Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Milal: Journal of Religion and Thought > Volume 1 Issue 1 of Al-Milal: Journal of Religion and Thought

الہامی کتب (تورات، زبور، انجیل اور قرآن) میں وارد اخلاقی رزائل کا تقابلی مطالعہ |
Al-Milal: Journal of Religion and Thought
Al-Milal: Journal of Religion and Thought

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060035210_494

Pages

37-59

PDF URL

http://al-milal.org/journal/index.php/almilal/article/download/20/7

Chapter URL

http://al-milal.org/journal/index.php/almilal/article/view/20

Subjects

Backbiting Curiosity Miserly Sophistication Profligate Vices

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف

انسانوں کی راہنمائی کے لیے ہر زمانے اور ہر قوم میں پیغمبر و ہادی مبعوث ہوتے رہے۔ان کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ نے الہامی کتب بھی نازل فرمائیں ۔ اور اس طرح بنی نوع ِ انسان کی ہدایت و رہنمائی کا مکمل سامان کر دیا۔ ان میں سے چار کتب کا نام اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ۔ جیسا کہ تورات، زبور، انجیل اور قرآن مجید۔اس کے علاوہ اگر حالات و واقعات کا جائزہ لیا جائے تو بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہی چار کتب الہامی ہیں اورعصرِ حاضر تک کسی نہ کسی حالت میں موجود ہیں۔ان کتب میں مختلف انداز اور مختلف طریقوں سے بنی نوع انسان کو اخلاقی رزائل سے بچنے کی تلقین و تاکید کی کئی ہے۔مقالہ ہذا میں ان اخلاقی رزائل کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جائزہ لیا گیا ہے تاکہ مقالہ کی تعلیم مفصل، قابل عمل اور دوررس نتائج کی حامل ہو۔

ریا کاری(Pretentions)

عبادت جو کہ صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے اگر اس میں کسی اور کو شریک کر لیا جائے تو وہ ریا کاری کہلاتی ہے۔ یعنی نماز، روزہ یا صدقات وغیرہ دیتے وقت اگر کسی قسم کی نمود و نمائش مقصود ہو تو سارے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں بلکہ اجر کے بدلہ ایسےاعمال اللہ کی طرف سے لعنت کا موجب بنتے ہیں۔ ریاکاری انتہائی جہالت کی دلیل ہے کہ انسان کسی مخلوق سے صلہ اور بدلہ کی امید رکھے۔ریاکار دنیا وآخرت میں ذلیل و رسوا ہوتے ہیں۔الہامی کتب میں بھی ریاکاری کی مذمت کی گئی ہے.

تورات میں ریاکاری کے متعلق کوئی واضح آیت نہیں ملی لیکن اگر مختلف واقعات سے یہ اخذ کیا جائے تو یہ معنی لیے جا سکتے ہیں مگر واضح الفاظ میں ریاکاری کے متعلق کوئی حکم نہیں ہے۔ مگر زبور میں بیان کیا گیا ہے:

"۔۔۔۔ میں ریاکارروں کے ساتھ کہیں نہیں جاؤں گا"۔[1]

اسطرح انجیل میں عیسیٰ علیہ السلام کا حکم بیان کیا گیا ہے:

"خبردار اپنے راستبازی کے کام آدمیوں کے دکھانے کے لئے نہ کرو۔نہیں تو تمہارے باپ کے پاس جو آسمان پر ہے تمہارے لیے کچھ اجر نہیں ہے۔پس جب تو خیرات کرے تو اپنے آگے نرسنگانہ بجوا جیسا ریا کار عبادت خانوںاور کوچوں میں کرتے ہیں تا کہ لوگ ان کی بڑائی کریں میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پاچکے۔ بلکہ جب تو خیرات کرے تو جو تیرا دہنا ہاتھ کرتا اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے۔ تا کہ تیری خیرات پوشیدہ رہے۔ اس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا"[2]۔

اللہ تبارک تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں:

﴿وَالَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآَخِرِ وَمَنْ يَكُنِ الشَّيْطَانُ لَهُ قَرِينًا فَسَاءَ قَرِينًا﴾[3]

"اور خرچ بھی کریں تو (خدا کے لیے نہیں بلکہ) لوگوں کے دکھانے کو اور ایمان نہ خدا پر لائیں اور نہ روز آخرت پر (ایسے لوگوں کا ساتھی شیطان ہے) اور جس کا ساتھی شیطان ہوا تو (کچھ شک نہیں کہ) وہ برا ساتھی ہے"۔

حضرت محمد ﷺ نے ریاکاری کے متعلق دو ٹوک انداز میں واضح کر دیا کہ کوئی عبادت یا عمل چاہیے کتنا ہی بڑا کیوں نا ہو اگر اس میں ریاکاری کا عنصر شامل ہوا تو ضائع کر دیا جائے گا اور قیامت کے دن اس عمل کا کوئی اجر نہیں ملے گا بلکہ اسے شرک میں شمار کرکے سخت سزا دی جائے گی۔ حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

)) ان أخوف ما أخاف عليكم الشرك الأصغر قالوا وما الشرك الأصغر يا رسول الله قال الرياء يقول الله عز و جل لهم يوم القيامة إذا جزى الناس بأعمالهم اذهبوا إلى الذين كنتم تراؤون في الدنيا فانظروا هل تجدون عندهم جزاء۔(([4]

"جس چیز کے بارے میں مجھے تم پر سب سے زیادہ خوف ہے وہ شرک اصغر ہے"۔ صحابہ کرام نے عرض کیا ! اے اللہ کے رسول ﷺ شرک اصغر کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "دکھاوا! بےشک اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائیں گے: جاؤ ان لوگوں کے پاس جن کو دکھانے کے لئے تم لوگ دنیا میں عمل کرتے تھے، پھر دیکھو کیا تم ان کے پاس سے کوئی بدلہ پاتے ہو"۔

حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :

)) من صام يرائي فقد أشرك ومن صلى يرائي فقد أشرك ومن تصدق يرائي فقد أشرك (([5]
"جس شخص نے دکھانے کے لیے نماز پڑھی تو تحقیق اس نے شرک کیا، اور جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا اس نے بھی شرک کیا اور جس نے بغرض ریا صدقہ کیا تو اس نے بھی شرک کیا"۔

اسلام نہ صرف ریاکاری سے منع کرتا ہے بلکہ اخلاقیات کی اعلیٰ سطح پر پہنچنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ احسان کرنا ایک اچھی عادت ہےمگر احسان کرکے اسے جتلانا بد اخلاقی میں شمار ہوتا ہے۔ اس لیے اسلامی نظریہ حیات میں واضح طور پر یہ تعلیم دی گئی ہے کہ دوسروں پر احسان تو کرو مگر اپنے احسانات جتلا کر کسی کو شرمندہ بھی نہ کرو اور اگر ایسا کیا تو یاد رکھو جو احسان تم نے کیے ہیں وہ برباد کر دیے جائیں گے بلکہ تم سزا کے بھی مستحق بن جاؤ گے۔

بخل و کنجوسی(Miserly, Scrooge)

بخل و کنجوسی انسانی طبع میں پایا جانے والا بد ترین عمل ہے کہ جس کی وجہ سے انسان اللہ پاک اور لوگوں سے دور ہو جاتا ہے۔ خود اپنے اور دوسروں کے اوپر ظلم کرتا ہے۔ اپنی کنجوس طبع کی وجہ سے ان لوگوں کے حق بھی ادا کرنے سے گریز کرتا ہے جن کے حقوق ادا کرنا اس پر لازم اور ضروری ہیں۔ اس وجہ سے کنجوس آدمی ناکام ہو جاتا ہے۔بخل و کنجوسی کی تمام الہامی کتب میں ممانعت کی گئی ہے۔

توراۃ میں حکم موجود ہے :"جو ملک خداوند تیرا خدا تجھ کو دیتا ہے اگر اُس میں کہیں تیرے پھاٹکوں کے اندر تیرے بھائیوں میں سے کوئی مفلس ہو تو تُو اپنے اُس مفلس بھائی کی طرف سے نہ اپنا دل سخت کرنا اور نہ اپنی مٹھی بند کر لینا۔ بلکہ اس کی احتیاج رفع کرنے کو جو چیز اسے درکار ہو اس کے لئے تو ضرور فراخ دستی سے اسے قرض دینا۔ خبردار رہنا کہ تیرے دل میں یہ بُرا خیال نہ گذرنے پائے کہ ساتواں سال جو چھٹکارے کا سال ہے نزدیک ہے اور تیرے مفلس بھائی کی طرف سے تیری نظر بد ہو جائے اور تُو اسے کچھ نہ دے اور وہ تیرے خلاف خداوند سے فریاد کرے اور یہ تیرے لیے گناہ ٹھہرے۔ بلکہ تجھ کو اسے ضرور دینا ہو گا اور اس کو دیتے وقت تیرے دل کو برا بھی نہ لگے اس لئے کہ ایسی بات کے سبب سے خداوند تیرا خدا تیرے سب کاموں میں اور سب معاملوں میں جن کو تُو اپنے ہاتھ میں لے گا تجھ کو برکت بخشے گا"[6]۔انجیل میں بخل و کنجوسی جیسی عادات سے بچنے کی کوئی واضح تعلیمات میری نظر سے نہیں گزریں۔ جبکہ قرآن ِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ مَا آَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُهِينًا﴾[7]

"جو لوگ خود بخیلی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخیلی کرنے کو کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جو اپنا فضل انہیں دے رکھا ہے اسے چھپا لیتے ہیں ہم نے ان کافروں کے لئے ذلت کی مار تیار کر رکھی ہے"۔

کنجوسی حقوق العباد کی ادائیگی میں بھی بڑ ی روکاٹ بنتی ہے اسی وجہ سے شریعت اسلامیہ نے کنجوس شخص کی انتہائی برائی بیان کی ہے اور کنجوسی کو ایمان کے منافی قرار دیا ہے۔ارشاد ِ ربانی ہے :

﴿وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى(8)وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى(9)فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى(10)وَمَا يُغْنِي عَنْهُ مَالُهُ إِذَا تَرَدَّى﴾[8]

"لیکن جس نے بخیلی کی اور بے پرواہی برتی، اور نیک بات کی تکذیب کی تو ہم بھی اس کی تنگی و مشکل کے سامان میسر کر دیں گے، اس کا مال اس کے اوندھے گرنے کے کچھ کام نہیں آئے گا"۔

یعنی جس نے کنجوسی کا مظاہرہ کیا اس کے لیے دنیا میں مشکلات ہیں، اور کل قیامت کے دن اوندھے منہ جہنم میں ڈال دیئے جائیں گے۔ یعنی دنیا اور آخرت دونوں ہی جہانوں کا خسارہ ہے کہیں فائدہ حاصل نہ ہو گا۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:

>>لا يدخل الجنة خب ولا منان ولا بخيل<<۔[9]
"فریب کرنیوالا، بخیل اور احسان جتانے والا جنت میں داخل نہیں ہوں گے"۔

غور کریں کہ جائز ضرورت کے مطابق خرچ کرنے والوں کے لیے اللہ کا فرشتہ اضافے کی دعا کر رہا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دعا کو قبول کرتا ہے اور اس میں برکت فرماتا ہے لیکن اس کے برعکس کنجوسی کرنے والے کے لیے فرشتہ بد دعا کرتا ہے ۔یعنی اس کے مال سے خیر و برکت ختم کر دے اور اللہ فرشتے کی اس دعا کو بھی قبول کرتا ہے۔

اسلام نے کنجوسی یعنی ضرورت کی جگہ خرچ نہ کرنے کو بہت برا کہا گیابلکہ بائبل کے مقابلے میں قرآن نے واضح کر دیا کہ کنجوس جوکہ آسانی ہونے کے باوجود دوسری کی ضروریات سے سرفِ نظر کرتا ہے وہ ایمان والا نہیں۔لہذا اسلام نے بخل و کنجوسی کو براہ راست ایمان سے منسلک کیا ہے۔

غیبت و چغلی (Slandering)

غیبت یعنی کسی کی برائی جو اس کی غیر موجودگی میں دوسروں کے سامنے کی جائے اسے غیبت کہا جاتا ہے اور چغلی بھی اسی سے ملتا جلتا عمل ہے۔زبان کی تباہ کاریوں میں سے ایک غیبت کرنا ہے۔عام طور پر اسے معمولی گناہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے مگر حقیقت میں غیبت و چغلی ایک ایسی عادت سے جو گھروں کے ٹوٹنے کا سبب بنتی ہے، معاشرے میں فساد کی ایک بڑی وجہ ہے اور اسی وجہ سے دلوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے جس سے بات دشمنی تک جا پہنچتی ہے۔

تورات میں بیان کیا گیا ہے :"تو اپنے پڑوسی کے خلاف جھوٹی گواہی نہ دینا"[10]، اسطرح زبور کی بیسویں نظم میں فرمایا گیا:"تُو بیٹھا بیٹھا اپنے بھائی کی غیبت کرتا ہے اور اپنی ہی ماں کے بیٹے پر تہمت لگا تا ہے"[11]۔مزید زبور میں فرمایا گیا:"جو درپردہ اپنے ہمسایہ کی غیبت کرے میں اُسے ہلاک کر ڈالوں گا"۔[12]انجیل میں بھی عیسیٰ علیہ السلام کا ارشاد مرکوز ہے: "اور میں تم سے کہتا ہوں کہ جو نکمی بات لوگ کہیں گے عدالت کے دن اس کا حساب دیں گے۔"[13]

اور قرآن کریم میں غیبت کو برائی بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ﴾[14]

"کہ تم ایک دوسرے کی غیبت بھی مت کرو کیا تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ یقیناً تم اس کو نا پسند کرتے ہو۔ تو پھر اللہ سے ڈر جاؤ۔ بلاشبہ اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے"۔

﴿وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ﴾[15]
"بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کی جو عیب ٹٹولنے والا غیبت کرنے والا ہو"۔

مندرجہ بالا آیات سے صاف واضح ہوتا ہے کہ ہمیں غیبت و چغلی جیسے قبیح عمل سے دور رہنا چاہیے ۔اللہ نے غیبت کرنے کو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے۔لہذا بہت ضروری ہے کہ غیبت کرنے سے ہر حال میں بچا جائے۔اب سوال یہ ہے کہ غیبت کیا ہے؟ تو اس کا جواب ہمیں حدیث نبی ﷺ میں ملتا ہے:

)) أتدرون ما الغيبة قالوا الله ورسوله أعلم قال ذکرک أخاک بما يکره قيل أفرأيت إن کان في أخي ما أقول قال إن کان فيه ما تقول فقد اغتبته وإن لم يکن فيه فقد بهته۔ (([16]

رسول اللہ ﷺنے فرمایا :"کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے "۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا !اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں ۔ آپ ﷺنے فرمایا:" اپنے بھائی کے اس عیب کو ذکر کرے کہ جس کے ذکر کو وہ ناپسند کرتا ہو"۔ آپ سے عرض کیا گیا کہ آپ ﷺ کا کیا خیال ہے کہ اگر واقعی وہ عیب میرے بھائی میں ہو جو میں کہوں آپ ﷺ فرمایا :"اگر وہ عیب اس میں ہے جو تم کہتے ہو تبھی تو وہ غیبت ہے اور اگر اس میں وہ عیب نہ ہو پھر تو تم نے اس پر بہتان لگایا ہے"۔

غور فرمائیں! کہ غیبت اپنے بھائی میں موجود کسی عیب کو لوگوں کے سامنے بیان کرنا ہے۔مثلاً کوئی لنگڑا ہے، اس کو ذلیل کرنے کے لیے دوسروں کو کہنا کہ وہ لنگڑا جارہا ہے، دوسروں کو معلوم ہے کہ وہ لنگڑا ہے، اور حقیقت میں بھی وہ لنگڑا ہے، لیکن یہاں بتانے کا مقصد لوگوں کو خبر دینا نہیں ہے بلکہ اس کا مذاق اڑانا ہے۔ جو قطعاً حرام ہے اور اسلام اس قسم کے مذاق کی بھی اجازت نہیں دیتا۔

جھوٹ بولنا (To Tell a Lie)

اخلاقی برائیوں میں سے بنیادی برائی جھوٹ بولنا ہے۔یہ اتنی بری خصلت ہے ہے کہ جس میں بھی پائی جائے اُس انسان کو انتہائی معیوب اور ناقابل اعتبار بنا دیتی ہے ۔ کہ کوئی شخص بھی اس کی بات کا یقین کرنے اور ماننے کو تیار نہیں ہوتا جس کی وجہ سے معاشرہ میں اس کی کوئی اہمیت و حیثیت نہیں رہتی۔انسان مختلف حالات و واقعات میں مختلف قسم کے جھوٹ بولتا ہے۔ مگر الہامی کتب کی تعلیمات کے مطابق جھوٹ کی ہر صورت قبیح اور نقصان دہ ہے۔ لہذا تمام مذاہب میں جھوٹ بولنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ جیسا کہ تورات میں حکم دیا گیا:"تُو جھوٹی بات نہ پھیلانا اور نا راست گواہ ہونے کے لئے شریروں کا ساتھ نہ دینا"۔[17]تورات میں ہی دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا:"تم چوری نہ کرنا اور نہ دغا دینا اور نہ ایک دوسرے سے جھوٹ بولنا"۔ [18]اسطرح زبور میں بھی جھوٹ جیسی بڑی برائی کا تذکرہ کرتے ہوئے حکم دیا گیا:"تُو اُن کو جو جھوٹ بولتے ہیں ہلاک کرے گا"۔[19] دوسرے مقام پر ہے:"دیکھو اسے بدی کا دردِزہ لگا ہے بلکہ وہ شرارت سے بار دار ہوا اور اس سے جھوٹ پیدا ہوا۔ اس نے گڑھا کھو د کر اسے گہرا کیا اور اس خندق میں جو اُ س نے بنائی تھی خود گرا"۔[20]

قرآن مجید میں جھوٹ کے متعلق حکم فرمایا گیا:

﴿ ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ﴾[21]

"یہ ہے، اور جو کوئی اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے اسکے اپنے لیے اس کے رب کے پاس بہتری ہے، اور تمہارے لیے چوپائے جانور حلال کر دیئے گئے ہیں بجز ان کے جو تمہارے سامنے بیان کیے گئے ہیں، پس تمہیں بتوں کی گندگی سے بچتے رہنا چاہیے اور جھوٹی بات سے پرہیز کرنا چاہیے"۔

دوسری جگہ حکم ِ خداوندی ہے

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ﴾[22]

"اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے لئے پریشانی اٹھاؤ"۔

مندرجہ بالا آیت سے واضح ہوتا ہے کہ تورات، زبور اور قرآن میں جھوٹ بولنے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ قرآن کی آیات سے مزید واضح ہوتا ہے کہ ہر جھوٹی بات کو چھوڑ دو، اور کوشش کرو کہ کوئی ایسی حرکت نہ کرو کہ جس سے جھوٹ کا احتمال تک ہو سکتا ہو۔ کیونکہ یہ جھوٹ آپ کی شخصیت کو مجروح کرے گا۔ معاویہ بن قشیری رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کافرمان مبارک بیان کرتے ہیں:

)) يقول ويل للذي يحدث فيکذب ليضحک به القوم ويل له ويل له۔ (([23]

آپ ﷺ فرماتے تھے:"ہلاکت ہے اس کے لیے جو اس غرض سے جھوٹ بولے کہ اس سے لوگ ہنسیں۔ ہلاکت سے اس کے لیے! ہلاکت سے اس کے لیے!"۔

جھوٹ چاہیے صرف ہنسی مذاق یا دل لگی کے لیے بولا جائے وہ بھی حرام ہے۔ اور ایسے شخص کے لیے آپ ﷺ نے تین دفعہ ہلاکت کی دعا کی ۔ یہ تو وہ جھوٹ ہے جس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا اور اس کے برعکس وہ جھوٹ جو پلاننگ کے ساتھ کسی مخصوص فائدے کے لیے بولا جائے تو اس کی کیا سنگینی ہو گی ۔ اس کا اندازہ لگا لینا چاہیے۔العیاذ باللہ۔ہنسی مذاق کے علاوہ ہم عام طور پر بچوں سے جھوٹ بول دیتے ہیں یا بچوں کو ٹالنے کے لیے جھوٹا وعدہ کرتے۔ یہ بھی سخت گناہ ہے۔

شریعت اسلامیہ نے دوسرے معاملات کی طرح جھوٹ بولنے کی بھی شدید طریقے سے مذمت کی ہے ۔ جھوٹ کسی بھی صورت و حالات میں بولا جائے اسے گناہ قرار دیا ہے۔ بلکہ جھوٹ کو منافقت کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے یعنی جھوٹ بولنے والا شخص ایمان دار نہیں ہو سکتا۔[24] یعنی جھوٹ بولنا منافق کا کام ہے۔ ایمانداروں کو ایسا کرنا قطعاً زیب نہیں دیتا۔

مذاق اُڑانا(ٹھٹھا کرنا) (To Make Fun)

معاشر ہ اسی وقت امن و سکون کا گہوارہ بن سکتا ہے جب تمام افراد ایک دوسرے کی عزت کریں۔ کوئی شخص کسی دوسرے کا مذاق نہ اڑائے۔برے القاب سے نہ پکارے۔ طعنے نہ دیے جائیں۔ بلکہ ہر اس کا م سے بچا جائے جس سے کسی دوسرے شخص کی عزت ،جان و مال پر حرف آئے۔

زبور بیان فرمایا گیا :"مبارک ہے وہ آدمی جو ۔۔۔۔۔ٹھٹھا بازوں کی مجلس میں نہیں بیٹھتا"۔[25] مگر انجیل میں مجھے اس کے متعلق آیت نہیں ملی۔

قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ﴾۔[26]

"اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں ۔اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں"۔

﴿وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾۔[27]

"اور نہ ایک دوسرے کا برا نام (رکھو) ایمان لانے کے بعد برا نام رکھنا گناہ ہے اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں"۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نہ صرف دوسروں کا مذاق اڑانے سے منع کیا بلکہ یہ بھی واضح کر دیا کہ خیال رکھو جنھیں تم حقیر سمجھ کر مذاق اڑاتے ہو بہت ممکن سے کہ وہ تم سے بہتر ہوں۔شریعت اسلامیہ نہ صرف برائیوں سے منع کرتی ہے بلکہ اس کی وجہ بھی سامنے لاتی ہے اور برائی سے رکنے کے فوائد بھی واضح کر دیتی ہے۔مذاق اڑانا یا ٹھٹھا کرنا جاہلوں کا کام ہے اہل عقل ایسےکام سے دور ہی رہتے ہیں جس سے دوسروں کا دل دکھےکیونکہ ایسا کرنا غضب ِ الہٰی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

کسی کو برے القاب سے پکارنا بظاہر تو معمولی سے برائی محسوس ہوتی ہے مگر قرآن میں اسے بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے اور ایسا کرنے والے کو ظالم کہا گیاہے۔اس بد اخلاقی کے متعلق صرف شریعت اسلامیہ نے ہی بات کی ہے کیونکہ اسلام ہی ایسا نظام ِ حیات ہے جو زندگی کے ہر گوشے کے بارے میں رہنمائی کرتا ہے۔

لالچ /بے جا حرص(Greediness)

مادی چیزوں کا حرص ایک ایسی برائی ہے جو کہ تمام برائیوں کی جڑہے۔ یہ ایسی خواہش ہے جس کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا۔ بلکہ اس کے باعث انسانی وجود کا اصل مقصد بھی غائب ہو جاتا ہے۔لالچ ایک بنیادی برائی ہے جس کی وجہ سے دوسرے بہت سی برائیاں جنم لیتی ہیں۔

جے آرمل اس سلسلے میں رقمطراز ہے :"جب ہم اپنے اردگرد نظر مارتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ انسان کی زندگی کا دارومدار واقعی "اس کے مال کی کثرت" پر موقوف ہے۔ انسان کا خیا ل ہے کہ میری اہمیت اور قدر میرے مال و دولت کی مناسبت سے ہے۔ اور ایسا لگتا بھی ہے کیونکہ دنیا کسی انسان کو اس کے بینک بیلنس سے ناپتی ہے۔ لیکن اس سے زیادہ مہلک غلطی اور کوئی نہیں۔ انسان کا صحیح پیمانہ یہ نہیں کہ اس کے پاس کیا ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ خود کیا ہے" ۔[28]

تورات میں ارشاد فرمایا گیا:"تو اپنے پڑوسی کے گھر کا لالچ نہ کرنا ۔ تو اپنے پڑوسی کی بیوی کا لالچ نہ کرنا اور نہ اس کے غلام اور اس کی لونڈی اور اس کے بیل اور اس کے گدھے کا اور نہ اپنے پڑوسی کی کسی اور چیز کا لالچ کرنا"۔[29] اسطرح زبور"میرے دل کو اپنے قوانین کی طرف پھیر دے نہ کہ لالچ کی طرف"۔[30] انجیل میں عیسیٰ علیہ السلام کا فرمان بیان کیا گیا ہے:"اور اس نے ان سے کہا خبردار! اپنے آپ کو ہرطرح کے لالچ سے بچائے رکھو کیونکہ کسی کی زندگی اس کے مال کی کثرت پر موقوف نہیں"۔[31] ایک اور مقام پر عیسیٰ علیہ السلام کا قول اس طرح درج ہے کہ: "کوئی نوکر دو مالکوں کی خدمت نہیں کرسکتا کیونکہ یا تو ایک سے عداوت رکھے گا اور دوسرے سے محبت یا ایک سے ملا رہے گا اور دوسرے کو ناچیز جانے گا۔ تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کرسکتے"۔[32]

قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِي يُغْشَى عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ فَإِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ أُولَئِكَ لَمْ يُؤْمِنُوا فَأَحْبَطَ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا﴾[33]

(منافق)تمہاری مدد میں (پورے) بخیل ہیں ۔پھر جب خوف و دہشت کا موقعہ آجائے تو آپ انھیں دیکھیں گے کہ آپ کی طرف نظریں جما دیتے ہیں اور ان کی آنکھیں اس طرح گھومتی ہیں جیسے اس شخص کی جس پر موت کی غشی طاری ہو ۔پھر جب خوف جاتا رہتا ہے تو وہ تم پر اپنی تیز زبانوں سے بڑی باتیں بناتے ہیں مال کے بڑے ہی لالچی ہیں۔ یہ ایمان لائے ہی نہیں ۔اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام اعمال نابود کر دئیے اور اللہ تعالیٰ پر یہ بہت ہی آسان ہے"۔

دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے:

﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَأَنْفِقُوا خَيْرًا لِأَنْفُسِكُمْ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾[34]

"پس جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو اور سنتے اور مانتے چلے جاؤ ۔اور اللہ کی راہ میں خیرات کرتے رہو جو تمہارے لئے بہتر ہے جو شخص اپنے نفس کی حرص سے محفوظ رکھا جائے وہی کامیاب ہے۔"

یہ حقیقت ہے کہ بیک وقت خدا اور دولت دونوں ہمارے لئے مقصد ِ حیات نہیں ہو سکتے۔ اگر دولت یا روپیہ پیسہ ہمارا مالک بن جائے تو ہم کسی صورت خدا کی عبادت نہیں کرسکتے۔ کیونکہ ضروری ہے کہ دولت جمع کرنے کے لئے ہم اپنی بہترین کوششیں اس کے لئے وقف کر دیں۔اور دولت ہی کے حصول کے لئے ہمار ا وہ وقت بھی ضائع ہو جاتا ہے جسے اللہ کی عبادت میں صرف کرنا چاہیے تھا۔

اسلام کی تعلیمات کے مطابق انسان کو معتدل زندگی گزارنی چاہیے۔ یہی تعلیمات اسلام کو دوسرے ادیان سے ممتاز کرتی ہیں۔

خواہش نفس کی پیروی (Follow the Evil Desires)

بے جا خواہشیں انسان کو بعض اوقات بہت سی پریشانیوں میں ڈال دیتی ہیں،ہماری زندگی سے لفظ کاش اس حد تک جڑا ہوا ہے کہ جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا، جیسے کاش ہمیں یہ مل جاتا،کاش وہ ہو جاتا اور یہ وہ۔۔۔ نہ جانے کیا کیا۔ ہمیں عموماََ ہر وہ چیز چاہیے ہوتی ہے جو ہماری بساط سے بڑھ کر ہوتی ہے یا یہ کہا جائے کہ ہم چیزوں کی کشش میں اتنے کھو جاتے ہیں کہ جب تک ہم وہ چیز جیسے تیسے حاصل نہ کرلیں تو ہمیں سکون میسر نہیں ہوتا۔جب ہماری ایک خواہش پوری ہو جاتی ہے تو وہیں بس نہیں ہوتی بلکہ ایک نئی خواہش جنم لیتی ہے اور پھر یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا ہے اور ہم ان خواہشوں کو پورا کرنے کے لیے تمام جائز اور نا جائز ذرائع استعمال کرتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے یہ زندگی بھی ہمارے لیے تکلیف دہ بن جاتی ہے اور آخرت میں تو درناک عذاب تیار ہی ہوتا ہے۔الہامی کتب میں خواہش نفس کی پیروی سے منع کیا گیا ہے۔ تورات میں بے جا خواہش کرنا اور خواہش کا پیروکار ہونے کے متعلق مجھے کوئی آیت نہیں ملی۔زبور میں بیان کیا گیا:"کیونکہ شریر اپنی نفسانی خواہش پرفخر کرتا ہے"۔[35]

قرآن میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

﴿يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ﴾[36]

"اے داؤد ! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنا دیا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی نہ کرو ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی، یقیناً جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اس لئے انہوں نے حساب کے دن کو بھلا دیا ہے۔"

مندرجہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح حکم دیا کہ نفسانی خواہش کی پیروی نہ کرو۔ بلکہ حق کی اتباع کرنی چاہیے اگرچہ وہ ہماری خواہش کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اسی میں بھلائی ہے۔ جس نے حق کے مقابلے میں نفسانی خواہش کی پیروی نہ کی وہی کامیاب ہے۔ چناچہ ارشاد ربانی ہے:

﴿وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى ۔ فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى﴾[37]

"ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونےسے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا ہوگا۔ تو اس کا ٹھکانا جنت ہے"۔

جنت تو اس شخص کے لیے جو نہ صرف بے جا خواہشوں سے بچا رہا بلکہ حق کے مقابلے میں کبھی اپنے نفس کی خواہش کی پیروی نہ کی۔ اور جو لوگ نفس کی پیروی کرتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں ان کے بارے میں اللہ سبحان تعالیٰ فرماتے ہیں:"اگر ہم چاہتے تو اس کو ان آیتوں کی بدولت بلند مرتبہ کر دیتے لیکن وہ تو دنیا کی طرف مائل ہوگیا اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرنے لگا سو اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ اگر تو اس پر حملہ کرے تب بھی وہ ہانپے یا اسکو چھوڑ دے تب بھی ہانپے۔یہی حالت ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا۔ سو آپ اس حال کو بیان کر دیجئے شاید وہ لوگ کچھ سوچیں"۔[38]

غور کریں نفسانی خواہشوں کی پیروی کرنے والے شخص کی حالت کتے کی سی ہوتی ہے یعنی اس کی ساری زندگی اسی تگ و دو میں گزر جاتی ہے کہ یہ بھی کر لو وہ بھی کرلو۔ وہ اسی بھاگ دوڑ میں لگا رہتا ہے جیسے کتے سارا دن کبھی اِس گلی میں اور کبھی اُس گلی میں، شام ہو جاتی ہے مگر وہ اسی طرح ہانپ رہا ہوتا ہے جیسے صبح کے وقت ۔

انسان بہت جلد باز ثابت ہوا ہے۔ نہ صرف ہماری خواہشیں پوری نہیں ہوتی بلکہ ان چیزوں کے لیے انتظار کرنا بھی ہمارے بس میں نہیں ہوتا،اور ہر خواہش ہمیں ایک سے بڑھ کر ایک ضروری اور اہم لگتی ہے جو در اصل نہیں ہوتی،ہم اپنی نفس کے کافی حد تک غلام ہو چکے ہیں جس سے چھٹکارا ہمارے لیے بہت ضروری ہے ،کیونکہ ان خواہشوں کے ہوتے ہوئے ہم سکون کی زندگی بسر نہیں کر پا رہے ہو تے ہیں اور ہمارے ذہن پر سوار ہو جاتا ہے کہ ہمیں وہ شے ہر حال میں چاہیے ۔انسان نفس کا غلام ہوتا ہے اس فقرے میں سو فیصد سچائی ہے اور وہ انسان جو اپنی نفس پر قابو پالے وہ کامیاب ترین انسان ہوتا ہے ۔اسی لیے اسلام نے ایسی تعلیمات دیں کہ اس کے ماننے والے اعتدال میں رہیں اور بے جا نفسانی خواہشات میں نہ پڑجائیں۔اسلام نے یہ واضح کر دیا کہ انسان اور چوپایوں میں فرق یہی ہے کہ انسان کو خواہشات کا پجاری نہیں ہونا چاہیے جیسا کہ جانور ۔

خوشامد و چاپلوسی (Flatter/Sweet Talk)

خوشامد کا مطلب ہے چاپلوسی کرنا یعنی کسی کو خوش کرنے کے لیے حد سے بڑھ کر اس کی تعریف و توصیف بیان کرنا۔ تا کہ اس کو خوش کیا جاسکے اور اس سے کچھ فوائد حاصل کیے جائیں۔ خوشامد ، چاپلوسی اور جی حضوری اخلاقی پستی کی علامت ہے۔ علاوہ ازیں یہ جھوٹ کی بھی ایک اعلیٰ قسم ہے جس کے ذریعے خود تو آدمی برباد ہوتا ہی ہے ساتھ ساتھ جس کی مدح کی جاتی ہے اسے بھی تباہ و برباد کر دیتی ہے۔

تورات و اناجیل اربعہ میں خوشامد و چاپلوسی کی ممانعت کے بارے میں نہیں ملی مگر زبور میں بیان کیا گیا ہے:"خداوند سب سے خوشامدی لبوں کو اور بڑے بول بولنے والی زبان کو کاٹ ڈالے گا"۔[39]

اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں:

﴿لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾[40]

"جو لوگ اپنے کرتوتوں پر خوش ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو انہوں نے نہیں کیا اس پر بھی ان کی تعریفیں کی جائیں، آپﷺ انہیں عذاب سے چھٹکارا میں نہ سمجھئے، ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا"۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ نا کردہ کام کی تعریف حاصل کرنے والے اچھے لوگ نہیں ہیں۔ یعنی جس تعریف کے قابل نہیں ان کی وہ تعریف کی جائے۔قطعاً جرم ہے ۔ہاں جو جائز تعریف ہے وہ کی جا سکتی ہے لیکن مبالغہ آرائی پر مبنی تعریف سے بچنا ہی بہت اچھا ہے۔مگر یہ تعریف بھی سامنے نہیں کرنی چاہیے۔ اسلامی نظام حیات میں اس کے متعلق بڑی سختی ہے منع کیا گیا ہے ۔ اس بارے میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

دوسری روایت میں عبدالرحمن بن ابی بکرہ ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ایک شخص نے نبی ﷺکے سامنے کسی کی تعریف کی تو آپ ﷺنے فرمایا:" تیری تباہی ہو تو نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی"۔تین بار آپﷺ نے فرمایا :"تم میں سے جس کسی کو کسی کی تعریف کرنا ہی ہو اور اگر وہ اس کو جانتا ہے تو اسے کہنا چاہئے کہ میں فلاں کو ایسا گمان کرتا ہوں اور اللہ اس کا نگران ہے اور اللہ کے سامنے میں کسی کا تزکیہ نہیں کرتا ہوں"۔ [41]

ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ مبالغہ آرائی پر مبنی تعریف کے متعلق آپ ﷺ فرمارہے ہیں کہ تو نے اس کو ہلاک کر دیا ہے کیونکہ اس سے تکبر اور غرور پیدا ہوگا جو نقصان ہی نقصان ہے۔

گالی گلوچ اور بے ہودہ گفتگو (To Abuse and Vulgar Speech)

زبان کی فحش گوئی میں سے یہ بھی ہے کہ بے ہودہ گفتگو کی جائے ، کسی کو گالی دی جائے۔ گالی گلوچ معاشرہ کے لیے ایک بڑی خطرناک برائی ہے ، بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ معمولی معمولی ، ناگوار کاموں کی وجہ سے گالی گلوچ پر اتر آتے ہیں ۔ گالی دینا ان کی بری عادت ہوتی ہے اوراسی عادت میں اتنی دور تک چلے جاتے ہیں کہ بعض اوقات انتہائی فحش گالیاں ان کی زبان سے نکلتی ہیں، لیکن ان کو احساس تک نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عادت والا کام بڑی آسانی اور سہولت کے ساتھ ایسے لوگوں سے صادر ہوتا ہے ، اس کے لیے کسی تکلف کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ یہ گالیاں ایسے لوگ اس لیے دیتے ہیں کہ اپنی انا کی تسکین کے ساتھ اپنے خیال میں دوسرے لوگوں کی مرمت اور علاج بھی اس گالی میں سمجھتے ہیں ۔

تورات و انجیل میں بد زبانی کے متعلق کوئی آیت نہیں مل سکی۔زبورمیں بیان ہے "بدزبان آدمی کو زمین پر قیام نہ ہو گا"۔[42]

قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے :

﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ[43]

"اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں۔کہ بےعلمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے "۔

غور فرمائیں کہ زبور اور قرآن کی آیات کے مطابق بے ہودہ گفتگو کرنے والے کے لیے تباہی و رسوا کرنے والا عذاب ہے۔ قرآن مجید میں دوسری جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

﴿ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ۔ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ﴾[44]

"ایماندار لوگ کامیاب ہوگئے۔ جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں۔ اور جو بیہودہ باتوں سے دور رہتے ہیں"۔

یعنی ایمان دار لوگوں کی نشانی ہے کہ وہ بے ہودہ گفتگو اور گالی گلوچ سے دور رہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اگر کسی میں ایمان موجود ہے تو وہ لغویات سے دور رہے گا اور اگر لغویات میں پڑ گیا تو اس میں سے ایمان جاتا رہا ۔ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا :

((سباب المسلم فسوق وقتاله کفر))[45]
"مسلمان کو گالی دینا بڑا گناہ ہے ، اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے۔"

اس حدیث سے معلوم ہو ا کہ گالی گلوچ سے اپنے آپ کو بچانا ضروری ہے اور اگر کوئی گالی دیتا ہے ، تو کوشش کرنی چاہیے کہ اس کا جواب گالی سے نہ دیا جائے بلکہ اپنی زبان کو محفوظ رکھنا چاہیے۔

حسد (Jealousy)

معاشرے اور اقوام کو برباد کرنے والی خصلتوں میں سے ایک حسد بھی ہے۔حسد کےمعنی و مفہوم ہیں کہ کسی کےپاس کسی نعمت کو دیکھ کر جلنا، اور اس نعمت کے اس کے پاس سے ختم ہوجانے یا تباہ و برباد ہو جانے کی دل میں آرزو اور امید رکھنا۔ یہ سوچ اور فکر انتہائی تباہ کن ہے۔ اس سوچ کی وجہ سے انسان ترقی نہیں کر سکتا۔ اس لیے کہ حسد کرنے والے کو تو ترقی اور کامیابی کی طرف سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔ بلکہ وہ تو دوسروں کی بربادی کی تمنائیں دل میں پیدا کر کے بیٹھا ہوتا ہے۔یہ ترقی کیسے کرے گا؟ اپنے اندر آگے بڑھنے کی سوچ و فکر کیسے کرے گا؟ تورات، زبور اور انجیل میں بھی حسد کرنے کی برائی بیان کی گئی ہے ۔ ایک جگہ ارشاد ہے:

"حسد ہڈیوں کی بوسیدگی ہے"۔ [46]

دوسری جگہ پر ہے "حسد سے میرا رشتہ کیا ہے"۔ [47]

جبکہ اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتے ہیں:

﴿وَدَّ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾[48]

"ان اہل کتاب کے اکثر لوگ باوجود حق واضح ہو جانے کے محض حسد و بغض کی بنا پر تمہیں بھی ایمان سے ہٹا دینا چاہتے ہیں، تم بھی معاف کرو اور چھوڑو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم لائے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے"۔

مندر جہ بالا آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حسد کرنا اخلاق رذیلہ میں سے ایک انتہائی گری ہوئی حرکت ہے جو کفار ،یہود و نصاریٰ کا شیواہ تھا۔ مومن ایسا قطعاً نہیں کر سکتا۔شریعت مطہرہ میں اس کی شدید مذمت کی گئی ہے بلکہ حسدکو ایمان کے منافی قرار دیا ہے۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((ولا يجتمعان في قلب عبد الإيمان والحسد))[49]
"آدمی کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہو سکتے"۔

سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"تم لوگوں میں پہلی امتوں والی بیماری حسد اور بغض سرایت کر گئی ہےآپس میں بغض رکھنا مونڈنے والی بیماری ہے۔ بالوں کو مونڈنے والی نہیں۔ بلکہ دین کو مونڈنے والے یعنی ختم کر دینے والی"۔[50]

ان دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ حسد دین و ایمان کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے، اگر حسد ہو گا تو ایمان نہ ہو گا، اور اگر ایمان نہ ہو گا تو گویا ایمان اور حسد الگ الگ چیزیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حسد اور حاسد سے بچنے کے لیے دعا سکھائی۔[51]

کیونکہ حسد کرنے والے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے بسا اوقات نقصان بھی پہنچا دیا کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے شر سے بچنے کے لیے دعا کی تلقین کی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ حسد کرنے والوں کے شر سےمحفوظ رکھے۔آمین!

بغض اور کینہ(Enmity and hatred)

بغض اور کینہ معاشرے کے لیے ناسور کی طرح ہیں۔ اس سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ نفرت سے ہی لوگوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کی نوبت آتی ہے۔ جس سے معاشرے کا امن و سکون تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔تورات میں ارشاد ہوتا ہے:"تُو اپنے دل میں اپنے بھائی سے بغض نہ رکھنا اوراپنے ہمسایہ کو ضرور ڈانٹتے بھی رہنا تا کہ اُس کے سبب سے تیرے سر گناہ نہ لگے"۔[52] زبور و اناجیل میں اس متعلق واضح آیات موجود نہیں اور قرآن مجید میں فرمایا گیا:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآَيَاتِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُون﴾[53]

"اے ایمان والو! تم اپنا دلی دوست ایمان والوں کے سوا اور کسی کو نہ بناؤ۔ (تم تو) نہیں دیکھتے دوسرے لوگ تمہاری تباہی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے وہ چاہتے ہیں کہ تم دکھ میں پڑو ان کی عداوت تو خود ان کی زبان سے بھی ظاہر ہو چکی ہے اور جو ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ بہت زیادہ ہے ہم نے تمہارے لئے آیتیں بیان کردیں۔"

یعنی ان کی نفرت و عداوت میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی بلکہ یہ نفرت کرتے رہیں گے یہ نفرت تمھارے ساتھ بھی ہوتی ہے ، اور یہ خود آپس میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ نفرت کرتے ہیں اور بغض رکھتے ہیں۔بغض اور کینہ ایک وبال ہے۔ مصیبت ہے۔ کہ جس میں مبتلا انسان ہمیشہ پریشان رہتا ہے اور اللہ اس کی کسی نیکی کو بھی قبول نہیں فرماتے۔ جب تک بغض و کینہ کو ترک نہ کردے۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"سوموار اور جمعرات کے دن جنت کے دروازوں کو کھول دیا جاتا ہے اور ہر اس بندے کی مغفرت کر دی جاتی ہے کہ جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو سوائے اس آدمی کے جو اپنے بھائی کے ساتھ کینہ رکھتا ہو اور کہا جاتا ہے کہ ان دونوں کی طرف دیکھتے رہو یہاں تک کہ وہ صلح کر لیں اور ان دونوں کی طرف دیکھتے رہو یہاں تک کہ وہ صلح کر لیں"۔[54]دین اسلام بطور خاص امن و سلامتی کا داعی ہے، اس وجہ سے اسلام نے ہر اس کام سے منع فرمایا کہ جو معاشرے کے امن و سکون کو تباہ وبرباد کرنے کا سبب بن سکتاہے۔ بغض و کینہ چونکہ امن و سکون کی فضاء کے لیے زہر قاتل ہے، اس وجہ سے شریعت مطہرہ نے اس سے منع فرمایا۔

فخر/غرور /تکبر/گھمنڈ(Pride / Arrogance)

اپنے خاندان، حسب نسب اور برادری پر گھمنڈ کرنا، اپنے خاندان کی وجہ سے اپنے آپ کو معزز جاننا قطعاً پسندیدہ عمل نہیں ہے۔ بلکہ بہت بڑا جرم ہے۔ایک انسان دوسرے انسان کے مقابلے میں جو بھی ظلم یا فساد کرتا ہے ان سب کی جڑ میں کھلا یا چھپا ہوا غرور شامل رہتا ہے۔ غرور کی وجہ سے آدمی حق کا اعتراف نہیں کرتا، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ حق کا اعتراف کر کے اس کی بڑائی ختم ہوجائے گی۔ وہ بھول جاتا ہے کہ حق کو نہ مان کر وہ حق کے مقابلہ میں خود اپنی ذات کو برتر قرار دے رہا ہے۔ حالانکہ اس دنیا میں سب سے بڑی چیز حق ہے نہ کہ کسی کی ذات۔

تورات و انجیل میں تو اس متعلق کوئی حکم نہیں مگر زبور میں موجود ہے کہ: "گھمنڈی تیرے حضور کھڑے نہ ہوں گے"۔[55] دوسری جگہ فرمایا:"شریر کے غرور کے سبب سے غریب کا تندی سے پیچھا کیا جاتا ہے"۔[56]

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

﴿قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا يَكُونُ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِيهَا فَاخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ الصَّاغِرِينَ﴾[57]
"فرمایا تو (بہشت سے) اتر جا تجھے شایان نہیں کہ یہاں غرور کرے۔ پس نکل جاتو ذلیل ہے "۔

دوسرے مقام پر ارشاد ہوا:

﴿وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ[58]
"لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلا اور زمین پر اکڑ کر نہ چل کسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو اللہ پسند نہیں فرماتا"۔

مندرجہ بالا آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ غرور کرنا ، زمین پر اکڑکر چلنا یہ سب اللہ کو پسند نہیں یہ شیطانی حرکت ہے اور اسی وجہ سے شیطان جنت سے نکالا گیا تھا۔نبی اکر م ﷺ کا فرمان گرامی ہے:

((إن الله عز وجل قد أذهب عنکم عبية الجاهلية وفخرها بالآبا مؤمن تقي وفاجر شقي أنتم بنو آدم وآدم من تراب ليدعن رجال فخرهم بأقوام إنما هم فحم من فحم جهنم أو ليکونن أهون علی الله من الجعلان التي تدفع بأنفها النتن))[59]

"کہ بیشک اللہ نے تم سے جاہلیت کے نخوت کو دور کر دیا اورباپ دادا پر فخر کو دور کر دیا ہے(تمہیں ایمان و اسلام سے معزز بنایا) ( انسان دو طرح کےہیں)۔صاحب ایمان، متقی یا فاجر اور بدبخت۔ تم سب آدم ؑ کی اولاد ہو اور آدم ؑمٹی سےتھے۔لوگوں کو قومی نخوت ترک کرنا پڑے گی وہ تو (کفر و شرک کے سبب) جہنم کا کوئلے بن چکے ورنہ یہ (قوم پر تکبر کرنے والے) اللہ کے ہاں گندگی کے کالے کیڑے سے بھی ذلیل ہوں گے جو اپنی ناک سے گندگی کو دھکیلتا پھرتا"۔

غور فرمائیں کہ خاندانی حسب و نسب پر فخر کرنے والے اللہ کے نزدیک ذلیل ترین لوگ ہیں جوکہ جو کیڑے مکوڑوں سے بھی بدتر ہیں ۔ کیونکہ خاندانی حسب و نسب دنیا سے تعلق رکھتا ہے ۔ دنیا کی حیثیت اللہ کے نزدیک کچھ بھی نہیں ہے ۔ اور یہ دنیا کوئی عمدہ اور پائیدار چیز نہیں ہے اس وجہ سے اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ تو جب اعتماد نہیں کیا جا سکتا تو پھر اس پر فخر و غرور اور گھمنڈ کرنا قطعاً زیب نہیں دیتا۔اسلامی تعلیمات کے مطابق تمام انسان اللہ کی نظر میں برابر ہیں چاہیے کوئی عربی ہو یا عجمی، کالا یا گورا سوائے اس کے جو متقی، پرہیزگار ہو۔

بے حیائی (Vulgarity)

معاشرتی برائیوں میں سے سب سے بری اور گندی خصلت یہی ہے جس کی وجہ سے معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہو کر تباہی اور بربادی کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔ اور قتل و غارت گری عام ہو جاتی ہے۔ یہی شیطان کا اصل مقصد ہے کہ کسی طرح معاشرے کے امن و سکون کو برباد کر کے اس کو جہنم کا ایندھن بنا دیا جائے کیونکہ قتل کی سزا جہنم میں ہے۔ اور شیطان انسانوں کو جہنم ہی لے جانا چاہتا ہے۔ اس کا بڑا سبب اور بنیاد بے حیائی ہی ہے۔تورات و اناجیل میں بے حیائی کی روک تھام کے متعلق مجھے کوئی حکم نہیں ملا۔ جبکہ زبور میں بیان ہے:"میں بے ہودہ لوگوں کے ساتھ نہیں بیٹھا"۔[60] ا : "بدکرداروں کی جماعت سے مجھے نفرت ہے "۔[61]قرآنِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

﴿الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ وَاللَّهُ يَعِدُكُمْ مَغْفِرَةً مِنْهُ وَفَضْلًا وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ﴾[62]

"شیطان تمہیں فقیری سے دھمکاتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ وسعت والا اور علم والا ہے"۔

مزید فرمایا:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ وَمَنْ يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ﴾[63]

"ایمان والو! شیطان کے قدم بقدم نہ چلو۔ جو شخص شیطانی قدموں کی پیروی کرے تو وہ بےحیائی اور برے کاموں کا ہی حکم کرے گا اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی بھی کبھی بھی پاک صاف نہ ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ جسے پاک کرنا چاہے، کر دیتا ہے ۔ اور اللہ سب سننے والا جاننے والا ہے"۔

قرآن کی ان دونوں آیات سے معلوم ہوا کہ بے حیائی شیطانی کام ہے۔ اور شیطان کبھی بھی انسان کو اچھے راستے پر چلنے نہیں دیتا، بلکہ برے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔زبور کی آیت کے مطابق ایسے لوگوں سے میل جول نہیں رکھنا چاہیے جو بے حیائی کے کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔

الہامی کتب میں تورات اور انجیل میں بے حیائی سے روک تھام کے لیے کوئی حکم یا ہدایت موجود نہیں۔ زبور میں بے حیائی کے متعلق ایک سرسری آیت موجود ہے۔ جبکہ قرآن مجید میں معاشرے میں سے بے حیائی کو ختم کرنے کے لیے ایک پورا نظام دیا گیا ہے۔ اسلامی ِ نظام حیات کے تحت نہ صرف انفرادی طور پر بے حیائی کے کاموں سے روکا گیا بلکہ اجتمائی طور پر بھی بے حیائی کے پھیلاؤ کا بھی سدد باب کیا گیا۔بے حیائی کے مرتکب افراد کے لیے سخت عذاب کی نوید سنائی گئی۔یہ خاصا صرف اسلامی نظام حیات کا ہی ہے۔

دھوکہ دہی(Fraud)

کسی کو دھوکا دینا انسانی حقوق کے منافی ہے۔تقریباً تمام الہامی کتب میں دھوکہ دہی اور فراڈ سے روکا گیا ہے۔ کیونکہ اس سے دوسروں کے حقوق کو غصب کرنا لازم آتاہے۔یہی وجہ ہے کہ دھوکہ اور فراڈ کو منافقین کی علامت سمجھا جاتا ہے۔تورات میں تعلیم دی گئی ہے:چوری نہ کرنا اور نہ دغا دینا اور نہ ایک دوسرے سے جھوٹ بولنا"۔[64] جبکہ زبور میں فرمایا:"خداوند کو خون خوار اور دغا باز آدمی سے نفرت ہے"۔[65] اور قرآن میں اللہ تبارک تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :

﴿وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتَانُونَ أَنْفُسَهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا أَثِيمًا﴾[66]

"اور ان کی طرف سے جھگڑا نہ کرو جو خود اپنی ہی خیانت کرتے ہیں، یقیناً دغا باز گناہگار اللہ تعالیٰ کو اچھا نہیں لگتا"۔قرآن نے نہ صرف دھوکا دہی سے منع فرمایا بلکہ یہ واضح کر دیا کہ دوسروں کو دھوکا دینے والا دراصل خود دھوکے میں ہے۔ ارشاد ِ ربانی ہے:

﴿يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آَمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ﴾[67]

"وہ اللہ تعالیٰ اور ایمان والوں کو دھوکا دیتے ہیں، لیکن دراصل وہ خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں مگر سمجھتے نہیں"۔

دھوکہ دہی کا انجام اور سنگینی کا اندازہ نبی اکرم ﷺ کے ارشاد سے لگایا جا سکتا ہے۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:

)) من غشنا فليس منا (([68]
"جو شخص ہم(مسلمانوں) کو دھوکہ دے وہ ہم سے نہیں"۔

یعنی نبی اکرم ﷺ نے بلکہ واضح کر دیا کہ جس نے دھوکہ دیا وہ ہمارے طریقے کے مطابق نہیں ہے جو شخص بھی مسلمانوں والا طریقہ چھوڑ کر منافقوں والا کردار اپنائے گا یقیناً انتہائی بد بخت ہو گا۔آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ :

)) ما من وال يلي رعية من المسلمين فيموت وهو غاش لهم إلا حرم الله عليه الجنة (([69]

"نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، اللہ تعالیٰ جس آدمی کو کسی رعیت کا ذمہ دار بنائے پھر وہ انہیں دھوکہ دیتے ہوئے مر جائے یعنی ان کے حقوق کی حفاظت کی کو شش نہ کرے ، اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے"۔

غور فرمائیں کہ اگر حاکم وقت اپنی عوام کے ساتھ غداری کرے ان کو دھوکہ دے گا تو وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا، جب جنت میں نہیں جائے گا تو پھر جہنم میں جائے گا یہ انجام بد ہے۔ دھوکہ اور فراڈ کرنے کا۔

اسلام عام لوگوں کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کو بھی نصیحت کرتا ہے کہ وہ عوام سے دھوکا دہی نہ کریں۔ یہ صرف دین ِ اسلام ہی کی خاصیت ہے کہ اس میں معاشرے کے تمام طبقات کے لیے احکامات ملتے ہیں۔

نتائج

تمام انسانوں کے لیے ہدایت و کامیابی اسی میں ہے کہ وہ برے اخلاق کو چھوڑ کر اچھے اخلاق کو اپنائیں۔ تمام الہامی کتب بھی اسی کا درس دیتی رہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دیگر الہامی کتب میں تبدیلیاں ہوئی گئی جن کی وجہ سے ان میں بیان کی گئی تعلیمات بھی معدوم ہوتی چلی گئی مگر قرآن آج بھی اپنی اصل و مکمل حالت میں موجود ہے اور اس میں موجود تمام تعلیمات و احکامات بھی من و عن موجود ہیں۔

مکمل نظام ِ حیات اسے ہی کہا جا سکتا ہے جس کی تعلیمات بھی مکمل ہوں۔ یعنی زندگی کے تمام گوشوں کے لیے رہنمائی موجود ہو۔ اسلامی نظام حیات نہ صرف اچھائی کی طرف رہنمائی کرتا ہے بلکہ برائیوں سے بچنے اور دور رہنے کی تلقین کے ساتھ طریقے بھی مہیا کرتا ہے۔

جیسا کہ دیگر الہامی کتب میں بے حیائی سے منع کیا گیا مگر قرآن نہ صرف بے حیائی سے منع فرماتا ہے بلکہ بے حیائے کے تمام راستے بھی بند کرتاہے۔ مزید یہ کہ برائی اور بے حیائی پھیلانے والوں کے لیے بھی سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔

جبکہ مقابلتاً قرآن کے علاوہ الہامی کتب میں سرسری طور پر اخلاقی برائیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ جبکہ قرآن نے ان برائیوں کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی اور ان کے نقصانات کو واضح اور دو ٹوک انداز میں بیان کیا ہے۔

سفارشات

آج ہم جس تنزلی و تباہی کے دور میں سے گزر رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ اخلاقیات کی کم ہے۔ ہمیں اپنی اور قوم و ملت کی اخلاقی تربیت کی طرف خاص توجہ دینی ہو گئی۔

ہمارا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو مگر اعلیٰ اخلاقی تعلیم ہی ہمیں اس تباہی سے بچا سکتی ہے۔ صرف نظر اس کے کہ ہم کس مذہب و کتاب کے ماننے والے ہیں ہمیں اخلاق حسنہ اور اخلاق رزیلہ کو سمجھنا اور عمل پیرا ہونا ہو گا۔ اس کے لیے وہ کتاب یعنی جو واضح اور تفصیلی طور پر اخلاقیات کی تعلیم دیتی ہے اس کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ یہی راہ عمل و راہ ِ نجات ہے۔

آج کے معاشرے میں قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہوا جائے تو کوئی شک نہیں کہ دنیا و آخرت کی کامیابیاں و کامرانیاں ہمارے قدم چومیں اور معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جائے۔


  1. زبور 4:26
  2. متی 6 : 1-4
  3. القرآن 38:4
  4. احمد بن حنبل ابو عبداللہ الشیبانی، المسند (ناشر موئسسۃ القرطبہ، س۔ن)، حدیث : 23680۔
  5. ا، المسند احمد بن حنبل ،حدیث شداد بن اوس،ج۔4،حدیث: 17180۔
  6. استثنا 15: 7-10
  7. القرآن 37:4
  8. القرآن 92: 8-11
  9. ترمذی محمد بن عیسیٰ:جامع ترمذی، کتاب نیکی و صلہ کا بیان، باب بخل کی برائی(: ضیاء احسان پبلشرز،اپریل 1988ء)حدیث: 23680۔
  10. خروج 20: 16
  11. زبور 20:50
  12. زبور 5:101
  13. متی12: 36
  14. القرآن 12:49
  15. القرآن 1:104، مزید دیکھیں، القرآن68: 16،11
  16. مسلم بن الحجاج بن مسلم القشیری ،الجامع الصحیح ، کتاب صلہ رحمی کا بیان،اب غیبت حرام ہے(لاہور: اسلامی کتب خانہ ،س۔ن)، حدیث: 6593۔
  17. خروج 1:23
  18. احبار 11:19
  19. زبور6:5
  20. زبور7 :14-15، جھوٹ کے متعلق مزید یہ آیات زبور7:101، زبور29:119
  21. القرآن 22: 30
  22. القرآن 6:49
  23. مسلم بن الحجاج بن مسلم القشیری،الجامع الصحیح ،کتاب الادب، باب جھوٹ بولنا کیسا ہے؟، حدیث: 1554۔
  24. محمد بن اسماعیل البخاری،الجامع الصحیح، کتاب الایمان،باب منافق کی علامات (لاہور: مکتبہ قدوسیہ ،2004ء)، حدیث: 33۔
  25. زبور 1:1
  26. القرآن 11:49
  27. القران 11:49
  28. ولیم میکڈونلڈ: تفسیر الکتاب ترجمہ جیکب سموئیل(لاہور :مسیحی اشاعت خانہ ، 2013)، 2: 133۔
  29. خروج 17:20
  30. زبور36:119
  31. انجیل ِ لوقا 15:12
  32. انجیل ِ لوقا 13:16
  33. القرآن 33: 19
  34. القرآن 64: 16
  35. زبور 3:10
  36. القرآن 26:38
  37. القرآن79: 40-41
  38. القرآن 176:7
  39. زبور 4:12
  40. القرآن 188:3
  41. بخاری،الجامع الصحیح ، کتاب الادب،باب لفظ ویلک یعنی تجھ پر افسوس ہے کہنا درست ہے،حدیث:6162۔
  42. زبور 11:140، زبور 11:140
  43. القرآن 6:31
  44. القرآن23: 1-3
  45. بخاری،الجامع الصحیح، کتاب الایمان،باب مومن کو ڈرنا چاہیے کہ کہیں اس کے اعمال مٹ نہ جائیں اور اس کو خبر تک نہ ہو، حدیث: 48۔
  46. امثال 3:14
  47. مرقس 1O:15
  48. القرآن 109:2
  49. نسائی، سنن نسائی ، کتاب الاجہاد، باب اللہ کی راہ میں پیادہ جانے والے کا بیان(لاہور: اسلامی اکادمی،1985ء)،حدیث: 3115۔
  50. ترمذی ،جامع ترمذی، کتاب قیامت کا بیان،باب وہ لوگ جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے(لاہور: ضیاء احسان پبلشرز، 1988ء)،حدیث: ، 2:116۔
  51. القرآن 5:113
  52. احبار 17:19
  53. القرآن 118:4
  54. مسلم ،الجامع الصحیح ،کتاب صلہ رحمی کا بیان، باب کینہ رکھنے کی ممانعت،حدیث:6544۔
  55. زبور 15:5
  56. زبور 10:2
  57. القرآن 13:7
  58. القرآن 18:31
  59. ابوداؤدسلیمان بن اشعث سجستانی،السنن،کتاب الادب، باب حسب نسب پر تفاخر جائز نہیں(لاہور:اسلامی کتب خانہ)، حدیث : 1796۔
  60. زبور 4:26
  61. زبور 5:26
  62. القرآن 268:2
  63. القرآن 21:24 و القرآن 151:6
  64. احبار 11:19
  65. زبور 6:5
  66. القرآن 107:4
  67. القرآن 9:2
  68. مسلم ،الجامع الصحیح ،اسلامی ،کتاب الایمان،باب جو شخص مسلمانوں کو فریب دیے وہ ہم سے نہیں ،حدیث: 283۔
  69. بخاری،الجامع الصحیح ، کتاب الا حکام، جو شخص رعیت کا حاکم بنے اور ان کی خیر خواہی نہ کرے اس کا عذاب، حدیث: 7151۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...