Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Milal: Journal of Religion and Thought > Volume 1 Issue 2 of Al-Milal: Journal of Religion and Thought

زر اور معاوضۂ زر: سرمایہ دارانہ اور اسلامی نظام معیشت کے تناظر میں تجزیاتی مطالعہ |
Al-Milal: Journal of Religion and Thought
Al-Milal: Journal of Religion and Thought

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

2

Year

2019

ARI Id

1682060035210_829

Pages

1-28

PDF URL

http://al-milal.org/journal/index.php/almilal/article/download/30/17

Chapter URL

http://al-milal.org/journal/index.php/almilal/article/view/30

Subjects

Money Value Inflation Interest Economic System Islam Capitalism Money Value Inflation Interest Economic System Islam Capitalism

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید

کاروبا و تجارت میں زر کی حیثیت خشتِ اول کی سی ہے۔ابتداء سے لے کر انتہاء تک وہ عامل جس سے ہمیشہ واسطہ پڑتا ہے ، وہ زَر ہی ہے۔ اسی اہمیت کے پیشِ نظر زر کو عاملینِ پیدائش میں سے ایک اہم عامل تسلیم کیا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ زر سے کیا مراد ہے اور آیا زمین ، مکان،دوکان،حجر،شجر،کار،کوٹھی،بنگلہ اور اشیائے تجارت کی طرح کی زَر کی قدرِ زمانی کو تسلیم کیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟بالخصوص جب اس کی قدرِ زمانی کو سود کی صورت میں ادا کیا جائے اور افراطِ زر کے حالات میں قرض لی گئی رقم کے بدلے میں زیادہ(افراطِ زر کی شرح کے مطابق)رقم واپس کی جائے۔ زیرِنظر تحقیقی مقالہ، زَر کے اسی پہلو کا اسلامی اور سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے تناظر میں احاطہ کرتا ہے ۔مقالے میں بیانیہ اور تجزیاتی اسلوبِ تحقیق اختیار کیا گیا ہے۔ تحقیق و جستجو کے بعد یہ نتائج سامنے آئے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت میں زر کی قدرِ زمانی لامحدود جبکہ اسلامی نظامِ معیشت میں اس کی قدر محدود ہے۔مقالہ نگار کی یہ سفارش ہے کہ مروجہ کاروبار و تجارت میں سود کی بجائے نفع و نقصان پر مبنی طریق ہائے تجارت کو فروغ دیاجائے اور اس تناظرمیں افراطِ زر کے حالات میں قرضوں کو افراطِ زر سے مربوط کرنے کی بجائے شرعی متبادل تلاش کئے جائیں۔

زیر نظر موضوع سے متعلق مفتی تقی عثمانی حفظہ اللہ کی کتاب” فقہی مقالات“ ایک مصدر کی حیثیت رکھتی ہے جس میں افراط زر کی وجہ سے قرضوں کو شرح افراط زر سے منسلک کرنے کی تردید کی گئی ہے۔ڈاکٹر محی الدین ہاشمی کی کتا ب” مؤخر ادائیگیوں پر افراطِ زر کے اثرات،شرعی نقطہ نظر“میں مخالف نقطہ نظر اپنایا گیا ہے اور قرضوں کو افراطِ زر سے منسلک کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔خالصتاً زر کے حوالے سے مفتی ڈاکٹر عصمت اللہ کا پی۔ایچ ڈی کا مقالہ’’ زر کا تحقیقی مطالعہ شرعی نقطہ نظر سے‘‘اور مفتی تقی عثمانی حفظہ اللہ کی کتاب ” فقہی مقالات“ نہایت مفید ہیں۔ جن میں زر کے موضوع پر عمدہ ابحاث موجود ہیں۔باحث نے زر(معنیٰ،مفہوم،اقسام،خاصیات)،معاوضہ زر(سود،شرعی اور عقلی حیثیت)،افراط زر اور قرضوں کی اشاریہ بندی جیسے موضوعات کو موضوع تحقیق بنایا ہے ۔محقق نے ایک تو بکھرے ہوئے کام کو یکجا کیا ہے نیز مواد کی تسہیل بھی کی ہے۔مزید یہ کہ اگرچہ اس موضوع پرکافی مواد موجود ہے(جیسا کہ درج بالا سطور میں بیان کیا گیا ہے) لیکن محقق نے اس پر اضافہ بھی کیا ہے۔مثال کے طور پر موجودہ حالت میں اور بالخصوص پاکستان میں افراط زرر کی صورتحال کیا ہے؟ اورسود کی حرمت کی عقلی وجوہات،افراطِ زر اور قرضوں کی اشاریہ بندی سے متعلق قرآنی استدلال کا صحیح محمل ،احادیث میں بیان کردہ حقائق کی امثلہ،اسلامی و سرمایہ دارنہ نظام معیشت کا تقابل محقق کا اضافہ ہے۔

زر کا تعارف

عربی زبان میں زر کے لئے ’’نقد‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے جس کی جمع ’’نقود‘‘ آتی ہے۔ فقہاء کی اصطلاح میں زر سے مراد مطلقاً سونا ، چاندی ہے۔[1]دوسرا نقطہ نظر ،یہ ہے کہ اس سے مراد دراہم اور دنانیر ہیں۔[2]تیسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس کا اطلاق سونے اور چاندی کے علاوہ دیگر اشیاء پر بھی ہوتاہے۔[3] کراؤتھر کے مطابق”زر سے مراد وہ شے ہے جو آلۂ مبادلہ کی حیثیت سے مقبول عام ہو اور وہ ساتھ ہی معیارِ قدر اور ذخیرہ قدر کا فرض بھی سر انجام دے ۔[4] فریڈرک کے نزدیک:

“Money is any item or verifiable record that is generally accepted as payment for goods and services and repayment of debts, such as taxes, in a particular country or socio-economic context”.[5]

زر سے مراد ایسی چیز ہے جسے خاص ملک یا خاص سماجی و معاشی پس منظر میں اشیاء و خدمات اور قرض(مثلا ٹیکس) کی ادائیگیوں میں قبولیت عامہ حاصل ہو۔

اب تک کی بحث سے زر کی درج ذیل خصوصیات منظرِ عام پر آتی ہیں۔ 1:زر آلۂ مبادلہ ہوتا ہے۔2:اسے قبولیت عامہ حاصل ہوتی ہے۔3:وہ مالیت کے محفوظ کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ 4: اس کے ذریعے اشیاء کی قدر معلوم کی جاتی ہے۔

موجودہ سرمایہ دارانہ نظام جس کی ابتداء یورپ میں جاگیر دارانہ نظام کے خاتمے کے بعد ’’بورژوا‘‘ یعنی تاجروں اور صنعتکاروں کے ہاتھوں ہوئی ،یہ نظام اٹھارویں صدی تک یورپ میں اپنے گہرے نقوش مرتب کر چکا تھا اور انیسویں صدی کی ابتدا تک یہ اپنے نقطہ کمال کو جا پہنچا تھا۔اس نظام میں زر کی موجودہ شکل کاغذی کرنسی کو عروج حاصل ہوا اور آج دنیا کاغذی کرنسی سے پلاسٹک اور آن لائن کرنسی شکل تک پیشرفت کر چکی ہے۔[6]ذیل میں زر کے اسی تاریخی ارتقاء سے متعلق مختصر بحث پیش خدمت ہے:

زر کا تاریخی ارتقاء

زر کے تاریخی ارتقاء میں مختلف نظام رائج رہے ہیں جن کا مختصر ہ درج ذیل ہے:

بارٹر سسٹم(Barter System)

معاشیات کی تاریخ میں سب سے اول زر کا نظام جو رائج رہا، وہ اشیاء کے تبادلے کا نظام تھا جو بارٹر سسٹم سے معروف ہوا۔ اس نظام میں اشیاء کا تبادلہ اشیاء کے ساتھ کیا جاتا تھا مثال کے طور اگر ایک شخص کے پاس گندم موجود ہے اور اسے چاول کی ضرروت ہے تو وہ ایسے شخص کو تلاش کرتا تھا جس کے پاس زائد از ضرورت چاول موجود ہوں اور گندم درکار ہو۔یوں گندم اور چاول کا تبادلہ ہوتا اور ضروریات پوری ہوجاتیں لیکن اس نظام میں کئی پیچیدگیاں تھیں۔سب سے اول تو مطلوبہ شخص کی تلاش تھی پھر اگر وہ مل بھی جائے تو اجناس کی قیمتوں کا تعین بھی ایک بڑا مسئلہ تھا لیکن وہ ہمیشہ فروخت کنندہ اور خریدار کی باہمی رضامندی پر موقوف رہا۔مثال کے طور پر ایک من گندم کی قیمت کیا ہے اور اس کے بدلے میں کتنے چاول ملیں گے؟یہ قضیہ فریقین کی رضامندی سے ہی حل ہوتا تھا۔اس کے علاوہ ایک مشکل اجناس کی نقل و حمل کی بھی تھی کہ منوں وزنی اجناس کون اٹھائے پھرے اور وہ اجناس جو کہ جلد خراب ہونے والی ہوں انہیں کس طرح سے ذخیرہ کیا جائے ؟یہ وہ تمام مسائل تھے جن کی وجہ سے یہ نظام متروک ہوگیا۔

زربضاعتی کا نظام یا (Commodity Money System)

اس کے بعد دوسرا نظام آیا جسے زربضاعتی کا نظام یا Commodity Money System کہا جاتا ہے ۔اس میں لوگوں نے مخصوص اشیاء کو آلۂ مبادلہ بنایا مثلا کبھی گندم تو کبھی چاول اور کبھی جانوروں کی کھالیں۔اس نظام کے اپنانے سے کچھ بہتری تو آئی کہ مخصوص اشیاء آلہ تبادلہ کے لیے مختص ہو گئیں لیکن نقل وحمل،ذخیرہ اندوزی کا نہ ہونا وہ تما م خرابیاں جو پہلے نظام میں موجود تھیں،بدستور رہیں لہٰذا تیسرے نظام کی طرف پیش رفت ہوئی جو نظام زر معدنی یا دھاتی زر کا نظام کہلایا۔[7]اس نظام میں قیمتی دھاتیں مثلا کانسی،تانبا،سونا ،چاندی وغیرہ آلۂ مبادلہ کے طور پر استعمال ہوئیں۔تقریباً ایک ہزار سال قبل ازمسیح ،چین میں کانسی کے سکوں کا رواج ہوا۔یہ سکے چین اور ہندوستان میں رائج رہے۔پیرس کی نیشنل لائبریری میں موجود سکے پر تصویر اور عبارت کندہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکومتی سرپرستی میں ڈھالا گیا ، اس پر 700 قبل ازمسیح کی تاریخ درج ہے۔

دھاتی سکوں کے استعمال میں چونکہ سونا سب سے قیمتی دھات تھا اور اس کے بعد چاندی ،لہٰذا آہستہ آہستہ ان کا استعمال معروف ہوا۔ابتداء میں سونا اور چاندی جب استعمال میں آئے تو ان میں یکسانیت نہ تھی۔کبھی یہ زیور کی صورت میں ہوتے تو کبھی برتن اور کبھی ڈلی صورت میں ،بہرحال ان کی شکل جو بھی ہو تی ،قابل قبول ہوتےتھے،البتہ وزن کو معیار ضرور بنایا جاتا تھا۔اس کے بعدسونے اور چاندی کے ڈھلے ہوئے سکے رائج ہوگئے جن کے دونوں طرف مہر ثبت ہوتی تھی۔ان سکوں پر درج ظاہری قیمت،ان میں موجود حقیقی قیمت کے برابر ہوتی تھی۔ مثال کے طور پر اگر کسی سکے پر پانچ دینار درج ہوتا تو اس میں پانچ دینار سونا بھی ہوتا تھا نہ کہ صرف کاغذی اعتبار۔اس نظام کو معیاری قاعدہ زر یا Gold Spice Standard کہا گیا۔اہل چین نے اس نظام کو ساتویں صدی قبل از مسیح میں اپنے ہاں رائج کیا اور حکومت وقت کی طرف سے سونے کے ڈھلے ہوئے سکے متعارف کروائے گئے۔لوگوں کو کہا گیا کہ وہ اپنا سونا کسی بھی شکل میں لائیں تو اسے سکوں میں ڈھال کر دیا جاسکتا ہے۔چنانچہ لوگ اپنا سونا لاتے اور سکوں میں ڈھلوا کر لے جاتے اور ان کے ذریعے ملکی و بین الاقوامی خریدو فروخت عمل میں آتی۔[8]

کرنسی نوٹ کی ابتداء

سونے اور چاندی کی یہ بڑی مقدار لوگوں کے پاس رہنے لگی تو چوری چکاری کے خطرات سامنے آئے۔اب لوگ اپنا سونا سناروں اور صرافوں کے پاس رکھوانے لگےجن کے پاس ان کی حفاظت کا پورا بندوبست ہوتا تھا۔سنار اور صراف اس سونے اور چاندی کو اپنے پاس جمع کرلیتے اور اس کے بدلے میں مقررہ مالیت کی رسید لکھ دیتے تھے۔دھیرے دھیرے جب لوگوں کا ان پر اعتماد ہو گیا تو اب یہی رسیدیں بازاروں میں روپیہ پیسہ کی بجائے گردش کرنے لگیں۔لوگ ان کے ذریعے وصولیاں اور ادائیگیاں کرتے اور کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ادھر سناروں نے بھی دیکھا کہ لوگوں کی بہت کم مقدار اپنے روپے پیسے کا جلد ازجلد مطالبہ کرتی ہے اور بہت بڑی مقدار ویسے ہی مقفل پڑی رہتی ہے،اب انھوں نے ضرورت کی مقدار رکھ کر بقیہ کی بنیاد پر قرض دینا شروع کردیا۔یہیں سے کرنسی نوٹ کی ابتداء ہوئی ۔ گیارہویں صدی وہ زمانہ ہے جب چین میں کرنسی نوٹ حکومتی سرپرستی میں چھاپے گئے اور اس کام کے لیے مختلف صرافوں کوبھی کرنسی نوٹ چھاپنے کا اختیار دے دیا گیا۔[9]

دورِ حاضر میں تقریباً پوری دنیا میں کرنسی نوٹوں کا لین دین عام ہے اور انہیں بلا کسی حجت تسلیم کیا جاتا ہے۔اب ان کی حیثیت کسی قرض کی دستاویز کی نہیں بلکہ مروجہ زر کی ہے۔[10] فقہی احکام کے لحاظ سے زر کی دو قسمیں ہیں:

زر تخلیقی

اس سے مراد سونا اور چاندی ہیں اس لئے کہ خلقی اور طبی لحاظ سے یہ زر ہیں۔ علامہ ابن عابدینؒ کہتے ہیں کہ نقدین(سونا اور چاندی تخلیقی طور پر) کرنسی ہیں۔[11]

زر عرفی

اس سے مراد سونا اور چاندی کے ماسوا اشیاء ہیں جو کہ موجودہ دور یا ماضی میں بطورِ زر متعارف رہی ہیں۔ حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ ارادہ کیا تھا کہ وہ اونٹ کے چمڑے سے کرنسی تشکیل دیں لیکن پھر اس ڈر سے کہ اونٹ ہی ختم نہ ہو جائیں ،تو اسے عملی جامہ نہ پہنایا گیا۔[12] موجودہ دور میں زر کا اطلاق کرنسی پر ہوتا ہے مگر کرنسی کی یہ خاصیت ہے کہ اسے قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے، مثال کے طور پر اگر کوئی شخص پاکستان میں خریدوفروخت کرے اور ادائیگی سونے یا چاندی میں کرے، باوجودیکہ یہ زرِ تخلیقی ہے لیکن دکاندار کو مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ سونے اور چاندی کو بطورِ کرنسی قبول کرے جبکہ پاکستانی روپیہ جو کہ سونے اور چاندی کی بہ نسبت نہایت ارزاں چیز ہے مگر دکاندار کو اس کی وصولی پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔

کرنسی کی دو بنیادی قسمیں ہوتی ہیں:

  1. محدود قانونی زر(Limited legal Tender)ایسی کرنسی جو ایک خاص مقدار تک ادائیگی میں دی جاسکتی ہے۔
  2. غیر محدود قانونی زر: ایسی کرنسی جس کی کوئی حد مقرر نہیں ہوتی کہ بڑی بڑی ادائیگیاں اس کے ذریعے چکائی جاسکتی ہیں۔[13]

زیر نظر مقالہ میں چونکہ زر اور معاوضہ زر کا سرمایہ دارانہ اور اسلامی معیشت کے تناظر میں جائزہ لیا جائے گا،لہذا ضروری ہے کہ ان نظام ہائے معیشت کا مختصر تعارف پیش کیا جائے۔ذیل میں اسی حوالے سے بحث کی جاتی ہے:

سرمایہ دارانہ نظام معیشت

سرمایہ دارانہ نظام کا وجود یورپ میں صناعوں ،سوداگروں اور تاجروں کے ہاتھوں عمل میں آیا۔احیائے علوم کی تحریک نے جب علمی دنیا میں ایک انقلاب بپا کیا تو تجارت کے نئے طور طریقے وجود میں آئے جس میں سرمایہ خشتِ اول ٹھہرا۔کمپنیوں کے قیام کے لئے جب بڑی بڑی رقوم درکارہوئیں تو انہیں چھوٹی چھوٹی اکائیوں (شئیرز)میں تقسیم کر دیا گیا۔یوں کروڑوں کی رقم ہزاروں یونٹ میں تقسیم ہوئی،سرمائے کا بندوبست ہوا اور شیئرہولڈرز کا تصور سامنے آیا۔کارخانوں اور فیکٹریوں نے مصنوعات بنانی شروع کیں تو اب نئی منڈیوں کی تلاش شروع ہوئی جہاں تیار شدہ مال کو کھپایا جا سکے۔ یوں اندرونی اور بیرونی تجارت نے سرمائے کی ریل پیل کو جنم دیا۔اس پورے انتظام میں چونکہ سرمائے کو بنیادی حیثیت حاصل تھی اسی لئے یہ نظام اپنی حیثیت کے ناطے سرمایہ دارانہ نظام کہلایا۔اٹھارویں صدی کے صنعتی انقلاب تک یہ نظام یورپ میں چھا چکا تھا اور بیسویں صدی کی ابتداء تک امریکہ اور مغربی یورپ میں یہ اپنے بامِ عروج کو پہنچ چکا تھا۔[14]

یورپی اقوام کی نو آبادیاتی توسیع کے دور میں اس کی حدود بے انتہا وسیع ہوچکی تھیں اور ماسوائے چند اشتراکی ممالک کے، دنیا بھر میں یہ نظام اپنے گہرے اثرات مرتب کر چکا تھا ۔بیسویں صدی کے تیسرے عشرے کے بعد بد ترین معاشی بحران کے سبب اس نظام میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں اور حکومت کی عدم مداخلت کے بند کو ذرا ڈھیلا کیا گیا۔اب ایک طرح سے اس کی شکل مخلوط نظام معیشت کی سی ٹھہری جس میں مزدوروں کے حقوق اور ان کا تحفظ ،معاشی فلاح و بہبود جیسے اقدامات بھی اہم متصور ہونے لگے مگر اپنی اصل روح کے اعتبار سے آج بھی یہ نظام جاری وساری ہے۔[15] اس نظام کی فکری بنیادوں اور خصوصیات کا مختصرا تذکرہ حسبِ ذیل ہے:

ریاست کی عدم مداخلت

سرمایہ دارانہ نظام کا ایک اہم اصول ریاست کی عدم مداخلت ہےجس کی رو سے ریاست کو معاشی فیصلوں میں بالکل بھی دخل نہیں دینا چاہیے۔کیا پیدا کرنا چاہیے اور کیا نہیں؟ کونسی خدمات درست ہیں اور کن پر پابندی عائد ہونے کی ضرورت ہے؟ریاست کو ان کاموں میں حصہ لینے کی ضرورت نہیں۔اس کا کام تو عدل و انصاف کا قیام ،انتظامی معاملات،خارجہ اور دفاع کے امور ہیں اور بس۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرمایہ دار اب مکمل آزاد ہیں اور کَل کے تاجر اپنے پیسے کے بل بوتے پر آج کے حکمران بھی ہیں یا پھر حکمرانوں کی ڈوریاں انہی کے ہاتھوں میں ہیں لہٰذااب ان کی قہرمانیاں اور بھی بڑھ کر سامنے آئی ہیں اس لئے کہ انہیں ریاستی طور پر قانونی تحفظ حاصل ہے۔[16]

معاشی آزادی

اس نظام میں افراد کو مکمل طور پر معاشی آزادی حاصل ہوتی ہے۔وہ اپنے وسائل جہاں چاہیں اور جب چاہیں، استعمال کر سکتے ہیں۔معاشی حاجات کی تسکین کے لئے کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔کوئی سا بھی کاروبار کیا جاسکتا ہے اور اس ضمن میں روپے پیسے کو سود پر دینے میں بھی کسی قسم کی کوئی عار نہیں بس یہ خیال رہے کہ کوئی بھی معاشی سرگرمی ملکی قوانین کے خلاف نہ ہو۔اسلامی نظام معیشت اس طرز کی معاشی آزادی کے خلاف ہے۔وہ ان تمام اقسام کے کاروبار و تجارت کی اجازت دیتا ہے جو شریعت کی حدود میں ہوں ،مگر شریعت سے متصادم کاروبار مثلاً سودی کاروبار،شراب،جوا،قحبہ خانہ،فحاشی پر مبنی فلم انڈسٹری جیسے کاروبار کی اجازت نہیں دیتا۔[17]

مسابقت

مسابقت سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی خصوصیت ہے۔پیدائش کنندگان اور فروخت کار ایسی منڈی میں کام کرتے ہیں جہاں ان کے مابین مسابقت کی فضا ہوتی ہے۔وہ اپنا منافع بڑھانے کی خاطر مختلف طریقے اپناتے اور گاہکوں کو اپنی جانب قائل کرتے ہیں اور گاہک بھی جگہ جگہ قیمتیں جانچ پرکھ کر اشیاء خریدنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ مسابقت کی اس فضا میں عاملین پیدائش کا بھی ایک دوسرے سے مقابلہ ہوتا ہے۔زمین،زمین سے مقابلہ کرتی ہے،مزدور اور کاریگر ایک دوسرے کے مقابل ہوتے ہیں۔ اسی طرح سرمایہ دار بھی دیگر سرمایہ داروں سے مقابلہ کرتے ہیں۔[18]سرمایہ دارانہ نظام کی اس خوبی کی بدولت اشیاء میں تنوع آتا ہے۔قیمتوں میں مقابلہ بازی کا فائدہ گاہک کو ہوتا ہے؛اجارہ داری کی فضا ختم ہوتی ہے لیکن یہی خوبی جو اس نظام کے شروع میں بطور محرک کردار ادا کرتی ہے،بسا اوقات دردِ سر بھی بن جاتی ہے۔مثال کے طور پر سرمایہ دارانہ نظام میں جس مسابقت اور مقابلے کی بات کی جاتی ہے وہ مکمل مسابقت عملی زندگی میں نا پید نظر آتی ہے۔مسابقت سے خیر کی توقع اس وقت کی جاسکتی ہے جب مقابلہ کی فضا میں تمام فریق مساوی ہوں لیکن ایسا ممکن نہیں ہوتا۔چھوٹے اور بڑے سرمایہ کار کا تفاوت ہمیشہ رہتا ہے۔بڑے سرمایہ کار طاقت اور قوت کا منبع ہوتے ہیں اور چھوٹے سرمایہ کار ان کےمرہونِ منت ہوتے ہیں۔ جبکہ مزدوروں کی حیثیت بسا اوقات غلاموں کی سی ہوتی ہے جہاں انہیں قوت لا یموت پر ہی اکتفا کروایا جاتا ہےدو وقتہ روٹی کے منتظر چا رو ناچار ہر ظلم برداشت کرتے اور اپنے کام میں مگن رہتے ہیں۔

مذہبِ اسلام مسابقت کا انکار نہیں کرتا بلکہ وہ کھلے اور آزادانہ ماحول میں ہر ایک کو اپنی صلاحیتوں کے بل بوتےپر کاروبار و تجارت کے جوہر دکھانے کی دعوت دیتا ہے لیکن وہ کسی کے حقوق تلفی کی ہر گز اجازت نہیں دیتا اور ساتھ ہی معاشی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والوں کا خیال رکھنے کی تلقین بھی کرتا ہے۔اسلام کا معاشی نظام ایک دوسرے کو پچھاڑنے یا لتاڑنے کا نہیں بلکہ کا روبار و تجارت میں آگے بڑھتے ہوئے، محروموں کی جانب پیچھے دیکھنے کا ہے کہ اگر کسی وجہ سے کوئی فرد یا ادارہ مسابقت میں برابر کی دوڑ نہ لگا سکا تو اب اس کے معنیٰ یہ نہیں کہ اسے بالکل ہی محروم کردیا جائے بلکہ اپنی بساط کے مطابق زیست کے مواقع فراہم کئے جائیں۔

نجی ملکیت

سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ہر شخص کو ذاتی اور نجی ملکیت کا حق حاصل ہے،وہ جب چاہے اور جتنا چاہے کما سکتا ہے اور اپنی نجی ملک میں رکھ سکتا ہے۔ اس نظام میں نجی ملکیت کی کسی قسم کی تحدید نہیں ،نہ ہی ریاست کو یہ حق ہے کہ وہ ملکیت کے حقوق اپنے پاس رکھے اور افراد کو اس سے محروم کرے۔مذہب اسلام نجی ملکیت کی مخالفت نہیں کرتا بلکہ وہ اسے افراد کا حق قرار دیتا ہے۔ قرآن حکیم کی متعدد آیات اس پر شاہد ہیں ۔مشتے از خروارے ، چند آیات پیش خدمت ہیں:”يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُواوَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا“[19]اے مسلمانو ! نہ جاؤ گھروں میں ، اپنے اپنے گھروں کے سوا ، یہاں تک کہ اجازت لے لو اور گھر والوں کو سلام کرو ۔

درج بالا آیت یہ واضح کردیتی ہے کہ اسلام غیر منقولہ جائیداد میں بھر پور حق ملکیت عطا کرتا ہے اسی وجہ سے ”غیر بیوتکم“کی قید لگا کر وہ کسی شخص کو اپنے گھر کے علاوہ داخلے کی اجازت نہیں دیتا۔

اموال منقولہ میں نجی ملکیت کی مثال” وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَامًا “[20]ہے جس میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ تم اپنا مال بے وقوفوں کے ہاتھ مت دو۔”اپنےمال“ میں اس طرف اشارہ ہے کہ اسلام نجی ملکیت کے حقوق عطا کرتا ہے۔لیکن اسلامی معاشی نظام اور سرمایہ دارانہ نظام میں نجی ملکیت کے حوالے سے بنیادی فرق یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نجی ملکیت کو منجملہ انسان کی کاوش اور ذاتی لیاقت تسلیم کرتا ہے اور اس میں کسی دوسرے کا اشتراک قبول نہیں کرتا لیکن اسلام کا معاشی نظام تمام تر ملکیت کو فضل ِخداوندی قرار دیتا ہے لیکن اس کے لئے وہ محنت اور سعیِ رزق کو اولین شرط قرار دیتا ہے۔مثال کے طور پر زراعت میں تمام تر سعیِ انسان کے بعد وہ انسان سے سوال کرتا ہے: ”أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَحْرُثُونَ أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ“[21]یعنی یہ بیج جو تم بوتے ہو،ان سے تم کھیتیاں اگاتے ہو یا ہم ان کے اگانے والے ہیں؟

دوسرا فرق اسلام کے معاشی نظام اور سرمایہ دارانہ نظام میں یہ ہے کہ اسلام ایسی ملکیت کو ناپسندیدہ نگاہ سے دیکھتا ہے جس کے حقوقِ واجبہ اور حقوق ِ نافلہ ادا نہ کئے گئے ہوں۔ایسی ملکیت جس کی زکوٰۃ نہ دی گئی ،ریاست اسے بزور بازو لینے کا پورا حق رکھتی ہے۔ اسی طرح ہنگامی حالات میں لگائے گئے ٹیکسز کی پابندی بھی قانوناً لازم ہے۔اسی طرح ہر مال میں سے صدقہ وخیرات پر بھی غریب کا حق ہے۔ارشاد باری تعالی ہے ” وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ“[22] کہ امراء کے اموال میں سائلین اورمحرومین کا حق ہے۔نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا ”وفی المال حق سوی الزکاۃ“[23]کہ مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حقوق ہیں۔قرآن وحدیث کی انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیبات اور عدم انفاق کی صورت میں وعیدات کی وجہ سے نجی ملکیت حدود میں رہتی ہے اور شترے بے مہار ہو کر معاشرے کے لئے ناسور نہیں بنتی جس میں امیر،امیر سے امیر تر اور غریب،غریب سے غریب تر ہوتا چلا جاتا ہے۔

قیمتوں میں میکانیت

سرمایہ دارانہ نظام میں قیمتوں کی میکانیت اہم کردار ادا کرتی ہے بلکہ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لیجئے کہ یہ نظام قیمتوں کے بل بوتے پر چلتا ہے۔سرمایہ کار ان اشیاء کی پیداوار کا انتخاب کرتا ہے جس میں منافع کا امکان زیادہ ہو جو کہ لاگت کے کم ہونے اور قیمت کے زیادہ ہونے سے ممکن الحصول ہوتا ہے۔اشیاء کی قیمتوں کے کم یا زیادہ ہونے میں صارفین کی پسند ونا پسند بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔جو چیز صارفین میں نہایت مقبول ہو اس کی طلب بڑھ جاتی ہے اور گاہک زیادہ قیمت دینے پر بھی آمادہ ہوتے ہیں اور اگر اس کی رسد کم ہو تو سرمایہ کار کو قیمت بڑھانے کاموقع مل جاتا ہے اور وہ منہ مانگے دام وصول کرتا ہے۔

اسلامی نظام معیشت میں زیادہ منافع والے مقامات پر سرمایہ کاری کرنا کچھ برا نہیں بشرطیکہ وہ کاروبار جائز ہو لیکن اسلام اپنے ماننے والوں کو یہ درس دیتا ہے کہ جیسے وہ دنیوی منافع کی خاطر اس کاروبار کا انتخاب کرتے ہیں جہاں نفع کی توقع زیادہ ہو،اسی طرح انہیں وہ کاروبار بھی منتخب کرنے چاہیئں جہاں دنیوی نفع کم مگر اخروی نفع زیادہ ہو۔مثال کے طور اگر غرباء کے علاقے میں جہاں سرمایہ کار ،سرمایہ کاری کے لئے اس لئے خواہشمند نہیں کہ زیادہ نفع غیر یقینی ہے،وہاں سرمایہ کاری کرکے سستے گھر بنا کر فروخت کرنا تاکہ آخرت کو سنوارا جا سکے ،اسلام کی نظر میں نہایت محبوب ہے۔

معاوضۂ زر کی شرعی حیثیت

موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں زر کو ایک قابل ِ تجارت چیز سمجھا جاتا ہے جس کی خرید وفروخت جائز تصور کی جاتی ہے اور اسے قرض دے کر سود حاصل کیا جاتا ہے۔ کیمبرج ڈکشنری میں سود کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے:

“Money which is charged by a bank or other financial organization for borrowing money.”[24]

وہ رقم جو بینک اور مالیاتی ادارے ادھار دی گئی رقوم کے عوض وصول کرتے ہیں۔

انسائکلو پیڈیا امیرکنا میں سود کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے:

“Interest, a charge of money. It is usually expressed as a percentage of the amount loaned and is computed on an annual basis. Interest   is charged by those who have money to lend because they gave up its use for a period of time.”[25]

سود وہ معاوضہ ہے جو مقروض کی جانب سے(مقروض کوئی آدمی ہو یا ادارہ) قرض خواہ (شخص ہو یا ادارہ)کو رقم کی ایک خاص شرح کے مطابق ادا کیا جاتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں سرمائے کو ایک باقاعدہ عاملِ پیدائش تصور کیا جاتا ہے۔ Arthur O'Sullivan لکھتے ہیں:

“In economics, factor payments are the income people receive for supplying the factors of production: land, labor, capital or entrepreneurship”.[26]

معاشیات میں عاملین کی ادائیگیوں سے مراد زمین،محنت،سرمایہ اور تنظیم کا معاوضہ ہے۔ [زمین کا کرایہ،محنت کا معاوضہ،سرمائے کا سود اور تنظیم کا منافع ادا کیا جاتا ہے]

اسلامی اور سرمایہ دارانہ نطام معیشت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اسلام کے فلسفہ اقتصاد میں سرمائے کو اس طرح عامل تسلیم نہیں کیا جاتا کہ اس کا کرایہ بھی ادا کیا جائے بلکہ ایسا کرنا شدید مذموم ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

”وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِنْدَ اللَّهِ“[27]

”اور جو تم سود دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں اضافہ ہو تو اللہ کے نزدیک اس میں اضافہ نہیں ہوتا“

”وَأَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا“ [28]

”اوراس وجہ سے کہ وہ (یہود) سود لیتے تھے حالانکہ اس سے ان کو منع کیا گیاتھا اور اس وجہ سے کہ وہ لوگوں کا ناحق مال کھاتے تھے اور ہم نے کافروں کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے“

”يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ“ [29]

”مومنوا! سود نہ کھایا کرو، دوگنا اور چار گنا اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ“

”يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ O فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ“ [30]

”اے مومنو! اللہ سے ڈرتے رہو اور جو کچھ سود کا باقی ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم واقعی میں اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ اگر تم اس پر عمل نہ کرو گے تو سن لو کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے۔ اگر تم توبہ کر لو تو تم کو تمھارے اصل اموال مل جائیں گے۔ نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ کوئی تم پر ظلم کرے۔“

نزول قرآن کے وقت ربوٰا،اہل عرب کے لیے بالکل معروف فعل تھا۔ جس کی حقیقت سے وہ شراب، زنا اور قمار کی طرح خوب آشنا تھے۔ تاہم پھر بهی "القرآن يفسر بعضه بعضا" کے مطابق سور البقرۃ کی آیت نمبر 278 اور 279 نے انھیں بتایا کہ قرض دینے والے کو صرف رأس المال وصول کرنے کا تو اختیار ہے مگر اس سے زائد کوئی بھی رقم خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی ربوٰا کہلائے گی اور ہر مسلمان پر اس سے اجتناب لازم ہے۔دور جاہلیت میں لوگ ربا کی حقیقت سے تو واقف تھے مگر اسے بیع کی طرح جائز سمجھتے تھے۔ قرآن کریم نے انھیں آکر بتایا کہ تم بیع میں جو اضافہ وصول کرتے ہو وہ قرض کے منافع سے بالکل مختلف ہے، اول جائز اور دوم ربوٰا کی وجہ سےناجائز ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے:” ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا“[31] ”اور سود خوروں کا یہ حشر اس لیے ہو گا کہ انھوں نے کہا کہ بیع ربوٰا کی مانند ہے۔ اللہ نے بیع کو حلال کیا جبکہ ربوٰا کو حرام قرار دیا۔“

ربا کے بارے میں ائمہ تفسیر کے اقوال

قرآن کریم کے بیان کردہ ربوٰا کو ربا القرآن، ربوٰا الجاہلیہ اور ربوٰا النسیئہ بھی کہا جاتا ہے اس لیے کہ وہ ربوٰا جسے قرآن حکیم نے بیان کیا وہ دور جاہلیت میں رائج تھا۔ اور ادھار سے معرض وجود میں آتا تھا لہٰذا مفسرین کہیں اس کی تشریح ربا النسیئہ اور کہیں ربا الجاہلیہ سے کرتے ہیں۔

امام طبریؒ کی تشریح

امام طبریؒ نے ربا کی تفسیر قتادہؒ سے یوں نقل کی ہے: ”إن ربا الجاهلية یبيع الرجل البيع إلى أجل مسمى، فاذا حل الأجل ولم يكن عنه صاحبه قضاء زاد و أخر عنه۔“”بے شک جاہلیت کا ربا یہ تھا کہ ایک شخص کوئی چیز دوسرے کو ادھار پر فروخت کرتا پس جب (واجب الاداء رقم کی) مدت آجاتی اور خریدار قیمت کی ادائیگی نہ کر سکتا تو فروخت کنندہ چیز کی قیمت میں اضافہ کرکے مہلت بھی بڑھا دیتا۔“

امام جصاصؒ کی رائے

امام ابو بکر جصاصؒ ربا کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:”والربا الذي كانت العرب تعرفه وتفعله إنما كان قرض الدراهم والدنانير إلى أجل بزيادة على مقدار ما استقرض على ما يتراضون به۔“”اور ربا جو کہ عرب کے ہاں معروف اور رائج تھا وہ یہ تھا کہ دراہم اور دنانیر مخصوص مدت کے لیے اس شرط پر قرض دیا کرتے تھے کہ وہ ان پر ایک متعین اضافہ وصول کریں گے“۔

امام رازیؒ کی رائے

امام رازیؒ فرماتے ہیں:”وأما ربا النسيئة فهو الأمر الذي كان مشهورا متعارفا في الجاهلية وذلك انهم كانوا يدفعون المال على أن يأخذوا كل شهر قدرا معينا، ويكون راس المال باقيا، ثم إذا حل الدين طالبوا المديون براس المال، فإن تعذر عليه الأداء زادوا في الحق والأجل، فهذا الرباء الذي كانوا في الجاهلية يتعاملون به.[32]”اور جہاں تک رباالنسیئہ کا تعلق ہے تو وہ دور جاہلیت کا ایک مشہور ومعروف معاملہ تھا۔ جس میں لوگ روپیہ پیسہ اس شرط پر دیتے تھے کہ وہ ایک متعین مقدار ماہانہ وصول کریں گے۔ اور راس المال یونہی جوں کا توں باقی رہے گا۔ پھر جب ادائیگی کا وقت آتا اور مقروض سے راس المال کی واپسی کا مطالبہ کیا جاتا۔اگر وہ ادا نہ کر سکتا تو مدت اور واجب الاداء رقم کو بڑھا دیتے ۔ یہ تھا وہ جاہلیت کا ربا جوان کے ہاں رائج تھا۔“

ائمہ تفسیر کے اقوال کا خلاصہ

ائمہ تفسیر کے اقوال سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ دور جاہلیت میں ربا کی ایک سے زائد صورتیں رائج تھیں۔ کبھی تو ایسا ہوتا کہ اصل معاملہ قرض کا ہوتا جس میں ایک رقم ادھار پر دی جاتی تھی اور اس پر متعین اضافہ وصول کیا جاتا۔ کبھی تو یہ اضافہ ماہانہ بنیادوں پر حاصل کیا جاتا جیساکہ علامہ رازیؒ نے نقل کیا ہے اور اصل رقم جوں کی توں برقرار رہتی تو کبھی اکٹھا وصول کر لیا جاتا۔ دوسری صورت ربا کی یہ تھی کہ اصلاً رقم ادھار پر نہ دی جاتی تھی بلکہ خرید وفروخت کا عقد ادھار پر کیا جاتا تھا لیکن جب مقررہ مدت پر خریدار رقم ادا نہ کر سکتا تو شے کی قیمت میں اضافہ کر کے مزید مہلت دے دی جاتی یہی وہ معاملہ تھا جس کی طرف امام مجاہدؒ نے اشارہ کیا: ”كانوا في الجاهلية يكون للرجل الدين، فيقول: لك كذا وكذا وتؤخر عني.[33]”دور جاہلیت میں ایک شخص کے ذمہ دوسرے کا قرض ہوتا پھر وہ اپنے قرض خواہ سے کہتا کہ میں تجھے اتنی اتنی رقم (مزید) ادا کروں گا بشرطیکہ تو مجھے مزید مہلت دیدے۔“

امام مجاہدؒ نے اس واقعے میں قرض کی بجائے دین کا لفظ استعمال کیا ہے جو کہ عموماً اشیاء کی خریدوفروخت سے جنم لیتا ہے۔([34]) مذکورہ بالا تمام صورتوں میں خواہ وہ قرض سے متعلق ہوں یا دین سے۔ ایک بات مشترک تھی وہ یہ کہ ادھار کی رقم پر ایک اضافی رقم کا مطالبہ کیا جاتا تھا جو کہ اپنی تمام شکلوں کے ساتھ ممنوع قرار پایا۔

روایتی بینکاری کا موجودہ کاروبار سود کے زمرے میں آتاہے۔ اس لیے کہ جب وہ عوام الناس سے رقوم وصول کرتےہیں تو ان پر ایک متعین اضافہ بھی انھیں فراہم کرتے ہیں، اس وقت عوام کی حیثیت قرض خواہ اور بینک کی مقروض کی سی ہوتی ہے۔ پھر جب بینک آگے قرض دیتا ہے تو اس وقت بینک قرض خواہ اور رقم وصول کرنے والا مقروض ہوتا ہے۔ خواہ وہ تاجر ہو یا کارخانہ دار، نوکری پیشہ ہو یا سرمایہ دار۔ بینک مقروض سے پیشگی متعین اضافی رقم کے ساتھ معاملہ کرتا ہے کہ وہ اتنی اضافی رقم ہر سال وصول کرے گا۔

معاوضہ زَر کی عقلی حیثیت

سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت میں عاملین کی تعداد چار ہے۔ زمین، محنت، سرمایہ اور تنظیم۔ زمین کا معاوضہ کرائے کی صورت میں جبکہ محنت کا معاوضہ اجرت، سرمائے کا سود اور تنظیم کا منافع ادا کیا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں سرمائے سے مراد روپیہ پیسہ، کرنسی نوٹ، سکے وغیرہ ہیں جن کا معاوضہ سود ہوتا ہے۔ اسلام میں سرمائے کا سود نہیں بلکہ اس کا حقیقی معاوضہ نفع ادا کیا جاتاہے اور اگر کاروبار وتجارت میں منافع نہ ہو تو اصل سرمائے میں نقصان بھی ممکن ہے لیکن سرمائے کا سود کسی طرح بھی روا نہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بقول جس طرح وقت گزرنے اور کام میں لگنےکے بعد زمین کرائے کی مستحق ٹھہرتی ہے بالکل اسی طرح سرمایہ بھی اپنے سود کا مستحق ہے۔اسلامی نظام ِ معیشت میں سود کسی صورت بھی روا نہیں ۔اس لئے کہ زَر تو محض آلہ تبادلہ ہے۔ مشہور فقیہ اور فلسفی علامہ ابن رشد فرماتے ہیں کہ:” الْمَقْصُودُ مِنْهُمَا أَوَّلًا الْمُعَامَلَةُ لَا الِانْتِفَاعُ “[35]دراہم و دنانیر سے خرید و فروخت کا معاملہ تو سر انجام دیا جا سکتا ہے لیکن ان سے بذاتِ خود نفع نہیں اٹھایا جا سکتا۔

یہی بات معمولی فرق کے ساتھ علامہ حصکفیؒ نے بھی کہی ہے کہ اس کرنسی کے ذریعے دیگر اشیاء خریدی اور فروخت کی جا سکتی ہیں اور ان سے فائدہ اٹھایا جا تا ہے لیکن یہ کرنسی بذات خود انسان کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔[36]علامہ ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں:” والدراهم والدنانير لا تقصد لنفسها بل هي وسيلة“[37]دراہم ودنانیر بذات خود کوئی نفع نہیں پہنچاسکتے بلکہ یہ مبادلہ کا ایک ذریعہ ہیں لہذا یہ (اشیاء تجارت کی بجائے) صرف اور صرف ثمن ہیں بخلاف دوسرے اموال کے کہ وہ بذات خود نفع پہنچاتے ہیں۔امام غزالیؒ نے صبر اور شکر کے موضوع پر تفصیلی کلام کرتے ہوئے دراہم و دنانیر کے موضوع پر طویل بحث کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ زر مبادلہ کا سب سے اہم ذریعہ ہے جس کے سبب اشیاء کی قدر کی بہترین طریقے سے پیمائش ہوتی ہے۔زر سے براہِ راست کوئی غرض وابستہ نہیں ہوتی ۔ جو شخص زر کے ساتھ سود کا معاملہ کرتا ہے تو وہ ناشکری کا مرتکب ہوتا ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس لئے پیدا کیا ہے کہ ان کے ذریعے دیگر اشیاء کو خریدا اور فروخت کیا جاسکے۔ انہیں بذاتِ خود خریدوفروخت میں لانا، اللہ تعالیٰ کی حکمت سے روگردانی کے سبب، ظلم کا ارتکاب ہے۔[38] زر کو گھر ، مکان، دکان پر قیاس کر کے اس کا کرایہ بھی نہیں لیا جاسکتا اس لئے کہ اجارہ ان اشیاء کا ہوتا ہے جو استعمال کے بعد اپنا وجود برقرار رکھیں جبکہ زر میں یہ خاصیت نہیں۔[39]

خالص عقلی بنیا دوں پر بھی اگر اسے پرکھا جائے تو یہ دعویٰ کیونکر ممکن ہے کہ زَر کا کرایہ پانچ،دس یا پندرہ فیصد متعین کر دیا جائے اس لئے کہ کوئی بھی کاروبار نفع کا مستحق تب ٹھہرتا ہے جب وہ اشیاء کی خریداری سے لے کر اس کی فروخت تک بے انتہا ذہنی محنت اور بے شمار خطرات سے گزر کر کندن ہو جاتا ہے اور سود تو شروع سے ہی بے خطر ہے۔اس میں تو روپیہ پیسہ دینے والا مکمل آزاد ہے کہ خواہ کاروبار میں نفع ہو یا نقصان،شرح سود تو بہر حال لازم ہے۔یہ صورتحال سودی سرمایہ حاصل کرنے والے تاجر کے لئے بھی خطرناک ہے اس لئے کہ اسے دورانِ تجارت قدرتی آفات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے اور ایسے حالات میں جب کاروبار خسارے کا شکار ہو اور اسے بہر طور سرمائے کا سود ادا کرنا ہو اور تو اس کا دیوالیہ ہونا اور آسمان سے زمین پر آجانا کچھ بعید نہیں۔اس کے برعکس اگر کاروبار میں شراکتی بنیادوں پر سرمایہ لگا ہوتا تو خسارے کی صورت میں دونوں فریق خسارہ برداشت کرتے اور یوں نقصان تقسیم ہوجاتا اور سارا بار ایک کے کندھوں پر نہ پڑتا۔

سود ی کاروبار میں شرحِ سود پہلے ہی طے کر لی جاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سا ذریعہ ہے جو پہلے ہی اس بات کو یقینی بنا دیتا ہے کہ کاروبار میں نفع کی شرح مثلا دس فیصد ہوگی تو اسی حساب سے سود طے کر لیا جائے؟دوسرے یہ کہ اگر کوئی کاروبار منافع دے بھی سہی تو یہ کس طرح فرض کیا جا سکتا ہے کہ سرمایہ ادھار لیتے ہی کاروبار منافع دینا شروع کر دے گا ؟ممکن ہے کہ اسے نفع آور ہوتے ہوتے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ لگ جائے لیکن شش ماہی یا سالانہ سود تو واجب الاداء ہوجائے گا اور اگر سرمائے کا سود ادا نہ کیا گیا تو جرمانے کے طور پر سود کی شرح میں بینک کی جانب سے اضافہ بھی ممکن ہے۔روپیہ پیسہ از خود نفع دینے کا بھی ذریعہ نہیں جب تک اس پر ذہنی اور دماغی محنت صرف نہ کردی جائے اور یہ محنت بھی کاروبار کی حد تک محدود ہے لیکن شخصی حاجات کے لئے لیا گیا قرضہ تو بالکل بھی مزید سرمائے کو جنم نہیں دیتا ۔مثال کے طور پر بچوں کی شادی بیاہ اور ان کی تعلیم کے لئے لیا گیا قرضہ،اسی طرح مکان بنانے کے لئے لیا گیا قرضہ کس طرح ششماہی بنیادوں پر نفع آور ہو سکتا ہے؟ہر گز نہیں۔اس لئے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ روپیہ از خود نفع دینے اور بالخصوص بہر صورت نفع دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔[40]

افراطِ زر

عہد حاضر کے معاشی مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ افراطِ زر کا بھی ہے۔ اس مسئلے نے اربابِ حکومت، احبابِ سیاست، ماہرینِ معیشت اور معاشرے کے تمام افراد کو پریشان کررکھا ہے۔ افراطِ زرسے مراد معیشت کی وہ حالت ہے جس میں زر، روپیہ کی قدر کم ہوجاتی ہے اور اشیاء کی قیمتیں بلند ہوجاتی ہیں۔ اگر افراطِ زر پر شروع میں قابو نہ پایا جائے تو یہ بے لگام ہو کر معیشت کی کمزوری کاسبب بنتا ہے۔پاکستان میں افراط زر کی شرح پچھلے پانچ سالوں سے زیادہ ہو رہی ہے۔ مارچ 2019ء میں یہ شرح نو اعشاریہ پانچ فیصد (5ء9)تک جا پہنچی ہے۔ فروری میں یہ شرح آٹھ اعشاریہ دو فیصد(2ء8) تھی۔[41]اگست 2019ء میں افراطِ زر گیارہ اعشاریہ چھ فیصد کی ریکارڈ سطح پر جا پہنچا ہے[42] جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ایک سال قبل ایک لاکھ روپے کی موجودہ ویلیو تقریباً انانوے ہزار(89000) ہو چکی ہے اس لئے کہ گیارہ ہزار افراطِ زر کا شکار ہو چکے ہیں۔ ذیل میں ہم افراطِ زر، وجوہات اور اس کی بناء پر قرضوں کو افراطِ زر کی شرح سے منسلک کرنے پر بحث کریں گے:

پروفیسرکراؤ تھرکے مطابق افراط زر اس حالت کا نام ہے جب زر کی قدر گررہی ہو یعنی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہو۔

افراطِ زر کے اسباب

ماہرین ِ معاشیات کے نزدیک افراطِ زر کے اسباب درج ذیل ہیں:

طلب کا بڑھ جانا

افراطِ زر کا ایک اہم سبب اشیاء کی طلب کا بڑھ جانا ہے۔ جب اشیاء کی طلب بڑھتی ہے اور رسد اس کے مطابق نہیں ہوتی تو اشیاء کی قیمتیں بلند ہوجاتی ہیں اور افراطِ زر کا عفریت بے لگام ہوجاتا ہے۔

خسارے کی سرمایہ کاری

بعض اوقات حکومتیں اپنے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے نئے نوٹ جاری کرتی ہیں ۔ اس طرح زر کی رسد میں تو اضافہ ہو جاتا ہے لیکن اشیاء و خدمات کی تعداد اپنی جگہ ہی برقرار ہوتی ہے لہذا یہ عمل بھی افراطِ زر کا سبب بنتا ہے۔[43]

کرنسی کی قدر میں کمی

کرنسی کی قدر میں کمی بھی افراط زر کی وجہ بنتی ہے۔مثال کے طور پر سال 2019 میں افراط زر کی ایک وجہ،ماہرینِ معیشت کے مطابق یہ ہے کہ حکومت نے روپے کی قدر کو گرا دیا ہے اور توانائی کی قیمت میں اضافہ کر دیا ہے۔[44]پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ایسے میں قیمت کی وجہ سے افراطِ زر(Cost push inflation) نا گزیر امر ہے۔ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے بھی درآمدات کی قیمتوں میں اضافہ اور برآمدات کے منافع میں کمی آئی ہے۔

آجر و اجیر کے بے جا مطالبات

بعض اوقات کاروباری افراد کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ انہیں اپنی مصنوعات پر بڑھ چڑھ کر منافع ملے جبکہ دوسری جانب مزدور اپنی یونین، ہڑتال اور تالہ بندی کے عمل سے اپنی تنخواہوں میں اضافے پر زور دیتے ہیں اور صنعت کار کو تنخواہیں بڑھانے پر مجبور کرتے ہیں ۔ صنعت کار تنخواہ میں بڑھوتری کو اس طرح پورا کرتے ہیں کہ مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں تو اس کا نتیجہ افراطِ زر کی صورت میں سامنے آتا ہے جہاں اشیاء کی قیمتیں چڑھ جاتی ہیں اور عوام الناس پریشانی کا شکار ہوتے ہیں۔[45]

سود پر مبنی بینکاری

سود پر مبنی بینکاری بھی افراطِ زر کا سبب بنتی ہے وہ اس طرح کہ صنعتکار جب بینک سے سود پر سرمایہ حاصل کرتا ہے تو وہ خام مال، مزدوروں کی تنخواہ، بجلی، گیس کے بلوں کی طرح سرمائے کے سود کو بھی ایک خرچ شمار کرتا ہے۔ جس طرح دیگر اشیاء مصنوعات کی قیمت شامل ہوتی ہے اسی طرح سود بھی قیمت میں شامل ہوکر گرانی کا سبب بنتا ہے۔ جو لوگ بینک میں پیسہ جمع کروا کر سود وصول کرتے ہیں وہ اشیاء خریدتے وقت حاصل کردہ سود سے قیمت کی ادائیگیاں بھی کرتےہیں لہذا نہ صرف یہ کہ اس سے افراطِ زر میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ سود سے بچتیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔[46]

آمدنیوں میں اضافہ

اگر افراد کی آمدنیوں میں اضافہ ہوجائے اور اسے سرمایہ کاری کی بجائے صرف میں لگا دیا جائے تو اشیاء کی طلب بڑھ جاتی ہے جب کہ اس کی رسد کم ہوتی ہے اس سے بھی افراطِ زر کی شرح بڑھ جاتی ہے۔

جنگوں کی تباہ کاریاں

بعض اوقات جنگوں کی تباہ کاریاں بھی افراطِ زر کا باعث بنتی ہیں اور بسا اوقات یہ افراطِ زر انتہائی شکل اختیار کرلیتا ہے مثال کے طور پر جرمنی میں پہلی جنگ عظیم کے موقع پر اشیاء کی قیمتوں میں300 فیصد تک اضافہ ہوگیا تھا۔ ہنگری میں دوسری جنگ عظیم کے موقع پر اشیاء کی قیمتیں دو ہزار فیصد سے بھی بڑھ گئی تھیں۔ افراطِ زر کی یہ صورتحال مؤجل ادائیگیوں پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہے۔[47]

افراطِ زر کی صورتحال میں چونکہ کرنسی دن بدن گرتی چلی جاتی ہے تو جو شخص قرض دیتا ہے ، وصولی کے وقت اسے کرنسی کی کم قدری کا سامنا کرنا پڑتا ہے مثال کے طور پر 2008ء میں جس شخص نے دس لاکھ روپے قرض دئیے اور 2018ء میں یہ رقم واپس لی تو اگر بالفرض اس دورانیے میں کل افراطِ زر 20٪ شمار کیا گیا تو 2018ء میں یہ دس لاکھ کی رقم آٹھ لاکھ کے برابر ہوگی کہ بظاہر تو یہ دس لاکھ ہیں مگر خریداری میں آٹھ لاکھ کے برابر ہیں تو کیا شرع ِ اسلام کی رو سے اس بات کی اجازت ہے کہ ان دس لاکھ کو افراطِ زر کی شرح سے منسلک کر کے قرض خواہ کو دس سال بعد بارہ لاکھ واپس کئے جائیں ؟۔ اس سلسلہ میں دو طرح کے نکتہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں ۔ پہلا نکتہ نظر یہ ہے افراطِ زر کے پیش نظر قرضوں کو افراطِ زر کی شرح سے منسلک کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے کے مطابق یہ اجازت نہیں۔ ذیل میں دونوں کا جائزہ پیش ِ خدمت ہے:

قرضوں کا افراطِ زر کی شرح سے منسلک کیا جانا

افراطِ زر میں چونکہ کرنسی کی قدر کم ہوجاتی ہے اور اس کی وہ حیثیت نہیں رہتی جو عدمِ افراطِ زر کے زمانے میں ہوتی ہے، مثال کے طور پر افراطِ زر سے قبل ایک ہزار روپے میں دس کلو دودھ خریدا جا سکتا ہے جبکہ افراطِ زر کے بعد جب دودھ کی قیمت ایک سو بیس روپے ہوجائے تو ایک ہزار میں نَو کلو دودھ ہی مِل سکتا ہے ۔علماء کے ایک گروہ[48] کا یہ کہنا ہے کہ افراط زر کی وجہ سے کرنسی کی قدر میں کمی قرآن مجید میں بیان کردہ ”بخس “کے مشابہ ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِين۔"[49] یعنی لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دو ، اور زمین میں فساد برپا نہ کرو جب کہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے ، اسی میں تمہاری بھلائی ہے اگر تم واقعی مومن ہو۔ سورۃ ہود میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "قَالُوا يَا شُعَيْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَنْ نَتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَنْ نَفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ۔"[50] یعنی" انہوں نے جواب دیا۔ اے شعیب، کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ ہم ان سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے ؟ یا یہ کہ ہم کو اپنے مال میں اپنے منشا کے مطابق تصّرف کرنے کا اختیار نہ ہو؟"ابن عربیؒ ان آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ وہبؒ نے امام مالک ؒسے نقل کیا ہے کہ کہ حضرت شعیبؑ کی قوم کے افراد دراہم و دنا نیر کو (کم وزن کرنے کے لئے) قطع کرتے تھے ،نیز ” وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ[51]کی تفسیر میں زید بن اسلم کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ:كانوا يكسرون الدراهم والدنانير“ .کہ وہ لوگ دراہم اور دنانیر کو قطع کرتے تھے۔[52]

ابن عربیؒ اس آیت سے استنباط کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص قطع دراہم یا قطع دنانیر کا مرتکب ہو تو گناہ کبیرہ کی وجہ سےاس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی اور اس سلسلے میں اس کا یہ عذر بھی نہیں مانا جائے گا کہ اس نے عدم واقفیت کی بنا پر ایسا کیا۔نیز ایسا کرنے والے پر حد بھی لگا ئی جائے گی۔سعید ابن مسیبؒ کا ایک شخص پر گذر ہوا جس کو سزا دی جارہی تھی۔آپؒ نے وجہ دریافت کی تو معلوم ہوا کہ یہ شخص قطع دراہم و دنانیر کا مرتکب ہوا تھا۔اامام مالکؒ فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کو حاکم وقت سزا دے گا۔حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے ایک ایسے ہی مجرم کو سزا بھی دی اور اس کا سر بھی مونڈ دیا تھا۔[53]

علامہ قرطبی ؒ نے بھی تقریباً کم و بیش یہی بات کہی ہے اور فرمایا ہے کہ مفسرین کے نزدیک حضرت شعیبؑ کی قوم پر عذاب کی وجہ یہی تھی کہ وہ دراہم و دنانیر کو قطع کرکے کم وزن کر دیا کرتے تھے۔[54]تفسیر طبری میں ان کی یہ کارستانی کچھ اس طرح سے نقل کی گئی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اس فعلِ بد سے منع کیا تو وہ بولے کہ یہ ہمارا مال ہے ، قطع وبرید کریں (دراہم اور دنا نیر کی) یا وزن میں کمی بیشی، ہماری مرضی۔[55]مطلب یہ کہ آپ کو اس میں دخل دینے کی اجازت نہیں۔ نبی کریمﷺ نے دراہم کی قطع و برید سے سختی سے منع فرمایاہے۔ علقمہؒ حضرت عبداللہ سےنقل فرماتے ہیں کہ:”نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُكْسَرَ سِكَّةُ الْمُسْلِمِينَ الْجَائِزَةُ بَيْنَهُمْ إِلَّا مِنْ بَأْس“[56]امام ماوردیؒ کرنسی میں کسی بھی قسم کی تبدیلی پر حاکم کو یہ رائے دیتے ہیں کہ ایسے فعل پر مجرم کو سخت سزا دی جائے اس لئے کہ یہ عوام کے ساتھ دھوکہ ہے جس کی حدیث میں شدید ممانعت کی گئی ہے۔[57]

کرنسی کو افراطِ زر کی شرح سے منسلک کرنے والے علماء کا خیال ہے کہ افراطِ زر ”بخس اور کسرِ دراہم و دنا نیر“ کی ہی ایک شکل ہے جس میں بظاہر کرنسی کی مالیت بڑی دکھائی دیتی ہے لیکن درحقیقت اس میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ حکومتیں افراطِ زر کے ارتکاب سے بخس کی مرتکب ہوتی ہیں جس کے برے اثرات سے پوری معیشت بالخصوص مؤجل ادائیگیوں والے متاثر ہوتے ہیں ۔ درج بالا بحث سے یہ معلوم ہوا کہ اسلام کی کرنسی پالیسی میں استحکام زر نہایت اہمیت کی حامل ہے۔حکومت ورعایا ہر ایک پر لازم ہے کہ وہ اسے امکانی حد تک ختم کرے۔دوسری دلیل یہ ہے کہ اسلامی نظامِ حیات میں عدل کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔قرآن مجید کی متعدد آیات اور احادیث ِ مبارکہ میں عدل کی پُر زور تلقین آئی ہے۔افراطِ زر کی وجہ سے جب کرنسی گراوٹ کا شکار ہوتی ہے اور قرض خواہ کو اس کی رقم واپس ملتی ہے تو اس کے ساتھ عدل نہیں ہوتا کیونکہ اُس کی رقم کی قوتِ خرید کم ہوجاتی ہے۔

قرضوں کو افراطِ زر سے منسلک کرنا درست نہیں

علماء کے دوسرے گروہ کا نکتۂ نظر یہ ہے کہ قرضوں کو افراطِ زر کی شرح سے منسلک کرنا درست نہیں۔اس نکتۂ نظر کے دلائل درج ذیل ہیں:

مثل اور برابری کا مفہوم

شریعت اسلامیہ میں قرضوں کو اسی مقدار کے بقدر واپس کرنا ضروری ہے جس کے بقدر وہ قرض خواہ سے لئے گئے تھے یعنی قرض لینے اور واپس کرنے میں برابری ضروری ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ برابری سے کیا مراد ہے؟ کیا برابری سے مراد عددی برابری ہے یا قیمت اور مالیت میں برابری ضروری ہے؟ قرآن وسنت میں غور وفکر کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ برابری عدد میں ضروری ہے، مالیت اور قیمت میں نہیں، جس کے دلائل درج ذیل ہیں:

قرضوں میں برابری کی شرط صرف اور صرف سود سے بچنے کے لئے ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ربا الفضل والی احادیث سے اس عددی برابری کو مکمل واضح فرمادیا ہے۔ حضرت عبادۃ بن صامتؓ سے مروی ہے کہ ” يَنْهَى عَنْ الذَّهَبِ بِالذَّهَبِ، وَالْفِضَّةِ بِالْفِضَّةِ، وَالْبُرِّ بِالْبُرِّ، وَالشَّعِيرِ بِالشَّعِيرِ، وَالتَّمْرِ بِالتَّمْرِ، وَالْمِلْحِ بِالْمِلْحِ، إِلَّا سَوَاءً بِسَوَاءٍ، عَيْنًا بِعَيْنٍ، فَمَنْ زَادَ، أَوِ ازْدَادَ، فَقَدْ أَرْبَى۔ [58]“یعنینبی کریمﷺ نے سونے کے بدلے میں سونا اور چاندی کے بدلے میں چاندی اور گندم کے بدلے میں گندم اور جو کے بدلے میں جو اور نمک کے بدلے میں نمک کے تبادلے سے منع فرمایا مگر یہ کہ ان میں تبادلہ برابری اور قبضہ کی بنیاد پر کیا جائے ۔ جو شخص ان اجناس کے لین دین میں زیادتی کرے تو وہ ربا کا مرتکب ہے۔

حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ  سے روایت ہے کہ:”أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَ رَجُلًا عَلَى خَيْبَرَ، فَجَاءَهُ بِتَمْرٍ جَنِيبٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَكُلُّ تَمْرِ خَيْبَرَ هَكَذَا؟» ، قَالَ: لاَ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا لَنَأْخُذُ الصَّاعَ مِنْ هَذَا بِالصَّاعَيْنِ، وَالصَّاعَيْنِ بِالثَّلاَثَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ تَفْعَلْ، بِعْ الجَمْعَ بِالدَّرَاهِمِ، ثُمَّ ابْتَعْ بِالدَّرَاهِمِ جَنِيبًا “[59]

آپﷺ نے ایک شخص کو خیبر کا عامل بنا کر بھیجا ، جب وہ واپس آیا تو آپﷺ کی خدمت میں جنیب کھجور(عمدہ قسم کی کھجور) پیش کی، آپﷺ نے دریافت فرمایا کہ خیبر کی تمام کھجوریں ایسی ہوتی ہیں؟ اس نے عرض کیا کہ ہم ایک صاع کھجور کو دو صاع کے بدلے میں ، دو صاع کھجوروں کو تین صاع کے بدلے میں تبدیل کرلیتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ایسا مت کرو بلکہ ملی جلی (گھٹیا) کھجوروں کو پہلے دراہم کے عوض فروخت کردو پھر اس رقم کے عوض جنیب کھجور خرید لیاکرو۔

احادیث سے استدلال

درج بالا احادیث میں نبی کریم ﷺ گھٹیا اور عمدہ کھجوروں کی مالیت سے باخبر تھے ۔ دو صاع کم درجے کی کھجوروں کی مالیت ایک صاع اور تین صاع ردی کھجوروں کی مالیت دو صاع عمدہ کھجوریں ہی بنتی تھیں لیکن نبی کریم ﷺ نے ایسا کرنے سے منع فرمایا اور عددی تماثل پر زور دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک حیلہ بھی بتایا کہ اگر تمہیں عمدہ کھجوریں ہی خریدنا ہیں تو پہلے ردی کھجورو ں کو دراہم کے عوض فروخت کرو، جو رقم ملے اس سے عمدہ کھجوریں خریدلو۔ حضرت عبد اللہ بن عمر  فرماتے ہیں کہ:”كُنْتُ أَبِيعُ الْإِبِلَ بِالْبَقِيعِ، فَأَقْبِضُ الْوَرِقَ مِنَ الدَّنَانِيرِ، وَالدَّنَانِيرَ مِنَ الْوَرِقِ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي بَيْتِ حَفْصَةَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، رُوَيْدَكَ أَسْأَلُكَ: إِنِّي كُنْتُ أَبِيعُ الْإِبِلَ بِالْبَقِيعِ فَأَقْبِضُ هَذِهِ مِنْ هَذِهِ، وَهَذِهِ مِنْ هَذِهِ، فَقَالَ: " لَا بَأْسَ أَنْ تَأْخُذَهَا بِسِعْرِ يَوْمِهَا مَا لَمْ تَفْتَرِقَا، وَبَيْنَكُمَا شَيْءٌ“.[60]

میں مقامِ بقیع میں اونٹ بیچا کرتا تھا ۔ کبھی تو میں دیناروں کے ذریعے اونٹ فروخت کرتا اور خریدار سے دینار کی بجائے دراہم وصول کرتا اور کبھی دراہم میں اونٹ فروخت کرتا اور اس کے بدلے میں دینار وصول کرتا۔ ایک روز میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اس روز آپﷺ حضرت حفصہ  کے گھر تشریف فرما تھے۔ میں نے استفسار فرمایا یا رسول اللہﷺ !میں مقام ِ بقیع میں اونٹ فروخت کرتا ہوں تو کبھی دیناروں کے ذریعے فروخت کرتا ہوں تو وصولی دراہم میں کرتا ہوں اور کبھی دراہم میں فروخت کرتا ہوں تو دیناروں میں رقم وصول کرتا ہوں ۔ آپ ﷺ نےارشاد فرمایا: تمہارے اس طرح معاملہ کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ تم اسی روز (فروخت والے دن) کے نرخ کے مطابق برابر لو اور تم اس حالت میں ایک دوسرے سے جدا ہو کہ کسی کے ذمے کوئی دَین باقی نہ ہو۔

اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے ابن عمرؓ کو فرمایا کہ اگر بیع دینار میں ہوئی ہو تو ادائیگی والے روز دینار کی جو قیمت ہو، اس کے بقدر دراہم وصول کئے جاسکتے ہیں اور اسی طرح اگر بیع دراہم میں ہوئی ہو تو ادائیگی والے دن دراہم کی جو قیمت ہوگی اس کے بقدر دینار وصول کئے جاسکتے ہیں۔ حدیث مبارکہ میں اس دن کے دراہم و دنانیر کی قیمت کا لحاظ نہیں رکھا گیا جس دن بیع ہوئی تھی بلکہ ادائیگی والے دن کا اعتبار کیا گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مؤجل ادائیگیوں میں عددی تماثل مطلوب ہے نہ قیمت اور مالیت کا تما ثل۔ حدیث کی رو سے اگر بیع والے دن ایک دینار کے بدلے پندرہ (15)دراہم آتے ہوں تو ادائیگی والے دن ممکن ہے کہ ایک دینار کے بدلے گیارہ( 11 )دراہم آتے ہوں ۔ا س لحاظ سے دس دینار کی دراہم میں ادائیگی کے وقت خریدار کو ایک سو دس دراہم دیناہوں گے اور اگر ادائیگی والے دن ایک دینار کے بدلے 9 دراہم آتے ہیں تو دس دینار کی دراہم میں ادائیگی والے دن خریدار کو نوے دراہم دینا ہوں گے۔ذیل میں اسی مثال کا ٹیبل ملاحظہ ہو:

دینار دراہم واجب الاداء رقم
10 دینار میں فروخت (یکم ربیع الاول) (یکم ربیع الاول کو ایک دینا رکا ایکسچینج ریٹ)15 درہم 10*15=150
10 دینار میں فروخت (یکم ربیع الاول) (یکم رجب کو ایک دینا رکا ایکسچینج ریٹ)11 درہم 10*11=110
10 دینار میں فروخت (یکم ربیع الاول) (یکم رمضان کو ایک دینا رکا ایکسچینج ریٹ)09 درہم 10*9=90

افراطِ زر کے اعشاریے میں جہالت

افراطِ زر کا اعشاریہ نکالتے وقت متعدد مقامات پر جہالت بھی آڑے آتی ہے جس کہ وجہ سے مؤجل ادائیگیوں کو افراطِ زر کی شرح سے منسلک کرنے کا عمل تذبذب کا شکار ہوجاتا ہے۔ قیمتوں کا اعشاریہ نکالنے کے لئے سب سے پہلے اشیاء کا انتخاب کیا جاتاہے پھر ان اشیاء کو ان کی اہمیت کے بقدر اوزان دئیے جاتے ہیں ۔ جس چیز کی اہمیت زیادہ ہو اسے اہمیت کے لحاظ سے وزن دے دیا جاتا ہے، پھر ان موزون اشیاء کے سابقہ اور موجود نرخ دئیے جاتے ہیں۔ ان دونوں نرخوں کے درمیان فرق کو ایک کالم میں لکھ دیا جاتا ہے۔ اس فرق کو اشیاء کے وزن سے ضرب دی جاتی ہے تو جو حاصل ضرب نکلتا ہے وہ کسی بھی چیز میں مہنگائی کو ظاہر کرتا ہے۔[61] ذیل میں اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو:

اشیاء اشیاء کا وزن 2008 میں اشیاء کی قیمت 2018 میں اشیاء کی قیمت 2008 اور 2018 کے درمیان اشیاء کی قیمتوں میں فرق فرق کو اشیاء کے اوزان سے ضرب اور حاصلِ ضرب
کھانا 50. تین وقت کے کھانے کی قیمت 150 روپے تین وقت کے کھانے کی قیمت 300 روپے 2 1
کپڑا 40. اوسط درجے کا سات میٹر کا سوٹ 300 روپے اوسط درجے کا سات میٹر کا سوٹ 900 روپے 3 ۲.ا
مکان 30. ایک ماہ کا کرایہ 5000 روپے ایک ماہ کا کرایہ 15000 3 ۹.
تعلیم 25. چوتھی کلاس کے ایک بچے کی ماہانہ فیس500 روپے 2500 5 25.1
صحت 15. ڈاکٹر کی معائنے کی فیس 250 روپے 1000 4 6.
افراطِ زر کی شرح         ۹۵.۴

اشیاء کی اہمیت کا فرق

ذکر کردہ اعشاریہ میں سب سے پہلے اشیاءکو لکھا گیا ہے پھر ان کی اہمیت کے لحاظ سے ان کو اوزان دئیے گئے ہیں ۔ کھانے کا وزن 50 .0جبکہ کپڑے کا وزن 40 .0اور مکان کا وزن ۳۰.۰لکھا گیا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر ایک شخص کی ضرورت دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ کسی شخص کے پاس کھانے اور پہننے کو وافر ہے تو اسے مکان کی اشد ضرورت ہے لہذا اس شخص کے نزدیک سب سے اہم مکان ہے۔ دوسرا شخص جسکے پاس روٹی، کپڑے اور مکان کی کوئی تنگی نہیں لیکن شدید بیمار ہے تو اس کے نزدیک سب سے اہم چیز صحت ہے لہذا ، اس کے ہاں صحت کا وزن سب سے زیادہ ہونا چاہئے تو معلوم ہوا کہ قیمتوں کے اعشاریے میں اوزان کی اہمیت یکساں نہیں ہوتیں۔[62]

قیمتوں کا فرق

ایک شہر میں ایک چیز کی قیمت کچھ جبکہ دوسرے میں کچھ ہوتی ہے مثال کے طور پر فیصل آباد میں کپڑے کی قیمت کم جبکہ دور دراز اور پہاڑی علاقوں میں کپڑے کی قیمت زیادہ ہوتی ہے۔ اسی طرح پنجاب میں گندم کی قیمت کم جبکہ غیر زرعی علاقوں میں اس کی مالیت زیادہ ہوتی ہے۔ قیمتو ں کے اعشاریہ میں اشیاء کے اوزان اور قیمتوں کا اندراج چونکہ تخمینوں پر مبنی ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ تخمینے اور اندازے حقیقت کے قریب قریب ہی کیوں نہ ہوں، شریعت میں ان کی بنیاد پر کرنسی کو ان سے مربوط کرنے کی اجازت نہیں اس لئے کہ شریعتِ اسلامیہ میں اموال ربویہ میں تخمینی بنیادوں پر کمی بیشی کی اجازت نہیں ۔[63]مثلا نبی کریمﷺ نے بیع مزابنہ سے منع فرمایا۔ بیع مزابنہ سے مراد ایسی بیع ہے جس میں درخت پر لگی کھجوروں کو ٹوٹی ہوئی کھجوروں کے عوض فروخت کیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ اندازہ بالکل درست ہوتا تھا لیکن نبی کریم ﷺ نے تخمینی بنیادوں پر ایسے تبادلے کو منع فرمایا۔

کسرِ دراہم و دنانیر اور آج کا افراط زر

افراط زر کے وقت قرضوں کو شرحِ افراطِ زر سے منسلک کرنے والے علماء کی دلیل یہ ہے ناپ تول میں کمی اور دراہم و دنا نیر میں قطع و برید سے چونکہ کرنسی میں کمی واقع ہو جاتی تھی اور اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا تھا لہٰذا آج بھی کرنسی میں کمی کی صورت میں ،کمی کو اس طرح پورا کیا جا سکتا ہے کہ افراط زر کی شرح کے مطابق قرض خواہ کو زیادہ پیسے دے دئے جائیں لیکن اس استدلال اور کسرِ دراہم و دنانیر میں فرق یہ ہے وہ لوگ دراہم کو جان بوجھ کر قطع کرتے تھے اور ان کا یہ فعل موجودہ دور میں جعلی کرنسی کی مثل تھا ،جیسے آج کل جرائم پیشہ افراد جان بوجھ کر جعلی کرنسی بنا کر اسے گردشِ زر میں شامل کر دیتے ہیں ،اسی طرح وہ تراشیدہ دراہم اُس وقت کی کرنسی میں شامل کر دیا کرتے تھے۔آج کا افراطِ زر اور اس کی بنا پر کرنسی کی قوتِ خرید میں کمی بالکل مختلف ہے،اس لئے کہ موجودہ افراطِ زر کے بیسیوں اسباب ہیں۔مثلا اشیاء کی پیداوار کا کم ہونا،سیلاب،زلزے اور دیگر قدرتی آفات کا وقوع پذیر ہوجانا،ممالک میں جنگیں چھڑ جانا،ملک کا سیاسی عدم استحکام کا شکار ہونا وغیرہ وغیرہ۔ان حالات میں افراط ِزر کے بڑھنے اور کرنسی کی قوتِ خرید میں کمی متعدد عوامل کی بنا پر ہے اور ان میں سے اکثر عوامل ایسے ہیں جن کو اس حیثیت میں ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ وہ عوامل جان بوجھ کر وقوع پذیر ہو رہے ہیں یا انہیں وقوع پذیر کروایا جا رہا ہے لہٰذا اس افراط زر کو کسرِ دنانیر پر قیاس کرنا باحث کی نظر میں درست نہیں۔

متبادل صورت

افراطِ زر کی بنیاد پر روپے پیسے کی گراوٹ کا ایک متبادل یہ ہے کہ اگر کوئی شخص دوسرے کو قرض دے رہا ہے اور اسے یہ خوف بھی ہے کہ سال،دو سال یا نچ سال کے بعد اس کی دی ہوئی رقم دس یا پندرہ فیصد کم ہو جائے گی تو اسے چاہئے کہ وہ مقروض سے قرض حاصل کرنے کا مقصد د ر یافت کرلے۔جو چیز مقروض کو درکار ہو،وہ اسے مہنگے داموں خرید کر دیدے۔مثال کے طور اگر ایک شخص کو گھر بنانے کے لئے پانچ سال کے لئے پانچ لاکھ روپے درکار ہیں تو قرض دینے والا شخص ،قرض لینے والے شخص کو یہ پیشکش کرے کہ وہ اسے مکان کی تعمیر کے لئے درکار مٹیریل خرید کر دینے کو تیار ہے۔ قرض لینے والا شخص ڈیلر کا تعین کرے گا اور قرض دینے والا شخص ڈیلر سے خرید کر اپنا نفع شامل کرنے کے بعد قرض لینے والے کو فروخت کر دے گا۔اس طرح سے دونوں کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں۔بیماری اور ناگہانی آفات جیسی صورتحال میں دیا گیا قرض خالص تعاون کی بنیادوں پر ہونا چاہئے اس لئے کہ یہ انسانی اور ایمانی اخوت کا تقاضا ہے۔اس تعاون پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے مال میں اضافے کی قوی امید ہے جس کی بہتریں صورت مال میں برکت ہے۔

نتائجِ تحقیق

  1. سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں معاشی سرگرمیوں میں آزادی کا عنصر لا محدود جبکہ اسلامی نظام معیشت میں یہ آزادی محدود ہے جس کی وجہ سے معیشت کے ساتھ ساتھ معاشرت بھی صحیح خطوط پر گامزن ہوتی ہے۔
  2. اسلامی نظام معیشت میں زر کی حیثیت آلہ مبادلہ کی ہے جس کے ذریعے خرید و فروخت عمل میں آتی ہے۔
  3. سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں زر کو زمین،محنت کی طرح ایک مستقل عامل تسلیم کیا جاتا ہے اور سود کی صورت میں اس کا معاوضہ ادا کیا جاتا ہے جبکہ اسلامی نظام ­­معیشت میں اس کی قطعاً اجازت نہیں ۔
  4. اسلامی نظام معیشت میں قرض کی حیثیت محض تبرع کی ہے لہٰذا اس کا معاوضہ بھی جائز نہیں اور اگر زَر کو کاروبار میں لگایا جائے تو نفع و نقصان کی بنیاد پر منافع کا حصول بالکل روا ہے۔
  5. علماء کا ایک طبقہ زر کی قدرِ زمانی کے پیشِ نظر اسے افراطِ زر کی شرح سے منسلک کرنے کی تجویز دیتا ہے لیکن اس کے دلائل میں قرآن وسنت کی وہ نصوص ہیں جن کا استدلال عام ہے۔مثال کے طور اسلام کے تصورِ عدل پر مبنی آیات، جبکہ دوسری جانب سے کیا جانے والا استدلال تقریباً خاص کا درجہ رکھتا ہے اور اس استدلا ل میں احادیث عددی مثلیت کا تقاضا کرتی ہیں نہ کہ قیمت اور مالیت میں۔باحث کی نظر میں یہ استدلال پہلے کی بہ نسبت قوی ہے۔

سفارشات

  1. عوام الناس کو چاہئے کہ روپیہ پیسہ سود پر رکھوانے کی بجائے کاروبار و تجارت میں لگائیں خواہ تجارت کتنے ہی چھوٹے پیمانے پر کیوں نہ ہو اور بصورت دیگر اُن اداروں(اسلامی بنکوں)کی طرف رجوع کریں جن کے معاملات شریعت کے دائرہ کار میں ہیں۔حکومت کو چاہئے کہ وہ عوام الناس کی رہنمائی کرتے ہوئے وقتا فوقتا ان طریقوں سے آگاہ کرے جہاں چھوٹے درجے پر سرمایہ کاری سود مند ہو سکتی ہے۔
  2. حکومت کو چاہئے کہ وہ افراط زر پر قابو پانے کے لئے خصوصی اقدامات کرے تاکہ عوام الناس کا پیسہ گراوٹ کا شکار نہ ہو۔
  3. قرض حاصل کر نے افراد کو چاہئے کہ جب وہ قرض کی رقم واپس کریں تو قرض خواہ کو کوئی ہدیہ یا اس کے متبادل بھی دے دیا کریں تاکہ قرض خواہ کی بھی دل جوئی ہو سکے لیکن یہ ہدیہ یا کوئی رقم پہلے سے طے شدہ ہر گز نہ ہو وگرنہ معاملہ سودی ہو جائے گا۔
  4. قرآن و سنت کے اجتہادی ذوق کو مد نظر رکھتے ہوئے افراط زر کی وجہ سے کرنسی کی گراوٹ کا مسئلہ اجتماعی اجتہاد کا محتاج ہے۔ دورِ حاضر کے تناظر میں اس مسئلے پر متفقہ رائے وقت کی ضرورت ہے۔

 

حوالہ جات

  1. عثمان بن علی زیلعی،تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق،حاشیہ۔ شهاب الدين احمد بن محمد بن احمد(ولاق،مصر: المطبعۃ الکبریٰ الامیریہ،1313ھ)،1:288۔
  2. یحیٰ بن شرف النووی، تحریر الفاظ التنبیہ(دمشق: دار القلم ،1408ھ) ، 114۔
  3. ابوبکر بن مسعود الکاسانی ،بدائع الصنائع(بیروت: دار الكتب العلميہ،1986ء)،5:185۔
  4. شیخ مبارک علی، تعارف زر وبنکاری(کراچی: رہبر پبلشرز،1991)، 69۔
  5. Frederic S. Mishkin, The Economics of Money: Banking, and Financial Markets (Boston: Addison Wesley, 2007), 8.
  6. عبد الحمید ڈار اور دیگر، اسلامی معاشیات(لاہور: علمی کتاب خانہ ،2014ء)، 98۔
  7. محمد تقی عثمانی ،فقہی مقالات (کراچی: میمن اسلامک پبلشرز،1994ء)، 15-19: 1۔
  8. ایضا۔
  9. Walthall, Ebrey and Palais, East Asia: A Cultural, Social and Political History (Boston: Houghton Mifflin, 2006), 156.
  10. عثمانی،فقہی مقالات،1:19-15
  11. علاؤ الدین محمد بن علی حصکفی،الدر المختار(بیروت:دارالفکر ،1992ء)،4:531۔
  12. = ریاض عبد اللہ، صندوق النقد الدولى: تقدير اقتصادى اسلامى(ہرنڈن، امریکہ: المعھد العالمی للفکر الاسلامی،2012ء)،176۔ =
  13. محمد تقی عثمانی،اسلام اور جدید معیشت وتجارت(کراچی: ادارۃ المعارف، 1415ھ)،95۔
  14. عبد الحمید ڈاراور دیگر،اسلامی معاشیات، 79۔
  15. ایضاً۔
  16. عبد الحمید ڈاراور دیگر، اسلامی معاشیات ،103۔
  17. ایضا۔
  18. غلام رسول چیمہ ،اسلام کا معاشی نظام(لاہور:علم و عرفان پبلشرز، 2007)، 72 ۔
  19. القرآن 24 :27
  20. القرآن 4: 5
  21. القرآن 56 :62
  22. القرآن 51: 19
  23. ابوبکر بن ابو شیبہ،الکتاب المصنف فی الاحادیث والآثار،محقق۔کمال یوسف (ریاض:مکتبۃ الرشد،1409ھ)، حدیث نمبر10525، 2:411۔
  24. Cambridge Advanced Learner’s Dictionery,3rd Edition, accessed on https://dictionary.cambridge.org/dictionary/english/ 17/9/19
  25. The Encyclopedia of Americana (Danbury: Grolier Inc., 1998), 250:15.
  26. Arthur O'Sullivan, Steven M. Sheffrin, Economics: Principles in Action (New Jersey: Pearson Prentice Hall, 2003), 24.
  27. القرآن 30 : 39
  28. القرآن 4: 161
  29. القرآن 3: 130
  30. القرآن 2: 278-279
  31. القرآن 2 : 275
  32. محمد بن حسن التمیمی رازی ، مفا تیح الغیب(بیروت: دار احیاء لتراث العربی ، 1420ھ )،7:72۔
  33. محمد بن جریر طبری،جامع البيان فی تأويل القرآن،تحقیق۔احمد محمد شاكر(بیروت:مؤسسۃ الرسالۃ،2000ء) ،6:6۔
  34. محمد تقی عثمانی،سود پر تاریخی فیصلہ،مترجم۔ عمران اشرف عثمانی(کراچی:مکتبہ معارف القرآن)،40۔
  35. ابو الوليد محمد بن احمد ابن رشد ،بدایۃ المجتہد، (قاہرۃ:دار الحدیث ،2004ء)،2:12۔
  36. علاؤ الدین محمد بن علی حصکفی ،الدر المختار(بیروت :دارالفکر،1992ء)،501: 4۔
  37. شیخ الاسلام احمد بن عبد الحليم بن تیمیہؒ، مجموع الفتاویٰ ابن تیمیہ(ریاض: مجمع الملك فهد، 1995ء)،19:251۔
  38. ابو حامد محمد بن محمد غزالی ، احیاء علوم الدین،کتاب الصبر والشکر (بیروت: دار المعرفہ، س۔ن)، 4:91۔
  39. محمد ایوب،اسلامی مالیات(اسلام آباد:رفاہ سنٹر آف اسلامک بزنس،2010ء)،235۔
  40. ابو الاعلیٰ مودودی ، سود(لاہور:اسلامک پبلیکیشنز،1997ء)،64-66۔
  41. Inflation on The Rise, The News, September 24, 2019, https://www.thenews.com.pk/print/452691-inflation-on-the-rise, accessed on October 10,2019.
  42. Imran Ali Kundi, Higher Energy, Food Prices Push Inflation up to 87 Month High, The News, 5 Sep, 2019, https://nation.com.pk/05-Sep-2019/food-prices-push, accessed on October 12, 2019.
  43. عبد الحمید ،اسلامی معاشیات ،348۔
  44. Imran Ali Kundi, Higher Energy, Food Prices Push Inflation up to 87 Month High, accessed on https://nation.com.pk/05-Sep-2019/food-prices-push/, accessed on October, 17, 2019.
  45. عبد الحمید ڈار ،اسلامی معاشیات، 348۔
  46. عثمانی،سود پر تاریخی فیصلہ،118۔
  47. محی الدین ہاشمی ، مؤخر ادائیگیوں پر افراطِ زر کے اثرات:شرعی نقطہ نظر(اسلام آباد: ادارہ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ، 2014)، 36۔
  48. ڈاکٹر محی الدین ہاشمی نے اپنی کتاب مؤخر ادائیگیوں پر افراطِ زر کے اثرات، میں اس نقطہ نظر کو مفصل بیان کیا ہے۔زیر نظر مقالے میں آپ کی کتاب سے بھر پور استفادہ کیا گیا ہے ۔
  49. القرآن 7: 85
  50. القرآن 11: 87
  51. القرآن : 27:48
  52. محمد بن عبد اللہ ابن عربی ،احکام القرآن، تخریج۔ عبد القادر عطا(بیروت: دارالکتب العلمیہ،1971ء)، 757۔
  53. ایضا۔، 759۔
  54. قرطبی، ابو عبد الله محمد بن احمد ، الجامع لاحکام القرآن(بیروت،دارالفکر، 2019ء)،5:62۔
  55. طبری، جامع البيان،15:450۔
  56. ابو داؤد سلیمان بن اشعث، السنن،تحقیق۔محمد محی الدین عبد الحمید ، كِتَاب الْبُيُوعِ ،بَابٌ فِي كَسْرِ الدَّرَاهِمِ (بیروت:المکتبۃ العصریۃ)، حدیث نمبر 3449، 3:271۔
  57. ابو الحسن علی بن محمد بن حبیب امام ماوردی، الاحکام السلطانیہ، مترجم۔ ساجد الرحمٰن صدیقی(لاہور:اسلامک پبلیکیشنز ،1990ء)،441۔
  58. مسلم بن حجاج القشیری، الجامع الصحیح،تحقیق۔فؤاد عبد الباقی ، بَابُ الصَّرْفِ وَبَيْعِ الذَّهَبِ بِالْوَرِقِ نَقْدًا (بیروت:دار احیاء التراث العربی، س۔ن) ، حدیث نمبر: 1587
  59. محمد بن اسماعیل بخاری، الجامع الصحیح،تحقیق۔محمد زہیر بن ناصرالناصر ، كِتَابُ البُيُوعِ، بَابُ إِذَا أَرَادَ بَيْعَ تَمْرٍ بِتَمْرٍ خَيْرٍ مِنْهُ (بیروت: مؤسسۃ الرسالہ،س۔ن)، حدیث نمبر: 2201، 3:77۔
  60. ابو عبد الله احمد بن محمد بن حنبل، المسند ،تحقیق۔شعيب الأرنؤوط(بیروت: مؤسسہ الرسالۃ ،2001ء)، حدیث نمبر: 6238 ، 10:359۔
  61. محمد تقی عثمانی،فقہ المعاملات ،1:63۔
  62. حمد تقی عثمانی،فقہ المعاملات ،1:63۔
  63. حمد تقی عثمانی،فقہ المعاملات ،1:63۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...