Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tabyīn > Volume 3 Issue 1 of Al-Tabyīn

بزرگ افراد کے ساتھ مروجہ معاشرتی روىے |
Al-Tabyīn
Al-Tabyīn

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060060947_605

Pages

93-123

Chapter URL

https://sites2.uol.edu.pk/journals/al-tabyeen/article/view/141

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات میں سے انسان کو علم ،عقل، صلاحیت اور فہم وفراست کی بنا پر اشرف المخلوقات بنایا ۔ سارے انسان ایک جیسے نہیں ہیں بلکہخلوقات بنایا ۔ اس کو لعہmarriages have been approved by the prominent scholars omarriage deed. 2017, p.125 a newly couyp ان میں بچے ،جوان ،بوڑھے ،محتاج وکمزور اور بیمار واپاہج مختلف انواع ہیں ۔ دوسری طرف نسل انسانی مختلف مذاہب ومسالک، رسوم ورواج،قبائل وخاندان ،رنگ ونسل اوروطن و ملک میں بھی تقسیم ہے لیکن ان تمام تر تفرقات کے باوجود ان میں کچھ قدریں مشترک بھی ہیں اور انسانی آبادی میں ان اقدار پر عمل ہوتا رہا ہے جن میں بچوں سے شفقت ومحبت اور بوڑھوں کا ادب واحترام تمام اقوام ومذاہب اور معاشروں میں پایا جاتا ہے ، لیکن آج بدلتے حالات کے ساتھ بہت سی انسانی قدریں پامال ہو رہی ہیں مغربی ممالک اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے معاشروں میں سن رسیدہ افراد (Senior Citizens) کے حقوق کی حالت بہتر نہیں، اولاد اپنے فطرتی فرائض سے بے اعتنائی برت رہی ہے اوربزرگ افراد اپنے ہی گھر سے نکلنے پر مجبور ہو رہے ہیں اور مخصوص رفاہی اور ثقافتی اداروں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں اور آئے دن ان پر زیادتی کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔مسلم خاندان ومعاشرے میں بھی بتدریج تبدیلیاں آرہی ہیں لہذا ضروری ہے کہ عمر رسیدہ لوگوں کے حقوق اور ان کے ادب واحترام اور خدمت وخبر گیری کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات کی و ضاحت کی جائے۔

موجودہ دور میں عمر رسیدہ شہریوں کے لیے جو ادارے معرض وجود میں آئے ہے ان اداروں کو

(Day Care Centres, Old Age Homes, Paid Home Care, Shelter Houses)

جیسے خوبصورت نام دیے گئے ہیں۔ ان میں بزرگ ، معذور اور بے سہارا افراد کی دیکھ بھال کا دعوی ٰ کیا جاتا ہے۔بظاہر یہ ایک انسانی خدمت اور موجودہ دور کی ایک بڑی دریافت معلوم ہوتی ہے لیکن اس کے پیچھے کرب والم کی جو کہانی ہوتی ہے وہ عموماً نگاہوں سے پوشیدہ رہتی ہے۔ زیر نظر مقالہ میں ہم پہلے اس معاملہ کے محرکات ، نتائج اورموجودہ دور کی کوششوں کا جائزہ لیں گے پھر اسلامی نقطہ نظر سے اس کا حل پیش کریں گے اورسیرت طیبہ کی روشنی میں سن رسیدہ لوگوں کے ساتھ حضور نبى اكرمﷺ کے کریمانہ سلوک کی وضاحت کریں گے۔

سماجی میدان میں جن چیزوں کا شمار موجودہ دورکی اہم کا ر گزاریوں میں ہوتا ہے ان میں سے ایک عمر رسیدہ شہریوں کے لیے رفا ہی اور ثقافتی اداروں کا قیام ہے ۔ ان اداروں کو بہت خوب صورت نام دیے گئے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ان اداروں نے معاشرے کی ایک اہم ضرورت پوری کی ہے۔ ان میں معمر، معذور اور بے سہاراافراد کی،جن سے ان کے اپنے بھی منہ پھیر لیتے ہیں ، مناسب دیکھ بھا ل کی جا تی ہے۔ سکون ، اطمینا ن اورسہولیات کا ماحول فراہم کیا جا تا ہے اور وہا ں اپنے ہم عمر وں کے ساتھ ان کی زندگی کے آخری ایام بڑی خوشی ومسرت کے ساتھ کٹ جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں بزرگ شہریوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 14 دسمبر1990 ء کو ایک قرار داد منظور کی جس میں کہا گیا کہ ہر سال یکم اکتوبر کو بزرگ شہریوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جائے گا۔اسی طرح یکم اکتوبر 1991، ء کو پہلی مرتبہ بزرگوں کا عالمی دن منایا گیا۔[1] بزرگ شہریوں کے عالمی دن کو منانے کا مقصد لوگوں کی توجہ بوڑھے افراد کے حقوق کی جانب دلانا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں تقریباً 700 ملین افراد کی عمر 60سال سے اوپر ہے اور اعداد و شمار کے مطابق اس عمر کے افراد کی آبادی سال 2030 میں 1.4 بلین اور 2050 میں 2 بلین افراد تک پہنچ جائے گی۔ عالمی سطح پر ساٹھ سال سے زائد عمر افراد کی تعداد میں ہر ماہ دس لاکھ کا اضافہ ہورہا ہے اور اس وقت دنیا کی دس اعشاریہ آٹھ  فیصد آبادی عمر رسىدہ افراد پر مشتمل ہے۔([2] )یہاں ہم پہلے اس معاملہ میں موجودہ دور کی کوششوں ،ان کے محرکات اور نتائج کا اختصار سے جائز ہ لیں گے اور پھر ان کے بارے میں اسلامی نقطہ نظرواضح کریں گے۔

بزرگ افراد کے ساتھ مروجہ معاشرتی رویے

سفید بال ، مرجھایا ہوا چہرہ، ہاتھ میں لاٹھی، چال میں سست روی، لڑکھڑاتی زبان، یہ معاشرہ کا وہ کمزور طبقہ ہے، جسے ہم بوڑھوں کے نام سے جانتے ہیں۔ انسانی زندگی کئی مراحل سے گزرتے ہوئے بڑھاپے کو پہنچتی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ﴾ ([3])

’’ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ہے، پھر (رفتہ رفتہ) اس (کی حالت) کو (بدل کر) پست سے پست کر دیا۔،،

یعنی جس طرح انسان اپنی ابتداء اور شباب میں ساری مخلوقات سے زیادہ حسین اور سب سے بہتر تھا آخر میں اس پر یہ حالت بھی آتی ہے کہ وہ بد سے بدتر اور برے سے برا ہو جاتا ہے ۔ظاہر ہے کہ ىہ بدتری اور برائی اس کی ظاہری جسمانی حالت کے اعتبار سے بتائى گئی ہے کہ شباب ڈھلنے کے بعد شکل و صورت بدلنے لگتی ہے، بڑھاپا اس کا روپ بالکل بدل ڈالتا ہے، وہ بدہئیت نظر آنے لگتا ہے اور بیکار ہو كر دوسروں پر بوجھ بن کر رہ جاتا ہے۔ بڑھاپا گویا اختتامِ زندگی کا پروانہ ہے، اختتامی مراحل ہنسی خوشی پورے ہوں تو اس سے دلی تسلی بھی ہوتی ہے، رہن سہن میں دشواری بھی نہیں لیکن آج جو صورت حال سن رسیدہ افرا د کے ساتھ روا رکھی گئی ہے، اس سے ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ عمر رسیدہ افراد اپنی طبعی عمر بھی پوری کرسکیں گے، حالانکہ والدین نے بچوں کی پرورش اس امید پر کی تھی کہ وہ بڑھاپے میں والدین کا سہارا ہوں گے ، بجائے اس کے کہ یہ اولاد بوڑھے والدین کی لاٹھی وسہارا بنتے اور بوڑھے والدین کی کمزور کمر کو سہارا دیتے ، رہی سہی لاٹھی وکمر کو بھی توڑ دیتے ہیں ۔

ایک جانب معاشرہ کی یہ صورت حال ہے دوسری جانب نبی اکرم ﷺ کا اسوہ کہ آپ نے بوڑھوں کے ساتھ، کمزوروں کے ساتھ ،ضعیفوں کے ساتھ بہت ہی زیادہ حسنِ سلوک کا مظاہر کیاجہاں آپ ﷺ نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ عمر رسیدہ افراد کی قدر دانی کی تعلیم دی، وہیں آپ نے عملی طور پر اپنے طرز عمل سے عمر رسیدہ افراد کی خدمت کرکے ایک عملی نمونہ پیش کیا۔ بڑھا پا انسانی زندگی کا ایک فطری مرحلہ ہے۔

ہر شخص جو اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے وہ اپنی عمر کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے بڑ ھا پے کو پہنچتا ہے۔ اس مرحلے میں اس کے جسمانی قویٰ مضمحل ہو جاتے ہیں اور اس کی دما غی اور فکر ی صلا حیتیں بھی کم زور پڑجا تی ہیں۔ وہ حصول معاش کے لیے تگ ودو کے قابل نہیں رہ جا تا ۔یہاں تک کہ جب اس کی جسمانی کمزوری میں مز ید اضافہ ہوتا ہےتو وہ اپنے روز مرہ کے کاموں کی انجام دہی کے لیے بھی دوسروں کے سہارے کا محتاج ہو جا تا ہے۔ لیکن موجودہ دورکی نئی نسل اپنی زندگی کو بہتر اور خوش گوار بنانے میں اس قدر مصروف ہے کہ اسے اپنے بزرگوں کو سہارادینے کی بھى فرصت نہىں۔ اس کے پاس موقع نہیں ہے کہ اپنے بوڑھے والدین کے پاس کچھ وقت گزارے ان سے با ت چیت کرسکے، ان کے دکھ درد کو سن سکے اور ان کى ضرویات پوری کرسکے ۔ اس صورت حال میں یہ بزرگ بھرے خاندان میں ہونے کے باوجود تنہائی کا شکار ہو جا تے ہیں ۔ افراد ِخاندان کے سا تھ ایک چھت کے نیچے رہنے کے باوجود ان کی جانب سے ہمدردی ،غم گساری اور اپنا ئیت سے محرومی کا احساس انھیں کاٹے کھاتا ہے ۔ وہ رنج وا لم کی مجسم تصویر بن جاتے ہیں اور گھٹ گھٹ کر اپنی زندگی کے آخری دن کاٹنے پر مجبورہوتے ہیں۔ اس سما جی المیہ نے ضروت پیداکی کہ ان عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال کا انتظام کیا جائے اور ان کی پسند کا ماحول فراہم کیا جائے ۔اس کے نتیجے میں دنیا کے مختلف ممالک میں بوڑھوں کے عافیت کدے Old age Homes, shelter houses, old home care قائم کیے گئے ہىں۔

اولڈایج ہومز کی تاریخ اور موجووہ صورت حال

اولڈ ایج ہوم اصلاًبیسویں صدی عیسوی کی پیداوار ہیں ۔انیسویں صدی سے قبل ان کا کوئی تصو ر نہیں تھا۔ سب سے پہلے مغربی ممالک میں ایسے اداروں کی ضرورت محسوس کی گئى۔تاریخی طور پر بیان کیا جا تا ہے کہ 1823ء میں فلِا ڈلفیا (امریکہ)میںIndigent Widows & Single Women’s Society کے نام سے اور1850ء میں بوسٹن (امریکہ) میں Home for Aged Women کے نام سے بے سہارا خواتین کے لیے رفاہی ادارے قائم ہوئے ۔پھر بیسویں صدی میں ایسے اداروں کا قیام کثرت سے ہونے لگا اور خاص طور پر اس صدی کے نصف آخر میں اس معاملے میں تیزی آئی اور بڑے پیما نے پر عمر رسید افرادکی رہائش کے لیے مراکزقائم ہوئے۔ ([4])ایک رپوٹ کے مطابق 2005ءمیں امریکا میں بوڑھوں کے لیے قائم نرسنگ ہو مز کی تعداد گیا رہ ہزارتھی ۔اس کے بعد پانچ سال میں مزید ایک ہزار کا اضافہ ہوا۔ اور 18-2017 میں ان کی تعداد تقریباً پندرہ ہزار (15،000)سے متجاوز ہو چکی ہیں۔([5] )متعدد یورپی ممالک کا بھی یہی حال ہے۔ ان میں سے بیشترپرائیویٹ ہیں صرف چند ہی سرکاری سرپرستی میں چل رہے ہیں ۔ ان نرسنگ ہو مز میں سے زیادہ ترگزشتہ ایک دہائی میں قا ئم ہوئے ہیں ۔اب مغربی ممالک میں بڑےبڑے Resort entRetirem قائم ہونے لگے ہیں ،جن کے تمام مکین عمر رسیدہ افراد ہوتے ہیں ،ان کے لیے ہر طرح کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں ،حتیٰ کہ ان کی خدمت گزاری کے لیے خودکارمشینوں ( Robot Nurses ) کا سہارا لیا جانےلگاہے۔

اولڈایج ہومز میں فراہم کی جانے والی سہولیات

دنیا بھر میں بوڑھوں کے نرسنگ ہومز جانے کی ایک بڑی وجہ وہاں توجہ (Care) یا نگہداشت کا معیار ہے۔ مغرب میں نرسنگ ہوم جانے والے بوڑھوں کی عمر اکثر پچھتر(75) سال سے زیادہ ہوتی ہے۔ وہ عمر اور صحت کے ان مسائل سے دوچار ہوتے ہیں جب ان کو چوبیس گھنٹے نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ نرسنگ ہوم میں ان کو نرس، باورچی، صفائی والے وغیرہ کی سہولت ہر وقت میسر ہوتی ہے۔ مزید ازاں کیئر ہوم کی گاڑی شاپنگ یا اسپتال لے جاتی ہے۔ اپنے ہم عمر دوسرے بوڑھوں کے ساتھ وہ پکنک، فلم وغیرہ سےبھی لطف اندوز ہوتے ہیں اور خود کو فعال رکھتے ہیں۔ ان ہومز کا ایک اور پہلو سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ان میں عمر رسیدہ افراد کى ضرورت کی ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔کھانے پینے کا معقول انتظام ہوتا ہے۔حفظان صحت کے وسائل فراہم کیے جاتے ہیں،مثلاًگارڈن،جوگنگ ٹریک یوگا وغیرہ اور علاج معالجہ کا بہتر نظم کیا جاتا ہے۔ذہنی سکون اور تفریح کے لیے کا من روم اور ٹیلی ویژن،علمی ذوق کی آبیاری کے لیے لائبریری،ریڈنگ روم ،کمپیوٹر روم اور عبادت کے لیے جگہ (Prayer Room) باہری دنیاسے رابطہ کے لیے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ وغیرہ کی سہولیات دی جاتی ہیں ۔([6] ) کچھ نرسنگ ہوم یہ خدمات مفت فراہم کرتے ہیں تو کچھ ان کے لیے فیس وصول کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ان ہومز میں عمررسیدہ افراد کوضروت کی ہر چیز حاصل رہتی ہے۔اگر محروم رہتے ہیں تو اپنوں کے قرب ،نگہداشت اور محبت سے۔ ان اداروں میں رہنے والے کسی فرد کا انتقا ل ہو جا ئے تو پہلے اس کے بیٹے ،بٹیی یا متعلقہ عزیزکو مطلع کیا جاتا ہے۔اگروہ خوداس کی آخری رسوم ادا کرنے میں دل چسپی لے تو اس کی نعش کو اس کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ورنہ ان ہومز کے مصارف پر ہی اس کی آخری رسوم ادا کردی جا تی ہیں۔

عمر رسىدہ افراد کی اپنے گھروں سے بے زاری کے اسباب

ہر شخص کو فطری طورپر اپنے گھرسے محبت ہوتی ہے۔وہاں وہ اپنی زندگی کے قیمتی ایام گزارتاہے۔اس لیے اس کے درودیوار سے اسے انس ہوتا ہے اور افرادخانہ سے تعلق خا طر تو فطری ہے۔اس کے باوجودوہ کیا اسباب ہیں جن کی بناپر عمر رسید ہ افراداپنے گھروں سے بے زارہوجاتے ہیں اور ان کے مقابلے میں اولڈایج ہوم کو ترجیح دیتے ہیں ؟غور کرنے سے اس کے چند اسباب معلوم ہوتے ہیں۔

1۔عمررسیدہ افراد کواپنے بڑھاپے میں جتنی خبرگیری،نگہداشت اور دیکھ بھال کی ضررت محسوس ہوتی ہے وہ انھیں گھر میں نہیں مل پاتی ۔ان کے بٹیے ملازمت اور روزگارکے مسائل میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ اپنے بزرگوں کی طرف پوری توجہ نہیں دے پاتے ۔وہ زیادہ تر اوقات گھر سے باہر رہتے ہیں اور جب گھر آتے ہیں توان کی عافیت پسندی انھیں اپنے خول میں بندرکھتی ہےاور وہ اپنے آرام کو پس پشت ڈال کر والدین کی خدمت پر آمادہ نہیں ہوتے۔جس کی وجہ سے بڑے بوڑھے دل برداشتہ ہو جاتے ہیں۔

2۔اکثر گھرکا سربراہ باپ ہوتا ہے جو اس کا نظم ونسق چلاتا ہے۔گھر کے چھوٹے بڑے معاملات میں اس کی بات فیصلہ کن ہوتی ہے۔بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد بھی اس کی خواہش ہوتی ہےکہ تمام افرادخانہ اس کی بات مانیں اور اس کی پسند نا پسند کو اپنی پسند ونا پسند سمجھیں ۔دوسری طرف بچے بڑے ہوجاتے ہیں تو وہ اپنی مرضی چلانا چا ہتےہیں۔مزاجوں کا اختلاف بسااوقات ٹکراؤکی صورت پیداکردیتاہے۔اس حال میں اگر بچے باپ کی کوئی بات نہ ما نیں تو اسے اپنی سبکی محسوس ہوتی ہے اور گھرسے اس کا دل اچاٹ ہوجاتا ہے۔

3۔مغربی معاشرے میں ریاست نے سربراہ کی جگہ لے لی  ہے۔ سو اب یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ کمزور اولاد(شہری) کا خیال رکھے۔ بہت سے بوڑھے جو کیئر ہوم نہیں جاتے، جب تک کہ وہ خطرے کی حالت میں نہ ہوں، حکومت کے سوشل سروس کے ملازمین ان بوڑھوں کو گھر پر مختلف خدمات جیسے صفائی، کھانا پکانا، شاپنگ کرانا وغیرہ فراہم کرتے ہیں۔ کیئر ہومز منتقلی کا فیصلہ یا تو یہ بوڑھے شہری خود کرتے ہیں یا پھر ان کا ڈاکٹر۔ اولاد کا اس میں زیادہ عمل دخل ہوتا ہے۔

4۔مشرقی سماج میں رشتوں کی اہمیت کا احساس کم ہوگیا ہے۔ بہواپنے سسر کی اس طرح دیکھ بھال نہیں کرپاتی جس طرح شادی سے قبل اپنے باپ کی کرتی تھی ۔ دوسری طرف سسراپنی بہوسے ویسی خدمت کی امید رکھتاہے جیسی اس کی اپنی بٹیی کرتی تھی ۔اگر بہو کسی اجنبی خاندان سے آتی ہے تو بسا اوقات اسے سسر سے کوئی اپنائیت اور اُنس نہیں ہوتا ۔وہ نہ صرف یہ کہ خوداپنے سسر کی دیکھ بھال نہیں کرتی ،بلکہ اپنے شوہرکو بھی صراحۃً یا اشارةًاس سے روکتی ہے۔

5۔والد ین اپنے بچوں کو پال پوس کر بڑاکرتےہیں ،ان پر اپنی ساری کمائی خرچ کرتے ہیں، خود تکلیفیں اٹھاکر انھیں آرام پہنچاتے ہیں ، لیکن جب بچے بڑےہو جا تے ہیں اور ان کے والدین بوڑھے اور سہارے کے محتاج ہوتے ہیں تو بچوں میں شکر گزاری کا جذبہ پیدانہیں ہوتا ۔وہ خودغرضی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔وہ اپنے والدین کو ان کے ان احسانات کا بدلہ نہیں دے پاتے جوانھوں نے ان كے ساتھ ان کے بچپن میں کیے تھے۔

6۔بسااوقات مالی پریشانیاں بھی والدین کی خدمت اور دیکھ بھال میں حارج ہوتی ہیں، بیٹے کی جتنی آمدنی ہوتی ہےاس سے وہ اپنے بیوی بچوں کی کفالت ہی مشکل سے کرپاتاہے،اس بناپر والدین کی کماحقہ خدمت نہیں کرپاتا۔

دنیا میں کو ئی ادارہ خاندان کا متبادل نہیں ہو سکتا

موجودہ دور میں اولڈ ہوم جانے کی ایک اہم وجہ پرائیویسی کا تحفظ بھی ہے جو کہ مغربی معاشرے میں ایک بہت اہم عنصر ہے۔وہاں ہر انسان کو اپنی پرائیویسی بہت پیاری ہے ۔ نہ ماں باپ چاہتے ہیں کہ ان کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی ہو اور نہ ہی وہ بچوں کی زندگی میں مخل ہونا چاہتے ہیں۔ چنانچہ جب تک والدین اپنے پیروں پہ قائم رہیں، وہ اپنے گھر ہی رہتے ہیں اور جب بات بالکل بس سے باہر ہو جائے، تو اولڈ ہوم منتقل ہو جاتے ہیں۔ اس اولڈ ہوم میں ان کی پرائیویسی مکمل محفوظ ہوتی ہے اور نہ ہی وہ اولاد پہ بوجھ بنتے ہیں۔

اولڈ ہوم جانے کی ایک اور بڑی وجہ معاشی بھی ہے۔ مغربی معاشروں میں ہر شخص کو زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے کام کرنا پڑتا ہے۔ شوہر بیوی کو اپنے والدین کی خدمت پہ مجبور نہیں کر سکتا ۔ اور جب بچے کام کر رہے ہوں تو ان کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ بوڑھے ماں باپ کا اس طرح خیال رکھ سکیں جیسا کہ ان کا حق ہے۔ نوکر ركھنے كا خرچہ ہر کوئی برداشت نہیں کر سکتا ہے۔ اس لیے جب عمر رسیدہ افراد کواپنے گھروں میں اور اپنے عزیزوں کے درمیان چین وسکون نہ ملاتوان کے لیے اولڈایج ہوم قائم کیے گئے ۔لیکن یہ مسئلے کا حقیقی اورپائیدارحل نہیں ہے۔کہنے کو توان ہومز میں بوڑھوں کو ضرورت کی ہر چیزدستیاب رہتی ہے لیکن اس کے باوجودوہ اپنے عزیزوں کی محبت کے لیے ہر آن ترستےاور تڑپتے رہتے ہیں ۔ان کی یہ فطری خواہش اسی وقت پوری ہوسکتی ہے جب وہ خودکو اپنے خاندان کےدرمیان پائیں اور اپنےعزیزوں کے ذریعے ان کی خبر گیری ہو۔اسی وجہ سے سماجی ماہرین نے اولڈایج ہوم کے تصور کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اس کے منفی پہلوؤں کواجاگرکیاہے۔

بیسویں صدی کے اوائل میں امریکہ کے ایک سوشل تجزیہ کارEpstein Abranhamنے اولڈایج ہوم کے بارے میں لکھا تھا:

”یہ ادارے صاف طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ عمر رسیدہ افراد اب اس صنعتی دنیا میں کا میاب زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہے ۔ یہ رفا ہی ادارےسرگرم زندگی گزارنے کے بعد روزینہ پانے والےافرادکی انتہائی اہانت اور تذلیل کی خوف ناک علامت ہیں “ ([7])

بوڑھوں کی خبر گیری کے حوالے سےاسلام کا نقطہ نظر

اسلام نے اس مسئلے کو بہت خوب صورتی سے حل کیا ہے۔ اس نے سماج میں عمر رسیدہ افراد کو عزت واحترام کا مقام دیا ہے ، عمر رسیدہ افراد کا احترام کرنا ، ان کی ضروریات پوری کرنا اور ان کی دیکھ بھال کرنا شریعت کے بنیادی احکام میں سے ہے۔ اسی وجہ سے اسلامی معاشرے میں عمر رسیدہ افراد خصوصی مقام کے حامل ہیں۔ اس کی بنیاد اسلام کی عطا کردہ وہ آفاقی تعلیمات ہیں جن میں عمر رسیدہ اَفراد کو باعثِ برکت و رحمت اور قابلِ عزت و تکریم قرار دیا گیا ہے۔ان تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے نتیجے میں مسلم حکمرانی کے دورِعروج میں کبھی اولڈایج ہو مز قائم کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی ۔ ذیل میں قرآن وحدیث کی روشنی میں اسلام کے ان اقدامات اور تعلیمات کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔

بڑھا پا فطرت انسانی میں سے ہے

قرآن کریم میں تخلیق انسانی کے مراحل مختلف مقامات پر بیان کیے گئے ہیں اور ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی خلاقیت ،علم اور قدرت پر استدلال کیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

﴿اَللَّـهُ الَّـذِىْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضَعْفٍ ثُـمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُـمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَّشَيْبَةً ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ وَهُوَ الْعَلِيْـمُ الْقَدِيْـرُ ﴾([8])

’’اللہ ہی تو ہے جس نے تم کو (ابتدا میں) کمزور حالت میں پیدا کیا پھر کمزوری کے بعد طاقت عنایت کی پھر طاقت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ صاحب دانش اور صاحب قدرت ہے۔‘‘

انسان کی ترقی وتنزلى اور اس کی اصل تو مٹی سے ہے ۔ پھر نطفے،سے پھرخون بستہ سے، پھر گوشت کے لوتھڑے سے، پھر اسے ہڈیاں پہنائی جاتی ہیں، پھر ہڈیوں پر گوشت پوست پہنایا جاتا ہے، پھر روح پھونکی جاتی ہے، پھر ماں کے پیٹ سے ضعیف ونحیف ہو کر نکلتا ہے، پھر تھوڑا تھوڑا بڑھتا ہے اور مضبوط ہوتا جاتا ہے۔ پھر بچپن کے زمانے کی بہاریں دیکھتا ہے پھر جوانی کے قریب پہنچتا ہے پھر جوان ہوتا ہے اور بالآخر نشوونما موقوف ہوجاتی ہے۔ اب قویٰ پھر مضمحل ہونے شروع ہوتے ہیں، طاقتیں گھٹنے لگتی ہیں، ادھیڑ عمر کو پہنچتا ہے اور پھر بڈھا ہوجاتا ہے۔ طاقت کے بعد یہ کمزوری بھی قابل عبرت ہوتی ہے کہ ہمت پست ہے ، دیکھنا ،سننا، چلنا پھرنا ،اٹھنا بیٹھنا، پکڑنا غرض ہرطاقت گھٹ جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ بدن کے سارے اعضاء بالکل جواب دے جاتے ہىں اور ساری صفتیں متغیر ہوجاتی ہىں۔ بدن پر جھریاں پڑجاتی ہیں ، رخسار پچک جاتے ہیں، دانت ٹوٹ جاتے ہیں، بال سفید ہوجاتے ہیں۔ قوت کے بعد کی ىہ ضعیفی اور بڑھاپا۔ اللہ تعالىٰ كى قدرت کے ادنیٰ کرشمے ہیں ۔([9])

سورہ المومن میں یہی مضمون کسی قدر تفصیل سے وارد ہوا ہے:

﴿هُوَ الَّـذِىْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُـمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُـمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُـمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُـمَّ لِتَبْلُغُوٓا اَشُدَّكُمْ ثُـمَّ لِتَكُـوْنُـوْا شُيُوْخًا ۚ وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّـتَوَفّــٰى مِنْ قَبْلُ ۖ وَلِتَبْلُغُوٓا اَجَلًا مُّسَمًّى وَّلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾ ([10])

’’وہ (اللہ) وہی تو ہے جس نے پیدا فرمایا تم سب کو مٹی سے، پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر وہی تمہیں نکالتا ہے (تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے) ایک کامل بچے کی شکل میں پھر (وہ تمہیں بڑھاتا پالتا جاتا ہے) تاکہ تم لوگ پہنچ جاؤ اپنی (جوانی کی) بھرپور قوتوں کو (پھر وہ تم کو اور موقع دیتا ہے کہ) تاکہ تم پہنچ جاؤ اپنے بڑھاپے کی عمر کو اور تم میں سے کوئی اس سے پہلے مر جاتا ہے یہ سب کچھ اس لیے کیا جا تا ہےتا کہ تم اپنے مقرر ہ وقت تک پہنچ جاؤ اور اس لیے کہ تم حقیقت کو سمجھو۔‘‘

ان دونوں آىات میں پیدائش سے قبل اور پیدائش کے بعد دونوں کے مراحل کا بیان ہے ۔پیدائش سے قبل کے تین مراحل (تراب (مٹی)، نطفہ اور علقہ) ہىں جبكہ بچپن ،جوانی اور بڑھا پا ہىں۔ بڑھاپے مىں انسان کے اعضائے بدن میں کم زوری ونا توانی لوٹ آتی ہےاور وہ اسی طرح دوسروں کے سہارے کا محتاج ہوجاتا ہے جس طرح بچپن میں تھا۔جب بڑھا پے میں مزید اضافہ ہوتا ہے تو انسان کی عقل بھی ماؤف ہو جاتی ہے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی کم ہو جاتی ہے۔اس مرحلے میں وہ مزید ہمدردی اور توجہ کا مستحق ہو جاتا ہے۔قرآن کریم میں اسے ارذل العمر(بدترین عمر)سے تعبیر کیا گیا ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

﴿وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفّٰىكُمْ وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَـيْــــًٔـا ۭاِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ قَدِيْرٌ﴾([11])

’’اور خدا ہی نے تم کو پیدا کیا پھر وہی تم کو موت دیتا ہے اور تم میں بعض ایسے ہوتے ہیں کہ نہایت خراب عمر کو پہنچ جاتے ہیں اور (بہت کچھ) جاننے کے بعد ہر چیز سے بےعلم ہو جاتے ہیں ۔ بیشک خدا (سب کچھ) جاننے والا (اور) قدرت والا ہے۔‘‘

یعنی بڑھاپے کی وہ حالت جس میں آدمی کو اپنے تن بدن کا ہوش بھی نہیں رہتا۔ وہی شخص جو دوسروں کو عقل بتاتا تھا ، بوڑھا ہو کر اس حالت کو پہنچ جاتا ہے جو بچے کی حالت سے مشابہ ہوتی ہے۔ اَرْذَلِ الْعُمُرِ: اس سے مراد پیرانہ سالی کی وہ عمر ہے جس میں انسان کے تمام جسمانی اور دماغی قویٰ ضعیف ہو جاتے ہیں۔ نبی کریمﷺ اس عمر سے پناہ مانگتے تھے ارشاد ہے :

"وأعوذ بك أن أرد إلى أرذل العمر"([12])

’’اے اللہ! میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں بری عمر سے ۔ ‘‘

ارذل العمر کی تعریف میں کوئی تعیین نہیں ہے البتہ آیت مذکورہ میں بھی لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَـيْــــًٔـا([13])سے اشارہ کیا ہے کہ وہ ایسی عمر ہے جس میں ہوش وحواس باقی نہیں رہتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی تمام معلومات بھول جاتا ہے۔ارذل العمر کی تعریف میں مختلف اقوال ہیں بعض نے اسی(80) سال کی عمر کو ارذل العمر قرار دیا ہے اور بعض نے نوے (90)سال کی عمر کو۔ حضرت علی ؓ کا قول ہے:

"أرذل العمر خَمْسٌ وَسَبْعُونَ سَنَةً، وَفِي هَذَا السِّنِّ يَحْصُلُ لَهُ ضَعْفُ الْقُوَى وَالْخَرَفُ، وَسُوءُ الْحِفْظِ وَقِلَّةُ الْعِلْمِ"([14])

’’ارذل العمر پچھتر(75) سال کی عمر کو کہتے ہیں اس عمر میں عموماً انسان ایسا ہی ہو جاتا ہے طاقت ختم ہو جاتی ہے، حافظہ جاتا رہتا ہے ، علم کی کمی ہو جاتی ہے، اور عالم ہونے کے بعد بےعلم ہو جاتا ہے۔‘‘

پیرانہ سال کے انتہائی درجہ میں پہنچنے کے بعد آدمی میں نہ قوت جسمانیہ رہتی ہے اور نہ ہی عقلیہ جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ایک چیز سے باخبر ہو کر پھر بے خبر ہو جاتا ہے۔ وہ تمام معلومات بھول کر بالکل بچے کی مانند ہو جاتا ہے جس کو نہ علم و خبر ہے اور نہ ہی فہم وفراست ہوتی ہے۔ انسانی زندگی کے مختلف مراحل کی یہ تفصیل بتا کر قرآن انسانوں میں یہ احساس بیدار کرنا چاہتا ہے کہ وہ عمر رسیدہ افراد کے ساتھ بہتر سلوک کریں ،ان کی اچھی طرح دیکھ بھال کریں ،ان کے کام آئیں اور ان کی ضرور تیں پوری کریں ،اس لیے کہ عین ممکن ہے کہ وہ خود بھی بڑھا پے کی عمر کو پہنچیں تو دوسروں سے اسی برتاؤ کے متمنی ہوں ۔

بڑھاپے میں انسان کا اپنے خاندان سےتعلق

انسان جب بڑھاپے کی عمر کو پہنچتا ہے تو خود کو ایک بھرے خاندان میں پاتا ہے ۔اس کے بیٹے ،بیٹیاں جو ان ہوچکے ہوتے ہیں ۔ان کی شادی کے نتیجے میں بیٹیاں دوسرے خاندان میں پہنچ جاتی ہیں اور دوسرے خاندانوں کی لڑکیاں اس کے گھر بہوبن کر آجاتی ہیں ۔پھر ان کی اولاد یں ہوتی ہیں تو پوتوں ، پوتیوں، نو اسوں ،نواسیوں کی شکل میں اس کے آنگن میں بچوں کا شور وغل اور ہنگامے سنائی دیتے ہیں۔اس چیز کو قرآن، انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل شدہ ایک نعمت قرار دیتا ہے ارشاد خداوندی ہے:

﴿وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا وَّجَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ بَنِيْنَ وَحَفَدَةً وَّرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ﴾ ([15])

’’اور اللہ تعالیٰ ہی نے تم میں سے تمہارے لئے عورتیں پیدا کیں اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے اور کھانے کو تمہیں پاکیزہ چیزیں دیں۔‘‘

اس آیت میں بیٹوں کے ساتھ پوتوں کا ذکر فرمانے میں اس طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ جوڑے بنانے کا اصل مقصد نسل انسانی کی بقا ہے کہ اولاد پھر اولاد کی اولاد ہوتی رہے تو یہ انسان کی بقاء نوعی کا سامان ہوا۔ آیت میں لفظ" حفدۃ"کے لغوى معنی خادم و مددگار کے ہیں([16])اولاد کے لىے یہ لفظ استعمال کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ اولاد کو اپنے ماں باپ کا خادم ہونا چاہىے۔ ([17] (بہرکیف بیٹوں اور پوتوں کی نعمت بھی ایک عظیم الشان نعمت ہے جس سے قدرت اپنے بندوں کو نوازتی ہے کہ بیٹوں اور پوتوں کے اس سلسلے سے اس کا نام اور اس کے وجود کا تسلسل باقی رہتاہے۔ اور یہی وہ نعمت ہے جو انسان کو اس کی موت اور انتقال کے بعد بھی کام آتی ہے۔ اور انہی کی دعاؤں اور نیک اعمال کے نتیجے میں انسان کو مرنے کے بعد بھی اجروثواب ملتارہتاہے۔ رشتہ داروں کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسان کے لیے ایک نعمت قرار دیتا ہے سورہ الفرقان میں ہے:

﴿ وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ مِنَ الْمَاۗءِ بَشَرًا فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّصِهْرًا ۭ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيْرًا﴾([18])

’’اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کے دو الگ سلسلے چلائے۔ تیرا رب بڑا ہی قدرت والا ہے۔ ‘‘

نسب اس رشتہ اور قرابت کو کہا جاتا ہے جو باپ یا ماں کی طرف سے ہو، اور" صھرہ" وہ رشتہ و تعلق ہے جو بیوی کی طرف سے ہو جس کو عرف میں سسرال بولتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے تمام انسانی معاشرہ باہمی محبت و احترام کے جذبات کے ساتھ منسلک ہے۔ یہ سب تعلقات اور قرابتیں اللہ کی دی ہوئی نعمتیں ہیں جو انسان کو خوشگوار زندگی کے لئے لازمی ہیں، اکیلا آدمی کوئی بھی کام نہیں کرسکتا۔

افرادِخاندان کے درمیان گہرا اور قریبی تعلق ہو تو انسان کو بڑی خوشی ومسرت حاصل ہوتی ہے۔وہ شاداں وفر حاں رہتا اور زمانے کے مصائب وآفات کو بھول جاتا ہے۔ان کا وجود اس کے دل کو سکون اور آنکھوں کو ٹھنڈک فراہم کرتا ہے۔اسی لیے اہل ِایمان اس کے متمنی اور سرا پاد عا رہتے ہیں۔ قرآن پاک نے ان کی التجا یوں بیان کی ہے:

﴿رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا﴾[19]

’’اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے (دل کا چین) اور اولاد کی طرف سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیز گاروں کا امام بنا۔‘‘

یعنی بیوی بچے ایسے عنایت فرما جنہیں دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی اور قلب مسرور ہو ۔ اور ظاہر ہے مومن کامل کا دل اسی وقت ٹھنڈا ہوگا جب اپنے اہل و عیال کو اطاعت الٰہی کے راستہ پر گامزن پائے۔ یعنی انھیں اپنا بھی فرماں بردار بنا اور ہمارا بھی اطاعت گزار جس سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں ۔

اسلام میں رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم

نسب اور سسرالی تعلق کے نتیجے میں جو رشتے وجود میں آتے ،اسلام انھیں خصوصی اہمیت دیتا ہے۔یوں تو اس کی نظر میں تمام انسان بھائی بھائی ہیں ۔ ایمان کا رشتہ مزید قربت وتعلق پیدا کر دیتا ہے ،چنا نچہ اگر کبھی انھیں کوئی ضرورت در پیش ہو تو ان کی مدد میں کو تا ہی نہیں کرنی چاہیے لیکن خونی رشتہ داروں کا حق ان سے بڑھ کر ہے ،ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا،ان کے دکھ درد میں کام آنا اور ان کی ضرورتیں پوری کرنا صرف اخلاقی تقاضا ہی نہیں بلکہ ایک دینی ذمہ داری ہے جیسے لازماً ادا کرنا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ ۭاِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ﴾([20])

’’اور رشتہ دار آپس میں اللہ کے حکم کے مطابق ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں بیشک اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔‘‘

لفظ "اولوا" عربی زبان میں صاحب کے معنی میں آتا ہے جس کا ترجمہ اردو میں" والے "سے کیا جا تا ہے جیسے اولوا العقل عقل والے ،اولوا الامر امر والے، اس لئے اولوا الارحام کے معنی ہوئے ارحام والے، ارحام، رحم کی جمع ہے جو اصل میں اس عضو کا نام ہے جس کے اندر بچہ کی تخلىق عمل میں آتی ہے اور چونکہ رشتہ داری کا تعلق رحم کی شرکت سے قائم ہوتا ہے اس لىے اولوا الارحام رشتہ داروں کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔([21])

آیت کے معنی یہ ہیں کہ اگرچہ ایک ولایت عامہ سب مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ حاصل ہے جس کے سبب بوقت ضرورت ایک دوسرے کی امداد و اعانت بھی واجب ہوتی ہے اور ایک دوسرے کے وارث بھی ہوتے ہیں لیکن جو مسلمان آپس میں قرابت اور رشتہ کا تعلق رکھتے ہوں وہ دوسرے مسلمانوں سے مقدم ہیں۔ فی کتب اللہ کے معنی اس جگہ فی حکم اللہ کے ہیں یعنی اللہ تعالی نے اپنے حکم خاص سے یہ قانون بنا دیا ہے ۔ قرآن میں ایک دوسرے مقام پر اور تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا ہے:

﴿وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا﴾([22])

’’اور رشتہ دار اللہ کی کتاب میں ایک دوسرے سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں بہ نسبت دوسرے مومنین اور مہاجرین کے مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں سے کچھ سلوک کرنا چاہو یہ بات لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے۔‘‘

عام مسلمانوں کے درمیان آپس کے تعلقات اس اصول پر قائم ہوں گے کہ رشتہ داروں کے حقوق ایک دوسرے پر عام لوگوں کی بہ نسبت مقدم ہیں ۔ کوئی خیرات اس صورت میں صحیح نہیں ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ ، بال بچوں ، اور بھائی بہنوں کی ضروریات تو پوری نہ کرے اور باہر خیرات کرتا پھرے۔ مال زکوٰۃ سے بھی آدمی کو پہلے اپنے غریب رشتہ داروں کی مدد کرنی ہو گی، پھر دوسرے مستحقین کو دے گا۔

قرآن کریم رشتہ داروں کا حق ادا کرنے کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى﴾([23])

’’اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے۔‘‘

اس آیت میں صلہ رحمی کا حکم دیا گیا ہے ، جو رشتہ داروں کے معاملے میں احسان کی ایک خاص صورت متعین کرتی ہے۔ اس کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے اور خوشی و غمی میں ان کا شریک حال ہو اور جائز حدود کے اندر ان کا حامی و مددگار بنے۔ بلکہ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ ہر صاحب استطاعت شخص اپنے مال پر صرف اپنی ذات اور اپنے بال بچوں ہی کے حقوق نہ سمجھے بلکہ اپنے رشتہ داروں کے حقوق بھی تسلیم کرے۔ وہ خاندان کو معاشرے کا ایک اہم عنصر ترکیبی قرار دیتی ہے اور یہ اصول پیش کرتی ہے کہ ہر خاندان کے غریب افراد کا پہلا حق اپنے خاندان کے خوشحال افراد پر ہے، پھر دوسروں پر ان کے حقوق عائد ہوتے ہیں ۔ اور ہر خاندان کے خوشحال افراد پر پہلا حق ان کے اپنے غریب رشتہ داروں کا ہے، پھر دوسروں کے حقوق ان پر عائد ہوتے ہیں ۔ جس معاشرے کا ہر شخص اس طرح اپنے اپنے خاندان کے افراد کو سنبھال لے اس میں معاشی حیثیت سے کتنی خوشحالی ، معاشرتی حیثیت سے کتنی حلاوت اور اخلاقی حیثیت سے کتنی پاکیزگی و بلندی پیدا ہو جائے گی۔ دین اسلام میں رشتہ داروں سے تعلقات بگاڑنے کی ممانعت آئی اور ان کے حقوق کی پامالی پر سخت وعید ارشاد فرمائی گئی ہے ۔ فرمان الٰہی ہے:

﴿وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْ تَسَاۗءَلُوْنَ بِهٖ وَالْاَرْحَامَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا﴾ ([24])

’’اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو بیشک اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔‘‘

حدیث مبارک میں بھی قطع رحمی پر وعید آئی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایاکہ :

قَالَ اللَّهُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی أَنَا اللَّهُ وَأَنَا الرَّحْمَنُ خَلَقْتُ الرَّحِمَ وَشَقَقْتُ لَهَا مِنْ اسْمِي فَمَنْ وَصَلَهَا وَصَلْتُهُ وَمَنْ قَطَعَهَا بَتَتُّهُ ([25])

’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں اللہ ہوں، میں رحمن ہوں، میں نے ہی رحم کو پیدا کیا اور پھر اسے اپنے نام سے مشتق کیا۔ پس جو شخص اسے ملائے گا یعنی صلہ رحمی کرے گا میں اسے ملاؤں گا اور جو اسے کاٹے گا یعنی قطع رحمی کرے گا میں اسے کاٹوں گا۔‘‘

والدین کی خدمت کرنا اولاد کی ذمہ داری ہے اور جن کی اولاد نہیں ہے اور وہ بوڑھے جو کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں تو ان کے حوالے سے اسلامی تعلیمات ىہ ہىں کہ ایسے اشخاص کے وہ رشتہ دار جو ان کی وفات کے بعد ان کے وارث بن سکتے ہیں وہ ان پر خرچ کریں ، ا گر ان کے رشتہ دار نہ ہوں یا وہ اپنی ذمہ داری پوری نہ کر ىں تو اس صورت میں ان کا خرچ اور دیکھ بھال کا انتظام ریاست کی ذمہ داری ہے۔

اسلام کی نظر میں عمر رسیدہ لوگوں کے حقوق

شریعت میں والدین اور بزرگوں کی خدمت کرنے کی تاکید مختلف مقامات پر آئی ہے، خود نبی اکرم ﷺ نے بوڑھوں، کمزوروں اور ضعیفوں کے ساتھ بہت ہی زیادہ حسنِ سلوک کا مظاہر ہ کیاجہاں آپﷺ نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ عمر رسیدہ افراد کی قدر دانی کی تعلیم دی، وہیں آپﷺنے اپنے عمل کے ذریعہ قدردانی کا ثبوت بھی مہیا فرمایا، سن رسیدہ افراد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

"إِنَّ مِنْ إِجْلَالِ اللَّهِ إِکْرَامَ ذِي الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ" ([26])

’’اللہ تعالیٰ کی عظمت وبڑائی کا تقاضہ یہ ہے کہ بوڑھے مسلمان کا اکرام کیا جائے۔‘‘

ایک موقعہ پر آپ ﷺ نے فرمایا:

"مَنْ شَابَ شَيْبَةً فِي الْإِسْلَامِ کَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ" ([27])

”جس شخص کے بال اسلام کی حالت میں سفید ہوئے ہوں اس کے لیے قیامت کے دن نور ہوگا۔‘‘

ان احادیث سے سن رسیدہ افراد کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے، اول الذکر میں آپ ﷺ نے عمر رسیدہ بوڑھوں کی رعایت کرتے ہوئے ان کی حمایت فرمائی، دوسری حدیث میں بڑھا پے کے اثرات کا اخروی فائدہ بیان کیا کہ جس پر بڑھاپا اسلام کی حالت میں آیا ہو تواس کے لیے اللہ تعالیٰ اس بڑھاپے کی قدردانی کرتے ہوئے روزِ محشر نور مقدر فرمائیں گے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بزرگوں کی عزت و تکریم کی تلقین فرمائی اور بزرگوں کا یہ حق قرار دیا کہ کم عمر اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کا احترام کریں اور ان کے مرتبے کا خیال رکھیں۔معمر افراد کی بزرگی کے باعث انہیں خاص مقام و مرتبہ عطا کیا گیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

"ليس منا من لم يرحم صغيرنا ويعرف شرف کبيرنا"۔([28]).

’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ پہچانے۔ ‘‘

عمر رسیدہ افراد کے ساتھ حضور نبى اكرمﷺکا کریمانہ طرز عمل

اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو رحمت للعالمین کا خطاب دیا ہے آپ کی رحمت ہر شے پے حاوی ہے عمر رسیدہ افراد کے عزت واحترام کے بارے میں آپ ﷺ کے ارشادات کافی تعداد میں ہیں۔ عملی طور پر بھی سیرت طیبہ کے نادر نمونے موجود ہیں، ایک مرتبہ ایک سن رسیدہ آپ ﷺ کی مجلس میں حاضر ہوئے، آنے والے کے لیے لوگوں نے مجلس میں گنجائش پیدا نہ کی، آپﷺنے اس صورتحال کو دیکھ کر صحابہ کرام﷢ سے مخاطب ہو کر فرمایا:

"لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا" ([29])

’’جو شخص چھوٹوں پر شفقت نہ کرے، بڑوں کی عزت نہ کرے، وہ ہم میں سے نہیں ۔‘‘

اس حدیث میں بزرگوں کا ادب واحترام نہ کرنے والوں کے لیے سخت تہدید ہے ، یعنی ایک مسلمان میں جو صفات ہونی چاہئیں ان میں سے ایک بڑوں کا اکرام بھی ہے۔ اگر کوئی اس وصف سے متصف نہیں تو گویا وہ ایک اہم مسلمانی صفت سے محروم ہے۔ اگر کوئی اس اہم اسلامی صفت کا خواست گار ہے تو اسے بڑوں کے اکرام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔

با جماعت نماز میں عمر رسىدہ افراد کا خیال رکھنا

دین اسلام میں نماز ایک اہم رکن ہے، اس میں بھی عمر رسیدہ افراد کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔انفرادی نماز میں انسان کو بڑی سورت اور لمبی نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ لیکن جماعت کی نماز میں بوڑھے ،کمزور اور بیمار شریک ہوتے ہیں اس لیے امام کو حکم دیا گیا کہ آسانی اختیار کرے اور نماز زیادہ لمبی نہ کرے: رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:

"إذا صلى أحدكم للناس، فليخفف، فإن منهم الضعيف والسقيم والكبير، وإذا صلى أحدكم لنفسه فليطول ما شاء"([30])

’’جب کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو اسے تخفیف کرنا چاہیے کیونکہ مقتدیوں میں کمزور اور بیمار اور بوڑھے سب ہی ہوتے ہیں اور جب تم میں سے کوئی اپنى نماز پڑھے تو جس قدر چاہے طول دے۔‘‘

ایک موقع پر آپ ﷺ نے اس امام پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا جو بوڑھے ، کمزور اور ضرورت مندوں کا خیال نہ رکھتے ہوئے لمبی نماز پڑھاتے تھے۔ ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوئے اور عرض کی:

"يا رسول الله! إني لأتأخر عن الصلاة في الفجر مما يطيل بنا فلان فيها، فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ما رأيته غضب في موضع كان أشد غضبا منه يومئذ، ثم قال: يا أيها الناس، إن منكم منفرين، فمن أم الناس فليتجوز، فإن خلفه الضعيف والكبير وذا الحاجة۔([31])

’’اے اللہ کے رسول! میں فلاں شخص کی وجہ سے نماز فجر میں دىر سے شریک ہوتا ہوں، کیونکہ وہ بہت طویل نماز پڑھاتے ہىں، پس رسول اللہﷺ اتنے غضب ناک ہوئے کہ میں نے آپ کو اس دن سے زیادہ غصہ آتے ہوئے کسی موقع پر نہیں دیکھا۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ لوگو! تم میں سے کچھ لوگ (آدمیوں کو) عبادت سے متنفر کرتے ہیں تو جو شخص لوگوں کا امام بنے اس کو تخفیف کرنا چاہیے کیونکہ اس کے پیچھے کمزور اور بوڑھے اور صاحب حاجت (سب ہی) ہوتے ہیں۔‘‘

نماز جس کو آپ ﷺ نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایاہے اورآپﷺ نماز کے انتہائی حریص تھے۔ اس حرص وطمع کے باوجود بھی بوڑھوں کی رعایت میں نماز میں تخفیف فرمادی۔ جابر بن عبداللہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص دو اونٹ پانی سے بھرے ہوئے لا رہا تھا۔ رات کا اول وقت تھا اس نے جو معاذ ؓ کو نماز پڑھاتے دیکھا تو اپنے دونوں اونٹوں کو بٹھلا دیا اور معاذ ؓ کے ساتھ نماز میں مشغول ہوا۔ معاذ ؓ نے سورۃ البقرہ یا نساء پڑھنا شروع کی، سو وہ شخص (نیت توڑ کر) چلا گیا پھر اس کو یہ خبر پہنچی کہ معاذ ؓ اس سے رنجیدہ ہیں۔ لہذا وہ نبی کریم ﷺکے پاس آیا اور آپ سے معاذ ؓ کی شکایت کی تو نبی کریمﷺنے تین مرتبہ فرمایا اے معاذ تو فتنہ برپا کرنے والا ہے (اگر ایسا نہیں ہے) تو تو نے سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأَعْلَی اور وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا اور وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَی کے ساتھ نماز کیوں نہ پڑھ لی؟ کیونکہ تیرے پیچھے بوڑھے کمزور اور صاحب حاجت (سب ہی طرح کے لوگ) نماز پڑھتے ہیں ۔اے معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو؟ تین دفعہ آپ ﷺ نے ان کلمات کو دھرایا، [32]غور وخوض کا مقام ہے کہ سن رسیدہ افراد کی رعایت کا سلسلہ نماز جیسے اہم فریضہ میں بھی جاری ہے۔

نماز کی امامت کے لیے عمر رسیدہ کو ترجیح دینا

حضور اكرمﷺ نے ساری زندگی نماز کی امامت فرمائی ۔ مرض الموت میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے امامت کے فریضہ کو انجام دیا ۔ نماز کی امامت جو ایک اعزاز کی بات ہے ، اس کے بارے میں آپ ﷺ نے عمر رسیدہ شخص کو فراموش نہیں فرمایا آپ ﷺ کا نماز کی امامت کے حوالے سے ارشاد ہے:

"يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِکِتَابِ اللَّهِ وَأَقْدَمُهُمْ قِرَائَةً فَإِنْ کَانَتْ قِرَائَتُهُمْ سَوَائً فَلْيَؤُمَّهُمْ أَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً فَإِنْ کَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَائً فَلْيَؤُمَّهُمْ أَکْبَرُهُمْ سِنًّا وَلَا تَؤُمَّنَّ الرَّجُلَ فِي أَهْلِهِ وَلَا فِي سُلْطَانِهِ وَلَا تَجْلِسْ عَلَی تَکْرِمَتِهِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا أَنْ يَأْذَنَ لَکَ أَوْ بِإِذْنِهِ"([33])

’’کہ لوگوں کا امام وہ آدمی بنے جو اللہ کی کتاب کا سب سے زیادہ جاننے والا ہو اور سب سے اچھا پڑھتا ہو۔ تو اگر ان کا پڑھنا برابر ہو تو وہ آدمی امام بنے جس نے ان میں سے پہلے ہجرت کی ہو۔ اور اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو وہ آدمی امامت کرے جو ان میں سب سے بڑا ہو۔ اور کوئی آدمی کسی آدمی کے گھر میں امام نہ بنے اور نہ ہی اس کی حکومت میں اور نہ ہی اس کے گھر میں اور اس کی عزت کی جگہ پر بیٹھے سوائے اس کے کہ اس كى اجازت ہو۔‘‘

ایک دوسری روایت میں بھی نبى كرىمﷺ نے بڑی عمر والے کو نماز میں امام بنادینے کا حکم ارشاد فرمایا ہے : حضرت مالک ؓ بیان کرتے ہیں:

"أَتَيْتُ النَّبِيَّﷺ أَنَا وَصَاحِبٌ لِي فَلَمَّا أَرَدْنَا الْإِقْفَالَ مِنْ عِنْدِهِ قَالَ لَنَا إِذَا حَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَأَذِّنَا ثُمَّ أَقِيمَا وَلْيَؤُمَّکُمَا أَکْبَرُکُمَا"([34])

’’کہ میں اور میرا ایک ساتھی رسول اللہﷺ کی خدمت میں آئے پھر جب ہم نے آپﷺ کے پاس سے واپس جانے کا ارادہ کیا تو آپﷺ نے ہمیں فرمایا کہ جب نماز کا وقت آئے تو تم اذان دینا اور اقامت کہنا اور تم میں سے جو بڑا ہو اسے اپنا امام بنا لینا۔‘‘

آپ ﷺنے نماز کی امامت کے لیے عمر کی زیادتی کو وجہ ترجیح قرار دیا اور یہ واضح اشارہ ہے کہ آپ ﷺ کے نزدیک عمر رسیدہ لوگوں کی کتنی اہمیت تھی۔

اسلام میں بوڑھوں کے لیے بڑی رعایت بھی ہے اور قدرومنزلت بھی ۔قدم قدم پران کے لیے احکام میں سہولتیں برتی گئی ہیں۔ نماز میں قیام یعنی کھڑاہونا فرض ہے، حالتِ قىام میں جھک کررکوع کرنا اور بىٹھے ہوئے سجد ہ کرنا بھی فرض ہے لیکن جولوگ بڑھا پے اور ضعف کی وجہ سے کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکیں، وہ بیٹھ کر بھی نماز پڑھ سکتے ہیں اوراشارہ سے بھی رکوع وسجدہ کیا جاسکتا ہے۔ ایسے ضعیف اور سن رسیدہ لوگوں کےلیے گنجائش ہے کہ روزہ رکھنے کے بجائے فدیہ ادا کریں، بڑھا پے کی وجہ سے سفر کی قدرت نہ ہو تو کسی اور شخص سے حج بدل کرانے کی گنجائش ہے، جہادایسے شخص سے معاف ہے۔

معمر اَفراد کی تعظیم و تکریم ہی صحت مند رِوایت کی بنیاد ہے

بڑھا پے کی عمر میں انسان چاہتاہے کہ اس کے چھوٹے اس کے ساتھ عزت وتوقیرکا معاملہ کریں، اس کو معاشرے میں بہترمقام دیا جائے اور اولاد کوئی بھی اہم فیصلہ کرنے سے پہلے اس کی رائے لے لیں تاکہ اس کی دلجوئی ہو ۔آپﷺ نے اس کا بھی پاس ولحاظ فرمایا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

"ما أکرم شاب شيخا لسنه إلا قيض اﷲ له من يکرمه عند سنه.([35]"

’’جو جوان کسی بوڑھے کی عمر رسیدگی کے باعث اس کی عزت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس جوان کے لیے کسی کو مقرر فرما دیتا ہے جو اس کے بڑھاپے میں اس کی عزت کرے۔ ‘‘

بزرگوں کی تعظیم اور اکرام کے عمومی احکام تو آپﷺنے ہى دىے ہىں، مختلف خصوصی مواقع پر اس احترام کو بر تنے کابھی حکم دیا ہے ، عام سماجی و معاشرتی معاملات میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بڑوں کی تکریم کرنے کی تعلیم دی۔ آپﷺنے ہدایت فرمائی کہ جب کئی لوگ ہوں اور ان کواپنی بات پیش کرنی ہوتو بڑےکو گفتگو اور نمائندگی کا موقع دینا چا ہیے ۔

”آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے"کبرالکبیر“ ([36]) بڑے کے مرتبے اور عزت کا خیال رکھو۔‘‘

احادیث مبارکہ میں صراحتاً عمر رسیدہ لوگوں کے احترام کا حکم دیا گیا ہے، حدیث نبوی ہے:

"إن من إجلال الله إكرام ذي الشيبة المسلم" ([37])

’’بے شک اللہ تعالیٰ کی تعظیم اس میں ہے کہ بوڑھے مسلمان کی عزت کی جائے۔‘‘

والدین کے ساتھ حسن سلوک

والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے، نرمی سے بات کرنے ، ان کى فرمانبرداری وتابعداری کے علاوہ شرعی قوانین کے حوالے سے بعض صورتوں میں اولاد کو پابند بنایا گیا ہے کہ وہ والدین کے نان نفقہ کا انتظام کرے والدین کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ اولاد کے مال میں سے از خود حصہ لے كر اسے استعمال میں لائے ۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے ،

"جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إن أبي اجتاح مالي، فقال: «أنت ومالك لأبيك» وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن أولادكم من أطيب كسبكم، فكلوا من أموالهم"([38])

’’کہ ایک آدمی نے نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا میرا باپ میرا مال ہڑپ کر گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: تو اور تیرا مال دونوں تیرے باپ کے ہیں۔ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی ہے اس لىے تم ان کا مال کھاسكتے ہو۔‘‘

حدیث شریف سے یہ واضح ہوتا ہے کہ والدین کی ضروریات کو پورا کرنا اولاد کی ذمہ داری ہے ۔ اگر اولاد اس میں کوتاہى کرے تو وہ اپنے اولاد کے مال کو بغیر ان کی اجازت کے لے سکتا ہے ۔ والدین ضرورت کے موافق اپنے اولاد کے مال میں تصرف کر سکتےہىں اور اگر والدین ان کا مال خرچ کر ڈالىں تو اولاد پر لازم ہے کہ ان کا مقابلہ نہ کرے اور ان سے سخت کلامی نہ کرے ۔ اور اپنے بچپن کو یا دکرے کہ ماں باپ نے اسے پالا پوسا، حوائج ضروریہ سے فارغ کرایا، پھر کھلایا پلایا ،پڑھایا سکھایا وغیرہ یہ سب احسانات ایسے ہیں جن كا اولاد زندگی بھر حق اد ا نہیں کر سکتی ۔ ماں باپ کی رضامندی میں اللہ تعالیٰ کی رضا چھپی ہوئی ہے اور اگر ماں باپ ناراض ہوئے تو دنیا وآخرت دونوں تباہ ہوں گے۔

فتح مکہ کے موقع پر عمر رسىدہ افراد کے ساتھ نبى كرىمﷺ كا کریمانہ سلوک

فتح مکہ کے بعد جو حیرت انگیز واقعات رونما ہوئے ان میں سے ایک اہم واقعہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے بوڑھے والد کا بھی پیش آیا، جن کو حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے نبى كرىمﷺکے دستِ حق پر اسلام قبول کرنے کے لیے آپ کی مجلس میں حاضر کیا۔ آپ ﷺنے ان کے بڑھاپے کو دیکھتے ہوئے فرمایا: ان کو گھر ہی میں کیوں نہ چھوڑا؟ میں ہی خود ان کے گھر پہنچ جاتا، تو حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے عرض کیا کہ ىہ انہى كا حق تھا ىہ آپ کے پاس آتے۔([39]) واضح رہے آپ ﷺمکہ مکرمہ میں فاتح بن کر داخل ہورہے ہیں، اس کے باوجود بوڑھوں کے ساتھ آپ ﷺ کا یہ رحیمانہ وکریمانہ سلوک ہےحالانکہ دیگر فاتحین کا طرزِ عمل تو وہ ہے جسے قرآن حکیم نے بیان کیا ہے کہ جب فاتحین کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس بستی کو برباد کردیتے ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْيَةً اَفْسَدُوْهَا وَجَعَلُوْٓا اَعِزَّةَ اَهْلِهَآ اَذِلَّةً وَكَذٰلِكَ يَفْعَلُوْنَ﴾ ([40])

’’بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں اسے خراب کر دیتے ہیں اور وہاں کے سرداروں کو بےعزت کرتے ہیں اور ایسا ہی کریں گے۔‘‘

اہل عزت کو ذلیل کرنا فاتحین کا طرہٴ امتیاز ہوتا ہے۔ لیکن یہاں بادشاہت نہیں بلکہ پیغمبری ہے ،یہ صرف فاتح نہیں بلکہ "رحمت للعالمین " بھی ہىں۔یہ عمر رسیدہ افراد کی عملی قدر دانی ہے جس کا آپ ﷺنے ثبوت فراہم کررہے ہیں۔ آپ ﷺنے ان کی تعظیم کرتے ہوئے یہ تصور نہ کیا کہ ابو قحافہ ایک طویل عرصہ تک کفر کی حالت میں رہے، اب کفر مغلوب ہوا تو وہ مسلمان ہورہے ہیں۔ بعض دفعہ انسان سابقہ اختلاف کی وجہ سے کسی کی تعظیم وتکریم سے کتراتا ہے اس میں ہمارے لیے اسوہ ہے کہ سن رسیدہ کی بہر صورت تعظیم کی جائے۔

ایک دفعہ مجلس میں بائیں جانب اکابر صحابہ کرام(﷢) تشریف فرما تھے اور دائیں جانب ایک بچہ تھا ۔ مجلس میں کوئی مشروب پیش ہوا تو آپ ﷺ نے اس بچے سے اجازت چاہی کہ چوں کہ تم دائیں جانب ہو اگر تم اجازت دو تو میں اس کا آغاز ان بڑے صحابہ کرام سے کروں، اس بچے نے اپنے آپ پر کسی کو ترجیح دینے سے انکار کردیا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے وہ مشروب اسی کے ہاتھ میں تھما دیا۔([41]) غور طلب امر یہ ہے کہ آپ ﷺ نے بائیں جانب بڑوں کی موجودگی کے باوجود اس بات کی کوشش کی کہ مشروب کا آغاز بڑوں ہی سے ہو، اس کے لیے بچے سے اجازت بھی مانگی، لیکن یہ بچے کی سعادت مندی تھی کہ اس نے آپ ﷺ کے نوش کردہ کو اپنے آپ پر کسی کو ترجیح نہ دی۔ اس سے بھی بڑوں کے ساتھ اکرام کا درس ملتا ہے کہ بہر صورت ان کے اکرام کی کوشش کی جائے ،ان کی توہین سے بیزارى کا اظہار ہو۔

خلاصہ ٔبحث

حقیقت یہ ہے کہ بڑھاپے کا زمانہ انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ قابل رحم اور لائق ترس ہوتا ہے۔اسی لیے اسلام نے بوڑھوں کی خصوصی رعایت اور ان کے احترام وتوقیر کا حکم دیا۔مغربی دنیا میں خاندانی نظام کے بکھر جانے کی وجہ سے بوڑھے اور ضعیف العمر لوگوں کے مسائل نے بڑی نازک صورت حال اختیار کرلی ہے۔اسی لیے اب عالمی سطح پر اس مسئلہ کو محسوس کیا جارہا ہے۔اقوام متحدہ کی طرف سے یکم اکتوبر کو بوڑھوں کے عالمی دن کی حیثیت سے منایا جاتا ہے۔ اسلام میں بوڑھوں کے لیے رعایت بھی ہے اور قدرومنزلت بھی ۔قدم قدم پران کے لیے احکام میں سہولتیں برتی گئی ہیں ۔ آپ ﷺنے بوڑھوں کا ہر موقعہ پر لحاظ فرمایا۔ کسی بھی بوڑھے کا اکرام آپ ﷺنے انسانیت کی بنیاد پر کیا، رشتہ داری وتعلق سے بالا تر ہو کر آپ ﷺ نے ہر سن رسیدہ کے اکرام کو تر جیح دی۔ بڑھا پے کی نفسیات کا سب سے اہم پہلویہ ہےکہ اس عمر میں انسان چاہتاہے کہ اس کے چھوٹے اس کے ساتھ عزت وتوقیرکا معاملہ کریں اور اس کو سماج میں بہترمقام دیا جائے آپﷺ نے اس کا بھی پاس ولحاظ فرمایا ہے۔ بزرگوں کی تعظیم اور اکرام کے عمومی احکام تو آپﷺنے دئیے ہی ہیں ، مختلف خصوصی مواقع پر اس احترام کو بر تنے کابھی حکم دیا۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ انسانیت کے اس ستم رسیدہ طبقے کے ساتھ احترام واکرام کا معاملہ کیا جائے۔ ان کے حقوق جان کر پورے کرنے کی کوشش کریں۔ کسی چیز کے ذریعہ انہیں تکلیف نہ دیں، ان کی ضروریات پوری کرکے ان پر احسان کرتے ہوئے ان کی دعاوٴں میں شامل ہوں۔ بوڑھوں سے ہونے والی خطاوٴں کو نظر انداز کریں۔ دنیا و آخرت کی فلاح بزرگوں خصوصاً بوڑھے والدین کی عزت و تکریم اور خدمت میں ہے۔ اگر انسان معمر اَفراد کی توقیر نہیں کرتا تو آدمى حدیث مبارک کے مصداق امت محمدیہ سے خارج ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم ہر لحظہ معمر اَفراد کی خدمت کریں اور ان کے حقوق ادا کریں۔

والدین کی خدمت کرنا اولاد کی ذمہ داری ہے اور جن کی اولاد نہیں ہے اور وہ بوڑھے جو کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں تو ان کے حوالے سے اسلامی تعلیمات ىہ ہىں کہ ایسے اشخاص کے وہ رشتہ دار جو ان کی وفات کے بعد ان کے وارث بن سکتے ہیں وہ ان پر خرچ کریں ۔ ورثاء بوڑھے رشتہ داروں کی کفالت کرنے کے فریضے کی ادائیگی کا احساس کرىں۔ ا گر ان کے رشتہ دار بھی نہ ہوں تو اس صورت میں ان کا خرچ اور دیکھ بھال کا انتظام ریاست کی ذمہ داری ہے۔ دوسری طرف اولڈ ایج ہومز کا تصور خالصتاً مغربی تصور ہے ، جبکہ اسلامی معاشرہ مربوط ومضبوط مقدس رشتوں کا امین ہوتا ہے ۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے ، شفقت ومحبت کا رویہ رکھنے ، نرمی سے بات کرنے ، فرمانبرداری وتابعداری سے پیش آنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اولڈ ایج ہومز کی ضرورت مغربی معاشروں کے مخصوص ہیئت ترکیبی کی وجہ سے محسوس ہوتی ہے ۔ اگرچہ فی نفسہ اولڈ ایج ہومز کا تصور احترام انسانیت پر مبنی ہے تاہم اس کے پس منظر میں مغربی معاشروں کے وہ مخصوص حالات ہىں جن میں مادہ پرستی ، رشتوں کا تقدس نہ ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی معاشرے میں کئی ایسے عمر رسیدہ افراد ہوتے ہیں جن کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہوتا جن کے ساتھ تعاون کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور اولاد ان کی قدر نہیں کرتی، ایسے لوگوں کی حالت قابل غور ہے ۔ اگر ان کے لیے اولڈ ایج ہومز کا قیام ناگزیر ہو تو اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ ایک اسلامی معاشرہ کی روایات واقدار بھی محفوظ رہیں اور عمر رسیدہ افراد کی ضرورت بھی پوری ہو جائے۔

 

حوالہ جات

  1. - www.un.org/en/sections/observances/international-days/ (A/Resolution/45/106) Retrieved Nov: 17, 2018
  2. - https://esa.un.org/unpd/wpp/Publications/Files/WPP2017,p13.Retrieved November 17, 2018
  3. ۔ التىن: 3
  4. - Haber, C., and Gratton, B. Old Age and the Search for Security. New York: Cambridge University Press, 1994.
  5. - https://health.usnews.com/best-nursing-homes Retrieved December 10, 2018
  6. - https://www.aging.com/guide-to-living-a-healthy-lifestyle-at-an-old-age/ R etrieved December 12, 2018
  7. - Abraham Epstein, The Challenge of the aged, Alfred A, Knopf, New York, 1929, p.128
  8. - الروم :54
  9. ۔ابن کثیر، ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر، تفسیر القرآن العظیم ، دار طیبہ للنشر والتوزیع، تفسیر زیر آیت سورۃ روم ،ص:54
  10. ۔المومن: 67
  11. ۔النحل :70
  12. ۔ بخاری، ابو عبد الله محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، کتاب الدعوات،باب الاستعاذة من أرذل العمر، حدیث 6374
  13. ۔النحل :70
  14. ۔ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم ، تفسیر زیر آیت سورۃ النحل، ص :70
  15. ۔ النحل :72
  16. ۔الاصبهاني، ابو القاسم الحسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، دارالقلم دمشق، کتاب الحاء "حفد"
  17. -القرطبي، أبو عبد الله محمد بن أحمد ، الجامع لأحكام القرآن تفسير القرطبي، دار الکتب المصرىة، تفسیرزیرآیت النحل، ص: 72
  18. ۔ الفرقان:54
  19. ۔الفرقان:74
  20. ۔ انفال :75
  21. -مفتی، محمد شفیع،معارف القرآن، فرید بک ڈپو دہلی 1998، 4/300،
  22. ۔الاحزاب: 6
  23. ۔النحل :90
  24. ۔النساء: 1
  25. ۔ الترمذی، أبو عيسى محمد بن عيسى ا لسنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء فی قطیعة الرحم ، رقم 1907
  26. -أبو داود، سليمان بن الأشعث بن إسحاق، سنن أبي داود،كتاب الأدب باب فی تنزیل الناس منازلهم، رقم الحدیث: 4843
  27. -الترمذي، سنن الترمذي، باب مَا جَاءَ فِي فضل مَن شَاب شَيْبَة فِي سَبِيلِ اللَّه، رقم الحدیث: 1634
  28. -السنن ترمذي ، کتاب البر والصلة، باب ما جاء في رحمة الصبيان، رقم الحديث: 190 2.
  29. - السنن ترمذی، باب ماجاء فی رحمة الصغیر ،رقم الحديث: 1919
  30. - صحیح البخاری، کتاب الاذان، إذا صلى لنفسه فليطول ما شاء، رقم الحديث: 703
  31. -صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب من شكا إمامه إذا طول ، رقم الحديث: 704
  32. - صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب من شكا إمامه إذا طول، رقم الحديث: 705
  33. - صحیح مسلم، کتاب المساجد باب من أحق بالإمامة ، رقم الحدىث: 673
  34. ۔ سنن الترمذی، کتاب الصلوۃ باب من احق بالامامة، رقم الحدىث: 235
  35. - سنن ترمذي، کتاب البر والصلة، باب ما جاء في إجلال الکبير، رقم الحديث: 2022
  36. -صحىح البخاري، کتاب الادب، باب إکرام الکبير، رقم الحديث: 6142
  37. ۔ ابوداؤد، سلیمان بن الاشعت بن اسحاق، سنن ابی داؤد، المکتبة العصرية، بیروت، کتاب الادب باب في تنزيل الناس منازلهم، رقم الحديث: 4843
  38. ۔ابن ماجة،ابو عبدالله محمد بن یزید القزوینی،سنن ابن ماجة،دار احیاء الکتب العربية،کتاب التجارات، باب ماللرجل من مال ولدہ، رقم الحدىث: 2292
  39. -حاکم، ابو عبد الله ،محمد بن عبدالله ،المستدرک علی الصحیحین للحاکم ،ذكر مناقب أبي قحافة والد أبي بكر رضي الله ، رقم الحديث : 5065
  40. ۔النمل :34
  41. ۔ صحیح البخاری، کتاب المساقاۃ، باب من رأی أن صاحب الحوض ، رقم الحديث: 2366
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...