Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tabyīn > Volume 1 Issue 1 of Al-Tabyīn

ہمارے تعلیمی مسائل اور ان کا حل: اسلامی تناظر میں |
Al-Tabyīn
Al-Tabyīn

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2017

ARI Id

1682060060947_1284

Pages

24-43

PDF URL

https://sites2.uol.edu.pk/journals/al-tabyeen/issue/view/al-tabyeen-vol-1

Chapter URL

https://sites2.uol.edu.pk/journals/al-tabyeen/article/view/130

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعلیم ہمیشہ سے فرد، معاشرے اور ریاست کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی آئی ہے۔ اگر وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو دعوت وتبلیغ، تزکیہ وتربیت اور ابلاغ عامہ کے ذرائع بالخصوص آج کا میڈیا بھی تعلیم ہی کا حصہ ہے۔ پاکستان میں آج تعلیم کو جو مسائل درپیش ہیں وہ پچھلی دہائیوں میں محض ہماری حکومتی پالیسیوں کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ یہ تعلیمی نظام بنیادی طور استعماری دور کی یاد گار اور اسی کی توسیع ہے۔ استعمار کی حمایت میں اور اس کی حمایت سے ابھرنے والے جدید تعلیم کے نظام کا نمائندہ علی گڑھ ہے اور اس کے رد عمل میں ابھرنے والی مذہبی تعلیم کی نمائندگی دیوبند کرتا ہے۔ اوّل الذکر مغرب زدہ عصری تعلیم مہیا کرتا ہے جس میں دینی تعلیم وتربیت کا موثر اہتمام نہیں ہوتا تو ثانی الذکر میں عصری اور دنیاوی علوم سے اعتناء نہیں کیا جاتا حالانکہ ضرورت اس بات کی تھی اور ہے کہ تعلیم وتربیت کو ثنویت کے اس گرداب سے نکالا جائے اور وحدت تعلیم کے اسلامی تصور پر ان دونوں تعلیمی دھاروں کی اس طرح اصلاح کردی جائے کہ عمومی اور جدید تعلیم کی اسلامی تناظر میں تشکیل نو ہو اور دینی تعلیم کے متخصصین عصری علوم، افکار اور تحدیات سے ناواقف نہ رہیں۔اس مقالے میں ان تعلیمی مباحث پر مرحوم ڈاکٹر محمود احمد غازی کے افکار کا علمی تجزیہ کیاگیا ہے۔

تعلیم کی اہمیت ونوعیت

([1])

تعلیم کو بعض لوگ محض دینوی ترقی کا ذریعہ سمجھتے ہیں جب کہ حقیقتاً یہ کارِ انبیاء ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں چار دفعہ فرمایا ہے۔([2]) کہ نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ کا منہج دعوت ]یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ[ تھااور یہی طریق کار انبیاء سابقین کا تھا۔([3]) اسے آج کی اصطلاح میں تعمیرشخصیت ، انسان سازی یا(Human Development) کہا جاسکتا ہے جس سے مقصود یہ ہے کہ تعلیم وتربیت کے ذریعے آدمی کو بدلا جائے۔ جس طرح کا آدمی تیار کیا جائے گا اسی طرح کا معاشرہ اور ریاست وجود میں آئے گی۔ اسلام میں تعلیم وتربیت سے مقصود یہ ہے کہ انسان بحیثیت عبد اس دنیا کی زندگی اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق بسر کرے تاکہ اخروی زندگی میں اس کا خالق ومالک اس سے راضی ہوجائے اور اپنی نعمتوں سے نوازے۔ انسانوں کی اکثریت اگر دنیا کی زندگی اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق بسر کرے گی تو وہ دنیا میں بھی کامیاب ہوگی اور آخرت میں بھی۔ اس کا میابی کا بنیادی ذریعہ تعلیم وتربیت ہی ہے۔

اس بنیادی اصول سے واضح ہوا کہ اسلام وحدت تعلیم کا تصور دیتا ہے۔ یہ تعلیم اسلامی اصول واقدار پر مبنی ہونی چاہیے۔ معاشرے کو درکار مہارتوں اور تخصصات کے حوالے سے دینی، سماجی اور سائنسی علوم بھی اس کا حصہ ہونے چاہئیں۔ لیکن ہم اپنے تعلیمی حالات پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ ہماری عمومی اور جدید تعلیم مغرب زدہ ہے۔ دینی علوم کے متخصصین عصری علوم وافکار سے ناواقف ہیں اور وحدت تعلیم کا تصور عنقا ہے۔ ہم ان خرابیوں اور ان کی اصلاح کے حوالے سے ڈاکٹر محمود احمد غازی﷫کی تصریحات کا تجزیہ کرتے ہوئے غور کریں گے۔ لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ خرابیاں اچانک پیدا نہیں ہوگئیں بلکہ استعماری دورے سے ہمیں ورثے میں ملی ہیں۔

استعماری دور کا ورثہ

انگریز نے ہندوستان پر صرف جغرافیائی لحاظ ہی سے قبضہ نہیں کیا بلکہ اس نے مقامی لوگوں کے دل ودماغ کو بھی فتح کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ اپنے قبضے کو دوام دے سکے۔ اس غرض سے اس نے مسلم نظام تعلیم کو منہدم کیا۔ ان کے اوقاف ختم کردیے، فارسی کی بجائے انگریزی کو قومی زبان اور ذریعہ تعلیم قرار دیا جس سے مسلمانوں کے قائم کردہ مدارس بند ہوگئے جو معاشرے اور ریاست کے لیے کارکن پیدا کرتے تھے۔ تعلیمی لحاظ سے مسلمانوں میں اس پر دو طرح کا رد عمل سامنے آیا۔ ایک گروہ نے یہ سوچا کہ اگر مسلمانوں نے انگریزی نہ سیکھی اور جدید مغربی علوم سے استفادہ نہ کیا تو وہ ترقی کی دوڑ میں دوسری قوموں سے پیچھے رہ جائیں گے۔ اور دوسرے گروہ نے سوچا کہ اگر مذہبی تعلیم باقی نہ رہی تو مساجد ومدارس ویران ہوجائیں گے اور مسلمانوں میں نکاح اور جنازے پڑھانے والے لوگ بھی بھی نہ ملیں گے اور یوں معاشرے سے اسلام کا نام ہی مٹ جائے گا۔ ان خدشات کے پیش نظر اوّل الذکر گروہ میں سے سر سید احمد خاں اور ان کے ساتھیوں نے۱۸۷۵ء میں علی گڑھ سکول وکالج قائم کیا جو ترقی کرکے یونیورسٹی بن گیا اور مولانا قاسم نانوتوی﷫اور دیگر علماء کرام نے ۱۸۶۶ء میں دیوبند قائم کیا۔ علی گڑھ بتدریج مغرب زدہ تعلیم کا رول ماڈل بن گیا اور دیوبند ایسی محدود مذہبی تعلیم کا جس میں دنیوی علوم سے اعتناء نہ کیا جاتا تھا۔([4])

پھر بتدریج ان دونوں کی طرز کے بہت سے تعلیمی ادارے ملک کے طول وعرض میں قائم ہوگئے۔ تاہم ان دونوں تعلیمی دھاروں کے منتظمین کو اپنی فراہم کردہ تعلیم کے یک رخے پن کا احساس تھا چنانچہ علی گڑھ اور دیوبند نے قریب آنے اور باہم استفادے کی کوشش کی لیکن حالات کے جبرنے اسے کامیاب نہ ہونے دیا۔

یہاں اس جبر کی کچھ تفصیل دینا بے محل نہ ہوگامثلاً مولانا قاسم نانوتوی﷫اور مولانا رشید احمد گنگوہی ﷫ نےدیوبند میں رائج درس نظامی کو مختصر کرنے کا فیصلہ کیا اور اور مدت تدریس دس کی بجائے چھ سال کردی تاکہ طلبہ درسگاہ سے جلد فارغ ہوکر جدید تعلیم بھی حاصل کریں۔ مولانا کے الفاظ یہ تھے :

’’اس کے بعد (یعنی مدرسہ میں دینی تعلیم کے بعد ) اگر مدرسہ ہذا کے طلباء سرکاری مدارس میں جاکر علوم جدیدہ حاصل کریں تو ان کے کمال میں یہ بات زیادہ موثر ثابت ہوگی ۔‘‘

اور مولانا گنگوہی﷫نے اس موقع پر کہا تھا :

’’اس منطق وفلسفہ سے تو انگریزی بہتر ہے کہ اس سے دنیا کی بہتری کی اُمید تو ہے ۔‘‘

لیکن روایتی علماء کے احتجاج پر انہیں پرانا نظام بحال کرنا پڑا۔([5])مولانا عبیداللہ سندھی (م ۱۹۴۵ء) نے تو دہلی میں باقاعدہ ایک ادارہ ’نظارۃ المعارف‘ کی بنیاد رکھی تاکہ دیوبند اور علی گڑھ کے تعلیمی اوصاف کو یکجا کیا جاسکے۔ اسی طرح خود دارالعلوم نے ۱۹۲۸ء میں اعلان کیا کہ فلسفہ کی جدید کتابوں کو داخل درس کیا جائے گالیکن اس پر عمل نہ ہوسکا۔([6])مولانا حسین احمد مدنی﷫نے ۱۹۳۳ء میں سلہٹ(مشرقی بنگال) میں قدیم وجدید کا ایک عمدہ نصاب ترتیب دیا تھا([7]) لیکن جب وہ دارالعلوم دیوبند کے صدر مدرس بن گئے تو دارالعلوم کے نصاب میں کوئی تبدیلی نہ لاسکے۔اسی طرح آزادی کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد﷫(وزیر تعلیم بھارت) نے درس نظامی کی اصلاح اور اس پر نظرثانی و اضافہ علوم جدیدہ کے لیے ایک کمیٹی قائم کی جس میں مولاناحسین احمد مدنی﷫، مولانا سید سلیمان ندوی﷫اور مولانا حفظ الرحمن سیوھاروی ﷫بھی شامل تھے۔ اس کمیٹی نے جدید نصاب تیار بھی کرلیا لیکن بوجوہ اس کا نفاذ عمل میں نہ آیا۔([8])

بعد میں مذہبی تعلیم کی اصلاح کے لیے ندوۃ العلماءلکھنؤ اور جدید تعلیم کی اصلاح کے لیے جامعہ ملیہ قائم ہوئی۔([9])لیکن عمومی اورمذہبی تعلیم کے ان الگ الگ دھاروں کا رنگ پھیکانہ پڑا تاآنکہ مسلمانوں نے ایک تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان بنا لیا تاکہ وہ اپنے عقیدے اور تہذیب کے مطابق اسے اسلامی طرز زندگی کا گہوارہ بنا سکیں۔

پاکستان بننے سے جو بنیادی تبدیلی واقع ہوئی اس کے نتیجے میں پاکستانی ریاست وحکومت کو پورے معاشرے کی اور خصوصاً نظام تعلیم کی اسلامی تقاضوں کے مطابق تشکیل نو کرنی چاہیے تھی اور مذہبی تعلیم دینے والے مدارس کو بھی اپنا ڈھب بدلنا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ استعمار نے چالاکی یہ کی کہ نو آزاد ممالک میں اقتدار اُن طبقات کے سپرد کیا جو اس کی فکروتہذیب کے پروردہ اور شائق تھے اور نئے ملک میں اسی کو غالب رکھنا چاہتے تھے۔ جب علماء کرام نے دیکھا کہ حکومت نظام تعلیم کی اصلاح اور اسے اسلامی تقاضوں کے مطابق بدلنے میں دلچسپی نہیں رکھتی تو انہوں نے بھی بادل نخواستہ اسی محدود مذہبی تعلیم کو جاری رکھا جو وہ قیام پاکستان سے قبل سے دیتے چلےآرہے تھے۔

پاکستانی حکومتوں اور علماء کے اس طرز عمل نے تعلیم کے مسئلے کو مزید پیچیدہ اور گھمبیر بنادیا۔ ملک کے درد مند حلقے اور اہل علم وفضل اس پر غور بھی کرتے رہے، دونوں گروپوں کو اصلاح پر مائل بھی کرتے رہے اور اصلاح کے لیے تجاویز بھی دیتے رہے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی ان اصحاب عمل وفکر میں سرفہرست تھے جنہوں نے اس بات کو اہمیت دی اور نہ صرف تعلیمی اصلاح کے لیے سوچا ، لکھا اور بولا بلکہ اس پر عمل درآمد کی کوشش بھی کی۔([10])

نظام تعلیم کی اصلاح کے حوالے سے اگرہم ڈاکٹر غازی ﷫کی فکر کو سامنے رکھیں تو وہ تین امور پر ترکیز کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک وحدت تعلیم کا تصور۔ دوسرے عمومی اور جدید تعلیم کی اسلامی تشکیل نو اور تیسرے دینی مدارس کے نظام تعلیم کی اصلاح ۔ سطور ذیل میں ہم ان تینوں نکات کی کچھ تفصیل بیان کریں گے۔

وحدت تعلیم کا تصور

دین اسلام چونکہ خود وحدت پر مبنی ہے اس لیے وہ انسانی زندگی کو بھی ایک اکائی کی صورت میں دیکھتا ہے۔ وہ دین ودنیا میں کوئی تفریق نہیں کرتا اور سیکولرزم کی نفی کرتا ہے۔ لہٰذا مسلم نظام تعلیم بھی وحدت پر مبنی ہوتا ہے گوتعلیم کے مختلف مراحل اور تخصصات کے لحاظ سے درجہ بندی اور مقامات تدریس مختلف ہو سکتے ہیں لیکن عملی وفکری وحدت پھر بھی برقرار رہتی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی استعمار کے قبضے میں جانے سے پہلے کے تقریباً بارہ سو سال تک مسلمانوں کا نظام تعلیم موحد رہا ہے اور مسلم نظام تعلیم کا مذہبی اور دنیاوی تعلیم میں تقسیم ہوجانا یہ مغربی استعمار کی خواہش یا اس کے خلاف رد عمل کا نتیجہ ہے جب کہ مسلمان اپنی خود مختاری کھو چکے تھے اور اس صورت حال کا جاری رہنا بھی دراصل مغربی استعمار کی کوششوں ، سازشوں اور خواہشوں ہی کا نتیجہ ہے۔([11])ڈاکٹر غازی﷫کہتے ہیں کہ ابتداء میں مغربی استعمار کے خلاف مسلمانوں کا ردّ عمل دو انتہاؤں کی طرف مائل تھا۔ ایک مکمل ردّ اور دوسرے مکمل قبولیت۔ مکمل ردّ کا مظہر دیوبند تھا اور مکمل قبولیت کا علی گڑھ، تاہم یہ دونوں ردّ عمل بتدریج کمزور ہو کر خذ ماصفا ودع ماکدر کی صورت میں معتدل ہوتے گئے ۔([12])چنانچہ دیوبند میں اصلاح کے لیے ندوۃ العلماء لکھنو اور علی گڑھ کی اصلاح کے لیے جامعہ ملیہ دہلی وجود میں آئی۔ تاہم ان کا کہنا یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اس تعلیمی ثنویت کو جاری رکھنے کا کوئی جواز تھا، نہ ہے لہٰذا اب اس ثنویت کو وحدت میں تبدیل ہوجانا چاہیے۔

جدید تعلیم کی تشکیل نو

ڈاکٹر غازی﷫نے تعلیم سے متعلق اپنے کئی محاضرات میں مسلم برصغیر کے نظام تعلیم کی تاریخ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔([13])اور یہ بتایا ہے کہ ۱۸۵۷ء تک برصغیر کا نظام تعلیم، ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کے باوجود ، اپنی ہیئت اور شناخت قائم رکھے ہوئے تھا، وحدت کے تصور پر مبنی تھا اور معاشرے اور ریاست کی دینی ، سیاسی، انتظامی اور سماجی ضروریات پوری کررہا تھا۔ تاہم ۱۸۵۷ء میں مسلمانوں کی طرف سے جنگ مزاحمت نے برطانیہ کو مشتعل کردیا۔ اس نے زمام اقتدار ایسٹ انڈیا کمپنی کی بجائے اپنے ہاتھ میں لے لی، مسلمانوں کو قوت سے کچل ڈالا اور ان کے قائم کردہ تنظیمی ، عسکری، سیاسی، قانونی، عدالتی اور خصوصاً تعلیمی ڈھانچے کو منہدم کردیا اور اس کی جگہ اپنے نظریات کے مطابق ان کی تشکیل نو کی۔ اس نے مسلم اوقاف کو ختم کردیا جو مسلم نظام تعلیم کی ریڑ ھ کی ہڈی کی مانند تھے، قومی زبان فارسی کو عربی سے بدل ڈالا اور اسے ہی ذریعہ تعلیم بنا دیا جس کی وجہ سے مسلمان علماء اور معلمین ناکارہ ہو کر رہ گئے اور سرکاری ملازمتوں کا دروازہ ان پر بند ہوگیا اور ’’پڑھیں فارسی بیچیں تیل‘‘ کا محاورہ وجود میں آگیا۔ ان حالات میں سرکاری مدارس کے تتبع میں مسلمانوں میں سے سرسید نے علی گڑھ کی بنیاد رکھی اور اگرچہ ان کا اعلان کردہ تصور یہ تھا کہ اس ادارے میں جدید سائنس طلبہ کے بائیں ہاتھ میں ، فلسفہ ان کے دائیں ہاتھ میں اور لاالٰہ الا اللہ کا تاج ان کے سر پر ہوگا۔([14]) لیکن فکری مرعوبیت اور استعمار کی مدد سے جو نظام تعلیم عملاً سامنے آیا وہ مغرب زدہ تھا اور اس میں اسلامیت برائے نام اور غیر موثر تھی اور سائنس وٹیکنالوجی بھی اس میں موجود نہ تھی۔([15])

پاکستان بننے کے بعد ظاہر ہے اس نظام تعلیم کے جاری رہنے کی کوئی ضرورت نہ تھی اور اسلامی تناظر میں اس کی تشکیل نو ضروری تھی لیکن بدقسمتی سے یہ کام نہ حکومت نے کیا اور نہ علماء کرام نے چنانچہ علی گڑھ کی طرز پر جدید ومعاصر علوم کے تعلیمی ادارے (سکول، کالج اور یونیورسٹیاں) وجود میں آتے اور پھیلتے چلے گئے۔ ان تعلیمی اداروں میں نہ صرف یہ کہ علوم و تعلیم کی مکمل اسلامی تشکیل نو کی کوشش نہ کی گئی اور محض دخ اندوزی (Patch Work )سے کام چلایا گیا بلکہ اسلامیات کی بطور ایک مضمون کے تدریس بھی ناقص اور غیر موثر رہی۔ حکومتوں اور اشرافیہ نے تعلیم کو نہ تو عام ہونے دیا اور نہ اس کے اسلامی مزاج کو پختہ ہونے دیابلکہ اس غیر موثر ملغوبے پر بھی بتدریج انگریزی زبان اورمغربی کلچر کا غلبہ ہوتا چلا گیا۔ تعلیم کو طبقات میں تقسیم کرکے کاروبار بنادیا گیا۔ اکسفورڈ کی نصابی کتب کو فروغ دیا گیا اورتعلیم کی نظر یاتی وحدت کے خاتمے کے لیے اسے مرکزی حکومت کے دائرہ اختیار سے نکال کر صوبوں کے سپرد کردیا گیا۔ جب تک اسلام اور قوم وملت کا درد رکھنے والے لوگ اس تعلیمی صورت حال کی اصلاح کے لیے نہیں اٹھیں گے ثنویت اپنا زہر پھیلاتی رہے گی۔([16]) علوم کی اسلامی تشکیل نو کے لیے ڈاکٹر غازی﷫، شہید ڈاکٹر اسماعیل راجی الفاروقی([17]) کے دس نکاتی لائحہ عمل کی حمایت کرتے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں([18])کہ مغربی علوم اورخصوصاً اس کے سماجی علوم کی اسلامائیریشن کی بجائے ہمیں عمرانی علوم کی اسلامی تناظر میں تشکیل نو(Reconstruction) پر زیادہ توجہ دینا ہوگی۔([19])

ہماری اس بات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ علوم کی اسلامائیزیشن کے لیے ڈاکٹر راجی الفاروقی کے دس نکات پر ایک نظر ڈالیں جو تلخیصاً یہ ہیں:

۱۔ جدید مغربی علوم پر کامل دسترس۲۔ مغربی علوم وفنون کا تجزیاتی مطالعہ

۳۔ مغربی علوم کا تنقیدی محاسبہ۴۔ مسلم فکر ودانش کی کامل تفہیم

۵۔ اسلامی علوم کا تجزیاتی مطالعہ۶۔ مسلم علوم پر ایک تنقیدی نظر

۷۔ مغربی اور اسلامی علوم وفنون کا تقابلی مطالعہ۸۔ امت کو درپیش اہم مسائل کا جائزہ

۹۔ دنیا کو درپیش مسائل کا استحضار۱۰۔ مغربی اور اسلامی علوم میں ایسی ہم آہنگی اور امتزاج جو امہ اور عالم انسانیت کے مسائل حل کرسکے۔

ڈاکٹر فاروقی کی اس سکیم کو اگرہم مغرب کے عمرانی علوم کی اسلامائیزیشن (Islamization of Western Knowledge) یا مغرب کے فکری وتہذیبی غلبے اور بہت سے مسلم اہل علم کی مغرب سے فکری مرعوبیت کی وجہ سے اسے ’اسلامی علوم کی مغربائیزشن (Westernization of Islamic Knowledge) کہیں تو یہ بے جانہ ہوگا کیونکہ ایک ہزیمت خوردہ فکروتہذیب (جو کہ اس وقت بدقسمتی سے ہم ہیں.... اور یہ بات گو تلخ ہے لیکن زمینی حقیقت بہرحال یہی ہے) جب ایک غالب فکر وتہذیب سے مکالمہ کرتی ہے اور تنسیق وتلفیق (Reconciliation) پر اترتی ہے تو اس کا راستہ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر غالب تہذیب سے مغلوبیت ہی کی طرف جاکھلتا ہے۔

اس کے مقابلے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ ہمیں مغربی فکروتہذیب اور اس کےعلوم ومعارف کو اصولی طو رپر ردّ کر دینا چاہیے کیونکہ مغربی فکر وتہذیب کے بنیادی نظریات (ہیومنزم، سیکولر زم، لبرل ازم، کیپٹل ازم وغیرہ) اور اس کا ورلڈویو (تصورالٰہ، تصورِ کائنات اورتصورِ انسان) اور فلسفۂ علم (جو وحی کی حتمیت کو رد کرتا اور انسانی عقل و حواس اور تجربہ ومشاہدہ کو واحد حق قرار دیتا ہے) نہ صرف اسلام سے مختلف ہیں بلکہ اس سے متضاد ہیں۔ اور تلفیق وامتزاج دو ہم جنس وہم مزاج عناصر میں ممکن ہوتا ہے نہ کہ باہم متخالف ومتضاد عناصر میں۔ اور اس سے بھی بڑھ کریہ کہ مغربی فکروتہذیب اور علوم ومعارف کی حامل مغربی قوتوں کا رویہ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی اور جارحیت پر مبنی ہے۔ انہوں نے مسلم ممالک کو باہم لڑایا ، ان کا سیاسی ڈھانچہ (خلافت) توڑا (یا تڑوایا)، اکثر مسلم ممالک کو غلام بنایا، انہیں لُوٹا، کچلا اور انہیں مستقل غلام بنائے رکھنے کی منصوبہ بندی کی۔ تاریخ کے جبرنے مسلمان ممالک کو ان سے آزادی دلائی تو انہوں نے پُرامن طریقے سے مسلمان معاشرے پر اپنی فکری دہشتگردی کی یلغار جاری رکھی۔ اس کے باوجود جب بعض مسلم ممالک اس کے قابو میں نہ آئے تو اس نے اپنی حربی ، سیاسی ،معاشی اور میڈیا کی برتری سے عراق، افغانستان، شام اور یمن کو جس طرح تباہ کیا اور پاکستان،ترکی ، نائیجریا کا جو حشر کیا، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ ان حالات میں مغرب سے علمی وفکری مفاہمت، ذہنی غلامی ہی کی ایک صورت ہوگی۔ بقول اقبال﷫:

وہ نبوت ہے مسلماں کے لیے برگِ حشیشجو نہ دے اس کو قوت وشوکت کا پیام

لہٰذا ہمارا کہنا یہ ہے کہ ہمیں اصولی طور پر مغربی فکروتہذیب کو رد کردینا چاہیے۔([20]) اور اپنے سنہرے ماضی کے تجربات ونتائج کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے علوم ومعارف کا احیاء اور ان کی تشکیل نو کرنی چاہیے۔ اور اس میں اپنے اصولوں اور ترجیحات کو سامنے رکھنا چاہیے۔ ہاں! اس پر اسیس کے دوران ہم مغرب کی علمی وفکری ترقی کو ضرور سامنے رکھیں گے اور اس سے محتاط ومحدود استفادے سے بھی نہ جھجکیں اور اس میں اگر کوئی ایسی چیز ہو جو ہمارے لیے مفید اور ناگزیر ہو اور وہ ہمارے اصولوں، ترجیحات اور مقاصد کے خلاف نہ ہوتو اسے اپنی ضرورت کے مطابق ڈھال کر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر فاروقی کی مغرب کے عمرانی علوم کی اسلامائیزیشن پر ایک تنقید اس حوالے سے بھی ہوئی ہے کہ یہ محض عمرانی علوم کی اسلامائیزیشن کی بات کرتی ہے اور اسلامائیزیشن آف سائنس کو زیر بحث نہیں لاتی جب کہ بعض مسلم دانشور (جیسے ہمارے ہاں ڈاکٹر محمد رفیع الدینؒ) عمرانی علوم کے مقابلے میں سائنس کی اسلامائیزیشن کو زیادہ اہم قرار دیتے ہیں۔([21])

اس کام کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ڈاکٹر غازی مرحوم کہتے ہیں :

’’علوم کی تنقید وتنقیح کے اس عظیم الشان کام کے لیے اب تاریخ ہمیں شاہد مزید مہلت نہ دے۔ اگر مستقبل قریب میں بھی ہم کچھ کرلینے میں کامیاب ہوگئے تو خیر ورنہ اسلامی اقدار اور اسلامی تہذیب کا احیاء ایک خواب وخیال ہو کر رہ جائے گا بلکہ تغیر پیہم کی اس دنیا میں ہمارے لیے اپنا ملی وجود باقی رکھنابھی ممکن نہ رہے گا‘‘۔([22])

دینی مدارس کی اصلاح

ڈاکٹر غازی ﷫چونکہ درس نظامی کے فاضل تھے اور عمر بھر اسلامی علوم میں تحقیق وتدریس ہی ان کا پیشہ اور مشن رہا ۔لہٰذا ان کے طبع شدہ ’محاضرات تعلیم‘ میں اکثر خطبات دینی مدارس کے نظام تعلیم پر ہیں اور ان مدارس کی اصلاح کے لیے انہوں نے متعدد تجاویز پیش کی ہیں۔ دینی مدارس کی اصلاح کے حوالے سے ان کے تجزیے اور تجاویز کا خلاصہ ذرج ذیل ہے:

۱۔ دینی مدارس کا اپنی تعلیم کو بنیادی مذہبی علوم تک محدود رکھنا اس وقت کے مخصوص حالات اور مجبوری کی وجہ سے تھا کیونکہ یہ مدارس استعماری حکومت کے لیے رجال کا رتیار اور مہیا کرنا نہیں چاہتے تھےاور حکومت اور اوقاف کے خاتمے کے بعد اور عوام کی گرگوں مالی حالت کے پیش نظر ان کے پاس مادی اور مالی وسائل کی شدید کمی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد حالات میں بنیادی تبدیلی آئی اوراب اُس پالیسی کو، جو وقتی طور پر بنائی گئی تھی، جاری رکھنے کا کوئی جواز نہ تھا اور اب نئے تقاضوں کے مطابق نظام ونصاب کا بدلنا ضروری تھا اور ہے۔([23])

۲۔ نئے تقاضوں ، اصلاح، وحدت تعلیم کے تصور اور مدارس کو قومی تعلیمی دھارے (Mainstreaming) میں لانے کا مطلب یہ نہیں کہ مدارس کی دینی تعلیم کے متخصص ادارے ہونے کی حیثیت ختم کردی جائے بلکہ یہ ہے کہ دینی تعلیم جدید تقاضوں کے مطابق دی جائے۔ یعنی دینی مدارس کے فارغ التحصیل علماء جدید علوم ومعارف کا تفہیمی اور ناقدانہ مطالعہ رکھتے ہوں تاکہ وہ بدلے ہوئے حالات میں مسلم عوام کی موثر دینی رہنمائی کرسکیں۔([24]) ۳۔ اس وقت دینی مدارس کا درس نظامی کے نام سے ایک ہی نصاب ہے۔ ڈاکٹر غازی مرحوم کی رائے یہ تھی کہ اس نصاب کے تین گروپ ہونے چاہئیں۔ ایک مساجد کے امام اور خطیب تیار کرنے کے لیے۔ اس کے لیے میٹرک کے بعد تین چار سال کا نصاب کافی ہے جس میں حفظ وتجوید، تفسیر، حدیث اور فقہ میں اردو کی ایک دو بنیادی کتب۔ حسب ضرورت عربی زبان، اور جدید معاشیات وسیاسیات پر ایک آدھ کتاب شامل ہو۔ دوسرا گروپ سکولوں کالجوں میں تدریس اسلامیات کے اساتذہ تیار کرنے کے لیے ہو۔ اس کے لیے ابتدائی تین چار سال کے بعد مزید تین سال کا ایک نصاب ہونا چاہیے جس میں عربی ادب کی چند کتابیں ، سیرت، تاریخ اسلام ، اسلامی معاشیات، فقہ وعقائد کے ساتھ تفسیر وحدیث بقدر ضرورت اور تاریخ پاکستان اور جدید دنیائے اسلام سے واقفیت پر مبنی مطالعاتی مواد شامل ہونا چاہیے۔ تیسرا گروپ وہ ہو جس میں دینی مدارس کی اعلیٰ تعلیم اور تحقیق وتدریس کے لیے درکار مفسرین، محدثین، فقہاء اور مفتی تیار کیے جائیں۔ اس کے لیے ابتدائی تین چار سال کی دینی تعلیم کے بعد چار پانچ سال کی مزید تخصصی تعلیم ہونی چاہیے۔([25])

سطور بالا میں ہم ڈاکٹر غازی مرحوم نے درس نظامی کے ایک نصاب کی بجائے جن تین گروپوں اور ان کے الگ الگ نصابات کا ذکر کیا ہے،ہم آگے بڑھنے سے پہلے اس پر ایک نظر ڈالنا چاہتے ہیں کیونکہ ڈاکٹرصاحب نے اپنی بعض تقاریر میں اس موضوع پر ایک عمومی گفتگو کی ہے لیکن نصاب سازی کے حوالے سے یہ ایک اہم موضوع ہے اور اس پر ذرا باریک بینی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔حسن اتفاق سے یہ ہماری دلچسپی اور تخصص کا دائرہ ہے، اس لیے ہم اس حوالے سے ٹھوس اور تفصیلی تجاویز پیش کرنا چاہیں گے:

۱۔ سکول کی بارہ سال تعلیم میں اتنی دینی معلومات دینا اور ان پر عمل کروانا لازمی ہونا چاہیے جن کی ہر مسلمان کو ضرورت ہوتی ہے (اور جسے علماءکرام ’الدین بالضرورة ‘ کہتے ہیں)اس میں مندرجہ ذیل چیزیں شامل ہیں:

¤ پری سکول میں تدریس قرآن کے ضمن میں عربی پڑھنا سیکھنے کے دوران تصحیح مخارج کا اہتمام ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ پڑھانے والا قاری مجود یعنی ماہر تجوید ہو۔ اس کے لیے آڈیو ویڈیو کا استعمال بھی ضروری ہے۔

¤ پرائمری میں ناظرہ قرآن ختم کرنا ، مڈل ومیٹرک میں سارے قرآن حکیم کا ترجمہ اور اعلیٰ ثانوی میں مضامین واحکام قرآن اور تفاسیر کا تعارف شامل ہو۔ مطالعۂ نصو ص کے حوالے سے کچھ احادیث بھی مطالعۂ قرآن کا لازمی جزو ہونی چاہئیں۔

¤ تیسری جماعت سے دسویں تک عربی ہلکے پھلکے انداز میں اور جدید طریق تدریس سے لازمی ہو تاکہ ہر مسلمان کے لیے قرآن فہمی کی پختہ بنیاد مہیا ہو جائے۔

¤ علوم اسلامیہ (جسے دینیات یا اسلامیات بھی کہتے ہیں) کا نصاب سکول سطح پر وسیع تر ہو۔ عقائد میں اللہ کے ساتھ بندے کے تعلق (توحید) اور آخرت کے تصور پر ترکیز ضروری ہے تاکہ اللہ سے محبت اور اس کی خشیت اور فکر آخرت بچے کی ذہن سازی کا لازمی حصہ بن جائے۔ نیز دینی احکام پر عمل کی مشق کرائی جائے، مطلب یہ کہ طلبہ کو نماز رٹا دینااور وضو کا طریقہ بتا دیناکافی نہیں بلکہ اسلامیات کا استاد اپنی نگرانی میں بچوں سے وضو کروائے، انہیں نماز پڑھوائے اور انہیں نماز کا عادی بنائے۔ جو نماز سکول میںآتی ہے، ساری جماعت بلکہ سارا سکول وہ نمازجماعت کے ساتھ ادا کرے۔

۲۔ سکول سطح پر تخصص اس وقت بھی موجود ہے جیسے میٹرک میں آرٹس اور سائنس گروپ اور اعلیٰ ثانوی میں سائنس میں پری میڈیکل اور پری انجینئرنگ اور عمرانی علوم کے بے شمار گروپ بشمول درس نظامی گروپ۔ جب ہم نے مڈل کیا تھا (یعنی ۱۹۶۱ء میں) تو اس وقت ایک چھوٹے قصبے کے گورنمنٹ سکول میں بھی تخصص موجود تھا۔ یعنی چھٹی سے انگریزی لازمی تھی اور عربی وفارسی میں سے ایک اختیاری مضمون لینا ہوتا تھا (چنانچہ اس وقت راقم نے فارسی پڑھی تھی[کہ عربی ٹیچر موجود ہی نہ تھا] جس کے اچھے اثرات آج بھی اس پر موجود ہیں)۔

لہٰذا ہماری رائے یہ ہے کہ اسلامیات کے ایک عمومی لازمی نصاب کے ساتھ ساتھ چھٹی سے اسلامیات کے الگ تخصص کی بنیاد رکھ دی جائے جس میں عربی اور اسلامیات کے ایڈوانس (یا اختیاری) کورس الگ سے شامل نصاب ہوں۔ حفظِ قرآن بھی شامل ہو اور یہ سلسلۂ تخصص مڈل ، میٹرک اور ایف اے تک چلے۔

سکول سطح پر ذریعہ تعلیم اردو ہو۔ انگریزی سب کے لیے اختیاری مضمون ہوتاہم ہماری رائے یہ ہے کہ انگریزی زبان اسلامیات گروپ کے طلبہ کے لیے لازمی ہونی چاہیے تاکہ علماء کرام مستقبل میں مغربی فکروتہذیب کو اس کے نگریزی مآخذ سے براہ راست پڑھ کر سمجھ سکیں اور علمی سطح پر اس کا ردّ کرسکیں۔

۳۔ دینی مدارس کو سکول سطح کی تعلیم دینے کی اجازت ہو خصوصاً اسلامیات کے تخصص کے ساتھ۔ یاد رہے کہ دینی مدارس اس وقت بھی ثانویہ عامہ اورخاصہ کرواتے ہیں لیکن حکومت انہیں میٹرک وایف اے کے برابر تسلیم نہیں کرتی کیونکہ ان میں صرف مذہبی علوم کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ہماری تجویز کے مطابق اگر مدارس ثانویہ عامہ وخاصہ کرائیں گے تو حکومت ان کی ڈگریوں کو تسلیم کرلے گی اور دینی مدارس کے بچے ہر طرح کی اعلیٰ تعلیم اور ملازمتوں کے اہل ہوں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ سکول سطح پر اسلامیات کے تخصص کے مضامین کی نصاب سازی کے وقت علماء کرام کو بھی شامل مشورہ رکھے اور ان کی تجاویز کو اہمیت دے ۔ اور بالفرض اگر علماء کرام ناگزیر سمجھیں اور حکومت ان کی نصابی تجاویز نہ مانے تو وہ اپنی طرف سے کچھ اضافی دینی مضامین اپنے طلبا کو پڑھا سکتے ہیں اور ان کا خود امتحان لے سکتے ہیں۔

۴۔ ایف اے کے بعد چار سالہ بی ایس (آنرز)[ آرٹس کے مضامین کو بھی BS کہنا سمجھ سے بالاتر ہے]۔ آرٹس میں گریجوایشن کرنے والوں کو بی اے (آنرز) اور اسلامیات گروپ کو بی اے آئی (آنرز) (یعنی بی اے اسلامیات ) کہنے میں آخر کیا حرج ہے؟]اس وقت بھی اسلامیات میں میجر کے ساتھ ہورہا ہے۔

دینی مدارس کو چاہیے کہ وہ یہ چار سالہ بی ایس اسلامیات کروائیں اور طلبہ کو حکومت کی منظور شدہ ڈگری دیں۔ اس کے نصاب کے لیے وہ حکومت سے ٹھوس مذاکرات کریں اور بالفرض اگر حکومت ان کی مرضی کا نصاب نہ بنائے تو وہ حکومتی نصامب کے ساتھ اپنے مضامین کا اضافہ کرسکتے ہیں ۔ ہمارے علم میں ہے کہ لاہور کے بعض مدارس میں یہ تجربہ ہوا ہے اور کامیاب رہا ہے۔ طلبہ کو حکومتی سند بھی مل جاتی ہے اور طلبہ چونکہ مدرسہ میں مقیم ہوتے ہیں لہٰذا انہیں اضافی مضامین کی تدریس بوجھ بھی محسوس نہیں ہوتی۔

۵۔ دینی مدارس کو چاہیے کہ وہ علوم اسلامیہ کےعلاوہ طلبہ کو دیگر عمرانی علوم میں بھی چار سالہ BS اور اس کے بعد ۲ سالہ MS (یا ایم فل) کروائیں۔ وہ طلبہ کو یہ مضامین اسلامی تناظر میں پڑھائیں اور ضرورت سمجھیں تو انہیں اضافی اسلامی مواد بھی پڑھائیں تاکہ انہیں متعلقہ عمرانی مضمون کے ساتھ علوم اسلامیہ میں بھی درک حاصل ہو جائے۔ اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ ان کے فارغ التحصیل طلبہ ؍ علماء زندگی کے سارے میدانوں میں کام کرسکیں گے اور ملازمت حاصل کرسکیں گے ۔ اس طرح دینی مدارس کے تیار کردہ علماء اور سکالرز معاشرے اور ریاست میں پہنچ کر مفید اخلاقی اور دینی اثرات پیدا کرسکیں گے اور یہ دعوت وتبلیغ کا بھی ایک منفردانداز ہوگا۔

۶۔ اگر ہماری مجوزہ بالا اسکیم کو سامنے رکھا جائے تو مساجد کے علماء وخطباء کی تیاری کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہائر سیکنڈری یعنی ثانویہ خاصہ پاس طلبہ کو بی ایس؍ بی اے آنرز میں داخلہ دیا جائے اور دوسالہ بی اے کے بعد انہیں فارغ کردیا جائے۔ اس دوسال کے دوران دینی مدارس اپنے مقیم طلبہ کو دو چار اضافی مضامین پڑھا کر (جیسے تقریر کی مشق اور نماز روزے کے روز مرہ فقہی مسائل وغیرہ) امام وخطیب کورس کی ڈگری دے سکتے ہیں اور یہ طلبہ ؍ علماء ملازمت ملنے کے بعد اپنا BS ؍بی اے آرنرز پاس کرکے اعلیٰ تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں۔ چار سالہ بی ایس ؍ بی اے (آنرز) (جو ایک لحاظ سے دوسالہ عالیہ اور دوسالہ عالمیہ کا مجموعہ ہے) کے بعد شہروں کے بڑے دینی مدارس ، جن کے پاس وسائل موجود ہیں، وہ دوسالہ ماجستیر (ایم فل) علوم اسلامیہ کروائیں۔ اس مرحلے پر تعلیمی ادارے HEC کے مجوزہ نصابی خطوط کو سامنے رکھنے کے ساتھ ساتھ ان میں اضافے کرسکتے ہیں (اور ہمارے علم میں ہے کہ کئی یونیورسٹیاں ایسا کرتی ہیں جس پر HEC معترض نہیں ہوتا) لہٰذا دینی مدارس اپنے مقیم طلبہ کو اضافی درسی مواد دے کر ان میں رسوخ فی العلم پیداکر سکتے ہیں۔

جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا دینی مدارس اس سطح پر بھی علوم اسلامیہ کے ساتھ عمرانی علوم میں ڈگری آفر کرسکتے ہیں اور یہ دین کی بڑی خدمت ہوگی کہ وہ معاشرے اور ریاست کو ایسے علماء وسکالر ز مہیا کریں جو زندگی کے سارے شعبوں میں کام کرسکیں۔

بی ایس ؍ بی اے (آنرز) پاس طلبہ گورنمنٹ اور پرائیویٹ سیکٹر کے سکولوں اور میٹرک، ایف اے (تخصص علوم اسلامیہ) کرانے والے دینی مدارس میں پڑھاسکتے ہیں۔ جب کہ ماجستیر (ایم فل علوم اسلامیہ) پاس طلبہ کالجوں میں اسلامی علوم ؍ عمرانی علوم پڑھا سکتے ہیں۔

۷۔ بڑے شہروں کے باوسائل دینی مدارس (جامعات) کو مزید تخصص یعنی علوم اسلامیہ میں چار سالہ پی ایچ ڈی بھی آفر کرنی چاہیے تاکہ دینی علوم میں رسوخ رکھنے والے محقق ، مفسر، محدث اور فقیہ پیدا ہوسکیں جو یونیورسٹیوں، تحقیقی اداروں اور پی ایچ ڈی کا تخصص آفر کرنے والے دینی مدارس میں پڑھا سکیں گے اور اگر دینی مدارس، ہماری تجویز کے مطابق، اس کادائرہ عمرانی علوم تک وسیع کرسکیں (جو انہیں ضرور کرنا چاہیے جیسا کہ مولانا حسین احمد مدنی﷫نے ۱۹۳۳ء میں تجویز کیا تھا [ملاحظہ ہو مولانا مرحوم کا مدونہ نصاب مع تشریحات از مدیر البرہان ،مطبوعہ مکتبہ البرہان ، لاہور] تو وہ وقت جلد آسکتا ہے جب یونیورسٹیوں میں اور سی ایس ایس کرکے بیوروکریسی میں جانے والوں کی اکثریت دینی مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ پر مشتمل ہوگی۔ اور یہ دینی مدارس کی ایسی خدمت دین ہوگی جسے تاریخ صدیوں یاد رکھے گی۔ اس لیے کہ یہ لوگ معاشرے اور ریاست کو اسلام کے مطابق ڈھالنے میں اہم کردار ادا کریں گے اور غلبہ دین اور نفاذ شریعت کی منزل اس سے بہت آسان ہوجائے گی اور مغربی فکروتہذیب کی جگہ اسلام معاشرے پر غالب آجائے گا ۔ ان شاء اللہ

۸۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ ہماری یہ نصابی اسکیم ہمارے تعلیمی ثنویت کے الجھے ہوئے مسئلے کا حل بھی ہے۔ یہ اسکیم مسلک پرستی اور فرقہ واریت کا توڑ بھی کرے گی۔ اس سے دینی مدارس کو مرکزی تعلیمی دھارے میں لانے اور جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔ دینی مدارس کے طلبہ کی ملازمت کا مسئلہ بھی اس سے حل ہو جائے گا اور معاشرے کو ایسے علماء کرام ملنا شروع ہوجائیں گے جو جدید مسائل میں عوام وخواص کی رہنمائی کرسکیں گے۔ معاشرے میں ہم آہنگی اور یکجہتی کو فروغ ملے گا۔ حکمران طبقوں اور علماء میں ذہنی فاصلے کم ہوں گے اور سیکولرز م کی موجودہ فضا کا سحر ٹوٹ جائے گا۔ ان شاء اللہ

(۴)۔ کلامی یا فقہی مکاتب فکر سے وابستگی قابل مذمت نہیں لیکن حق کو اپنے مسلک یا مشرب تک محدود سمجھنا اور اختلاف کرنے والوں کی تغلیط وابطال کرنا اور درس وتدریس اور تحریر وتقریر میں اسی پر ترکیز کرنا اور اسی اساس پر مساجد ومدارس چلانابالآخر عدم رواداری، فرقہ واریت اور تعصب کو جنم دیتاہے جس کے نقصانات واضح ہیں۔([26])

(۵)۔ مدارس کی دینی تعلیم کا موجودہ نظام سیکولرزم کو فروغ دے رہا ہے کیونکہ جب دینی مدارس ایسے کارکن تیار نہیں کرتے جو ریاست کا نظام چلاسکیں اور جدید تعلیم کاڈھانچہ معاشرے اور ریاست کے لیے کارکن تیار کررہا ہو اور یہ جدید تعلیم مغرب زدہ اور اسلامی لحاظ سے غیر موثر ہو تو اس کے نتیجے میں فرد، معاشرے اور ریاست پر مغربی اصول واقدار خصوصاً سیکولرزم اور لبرلزم کا غالب آجانا ایک منطقی امر ہے۔([27])

لہٰذا دینی مدارس چلانے والے علماء کرام کو چاہیے کہ وہ اپنے نظام کی خامیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کریں تاکہ مسلم فرد کی تعمیر نو اسلامی تقاضوں کے مطابق ہوسکے اور معاشرہ وریاست بھی اسلامی تعلیمات واحکام کے مطابق کام کریں اور ﴿رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَۃً وَّفِي الْاٰخِرَۃِ حَسَـنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾([28]) کا منظر مجسم ہوکر ہمارے سامنے آسکے۔

 

حوالہ جات

  1. () طوالت اور تکرار سے بچنے کے لیے ہم نے اس مقالے میں ہربات میں ڈاکٹر محمود احمد غازی ﷫کی تحریروں کے اقتباسات دینے کی بجائے اپنے الفاظ میں ان کا موقف بیان کر دیا ہے اور کتاب کا اور اس کے متعلقہ مضمون کا حوالہ دے دیا ہے۔ان کے تعلیمی افکار زیادہ تر تعلیم پر ان کے خطبات کے مجموعے ’محاضرات تعلیم‘(مرتبہ: ڈاکٹر سید عزیز الرحمٰن) میں یکجا موجود ہیں لہذا ہمارے استفادے کا زیادہ انحصار اسی کتاب پر رہا ہے۔
  2. () البقرہ : 129 ، آل عمران: 164، الجمعہ: 2
  3. () النازعات: 18 ، الاعلیٰ:12 تا 14
  4. () ڈاکٹر محمود احمد غازی، محاضرات تعلیم،مسلمانوں کی تعلیمی روایت اور عصر حاضر(ص: 152 وما بعد)۔
  5. () مولانا مناظر احسن گیلانی،سوانح قاسمی(2؍299)بحوالہ دیوبند کی سالانہ رپورٹ برائے سال 1870ء۔
  6. () ڈاکٹر رشید احمد جالندھری،دینی مدارس کا نصاب تعلیم اور جدید تقاضے،المحمود اکیڈمی،لاہور ،1995ء۔
  7. () ڈاکٹر محمد امین،نصاب مدنی،مکتبہ البرہان،لاہور،2014ء
  8. () اس نصاب کا ایک نسخہ رام پور لائبریری میں آج بھی محفوظ ہے۔بحوالہ عابد رضا بیدار،ہندوستانی مسلمانوں کی ریفام کے مسائل۔
  9. () اس کی تاسیس علی گڑھ میں ہوئی لیکن یہ بعد میں دہلی منتقل ہو گئی۔آج کل یہ ایک پبلک سیکٹر یونیورسٹی ہے۔
  10. () جب وہ کچھ عرصہ مرکز میں وزیر مذہبی امور رہے تو انہوں نے مدرسہ بورڈ قائم کیا اور کئی ماڈل دینی مدارس بھی قائم کیے۔لیکن جیسا کہ ہمارے ملک میں چلن ہے،ان کے وزارت چھوڑنے کے بعد اس تجربے کا حشر بھی جامعہ عباسیہ جیسا ہوا اور یہ ادارے اب غیر فعال ہیں اور مؤثر طریقے سے کام نہیں کر رہے۔
  11. () ڈاکٹر محمد امین،ہمارا دینی نظام تعلیم،تعلیمی ثنویت کے خاتمے کا طریق کار،مکتبہ البرہان،لاہور،طبع دوم2014ء (ص:233) ۔
  12. () محاضرات تعلیم ،مسلمانوں کی تعلیمی روایت اور عصر حاضر(ص:148وما بعد)
  13. () شیخ محمد اکرام،موج کوثر،ادارہ ثقافت اسلامیہ،لاہور(ص:88)۔
  14. () محاضرات تعلیم،اکیسویں صدی میں پاکستان کے تعلیمی تقاضے(ص :174)۔
  15. () محاضرات تعلیم،دینی تعلیم اور عصر حاضر میں اس کی معنویت(ص:51وما بعد)۔
  16. () محاضرات تعلیم،مغرب کا فکری اور تہذیبی چیلنج(ص:294 وما بعد)۔
  17. () بانی ڈائریکٹر بین الاقوامی ادارہ فکر اسلامی،ورجینیا(واشنگٹن،امریکہ)
  18. () ڈاکٹر اسماعیل راجی الفاروقی،علوم جدید کی اسلامی تشکیل۔عمومی اصول اور خطوط کار(مترجم:پروفیسر سید محمد سلیم) طبع ادارہ تعلیمی تحقیق،تنظیم اسلامی پاکستان،لاہور،1989ء۔
  19. () اس پر ہمارے تفصیلی موقف کے لیے دیکھیے ہماری کتاب’ہمارا تعلیمی بحران اور اس کا حل‘،بیت الحکمت ،لاہور،طبع اول،2005ء
  20. () تفصیل کے لیے دیکھیے ہماری کتاب ’اسلام اور تہذیب مغرب کی کشمکش‘،مکتبہ البرہان،لاہور۔
  21. () تفصیل کے لیے دیکھیے پروفیسر ڈاکٹر محمد شفیق عجمی’اقبال اور رفیع الدین۔ علوم کی اسلامی تشکیل کا مسئلہ‘ (ڈاکٹریٹ کے مقالے کا باب چہارم)
  22. () ماہنامہ فکر و نظر،اسلام آباد،مئی 1976ء
  23. () محاضرات تعلیم،مسلمانوں کی تعلیمی روایت اور عصر حاضر(ص :153وما بعد)۔
  24. () محاضرات تعلیم،دینی مدارس ،مفروضے،حقائق اور لائحہ عمل(ص :79وما بعد)۔
  25. () محاضرات تعلیم،تعلیم مغرب کا فکری اور تہذیبی چیلنج اور علماء کی ذمہ داریاں(ص :318،323)۔
  26. () ہمارا دینی نظام تعلیم(ص:178)۔
  27. () محاضرات تعلیم،مغرب کا فکری اور تہذیبی چیلنج(ص :266وما بعد)۔
  28. () البقرہ: 201
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...