Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 35 Issue 1 of Al-Tafseer

اسلام اور مغرب میں خاندانی نظام کا تقابلی جائزہ |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

35

Issue

1

Year

2020

ARI Id

1682060084478_497

Pages

298-327

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/143

Subjects

Family institution Islamic Social Order West.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

Family constitutes the foundation of a society and on its strength or weakness lays the strength or weakness of its society. If the family institution is weak nothing else can make up for this weakness. This article is aimed at a comparative review of Islamic and Western concepts of family. The concept of family in Islam, its organization and significance is discussed and compared with diverse family frameworks in West. The Family is a part of the Islamic social order. The society that Islam wants to establish is not a sensate, sex-ridden society. It sets up an ideological society, with a high level of moral awareness. Islam gave the highest moral values to the most astounding position in all its caste and life activities. This research article reveals that despite its present greatness, the entire West is heading towards a disastrous end. The breakdown of Western families is continuing at an alarming speed. Rising divorce rates, without marriage and same sex relationships, physical and sexual diseases, show that the West tops the world.

خاندان کا مفہوم

خاندان اردو زبان کا لفظ ہے، جسے عربی میں"الاسرۃ، عائلہ "اور فارسی زبان میں"خانوادہ" کہا جاتا جو عرف

عام میں کُنبہ،قبیلہ،برادری کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔

"الاسرۃ" خاندان کے لیے مستعمل عربی لفظ ہے، جس کا مادہ" ا س ر" ہےاور اگر ان حروف کو ملا کر ایک لفظ کی شکل دی جائے تو" اسر" بنتا ہے ۔جو کئی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ البتہ"اسرۃ "خاندان کو کہا جاتا ہے۔ چنانچہ "موسوعۃ الفقھیہ الکویتہ" میں اسرۃ کی تعریف اس طرح کی گئی ہے

أسرة الإنسان:عشيرته ورهطه الأدنون،مأخوذ من الأسر، وهو القوّة ، سمّوا بذلك لأنه يتقوّى بهم ، والأسرة : عشيرة الرجل وأهل بيته ([1])

”انسانی خاندان،اس کی آل اولاد اور باپ کی طرف سے قریبی رشتے داروں کو کہا جاتا ہے ۔اور اسرۃ "اسر "سے ماخوذ ہے اور اسرقوت کو کہا جاتا ہے۔اس کا یہ نام اس لیے پڑاکہ انسان اپنی آل اولاد کے ذریعے سے قوت محسوس کرتا ہےاور آدمی کے اپنے گھر والوں کی گزر بسر کے انتظام کو"اسرہ"کہتے ہیں۔“

مذکورہ بالا عبارت کا مقصود یہ ہے کہ الاسر اپنے مادے او ر اپنی اصل کے لحاظ سے مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے خاندان،قیدی، کسی چیز کو پوشیدہ رکھنا،مضبوطی اور پختگی،ترتیب و تنظیم وغیرہ ۔مذکورہ تمام معانی میں سے ہمارا مقصود "خاندان "ہے جس کے لیے "الاسرۃ "کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔

خلاصہ تحقیق

1۔ مقالے میں لفظ خاندان کا مفہوم اور اسلام میں اس کی اہمیت وضاحت سے بیان کی گئی ہے ۔

2۔ اسلام میں خاندان کے عناصر ترکیبی جس میں عورت کی حیثیت، نکاح و طلاق، تربیت اولاد،نگہداشت خاندان ، خاندانی ہم آہنگی ، گھر کے اندر پختہ تعلقات پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔

3۔مغرب میں خاندانی نظام کیا ہے اور مغرب کے عائلی نظام کی تباہی کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوئے اس کاتفصیلاً ذکر کرتے ہوئے اسلام اور مغربی خاندانی نظام کا تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔

خاندان کی اہمیت

خاندان معاشرے کا سب سے اہم اور بنیادی عنصر ہےجو مرد اور عورت کے درمیان رشتۂ ازدواج سے وجود میں آتا ہے۔معاشرے کی ترقی اورنشوونما کا انحصار جہاں خاندان پر ہے،وہاں معاشرے کی تنزلی و انتشار کا انحصار بھی اسی خاندان پر ہے،کیونکہ خاندان ہی معاشرے کی اساسی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے اور اسی سے معاشرے وجود میں آتے ہیں۔جس قدر خاندان کی اکائی مضبوط اورمستحکم ہو گی، اسی قدر معاشرہ اور ریاست مضبوط اور مستحکم ہوں گے۔خاندان کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ خاندان کی بقا اور تحفظ کو شریعت کے بنیادی مقاصد میں شمار کیا گیا ہے۔ اسلامی تعلیمات کا ایک مکمل شعبہ جو مناکحات یا اسلام کے عائلی نظام سےموسوم ہے،اسی مقصد کے لیے وجود میں لایا گیا ہے۔ قرآن میں ایک تہائی سے زائد احکام،عائلی نظام کو منضبط کرنے کے لیے آئے ہیں۔ خاندان سب سے بڑا معاشرتی ادارہ ہےجو بیک وقت اہم وظائف کی ادائیگی کرتا ہے۔ اس کو بنیادی گروہ کی حیثیت حا صل ہےکیونکہ خاندان میں افراد مل جل کر رہتے ہیں اور اپنی تمام تر ضروریات کی تسکین پاتے ہیں اور تحفظ و سکون کی زندگی گزارتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو مخاطب کر کے فر مایا:

يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ([2])

”لوگو ! اﷲ سے ڈرو ،جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اِس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں دُنیا میں پھیلائے۔“

تخلیقِ آدم ؑو حوّاؑ کے بعد افزائش نسل انسانی کا ذریعہ بنایا گیا ۔وہ زوجین تھے اور اﷲ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں ایک ایسا جذبہ رکھا جس سے نسل انسانی کے فروغ میں آسانی اور اس کی حفاظت ونگہبانی کا اہتمام ہو۔ پہلے انسان کی تخلیق کے بعد پیدائش انسانی کا جو خاندانی نظام بنایا گیا ہے، وہ کسی طاقت ورعب کے زیر اثر نہیں بلکہ جذباتِ محبت اور سکون قلب کے ساتھ جوڑکر پُر کشش بنایا گیا تاکہ میاں بیوی، بچے کی پیدائش کے بعد اُس کی پرورش فطری محبت کے ساتھ کریں۔ اس طرح قیا مت تک نسل انسانی کی فرا وانی بڑی اِحتیاط کے ساتھ ہو تی چلی جائےاور نسلاً بعد نسل پہلے کی جگہ دوسرا لے اور مقصدِ زندگی کو فروغ ملے۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک خاندان اگرچہ ایک مرد اور عورت کے درمیان نکاح کے عقد اور بندھن اور پھران کے بچوں ہی سے وجود میں آتا ہے۔ لیکن اس میں شوہر کے والدین اور خونی رشتے کے غیر شادی شدہ عزیز بھی شامل ہو کر ایک وسیع خاندان تشکیل دیتے ہیں۔پھر اسلامی شریعت کے خصائص میں سے ہےکہ اسلام نسب و نسل کی حفاظت کو شریعت اسلامیہ کے عمومی مقاصد میں سے شمار کرتا ہے۔یعنی اسلام نے نسل انسانی کی بقا کے لیے شادی کا حکم دیا ہے اور اس کی حفاظت کے لیے اور نسب کے اختلاط سے محفوظ رکھنے کے لیے زنا کو حرام قرار دیا-([3] )

قرآن کریم میں نکاح کا حکم اس طرح سے ہے۔

وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ([4])

”اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کر دیا کرو اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے بھی جو نیک ہوں (نکاح کر دیا کرو) اگر وہ مفلس ہوں گے تو خدا ان کو اپنے فضل سے خوشحال کر دے گا ۔اور خدا (بہت) وسعت والا اور (سب کچھ) جاننے والا ہے ۔“

گویا اللہ تعالیٰ خاندان اور نسب کی حفاظت کا اتنا اہتمام کروانا چاہتے ہیں۔ آزاد تو آزاد غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کو اتنی اہمیت دی کہ ان کے آقاؤں اور مالکوں کو اپنے کلام کے ذریعے حکم فرمایا !کہ نسب ، خاندان میں ان کے ذریعے بھی بگاڑ آ سکتا ہے ۔لہٰذا ان کا بھی بندوبست کیا جائے اور نسب و نسل کی حفاظت کے لیے چار تک نکاح کرنے کی اجازت دے دی۔

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّاتَعُولُوا ([5])

”اور اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان کے سوا جو عورتیں تم کو پسند ہوں ،دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کر لو۔ اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ (سب عورتوں سے) یکساں سلوک نہ کر سکو گے تو ایک عورت یا لونڈی(کافی ہے) جس کے تم مالک ہو، اس سے تم بے انصافی سے بچ جاؤ گے۔“

آپﷺ نے ایک مقام پر فرمایا:

تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا، وَلِحَسَبِهَا، وَلِجَمَالِهَا، وَلِدِينِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ ([6])

”یعنی ہمسر کے انتخاب میں خاندانی اصالت کا خیال رکھنا ۔کیونکہ اقربا اور رشتے دار تمھاری اولاد کی صفات میں تیرےشریک ہیں ۔“

پھر خاندان ،کُنبے اور معاشرے کو حسب و نسب کی حفاظت اور جنسی بے راہروی سے روکنے کے لیےزنا کو حرام قرار دے دیا۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا ([7])

”اور تم زنا کے قریب بھی نہ جاؤ،بلاشبہ یہ بے حیائی اور برائی کا راستہ ہے ۔“

اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے خاندان اور نسب کی حفاظت کے لیے نکاح کو رواج دیا تا کہ زنا کا سدباب ہو سکے۔نکاح کرنے کے لیے محرم عورتوں کے علاوہ کسی بھی خاتون کا انتخاب کیا جا سکتا ہے ۔وہ محرم خواتین اس آیت میں بیان کی گئی ہیں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا([8])

”تم پر تمھاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور وہ مائیں جنھوں نے تم کو دودھ پلایا اور رضاعی بہنیں اور ساسیں حرام کر دی گئی ہیں ۔اور جن عورتوں سے تم مباشرت کرچکے ہو، ان کی لڑکیاں جنہیں تم پرورش کرتے ہو (وہ بھی حرام ہیں) ہاں اگر ان کے ساتھ تم نے مباشرت نہ کی ہو تو (تو ان کی لڑکیوں کے ساتھ نکاح کر لینے میں) تم پر کچھ گناہ نہیں، تمھارے صلبی بیٹوں کی عورتیں بھی اور دو بہنوں کا اکٹھا کرنا بھی (حرام ہے) مگر جو ہو چکا (سو ہو چکا) بے شک خدا بخشنے والا (اور) رحم والا ہے۔“

اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عورتیں خاندان کی ساخت میں ایک گھٹیا اکائی یا کم درجے کے وجود ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی نظر میں مردوں اور عورتوں کے حقوق برابر ہیں۔ مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ بڑائی سے پیدا کرنے کا مقصد اس پر اضافی ذمے داریاں ڈالنا ہے نہ کہ انھیں اضافی حقوق سے نوازنا ہے۔خاندان کو ایک چھوٹے درجے کی جمہوریت سمجھنا چاہیےتا کہ یہ جمہوریت جو ملک کے سیاسی نظام میں بڑے درجے پر اپنا درُست عکس دکھا سکے مردوں کے قوّام ہونے کا مرتبہ انھیں ایک جابر،ظالم ڈکٹیٹر کے مترادف بن جانے کے لیے نہیں دیا گیا کہ وہ اپنے خاندان کی عورتوں سے بلا کسی چون و چرا کے فرماں برداری کا مطالبہ کریں۔ خاندان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے اور انھیں تنزلی سے نکالنے میں خاوند اور بیوی کا بہت بڑا کردار شامل ہے۔ خاندانی نظام اس وقت ہی صحیح راہ پر چلے گا جب خاندان کے بنیادی اور اساسی افراد اور ارکان میں سے ہر ایک اپنے حقوق و فرائض کا خیال کرے گا ۔اور یہ بات بھی یاد رہے کہ خاندان کےایک رُکن کےحقوق جہاں پر ختم ہوتے ہیں وہاں سے دوسرے کے حقوق کا آغاز ہوتا ہے۔اس حوالے سے اس آیت کا ذکر کیا جاتا ہے، جس سے خاندان کی اساس مضبوط مستحکم قرار پاتی ہے ۔

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ ([9])

” مرد عورت پر حاکم ہیں ،اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے۔“

ابن جریر طبری([10]) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

الرجال اهل قیام علی نساءهم،فی تادیبهن والاخذ علی ایدهن فیما یجب علیهن الله والانفسهم-بما فضل الله بعضهم علی بعض یعنی بما فضل الله به الرجال علی ازواجهم من سوقهم الیهن محورهم و انفاقهم علیهن اموالهم و کفایتهم ایاهن مو نهن و ذلک تفضیل الله تبارک و تعالی ایاهم علیهن ولذلک صاروا قواما علیهن نافذی الامر علیهن فیما جعل الله الیهم من امورهن ([11])

”مردوں کا عورتوں پر حاکم ہونے کا مطلب ہے کہ مرد اپنی بیویوں کو ادب و تادیب سکھلانے اور اللہ تعالیٰ کے فرائض کی ادائیگی کرانے اور اپنی اطاعت فرمانبرداری کرانے میں ان پر حق رکھتے ہیں۔ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دے رکھی ہے ۔یعنی مردوں کو اللہ تعالیٰ نے ان کی بیویوں پر اس لیے فضیلت سے نوازاہے کہ تمام ذمے داریاں خواہ وہ نفقہ اور سکنہ کی ہوں، خواہ وہ ان کے مہر ادا کرنے اور ان کی حفاظت کی ہوں ،وہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کے حصّے میں ڈالی ہیں۔“

مذکورہ بالا آیت کی تفسیر کو اگر بنظر عمیق دیکھا جائے تو ان سے جو چیز حا صل ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ خاندانی نظام اگر ترقی و کامرانی اور فوزو فلاح سے آراستہ ہو سکتا ہے اور تنزلی و پستی سے چھٹکارا پا سکتا ہےتو اس کے لیے ضروری ہے کہ خاندانی نظام کی امارت اور قیادت و سیادت مردوں کے ہاتھ میں دینا ہو گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں قوی قرار دیا ہے ۔ خاندان،کُنبے ،قبیلے ،معاشرے اور دفاع دین اور فروغ دین کے لیے انھیں جہاد و قتال کا درس دیا ہے اور عورتوں کا "جہاد"حج کو قرار دیا ۔ مردوں کو ان کی عقل و فراست اور تدبر و فکر کے لحاظ سے بھی فضلیت کا درجہ حاصل ہےکیونکہ یہ معاملہ فہمی سے کام لیتے ہوئے خاندانی روایات اور خاندانی نظام کی بقاو استحکام کے لیے تمام قسم کے خاندانی انقطاع کو صرفِ نظر کرتے ہوئےخاندان کو یکجا کرتے ہیں۔اس طرح خاندان ایک طاقت بن کر نمایاں ہوتا ہے جس سے اسلامی خاندان کی مثبت روایات کو بھی فروغ ملتا ہے۔گویا خاندانی نظام کی تعمیر و ترقی میں مردوں کا کردار سربراہ اور ذمے دار کا ہے۔

خاندان کے عناصر ترکیبی

خاندان کے اجزائے ترکیبی میں مرد و عورت اولاد ،والدین اور دیگر رشتہ دار ہیں۔اس سے متعلق امور میں عورت کی حیثیت،نکاح و طلاق،تربیت اولاد،حقوق والدین ،صلہ رحمی اور خاندان کی ہم آہنگی زیر بحث آتے ہیں۔

خاندان میں عورت کی حیثیت

عورت خاندانی نظام کی وہ اکائی ہے جس کے بغیر خاندان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ عرصہ ہائے دراز سے یہ عورت ظلم و ستم کا نشانہ بنی ہوئی تھی۔ قدرت نے اگرچہ اسے مرد کی طرح ذی روح اور ذی شعور بنایا تھا۔لیکن اس کے ساتھ مٹی کی بے جان مورتیوں کا جیسا برتاؤ کیا جاتا تھا۔ جوئے میں اسے ہارااور جیتا جاسکتا تھا، شوہر کی لاش کے ساتھ جل کر ستی ہونا پڑتا تھاکہیں اسے تمام برائیوں کی جڑکہیں غلاظت کی بوری اور کہیں انسان کی ساری بدبختیوں کا سرچشمہ یقین کیا جاتااور کہیں چوٹی کے نامور فلسفی اس کے انسان ہونے کا بھی انکار کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔اس کے ازدواجی حقوق کا تصور بھی نہ تھا اور اسے ازدواجی بندھنوں میں مقید کرنے سے پہلے کوئی رائے لینے کا تصور تک نہ تھا۔اسلام سے پہلےعورت کےاس سے بھی بدتر حالات تھے جن میں عورت بے چارگی کی زندگی گزار رہی تھی۔جہاں خاندان کی اہم اکائی کی بے بسی کا یہ حال ہو، وہاں خوشی کا لفظ بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔ خاندان کی رنگینیاں مانند پڑ جاتی ہیں۔یہ اسلام ہی تھا، جس نے پہلی مرتبہ اعلان کیا۔

أَلَا إِنَّ لَكُمْ عَلَى نِسَائِكُمْ حَقًّا وَلِنِسَائِكُمْ عَلَيْكُمْ حَقًّا ([12])

”آگاہ رہو کہ عورتوں پر تمہارے حقوق ویسے ہی ہیں جیسے تم مردوں پر عورتوں کے حقوق ہیں۔“

جس طرح مرد کے حقوق عورت پر ہیں،اسی طرح عورت کے حقوق بھی مرد پر ہیں۔ اس کی رائے ہے اور قانون اس کی رائے کا احترام کرتا ہے ۔اس کو اپنے والدین ،اپنے شوہر اوراپنی اولاد کا وارث تسلیم کیا گیا۔دور ِحاضر میں تحریک آزادیٔ نسواں کے نتیجے میں عورتوں کے حقوق کی مہم چلی ہے اور مختلف معاشروں میں عورتیں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں اور مزید حقوق کی جدو جہد ہو رہی ہے۔آزادی کی جو صورتیں پیدا ہوئی ہیں،ان میں سے عورت کو انفرادی طور پر یقیناً کچھ فائدہ پہنچا ہےلیکن خاندان کے ادارے پر اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔

نکاح و طلاق

خاندان کا نمایا ں جزو دراصل مرد اور عورت کا تعلق ہے۔ اسی تعلق سے خاندان کی عددی قوت بڑھتی ہے اور اسی کے سبب سے استحکام نصیب ہوتا ہے۔ یہ تعلق فرد کی انفرادی حاجت کی تسکین بھی ہے اور اجتماعی فلاح کا ذریعہ بھی۔ جہاں تک طلاق کا تعلق ہے تو یہ تقریباً سبھی معاشروں میں پائی جاتی رہی ہے۔بعض معاشروں میں طلاق کی اجازت نہیں اور ازدواجی تعلقات کو نا قابل انقطاع تصور کیا جاتا ہے،مسیحی اور ہندو معاشرے اس کی مثال کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔مغرب کے سیکولر معاشرے نے مسیحیت کے اس تصور کو رد کر دیا ہےاور عورت کو طلاق کی اجازت دی اوراب مغربی معاشرے میں طلاقوں کی بھر مار ہے۔طلاق در اصل انقطاع تعلق ہےجس کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔نا پسندی طبع، ارتکاب جُرم اور کسی مہلک مرض میں مبتلا ہونا و غیرہ۔تمام مذاہب نے اسے تسلیم کیا ہے اور اس کی وجہ سے معاشرہ انتشار سے بچتا رہا ہے۔

طلاق ایک نا پسندیدہ امر ہے، جسے فقط مجبوری کی صورت میں اختیار کیا جاسکتا ہےلیکن دور حاضر میں اسے کھلونا بنایا جا رہا ہے۔مغرب کی بے راہ رو معاشرت نے اسے وسعت سے اپنایا ہے اور اب اس کے مفکرین بڑھتی ہوئی طلاقوں سے سخت پریشان ہیں۔ایک تو عورت غیر محفوظ ہو گئی ہے،دوسرا خاندانی نظم کی بنیاد ہل گئی ہے۔نکاح و طلاق کے قوانین ابتدائی معاشروں سے لے کر اب تک بدلتے رہےمگر اس کے باوجود انسانی معاشرت کا لازمی جُز رہے ہیں۔جس طرح تعلق پیدا کرنا انسانی فطرت ہےاسی طرح کبھی کبھی تعلقات توڑنے پر مجبور ہونا بھی اس کی ضرورت ہے۔لہٰذا یہ اتصال و انقطاع انسانی زندگی کا اہم حصّہ ہیں۔

تربیت اولاد

خاندان میں مرد و عورت کے تعلق کے بعد سب سے اہم بچوں کی تربیت اور بزرگوں کی نگہداشت ہےاس لیے ان کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ہر خاندان اولاد کی افزائش کے سبب معزز سمجھا جاتا تھا۔گو بعض معاشروں میں بچیوں کو ناپسند کیا جاتا تھااورعرب کے چند جاہل قبائل لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔لیکن اسلام نے بچوں اور بچیوں کی تربیت کو عبادت اور احسان سے تعبیر کیا ۔بچیوں کی تربیت کرنے کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں :

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ ابْتُلِيَ بِشَيْءٍ مِنْ الْبَنَاتِ فَصَبَرَ عَلَيْهِنَّ, كُنَّ لَهُ حِجَابًا مِنْ النَّارِ ([13])

”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا !جو شخص بیٹیوں کی پرورش سے آزمایا گیا اور اس نے اس پر صبر کیا تو وہ بچیاں اس کے اور آگ کے د رمیان ڈھال بن جائیں گی۔“

اسلام میں بیٹیوں کی پرورش کرنے والے کو اجر و ثواب کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ تربیت اولاد کی نوعیت بھی معاشرتی ارتقا کے ساتھ بدلتی رہی۔اولاد کی تربیت میں زرعی تعلیم ،پیشہ ورانہ ہُنر مندی ،فوجی تربیت اور مذہبی تعلیم شامل رہی ہے۔معاشرتی اطوار کی وسعت کے ساتھ تربیت اولاد کے گوشے بھی بدلتے گئے ۔تاہم ہر معاشرہ اپنے مخصوص اخلاقی اُصولوں کو تربیت کیلئے ضروری قرار دیتا تھا۔دورِ حاضر کی صنعتی معاشرت کی بدولت زندگی زیادہ پیچیدہ اور وسیع ہو گئی ہے، اس لیے تربیتِ اولاد بھی مشکل مسئلہ بن گیا ہےبلکہ اب تو اولاد کو بوجھ سمجھا جا رہا ہےکیوں کہ اب بچے معاشی معاون نہیں رہے۔عصر حاضر میں اولاد کی افزائش نا پسند کی جاتی ہے اور مصنوعی تدابیر سے کثرت اولاد کو قلت میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔

نگہداشت خاندان

بزرگوں کی نگہداشت اور ان کا مرتبہ بھی خاندان کا لازمی عنصر ہے۔بوڑھے والدین خاندان کی تنظیمی بنیاد ہیں۔چونکہ والدین اپنی زندگی کابہترین حصّہ اولاد کی خدمت میں صرف کرتے ہیں اس لیے وہ بجا طور پر اس کے مستحق سمجھے جاتےکہ نوجوان اولاد ان کے بڑھاپے کا سہارا بنے۔ابتدائی معاشروں میں والدین خاندان کا لازمی جزو تھے اور اولاد کیلئے ضروری تھاکہ والدین کی خدمت کریں۔دور حاضر میں خاندانی نظم کمزور ہونے، ہر فرد کے آزاد ہونے اور معاشی اعتبار سے خود مختار بن جانے کی وجہ سے ان کی نگہداشت کا اندازہ کچھ بدل گیا ہے۔اس دور کی ہلاکت خیزی ہےکہ بوڑھے باپ کانپتے ہاتھوں اور لڑکھڑاتی ٹانگوں سے ضروریات زندگی فراہم کر رہے ہیں اور بیٹے جوانی کی صحت مندی پہ نازاں علیحدہ بیٹھے ہیں۔مغر بی معاشرے کا یہ خطرناک رجحان اب بوڑھوں کے لیے مستقل مراکز قائم کر رہا ہےجس سے ان کی فلاح و بہبود کا خیال رکھا جائے گا ۔اسلام نے تربیت اولاد اور نگہداشت بزرگان کا جامع عملی منصوبہ دیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ([14])

”اور تمھارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سواکسی کی عبادت نہ کرواور ماں باپ کے ساتھ بھلائی (کرتے رہو)۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمھارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اُف تک نہ کہنا اور نہ ہی انھیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا۔“

خاندانی ہم آہنگی

ایک اچھے خاندان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے تمام فرائض ادا کرے اور اس کے عناصر ترکیبی مکمل ہوں۔ خاندانی ہم آہنگی کے معنی ہی یہ ہیں کہ مرد و عورت کے تعلق مستحکم ہوں۔سر براہ خاندان اس طرح کا ہوکہ اس کا ہر فرد،خواہ وہ زرعی معاشرے کا ہو یا صنعتی کا، اس کے فیصلوں کا پابند ہو۔ معاشرتی استحکام کی بنیاد خاندانی ہم آہنگی ہے۔ جس معاشرے کے خاندانی نظام میں بگاڑ پیدا ہو جائے، بچے خاندان کا لازمی جزو نہ ہوں اور بزرگوں کا احترام نہ ہو،وہ معاشرہ جنسی بے راہ روی اور مجرمانہ تغافل کا شکار، شفقت و رحم سے عاری اور انسانی ہمدردی سے خالی ہو جاتا ہے۔علمائے معاشرہ کے مطابق خاندانی ہم آہنگی فرد کے جذباتی تحفظ کا باعث بنتی ہے۔ دور حاضر کے معاشرتی انتشار کا سبب یہی "خاندانی بد نظمی" ہے۔

خاندانی ہم آہنگی میں یہ عام طور پریہی سمجھا جاتا ہے کہ اعتماد اور بھروسے کا رشتہ صرف میاں بیوی کے درمیان ہونا چاہیے ۔ دراصل اس رشتے کا والدین اور بچوں کے درمیان ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ایک دوسرے کے احساسات و جذبات سے آگاہی، ناکامیوں اور تکلیفوں کو مل کر بانٹنےاور خوشیوں میں ایک دوسرے کو شریک کرنے ہی سے خاندان کو ایک وحدت کی حیثیت ملتی ہے جس میں بنیادی کردار ایک عورت کا ہوتا ہے۔ عورت ہی خاندان میں ایک پل کی حیثیت سے تمام رشتوں کو آپس میں جوڑے رکھتی ہے۔

سماجی ہم آہنگی کے لیے خاندان ضروری ہیں، بچوں کی انفرادیت اور انفرادی خوشحالی کی بنیاد خاندان ہے ، جہاں بچوں اور بالغوں کو معاشرے میں اپنے کردار کے بارے میں سیکھنے کے مواقع میسر آتے ہیں۔خصوصاً معاشرے کے محروم اور ضرورت مند طبقات کی دیکھ بھال کرنا کرنے کا عمل ، بزرگوں کا احترام اور بچوں سے شفقت جیسےامور خاندان ہی میں سیکھنے کو ملتے ہیں۔ والدین کے تعلقات کی کیفیت بچوں کے لیے ایک اہم سماجی عنصر ہے۔سماجی ہم آہنگی معاشرے کی مشترکہ اقدار کی وضاحت کرتی ہے ۔ سماجی ہم آہنگی مقامی اور قومی حکومتوں کے لیے بھی ضروری ہے کیوں کہ اس کی موجودگی یا فقدان ملک یا معاشرے کی ترقی پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ ملک یا معاشرے کی فلاح کے لیے باہمی تعلقات کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے۔سماجی ہم آہنگی عوام میں موجود اعتماد کی سطح کا تعین کرتی ہے ۔ معاشرے کے افراد میں احساس بیدار ہوتا ہے کہ ملک اور معاشرے کو درپیش مسائل اُن کے مسائل ہیں جن کے حل کے لیے اُنھیں کردار ادا کرنا چاہیے کیوں کہ وہ بھی اس کا حصّہ ہیں۔([15])

گھر کے اندر پختہ تعلقات

اسلام میں تمام خاندانی تعلقات کی بنیاد خدا پرستی اور تقوی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ([16])

”اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور اس لیے کُنبے قبیلے بنا دیے تا کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو۔ اللہ کے نزدیک تم سب میں با عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے ۔یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے۔“

معاشرہ خاندان کی اہمیت پر جتنا زیادہ زور دے گا،لوگ اتنا ہی زیادہ اپنے خاندانوں کو بنانے اور بر قرار رکھنے کی کو شش کریں گے۔ اگر معاشرہ بذات خود فاسد ہے، جس میں جنسی بے راہ روی بڑی حد تک پھیلی ہوئی ہے تو یہ کہنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ کوئی شخص بھی اپنے کندھوں پر ایسی کسی ذمے دار ی کا بوجھ ڈالنا قبول کرے گاجس کا تقاضا خاندانی زندگی کرتی ہے۔

مغرب میں خاندانی نظام

مغربی معاشرےمیں شادی کورسمی معاہدے کے بجائے قانونی معاہدہ تصور کیا جاتا ہے ۔ جس میں دونوں والدین بچوں کی پرورش اوران پر ملکیت کا حق رکھتے ہیں۔ بطور والدین بچوں کی حفاظت کے لیے دونوں کے اپنے اپنے کردار ہیں اور معاشرے میں بچوں کی ترقی اور بقا کی نگرانی کرتے ہیں۔ چند صورتوں میں والدین اپنی اپنی آمدن سے کچھ حصّہ خاندان کے لیے مختص کر دیتے ہیں۔ جب کہ عام حالات میں کوئی ایک خاندان کے لیے کماتا ہے اور دوسرے کو دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے۔ ([17])

دور حاضر میں عمرانیات(Sociology)اور بشریات (Anthropology) کے نام سے جو علوم متعارف ہوئے ہیں،اِن کے مطالعے سے پتہ چلتا ہےکہ خاندان کی تعریف سے لے کر اس کے فرائض تک میں ایک تبدیلی آئی۔([18])

جارج پیٹر مُرڈاک (George Peter Murdock) ([19]) نے اپنی کتاب “Social Structure” (معاشرتی ڈھانچہ )میں خاندان کے ادارے کا مطالعہ کرتے ہوئے دو سو پچاس معاشروں کے نمونوں کو سامنے رکھ کر یہ نتیجہ اخذ کیاکہ خاندان کا ادارہ کسی نہ کسی صورت میں انسانی معاشروں میں موجود رہا ہے۔ وہ کہتا ہے:

“The Family is social group characterized by common residence. Economic cooperation and reproduction .It includes adults of both sexes. At least two of whom maintain a socially approved sexual relationship and one or more own or adopted children, of sexually cohabiting adults” ([20])

” خاندان معاشرتی گروہ ہےجس میں مشترکہ سکونت، معاشی تعاون اور تولید کی خصوصیات ہوں۔اس میں دو مختلف جنس ہوں جن میں معاشرے کے منظور کردہ طریقے کے مطابق باہم جنسی تعلقات قائم ہوں اور ایک یا ایک سے زائد بچے جو اُن کے اپنے یا گو د لیے گئے ہوں اور وہ اکٹھے رہتے ہوں۔“

کارل مارکس نے خاندان کے ادارے کو استیصال کا ذریعہ قرار دیا ہے۔وہ معاشرتی تنظیم کے لیے سامراجی معاشرہ (Feudal Society) غلام سماج (Slave Society)اورسرمایہ دار معاشرہ (Capitalist Society) کی اصطلاحیں استعمال کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بچے کو یہ سکھایا جاتا ہےکہ کس طرح" اطاعت "کرنی ہے،یہ نہیں سکھایا جاتا کہ کس طرح "جینا"کرنا ہے۔اصل رویہ تو آزادی کا رویہ ہے۔([21])

مغرب میں چونکہ خاندان کا تصور وقت کے ساتھ بدل چکا ہے۔ اس لیے وہاں خاندانی نظام مختلف صورتوں میں موجود ہے جسے معاشرتی اور قانونی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ مغرب میں خاندانی نظام درج صورتوں میں موجود ہے۔

بنیادی /مرکزی خاندان (Nuclear Family)

ایسا خاندان جو صرف ماں باپ اور بچوں پر مشتمل ہو نیوکلیئر فیملی ( بنیادی یا مرکزی خاندان) کہلاتا ہے ۔نیو کلیئر فیملی کو “Conjugal Family”( ازدواجی خاندان یا متفق خاندان) بھی کہا جاتا ہے۔ اس خاندانی نظام میں مرد اور عورت کا شادی شدہ ہونا ضروری نہیں، ان کے درمیان صرف ازدواجی تعلق کا ہونا ضروری ہے جن کے بچے اپنے ہوں یا لے پالک ہوں نیوکلیئر فیملی کہلاتی ہے۔ ([22])

امریکہ میں ازدواجی خاندان (Conjugal Family) فیملی کا تصور عام ہے۔ جس میں عام طور پر میاں بیوی اور نابالغ بچے شامل ہیں۔([23]) عام طور پر بنیادی خاندان اور ازدواجی خاندان ایک ہی معنی میں استعمال کیے جاتے ہیں مگر چند ماہرین سماجیات مرکزی(Nuclear)اور ازدواجی خاندان(Conjugal) میں تفریق ظاہر کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک نیوکلیئر فیملی میں خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ قریبی تعلقات موجود ہوتے ہیں ۔ جب کہ ازدواجی خاندان (Conjugal Family)میں خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ تعلقات نسبتا ً کم ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ خاندان کے تصور میں تبدیلیوں سے ازواجی یا متفق (Conjugal)خاندان کا تصور وجود میں آیا جس میں دونوں والدین کا تعلق مختلف جنس سے ہو ۔ نیوکلیئر فیملی کا تاریخی پس منظر پانچویں صدی عیسوی سے ظاہر ہوتا ہے۔

The pattern of nuclear households dates from at least Anglo-Saxon times, although many couples had parents and relatives living close at hand. Research on the Halesowen court rolls for the period between 1270 and the Black Deaths shows that most people lived in nuclear households, although there were also households with extended families. The number of extended families fell after 1349. ([24])

” نیوکلیئر فیملی کا طریقہ کار اینگلو سیکسن دور(پانچویں صدی جب جرمنی کے لوگ انگلستان میں آباد ہوئے ) سے چلا آرہا ہے۔ اگرچہ اکثر والدین اور رشتے داروں کے بہت قریبی تعلق بھی ہوتے۔ ہیلزاون کی عدلیہ جس کی مدت 1270ء تک رہی اور وبائی امراض سے ہونے والی اموات پر تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زیادہ تر خاندان انفرادی خاندان تھے اگرچہ وسیع خاندان (کنبہ ) بھی موجود تھے۔ وسیع خاندان (کنبہ )کی تعداد میں 1349ءکے بعد کمی رونما ہوئی۔“

نیوکلیئر فیملی کی اقدار کوسوتیلے خاندان (Step Family)، اکیلے والدین (Single Parents)اور گھریلو شراکت داری (Domestic Partnership)جیسی خاندانی ساختوں نے چیلنج کر رکھا ہے۔ ([25]) سوتیلا خاندان(Step Family) جسے مرکب خاندان(Blended Family)اور اضافی خاندان (Bonus Family)بھی کہا جاتا ہے۔ جہاں والدین میں سے کسی ایک کا بچوں سے نسبی یا جینیاتی تعلق نہ ہو۔سوتیلے خاندان میں بچے اپنے نسبی ماں یا باپ کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔

مفرد مورث خاندان (Single Parent Family)

مفرد مورث خاندان سے مراد ایسا خاندان جس میں دوسرا شریک حیات (میاں ، بیوی) نہ ہو۔ عموما ًیہ خاندان شریک حیات کی موت، طلاق، مصنوعی یا غیر ارادی حمل سے معرض وجود میں آتا ہے۔ جس میں فرد واحد (ماں، باپ) بچوں کی کفالت کر تا ہے ۔ تاریخی طور پر مفرد مورث خاندان (Single Parent Family)کی بڑی وجہ شریک حیات کی موت تھی۔دوسری وجہ بڑھتی ہوئی شرح طلاق ہے ۔ طلاق کے بعد اکثر والدین نے دوسری شادی کے بجائے بچوں کی پرورش کو زیادہ اہمیت دی ۔ اور تیسری بڑی وجہ مصنوعی حمل ہے ، حالیہ برسوں میں مصنوعی طور پر حاملہ ہونے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جس سے مفرد مورث خاندان (Single Parent Family)کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

خاندان کی مردم شماری میں انفرادی خاندان میں رہنے والے بچوں کی تعداد میں دُنیا بھر میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مفرد مورث خاندان امریکہ میں معمول بن چکا ہے اور بہت سے دوسرے مغربی ممالک میں اس کا رجحان ہے ۔ امریکہ میں انفرادی خاندان کی اخلاقی مناسبت کافی عرصے سے زیر بحث ہے۔([26]) شادی شدہ والدین کے مقابلے میں واحد مائیں (Single Mothers)پانچ گنا زیادہ غریب ہیں۔ مغربی یورپی ممالک میں یہ موضوع کم زیر بحث ہے کیوں کہ وہاں ریاستی کفالت کا منظم بندوبست ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں امریکہ سر فہرست ملک ہے جہاں مفرد مورث خاندان (Single Parent Family) کی سب سے زیادہ تعداد ہے ۔ 1998ءمیں امریکہ کے 34فیصد خاندان ، کینیڈا22 فیصد ، آسٹریلیا20فیصد اور ڈنمارک میں 19فیصد انفرادی خاندانی نظام تھا۔([27]) امریکی ادارہ مردم شماری کی رپورٹ 2017ءکے مطابق بارہ ملین(ایک کروڑ بیس لاکھ) مفرد مورث خاندانوں میں سے چار ملین (چالیس لاکھ ) ایسے مفرد مورث خاندان ہیں ۔جہاں 80فیصد 18سال سے کم عمر بچے ہیں، جنھیں صرف اُن کی مائیں پال رہی ہیں۔ ([28])

گھریلو شراکت داری (Domestic Partnership)

گھریلو شراکت داری خاندانی نظام دو افرا د کے درمیان باہمی تعلقات کی بنا پر قائم ہوتا ہے۔ جس میں دونوں مشترکہ گھریلو زندگی گزارتے ہیں لیکن شادی شدہ ( نہ آپس میں نہ ہی کسی دوسرے کے ساتھ) نہیں ہوتے ۔گھریلو شراکت داری کی اصطلاح چند قانونی پیچیدگیوں کے باعث عام طور پر مستعمل نہیں ۔ چند ریاستوں مثلاً آسٹریلیا، نیوزی لینڈ ، امریکہ میں کیلیفورنیا، میئن، نیواڈا، اوریگان ، واشنگٹن اور وسکونسن میں گھریلو شراکت داری (Domestic Partnership)کے بجائے معاشرتی شراکت داری (Civil Partnership) معاشرتی اتحاد (Civil Union)اور رجسٹرڈ شراکت داری (Registered Partnership)کی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ جن میں شراکت داروں کے محدود حقوق و فرائض شامل ہوتے ہیں ۔ چندریاستوں میں گھریلو شراکت داری کاآئینی ضابطہ مقرر ہے ۔اور کچھ ریاستوں میں مخالف جنس اور ہم جنس شادیوں کو تسلیم کرنے کے لیے گھریلو شراکت داری کا تعین کر کے قانون سازی بھی ہے۔

چند ریاستوں میں گھریلو شراکت دار عرصۂ درازتک ساتھ رہتے ہیں ،مگروہ شادی کے عمومی قوانین کے تحت قانونی تحفظ کا استحقاق نہیں رکھتے ۔ چونکہ گھریلو شراکت داری قانونی طور پر تسلیم شدہ تعلق ہے ۔جس کے تحت محدود حقوق بھی حاصل ہوتے ہیں اس لیے چند شراکت دار جنسی تعلق قائم کیے بغیر بھی گھریلو شراکت داری زبان یا تحریری کر لیتے ہیں ۔اور شادی کی طرح اس تعلق سے بھی جائیداد کا حق جیسے چند دوسرے حقوق حاصل کرتے ہیں۔([29])

گھریلو شراکت داری نظام سے مشابہہ ایک اور اصطلاح مغرب میں استعمال ہوتی ہے جسے ہم خانگی (Cohabitation) کہتے ہیں ۔ ہم خانگی میں دو افراد کے درمیان محبت، جنسی تعلقات ہوتے ہیں اور یہ تعلقات مختصر یا لمبے عرصے کے لیے ہو سکتے ہیں۔ مغرب میں ہم خانگی کی اصطلاح کا آغاز سولھویں صدی کے وسط سے ہوا۔ گزشتہ چند دہائیوں سے مغربی ممالک میں ہم خانگی تیزی سے عام ہو رہی ہے۔ امریکہ میں یہ رجحان نوجوانوں میں تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کے اختلاط کو ہم خانگی کی بڑی وجہ قرار دیا گیا ہے۔

شادی شدہ دو تہائی جوڑوں کا یہ کہنا ہے کہ وہ شادی سے قبل بھی اکھٹے رہتے تھے۔ 1994ءمیں امریکہ میں تین اعشاریہ سات(3.7)ملین جوڑے ہم خانگی کی زندگی گزار رہے تھے۔ ([30]) ڈاکٹرگلینا روڈز ([31]) کہتی ہیں۔1970ءسے قبل شادی کے بغیر اکٹھے رہنا اتناعام نہ تھا لیکن 1990ءکے آخر میں 50سے 60 فیصد جوڑے شادی سے قبل اکٹھے رہتے تھے۔([32])

مغربی معاشرے میں ہم خانگی مختلف وجوہات کی بنا پر شروع ہوئی ۔ سروے رپورٹس میں ہم خانگی کی بذیل وجوہات بیان کی گئی ہیں۔

لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر اکٹھے رہتے ہیں ، ان وجوہات میں پیسے کی بچت اورمکان جیسی وجوہات، خصوصاً کم آمدن والے افراد جنھیں معاشی مسائل کا سامنا ہوتا ہے، اور وہ بھی جو شادی سے اس لیے گریز کرتے ہیں کہ شادی کے اخراجات اور دیگرذمے داریاں برداشت نہیں کرسکتے یا اس بات کا بھی خوف ہوتا ہے کہ طلاق کی صورت میں انھیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑےگا۔ ([33])

مخلوط یا مرکب خاندان (Blended Family)

مخلوط یا مرکب خاندان مخلوط والدین اور بچوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یعنی والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں دوسری شادی کر لیں اور دونوں کے بچے بھی ہوں جنھیں وہ اکٹھے پالتے ہیں ۔مخلوط یا مرکب خاندان کو سوتیلا خاندان (Step Family)بھی کہا جاتا ہے ۔ ماہرین سماجیات کے مطابق ان کی دو اقسام ہیں ، روایتی اور غیر روایتی ۔ روایتی خاندان درمیانے طبقے میں ہوتے ہیں جہاں باپ کماتا ہے اور ماں گھر کی دیکھ بھال کرتی ہے جب کہ غیر روایتی خاندان میں ماں کماتی ہے اور باپ گھر کی دیکھ بھال کرتا ہے اور امریکہ میں موجود رواج غیر روایتی ہے ۔ روایتی کی اصطلاح کا استعمال کنبہ یعنی وسیع خاندان کے لیے استعمال ہوتا ہے، نیوکلیئر فیملی کے لیے روایتی کی اصطلاح استعمال نہیں کی جاتی ۔امریکہ میں نیوکلیئر فیملی کی اصطلاح1960ءسے 1970ءکے درمیان عام ہوئی جب ایشیا اور یورپ سے غیر ملکی امریکہ میں داخل ہوئے۔ جب کہ انگلینڈ میں اس کا تصور پہلے سے موجود تھا۔

مخلوط خاندانی نظام کے اثرات ہر عمر کے بچوں پرمرتب ہوتے ہیں۔ کچھ بچوں کی نئے خاندان سے ہم آہنگی جلد ہو جاتی ہے جب کہ کچھ بچوں کو خاندان میں اپنا مقام بنانے میں خاصی جدو جہد کرنا پڑی ہے۔ وسیع خاندان میں تعلقات کا طریقہ کار ہے کہ کس طرح خاندان کا ایک فرد دوسرے سے تعلقات قائم رکھے ۔ تعلقات کا ایک طریقہ روایتی انداز ہے جس میں عقائد اور اقدار پر کوئی اختلاف نہیں ہوتا اور دوسرا مطابقت کا طریقہ جس میں خاندانوں کو عقائد اور اقدار کے بارے میں اختلاف کا حق ہوتا ہے۔ ([34])

امریکی مردم شماری رپورٹ 2004ء کے مطابق 42فیصد نوجوانوں کے سوتیلے رشتے دار ہیں، 30فیصد نوجوانوں کا ایک سوتیلا بہن یا بھائی ہے۔ 60فیصد افریقی امریکن کے سوتیلے رشتے دار ہیں جب کہ 45 فیصد لوگوں کے سوتیلے بہن بھائی ہیں ۔مخلوط ، مرکب یا سوتیلا خاندان طلاق کی صورت میں وجود میں آتا ہے ۔ اعداد و شمار کے مطابق 92فیصد مر و خواتین نے 50سال کے عمر میں دوسری شادیاں کیں، 43فیصد شادیوں میں 15سالوں کے اندر طلاق واقع ہوئی ۔ ([35])

جب کہ ایک تحقیقی رسالےکے سروے کے مطابق 25 فیصد مرد و خواتین نے دو یا دو سے زائد مرتبہ شادیاں کی جن کی عمر 50 سال کے قریب تھی۔ 42فیصد افراد نے دوبارہ پہلے زوج سے شادیاں کی ۔ 75فیصد نے دوسری شادیاں کیں جن میں سے 65فیصد افراد نے اپنے پہلے بچوں کو ساتھ رکھا۔ 60فیصد ایسے افراد ہیں جنھوں نے دوسری شادیاں کیں اور انھیں پھر طلا ق ہوئی ۔ 15فیصد جوڑوں میں شادی کے تین سال میں طلاق واقع ہوتی ہے، 25فیصد جوڑوں میں 5 سال اور 39فیصد جوڑوں میں دس سال کے اندر طلاق رو نما ہوتی ہے۔ اب تک کےحکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس مردم شمار ی میں اُن خاندانوں کو شامل کیا جاتا ہے جہاں بچہ رہ رہاہو۔ اگر بچہ، طلاق شدہ ، انفرادی مورث یا غیر شہری افراد جو دوسری شادی کر لیں اُن کے ساتھ رہ رہا ہو تو بچے کو اُس خاندان کے فرد کی حیثیت سے درج نہیں کیا جاتا۔([36])

مخلوط ، مرکب یا سوتیلے خاندان کی تشکیل کی سب سے بڑی وجہ طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح ہے۔ مردم شماری رپورٹ اور سروے رپورٹ سے یہ واضح ہوتا ہے ،کہ طلاق کے بعد بالآخر دوسری شادیوں کی صورت میں مخلوط خاندانی نظام وسیع پیمانے پر معرض وجود میں آ رہا ہے۔

وسیع خاندان (Extended Family)

وسیع خاندان جو کہ انفرادی خاندان سے بڑا ہوتا ہے جس میں والدین، بچے ،شوہر کے بہن بھائی اور اُن کے بچے شامل ہوتے ہیں جو اسی خاندان میں رہتے ہیں ۔ یعنی شادی کے بعد شوہر یا بیوی سسرالی رشتے داروں کےساتھ مشترکہ طور پر رہتے ہیں۔بعض اوقات وسیع خاندان میں قریبی رشتے دار بھی رہائش پذیر ہوتا ہے ۔ مثلاً کوئی بزرگ رشتے دار جو اپنی عمر کے سبب ان کے ساتھ رہائش پذیر ہو۔ جدید مغربی ثقافت میں اس کے لیے"قریبی خاندان پر غلبہ " کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ۔ یہ اصطلاح عام طور پر داد ، دادی، چچا، چچی ، پھوپھی ، کزن کے لیے استعمال ہوتی ہے ۔ تاہم یہ خاندان ایک اکائی کی طرح تصور کیا جاتا ہے۔

کچھ ثقافتوں میں اس کے لیے"معتبر خاندان" (Consanguineous Family)کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے ۔ عام طو رپر ایسا خاندانی نظام جنوبی ایشا، وسط ایشیاء، مشرقی یورپ، جنوبی یورپ، لاطینی امریکہ کے ممالک میں ہے اور ہندوستان میں روایتی خاندان کی شکل میں موجود ہے ۔ انگلینڈ میں وسیع خاندان کا وجود کہیں کہیں ہے ۔ امریکہ میں دو اعشاریہ چھے(6.2)ملین خاندان وسیع خاندانی نظام کے تحت ہیں ۔ جب کہ امریکی ریاست میکسیکو میں وسیع خاندان میں تین تین نسلیں اکٹھی رہتی ہیں ۔ ([37])

مادر سربراہی خاندان (Matrifocal Family)

ایسا خاندان جس میں ماں اور بچے شامل ہوں ، عموما ً یہ بچے اُس کے حیاتیاتی اولاد ہوتے ہیں مگر اب تقریبا ً تمام معاشروں میں لے پالک بچوں کا بھی رواج عام ہے۔ خاندان کی یہ قسم وہاں پائی جاتی ہے جہاں خواتین کے پاس اپنے بچوں کی کفالت کا بندوبست کرنے کے لیے تمام وسائل میسر ہوتے ہیں ، اُن کے خاوند زیادہ تر گھرسے باہر رہتے ہیں اور کبھی کبھار گھر جاتے ہیں ۔ گھروں میں خاوند کی ثانوی حیثیت ہوتی ہے۔بچوں کی ماں کا خاوند ہی اُن کا باپ ہو یہ لازمی نہیں ہوتا عام الفاظ میں اس خاندان کا مرکزو محور ماں اور بچے ہی ہوتے ہیں۔ زندگی کے روزمرہ معمول کی منتظم عورت ہی ہوتی ہے۔ مادر سربراہی خاندان مغرب کے مختلف شہروں اور ریاستوں میں موجود ہے۔

خاندان کا یہ نظام چھوٹے افریقی جزائر (Afro- Caribian)میں عام طو ر پر پایا جاتا ہے۔لندن میں بیتھ نل گرین (Bethnal Green) میں 1950ءسے یہ خاندان کا نظام موجود ہے۔ وسط امریکہ میں میسی کیٹو(Misikitu) نسل اور ریاست ہونڈورس (Honduras)میں مادر سربراہی خاندان موجود ہے۔([38])

پسند کا خاندان (Family of Choice)

پسند کے خاندان کے لیے اکثر منتخب خاندان (Chosen Family) کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔ لغوی اور اصطلاحی مفہوم میں یہ خاندان ہم جنس پرست مرد (Gays)اور ہم جنس پرست عورتوں (Lesbian) کی پسند کی بنا پر بنتے ہیں۔ جس میں دونوں شریک حیات اپنا اپنا گھریلو کردار نبھاتے ہیں یعنی ایک شوہر اور دوسرا بیوی ہوتا ہے ۔ مغربی ممالک میں پسندکے خاندان کے لیے ایل جی۔ بی۔ ٹی۔(L.G.B.T.) گروپ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے یعنی ہم جنس مرد، ہم جنس عورتیں، دو ہری جنس رکھنے والے اور ہیجڑے اس خاندان کا حصّہ ہوتے ہیں ۔ اس خاندان میں دو یا دو سے زائد افراد پسند کی بنیاد پر شامل ہو کر اکٹھے رہتے ہیں ۔اگر ان میں خاندان کا کوئی فرد خاندان کو چھوڑ دے تو اسے اُن کے سامنے شرمندہ ہونا پڑتا ہے ۔ پسند کے خاندان میں شامل ہونے کے لیے 12 شرائط ہیں جو انھیں مضبوط خاندانی تعلقات میں باندھے رکھتی ہیں۔ ([39])

یک زوجگی (Monogamous Family)

یک زوجگی سے مراد ایسا خاندان جس میں فرد اپنی زندگی میں صرف ایک ہی قانونی زوج (میاں ، بیوی )رکھتا ہے۔ یا ایک وقت میں صرف ایک شریک حیات رکھتا ہو۔یعنی ایک ہی وقت متعدد قانونی زوج نہ ہوں ۔ ([40]) مغربی یورپی معاشروں میں یک زوجگی عائلی اقدار میں شامل ہے اور دُنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں قانونی طور پر نافذ ہے۔ جاپان میں 1880ءمیں، چین میں 1953ء، بھارت میں 1955ءاور نیپال میں 1963ءمیں دو ازواج رکھنے پر پابندی عائد کی گئی۔ ([41]) تحریک حقوق نسواں نے بھی صرف یک زوجگی شادیوں کو قانونی حیثیت دینے کی سفارش کی اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی 1979میں سیڈا کنونشن کو اپناتے ہوئے یک زوجگی پر اتفاق کیا اور دُنیا کے 180ممالک میں اس نظام کے اطلاق کے لیے سفارشات کیں۔ ([42])

مغربی معاشرے آزادانہ جنسی تعلقات رکھنے کی قانونی اجازت سے یک زوجگی پوری طرح ممکن ہی نہ ہوسکی ۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ 2003ءکے مطابق دُنیا میں 89فیصد لوگ 40 سال کی عمر میں شادی کرتے ہیں، تمام شادیاں سماجی طور پر یک زوجگی (Monogamous) نہیں ہوتیں۔ 80سے 85فیصد معاشرے میں کثیر ازدواجی شادیوں کی اجازت ہے۔ سماجی طور پر یک زوج خاندان (Monogamous Family) چند وجوہات کی بناء پر وجود میں آتا ہے۔ جن میں اردگرد کے ماحول میں وسائل کی دستیابی، جغرافیائی تقسیم، جسم فروشی سے پھیلنے والے امراض ، شریک حیات کا پرتحفظ رویہ اورتعلقات کے بارے میں ذہنی سوچ جیسے عوامل شامل ہیں ۔ ([43])

کثیر زوج خاندان (Polygamous Family )

کثیر زوج خاندان سے مراد جہاں ایک سے زائد ازواج کے ساتھ بیک وقت شادی کا تعلق ہو۔ میاں ، بیوی دونوں بیک وقت دو افراد کے ساتھ یہ تعلق قائم کر سکتے ہیں۔ ایک وقت میں ایک سے زائد بیویاں رکھنے مرد کے لیے پولی گائنی (Polygyny) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور بیک وقت دو مردوں کے ساتھ شادی کرنے والی عورت کے لیے پولی میری(Polymory) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

تمدنی طور پر بیک وقت ایک سے زائد بیویاں رکھنے کا رواج مشرق وسطیٰ ، افریقہ اور اسلام میں موجود ہے ۔ مگربیک وقت ایک سے زائد شوہر کی اجازت مغربی معاشروں میں ہے، جب کہ نیپال ، چین اور انڈیا میں بھی ایک عورت بیک وقت دو بھائیوں سے شادی کر سکتی ہے جس کے لیےبرادر پولینڈری(Fraternal Polyandry) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔([44])

تشکیل خاندان کے عالمی رجحانات

خاندان کے ادارہ میں حالیہ برسوں میں بڑی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ یورپ کے روایتی انفرادی خاندان جو والدین اور بچوں پر مشتمل ہوتا تھا ۔آج اُس کی صر ف اختیاری حیثیت رہ گئی ہے مردوں اور عورتوں کے کرداروں میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ عورت اور مرد تعلیم اور روزگار کے برابر مواقع سے فیض یاب ہو رہے ہیں ۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں بھی خاندان کی تشکیل اور اقدار میں ناقابل یقین تبدیلیاں رونما ہوئیں۔

شادیوں کی شرح میں کمی ، طلاق میں اضافہ، اور ہم خانگی کی وسیع حد تک قبولیت، ہم جنس شادیوں کی قانونی حیثیت، افزائش نسل کی شرح میں کمی سے یورپی یونین میں افراد کنبہ کی تعداد2 اعشاریہ 4افراد فی گھرانہ کر دی ہے۔([45])

2015ءمیں امریکن انٹر پرائز انسٹی ٹیوٹ واشنگٹن نے وال سٹریٹ جرنل میں"خاندان کی عالمی پرواز" کے نام سے خاندان کے تشکیل کے عالمی رجحان کی وضاحت کی :

”اعدادو شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2013میں 40 فیصد بچے بغیر شادی کے پید ا ہوئے ۔ مردم شماری بیورو کا تخمینہ ہے کہ 27فیصد بچے ایسے گھروں میں رہتے ہیں جہاںوالد نہیں ، یورپ میں بے اولاد نوجوانوں میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سویڈن اور سوئٹزر لینڈ میں ہر پانچ میں سے چار عورتیں بے اولاد ہیں ، اٹلی میں چار میں سے ایک ، برلن میں تین میں ایک عورت بے اولاد ہے۔ نام نہاد روایتی خاندانوں میں بھی یہی رجحان ہے۔ جاپان میں تقریبا ہر چھ میں سے ایک عورت شادی نہیں کرتی اور تقریباً 30 فیصد خواتین ایسی ہیں جو بے اولاد ہیں۔“([46])

جب کہ سویڈن کے اعداد و شمار 2013کے مطابق :

”سال 2000 ءسے مختلف ممالک میں چند ہی بچوں کو والدین کی طلاق کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سویڈن میں بے اولادی کم ہو رہی ہے اور شادیوں کا رجحان بڑھ رہا ہے ۔ لوگوں کے لیے تیسرے بچے کی پیدائش عام ہو چکی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نیوکلیئر فیملی میں بتدریج کمی نہیں ہو رہی ۔شادی کی شرح میں کمی اور طلاق کی شرح میں اضافے نے انفرادی مورث خاندانوں، اور مخلوط خاندانوں کی تعداد میں اضافہ کیا۔ اقتصادی تعاون و ترقی کے تنظیمی ممالک (OECD) (یورپی ممالک) میں1979ءسے 2009ءتک شادی کی شرح 8 فیصد سے کم ہو کر 5فیصد رہ گئی ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی ایسا ہی تغیر پایا گیا ہے ۔ اس عرصے میں کوریا ، امریکہ ، ترکی ، چلی ، لکسمبرگ اور اٹلی میں شادیوں کی شرح بدستور رہی۔ اقتصادی تعاون و ترقی کی تنظیم کے ممبر ممالک ہر ایک ہزار خاندانوں میں شرح طلاق 2اعشاریہ 4 فیصد رہی ۔ جب کہ امریکہ میں شرح طلاق میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ چیک ریپبلک ، بیلجیم، اٹلی ، میکسیکو میں شرح طلاق کم رہی۔ اس طرح مجموعی طور پر وہاں کم سے کم شادیاں ہو رہی ہیں۔ اور شادی شدہ جوڑوں میں طلاق کا رجحان بڑھ رہا ہے۔“ ([47])

مجموعی طور پر نئی نسلوں میں خاندانوں کی تشکیل کا طریقہ کار بدل رہا ہے ۔ یورپی ممالک میں 20 سے 34 سال کے نوجوان ہم خانگی (Cohabiting) پچھلی نسل سے زیادہ پسند کی جاتی ہے ۔ زیادہ تر ممالک میں نئی نسل میں اکیلے رہنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے اور ہم خانگی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ ہم خانگی کا زیادہ رجحان فرانس، شمالی یورپ، انگریزی بولنے والے ملکوں میں ہے۔ جب کہ مصر، اٹلی ، پولینڈ ،ترکی اور جمہوریہ سلاویہ میں ہم خانگی کا رجحان انتہائی کم ہے۔

طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ سے شادی کا عنصر معاشرے میں کم ہوتا جا رہا ہے۔ جس کا ثبوت ایک تنظیم کے تحقیقی جریدے میں اس طرح درج ہے:

The declining marriage rate is not so much a reflection that marriage is no longer desired, but that, in a culture of distrust and divorce, it is fragile([48])

”شادی کی شرح میں کمی اس بات کی عکاسی نہیں کرتی کہ شادی کی ضرورت اب نہیں رہی ،لیکن بے اعتمادی اور طلاق کی ثقافت میں یہ ایک انتہائی نازک تعلق ہے۔ “

خود مختاری، رازداری ،خو د پسندی اور ذاتی خوشی کو زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔ آزادی حاصل ہونے سے بڑوں کی اطاعت میں کمی اس کا واضح ثبوت ہے۔ آج کل یورپ میں انفرادی طور پر خاندان کی اہمیت موجود ہے۔مگر خاندان سے زیادہ دوست کی فکر کی جاتی ہے ، کام ، تفریح، سیاست اور مذہب میں دوست زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ([49])

مغرب کے عائلی نظام کی تباہی

عورت پر گھریلو امور کی ذمے داری ہےاور یہ ذمے داری تین پہلو رکھتی ہے۔بچوں کی پیدائش ، پرورش و تربیت (جس کے اہم اور مشکل ہونے کا اعتراف خالق نے خود بھی کیا ہے) گھریلو امور کی انجام دہی اور شوہر کو سکون مہیا کرنا۔ان تین ذمے داریوں کے ساتھ جب عورت نے چوتھی ذمے داری ملازمت کی بھی ڈال لی ۔تو نہ صرف پہلی تین ذمے داریاں نظر انداز ہوئیں بلکہ اس کی ذات بھی پِس کر رہ گئی ۔اس کی حالت اُس عورت جیسی ہو گئی جو پہاڑ کی بلندی سے نیچے اتر رہی ہواور پانی کے بھرے ہوئے گھڑے دونوں بغلوں میں تھام رکھے ہوں اور ایک سر پر اٹھا رکھا ہو۔

اس افسوس ناک صورت حال کو بیان کرتے ہوئے نعیم صدیقی([50]) اپنی کتاب” عورت معرض کشمکش میں“ رقم طراز ہیں:

”عورت کو صنعت میں لانے کا قدرتی نتیجہ گھریلو زندگی کی تباہی ہے۔تھوڑا تھوڑا کر کے اس کا پرانا مشغلہ اس سے چُرا لیا گیا اور اب " گھر " دلچسپی سے خالی ہو کر رہ گیا ہے اور خود عورت بے مقصدی اور بےاطمینانی کی حالت میں مبتلا ہے۔ گھر جب اس طرح خالی ہو گیا ہے کہ نہ اس میں کرنے کا کوئی کام کیا جاتا ہو اور نہ ہی اس میں زندگی بستی ہو تو اس کے سوا اور کیا ہوتا ہےکہ مردوں اور عورتوں نے اس سے کنارہ کشی کر لی ۔ اس طرح جو ادارہ دس ہزار سال سے برقرار تھا، ایک ہی نسل میں تباہ ہو گیا۔“ ([51])

عورت کی ملازمت نے عائلی زندگی کی چولیں ہلانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔گھر خالی اور ویران،بچے توجہ اور شفقت سے محروم اور میاں بیوی کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل کر دی ہے ۔عورت نے باہر نکل کر مردوں کی طرح کمانے کی کوشش شروع کی تو اسے کافی تکلیف دہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔گھر کی چار دیواری میں وہ مرد کے جس ظلم کا شکار تھی،باہر نکلنے پر مرد کا وہ ظلم اس پر کئی گنا بڑھ گیا۔ظاہری طور پر تو اس کی معاشی حالت پہلے سے کچھ اچھی ہو گئی لیکن اس پر دوہری ذمے داری کا بوجھ پڑ گیا۔ اس کی ملازمت کی بدولت گھروالی سے گھر، بچےسے ماں ، شوہرسے بیوی اور بوڑھے معذور افراد خدمت کرنے والوں سے محروم ہو گئے۔ بیمار اور بوڑھے کسی ہمدرد اور غم خوار کو ترس گئے ہیں،خاندانی نظام بالکل تلپٹ ہو کر رہ گیا ہے۔افراد خانہ میں محبت و اُلفت کے تمام بندھن ٹوٹ گئےہیں اور انسان اس سکون سے محروم ہو گیا ہے،جو صرف خاندان ہی فراہم کر سکتا ہے۔خاندان کا ٹوٹنا دراصل تمام معاشرے کا درہم برہم ہونا ہے ۔یہ اتنا بڑا خسارہ ہےکہ کوئی بھی معاشرہ اسے زیادہ دن تک برداشت نہیں کر سکتا۔عورت کے ملازمت کرنے اور گھروں سے باہر نکلنے سے جو تباہی و بربادی خاندانی نظام میں ہوئی ہے، اسکا ازالہ ممکن نہیں۔

دوران ملازمت دفاتر،فیکٹریوں،غرض ہر جگہ عورتوں کا مردوں کے شانہ بشانہ ا ٹھنے بیٹھنے سے مردو ں میں انتشار اور انارکی بڑھتی گئی اور معاشرے میں فحاشی اور بے حیائی کا سیلاب امنڈ آیا۔ خاندانی نظام کی تباہی اور عورتوں کی مردوں سے مسابقت کے باعث مرد عورت کے تحفظ اور احساس ذمے داری سے فارغ ہو گئے۔اب وہ عورتوں کے معاشی کفیل بھی نہ رہے۔عورت کی معاشی ذمے داری نے عورت کی مادی طاقت میں اضافہ کرنے کی بجائے ان کی کفالت کی جگہ لے لی،جس کی بدولت عورت کو آزادی تو ملی لیکن ذمے داری بڑھ گئی۔ جدید دور کے شیطانی نظام میں عورت نے گھر سے نکل کر کمائی کرنے اور خود کفالتی کا درجہ پانے کے لیے جدو جہد شروع کی تو اس کا سب سے بُرااثر خاندانی رشتے اور خانگی ماحول پر پڑا۔عورت نے سوچنا شروع کر دیا کہ اب وہ شوہر کی محتاج نہیں رہی ،جب اپنا معاش خود کما رہی ہے تو شوہر کی اطاعت اس پر کہاں لازم رہی ہے۔اس وجہ سے شادی ایک کھیل بن گئی اور طلاق ایک معمول۔ ([52])

جوڈی ہیے مین اپنی کتاب “Forgotten Families” (بھولے بسرے خاندان) میں لکھتی ہے کہ:

”ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد ترقی پذیر دُنیا میں بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔نیز دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی کا رجحان زور پکڑ رہا ہے۔ان دونوں عوامل کی بنا پر بچوں کی پرورش اور نگہداشت کے قدیم تصورات اور ادارے ختم ہو رہے ہیں اور بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔نئی نسلیں ماں باپ کے بغیر آزادانہ طور پر پل رہی ہیں اور تباہی کے دہانے پر ہیں،قدیم اجتماعیت اور خاندانوں کا نظام ختم ہوگیا ہے۔“([53])

صرف بچے ہی نہیں، خاندان کے بڑے بوڑھے اولڈ ہاوس کے سرد خانوں میں زندگی ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں ۔ اولاد کے پاس ہفتہ وار ملاقات کا بھی وقت نہیں، بوڑھے اپنے پیاروں کی طرف سے مہینوں خط کے جواب کا انتظار کرتے ہیں۔ جس معاشرے میں بوڑھوں کی دیکھ بھال اور ان سے باتیں کرنے کے لیے اولاد کو فرصت نہیں اور رشتے داروں کے پاس فرصت نہیں وہ ایک تباہ کن معاشرہ ہے۔

ہم بعض معاشروں میں شکست و ریخت کے مظاہر ، خلل و فساد اور بگاڑ کی صورتیں اور والدین کی نافرمانی کی شکلیں دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں ۔ باپ کی عمر بڑی ہوگئی، ہڈیاں کمزور پڑ گئیں ,اور اسے اولاد کی ضرورت پیش آگئی ، جو اس کے ساتھ تعاون کرے۔ لیکن وہ ان میں سے کسی کو نہیں پاتا سوائے اس کے کہ ان میں سے کوئی آتا ہے اور اس بوڑھے سے جان چھڑانے اسے بوڑھوں اور بے آسرا لوگوں کیلئے قائم کردہ کسی ادارے ( دارالامان ) کے سپرد کر آتا ہے ۔لیکن اسلام نے والدین کے رشتے کو مقدس قرار دیتے ہوئے، ان کی خدمت اور رضا ء میں جنت اور کامیابی رکھی ہے۔ انھیں اپنی اولاد کے مال و متاع کا غیر مشروط طور پر حق دار ٹھہرایا ہے۔

سوویت یونین کے آخری صدر میخائل گوربا چوف([54])نے اپنی کتاب "پیرسٹرائیکا" (Perestroika) عورتوں کے بارے میں “Status of Women”(عورت کا مقام) کے نام سے ایک باب قائم کیا ہے۔جس میں اس نے صاف اور واضح لفظوں میں یہ بات لکھی ہے کہ:

” ہماری مغرب کی سوسائٹی میں عورت کو گھر سے باہر نکالا گیااور اس کو گھر سے باہر نکالنے کے نتیجے میں بے شک ہم نے کچھ معاشی فوائد حاصل کیے اور پیداوار میں کچھ اضافہ ہوا، اس لیے کہ مرد بھی کام کر رہے ہیں اور عورتیں بھی کام کر رہی ہیں،لیکن پیداوار کے زیادہ ہو جانے کے باوجود اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارا خاندانی نظام تباہ ہو گیا ۔اور اس خاندانی نظام کے تباہ ہونے کے نتیجے میں ہمیں جو نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں ،وہ نقصانات ان فوائد سے زیادہ ہیں جو ہمیں اس اضافے کے نتیجے میں حاصل ہوئے۔ لہٰذا میں اپنے ملک میں "پیرسٹرائیکا" کے نام سے ایک تحریک شروع کر رہا ہوں۔“([55])

مغرب میں عورت کی آزادی اور معاشی استقلال نے خاندانی نظام کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔نوجوان نسل کی اکثریت ایسے افراد پر مشتمل ہے۔جنھیں اپنی ماں کا پتہ ہے تو باپ کا پتہ نہیں،باپ کا پتہ ہے تو ماں کا نہیں یا پھر ماں باپ دونوں کا علم نہیں ۔بہن اور بھائی کے مقدس رشتے کا تصور تو دور کی بات ہے۔([56])

عورت کا زندگی میں ہمیشہ اہم کردار رہا ہے لیکن مغرب کی عورت اپنی ممتا کی قربانی دے کر بھی کچھ حاصل نہیں کر سکتی۔خالی گودیں اور ویران گھر کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں، اس پر مستزاد یہ کہ جس ملازمت کی خاطر اپنا سب کچھ برباد کیا،خود اس کا وجود خطرات کی زد میں ہے۔ یورپی عورت عجب مشکلات میں گھری ہوئی ہے ۔اس کے لیے ایک ہی وقت میں بیوی اور ملازم پیشہ عورت کا کردار ادا کرنا نہایت مشکل ہے۔ حالات کا تقاضا ہےکہ ہر چیز میں اعلیٰ معیار کی کارکردگی ہو، یا پھر کچھ بھی نہ ہو۔خواتین کی نہایت ہی قلیل تعداد ایسی ہو گی جو گھریلو معاملات میں بھی پوری طرح کردار ادا کرے اور اپنی ملازمت کے تقاضوں کو بھی خوب نبھائے ۔

ازدواجی ذمہ داریوں سے گریز کے نتیجے میں معاشرے کی بنیادی اکائی یعنی خاندان کا نظام بگڑ گیا ۔کتاب “The Antisocial Family” (سماج دُشمن خاندان ) نے اس صورت حال کا نقشہ اس طرح کھینچا کہ:

”یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ معاشرے کی بنیادی اکائی کے طور پر خاندان کی بڑے پیمانے پر شکست و ریخت خاندانی تعلقات میں روز افزوں عدم استحکام جس کی نشان دہی ہم جنسیت اور طلاق کے بڑھتے ہوئے رجحان سے ہوتی ہے۔معاشرے میں عورتوں کی نئی حیثیت اور کام کرنے کی خواہش ، روایتی اخلاقی اقدار کا فقدان اور شرح پیدائش میں مسلسل کمی جو اس درجے تک پہنچ چکی ہےکہ اب آبادی کی سطح کو بحال رکھنا بھی مشکل ہے۔یہ ایسے رجحانات ہیں جو یورپ کے تمام ملکوں میں مشترک پائے جاتے ہیں، کہیں ان کی شدت کم ہے اور کہیں زیادہ ۔ چنانچہ ان ملکوں کا مستقبل اور ان کا وجود تک خطرات میں پڑ گیا ہے۔“([57])

مغر بی معاشرے میں اخلاقی بے راہ روی اورخاندانی تباہی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ شراب اور زنا کاری عام ہو چکی ہے۔ امریکہ میں خاص طور پر اس مقصد کے لیے ہوٹلز کھولے گئےہیں جو صرف اتوار کو کھلتے ہیں اور باقی ایّام میں بند رہتے ہیں۔ ان ہوٹلوں کا مقصد یہی ہےکہ فوری ہفتہ وار رومانس کی سہولتیں مہیا کی جائیں، جہاں لڑکیاں اپنا جسم تیس ڈالر کے عوض کاروبا رزنا کی ترویج کی خاطر پیش کر دیتی ہیں اور یہ جسم سڑکوں پر ،پارکوں میں، ہوٹلز اور شراب خانوں میں دعوت زنا کی خاطر چمکتا رہتا ہےاورعصمتیں اپنی قیمت خود لگاتی رہتی ہیں۔ مرد وں اور عورتوں کی ایک بڑی تعداد شراب خانوں اور ہو ٹلز میں آتی ہے جس کی وجہ سے یہ ہوٹلز آزادانہ اختلاط یا آزادانہ جنسی لُطف کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔مغر بی معاشرے میں تقریبا 15 سال کی عمر تک پہنچنے پر اکثر لڑکے لڑ کیاں اپنے گھروں کو چھوڑ دیتے ہیں۔اس چھوٹی عمر میں ہی بچوں میں شراب کی لَت پڑ جاتی ہے۔

مغرب کی بے پناہ تسخیر و ترقی کا قصر اپنی بنیادیں کھو چکا ہے۔مرد اور عورت کا تعلق غیر متوازن صورت اختیار کر تا جا رہا ہے۔گھر عورت کے بغیر بے آباد اور ویران ہیں۔مغرب نے اپنے تمدن کی بنیاد مرد و زَن کی مساوات، عورت کے معاشی استقلال،مردوزَن کا آزادانہ اختلاط اور عورت کے قانونی تحفظ پر رکھی ہےمگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گھر جو تمدن کی بنیاد ہے بکھر کر رہ گیا ہے اور خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔

اگرچہ مغرب میں عورت کو قانونی تحفظ حاصل ہےمگر اس کے باوجود خواتین کا مردوں کے ہاتھوں پٹنا،طلاق کی کثرت،جنسی تشدد،فواحش کی کثرت،شہوانیت اور بے حیائی کا فروغ، سرے سے نکاح کرنے سے اجتناب اور بلا نکاح ساتھ رہنے کا رجحان ،نسل کشی اور تحدید آبادی،بچوں اور نئی نسل کی بے راہ روی،جسمانی قوتوں کا انحطاط، ذہنی و نفسیاتی امراض کا اضافہ جیسے مسائل کا مغرب کو سامنا ہے۔اس کی بنیادی وجہ مرد اور عورت کے باہمی تعلق یا قانون ازدواج کی بے اعتدالی ہے۔ ہمارے ہاں بھی مادیت کے اثرات اور دیگر عوامل کی بنا پر رشتۂ ازواج متاثر ہو رہا ہے۔اس کاا ندازہ فیملی کورٹس میں طلاق،خلع اور بچوں کے مسائل کے مقدمات میں روز افزوں اضافے سے لگایا جا سکتا ہے۔ انسداد گھریلو تشدد کے اس بل کے حوالے سے معاشرتی انتشار کا یہ پہلو خاص طور پر غور طلب ہے۔

مغر بی معاشرے میں پایا جانے والا اخلاقی انحطاط دراصل اللہ تعالیٰ سے بغاوت کی اسی طویل روش کا شاخسانہ ہے جس پر صدیوں سے مغربی و امریکی اقوام عمل پیرا چلی آرہی ہیں۔گھروں کی آبادی سے دُنیا کی آبادی اور گھروں کی بربادی دُنیا کی بربادی کا پیغام ہے۔ہر زندہ انسان کی پُر سکون جائے پناہ گھر ہے ۔مغرب میں یہ خوبصورت مرکز تباہی بربادی سے دو چار ہو کر مکان کی حیثیت اختیار کرتا جا رہاہے ۔شادی اور خا ندان کا گلا گھونٹنے کی رسم چل نکلی ہے۔ ([58])

ڈینیئل بیل (Denial Bell)لکھتا ہے:

“We are living in a period of cultural crises. It seems as if the very foundations of contemporary society are being threatened from within and without. The family as a basic and most sensitive institution of culture is being undermined by powerful and destructive forces”. ([59])

”ہم ثقافتی بحران کے ایک دور میں رہ رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ معاصر معاشرے کی بہت سی بنیادوں کو اپنے اندر اور باہر دونوں طرف سے خطرات لاحق ہیں ۔ خاندان جو ثقافت کابنیادی اورانتہائی حساس ادارہ ہے جسے طاقتور اور تباہ کن قوتوں کی طرف سے کھوکھلا کیا جا رہا ہے۔“

مساوات ومردوزن کی وجہ سے خاندان کا کوئی سربراہ نہ رہا ،لہٰذا سرے سے خاندان کا تصور ہی ماند ہو گیا ۔ خاندان وسیع تصور کےبجائے اب وہاں محض نیو کلئیر فیملی (Nuclear Families) کا تصور باقی رہ گیا ہے۔ یعنی ماں باپ اور ان کےایک یا دو بچے یہ نیو کلئیر فیملی کا تصور ہے۔با قی اس فیملی میں چچا، ماموں، یا چچا زاد اور ماموں زاد، بہنوں اور بھائیوں کے رشتوں کا تو کوئی تصور ہی نہیں رہابلکہ بہن بھائی کا رشتہ بھی ایک عمر کے بعد بے معنی ہو جاتا ہے۔جمی کارٹراپنی کتاب “Our Endangered Value”(خطرات میں گھِری ہماری اقدار)میں لکھتے ہیں:

”ہمارے ہاں طلاق اب خطرناک حدتک عام ہو چکی ہے۔تمام امریکی بالغوں میں سے 25 فیصد میں کم از کم ایک مرتبہ طلاق ہو چکی ہے۔گویا خاندان کا نظام امریکا میں بُری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔کینیڈا اور یورپ کے مقابلے میں امریکا کے اندر جنسی بے راہ روی زیادہ ہے۔یہاں اسقاط حمل بھی زیادہ ہوتا ہے،سوزاک اور ایڈز جیسی بیماریوں کی شرح بھی زیادہ ہے۔“ ([60])

رچرڈ آئر (Richard Eyre)اور لِنڈاآئر(Linda Eyre) لکھتے ہیں:

”ابراہم لنکن نے ایک دفعہ کہا تھا کہ اگر کبھی امریکہ تباہ ہوا تو یہ تباہی بیرونی قوتوں کے ذریعے نہیں بلکہ اندرونی طور پر آئے گی۔اب 140 برس گزر چکے ہیں، ہم دیکھ رہے ہیں کہ اندرونی طور پر امریکہ میں معاشرتی خرابیاں حد سے بڑھ چکی ہیں۔مثلاً اقدار ختم ہو چکی ہیں،ذمے داری کا کسی کو احساس نہیں ،خود کفالتی ایک خواب بن چکا ہےاور خاندانی نظام منتشر ہو چکا ہے۔ اب ہمیں خود سے یہ ضرور کہنا چاہیے کہ اگر امریکہ کسی طور پر محفوظ رہ سکتا ہے، تو پھر سے ہمارے گھروں کی حفاظت کے ذریعے سے اور بس امریکہ کی بقا کے لیے مضبوط خاندان اور گھرانے امید کا آخری چراغ ہیں اور والدین اس چراغ کے رکھوالے ہیں۔“ ([61])

فرانسیسی میڈیا آج جسے فکری انقلاب سے تعبیر کر رہا ہے،ریڈیو فرانس انٹر نیشنل کے ایک سروے کے مطابق خواتین کی بڑی تعداد اسے گھر کی طرف مراجعت(Back to Home)قرار دے رہی ہے ۔دوسری طرف اہم بات یہ بھی سامنے آئی ہےکہ گھر کی کشش کا فقدان صرف ملازمت پیشہ خواتین ہی محسوس نہیں کر رہیں ،بلکہ گھریلو خواتین میں بھی شدت کے ساتھ یہ احساس پایا جاتا ہے۔اس لیے کہ ان کا شوہر اپنی ملازمت کے سلسلے میں دن کا اہم تر حصّہ گھر سے باہر گزارنے پر مجبور ہے۔فرانس کے اہم اخبار "لِبر اسیون" کی طرف سے قارئین کے سامنے یہ سوال پیش کیا گیا تھا کہ معاشرے کو خاندانی نظام اپنانے کے لیے کس طرح تیار کیا جائے۔ اس کے جواب میں 31 فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ ہم مزید ملازمت نہیں کرنا چاہتیں،لہٰذا گھریلو اخراجات اور ضروریات کے لیے ماہانہ مشاہرہ دیا جائے۔ فرانس کے محفوظ مستقبل کے لیے اسی سروے کے مد نظر فرانس کی نیشلسٹ پارٹی نے اسے باقاعدہ اپنے منشور کا حصّہ بنایا ہے۔

ڈاکٹر سولیوان(Sullivan) ([62])اپنی کتاب الکوحل ازم (Alcoholism) میں لکھتی ہیں:

”عورتوں کا عام جنسی کارگاہوں میں بھرتی ہو جاناصرف شادی شدہ ہونے کی صورت میں گھریلو ذمے داریوں میں خلل نہیں ڈالتابلکہ یہ لڑکپن کے زمانے میں خانہ داری کا علم حاصل کرنے میں بھی رکاوٹ بنتا ہے۔اس کے نتیجے میں طباخی،صفائی ،ستھرائی اور بچوں کے رکھ رکھاؤکے معاملات میں کامل جہالت ہر طرف پھیلتی جا رہی ہے۔اور اس چیز نے ہمارے ملک کے نچلے محنت پیشہ طبقات سے تعلق رکھنے والی ماؤں اور بیو یوں کو انتہائی بے یارو مدد گار اور فضول خرچ بنا دیا ہے۔دوسری طرف یہ محنت کار کو، جس کی طمانیت عورت پرمنحصر ہے،اپنے خالی اوقات عام اجتماعی اڈوں پر گزارنے کے لیے مجبور کر رہی ہے۔اس حالت نے اسے اپنی غیرذائقہ دار اور غیرمنہضم غذا کے ساتھ الکوحل کے چٹخارے کو شامل کرنے کے لیے بھی بے بس کر دیا ہے۔ تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ کوئی ملازمت جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر عورت کو گھریلو مشاغل سے دور ہٹاتی ہے،شراب خوری کی وبا کو بڑھانے بلکہ مزید یہ کہنا چاہیے کہ پوری نسل کی صحت کے لیے اس لعنت کے اثرات بد میں اضافہ کرنے کا موجب بنتی ہے۔“ ([63])

جوڈی ہیے مین (Judy Hey Man)([64])نے اپنی کتاب(Forgotten Families)میں خاندانی ادارے کی شکست و ریخت کا جائزہ لینے کے لیے سینکڑوں خاندانوں کے انٹرویو کیے۔ اس نے تحقیق کا یہ نچوڑ پیش کیا کہ آزادمعاشرے کا المیہ یہ ہے کہ اس نے تمام قدیم ادارے اور اجتماعیتیں پارہ پارہ کر دیں اور نئی اجتماعیتوں کو جنم نہ دے سکا خاندان کی تباہی لبرل معاشرے کا سب سے بڑا جُرم ہے ۔ہوس و حرص،حسد و آزادی کے تصورات نے ذمے داری،محبت ،محنت اوربرداشت کی صفات کو ختم کر دیا۔لہٰذا وہ قدیم ادارے بھی ختم ہو گئے اور ان کے متبادل ہاسٹل،ڈے کئیر سینٹر،ہوٹل،کلب، اولڈ ہومز کی صورت میں تلاش کیے گئے،لیکن یہ جزوی متبادل تھے۔لہٰذا مغرب کی عورت سخت پریشان ہے ،وہ نو کری کے لیے بارہ گھنٹے گھر سے باہر رہتی ہے۔لیکن اس عرصے میں اس کے گھر کو کون سنبھالے یہ ہر گھر کا مسئلہ ہے ۔اس کا یہ حل تلاش کیا گیا کہ بیرونی دُنیا سے عورتیں در آمد کر کے مسئلہ کو حل کیا جائے ،لیکن جس گھر سے عورت کو درآمد کیا گیا، اس عورت کے بچوں کو سنبھالنے کا کوئی انتظام نہیں ہو سکا۔ ([65])

”خاندانی شکست و ریخت کی جو قیمت مغرب نے ادا کی، وہ منعکس ہوئی ہے بہبود پر خرچ میں اضافے کی صورت میں جو شکستہ خاندانوں کی مدد کے لیے اور اس کے ذیلی اثرات سے نمٹنے کے لیے کیا جاتا ہے۔یعنی بچے کی حفاظت،جرائم سے نمٹنے کے پروگرام ،منشیات ،20 سال سے کم عمر میں حمل ،خصوصی تعلیم اور معمر آبادی۔مثال کے طور پر امریکہ میں 1998ء میں خاندانی امداد کےمسائل1970ء کے مقابلے پانچ گنا زیادہ تھے ۔صحت کےمسائل اسی عرصے کے دوران 15 گنا بڑھ گئے۔یہ بھی امر واقعہ ہے کہ صحت پر لگ بھگ 225 ملین کے اخراجات بڑھے، 1991ء اور 1996ء کے مابین معاشرتی بہبود پر خرچ کی جانے والی رقوم میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ۔اربوں ڈالر عدالتوں کے چکروں میں ضائع ہو رہے ہیں جبکہ یہی رقم زیادہ مثبت کام میں بھی استعمال ہو سکتی تھی۔([66])

اس ادارے کی تباہی نے بے شمار ایسے مسائل کو جنم دیاجو حل کے بجائے مزید مسائل کو جنم دیتے چلے گئے۔

آج مغر بی معاشرے جس طرز کی زندگی گزار رہے ہیں ان پر گہری نظر ڈالی جائے تو یہ بات کُھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ وہ انفرادی و خاندانی نظام میں شکست و ریخت یا توڑ پھوڑکی بیماری سے سب سے زیادہ نقصان اٹھا رہے ہیں۔ جس نے پہلے ان کے دلوں کو تنگ کیا اور اب ان کے گھر بھی ان پر تنگ کر دیے ہیں ۔ اب وہاں نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ یہ کوئی باعث تعجب چیز نہیں رہ گئی کہ کسی محلے کےلوگ پولیس کو شکایت لکھوائیں کہ کسی گھر میں کوئی عمر رسیدہ شخص اکیلے پڑا پڑا ہی مر گیا ہے اور اس کی بدبو سے لوگوں کا سانس لینا مشکل ہوگیا ہے۔ بدبو پھیلنے تک اس کے مرنے کی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔یہ ہے مادہ پرستی کا انجام ، جب یہ اخلاقی قدروں بلکہ اخلاق و کردار پر غالب آ جائے، تو پھر یہی انجام ہوتا ہے اور اس سے بھی زیادہ تعجب و استعجاب بلکہ ہلاکت خیز و تلخ بات تو یہ ہے کہ یہ بیماری بعض مسلم معاشروں میں بھی سرایت کرتی جا رہی ہے ۔جبکہ وہ خود اپنی آنکھوں سے مغر بی ممالک میں نظام خاندان کی تباہی کا نظارہ کر رہے ہیں جنسی بگاڑ نے معاشرتی اقدار اور مقدس رشتوں کے سارے ستون منہدم کر کے رکھ دیے ہیں ۔ خاندان جیسے عظیم اور اساسی تمدنی ادارے کی بنیادیں ہل کر رہ گئی ہیں۔خونی رشتے اور پاکیزہ جذبے آزادانہ جنسی ہوس ناکی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔

مغر بی خواتین کے اپنے گھرانوں، خاندانوں اور اولاد کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے مغر بی معاشرے کی نوبت یہاں تک آپہنچی ہےکہ امریکہ اور یورپی ممالک میں آج لاکھوں تباہ حال اور برُے نوجوان دس بارہ سال کی عمر میں اپنی تباہی اور بربادی کا سامان کررہے ہیں۔ یہ نوجوان تباہ و برباد ہورہے ہیں۔ قاتل ہیں، اسمگلنگ، منشیات،سگریٹ اور دیگر قسم کے نشوں میں گرفتار ہیں۔ ان سب کی کیا وجہ ہے؟ وجہ یہ ہے کہ مغر بی عورت گھر ،گھرانے اور خاندانی نظامِ زندگی کی قدروقیمت سے غافل ہے۔گزشتہ زمانے میں مغر بی خواتین کی حالت ایسی نہیں تھی۔ چالیس پچاس سال سے مغر بی خواتین کی حالت خصوصاً امریکہ اور بعض یورپی ممالک میں روز بروز بدتر ہوتی چلی گئی ہے۔ کسی معاشرے میں خاندان اور گھرانے کا شیرازہ بکھر جائے تو اس کی یہی حالت ہوتی ہے۔([67])

مغرب اور اہل مغرب کے بارے علامہ اقبالؒ نے درست فرمایا:

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کااپنے افکار کی دُنیا میں سفر کر نہ سکاجس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا([68])

آج مغر بی معاشرہ اور مغر بی خاندان اذیت ناک کیفیت سے دوچار ہے۔ جنس کی وجہ سے مغرب پریشان اور اذیت سے دوچار ہے۔مغرب کا خاندان اور گھر کا نظام آرام و راحت اور سکون کا نہیں، بے چینی اور پریشانی کا ذریعہ بن چکا ہے۔ مغرب کا انسان ڈانسنگ کلبوں، جُوا خانوں میں سکون کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے ۔لیکن نہ ان کے معاشرے میں سکون ملتا ہےاورنہ گھر میں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مغرب کا انسان اسلام کے دامن رحمت میں پناہ حاصل کر لے، جس میں دُنیاوی و اُخروی اطمینان اور سکون ہی سکون ہے اور یہ موجودہ دور کے مسلمان کا کام بھی ہے کہ وہ مغرب کے بھٹکے ہوئے اور پیاسے انسان کی اسلام کی طرف راہنمائی کرے۔

 

حوالہ جات

  1. -موسوعۃ الفقیھۃ الکویتۃ، وزارۃ الاوقاف والشوؤن لاسلامیۃ، کویت، 1418ھ- 1997ء،ص4/223؛ تاج العروس، محمد مرتضی الزبیدی، دارالفکر بیروت، 1994ء ، ص3/13
  2. -النساء :1
  3. - جامع الاصول، احمد حسن، مطبع مجتبائی، لاہور، 1976ء، ص76
  4. - النور:32
  5. - النساء:3
  6. - صحيح البخاری، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاری الجعفی، باب اتخاذ السراري ومن أعتق جاريته ثم تزوجها، حدیث نمبر: 4795، ص5/1955؛ سنن ابن ماجه، محمد بن يزيد ابو عبدالله القزويني، باب ما جاء فی فضل النکاح، حدیث نمبر: 1846،ص1/592؛ سنن النسائي الكبرى، احمد بن شعيب ابو عبد الرحمن النسائی، باب الكراهية في تزويج ولد الزنا ، حدیث نمبر:5337، ص3/269
  7. - بنی اسرائیل:32
  8. - النساء:23
  9. - سورۃ النساء:34
  10. -ابی جعفر محمد بن جریر بن یزید الطبری(838-923ء): عہد عباسی کے مشہور مفسر و مورِخ ہیں۔ طبری کا تعلق طبرستان (ایران ) سے ہے۔ طبری کی تصانیف میں سب سے زیادہ مقبول ان کی تفسیر جامع البیان عن تاویل ای القرآن ہے ۔
  11. -جامع البیان عن تاویل اَی القرآن(تفسیر طبری)، ابی جعفر محمد ابن جریر طبری، دارالسلام، القاھرہ، 1429ھ-2008م، ص4/59
  12. -سنن الترمذی، محمد بن عيسى ابو عيسى الترمذي السلمي، دارإحياء التراث العربي، بيروت، باب حق المراۃ م علی زوجھا، حدیث نمبر: 1163، ص3/467
  13. - سنن الترمذی، محمد بن عيسى ابو عيسى الترمذي السلمي، حدیث نمبر:1913، ص4/319
  14. - بنی اسرائیل: 23
  15. . Maxwell, J. ‘Social Dimensions of Economic Growth’, Eric John Hanson Memorial Lecture Series, Vol. 8. (Alberta: University of Alberta, 1996), 13
  16. - الحجرات:49/13
  17. . National Council on Family Relations, “Conjugal Power and Resources: An Urban African Example”. Journal of Marriage and Family, Vol 4, 1970.
  18. .Bell and Hayman, Sociology: Themes and Perspectives (London: Bell and Hyman Ltd, 1995), 326.
  19. -جارج پیٹر مُرڈاک(George Peter Murdock)(1897-1985)امریکی ماہر نفسیات، اخلاقیاتی مطالعہ میں تجرباتی نقطہ نظر اور مختلف ثقافتوں کے درمیان خاندان اور ملکیت کے ڈھانچے کے مطالعہ میں اسے یاد کیا جاتا ہے.
  20. . Murdock George, Social Structure (New York: The Macmillan, 1949), 8.
  21. . Mark Harris, The Origin of Family: Private Property and the State (London: Hottingen Zurich, n.d), 154.
  22. . Encyclopædia Britannica, “Nuclear family”. Encyclopædia Britannica.
  23. . Smith, Court. "Definitions of Anthropological Terms". Oregonstate.edu. Retrieved 12 April 2017.
  24. . Z.Razi, Intra familial Ties and Relationships in the Medieval Village : A Quantitative Approach Employing Manor Court Rolls, (Oxford: Clarendon Press, 1996), 370
  25. .Tartakovsky, M. “Surviving and Thriving As a Stepfamily”. Psych Central. (2011) Retrieved on July 19, 2017
  26. .Marriage and Family Encyclopedia, "Single-Parent Families– Demographic Trends".Net Industries and its Licensors. Retrieved 1 October 2017.
  27. .Amato, Allen, and M. A. Fine, "Diversity within Single-Parent Families." in handbook of family diversity, ed. d. demo,k. r. (New York: Oxford University Press, 2000)
  28. . United States Census Bureau, “America’s Families and Living Arrangements: 2017”.
  29. .Gay & Lesbian Review, “A Brief History of Domestic Partnerships”, July-August 2008,
  30. .Journal of Marriage and Family, “Cohabitation versus marriage: A Comparison of Relationship Quality” Brown, S.L., & Booth, Maya Angelo. 1996), 58
  31. -گلینا روہوڈس (Galena Rhoades) ڈینور یونیورسٹی میں شعبہ نفسیات کی پروفیسر اور محقق ہے ۔
  32. . Rhoades, G.K.; Stanley, S.M.; Markman, H.J. "A Longitudinal Investigation of Commitment Dynamics in Cohabiting Relationships". Journal of Family Issues. (2012).33 (3
  33. . Fam Relat, “The Specter of Divorce: Views From Working- and Middle-Class Cohabitors” Miller AJ, Sassler S, Kusi-Appouh D (2011). 60
  34. . Journal of Marriage and Family, “Demographic trends in the United States: A review of the research in the 2000s Cherlin, A. J. (2010)., 72,
  35. .U.S. Census, “Current Population Survey –Definitions and Explanations, 2004.
  36. .Journal of Extension, “Understanding stepfamilies: Family life education for community professionals”, Adler-Baeder, F. (2002) 40, 6
  37. .Andersen, Margaret L and Taylor, Howard Francis, Sociology: Understanding a diverse society, (United States: Thomson Wadsworth, 2006), 396
  38. .Ethnology, “Matrifocality and women's power on the Miskito Coast” Herlihy, Laura Hobson , 2007, 46
  39. . ALGBTICAL LGBT Glossary of Terminology". ALGBTICAL Association for Lesbian, Gay, Bisexual, and Transgender Issues in Counseling of Alabama. 2005.
  40. . International Journal of Social Psychiatry, “A Comparison of Family Functioning, Life and Marital Satisfaction, and Mental Health of Women in Polygamous and Monogamous Marriages”
  41. . Philosophical Transactions of the Royal Society B: Biological Sciences, “The puzzle of monogamous marriage, 2012; 367
  42. . Committee on the Elimination of Discrimination against Women". Archived from the original on 14-09-2017
  43. . Behavioral Ecology, “Tests of the Mate-guarding Hypothesis for Social Monogamy: Male Snapping Shrimp prefer to Associate with high-value Females,” 14, L. M. Mathews (2003), 63.
  44. . Zeitzen, Miriam Koktvedgaard, Polygamy: a cross-cultural analysi, (New York: Berg Publisher, 2008), 3
  45. . The European Values Education (EVE), “Teaching about the Family Values of Europeans”, University of Potsdamer, Anke Uhlenwinkel, 2013.
  46. . Wall Street Journal, “The Global Flight From the Family” Nicholas Eberstadt (February 21, 2015), , retrieved February 26, 2017
  47. . Population and Development Review, “Comparing Family Systems in Europe and Asia: Are There Different Sets of Rules?” Vol. 22, No. 1, Jack Goody, (New York: Population Council, 1996) 13
  48. .Index of Culture and Opportunity, “A Generation Conflicted About Marriage”,2016, Amber and David Lapp, , Washington :Heritage Foundation, 2016,
  49. . European Values Study (EVS), “Comparison of importance of Family and Friends to Europeans, 2008 (Survey).
  50. -نعیم صدیقی(1914ء-2002ء) چکوال کے گائوں خانپور میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام فضل الرحمن تھا۔بیس سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں ۔ جس کتاب کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی وہ سیر ت رسولﷺ پرلکھی گئی کتاب محسن انسانیت ہے۔
  51. -عورت معرض کش مکش میں ، نعیم صدیقی، الفیصل پبلیشرز، لاہور، ص72
  52. - خاندانی نظام:اس نشیمن کو بچانے کی فکر کیجیے، منیر احمد خلیلی، حسن البناء اکیڈمی، راوالپنڈی، 2007ء، ص86
  53. . Jody Heymann, Forgotten Families: Ending The Growing Crisis Confronting Children and Working Parents In the Global Economy (New York: Publishers Weekly, 2006), 8.
  54. -میخائل گورباچوف(Mikhail Sergeyevich Gorbachev)(پیدائش 1931) سوویت یونین کا سیاستدان ، کمیونسٹ پارٹی کا جنرل سیکرٹری رہا۔ 1990ء-1991ءمیں سوویت یونین کا اٹھارواں اور آخری صدررہا۔
  55. - Mikhail Gorbachev, Prestroika, New Thinking for our Country and the World (New York: Harper & Row n.d), 116.
  56. - نکاح کے مسائل، محمد اقبال کیلانی ، مکتبہ بیت السلام الریاض، سعودی عرب ، ص:18
  57. -Michele Barrette and Mary Mclntosh, The Anti –Social Family 2nd Ed (London: Verso Books, 1992), 12.
  58. -ماہنامہ، ترجما ن القرآن، دسمبر 2003 ء، ص:71
  59. = -Daniel Bell, The Coming of Post-Industrial Society: A Venture in Social Forecasting (London: Basic Books, 1976), 7. =
  60. -Jimmy Carter, Our Endangered Values: America’s Moral Crisis (New York: Simon & Schuster, 2005), 65.
  61. -Linda Eyre and Richard Eyre, Three Steps to a Strong Family (New York: Simon & Schuster, 1994), 47.
  62. -ایڈتھ وی۔ سولیوان (Edith V. Sullivan) (س۔ن): ڈاکٹر سولیوان سٹینڈ فورڈ یونیورسٹی سکول آف میڈیسن میں دماغی امراض اور کرداری علوم کی پروفیسر ہے۔
  63. -Encyclopedia Britannica, 59/9
  64. -جوڈی ہیے مین(پیدائش1959ء)میڈکل سکول آف میڈیسن ہارورڈ میں اسسٹنٹ پروفیسر میڈیسن اور سماجی رویے اور شعبہ صحت عامہ کی ڈائریکٹر ہے۔
  65. - ماہنامہ،افکارِمعلم،لاہور،جولائی 2006ء،ص17
  66. -ماہنامہ ، ترجمان القرآن، شادی خاندان کا مرکزی کردار، مارچ2001ء، ص47
  67. -عورت گوہر ہستی، آیت اللہ العظمی سید علی،ثقافتی نمائندہ اسلامی جمہوریہ ایران ، اسلام آباد، ص۲۰
  68. -ضرب کلیم:زمانہ حاضر کا انسان ، اقبال، علی گڑھ بک ڈپو، علی گڑھ ، 1675، ص7
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...