Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tabyīn > Volume 1 Issue 1 of Al-Tabyīn

عصر جاہلی کے چند مشہور عربی نثری فنون کا تعارفی مطالعہ |
Al-Tabyīn
Al-Tabyīn

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2017

ARI Id

1682060060947_947

Pages

38-55

Chapter URL

https://sites2.uol.edu.pk/journals/al-tabyeen/article/view/131

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

مقدمہ

قدیم اور جدیدعلماءِ ادب نے عربی ادب کی جو خدمت کی ہےاور جن مختلف زاویوں سے اس کو زیرِ بحث لایا ہے وہ ایک طویل الذیل موضوع ہےلیکن فنِ ادب کا ہر شناسا اِس بات کا معترف ہے کہ اُن کی یہ کوششیں نہایت لائق تحسین اور قابلِ شکر ہیں اس لیے کہ ان کے اس جُہد اور کوشش کی اہمیت صرف ادب کی حد تک نہیں بلکہ قرآن وحدیث کے فہم کے لیے بھی یہ ایک مرجع کی حیثیت رکھتا ہے اسی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کافرمان: "يا أيها الناس: عليكم بديوانكم لا يضل، قالوا: وما ديواننا ؟ قال: شعر الجاهلية"([1] )سے عربی دیوان کی اہمیت اُجاگرہو رہی ہے۔

علم وجہل کے اعتبار سے عربی ادب کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔اول :جاہلی ادب ۔دوم: اسلامی ادبی سرمایا۔جاہلی ادب سےمراد اسلام سے پہلے دور کا ادبی سرمایا ہوتا ہے جبکہ اسلامی ادبی سرمایہ سےزمانۂ اسلام اور آمدِ حقانیت کے بعدوالاعربی ادب مراد ہوتا ہے۔([2]) مزید یہ کہ جاہلی ادب کا بڑاحصہ نظم اور شعر پر مشتمل ہے جب کہ کچھ حصہ نثر ہے۔

جاہلی نثر کیا ہے؟ اِس کی کیا اہمیت ہے؟جاہلی نثر کا کتنا سرمایہ ہمیں پہنچا ہے؟اور کون سےنثری فنون ادبی شکل میں ہمارے پاس موجود ہیں؟ ذیل میں ہم اِن مباحث کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔

یہ موضوع تین اہم مباحث پر مشتمل ہے؛ مبحثِ اول میں نثر کی تعریف اور اس کی اقسام کو مدنظررکھا جائے گا جب کہ مبحثِ ثانی میں نثر کی اہمیت اور عصر ِجاہلی میں ادبی نثر کے وجود پر بحث ہوگی اورمبحثِ ثالث میں نثرِ جاہلی کےچنداہم فنون پر تفصیلا مباحث بیان کیے جاہیں گے۔

مبحثِ اول

نثر کی تعریف اور مفہوم

نثر کا لغوی معنی ہےبکھیرنا ۔علامہ ابن منظور افریقی ﷫لکھتے ہے:"نثرک الشئی بیدک ترمي به متفرقا مثل نثرالجوز واللوز" ([3] )

’’یعنی: کسی چیز کو منتشر پھینکنا جیسے اخروٹ اور بادام( نکاح کےموقع پر)پھینکے جاتے ہیں۔اِس طرح کہا جاتا ہے: "نثر الکلام أي: أکثر الکلام " یعنی :’’اس نے زیادہ باتیں کیں۔‘‘

عام اصطلاح میں نثر نظم کی ضد کے طور پراستعمال ہوتی ہےچونکہ نظم اس کلام کو کہاجاتاہےجو موزوں اور مقفی ہوتو نثر ایسا کلام کہلائے گاجو اوزان ِشعریہ اور قافیہ کے قیود سے آزاد ہو۔چنانچہ احمد بن ابراہیم الہاشمی نثر کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"النثر: هوما لیس مرتبطا بوزن ولاقافیة"([4] )

’’نثر اس کلام کو کہتے ہیں جو اوزان اور قافیہ کے ساتھ مربوط نہ ہو۔‘‘

نثر کی اقسام

نثر کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں: اول: لغة التخاطب یا محا دثہ اور دوم: فنی نثر۔

پہلی قسم ہم اپنے گھروں،دفتروں، بازاروں اور ملنے جلنے کی دوسری جگہوں میں اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنےاور اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے لیے جو لغت اور زبان بولتے ہیں ظاہر ہے ایسے موقعوں پر انسان سوچ سمجھ کر خاص ترتیب سے اپنی بات میں موزونیت یا موسیقیت پیدا کرکےدوسروں سے مخاطب نہیں ہوتااور نہ ہی اپنے خیالات پیش کرنے میں فنی تسلسل کا خیال رکھتا ہے۔نہ عقلی اور منطقی اصولوں کوپیش نظر رکھتا ہے اور نہ اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے مطلب کو بیان کرنے کے لیے منتخب اور چیدہ الفاظ کو بیان کرےبلکہ ایسے موقعوں پہ جس ترتیب سےموقع و محل کے اعتبار سے خیالات ذہن میں آجاتے ہیں انہیں بیان کرتا جاتا ہےاس طرز تخاطب اور اس انداز سے بات کرنے کو عربی میں لغۃ التخاطب یامحادثہ کہتے ہیں اور اردو میں ہم اس کو غیر فنی نثر یاعام بول چال کا نام دے سکتے ہیں۔

دوسری قسم وہ ہےجس میں سادہ اسلوب سے بلند ہوکربلاغت اور فصاحت کے ساتھ اپنےخیالات اور اغراض کو بیان کیا جائے۔یہ ایسے مضامین پر مشتمل ہوتا ہےجس سے جذبات میں ایک انقلاب اور ہیجان برپا ہوتا ہے۔اِس میں اپنے خیالات کو الفاظ میں پرونے کے لیے فصیح،خوبصورت اور چیدہ الفاظ کا انتخاب کیاجاتا ہے۔اسی طرزبیان کو فنی اور ادبی نثرکہاجاتاہے۔([5])

یاد رہے کہ ادب کا اصل موضوع یہ دوسری قسم ہے جبکہ نثر کی پہلی قسم ادب کا موضوع نہیں ماسوائے ان امثال اور کہاوتوں کے جو عام طرز تخاطب میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ عام بول چال میں وہ فنی باریکیاں نہیں ہوتی جوکسی کلام کو عام سطح سےاٹھا کر مقامِ بلاغت تک پہنچادے،اس لیے نثر کی اِس قسم کو ادب کا درجہ حاصل نہیں ۔کیونکہ جب کسی کلام میں فنی شرائط مفقود ہوں، بلند افکار وخیالات سے عاری ہواور مربوط ومنظم سلیقہ سےخوبصورت اور دلکش انداز میں پیش نہ کیا گیا ہوتو اِس کو ادب کے زمرے میں شامل نہیں کیا جاتا۔

جبکہ دوسری قسم کو ادبی اعتبار سےبڑی اہمیت حاصل ہے۔نثر کی اس قسم میں چونکہ وزن اور قافیہ نہیں ہوتا لیکن یہ خاص قاعدوں،ضابطوں اور فن کے متفقہ اصولوں کے مطابق خوبصورت و دلکش الفاظ میں اداکیا جاتا ہےاور اس میں اثر اندازی کا وہ وصف جوکسی نثر کے ادب ہونے کے لیے لازمی شرط ہےکامل طور پر موجود ہوتا ہے۔

پھر اس قسم کی نثریا تو زبان سے ادا ہوتی ہےیا پھرقلم کے ذریعے سے اسے بیان کیا جا تا ہے پہلی قسم کو خطابت فنیہ اور دوسری قسم کو کتابت ِ فنیہ کا نام دیا جاتا ہے۔

مبحثِ ثانی

نثر کی اہمیت

یہ بات اگر چہ اپنی جگہ درست ہےکہ نظم کو نثر پر امتیازی خصوصیات کی وجہ سے کچھ خاص فضیلت حاصل ہے۔ایک طرف اگر منظومیہ کلام طویل زمانوں اور مختلف اقوام کے گزرنے کے باوجودزندہ رہتا ہےتو دوسری طرف نثر کی بہ نسبت اس نوع کا حافظوں میں محفوظ رہنا بھی سہل ہوتا ہےاور سب سے بڑھ کریہ کہ لغوی تحقیقات کے لیے اشعار کے دواوین ہی شواہد کا درجہ رکھتے ہیں مزید بر آں قرآن پاک کی تفسیر اور احادیث مبارکہ کی تشریح ہر دونوں کے لیے عربی اشعارہی کا سہارہ لینا پڑتا ہے۔

اِن تمام حقائق کے باوجودنثر کی اہمیت ایک مسلمہ امر ہےبلکہ بعض وجوہ کے بنا پرنثر، نظم سے بھی بلند رتبہ اور اُونچا شرف رکھتی ہے۔شعر پر نثر کی فضیلت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ شعر ایک خاص وزن اور قافیہ تک محدود رہتا ہے جس کی وجہ سےشاعر الفاظ میں تقدیم وتاخیر،ممدود کو مقصوراور مقصور کو ممدود،منصرف کو غیر منصرف اور غیر منصرف کو منصرف،متروک الفاظ اورفصیح لفظ کو غیر فصیح سے بدلنےکے علاوہ بہت سارے ایسے امور کامحتاج ہوتا ہےجن کا ضرورتِ شعری تقاضاکرتا ہے۔گویانظم میں الفاظ اصل ہوتے ہیں اور معانی الفاظ کے تابع ہوتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں نثراِن اُمور میں کسی چیز کی محتاج نہیں ہوتی،اس میں معانی اصل کا درجہ رکھتے ہیں اور معانی اس کے تابع ہوتے ہیں ۔اِس بات کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ جب بھی کسی نثرکے معانی کو نظم کی طرف منتقل کیا جاتا ہےتو اس کا رتبہ کم ہوجاتا ہے۔

مزید بر آں،نثر کی فضیلت کے لیے یہ بات کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کو نثری اسلوب میں نازل فرمایا اور ساتھ ہی اسلوبِ نظم سےنزولِ قرآن کی صراحتاًنفی فرمائی، جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيلًا مَا تُؤْمِنُونَ﴾ ([6]) یعنی: یہ کسی شاعر کا کلام نہیں لیکن تم بہت کم یقین رکھتے ہو۔

شعر پر نثر کی فضیلت کی ایک دلیل یہ بھی ہےکہ اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کو شعر سے محفوظ رکھا۔([7])

عصر ِجاہلی میں نثر کا وجود

زمانۂ اسلام سے پہلے دور کا بہت سارا ادبی سرمایہ ضائع ہوچکا ہے اور جو کچھ ہم تک پہنچا ہےان میں زیادہ تر حصہ عربی پر مشتمل ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہےکہ نظم، مقفیٰ اور موزوں ہونے کی وجہ سےلوگوں کی توجہ کا مرکز رہا جو زود حفظ بھی ہوتا ہے اور کافی عرصہ تک یاد بھی رہتا ہے۔ چونکہ زمانۂ جاہلیت میں کتابت کا رواج نہیں تھا اِس لیے نہ تو نثر کی تدوین کا کوئی سامان ہوسکا اور نہ یہ سرمایہ اشعارکی طرح ذہنوں میں محفوظ رہا،لیکن اس کے باوجود عصر جاہلی کی فنی نثر کا وجود ملتا ہے۔قدیم ادباء اور جدید علمائے ادب کی اکثر یت نہ صرف اس زمانہ میں فنی نثر کے وجود کی قائل ہے بلکہ انسانی عقل اور طبیعت دونوں اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ جب ان کے لیے شعر کی صورت میں ادبی سرمایا موجود تھا تو نثر کی صورت میں بھی ہوگااور شعر کی طرح وہ ادبی نثر بھی اچھی طرح تخلیق کرتے ہوں گے۔چنانچہ یہ بات دلائل سے ثابت ہے کہ عصر جاہلی کے لوگ فنی اورادبی نثر سے خوب واقف تھے۔اِس کی پہلی دلیل تو یہ ہےکہ دوسری اقوام جیسے فارس ،ہنوداور مصریوں کی فنی نثر کا وجود ملتا ہےتو اہلِ عرب جن کو اپنی فصاحت و بلاغت پرناز تھا، کے ہاں کیسے فنی اور ادبی نثر کا وجود نہ ہوگا ؟

دوئم: یہ کہ قرآن مجید کا نزول اور اہلِ فصاحت کا اُن کو دعوت ِ مقابلہ دینا بھی اِس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ فنی نثر پر قادر تھے اور فنی نثر کے دقائق اور فصاحت و بلاغت کو سمجھتے تھے ورنہ ان کو چیلنج کرنے کا کیا معنی ہوگا ؟

مبحث ثالث

نثر ِجاہلی کے فنون کا تعارفی مطالعہ

نثر ِ جاہلی کی کم دست یابی کے با وجود، ہمیں جو فنونِ ادب میسر آئے ہیں اُن میں درجہ ذیل مشہور ہوئے۔

۱۔ ضربُ الامثال (کہاوتیں)۲۔حِکَم (اقوال زریں)۳۔خُطب(خطبات )

۱۔امثال (کہاوتیں)

امثال، مَثَل کی جمع ہےجس کے معنی اردو میں کہاوت کےآتا ہےیہ دراصل چھوٹے چھوٹے جملے ہوتے ہیں جو اختصار کے باوجوداپنے وسیع پس منظرکی وجہ سے مخاطب کو فائدہ تامہ دیتے ہیں۔

مثل کے لغوی معنیٰ،تشبیہ کے معنی کے لیےمتضمن ہے چنانچہ ابوہلال عسکری فرماتے ہیں:

"أصل المثل التماثل بين الشيئين، وهو من قولك : هذا مثل الشيء ومثله كما تقول شبه‘‘([8])

’’یعنی: مثل کا اصل معنیٰ، دو چیزوں کے درمیان برابری اور مشابہت کے ہے۔ جب تم کہتے ہو کہ:" هذا مثل الشئی ومثله" تو مطلب یہ ہوتا ہےکہ ’’یہ چیز اِس چیز کی مانند ہے۔‘‘

اور اس کی اصطلاحی تعریف ادباء کچھ یوں کرتے ہیں:

"وهي عبارات تضرب فی حوادث مشبهة للحوادث الأصلیة التي جاءت فیها."([9])

’’امثال وہ جملے ہوتے ہیں جو مختلف مواقع میں استعمال کیےجاتے ہیں جن سے مقصود اُن اصلی واقعات کےساتھ مشابہت ہوتی ہے جن میں یہ جملے وارد ہوئے ہوتے ہیں۔‘‘

عربی امثال کے بارے میں یہ بات یاد رہے کہ یہ بہت دقیق اور مبہم ہوتے ہیں،ان کا پورا مفہوم اس وقت تک سمجھ میں نہیں آتا جب تک اس کی شرح کے لیے کتب امثال کی طرف رجوع نہ کیا جائے۔نیز مثل کے بارے میں یہ اصول مسلم ہےکہ اس میں تغیر وتبدل نہیں ہوتابلکہ جوں کے توں نقل کیا جاتا ہےاگر چہ وہ صرف ونحو یا تذکیر وتانیث کےقواعد کے خلاف ہو۔([10])

ضرب الامثال کا ادبی ورثہ

عصرِجاہلی نے ہمارے لیے ضرب الامثال کا ایک بڑا ورثہ چھوڑا ہے ۔عباسی دور میں مختلف علمائےکرام نے اس موضوع کی طرف توجہ دی تو سب سے پہلے مفضل الضبی اور ابو عبیدہ نے امثالِ عرب پر لکھا،جو کتاب الامثال کے نام سے مطابع پائے جاتے ہیں ۔پھر اُن کے بعد ابو ہلال العسکری نے اپنی کتاب ’جمهرۃ الامثال ‘میں اور میدانیؒ نے بھی ’مجمع الامثال‘ میں متعلقہ موضوع پر مزید کام کیا۔چنانچہ علامہ میدانی ﷫اپنی کتاب کے مقدمہ میں رقم طرازہیں:

"ونظرت فیما جمعه المفضل بن محمد والمفضل بن سلمة حتی لقد تفصحت أکثر من خمسین کتابا" ([11])

’’یعنی میں نے ان امثال میں بھی غور کیا جن کو المفضل بن محمداور المفضل بن سلمہ نے جمع کیاتھا یہاں تک میں نے پچاس کتابوں سے زیادہ کا مطالعہ کیا۔‘‘

چند عربی ضرب الامثال کا مطالعہ

1۔قطعت جهیزة قول کل خطیب.([12]) ’’جہیزہ نے تمام خطباء کی بات کاٹ ڈالی۔‘‘

اس ضرب المثل کا پس منظر یہ ہےکہ کچھ لوگ دو قبیلوں کے درمیان قتل کے معاملے میں صلح کرنے کے لیے جمع ہوگئے تھے مقتول کا قبیلہ قصاص کا مقتضی تھا جبکہ قاتل کا قبیلہ انہیں دیت پر راضی کرنا چاہ رہا تھا۔اس بارے میں مختلف سردار تقریر کررہے تھے اچانک ایک جہیزہ نامی باندی آئی اور کہا کہ مقتول کے بعض رشتہ داروں نے قاتل کوقتل کردیا،تواس دوران ایک آدمی کہنے لگے:"قطعت جهیزۃ قول کل خطیب" یہ ضرب المثل اب اس وقت بولتے ہیں جب سخت اختلاف رائے ہو اور لوگ اصلاح سے مایوس ہوگئے ہوں اور ایسے وقت میں کوئی فیصلہ کن بات کربیٹھے۔)[13](

2-کیف أعاودک وهذا أثر فأسک.)[14](

’’میں کیسے تم پردوبارہ اعتماد کروں حالانکہ یہ تمہاری کلہاڑی کا نشان ہے۔‘‘

اس ضرب المثل کا بنیاد ایک قصہ ہے،جو عرب میں مشہور تھا ۔وہ قصہ یوں ہےکہ دو بھائی تھے جن کی زمین قحط سے متاثر ہوئی۔ ان کے قریب ایک سرسبز وادی تھی، ان میں سے ایک بھائی اس وادی میں جانور چرانے کے لیے اترا۔اس وادی میں ایک بڑا سانپ رہ رہا تھا،سانپ نےایک بھائی کوڈس لیا جس سے وہ مرگیا۔دوسرا بھائی سانپ سے انتقام لینے کی غرض سے آیا۔سانپ نے اس سے کہا کہ مجھے چھوڑ دے اور اس وادی سے فائدہ حاصل کرتےرہو،نیز ہر روز مجھ سے ایک دینار لیا کرو۔دونوں کا اس بات پر باہمی پختہ معاہدہ ہوااس سے اس بھائی کا مال بہت زیادہ ہوا۔ایک دن اس کو اپنے بھائی کے ساتھ سانپ کی وہ زیادتی یاد آگئی توجوش میں آکرانتقام کی نیت سے کلہاڑی لی اور سانپ کی طرف قتل کی نیت سےآگے بڑھا لیکن اس کا وار خطا گیااور ا س کے وار سے سانپ کے موجودبِل پروار کا نشان رہ گیا۔اب دونوں کے مابین معاہدہ ختم ہوا اورسانپ نے دینار دینا بند کر دیا۔ جب اس نے دیکھا تو سانپ سےپرانے معاہدے کی درخواست کی۔سانپ نے جواب میں کہا: "كيف أعاودك وهذا أثر فأسك")[15](

اس کے بعد سانپ اور کلہاڑی کی بات مشہور کہاوت بن گئی جو وعدہ شکن آدمی کے وعدہ شکنی کے بیان کرنے کے لیے اس وقت بولا جاتا ہے جب اس کے ساتھ دوبارہ عہد کی بات ہورہی ہو۔

3۔قبل النفاس كنت مصفرة. )[16] (

’’یعنی: تُو تو نفاس سے پہلے بھی پیکی تھی۔‘‘

یہ ضرب المثل ایسے بخیل شخص کے لیے بیان کی جاتی ہے،جس کے پاس مال موجود ہو،لیکن وہ اپنی غربت اور مال نہ ہونے کے بہانے کرتا ہواور باوجود مالداری کے بخل سے کام لیتا رہے۔

۲۔ حِکم(اقوال زریں)

’حکم ‘حکمة کی جمع ہے۔یہ اس قیمتی اور دانائی سے بھری ہوئی بات کو کہتے ہےجو کسی مشہور حکیم سمجھدار یا صاحب تجربہ آدمی کے زبان پر جاری ہو۔یہ مختصر مگر پُر مغز اور دلچسپ ہوتے ہےجو اپنے ایجاز کے باوجودمخاطب کے دل پر اثراندازہوکر اس کومکمل فائدہ دیتا ہے۔

استاد علی الجندی حکمت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتےہیں :

"والحکمة قول رائع یتضمن حکما صحیحا مسلما به"([17])

یعنی:’’حکمة اُس دلچسپ قول کو کہتے ہیں جو صحیح اور مسلمہ حکمت پر مشتمل ہو۔‘‘

حِکَم(اقوال زریں) کا ادبی ورثہ

ضرب الامثال کی طرح قدیم عربی ادب میں حِکَم کا معتد بہ ورثہ ہم تک پہنچاہے۔ عام طور پر ضرب الامثال پر مشتمل کتابوںمیں اقوالِ زریں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ہمارے علم کے مطابق اِس فن کی پہلی متداول کتاب ابو منصور الثعالبی ﷫کی دُرَرُ الحِكَمِ ہے جبکہ دوسری کتاب امام ماوردی ﷫کی الامثال والحكم ہے جو ایک جلد میں چھپ گئی ہے۔

عرب میں اقوال زریں کے لیے بہت سارے لوگ مشہور ہوئے جن میں اکثم بن صیفی تمیمی اور عامر بن الظرب العدوانی قابلِ ذکرہیں۔

چند عربی اقوالِ زریں کا مطالعہ

ذیل میں اہل ِعرب کے چند اقوالِ زریں مثال کے طور پر ذکر کیےجاتے ہیں۔

1۔ "المزحة تذهب المهابةَ")[18]( ’’یعنی: مزاح، انسان کے رُعب اور ہیبت کو ختم کردیتا ہے۔‘‘

اسی قول کے ہم معنیٰ یہ قول بھی ہے:

"لا تمازحن الشریف فیحقد علیک، ولا الدني فیتجرأ علیک")[19] (

’’معزز آدمی کے ساتھ مزاح نہ کرو، ورنہ اس کے دل میں تیرے ساتھ کینہ پیدا ہوگا اور نہ گھٹیا شخص کے ساتھ مزاح کرو، ورنہ وہ تم پر جری ہوجائےگا۔‘‘

2۔"صدرک أوسع لسرک")[20] (

’’تیرا سینہ تیرے رازوں کے لیے دوسروں کی نسبت زیادہ وسیع ہے۔‘‘

یعنی اپنے راز کو اپنے سینے ہی میں رہنے دو،کسی دوسرے کے سامنے بیان نہ کرو۔ اس لیے کہ راز جب دوسرے کو بتا دیا جائے تو راز نہیں رہتا، جیسا کہ کہتے ہیں: ’’بات منہ سے نکلی اور کوٹھوں پہ چڑھی۔‘‘

۳۔ خطابت

ہماری اردو زبان میں خطبہ بالعموم ایک مذہبی رنگ پر مشتمل تقریر کےلیے استعمال ہوتا ہےلیکن عربی زبان میں ہر قسم کی تقریر کو خطابت کہاجاتاہے۔زمانۂ جاہلیت میں فنِ خطابت کو ایک بلند مرتبہ حاصل تھا۔ جس طرح مختلف قبائل کے اپنے اپنے شعراء ہوتے تھےجواپنے زورِ کلام سے قبیلےکا نام بلند کرتےتھے اورانہیں مکارمِ اخلاق پرابھارتے تھے اسی طرح ہر قبیلے کےاپنے خطیب بھی ہوتے تھےجونظم کی بجائے اپنی زور دار تقریروں سےیہ خدمت سرانجام دیتے تھے۔)[21](

عصرِجاہلی میں خطابت کے مقاصد اور منزلتِ خطیب

آج ہمیں عصرِ جاہلی کے نثری سرمائے میں کچھ خاص خطبے بھی موجود ملتے ہیں۔ یہ خطبے مختلف مقاصد کے لیے دیے جاتے تھے۔کبھی تو نصیحت اور رہنمائی کی غرض سےایک قبیلہ جمع ہوکر اپنے خطیب کی بات سنتا۔ کیونکہ پیغام رسانی کے منظم ذرائع موجود نہ تھےلہذا زبان آور لوگوں کو وفد بنا کرنمائندگی کے لیے بھیجنا بھی وقت کی ایک اہم ضرورت تھی۔ اسی طرح قبیلوں کے باہمی جنگ وجدال میں شجاعت اور دفاع پر اُبھارنے اور انتقام کا جوش پیدا کرنے کے لیے بھی شاعروں کے پہلو بہ پہلو خطیب کھڑے ہوتے۔کبھی مختلف اجتماعی مواقع جیسے شادی اور خوشی میں بھی وہ خطیبوں کی خطابت سے لطف اندوزہونے کو ترجیح دیتے تھے۔)[22](

یہی ایک عام اور مقبول رائے چلی آرہی ہے کہ اس زمانے میں فنِ خطابت موجود تھی ۔اس لیے کہ جو قوم کسی منظم حکومت اور قانون کے بغیر صحرامیں قبائلی زندگی بسر کررہی ہواور ان میں لکھنے پڑھنے کا رواج بھی نہ ہو،تو ان کے ہاں رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لیے خطابت کا ہونا ایک فطری امر ہے۔

آغازِ اسلام کے بعض واقعات سے بھی خطابت کا ثبوت ملتا ہے ۔جیسا کہ روایات میں آیا ہے، جب نبی اکرمﷺ کی خدمت میں مسیلمہ کذاب حاضر ہوا اور آپﷺ کے بعد خلافت اُس کے لیے وصیت کرنے کی شرط پر اتباع کی یقین دہانی کرائی تو آپﷺ نےسیدنا قیس بن ثابت بن شماس ﷜کو بات کرنے کا کہا جو ’خطیب الرسولﷺ ‘کہلاتے تھے۔)[23](

زمانۂ جاہلیت میں فنِ خطابت کو نہ صرف قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا بلکہ خطیب کا درجہ اس دور میں شاعر کے درجہ سے بھی بڑھ کرتھا۔ عثمان بن بحر المعروف بالجاحظ نےعمرو بن علاءکا قول نقل کیا ہے، وہ کہتے ہیں:

’’زمانۂ جاہلیت میں پہلے پہل شاعر کو خطیب سےبلند مرتبہ سمجھاجاتاتھالیکن جب شعروشعراء کی کثرت ہوگئی، لوگوں نے اِس کوکمائی کا ذریعہ بنایااورشعراء لوگوں کی مال ودولت کی طرف لپکےتو اُن کی نگاہ میں شاعر کا درجہ کم اور خطیب کا درجہ بلند ہوگیا۔‘‘)[24](

علامہ جاحظ نے اس حقیقت کے اعتراف میں خودبھی عمرو ابن علاء کی پیروی کرکےیہی فرمایا ہے کہ شعراء کامرتبہ اگرچہ جاہلیت میں بلند تھالیکن شعروشاعری کی کثرت کے بعدخطیب کی قدرومنزلت بڑھ گئی اورشعراء سے اونچے درجے پر فائز ہوگئے۔

عصر جِاہلی کے چند مشہور خطباء کا تعارف

اِسی زمانہ میں جن خطباء نے اپنے زورِ بیان کی وجہ سے شہرت حاصل کی اُن میں سے ایک قس بن ساعدہ الایادی ہے،جس کو بہت لمبی عمرسے نوازا گیاتھا۔دوسرا مشہور نام سحبان بن وائل باہلی کا ہےجس کی فصاحت ایک ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرگئی ہے ۔جیسا کہ کہاجاتاہےکہ: "فلان أخطب من سحبان" یعنی ’’فلاں شخص سحبان سے بڑھ کر خطیب ہے۔‘‘کہا جاتا ہے کہ جب وہ خطبہ دیتاتوسمندر کی طرح بہتا،نہ ایک کلمہ دوبارہ لوٹاتااور نہ کوئی توقف کرتا۔ )[25](

اسی طرح قبیلہ بنو تمیم کے مشہور خطباء میں سے ضمرہ بن ضمرہ،اکثم بن صیفی،عمرو ابن اہتم منقری اور قیس بن عاصم کے نام قابل ذکر ہیں۔

خطیب کی زبان آوری کوانتخابِ الفاظ،کثرتِ معنیٰ اور اختصارِکلام جیسے معیاروں پر پرکھاجاتاتھا ۔چنانچہ دورِ جاہلیت کے اکثر خطبے چھوٹے اور پُرمغز جملوں پر مشتمل ہوتے تھےاورخطاب خوبصورت اور مؤثر ہوتاتھا۔

قیس بن ساعدہ الایادی کا خطبہ

’قیس بن ساعدہ الایادی ‘کا نام فصاحت و بلاغت میں ضرب المثل ہے۔اُس کی امتیازی حیثیت ،خطباء کے سرخیل کی سمجھی جاتی ہے۔اُن سےمنسوب خطبات اور اقوال سے اندازہ ہوتا ہےکہ وہ دین برحق کا منتظر تھا۔اس کے عقائد اس کے سلیم الفطرت ہونے کی دلیل ہیں ۔ذیل میں نمونے کے طور پر اس کا خطبہ ذکر کیا جاتا ہے:

" أيها الناس اجتمعوا ثم اسمعوا وعوا، كل من عاش مات، وكل من مات فات، وكل ما هو آتٍ آتٍ، إن في السماء لخبرا، وإن في الأرض لمعتبرا، نجوم تمور، وبحار لا تبور، وسقف مرفوع، ومهاد موضوع، ما للناس يذهبون ثم لا يرجعون، أرضوا فأقاموا أم تركوا فناموا ؟ إن الله لديناً أحب إليه مما نحن فيه؟")[26](

’’ لوگو! سنو اور دل میں محفوظ کرو ، جو جیتا ہےوہ مرتا ہےاور جو مرجاتا ہے وہ چلا جاتا ہے ۔اور جس چیز کو آنا ہو وہ آکر ہی رہے گی۔ بلا شبہ آسمان رازوں سے لبریز ہے اور بے شک زمین میں عبرتیں پڑی ہوئی ہیں۔ یہ گھومنے والے تارے، اچھلتی دریائیں، اُٹھایا گیا چھت اوربچھائی گئی زمین اِس بات کی شاہد ہے کہ جو چلے گئے وہ لوٹنے والے نہیں۔کیا وہ لوگ دنیا پر قانع ہوکر یہیں کےرہ گئے یا ان کی خبر نہ لی گئی تو وہ سوگئے ؟ بلا شبہ اللہ کا ایک ایسا دین ہے جو تمہارے اس دین سے زیادہ پسندیدہ ہے ۔‘‘

ہاشم بن عبد مناف کا خطبہ

اسلام کے آنے سے پہلے بھی قریش کو اطراف و اکناف میں معزز تصور کیا جاتا تھا۔ بیت اللہ کی زیارت کے لیے مختلف قبائل دور دراز سے آتے تھے،قریش ان حاجیوں کی خدمت کیا کرتے تھے۔ قبیلۂ قریش نے اِس خدمت کو آپس میں تقسیم کردیا تھا۔ حجاج کرام کے کھانے پینے کا انتظام عبد مناف کے ذمہ تھا، بعد میں یہ سقایہ اس کے ببٹے ہاشم کو منتقل ہوا۔

ہاشم بنِ عبدِ مناف نےموسمِ حج میں ایک خطبہ دیا جو قریش کو بیت اللہ کے زائرین کے اکرا م کے لیے اُبھاررہا ہے، چنانچہ وہ کہتا ہے:

"يا معشر قريش! أنتم سادة العرب، أحسنها وجوهًا، وأعظمها أحلامًا، وأوسطها أنسابًا، وأقربها أرحامًا. يا معشر قريش! أنتم جيران بيت الله، أكرمكم بولايته، وخصكم بجواره، دون بني إسماعيل، وحفظ منكم أحسن ما حفظ جار من جاره؛ فأكرموا ضيفه، وزوار بيته؛ فإنهم يأتونكم شعثًا غبرًا من كل بلد، فو ربّ هذه البنية، لو كان لي مال يحمل ذلك لكفيتكموه، ألا وإني مخرج من طيب مالي وحلاله، ما لم يقطع فيه رحم، ولم يؤخذ بظلم، ولم يدخل فيه حرام، فواضعه؛ فمن شاء منكم أن يفعل مثل ذلك، وأسألكم بحرمة هذا البيت ألا يخرج رجل منكم من ماله، لكرامة زوار بيت الله ومعونتهم إلا طيبًا، لم يؤخذ ظلمًا، ولم يقطع فيه رحم، ولم يغتصب.")[27](

’’اے قریش کے گروہ! تم اللہ کے گھر کے پڑوسی ہو،اللہ نے تمہیں بیت اللہ کے انتظام سپرد کرنے کی وجہ سے عزت بخشی ہے، بنی اسماعیل کے بعد تمہیں خانہ کعبہ کے پڑوس کے لیے خاص کیا ہے اور تمہاری اس سے بڑھ کرحفاظت کی ہے جو ایک پڑوسی اپنے دوسرے پڑوسی کی حفاظت کرتا ہے۔تو تم اس کے مہمانوں اور اس کے گھر کی حفاظت کرنے والوں کی عزت کروکیونکہ وہ تمہارے پاس ہر ملک سےبکھرے ہوئےبالوں اورگرد آلود بن کر آئےہیں۔ اس آبادی کے رب کی قسم! اگر میرے پاس اتنا مال ہوتا جو ان کی ضرورت کے لیے کافی ہوتا تو میں تمہاری طرف سے کافی ہوتا۔آگاہ رہو! میں اپنے مال سے بہتر اور حلال مختص کرتا ہوں جس سےنہ صلہ رحمی منقطع ہو اور نہ وہ ظلم کے ساتھ لی گئی ہو اور نہ ہی اس میں کوئی حرام داخل ہو۔پس تم میں سے جو کوئی اس طرح کرنا چاہے تو کرلے۔ میں تم سے اس بیت اللہ کے حق کے طور پرسوال کرتا ہوں کہ تم میں سے کوئی آدمی اپنے مال میں سےبیت اللہ کی زیارت کرنے والوں کے اکرام اور تعاون کے لیے صرف حلال اور پاک مال ہی لگائے۔ایسا مال جو نہ ظلم سےحاصل کیا گیا ہو اور نہ اس سےصلہ رحمی منقطع ہوئی ہواور نہ ہی غصب کا مال ہو۔‘‘

خلاصۂ بحث

عصرِجاہلی میں پائے جانے والے فنونِ ادب کے شہ پارے پیش کرنے اور اس کے متعلق تفصیلی بحث وتحقیق کرنے کے بعدہم یہ نتیجہ اخذکرتے ہیں کہ اِس دور میں نثر مختلف انواع وفنون کی شکل میں پائی جاتی تھی جس کو ادبی نثرکہا جاسکتا ہے اور یہی ادبی نثر کی بدایات تصور کی جاتی ہیں۔ اِن میں سے ضرب الامثال، اقوال زریں اورخطابت کا لوگوں کے طبائع پر کافی اثرہوا، جو شعر وشاعری کے اثر سےکسی قدر کم نہ تھا ۔ قبائلی عصبیت،حسب نسب پر مفاخرت اور عزتِ نفس اورخیر کے کاموں میں رغبت وہ نمایا ں باتیں ہیں جو جاہلی نثر میں جھلکتی ہیں۔ضرب الامثال اُن کی وقائع میں مماثلت اور تشابہت، جب کہ اقوال زریں ان کی عقل کی پختگی اور خطابت اپنی زبان پر قدرت اور روانگئ کلام پر دلالت کرتی ہیں۔ پھر ہر فن کی شان اس کے نمونہ جات سے واضح ہوتی ہے یہ تمام نمونے اہل جاہلیت کی زبانی تبحر کی نشاندہی کرتی ہے اور اُن کو بجا طورپر قرآنی فصاحت سے چیلنج دے کر مقابلہ کی دعوت دی گئی۔

حوالہ جات

  1. () التَّفْسِيرُ البَسِيْط، ابو الحسن شافعی نیشابوری ، ج۱، ص۳۲۴
  2. () أحمد بن محمد بن عبد ربه الأندلسي ، العقدالفرید، دار الکتب العلمیة،1983ء(۱؍۴)۔
  3. () الإفريقى، جمال الدين ابن منظور،لسان العرب، دار صادر، بيروت، الطبعة الثالثة 1414هـ (۵؍۱۹۱)۔
  4. () احمد بن ابراهیم الهاشمي ،جواهر الادب في ادبيات وإنشاء لغة العرب،المكتبة التجارية الكبرى، 1969ء(۲؍۱۶)۔
  5. () شوقي ضيف ، أحمد شوقي عبد السلام ،الفن ومذاهبه في النثر العربي،دار المعارف، بيروت ،2010ء (۱؍۱۵)۔
  6. () الحاقہ ۶۹: ۴۱
  7. () یٰسین: ۶۹
  8. () ابوهلال العسکری ، جمهرة الامثال،دار الجيل 1988ء (1؍7)۔
  9. () الفن ومذاهبه في النثر العربي(۱؍۲۱)۔
  10. () جمهرة الامثال(۱؍۷)۔
  11. () الميداني النيسابوري ،أبو الفضل أحمد بن محمد بن إبراهيم ،مجمع الامثال ، دار المعرفة ، بيروت (۱؍۱)۔
  12. () الزمخشري،جار الله،المستقصى في امثال العرب،دارالكتب العلمية،1987ء(۲؍۱۹۷)؛ مجمع الامثال(۲؍۹۱
  13. () مجمع الامثال(۲؍۹۱)۔
  14. () المفضل بن محمد الضبي ،امثال العرب،دار الرائد العربي 1983ء(۱:۱۲۴) ؛ مجمع الامثال(۲؍۱۴۵)۔
  15. () مجمع الامثال(۲:۱۴۵)۔
  16. () ایضاً (۲:۹۲)۔
  17. () علي الجندي،فی تاريخ الادب الجاهلي،مكتبة دار التراث 1991ء(۱:۲۶۰)؛جواهر الادب في ادبيات وإنشاء لغة العرب(ج:۲۶)۔
  18. () ابن قتيبة الدينوري ، عيون الاخبار، دار الكتب المصرية 1925ء(۱:۴۳۹)۔
  19. () ابو الطيب المعروف بالوشاء، الظرف والظرفاء، ت:كمال مصطفى ، مكتبة الخانجي، مصر 1953ء( ص:۱۵)۔
  20. () العقد الفرید(۱:۶۲)۔
  21. () تفصیل کے لیے دیکھئے: الجاحظ ،البيان والتبيين، مكتبة الخانجي،1998ء (۱:۱۰)۔
  22. () أيضاً۔
  23. () صحیح مسلم(رقم:۲۲۷۳ )۔
  24. () تفصیل کے لیے دیکھئے: البيان والتبيين(۱:۲۸۱)۔
  25. () ایضاً ۔
  26. () امثال العرب(۱:۱۱۳)؛ العقد الفرید(۴:۲۱۵)۔
  27. () ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغة،1959ء(۳:۳۵۸) ؛ احمد زكي صفوت، جمهرة خطب العرب في عصور العربية الزاهرة،المكتبة العلمية،بيروت(۱:۷۴)۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...