Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tabyīn > Volume 1 Issue 1 of Al-Tabyīn

اجتہاد کی شرعی حیثیت اور عصر حاضر ميں اجتہاد کی عملی صورتیں |
Al-Tabyīn
Al-Tabyīn

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2017

ARI Id

1682060060947_495

Pages

52-73

Chapter URL

https://sites2.uol.edu.pk/journals/al-tabyeen/article/view/132

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اجتہاد اسلامی قانون کی توسیع و ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اجتہاد ایک نہایت مشکل اور نہایت کٹھن کام ہے۔ اس کے لیے شریعت کا گہرا علم بھی ضروری ہے اور ان حالات کے مالہ وماعلیہ سے بھی اچھی طرح واقف ہونا ضروری ہے جن کے بارہ میں شریعت کا حکم معلوم کرنا ہے۔ قانون بجائے خود بھی ایک مشکل چیز ہے، اس کے اندر حروف و الفاظ تو درکنار، کاما اور ڈیش تک کو بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ اس وجہ سے جب تک کسی شخص کو شریعت کے براہ راست سمجھنے کا علم حاصل نہ ہو وہ قانون کی عام چیزوں کے سمجھنے کا حق بھی ادا نہیں کرسکتا چہ جائیکہ وہ اجتہاد کرسکے۔ اجتہاد میں معاملہ صرف قانون کی واضح دفعات کے سمجھ لینے ہی کا نہیں ہوتا بلکہ شریعت کے مضمرات و اشارات اور کتاب و سنت کے لوازم و مقتضیات کی روشنی میں نئے پیش آمدہ حالات کا شرعی حکم متعین کرنا ہوتا ہے۔ اس کام کے لیے ظاہر ہے کہ نہایت اعلیٰ فنی قابلیت ضروری ہے۔ صرف فنی قابلیت ہی نہیں بلکہ ذوق سلیم بھی ضروری ہے۔شریعت کے اعلیٰ علم اور اس کے فہم کے اعلیٰ ذوق کے بغیر کوئی شخص اجتہاد کرنے کا اہل نہیں ہوسکتا۔

ایک مسلم معاشرہ کے لیے اجتہاد کی ضرورت ایک مسلمہ امر ہے۔ زندگی جن حالات و تغیرات سے گزر رہی ہے ان میں کوئی مرحلہ بھی ایک مسلمان کے لیے ایسا نہیں آتا جس میں وہ اسلام سے استفتاء کا محتاج نہ رہتا ہو کیونکہ یہ ضروری ہے کہ وہ زندگی میں جو قدم بھی اٹھائے شریعت کے مطابق اٹھائے۔

اجتہاد کا مطلب یہ ہے کہ زندگی میں اگر بعض ایسے مسائل پیش آئیں جن کے متعلق کتاب وسنت میں کوئی واضح قانون نہیں بیان ہوا ہو، تو حالات و واقعات کے تناظر میں ان مسائل کو نظر انداز نہ کردیا جائے بلکہ ان کو بھی اسلامی شریعت کے تحت لانے کی کوشش کی جائے اور اگر ان کے بارے میں واضح احکام نہیں ملتے تو شریعت کے عام احکام کے اشارات و کنایات سے رہنمائی حل کرنے کی کوشش کی جائے۔

ڈاکٹر وہبہ الزحیلی ﷫بيان كرتے ہیں:

"إن استکمال شرائط الإجتهاد لیس من العسیر في شئ بعد تدوین العلوم المختلفة، وتعدد المصنفاف فیها، وتصفية کل دخیل علیها۔ وها هم العلماء في کل عصر یجتهدون، ویرجحون بین أقوال الفقهاء السابقین، حتی انضبطت المذاهب، وحررت الأحکام"([1])

’’اجتہاد کی شرائط کی تکمیل اب کوئی مشکل کام نہیں جب کہ مختلف علوم مدون کئے جاچکے ہیں اور ان میں تصنیف شدہ کتابوں کی بڑی تعداد سامنے آچکی ہے اور اس میں شامل اضافی مواد کی نشان دہی کر دی گئی ہے۔ اور دیکھئے یہی علماء تھے ہر زمانے میں جو اجتہاد کا عمل جاری رکھے ہوئے تھے اور سابقہ اقوال کے مابین ترجیح کا عمل انجام دیتے تھے اور حتی کہ مذاہب اسی طرح منضبط ہوئے اور احکام اسی طرح تحریر کئے گئے۔‘‘

اجتہاد کا لغوی و اصطلاحی مفہوم

اجتہاد کے لغوی معنی ہیں

"بَذْلُ الوُسْعِ وَالمَجهود فِی طَلبِ الَامر"

’’کسی چیز کی تلاش میں اپنی پوری طاقت خرچ اور کوشش کرنا۔‘‘([2])

لفظ اجتہاد جس طرح امور حسیہ کے لیے استعمال ہوتا ہے اسی طرح امور عقلیہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ علمائے اصولیین کے ہاں اجتہاد کی مختلف تعریفات کی گئی ہیں۔ ان تمام تعریفات کا حاصل یہی ہے کہ اجتہاد احکام شریعہ کے علم کے حصول میں مقدور بھر کوشش کا نام ہے۔ ([3])

اجتہاد کا شرعی و اصطلاحی مفہوم

اجتہاد کے لغوی معنی تو ’انتہائی کوشش کرنے ‘کے ہیں جبکہ شرعی اصطلاح میں اس انتہائی کوشش کو کہتے ہیں جو کتاب و سنت کے اشارات و مضمرات سے کوئی حکم معلوم کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ اس کوشش کے باب میں پہلی چیز جس کی طرف خود لفظ اجتہاد اشارہ کررہا ہے کہ یہ کوشش سہل انگارانہ یا نیم دلانہ نہیں ہونی چاہئے بلکہ پورے دل و جان سے ہونی چاہئے ۔اور تحقیق و تلاش کے جتنے وسائل و ذرائع بھی اس کار عظیم کے لیے مطلوب ہیں وہ سب استعمال ہونے چاہئیں۔ جب تک آدمی یہ اطمینان نہ کرلے کہ اس راہ کا کوئی پتھر بھی اب ایسا نہیں رہ گیا ہے جو الٹا نہ جاچکا ہو اس وقت تک زبان نہ کھولے۔ حضرت معاذ﷜ والی روایت کے یہ الفاظ قابل غور ہیں کہ:"أَجْتَهِدُ رَأْیِي وَلَا آلُو"’’میں اپنے رائے سے اجتہاد کروں گا اور حقیقت تک پہنچنے میں کوتاہی نہ کروں گا ۔‘‘([4])

حضرت معاذ ﷜نے اپنے اجتہادکو رائے ہی کے لفظ سے تعبیر کیا ہے لیکن یہ رائے کتاب و سنت کے اشارات اور نظائر و قیاسات پر مبنی ہوتی ہے اور اس کا قائم کرنے والا کتاب و سنت کا ایک ماہر اور دین کا ایک رمز شناس ہوتا ہے۔اس وجہ سے اس کا درجہ اس رائے سے بالکل مختلف ہوتا ہے جو کسی معاملہ میں ایک عام آدمی مجرد عقل و فہم کی مدد سے قائم کرتا ہے۔

ایک ذی علم اور ذی شعور مسلمان کے لیے صرف یہی ضروری نہیں ہے کہ وہ نئے پیش آنے والے حالات و واقعات کے بارہ میں اسلام کا حکم معلوم کرنے کی کوشش کرے،بلکہ اس پر تو شریعت کی طرف سے یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ جن پچھلے اجتہادات پر عمل پیرا ہے ان کا بھی برابر جائزہ لیتا رہے کہ کس حد تک اسلام کے اصل ماخذ قانون(کتاب و سنت)سے موافقت رکھتے ہیں۔ اس کے بغیر حیات ایمانی کے اصل سرچشموں یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺکے ساتھ مسلمان کا تعلق نہایت کمزور ہوجاتا ہے۔([5])

اجتہاد کی قدرو قیمت کا اندازہ کتاب و سنت سے دلائل استنباط سے لگایا جاسکتا ہے۔ اگر قوی ہے تو اجتہاد قوی ہے اور اگر ضعیف ہے تو اجتہاد ضعیف ہے۔ اسی وجہ سے اہل علم کے لیے کسی اجتہاد کو بلا چوں چرا ں مان لینا صحیح نہیں ہے ،بلکہ ہر صاحب علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ کتاب و سنت کی ایک دلیل بنائیں ۔ہمیں ان تینوں مسلکوں کی روح دیکھنی چاہئے اور جس دیانت اور جس احترام سنت کو ہم پیش نظر رکھ کر ان میں سے کسی مسلک کو اختیار کریں گے تو ان شاء اللہ وہی سنت کا راستہ ہوگا اور اس کے اختیار کرنے میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہوگی۔([6] )

قرآن حکیم سے اجتہاد کا ثبوت

وحی اپنی مختلف حیثیتوں سے اسلامی قانون کا پہلا ماخذ اور سرچشمہ ہے۔ فقہاء اسلام نے اثبات اجتہاد کے لیے بہت ذہانت کے ساتھ قرآن حکیم سے بھی استدلال کیا ہے۔ مثلاً حالت سفر میں جب انسان کسی ایسے مقام پر ہو جہاں قبلہ کی صحیح سمت معلوم نہ ہو تو نماز پڑھنے سے قبل قبلہ کا رخ جاننے کے لیے اسے تحری کا حکم ہے ۔جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے تمام حواس کو استعمال کرکے یہ جاننے کی خوب کوشش کرے کہ قبلہ کس طرف ہوسکتا ہے۔ چاند اور سورج یا ستاروں کی گردش سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ بیت اللہ کس جہت میں واقع ہے۔ امام شافعی﷫ نے سورۃ البقرہ کی آیت سے استدلال کیا ہے:

﴿وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُۥ﴾

’’اور تم جدھر سے بھی (سفر پر) نکلو اپنا چہرہ (نماز کے وقت) مسجدِ حرام کی طرف پھیر لو، اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہو سو اپنے چہرے اسی کی سمت پھیر لیا کرو۔‘‘([7] )

اجتہاد کے ثبوت میں قرآن حکیم کی یہ آیت بھی پیش کی جاتی ہے، فرمان الٰہی ہے:

﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَطِيعُواْ ٱللّهَ وَأَطِيعُواْ ٱلرَّسُولَ وَأُوْلِي ٱلْأَمْرِ مِنكُمْ فَإِنْ تَنَٰزَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى ٱللّهِ وَٱلرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِٱللّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْأٓخِرِۚ ذَٰلِكَ خَيْر وَأَحْسَنُ تَأۡوِيلًا﴾

’’ اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے صاحبانِ اَمر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لیے) اللہ اور رسول (ﷺ) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، (تو) یہی (تمہارے حق میں) بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔‘‘([8] )

اس آیت مبارکہ میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اگر کسی مسئلہ میں ان کے درمیان باہم اختلاف اور تنازعہ پیدا ہوجائے تو اس معاملہ کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف لوٹادیں۔یعنی اللہ کی کتاب اور رسول اللہﷺکی سنت کی طرف رجوع کریں کیونکہ یہی استنباط احکام کے بنیادی ماخذ ہیں۔ اسی لیے اہل ایمان کو حکم دیا گیا کہ کسی مسئلہ کے بارے میں تنازع پیدا ہو جائے اور قرآن و سنت میں کوئی صریح حکم موجود نہ ہو تو ایسی صورت میں اہل علم کو چاہئے کہ وہ درپیش مسئلہ کا حل قرآن و سنت کی دی ہوئی اصولی ہدایات کی روشنی میں قیاس و اجتہاد کے ذریعہ تلاش کریں۔

حدیث سے اجتہاد کاثبوت

اجتہاد کے ثبوت میں سب سے اہم حدیث معاذ بن جبل﷜کی ہے جس کا آخری حصہ براہ ِ راست اجتہاد سے متعلق ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے اس سوال پر کہ اگر تمہیں قرآن و سنت میں درپیش کسی مسئلہ کا حل نہ ملے تو کیا کرو گے؟ حضرت معاذ بن جبل ﷜نے جواب دیا تھا کہ میں ایسی صورت میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور غوروفکر کے ذریعہ کسی نتیجہ تک پہنچنے میں کوئی کوتاہی نہیں کروں گا۔ اس جواب پر رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے خوشی اور اطمینان کا اظہار فرمایا:

«الْحَمْدُ لِله الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اﷲِ (ﷺ)لِمَا یَرْضَي رَسُولُ الله(ﷺ)» ([9])

’’خدا کا شکر ہے جس نے رسول اللہﷺکے بھیجے ہوئے شخص کو اس امر کی توفیق بخشی کہ جس سے اللہ تعالیٰ کا رسول (ﷺ)راضی ہو۔‘‘

تو ثابت ہوا کہ جب بھی کوئی نیا مسئلہ درپیش ہو تو اس صورت میں آپ ﷺ نے اجتہاد کے ذریعہ مسائل حل کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔

اجتہاد کے ثبوت میں دوسری حدیث حضرت عمرو بن العاص ﷺ مروی ہے۔ جسے صحاح ستہ کے تمام محدثین نے نقل کیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے:

«إِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ وَإِذَا حَکَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ»([10])

’’جب حاکم اجتہاد سے فیصلہ کرے اور وہ فیصلہ (عند اﷲ) صحیح ہو تو اس کو دو اجر ملتے ہیں اور اگر وہ اجتہاد سے فیصلہ کرے اور وہ فیصلہ (عند اﷲ) غلط ہو تو اس کو ایک اجر ملتا ہے۔‘‘

یعنی جب کوئی حاکم فیصلہ کرتا ہے اور فیصلہ کرنے سے پہلے زیر غورمسئلہ میں خوب غورو فکر (اجتہاد) کرلیتا ہے (ہر پہلو سے اس کا جائزہ لے لیتا ہے) اور صحیح نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے تو وہ دوہرے اجر کا مستحق قرار پاتا ہے ۔اور اگر وہ اجتہاد کرتا ہے اور غلطی سرزد ہوجاتی ہے تو بھی اسے ایک اجر ضرور ملتا ہے۔

اجتہاد کی قسمیں

فقہاء کے ہاں اجتہاد و قیاس کے باب میں تین اصطلاحات کثرت سے استعمال ہوتی ہیں۔ امام غزالی ﷫ (ف۵۰۵ھ) ، امام ابو اسحاق شاطبی ﷫(ف۷۹۰ھ) اور دوسرے علماء اصول فقہ نے اجتہاد کی تین قسمیں بیان کی ہیں۔ یہ تقسیم مناط حکم یعنی اس علت کے اعتبار سے کی گئی ہے جس پر حکم شرعی کا دارومدار ہوتا ہے۔

۱۔ تنقیح المناط

’تنقیح المناط ‘کا معنی یہ ہے کہ مجتہد یہ دیکھتا ہے کہ کسی خاص واقعہ میں شارع نے ایک حکم دیا ہے۔ اس واقعہ میں اس حکم کی علت بننے کے قابل مختلف اوصاف ہیں۔ اب وہ غیر معتبر اوصاف کو اور معتبر وصف کو جدا جدا کردیتا ہے جس سے وہ وصف متعین ہوجاتا ہے جو اس واقعہ میں حکم کی علت بنا ہے۔

"الحاق الفرع بالاصل بالغاء الفارق"([11])

’’فرع کو اصل کے ساتھ کسی خاص امتیاز کی بنا پر متعلق کرنا۔‘‘

امام شاطبی ﷫نے لکھا ہے:

"وذلک ان یکون الوصف المعتبر فی الحکم مذکورا مع غیره فی النص فینقح بالاجتهاد حتی یمیز ماهو معتبر مما هو ملغی"

’’یہ اس طرح ہے کہ ایک ایسا وصف جو مذکورہ حکم میں دیگر اوصاف کی بجائے معتبر ہو، تو وہ اس طرح اپنی اجتہاد سے کسی معتبر وصف کا تعین کرکے اس کی علت بیان کرتا ہے۔‘‘([12])

جیسے ایک دیہاتی شخص رسول اکرم ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ میں نے رمضان میں بیوی سے صحبت کرلی ہے آپ ﷺ نے کفارہ کا حکم دیا۔ یہاں کفارہ کی علت مختلف اوصاف بن سکتے ہیں :مثلاً اس کا اعرابی ہونا، بیوی سے صحبت کرنا، خاص اس سال کے رمضان میں واقعہ پیش آنا۔

مجتہد سوچ بچار سے ان میں سے ایک ایسے وصف کو علت قرار دیتا ہے جو معتبر ہے اور وہ بیوی سے صحبت کرنا ہے۔ اس لیے کہ دیہاتی ہونا کوئی ایسا وصف نہیں جو حکم کفارہ کی علت بن سکے۔ اسی طرح خاص رمضان میں ہونا بھی کوئی معتبر وصف نہیں، اب متعین ہوگیا کہ رمضان میں بیوی سے صحبت کرنا حکم کفارہ کی علت ہے۔

۲۔ تخریج المناط

نص میں ایک حکم ہولیکن شارع نے یہ نہ بتایا ہوکہ اس حکم کی علت کیا ہے ؟مجتہد اپنے جتہاد سے علت متعین کرے یہ ’تخریج مناط ‘ہے۔

"هوالإجتهاد القیاسي" ’’تخریج المناط مجتہد کا اپنی رائے علت کا تعین کرنا ہے۔‘‘([13])

دونوں میں فرق یہ ہے کہ تنقیح میں بحیثیت مدار حکم ان اوصاف کو نظر انداز کیا جاتا ہے جو علت بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور تخریج میں اس وصف کو دلائل کے ذریعے متعین کیا جاتا ہے جو علت بننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

اس کی مثال یہ ہے کہ شارع نے دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنے سے منع کیا ہے۔ مجتہد نے غور کیا کہ اس کی علت کیا ہے؟ تو اس پر یہ واضح ہوا کہ اس کی علت دو محرم عورتوں کو نکاح میں جمع کرنا ہے۔ لہذا کسی بھی دو محرم رشتہ دار عورتوں کا نکاح میں جمع کرنا حرام قرار پایا۔

یوں ’تنقیح ‘اور ’تخریج ‘میں کوئی جوہری فرق نہیں ہے سوائے اس کے کہ ’تنقیح ‘میں وہ وصف مختلف اوصاف کے درمیان ہوتا ہے جبکہ ’تخریج ‘میں اس کا موثر ہونا بالکل واضح ہوتا ہے اور اس میں تنقیح و تہذیب کی ضرورت پیش نہیں آتی۔

۳۔تحقیق مناط (تعبیر و انطباق)

حکم شرعی کو صحیح طور پر سمجھنے اور پیش آمدہ مسائل پر اس کے انطباق کے لیے اجتہاد کرنا ’تحقیق المناط ‘ہے۔ اس بارے اصولیین بیان کرتے ہیں:

"وهو أن یقع الاتفاق علی علية وصف بنص أو اجماع فیجتهد فی وجودها فی صورة النزاع کتحقیق ان النباش سارق"([14])

’’یعنی ’تحقیق مناط ‘یہ ہے یہ کسی وصف کے علت ہوجانے پرنص کے ذریعے یا اجماع کے ذریعے اتفاق ہوجائے پھر مجتہد اس علت کو غیر منصوص پیش آمدہ مسئلہ میں تلاش کرے جیسے یہ اجتہاد کہ کفن چور، چور ہے۔‘‘

چونکہ حد سرقہ میں ہاتھ کاٹنے کی علت چوری ہے جبکہ کفن چور پر مجتہد نے چوری کا حکم اس لیے لگایا کہ کفن چور نے بھی چور کی طرح خفیہ طور پر حفاظت میں رکھی ہوئی چیز کو چرایا ہے۔

حکم کے نفاذ کے لیے موقع و محل کی تعیین بھی اجتہاد ہے۔

"ان یثبت الحکم بمدرکه الشرعی لکن یبقی النظر فی تعیین محله"([15])

’’تحقیق المناط یہ ہے کہ حکم اپنی جگہ شرعی طور پر ثابت ہو لیکن اس کے محل کی تعیین میں غوروفکر کا کام باقی ہو۔‘‘

یعنی ’تحقیق المناط ‘کی ایک صورت یہ ہے کہ منصوص حکم سے علت لے کر جاری کرنی ہے۔ جیسے اشیاء ستہ میں سود کی حرمت کی علت کو دیگر اشیاء میں جاری کرنا۔ دوسری شکل یہ ہے کہ حکم و علت سب کچھ موجود ہے لیکن اس کے نفاذ کے لیے موقع و محل کی تعیین کا کام باقی ہے کہ یہ موقع و محل اس حکم کے نفاذ کا متحمل ہے یا نہیں۔

حضرت عمر﷜ کے ا ولیات یا ہر حالات و زمانہ کی رعایت والے احکام اسی قبیل سے ہیں۔

شاطبی ﷫اس کی مثال یوں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :

’’جیسے گواہی میں شاہد کا عادل ہونا ضروری ہے۔ اب عدل کا ایک درجہ تو وہ تھا جو ابوبکر صدیق ﷜میں موجود تھا اور ادنیٰ درجہ وہ ہے کہ انسان کفر کی حد کے قریب ہو۔ اس کے درمیان بہت سے درجات ہیں تو اب یہ متعین کرنا کہ عدالت کا کون سا مفہوم متوسط ہے جسے معیار بنایا جائے۔ تحقیق مناط اجتہاد کا وہ درجہ ہے جو قیامت تک باقی رہے گا۔‘‘

اجتہاد کی شرائط

اجتہاد کی دینی و شرعی اور علمی و اخلاقی اہمیت کے سبب سے اس کے لیے اصول فقہ کی کتابوں میں کچھ شرطیں بیان ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی ﷫نے اپنی کتاب ’ اصول الفقہ الاسلامى ‘کے باب :۷، ’الإجتهاد والتقلىد ‘ مین اس پر مفصل بحث کی ہے۔([16])

اگر شرطوں کو اصطلاحی الفاظ سے الگ کرکے سادہ الفاظ میں پیش کیا جائے تو یہ تین شرطیں ہیں:

۱۔ اجتہاد کا اہل وہ شخص ہے جس کو کتاب و سنت پر پورا پورا عبور حاصل ہو۔

۲۔ وہ پیش آمدہ حالات و مسائل کہ تہ تک پہنچنے والا ہو اور ان کے مالہ و ما علیہ کو اچھی طرح سمجھنے والا ہو۔

۳۔ وہ اپنے اخلاق و سیرت کے لحاظ سے ایک قابل اعتماد آدمی ہو تاکہ لوگ اپنے دین کے معاملہ میں اس پر اعتماد کرسکیں۔([17])

اسلامی قانون کے ماہرین نے اجتہاد کی جو تعریف کی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ اجتہاد کسی مجتہد اور فقیہ کی اس علمی تحقیق و کاوش اور پوری علمی قوت صرف کرنے کو کہتے ہیں جو غیر منصوص مسائل (نئے مسائل) کے احکام شریعہ معلوم کرنے لیے کی جائے۔

اصولیین کی تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اجتہاد کے فقہی طور پر معتبر ہونے کے لیے تین شرطیں ہیں:

۱۔ اجتہادکرنے والا فقیہ اور مجتہد کی شرائط پر پورا اترتا ہو۔

۲ ۔ فقیہہ و مجتہد اپنی پوری علمی قوت کو صرف کردے۔

عام طور پر مجتہد کے لیے مسلمان، عاقل اور بالغ ہونا شرط ہے۔([18])

جبکہ بطور خاص علمائے اصولیین نے مجتہد کے لیے ان آیات کی معرفت کو ضروری قرار دیا ہے جو احکام سے متعلق ہیں ۔نیز کتاب اللہ کی معرفت کے ذیل میں ناسخ و منسوخ اور اسباب نزول کی معرفت بھی ضروری ہے۔([19])

۳۔ زیر تحقیق مسئلہ غیر منصوص ہو یعنی نیا مسئلہ ہو۔

یہاں میں یہ امر واضح کروں کہ درحقیقت اجتہاد کی تین اقسام ہیں:

۱۔اجتہاد بیانی ۲۔ اجتہاد قیاسی ۳۔ اجتہاد استصلاحی

اجتہاد کے اسالیب میں سے سب سے مضبوط مستحکم اور محفوظ اسلوب قیاس ہے۔ امام ابو بکر الجصاص ﷫ کے مطابق کسی غیر منصوص پیش آمدہ مسئلہ پر منصوص حکم کی علت کی بناء پر اصل کے مطابق نئے پیش آمدہ مسئلہ پر حکم لگانا اجتہاد قیاسی ہے۔([20])

انسانی مصلحت اور ضرورت کی بناء پر استنباط احکام کے منہج کو ’اجتہاد استصلاحی ‘کہتے ہیں۔سلطان العلماء علامہ عز الدین ﷫لکھتے ہیں:

"وَالشَّرِیعَةُ کُلُّهَا مَصَالِحُ إمَّا تَدْرَأُ مَفَاسِدَ أَوْ تَجْلِبُ مَصَالِحَ"

’’شریعت سراسر مصلحتوں پر مبنی ہے۔ یا تو مفاسد ختم کرتی ہے یا مصلحتوں کو حاصل کرتی ہے۔‘‘([21])

اسی طرح اجتہاد کی ایک اور قسم ’استحسان ‘بھی اصولیین بیان کرتے ہیں۔ ’استحسان ‘کے اصول میں بنیادی فلسفہ لوگوں کو پیش آمدہ نئے مسائل میں حائل مشکلات اور دشواریوں کو دور کر کے ان کے اجتماعی امور میں سہولت پیدا کرنا ہے۔ اس کی ضرورت و اہمیت کے حوالے سے مولانا یوسف فاروقی لکھتے ہیں:

’’جدید دور میں استحسان کا اصول بہت ناگزیر ہو گیا ہے۔ بے شمار ایسے مسائل ہیں جو بذریعہ قیاس حل نہیں کئے جاسکتے انہیں استحسان ہی کے ذریعہ حل کیا جا سکتا ہے۔‘‘([22])

اس کی مثالوں میں فاروقی صاحب نے انتقال خون، آپریشن اور پوسٹ مارٹم کا ذکر کیا ہے۔

ڈاکٹر وہبہ الزحیلی ﷫نے اجتہاد کی تین اقسام کو یوں بیان کئے ہیں:

الأول: الاجتهاد البياني- وذلك لبيان الأحكام الشرعية من نصوص الشارع .

الثاني: الاجتهاد القياسي– وذلك لوضع الأحكام الشرعية للوقائع الحادثة مما ليس فيها كتاب ولاسنة، بالقياس على ما في نصوص الشارع من أحكام .

الثالث: الاجتهاد الاستصلاحي- وذلك لوضع الأحكام الشرعية أيضا، للوقائع الحادثة مما ليس فيهاكتاب ولا سنة، بالرأي المبنى على قاعدة الاستصلاح .

’’پہلی قسم: اجتہاد بیانی: نصوص میں سے شرعی احکام کو اخذ کرنا اجتہاد بیانی ہے۔

دوسری قسم: اجتہاد قیاسی: احکام شارع کی بناء پر نئے پیش آمدہ مسائل کے لیے قیاس کے ذریعے احکام اخذکرنا اجتہاد قیاسی ہے۔

تیسری قسم: اجتہاد استصلاحی: استصلاح کے قاعدہ کی روشنی میں نئے پیش آمدہ مسائل جو کتاب و سنت میں موجود نہ ہو کے لیے حکم اخذ کرنا اجتہاد استصلاحی ہے۔‘‘([23])

نئے پیش آمدہ مسائل کے حل کرنے میں فقہاء و مجتہدین کی گراں قدر کاوشیں

آج فقہ کی شکل میں اسلامی قانون کا جو ایک وسیع اور گراں قدر ذخیرہ ہمارے پاس موجود ہے، وہ دراصل فقہاء کی اجتہادی کاوشوں کا مرہون منت ہے۔ زمانے کے تغیر کے ساتھ اسلامی معاشرے اور اسلامی حکومتوں کو جن نئے مسائل و معالات کا سامنا کرنا پڑا ہمارے فقہاء و مجتہدین نے اسلامی شریعت کی روشنی میں ان کا حل تلاش کیا اور اس طرح اسلامی قانون میں وسعت پیدا ہوتی رہی۔

دراصل قرآن و سنت کی محدود نص سے لامحدود مسائل کے حل کے لیے ایک شاندار اور پائیدار علم اصول فقہ کی صورت میں وجود میں آیا۔ اس میں قرآن و سنت، اجماع و قیاس جیسے بنیادی مآخذ اور عرف، استحسان و مصالح مرسلہ وغیرہ جیسے ثانوی مآخذ پر مفصل تحقیق کی گئی۔ پھر ان مآخذ کی بنیاد پر فروعات یعنی جزوی مسائل کا ایک عظیم ذخیرہ فقہ کی صورت میں وجود میں آیا۔ علم اصول فقہ میں اجتہاد کے ضوابط متعین کئے گئے۔ اجتہاد کی تعریف سے لے کر اس کی شرائط تک کی تفصیلات طے کی گئیں تاکہ غالی، مبطل اور جاہل لوگ اجتہاد کی آڑ میں احکام شریعت کو تختہ مشق نہ بنالیں اور اپنے تئیں مجتہد ہونے کے دعویدار نہ بن بیٹھیں۔

ہر دور میں آنے والے علماء نے اپنے پیش رو علماء جو علم و تقویٰ میں برتر تھے، کے علوم سے استفادہ کرتے ہوئے، انہی کی بیان کردہ فروعات میں گہرے غورو فکر کے ذریعے اپنے دور کے پیش آمدہ مسائل کے امثال و اشباہ تلاش کئے ۔پھر جہاں ائمہ اسلاف کے ہاں کوئی مثیل و شبیہ نہ ملی وہاں استحسان، عرف و عادت اور مصالح مرسلہ وغیرہ سے مدد لیتے ہوئے جدید مسائل کا حل پیش کیا۔

مشہور فقیہ علامہ ابن عابدین شامی﷫لکھتے ہیں:

"فکثیر من الاحکام یختلف باختلاف الزمان لتغیر عرف أهله أو حدوث ضرورة أو فساد أهله بحیث لو بقی الحکم علی ما کان علیه أولا للزم منه المشقة والضرر بالناس ولخالف القواعد الشرعية المبنية علی التخفیف والتیسير و دفع الضرر والفساد لبقاء العالم علی اتم نظام واحسن احکام"([24])

’’بہت سے احکام ہیں جو زمانہ کی تبدیلی کے ساتھ بدل جاتے ہیں، اس لیے کہ اہل زمانہ کا عرف بدل جاتا ہے، نئی ضرورتیں پیدا ہوجاتی ہیں، اہل زمانہ میں فساد (اخلاق) پیدا ہوجاتا ہے۔ اب اگر حکم شرعی پہلے ہی کی طرح باقی رکھا جائے تو یہ مشقت اور لوگوں کے لیے ضرر کا باعث ہوجائے گا اور ان شرعی اصول و قواعد کے خلاف ہوجائے گا جو سہولت و آسانی اور نظام کائنات کو بہتر اور عمدہ طریقہ پر رکھنے کے لیے ضرر و فساد کے ازالہ پر مبنی ہیں۔‘‘

ضرورت اس بات کی ہے کہ ان مسائل پر جذباتی ہوئے بغیر، سنجیدگی کے ساتھ مثبت انداز میں غور کیا جائے، افراط و تفریط سے بچتے ہوئے اعتدال کی راہ اختیار کی جائے ۔اور ایسے مسائل پر غور کرتے ہوئے ان لوگوں میں جبر محض اپنی تجدد پسندی میں پورے دین کا بخیہ ادھیڑنے میں مصروف ہیں اور ان لوگوں میں جو دین کے معاملہ میں مخلص ہیں اور دین کے حدودد اربعہ میں رہتے ہوئے کوئی بات کہتے ہیں، فرق ملحوظ رکھا جائے۔

عصر حاضر میں اجتہاد کی صورتیں

معاشرتی زندگی سے متعلق جدید مسائل کا معاملہ نہایت اہم ہے۔ آج انسانیت کو جن مسائل کاسامنا ہے وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ علماء کی انفرادی اجتہادی کاوشوں کے بجائے اجتماعی سطح پر اجتہاد کے کام کو فروغ دیں۔ بہت سے حالات و واقعات اس طرح باہم مربوط اور ایک دوسرے پر موقوف ہوتے ہیں کہ جب تک ان کے ربط و تسلسل کو نہ سمجھا جائے متعلقہ مسائل میں مجتہدانہ اور مبصرانہ نظر نہیں پیدا ہوسکتی۔ اسی طرح بعض مسائل اس قدر انفرادی نوعیت کے ہوتے ہیں کہ ان کا اجتماع سے تعلق جوڑنے اور اجتماعی نقطہ نگاہ سے ان کا حل ڈھونڈنے میں بڑی دقت نظری اور انتہائی کاوش کی ضرورت ہوتی ہے۔ جن معاشرتی اور اجتماعی مسائل پر قوموں کی بقاء کا انحصار ہوتا ہے انہیں حل کئے بغیر قومی و ملی زندگی کی بقا ناممکن ہوتی ہے۔

معاشرتی زندگی کے مسائل حل کرنے کے لیے اسلامی انقطہ نگاہ مغربی مفکرین کے نقطہ نگاہ سے بالکل مختلف ہے۔ دور جدید میں مغرب کا انداز فکر یہ ہے کہ عوام کی اکثریت کی رائے کو قانونی حیثیت مل جاتی ہے خوا ہ وہ معاملہ دینی و مذہبی اور اخلاقی اعتبار سے کتنا ہی ناجائز کیوں نہ ہو۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے قانون کا سر چشمہ ہدایت الٰہی ہے۔ ائمہ اسلام ہر مسئلہ حل اور اس کی بنیاد قرآن و سنت سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

امام شاطبی﷫ نے لکھا ہے:

"فلا بد من حدوث وقائع لا تكون منصوصًا على حكمها، ولا يوجد للأولين فيها اجتهاد، وعند ذلك؛ فإما أن يترك الناس فيها مع أهوائهم، أو ينظر فيها بغير اجتهاد شرعي، وهو أيضًا اتباع للهوى، وذلك كله فساد" ([25])

’’یہ ضروری بات ہے کہ ایسی نئی نئی صورتیں پیش آئیں جن کا صریح حکم نہ موجود ہو اور نہ پہلے لوگوں نے ان میں اجتہاد کیا ہو ایسی حالت میں اگر لوگوں کو آزاد چھوڑ دیا جائے کہ وہ من مانی کاروائی کریں یا اجتہاد شرعی کے بجائے محض اٹکل کے تیر چلائیں تو یہ فساد اور ہلاکت و بربادی ہے۔‘‘

ہدایت الہٰی کی تکمیل کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ اس میں ہر دور و زمانہ کے لیے جزئیات و فروع کی تفصیل اور موقع و محل کی تعیین کی گئی ہے بلکہ یہ کہ مجموعی حیثیت سے۔

۱۔ عقائد کے قواعد ۲۔شرائع کے اصول ۳۔اقتضاء و مصالح کے مطابق استنباط کے قوانین میں اس کی تکمیل کی گئی ہے -جیسا کہ فقہاء نے آیت ﴿ اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ ﴾ ’’آج میں نے تمہارا دین کامل و مکمل کردیا ‘‘ کا محل ان ہی تینوں کو قرار دیا ہے۔

"هوالتنصیص علی قواعد العقائد والتوقیف علی اصول الشرع وقوانین الاجتهاد لاادراج حکم کل حادثة فی القرآن"([26])

’’دین کی تکمیل کا مطلب یہ ہے کہ اس میں قواعد کی تصریح ہے، شرائع کے اصول بیان ہوئے ہیں اور اجتہاد کے قوانین کی نشاندہی کی گئی ہے یہ نہیں ہے کہ ہر جزئی واقعہ و حادثہ کا حکم قرآن حکیم میں موجود ہے۔‘‘

عصر حاضر میں بہت سے معاشرتی، معاشی اور سیاسی مسائل کے حل کے لیے اگرچہ مروجہ فقہی رہنمائی ناکافی معلوم ہوتی ہے لیکن ہدایت الہٰی کی روشنی میں ضرورت کے مطابق اجتماعی اجتہاد کے ذریعہ انہیں حل کرنے کی گنجائش نکالی جا سکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ایسے علمی وتحقیقی مراکزاور فقہی اکیڈمیاں قائم کرنے کی ضرورت ہے جو اجتماعی اجتہاد کے اس کام کو آگے بڑھا سکیں۔

اجتماعی اجتہاد اور اجتماعی فتوی کی ضرورت اس لیے ہے کہ انفرادی اجتہاد نیز انفرادی فتوی امتِ مسلمہ کے انتشار کا باعث بن رہا ہے، جبکہ اجتماعی اجتہاد اور فتویٰ امت مسلمہ کے اتحاد کا باعث ہے۔

ڈاکٹر طاہر منصوری رقم طراز ہیں:

’’آ ج کے عالم و فقیہ کو جن مسائل و امور کا سامنا ہے، وہ ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ گنجلک اور پیچیدہ ہیں۔ وہ اس قدر متنوع ہیں کہ انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ ان متنوع مسائل و امور کا کماحقہ ادراک اور ان کی شرعی حیثیت کا تعین ایک فرد کے لیے عملاً ناممکن ہے۔ یہ صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ آج کا اجتہاد محض علماء کی انفرادی کاوشوں کا مرہون منت نہ ہو بلکہ اجتماعی سطح پر علماء کی مجالس کے ذریعے ہو۔ اجتہاد کا کام فقہی اکیڈمیاں اور ادارے انجام دیں۔ ان اداروں میں عالم اسلام کے جید و ممتاز علماء کو نمائندگی حاصل ہو علماء کے علاوہ مختلف عصری علوم اور تخصصات کے ماہرین بھی اس مشاورتی عمل میں شریک ہوں جو زیر بحث مسئلے کو فنی نقطہ نظر سے سمجھنے میں علماء کی مدد کریں۔ یہ تمام افراد مل کر امت مسلمہ کے اجتماعی زندگی کے مسائل پر شرعی نقطہ نظر سے غوروفکر کریں اور پیش آمدہ مسائل کا شرعی حل دریافت کریں۔ اس طرح کا ایک منظم اجتماعی و شورائی اجتہاد ہی فقہ اسلامی کی معاصر ضررتوں کو پورا کرسکتا ہے۔‘‘([27])

آج کے عالم و فقیہ کو جن اجتہاد طلب مسائل کا سامنا ہے ان کا تعلق مختلف النوع موضوعات سے ہے، ان موضوعات کا ادراک و احاطہ اور ان میں مہارت تامہ ایک عالم و فقیہ کے لیے عملاً ناممکن ہے۔ اس نقص کا ازالہ اجتماعی مجالس کرسکتی ہیں۔ اجتماعی اجتہاد کی مجالس میں مختلف تخصصات کے علماء معروضہ مسئلے کو سمجھنے اور اس کے بارے میں شرعی نقطہ نظر متعین کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔

اجتماعی اجتہاد کے لیے معاصر اہل علم کی آراء

عالم اسلام کے ممتاز فقیہ علامہ مصطفی احمد زرقا لکھتے ہیں:

’’آج کے عہد میں فقہ اسلامی کے مفاد میں ہے کہ نئے مسائل میں اجتہاد کیا جانے والا اجتماعی طرز کا ہو، اسلامی تاریخ کے روشن عہد کا انفرادی اجتہادنہ ہو۔ یہ ایک اجتماعی مشارت کی شکل ہو جس میں عالم اسلام کے ممتاز علماء و فقہاء پیش آمدہ مسائل پر غوروخوض کریں۔‘‘

عہد حاضر کے ایک اور جىد فقیہ علامہ یوسف القرضاوی ﷫لکھتے ہیں:

’’ہمیں جدید اور غیر معمولی اہمیت کے مسائل میں صرف انفرادی اجتہاد پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔ ایسے مسائل میں ہمیں اجتماعی اجتہاد کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔‘‘ ([28])

خلاصہ بحث

اجتہادکے فروغ کے لیے چند عملی تجاویز

1.پاکستان میں بعض ادارے اجتماعی اجتہاد کے فروغ میں بہت معاون ہوسکتے ہیں ان میں اسلامی نظریاتی کونسل ایک اہم ادارہ ہے اس نے بہت سی اہم سفارشات مرتب کی ہیں جو ہماری تاریخ کا حصہ ہیں اس ادارہ کو تھوڑی سی کوشش سے زیادہ موثر بنایا جاسکتا ہے۔

2. شریعہ اکیڈمی (بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی) جو پاکستان کی جامعات میں واحد ادارہ ہے اگر اس ادارے کو وسائل مہیا ہوں اور یہ ادارہ امت مسلمہ کو درپیش مسائل پر ملکی اور عالمی سطح پر سیمینار کا اہتمام کرے تو یہ ادارہ بھی اجتماعی سوچ و فکر کو پروان چڑھانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

3. دستوری اور قانونی مسائل پر وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں شریعہ ایپیلٹ بینچ بھی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ فیڈرل شریعہ کورٹ کے کئی فیصلے اجتہادی نوعیت کے ہیں اسی طرح سپریم کورٹ کے شریعہ بینچ کے بعض فیصلے خصوصاً سود کی حرمت کے بارے میں اس کا طویل فیصلہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔

4. ہمارے ملک کے مدارس میں دارالافتاء ایک منظم شعبہ کی حیثیت رکھتا ہے جہاں ایک وقت میں کئی کئی مفتی حضرات خدمت انجام دے رہے ہیں۔ یہ مدارس اب انٹرنیٹ اور ای میل کی سہولتوں سے بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اگر دینی مدارس کے دارالافتاء کے شعبوں کو ای میل اور انٹرنیٹ کے ذریعہ مربوط کردیا جائے اور تمام مفتی حضرات اہم فقہی امور پر باہمی مشوروں سے فتاویٰ جاری کیا کریں تو یہ عمل بھی اجتماعی اجتہاد کی طرف ایک قدم ہوگا اور اس کے ان شاء اللہ دور رس اثرات ہوں گے۔

5. فقہ اسلامی کا ایک مستقل شعبہ او آئی سی کی زیر نگرانی قائم ہونا چاہئے۔ فقہ اسلامی کے مختلف موضوعات پر مہارت رکھنے والے اہل علم کی ایک ٹیم اس ادارہ کی مستقل ممبر ہو جو کل وقتی ارکان کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے ۔اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کے وہ ادارے جو فقہ اسلامی کی ترویج و اشاعت کا کام کررہے ہیں ان سب کو او آئی سی کے مجمع الفقہ الاسلامی کے ساتھ مربوط کردیا جائے۔ اس ادارہ کو جدید دور کی تمام سہولتیں مہیا کی جائیں تاکہ وہ عالم اسلام کے تمام اہم اداروں اور اہل علم سے رابطے رکھ سکیں اور اس ادارے کے توسط سے عالم اسلام کے فقہاء کی آراء اور ان کے دلائل وغیرہ کا باہم تبادلہ ہوتا رہے۔اس تبادلہ خیال اور بحث و تحقیق کے نتیجہ میں جن موضوعات پر اہل علم کا اتفاق ہوجائے انہیں متفق علیہ مسائل کے طور پر شائع کیا جاسکتا ہے۔([29])

عصر حاضر میں الیکٹرانک ٹیکنالوجی کی بدو لت علم کے بہت سے ایسے جدید ذرائع وجود میں آئے ہیں جس سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ استفادہ ممکن ہے۔لوگ اپنی سہولت کی خاطر ثانوی نوعیت کے مراجع پر قناعت کرتے ہیں۔ ائمہ اسلاف جیسا زہد و ورع اور تقویٰ کا تو دور دور تک نام ونشان نہیں ہے۔ نفس پرستی، مسلکی تعصب اور احکام شریعت میں سہولتوں کی تلاش نے اسلامی تعلیمات کا اعلی مقصد اوجھل کر دیا ہے۔ امام ابوحنیفہ﷫، امام مالک﷫، امام شافعی﷫، امام احمد﷫اور ان جیسے فقہاء کی عزیمت، خشیت الہٰی اور خدا کی رضا جوئی کا جذبہ عنقا ہو گیاہے۔ علم وتحقیق اور زہد و ورع اور تقوی و طہارت کے حامل لوگ خال خال ہی پائے جاتے ہیں۔ ان حالات میں پیش آمدہ جدیدمسائل فقہہ کے بارے میں انفرادی غوروفکر اور تدبرکے ذریعہ اجتہاد ممکن نہیں رہا کہ اس میں غلطیوں اور کوتاہیوں کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ موجودہ حالات میں صحیح طریقہ اجتماعی غورو فکر کے ذریعہ اجتماعی اجتہاد ہے، کیونکہ اجتماعیت انفرادی کوتاہیوں اور غلطیوں کی تلافی کردیتی ہے۔ مختلف علوم و فنون کے ماہر مجتہدین جب متعلقہ مسئلہ کے حل کے لیے اجتماعی کا وش کرتے ہیں تو اس سے بہتر نتائج کی توقع ممکن ہوتی ہے۔ اسی طرح اجتماعی اجتہاد کایہ طریقہ امت ِ مسلمہ کے اتحاد کا باعث بھی ہے۔

حوالہ جات

  1. () الزحیلی، وهبه بن مصطفی، الفقه الإسلامی وأدلته، دمشق، سوریہ، دار الفکر(1 :134)۔
  2. () ابن منظور، لسان العرب(3 :135) ؛ رازی، الشیخ الامام محمد بن ابی بکر بن عبدالقادر الرازی الحنفی ،660ھ، مختار الصحاح، بیروت، لبنان، داراحیاء التراث العربی 319ھ 1999 (114)۔
  3. () غزالی، ابو حامد محمد بن محمد الغزالی (450۔505ھ)۔ المستصفی من علم الاصول۔ بیروت، لبنان: دارالکتب العلمیہ، 1413ھ؍1993ء (ص281) ؛ اسعد عبد الغنی کفراوی، ڈاکٹر، الاستدلال عند الأصولیین، مصر، دار السلام، 2005(308)۔
  4. () ابوداود، سلیمان بن أشعث السبحستانی (202۔275ھ/817۔889ء) سنن ابي داود، ۔ بیروت، لبنان: دار الفکر، 1414ھ/1994ء، کتاب الأقضیة، بَابُ اجْتِهَادِ الرَّأْيِ فِي الْقَضَاء(3: 303،رقم: 3592)۔
  5. () اصلاحی ،امین احسن ، اسلامی قانون کی تدوین، مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور، 1963ء(61)۔
  6. () ایضا( 30،31)۔
  7. () البقرہ:150
  8. () النساء: 59
  9. () سنن أبي داود، کتاب الأقضیة، بَابُ اجْتِهَادِ الرَّأْيِ فِي الْقَضَاء(3: 303، رقم:3592)۔
  10. () البخاري، ابو عبد اﷲ محمد بن اسماعیل (194۔256ھ/810۔ 870ء) صحيح البخاري، بیروت، لبنان ، کتاب الإعتصام بالکتاب والسنة، باب أجر الحاکم إذا اجتهد فأصاب أو أخطأ(6: 2676، رقم:6919)؛ مسلم، ابن الحجاج ابو الحسن القشیری النیسابوری (206۔ 261ھ/821۔875ء)۔ الصحیح۔ بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربی، کتاب الأقضیة، باب بیان أجر الحاکم إذا اجتهد فأصاب أو أخطأ(3 :1342، رقم:1716)۔
  11. () شوکانی، محمد بن علی بن محمد الشوکانی 1255ھ، ارشاد الفحول إلی تحقیق الحق من علم الأصول، دارالکتاب العربی ،بیروت لبنان ، 1419ھ؍1999ء(2: 141)۔
  12. () شاطبی، ابراهيم بن موسی اللخمی الشاطبی (790ھ) الموافقات فی اصول الشریعة،، دار المعرفۃ، بیروت (4: 95)۔
  13. () نجم الدین الطوفي، سلمان بن عبد القوی بن عبد الکریم(716ھ)، شرح مختصر الروضۃ، بیروت، لبنان ، 1407ھ/1987ء(3: 242)۔
  14. () شوکانی، محمد بن علی بن محمد الشوکانی 1255ھ، ارشادالفحول، بیروت لبنان1412ھ/1992ء( 375)۔
  15. () شاطبی، الموافقات(4: 90)۔
  16. () وهبة الزحیلی ، اصول الفقه الإسلامى( 2: 1031-1168)۔
  17. () قانون کی تدوین( ص58)۔
  18. () رزکشی، محمد بن بہادر، البحر المحیط، قاہرہ، مصر،1424ھ(4: 274)۔
  19. () جصاص، ابوبکر أحمد بن علی الرازی، الفصول في الأصول، کویت، وزارۃ الأوقاف، 1414ھ(4: 274)؛ الباجی، ابو الولید سلیمان بن خلف، احکام الفصول في أحکام الأصول، بیروت لبنان، 1989ء(2: 637) ؛ قراقی، احمد بن ادریس، نفائس الاصول في شرح المحصول، ریاض،المملکة السعودية العربیة، مکتبۃ المصطفی نزار الباز، 1997ء(9: 1414)۔
  20. () الفصول فی الأصول، کویت، وزارۃ الأوقاف الکویتیة: 1994ء( 4: 10)۔
  21. () عز الدین ، ابو محمد، عبد العزیز بن عبد السلام بن ابی القاسم بن الحسن السلمی الدمشقی ، الملقب بسلطان العلماء (660 ھ)، قواعد الأحکام فی مصالح الأنام، دار الکتب العلمیة - بیروت، لبنان، 1414ھ؍1991ء(1: 11) ۔
  22. () فاروقی، مولانا، محمدیوسف، اجتہاد مناہج و اسالیب، شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی یونیورسٹی ، پاکستان، 2009ء(ص: 60)۔
  23. () الدواليبي ، د . معروف، المدخل إلى علم أصول الفقه، الطبعة الثالثة، مطبعة دمشق، ط - 1959 (ص: 75) ؛ الفقه الإسلامي وأدلته(2 : 1040)۔
  24. () ابن عابدين، محمد امين افندي،رسائل ابن عابدین،مكتبة الهاشمية ، دمشق(1: 126) ۔
  25. () الموافقات(4 :104)۔
  26. () تلویح (ص:50)۔
  27. () منصوری، ڈاکٹر طاہر، فقہ کی تشکیل میں اجتماعی اجتہاد کا کردار،عصر حاضر میں اجتہاد اور اس کی قابل عمل صورتیں، لاہور، شیخ زاید اسلامک سنٹر جامعہ پنجاب، 2004ء ( ص:70)۔
  28. () فقہ کی تشکیل میں اجتماعی اجتہاد کا کردار،عصر حاضر میں اجتہاد اور اس کی قابل عمل صورتیں( ص:82 تا 84)۔
  29. () اجتہاد اور اس کے مناہج واسالیب، عصر حاضر میں اجتہاد اور اس کی قابل عمل صورتیں( ص:64 تا 66)۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...