کمال شناعت اس شخص کے فعل کی معلوم ہوئی جو دین کو اپنی غرض فاسد کا آلہ بنائے۔"[33]افسوس کہ آج دنیا کے اطراف وکناف میں مسلمانوں نے دین کو اپنے لئے ایک لائسنس کے طور پر پیش کیا، دعوت وتبلیغ کی شکل میں بعض لوگ سمگلنگ کرتے ہیں، یورپی ممالک جانے کے لئے مقیم لوگ اپنے آپ کو مہاجر ظاہر کرتے ہیں،دہشت گرد تنظیمیں اپنے مقاصد کے حصول کے مدارس کانام استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح دسیوں مسائل ایسے ہیں ، جن میں دین کو فاسد مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لئے اس اصول کے تناظر میں اس عمل کی شناعت کا اندازہ ہوتا ہے۔

10۔ شہریوں کے افعال پر ارادۂ فاعل کے مطابق حکم لگانا

ایک اسلامی ریاست میں اگر ایک شہری کسی کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہوتو اس پر حکم فاعل کے ارادے کے مطابق لگایا جائے گا۔ حساس ادارے معلومات کرکے کاروائی کرنے کے مجاز ہوں گے، بعض اوقات کوئی کام ظاہر بہت خوبصورت لگتا ہے، لیکن حساس اداروں کی معلومات کے مطابق وہ ملک وقوم کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے، اس لئے اس سے منع کرنے کا حکم ان کے ارادے کے متعلق لگایا جائے گا۔ فقہاء نے مسجد ضرار کے اس واقعہ سے یہ حکم نکالاہے کہ فعل پر حسن اور قبح کا حکم ارادۂ فاعل کے لحاظ سے لگایا جائے گا۔ امام احمد بن علی الجصاص لکھتے ہیں: "وقد دلت هذه الآية على ترتيب الفعل في الحسن أو القبح بالإرادة"۔[34] یعنی" اور یہ آیت فعل کی حسن اور قبح پر فاعل کے ارادے کے مطابق (حکم لگانے کی ) دلالت کرتی ہے۔" اس عبارت سے معلوم ہوا، کہ انسداد دہشتگردی میں ہر شخص پر دہشت گرد کا حکم نہیں لگانا چاہئے بلکہ عدالت برائے انسداد دہشت گردی کو چاہئے کہ وہ اس حوالے سے معلومات کرلیں تاکہ کوئی بے گناہ شہری اس چکی میں پیس نہ جائے۔ آج اس اصول پر عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سےدہشت گردی کے الزام میں گرفتار کئی قیدی ایسے ہیں جن سے عدالت عالیہ نے اس وقت معذرت کی کہ آپ پر کوئی مجرم نہیں ہے جب انھوں نے قید بامشقت اور سخت سزا کو برداشت کیا ۔

11۔ ریاست میں مفادِ عامہ کو نقصان پہنچانے والے اداروں کا حکم

ریاست میں جو ادارے مفادِ عامہ کے خلاف کام کررہے ہو ان کو بند کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، چاہے وہ مسجد ومدرسہ اور خیر ونیکی کی شکل میں کیوں نہ ہو، فقہ السیرہ کے ماہرین محققین نے اس واقعہ کے ضمن میں اس بات کی تصریح کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے: "فقد دل عمل الرسول صلى الله عليه وسلم هذا على ضرورة تعطيل أو هدم أو تحريق أماكن المعصية التى يعصى الله ورسوله فيها وإن اختبأت حقيقة هذه الأماكن عن أنظار الناس وراء مظاهر الخير و البر."[35] یعنی "رسول اللہ ﷺ کا یہ عمل(واقعہ مسجدِ ضرار) گناہ کے مراکز کو بند کرنے ، گرانے اور جلانے پر دلیل ہے ، جہاں پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی جاتی ہے، اگرچہ ان مقامات کی حقیقت لوگوں کی نظروں سے خیر اور نیکی کے پیچھے چھپی ہوئے ہو۔" اسی طرح جو مساجد ان مقاصد کی بنیاد پر بنائے گئے ہوں ان میں فقہاء کی رائے کے مطابق نماز پڑھنا بھی جائز نہیں ہے۔کیونکہ اس کے بنانے کا مقصد غلط ہے، تو جب مسجد میں نماز صحیح نہیں تو جو ادارے ملک وریاست کے خلاف کام کررہے ہیں ان میں کام کرنا بطریقہ اولیٰ ناجائز ہوگا، امام قرطبی ایسی مساجداور ایسے اداروں کا حکم ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "وَكُلّ مَسْجِد بُنِيَ عَلَى ضِرَار أَوْ رِيَاء وَسُمْعَة فَهُوَ فِي حُكْم مَسْجِد الضِّرَار لَا تَجُوز الصَّلَاة فِيه۔"[36] یعنی"ہر وہ مسجد جو تکلیف دینے ، ریاکاری اور نمائش کے لئے بنائی گئی ہو، تو وہ مسجد ضرار کے حکم میں ہے جس میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ "عہد نبوی ﷺ میں ان مقامات کو جلانے کافیصلہ ہوا، جو مسلمانوں کے مفاد عامہ کے خلاف استعمال ہورہے ہیں،مدینہ منورہ میں سویلم یہودی کے مکان میں منافقین جمع ہوکر نبی مکرم ﷺکے خلاف مشورے کیا کرتے تھے،اور لوگ غزوہ تبوک سے لوگوں کو منع کرتے تھے، چنانچہ رسول رحمت ﷺ نے طلحہ بن عبیداللہؓ کو چند صحابہؓ کے ساتھ بھجوایا اور سویلم کے اس مکان کو جلانے کا حکم دیا۔[37] جس سے یہ بات واضح ہوئی کہ ریاست میں مفادِ عامہ کو نقصان نہیں پہنچانا چاہئے اور جو لوگ اس عمل کے مرتکب ہوتے ہیں ان کو سخت سزا دینی چاہئے۔

اس ضمن میں ان اداروں کو نہیں بند کرنا چاہئے جن سے کوئی ریاستی خطرہ نہ ، اس طرح ہر ادارے کو مشکو ک نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے، ممانعت کے اصول کو جرم کے تناسب سے استعمال کرنے کے لئے قانون بنائی کی گئی ہے۔ Tshwane principles میں اس شق کی تائید اس طرح ہوئی ہے:

The Restriction must comply with the principle of proportionality and must be the least restrictive means available to protect against the harm".[38]

"ممانعت کو اس کے تناسب کے اصولوں سے استعمال میں لایا جائے، اور نقصان سے بچنے کے لئے دستیاب وسائل کو بروئے کار لائے جائیں گے۔ "

12۔ ریاست کے خلاف سازش کرنے والوں کی پیروی کا حکم

جو شخص اسلامی ریاست کےخلاف کسی قسم کی تخریبی کاروائی میں ملوث ہو تودوسرے شہریوں پر لازم ہے کہ اس شخص کی پیروی سے اجتناب کریں، چاہے وہ کسی بھی منصب کا مالک کیوں نہ ہو، یہاں تک کہ اگر وہ کسی مسجد کا امام ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے کی بھی ممانعت ہے، علامہ قرطبی اپنی مایہ ناز تفسیر میں مسجد ضرار کے واقعے کے ضمن میں لکھتے ہیں:

إِنَّ مَنْ كَانَ إِمَامًا لِظَالِمٍ لَا يُصَلَّى وَرَاءَهُ إِلَّا أَنْ يَظْهَر عُذْره أَوْ يَتُوب فَإِنَّ بَنِي عَمْرو بْن عَوْف الَّذِينَ بَنَوْا مَسْجِد قُبَاء سَأَلُوا عُمَر بْن الْخَطَّاب فِي خِلَافَته لِيَأْذَن لِمُجَمِّعِ بْن جَارِيَة أَنْ يُصَلِّي بِهِمْ فِي مَسْجِدهمْ ; فَقَالَ : لَا وَلَا نِعْمَة عَيْن أَلَيْسَ بِإِمَامِ مَسْجِد الضِّرَار فَقَالَ لَهُ مُجَمِّع : يَا أَمِير الْمُؤْمِنِينَ , لَا تَعْجَل عَلَيَّ فَوَاَللَّهِ لَقَدْ صَلَّيْت فِيهِ وَأَنَا لَا أَعْلَم مَا قَدْ أَضْمَرُوا عَلَيْهِ وَلَوْ عَلِمْت مَا صَلَّيْت بِهِمْ فِيهِ كُنْت غُلَامًا قَارِئًا لِلْقُرْآنِ وَكَانُوا شُيُوخًا قَدْ عَاشُوا عَلَى جَاهِلِيَّتهمْ وَكَانُوا لَا يَقْرَءُونَ مِنْ الْقُرْآن شَيْئًا فَصَلَّيْت وَلَا أَحْسِب مَا صَنَعْت إِثْمًا وَلَا أَعْلَم بِمَا فِي أَنْفُسهمْ فَعَذَرَهُ عُمَر رَضِيَ اللَّه عَنْهُمَا وَصَدَّقَهُ وَأَمَرَهُ بِالصَّلَاةِ فِي مَسْجِد قُبَاء۔[39]

ترجمہ:" ظالم شخص کی طرف سے مقرر امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جائے گی یہاں تک کہ اس کا عذر یا توبہ واضح ہو جائے، جیسا کہ بنی عمرو بن عوف کے لوگ جنہوں نے مسجدِ قباء تعمیر کی تھی انہوں نے حضرت عمر ؓے زمانہ خلافت میں آپ سے التجاء کی کہ مجمع بن جاریہ کو انہیں نماز پڑھانے کی اجازت دی جائے، تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ہرگز ایسا نہیں ہو سکتا کیا یہ مسجدِ ضرار کا امام نہیں تھا۔ اس پر مجمع نے عرض کیا: اے امیر المومنین میرے بارے میں جلد بازی سے فیصلہ مت کیجئے،یقینا میں نے وہاں پر نماز پڑھی ہے مگر مجھے حقیقتِ حال کا علم نہیں تھا۔ اگر مجھے پتہ ہوتا تو میں ہرگز ایسا نہ کرتا۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے آپ کے عذر کو معقول قرار دیتے ہوئے آپ کی تصدیق فرمائی اور مسجدِ قباء میں نماز پڑھانے کا حکم دے دیا۔"

بعض اوقات اس قسم کے فیصلوں پر قوم کو اعتماد میں لینا بڑا مشکل ہوتا ہے، کیونکہ ان کو معلوم نہیں ہوتا ہے کہ اس ادارے کے مقاصد واہداف کیا ہیں، جب کہ حکومتی اداروں کو اس کا اندازہ ہوتا ہے، اس طرح قومی مفاد میں اور قومی تحفظ کے لئے کئے گئے امور کو ہدف تنقید نہیں بنایا جائے گا۔ Inter National standards series کے آرٹیکل نمبر 19 میں اس بات کی وضاحت یوں کی گئی ہے:

"Any restriction on expression or information that a government seek to justify on grounds of national security must have the genuine purpose and demonstrable effect of protecting a legitimate national security interest".[40]

"حالات یا معلومات پر پابندی، جس کی حکومت قومی حفاظت کی بنیاد پر جواز پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے، تو اس کی حقیقی مقصد اور ظاہری اثرقوم کی جائز حفاظتی مفادات کی تحفظ کے لئے ہوتی ہے۔ (جس پر کسی قسم کی تنقید یا عدم نفاذ کی گنجائش نہیں ہوگی۔)"

مسجدِ ضرار کے تناظر میں ریاست کے خلاف تخریبی کاروائی کرنے والے افراد یا ادروں کا ساتھ نہیں دینا چاہئے،جو لوگ اس قسم کے کاروائیوں میں ملوث ہوں ،چاہئے ان کا ظاہری حلیہ کسی مذہبی، سیاسی اور سماجی شخصیت کی کیوں نہ ہو، تب بھی اس کا ساتھ نہیں دینا چاہئے، بلکہ اس کی مخالفت کرکے قومی دھارے میں شامل ہونا چاہئے۔جب کہ بین الاقوامی قوانین کی رو سے اس قسم کے تخریب کاروں کے خلاف کاروائی میں حکومت پر تنقید نہیں کی جائے گی اور وہ تحفظ فراہم کرنے کے لئے اس قسم کے کاروائیوں کے مجاز ہوں گے۔

14۔ ریاست کے خلاف استعمال ہونے والے ہر ادارے کو ڈھانے کی اجازت اور شرائط

مسجد ضرار کے واقعہ کی رو سے اسلامی ریاست کے خلاف استعمال ہونے والے ہر عمارت ومکان کو ڈھایا جائے گا یا سرکاری تحویل میں لیا جائے گا ، اس طرح قومی مفاد اور ملکی امن وسلامتی میں رکاوٹ بننے والے ہر ادارے اور دفترکو بند کرکے اس کی رجسٹریشن منسوخ کی جائے گی، جب ان اداروں کے فساد اور تخریبی کاروائی کا پتہ لگ جائے۔ علامہ قرطبی اس فقہی مسئلے کا استنباط کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "قَالَ عُلَمَاؤُنَا رَحْمَة اللَّه عَلَيْهِمْ : وَإِذَا كَانَ الْمَسْجِد الَّذِي يُتَّخَذ لِلْعِبَادَةِ وَحَضَّ الشَّرْع عَلَى بِنَائِهِ فَقَالَ : «من بنى لله مسجدا ولو كمفحص قطاة بنى الله له بيتا في الجنة[41]» يُهْدَم وَيُنْزَع إِذَا كَانَ فِيهِ ضَرَر بِغَيْرِهِ , فَمَا ظَنّك بِسِوَاهُ بَلْ هُوَ أَحْرَى أَنْ يُزَال وَيُهْدَم۔"[42]

ترجمہ:"ہمارے علماء رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مسجد کے ڈھانے کا حکم ہے جب اس میں دوسروں کو نقصان پہنچانے کا ندیشہ ہو حالانکہ اسلام میں مسجد عبادت کے لئے ہے اور شریعت نے اس کے بنانے کی ترغیب دی ہے، جیساکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے جس نے مسجد بنائی اگرچہ چڑیا کے گھونسلے کے برابر ہو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بنائے گا۔ تو مسجد کے علاوہ جس مکان سے نقصان کا ندیشہ ہو اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ بلکہ وہ ڈھانے اور ختم کرنے کا زیادہ لائق ہے۔ "

رہی بات ان مساجد کے ڈھانے کی جو شر پھیلانے کا سبب ہیں؟ تو فقہاء کرام نے اس کو ناجائز قرار دیا ہے، کیوں کہ اس اس کے جواز کا فتوی دیا گیا تو ایک فساد کو ختم کرنے کے لیے ایک اور فساد جنم لے گا۔ آج نہ نبی کریم ﷺہم میں موجود ہیں اور نہ ہم میں سے کسی پر وحی آسکتی ہے ۔ اسی لیے ہم متعین طور پر کسی مسجد کو مسجد ضرار نہیں کہہ سکتے اور نہ کہنا چاہیے۔

بعض ادارے احوال چھپاتے ہیں، اصل حقائق حکومت کو نہیں بتاتے ہیں، اس بنا پر ان کا شر خفیہ ہوتا ہے، جب کہ اس قسم کے شرور کو بے نقاب کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، جس ادارے کے سرگرمیاں واضح اور عیاں ہوں اور اس مین کسی قسم کی تخریب کاری نہ ہو تو اس کو بند نہیں کیا جائے گا، تاہم جو ادارے اصل حقائق کو چھپاتے ہیں یہ قومی جرم ہے، Tshwane principles مین اس کو جرم سے تعبیر کیا گیا ہے:

In particular, a restriction sought to be justified on the ground of National security is not legitimate if its genuine purpose are demonstrable effect is to protect interests unrelated to national security including for example to protect government from embarrassment or exposure of wrong doing or to conceal information about functioning of its public institutions or to entrench a particular ideology or to suppress industrial unrest.[43]

"قومی تحفظ کے تحت پابندی کو اس وقت صحیح خیال نہیں کیا جاتا ہے جب تک اس کے اصل مقصد قومی تحفظ سے متعلق نہ ہو، مثال کے طور پر ہراسانگی، ناجائز امور سے حکومت کا دفاع کرنا،یا عوامی اداروں کے سرگرمیوں کے بارے میں معلومات چھپانا، ایک نظریہ دفنانا، یا صنعتی بے قراری دبانا وغیرہ ۔(جیسے امور قانونی طور پر جرم تصور ہوں گے۔) "

15۔مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے مقدس ناموں کے غلط استعمال کا تدارک

اعدائے اسلام کا طریقہ واردات یہی ہے کہ وہ اپنےمشن تک پہنچنے کے لئے مقدس اسماء استعمال کرتے ہیں، کبھی مسجد کا نام کبھی مدرسے کا نام ، کبھی فلاحی اور رفاحی کاموں کا اشتہار، غرض یہ کہ ان چیزوں کی لالچ سے وہ مسلمانوں کے عقائد کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کی روک تھام مسلمان ملکوں میں بہت زیادہ ضروری ہے اور مسلمان قائدین کو چاہئے کہ وہ اس پر کڑی نظر رکھیں، مسجد ضرار کے تناظر میں اس مسئلے کی طرف توجہ مبذول کرتے ہوئے معاصر سیرت نگار محمد بن محمد ابو شہبۃ تحریر فرماتے ہیں:

ولا یزال اعداء الله من المنافقین والملحدین والمبشرین والمستعمرین یقیمون اماکن باسم العبادة ماهی لها، انما المراد بها الطعن فی الاسلام وتشکیک المسلمین فی معتقداتهم وآدابهم، وکذالک یقیمون مدارس باسم الدرس والتعلیم لیتواصلوا بها الی بث سمومهم بین ابناء المسلمین، وصرفهم عن دینهم ، وکذالک یقیمون المنتدیات باسم نشر الثقافة والغرض منها خلخلة العقیدة السلیمة من القلوب، وکل هذا اخطر بکثیر من المسجد الضرار الذی حارب الله ورسوله اشد المحاربة۔[44]

ترجمہ:"منافقین، ملحدین وغیرہ دشمنانِ الٰہی عبادت کے نام پر ایسی جگہیں بناتے ہیں جو درحقیقت عبادت کے لئے نہیں ہوتیں۔ بلکہ ان کا مقصد اسلام پر اشکالات کرنا اور مسلمانوں کے عقائد و نظریات میں شک کی دراڑیں پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح مدارس اور تعلیم گاہوں کے نام پر بھی اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کے لئے ادارے بناتے ہیں۔ اسی طرح مختلف ادارے اور مجالس ثقافت وغیرہ کے نام پر بناتے ہیں حالانکہ ان کا مقصد دلوں سے صحیح عقائد کا نکالنا ہوتا ہے۔ یہ تمام چیزیں مسجدِ ضرار سے بہت زیادہ خطرناک ہیں۔"

عہدِ حاضر میں کئی ایسے ادارے ہیں، جن کا مقصد ظاہر میں خوبصورت لیکن باطن میں بھیانک ہوتا ہے ، ایسٹ انڈیا کمپنی سے لے کر بیت الاحد [45]تک اصلاح کے نام پر جو پروجیکٹس یا ادارے چلائے گئے ہیں، ان کے باطنی مقاصد مسلمان ممالک میں دین بیزاری اور شورش وبدامنی پیدا کرنا ہے۔ اس لئے اس قسم کے ادارے، پروجیکٹس اور تنظیمیں عالم اسلام کے خفیہ ایجنسیوں اور افواج کے نظر میں ہونی چاہئے۔

16۔ ریاست کے شہریوں کو ضرر سے بچانے کا حکم

اس واقعہ سے ریاست میں شہریوں کو ضرر سے بچانے کے اصول معلوم ہورہے ہیں، جو کوئی شخص شہریوں کو نقصان پہنچاتا ہے ریاستی ادارے اس کا تدارک کرلیں گے۔ اس واقعہ کے ضمن میں اصحاب سیر نے اس حد تک لکھا ہے کہ اگر کسی نے راستے میں کنواں کھود لیا اور اس سے شہریوں کے گرنے اور نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو اس کو بند کیا جائے گا۔اس حوالے سے اصحاب السیر نے ایک ضابطہ بیان کیا ہے ، فرماتے ہیں: "وَضَابِط هَذَا الْبَاب : أَنَّ مَنْ أَدْخَلَ عَلَى أَخِيهِ ضَرَرًا مُنِعَ."[46] یعنی"اس میں قاعدہ یہ ہے کہ جو شخص کوئی ایسا کام کرے جس سے دوسرے کو تکلیف ہو تو اس کو اس کام سے روک دیا جائے گا۔" پاکستان کی قانون نے Of offences against the public tranquility کے تحت دفعہ نمبر141 سے اس قانون کی تائید ہوتی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کسی کو ضرر رسانی ممنوع ہے چاہئے وہ کسی قسم کا بھی ہو، اس صورت میں اس شخص کو چھ ماہ سزائے قید ہوسکتی ہے۔ [47]

اس قرآنی اصول اور عصری قانون کے رو سے ہر اس کام سے روکنے کا حکم ہے، جس میں کسی کو تکلیف پہنچے کا امکان ہو، اور ریاست کے خلاف سازش میں تو ملک کے تمام باسیوں کو نقصان پہنچتا ہے، عہدِ حاضر میں جن اسلامی ممالک کے خلاف سازشوں کا سلسلہ شروع ہے، اس تناظر میں وہاں کے لوگ پناہ گزینی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ان ممالک میں شورش اور بد امنی کا ایک طویل سلسلہ شروع ہے۔ تو یہ عمل بطریق اولیٰ ضرر میں شامل ہے۔ جس سے بچنے کے لئے حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

نتائجِ تحقیق

  1. ریاست کے خلاف سازش کا ادراک حکومت کا کام ہے، پھرمیڈیا کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ اس قسم کے سازشوں کو طشت ازبام کرنے میں حکومت کا ساتھ دے، اسی طرح عام شہریوں کو بھی چاہئے کہ وہ ہر موڑ پر اس قسم کی سازشوں اور مذموم عزائم سے ذمہ دار افراد کو خبردار کرلیں۔ یہ قانون جہاں مسجد ضرار سے فقہ السیرہ کے تناظر میں مستنبط ہوتا ہے وہاں بین الاقوامی قوانین میں اس کی بھرپور تائید وتوثیق ہوتی ہے۔
  2. اسلامی ریاست کے دفاع میں حساس اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ریاست میں بیرونی ایجنڈے کے خوشنماء نعروں کا کھوج لگائیں، کہ ان کے محرکات ، اسباب اور مقاصد واہداف کیا ہیں؟ پھر ان مقاصد کی روشنی میں اس کے لئے حکمت عملی تیار کرلیں۔ اس باب میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر کسی بھی ملک میں این جی اوز کے کام کرنے کے لئے اصول وضوابط مقرر ہوئے ہیں۔
  3. عسکری اداروں اور افواج کے فرائض منصبی میں یہ بات شامل ہے کہ وہ ریاستی تخریب کاروں کے وسائل و ذرائع اور نقل وحمل پر نظر رکھیں اور اس سے تجاہل نہ برتیں۔اس اصول میں بین الاقوامی قوانین اور شریعتِ اسلامی کا مقصد ایک ہی ہے۔
  4. ان ذمہ داریوں کا ایک رخ یہ ہے کہ وہ شہریوں کے ایمان اور عقائد کا تحفظ کرنے میں کردار ادا کریں، اور جولوگ امداد اور فلاح ورفاہ کے نام پر مسلمانوں کو گمراہ کررہے ہیں ان پر کڑی نظر رکھیں۔
  5. ریاست میں مفادِ عامہ کو جو ادارے نقصان پہنچا رہے ہوں چاہے وہ ادارے قومی ہوں یا بین الاقوامی ، ان کو بند کرنا اور ان کی رجسٹریشن منسوخ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ چاہے اس کا ظاہری شکل کس قدر خوبصورت دینی اور فلاحی کیوں نہ ہو۔ملکی اور بین الاقوامی قوانین نے بھی اس کا جواز فراہم کیا ہے۔

تجاویز وسفارشات

  1. تخریب کاروں کی تفتیش کے لئے جدید طریقے استعمال کرنا چاہئے، اور جرم ثابت ہونے کے بعد سزا دینی چاہئے ، ثبوتِ جرم سے پہلے کسی کو سزا دینا مناسب نہیں ہے۔ اس حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل نے جو سفارشات دی ہیں، اس کے مطابق کسی کو جرم ثابت ہونے سے پہلے سزا دینا ممنوع قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے پاکستانی قوانین اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سفارشات کے تقابلی مطالعہ پر کام کیا جائے تاکہ اس حوالے سے ترجیح وتطبیق کی راہ ہموار ہوجائے۔
  2. ریاستی سازشوں کی روک تھام کے حوالے سے میڈیا کا جو کردار ہے وہ قابل غور ہے کیونکہ ہماری میڈیامخصوص مقاصد کے لئے زیرو کو ہیرو اور ہیرو کو زیرو بنا دیتی ہے، جس کی وجہ سے بعض اوقات اصل حقائق قوم سے پوشیدہ رہ جاتے ہیں۔ اس حوالے سے جو قانون سازی ہوئی ہے اس پر علم درآمد کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ قومی اور بین الاقوامی قانون کی حیثیت کا غذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اس حوالے سے میڈیا کے قوانین کا تنقیدی مطالعہ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
  3. ریاست کے خلاف سازشوں کی روک تھام میں عسکری اداروں اور افواج کے فرائض منصبی صرف یہ نہیں کہ وہ قوم کو اس بات سے اگاہ کرلیں، کہ فلاں علاقے میں خودکش حملہ آور داخل ہوئے ہیں، اس لئے آپ محتاط رہیں، بلکہ اس قسم کی تخریب کاروں سے عام شہریوں کو محفوظ رکھنا اور ان کا دفاع کرناان اداروں کے فرائض منصبی ہے ، جیساکہ نبی کریم ﷺ نے نہ صرف یہ کہ صحابہ کرام ؓ کو بتایا کہ مسجد ضرار کےمحرکین کے اہداف اور محرکات کیا ہیں بلکہ اسلامی ریاست میں اس کا عملاً دفاع بھی کیا۔ اس حوالے سے موجودہ شورش میں نظام دفاع کے تنقیدی مطالعے پر کام کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔
  4. غیر ملکی ایجنسیاں فلاحی اور رفاہی کاموں کے آڑ میں ریاست کے خلاف سازشیں کررہی ہیں،اور مسلمانوں کے عقائد ونظریات سے کھیل رہی ہیں، اس لئے حساس اداروں کا یہ فرض ہےکہ وہ ان غیر ملکی ایجنسیوں کی ان سرگرمیوں کو مدنظر رکھ کر ریاست کے دفاع کرنے میں بھر پور کردار ادا کریں۔ اس وقت تک جو کاروائیاں ہوئی ہیں اور اخبارات کی زینت بن چکی ہیں، اس پر تحقیقی کام کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ جس میں اس موضوع کے اسبا ب اور محرکات پر بحث کرکے مستقبل کے لئے تجاویز پیش کئے جائے۔

 

حوالہ جات

  1. علي محمد الصّلابي ، السيرة النبوية، دروس وعبر في تربية الأمة وبناء الدولة (بیروت: دارالعلم، 2000ء)، 9: 100۔
  2. محمد بن مكرم ابن منظور الأفريقي، لسان العرب (بيروت:دار صادر، س۔ن )، 6:91۔
  3. محمد اعظم چوہدری، سیاسیات، نظریات اور اصول (کراچی:غضنفر اکیڈمی، 2003ء)، 89۔
  4. ایضاً۔، 90۔
  5. محمد اعظم چوہدری،سیاسیات، نظریات اور اصول، 91۔
  6. ایضاً۔
  7. Hamilton Gibb and Harold Bowen, Islamic Society and the West (London: Oxford University Press, 1950), 9.
  8. ہرقل کا پورا نام فلاوی یس ہرقل اگستس تھا، 575ء کو موجودہ ترکی میں پیدا ہوئے۔ 610ء سے 641 تک بازنطینی روم کا بادشاہ تھا، اس کے والد ہرقل کبیر تھے، انھوں نے یونانی زبان متعارف کی، اس کے پیشرو فوکاس تھے۔ 11 فروری 641ء کو 65 یا 66 سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ شمس الدين أحمد بن محمد ابن خلكان، وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان، (بيروت: دار صادر، 1994ء) ،5: 58 ۔
  9. ا إسماعيل بن عمر بن کثیر،تفسيرالقرآن العظیم (بیروت: دار طيبة للنشر والتوزيع، 1999 ء)، 4: 210۔
  10. محمد بن جريرالطبری ، جامع البيان(بیروت: مؤسسة الرسالة، 2000 ء) ،1: 474۔
  11. ابن کثیر، تفسيرالقرآن العظیم ،4: 210۔
  12. ا عبد الرحمن بن عبد الله لسهيلی ،الروض الأنف (بیروت: دار إحياء التراث العربي،2000ء) ،7: 405۔
  13. محمد بن عمر الواقدي ،مغازي الواقدي (بيروت: دار الأعلمي، 1989ء) ، 3: 1046۔
  14. عبد الملك بن ہشام ، سيرة ابن ہشام (مصر: شركة مكتبة مصطفى الحلبي، 1955 ء) ، 2: 515۔
  15. القرآن 9: 107
  16. ابن ہشام، سيرة ابن ہشام، 2: 515۔
  17. أبو عبد الله محمد بن عمر الرازي ، التفسير الكبير (بيروت: دار إحياء التراث العربي، 1420 ھ)، 16: 146۔
  18. محمد سعيد رمضان البوطي ، فقه السيرة دار الفكر (دمشق: دارالکتاب، 1397ھ)، 429۔
  19. یہ بین الاقوامی قوانین ہیں جو جو نیشنل سیکورٹی کے حوالے سے مدون 12 جون 2013 کو افریقہ میں70 مالک کے 500 ماہرین نے لکھے ہیں، لیکن چونکہ یہ قوانین افریقہ میں لکھے گئے اس لئے اس نام سے منسوب کئے گئے۔ The Global Principles on National Security and the Right to Information “Tshwane Principles”, (New York: Open Society Foundations, 2013), 1.
  20. Ibid., 15.
  21. امین احسن اصلاحی ،تفسیر تدبر قرآن ( لاہور: فاران فاونڈیشن، 2009ء)، 641۔
  22. القرآن 49: 6
  23. البوطي، فقه السيرة دار الفكر ،429۔
  24. The Pakistan Penal Code (Act XLV of 1860) (Lahore: Eastern Law Publisher, 2015), 108.
  25. علي بن نايف الشحود ، السيرة النبوية: دروس وعبر (بیروت: كتبة صيد الفوائد، س۔ن)، 232۔
  26. The Pakistan Penal Code (Act XLV of 1860), 470.
  27. محمد بن عبد الوهاب،مختصر زاد المعاد (القاهرة: دار الريان للتراث ، 1987ء)، 179۔
  28. البوطي ، فقه السيرة ، دار الفكر ، 430۔
  29. The Pakistan Penal Code (Act XLV of 1860), 107.
  30. القرآن9: 107
  31. سراج الدين عمر بن علي الحنبلي،اللباب في علوم الكتاب (بيروت: دار الكتب العلمية، 1998ء) ، 4: 157۔
  32. عبدالماجد دریا آبادی ، تفسیر ماجدی (کراچی:مجلس نشریات قرآن ، 1999ء)، 2: 409۔
  33. ایضا۔
  34. أحمد بن علي الجصاص ، أحكام القرآن (بيروت: دار احياء التراث العربى، 1405 ھ) ، 4: 367۔
  35. البوطي ، فقه السيرة دار الفكر ، 429۔
  36. أبو عبد الله محمد بن أحمد القرطبي ، تفسير القرطبي (بیروت: دار إحياء التراث العربي ، 1985 ء)، 8: 254۔
  37. ابن ہشام، سيرة ابن ہشام،2:517۔
  38. The Global Principles on National Security and the Right to Information “Tshwane Principles”, 15.
  39. القرطبي، تفسير القرطبي، 8:255۔
  40. The Johannesburg Principles on International Security: Freedom of Expression and Access to Information (London: International Standards Series, 1996), Article No: 19, 8.
  41. محمد بن حبان البُستي،صحيح ابن حبان، کتاب الصلاۃ ،باب ذكر الخبر الدال على أن الله جل وعلا يدخل المرء الجنة ببنيانه موضع السجود في طرق السابلة(بيروت، مؤسسة الرسالة 1993)، حدیث نمبر ، 1610، 4:490۔
  42. ا لقرطبي،تفسير القرطبي ، 8:255۔
  43. Author, The Global Principles on National Security and the Right to Information “Tshwane principles”, 14.
  44. محمد بن محمد ابو شهبه، السیرة النبوية فی ضوء القرآن والسنة (دمشق: دارالقلم، 1994ء)، 508، 509۔
  45. اس وقت یورپی ممالک میں بعض مقامات پر یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کی عبادت کے لئے مشترک ایک جگہ بنائی گئی ہے۔ جس کو جدید اصطلاح میں بیت الاحد کہا جاتا ہے۔ اس کو وہ بین المذاہب ہم آہنگی کا نام دیتے ہیں لیکن درحقیقت یہ مسلمانوں کی دین بیزاری کے لئے منصوبہ بندی ہے۔
  46. القرطبي، أبو عبد الله محمد بن أحمد، تفسير القرطبي (بيروت،دار إحياء التراث العربي، ط:2، 1985 م) 8/ 255
  47. The Pakistan Penal Code (Act of XLV of 1860), 120.
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...