Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tabyīn > Volume 1 Issue 1 of Al-Tabyīn

زبانوں کی تہذیبی اہمیت عربی زبان و قرآن حکیم: اہمیت و کردار |
Al-Tabyīn
Al-Tabyīn

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2017

ARI Id

1682060060947_830

Pages

108-135

PDF URL

https://sites2.uol.edu.pk/journals/al-tabyeen/article/view/135/43

Chapter URL

https://sites2.uol.edu.pk/journals/al-tabyeen/article/view/135

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

منہ میں گوشت کا سرخ ٹکڑا یا عضو ، زبان ،جیبھ ،لسان یا Tongueکہلاتا ہے ۔جس میں قوتِ ذائقہ ہوتی ہے اور جب انسان اس کے ذریعہ کلام کرتا ہے، بولتا ہے تو اسے بولی (Language)کہا جاتا ہے۔ دورِ جدید میں زبان کے بارے میں علم کو لسانیات کا نام دیا جاتا ہے۔زبان آوازوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس میں صوت ، حرف پر مقدم ہوتی ہے یعنی پہلے آواز پیدا ہوتی ہے پھر ان صوتیات سے الفاظ جنم لیتے ہیں۔

زبان ، احساسات و خیالات کے اظہار کا ایک قدرتی سرچشمہ ہے ۔ ہماری زبان کی انفرادیت یہ نہیں کہ ہم باہم بات چیت کر سکتے ہیں بلکہ یہ ہےکہ یہ صلاحیت ِنطق انسان کو دیگر مخلوقات خصوصاً حیوانات کے مقابلے میں زیادہ وسعت و تنوع عطا کرتی ہے۔([1])قرآن عظیم کے مطابق حضرت سلیمان ﷤ کو پرندوں کی بولی بھی سکھائی گئی تھی اور وہ حشرات الارض کی زبان بھی بخوبی سمجھتے تھے۔ ([2])گویا تمام مخلوقات کو قدرتِ نطق عطا کی گئی ہےمگر انسانی قوتِ گویائی نہ صرف افضل و اعلیٰ ہے بلکہ اس کے ذریعے وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے، سوچتا ہے، غوروفکر کرتا ہے اوراپنی سوچ ، افکار اور نظریات تحریری زبان میں محفوظ بھی کرلیتاہے۔

زبان کی ابتداء

زبان کی ابتداء کے حوالہ سے بنیادی طور پر دو نقطہ نظر موجود ہیں :

1۔ روایتی یا مذہبی نقطہ نظر2۔ جدید یا غیر مذہبی نقطہ نظر

1۔ مذہبی نقطہ نظر

کتب سماویہ ومذہبیہ مثلاً کتابِ مقدس ( عہد نامہ عتیق) اور قرآنِ حکیم میں زبان کو ایک وہبی یا عطائی صلاحیت کہا گیا ہے۔

(۱)۔عہد نامہ عتیق میں ہے

’’ اور خداوند خدا نے کل دشتی جانور اور ہواکے کل پرندے مٹی سے بنائے اور ان کو آدم کےپاس لایا کہ دیکھے کہ ان کے کیا نام رکھتا ہے اور آدم نے جس جانور کو جو کہا وہی اس کا نام ٹھہرا۔‘‘([3])

(۲)۔قرآنِ مہیمن میں ارشادِ ربانی ہے

’’ اور اللہ تعالیٰ نے آدم (﷤)کو تمام نام سکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا ، اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (﷤)سے فرمایا : تم ان کو ان کے نام بتادو ۔ جب انھوں نے بتادیے۔‘‘([4]) یہاں دو باتیں نوٹ کرنے کے قابل ہیں:

زبان و بیان کی صلاحیت عطائے ایزدی یا وہبی شے ہے

عہدِ عتیق میں ہے: آدم (﷤)نے جس جانور کو جو کہا وہی اسکا نام ٹھہرا ‘‘۔ جبکہ قرآنِ مھیمن واضح کرتا ہے کہ اللہ علیم و حکیم نے آدم (﷤)کو اشیاءکے نام سکھائے ( علم الاسماء)پھر انھوں نے فرشتوں کے سامنے ان اشیاءکے نام بتائے۔ بائبل میں مادی کائنات کے علم کو براہِ راست ’بشر ۔انسان‘ سے جوڑا گیا ہے جس سے اکتسابی علوم میں فلسفہ انسانیت (Humanism )کو مرکزیت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے برعکس قرآنِ حکیم میں مادی علوم و فنون کی راست نسبت بھی خالقِ آدم سے کی گئی جس سے ’’الہٰیت (Tauheedism) ‘‘کی وسطیت نمایاںہوتی ہے جو الہامی مذاہب کا طرہ امتیاز ہے۔

زبان کے عطائی ہونے کی تائیدی شہادتیں

زبانیں اور حروفِ تہجی

دنیا کی اہم زبانوں کے حروفِ تہجی میں باہم گونا گوں مماثلت پائی جاتی ہے ۔ اس کا براہِ راست مذہبی حوالہ ہمیں عہدِ نامہ ٔ عتیق کی کتاب پیدائش میں ملتا ہے۔([5]) اکثر زبانوں میں کچھ الفاظ کی ادائی میں حیرت انگیز مشابہت بآسانی دیکھی جاسکتی ہے خصوصاً ماں باپ، جنت، قیامت اور پانی کے الفاظ ہیں۔ مثا ل کے طور پر ماں کو عربی میں (اُم) ،انگریزی میں (mother)، سنسکرت میں (مادر)، برمی میں (امی) اور ملیالم میں (ماں) کہتے ہیں۔ اسی طرح زبانوں کے حروفِ تہجی میں بھی کسی قدر مشترکات موجود ہیں۔ جیسے الف کو عربی ،عبرانی اور حبشی زبان میں الف، یونانی’الفا‘اور انگریزی’a‘ کہتے ہیں ۔([6])

زبان اور فطرت

انسان کی تبدیل نہ ہونے والی فطرت کے بارے میں قرآن ِ پاک واضح بیانیہ پیش کرتا ہے۔([7]) متحقق ہے کہ زبانیں پہلے وجود میں آتی ہیں اور پھر ان کے قواعد و ضوابط مرتب کیے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ صرف چند ہی زبانوں کے صرف و نحو ([8])مرتب کیےگئے ہیں جبکہ مصنوعی زبانیں جن کی گرامر پہلے مرتب کر کے انہیں رائج کرنے کی سعی لاحاصل کی گئی اور جن کی تعداد کم و بیش سینتیس (37 )ہے۔ ان کے ناکام ہونے کی وجہ یہی تھی کہ بولی ایک ایسی صلاحیت ہے جو اندر سے پھوٹتی ہے اسے باہر سے لاگو نہیں کیا جاسکتا ۔ چند مصنوعی زبانیں یہ ہیں: پولش فزیشن Ludwik Zemenholf(1858ء-1917ء) سے منسوب Speranto، Planeta (۲۰۱۰ء)، Europanto(۱۹۹۶ء(اور Solresol(۱۸۲۷ء) ۔

حضرت عیسیٰ﷤چونکہ بنی اسرائیل کی اصلاح و تہذیب کے لئے مبعوث کیے گئے لہذا آپ ﷤اور آپ کے حواریوں نے یہودی شرع کو اختیار کیے رکھا اور اس پر عمل کا حکم دیا۔ بائبل (عہد نامہ ٔجدید)مسیحی قول نقل کرتی ہے :

’’ یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی تعلیم کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ پس جو کوئی ان چھوٹے سے چھوٹے حکموں میں سے بھی کسی کو توڑے گا اور یہی آدمیوں کو سکھائے گاوہ آسمان کی بادشاہت میں سے سے چھوٹا کہلائے گا لیکن جو ان پر عمل کرے گا اور ان کی تعلیم دے گا وہ آسمانی بادشاہت میں بڑا کہلائے گا۔‘‘([9])

لیکن بعد از رفع ِ عیسیٰ(﷤)، سینٹ پال(4۔ 64ء) نے اور پھر قریباً 300 برس بعد مختلف عیسائی کونسلوں خصوصاً نیقیہ کونسل (325ء ) و دیگر نے عیسائی عقائد ، تعلیمات و اصطلاحات وضع کیں۔

نیز یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ چرچ نے بائبل میں جن کتابوں کاانتخاب کیا اس میں معیار یہ نہ تھا کہ کون سی تحریر یا روایت صحیح طور پر حضرت عیسیٰ﷤تک پہنچتی ہے بلکہ یہ دیکھا جاتا تھا کہ کونسی کتاب کلیسا کے پسندیدہ مروجہ نظریات کی تائید کرتی ہے۔ عقیدہ تثلیث ، تجسیمِ عیسیٰ(﷤) ، ابنیت(Son Ship)اور کفارہ وغیرہ جیسے عقائد اسرائیلی مذہب میں موجود نہ تھے۔ گویا موجودہ مسیحیت فطری و الہامی نہیں بلکہ مصنوعی و انسانی سرگرمیوں اور کارگزاریوں کا حاصل ہے۔

نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:

«مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ»([10])

’’ ہر بچہ فطرت(اسلام) پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی ، نصرانی اور مجوسی بنادیتے ہیں ۔‘‘

اسلام دینِ فطرت ہے اس کےعقائد و اعمال کی بنیادیں قرآن و سنت نے استوار کردیں بعدازاں علمائے اسلام نے دین کی مبادیات و لوازمات کو سمجھنے سمجھانے کے لیے اصطلاحاتِ دینیہ اور علوم اسلامیہ وضع کیے ۔مثلاً فقہی شرعی احکام و اصول ( تکلیفی اور وضعی) میں ایجاب ( واجب و فرض)۔ ندب(مستحب و مندوب)، حرمت (حرام و ممنوع) کراہت( مکروہ تحریمی و تنزیہی ) ۔ اباحت( مباح وغیرہ)۔اسلامی روایت میں مفسر ، متکلم ، محدث ، مفتی وغیرہ دینی علوم کے ماہرین ہیں نہ کہ ان کے واضع اور شارع۔

تاریخی شہادت

پانچویں صدی قبل مسیح کے یونانی مورخ ہیروڈوٹس کے مطابق قدیم مصری بادشاہ فرعون (610-664ق م) نے اور بعد ازاں رومن شاہ فریڈرک دوم ( 1194ء-1250ء(اور سکاٹ لینڈ کے بادشاہ جیمز چہارم (1488ء۔1513ء) نے نوزائیدہ بچوں کو تنہائی اور جنگل میں رکھ کر ان کی زبان سننے کی کوشش کی مگر جنگل میں پرندوں اور مختلف جانوروں کی بولیاں سننے کے باوجود وہ گونگے ہی رہے ۔ یہ بچے ان آوازوں کے ملاپ یا اشتراک سےکسی قسم کے الفاظ بولنے پر قادر نہ ہو سکے۔ گویا اللہ تعالیٰ اگر انسان کو بے زبان پیدا کرتا تو وہ آج بھی بولنے کی عظیم نعمت سے محروم ہی ہوتا۔

بہت سے ماہرین لسانیات کی رائے ہے کہ ساری انسانی زبانیں کسی ایک ہی بنیادی زبان کی شاخیں ہیں۔([11])

محقق کارل وی لینڈ کی رائے یہ ہے کہ :

’’مختلف زبانوں پر تحقیق سے یہی بات آشکارا ہوتی ہے کہ بابل میں جو چند زبانیں ابتداءً تخلیق ہوئی تھیں انہی سے وہ بے شمار زبانیں پھوٹی ہیں جو آج کل انسانی معاشروں میں مروج ہیں۔‘‘ ([12])

2۔ جدید نقطۂ نظر

توقیفی یا اکتسابی

افلاطون (427-347ق م) کا ’توقیفی نظریہ‘ زبان کے عطائی ہونے کی عقلی تائید کرتا ہے اس کے بقول لغت ، عطیہ الہیٰ ہے۔ اس کے برعکس اس کے شاگرد ارسطو (322-384ق م) کا ’اصطلاحی نظریہ‘ زبان کو سماجی مظہر یا اکتسابی کہتا ہے۔ دورِ تنویر(Enlightenment) (1685ء-1815ء) کے فرانسیسی فلسفی روسو (1712ء ۔1778ء) اور جرمن جان ہرڈر(1744ء-1803ء)ارسطو کے نظریہ کے زبردست حامی و موید رہے ہیں۔ مغرب میں بعد ازاں عطائی یا اکتسابی کی بحث چھوڑ کر تاریخی و تقابلی لسانیات کا آغاز ہوا ۔ لسانیات میں جدید تحقیق کے بانی سوئس فرڈیننڈ دی سوسیر(1857ء-1913ء) نے اپنی کتاب Sourse of Linguistique Generole لکھی ۔جس میں اس نے توضیحی لسانیات (Descriptive Structural Approach )کو آگے بڑھایا جس کا آغاز ہندی مفکر پانینی (چوتھی صدی قبلِ مسیح) نے واضح مذہبی مقاصد کے تحت کیا تھا اور بعد میں عرب ماہر لسانیات سیبویہ (760ء-796ء) نے اسے تقویت بخشی۔ سوسیر نے واضح کیا کہ زبان کے اصول و قواعد میں مذہبی ادب کا بنیادی کردار رہا ہے۔ مثلاً رامائن و گیتا، کتابِ مقدس و تالمود، اوستا، الیڈ ، اوڈیسی، اینائڈ، کامیڈی، فردوسِ گم گشتہ وغیرہ۔ بعد ازاں نوم چومسکی (1928ء)نے Syntactic Structure(1957ء)میں سوسیر کی تحقیق کو آگے بڑھایا اور ’قواعدِ تحویلیہ ‘(Transformational Rules ) کا تصور پیش کیا ۔ دورِ حاضر کے علمِ لسانیات اس کے نظریہ ہی کی چھاپ ہے۔ اس نے کہا ہے کہ لغت وہ قدرت ہے جو معاشرہ کے ہر فرد میں پائی جاتی ہے۔ اس کی بدولت وہ ایسے جملے تخلیق کرتا ہے جو اس نے پہلے کبھی نہیں سنے ہوتے۔ زبان کے اس ملکہ کو وہ معرفتِ لغوی کانام دیتا ہے۔ ([13])

گویا جدید نقطہ نظر بھی اس بات کی چار و ناچار تائید ہی کرتا نظر آتا ہے کہ زبان ایک عطائی یا وہبی صلاحیت ہے لیکن چونکہ مابعد الطبیعیاتی حقائق سائنس کے دائرہ کار سے باہر ہیں لہذا جدید علمِ لسانیات نے اس سوال کو تشنہ تعبیر چھوڑ کر اس کے افادی پہلو اور تشکیلی لسانیات پر اپنی زیادہ تر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔

زبانیں اور استعماری طاقتیں

گزشتہ تین سو سالہ نوآبادیاتی تاریخ بتاتی ہے کہ ولندیزی ، انگریز، پرتگیزی، روسی ، فرانسیسی، امریکی اور ہندو استعماری قوموں نے دنیا میں جہاں بھی اپنی نوآبادیات قائم کیں وہاں لوگوں کو غلام بنایا، اصل باشندوں کو وحشی قرار دے کر قتل کیا، ان کی زبانیں مٹادی گئیں یا ان کا رسم الخط تبدیل کر دیا گیا یا کم ازکم اس کی کوشش ضرور کی گئی۔ صرف مسلمان حکومتیں اس سے مستثنیٰ ہیں، مسلمان جہاں بھی گئے انھوں نے اپنے مقبوضات کی علمی و مروجہ زبانیں نہ صرف سیکھیں بلکہ ان کے فروغ و ابلاغ میں اپنا تعمیری و مثبت کردار بھی ادا کیا۔ یونانی و ہندی علوم و فنون کی نشاۃو ارتقاء میں مسلم کردار مسلمہ حقیقت ہے۔

مورخین کے مطابق 80 لاکھ اور بعض کے نزدیک 9 کروڑ مقامی امریکی باشندوں (سرخ ہندیوں)کا قتلِ عام کیا گیا اور ان کی نسل کشی کی گئی۔ جب نسلیں ہی باقی نہ رہیں تو زبانیں بھی ختم ہو گئیں۔([14]) مقتول مارٹن لوتھر کنگ جونئیر(1968ء) سے قبل امریکی سیاہ فام آبادی غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھی۔ان کی عبادت گاہیں (چرچ) ، مراکزِ صحت و صفائی ، تعلیمی اور دیگر سماجی و معاشی ادارے سفید فام امریکیوں سے الگ و کمتر درجے کے کھے جاتے تھے۔امریکہ میں دورِ غلامی (1501ء-1865ء)کے گزر جانے کےصدیوں بعد بھی چوالیسویں امریکی سیاہ فام صدر باراک اوباما (2009-17) اصل امریکی باشندوں سے روا رکھی جانے والی ناانصافیوں کا موقع بے موقع اظہار کرنے پر داخلی و خارجہ پالیسی سازوں کی تنقید و بے چینی کا شکار رہے۔

روسی استعماریت نے تمام مسلمان مقبوضات کے رسم الخط عربی سے سریلی (Cyrillic)میں تبدیل کر دیےمگر عیسائی مقبوضہ جات کے ساتھ فراخ دلانہ رویہ اختیار کیا گیا۔ ہندو مت کا احیاء ہوا تو طاقت کے بل پر بدھ مت کی پالی اور دیگر شمالی ہند کی زبانیں مٹانے اور سنسکرت کو زندہ کرنے کی کوشش ہوئی لیکن سنسکرت عوامی زبان نہ بن سکی۔ 1808ء میں برہمن للو لال جی نے بھگوت گیتا کا ترجمہ ’پریم ساگر‘ کرتےہوئے عربی و فارسی کے الفاظ نکال کر ان کی جگہ برج بھاشا اور سنسکرت کے الفاظ شامل کیے اور اسے فارسی رسم الخط کے بجائے دیونا گری خط میں لکھا۔

محقق F.E.K.Key لکھتا ہے:

’’ للو جی ، ان کے ساتھی اور فورٹ ولیم کالج کے ذمہ داران کی وجہ سے ہندی زبان وجود میں آئی۔ ’ولیم کالج‘ کے قیام سے قبل ہندی زبان کا کوئی وجود نہ تھا اور نہ اس زبان میں کوئی تخلیقی کام ہوا تھا۔‘‘([15])

برصغیر میں فارسی زبان کی مذہبی و سماجی حیثیت و اہمیت اور افادیت سے اہلِ علم بخوبی واقف ہیں مگر دورِ استعمار ِ فرنگی میں فارسی زبان کو گورنر جنرل لارڈ بینٹنک (1774ء-1839ء) نے 20 ؍نومبر 1837 ءکو منسوخ کردیا اور فارسی کی بے وقعتی و کسمپرسی کا یہ حال ہو گیا کہ محاورہ مشہور ہوا’ پڑھو فارسی بیچو تیل‘ اور اب فارسی کا اس خطہ ارضی میں کیا مقام و مرتبہ رہ گیا ہے اس کے بیان کی حاجت نہیں۔

پاکستان اور اردو زبان

اردو تقریباً ۶۰۰ ملین لوگوں کی دنیا کی چوتھی بڑی زبان ہے ۔ پاکستان کی قومی زبان اردو کو تمام ادارتی سسٹم سے بے دخل کر کے انگریزی زبان کو اس کی جگہ رائج کیا جاچکا ہے۔ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح﷫ نے ۲۱ مارچ ۱۹4۸ء کو ڈھاکہ کے اجلاس میں کہا تھا:

’’میں واضح الفاظ میں بتادینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان صرف اور صرف اردو ہوگی۔ ایک مشترکہ قومی زبان کے بغیر نہ تو کوئی قوم پوری طرح متحد رہ سکتی ہے اور نہ ہی کوئی کام کرسکتی ہے‘‘۔

۸ ستمبر ۲۰۱۵ ءکو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس جواد ایس خواجہ نے ۱۹۷۳ ءکے آئینِ پاکستان کے آرٹیکل ۲۵۱ کے تحت اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کا حکم دیا ۔ پہلی بار اردو میں حلف اٹھایا، آفس کے باہر اردو میں اپنے نام کی تختی آویزاں کی، مگر بڑے تالاب میں گری کنکری کی وقتی معمولی سطحی ارتعاش و جنبش کے سوا کچھ حاصل نہ ہوسکا۔ بوجوہ اس رائے کو پاکستان میں حکومتی ،ادارتی اور عوامی پذیرائی مل رہی ہے کہ مستقبل میں صرف وہی زبان زندہ رہ سکے گی جو جدید یت اور جدید علوم کی ترجمانی کر سکے ۔

جیسا کہ ضیاء الرحمٰن نے ’ڈان‘ میں لکھا ہے کہ:

‘‘Urdu is read, spoken and understood throughout the country. English is Pakistan’s lingua franca. Here I would like to clarify the meaning of lingua franca. It means ‘a language that is adopted as a common language between speakers whose native languages are different.’ In Pakistan, all official work is done in English. Teachers and college professors lecture in English (research work is done at university level as well in English.). Lawyers and court proceedings are conducted in English. The common people communicate in a hybrid tongue, Urdu mixed with English terms…Unity and harmony comes with a common language. In the case of Pakistan, it is Urdu. But to progress and keep abreast with the developing world, adopt English as your first language. Let your mother tongue be your second language spoken at home, if you so please’’. ([16])

مطلب یہ کہ اردو تو ’لنگوا فرنیکا‘ Lingua Franca) ) ہے اور سارے پاکستان میں سمجھی اور بولی جاتی ہے لیکن ترقی اور جدیدیت کے لیے ہمیں انگریزی کو قومی زبان بنانا ہو گا اور مادری زبانوں کو دوسری حیثیت دینا ہو گی۔

اور اگر اردو کو لاطینی یا انگلش میں لکھنا شروع کر دیا جائے تو آہستہ آہستہ اردو رسم الخط ختم ہوجائے گانتیجتاً اگلی نسلیں بولیں گی اردو اور لکھیں گی انگریزی۔ جب لوگ اردو رسم الخط کو پڑھ نہ سکیں گے تو اردو زبان کا علمی ورثہ، مفکرین ، علماء ، شعراء اور بزرگوں کی لاکھوں کتابیں نسلِ نو کے لیے محض کاغذ کا ٹکڑا بن کر رہ جائیں گی یا ایسا علمی ورثہ جس کی نہ کوئی علمی قدر باقی رہ جائے گی نہ عملی۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ غیر ملکی ادارے اور این دی اوز پاکستان میں تعلیمی میدان میں کیوں اربوں روپے خرچ کررہے ہیں ؟ اور اب سی پیک کی وجہ سے پاکستان میں چینی زبان (Mandarin) کا غلغلہ مچا ہواہے۔کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی اور!

بقول اکبر الٰہ آبادی:

لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزیڈھونڈلی قوم نے فلاح کی راہ

روشِ مغربی ہے مدِّنظر وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ

زبان ،اصطلاحات اور تہذیب

دنیا کی اکثر تہذیبوں کے تشکیلی عناصر تین رہے ہیں۔

۱۔ جغرافیائی عنصر ۲۔ حیاتیاتی عنصر ۳۔ نظریاتی عنصر

حیاتیاتی عنصر میں رنگ، نسل ، وراثتی و نسلی صلاحیت ، عادات اور زبان شامل ہیں۔ کسی بھی تہذیب کی ادبیات یا لٹریچر ، دریافت و ایجادات زبان ہی کی وجہ سے محفوظ رہتی ہیں جو زبانیں آج فنا ہوچکی ہیں ان کی تہذیبوں کا نام و نشان بھی مٹ چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر زبان اور اس کی اصطلاحات اپنے ایک خاص تہذیبی پس منظر سے وابستہ ہوا کرتی ہیں ۔یعنی اس کا خاص علمیاتی ، مذہبی، تاریخی ، سماجی اور معاشی پس منظر ہوتا ہے جس سے اسے جدا کر کے دیکھنے اور کسی دوسری تہذیب و ثقافت و معاشرہ پر منطبق کرنے سے بڑے مغالطے اور گمراہیاں جنم لیتی ہیں۔ ایسا معاشرہ اپنا منفرد تشخص و پہچان کھو بیٹھتا ہے۔ مثلاً ’معصوم‘ کا تصور اہل سنت کے ہاں صرف حضرت محمدﷺکے لیے خاص ہے جبکہ شیعیت میں امامت سے وابستہ ہے۔ Dead Labor مارکس ازم کی اصطلاح ہے جس کا ترجمہ ’مردہ مزدور ‘ غلط ہے۔ عربی یا اسلامی اصطلاحات و تراکیب مثلاً : عدت، طلاق، اذان، اجماع ، جمہور، عصمتِ انبیاء، عدالتِ صحابہ وغیرہ کا ترجمہ ممکن نہیں ہے۔

مغرب کے تہذیبی ڈھانچہ سے برآمد شدہ اصطلاحات Tolerance, Equality, Liberty وغیرہ کا ترجمہ نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ان کا اطلاق غیر مغربی سماج و تہذیب پر درست و قابلِ عمل ہے۔ ’شورائیت ‘کو جمہوریت قرار دینا ، پوری اسلامی تاریخ کو ’ملوکیت ‘کہنا، ’مجلسِ شوریٰ کو پارلیمنٹ سمجھنا،’ حقوق العباد ‘کو انسانی حقوق باور کرنا،’دولت مندی ‘کو سرمایہ داری سمجھنا، ’حفظِ مراتب و درجات ‘کو مساوات قرار دینا، Tolerance کو ’رواداری ‘کہنا۔ یہ کسی تہذیب کے کُل کو جُز کے طور پر دیکھنا اور ’تہذیبی خود کشی‘ کے مترادف ہے۔ اسلام میں ’ہیومن رائٹس ‘کی بجائے رشتوں کے حقوق ہیں۔’لبرٹی و فریڈم ‘کے بجائے عبد یت و عبادت ہے۔ ’Equality ‘ کی بجائے ’حفظِ مراتب ‘کا نظام ہے۔ مردو زن برابر نہیں بلکہ ان کا دائرہ عمل و ذمہ داریاں ان کی فطری و روایتی صلاحیتوں کے مطابق منقسم ہیں۔ یہاں’ مذہبی مساوات ‘نہیں مذہبی تقسیم کا تصور ،بنیاد یں استوار کرتا ہے۔’باہمی رضامندی‘ کے نام پر بھی سود ، زنا اور ہم جنس پرستی کی اجازت نہیں ۔ اسلام میں ترقی کا مغربی تصور موجود نہیں یعنی یہاں صرف دنیا میں ’ترقی ‘یعنی صرف ] رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً مطلوب نہیں بلکہ وَّفِي الْاٰخِرَةِ حَسَـنَةً [ یعنی آخرت میں کامیابی اور ]وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ [ بھی لازمی جزو ہے گویا جو آگ سے بچا لیاگیا وہی کامیاب ہوا کا تصور اصل مقصود ہے ۔([17])اسلام میں ’حق ‘ اضافی (Relative )نہیں جو ہر کسی کا جدا ہو اور سب اپنی اپنی جگہ درست بھی ہو ں بلکہ ’الحق ‘ایک او ر اٹل ہے۔([18]) لہذا الوہی ہدایات کے قلب وقالب میں مغربی اصطلاحات کا پیوند لگانا سنگین نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔

یاد رکھنا چا ہیے کہ مغرب سے آنے والی ہر شے اس کی اپنی اقدار و روایات کی جڑوں سے پیوستہ ہوتی ہے۔ لہذا غالب تہذیب کے فکرو فلسفہ سے واقفیت کے بغیر بظاہر اس کی مثبت چیزوں کو بھی اختیار کر لینا درحقیقت اس تہذیب میں ضم ہونا بلکہ تحلیل ہو جانا ہے۔ مغرب سے مرعوبیت کو ایرانی اسکالرز سید احمد فردید اور جلال احمد ’غرب زدگی ‘کا نام دیتے ہیں۔ یہ بات بھی ذہن نشین رکھنے کی ہے کہ مسیحی مابعد الطبیعیات میں پولسی بدعات و اضافات ([19]) اس قدر سرایت کر چکے ہیں کہ سماوی مذہب کی باقیات محض آٹے میں نمک کے برابررہ گئی ہیں ۔ اور جہاں تک مغربی تہذیب کا معاملہ ہے تو یہ تاریخِ عالم کی وہ واحد تہذیب ہے جس کا فکرو فلسفہ و علمیات اور دیگر علوم ِ طبیعیہ و سماجیہ، خدا، آخرت اوررسالت گویا مذہبی اقدار کے دانستہ و نادانستہ انکار پر استوار ہے۔ آزادی اور سرمایہ کی بنیاد پر خواہشات کی تکمیل و ترقی اس کی بنیادی اقدار ہیں۔

قرآنی زبان اور الوہی تحفظ

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:] اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ [([20])اور یہ کہ ]لَّا يَاْتِيْهِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهٖ تَنْزِيْلٌ مِّنْ حَكِيْمٍ حَمِيْدٍ[([21])’’ اس کتاب پر باطل حملہ آور نہیں ہو سکتا نہ سامنے سے اور نہ پیچھے سے ۔ یہ کتاب اتاری گئی ہے حکیم و حمید کی طرف سے۔‘‘مسلمانوں کو اپنے رب کا شکر بھی کرنا چاہیے اور انہیں اس بات پر فخر بھی ہونا چاہیے کہ قرآن کے متن اور مفہوم کی حفاظت کی ذمہ داری خود خالقِ قرآن نے لی ہے۔

ڈاکٹر اسرار احمد﷫([22])قرآن کی معنوی حفاظت کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں:

’’دیکھیے قرآن خود اپنی حفاظت کس طرح کرتا ہے اور کیوں (مذکورہ) چیلنج دیتا ہے۔ اس آیت کے ضمن میں غلام احمد پرویز صاحب،منکرِ حدیث( 1903ء-1985ء) کہتے ہیں کہ چور کا ہاتھ کاٹنے کا مطلب ہے کہ ایسا نظام وضع کیا جائے جس میں کسی کو چوری کی ضرورت نہ پڑے۔]فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا [کے الفاظ سے جو مطلب پرویز صاحب نے نکالا ہے وہ بالکل غلط ہے۔ اور اگر فرض کرلیں کہ ایسا ہی ہے تو پھر ]جَزَاءً بِمَا كَسَبَا [کی کیا تاویل ہوگی؟ یعنی جو کمائی انہوں نے کی ہے اس کا بدلہ یہ ہے کہ ایک اچھا نظام قائم کر دیا جائے ؟ اس کے بعد پھر ]نَكَالًا مِّنَ اللَّـهِ[کے الفاظ مزید آئے ہیں۔’’نکال‘‘ کہتے ہیں ’‘ عبرتناک سزا کو‘‘ تو کیا ایسے نظام کا قائم کرنا اللہ کی طرف سے عبرتناک سزا ہو گی؟ آپ نے دیکھا قرآن کے معنی و مفہوم کی حفاظت کےلیے بھی الفاظ کے کیسے کیسے پہرے بٹھادیے گئے ہیں؟

گزشتہ صحفِ سماویہ کے برخلاف یہ خوشخبری بھی دی گئی کہ :] لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ¤ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ¤ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ¤ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ [ ([23])

’’(اے نبی ﷺ) آپ (ﷺ)قرآن کو جلدی (یاد کرنے) کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔ اس کا جمع کرنا اور (آ پ کی زبان سے ) پڑھنا ہمارے ذمہ ہے۔ ہم جب اسے پڑھ لیں تو آپ (ﷺ)اس کے پڑھنے کی پیروی کریں ، پھر اس کا واضح کردینا ہمارا ذمہ ہے۔‘‘

قرآن کا جمع کرنا، پڑھوا دینا (قراءت) ، قرآن کے اصل پیغام کی تبیین و تفہیم و تشریح بھی اللہ نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ مثلاً سورۃ النساء کی آیات ۱۲۷ اور ۱۷۶ میں ’’ وَیَسْتَفْتُونَک ‘‘ کے الفاظ کے ذریعے قرآن کہتا ہے کہ اللہ خود اس معاملے کی وضاحت کر دیتا ہے ۔ نیز حضرت محمدﷺ کی بھی یہ منصبی ذمہ داری رہی کہ وہ بھی کلام اللہ کی وضاحت فرمائیں:

]وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ[([24])

’’(اے نبی ﷺ!)ہم نے یہ ذکر آپ پر اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ اس کو واضح کر دیں کہ ان پر کیا کچھ نازل ہوا ہے۔‘‘

نتیجہ عیاں ہے کہ قرآن اپنی اصل پر قائم ہے ۔ گویا قرآن محفوظ تو اس کی زبان عربی بھی ہمیشہ کے لیے زندہ جاوید اور اس سے منسلک افراد و اقوام بھی حاملِ دوام و قوام۔

حفاظتِ قرآن کے ذرائع

۱۔ حفظِ قرآن۲۔ تعلیم القرآن۳۔عمل بالقرآن۴۔کتابتِ قرآن

خدا اور بائبل

خدائے بزرگ و برتر نے کتابِ مقدس کی حفاظت کی ترغیب تو دی لیکن اس کی حفاظت کی کوئی ذمہ داری نہیں اٹھائی ،گویا کتابِ مقدس میں حذف و اضافہ کا راستہ کھلا تھا اور ہے۔([25])نبی خاتم ﷺ کی لسانِ وحی سے اہلِ کتاب پر یہ فردِ جرم عائد کیا گیا کہ انہوں نے منزل من اللہ صحفِ سماویہ کی قدر نہ کی، ان کا انکار کیا،ان میں تحریفِ لفظی و معنوی کی اور عہد کی پاسداری نہ کی۔([26])یاد رہے پہلی بائبل یونانی زبان (Koine Greek) جسے (Biblical Greek )یا (Hellenistic )بھی کہا جاتا ہے ،میں تحریر کی گئی تھی اور یہ ایک مردہ زبان مانی جاتی ہے۔ بائبل کی الہامی زبانیں عبرانی (Hebrew )اور آرامی(Aramaic)بھی فنا کے گھاٹ اتر گئیں ۔ موجودہ اسرائیل میں Eliezer ben Yahuda (1858ء-1922ء(اور اس کے خاندان نے عبرانی زبان کے احیاء میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔

عربی کی قبولیت اور مؤثر ہونا

عربی زبان دنیا کی واحد زبان ہے جس کے دو اڑھائی سو الفاظ دنیا کے کسی بھی خطہ ارضی کا عام مسلمان بھی سمجھتا اور استعمال کرتا ہے ۔اس میں نسل، رنگ اور زبان کا امتیاز بھی موجود نہیں ۔ مثلاً اذان، سلام مسنون، وضو، سورۃ الفاتحہ، تکبیر، الحمدللہ، استغفراللہ، ماشاءاللہ، چند بنیادی سورتیں ، ایمان و عقائد سےمتعلق چند ضروری باتیں، دعائیں ، نکاح ، طلاق، میراث وغیرہ۔ زبانیں عموماً ۵۰۰ سال بعد تبدیل ہوجایاکرتی ہیں لیکن عربی کا رسم الخط ، ذخیرہ ٔالفاظ اور قواعد و ضوابط وغیرہ آج بھی وہی ہیں جو کئی سو سال قبل تھے۔ گویا اگر محمدِ عربی ﷺ کے ہزاروں سال قدیم جدِ امجد میں سے کوئی تشریف لے آئے تو اسے بات سمجھنے سمجھانے میں مشکل پیش نہ آئے گی۔بے شک کچھ الفاظ و اصطلاحات بھی عربی میں رائج ہوئیں لیکن قرآن کی عربی مبین پر وہ ہر گز اثر انداز نہ ہوسکیں۔

معروف انگریز مورخ فلپ کے حتی (1886ء-1978ء) اعتراف کرتا ہے کہ :

’’ قرآن پاک کی عربی اتنی ہمہ گیر اور مکمل ہے کہ مختلف عربی لب و لہجے کے باوجود عربی زبان کے ٹکڑے نہیں ہوئے حالانکہ خود رومی زبان بھی بعد میں کئی حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ بے شک ایک عراقی ایک یمنی کا عربی لہجہ سمجھنے میں مشکل محسوس کرے گا لیکن وہ اس کی لکھی عربی کو بآسانی سمجھ لے گا۔‘‘([27])

امریکی خلائی ماہر طبیعیات و مؤرخ مائیکل ایچ ہارٹ (1932ء) اعتراف کرتا ہے کہ :

’’قرآن نے مسلم تہذیب میں مرکزیت پیدا کی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اسے عربی میں لکھا گیا ۔ شاید اسی وجہ سے عربی باہمی ناقابلِ فہم مباحث میں الجھ کر منتشر نہ ہوئی۔‘‘([28])

کتاب مقدس کے کئی قدیم نسخے موجود ہیں مثلاً:نسخہ سینائی،نسخہ اسکندریہ،وطیقانی نسخہ،افرائیمی نسخہ،نسخۂ بیزائی۔لیکن ان کا متن قابل اعتماد مندرجہ ذیل اسباب کی بنا ء پر مشکوک ہے:

۱۔ کوئی قدیم نسخہ چوتھی صدی سے زیادہ پرانا نہیں۔

۲۔ کسی نسخہ میں مکمل عہد نامہ عتیق اور جدید موجود نہیں ، یعنی کامل کتابِ مقدس کہیں دستیاب نہ ہوسکی۔

۳۔ کوئی قدیم نسخہ اصل الہامی زبان ( عبرانی ،آرامی) میں نہیں ہے۔

۴ ۔ موجودہ ’کیتھولک بائبل‘ کے عہد نامہ عتیق میں 46 اور عہد نامہ جدید میں 27 کتابیں ہیں، اس طرح کل 73 ہوئیں۔ جبکہ اس کے برعکس ’پروٹسٹنٹ بائبل‘ کے عہدنامہ عتیق میں 39 اور عہد نامہ جدید میں 27 کتابیں ہیں۔ اس طرح کل 66 کتب ہوئیں۔ گویا کیتھولک بائبل کی سات(7) کتب پروٹسٹنٹ کے ہاں قابلِ قبول نہیں ہیں جنہیں’’ اپاکرفہ ‘‘(Apocrypha) یا غیر الہامی تصور کیا جاتا ہے ۔

مستند مسیحی ماہرِ الہٰیات ایلن ڈگلس بائبلی دستیاب نسخوں اور ان کے تراجم کے حوالہ سے کہتے ہیں:

’’تراجم الہامی نہیں ہیں۔ نقل کرنے والوں سے بھی غلطیاں ہوئیں۔ مصنفوں کے اپنے ہاتھ کےلکھے ہوئے نسخوں میں سے اب کوئی بھی دستیاب نہیں۔‘‘([29])

عربی زبان اور اس کی خصوصیات

عربی سامی زبان ہے۔ حمورابی ( 1785-92 ق م) کا قانون جو شریعتِ موسوی سے بھی تین چار صدیوں قبل مرتب کیا گیا ، دنیا کا قدیم ترین ضابطہ ہے۔ بقول ’العرب قبل الاسلام ‘کے مصنف جر جی زیدان کہ :

’’یہ اولین قدیم و کامل علمی نسخہ عربی الفکر ہے۔ ‘‘([30])

زبانوں کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ اختلاط ، مزاحمت اور انقلاب برداشت نہیں کرپاتیں اور فنا ہوجاتی ہیں یا اپنی اصلیت کھو بیٹھتی ہیں۔ عربی ان معنوں میں بھی ایک زندہ زبان ہے کہ اس نے ہر طرح کے حالات کا نہایت ثابت قدمی سے مقابلہ کیا ہے۔ اس کے بالمقابل آریہ ورت ، سنسکرت، سریانی ، لاطینی ، مجوسی یا فارسی کی ژندی زبانیں ، فراعینِ مصر کی قبطی ، ہومر کی یونانی مردہ ہو چکیں۔

رضی الدین سید کہتے ہیں :

’’ عراق ،مصر اور روم بڑی جاندار تہذیبوں کے مراکز تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی تہذیب عربی زبان کو مسخر نہ کرسکی ۔ (اس کے برعکس)ہم اپنی مقامی زبان سندھی کو دیکھتے ہیں کہ سندھ کی عرب فتوحات کے بعد اس کا رسم الخط تبدیل ہو کر عربی ہوگیا۔ گزشتہ سات سو سال میں انگریزی زبان اس قدر تبدیل ہوچکی ہے کہ چاسر کی شاعری( Chaucer’s Poetry)اس کے آبائی شہر لندن کے انگریز بھی سمجھنے سے قاصر ہیں ۔‘‘ ([31])

بائبل کی انگریزی کے مختلف طبعات کے حوالہ سے Got Question لکھتا ہے کہ انگریزی زبان پچھلے چار سو سال میں اتنی تبدیل ہوئی ہے جتنی یونانی زبان دو ہزار سال میں نہیں ہوئی۔

‘‘Over time, the English language changes/develops, making updates to an English version necessary. If a modern reader were to pick up a 1611King James Version of the Bible, he would find it to be virtually unreadable. Everything from the spelling, to syntax, to grammar, to phraseology is very different. Linguistics state that the English language has changed more in past 400 years than the Greek language has changed in the past 2000 years.’’ ([32])

یہ بھی حقیقت ہے کہ کہنے کو تو مصر ، لیبیا، الجزائر، موریطانیہ اور حجاز کی زبان عربی ہے اور ان کے لہجات میں اختلاف بھی ہے لیکن فصیح و معیاری عربی قرآن مجید ہی کی تسلیم کی جاتی ہے ۔ فصیح زبان وہ ہے جو ماضی میں بڑے شعراء و فضلاء استعمال کرتے رہے، درحقیقت زبان کے صحیح ہونے کی سند قدماء سے ہی لی جاتی ہے۔ آج اگر صدیوں قبل کی شخصیت مثلاً حضرت عبدالمطلب بھی تشریف لے آئیں تو انہیں ہم عصر فصیح عربی سے اجنبیت محسوس نہ ہوگی جس کے فنی اسباب مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ عربی کی پہلی خصوصیت اس کا ’اعرابی‘ ہونا ہے۔ ’اعراب ‘سے مراد کلمات کے اواخر کا زیر ، زبر، پیش اور مختلف عامل حروف لگنے سے تبدیل ہونا ہے۔معرب ہونا قدیم تمدن کی زبانوں کی خصوصیت رہی ہے۔

۲ ۔ ’نزاکتِ تعبیر‘یعنی ہر معنی کے لیے ایک خاص لفظ ہے۔ دن کی مختلف گھڑیوں کے لیے 15 سے زائد الفاظ ہیں جبکہ قوتِ بصارت کے لیے زائد از دس الفاظ مستعمل ہیں۔انسانی جذبات کی ترجمانی کے لیے عربی غالباً دنیا کی سب سے زیاہ مال دار زبان ہے۔

۳ ۔’اعجاز و ایجاز‘ یعنی مختصر الفاظ سے کثیر معنی پر دلالت کی جاتی ہے۔

۴ ۔’مترادفات و اضداد‘ یعنی ایک معنی کے لیے کئی الفاظ کی موجودگی جیسےشیر، اونٹنی، گھوڑے، تلوار اور شراب کے لیے دسیوں نہیں سینکڑوں نام ہیں۔

۵ ۔ ’الامثال‘ اس سے مراد وہ بلیغ و سبق آموز کلام ہے جو طویل انسانی تجربات کا نچوڑ ہوتا ہے۔ یاد رہے عہد نامۂ عتیق میں امثال (Proverbs )کے نام سے بھی ایک کتاب ہے۔ اسرائیلی انبیاء جیسے حضرت ایوب﷤، حضرت داؤ، حضرت سلیمان اور حضرت عیسیٰ ﷩بھی تماثیل یا ضر ب الامثال باکثرت استعمال کیا کرتے تھے۔

۶ ۔ ’معانی کی بہترین صوتی ترجمانی‘ عربی زبان کی صوتیات انسانی جذبات کی بہترین ترجمانی کرتی ہے۔

انگریزی زبان کے مزاج کے بارے میں ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کہتے ہیں کہ :

’’اگر آپ اس میں ایک گھنٹہ بھی بات کریں تب بھی سمجھنے والا نہیں سمجھ سکے گا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ۔ آپ کی بات مثبت ہے یا منفی ، تائید میں ہے یا تردید میں ، دوستی میں ہے یا دشمنی میں ،کچھ ظاہر نہ ہوگا ۔یہ حیلہ گری و شعبدہ بازی صرف انگریزی میں ہی ممکن ہے کسی اور زبان میں نہیں۔گویا ڈپلو میسی انگریزی زبان کا اہم وصف ہے۔‘‘

عربی کی کتابت اور حفظ

حافظے کی بنیاد سماعت پر ہوا کرتی ہے اور کتابت حافظے کی مدد کے لیے ہوتی ہے۔ گویا اصل اعتبار سماعت و حافظہ کا ہوتا ہے اور کتابت درحقیقت اس کی اعانت کے لیے ہوا کرتی ہے ۔ یاد رہے حضرت موسیٰ﷤ کو احکام عشرہ تحریری الواح کی شکل میں کوہِ طور پر عطا کی گئیں ([33]) جو تابوتِ سکینہ میں رکھی گئی تھیں مگر کھو چکیں یا ضائع ہو گئیں ۔ جو بچی کچھی بائبل آگے روایت ہوئی وہ درحقیقت سینہ بہ سینہ پہنچی ۔ گویا اصل مقامِ تحفظ سینہ انسانی ہی ہے۔

عرب اُمی تھے ، وہ زبان دانی، شعرو ادب اور علم الانساب پر اس قدر دسترس رکھتے تھے کہ اپنے مقابلے میں بقیہ دنیا کو عجمی ’گونگا ‘ کہا کرتے تھے۔ ان کا یہ امتیاز ان کے غیر معمولی حافظے ہی کی بدولت تھا۔ اسلامی تاریخ میں بعد از دورِ نبوی بھی غیر معمولی حافظے کی حیرت انگیز مستند مثالیں تواتر سے ملتی ہیں۔مسلمانوں کے حافظے بہترین ہونے کا ایک اہم سبب ’حفظِ قرآن‘ کی فضیلت بھی ہے ۔ اس امت کی ایک صفت یہ بھی روایت کی گئی کہ: ’اناجیلهم فی صدورهم ‘ ۔ اس کے برعکس اہلِ کتاب کی الہامی کتب کے ضائع ہوجانے کا ایک اہم سبب ان کے حفظ کا اہتمام نہ ہونا بھی ہے۔ حضرت عائشہ﷞ نے فرمایا : (کان خُلُقُه القُرآنَ) ([34]) ’’ رسول اللہﷺ کا اخلاق قرآن تھا۔‘‘گویا آپ چلتا پھرتا قرآن تھے۔

قرآن اور قلبِ انسانی

اللہ علیم وخبیرنے قرآ ن مجید کا اولین مکان ’حفظ قلب انسانی‘ منتخب فرمایا ،جس کے کئی اسباب ہیں مثلاً :

۱۔ قرآن حفظ کرنے سے فرد کا اللہ سے بلاواسطہ قلبی و روحانی تعلق استوار ہوا۔

۲۔ قرآن جس کا موضوع انسان اور اس کی ہدایت ہے، انسانی قلب میں اس کی موجودگی فرد کا رشتہ براہِ راست قرآن سے مضبوط کرتا ہے۔

۳۔قرآن کی قلبِ سلیم میں موجودگی نے اس کا دیگر مسلمانوں سے رابطہ موثر بنایا۔

۴۔ قرآن کی قلب میں موجودگی سے مسلمان کا اعتماد بڑھا اور وہ پیغام الہٰی کو جامعیت و تسلسل کے ساتھ غیر مسلموں تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔

مقامی زبانیں اور قرآنی قراءات

ہر بڑی زبان کے کئی تلفظ (Pronunciations )، لہجے،مقامی زبانیں (accents/dialects)رسم الخط (Scripts )اور حروفِ تہجی ہوسکتے ہیں۔ مثلاً انگریزی کے مشہور لہجے امریکن، برطانوی( انگلینڈ و اسکاٹ لینڈ) اور آسٹریلین ہیں اور اردو کے دکنی ، دہلوی اور لکھنوی ، جبکہ پنجابی کے جھنگوی و پوٹھوہاری وغیرہ ہیں۔ یہ تلفظ ، لہجے اور مقامی زبانیں اس زبان کی کسی کمزوری یا نقص کی بجائے اس کے تنوع اور وسعت کو ظاہر کرتے ہیں اور اس کی قدر بڑھاتے ہیں مثلاً:

اردو میں : (۱) لُو چل رہی ہےیہ کتاب لوچراغ کی لَو

2۔ دہی کھٹی ہوتی ہے (لکھنوء)دہی کھٹا ہوتا ہے(دہلی)

انگریزی میں: (۱) WriteRiteRight (2) Often (آفٹن،آفن)

رومن اردو میں: Zaheer یا Zahir زاہر، ظہیر، ظاہر۔ یہ یکساں تلفظ مگر مختلف الخط اور مختلف المعنی الفاظ ہیں۔

عربی میں : (1) مالک۔ ملک( الفاتحہ) (۲) ارجلکَم۔ ارجلِکم(المائدہ)(۳) صراط ۔ سراط( الفاتحہ)(۴) تحتھا الانھٰرُ ۔ تحتھا الانھار (التوبہ)

قراءاتِ قرآنیہ اور مستشرقین

پاکستان بائبل کارسپانڈنس انسٹی ٹیوٹ، امریکی مشنری وسابق قادیانی ڈاکٹر نبیل قریشی (م:2017ء) اور پروفیسر فوزی عرزونی ،قرآنی آیات اور بائبل سے ان کا من مانا تقابل کر کے بے بنیاد اور گمراہ کن افکار و اقوال پھیلا کر مسلمانوں میں شکوک پیدا کرنے اور عیسائیوں کو دینِ حق قبول کرنے سے روکنے میں مصروف ہیں ۔([35]) مستشرق آرتھرجیفری (1892ء-1959ء) نے ضعیف و منقطع قراءات قرآنیہ کو بھی مصاحف قرار دیا۔

اسے دو مغالطے ہوئے: پہلا قراءات کو مصحف قرار دینے کا اور دوسرا ضعیف و منقطع قراءات کو مصحف سمجھنے کا۔ ڈاکٹر مہر علی اور ڈاکٹر محمد خلیفہ نے آرتھر جیفری کے قرآن مجید پر اعتراضات کے مفصل و مسکت جوابات دیے ہیں۔([36]) حضرت عبداللہ بن مسعود﷜ اور حضرت ابی بن کعب ﷜سے متعلق مضطرب المتن ضعیف وناقابلِ اعتبار روایات سے غلط فہمیاں پیدا کرنا مستشرقین کا پرانا وطیرہ رہا ہے۔ مثلاً یہودی گولڈ زیہر (1850ء-1921ء) اور دیگر مستشرقین کا وہم ہے کہ رسم پہلے سے ثابت شدہ تھی اور اس میں بہت سی قراءات کا احتمال تھا ۔ مسلمان قراء نے اپنی خواہش و استطاعت کے مطابق اس رسم سے قراءات نکال لیں۔ مستشرقین و دیگر مرعوبین کا گمان ہے کہ قرآن جو جبریلِ امین آپ ﷺ پر لے کر نازل ہوئے اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ ایک ہی حرکت اور ایک ہی لفظ کی صورت میں نازل ہوتا جبکہ امت مسلمہ کے نزدیک قراءات اصل ہیں ۔پھر ان قراءات کی ادائیگی کے لیے رسمِ عثمانی بنایا گیا تاکہ تمام قراءات اس رسم میں سما جائیں اور کوئی بھی قراءات باقی نہ رہے۔ گویا مسلم امہ کا پختہ یقین ہے کہ قراءات اصل ہیں اور رسم ِ عثمانی اس کے تابع ہے اور وہ ان قراءات کے لیے بنایا گیا ہے۔ تمام قراءات حق ہیں اور اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں اور یہ کہ تمام قراءات لغتِ عرب اور قبائلی لہجات کے مطابق ہیں۔

مصحفِ عثمانی

صحفِ عثمانی کی جمع و تدوین کا مقصد یہ نہ تھا کہ لوگوں کو قرآن کی ایک نص پربحکمِ ریاست مجبور کیا جائے بلکہ یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت شدہ متواتر قراءات کواکٹھا کر دیا جائے ۔اور یہ کہ ایک سے زائد قراءات کی اجازت ِ ایزدی جو ابتدءً امت کی آسانی یعنی یسر وسہولت کی خاطر مرحمت فرمائی گئی تھی اب مصالح امت ہی کی خاطر صلحائےامت کی جانب سے اس کے سد باب کے لیے اقدامات کیے گئے ۔اور یہ کہ مصاحف عثمانیہ کو حرکات اور نقاط سے خالی اس لیے رکھا گیا کیونکہ اس طرح اس میں تمام مستند قراءات کا امکان و احتمال باقی رہا اور لوگوں کو منسوخ اور شاذ کی بجائے متواتر قراءات پر جمع بھی کرتا تھا ۔([37])آثار بتاتے ہیں کہ سیدنا عثمان﷜ و سیدنا ابو بکر﷜ اس بات کو سمجھ چکے تھے کہ ابتداء میں (بحکمِ ربی) سات حروف کی قراءات حرج اور مشقت سے بچنے کے لیے تھی ۔نیز اللہ کے پیغام کو مخاطبینِ اول یعنی عربوں کے علاقائی لب و لہجے اور تلفظ کے ساتھ پہنچانا متنوع قراءات کا مقصد تھا۔ اب یہ ضرورت ختم ہو چکی ہے اور لوگوں کو ایک متواتر قراءت پر جمع کرکے اختلافات کا سدِباب کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ صحابہ کرام ﷢، رفقاءِ خاص کے اس اقدام پر متفق تھے تو گویا یہ ایک طرح کا اجماع تھا۔ اسلامی مرکزِ ریاست، مدینہ سے دور ، قراءات کے اختلافات جنم لینا فطری تھا اور بحیثیت سربراہِ مسلم حکومت حضرت عثمان بن عفان ﷜کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس صورتحال کے تدارک کی کوشش کرتے اور انہوں نے اس کے لیے اجماعی و موثر اقدامات کیے ۔حضرت عثمان﷜نے جو چھ قرآنی نسخے (مصاحف امام، مدنی، مکی، شامی، کوفی، بصری) ، عالمِ اسلام میں بھیجےان کے ساتھ قراء حضرات بھی قرآن پڑھنا سکھانے گئے۔

مشہور قراءات اور رسم الخط

(۱) امام عاصم( ۱۲۸ھ؍812ء) سے امام حفص کوفی(۱۸۰ھ؍796ء) : پاک و ہند ، افغانستان ، عرب دنیا ، ترکی اور وسطی ایشیاء میں ان کی قراءت رائج ہے۔

(۲) امام نافع مدنی (۱۶۹ھ؍769ء) سے امام عثمان بن سعید ورش مصری(۱۹۷ھ؍812ء) ۔ شمالی افریقہ میں زیادہ رائج ہے۔

لگ بھگ ۱۶۰ھ سے چوتھی صدی ہجری تک قرآن ’ خطِ کوفی‘ میں لکھا جاتا رہا اس کے بعد سے اسی کی ترقی یافتہ شکل ’ خطِ نسخ‘ میں قرآن ِ پاک لکھا جارہا ہے جبکہ الجزائر و مراکش میں’ خطِ مغربی‘ رائج ہے۔

ایڈورڈ ہنری پامرصحیفہ عثمانی کے مصدقہ و مسلمہ ہونے کی گواہی دیتے ہوئے کہتا ہے:

’’ (حضرت)عثمان (﷜)کا متن (قرآن) تسلیم شدہ مصحف ہے اور 660ءسے آج تک تمام مکاتبِ فکر کے نزدیک طے شدہ مسلمہ صحیفہ رہا ہے۔‘‘([38])

قرآن اور بائبل پر جرمن تحقیق

جرمن عیسائی پادریوں نے بائبل کے یونانی زبان میں دنیا میں جتنے نسخے تھے کا مل یا جزئی ، ان سب کو جمع کیا۔ ان کے الفاظ کا باہم تقابل کیا گیا تو رپورٹ میں کہا گیا کہ :

’’ ان میں دو لاکھ اختلافی روایات ملتی ہیں اور قریباً 2500 بنیادی نوعیت کے اختلافات ہیں۔‘‘

اسی طرح میونخ یونیورسٹی ، جرمنی میں قرآنی تحقیقاتی ادارہ قائم کرکے قرآن کے قدیم ترین نسخے خرید کر ، فوٹو لے کر تین نسلوں تک جمع کیے جاتے رہے۔

ڈاکٹر محمد حمید اللہ کہتے ہیں کہ :

’’ جب میں 1933ء میں پیرس یونیورسٹی میں تھا تو اس تحقیقی ادارے کا ڈائریکٹر پریتسل (Pretzl )پیرس آیا تاکہ پیرس کی پبلک لائبریری سے قرآن کے قدیم نسخے حاصل کرے ۔ اس پروفیسر نے مجھ سے بذاتِ خود بیان کیا کہ ہمارے انسٹیٹیوٹ میں قرآن کے 42،000نسخے موجود ہیں اور ان میں تقابل کا کام جاری ہے۔ دوسری جنگِ عظیم (۱۹۳۹ء۔۱۹۴۵ء)میں اس ریسرچ بلڈنگ پر امریکی بم گرا تو عمارت مع عملہ و کتب خانہ تباہ ہوگیا۔ اس ادارے کی رپورٹ ایک رسالے میں شائع ہوئی جو بقول ڈاکٹر محمود غازی ﷫، انہیں ڈاکٹر حمیداللہ نے پڑھنے کو دی۔ جس میں کہا گیا تھا کہ :’’ قرآن کے نسخوں میں سوائے کتابت کی غلطیوں کے کوئی اختلاف نہ ملا، یعنی قرآن تحریر کرنے یا شائع کرنے والوں سے کہیں ’ا ‘ رہ گیا ، کہیں ’ ب‘ وغیرہ۔ ‘‘

اللہ کا کلام ’ قرآن ‘ اور مصنفین کا معنوی الہام ’ بائبل‘

قرآن کلام اللہ ہے اور اس کا ایک ایک حروف و مفہوم اللہ علیم و حکیم نے بذریعہ جبریلِ امین اپنے رسول محمدِ عربی ﷺ پر نجماً نجماً نازل فرمایا اور یہ تاقیامت محفوظ و مامون ہے جسے ’وحی متلو‘ بھی کہتے ہیں ۔ حدیثِ رسول بھی وحی کی ایک صورت ہے جسے ’ وحی غیر متلو‘ کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے کہ :’’وہ (محمدﷺ) اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں ، وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔‘‘([39])

اس کے بالمقابل بائبل کے بارے میں ایلن ڈگلس لکھتے ہیں :

’’اگرچہ ہم نہیں جانتے کہ الہام کی نوعیت کیا تھی لیکن یہ ایمان رکھتے ہیں کہ ہر مصنف کو آزادی تھی کہ وہ اپنی شخصیت ، تعلیم ،تجربہ وغیرہ کو خاص حد تک استعمال کر سکے۔‘‘([40])

‘‘Biblical Inspiration is the doctrine in Christian theology that the authors of the Bible were led or influenced by God with the result that writing may be designated in some sense the word of God.’’ ([41])

حاصلِ بحث

¤ زبان ایک عطائی یا وہبی صلاحیت ہے۔

¤ انسانی قوتِ گویائی عالمِ خلق میں اپنی اعلیٰ ترین سطح پر ہے جو انسان کودیگر مخلوقات پر امتیاز بخشتی ہے۔

¤ استعماریت چاہے مغربی ہو یا غیر مغربی ان کا علاقائی زبانوں سے تعلق منفی اور استحصالی رہا ہے۔استثنیٰ صرف اسلامی دورِ حکومت کا ہے جس کا مقامی زبانوں سے تعلق مثبت و حوصلہ افزائی کا رہا۔

¤ زبان اور تہذیب کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ زبان اگر فنا کے گھاٹ اتر جائے تو وہ تہذیب اپنے انفرادی و امتیازی تشخص کو برقرار نہیں رکھ سکتی ۔

¤ زبانیں فطری طور پر ہی جنم لیتیں اور پروان چڑھا کرتی ہیں ،انہیں نہ مصنوعی طورپر پیدا ہی کیا جاسکتا ہے اور نہ لاگو۔

¤ زبان کا ہر لفظ اپنے اندر پورا علمیاتی وتاریخی جہان سموئے ہوتا ہے جس کا اطلاق مخصوص سماج پر ہی ممکن ہے۔ ایک تہذیب کے الفاظ کو کسی دوسری تہذیب پر چسپاں کر دینا گمراہ کن ہے۔

¤ قرآن کی اندرونی اور بیرونی شہادتیں اور تاریخ یہ باور کراتی ہے کہ اس کتابِ مبین کا معاملہ دیگر صحفِ سماویہ سے کئی اعتبارات سے ممتاز و علو شان کا حامل ہے۔

¤ عربی زبان کا تعلق چونکہ قرآن ِ حکیم سے ہے اس وجہ سے اس میں کئی ایسے منفرد اعزازی پہلو متحقق کیے جاتے ہیں جن سے دیگر زبانیں محروم ہیں۔

¤ قرآن اور دیگر سماوی کتابوں کا ہمہ پہلو غیر جانبدار انہ تحقیقی جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ قرآن ہی وہ واحد الہامی کتاب ہے جو کلام اللہ ہونے کا دعویٰ کر سکتی ہے۔

 

حوالہ جات

  1. () ’’ساتوں آسمان اور زمین اور جو بھی ان میں ہے( ملائکہ، جمادات و نباتات و حیوانات ) اس کی تسبیح (تعریف) کر رہے ہیں۔ ایسی کوئی شے نہیں جو اسے پاکیزگی اور تعریف کے ساتھ یاد نہ کرتی ہو، ہاں یہ صحیح ہے کہ تم اس کی تسبیح نہیں سمجھتے۔ وہ بڑا بردبا ر اور بخشنے والا ہے (بنی اسرائیل: ۴۴)نیز (الرعد: ۱۳، الانبیاء: ۷۹)۔
  2. () النمل: ۱۶۔۱۹
  3. () کتاب پیدائش( 2: 20-18)۔
  4. () البقرہ : ۳۱۔۳۳
  5. () طوفانِ نوح تک تمام انسانوں کی ایک ہی بولی تھی ۔ پھر خدا نے انہیں منتشر کر دیا اور زبان میں اختلاف پیدا ہوا۔ (کتابِ پیدائش 11: 1تا 9)۔
  6. () مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے: ماہنامہ ساحل،کراچی، جنوری ،فروری،اگست ۲۰۰۵۔
  7. () فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ ( الروم : ۳۰)۔
  8. () Morphology
  9. () انجیل متی (5: 19،17)۔
  10. () البخاری،محمد بن اسماعیل ،صحيح بخاري،كِتَابُ الجَنَائِزِ ،بَابُ إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ، هَلْ يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَهَلْ يُعْرَضُ عَلَى الصَّبِيِّ الإِسْلاَمُ (رقم:1358)۔
  11. ) (https://www.trueorigin.org/language01.php The Origin of languages and communication by Dr.Grad Harrub.
  12. ) (Wieland, C., Towering change, Creation 22(1): 22-26, 1999,(P.22).
  13. () احسان الحق،ڈاکٹر،اردو عربی کے لسانی رشتے ، قرطاس پبلشنگ،دسمبر2005ء(ص:19)۔
  14. ) (Mann ,Michael,The Dark side of Democracy, Cambridge University Press, New York, 2005.
  15. () F.E.K.Key بحوالہ: ماہنامہ ساحل جنوری ، فروری ۲۰۰۵۔
  16. ) ( https://www.dawn.com/news/1094034
  17. () البقرہ : ۲۰۰،۲۰۱ ، الکہف : ۱۰۴
  18. () الحج : ۶۲
  19. () مسیحی بدعات : اہلِ کتاب کے ہاں شروع میں لفظ ’’بدعت Heresy ‘‘سے مراد ’فرقہ‘ تھا اور اس کا بدعتی ہونا ضروری نہ تھا (اعمال۵: ۱۷ اور اعمال۲۴: ۵) ۔بعد ازاں اس کے معنی صحیح عقیدہ سے ہٹ جانے کے ہوگئے(۲پطرس۲: ۱) (قاموس الکتاب ) ۔ بدعت سے مراد وہ متفقہ و مسلمہ عقائد و روایات کے مخالف وہ امور ہیں جو کہ عموماً چرچ یا مذہبی تنظیم کے خلاف ہوں۔ بدعت یہودیت اور اسلام میں بھی مستعمل ہے لیکن عیسائیت میں یہ بہت وسیع علمی ،سیاسی و سماجی اور وحشت ناک تاریخی پس منظر کی حامل اصطلاح ہے ۔
  20. () الحجر : ۹
  21. () فصلت : ۴۲
  22. () اسرار احمد،ڈاکٹر ،بیان القرآن ، تفسیر المائدہ : ۳۰
  23. () القیامہ : ۱۶۔۱۹
  24. () النحل : ۴۴
  25. () مکاشفہ 22: 18-19 میں درج ہے: ’’میں ہر ایک آدمی کے آگے جو اس کتاب کی نبوت کی باتیں سنتا ہے گواہی دیتا ہوں کہ اگر کوئی آدمی ان میں کچھ بڑھائے shall add unto تو خدا اس کتاب میں لکھی ہوئی آفتیں اس پر نازل کرے گا۔ اور اگر کوئی اس نبوت کی باتوں میں سے کچھ نکال ڈالے shall take away from the words تو خدا اس کی زندگی کے درخت اور مقدس شہر میں سے جن کا اس کتا ب میں ذکر ہے اس کا حصہ نکال ڈالے گا۔‘‘
  26. () اور یہ جو یہودی ہیں ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ کلمات کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ہیں ۔۔ لیکن اللہ نے ان کے کفر کے سبب ان پر لعنت کر رکھی ہے ۔۔(النساء: ۴۶)؛نیز فرمایا گیا: ’’ اے اہلِ کتاب ! حق و باطل کو کیوں خلط ملط کر رہے ہو اور کیوں حق کو چھپا رہے ہو ؟ ( آلِ عمران: ۷۱)؛ نیز آلِ عمران: ۷۸، ۱۸۷، البقرہ:۱۰۱ وغیرہ۔
  27. () Hitti, Philp K., History of the Arbs, Macmillan Education LTD, London, 1970, (P:117)۔
  28. ) (Hart, Micheal H, The 100 A Ranking of the most Influential Persons in History, Carol Publishing group, New York,1993/
  29. ( ) Allen, Douglas, Myth and Religion in Mircea Eliade, Routledge, New York,2002.
  30. () جرجی،زیدان ، العرب قبل الاسلام،مؤسسة دار الهلال ،القاہرہ،مصر،2005ء۔
  31. () ’عربی جسے وقت کی آندھیاں کبھی بوسیدہ نہ کرسکیں ‘،صحیفہ اہلِ حدیث، نومبر ۲۰۱۳ء ۔
  32. ) (https://www.gotquestions.org/Bible-versions.html
  33. () الاعراف : ۱۴۵۔۱۵۰ ؛ خروج ۲۹: ۳۴؛ استثناء ۱۳: ۴۔تحریری الواح Tablets of Testimony/Covenant
  34. () البانی،ناصر الدین ،صحيح الأدب المفرد (رقم: 234)۔
  35. () صحائف کا پیغام(رسالۃ من الکتاب المقدس )(DVD) اور ویب ایڈریس unchangingworld.com
  36. ) (Khalifa, Muhammad Dr. The Sublime Quran & Orientalism , international Islamic Publishers (Pvt.) Ltd. Karachi. Ali, Mohar Dr. The Quran & Orientalists, Jamiyat Ihyaa Minhaaj Al- Sunnah, Essex, UK, 2004.
  37. () حجیتِ قراءات( وفاق المدارس السلفیہ میں حجیت قراءات کا نصابِ تعلیم۔کچھ تنقیح و اضافہ کیا گیا ہے:مقالہ نگار)
  38. () ریاض محمود،قرآن غیروں اور بائبل اپنوں کی نظر میں ،مکتبہ سعد بن ابی وقاص،کراچی،2012ء۔
  39. () النجم : ۳،۴۔
  40. () مضامینِ بے مثال (ص :۲۲۳)
  41. ) (Wikipedia. Vistd: 16th Sept-2017
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...