Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 34 Issue 1 of Al-Tafseer

اسلامی ریاست کے مالیاتی نظام کا تصور ملکیت، محاصل و مصارف |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

34

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060084478_501

Pages

254-272

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/106

Subjects

Islamic state financial system Taxation Ownership

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

 

اسلامی ریاست کے دستور میں’’ اقتدارِ اعلیٰ ‘‘ اللہ عزوجل کے لیے تسلیم کیا جاتاہے۔ ریاست کا قانون حکمِ الٰہی کا پابند ، قرآن وسنت پر مبنی اور نظم ونسق ، عدل وانصاف کے عین مطابق ہوتاہے۔ اسلامی ریاست کے مالیاتی نظام کو ’’بیت المال‘‘ سے متعارف کروایا گیا ہے۔ بیت المال کے محاصل ومصارف طے شدہ ہیں اور اس مقالے میں بیان کیا جائے گا کہ’’ بیت المال‘‘ کے محاصل کون کون سے ہیں ؟ اور اس کے مصارف کیا کیا ہیں؟کسی بھی ریاست کے استحکام کے لیے مالیاتی نظام ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔بیت المال پر ریاست کے عوام کا حق ہے اور حکمران اس کو ریاست کی عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کا ذمہ دار ہے۔ اس پر کلام سے قبل چند اہم اُمور کی وضاحت ضروری ہے۔

ملکیت کی لُغوی تحقیق

”ملکیت‘‘ کا مادہ ’’ملک‘‘ ہے۔

امام علی بن محمد جرجانی رحمۃ اللہ علیہ (۷۴۰۔۸۱۶ھ) اپنی معروف کتاب ’’التعریفات‘‘ میں یوں رقم فرماتے ہیں:

الملک حالۃ تعرض للشیٔ بسبب مایحیط بہ

”ایسی حالت جو کسی چیز کو ایسے سبب کے ذریعے پیش آئے جو اس کو گھیرے ہوئے ہے۔ “([1])

مذکورہ عبارت سے مترشح ہوتاہے کہ کسی چیز کی ملکیت( (Ownership)درحقیقت اس چیز میں کسی کے لیے حقوق ثابت کرتی ہے۔ وہ حقوق دو نوعیت کے ہیں:

(۱) حق قبضہ (Right of Possession)

(۲) حق تصرف (Right of Disposition)

چنانچہ جب کسی کو یہ حقوق حاصل ہوجائیں تو وہ اس چیز کا مالک اور وہ شئے اس کی ملکیت تسلیم کی جائے گی۔ لہٰذا اس شخص کو اپنی ملکیت میں تصرف ، اس کے تحفظ کی سعی، اس سے نفع اُٹھانے اور نفع کمانے کی غرض سے کاروبار میں استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ ملکیت منتقل کرنے کے حقوق بھی حاصل ہیں۔

مالک اور ملکیت کے درمیان افادیاتی تعلق

اللہ تعالیٰ نے کائنات پیدا فرمائی زمین وآسمان ، چاندوسورج اور اس کی تخلیق فرماکر زمین کا مالک اور وارث انسان کو بنایا۔ اس میں جونفع مخفی ہے وہ انسان سپرد کردیا گیا ہے اور ان کو مسخر کرنے کی صلاحیتیں ودیعت کردیں گئیں ہیں یعنی انسان کونفع اُٹھانے کا علم وصلاحیت عطا فرمادی۔ چنانچہ قرآن کریم میں ایک مقام پر اس کو یوں بیان کیا گیا:

”وہی ہے جس نے سب کچھ جو زمین میں ہے تمھارے لیے پیدا کیا۔“(البقرہ: ۲۹)

اس آیت کے بعد تخلیق انسان، اور انسان کو منصب خلافت عطا کیے جانے کا بیان ہے۔ اس لیے یہاں اس کے شرف وعظمت کا بیان فرمایا کہ زمین اور اس کے چھپے خزائن ، کھیت وکھلیان ، سرسبز باغات اور بے شمار نعمتیں سب کچھ حضرتِ انسان کی خدمت گزاری کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اور ان کا مالک بنایا گیا ہے۔ اسی تصورِ ملکیت کو قرآن پاک میں ایک اور مقام پر یوں بیان کیا گیا :

”اور بے شک ہم نے تم کو زمین میں آباد کردیا اور اس میں فراہم کردیے زندہ رہنے کے اسباب ۔ تم مگر بہت ہی ناشکرے ہو۔“(الاعراف:۱۰)

اس آیت میں بھی تمکن وتصرف عطا کیے جانے کا بیان ہوا۔ انسان کو مالک بنا کر تصرف کا حق واختیار بھی عطا کردیا۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر۵ بھی انتہائی قابلِ غور ہے۔

’’ تمھارے اموال (ان کے) مال سپرد نہ کرو جنھیں بنایا ہے اللہ تعالیٰ نے تمھاری (زندگی) کے لیے سہارا۔“

پیر کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تشریح میں ارقام فرماتے ہیں:

”اس آیت میں دو لفظ آپ کی خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔ اموالہم (ان کے مال)کی بجائے اموالکم فرمایا۔ یتیموں کا مال اگرچہ انھیں کا ہے لیکن کیونکہ وہ اور تم سب ایک ملّت کے فرد ہو اس لیے گویا وہ تمھارا ہی ہے۔ اس کی حفاظت ونگہداشت بالکل یوں کرو جیسے اپنے مال کی کرتے ہو۔ وحدت ملّی اور تکافل اجتماعی کا یہ وہ محبت آفرین سبق ہے جس کی طرف قرآن ہرمناسب موقعے پر ہماری توجّہ مبذول کراتا ہے۔ دوسرا آیت کا وہ حصہ غور طلب ہے کہ مال جس کو اللہ نے تمھاری زندگی کا سہارا بنایا ہے۔ ان الفاظ سے مال کی اہمیت ، قدروقیمت کا اظہار مقصود ہے۔ یعنی مال (ودولت) فضول، اور قابل نفرت چیز نہیں بلکہ یہ تو تمھاری معاشی خوشحالی اور ترقی کا ستون ہے۔‘‘ ([2])

مال و دولت، ذرائع معیشت انسانی زندگی کے قیام اور اس کی بقا کا باعث ہوتے ہیں یعنی اس پر انسانی زندگی کا انحصار ہوتا ہے۔ اسلامی ریاست کے حکمران بیت المال کے محافظ ہیں نہ کہ مالک۔ مسلمان جس مال کے مستحق ہیں اس کی وضاحت کرتے ہوئے امام ماوردی اپنی کتاب ’’الاحکام السلطانیہ‘‘ میں یوں ارقام فرماتے ہیں:

مسلمان تین اقسام کے اموال کے مستحق ہیں (جن کا تعلق بیت المال سے ہے)

(۱) فیٔ(۲) غنیمت(۳) صدقہ

۱۔مال فئی

مال فئی بیت المال کا حق ہے اور اس کا مصرف امام (خلیفۃ الارض) کی رائے اور اجتہاد پر موقوف ہے۔

۲۔مالِ غنیمت

غنیمت بیت المال کا حق نہیں۔ اس کے مستحقین قرآن کریم کی نص سے ثابت ہیں، اس میں امام (خلیفۃ الارض) کی رائے یا اجتہاد نہیں۔ پھر مالِ غنیمت کی تین اقسام ہیں:

1۔بیت المال کا حق جو نبی مکرم ﷺ اور ان کی آل پر خرچ کیا جائے،

2۔ ذوی القربیٰ ۔ (قریب ترین رشتہ دار) جبکہ

3۔یتیم ومسکین ، بیوہ، مسافر کا حصہ ہے۔

۳۔صدقہ

صدقہ کی دو قسمیں ہیں:

۱۔مال باطن: اس مال کو خود مالکین صرف کرنے کے مجاز ہیں اور بیت المال کا اس پر حق نہیں۔

۲۔ مال ظاہر: جیسے زراعت اور پھلوں کا عشر اور مویشی کے صدقات ۔([3])

مذکورہ بالا سے یہ مترشح ہواکہ حکمران بیت المال اور حکومتی آمدن پر جو ٹیکس(Tax) کی مد میں حاصل کرتے ہیں، اس کو عوام اور ریاست کی فلاح وبہبود اور اُمورِ ریاست کو انجام دینے کے لیے، اپنے صوابدیدی اختیارات کو استعمال کرے۔

ان جملہ اُمور کی وضاحت کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہی کہ اسلامی ریاست کے محاصل و مصارف تفصیل سے بیان کردی جائے۔

اسلامی ریاست کے محاصل کا اجمالی خاکہ

اس سے مراد اسلامی ریاست کے ذرائع آمدن یا اجتماعی ملکیت ہے اور یہ ذرائع آمدن تعداد میں ۱۹ ہیں ان میں تین ذرائع کی مستقل حیثیت نہیں بلکہ وہ مالِ فیٔ کے ضمن میں بیان کئے جائیں گے۔

(۱)صدقات/زکوٰۃ(۲)مال فئی (الف) خراج (ب)جزیہ(ج)عشور

(۳)خمس (۴)رِکاز/دفینہ(۵)عشر

(۶) کراء الارض (۷)وقف(۸) ضرآئب

(۹) لقطہ( گری پڑی چیزیں) (۱۰)لاوارث ترکہ (۱۱)کاروبار کا منافع

(۱۲)نشو ونما ملکیت (۱۳)النوائب (۱۴) ارض موات (بنجر زمینیں)

(۱۵) سمندری تجارت(۱۶)سیاحت کے مقامات ([4])

کوئی بھی ریاست یا مملکت بغیر دولت یا آمدن کے قائم نہیں رہ سکتی ۔ اصطلاح شریعت میں اسلامی ریاست کے خزانہ کا نام بیت المال تجویز ہوا تھا۔ ریاست کی آمدن یہاں جمع کی جاتی تھی اور عوام اور ریاست کی فلاح وبہبود پر خرچ کی جاتی تھی۔ بیت المال کا تعارف سب سے پہلے پیش خدمت ہے۔

بیت المال کا تعارف

’’بیت المال کے لغوی معنی ’’مال کا گھر‘‘ ’’دولت کا گھر‘‘ ’’خزینۃ المال‘‘ یا ’’مال کا خزانہ‘‘ ہیں۔شرعی اصطلاح میں اس کا مفہوم ’’کسی مسلم ریاست کا خزانہ‘‘ہے۔اس کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ:

”وہ مال جس کے مسلمان اجتماعی طور پرمستحق ہوں، وہ کسی خاص شخص کی ملکیت نہ ہو، وہ (مال) بیت الما ل کی ملکیت ہے۔“([5])

کسی مسلم ریاست کے خزانے یا اسلامی سلطنت کے اس خزانہ خاص کو کہتے ہیں جس کو ریاست بلکہ اسلامی حکومت عام رعایا کی فلاح وبہبود کے لیے خرچ کرتی ہے۔ نیز بیت المال سے مراد مسلمان کا قومی خزانہ بھی، ملی جائیداد کا ضامن بھی ، تجارت کا ادارہ بھی امانت کا محافظ بھی او رمسلمانوں کے مرکزی ادارے کا سرکاری خزانہ بھی ہے ۔اسلا م کا پہلا بیت المال مدینہ منورہ میں قائم ہوا۔ بیت المال کی نگرانی کا کام ایک معزز صحابی حضرت عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ کے حوالے کردیا گیا جو حساب و کتاب میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔ ہمارے فقہاء احناف نے مصارف بیت المال کے عنوان سے کتب فقہ میں اس کی وضاحت وتشریحات کی ہیں۔قدوری کی عبارت بطور استشہاد پیش کی جاتی ہے۔ابوا لحسن احمد بن ابو بکر القدوری (۳۶۲ھ - ۴۲۸ھ ) لکھتے ہیں:

والجزیۃ یصرف فی مصالح المسلمین فیسد منہ الثغور وتبنی القناطیر والجسور ویعطی منہ قضاۃ المسلمین وعمالہم وعلمائہم ما یکفیہم ویدفع منہ ارزاق المقاتلۃ وزراریہم

”اور جزیے کا مال خرچ کیا جائے گا مسلمانوں کی بہتری کے لیے ۔ لہٰذا سرحدیں بند کی جائیں گی اس سے پل بنائے جائیں گے۔ اور اس سے مسلمان قاضیوں ، عاملوں، اور علماء کو اس قدر دیا جائے گا جو کہ ان ضرورت کے لیے کافی ہواور اس سے غازیوں اور ان کی اولاد کا روزینہ دیا جائے گا۔‘‘([6])

مصالح المسلمین: مسلمانوں کی فلاح و بہبود ، معاشرتی اصلاحات، فوجی اخراجات،راستے اور پل بنانا، اہل علم ، قاضیوں، مساکین ،یتیموں اورغازیان اسلام اور ان کی اولاد کے لیے بہترین روزگار کا انتظام ان محاصل سے کیا جائے گا۔

۱۔زکوٰۃ/صدقات

یہ اللہ او ر اس کے رسول ﷺ کی طرف سے عائد کردہ محصول ہے۔ جس کے بے شمار فوائد ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد مال کو گردش میں رکھنا مال دار کے دل سے حبّ مال کو فنا کرنا ہے۔ قرآن کے قاری سے یہ امر مخفی ہے نہیں کہ جہاں جہاں نماز کا ذکر ہوا وہاں وہاں زکوٰۃ بھی شامل ذکر ہے۔ جس کا واضح نتیجہ یوں ہے کہ نماز کی غرض وغایت اس وقت تک پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچتی جب تک کہ مال کے ذریعے غرباء اور فقراء کی امداد واعانت نہ کی جائے اور اس مال کو ان کی بہبود پر خرچ نہ کیا جائے۔قرآن پاک میں ارشاد ہوا :

وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ اَقْرِضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا

”اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ کو اچھا قرض دو۔“ ([7])

مفسرین نے تصریح فرمائی ہے کہ یہاں زکوٰۃ سے مراد نفلی صدقات ہیں۔علامہ محمود احمد آلوسی فرماتے ہیں: ’’ زکوٰۃ اجمالی طور پر مکہ مکرمہ میں فرض ہوئی تھی اور زکوٰۃ کے مصارف اور اس کی مقدار کا تعین مدینہ منورہ میں ہوا۔

رسول مکرم ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم کو یمن کی طرف یمن کا والی اور قاضی بنا کر بھیجا (یہ سن ۹ھ واقعہ تبوک کے بعد ماہ ربیع الثانی کی بات ہے) اس وقت انھیں نصیحت فرمائی تھی کہ ان کو توحید ورسالت کا حکم دینا/پھر نماز کا حکم دینا اگر وہ اطاعت کرلیں تو پھر ان کو خبر دو کہ اللہ نے ان کے مالوں میں ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو کہ : تواخذوا من اغنیا ء ہم وترد علی فقراء ہم۔ ترجمہ: ان کے مالدار لوگوں سے لی جائے گی اور ان کے فقراء پر لوٹادی جائے گی۔([8])

یہاں مختصراً انواع زکوٰۃ کا ذکر خالی از فائدہ نہ ہوگا چنانچہ وہ پانچ ہیں۔

سونا چاندی: بیس مثقال (ساڑھے سات تولے) اور دو سو درہم چاندی(ساڑھے باون تولہ) (نوٹ نقدی کا نصاب سونا چاندی کی مالیت کے مطابق ہے)

مویشی:ان میں اونٹ ، گائے، بیل، بھیڑ بکریاں شامل ہیں۔

سامان تجارت:تجارت کا سامان اگر سونے چاندی کے نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر ایک سال گزر جائے تو ان پر زکوٰۃ فرض ہے۔

غلہ اورپھل:اگر زمین کی سیرابی بارش یا قدرتی نہروں /چشموں پر موقوف ہو تو اس کی پیداوار کا ۱۰/۱ حصہ فرض ہے اور اگر کنویں یا مصنوعی ذرائع سے سیرابی ہو تو پیداوار کا ۲۰/۱فرض ہے۔

صدقات: وہ مال، جو اصحاب ثروت غربا کی بہبود کے لیے، بیت المال کو دیتے ہیں۔ اور یہ دراصل وہ اپنے گناہوں اور فسق و فجور کے کفارات کے لیے ادا کرتے ہیں۔

۲۔فئی: غیر مسلم محارب اقوام سے بغیر کسی جنگ اور محنت کے وصول پائے۔ مال فئی کہلاتا ہے۔

مسلمان جس مال کے خاص مستحق ہیں اس کی تین اقسام ہیں : (۱) مال فئی (۲) مال غنیمت (۳)صدقہ

قرآن کریم میں ارشاد ہوا:

”اور جو غنیمت دلائی اﷲنے اپنے رسول کو ان سے،تو تم ان پر نہ اپنے گھوڑے دوڑائے تھے اور نہ اونٹ،ہاں اﷲ اپنے رسولوں کے قابو میں دے دیتا ہے جسے چاہے اور اﷲ سب کچھ کرسکتا ہے۔ “ ([9])

یعنی اللہ نے جن مالوں پر اپنے رسول کو غلبہ وتسلط عطا فرمایا اور اللہ ہر شے پر قادر ہے۔آیت کے ظاہر اور عموم سے واضح ہے کہ مال فئی میں عساکر اسلامی کا حق نہیں۔ (تین اقسام اس کے ضمن میں بیان کی جاتی ہیں)

(الف) خراج

یہ وہ سرکاری اور حکومتی لگان ہے جو غیر مسلم مفتوحین کی غیر منقولہ جائیداد /زمین پر سالانہ عائد ہوتا ہے۔ خِراج اور خَرج میں فرق یہ ہے کہ خِراج زمینوں پر عائد ہوتا ہے جبکہ خرج انسانوں پر عائد کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوا : " کیا تو ان سے کچھ مانگ رہا ہے، تیرے لیے تو تیرے رب کا دیا ہی بہتر ہے۔ "([10])

جب اہل بحرین (مجوس و یہود و نصاریٰ) جزیے کی ادائیگی پر صلح کرلی تو نبی مکرم ﷺ نے انصار کو بلایا تاکہ بحرین کا جزیہ وخراج ان کے لیے لکھ دیں۔ لیکن انصار نے (ایثار کرتے ہوئے) عرض کیا جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یوں روایت کیا ہے۔

سمعت انس بن مالک( ٔ رضی اللہ عنہ،) دعاالنبی ﷺ الانصار لیکتب لہم بالبحرین فقالوا : لا واللہ حتی تکتب الخواننا من قریش بمثلہا’’

”حضرت انس رضی اللہ عنہ نے سنا ،اللہ کے رسول ﷺ نے انصار کو بلایا تاکہ بحرین کا جزیہ وخراج لکھ دیں لیکن انھوں نے عرض کیا (نہیں) اللہ کی قسم ایسا نہ کیجیے جب تک کہ آقا ﷺ آپ ہمارے قریشی بھائیوں کے لیے لکھ دیں۔“ ([11])

(ب) جزیہ

قرآن کریم میں ارشاد ہوا : ان لوگوں سے قتال کرو جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ روز آخرت پر او رنہ وہ اللہ کے اور اس کے رسول کے حرام کیے ہوئے کو حرام قرار دیتے ہیں اور نہ وہ دین حق کو قبول کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو کتاب دی گئی (تم ان سے جہاد وقتال کرتے رہو) یہاں تک کہ وہ ذلت کے ہاتھ سے جزیہ دیں۔([12])

ایک طویل حدیث سے اقتباس جزیہ کی بابت پیش خدمت ہے:

عن سلیمان بن بریدۃ عن ابیہ قال قال ﷺ فان ابو ا فسلہم الجزیۃ فان اجابوک فاقبل منہم وکف عنہ، فان ابوا فستعن باللہ واقاتلہم۔ ([13])

” سلمان بن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں نبی مکرم ﷺ نے فرمایا اگر وہ لوگ اس دعوت کو قبول نہ کریں تو ان سے جزیہ کا سوال کرو، اگر وہ اس کو تسلیم کرلیں تو تم بھی اس کو قبول کرلو اور ان سے ہاتھ روک (یعنی جنگ نہ کرو) اور اگر وہ انکار کردیں تو پھر اللہ کی مدد کے ساتھ ان سے جنگ کرو۔“

اﷲ تعالی نے اہل اسلام کو مشرکین سے دو حقوق دلوائے ہیں ۔ ۱۔ جزیہ، ۲۔ خراج۔ یہ دونوں حقوق تین امور میں یکساں اور تین امور میں ان کے درمیان فرق ہے۔* جن اُمور میں یکساں ہیں وہ یہ ہیں:

۱۔ دونوں مشرک کی اہانت اور تذلیل کے طور پر لیے جاتے ہیں۔

۲۔ دونوں مال فئی ہیں اور اُسی مصرف پر خرچ کیے جاتے ہیں ۔

۳۔دونوں سال گزرنے پر وصول کیےجاتے ہیں۔* جن اُمور میں ان کے درمیان فرق ہے، وہ یہ ہیں :

۱۔ جزّیہ نصّ قرآنی سے ثابت ہے اور خراج اجتہاد سے ثابت ہے۔

۲۔ جزیہ کی ابتدائی مقدار متعین ہے اور انتہائی مقدار اجتہادی(حکمراں کی صوابدیدپر) ہے۔

۳۔جزیہ بحالت کفر وصول کیا جاتا ہے جبکہ خراج کفر و اسلام (دونوںحالتوں ) میں لیا جاتا ہے ۔([14])

(ج)عشور

غیر مسلم تاجر سے وصول کیا جاتا ہے جب وہ اسلامی ریاست میں تجارت کی غرض سے اپنے اموال لے کر داخل ہو۔

۳۔خمس

وہ مال جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کی لڑائی کے بعد حاصل ہو اس کا پانچواں حصہ بیت المال میں داخل کرنا فرض ہے۔قرآن کریم میں ارشاد ہوا: ”اور اے مسلمانو! یاد رکھوتم جتنا مال بھی مال غنیمت حاصل کرو تو بے شک اس مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے اور (رسول کے) قرابت داروں کے لیے ہے۔ یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے۔“ ([15])

۴۔مال رکاز

وہ مال جو دفینوں او رکانوں سے نکلتا ہے۔ اس مال کا شرعی حکم یہ ہے کہ اس مال میں خمس (پانچواں حصہ) ریاست کا ہے, اولاد سیدہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کا ہے۔ باقی چار حصے اس شخص کے جس نے دریافت کیا یا جس کی زمین ہے۔چنانچہ ایک حدیث کے آخر میں ارشاد ہوا:

عن ابی ہریرۃ عن رسول اللہ ﷺ عنہ قال وفی الرکاز الخمس۔

”اور معدنیات میں (یا دفنیہ )میں سے خمس اد کرنا واجب ہے۔“([16])

۵۔عشر

اراضی کی پیداوار کی زکوٰۃ عشر کہلاتی ہے۔ قرآن کریم میں ہے: " اور جب ان کی کٹائی کا دن آئے تو ان کا حق ادا کرو۔" ([17])

علامہ محمود آلوسی البغدادی رقم طراز ہیں:۔ الذی اوجبہ اللہ تعالیٰ فیہ۔

ترجمہ: ’’ جو اللہ نے واجب کیاہے اس میں سے۔ ‘‘([18])

مفسرین کے اختلاف کو بیان کرنے کے بعد آپ فیصلہ کن انداز میں فرماتے ہیں اس کا خلاصہ یوں ہے:

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک اس آیت سے ثابت ہے کہ فصل کی کٹائی کے حق سے مراد عشر یا نصف عشر ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول راجح ہے۔ ([19])

حدیث مبارکہ میں وارد ہوا:

فیما سبقت السماء والعیون اون کان عشریا العشر وما سقی بالنضح نصف العشر

”جس زمین کو بارش نے سیراب کیا اور چشموں نے سیراب کیا یا اس زمین نے خود اپنی رگوں سے پانی لے لیا۔ اس میں عشر ہے۔ اور جس زمین کو کنویں کے ڈول سے سیراب کیا گیا اس میں نصف عشر ہے۔“([20])

نوٹ:یہ فرق صرف محنت اور اخراجات کی بنا پر ہے، جہاں محنت اور اخراجات زیادہ ہوں وہاں پیداوار کا ۲۰/۱ حصہ ہے ورنہ جہاں محنت کم اور اخراجات بھی کم تو وہاں ۱۰/۱دسواں حصہ ہے۔

۶۔کراء الارض: (لگان/زمین کا کرایہ)

اسلامی ریاست کی زمین کا مقررہ لگان جو کاشت کاروں کی باہمی رضامندی سے وصول کیا جاتا ہے۔

۷۔وقف

وہ جائیداد یا مال ہے جو مالک/واقف خدا کے نام پر بیت المال کے لیے وقف کردے۔

۸۔ضرائب: (اہل ثروت پر ٹیکس)

معاشی توازن کے قیام کے لیے حکومت /ریاست امراء پر جو ٹیکس عائد کرتی ہے اور ان سے مالی امداد وصول کرکے غرباء میں تقسیم کرتی ہے۔

۹۔لقطہ

لقطہ بروزن حُزمہ ہے۔ کسی کو راستے میں گری پڑی چیز مل جائے (اور مالک کا معلوم نہ ہو) اسے لقطہ کہتے ہیں اور اگر بچہ پڑا ہوا مل جائے تو اس کو لقیط کہتے ہیں۔ حدیث مبارکہ میں وارد ہوا حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حاضر ہوکر اللہ کے نبی ﷺ سے سوال کیا لقطہ (گم شدہ/ گری پڑی چیزوں) کے بارے میں آپ ﷺنے فرمایا۔

”اس (تھیلی) کے باندھنے کی ڈوری اور اس تھیلی کی پہچان کو یاد رکھو، پھر ایک سال تک اس کا اعلان کرو، اگر مالک آجائے تو ٹھیک ہے ورنہ اس کو تم اپنے پاس رکھ لو۔“۔ الخ([21])

۱۰۔لاوارث ترکے

ایسے تمام ترکے جن کا کوئی شرعی وارث نہ ہو یا وہ مال جس کو مالک نے وصیت کے ذریعے اس کا حق ملکیت بیت المال کی طرف کیا ہو۔ اسلامی ریاست کی ملکیت کی حیثیت سے بیت المال میں داخل کیے جائیں گے۔

۱۱۔کاروبار کے منافع

اسلامی ریاست کو مختلف قسم کے نفع اور کاروبار کرنے کا حق حاصل ہے جو بھی نفع ہوگا وہ ریاست کی ملکیت قرار پائے گا۔

۱۲۔نشو ونمائے ملکیت

اسلامی ریاست کی املاک سے حاصل ہونے والی آمدن بیت المال میں داخل کی جائے گی۔ مثلاً : درختوں کے پھل، جنگلات ، جانوروں کی نسل وغیرہ سے جو آمدن حاصل ہوگی وہ ریاست کی ملکیت ہے۔

۱۳۔النوائب

نوائب سے مراد ہنگامی ٹیکس ہیں جو خاص حالات کی وجہ سے عوام پر عائد کیے جاتے ہیں۔

۱۴۔ارضِ موات

غیر آباد ، بنجر زمینوں سے ہونے والی آمدن۔

مذکورہ بالا بحث میں ہم نے صرف محاصل اور ان کا تعارف پیش کیا ہے او رکسی قدر کوشش کرکے ان کے قرآن وسنت سے نصوص وثبوت بھی پیش کیے ہیں اب ہم ان محاصل کے مصارف کا بیان کرتے ہیں۔

۱۵۔سمندری تجارت

سمندری تجارت بھی اللہ کے انعامات میں ایک عظیم انعام ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النحل میں اس انعام کا یوں تذکرہ فرمایا: ’’اور وہی ہے جس نے سمندر کو مسخر کردیا تاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھاؤ اور تم اس میں سے زیور نکالتے ہو جن کو تم پہنتے ہواورتم اس میں کشتیوں کو دیکھتے ہو جو پانی کو چیرتی ہوئی چلتی ہیں تاکہ تم اللہ کا فضل کا تلاش کرو تاکہ تم شکر ادا کرو۔" ([22])

اس آیت میں سمندر کے تین قسم کے منافع کا ذکر فرمایا اور ان سے اپنی وحدانیت اور الوہیت پر استدلال بھی فرمایا:

۱۔تروتازہ گوشت، اس سے مراد مچھلیاں ، کڑوے اورکھاری پانی کی لذیذ مچھلی۔

۲۔سمندر سے موتی ،یاقوت اور مونگے نکالتے ہو۔ اس سے خواتین کی زیب و زینت کے لیے زیورات بنائے جاتے ہیں۔

۳۔تم سمندر میں کشتیاں چلاتے ہو ، سمندری تجارت کرتے ہو۔

اور اس زمانے میں سمندری تجارت کی اہمیت سے کس کو انکار ہے۔ دنیا میں کوئی ملک سمندری تجارت کے بغیر اپنی معیشت کا توازن برقرار نہیں رکھ سکتا۔ سمندری ذرائع نقل وحمل (ٹرانسپورٹ) ترسیل سامان اور آمدورفت کا سب سے سستاطریقہ ہے۔ (سرزمین پاکستان پر اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سے یہ بھی ایک عظیم انعام ہے کہ اللہ عزوجل نے پاکستان کو گرم پانی کے ایسے عظیم سمندروں سے نواز ہے جہاں پورا سال جہاز رانی ممکن ہے۔ دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں جن کے سمندر سے اتصال نہیں وہ چاروں طرف سے خشکی میں گھرے ہوئے ہیں جیسے افغانستان اور وسطی ایشیا کے ممالک تاجکستان، ازبکستان ، ترکمانستان، قازقستان اور سویت یونین وغیرہ۔ بلکہ سابقہ سویت یونین کے بعض علاقے اگرچہ سمندرے کے کنارے واقع ہیں لیکن ان کا المیہ یہ ہے کہ ان علاقوں میں شدید سردی کی وجہ سے سمندر کا پانی منجمد رہتاہے۔ سال کے چار ماہ ہی بمشکل جہاز رانی ہوپاتی ہے۔ البتہ ان سب مذکورۃ الصدر ممالک میں تمام تجارتی سامان اور تجارت سرزمین پاکستان اور پاکستان کے گرم پانی کے سمندروں سے کی جاتی ہے۔ پاکستان کے پاس دو اعلیٰ درجے کی بندرگاہیں ہیں۔ گویا پاکستان شروع سے ہی راہداری کی سہولت فراہم کرتا رہا ہے۔ اور آج کے زمانے میں تو یہ زر مبادلہ کمانے کا ایک آسان اور سستا طریقہ کار ہے۔ یہ آمدن بھی عوام کا حق اور بیت المال کا محاصل ہے۔)

۱۶۔ سیاحت وسیروتفریح

زرِ مبادلہ کمانے کا اس زمانے میں یہ بھی آسان اور سستا طریقہ ہے۔ سرزمین پاکستان میں ایسے بے شمار تفریحی ، پُرفضا ، خوش منظر اور دلفریب قدرتی حسن سے مالامال جگہیں ہیں کہ سہولیات نہ ہونے کے باوجود دنیا بھر سے سیاح ان مقامات کی سیروتفریح اور معلومات حاصل کرنے آتے ہیں جس سے سالانہ کروڑوں روپے حاصل ہوتے ہیں۔ یہ بھی بیت المال کے محاصل ہیں۔ ان تفریحی مقامات میں سے چند درج ذیل ہیں۔

شمالی علاقہ جات، جہاں خوبصورت برف پوش پہاڑی سلسلہ ہے۔ بیرون واندرون ملک سے لاکھوں سیاح ان کے خوبصورت قدرتی حُسن سے لطف اندوز ہونے کے لیے آتے ہیں جس کی وجہ سے بے شمارلوگوں کو روزگار فراہم ہوتاہے۔

اگر حکومت ان علاقوں پرتوجہ دے تو کروڑوں روپے ان سیاحوں سے زر مبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح مری ، ایوبیہ ، نتھیا گلی، وادیِ کاغان، جھیل سیف الملوک ، شوگران، کالام، سوات، مالم جبّہ اور صوبہ سرحد کا صدرمقام پشاور جوکہ ایک قدیم شہر ہے اس کا قلعہ ’’بالاحصار‘‘ اپنی قدامت ، تاریخی روایات اور قدرتی حُسن سے بھرپور ہے۔ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل وکرم ہے کہ بغیر انسانی محنت کے ایسے حسین قدرتی مناظر سے مالامال یہ علاقے عطافرمائے ہیں۔ ان علاقوں کی سیاحت وتفریح سے بے حساب دولت حاصل کی جاتی ہے۔ جوکہ پاکستان کی عوام کا حق ہے۔

سیاحت وسیر کا حکم بھی قرآن حکیم میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

”آپ فرمائیں ! کہ تم زمین میں سفر (وسیر) کرو اور غور کرو کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ابتداء مخلوق کو پیدا کیا ہے۔الخ“

اس کے علاوہ بھی قرآن میں کئی دوسرے مقامات پر اس طرح فرمایا کہ : ‘‘زمین کی سیر کرو اور مجرموں کا انجام دیکھو‘‘([23])

یعنی سیر وسیاحت کا مقصد عظیم ہو تو وہ بھی باعث ثواب اور زر مبادلہ کمانے کے آسان ذرائع میں سے ہے۔

اسلامی ریاست کے مصارف

۱۔اسلامی ریاست کے مصارف

کسی بھی ریاست کے اقتصادی ومعاشی نظام کا مدار اس کے نظام تقسیم دولت پرہوتا ہے۔ لہٰذا تقسیم کی راہیں مخصوص طبقے کی طرف ہی کھلی رہیں تو دولت کی گردش تھم جائے گی اور جس طرح پانی ایک گڑھے میں پڑے پڑے سڑجاتا ہے اور اس میں تعفن پیدا ہوجاتا ہے اور مختلف امراض جنم لینے لگتے ہیں بالکل اس طرح معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے اور مختلف جرائم کی بنا پر وہ معاشرہ انسانی دائرے سے نکل کر حیوانی معاشرے کی شکل اختیار کرجاتاہے۔ اور اگر نظام تقسیم دولت کی راہیں عوام کی طرف ہوں تو عوام خوشحال ہوں گے۔ عوام کی قوت خرید میں اضافہ ہوگا اور سرمایہ زیادہ سے زیادہ گردش میں رہے گا تو بلا شبہ معاشرے میں ہرفرد خوشحال اورپُرسکون رہے گا۔

قرآن حکیم میں بھی اس بابت ارشاد ہوا:

کئی لا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم

”تاکہ یہ مال اغنیاء کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے۔“([24])

۲۔سرمایہ دارانہ نظام کی خرابی

سرمایہ دار نہ نظام نے تقسیم دولت کی بنیاد فرد پر رکھی تو معاشرے پر ظلم ہوا۔ فرد قارون کے مثل سرمایہ سمیٹ کر اس پر قابض ہوگیا اور دولت کی گردش رک گئی۔ فساد فی الارض پیدا ہونے لگا۔

۳۔ اشتمالیت واشتراکیت کے نظام کی خرابی

اشتراکیت نے اجتماعیت پر بنیاد رکھی ہے تو افراد پر ظلم ہوا ہے صرف اسلام ہی وہ واحد دین ہے کہ اسلام نے تقسیم دولت کا عادلانہ نظام پیش کیا ہے۔

۴۔ اسلامی نظام تقسیم دولت

اسلام میں سرمایہ کار کے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے گردش دولت کا رخ عوام کی طرف کر رکھا ہے۔ (تاکہ عوام کی قوت خرید مضبوط ہو۔ جس قدر قوت خرید مضبوط اور پائیدار ہوگی اس قدر تاجر اور سرمایہ کار مستحکم اور خوشحال ہوگا اور دولت کی گردش بھی رہے گی ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی ہوگی۔اسلام نے ایک مکمل اقتصادی نظام عطا فرمایا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے ماننے والوں کو تاکید فرمائی ہے کہ راست بازی کے ساتھ حق دار کو اس کے پورے پورے حقوق دیں ۔ بصورت دیگر یوم آخرت کو ایک ایک شئے کا حساب لیاجائے گا تو اس دن ظالم کے ظلم کا فیصلہ کیاجائے گا تب تک اختیار ہے کہ تم کیا اعمال اختیار کرتے ہو۔تقسیم دولت کی دو ہی صورتیں عادلانہ طور پر ممکن ہیں :۔

(الف)صورت عمل

(ب)ضرورت وحاجت

(الف) صورت عمل

خالق کائنات نے ایسا شاندار نظام قائم فرمایا جس کی مثال بلاشبہ محال ہے۔ اس نظام کے تحت انسان اپنی ذات پر غور کرے کہ اس کا اپنا وجود کن کن انعامات الٰہی اور صلاحیتوں سے بھرپور ہے۔اسی لیے حکم دیا گیا ہے کہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کارلاکر محنت ومشقت کرو اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، قرآن کریم میں ہے:

” انسان کے لیے اتناہی ہے (اس دنیا میں) جتنا اس نے کوشش کی۔ “([25])

گویا معاوضہ بمقدار محنت ملتا ہے۔

ایک موقعے پر آپ ﷺ طلب معیشت کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:۔

عن ابی حمید ن الساعدی قال قال النبی ﷺ اجملوا فی طلب الدنیا فان کلامیسر لما خلق اللہ

” حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی مکرم نے فرمایا دنیا طلب کرنے میں اعتدال سے کام لو کیونکہ انسان جس شئے کے لیے پیدا کیا گیا ہے وہ اس کے لیے آسان کردی جائے گی۔“([26])

اس سے متصل دوسری روایت بھی قابل توجہ ہے۔ آپﷺ نے فرمایا :

” سب سے بڑا رنج اس مسلمان کو ہوتا ہے جسے دنیا کی بھی فکر ہو اور دین کی بھی۔“([27])

ان مذکورہ نصوص مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جوکسب کی ترغیب اور اس پر دنیا وآخرت کے اجر کی نوید سناتا ہے اور اس نظام میں آجر اور اجیر کے درمیان رشتۂ اخوت قائم کرتا ہے اور دونوں کو آپس میں ایک دوسرے کا کفیل اور تمام ضروریات کا محافظ بناتا ہے۔

(ب) ضرورت وحاجت

معاشرے کے بسنے والے وہ تمام افراد جو کہ کسب معاش سے معذور یا محروم ہیںا ن تمام افراد کی کفالت اسلامی ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوا: "اور وہ (ایثار کیش) لوگ جن کے اموال میں حصہ مقرر ہے۔ مانگنے والے اور نہ مانگنے والے محتاج کا ۔ "([28])

اس باب میں قرآن کریم کی دیگر بے شمار آیات ہیں اور کتب احادیث میں ذخیرہ مضامین لاتعداد ہیں۔ اس قدر شدید تاکید وتکرار کے باوجودہمارے عُمال، اُمراء اور وزراء کے بینک اکاؤنٹ بے حساب وکتاب ،دن بدن بڑھتے ہی جارہے ہیں یعنی الٹاحساب بن گیا ہے۔غریب ، فقیر ، مسکین، یتیم، بیوہ، معذور، نابینا اور ذہنی امراض کے شکار افراد اپنے حق سے محروم ہیں۔( ہمارے ملک پاکستان کی عوام کی خیر ہو کہ ان میں سے بعض صالح افراد نے اپنی انفرادی کوششوں سے مذکورہ بالا محروم طبقے کی خبر گیری کا انتظام واہتمام کررکھا ہے۔)

مال غنیمت /خمس

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "اور جان لو بے شک تمھارے غنیمت کے مالوں میں سے پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے۔ "([29])

امام کاسانی لکھتے ہیں:نبی مکرم کی حیات ظاہرہ میں ا س مال غنیمت خمس کے پانچ حصے تھے۔

ا۔ ایک نبی مکر م ﷺ کے لیے۔

۲۔دوسرا نبی مکرم کے قرابت داروں کے لیے۔(اولاد سید ہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کے لیے یہ حصہ آج بھی ثابت ہے)

۳۔ یتیموں کے لیے۔

۴۔مسکینوں کے لیے۔

۵۔اور ایک حصہ مسافروں کے لیے۔

اب نبی مکرم ﷺ کا حصہ ساقط ہوگیا،چنانچہ اب خمس کے صرف تین حصے کیے جائیں گے۔

۱۔یتیموں کے لیے۔

۲۔دوسرا فقراء اور وہ فقراء جن کا تعلق بنو ہاشم سے ہویعنی جن پر زکوٰۃ لینا حرام ہے۔

۳۔تیسرا حصہ مسافروں کے لیے۔([30])

اموال غنیمت دو طرح کے ہیں:

(الف) منقولہ اموال (ب) غیر منقولہ جائیداد

(الف)منقولہ

اموال سے پانچواں حصہ الگ کرنے کے بعد باقی چار حصے مجاہدین میں تقسیم کیے جائیں( اس کی تفصیلات کے لیے کتب فقہ سے رجوع کیجیے) اس تقسیم میں ائمہ اربعہ کا کوئی اختلاف نہیں۔

(ب)غیر منقولہ

جائیداد میں خلیفہ، مجاہدین، کی اجازت کے بغیر تصرف کا اختیار نہیں رکھتا۔ امام ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ امام کو اختیار حاصل ہے، بغیر اجازت بھی وہ چاہے تو مجاہدین میں تقسیم کردے اور چاہے تو مفتوحہ زمین بیت المال میں داخل کرے اور ان کی آمدنی ملکی ضروریات پر خرچ کرے۔

ہمارا مؤقف یہ ہے کہ دونوں حکم کا تعلق حالات وواقعات سے ہے ۔ جو وقت کا تقاضا ہو وہ کرنا چاہیے۔ مثلاً قبیلہ بنو قریظہ پر غلبہ حاصل کرنے کے بعد ان کی زمینیں مہاجرین میں، خمس نکال کر تقسیم کردی گئی تھیں۔

ہجرت مدینہ کے پانچویں سال غزوۂ خندق کے بعد نماز ظہر ادا کرنے کے بعد بنو قریظہ سے جنگ کا حکم نازل ہوا تین ہزار افراد کے ساتھ روانہ ہوکر۲۵دن تک بنو قریظہ کا محاصرہ کیے رکھا۔ آخر کار حضرت سعد بن معاذ کو حکم (فیصلہ کرنے والا) تسلیم کرلیا گیا۔ اور ان کے فیصلے کے مطابق مردوں کو قتل کیا جائے۔ عورتیں اور بچے گرفتار کرلیے جائیں اور ان کا مال واسباب غنیمت ہے۔

اس طرح چھے ہجری میں جب خیبر فتح ہوا تب اس کی تقسیم نبی مکرم ﷺ کل مال کے ۳۶حصے کیے۔۱۸مجاہدین میں تقسیم کردیے۔ جبکہ بقیہ ۱۸حصے ریاست مدینہ کی دوسری ضروریات کے لیے محفوظ کرلیے گئے۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ اموال غیر منقولہ مجاہدین میں تقسیم کرنا ضروری نہیں ۔ بلکہ حالات کے تقاضے کے پیش نظر رکھتے ہوئے تقسیم کی جائے۔

موجودہ حکومت کی ذمہ داری

آج کی موجودہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ معاشرے کے کمزور طبقے کے لیے ضروری اقدامات کریں اور اس کی بہترین دیکھ بھال کا اہتمام بھی کریں۔ ریاست اسلامی کے محاصل ومصارف کے وصول اور تقسیم کا ذمہ صاحب بیت المال کا ہوتا ہے۔ جو کہ ریاست کا والی ہوتا ہے۔ اس قسم کے تقررات کے لیے مسلمان ہونا، آزاد ہونا، عادل ہونا، اور اس شعبے کی ضروری معلومات ہونے کے ساتھ ساتھ ’’اہل‘‘ ہونا بھی ضروری ہے۔ اس منصب پر معین کرنے کے لیے دیانت،امانت،عدالت،اصالت اور پیشہ ورانہ مہارت جیسے ضروری اوصاف حمیدہ ہونا از بس ضروری ہیں اور سب سے اہم یہ کہ اس منصب کے لیے غیر سیاسی شخص کو ہی چنا جائے۔ حکومت وقت دور حاضر کے جید علماء پر مشتمل ایک ۲۵ رکنی کونسل کا اعلان کرے اور یہ تمام اُمور اس کونسل کے حوالے کیے جائیں۔ اس طریقہ سے بہت جلد ملک کے’’بیت المال‘‘ کے نظام میں تبدیلی لا کر اس کو نظام مصطفٰیﷺ کے تحت کیا جاسکتا ہے۔

(الف)یتیم خانہ

جو موجودہ یتیم خانے ہیں ان کا انتظام وانصرام انسانی بنیادوں پر کیا جانا چاہیے۔ اور ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر نئے یتیم خانے تعمیر کروانا اور اس کا انتظام اسلامی ریاست کے بیت المال کے تحت ہونا چاہے۔

(ب)لاوارث/معذور خانہ

معاشرہ کے وہ افراد جو کسی جسمانی معذوری کا شکار ہوگئے ہیں اور وہ لاوارث ہوں تو ان کے لیے بھی علیحدہ ایک ادارہ ہونا چاہیے۔ جس کا سارا انتظام بیت المال سے ہو۔ بسوں او رریلوے کے سفر میں ا ن کے لیے ۴/۱کی رعایت خصوصی ہونی چاہیے۔ یہ مراعات خصوصی ان افراد کے لیے ہونی چاہیے۔ان تمام امور کو انجام دینے ہی سے مسلمان معاشرے میں بہتری ہوگی اور معاشرے سے گداگری کی لعنت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ مقام تعجب ہے کہ ہمارے ملک اور بالخصوص ہمارے شہر کراچی میں کئی ایک گداگری کے پیشے سے وابستہ افراد بالواسطہ کسی وزیر( (M.P.A)کی زیر سرپرستی یہ گھناؤنا کام انجام دے رہے ہیں۔ ریاست مدینہ کے سرپرست کی ذمے داری ہے کہ وہ معاشرے کے ان ناسوروں کو جڑ سے اُکھاڑ کر پھینکیں۔

اسلامی ریاست کے مصارف دو طرح کے ہیں۔

(الف) ترقیاتی اخراجات (ب) غیر ترقیاتی اخراجات

ترقیاتی اخراجات

پل کی تعمیرات ،سڑکیں اور لوگوں کی آمد ورفت کے لیے محفوظ ومضبوط راستے تعمیر کروانا۔ طویل مسافت کے راستوں میں لوگوں کےقیام واستراحت کے سستے اور آسان ذرائع کا اہتمام کروانا۔

ریلوے کی ترقی اور نئی لائنیں (new trakes)تعمیر کروانا

نوٹ:یہاں برسبیل تذکرہ ہمارے ملک پاکستان کے حوالے سے یہ بتانا مناسب ہے کہ انگریز جو Trakesبناکر گئے تھے وہی آج تک ہیں۔ سالانہ کروڑوں روپے ریلوے پر خرچ ہورہے ہیں اس کے باوجود پاکستان ریلوے خسارے میں ہی رہتا ہے۔ایک خبر کے مطابق چین نے کچھ سہارا دیا ہے او رریلوے کے کچھ نئے ڈبے پاکستان بھجوائے گئے ہیں۔ اور اس تمام سے جو بھی منافع حاصل کیا جائے گا وہ بھی(حسب روایت) خسارے میں شمار کروادیا جائے گا۔ پاکستان کے عوام کو مختلف مسائل میں الجھا کر رکھا جاتا ہے۔

ریلوے کی وہ تمام کمائی جو ان مذکورہ ذرائع سے حاصل ہو وہ سب بیت المال میں واپس جمع کروانے کے لیے اپنی ذمے داری پوری کریں۔(حکومت پاکستان سے یہ گزارش ہے کہ اس تمام مال کو مسلمانوں کی دیگر ضروریات پر خرچ کیاجائے۔)

علماء و مشائخ اور دینی علم حاصل کرنے والوں کے اخراجات

مسلمان قاضیوں، عاملوں او رعلماء کی تعلیمی تحریری ، تقریری صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے بیت المال سے مال خرچ کیا جائے گا، جیسا کہ گزشتہ صفحات میں ہم ’’ ہدایہ ‘‘ اور ’’ قدوری‘‘ کے حوالے سے یہ بات ذکر کرچکے ہیں بلکہ علمائے دین کے لیے ایسے شاندار وظائف مقرر کیے جائیں جس کے بعد وہ فکر معاش سے آزاد ہوکر محض دین اسلام کی ترویج واشاعت میں مشغول ہوجائیں اور چندہ کلچر پر پابندی عائد کی جائے اس طرح دہشت گردی کی روک تھام میں بے حد آسانی پیدا ہو جائے گی اور یوں سیاسی ومذہبی اختلافات کی اس تلخ فضا کی تلخی میں بھی نمایاں فرق پیدا کیا جاسکتاہے۔

غیر ترقیاتی اخراجات

۱۔شفاخانے

اسپتال اور اسپتال کی مناسب دیکھ بھال دیگر ضروریات کے اخراجات بیت المال سے ادا کیے جائیں۔ علاج کو مکمل مفت کیا جائے۔ پسماندہ علاقوں سے کمزور ، مسکین اور غریب عوام کے لیے اسپتال لانے کے لیے ایمبولنس کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔ ہر قسم کے امراض کا علاج مفت فراہم کیا جائے۔

۲۔تعلیمی ادارے

اسکول، کالج اور جامعات کی تعمیر وترقی کے لیے بھی تمام اخراجات ادا کیے جائیں(اور یہ بھی ضروری ہے کہ یہ جامعات ہر قسم کی لسانی، مذہبی سیاست سے پاک ہوں تب ہی ملک میں امن و سلامتی کے پھول کھلائے جا سکتے ہیں۔)۔ اسکالرز کے وظائف مقرر کیے جائیں۔ مسلمان قاضیوں، عاملوں اور (بالخصوص)علماء کے شاندار وظائف متعین کیے جائیں تاکہ قوم و ملت کی ’’ تعمیر نو ‘‘ کرنے میں ان کی مدد حاصل کی جاسکے۔ ایسے اہل علم حضرات جو اپنے حجروں میں بیٹھ کر دین متین، ملک و ملت کی خدمت میں مصروف عمل ہیں ۔ ان اہل علم حضرات کی علمی خدمت کی قدر دانی کی جائے۔ جس طرح زمانہ ماضی بعید میں سلاطین اسلام کا طریقہ کار رہا۔

 

حوالہ جات

  1. ۔ جرجانی,علامہ میر سید شریف علی بن محمد(متوفی:۸۱۶ھ)’’التعریفات‘‘،مطبوعہ المطبعہ الخریہ ،مصر: ۱۳۰۶ھ، ص ۲۸۴
  2. ۔ الازہری، پیر کرم شاہ، تفسیر ضیاء القرآن، ضیاء القرآن پبلی کیشر ،لاہور،ج1،حاشیہ نمبر۱۲، ص۳۱۹
  3. ۔ صدیقی، پروفیسرساجد الرحمن،اسلامی نظام حکومت، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور،مئی 1990، ص ۱۶۸
  4. ۔ الفرغانی المرغینانی،امام ابوالحسن،ہدایہ:آولین آخرین:ابواب الزکوۃ،والجزیۃ،دارالکتب العلمیہ، بیروت، س ن، ص۳۸
  5. ۔ صدیقی، پروفیسرساجد الرحمن ،اسلامی نظام حکومت، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور،مئی 1990، ص۳۷۲
  6. ۔ ابو الحسن القدوری،احمدبن ابی بکر،مختصر القدوری،باب الجزیہ، قدیمی کتب خانہ،کراچی،س ن،ص۴۲۸
  7. ۔ المزمل:۲۰
  8. ۔ بخاری،محمد بن اسمعیل،صحیح بخاری ،کتاب الزکوۃ، دار الکتب العلمیہ،۲۰۰۹ ،رقم ۱۷۲۲
  9. ۔ الحشر :۴
  10. ۔ المومنون:۷۲
  11. ۔ ابو یوسف،امام یعقوب بن ابراہیم، کتاب الخراج،دار المعرفۃ ،بیروت:س ن،ص۲۲۔۲۳
  12. ۔ التوبہ:۲۹
  13. ۔ مسلم،امام ،صحیح مسلم، کتاب الجہاد والسیّر، باب تامیر الامام الامرء علی البعوث، دارالکتب العلمیہ،بیروت س۔ن ، ص۶۸۸
  14. ۔ صدیقی، پروفیسرساجد الرحمن، اسلامی نظام حکومت،اسلامک پبلی کیشنز، لاہور،مئی 1990، ص ۲۵۶
  15. ۔ الانفال:۴۱
  16. ۔ مسلم،امام،صحیح مسلم ، کتاب الحدود،مدارالکتب العلمیہ، بیروت،س ن
  17. ۔ الانعام :۱۴۱
  18. ۔ آلوسی،علامہ محمود،تفسیر روح المعانی، مکتبہ رشیدیہ،کوئٹہ،س ن،ج۸،ص۲۶۰
  19. ۔ سعیدی،علامہ غلام رسول ، تبیان القرآن،فرید بک سٹال لاہور،۱۹۹۴،ج۳ ،ص۶۷۱
  20. ۔ البخاری،امام محمد بن اسمعیل،صحیح بخاری رقم الحدیث:۲۴۲۹،دار الکتب العلمیہ۲۰۰۹
  21. ۔ مسلم،امام،صحیح مسلم ، کتاب اللقطہ ،دارالکتب العلمیہ، بیروت، س ن
  22. ۔ النحل:14
  23. ۔ العنکبوت:20
  24. ۔ النجم:39
  25. ۔ النجم:۳۹
  26. ۔ ابن ماجہ،امام، سنن ابن ماجہ۔ ابواب التجارت، فرید بک سٹال، لاہور،۱۹۹۴ء
  27. ۔ ایضاً
  28. ۔ المعارج :۲۴۔۲۵
  29. ۔ التوبہ :۴۱
  30. ۔ کاسانی،علامہ علاؤ الدین، بدائع الصنائع،دارالکتب العربی، بیروت،س ن،ج۹،ص۴۹۹
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...