Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tabyīn > Volume 3 Issue 1 of Al-Tabyīn

تعلیم کی اسلامی تشکیل نو ناگزىر ہے |
Al-Tabyīn
Al-Tabyīn

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060060947_651

Pages

118-140

PDF URL

https://sites2.uol.edu.pk/journals/al-tabyeen/article/view/142/50

Chapter URL

https://sites2.uol.edu.pk/journals/al-tabyeen/article/view/142

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

مسلم امہ کو درپیش چیلنجز میں سے ایک اہم چیلنج ہمارا آج کا نظام تعلیم ہے۔ یہ نظام تعلیم نہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے اور نہ مسلمانوں کی عصری ضروریات پوری کرتا ہے ۔ لہٰذا مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس نظام تعلیم کو بدلیں اور اسلامی تقاضوں اور عصری ضروریات کے مطابق اس کی تشکیلِ نو کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم کی غایت واہمیت اور اس کی موجودہ صورت حال کو سمجھا جائے اور اس کی اسلامی تشکیلِ نو کے منہج اور طریق کار پر غور کیا جائے۔ اس کے لیے درکار اہلیتوں کا تعین کرکے ان کے حصول کی تگ ودو کی جائے اور یہ سوچا جائے کہ اس کام کو کون کرے گا؟ اس مقالے میں انہی سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

تعلیم کی نوعیت، غایت اور اہمیت

تعلیم کے لغوی معنی ہیں ابلاغِ علم، ترسیلِ علم یا انتقالِ علم۔اس میں رسمی تعلیم کے علاوہ غیر رسمی تعلیم جیسے دعوت وتبلیغ ، تعلیمِ بالغان اور میڈیا بھی شامل ہیں، تاہم اس مضمون میں ہم رسمی تعلیم تک محدود رہیں گے۔

تعلیم کی تعریف اور دائرہ کار کے حوالے سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا تربیت بھی تعلیم کا جزو ہے؟ یعنی کیا تعلیم کی غایت محض فراہمی معلومات اور انتقالِ علم ہے یا انتقالِ اقدار بھی اس کا حصہ ہے؟

ہماری رائے میں تربیت بھی تعلیم ہی کا ایک حصہ ہے جس کے دلائل درج ذیل ہیں :* قرآن حکیم نے جہاں انبیاء کے مقاصدِ بعثت کا ذکر کیا ہے وہاں تعلیم و دعوت کے ساتھ تزکیہ کا ذکر بھی کیا ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرمایا:

﴿اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰى فَقُلْ هَلْ لَّكَ اِلٰٓى اَنْ تَزَكّٰى﴾([1])

’’ فرعون کے پاس جاؤ کیونکہ اس نے سرکشی کی ہے۔ پس کہو کیا تیری خواہش ہے کہ تو پاک ہو۔‘‘

اور حضرت محمدﷺ کے بارے میں فرمایا:

﴿وَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ﴾([2])

’’ جیسا کہ ہم نے تم میں ایک رسول تم ہی میں سے بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں پڑھتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمہیں کتاب اور دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔‘‘

آپﷺ کے لیے یہ حکم تین دوسری جگہوں پر بھی آیا ہے([3] ) اور ہر جگہ تعلیم (تعلیمِ کتاب وحکمت وتلاوتِ آیات) کے ساتھ تزکیہ کا لفظ آیا ہے جس سے تعلیم وتزکیہ کی قربت، یکسانیت اور یک جان ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ تعلیم کی غایت تزکیہ ہے کیونکہ ان آیات میں تزکیے کا ذکر تعلیم سے پہلے بھی آیا ہے اور بعد میں بھی، جو اس بات کا قرینہ ہے کہ تعلیم سے اصل مقصود تزکیہ ہی ہے ۔ * یہ بات اہل علم سے مخفی نہیں کہ تزکیہ وتربیت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ تزکیہ قرآنی اصطلاح ہے اور تربیت کا لفظ تعلیمی حلقوں میں زیادہ معروف ہے۔ راقم۱۹۷۷ء میں جب اعلیٰ تعلیم کے لیے سعودی عرب گیا تو اس نے وزارت تعلیم کے باہر بورڈ لگا ہوا دیکھا جس پر لکھا تھا ’’وزارۃ التربیۃ والتعلیم‘‘۔ ہمارے ہاں بھی جن تعلیمی اداروں کو آج کل ’کالج آف ایجوکیشن‘ کہا جاتا ہے پہلے انہیں ’ٹریننگ کالج‘ کہا جاتا تھا۔ سعوی عرب کے جس تعلیمی ادارے (جامعہ الریاض) سے ہم نے ماجستیر (ایم فل ) کا امتحان پاس کیا وہ اصلاً تدریب المعلمین کا ادارہ تھا اوراس کا نام تھا ’کلیۃ التربیۃ‘ (نہ کہ’کلیۃ التعلیم‘)۔ مغرب میں بھی استاد کو معلم (ٹیچر) ہونے کے ساتھ مربی (Mentor) سمجھا جاتا ہے اور تدریس یعنی پڑھانے کے ساتھ تربیت یعنی اقدار کی منتقلی کو بھی عمل تعلیم کا ایک حصہ لازمى سمجھا جاتا ہے۔ تعلیم کی غایت کے لحاظ سے بھی تعلیم وتربیت کا ایک ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ ان باتوں سے ظاہر ہے کہ تربیت، تعلیم کا لازمی جزو ہے اور ’تعلیم وتربیت‘ کی اصطلاح اسی پر دلالت کرتی ہے۔

  • تعلیم کا مقصد ہر معاشرے میں یہی ہوتا ہے کہ ایسا فرد تیار کیا جائے جو ان عقائد ونظریات میں یقین رکھتا ہو جن میں وہ معاشرہ یقین رکھتا ہے اور تعلیم اس کی ایسی تربیت کرے جس سے وہ اس معاشرے کا کار آمد اور مفید رکن بن سکے۔ اس بات کو اسلامی تناظر میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اسلام میں علم سے مراد علمِ ہدایت ہے۔ اللہ تعالىٰ نے ہمیں سورۃ الفاتحہ میں یہ سکھایا کہ ہم اللہ سے ہدایت مانگیں﴿اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ﴾([4]) اور اگلی سورۃ کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لو یہ ہے کتاب ہدایت ۔ ﴿ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ۝ فِيْہِ۝۰ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ﴾([5]) یعنی تمہاری ہدایت طلبی کی درخواست کے جواب میں ہم تمہیں یہ کتاب عطا کررہے ہیں جو حتمی طور پرہدایت اور یقینی علم کی حامل ہے اور اس میں شک وشبہے کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔
  • علم کے دائرہ کار اور غایت کی بحث میں قرآن حکیم ہماری یہ رہنمائی بھی فرماتا ہے کہ علم کا منبع صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے چنانچہ فرمایا:

﴿اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللّہِ﴾ ([6])

’’بلا شبہ اس كا علم اللہ تعالىٰ كے پاس ہے۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ کے العلیم اور اعلم ہونے کا ذکر قرآن حکیم میں ۲۱ ۱ سے زیادہ دفعہ آیا ہے اور یہ علم برائے عمل ہے نہ کہ علم برائے علم یا علم برائے معلومات وذہنی تعیش جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص علم رکھتا ہے اور اس پر عمل نہیں کرتا اس کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو علم یعنی کتابوں کا انبار اٹھائے ہوئے ہو([7]) اور فرمایا کہ تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کو یہ بات انتہائی ناپسند ہے کہ تم وہ کہو جس پر تم عمل نہیں کرتے:

﴿يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۝كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ ﴾([8])

’’ اے ایمان والو! کیو ں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں۔ اللہ کے نزدیک بڑی نا پسند بات ہے جو کہو اس کو کرو نہیں۔‘‘

قرآن حکیم کی بے شمار آیات سے پتہ چلتا ہے کہ علم عمل کے لیے ہے ۔ دیکھیے مثلاً :

﴿لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ ﴾([9])

’’اے ایمان والو! جس وقت تم نشہ میں ہو تو نماز کے نزدیک نہ جاؤ یہاں تک کہ سمجھ سکو کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔‘‘

﴿وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِيْنَ يَسْتَنبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ﴾ ([10])

’’ اور اگر اسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچاتے تو وہ اس کی تحقیق کرتے جو ان میں تحقیق کرنے والے ہیں۔‘‘

﴿ وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَــقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾([11])

’’اور سچ میں جھوٹ نہ ملاؤ اور جان بوجھ کر حق کو نہ چھپاؤ حالانکہ تم جانتے ہو۔‘‘

﴿ وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾([12])

’’اور روزہ رکھنا تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔‘‘

﴿وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾([13])

’’اور بخش دو تو تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو۔‘‘

چونکہ اس مضمون کی آیات قرآن حکیم میں کثرت سے ہیں لہٰذا ہم انہی پر کفایت کرتے ہیں۔* علم کا عمل کے لیے ہونا اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ تعلیم عمل کے لیے ہے اور تعلیم وتعلم کا لازمی نتیجہ اس علم پر عمل کرنا ہونا چاہیے۔ علم وعمل کے اس لزوم سے ہمیں تعلیم کی اہمیت کابھی پتہ چلتا ہے کیوں کہ اخروی زندگی میں نجات کا دارومدار عمل پر ہے یعنی اگر ایک شخص دنیا کی زندگی اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق گزارےگا اور اعمال صالحہ انجام دے گا تو ہی اس کا نتیجہ اخروی نجات یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی نعمتوں (یعنی جنت) کے حصول کی صورت میں نکلے گا۔ اس سے تزکیہ وتربیت کی اہمیت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ یعنی اگر علم عمل میں نہ ڈھلے اور تعلیم کا نتیجہ تربیت اور تزکیۂ نفس کی صورت میں ظاہر نہ ہو تو ایسا علم بے کار محض ہے۔ بلکہ جس علم پر عمل نہ کیا جائے وہ انسان کے لیے وبال ہے جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا کہ جس شخص کا علم اسے ادراک حق اور اعمال صالحہ کی منزل تک نہیں پہنچاتا وہ انسان ہی نہیں جانور ہے.... بلکہ قرآن کے الفاظ میں جانوروں سے بدتر ہے ([14]) اور قرآن ان کی تشبیہ گدھے اور کتے سے دیتا ہے۔([15])

یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنے ایک مضمون میں بین الاقوامی ادارہ فکر اسلامی (International Institute of Islamic Thought) واشنگٹن کے بارے میں عرض کیا تھا کہ اس ادارے نے عصر حاضر میں علوم کی اسلامائزیشن کے لیے بہت عمدہ کام کیا ہے لیکن اس کے کام کے زیادہ موثر اور مثمر (Productive) نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے علم و فکرکی اسلامائیزیشن پر تو اصرار کیا لیکن تعلیم وتربیت کی اسلامائیزیشن کو کماحقہ اہمیت نہ دی اور نہ ماڈل تعلیمی ادارے قائم کیے جن کا قیام تعلیم وتربیت کی اسلامی تشکیلِ نو کے لیے ناگزیر تھا۔([16]) یہ بھی واضح رہے کہ ہم تعلیم کی اسلامائیزیشن (Islamization) کی بجائے تعلیم کی اسلامی تشکیلِ نو (Reconstruction in Islamic Perspective) کی اصطلاح کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ تعلیم کی اسلامائیزیشن کا مطلب ہے موجودہ مغربی یا مغرب زدہ تعلیم کو اسلامی بنانا جس میں یہ خدشہ موجود ہے کہ ہم مغرب کی کچھ چیزوں کو رد نہ کرسکیں اور قبول کرلیں اور نظریاتی سطح پر یہ امر بھی غور طلب ہے کہ کیا کفر والحاد پر مبنی ([17]) نظام تعلیم کو اسلامیایا جابھی سکتا ہے یا نہیں؟ اور کس حد تک اسلامیایا جاسکتا ہے؟ کیونکہ اس منہج میں اس امر کا بھی امکان ہے کہ اس نہج پر کام کرنے والا کوئی شخص اگر مغربی فکروتہذیب سے متاثر ومرعوب ہو تو وہ کہیں مغربى تصورات كو مطابقِ اسلام ہی نہ قرار دے دے یا اسلامی اصول واقدار کی ایسی تشریح کردے جو مغربی اصولوں واقدار کے مطابق ہو اور یوں وہ مغربی اصول واقدار کو اسلامیانے (Islamization of Western Thought & Values)کی بجائے اسلامی تعلیمات کی مغربائیزیشن یعنی انہیں مغربی تہذیب کے مطابق ڈھالنے (Westernization of Islamic Thought & Values) کا مرتکب نہ ہو جائے ۔ اس لیے ہمارى رائے مىں موجودہ تعلیم کو اسلامیانے (Islamization of Western or Westernized Education) کی بجائے تعلیم کی اسلامی تشکیلِ نو (Reconstruction of Education in Islamic Perspective) کی اصطلاح استعمال كى جانى چاہىے۔

تعلیم کی موجودہ صورتِ حال

مسلمانوں میں تعلیم کا سنہری دور وہ تھا جو غروبِ آفتابِ نبوت کے بعد صحابہ وتابعین کے عہد میں تھا۔ اگلی چند صدیوں تک اس نے خوب ازدہار دیکھا جس میں دینی ودینوی تعلیم کی ثنویت نہ تھی اور جومسلم معاشرے اور ریاست کو بہترین اور باکردار افراد فراہم کرتا تھا جنہوں نے مسلم تہذیب کو بھی میرٹ پر عروج بخشا اور لوگوں کو اخروی نجات کے لیے بھی تیار کیا۔ سقوطِ بغداد نے اسے ایک زور دار جھٹکا ضرور دیا لیکن اس کے باوجود وہ گرتا گرتا بھی مزید پانچ چھ صدیاں نکال گیا۔ پھر مسلمان زوال پذیر ہوئے تو ان کے زوال میں اس نظامِ تعلیم وتربیت کے انحطاط کا بھی دخل تھا۔ پھر مسلم دشمن ترقی یافتہ مغربی اقوام نے مسلم تہذیب کے عظیم الشان محل کی کمزور دیواروں کو دھکادے کر گرادیا اورمسلم ممالک پر قبضہ کرلیا۔

فاتح عیار تھا اس نے صرف علاقے فتح نہیں کیے بلکہ مسلمانوں کو تاد یر غلام رکھنے کے لیے ان کے دل ودماغ کو فتح کرنے کی بھی کوشش کی۔ اس غرض سے اس نے مسلمانوں کے نظام تعلیم وتربیت پرکاری وار کیا۔ اس نے مسلم تعلیمی ڈھانچے کو منہدم کرکے مغربی فکروتہذیب کی بنیادوں پر اسے استوار کیا۔ خصوصاً برصغیر میں جب اس نے دیکھا کہ مسلمان کسی قیمت پر مذہب تبدیل نہیں کرتے تو لارڈ میکالے نے اپنی رپورٹ میں یہ تجویز کیا کہ نظام تعلیم وتربیت ایسا بنایا جائے کہ مسلمان ہماری فکروتہذیب کے رسیا ہوجائیں خواہ نام کے مسلمان رہیں۔([18])چنانچہ انگریزوں نے ذریعہ تعلیم انگریزی کردیا اور ملازمتیں صرف انگریزی خواندوں کے لیے رہ گئیں۔ اسی لیے یہ محاورہ مروج ہوا کہ ’پڑھیں فارسی بیچیں تیل‘۔ سرسید احمد خاں جیسے لوگوں نے مسلمانوں کو ملازمتیں دلوانے کی فکر کی اور اس کا کچھ فائدہ بھی ہوا لیکن مغرب سے مرعوبیت بلکہ فکری غلامی اس جدید تعلیم کے جلو میں آئی۔ چنانچہ علی گڑھ نے جو تعلیمی ماڈل اپنا یا وہ مغرب زدہ ماڈل آج تک ہر ’جدید‘ مسلم تعلیمی ادارے کے لیے مشعل راہ بنا ہوا ہے اور مسلم نشاۃ ثانیہ کی راہ کھوٹی کررہا ہے۔

دینی مدارس نے ، جو حکومت اور معاشرے کی سرپرستی سے محروم ہوچکے تھے ، درختوں کے نیچے اور مٹی کے حجروں میں بیٹھ کر اور استادوں نے پیٹ پر پتھر باندھ کر دین کی شمع روشن رکھنے کی کوشش کی جس نے بالآخر جڑ پکڑلی ۔ لیکن اس کا مقصد محض دفع الوقتی تھا تاکہ ہندوستان کا حال مسلم اندلس کا سا نہ ہو جائے۔ ا س میں انہوں نے جدید مغربی علوم سے اعتناء نہ کیا کہ استعماری حکومت کے لیے کارکن تیار کرنا ان کے پیش نظر تھا ہی نہیں۔ پھر بھی اہل علم چونکہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ تعلیمی ثنویت غیر اسلامی ہے اس لیے انہوں نے مسلمانوں کے لیے موحد (Integrated) نظام تعلیم کی کوششیں جاری رکھیں۔دیوبند کے بانی مولانا رشید احمد گنگوہی کہا کرتے تھے کہ : ’’قدیم منطق وفلسفہ كى بجائے انگریزی پڑھنا بہتر ہے کہ اس سے كچھ دنیاوی فائدہ تو ہوگا لیکن یہ منطق وفلسفہ پڑھنے کا نہ تو کوئی دینی فائدہ ہے اور نہ دنیاوی۔‘‘ ([19] )ایک کوشش شیخ الہند مولانام محمود حسن ؒ نے علی گڑھ کے ساتھ معاہدہ کرکے کی کہ دونوں طرف کے طلبہ کو ایک دوسرے کے تعلیمی اداروں میں بھجوایا جائے گا لیکن بوجوہ یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی ۔ پھر ندوہ اور جامعہ ملیہ کی صورتوں میں قدیم وجدید میں انسجام اور ثنویت کے حاتمے کی کوشش ہوئی لیکن اول الذکر عربیت اور ثانی الذکر قوميت اور جدیدیت کی طرف لڑھک گیا اور مطلوبہ نقطۂ وسط واعتدال میسر نہ آسکا۔ یہ صورتِ حال تقسیم ہند تک جاری رہی۔

ہم بعض اوقات تاریخ کے جبر پر حیران ہوتے ہیں کہ ہمارے جہاں دیدہ علماء کرام اس معاملے کی ضرورت واہمیت کو سمجھنے کے باوجود اس پر عملاً پیش رفت نہ کرسکے مثلاً مولانا حسین احمد مدنیؒ نے سلہٹ میں ۱۹۳۳ء میں دینی مدارس کے لیے ایک نصاب ترتیب دیا جس میں جدید وقدیم علوم کو جمع کرنا تجویز کیا([20] ) لیکن بعد میں جب وہ دارالعلوم دیوبند کے صدر مدرس ہوگئے تو وہاں کوئی تبدیلی نہ لاسکے۔ اسی طرح شیخ الہند مولانا محمود حسن نے ۱۹۲۰ء میں علی گڑھ میں جامعہ ملیہ کے تاسیسی خطبے میں یہ کہا کہ جس درد نے میری ہڈیاںپگھلادی ہیں، میں دیکھتا ہوں کہ میرے اس درد کو سمجھنے والے مدرسوں کی بجائے کالجوں میں زیادہ ہیں تو میں نے یہ چاہا کہ ایک قدم آگے بڑھ کر ان کی طرف جاؤں تاکہ ہم ایک دوسرے کے قریب آسکیں ([21] ) بلکہ تقسیم ہند کے بعد اس مقصد کے لیے بھارت کے وزیر تعلیم مولانا ابو الکلام آزادؒ نے اس غرض سے سید سلیمان ندویؒ ، مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ اور مولانا سید حسین احمد مدنیؒ پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جس نے اس كے لىے متفقہ سفارشات تیار بھی کیں لیکن بوجوہ ان پر عمل درآمد کی نوبت نہ آسکی۔([22] )

پاکستان بننے کے بعد منطقی طور پر اس صورت حال کو ختم ہوجانا چاہیے تھا لیکن مسلم لیگ اور بعد میں آنے والی حکومتوں نے پاکستان میں نظام زندگی کو عموماً اور نظام تعلیم کو خصوصاً اسلامی خطوط پر استوار کرنے کی کوئی کوشش نہ کی اور معمولی دُخ اندوزی (Patch Work) تک خود کو محدود رکھا۔ علماء کرام نے جب دیکھا کہ نظامِ تعلیم میں اسلامی لحاظ سے کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی تو انہوں نے بھی پرانی ڈگر پر چلتے رہنے کا فیصلہ کرلیا اور یہ نہ سوچا کہ اب حکومت انگریز کی نہیں مسلمانوں کی ہے، خواہ غیر صالح ہی سہی۔ یہ چیز تعلیمی ثنویت کے جاری رہنے کا سبب بنى اور بدقسمتی سے ابھی تک جاری ہے۔ اگرچہ بعض علماء کرام کو اس کا احساس بھی ہے جیسا کہ مولانا مفتی محمود مرحوم (صدر جمعیت علماء اسلام) نے ایک دفعہ دینی مدرسوں اور کالجوں کے طلبہ کے مشترکہ اجتماع میں کہا تھا کہ جب تک تم دونوں ایک دوسرے کی طرف نہیں بڑھو گے اور جدید تعلیم یافتہ دین نہیں سیکھیں گے اور مدارس کے طلبہ جدید علوم کی تفہیم پیدا نہیں کریں گے تو تم لوگ خلافت کے مستحق کیسے بنو گے؟ ([23] ) لیکن عملاً اس طرف کوئی بڑی پیش رفت نہ ہوسکی۔ چند لوگوں نے البتہ سکول وغیرہ بھی ساتھ قائم کرلیے لیکن یہ سکول اسی مغرب زدہ نظام تعلیم کی پیروی کررہے ہیں جو علی گڑھ کی نقل میں معاشرے میں مروج ہے۔ ظاہر ہے یہ اسلوب درپیش تعلیمی چیلنج کا کوئی جواب نہیں ہے بلکہ یہ مزید خرابیوں کو جنم دے رہا ہے۔

راقم نے اصلاح تعلیم کا ایک ادارہ بنا کر حکومت کو اس کا فرض یاد دلانے کی کوشش کی اور علماء کرام کی خدمت میں بھی بار ہا عرض کیا کہ اگر حکومت تعلیم کی اسلامی تشکیل نو کا کام نہیں کرتی تو وہ خودکریں کہ یہ ان کی بھی دینی ذمہ داری ہے لیکن بقول اقبال؎

آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

چنانچہ علماء کرام دینی مدارس میں اپنی پرانی روش پر آج بھی گامزن ہیں اور مغرب زدہ جدید تعلیم کو یار لوگوں نے کاروبار بنا رکھا ہے لہٰذا تعلیمی ثنویت آج بھی جاری ہےاور اس بھنور سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی الا یہ کہ اللہ تعالیٰ غیب سے کوئی انتظام فرما دیں یا کوئی بڑا دھچكا مسلمان حکومتوں اور علماء کرام کو جھنجھوڑ ڈالے۔ ہم جیسے طالب علم اور قلم کار تاہم اپنا فرض ادا کرنے کی خاطر، معذرةً الی اللہ ([24] ) مذکورہ فریقین کو اس بہت اہم کام کی طرف متوجہ کرتے رہیں گےخواہ اس کا کوئی نتیجہ نکلےیا نہ نکلے۔

عصر حاضر میں تعلیم کی تشکیلِ نو

عصر حاضر میں تعلیم کی تشکیل نو کا مطلب یہ ہے کہ جدید تعلیمی اداروں کی مغرب زدہ تعلیم کی اسلامی تناظر میں تشکیلِ نو کی جائے ۔ اسی طرح دینی مدارس کی تعلیم کو جدید علوم کی تفہیم سے محروم نہ رکھا جائے اور خالص دینی علوم کی تعلیم بھی عصری تقاضوں اور ضرورتوں کو پیش نظر رکھ کر دی جائے۔

تعلیم کی تشکیلِ نو کا مقصد

تعلیم کی تشکیل نو کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ نئی نسل کے طلبہ وطالبات کل کے عملی مسلمان بنیں۔ دورانِ تعلیم ان کی اس طرح تربیت کی جائے اور انہیں اس طرح کی تعلیم دی جائے کہ آئندہ زندگی میں ان پر شریعت کے احکام پر عمل کرنا سہل ہو جائے۔

تعلیم کی تشکیلِ نو کا منہج

یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ تعلیم کی اسلامی تشکیل نو کا ہدف تعلیم کے کسی ایک جزو یا پہلو کی اصلاح سے حاصل نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لیے نظام تعلیم کے سارے اجزاء (یعنی ، انتظامیہ، استاد ،نصاب، طالب علم ، نصابی وہم نصابی سرگرمیوں اورتعلیم گاہ کے ماحول )کی اسلامی تناظر میں تشکیلِ نو ضروری ہے۔ پیشتر اس کے کہ ہم نظام تعلیم کے ان اجزاء کی تشکیل نو اور اصلاح کی بات کریں، ضروری محسوس ہوتا ہے کہ تشکیلِ نو کے اس کام کے بنیادی اصول واضح کردیے جائیں۔

تعلیم کی تشکیلِ نو کے بنیادی اصول

1۔ پہلو اصول یہ ہے کہ ہمیں یہ تشکیلِ نو اسلامی تناظر میں کرنی ہے ۔ یعنی اس تشکیلِ نو کی بنیاد قرآن وسنت ہوں گے گویا کہ Back to Roots کے اصول پر عمل ہو کیونکہ ہر قوم وتہذیب کی بقاء کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ اپنے نظریۂ حیات سے جڑی رہے اور افراد اس کے مطابق اپنی زندگی گزاریں۔

2۔ ضروری ہے کہ تشکیلِ نو کا یہ کام کرتے ہوئے مغربی فکروتہذیب کو اصولی طور پر رد کرنے کا فیصلہ کیا جائے کیونکہ مغربی فکروتہذب بنیادی طور پر اسلامی تعلیمات کی ضد ہے۔ یہ اصول طے کرنے کے بعد اور اس پر عمل کرتے ہوئے البتہ یہاںایسی کچھ چیزیں مشروط ومحدود طور پر لینے کا سوچا جاسکتا ہے جو مباحات، معروفات اور انسانی تجربات کی نوعیت کی ہوں اور ویلیولوڈڈ(Value Loaded) نہ ہوں۔ اس بات سے بھی صَرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ نہ صرف مغربی فکروتہذیب غیر اسلامی اور مبنی برالحاد ہے بلکہ اس کی علم بردار مغربی قوموں کا رویہ بھی مسلم امہ کے ساتھ دشمنی پر مبنی ہے اور یہ مسلم امہ کی نشاۃ ثانیہ میں بھی مزاحم ہیں۔

3۔ تعلیم کی اسلامی تشکیل نو کا تیسرا بڑا اصول وحدتِ تعلیم کا تصور ہے کیونکہ تعلیم کی ثنویت کا تصور اسلامی تعلیمات کے صریحاً خلاف ہے ۔ تعلیم کی موجودہ صورتِ حال مغرب کی الحادی فکروتہذیب سے مرعوبیت کا نتىجہ ہے اور یہ اسلامی سپرٹ کے بھی خلاف ہے کیونکہ اسلام میں نہ تو سیکولرزم ہے اور نہ دین ودنیا کی کوئی تفریق۔

4۔ تعلیم بذاتہٖ مطلوب اور آخری غایت نہیں بلکہ یہ ذریعہ ہے تربیت او رتزکیۂ نفس کا جیسا کہ قرآن حکیم نے واضح کیا ہے کہ تعلیمِ کتاب وحکمت کا اصل مطلوب تزکیۂ نفس ہےتاکہ یکسو مسلم شخصیت پروان چڑھ سکے ۔ ہمارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ صرف تعلیم کی اسلامی تشکیل نو ہی کافی نہیں بلکہ نظامِ تربیت کی تشکیل نو بھی ضروری ہے۔

تعلیم کی تشکیل نو کا طریق کار

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر نصاب اچھا ہو یعنی اسلامی تعلیمات اور تقاضوں کے مطابق ہو اور مغربی فکروتہذیب سے متاثر نہ ہو تو اس سے تعلیم کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نظام تعلیم میں نصاب بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور اس کا صحیح ہونا ضروری ہے.... لیکن ہماری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ نظام تعلیم سے موثر نتائج لینے کے لیے صرف نصاب کی اصلاح کا فی نہیں بلکہ نظامِ تعلیم کے سارے اجزاء کی اصلاح اور ان کا صحیح خطوط پر استوار ہونا ضروری ہے۔ اَب ہم اختصار کے ساتھ ایک ایک کرکے نظامِ تعلیم کے ان اجزاء کا ذکر کریں گے کہ وہ کس طرح تعلیم کی اسلامی تشکیلِ نو میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں:

1۔تعلیمی انتظامیہ: تعلیم کی اسلامی تشکیلِ نو کے کام میں بنیادی ذمہ داری تعلیمی انتظامیہ (مالک یا منتظم/ ڈائریکٹر یا پرنسپل) کی ہے کیونکہ اساتذہ کے انتخاب ، نصابی کتب کے تعین ، طلبہ کی داخلہ پالیسی، نصابی وہم نصابی سرگرمیوں اور تعلیمی ادارے کے ماحول کے بارے میں بنیادی فیصلے ڈائریکٹر یا پرنسپل نے ہی کرنے ہوتے ہیں۔ اگراس کے پیشِ نظر تعلیم کی اسلامی تشکیلِ نو ہو تو وہ دین دار اساتذہ تلاش کرے گا اور ان کی تربیت کرے گا۔ وہ ایسی نصابی کتب تلاش کرے گا جو اسلامی تناظر میں مدون کی گئی ہوں، وہ ادارے کے ماحول کو اسلامی تقاضوں کے مطابق ڈھالے گا اور نصابی سرگرمیوں کا اہتمام بھی اسلامی تناظر میں کرے گا۔

2۔ معلم کا کردار: معلم تعلیم کی اسلامی تشکیلِ نو میں اہم ترین کردار ادا کرسکتا ہے۔ اگر نصاب اسلامی لحاظ سے ناقص ہو تو وہ اس کی کمی پوری کرسکتا ہے اور اپنے پاس سے نصاب میں ضروری اضافے کرسکتا ہے۔ یا اگر نصابی کتب میں اسلامی لحاظ سے غیر مفید اور قابل اعتراض مواد موجود ہو تو وہ صحیح اسلامی تناظر میں اس مواد کو اس طرح پڑھا سکتا ہے کہ طلبہ اس غیر معیاری اور غیر مفید نصاب سے متاثر نہ ہوں۔ معلم طلبہ کی اسلامی تربیت کرسکتا ہے اور اپنے اچھے کردار سے ان کے لیے بہترین نمونہ بن سکتا ہے۔ بلکہ ہم تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر انتظامیہ طلبہ کو ’صالح مسلمان‘ بنانے میں دلچسپی نہ رکھتی ہو اور نصاب بھی موزوں نہ ہو تو اس کے باوجود ایک متدین استاد سلیقے اور حکمت سے اپنا کردار موثر انداز میں ادا کرسکتا ہے بشرطیکہ اسے اپنی ذمہ داری کا احساس ہو اور وہ اپنا کام سلیقے اور حکمت سے کرسکتا ہو۔

3۔نصاب: نصاب ایسا ہونا چاہیے جو اسلامی ضرورتوں اور تقاضوں کو پورا کرسکتا ہو۔ اس کے دو اہم پہلو ہیں: ایک تو یہ کہ ضروری دینی معلومات اس کا حصہ ہونی چاہئیں جیسے قرآن حکیم کی تعلیم (ناظرہ، تجوید، ترجمہ اور حفظ) اور احادیث رسول ﷺ کی تعلیم ، حلال وحرام کا علم۔ نماز، روزے، زکوٰۃ، حج کے مسائل جاننا .... وغیرہ۔ اور دوسرے یہ کہ سماجی وسائنسی علوم کو اسلامی تناظر میں مدون کیا جانا ضروری ہےاور دینی علوم میں تخصص کا انتظام بھی ناگزیر ہے۔ خواتین کے لیے الگ نصاب بنایا جانا چاہیے جو اِن کی صنفی ضرورتوں کو پورا کرتا ہو۔

4۔ طلبہ: تعلیمی ادارے کی پالیسی ایسی ہونی چاہیے کہ ذہین ، طبع سلیم رکھنے والے ،محنتی اور دینی ذہن کے طلبہ کی حوصلہ افزائی ہو۔ طلبہ کی عمر ایسی ہو تی ہے کہ اگر تعلیمی ادارہ، استاد یا پرنسپل محبت وشفقت سے اسے بدلنا چاہے تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔ اس ضمن میں ضرورت ہو تو طلبہ کے والدین سے بھی مدد لینی چاہیے ۔ تعلیمی ادارے کا کام جہاں اچھے طلبہ کی صلاحیتوں کو جِلا دینا ہے وہاں برے اخلاق کے حامل طلبہ کی اصلاح بھی اسی کا فریضہ ہے۔ بگڑے بچے کی اصلاح مسلسل اور دیر پا محنت کی متقاضی ہوتی ہے۔ یہ محنت صبر و استقلال سے جاری رہنی چاہیے تاہم اگر کوئی طالب علم تعلیمی ادارے میں دوسرے طلبہ کے اخلاق خراب کرنے کا سبب بن رہا ہو اور پیہم کوششوں کے باوجود اصلاح قبول نہ کرے تو بطور استثنیٰ اس سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔

5۔نصابی وہم نصابی سرگرمیاں: نصابی وہم نصابی سرگرمیاں طلبہ کی تعمیر سیرت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ مطلب یہ کہ صرف نصاب کا اسلامی ہونا کافی نہیں اور صرف استاد کاایسا نصاب پڑھا دینا اور زبانی وعظ ونصیحت کردینا ہی کافی نہیں بلکہ ایسی تعلیمی سرگرمیاں ضروری ہیں جو طالب علم کی تعمیر سیرت کے کام میں ممدو معاون ہوں جیسے مختلف ایام کے موقع پر تقریبات کا انعقاد (مثلاً یومِ بدر، یومِ استقبال رمضان وغیرہ) یا جیسے مختلف جگہوں اور کاموں کے مقامات کا دورہ کرنا یا طلبہ کی تقریری ، تحریری اور تفریحی سرگرمیوں کی تنظیم وغیرہ۔ ان سرگرمیوں کے انجام دینے کا رخ اور انداز اگر مقصدیت لیے ہوئے ہو اور انتظامیہ اور استاد ایسے مواقع پر طلبہ کی رہنمائی کریں تو یہ سرگرمیاں طلبہ کی اسلامی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔

6۔تعلیمی ادارے کا ماحول: اگر مذکورہ بالا عوامل صحیح رخ میں کام کررہے ہوں اور تعلیمی ادارے کے ماحول کو تعمیری اور اسلامی بنانے کی طرف انتظامیہ اور استاد کچھ مزید توجہ دیں تو طلبہ کی صحیح رخ میں ذہن سازی ہوسکتی ہے جیسے سکول آتے ہوئے وقت کی پابندی، تعلیمی ادارے کی صفائی کے لیے قریب ترین بچے کی ذمہ داری ، طالب علم کے جسم و لباس کی صفائی ، مخلوط تعلیم اور سرگرمیوں سے پرہیز وغیرہ تو درس گاہ کا ماحول بھی طلبہ کی اسلامی تربیت میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

نئے رول ماڈل تعلیمی ادارے کا قیام ناگزیر ہے

تعلیم کی اسلامی تشکیل نو کے جو اصول ہم نے ذکر کیے ہیں وہ کتابی اور اصولی طور پر صحیح ہیں، لیکن عمل کی دنیا میں ان کا وزن تبھی محسوس ہوگا اور وہ موجودہ نظام تعلیم کی اصلاح میں اسی وقت ممدو معاون ثابت ہوں گے جب ان پر عمل کرکے دکھایا جائے اور ان اصولوں پر ایک رول ماڈل تعلیمی ادارہ عملاً قائم کرکے دکھایا جائےاور عام لوگ اس کے اثرات ونتائج کا بچشمِ خود مشاہدہ کرىں۔ چونکہ اس وقت ہمارے ہاں (برصغیر میں خصوصاً اور عالم اسلام میں عموماً) جدید مغرب زدہ نظام تعلیم اور دینی مدارس کا نظام تعلیم دونوں بیک وقت جاری ہیں لہٰذا مناسب ہوگا کہ دونوں کا ایک ایک رول ماڈل تعلیمی ادارہ قائم كىا جائے یعنی ایک ایسے سکول ، کالج، یونیورسٹی کا قیام جو علی گڑھ ماڈل کو ترک کرکے مذکورہ اصولوں پر کام کرے۔اور اسی طرح دیوبند کی بجائے ایک ایسے دینی مدرسے کا قیام جو ابتدائیہ سے لے کر تخصص تک مذکورہ بالا اصولوں پر کام کرے۔ ہم نے ان دونوں نئے تعلىمى رول ماڈلز کے قیام پر تفصیل سے کام کیا ہوا ہے جو ہمارى متعلقہ کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔([25] )

تعلیم کی اسلامی تشکیلِ نو کے لیے درکار صلاحیتیں

ہر کام کرنے کےلیے کچھ نہ کچھ صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں۔ تعلیم کی اسلامی تشکیلِ نو کا کام تو بہرحال ایک بڑا اورچیلنجنگ کام ہے۔ اور تعلیمی عمل کے جن چھے(6) اجزاء یا محاذوں کا ہم نے اُوپر ذکر کیا ہے ان میں سے ہر ایک کے لیے خصوصی صلاحیت ، محنت اور مہارت درکار ہے تاہم طوالت سے بچتے ہوئے یہاں ہم بطور مثال صرف نصابات اور تربیت کی تشکیلِ نو کے لیے درکار اہلیتوں کا ذکر کریں گے۔

نصاب کی اسلامی تشکیلِ نو کے لیے درکار اہلیت

یہ صحیح ہے کہ انفرادی سطح پر ایک سکول یا کالج خود اپنا نصاب اور نصابی کتب تیار نہیں کرسکتا بلکہ حکومت یا پرائیویٹ سطح پر نصابی کتب تیار کرنے والے ادارے جو کتابیں تیار کرتے ہیں سکول و کالج وہی کتابیں خرید کر پڑھاتے ہیں(یاد رہے یونیورسٹی کا معاملہ اس سے الگ ہوتا ہے کیونکہ ہریونیورسٹی ایک خود مختار ادارہ (Autonomous body) ہوتی ہے اور اپنے نصابات خود تشکیل دے سکتی ہے) تاہم کوئی حکومتی یا پرائیویٹ ادارہ، اگر نصابی کتب اسلامی تناظر میں تیار کرنا چاہتا ہو تو اسے اس کام کے دائرہ کار اور مقاصد کا ادراک ہونا چاہیے جس کا ذکر پہلے ہوچکا( یعنی 1 متون قرآن وسنت کا مطالعہ، 2عمرانی وسائنسی علوم کی اسلامی تناظر میں تدوین، تعلیمی ثنویت کا خاتمہ (یعنی دینی ودنیاوی علوم دونوں کی بیک وقت تدریس )اور تربیت وتزکیہ (یعنی علم کے ساتھ اقدار کی طلبہ تک منتقلی)تاکہ بچہ جب تعلیم کے مرحلے سے فارغ ہو اور عملی زندگی میں قدم رکھے تو ضروری علمی وفنی مہارتیں رکھنے کے ساتھ وہ صالح مسلمان بھی ہو۔ بہر حال نصاب کی اسلامی تناظر میں تدوین وتشکیلِ نو پر کام کرنے والے افراد میں مندرجہ ذیل اہلیتیں یا خوبیاں ہونی چاہئیں۔ یاد رہے کہ بین الاقوامی ادارہ فکر اسلامی امریکہ کے بانی ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر راجی الفاروقی شہیدؒ نے علوم کی اسلامائیزیشن کرنے والے فرد میں دس خصوصیات کا ذکر کیا ہے ([26] ) جنہیں ہم نے اختصار کے ساتھ چار نکات میں سمودیا ہے۔

1۔ اس کا اسلامی علوم ومعارف کا گہرا اور وسیع مطالعہ ہونا ضروری ہے تاکہ اسے اندازہ ہو کہ وہ کون سی بنیادی اور ضروری دینی تعلیمات ہیں جو اسے طلبہ تک منتقل کرنی ہیں۔اس کا م میں تربیت اور تعمیر سیرت کا ہدف بھی اس کے سامنے رہنا چاہیے۔

2۔ ایسا شخص مغربی فکروتہذیب کا وسیع اور گہرا مطالعہ رکھتا ہو بلکہ اس نے اسلام اور مغربی فکروتہذیب کا تقابلی مطالعہ کررکھا ہوتاکہ اسے بخوبی اندازہ ہو کہ مغربی افکار وتصورات اسلامی تعلیمات سے مختلف ومتضاد ہیں اور الحادو دہریت پر مبنی ہیں۔ لہٰذا وہ شعوری طور پر اسلامی افکار ،تصورات اور اصطلاحات بچوں کے سامنے لائے اور مغربی تہذیب کے افکار ،تصورات اوراصطلاحات بچوں کے سامنے نہ لائے۔ یا اگر کسی سطح پر ان کا لانا ناگزیر ہو تو ان پر تنقید کرتے ہوئے بتائے کہ یہ غلط اور خلاف اسلام ہیں لہٰذا ایک مسلمان کے لیے قابل قبول نہیں بلکہ قابل رد ہیں۔

3۔ اسے بچوں کی عمر اور ذہنی سطح ونفسیات کا اندازہ ہوتاکہ اسے پتہ ہو کہ کون سی بات طلبہ کو کب بتانی اور سکھانی ہے؟

4۔ نصاب سازی اور نصابی کتاب کی تدوین خود ایک فن ہے ۔ جو اس شخص اس فن میں مہارت نہ رکھتا ہو وہ اس کام کا حق ادا نہیں کرسکتا۔

تربیت کرنے والے مربی استاد کی اہلیت

جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ ہر استاد اور معلم کو مربی ہونا چاہیے تاہم اگر تعلیمی ادارے کے سربراہ کو اللہ تعالیٰ توفیق دیں اور وہ اپنے سکول میں ایک’ تربیت کمیٹی ‘قائم کرے اور اس کمیٹی کی سربراہی کی ذمہ داری کسی استاد بالخصوص اسلامیات کے استاد کو دے تو اسے ذہن میں رکھنا چاہیے کہ طلبہ کی اسلامی تربیت کے لیے کیا اہلیتیں درکار ہیں؟ ہماری رائے میں یہ صفات درج ذیل ہیں جو ہر استاد اور بالخصوص مربی استاد میں ہونی چاہئیں۔ ([27] )

1 ۔ عربی کا مشہور مقولہ ہے کہ "فاقد الشىئ لا یعطيه" یعنی اگر کسی شخص کے پاس کوئی شے موجود ہی نہ ہو تو وہ اسے دوسروں کو کیسے دے سکتا ہے ؟ مطلب یہ کہ جس شخص کی اپنی تربیت نہ ہوئی ہو وہ دوسروں کی تربیت نہیں کرسکتا۔ تربیت ، تعمیرِ سیرت اور کردار سازی تعلیمی اصطلاحات ہیں جبکہ اس مقصد کے لیے قرآن حکیم نے ’تزکیۂ نفس‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ تزکیۂ نفس کا مطلب بھی یہی ہے کہ انسان قرآن وسنت کے مطابق اچھے اخلاق اور تعمیری رویوں کو پروان چڑھائے اوراخلاق رذیلہ اور برےرویوں کو ترک کرے یعنی فضائل کا اکتساب اور رذائل کا ترک اور یہی تعلیم وتربیت کا مقصود ہوتا ہے لہٰذا ایک مربی استاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ طلبہ کی تربیت سے پہلے اپنی تربیت کرے، طلبہ کے نفوس کا تزکیہ کرنے سے پہلے خود اپنے نفس کا تزکیہ کرے اور اپنے نفس کو بڑی حد تک عیوب اور خامیوں سے پاک کرے۔

2۔ ہر استاد کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ چاہے نہ چاہے طلبہ اس کو آئیڈیلاز کرتے ہیں یعنی وہ اس جیسا بننا چاہے ہیں، ہر معاملے میں استاد کی نقل کرنا چاہتے ہیں لہٰذا اگر وہ اپنا تزکیۂ نفس نہیں کرتا اور اپنی اصلاح وتربیت کرکے خود کو عیوب سے پاک نہیں کرتا اور اس کی وجہ سے اس کے طلبہ کی بری اور غیر اسلامی تربیت ہوتی ہے تو اس کا وبال اس کے سرپرہے اور آخرت میں وہ اس وجہ سےمستحق عقاب ہوگا کیونکہ جس طرح صدقۂ جاریہ ہوتا ہے اسی طرح گناہِ جاریہ بھی ہوتا ہے یعنی اگر استاد اچھے کام کرتا ہے اور اس کو دیکھ کر اس کے شاگرد وہی اچھے کام کرتے ہیں تو استاد اگر فوت بھی ہو جائے تو اس کے تلامذہ کے نیک کاموں کی وجہ سے ان کااجرو ثواب اس فوت شدہ استاد کو ملتا رہے گا۔ اور اس کے برعکس بھی صحیح ہے یعنی اگر استاد برے کام کرتا ہے اور اسے دیکھ کر اس کے شاگرد بھی برے کام کرتے ہیں تو اس استاد کی زندگی میں بھی اور اس کے مرنے کے بعد بھی ان کا گناہ اس کے کھاتے میں جمع ہوتا رہے گا اور اس کی سزا اسے بھگتنا ہوگی۔ اس لیے ضروری ہے کہ استاد اپنا تزکیۂ نفس کرے اور تعمیری عادتیں اپنائے۔

3۔ مربی استاد کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کس عمر کے طالب علم کو کون سی اقدار کب سکھائے اور ان پر عمل کرائے۔ گویا طالب علم کی عمر، اس کی ذہنی ونفسی حالت اور اس کی علمی سطح کو اسے ملحوظ خاطر رکھناچاہیے۔ اس کا کردار ایک طبیب حاذق کا ساہو نا چاہیے کہ وہ ایک مرض میں مبتلا ہر مریض کو ایک ہی دوا نہیں دیے چلا جاتا بلکہ ہر مریض کی عمر، جنس، مزاج، ماحول اور پس منظر کا لحاظ رکھتا ہے۔

4۔ بچوں کی تربیت کا کام صرف شفقت ومحبت سے ہوسکتا ہے ۔ ڈنڈے کا استعمال یہاں نقصان دہ ہوتا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ استاد حلیم الطبع ہو اور خوش گوار مزاج رکھتا ہو۔ اس کا معیار یہ ہے کہ جس طرح وہ خود جہنم کی آگ سے بچنا چاہتا ہے اور اپنی اولاد کو جہنم کی آگ سے بچانا چاہتا ہے اسی طرح اسی جذبے سے وہ اپنے شاگردوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کرے اور جس طرح اپنی سگی اولاد سےمحبت اور خیر خواہی کرتا ہے اسی طرح اپنے شاگردوں سے محبت اور خیر خواہی کرے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو یقیناً طلبہ کی اچھی تربیت کرنے پر قادر ہوجائے گا۔

5۔ اپنا تزکیہ کرنا بھی ایک مشکل کام ہے اور خصوصاً دوسروں کا تزکیہ کرنا تو بہت ہی مشکل کام ہے اور اس کے لیے خصوصی مہارت درکار ہوتی ہے۔ یہ ایک فن ہے اور دیگر فنون کی طرح اس کے لیے بھی کتابی علم کافی نہیں ہوتا بلکہ کسی ماہر فن کے ساتھ کام کرکے اس کی مہارت اور تربیت حاصل کرنا ناگزیر ہوتا ہے لہٰذا اس امر کی طرف دھیان دینا بھی ضروری ہے۔

تعلیم کی اسلامی تشکیلِ نوکس کی ذمہ داری ہے؟

پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کا کردار

تعلیم کی اسلامی تشکیل نو پر بحث کو سمیٹتے ہوئے اب ہم اس کے آخر ی جزو کی طرف آتے ہیں کہ مان لیا کہ تعلیم کی اسلامی تشکیل نو کا معاملہ بہت اہم ہے۔ اہم ہی نہیں اہم ترین ہے۔ یہ مسلمانوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے کیونکہ دنیا وآخرت میں ان کی کامیابی کا انحصار اسی کام پر ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ اہم ترین کام کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ اسے کون کرے گا؟

ہمارے نزدیک یہ ہر مسلم حکومت کے کرنے کا کام ہے کیونکہ اس کام کے لیے جتنے وسائل درکار ہیں وہ ایک حکومت ہی آسانی سے فراہم کرسکتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے مسلم ممالک میں اکثر حکومتوں کو اس کام کا اور اس کی اہمیت کا احساس نہیں ۔ ان کو اس کام کی اہمیت کا احساس دلانا چاہیے لیکن اگر وہ پھر بھی نہ سمجھیں اور یہ کام نہ کریں تو خاموش ہو کر اور ہاتھ توڑ کر بیٹھ نہیں رہنا چاہیے بلکہ پرائیویٹ سیکٹر کو اس کام کے لے آگے آنا چاہیے۔ سکول چینز (School Chains) کو خود آگے بڑھنا چاہیے اور اس غرض سے نصاب سازی کا ایک شعبہ قائم کرنا چاہیے جو اسلامی تناظر میں نہ صرف اسلامی نصابی کتب تیار کرے بلکہ تعلیم کے دوسرے شعبوں کے لیے بھی اسلامی معیارات (Islamic Standards) تیار کرے اور جو تعلیمی ادارے ان معیارات کے حصول کے لیے کام کرنا چاہیں وہ ان کی مدد کرے -یہ کام چونکہ فی سبیل اللہ نہیں ہوسکتا لہٰذا وہ اپنے اخراجات بعد میں ملحقہ سکولوں سے وصول کرسکتا ہے لیکن ہماری رائے میں یہ عظیم کام کاروبار بہر حال نہیں ہے کہ اسے نرنس کی طرح نفع اندوزی کی نیت سے چلایا جائے۔ تعلیم وتربیت مسلم روایت میں کبھی کاروبار نہیں رہی اور نہ اسے کاروبار بنانا چاہیے۔ بُرا ہو مغربی فکروتہذیب کا جس نے تعلیم کو کاروبار بنادیا ہے اور اللہ ہدایت دے ان مسلمانوں کو جنہوں نے مغرب کی پیروی کرتے ہوئے مسلم معاشروں میں تعلیم کو کاروبار بنالیا ہے۔

تاہم پرائیویٹ سیکٹر میں نصابات اور تعلیم کی تشکیلِ نو پر کام کرنے والے افراد میں وہ صفات لازماً ہونی چاہئیں جن کا ہم نے سطور بالا میں ذکر کیاہے ۔ خصوصاً تعلیم کے ان چار وں اہداف کو پیش نظر رکھنا ہوگا جن کا ذکر ہم نے اس مقالے کے شروع میں کیا ہے یعنی اسلامی تناظر کو محلوظ رکھنا ، مغربی فکروتہذیب کا ردّ ، تعلیمی ثنویت کا خاتمہ اور تربیت وتزکیہ کو اہمیت دینا۔

پاکستان کے ممتاز اسلامی سکالر مرحوم ڈاکٹر محمود احمد غازی نے اس کام کی اہمیت اور Urgency یعنی اسے فوری کیے جانے کے حوالے سے ایک دفعہ کہا تھا : ’’علوم کی تنقید وتنقیح کے اس عظیم الشان کام کے لیےاب تاریخ ہم کو شاید مزید مہلت نہ دے۔ اگر مستقبل قریب میں بھی ہم کچھ کرلینے میں کامیاب ہوگئے تو خیر ورنہ اسلامی اقدار اور اسلامی تہذیب کا احیاء ایک خواب وخیال ہو کر رہ جائے گا بلکہ تغیر پیہم کی اس دنیا میں ہمارے لیے اپنا ملی وجود برقرار رکھنا بھی ممکن نہ رہے گا۔‘‘([28] )

لہٰذا ہماری یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ امت مسلمہ کی بقا، استحکام اور ترقی معلق ہے تعلیم کی اسلامی تشکیلِ نو پر۔ اگر مسلمانوں نے یہ کام صحیح خطوط پر (جن کا ذکر ہم نے سطور بالا میں کیا ہے) کرلیا تو ان شاء اللہ وہ دنیا میں بھی کامیاب ہوں گے اور آخرت میں بھی۔ لیکن اگر انہوں نے یہ کام نہ کیا اور نہ اس کی اہمیت کو محسوس کیا تو اللہ تعالیٰ کے اس انتباہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے نافرمانوں کو اس طرح سزادیتا ہے کہ آج ہم ان کی بھنک بھی نہیں پاتے۔([29] ) اللہ تعالیٰ ہمیں اس انجام سے محفوظ رکھے، اسلام پر عمل کی توفیق دے،خصوصاً اسلامی نظامِ تعلیم کی تشکیلِ نو کی توفیق دے اور ہمیں دنیا وآخرت کی رسوائی سے بچائے۔

 

حوالہ جات

  1. - النازعات: 17-18
  2. - البقرة: 151
  3. - البقرة: 129، آل عمران: 164، الجمعة: 2
  4. - الفاتحہ: 5
  5. - البقرة: 2
  6. - الملك: 26
  7. - الجمعہ: 5
  8. - الصف: 3
  9. - النساء: 43
  10. - النساء: 83
  11. - البقرة: 184
  12. - البقرة: 280
  13. - البقرة: 194
  14. - الفاتحہ: 5
  15. - البقرة: 2
  16. - ڈاكٹر محمد امىن، فلسفہ علم، چند اہم مباحث، ماہنامہ البرہان ، لاہور، جون 2016ء ص: 11-23
  17. - مغربى فكر و تہذىب كے الحادى اور اسلام سے متضاد ہونے كا مسئلہ واضح ہے لىكن ىہ اس كا محل نہىں كہ ہم اس كى تفصىل مىں جائىں، تفصىلا ت كے لىے دىكھىے مصنف كى كتاب ’’اسلام اور تہذىب مغرب كى كشمكش‘‘ كتاب محل ، دربار ماركىٹ ، لاہور، ص: 20 وما بعد
  18. - محمد دىن جوہر (مرتب) ، ہندوستانى تعلىم پرمنٹ، كتاب محل، دربار ماركىٹ، 2017ء
  19. - مولانا مناظر احسن گىلانى، سوانح قاسمى 2/299، دارالعلوم دىوبند 1373ھ، بحوالہ دىوبند كى سالانہ رپورٹ برائے 1970ء
  20. - ڈاكٹر محمد امىن، نصاب مدنى، مكتبہ البرہان، لاہور
  21. - گيلانى ، مناظر احسن ، مولانا ، پاك و ہند مىں مسلمانوں كا نظام تعلىم و تربىت، دوست اىسوسى اىٹس ، لاہور
  22. - ان سفارشات كا ايك نسخہ رام پور لائبرىرى مىں موجود ہے، بحوالہ عابد رضا بىدار، ہندوستانى مسلمانوں كے رىفارم كے مسائل، رام پور انسٹى ٹىوٹ آف اورى اىنٹل سٹڈىز
  23. - فضل الرحمان، مولانا ، الجمعيہ، افضل شرىف پرنٹرز، لاہور، 1990ء، ص: 39
  24. - الاعراف: 164
  25. - ’’ہمارا تعلىمى بحران اور ان كا حل‘‘، مطبوعہ كتاب محل ، دربار ماركىٹ، لاہور۔ ’’ہمارا دىنى نظام تعلىم‘‘ مطبع مكتبہ البرہان، 97/Aنىلم بلاك اقبال ٹاؤن لاہور
  26. - ڈاكٹر اسماعىل الفاروقى، علوم جدىد كى اسلامى تشكىل-عمومى اصول اور خطوط كار( مترجم پروفىسر محمد سلىم) مطبوعہ ادارہ تعلىمى و تحقىق، تنظىم اساتذہ پاكستان، 1989ء
  27. - ہمارى كتاب ’’تعلىمى ادارے اور كردار سازى‘‘ اور ’’تعلىمى اداروں مىں تعمىر سىرت‘‘ تربىہ ہىنڈ بُك و گائىڈ كا ضمىمہ اول ، مطبوعہ كتاب محل، دربار ماركىٹ، لاہور، 2018ء
  28. - غازى ، ڈاكٹر محمود احمد ، محاضرات تعلىم (مرتبہ سىد عزىز الرحمن) زوار اكىڈمى پبلى كىشنز، كراچى، 2017ءص: 243
  29. - مريم: 98
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...