Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Milal: Journal of Religion and Thought > Volume 2 Issue 1 of Al-Milal: Journal of Religion and Thought

سیرت طیبہ پر استشراقی فکر کے اعتراضات کے اسباب و عوامل کا تاریخی و ارتقائی جائزہ |
Al-Milal: Journal of Religion and Thought
Al-Milal: Journal of Religion and Thought

تمہید

مستشرقین نے اہلِ یورپ کے سامنے مشرقی اقدار و روایات، تہذیب و ثقافت اور دین و عقیدے کی نامکمل، مبہم، قابلِ اعتراض اور موجبِ تنفر صورت پیش کرنے میں کوئی کسر روا نہیں رکھی۔ استشراقی فکر کی کاوشوں کے نتیجے میں بہت سے اہلِ یورپ خاتم النبیینﷺ اور دینِ اسلام کی حقیقت و حقانیت کے حوالے سے شکوک و شبہات میں پڑ گئے اور انہوں نے دینِ مبین، پیغمبرِ آخر الزمانﷺ، دینی اقدار اور اسلامی روایات و تعلیمات سے نفرت شروع کی، اور دینی تعلیمات کو قابلِ نفرت اور خلافِ فطرت سمجھنے لگے، جس کا بنیادی سبب مستشرقین کی دسیسہ کاریاں، مکر و فریب اور اسلامی تعلیمات و اشخاص کو مسخ شدہ شکل میں پیش کرنا ہے۔ کئی یورپی ممالک میں باقاعدہ اکیڈمیاں اور ادارے ان مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے قائم کئے گئے کہ وہ دنیا کے سامنے اسلام اور پیغمبرِ اسلامﷺ کے بارے میں محسوس اور غیر محسوس طریقے سے منفی پروپیگنڈہ کریں اور دنیا کو اسلام اور نبی رحمتﷺ سے متنفر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ مستشرقین کی کاوشوں کا سرسری جائزہ پیش کرنے کے لئے ذیل کا اقتباس پیش کیا جاتا ہے:

ایک اندازے کے مطابق گزشتہ ایک صدی میں یورپ میں روزانہ کے حساب سے اسلام کے بارے میں کسی نہ کسی زبان میں کوئی کتاب منظرِ عام پر آتی ہے۔ اس اندازے کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ 1800ء سے 1900ء تک نوے ہزار کتابیں اسلام کے بارے میں یورپ میں چھپ چکی ہیں۔ صرف امریکی ریاستوں میں اسلام کے بارے میں تقریبا پچاس مراکز قائم ہیں۔ جبکہ مستشرقین مختلف زبانوں میں تقریباً تین سو مجلات شائع کرتے ہیں، اس کے علاوہ انہوں نے اس حوالے سے درجنوں بین الاقوامی سیمینار منعقد کروائے۔[1]

مستشرقین نے جن موضوعات کو بطورِ خاص میدانِ تحقیق بنایا، اور ان پر مختلف جہات سے حملہ آور ہونے کی کوشش کی، ان میں خاتم النبیینﷺ کی سیرتِ طیبہ سرِ فہرست ہے، چنانچہ آپﷺ کی حیاتِ طیبہ پر مختلف قسم کے خلافِ حقیقت اور بعید از قیاس اعتراضات کئے گئے، آپﷺ کی ذاتِ گرامی اور حیاتِ طیبہ کے مختلف اقدامات اور شعبوں کو ہدفِ تنقید بنایا گیا۔ ان کی تحقیقات و اعتراضات کا دائرہ کار امام المرسلینﷺ کی شخصیت، ارشادات و تعلیمات، سرکارِ دو عالمﷺ کی نبوت و رسالت، امام الانبیاءﷺ کی خانگی زندگی، تعددِ ازواج، سید الاولین والآخرینﷺ کے عسکری و تبلیغی مہمات و پالیسیاں اور نبوی معاہدات و اقدامات تک وسیع رہا ہے۔ مستشرقین کی یہ کارستانیاں کسی ایک عشرے یا صدی پر محیط نہیں ہیں بلکہ اس کی ایک طویل تاریخ اور تسلسل ہے۔ مستشرقین کا رسول اکرمﷺ کی ذاتِ بابرکات کو ہدفِ تنقید بنانے کے بہت سے اسباب اور عوامل ہیں، اس آرٹیکل میں سیرتِ طیبہ پر مستشرقین کے اعتراضات کے بنیادی اسباب و عوامل اور تاریخ و ارتقاء کا جائزہ پیش کیا گیا ہے، تاکہ ان کے اعتراضات کی اصل حقیقت سمجھنے میں آسانی ہو۔

سابقہ تحقیقات کا جائزہ

خاتم النبیین امام المرسلینﷺ کی سیرتِ مبارکہ کے مختلف پہلوووں پر اتنا وسیع اور ہمہ جہت علمی کام ہوا ہے جس کی مثال انسانی تاریخ میں پیش نہیں کی جا سکتی۔ مسلمانوں کے علاوہ یہودیوں، عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں نے بھی آپﷺ کی حیات مبارکہ کے مختلف پہلووں پر کتابیں لکھی ہیں، تاہم بیشتر اربابِ استشراق کی تصانیف کا مقصد آپﷺ کی ذاتِ اقدس اور آپﷺ کے اقدامات کو ہدفِ تنقید بنانا اور موردِ الزام ٹھہرانا ہے، چنانچہ حضرت محمدﷺ کی پاکیزہ سیرت اور کردار کے حوالے سے ان نکات کو اچھالا گیا جو عام اذہان پر منفی اور خطرناک اثرات مرتب کر سکیں۔ اس حوالے سے سرولیم میور (Sir William Muir) کی کتاب “Muhammad and Islam”[2]، ایڈورڈ گبن(Edward Gibbon) کی کتاب”The Decline and Fall of The Roman Empire”[3]، ول ڈیورنٹ (Will Durant) کی کتاب “The Age of Faith”[4]، گستاووائل (Gustave Weil) کی”History of the Islamic Peoples”[5] ، ایرک بیتھمین (Erich Bethman) کی “Bridge To Islam”[6] آدم کی کتاب”Mohammad and Muhammadism”، اہرن کی”Mohammadals Religions stifter” ، ارونگ کی “Life of Mohomet”،اسمتھ کی”Muhammad and Muhammadenism”،بروکس کی”Islam” ،بروکلمان کی “Histoty of the Islamic people”، جیفرے کی “Islam Mohammad and his religion”، واٹ کی دو کتابیں “Muhammad at Mecca” اور “Muhammad at Medina”،مینازیس کی”The life and the religion of Mohammad and the Prophet of Arabia” اور گولڈ زیہر کی “Mohammad and Islam” اور اس طرح کی دیگر کتبِ مستشرقین میں اسلامی تعلیمات بالخصوص رسول اکرمﷺ کی پاکیزہ سیرت اور اسوہ حسنہ کو ہدفِ تنقید اور معرضِ بحث بنایا گیا ہے۔[7]

یہ بھی حقیقت ہے کہ مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ مستشرقین کی حکمتِ عملی تبدیل ہوتی گئی چنانچہ انہوں نے تعصب اور جذباتیت کے دائرے سے نکل کر علمیت، عقلیت اور استدلال کے طریقے استعمال کرنے شروع کئے۔ مستشرقین نے آپﷺ کی زندگی کے جن گوشوں پر نقد کیا ہے، اہلِ اسلام نے ان کا علمی، مدلل اور مُسکت جواب دیا ہے، جس کا آغاز انیسویں صدی کے اواخر سے ہوا ہے، چنانچہ سرسید احمد خان جیسے تجدد پسند نے بھی اپنے ہم عصر مستشرق سرولیم میور کی کتاب (The Life of Muhammad) پر اپنی کتاب خطبات احمدیہ میں تنقید اور محاکمہ کیا ہے۔[8]اس کے علاوہ جسٹس امیر علی، قاضی سلیمان منصور پوری اور پروفیسر سید نواب علی کے نام اس حوالے سے قابلِ ذکر ہیں۔

اسی طرح اکرم ضیاء العمری کی موقف الاستشراق من السنۃ والسیرۃ النبویۃ[9]، زکریا ہاشم کی "المستشرقون والاسلام"، ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی "عہدِ نبوی میں نظامِ حکمرانی"، عبدالشکور لکھنوی کی "غزوات النبی"، ثناء اللہ امرتسری کی "مقدس رسول"، مظہر الاسلام کی "دافع الاوہام فی خیر الانام، حفیظ الرحمان کی "سرور دو عالم"، محمد ادریس کاندھلوی کی "سیرتِ مصطفیٰ"، سید صباح الدین عبدالرحمان کی "اسلام اور مستشرقین"[10]، قاضی محمد سلیمان منصور پوری کی "رحمۃ للعالمین"، اشرف علی تھانوی کی "کثرت الازدواج لصاحب المعراج"، سید حبیب الحق ندوی کی "اسلام اور مستشرقین" جیسی کتابوں میں سیرتِ طیبہ کے مختلف پہلووں کی وضاحت خصوصاً مستشرقین کے شبہات و اعتراضات کا مدلل جواب دیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ پروفیسر محمد اکرم رانا نے "محمد رسول اللہ ﷺ، مستشرقین کے خیالات کا تجزیہ" کے نام سے کتاب لکھی ہے، جس میں سرورِ کونینﷺ کے سیاسی، جہادی، معاشی اور معاشرتی زندگی کے مختلف پہلووں پر کلام کیا ہے اور مستشرقین کے شبہات کے جوابات دئیے ہیں[11]۔ مستشرقین کے اعتراضات اور سیرتِ طیبہ کے دفاع کے حوالے سے سب سے نمایاں اور قابلِ اعتماد کام شبلی نعمانی کی "سیرت النبی" ہے، جس میں مولف مرحوم نے ایسے سینتیس (37) مستشرقین کے نام، وطن، تصانیف اور زمانہ تصانیف کا تذکرہ کیا ہے، جنہوں نے سید المرسلین ﷺ کی حیاتِ طیبہ اور اسلامی اصول پر لکھا ہے[12] ۔اسی طرح کرم شاہ الازہری نے اپنی مایہ ناز تصنیف "ضیاء النبی" کی ساتویں جلد میں حدیثِ نبوی اور سیرتِ طیبہ پر مستشرقین کے اعتراضات و شبہات کے مدلل جوابات دئیے ہیں، اور اس ضمن میں تعددِ ازواج، فوجی مہمات اور رسول اکرم ﷺ کے مختلف اقدامات پر مستشرقین کی طرف سے وارد ہونے والے اعتراضات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے[13]۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر محمد شمیم اختر قاسمی نے اپنی کتاب "سیرتِ نبویﷺ پر اعتراضات کا جائزہ" میں نبی رحمت ﷺ کی ذات اقدس اور آپﷺ کی تعلیمات و اقدامات پر وارد ہونے والے اعتراضات کا تفصیلی محاکمہ پیش کیا ہے[14]۔تاہم سیرتِ طیبہ پر مستشرقین کے اعتراضات کے اسباب و عوامل پر کوئی مستقل کتاب یا آرٹیکل مقالہ نگار کی معلومات کے مطابق دستیاب نہیں ہے۔ اس لئے اس مقالے میں مستشرقین کے اعتراضات و شبہات کے اسباب و عوامل کا تاریخی و ارتقائی جائزہ پیش کیا گیا ہے، تاکہ مستشرقین کی کتابوں اور تحریرات کے پسِ پردہ حقائق اور اسباب و عوامل کی حقیقت واضح کی جا سکے۔

سیرتِ طیبہ پر مستشرقین کے شبہات کے بنیادی اسباب

اسلام اور پیغمبرِ اسلامﷺ کے خلاف عداوت ،اظہارِ نفرت، اعتراضات و اتہامات اور پیکرِ عفت وعصمتﷺ کی ذاتِ اقدس پر تعددِ ازواج اور جنسی طومار کھڑا کرنے کی بہت سی وجوہات اور اسباب ہیں جن کے پیشِ نظر مستشرقین آپﷺ کی ذات مبارکہ کو معرضِ اعتراضات ٹھہراتے ہیں، ان میں سے چند بنیادی اور اہم وجوہات حسبِ ذیل ہیں:

پہلا سبب:مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان مسلح وفکری تصادم

امام الانبیاء والمرسلین حضرت محمد مصطفیﷺ کی ذات گرامی سے متعلق دنیائے عیسائیت اور ملتِ اسلامیہ کے نکتہ ہائے نظرمیں ایک ناقابلِ عبور خلیج کا فرق ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کے لیے رسالت مآبﷺ درجہ کمال کے پیغمبر، خالص توحید کے شارح اور ایمان داری، پاکیزگی ، راست بازی، دیانت داری اور اخلاق عالیہ جیسی صفات کا کامل واکمل اور ارفع نمونہ ہیں۔ جبکہ دنیائے عیسائیت کے لیےنبی رحمتﷺ کی ذات گرامی مختلف پہلووں سے شدید زہریلے اور انتہائی معاندانہ حملوں کا ہدف بنی ہوئی ہے۔

رسولِ رحمتﷺ کی شخصیت وکردار کے جائزے میں اس اختلافی صورت حال کو سمجھنے کے لیے تاریخ کے پسِ منظر اور تناظر سے واقفیت ازحد ضروری ہے۔ جس سے یہ امر بخوبی آشکار اور واضح ہوجائے گا کہ سرکارِ دو عالم حضرت محمدﷺ کی شخصیت کے بارے میں دنیائے عیسائیت اپنے متعصبانہ طرزِ عمل میں کہاں تک حق بجانب ہے اور کیا ان کا سارا زاویہ فکر مخالفانہ طرزِ تخاطب اور نفرت و حقارت کی نشان دہی نہیں کرتا؟

پہلا قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ یہ عیسائی ہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ محاذ آرائی اور جنگ کا آغاز کیا اور وہی ہیں جو اب تک صلیبی ذہنیت کے ساتھ اس جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں، اپنی تمام تر تلخی اور شدت، اپنے تمام ترمکروہ اور ناپاک عزائم کے ساتھ جو تمام تر تاریخی صداقت اور حقیقت سے قطعاً مختلف ہے۔

اسلام دینِ انسانیت اور ایک عالمگیر، ابدی اور کامل ومکمل ضابطہ حیات ہے۔ سیّد الانبیاء، امام الانبیاء والمرسلین اور خاتم النبیینﷺ بناکر مبعوث کیے گئے۔ اسلام کی آفاقیت اور عالمگیریت کے اظہار کے لیے خاتم الانبیاء، ہادیِ عالم، سید الانبیاءﷺ نے صلح حدیبیہ[15] سے واپسی پر ذی الحجہ6ھ میں فرماں روایانِ عالم اور سلاطین کے نام دعوتِ اسلام کے پیغامات ارسال فرمائے۔ صلح حدیبیہ کی بدولت عارضی جنگ بندی اور پرامن بقائے باہمی کے ایام میں دعوتِ اسلام اور تبلیغِ احکام کے دروازے دنیائے انسانیت کے لیے کُھل گئے اور مختلف ممالک کے حکمرانوں کو دعوت اسلام کے خطوط ارسال کیے گئے۔[16] مورخ واقدی کے مطابق یہ خطوط چھ ہجری (6ھ) کے اخیر میں صلح حدیبیہ کے بعد ذی الحجہ کے مہینےمیں روانہ کیے گئے۔ جبکہ بعض سیرت نگاروں کی رائے یہ ہے کہ یہ خطوط سات ہجری (7ھ) میں روانہ کیے گئے۔ ممکن ہے کہ سرکارِ دو عالمﷺنےشاہانِ عالم کےنام خطوط بھیجنے کا ارادہ 6ھ کے اخیر میں فرمایا ہو اور 7ھ میں یہ خطوط روانہ فرمائے ہوں۔[17]

اسلام اور عیسائیت کی کشمکش کا نکتہ آغاز: غزوہ موتہ

ہادی عالمﷺ نے جب سلاطینِ عالم اور امراء کے نام دعوت اسلام کے خطوط روانہ فرمائے تو عیسائی حاکم شرحبیل بن عمروغسانی کے نام بھی ایک خط روانہ فرمایا،جو کہ قیصرِ روم کی طرف سے شام کے علاقے بلقاء کا امیر تھا۔ حضرت حارث بن عمیر جب رسالت مآبﷺ کا خط مبارک لے کر مقامِ موتہ[18]پہنچے تو شرحبیل نے ان کومضبوطی سے بندھواکر قتل کرا دیا۔ سفیروں اور قاصدوں کے ساتھ بدسلوکی یا ان کا قتل ہر دور میں انتہائی بدترین جرم سمجھا گیا ہے۔ جو اعلانِ جنگ بلکہ اس سے بھی بڑا جرم سمجھاجاتا ہے۔ لہٰذا جب پیغمبرِ خداﷺ کو اس واقعے کی اطلاع ملی توآپﷺ پر یہ بات سخت گراں گزری، اور رسولِ رحمتﷺ نے اس علاقے پر فوج کشی کے لیے تین ہزار کا لشکر تیارکیا، یہ سب سے بڑا اسلامی لشکر تھا، اس سے پہلے جنگِ احزاب کے علاوہ کسی اور غزوے یا سریے میں اتنی بڑی عسکری تعداد کی شرکت کا پتہ نہیں چلتا۔[19]

اسلام اور دنیائے عیسائیت کے درمیان کشمکش کا نکتہ آغاز غزوہ موتہہے۔ اس تاریخی غزوے کو صلیبی جنگوں کے اسباب میں سے اولین سبب قرار دیا جاسکتا ہے۔سید الاولین والآخرینﷺ نے اس تاریخ ساز معرکے میں اسلامی تاریخ کے نام ور سپاہ سالاروں کو کمان دارمقرر فرمایا۔ چنانچہ نامور صحابی حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امیر لشکر مقرر کرتے ہوئے رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:اگر زیدبن حارثہ قتل ہوجائیں، تو ان کے بعد حضرت جعفر بن ابی طالب امیر لشکر ہوں، اگر وہ بھی شہید ہوجائیں توعبداللہ بن ابی رواحہ سردار لشکر ہوں اور اگر عبداللہ بھی جامِ شہادت نوش کریں تو مسلمان جسے چاہیں اپنا امیر بنالیں۔ اسی بناء پراس غزوے کو غزوہ جیش الامراء بھی کہا جاتا ہے۔[20]

غزوہ موتہ کے شرکاء کو آپﷺ نےیہ وصیت بھی فرمائی کہ جس مقام پر حضرت حارث بن عمیر شہید کیے گئے تھے، وہاں پہنچ کر اس مقام کے باشندوں کو دینِ حق کی طرف بلائیں، اگر وہ لوگ اسلام قبول کرلیں تو بہتر، ورنہ اللہ سے مدد مانگیں، اور خالقِ کائنات اور اس کے حبیبﷺ کےدشمنوںکا مقابلہ کریں۔ نیزنبی رحمتﷺ نےفرمایا: اللہ کا نام لے کر، اللہ کے راستے میں، اللہ کے دشمنوں سے جنگ کرو اور دیکھومعاہدے کی خلاف ورزی نہ کرنا، خیانت سے اجتناب کرنا، کسی بچے اور عورت اور انتہائی عمر رسیدہ بوڑھوں کو اور گرجا گھروں میں مقیم تارک الدنیا افراد کو قتل نہ کرنا، کھجور اور درخت نہ کاٹنا اور کسی کی عمارت کو منہدم نہ کرنا۔[21]

موتہ کے تاریخی مقام پر اسلام اور عیسائیت کے درمیان تاریخ ساز معرکہ غزوہ موتہ وقوع پذیر ہوا، تین ہزار مجاہدین کی مختصر جماعت دولاکھ ٹڈی دل کے طوفانی حملوں کا مقابلہ کر رہی تھی۔ اس تاریخی معرکے میں رسالت مآبﷺ کے مقرر کردہ تینوں امرائے جیش جرات وشجاعت کی ایک بے مثال تاریخ رقم کرکے یکے بعد دیگرے شہید ہوگئے۔ بعد ازاں سیف اللہ والرسول حضرت خالد بن ولید﷛کو مسلمانوں نے اپنا امیر مقرر کیا جو خود اس معرکے میں جرات و استقامت کی لازوال داستان رقم کررہے تھے، لڑتے لڑتے اور کفار کو جہنم رسید کرتے کرتے ان کی نو تلواریں ٹوٹ گئیں، صرف ایک یمنی تلوار ان کے ہاتھ میں باقی رہ گئی تھی۔[22] آپ نہایت حُسنِ تدبیر، معاملہ فہمی اور جنگی حکمتِ عملی کی بدولت صحابہ کرام کی بقیہ جماعت کو دشمن کے نرغے سے بچاکر اور جرات وشجاعت کی تاریخ رقم کرکے مدینہ طیبہ میں حاضرِ خدمتِ نبویﷺ ہوئے۔ یہ اسلام اور عیسائیت کے درمیان پہلی کشمکش یابہ الفاظ دیگر عیسائیوں کی طرف سے اسلام کے خلاف صلیبی جنگوں کا نکتہ آغاز تھا۔[23]

عیسائیوں کے ساتھ دوسرا تصادم: جیشِ اسامہ

عیسائیوں کے ساتھ مسلمانوں کا دوسرا مسلح تصادم جیشِ اشامہ کی صورت میں ہوا۔ رحمت للعالمینﷺ نے وصال سے قبل(26) صفر بروز دوشنبہ (11)ھ کو رومیوں کے مقابلے اور جنگ موتہ کے انتقام کے لیے لشکر کی روانگی کا حکم دیا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں غزوہ موتہ واقع ہوا جس میں حضرت اسامہ کے والد حضرت زیدبن حارثہ، جعفر طیار اور عبداللہ بن رواحہ ﷡سالارانِ لشکر شہید ہوئے۔

یہ رسالت مآبﷺ کی آخری عسکری مہم تھی اور رحمتِ عالمﷺ کی فرستادہ افواج کی آخری فوج تھی۔ اسامہ بن زید بن حارثہ﷛ کو آپﷺ نےاس لشکرکاامیر اور سردار مقرر کیا۔ اس لشکر میں مہاجرین اولین اور جلیل القدر صحابہ کرام﷡ شامل تھے۔پنج شنبہ کو باوجود شدید علالت اور مرضِ وصال کے رسالت مآبﷺ نے خود اپنے دستِ مبارک سے نشان بناکر حضرت اسامہ کو دیا اور ارشاد فرمایا:

أغز بسم الله في سبيل الله، فقاتل من كفر بالله “[24]

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نام پر، اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرو اور اللہ سے کفرکرنے والوں سے مقاتلہ کرو۔

رسالت مآب، سید الاولین والآخرینﷺ کے وصال کے بعد عیسائیوں نے دگرگوں حالات سے فائدہ اٹھانا چاہا اور نو خیز اسلامی ریاست کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ہرممکن سازشیں شروع کیں۔ خلیفہ اوّل، سیّدنا صدیقِ اکبر﷛ نے نہایت جرات واستقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے رسول اللہﷺکی وصیت کی تکمیل اور پیروی میں جیشِ اسامہ کو روانہ کیا، جنہوں نے اس دورکی عیسائی دنیا کو بدترین شکست سے دوچار کرکے اسلام کے غلبے اور دینِ مبین کی اشاعت میں مثالی کردار اداکیا۔ سیّدنا صدیقِ اکبر﷛ کے بعد دیگر خلفائے راشدین اور اموی حکمرانوں نے اس مشن کو جاری رکھا۔ دورِ رسالت میں یہودیوں اور عیسائیوں کی اسلام اور رسول اکرمﷺ کے خلاف محاذ آرائیاں مستشرقین کی معاندانہ سرگرمیوں کی بین ثبوت ہے، جب میدانِ جنگ میں انہیں مسلمانوں کے ہاتھوں ذلت آمیز شکستوں کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے اپنا انداز تبدیل کرکے قلمی جنگ کا آغاز کیا۔ "اس قلمی جنگ کو مشرق اور مغربی اہلِ کتاب نے آٹھویں صدی عیسوئی میں شروع کیا۔ اہلِ کتاب کا مشرقی نمائندہ یوحنا (676۔ 749ء) مسلمان خلیفہ ہشام کے دور میں سرکاری خزانے میں ملازم تھا، چنانچہ وہ ملازمت چھوڑ کر فلسطین کے گرجے میں گیا اور وہاں مسلمانوں کے خلاف کتابیں لکھنے لگا۔"[25]

اس تفصیل سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ عیسائیت اور اسلام کے درمیان مسلح کشمکش کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے، اور یہی بنیادی سبب ہے جس کے باعث مستشرقین نے اسلام اور پیغمبرِ اسلامﷺ کا موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے آپﷺ کی ذاتِ اقدس اور سیرتِ طیبہ پر طرح طرح کے اعتراضات کئے ہیں۔

دوسرا سبب: اسلامی ریاست کی فتوحات اور ہمہ گیر اثرات

تاریخی شواہد اور واقعات کو مدِ نظر رکھا جائےتو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اکرمﷺ کی ذات بابرکت، تعلیمات اور خاتم النبیینﷺ کی سیرتِ طیبہ پر مستشرقین کے شبہات و اعتراضات کا ایک سبب اسلامی ریاست کا دن بدن وسعت اختیار کرنا اور مختلف عیسائی ریاستوں اور علاقوں کا اسلامی ریاست کے زیرِ نگیں ہونا ہے۔ جس کی دلیل یہ ہے کہ لوگ اپنے ملک و ملت کی خاطر جان و مال کی قربانیاں دیتے ہیں، اور اپنے مدِ مقابل کا ہر ممکن طریقے سے مقابلہ کرنا باعثِ افتخار اور ضروری سمجھتے ہیں۔ کیونکہ دینِ متین اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ آخری کامل و مکمل مذہب اور دین ہے، جس نے پوری دنیا میں پھیلنا ہے اور اس کے ابدی قوانین کی عملی تنفیذ کے واسطے دنیا کے مختلف خطوں نے اس کے زیرِ تسلط آنا ہے تاکہ خالقِ کائنات کی طرف سے عطا کردہ قوانین، احکامات و ہدایات کی عملی تنفیذ سے دنیا ان کے فوائد و ثمرات اور افادیت و برکات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرے اور کسی کو اس کے قانونِ الٰہی اور دنیوی و اخروی نجات کا باعث ہونے میں ذرہ برابر کا کوئی شبہ نہ رہے۔ اس وجہ سے اسلام نے اپنی تاثیر و جامعیت اورعین فطری ہونے کی بناء پر بہت جلد دنیا کے مختلف اقوام کو متاثر کر کے رکھ دیا جس کے نتیجے میں یہ بڑی تیزی سے دنیا کے مختلف اطراف و اکناف میں پھیل گیا، اور اسلامی قانون دنیا کے مختلف حصوں میں رائج ہو کر وہ علاقے اسلامی سلطنت کے زیرِ تسلط آ گئے۔ جس کے نتیجے میں مختلف غیر مسلموں بالخصوص بعض عیسائیوں کےدلوں میں نفرت کی آگ بھڑک اٹھی اور انہوں نے رحمتِ عالم ﷺ کی ذاتِ مبارکہ کو موردِ الزام اور ہدفِ تنقید بنایا شروع کر دیا۔

بیزنطینی سلطنت کے شام، فلسطین اور مصر جیسے علاقوں پر مسلمانوں کا قبضہ جو کہ مشرقی چرچ کے مضبوط گڑھ تھے، عربوں کی جانب سے شمالی افریقہ، اسپین اور صقلیہ کی فتح اور روم تک فاتحانہ پیش قدمی، ترکوں کا عروج، مشرقی اور وسطی یورپ میں ان کی شان دار فتوحات کا سلسلہ،یعنی عیسائی دنیا کے قلب پر ان کی دستک، مغربی دنیا کی جانب سے صلیبی جنگوں کا آغاز اور ان میں ان کی بھیانک شکست، مغربی سامراج کی ایک نئی لہر، اس کی پیش قدمی، پسپائی اور زوال پذیری، عیسائی مبلغین کی جانب سے مسلمانانِ مشرق کو عیسائی بنانے کی کوششوں میں عبرت انگیز ناکامی، ان تمام باتوں نے مل جل کر عنادکو جنم دیا، نفرت اور تعصب کو پروان چڑھایا اور اسلام اور سید الاولین والآخرینﷺ کے خلاف اہلِ مغرب (دنیائے عیسائیت) کے دلوں میں نفرت، عداوت اور تلخی کے بیج بودیے گئے[26]۔جبکہ اسلام اور پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے خلاف جو نفرت پھیلائی گئی، آپﷺ کی سیرت وکردار کو جس طرح موضوع بحث بنایا گیا اس بحث کا بنیادی محور رسول اللہﷺ کی ذاتی اور نجی زندگی بالخصوص تعدّد ازواج اور آپﷺ کی ازدواجی زندگی قرار پائی۔ نبی رحمتﷺ کے خلاف منافرت اور اظہارِ عداوت کا نکتہ عروج کارزارِ صلیب تھا۔

استشراقی فکر کے ارتقاء میں صلیبی جنگوں کا کردار

اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے لیے صلیبی جنگیں تقریباً پانچ سوسال تک جاری رہیں اور پانچ صدیوں میں وقفے وقفے سے یورپ کی مشترکہ عسکری قوت مسلم شرق اوسط پر زندگی کے لیے موت اور آبادی کے لیے ویرانی کے دیو کی طرح منڈلاتی رہی۔1099ء میں پہلی خون آشام جنگ ہوئی۔ دوسری صلیبی جنگ1147ء میں لڑی گئی اور تیسری معروف صلیبی جنگ معروف فاتح صلاح الدین ایوبی اور شہنشاہ انگلستان رچرڈ کے درمیان1189ء سے1193ء تک جاری رہی۔ چوتھی صلیبی جنگ 1203ء اور1204ء کے درمیان لڑی گئی، اور 1217ء میں پانچویں صلیبی جنگ پیش آئی۔ چھٹی صلیبی جنگ کا واقعہ 1228ء میں پیش آیا۔[27]

جب یہ تمام کوششیں اور کاوشیں ناکام ہوگئیں تو مسلمانوں کی تاراجی کے لیے اہلِ صلیب نے منگول قوت کے ساتھ عسکری اتحاد قائم کیا۔ جس کے نتیجے میں زوالِ بغداد کا واقعہ 1258ء میں پیش آیا، آٹھویں صلیبی جنگ 1271ء میں پیش آئی،نویں صلیبی جنگ 1365ء اور آخری دسویں صلیبی جنگ 1464 ء میں پیش آئی۔

ان صلیبی جنگوں اور خون آشامیوں کا تعلق مستشرقین سے بڑا گہرا ہے۔ کیونکہ پانچ صدیوں میں یورپ کے مفکرین، مولفین اور شعراء اسلام اور نبی رحمتﷺ کےخلاف مسیحی جذبات کو گد گداتے، اسلام اور مسلمانوں کی تاراجی پر ابھارتے، اور ان کے اندر شہادت کا جذبہ پیدا کرکے آمادہ پیکار ہونے کی روح پھونکتے رہے۔صلیبی جنگوں کی پانچ سوسالہ تاریخ(1099ء ۔1464ء) کے دوران یعنی گیارہویں صدی عیسوی سے پندرہویں صدی عیسوی تک مستشرقین نے دینِ اسلام اور سید الاولین والآخرینﷺ کے خلاف معاندانہ لٹریچر تیار کیا۔ تمام صلیبی جنگوں میں یورپ کی مشترکہ عسکری قوت کا دیوالیہ نکل گیا۔ اسی شکستِ فاش کی بناء پر عیسائی دنیا میں دینِ متین اور نبی آخر الزماںﷺ کے خلاف نفرت کی لہردوڑ گئی۔ یہ درحقیقت رحمتِ عالمﷺ کے خلاف نفرت اور تعصب کا امنڈتا ہوا ایک طوفان تھا، ہر قسم کے غلیظ القابات اور جنسی اتہامات ذاتِ نبویﷺ سے منسوب کیے گئے۔[28]

تیسرا سبب: اسلام کی عالمگیریت وکاملیت

دینِ اسلام اور سرکارِ دو عالمﷺ کی ذاتِ گرامی کے بارے میں عیسائیوں کے نکتہ ہائے نظر میں فرق کا ایک واضح سبب یہ بھی ہے کہ حضرت محمدﷺ کے بارے میں مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ آپﷺ امام الانبیاء، سیّد الانبیاء والمرسلین اور خاتم النبیین کی حیثیت سے مبعوث کیے گئے۔ آپﷺ کی تشریف آوری کے بعد تمام ادیان اور شرائع و مذاہب منسوخ قرار پائیں۔ اسلام دینِ کامل اور ابدی ضابطہ حیات اور امام الانبیاءﷺ آخری نبی و رسول ہیں۔ یہ مخاصمت اور تنازع کا مذہبی پہلو ہے۔ عیسائیوں کا دعویٰ ہے کہ عیسائیت مذہب کی آخری اور مکمل شکل ہے۔ چنانچہ عیسائی مصنف جارج فشر (George Fisher)کہتا ہے:ہم کہتے ہیں کہ عیسائیت، مذہب کی تمام وکمال صورت ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ ایک قطعی مذہب ہے۔ یہ ارتقاء کے طویل عمل کا حتمی نتیجہ ہے، بلکہ یہ اس پیغامِ ربّانی کی تکمیل کے مرحلے یا اسے مکمل کرنے کا نقطۂ عروج ہے جو اس سے قبل نازل ہوا۔"[29]ڈبلیو منٹگمری واٹ (Watt, W. Montgomery) پرزور طریقے سے اعلان کرتا ہے:عیسائیوں کا دعویٰ ہے کہ سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صورت میں اس سب کو صحیح کردیا گیا جو دنیا میں غلط اور نادرست تھا۔"[30]

اس حوالے سے دلیل کی دنیا میں جب عیسائیت کو اسلام کے مقابلے کی ہمت نہ رہی تو بعض مستشرقین نے رسالت مآب ﷺ کی ذاتِ اقدس پر اعتراضات و شبہات کا سلسلہ شروع کر لیا تاکہ اصل مسئلے کو پسِ پشت ڈال کر کسی طرح دینِ برحق اور امام المرسلینﷺ کی (العیاذ باللہ) بدنامی کرکے لوگوں کو اس سے دور رکھا جائے، اور اسلام کی اشاعت اور ترقی کو روکا جا سکے، جبکہ اسلام اپنی فطرت کی وجہ سے روز بروز بڑھتا چلا جاتا ہے اور جتنی زیادہ اس کی مخالفت کی جا رہی ہو اتنے ہی زیادہ لوگ اس کے آغوش میں پناہ گزیں ہوکر ترقی کی راہ پر گامزن ہونے لگتے ہیں اور اسلام پہلے سے زیادہ مضبوط اور توانا ہو کر دنیا کے سامنے آتا ہے۔

سیرت طیبہ کو ہدفِ تنقید بنانے والے چند معروف مستشرقین

پیکرِ عفّت وعصمت، محسنِ انسانیت، ہادیِ برحق، ختمی مرتبت، سید الاولین والآخرین ﷺ کی سیرت وسنت اور حیاتِ طیبہ پر مغرب کی متعصب عیسائی دنیا میں اعتراضات واتہامات (بالخصوص رسول اللہﷺ کی ایک سے زائد شادیوںیعنی تعدّد ازواج، (Poly Gamy) کو ہدفِ تنقید بنانے میں بہت سے مستشرقین نے حصہ لیا۔ رسول اکرمﷺ کی سیرتِ طیبہ بالخصوص تعدّدِ ازواج کے حوالے سے پیکرِعفو و رحمتﷺ کے دامنِ عفّت و عصمت پر الزامات عائد کرنے والے مستشرقین میں سرولیم میور[31] (Muir, Sir William) ۔ ایڈورڈ گبن[32] (Gibbon, Edward)آر اے نکلسن[33] (Nicholson, Renald Alleyne)۔فلپ شاف (Philip Schaff)[34] ۔ ایرک بیتھ مین (Erich Bethman)[35] ۔گستاو وائل (Gustave Weil)[36] ۔ ول ڈیورنٹ[37] (Will Durant) ۔ جیمزکر ٹزک (James Kritizeck)[38]کے علاوہ ہلدی برٹ(Hilde Bert) ، آندرے ڈینڈلو، فرانسس بیکن (Francis Bacon) راہب یولوجیس (Euliogius)جان لڈگیٹ (J.Lidgate) اور عصر حاضر کے سلمان رشدی کے نام سیرت طیبہ سے نفرت، عداوت اور بہتان تراشی کرنے والوں میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں،یہ نبی اکرمﷺ کی ذات بابرکات کو تعدد ازواج (متعدد شادیوں) کے حوالہ سے ہدف تنقید بناتے ہیں۔جبکہ برِّصغیر پاک وہند میں تاجِ برطانیہ کے زیرِ اقتدار عیسائی پادریوں کے پیدا کردہ شکوک وشبہات کے نتیجے میں پروان چڑھنے والی تحریکِ شماتت میں منفی کردار ادا کرنے والوں میں سے چند یہ ہیں:

سوامی دیانند سرسوتی، لالہ منشی رام عرف سوامی شردھانند، مہاشہ راجپال، چرن داس، نتھو رام، لالہ پالامل، لالہ ہنس راج، پنڈت گورودت، لالہ لاجپت رائے، ڈاکٹر رام گوپال، چلچل سنگھ، لیکھرام، ماسٹر آتما رام، پنڈت کرپا لال، لالہ وزیر چند، سوامی درشنانند سرشتی بدایونی، رام چندر، پرمانند، گوالکر، جن سنگھ، کشورآپئے، لالہ ہردیال، پنڈت سیتا رام، ڈاکٹرمونجے، پنڈت کالی چرن، پنڈت رام چندر، دھرم بھکشو لکھوی،بھولاناتھ سین، پانڈونگ ویناناتھ، پنڈت شیام لال، مدن موہن مالویہ، سیتہ دیو، آربندوگھوش، کھیم چند وغیرہ کے نام بطورِ خاص شامل ہیں۔ ان بدباطن شاتمین نے سرکارِ دو عالم رسول اکرمﷺ کی ازدواجی زندگی کو موضوعِ بحث بنا کر شانِ رسالتﷺ میں اہانت و گستاخی کاارتکاب کیا۔[39]

برصغیر کی تاریخ میں راج پال نے اپنی کتاب میں سرکارِ دو عالمﷺ کی نجی زندگی کو موضوعِ بحث بنا کر ہدفِ تنقید بنایا۔ اسی طرح سلمان رشدی نے انگریزی زبان میں ایک ناول لکھا جس کا نام ہے (Satanic Verses)، جسے 1988ء میں بین الاقوامی ادارے پینگوئن بکس نے شائع کیا، جس میں آپﷺ کی ازدواجی زندگی پر اعتراضات کئے گئے ہیں۔ مذکورہ بالا تمام افراد کے اعتراضات و شبہات کا تفصیلی احاطہ ایک آرٹیکل میں ممکن نہیں ہے، تاہم ان میں چند مشہور مستشرقین کے بعض شبہات کو بطورِ حوالہ یہاں پیش کیا جاتا ہے۔

جان آف دمشق

مغربی دنیا میں رسول اکرمﷺ کی ذات مبارکہ اورپاکیزہ سیرت کو موردِ الزام ٹھہرانے اور آپﷺ کے خلاف اظہارِ عداوت کی تحریک کا آغاز نام ور عیسائی مستشرق جان آف دمشق (700یا749ء) سے ہوا۔ یہی وہ پہلا شخص ہے جس نے ایک منظم منصوبے کے تحت اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کے خلاف منفی تحریروں، دشمنی کی تحریک کا آغاز اور مناظروں کا دور شروع کیا۔ بعد ازاں یہی بیزنطینی روایات کا مصدرِ اوّل تسلیم کرلیا گیا۔اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کے خلاف نفرت، دشمنی اور سب وشتم کا سلسلہ سب سے پہلے اسی نے شروع کیا،یہی وہ پہلا عیسائی مشنری تھا جس نے آپﷺ کی ذاتِ اقدس پر جنسی و شہوانی الزامات کی بھر مار کرکے جنسی اتہامات کا طومار کھڑا کیا۔ اس کا تیار کردہ لٹریچر ازمنہ وسطیٰ سے عہدِ حاضر تک مغرب کی عیسائی دنیا (مستشرقین) کے لیے بنیادی ماخذ کاکام دیتا رہا۔ جان کے بعد آنے والے قرون وسطیٰ کے بیشتر عیسائی مصنفین نے اس کی پیروی کرتے ہوئے تصویر رسول کو خوب بگاڑا، گھسے پٹے الزامات واتہامات عائد کیے اور چبائے ہوئے نوالوں کو پھر سے چبایا،بظاہر اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے مآخذ کم وبیش یکساں تھے۔ اس لیے جب بھی انہوں نے سیرت پر قلم اٹھایا تو نظم ہو یا نثر، دونوں میں سیرت ختم الرّسلﷺ کو افراط وتفریط کے سانچوں میں ڈھال کر محض خیال وقیاس کے سہارے پیش کیا۔ اس تفصیل کا مدعا یہ ہے کہ ظہورِ اسلام کے بعدکئی صدیوں تک بھی مسیحی نفرت وعداوت کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی، اور اہلِ مغرب پیغمبرِ اسلامﷺ کوبدستور (نعوذباللہ نقل کفر،کفرنہ باشد) جھوٹاقرار دیتے رہے کہ اتنے میں صلیبی جنگوں کے طویل سلسلے نے جلتی پر تیل کاکام کیا، صلیبی جنگوں میں صلیب سرنگوں ہوگئی اور تمام تیاریوں کے باوجود دنیائے اسلام کو زک پہنچانے کا منصوبہ ناکام ہوا اور انہوں نے دیکھ لیا کہ میدان جنگ میں رسد، کمک اور سامانِ جنگ کی فراوانی کے باوجود وہ مسلمانوں کا زیادہ کچھ نہیں بگاڑ سکتے تو پھر انہوں نے کمالِ عیاری سے اسباب، وسائل اور حکمتِ عملی کو یکسر بدل ڈالا اور گویا فیصلہ کرلیا کہ جنگ جیتنے کے لئے نیا ترکش، نئے تیر استعمال کیے جائیں اور گرم جنگ نہ سہی سرد جنگ میں مسلمانوں کو زیر کیاجائے۔

جان آف دمشق نے ایک باقاعدہ اسکیم کے تحت دینِ برحق کے خلاف تحریک چلائی۔ اسلام کو بت پرست مذہب سے تعبیر کیا اور کعبة اللہ کو (نعوذ باللہ )بت کے نام سے موسوم کیا۔ چونکہ اسلام پر اعتراض کرنے کے لیےسرکارِ دو عالمﷺ کی سیرت، شخصیت اور دعوت کو موردِ الزام ٹھہرانا ضروری تھا، لہٰذا اس نےرسولِ رحمتﷺ کی مبارک زندگی اور سیرت و کردار پر حملہ شروع کیا۔ آپﷺ کی نبوت کا انکار کرکے خاتم المعصومینﷺکودیومالائی قصّوں کا ہیرو قرار دیا۔ داستان سازی کے اس صنعت خانے میں رسالت مآبﷺ کے بارے میں طرح طرح کے افسانے اور مضحکہ خیز خرافات گھڑے گئے، یہی من گھڑت کہانیاں لاطینی تاریخ اور بعد ازاں عیسائی چرچ کی تاریخ وروایات کا حصہ بن گئیں۔جان نے رسالت مآبﷺ کی مقدس باعفت وعصمت شخصیت پر جنسی اتہامات کا جو طومار کھڑاکیاوہ بعد میں مغربی اسکالرز کی تحقیق وریسرچ کا موضوع بن گیا۔ اسی نے حضرت زینب بنتِ جحش﷝ اور حضرت زید بن حارثہ﷛ کے واقعے کو ایک افسانہ بنادیا،یہی افسانے یورپ میں کلاسیکی موضوعات بن گئے۔ ساتھ ہی جان آف دمشق نے تعدّد ازواج (Poly Gamy)، طلاق اور اس قسم کے دیگر مسائل کو بھی اچھالا۔[40]

آٹھویں صدی عیسوی میں جان آف دمشق کے پیروکاروں نے ان ہی بنیادوں پر دینِ برحق اور نبی رحمتﷺ کے خلاف منفی لٹریچر کا انبار کھڑا کردیا۔ یہی منفی اور تخریب کارانہ لٹریچر مغربی اسکالرشپ کے لیے حوالہ جات کاکام دینے لگا۔ بلکہ مڈل ایجز (ازمنہ وسطیٰ) سے لے کر مغربی نشاة ثانیہ اور نشاة ثانیہ سے لے کر انتہائے بیسویں صدی تک مغرب کی عیسائی اور دیگر غیر مسلم دنیا کے لیے مصدر کاکام دیتا رہا۔

عبدالمسیح بن اسحاق الکندی

اسلامی تعلیمات اور پیغمبر اسلامﷺ کے خلاف اظہارِ نفرت اور عداوت کے جذبے سے جو لوگ سرشار تھے اور انہوں نے اس قبیح عمل میں حصہ لیا ان میں ایک بدنام زمانہ نام عبدالمسیح بن اسحاق الکندی کا ہے۔ سید الاولین والآخرینﷺ کی سیرت و کردار اور اسلام کے خلاف جو ادبی لٹریچر تیار کیا گیا، ادب کے اسی انبار میں ایک رسالہ قابل ذکر ہے، یہ رسالہ عبدالمسیح بن اسحاق الکندی کی طرف منسوب ہے، چوں کہ اس کا اثر مستشرقین پر آج تک موجود ہے، لہٰذا مغربی اسکالرز نے نہایت دل چسپی کے ساتھ اس کی اشاعت کا اہتمام کیا،یہ انیسویں صدی عیسوی میں پروٹسٹنٹ مشنری اسکول کے استعمال کے لیے1880ء میں لندن سے شائع کیا گیا۔ یہ رسالہ مڈل ایجز میں راہ نما اصول کا کام دیتا رہا۔ دنیا کے مختلف زبانوں میں اس رسالے کے تراجم ہوئے۔اس رسالے کے مرکزی مضامین میں سیرتِ محمدﷺ کو جنس (تعدّدِ ازواج) اور جنگ سے ملوّث کرنا اور دیگرمختلف قسم کے اتہامات شامل تھے۔[41]

منٹگمری واٹ

عیسائی دنیا کے جن لوگوں نے سرورِ کونینﷺ کی ذاتِ اطہر کو ہدفِ طعن بنایا ان میں منٹگمری بھی شامل ہے۔ رحمۃ للعالمینﷺ کی ذات بابرکات پر جنسی اتہامات اور اس حوالے سے اٹھائے گئے اعتراضات وشبہات کا سلسلہ مستشرقین کے لٹریچر کا باقاعدہ حصہ قرار پایا اور اس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ مغرب کی عیسائی دنیا کانام ور مستشرق منٹگمری واٹ (Watt, W. Montgomery) تاریخی حقیقت کو جھٹلاتے ہوئے لکھتا ہے:

We conclude, then, that virilocal poly gamy, or the multiple virilocal family, which for long was the distinctive feature of Islamic society in the eyes of Christendom, was an innovation of Muhammad's. There may have been some instances of it before his time, but it was not widespread, and it was particularly foreign to the outlook of the Medinans.[42]

ایک خاوند اور متعدد بیویوں پر مشتمل گھرانہ جو مدتوں عیسائیوں کی نظروں میں اسلامی معاشرے کی خصوصی شناخت رہا، وہ محمدﷺ کے ذہن کی اختراع تھی۔ ممکن ہے ان سے پہلے اس کی چند مثالیں موجود ہوں لیکن یہ رسم عام نہ تھی اور خصوصاً اہلِ مدینہ کے لیےیہ بات بالکل نئی تھی۔

جیفری پیرنڈر

جیفری کا شمار ان عیسائی مصنفین میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے امام الانبیاءﷺ کی سیرت کے خلاف تحریری مواد تیار کیا، اور مستشرقین و اہلِ یورپ کو متعصبانہ اور غیر منصفانہ لٹریچر فراہم کیا جس کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔ جیفری نے سرکارِ دو جہاںﷺ کے تعددِ ازواج کو بطورِ خاص نشانہ بنایا۔ عیسائی مصنف (Geoffrey Parrinder) "Sex in the world's Religions"میں ایک سے زائد شادیوں (Poly Gamy) کو آپﷺکی پیغمبرانہ شان کے منافی اور خود پیغمبری کے منصب کے لیے قابلِ مذمت گردانتا ہے[43]۔ اس طرح علم وتحقیق کے بھیس میں معنوی اسلحے سے اسلام اور رسولِ رحمتﷺ کے بارے میں مہمل خیالات، بے سروپا قصے کہانیاں، بے ہودہ الزامات واتہامات، اور تشکیک وتذبذب کے بیج بوکر خرافات کا ایسا جنگل اگادیا جسے کاٹنا آسان نہ تھا۔[44]

ول ڈیورنٹ

مغربی دنیا کے جن لوگوں نے خاتم الانبیاءﷺ کی پاکیزہ سیرت کو منفی انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے اپنے قلم کا استعمال کیا، اور دنیا کے سامنے تحریری مواد پیش کرکے اپنے متعصبانہ سوچ کا عملی ثبوت پیش کیا ان میں ول ڈیورنٹ بھی شامل ہے۔ جس نے ایک کتاب لکھی جس کا نام "دی ایج آف فیتھ" ہے، اس کتاب میں سید الاولین والآخرینﷺ کی سیرتِ طیبہ کے مختلف پہلووں پر تنقیدی تبصرہ کرکے آپﷺ کی پاکیزہ اور مثالی سیرت کو دنیا کے سامنے غلط طریقے سے پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس کتاب میں رسول اکرمﷺ کی شخصیت کو نہایت نامناسب انداز میں پیش کیا گیا ہے، چنانچہ ول ڈیورنٹ (Will Durant) اپنی اسی تصنیف "The Age of Faith" میں لکھتا ہے:

"Women and power were his only indulgences"[45]

یعنی عورتیں اور اقتدار ہی بس آپ کی مصروفیات تھیں۔تقریباً آٹھویں صدی عیسوی سے عیسائی یورپ نے اسلام کو اپنا عظیم دشمن سمجھنا شروع کیا جو عسکری اور روحانی دونوں حلقہ اثر میں اس کے لیے خطرہ تھا۔ اسی مہلک خوف کے زیرِ اثر عیسائی دنیا نے اپنے اعتقاد کو سہارا دینے کے لیے اپنے ذہن کو ممکنہ حد تک انتہائی ناپسندیدہ نظروں سے پیش کیا… بارہویں اور تیرہویں صدی عیسوی میں تراشاگیا اسلام کا تصور اہلِ یورپ کی فکر اور سوچ پر غالب رہا ہے۔

بعض مستشرقین کا اعترافِ حقیقت

مذکورہ بالا حقائق کے برعکس بعض مستشرقین ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ عیسائی دنیا میں رحمتِ عالمﷺ کے بارے میں جو لٹریچر تیار کیا گیا ہے وہ حقیقت کے برعکس اور مبنی بر تعصب ہے اور یہ کہ اربابِ استشراق آپﷺ کے بارے میں تعصب کے شکار ہیں۔ اس ناقابلِ تردیداور تاریخی حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے:"A History of Medieval Islam"کا مصنف مغربی دانشور جے جے سانڈرس (J.J. Saunders) لکھتا ہے:

"اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پیغمبرِ عربیﷺ کو عیسائیوں نے کبھی بھی ہمدردی اور توجہ کی نظر سے نہیں دیکھا، جن کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شفیق ہستی ہی آئیڈیل رہی ہے، صلیبی جنگوں سے آج تک محمدﷺ کو متنازع لٹریچر میں بطور ۔۔۔۔ پیش کیا گیا ہے۔ ان کے متعلق بے ہودہ کہانیاں پھیلائی گئیں اور طویل عرصے تک ان پر یقین کیا جاتا رہا ہے۔"[46]

اس ناقابلِ تردید حقیقت کا اعتراف مغربی دنیا کے دریدہ دہن مستشرق ڈبلیومنٹگمری واٹ (Watt.W.Montgomery) کو بھی ہے، موصوف اپنی کتاب اسلام کیا ہے؟ میں رقم طراز ہے:مشکل یہ ہے کہ ہم اس گہرے تعصب کے وارث ہیں جس کی جڑیں قرون وسطیٰ کے جنگی پروپیگنڈے میں پیوست ہیں۔ اب اس کا وسیع پیمانے پر اعتراف کیاجانا چاہیے۔[47]ڈاکٹر واٹ ( (Watt “Muhammad at Macca”میں لکھتا ہے:'تاریخ کی عظیم ترین شخصیات میں سے مغرب میں محمدﷺکی سب سے کم پزیرائی ہوئی ہے۔ مغربی مصنفین محمدﷺ کے بارے میں بدترین چیز پر بھی یقین کرنے کو تیار رہتے ہیں، اور جہاں کہیں انہیں اپنے کسی فعل کی قابلِ اعتراض توضیح ممکن دکھائی دی، فوراً اسے ایک حقیقت تسلیم کرنے پر آمادہ ہوگئے۔[48]

انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (1984ء) میں پیغمبرِ اسلامﷺ پر جو مقالہ ہے، اس کے آخر میں مقالہ نگار نے تصریح کی ہے کہ بہت کم بڑے لوگ اتنے زیادہ بدنام کیے گئے ہیں جتنا کہ نبی رحمتﷺ کو بدنام کیا گیا۔ قرونِ وسطیٰ کے یورپ کے مسیحی علماء نے ان کو فریبی اور عیاش اور خونی انسان کے روپ میں پیش کیا۔ حتیٰ کہ آپﷺ کےنام کاایک بگڑا ہوا تلفظ مہاونڈ (نعوذباللہ) شیطان کے ہم معنی بن گیا۔ سرکارِ دو عالمﷺ اور ان کے مذہب کی یہ تصویر اب بھی کسی قدر اپنا اثر رکھتی ہے۔ انگریز مصنف تھامس کارلائل پہلا قابلِ ذکر مغربی شخص تھا، جس نے1840ء میں بتاکید واضح طور پر کہا کہ محمدﷺیقیناً سنجیدہ تھے، کیوں کہ یہ فرض کرنا بالکل مضحکہ خیز ہے کہ ایک فریبی آدمی ایک عظیم مذہب کا بانی ہوسکتا ہے:

Few great men have been so maligned as Muhammad. Christian scholars of medieval Europe painted him as an impostor, a lecher, and a man of blood. A corruption of his name, 'Mahound, even came to signify the devil. This picture of Muhammad and his religion still Thomas Carlyle in 1840 was the first notable European to insist publicly that Muhammad must have been sincere, because it was ridiculous to suppose an impostor would have been the founder of a great religion[49]

معروف امریکی مورخ ایس پی اسکاٹ (SCOTT S.P) اس کھلی حقیقت کا ببانگِ دہل اعتراف ان واشگاف الفاظ میں کرتا ہے:

"موروثی تعصبات کی بناء پر تمام الہٰیاتی عقیدوں میں سے کسی کو بھی اس قدر جہالت اور ناانصافی کا نشانہ نہیں بننا پڑا جتنا کہ اسلام کے اصولوں کو، تیرہ صدیوں تک اس مذہب کے بانی کو بہروپیا کہا جاتا رہا، ان کے مقاصد پر اعتراضات کیے گئے۔ان کے کردار سے ہر وہ برائی منسوب کردی گئی جو انسانیت کے لیے باعثِ تذلیل اور بلا خیز ہو، بے اندازہ لغویات اور بدترین بہیمیت کو ان کی تعلیمات سے منسوب کردیا گیا۔ کلیسائی معاندت اور بدباطنی نے اپنے حریف کے کردار کو داغ دار کرنے میں اپنے تمام وسائل صرف کردیے۔"[50]

حاصل یہ کہ بعض مستشرقین نے جرات کا مظاہرہ کیا ہے اور اس حقیقت کا برملا عتراف کیا ہے کہ سید الاولین والآخرینﷺ کی مبارک سیرت کے حوالے سے مغربی مصنفین نے تعصب کا رویہ اپنایا ہے، چنانچہ اس طرزِ عمل کے نتیجے میں انہوں نے غیر منصفانہ طرزِ عمل اپنا کر سرورِ کونینﷺ کی سیرت کو داغدار کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔

نتائجِ بحث

مذکورہ بحث سے سیرتِ طیبہ کے حوالے سے استشراقی فکر کا ایک عمومی تصور اور رخ سامنے آتا ہے، جس کے چند پہلو حسبِ ذیل ہیں:

  1. مستشرقین نے سید الاولین والآخرینﷺ کی سیرت و کردار اور آپﷺ کی ابدی و دائمی تعلیمات کو مسخ شدہ شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
  2. استشراقی فکر کے پروان چڑھنے کے بہت سے اسباب ہیں جن میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان مسلح تصادم، اسلام کی جامعیت و عالمگیریت، اسلامی ریاست کی وسعت پذیری اور آپﷺ کے خاتم الانبیاء اور سابقہ شرائع کا ناسخ ہونا شامل ہے۔
  3. صلیبی جنگوں نے استشراقی فکر کو پروان چڑھانے میں نمایاں حصہ لیا ہے کیونکہ جب ان پانچ سو سالہ طویل صلیبی جنگوں کے نتیجے میں مسلمانوں کو خاطر خواہ نقصان نہیں پہنچایا گیا اور عیسائیوں کے مقاصد پوری طرح حاصل نہ ہوئے تو انہوں نے سرد جنگ کے ذریعے اسلام اور رحمتِ عالمﷺ کے خلاف منفی پروپیگنڈے کو ترویج دی۔
  4. اکثر عیسائی مصنفین تعصب اور انتہا پسندی کے شکار نظر آتے ہیں اور اسی بناء پر انہوں نے آپﷺ کی تعلیمات اور ذاتی زندگی بالخصوص آپﷺ کی ازدواجی زندگی کو ہدفِ تنقید بنایا، اور آپﷺ کی سیرت کے ازدواجی پہلو کو انتہائی منفی انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرنے میں کوئی دقیقہ و کسر باقی نہ رکھی۔
  5. مستشرقین کے مطالعاتی رجحانات میں اسلام اور پیغمبرِ اسلامﷺ سے متعلق بدگمانی پھیلانا، اسلامی تاریخ کو مسخ شدہ شکل میں پیش کرنا اور اسلامی تہذیب کی تحقیر شامل ہے۔
  6. برصغیر کے بعض غیر مسلم مصنفین نے بھی آپﷺ کی سیرت و کردار پر بے جا اور متعصبانہ اعتراضات کئے ہیں۔
  7. بعض مستشرقین نے انصاف پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اہلِ یورپ اور مستشرقین کے تعصب کا اعتراف کیا ہے۔

تجاویز و سفارشات

  1. سرورِ کونینﷺ کی سیرت اور آپﷺ کے نقشِ قدم پر چل کر انسانیت فلاح و کامیابی پا سکتی ہے،لہٰذا اللہ تعالیٰ کے حبیبﷺ کی سیرت و سنت کو اپنانے اور اپنے لئے مشعلِ راہ بنانے کی ضرورت ہے، جس پر زندگی کے ہر شعبے اور ہر مرحلے میں خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
  2. سیرتِ طیبہ کو مثبت انداز میں پیش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، اور آپﷺ کی سیرت و کردار پر جو شبہات کئے گئے ہیں ان کا مثبت جواب دے کران شبہات کی حقیقت واضح کرکے انسانیت کو رسولِ رحمتﷺ کے بارے میں صحیح علمی و مدلل اسلوب میں آگاہی فراہم کی جا سکتی ہے۔
  3. میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ پر مبلغِ اعظمﷺ کا صحیح تشخص پیش کیا جائے اور آپﷺ کی تعلیمات و اقدامات کی صحیح اور بامعنیٰ تشریح و توضیح کی جائے۔
  4. جس طرح بعض اربابِ مغرب اور دیگر غیر مسلم اقوام مختلف ذرائع ابلاغ کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اسی طرح مسلمانوں کو چاہئے کہ انہیں مثبت اور بامقصد کاموں کے لئے استعمال کریں۔ اور کولڈ وار کے مقابلے کے لئے اپنے آپ کو تیار رکھیں۔
  5. مغربی حلقوں بالخصوص مستشرقین کے افکار و نظریات کا تنقیدی و تجزیاتی مطالعہ کرکے حکمت و بصیرت کے ساتھ مدلل انداز میں ان کے شبہات و تنقیدات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

Bibliography

Al-Qushaiyrī, Muslim bin al-Hajjāj Abu al-Hassan. Sahīh Muslim. Riyadh: Darussalam, 2008.

Al-Umarī, AKram Ziā. Mawqif al-Istishraq min al-Sunnah. Al-Madīnah: Aljāmiat al-Islamiyyah.

Bethman Erich. Bridge To Islam. United States: Whitefish MT,  Literary Licensing, LLC, 2011.

Bukhārī, Muhammad bin Ismāīl. Al-Jāmi al-Sahīh. Karāchi: Assahu al-matābi 1995.

Dihlvī, Abdu al-Haq. Madāriju al-Nubuwat. Sakhar: Maktaba Nooriyyah, 1977.

Encyclopaedia Aamericana. Edition 1947.

Encyclopaedia Britannica. 9th Edition.

Fisher George. The Begining of Christianity. New York: Scribner, Armstrong& co. 1886.

Geoffrey Parrinder. Sex in the world's religions. London: Sheldon Press.1996.

Gibbon Edward. The Decline and Fall of the Roman Empire. New York: Every man’s edition. 2013.

Gustav Weil. History of the Islamic Peoples. India: Sagwan press. 2018.

Ibin e Hajr, Ahmad bin Alī Asqalānī. Fathu al-Barī. Berut: Dar al-Marifat. 1379 H.

Ibn al-Jozī, Abdur Rahmān bin Alī. Al-Muntazim fī Tārīkh al-Mulook w al-Umam. Berut: Dār al-Kutub al-Ilmiyyah, 1412.

J.J. Saunders. A History of Medieval Islam. Canada: Routledge and Kegan Paul Ltd, 1965.

Kāndihlavī، Muhammad Idrīs. Sīrat al-Mustafā. Lāhore: Maktaba Usmāniyyah۔ 1992.

Kritizeck James Peter. The Venerable and Islam. New Jersy: Princeton University Press: 1964.

Mansùr Pùrī, Qāzī Muhammad Sulaymān. Rahmat ul-Lil Alamīn. Karāchi: Dār al-Ishāt. 1411H.

Mubārak poorī Safī al-Rahmān. Al-Rahīq al-Makhtoom. Lāhore: Al-Maktabah al-Salfiyyah 2005.

Muhammad bin Abdu al-Bāqī. Sharhu al-Mawahib al-Laduniyyah. Qāhira: Matba al-Azharizzah.

Muhammad bin Sād. Al-Tabqāt al-Kubrā. Berut: Dār e Sādir.

Muhammad Hamīdullāh. Al-Wasaiq al-siyāsiyyah. Qāhira: Lajnatu al-tālīf wa al-tarjumah, 1941.

Muir, Sir William. Muhammad and Islām. New Delhi: Cosno publication, 2010.

Nicholson, R.A. A Literary History of The Arabs. New York: Silver Scroll Publishing. 1914.

Philip Schaff. History of The Christian Church. US. Massachusetts: Hendrickson Publishers, 2006.

Pīr Karam Shāh al-Azharī. Zia al-Nabī. Lāhore: Zia al-Qurān publishers, 1420.

Prf M. Akram Rānā. Muhammad ﷺ& Mustashriqīn. Lāhore: Idārah Mārif e Islāmī, 2014.

Quryshī, Zafar Alī. Shān e Risālat men GusthaKhī ki Bahth. Sargodhā: Aālmī Majlis Tahaffuz Khatm e Nubuwat.

Rāy Muhammad Kamāl. Ghāzī alm al-dīn Shahīd. Lāhore: Jahāngīr Book Depo 2002.

Sayyed Sabah Al-Dīn. Islām aur Mustashriqīn. Indiā: Dār al-Musannifīn, 1986.

Scott S.P. History of Moorish empire in Europe. London. Philadelphia: J.B Lippincott Company.1904.

Shamīm Akhtar Qāsmī. Sīrat al-Nabī per itirazā ka jāiza. Lāhore: Maktabah Qāsim al-Uloom.

Shiblī Numānī. Sīrat al-Nabī. Lāhore: Maktabah Madīnah, 1408.

Siddīquī Muhamaad Shakīl. Barr i Saghīr Pāk o Hind me Sīrat nigārī k rujhānāt. Karachi: University of Karachi, 2015.

Sir Sayyed Ahmad Khān. Khutbāt e Ahmadiyyah. Lāhore: Dost Assosiation 2008.

Tabrī, Muhammad bin Jarīr. Tārīkhu al-Umam w al-Mulook. Qāhira: Dar al-Mārif.

Watt, W. Montgomery. Muhammad at Madina. U K: Oxford University Press, 1956.

Wātt, W. Montgomery. The Cure for Human Ills. London: 1959.

Will Durant. The Age of Faith. New York: Simon and Schuster. 2011.

  1. اکرم ضیاءالعمري، موقف الاستشراق من السنةوالسیرةالنبوية،( المدینةالمنورة : الجامعةالإسلامية، ،س۔ ن)، 56۔
  2. William Muir, Muhammad and Islam (New Delhi: Cosno Publications, 2010(, 17, 148.
  3. Edward Gibbon, The Decline and Fall of the Roman Empire (New York: Every man’s edition, 2013), 2:694.
  4. Will Durant, The Age of Faith (New York: Simon and Schusrer, 2011), 172, 173.
  5. Gustav Weil, History of the Islamic Peoples, (India: Sagwan Press, 2018), 18-19.
  6. Erich Bethman, Bridge to Islam,(United States:Whitefish MT,Literary Licensing, LLC,2011),33.
  7. محمد شکیل صدیقی، برصغیر پاک و ہند میں سیرت نگاری کے رجحانات (مقالہ ڈاکٹریٹ، جامعہ کراچی، 2015ء)، 135، 136۔
  8. سید احمد خان، خطبات احمدیہ(لاہور: دوست ایسوسی ایٹس، س۔ ن)۔
  9. ضیاء العمري، موقف الاستشراق من السنةوالسیرةالنبوية۔
  10. یہ کتاب سات جلدوں میں دار المصنفین، اعظم گڑھ، ہندوستان سے چھپی ہے۔ اس میں مختلف اہلِ علم کے مقالات شائع ہوئے ہیں، اور اسلام کے مختلف پہلووں پر مستشرقین کی طرف سے جو شبہات کے گئے ہیں ان کا علمی و مدلل انداز میں جواب دیا گیا ہے۔
  11. محمد اکرم طاہر، محمد رسول اللہﷺ مستشرقین کے خیالات کا تجزیہ (لاہور: ادارہ معارف اسلامی، 2014ء)۔
  12. شبلی نعمانی، سیرت النبی (لاہور: مکتبہ مدنیہ، 1408ھ)، 1 :67، 69۔
  13. کرم شاہ الازہری، ضیاء النبی (لاہور: ضیاء القرآن پبلشرز ، 1420ھ) ،7۔
  14. محمد شمیم اختر قاسمی، سیرتِ نبویﷺ پر اعتراضات کا جائزہ (لاہور، مکتبہ قاسم العلوم، س ن)۔
  15. صفی الرحمان مبارک پوری، الرحیق المختوم(لاہور: المکتبۃ السلفیۃ، س ن)، 459 – 474۔
  16. محمدبنِ جریربن یزید طبری،تاریخ الامم والملوک (قاہرہ: دارالمعارف، س۔ ن)3 : 84؛ ابو عبداللہ محمد بن سعد،الطبقات الکبریٰ (بیروت: دارصادر،س۔ ن)،1 : 475؛ابو عبداللہ محمد بن عبدالباقی زرقانی، شرح المواہب اللدنیہ (قاہرہ:مطبع الازہریہ، س۔ ن)،3 : 334۔
  17. عبدالحق محدث دہلوی،مدارج النبوة (سکھر: مکتبہ نوریہ،1977ء)، 2 :294؛ محمد ادریس کاندھلوی، سیرة المصطفیٰ (لاہور: مکتبہ عثمانیہ، 1992ء)، 2 : 2۔ سلاطینِ عالم کے نام رسول اللہﷺ کے خطوط کے متن اور دیگر تفصیلات کے لیے دیکھیے: محمد حمیداللہ،الوثائق السیاسیہ فی العہدالنّبویﷺ (قاہرہ: لجنة التالیف والترجمہ، 1941ء)۔
  18. موتہ میم کے پیش اور واوساکن کے ساتھ۔ اردن میں بلقاء کے قریب ایک آبادی کا نام ہے۔ مبارک پوری،الرحیق ،526۔
  19. احمد بن علی بن حجر عسقلانی، فتح الباری (بیروت: دارالمعرفۃ، 1379ھ)، 7 : 392؛ ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 2 : 128؛ محمد بن عبدالباقی زرقانی، شرح مواہب اللدنیہ (بیروت : دارالکتب العلمیۃ ، 1417ھ)، 2 : 268۔
  20. العسقلانی، فتح الباری، 7 :393؛زرقانی،شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ، 3 :339۔
  21. قاضی محمد سلیمان منصور پوری،رحمة لّلعالمینﷺ (کراچی: دارالاشاعت، 1411ھ)،2 :271؛مبارکپوری،الرحیق المختوم،527۔
  22. محمد بن اسماعیل البخاری، الجامع الصحيح ، كتاب المغازي، باب غزوة مؤتة من أرض الشام (بيروت، دار ابن كثير، 1407ه)، حدیث: 4018، 67۔
  23.  Robert P. Gwinn. History of Arabs, “Encyclopedia Britannica (Oxford, U.K: Oxford University Press, 1947, 9th Edition), 16:656.
  24. أبو الفرج عبد الرحمن بن علي ابن الجوزي،المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، محقق۔محمد عبد القادر عطاء، مصطفى عبد القادر عطا،(بیروت: دار الكتب العلمية، 1412ھ)، 4 : 16؛ کاندھلوی، سیرة المصطفیٰ، 2 :244۔
  25. ضیاءالعمري، موقف الاستشراق من السنةوالسیرةالنبوية، 65۔
  26. ظفر علی قریشی،شانِ رسالتﷺمیں گستاخی کی بحث کا تنقیدی جائزہ (سرگودھا: عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، س۔ ن)، 8۔
  27. https://ur.wikipedia.org/wiki/صلیبی جنگیں[1]
  28. حبیب الحق ندوی،اسلام اور مستشرقین،مرتب۔ سیّد صباح الدین عبدالرحمن (اعظم گڑھ: دارالمصنفین،1986ء)،3 :19۔
  29. George Fisher, The Beginning of Christianity (New York: Scribner, Armstrong & co. 1886.), 25.
  30. William Montgomery Watt, The Cure for Human Ills (London: S.P.C.K. 1959), 37. نیز دیکھیے: ظفر علی قریشی، شانِ رسالتﷺمیں گستاخی کی بحث کا تنقیدی جائزہ ، 9۔
  31. Muir, Muhammad and Islam, 148.
  32. Gibbon, The Decline and Fall of the Roman Empire, 694.
  33. Reynold Alleyne Nicholson, Literary History of the Arabs (New York: Silver Scroll Publishing. 1914(, 167.
  34. Philip Schaff, History of The Christian Church (Massachusetts:  Hendrickson Publishers. 2006(. 4:169.
  35. Erich, Bridge to Islam, 33.
  36. Gustav Weil, History of the Islamic Peoples, 18, 19.
  37. Will Durant, The Age of Faith, 172, 173.
  38. James Kritizeck, Peter the Venerable and Islam (City: Princeton University Press, 1964), 137.
  39. رائے محمد کمال،غازی علم الدین شہید (لاہور: جہانگیربک ڈپو، س۔ ن)، 37۔
  40. ندوی،اسلام اور مستشرقین، 3:14،15۔
  41. ایضا، 3:17۔
  42. William Montgomery Watt, Muhammad at Madina (Oxford: Oxford University Press, 1956), 277.
  43. Geoffrey Parrinder, Sex in the World's Religion (London: Sheldon Press, 1996), 151.
  44. نثار احمد، "مطالعہ سیرت اور مستشرقین،"مشمولہ اسلام اور مستشرقین، مرتب۔ سیّد صباح الدین عبدالرحمن (ہندوستان، اعظم گڑھ، دارالمصنفین،1986ء)، 3:60۔
  45. Durant, The Age of Faith, 172-173.
  46. John Joseph Saunders, A History of Medieval Islam (Canada: Routledge and Kegan Paul Ltd, 1965), 34, 35.
  47. ڈبلیو منٹگمری واٹ ، اسلام کیا ہے، مترجم ۔عبدالخالق (ہندوستان،الفرقان پبلشرز، 1968ء)، 1- 2۔
  48. قریشی، شانِ رسالتﷺ میں گستاخی کی بحث کا تنقیدی جائزہ، 39۔
  49.  Robert P. Gwinn, "History of Arabs", in Encyclopedia Britannica (Oxford, U.K: Oxford University Press, 1947, 9th Edition) 16:656.
  50. Samuel Parsons Scott, History of Moorish Empire in Europe (London: Philadelphia: J.B Lippincott Company, 1904), 58, 59.
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...