Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Milal: Journal of Religion and Thought > Volume 1 Issue 2 of Al-Milal: Journal of Religion and Thought

یاجوج ماجوج: جدید تعبیرات اور معاصر اقوام پر اطلاق و انطباق: ایک تجزیاتی مطالعہ |
Al-Milal: Journal of Religion and Thought
Al-Milal: Journal of Religion and Thought

تعارف

اقوام وملل کی آزمائش و امتحان اللہ رب العزت کی سنت رہی ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ آخری امت بہت بڑی بڑی آزمائشوں میں مبتلا کی جائے گی اس لئے کہ اس امت کا درجہ و رتبہ بھی اتنا ہی عظیم ہے۔ وقوعِ قیامت سے قبل آفات و فتن اس امت پر تسلسل سےٹوٹ کر گر یں گی ۔ان بڑی بڑی آزمائشوں سے تمام انبیاءاپنی امتوں کوڈراتے آئے ہیں مثلاً فتنہ دجال سے بڑا فتنہ اس امت کے لئے پیدا ہی نہیں کیا گیامگر اس آفت عظمی سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نپٹ لیں گے اس کے خاتمہ کے بعد اس سے بھی بڑھ کر ایک اور آفت واقع ہو گی جس کا مقابلہ کرنے کی تاب پیغمبر خدا بھی نہ رکھتے ہو ں گےاور انجام کاراذن الٰہی سے مسلمان اس مصیبت سے نجات حاصل کریں گےیہ فتنہ یاجوج ماجوج کا ہو گا ۔زیر نظر آرٹیکل میں اس کےاحوال پیش ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ خروج دجال و ظہور مہد ی کی مانند خروج یاجو ج وماجوج بھی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے جسکی تصریحات ہمیں قرآن و حدیث اور بائبل میں ملتی ہے۔ یاجوج ماجوج کون تھے اور اب کہاں ہیں۔ دو اقوام ہیں دو افراد یا پھر تمثیلاً بیان کیے گئے کسی فتنے یا واقعہ کا نام ہے۔ ان سوالات کے جوابات تحقیقی طور پر دینا نہایت دشوار گذار ہیں۔ صحیح ترین جوابات کا ماخذ اور فکر صحیح کے عکاس قرآن و سنت سے صرف وہی نصوص ہیں جو لاریب ہیں اور کسی شک و شبہ سے بالا تر ہیں، نصوص شرعیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یاجوج ماجوج اولاد آدم اور نسل انسانی ہی سے ہیں اور ایک ایسی قوم ہیں جس کو ذوالقرنین بادشاہ (535قبل مسیح)نے اپنے مشرقی جانب سفر کرتے ہوئے دور کسی مقام پر پایا اور دو پہاڑوں کے درمیان سے ان کے آنے جانے کے راستے کو مضبوط دیوار سے کہ جس میں تانبا و لوہا تھا مقامی لوگوں کی درخواست پر بند کر دیا۔

یا جوج ماجوج بے پناہ طاقت و قوت مگر انتہائی خطرناک اور فتنہ فساد کی حامل قوم ہے جو مشیت ایزدی سے سد ذوالقرنین کو توڑ کر خروج کریگی اور انکی تباہ کن آمد خوفناک سیلاب کی مانند ہر چیز کو بہا لے جائے گی، کھیت و کھلیان کی بربادی ، ہر ذی روح سے دشمنی ان کا خاص وصف ہو گا سمندروں کا تمام پانی تک پی جائیں گے، انکی آمد سے قبل حضرت عیسیٰ ؑ کا نزول ہو چکا ہوگا۔ خوفناک ہلاکت و بربادی کے باعث لوگ قلعہ بند ہو کر حضرت عیسیٰ ؑ سے ان کے فتنے سے بچاؤ کی درخواست کریں گے، ان کے مقابلے کی سکت خود حضرت عیسیٰؑ بھی نہ رکھتے ہوں گے، اس لیے آپؑ تمام اہل ایمان کولےکر کوہ طور پر چلے جائیں گے اور ان کی ہلاکت کی اللہ سے دعا کریں گے۔ بالاخر بحکم الٰہی ایک عجیب بیماری ان کی گردنوں میں کیڑوں کی شکل میں ظاہر ہو گی جس سے یہ تمام قوم آن واحد میں لقمہ اجل بن جائے گی۔ یاجوج ماجوج کے متعلق یہ تفصیل نصوص صحیحہ سے ثابت ہیں۔ حوالہ کے لئے جامع الترمذی،[1]مسند احمد ،[2]مسند ابی یعلی[3] اور صحیح ابن حبان[4] کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔ جغرافیہ دان جو آج کرۂ ارضی کے ہرکونے تک رسائی کے دعوے دار ہیں مگر یہ حقیقت آج عیاں ہے کہ اتنی بڑی قوم ان کی نظروں سے اوجھل ہے۔

آج بہت سے لوگ اپنے علم و عقل کی بنیاد پر کئی تاویلات کا سہارا لیتے ہوئے خروجِ یاجو ج ماجوج کا انکار کیے بیٹھے ہیں ، بہت سے ایسے ہیں جو معاصر اقوام مثلا چین ،جاپان ، روس کو یاجوج ماجوج قرار دے رہے ہیں اور کئی اس سے مراد تاتاری ، منگول، یورپی و امریکی لے رہے ہیں ۔ اسی طرح دیوار یاجوج ماجوج کو بعض دیوار برلن اور دیوار چین یا دیوار قفقاز مراد لیتے ہیں۔لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی چیز یا واقعہ کی استنادی حیثیت کا تعین قرآن و حدیث کی نصوصِ ثابتہ سے کرنا ضروری ہے مگر آج کئی اصحاب فکر و دانش عقل و قیاس کو بنیاد بنا کر ذاتی اور من مانی تاویلات کر رہےہیں ۔اس میں شک نہیں کہ بعض اقوام میں یاجوج ماجوج کی سی کیفیت احادیث میں بیان کردہ حقائق سے مماثل نظر آتی ہیں مگر جزئی مماثلت کی بنیاد پر اورشرع کے بعض نصوص سے صرفِ نظر کرتے ہوئے کوئی بھی حکم لگانا غلط اور خواہش ِنفسانی کا اظہار ہی ہوگا۔ اس مقالے میں اولاً تو احادیث و قرآن کے واضح نصوص بیان کیے جائیں گے اور پھر سلف وخلف کی تعبیرات کے پیش کردہ دلائل کا مناقشہ و محاکمہ کیا جائے گا اور یاجوج ماجوج اور ذوالقرنین کا صحیح اطلاق اور اسکی تعیین کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔

مفاہیم و معانی

صاحب المنجد لوئیس معلوف یوں رقمطراز ہیں: "اج ۔اجیج۔اضطرم وتلهب فهو اجاج واجوج۔ اجوجا الماء صار اجاجا ای ملحا مرا ۔اجج النار ای ألهبهاعلی العدو۔والاجیج ۔الصوت الحاصل من اختلاط الکلام وخفیف الشی۔" ترجمہ: یعنی اج، اجیجا باب نصر سے بمعنی آگ کا بھڑکنا ، شعلہ مارنا اسی طرحالاجاج بمعنی بہت کھارا و کڑوا پانی ۔ اجه گرمی کی شدت اور تیزی اسی طرح اجج علی العدو۔ اس نے دشمن پر حملہ کیا۔ اجاج والاجیج۔ شور اور چلنے کی آہٹ۔[5]

لفظِ یاجوج ماجوج کے منبع و مصدر کے حوالے سے مولانا حفیظ الرحمن سیوہاروی نے قصص القرآن میں یاجوج ماجوج کی ذیل میں لکھا ہے کہ”چین کے دو بڑے قبائل کو موگ اور یوچی کہا جاتا رہا ہے ۔ چھ سو برس قبل مسیح میں یونان میں اسے میگ اور میگاگ کہا جاتا رہا ہے اور عربی میں یہی لفظ ماجوج بنا عبرانی میں جوج اور یاجوج کہلایا جبکہ بائبل میں اسے Gog and Magogسے موسوم کیا گیا ہے۔ “[6] لفظ ِیاجوج کی تشریح کرتے ہوئے سٹیفن ای جونز لکھتے ہیں:

"Gog literally means "great" or "lifted up". it is spelled gimel-vav-gimel. The gimel is the third letter of the Hebrew alphabet. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ So, literally gog means pride and (more) pride”.[7]

جونز کی لفظ Gog(یاجوج ماجوج) پر وضاحت کا ملخص یہ ہے کہ Gogکا لفظی معنیٰ عظمت و بلندی کے ہیں جو عبرانی کے حروف تہجی کے تیسرے الفا بیٹGimelسے ماخوذ ہے اور جیمل(Gimel)کا لغوی معنی اونٹ کے ہیں۔ اونٹ کی جسمانی بلندی اصل میں تمثیلاً یاجوج کی شکل میں بیان کیا گئی ہے لہٰذاGimel-vov-gimelگویا اس بلندی در بلندی کا ذکر حقیقت میں شاندار عظمت و رفعت کا اظہار ہے۔مزید آگے چل کر سٹیفن جونز ہی لکھتے ہیں:

تما م اقوام اپنی عظمت رفتہ کا احساس تو بہر حال رکھتی ہیں مگر یاجوج ماجوج کے خروج کی پیشگوئی میں اسکو دو مرتبہ گوگ ماگوگ بیان کرنا کسی قوم کی عظمت و شان شوکت کے اظہار پر مبالغہ ہو سکتا ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ کتاب پیدائش میں ماگوگ کو نوح کے بیٹے یافث کی اولاد میں سے ذکر کیا گیا ہے ۔ اور پھر حز قیال میں ماگوگ کو بطور ایک سرزمین کے ذکر کیا گیا ہے جو لا محالہ ماگوگ نامی شخص اور پھر اس نام سے وجود میں آنے والی سرزمین کی عظمت و رفعت پر دال ہے۔[8]

قرآن میں ذکر یاجوج وماجوج

قرآن مجید میں یا جوج ماجوج کا تفصیلی ذکر اور ذوالقرنین کی جانب سے دیوار کی تعمیر کی وجہ اورتاریخ پر سب سے مفصل روشنی سورة الکہف میں ملتی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا۔حَتَّى إِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ وَجَدَ مِنْ دُونِهِمَا قَوْمًا لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ قَوْلًا۔ قَالُوا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلَى أَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا ۔ قَالَ مَا مَكَّنِّي فِيهِ رَبِّي خَيْرٌ فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا ۔آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ حَتَّى إِذَا سَاوَى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انْفُخُوا حَتَّى إِذَا جَعَلَهُ نَارًا قَالَ آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا ۔ فَمَا اسْطَاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ وَمَا اسْتَطَاعُوا لَهُ نَقْبًا۔قَالَ هَذَا رَحْمَةٌ مِنْ رَبِّي فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَّاءَ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقًّا۔[9]

وہ ذوالقرنین بادشاہ پھر ایک سفر کے سامان میں لگا یہاں تک کہ جب وہ دو دیواروں (پہاڑوں) کے درمیان پہنچا جن کے پیچھے اس نے ایک ایسی قوم کو پایا جو بات سمجھنے کے قریب بھی نہ تھی انھوں نے کہا اے ذوالقرنین! یاجوج ماجوج اس ملک میں بڑے بھاری فسادی ہیں تو کیا ہم آپ کے لیے کچھ خرچ کا انتظام کر دیں (بشرطیکہ)آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنا دیں ۔ اس نے جواب دیا کہ میرے اختیار میں میرے رب نے جو رکھا ہے وہی بہتر ہے ، تم صرف قوت و طاقت سے میری مدد کرو ،میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک دیواربنا دیتا ہوں ، تم لوہے کی چادر یں لادو، یہاں تک کہ جب ان دونوں پہاڑوں کے درمیان دیوار برابر کر دی تو حکم دیا کہ آگ تیز جلاؤ حتیٰ کہ جب لوہے کی ان چادروں کو بالکل آگ کر دیا توکہا کہ میرے پاس پگھلا ہوا تانبا لاؤ جو اس پر ڈال دوں، پس نہ تو ان میں اس دیوار کے اوپر چڑھنے کی طاقت تھی اور نہ اس میں کوئی سوراخ کر سکتے تھے، کہ یہ سب میرے رب کی مہربانی ہے ہاں جب میرے رب کا وعدہ آئے گا تو وہ اسے زمین بوس کر دے گا، بے شک میرے رب کا وعدہ سچا اور برحق ہے۔ اس دن ہم انہیں آپس میں گڈ مڈ ہوتے ہوئے چھوڑ دیں گے اور صور پھونک دیا جائے گا پس سب کو اکٹھا کر کے ہم جمع کر لیں گے۔

اسی طرح ان کے دوبارہ ظہور کی خبر سورة الابنیاءمیں بھی دی گئی ہے۔ ارشاد ہے:"حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ ۔ وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ"[10] جی ”یہاں تک کہ جب یا جوج ما جوج کھول دیے جائیں گے اور وہ ہر بلندی سے دوڑتے ہوئے آئیں گے اور سچا وعدہ قریب آلگے گا“۔

یاجوج ماجوج اصلاً کون ہیں؟

یاجوج ماجوج فی الحقیقت کون ہیں، انکا شجرہ نسب کیا ہے؟ مذکورہ بالا قرآن کا ظاہر ی سیاق یہ بتاتا ہے کہ دو افراد کی جنگی سربراہی میں ایک بڑا لشکر موجود ہوگا ۔ ان کی اصل حقیقت کے حوالے سے چند احادیث ملتی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم کی اولاد میں سے ہیں۔ احادیث ملاحظہ ہوں: "عَنِ ابْنِ عُمرَ عَنِ النَّبیِﷺقَال ان َیَاجُوجَ وَمَاجُوْجَ مِنْ وَلَدِ آدَمَ وَلَوْاُرْسِلُوالَاَفْسَدُوْا عَلی الناسِ معایشهم لا یَمُوتُ مِنْهُمْ رَجُلٌ اِلاَّتَرَکَ مِنْ زُرِیَّتِهِ اَلْفاً فَصَاعِدًا وَاِنَّ مِنْ وَرَائِهِمْ ثَلاَثَ اُمَمٍ تَاوِیْلٍ وَتَارِیْسںٍ اَومَنْسَک"[11]یعنی یاجوج ماجوج بنی آدم سے ہیں اور اگر انہیں چھوڑ ا تو یہ لوگوں کی معیشت تباہ و برباد کر دیں گے اور ان میں سے کوئی آدمی اس وقت نہیں مرتا جب تک اپنی ایک ہزار یا اس ے زیادہ اولاد نہ دیکھ لے اور ان کے ساتھ تین اور اقوام بھی ہیں تاویل، تاریس اور منسک۔یہ حدیث اگرچہ حافظ ابن کثیر کے نزدیک ضعیف ہے وہ لکھتے ہیں:” ھذا حدیث غریب بل منکر ضعیف“ یعنی یہ حدیث غریب بلکہ ضعیف بھی ہے۔[12]

اسی طرح بعض علما یاجوج ماجوج کو تو اصلاً حضر ت آدم کی اولاد قرار دیتے ہیں مگر حوا سے نہیں۔ اس ضمن میں وہ کعب الاحبارکاایک قول بیان کرتے ہیں جن کو حافظ ابن کثیر نے انتہائی غریب اور عقلاًو نقلاً ناقابل قبول کہا ہے۔ یہ قول ملاحظہ ہو: "عَنْ کَعْبِ الاَحْبَارِ قَالَ اِحْتَلَمَ آدَمٌ فَاخْتَلَطَ مَاوُهُ بِالتُرَابِ فَاَسَفَ وَخُلِقُوْا مِنْ ذٰلِکَ المَاءَفَهُمْ مُتَّصِلُونَ بنِاَ مِن ْجِهَةِ الاَبِ لاَمِنْ جِهَة ِالاُمِّ "[13] یعنی کعب الاحبار فرماتے ہیں کہ حضرت آدم کو احتلام ہوا اور انکا مادہ منویہ مٹی میں مل گیا اسپر انہیں افسوس ہوا اس مادہ سے یاجوج ماجوج پیدا ہوئے لہٰذا باپ کی طرف سے ہم (انسانوں) سے اور ماں کی طرف سے نہیں۔ ابن کثیر اس قول پر شدید تنقید کرتے لکھتے ہیں: "وَهٰذٰا قَولٌ غَرِیْبٌ جِدًّا ثُمَّ لاَ دَلِیْلٌ عَلَیهِ لاَ مِنْ عَقْلٍ وَلاَمِنْ نَقْلٍ وَلاَ یَجُوزُ اِعْتِمَادُهاَهنَا عَلٰی مَا یَحکِیهِ بَعْضُ اَهلِ الْکِتاَب۔"[14]یعنی انتہائی غریب قول ہے نیز اس کے متعلق عقلاً و نقلاً بهی کوئی دلیل نہیں اور اس ضمن میں اہل کتاب کی بیان کردہ روایات نا قابل اعتماد ہیں۔حافظ ابن حجر نے اس قول کا محاکمہ یوں کیا ہے: "لَمْ نَرَهٰذٰا عَنْ اَحَدِ السَلَفِ اِلاَّعَنْ کَعْبِ الاَحْبَارِ وَ یَرُدَّهُالحَدِیْثِ المَرْفُوعِ اِنَّهمْ مِنْ ذُرِّیَّةِ نُوحٍ وَنُوح ٍمِنْ ذُرِّیَّتِهِ حَوًّاقَطْعاً۔"[15]یعنی سلف میں سے ہم نے کعب الاحبار کے سوا کسی سے یہ نہیں پایا اور ایک مرفوع حدیث بهی اس بات کی تردید کرتی ہے۔ جس میں مذکورہے کہ (یاجوج ماجوج)نوح کی اولاد سے ہیں اور نوح تو حوا کی اولاد تھے ۔ مذکورہ بالا قول سے یہ بات عیاں ہوئی کہ یاجوج ماجوج آدم کی اولاد اور نوح علیہ السلام کی نسل سے تعلق رکھنے والی بشری مخلوق ہی ہیں۔

یا جوج ماجوج کی شکل و شباہت اور مکمل صفات

یاجوج ماجوج کی کیفیت اور ہیئت کیا ہے، یہ کن صفات سے متصف مخلوق ہے انکی تعداد کتنی ہے اور اس وقت کہاں ہیں، ان کی مصروفیات کیا ہیں ؟اس تمام بحث کو ذیل میں قلمبند کیا گیا ہے:

مجمع الزوائدمیں ملنے والی حدیث میں جس کوام حبیبہ ؓنے روایت کیا ہے رسول اللہ ﷺ نے ان کی کیفیت یوں بیان فرمائی ہے: "عِرَاضُ الوُجُوهِ صِغَارُ العُیُونِ شَهبُ الشِّعَافِ مِنْ کُلٍّ حَدَبٍ یَنْسِلُونَ کَانَّ وُجُوههمْ المَجَّان المُطْرَقَة "[16]یعنی جن کے چہرے چوڑے آنکھیں چھوٹی اور سر کے بال مائل بہ سرخی ہوں گے ہر ٹیلے سے چڑھتے دوڑتے آئیں گے گویا ان کے چہرے تہہ بہ تہہ(کوئی) ڈھال کی طرح چپٹے ہوں گے۔

یاجوج ماجوج کی بعض ظاہری صفات کا تذکرہ حافظ ابن حجر نے بھی کیا ہے مگر وہ سب ضعیف ہیں ان صفات میں یاجوج ماجوج کو تین اقسام کا بتایا گیا ہے جن میں ایک قسم لمبے قد کاٹھ کے لوگوں کی جو صنوبر کے درخت کی مانند ہوں گے۔ دوسری قسم چار ہاتھ مربع معلوم ہوتی ہے۔ اور ایک ایسی کیفیت و قسم کے ہوں گے جو اپنے کانوں کو اپنے نیچے بچھا کر اور دوسرے کان کو اوپر اوڑھ کر سو جائیں گے نیز اس قسم کے متعلق یہ بھی ملتا ہے کہ انکا طول ایک یا دو بالشت ہو گا اور ان میں سب سے لمبا تین بالشت تک کا ہوگا[17] مگر حافظ ابن کثیر نے ایسی باتوں کو خواہ مخواہ کا تکلف اور بلا سند قرار دےکر رد کر دیا ہے وہ النہایہ میں یوں رقمطراز ہیں: "فَقَدْ تَکَلَّفَ مَالَا عِلْمَ لَهُ بِهِ وَقَالَ مَالَا دَلَیْلَ عَلَیهِ وَقَدْ وَرَدَفِی حَدِیْثٍ اَنَّ اَحَدَهُمْ لَایَمُوتُ حَتّٰیٰ یَرَی مِنْ نَسْلِه اَلْفَ اِنْساَنٍ"[18] یعنی’’جس نے بغیر علم کے ہی ایسی بات کہہ ڈالی اس نے خواہ مخواہ تکلف کیا اور ایسی بات کہی جس کی کوئی دلیل نہیں بلکہ حدیث میں تویہ وارد ہوا ہے کہ ان کا ہر شخص اپنی نسل کے ایک ہزار انسان دیکھے بغیر نہیں مرے گا۔ ،،

اور پھر صحیح روایات میں تو ان کے انتہائی طاقتور ہونے کا تذکرہ بھی ملتا ہے کہ جن کے مقابلے کی سکت خود حضرت عیسیٰ ؑکو بھی نہ ہو گی اور یہ توان کی بددعا سے مریں گے لہذا اتنی مضبوط قوم کا ایک یا دو بالشت ہونا عقلاً بعید از قیاس ہے۔یاجوج ماجوج کس قدر شر اور فساد مچائیں گے ، ان کی طاقت اورقوت اتنی ہوگی کہ آن واحد میں انسانی بستیوں کو پیوند خاک کر ڈالیں گے اور وہ آج کل سدِ ذوالقرنین میں مسلسل سوراخ کرنے اور کس طرح اسے منہدم کرنے کے عمل میں مشغول و مصروف ہیں اس ضمن میں چند احادیث صحیح کا متن ملاحظہ فرمائیں:

"عَنْ اَبِی هرَیْرَهَ رَضِیَ اللهُ عَنهُ عَنْ رَسُولِ اللهِﷺقَال۔: فَیَحْفِرُوْنَهُ وَیَخْرُجُونَ علی الناس فَیَنْشِفُونَ المِیَاهَ وَیَتَحَصَّنُ النَّاسُ مِنْهمْ فِی حُصُونِهمْ فَیَرمُونَ بَسِهامِهمْ اِلَی السَّمَاءِفَتَرْجِعُ وَعَلَیْها کَهیْئَةِ الَّدَمِ فَیَقُولُونَ قَهرنَا اَهلَ الَارْضِ وَعَلَونَا اَهلَ السَّمّاءِ"[19]

"حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا پھر وہ دیوار توڑ کر لوگوں پر نکل آئیں گے سارا پانی پی جائیں گے لوگ قلع بند ہو جائیں گے تو وہ (یاجوج ماجوج) اپنے تیر آسمان کی طرف پھینکیں گے جنھیں اللہ تعالیٰ خون لگا کر نیچے پھینکیں گےتو وہ کہیں گے ہم نے آسمان والوں پر بھی غلبہ پا لیا ہے جس طرح ہم اہل زمین پر غالب ہیں"۔[20]

”عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ، قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔۔۔وَيَبْعَثُ اللهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ، وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ، فَيَمُرُّ أَوَائِلُهُمْ عَلَى بُحَيْرَةِ طَبَرِيَّةَ فَيَشْرَبُونَ مَا فِيهَا، وَيَمُرُّ آخِرُهُمْ فَيَقُولُونَ: لَقَدْ كَانَ بِهَذِهِ مَرَّةً مَاءٌ، وَيُحْصَرُ نَبِيُّ اللهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ، حَتَّى يَكُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ لِأَحَدِهِمْ خَيْرًا مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِكُمُ الْيَوْمَ۔"

حضرت نواس بن سمعان سے مروی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا : پھر اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کو نکال دیں گے اور وہ ہر ٹیلے سے بھاگتے ہوئے آئیں گے ان کے اگلے افراد بحیرہ طبریہ سے گذریں گے تو اس کا سارا پانی پی جائیں گے اور ان کے آخری افراد وہاں سے گذریں گے تو کہیں گے کہ کبھی یہاں پانی ہوا کرتا تھا؟اور حضرت عیسیٰ ؑاور ان کے ساتھی محصور ہو جائیں گے حتیٰ کہ بیل کاسر تمہارے موجود سو دیناروں سے زیادہ قیمتی ہوں گے۔[21]

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا : پھر یا جوج اور ماجوج نکلیں گے اور ہر ٹیلے سے دوڑتے ہوئے آئیں گے وہ ان لوگوں کے شہروں کو روند ڈالیں گے۔ ہرچیز کو تباہ و برباد کر دیں گے ، جس پانی سے گذریں گے اسے پی جائیں گے۔ پھر لوگ میرے پاس (عیسیٰ)شکایت لے کر آئیں گے تو میں اللہ تعالیٰ سے یا جوج ماجوج کے لیے بددعا کروں گا اور اللہ تعالیٰ ان سب کو ہلاک کر ڈالیں گے[22]احادیث میں سدِ ذوالقرنین میں سوراخ ہونے کا بھی تذکرہ ہے۔ حدیث میں ہے: "عَنْ زَیْنَبِ بِنْتِ جَحْشٍ رضي الله عنها قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللهِﷺوَیْل ٌلِّلعَرَبِ مِنْ شَرٍّقَدِاقْتَرَبَ فُتِحَ الیَوْمُ مِنْ رَدْمِ یاجوج وماجوج مثل هٰذٰا قَالَ وَحَلَّقَ بِاِصْبَعَیهِ بِالاَبْهامِ وَالَّتِی تَلِیْها"[23] یعنی حضرت زینب بن جحش ؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا : عربوں کے لیے اس شر سے تباہی ہے جو قریب آ چکا ہے۔ آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں اتنا سوراخ ہو چکا ہے آپ نے اپنے انگوٹھے اور انگشت شہادت ملا کر اشارہ کیا۔یاجوج ماجوج تعداد میں بھی کثیر ہوں گے ۔حضرت ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

کہ اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن ) فرمائے گا ، اے آدم! آدم ؑ عرض کریں گے میں اطاعت کے لیے حاضر ہوں، مستعد ہوں، ساری بھلائیاں صرف تیرے ہی ہاتھ میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، جہنم میں جانے والوں کو (لوگوں میں سے الگ) نکال لو۔ حضرت آدم ؑ عرض کریں گے، اے اللہ! جہنمیوں کی تعداد کتنی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہر ایک ہزار میں نو سو ننانوے۔ اس (کی ہولناکی اور وحشت )سے بچے بوڑھے ہو جائیں گے اور ہر حاملہ عورت اپنا حمل گرا دے گی اس وقت تم (خوف و دہشت سے)لوگوں کو مدہوشی کے عالم میں دیکھو گے، حالانکہ وہ بے ہوش نہ ہوں گے۔ لیکن اللہ کا عذاب بڑا ہی سخت ہوگا۔صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺوہ ایک شخص ہم میں سے کون ہوگا؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ تمھیں بشارت ہو وہ ایک آدمی تم میں سے ہوگا اور ایک ہزار دوزخی یاجوج و ماجوج کی قوم میں سے ہوں گے پھر حضورﷺ نے فرمایا ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مجھے امید ہے کہ تم (امت مسلمہ) تمام جنت والوں کے ایک چوتھائی ہو ں گے۔ پھر ہم نے اللہ اکبر کہا تو آپ ﷺ نے فرمایا: کہ مجھے امید ہے کہ تم تمام جنت والوں کے ایک تہائی ہو گے پھر ہم نے اللہ اکبر کہا ۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: کہ مجھے امید ہے کہ تم جنت والوں کے آدھے ہو گے پھر ہم نے اللہ اکبر کہا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ( محشر میں) تم لوگ تمام انسانوں کے مقابلے میں اتنے ہوں گے جتنے کسی سفید بیل پر ایک سیاہ بال یا جتنے کسی سیاہ بیل کے جسم پر ایک سفید بال ہوتا ہے۔[24]

بالآخر اس ہلاکت خیز طوفان سے نجات جناب عیسیٰ ؑ کی دعا سے ملے گی حدیث یوں ہے:

حضرت نواس بن سمعان ؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا پھر اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ ؑ اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں میں کیڑے پیدا کر کے انہیں آن واحد میں ایک نفس کی موت کی طرح ہلاک کر دیں گے پھر اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ ؑ اور ان کے ساتھی زمین پر اتریں گے مگر زمین میں ہر جگہ ان کی سرانڈ اور بد بو پھیلی ہو گی پھر حضرت عیسیٰ ؑ اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹوں کی گردن برابر (چڑیوں جیسے) پرندے بھیجیں گے جو انہیں وہاں لے جا پھینکیں گے جہاں اللہ کا حکم ہو گا پھر اللہ تعالیٰ بارش برسائیں گے جو ہر مٹی اور خیمے والے گھر میں پہنچے گی اور اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ زمین کو اس طرح صاف پاک کر دیں گے جس طرح کوئی حوض یا باغ ( یا خوبصورت عورت) ہو پھر زمین کو حکم ہو گا کہ اپنے پھل اگا، برکتیں نکال ، اس دن ایک انار پوری جماعت کھا سکے گی اور اس کے چھلکے سے وہ سایہ حاصل کریں گے ۔ ایک گابھن اونٹنی کا دودھ کئی جماعتوں کے لیے کافی ہوگا، حاملہ گائے کا دودھ ایک قبیلے کو کفالت کرے گا اور بکری کا دودھ ایک خاندان کو کافی ہوگا، لوگ اس حال میں ہوں گے کہ اچانک اللہ تعالیٰ ایک ہوا بھیجے گا جو ان کے بغلوں کے نیچے سے اثر کرتی ہوئی گذر ے گی اور ہر مومن و مسلم کو فوت کر دے گی پھر صرف بد ترین لوگ باقی رہ جائیں گے جو گدھوں کی طرح باہم جھگڑیں گے (یا بدکاریاں کریں گے) اور انہیں پر قیامت قائم ہو گی۔[25]

دور نبویﷺ میں یاجوج ماجوج کی دیوار کو ایک صحابی سے دیکھنا ملتا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری حدیث مذکور ہے:"حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ اہل مدینہ میں سے ایک آدمی نے کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ میں نے وہ دیوار دیکھی ہے جو یاجوج ماجوج کے درمیان بنائی گئی ہے آپﷺ نے پوچھا کہ تو نے کس حالت میں اسے دیکھا ہے۔ ا س نے کہا دھاری دار چادر کی طرح کہ جس کی ایک دھاری سرخ اور دوسری سیاہ ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں تو نے اسے دیکھا ہے۔"[26] لیکن اس حدیث سے یہ قیاس کیا جانا بھی ممکن ہے کہ اس صحابی نے حالت نیند میں اس کا مشاہدہ کیا ہو کیونکہ اگر ظاہرا ً روئیت ہوتی تو صحابہ اسکا مقام ضرور ذکر کرتے مگر علامہ آلوسی روح المعانی میں اسکو ظاہر پر ہی محمول کرتے ہوئے روئیت حقیقی کو ہی رائج قرار دینے کی طرف مائل ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: "وَالظَّاهِرُاَنَّ الرُوْیَةَ بَصَرِیَّةٌ لاَمَنَامِیَّه وَهوَاَمْرغَرِیْب اِن صَحَّ الخَبَرُ "۔[27]یعنی حدیث کا ظاہر بتاتا ہے کہ یہ روئیت خواب میں نہیں بلکہ حقیقی تھی اگر ایسا ثابت ہو تو یہ حیران کن امر ہوگا۔

علماءسلف و خلف میں یا جوج ماجوج کے حوالے سے کئی تعبیرات پیش کی گئی ہیں ۔بعض نے یاجوج ماجوج سے مراد عصر ِحاضرمیں موجود کئی مختلف اقوام سے جزوی مشابہت پا کر انھیں یا جوج ماجوج قرار دے دیا اور بعض نے تاتار و منگول کو بعض نے صرف تعداد کو مد نظر رکھ کر کسی مخصوص قوم پر اس کا اطلاق کر دیا بعض نے فقط ظاہری شباہت پر اسکو محمول کر کے حکم لگا دیا۔حقیقت تو یہ ہے کہ جب تک نصوصِ شرعیہ میں مذکورہ تمام علامات من کل الوجوہ مشترک نہ ہوں ظن و تخمین سے بچنا چاہیے ذیل میں مذکورہ تعبیرات کا جائزہ اختصار کے ساتھ پیش خدمت ہے:

  1. پہلی تعبیر یہ ہے کہ یا جوج ماجوج سے مراد روسی، یورپی اور امریکی اقوام ہیں۔
  2. دوسری تعبیر یہ ہے کہ منگول ،تاتار جو ایک وحشیانہ سیلاب کی مانند بڑی تعداد میں دنیا میں چھا گئے اور یہ قتل و غارت اور فساد و بربادی میں اپنی مثال آپ تھے ان کی شکلیں بھی احادیث میں بیان کردہ خاکہ کے بہت مماثل ہیں لہذا یہی یاجوج ماجوج ہیں اور پھریہ بھی کہ شمال مشرقی ایشیاءمیں دیوار چین ،دیوار قفقاز اور دیوار ترمذ موجود ہیں ان میں سے کسی پر سد ِذوالقرنین کا اطلاق کیا جا سکتا ہے۔
  3. تیسری تعبیریوں ہے کہ یاجوج ماجوج اصل میں ترک اقوام ہیں کیونکہ ان کی مشابہت و شکل حدیث میں بیان کردہ آثار کے موافق ہے۔
  4. چوتھی تعبیر یہ ہے کہ چینی اقوام میں یا جوج ماجوج اور ان کے گردا گرد مضبوط و بڑی دیوار دیوار چین ہے اور پھر یہ کہ یہ درندوں اور جانوروں کو بڑے شوق سے کھا تے ہیں۔
  5. پانچویں ممکنہ شکل یہ ہے دیوار برلن ہی سد ذوالقرنین ہے اور اہل یورپ ہی یاجوج ماجوج ہیں۔
  6. چھٹی ممکنہ صورت یہ ہوسکتی ہے کہ شمال مشرقی ایشیا کے وحشی قبائل ہی یاجوج ماجوج ہیں گو کہ فی الحال حدیث میں بیان کردہ تمام علامات ان پر صادق آتیں قریب قریب وہ تمام اوصاف ان میں پیدا ہوں گے اور یہ ہر طرف خروج کریں گے۔

درج بالا تعبیرات اگر بنظر غائردیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ احادیث صحیحہ میں موجود یاجوج ماجوج کی صفات اور احوال کی مشابہت کسی بھی قوم میں نہیں پائی جاتی۔

مفکرین کی تعبیرات میں تنقیدو تحقیق کی بہت گنجائش موجود ہے۔ قرآن و حدیث سے مترشح ہونے والے نکات کی وضاحت اختصار کے ساتھ کی جائے گی اور مذکورہ بالا تعبیرات کو حقائق کے آئینے میں دیکھا جائے گا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یاجوج ماجوج روسی و یورپی اقوام ہیں تو یہ دعویٰ اس دلیل کی بنیاد پر نا قابل قبول ہے کہ وہ تو ایک جگہ پر نہیں بلکہ مختلف براعظموں میں پھیلے ہیں روس ایشیاءمیں اوریورپ میں جبکہ قرآن کا سیاق و سباق صاف طور پر یہ واضح کر رہا ہے کہ یہ دونوں اقوام کسی ایک ہی جگہ پر آباد تھیں اور باہم ملکر دوسری اقوام پر چڑھائی کرتی تھیں جیسا کہ قرآن کی آیت سے واضح ہے: "قَالُوا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلَى أَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا۔"[28]’’انہوں نے کہا کہ اے ذوالقرنین بے شک یاجوج اور ماجوج زمین میں فساد مچاتے ہیں تو کیا ہم تیرے لیے خراج نکال دیں تاکہ تو ہمارے لئے ان کے اور ہمارے درمیان ایک دیوار بنا دے۔،،مگر اس بات پر یہ اعتراض کیاجاسکتا ہے یہ کہ عین ممکن ہے کہ اولاً یہ ایک ہی جگہ آباد ہوں مگر بعد میں تعداد کی کثرت کے باعث مختلف براعظموں میں پھیل گئے ہوں مگر یہ اعتراض بھی قابل رد ہو گا اس لئےکہ حدیث میں صراحت ہے کہ وہ دونوں اب بھی سد ذوالقرنین کو کھودنے میں مشغول ہیں اور اس دیوار کے پار قید ہیں اور خروج کے لیے بے چین ہیں بالآخر اذن الٰہی سے اس کو توڑنے میں کامیاب ہو کر یہ تباہی مچائیں گے لہذا یورپ امریکہ کی اقوام تو کسی بھی دیوار کو نہ توڑنے میں مصروف ہیں نہ ہی وہ کسی قید میں بند ہیں کہ جس سے چھوٹنے کے لیے بے تاب ہوں۔

یورپی ، روسی اور امریکی اقوام کا ماضی میں ظلم و جبر اور سفاکانہ کردار کو دیکھ کر بھی بعض لوگ ان کے یاجوج ماجوج ہونے پر اصرار کرتے ہیں کہ یورپ نے ایک عرصہ دنیا پر اقتدار جمائے رکھا اور ظلم و ستم کی کئی داستانیں رقم کیں اسی طرح روسیوں نے بھی خوفناک انقلاب بپا کر کے وحشت و بربریت کا بازار گرم کئے رکھا اور موجودہ دور میں امریکہ ہر سیاہ و سفید کا مالک بنا بیٹھا ہے اور ظلم میں کسی سے بھی کم نہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ اقوام کی وحشت اور فتنہ و سفاکی سے مجال انکار نہیں لیکن تاریخ شاہد ہے کہ تاریخ میں یک دو نہیں بلکہ بیسیوں ایسی اقوام ملیں گی جنھوں نے ایک سے ایک بڑھ کر بربریت کا بازار گرم کیے رکھا کیا ان سب پر سفاکانہ عمل کی وجہ سے یا جوج ماجوج ہونے کااحتمال ظاہر کیا جائے گا ہر گز نہیں بلکہ قوم کے لیے مطلق حکم لگانے سے قبل احادیث میں موجود مشابہت تامہ کا ہونا ضروری ہے۔اور جہاں تک اس مفروضے کا تعلق ہے کہ منگول و تاتار جیسی اقوام کا وحشیانہ سیلاب پوری قوت سے ہر طرف تباہی پھیلا گیا اور پھر یہ کہ شمال مشرقی ایشیا میں ایسی دیوار یں بھی ملتی ہیں کہ جن پر سد ذوالقرنین ہونے کا اطلاق کیا جا سکتا ہے۔ اس تصور کے حاملین کئی مفکرین و مفسرین میں جنھوں نے احتمال ظاہر کیا ہے کہ شکل و شباہت کا توافق و تطابق اسی بات کی دلیل ہے۔لیکن اس حقیقت کو ذہن سے فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ احادیث کے مطابق یاجوج ماجوج اور سد ذوالقرنین لازم و ملزوم ہیں اور پھر یہ کہ دیوار ذوالقرنین کے تعین کے لیے لازم ہو گا کہ ان کے بیان بین السدین کے مطابق دیوار دو پہاڑوں کے مابین ہو اور اسکی بناوٹ میں لوہا و تانبا استعمال کیا گیا ہو نہ کہ سیمنٹ و مصالحے کا استعمال ہو پھر اس دیوار کا بانی ذوالقرنین بھی ہو اور دیوار کے پیچھے یاجوج ماجوج کا وجود ملے نہ کہ مسلمان رہتے ہوں اور پھر اس دیوار کو مسلسل کھودا جا رہا ہو اور دونوں اطراف کی آمدو رفت ممکن نہ ہو۔ اگر دیوار چین ، دیوار قفقاز اور دیوار ترمذ کا جائزہ لیا جائے تو کسی بھی دیوار کا بانی نہ تو ذوالقرنین ثابت ہوتا ہے چونکہ دیوار چین تو چین کے ایک چینی بادشاہ شیہہ ہوانگ تی نے بنوائی اور پھر یہ دیوار چین دو پہاڑوں کے درمیان نہیں نہ ہی لوہے اور تانبے سے تعمیر کی گئی پھر سب سے اہم دلیل جو اس مفروضے کی تردید کرتی ہے یہ ہے کہ دیوار چین تو چائنہ والوں نے پنی حفاظت کے لیے بنائی تھی جس کے توڑنے کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ اور جہاں تک دیوار قفقاز کا تعلق ہے تو اس کا بانی کسریٰ انو شیروان ) سکندر اعظم اور اسفند یار کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ لیکن اس دیوار کے سد ذوالقرنین ہونے پر زیادہ احتمال ظاہر کیا گیا ہے اس کا سبب چند وجوہات ہیں جو اس تصور کو وزنی اور کسی حد تک قابل قبول بناتی ہیں۔

  1. پہلی وجہ تو یہ کہ دیوار قفقاز دو پہاڑوں کے درمیان ہی ہے۔
  2. دوسری وجہ یہ کہ اسمیں واقعتا تانبے اور لوہے کا استعمال کیا گیا ہے
  3. تیسری وجہ یہ کہ اس کے بنانے والے کے متعلق قطعی کوئی صریح دلیل نہیں کہ اسکا بانی نوشیروان یا سکندر تھاکیونکہ کئی مورخین نے اسکے بانی کا نام ذوالقرنین ہی بتایا ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر نے البدایہ و النہایہ میں ایک واقعے کا تذکرہ کیا ہے کہ عباسی خلیفہ واثق باللہ نے خواب میں دیکھا کہ دیوار یاجوج ماجوج ٹوٹ گئی ہے چنانچہ اس نے پریشان ہو کر کچھ افراد کے گروہ کو سد ذوالقرنین کی تلاش اور اسکے احوال دریافت کرنے کے لیے بھیجا، اٹھارہ ماہ کے بعد اس گروہ نے آکر یہ رپورٹ دی کہ وہ دیوار تا حال محفوظ موجود ہے اس میں ایک بڑا دروازہ ہے جس پر بڑے بڑے تالے لگے ہیں اور یہ دیوار انتہائی بلند و بالا اور مضبوط ہے اس کمیشن نے یہ بھی خبر دی کہ یہ دیوار شمال مشرقی جانب ہے اور ان علاقوں کے بادشاہوں کی طرف سے وہاں پہرے دار مقرر ہیں ۔

اگرچہ اس دیوار کے بارے میں دو تین علامتیں مشترک ہیں مگر مشابہت تامہ اسمیں بھی موجود نہیں ۔ جہاں تک اس واقعے کا تعلق ہے تو یہ واقعہ بسند صحیح ثابت نہیں اور یہ کہ مورخین اسکو صرف حافظ ابن کثیر کی بنیاد پر یونہی بلا سند نقل کرتے آئے ہیں۔ اور خود حافظ ابن کثیر اس واقعے کے متعلق "ذُکِرَاَنَّ الخَلِیفَه وَاثِقْ بِاللهِ بعث" کا لفظ بولا ہے اور ذکر کا صیغہ تو مجہول ہے جو اس واقعے کے ضعف پر دال ہے[29] معجم البلدا ن کے مؤلف نے بھی اس واقعہ کو نقل کر کے اسکے ضعف پر اشارہ کیا ہے وہ لکھتے ہیں: "قَدْ کَتَبْتُ مِنْ خَبَرِ السَّدِمَا وَجَدتُهُ فِی الْکُتُبِ وَلَستُ اَقْطَعُ بِصِّحَةِمَا اَدَرْتُه"[30]یعنی میں نے سد ذوالقرنین کے متعلق کو جوکچھ کتب میں پایا نقل کر دیا اور انکی صحت کے متعلق میں قطعی کچھ نہیں کہتا۔

اس واقعہ کی تضعیف کے علاوہ ایک دوسری دلیل جو دیوار قفقاز کے سد ذوالقرنین ہونے کے احتمال کا بطلان کرتی ہے وہ یہ ہے کہ آج دیوار اپنی حالت میں موجود نہیں بلکہ عرصہ دراز سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے لہٰذا وہاں سے کوئی یاجوج ماجوج نہ تو ظاہر ہوئے اور نہ ہی عیسیٰ کی بدعا سے وہ مرے جیسا کہ علامہ آلوسی نے بھی روح المعانی میں اس تصور کو کہ دیوار قفقاز ہی سد ذوالقرنین ہے صریحا باطل قرار دیا ہے وہ لکھتے ہیں : "وَهوَ لَمْ یَبْقَ اِلَی الآنِ بَلْ خَرِبَ مِنْ قَبْلِ هٰذٰا بِکَثِیْر"[31] ’’ِاور یہ دیوار تو آج تک موجود نہیں بلکہ عرصہ دراز سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہےِ،،

اور حقیقت یہ ہے کہ اسکا ٹوٹنا اور اس میں سے یاجوج ماجوج کا ظہور متفقہ اور غیر مختلف فیہ امر ہے لہٰذا یہ تاویل بھی باطل ہوئی ہے۔اور جہاں تک تعلق ہے ترکوں کے یاجوج ماجوج سے اشتباہ کا تو یہ فقط ظاہری شکل و صورت کا تو ہے مگر دیگر تمام علامات ان میں بھی مفقود ہیں اگرچہ حدیث میں بیان کیا گیا ظاہری خاکہ کہ باریک آنکھوں والے ، سرخی مائل بالوں والے اور چوڑے چہرے والے گویا کوٹی ہوئی ڈھالیں ہیں ۔ اس کی اس سے مطابقت رکھتا ہے مگر جزوی مشابہت ترکمانستانی لوگوں کو یاجوج ماجوج بنانے کے لیے کافی نہیں اور کسی کی شکل و صورت ظاہری دیکھ کر حکم لگا دینا بالکل ایسا ہی کہ جیسے رسول اللہ ﷺ نے عیسیٰ کو عروہ بن مسعود ثقفی ؓ اور دجال کو عبدالعزیٰ بن قطن (کافر) کے مماثل و مشابہ قرار دیا لہذا اس سے لازم نہیں کہ آتا کہ عروہ عیسیٰ ؑہیں اور عبدالعزیٰ دجال ہی ہے۔

اور جہاں تک تعلق ہے دیوار برلن کے سد ذوالقرنین ہونے کے تصور کا تو یہ تو قطعی طور پر بے معنی سی بات ہے جو حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں رکھتی اس لئےکہ قرآن و حدیث سے یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ سد ذوالقرنین قرب قیامت اور آمد مسیحؑ کے بعدگرائی جائیگی اور دونوں چیزیں یہاں مفقود ہیں اور پھر یہ کہ دیوار برلن تو مشرقی و مغربی جرمنی کے مابین ایک معاہدے کے تحت گرادی گئی ہے اور یہاں کوئی قوم ظاہر نہیں ہوئی جس نے آنا فانا دنیا میں فساد مچا دیا ہو نہ ہی وہ دو پہاڑوں کے درمیان بنائی گئی تھی نہ لوہے و تانبے سے اور نہ ہی ذوالقرنین نے بنائی بلکہ دیوار برلن پر تو کسی بھی طرح سد ذوالقرنین کا انطباق نہیں ہوتا ۔رہا تاتاری اقوام کے متعلق یہ گمان کہ یہ ہی یاجوج ماجوج ہیں تو اس تاویل کے بھی فاسد ہونے کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ امت اس بات پر متفق ہے کہ یاجوج ماجوج کا ظہور علامات کبریٰ میں سے ہے جو قیامت کے انتہائی قریب ظاہر ہوں گی جبکہ تاتاریوں کے خروج کو سات آٹھ صدیاں گزر چکی ہیں تاحال قیامت کا وقوعہ یا کم از کم کسی دوسری بڑی علامت مثلاً دجال، عیسیٰ کی آمد اور ظہور مہدی میں سے کسی کا بھی ظہور نہیں ہوا۔پھر اس کے ابطال کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ دیوار ذوالقرنین کے گرتے ہی یاجوج ماجوج ظاہر ہوں گے اور تاتاری کسی ایسی دیوار کو توڑ کر نہیں نکلے اور پھر اگرچہ تاتاریوں کی وحشت و بربریت اپنی مثال آپ تھی مگر پھر بھی یہ یاجوج ماجوج کے مقابلے سے ہونے والی تباہی کا عشرعشیر بھی نہیں تھے کیونکہ یاجوج ماجوج تو بحیرہ طبریہ کا سارا پانی پی جائیں گے دریاﺅں کے پانیوں اور جانوروں کا خاتمہ تک کر دیں گے۔ اگرچہ اس ضمن میں ہم دیکھتے ہیں کہ امام قرطبی بھی فتنۂ تاتار کو فتنہ یاجوج ماجوج کے مماثل ہی قرار دیتے ہیں نہ کہ حقیقتاً یاجوج ماجوج ۔ فتنۂ تاتار اور ان سے پھیلنے والی نسلوں کے متعلق یوں رقمطراز ہیں: "قَدْ خَرَجَ مَنْهمْ فِی هٰذٰا الوَقْتِ اُمَمٌ لَا یُحْصِیْهمْ اِلَّا اللهُ وَلَا یَرُدُّهم عَنِ المُسْلِمِیْنَ اِلَّا اللهُ حَتّٰی کَاَنَّهمْ یَاجُوجُ وَ مَاجُوجُ اَوْ مُقَدّمَتُهِمْ"[32] یعنی اس وقت ان تاتاریوں سے اتنی جماعتیں نکلیں کہ جنکی تعداد اللہ ہی جانتا ہے۔ اور اللہ کی مدد کے بغیر مسلمانوں کا ان سے دفاع ممکن نہیں تھا گویا یہ یاجوج ماجوج یا ان کا مقدمہ ہوں۔

اور جہاں تک اس تعبیر کا تعلق ہے کہ شمال مشرقی ایشیاءکے وحشی قبائل ہی یاجوج ماجوج ہیں گو کہ ان میں تمام صفات ابھی موجود نہیں مگر ان میں وہ علا مات قرب قیامت پیدا ہو جائیں گی جو احادیث میں مذکور ہیں۔تو اس تاویل کا بطلان اس دلیل کی بنیاد پر ہوتا ہے کہ قرآن وسنت میں کہیں اس بات کی تخصیص نہیں کی گئی کہ یاجوج ماجوج میں فتنہ و فساد کی صفات قرب قیامت ہوں گی بلکہ ان کی صفات کو علی لاطلاق بیان کیا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ فتنہ و فساد یاجوج ماجوج کی فطرت ثانیہ اور انکی سرشت میں ودیعت کردی گئی ہے۔لہٰذا اس تخصیص کے لیے کوئی واضح دلیل مطلوب ہے اور پھر یہ بھی کہ احادیث میں واضح ہے جیسا کہ سنن ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ یاجوج ماجوج دیوار کو توڑنے میں مسلسل مشغول ہیں اور دیوار کے کمزور ہوتے ہی وہ اپنا کام کل پر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں مگر اگلے دن سے قبل ہی اللہ اس دیوار کو پھر موٹا کر دیتے ہیں اور یہ عمل مسلسل جاری ہےلہذا ب شمال مشرقی ایشیاءکے قبائل آج قطعی طور پر کسی دیوار کو توڑنے میں مشغول نہیں ہیں اور مزید یہ کہ دیوار کا گرنا اور یاجوج ماجوج کا خروج دونوں ایک ساتھ اور لازم و ملزوم ہیں۔ لہذا یہ بات کہنا بلا دلیل ہے کہ قوم تو ظاہر ہو چکی مگر دیوار قرب قیامت گرائی جائے گی۔

علماء کے نقطہ ہائے نگاہ اور محققانہ جائزہ

ابو الکلام آزاد نے اپنی کتاب "اصحاب کہف اور یاجوج ماجوج" میں احوال یاجوج ماجوج پر بڑی مفصل و طویل بحث کی ہے کہ ان کے خیالات کا ملخص کچھ یوں ہے۔تما م تاریخی قرائن اس بات پر شاہد ہیں کہ یاجوج ماجوج سے مراد صرف ایک ہی قوم ہو سکتی ہے اور وہ شمال مشرقی میدانوں کے طاقتور مگر وحشی قبائل جو قبل از تاریخ کا 9ویں صدی مسیحی تک برابر مغرب پر سیلاب کی مانند حملہ آور ہوتے رہے ان کے حملوں کی روک تھام کے لیے چینی بادشاہ ہوانگ ٹی (Huang Ti)نے پندرہ سو میل لمبی دیوار 214قبل مسیح میں تعمیر کی جو عرصہ دس سال میں پایہ تکمیل کو پہنچی اس دیوار نے منگول قبائل کی تمام تر راہیں مسدود کر دیں لہٰذا ان کا رخ وسط ایشیاءکو مڑ گیا انہی وحشی قبائل کی شاخیں تاریخ میں مختلف ناموں مثلاً سیتھین(Seythian)، تاتار ،منگول، میگو، موگ، مےگاگ اور عبرانی میں ماجوج کے نام سے پکاری گئیں اسی طرح چین کی تاریخ میں قدیم قبیلہ یواچی (Yuech-Chi) غالباً انہی اقوام سے تھا۔ انہی میں سے بالآخر بعض قبائل جنوبی ایشیاءو یورپ میں آکر آباد ہوئے اور متمدن زندگی گزارنے لگے جس سے ان کی وحشت او ر سفاکی کی صفات میں بتدریج کمی آ گئی اور انہی لوگوں میں ہندوستان ،ایران و اناتولیہ کے باشندے شامل ہیں لیکن منگولیا کے اصل باشندے اور بحر اسود کے شمالی ساحل اور شمالی یورپ کے قبائل کی وحشیانہ خصوصیات نہ بدلیں ۔ یہ سب اقوام فی الحقیقت یاجوج ماجوج کی اولاد و نسل ہیں ۔ منگو ل قبیلہ میں جنم لینے والے وحشی اور خونخوار تاتاری چنگیز خان کا خروج ہی یاجوج ماجوج کا آخری خروج ہے جسکی خبر قرآن میں’’حَتّٰیٰ اِذَا فُتِحَتْ یَاجُوجُ وَ مَاجُوجُ وَهمْ مِنْ کُلِ حَدَبٍ یَنْسِلُونْ‘‘کے تحت دی ہے لہذا معلوم ہوا اقوام یورپ اور ہندوستانی اقوام سب یاجوج ماجوج کی آل اولاد ہیں یاجوج ماجوج کے بعض قبائل کی توطن و اقامت گزینی کی زندگی کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ انکی نسلوں میں وحشیانہ صفات کم سے کم تر ہوتی چلی گئیں۔ وسط ایشیاءکی جانب بڑھنے والے ان وحشی قبائل میں سے کچھ یورپ اور کچھ پنجاب کی طرف آکر آباد ہوئے اور یہی آرین نسل سے پکارے گئے یہ گروہ خاصی مہذبانہ زندگی گزارنے کی وجہ سے نرمی و لطافت جیسے خصائص کا حامل ہوا جبکہ دوسروں کی بربری صفات جوں کی توں رہیں۔ اناتولیہ تک پہنچنے والے قبائل ہٹی کے نام سے پکارے گئے اور انہی کو تورات کی کتاب پیدائش میں حتیٰ کہا گیا ہے اور جو قبائل فارس و میڈیا میں آکر بس گئے وہ ایریا نہ کے نام سے موسوم ہوئے یہی بالآخر ایران بنا اور یورپ میں بسنے والے فرانگ، اونڈال ،ٹیو ٹان اور ہن کے نام سے مشہور ہوئے۔ چین کی تاریخ میں انہی کوHiung-Na ہیونگ نہ کہا گیا جو بالآخر ہن ہوا اس طرح سد ذوالقرنین کے متعلق مولانا کا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ یہ دیوار بحر خزر کے مغربی ساحل سے ہوتے ہوئے آزربائیجان اور دربند شہر کے مغرب کی طرف کا کیشیا (قفقاز) کے اندرونی حصوں کی جانب درہ داریال میں واقع ہے جو (Darial Pass) کے نام سے معروف ہے اور موجودہ عالمی نقشہ میں اس کا محلVladiKeukezمیں دکھایا گیا ہے۔ اس مقام کو عرب جغرافیہ دان دربند اور باب الابواب کے نام سے یاد کرتے ہیں اور یہاں پر ایک قدیم دیوار موجود ہے جس کو ارمنی روایتوں میں آ ہنی دروازہ کے نام سے پکارا گیا اور حیران کن طور پر اس کی تعمیر میں آ ہنی تختیو ں سے ہی کام لیا گیا ہے جیسا کہ قرآن نے ذکر کیا ہے۔ اور پگھلے ہوئے تانبے کے اوپر بہائے جانے کے بھی آثار ملتے ہیں اور پھر دو پہاڑوں کی دو چوٹیوں کے درمیان ہے جو قرآنی تصریح "بین الصدفین "کے عین مطابق ہے اور جارجیا میں اسے آہنی دروازہ کے نام سے پکارا گیا ہے اور ترکی میں اسے کا ترجمہ دامر کپو مشہور ہو گیا۔ یہ خصوصیات کسی اور دیوار پر صادق نہیں آتیں اور یہی وہ سد ذوالقرنین ہے جو ایرانی بادشاہ سائرس (عبرانی فورس، پارسی گورش اور عربی کیخسرہ کے نام سے 559قبل مسیح میں معروف ہوا)[33] نے بنوائی ۔ ابو الکلام کی بحث سے جو باتیں سامنے آتی ہیں انکا ملخص یہ ہے۔

مولانا کی بحث اور تحقیق کے ماخذ و مصادر صرف قرآن ، تاریخ اور بائیبل ہیں۔ان کے تصورات و نظریات سے کم از کم یہ مترشح ہوتا ہے کہ مولانا اس ضمن سے حدیث کو قطعی معیار نہیں سمجھتے اس لیے کہ ساری بحث کسی ایک بھی حدیث کے ذکر سے خالی ہے جبکہ بہت سی احادیث صحیح میں یاجوج ماجوج کے کئی واضح اوصاف ملتے ہیں جو کہ مذکورہ بالا بحث کے اخذ کردہ نتائج کے موافق نہیں ہے۔

اگرچہ تمام بحث میں مولا نانے جزوی صفات مثلاً آہنی دیوار اور یہ کہ خونخوار اور وحشی اقوام کو تو مد نظر رکھا مگر حدیث میں مذکور اس بات سے قطعی صرف نظر کیا ہے کہ یاجوج ماجوج کا خروج حضرت عیسیٰ کے بعد حتیٰ کہ دجال کے فتنہ کے خاتمے کے بعد ہوگا اور بالآخر عیسیٰ خود بھی مقابلے کی تاب نہ رکھیں گے اور کوہ طور پر اہل ایمان کی معیت میں ان کے خلاف بد دعا کریں گے جس سے ان کی گردنوں میں کیڑا پیدا ہو گا اور اس سے انکا خاتمہ ہوگا۔ مولانا ابوالکلام کی بحث کے نتائج کو تسلیم کرنے سے یہ لازم ہوگا کہ مسیح کی آمد ثانی کو بھی ظہور دجال اور اس کے خاتمے کا بھی واقع ہو جانا تسلیم کر لیا جائے حالانکہ مسیح ؑ کی آمد ثانی پر تمام مسلمانوں کا مضبوط اعتقاد ہے کہ یہ پیشگوئی ابھی پوری ہونا باقی ہوگی ۔ معلوم ہوا جزوی مشابہت کو بنیاد بنا کر حکم لگانا درست نہیں بلکہ من کل الوجوہ صفات میں اشتراک پایا جانا لازم ہے اور پھر وسط ایشیاءمیں یورپ اور بلا دہند کے تمام مسلمانوں ،غیر مسلموں پر یاجوج ماجوج کا اطلاق کر دینا قطعی بعید از قیاس ہے۔

ابو الاعلی مودودی کا نقطہ نظر

ابوالاعلی مودودی نے تفہیم القرآن میں سورة الکہف اور سورة الانبیاءکی ذیل میں یاجوج ماجوج کے متعلق اپنی رائے کا اظہار فرمایا جس کا ماحصل یہ ہے:

قریب قریب متحقق ہے کہ یاجوج ماجوج سے مراد روس، شمالی چین کے تاتاری، منگول ، ہن اور سیتھین کے ناموں سے معروف قبائل ہیں۔ نیز یہ کہ قفقاز کے جنوبی علاقہ میں دربند اور داریال میں تعمیر کیے گئے استحکامات کے ضمن میں واضح طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ یہی سد ذوالقرنین ہے یا نہیں اسی طرح دیوار چین پر بعض مسلمان مورخین اور جغرافیہ نویس بھی سد ذوالقرنین کا اطلاق کرتے آئے ہیں۔ اور قرآن میں بیان کردہ دیوار کی کیفیت کے آثار اب بھی وہاں موجود ہیں اور یہ کہ قرب قیامت دونوں اقوام لازم نہیں کہ لوگوں پر ہی خروج کریں بلکہ عین ممکن ہے کہ باہم لڑ پڑیں اور پھر ان کی لڑائی عالمگیر فساد کا موجب بن جائے۔[34]

قرآن میں ان کے خروج کے ساتھ ہی واقترب الوعد الحق کے لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ یورش انتہائی اواخر ایام میں ہوگی اور اسکے جلدبعد ہی قیامت ہوگی اور اس کی موئید وہ حدیث ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے قیامت سے انتہائی قریب یاجوج ماجوج کی یورش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاكہ"کَالحَامِلِ المُتِمِّ لَایَدْرِی اَهلُها مَتیٰ تَفْجُوهمْ بِوَلَدِها لَیْلًا اَوْنَهارًا۔"[35]

یعنی پورے پیٹ کی حاملہ کہ جس سے متعلق نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کب بچہ جن دے رات یا دن۔حیران کن امر ہے کہ بیشتر مفسرین علماءو مفکرین سب یاجوج ماجوج کا اطلاق منگول تاتار کے وحشی قبائل پر ہی کرتے ہیں شاید اس کا سبب یہ کہ اسرائیلی روایات اوربائبل میں موجود کتاب یسعیاہ میں مذکورہ ان اقوام کی تصریح روش، مسک اور توبال کے نام سے اس کی تائید کرتی ہے۔ مگر جزوی مشابہت و انطباق سے قطعی طور پر ایسا حکم لگانا مناسب نہیں جب تک من کل الوجوہ اشتراک و اشتباہ ثابت نہ ہو۔ کیونکہ نہ تو یہ اقوام آج کسی دیوار کو کھودنے میں مشغول ہیں کہ خروج کو بے تاب ہوں بلکہ دنیا میں سفر کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں اور نہ ہی در بند داریال کے استحکام آج صحیح موجود ہیں بلکہ مذکورہ دیواریں سب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں اور ان کے عقب کوئی قوم ایسی نہیں پائی گئی اور دیوار چین تو خود چینیوں نے اپنی حفاظت کے لیے بنائی تھی تو کیا خود ہی وہ اسکو توڑ ڈالیں گے؟

سید قطب شہید کی رائے

معروف زمانہ تفسیر فی ظلال القرآن میں سید قطب شہید کے یاجوج ماجوج کے متعلق افکار کا خلاصہ یوں ہے:" قرآن میں مذکورہ فَاِذَا جَا وَعْدُ رَبِّی جَعَلَھا دَكّازمانے کی تحدید نہیں کرتا کہ یہ وعدہ کب پورا ہوگا اسی طرح یہ نص حَتّٰیٰ اِذَا فُتِحَتْ یَاجُوجُ وَ مَاجُوجُ وَهمْ مِنْ کُلِ حَدَبٍ یَنْسِلُونْبھی کسی وقت کی تحدید نہیں کرتی لہذا یاجوج ماجوج کا خروج وہی مغلوں اور تاتاریوں کا خروج تھا جس نے مشرقی ممالک کو تہ و بالا کر دیا۔"[36]سید قطب کے نزدیک خروج کا کوئی دور نصوص شرعیہ میں مذکور نہیں حالانکہ صحیح احادیث گذشتہ صفحات میں گذر چکی ہیں کہ ان کا خروج عیسیٰ کے بعد اور خاتمہ دجال کے بعد ہوگا ۔ اور ان کا خاتمہ بھی مسیح ؑ کی بددعا سے ہوگا۔ اور یہ حقیقت معلوم شدہ ہے کہ نہ ہی ابھی ظہور مسیح ہوا اور نہ ہی دجال کی آمد لہذا یہ تاویل بھی احادیث و قرآن کی روشنی میں باطل ہے۔

اردو دائرہ معار ف اسلامیہ کے مقالہ نگار کا تبصرہ

یاجوج ماجوج کی نسبت بائبل کا غیر تاریخی بیان یہ ہے کہ ماجوج یافث کا بیٹا اور نوح کا پوتا تھا اوریہی یافث ترک اور یاجوج ماجوج کا باپ بھی ہے حزقی ایل کے مطابق یاجوج کو ماجوج کی سرزمین کا باشندہ اور روش(روس) اور مسک (ماسکو) کا سردار بتایا گیا ہے گویا معلوم ہوا ماجوج و روس کی سرحدیں ملتی ہیں اور یہ حضرت عیسیٰ سے ساڑھے پانچ سو سال پہلے کا بیان ہے بعد میں یاجوج ماجوج کی آبادیاں الگ ہو گئیں الادریسی نے یورپی روس کے جو نقشے بنائے ہیں ان میں یورپی روس کا شمالی حصہ یاجوج کا ملک ظاہر کیا گیا ہے۔ اس حصے کے نیچے ماسکو، روس اور دوسرے قبائل کی آبادیاں ہیں جو بلغار اعظم تک مسلسل چلی گئی ہیں اوربلغار اعظم کا علاقہ کا کیشیا اور بحر خزر کے اوپر تھا ادریسی نے نقشے میں تمام اقوام کے نام لکھے ہیں اور اس نے یاجوج کے ملک ایشیائی روس میں سائبیریا کو بتایا ہے جو کوہ یورال میں مشرق کی طرف سمندر کے کنارے کنارے چلا جاتا ہے اور اس سمندر کا نام Nordense Koild Seaہےقصہ مختصر یہ کہ اس سے مراد جنگجو اور شمالی طاقتور قومیں مراد لی گئی ہیں رہی بات کہ سد کہاں واقع ہے تو اس ضمن میں البیرونی نے یہ رائے لکھی ہے کہ یہ سد دنیا کے شمال مغربی حصہ میں ہے اور یہ رائے ابن خرد ازبہ کی کتاب المسالک والمما لک میں اس مذکور واقعہ کی بنیاد پر قائم کی گئی ہے کہ جو واثق باللہ نے ایک مہم سد کی تلاش میں بھیجیں جس کی واپسی سمر قند کے سامنے سے ہوئی الادریسی نے چھٹی صدی کے وسط میں نزھة المشتاق فی افتراقٰ الآفاق لکھی اور عالمی نقشہ بنایا جس میں سد ذوالقرنین کو"کردع "کے نام سے ظاہر کیا گیا ہے اس صورت میں یہ دیوار (Tundra) تندرا ثابت ہوتی ہے جو یورپ و ایشیا کے برفانی نشیبی علاقوں میں کہیں آباد تھی روسی میں تندرا دلدلی میدان کو اسی طرح عربی میں تندرا کے معنی الطین والماءکے ہیں گویا دونوں کا مفہوم دلدلی میدان ہی ہوا۔[37]

جاوید احمد غامدی کا نقطہ نظر

جاوید غامدی نے اقوام یاجوج ماجوج کے متعلق اپنے تصورات ”ماہنامہ اشراق“میں قلمبند کیے ہیں۔ ان کی رائے میں روس اور امریکہ ہی یاجوج ماجوج ہیں اور سد ذوالقرنین دیوار برلن ہی تھی جو ٹوٹ گئی جسکے بعد یاجوج ماجوج (امریکہ و روس) باہم ملے اور روس میں اشتراکیت کا خاتمہ ہوا اور حزقی ایل کے ابواب 38,39میں انہی دونوں امریکہ و روس کا ذکر ہے قدیم زمانے میں یہی لوگ یورپ اور آسٹریلیا میں آباد ہوئے اور اب دنیا کے سارے پھاٹک انہی کے قبضے میں ہیں[38]

غامدی کے نقطہ نظر کو اگر تسلیم کر لیا جائے تو قرآن و حدیث کے بہت سے نصوص کا ابطال لازم آئیگا اس لیے کہ گزشتہ صفحات میں مذکور تین احادیث میں یہ بات گذر چکی کہ سد ذوالقرنین کا گرانا دجال اکبراور امام مہدی اور عیسیٰ ؑ کی آمد کے بعد ہوگا دنیا میں صرف مسلمان اور حضرت عیسیٰ ہی باقی رہ جائیں گے کہ جب یاجوج ماجوج سد کو گرا کر اودھم مچا ئیں گےاور عیسیٰ کی بددعا سے ان کا خاتمہ ہوگا جبکہ دیوار برلن کو مشرقی و مغربی جرمنی کے مابین ایک معاہدے کے تحت گرایا جا چکا ہے اور یہ معاہدہ تو صلح کا تھا جبکہ نصوص شرعیہ میں تو واضح طور پر اس سد کے گرنے پر فساد اور بدامنی شروع ہوگی نہ کہ امن اور پھر برلن کا بانی تو ذوالقرنین قطعاً نہ تھا نہ یہ دو پہاڑوں کے درمیان نہ اس میں لوہا اور تانبا چنا گیا اور نہ ہی اسے یاجوج ماجوج کے خوفناک حملوں سے حفاظت کے پیش نظر بنایا گیا معلوم ہوا دیوار برلن توکسی صورت بھی سد ذوالقرنین پر منطبق نہیں ہوتی اور حقائق کی روشنی میں یہ تاویل تو فاسد تاویلات میں سے بد ترین قرار پاتی ہے۔

وحید االدین خان کی توجیہ

مولانا اپنی مشہور زمانہ کتابThe Alarm of Doomsdayمیں فتنہ یاجوج اور ماجوج کا انطباق معاصر مغربی اقوام اور ان کی اقوام عالم پر تہذیبی فتح اور کرہ ارض پر ان کےوسائل اورذرائع کے ساتھ کرتے ہیں۔اس ضمن میں وہ مسند احمد میں مذکور ابو سعید خدری کی طویل حدیث سے جو نکات اخذ کرتے ہیں وہ حسب ذیل ہیں:

یورپ کی نشاہ ثانیہ کے بعد عالم پر وہ اثرات جو ہمیں بتدریج دکھائی دے رہے ہیں وہ اسی حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں مثلا معاشی دنیا میں ایک بڑاEconomic explosion جو ہم دیکھ رہےہیں اسکا مکمل طور پر انحصار و دارومدار اقوام مغرب کی قوت پر ہے۔وہ تمام تر عالمی وسائل پر گویاقابض ہو چکے ہیں رہا یاجوج ماجوج کا تمام تر دریاوں کا پانی پی جانا اغلبا پٹرول کے ذخائر پر قبضہ کی نشاندہی کرتا ہے جس کا بڑا حصہ مشرق سے نکلتا ہے مگر صرف مغرب میں ہوتا ہے اس طرح اقوام مغرب مکمل طور پر اس مشرقی خزانہ پر قابض دکھائی دیتی ہیں پانی پی جانے کے بعد ان کا آسمان کی طرف متوجہ ہونا خلائی راکٹ کی طرف اشارہ کرتا ہے اقوام مغرب کئی خلائی راکٹ زمین کے جیسے سیارے کی تلاش میں بھجوا رہی ہیں۔

یاجوج ماجوج کا ہر طرف سے چھوٹ پڑنا(وهم من کل حدب ینسلون)واضح کرتا ہے کہ وہ خدا کے ایک عظیم منصوبہ کے تحت ہی ہو گا یہ ایک غیرمعمولی تاریخی حقیقت ہے کہ یاجوج ماجوج کی نسل میں غیر معمولی روح کا آ جانا کہ فطرت کے حیران کن حقائق کا اظہار ہے کہ جس کی مثال دنیامیں پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی ہو گی اسی کا نتیجہ ہو گا کہ یاجوج ماجوج سائنسی و صنعتی ایسا انقلاب بپا کریں گے جو تصور تک نہ کیا گیا ہو گا۔دجال بھی انہی سائنسی چیزوں کے منفی استعمال کے تحت ایک بڑے فریبی کی صورت میں ظاہر ہو گا اس طرح نسل انسانی میں پہلی مرتبہ مرکز عبادت خدا کی بجائے یہ صنعتی انقلاب ہو گا جس میں سارے وسائل ہوتے ہوئے بھی انساانوں کا استحصال کیا جائے گا یہ وہی حقیقت ہے جسکی طرف اشارہ سنن ابن ماجہ کی کتاب الفتن میں ملتا ہے کہ زمیں اپنے سارے ذخائر اگل دے گی۔[39]

نتائج بحث وسفارشات

ادلۂ شرعیہ کی روشنی میں اگر صرف اس نقطے پر نظر مرکوز کرلی جائے کہ سد ذوالقرنین اور یاجوج و ماجوج میں باہم چولی دامن کا ساتھ ہے اور وقت موعود تک دونوں مجتمع ہیں اور یاجوج ماجوج روز بروز اس کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ توان صورتوں میں ہمیں دنیا میں اس وقت اس پیشگوئی کے حتمی انطباق کی کوئی صورت نظر نہیں آئے گی آج کوئی قوم ہماری نظر میں نہیں جو کسی دیوار کو مسلسل کاٹنے اور گرانے میں مشغول ومصروف ہو اور پھر کوئی دیوار بھی ایسی نظر نہیں آتی جو دیوار ذوالقرنین کہلا سکے۔ یہاں سے ایک اشکال پیدا ہوسکتا ہے کہ ممکن ہے دیوار کا کاٹنا استعاراتی و تمثیلاتی ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی پیشگوئیوں کے استعاراتی ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں لیکن یہ ایک ایسا اشتباہ ہے جو قطعی بے بنیاد ہے وہ اس لیے کہ آج تک امت میں سے کسی نے بھی دیوار سے استعارہ مراد نہیں لیا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ اجماعی حقیقت ہے جو قرآن نے بالتصریح سورة الکہف میں بیان کرڈالی اور جیسا کہ گذشتہ صفحات میں گزری ہوئی اس حدیث کی روشنی میں بھی یہ اشکال رفع ہوجاتا ہے کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کے دیوار ذوالقرنین دیکھنے کی تصدیق کی۔یاجوج ماجوج کے منصہ شہود میں آنے میں تاخیر سے یہ قطعاً مناسب نہیں کہ ہم خواہ مخواہ سینہ زوری سے کسی قوم پر اس کا انطباق کرڈالیں جیسا کہ ہم گذشتہ صفحات میں لکھ چکے ہیں کہ کئی مسلم محققین بھی یاجوج ماجوج کو اہل بائبل کے اثر سے خاصے متاثر ہوکر ان کی پیروی میں اسی قسم کی بے دلیل چیزیں پیش کرنے پر مصر ہیں۔

یہاں ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ آج جدید ترین ٹیکنالوجی کے دور میں کسی بھی مضبوط ترین پہاڑ یا چٹان کو توڑنا اور رستے سے ہٹانا کوئی دشوار کام نہیں رہا لیکن یاجوج ماجوج کہ جن کا احادیث میں بلاناغہ دیوار کو توڑنے میں مشغول رہنا مذکور ہے اور یہ کہ وہ وقت موعود سے قبل کبھی اس کو گرانے میں کامیاب نہیں ہوسکتے اس واضح ترین علامت کی کیا توجیہ پیش کی جائے گی! آج نیوکلئیر اور ایٹمی مواد سے سخت سے سخت لوہا بھی بآسانی پانی کی طرح پگھل سکتا ہے تو کیا جن اقوام کو یاجوج ماجوج ثابت کرنے پر اصرار ہے وہ آج جدید ایٹمی ٹیکنالوجی سے تہی دامن ہیں؟ کیا ان کے علاقوں میں پہاڑوں اور چٹانوں کو کاٹ کر راستے نہیں بنائے گئے؟ سخت ترین چٹان بارود سے ریز ریزہ کی جاسکتی ہے اور روس جو قریباً 25سال تک دنیا کی سپر پاور بنا رہا کیا روس کے دور عروج میں اور حتیٰ کہ آج بھی نیوکلیائی مواد کی کمی ہے؟پھر ان علاقوں میں وہ کونسی دیوار ہے جس کو توڑنے میں کامیابی نہیں ہو رہی اور جیسا کہ گذشتہ گزری ہوئی احادیث میں صراحتاً یہ بات موجود ہے کہ خروج یاجوج ماجوج ،ظہور مہدی اور خروج دجال کے بعد ہوگا تو کیا جو مفکرین روس وچائنہ وغیرہ کو ہی یاجوج ماجوج قرار دینے پر مصر ہیں وہ اس کی کیا تاویل پیش کریں گے حالانکہ امت کا اتفاق ہے کہ امام مہدی کا ظہور نہیں ہوا۔

 

حوالہ جات

  1. محمدبن عیسٰی الترمذی،السنن ،ابواب التفسیر،سورت الکھف(الریاض :دارالسلام،2000)، حدیث نمبر: 2240۔
  2. أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل،المسند ،مسند عبد الله بن مسعود رضي الله تعالى عنه (القاھرۃ :دارالحدیث،1995)، حدیث نمبر: 3557۔
  3. أبو يعلى أحمد بن علي،المسند ،من مسند أبي سعيد الخدري (دمشق: المأمون للتراث،1984)، حدیث نمبر: 1351۔
  4. محمد بن حبان بن أحمد بن حبان،صحیح ابن حبان ،ابواب التفسیر،سورت الکھف(بیروت: مؤسسة الرسالة،1988)، حدیث نمبر: 6828۔
  5. لوئیس معلوف،المنجدفی اللغۃ(بیروت:لبنان، 1998ء (،49۔
  6. حفظ الرحمٰن سیوہاروی،قصص القرآن (لاہور: مکتبہ اسلامیہ،2007ء)، 3:198 ۔
  7. Jones. E. Stephen, "God’s Kingdom Ministries," http://www.gods-kingdom-ministries.org/birthright/chapter15/chapter15.htm, accessed on April 11, 2007.
  8. Ibid.
  9. القرآن 92:18
  10. القرآن 21:97
  11. محمدبن عبدااللہ ابی کم نیساپوری،المستدرک علی الصحیحین(بیروت: دارالفکر،1398ھ)،4:499۔ امام حاکم نے شیخین کی سند پر اسے صحیح کہا ہے۔
  12. ابوالفداعمادالدین ابن کثیر،النہایہ فی الفتن والملاحم(قاہرہ: دارالتقوی للنثروالتوزیع، 2002ء)، 110۔
  13. ایضا۔، 109۔
  14. ایضا۔
  15. حافظ احمد ابن حجر عسقلانی،فتح الباری(مصر:مطبعہ السعادن،1328ء)، 91:12۔
  16. نورالدین ابوبکر لہیثمی،مجمع الزوائد کتاب الفتن،باب ماجاءفی یاجوج وماجوج (بیروت،:دار الکتب العلمیہ ،2001)، حدیث نمبر :12570، 7: 481۔ (اسکی ہم معنیٰ کئی احادیث بخاری و مسلم میں موجود ہیں)۔
  17. عسقلانی،فتح الباری،13:107۔
  18. ابن کثیر ،النہایہ فی الفتن والملاحم،110۔
  19. محمد بن عیسٰی الترمذی، الجامع الترمذی ابواب التفسیر،سورۃالکہف،)بیروت ۔دار إحياء التراث العربي)حدیث نمبر: 2937۔
  20. ایضا۔
  21. مسلم بن حجاج القشیرى،الجامع الصحیح ،کتاب الفتن،باب ذکر الدجال(الریاض: دارالسلام،2000ء)، حدیث نمبر: 7373 ، 1186۔
  22. ایضا۔، حدیث نمبر: 7374، 1186۔
  23. محمد بن اسماعیل البخاری ، الجامع الصحیح،کتاب الفتن،باب یاجوج وماج(الریاض: دارالسلام،2000)، حدیث نمبر:7135، 594۔
  24. ایضا۔، کتاب احادیث الانبیأ ٔ باب قصۃ یاجوج وماجوج ، حدیث 3381،271۔
  25. القشیری،الجامع الصحیح، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب ذکرالدجال، حدیث نمبر: 2937، 1186۔
  26. بخاری،الجامع الصحیح ،کتاب احادیث الانبیاء،باب قصہ یاجوج و ماجوج، حدیث نمبر: 3381، 271۔
  27. سید محمود آفندی آلوسی،روح المعانی(بیروت: داراحیاالتراث العربی،1984ء)، 16:42۔
  28. القرآن94:I8
  29. ابن کثیر،البدایہ والنہایہ، 102:2۔
  30. یاقوت الحمویی، معجم البلدان(بیروت:دارالکتب العلمیہ،1864ء200:3۔
  31. آلوسی،روح المعانی،37:16۔
  32. محمد بن ابی بکرابن العربی،الجامع لاحکام القرآن (بیروت:دارالمعرفہ،1832ء)، 57:11۔
  33. ابوالکلام آزاد،اصحاب کہف اوریاجوج ماجوج(لاہور: نگارشات،2006ء)،109-123۔
  34. ابوالاعلی مودودی،تفہیم القرآن(لاہور:ترجمان القرآن، 2007ء)، 44:3۔
  35. محمد بن یزیدابن ماجہ القزوینی،السنن، کتاب الفتن،باب فتنہ الرجال(الریاض: دارلسلام،2000)، حدیث نمبر : 4081، 2725۔
  36. سید قطب،فی ظلال القرآن(لاہور: اسلامی اکادمی ، 1990ء)، 4: 437۔
  37. اردودائرہ معارف اسلامیہ، بذیل یاجوج ماجوج(لاہور: جامعہ پنجاب، 1938ء)، 228:23۔
  38. جاوید احمد غامدی،ماہنامہ اشراق(لاہور:اشراق،2007ء)، 7-4۔
  39. Maulana Waheed-ul-Din, "YajoojMajooj", http://www.al-bayaan.com/wp-content/uploads/books/doomsday/index.html#17/, accessed on June 15, 2012.
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...