Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 34 Issue 1 of Al-Tafseer

اسلام میں سد ذرائع کی اہمیت |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

34

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060084478_499

Pages

174-189

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/111

Subjects

Sadd-e-Zaraai’a Islamic Law Sunnah.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

The Islamic laws prevent us from the evil deeds. As well as, according to Shariah, it is permissible and sometimes even compulsory to save the believers from the actions that may lead them towards the banned activities. Therefore, the ruling of prohibition from these types of activities is called Sadd-e-Zaree’a. This is the principle extracted from the Quran and Sunnah. As Almighty Allah forbade the believers to say ‘Ra’ina’ because this word was used by Jews knowingly in a wrong manner with evil intentions, whereas, Muslims presented their requests by this same word in the highest court of The Holy Prophet (peace and blessings be upon him) for seeking easiness and relaxation in their concerned matters. As in Quran: O People who Believe, do not say (to the Prophet Mohammed- peace and blessings be upon him), "Ra’ina (Be considerate towards us)" but say, "Unzurna (Look mercifully upon us)", and listen attentively in the first place. [Baqarah 2:104]. (To disrespect the Holy Prophet – peace and blessings be upon him – is blasphemy.) Another example by Hadith, in this regard, it is also evidenced by the good character of The Holy Prophet (peace and blessings be upon him) that sometimes He stopped himself intentionally from the permissible activities lest the common masses may involve in undesired activities on the basis of The Holy Prophet’s act. Concisely, keen consideration is required on rational basis when explaining the Shariah rulings of any matter. Otherwise, the beauty andbenefits of the Shariah may be lost. Consequently, to prevent from the future turmoil is actually the spirit of Sadd-e-Zaree’ah. As this is the actually basic need and prerequisite of Shariah. It saves and prevents its believers form expected turmoil. Therefore, if the risk of turmoil would trigger with committing the permissible activity it must be abandoned due to the risk of turmoil.

دین اسلام نے امربالمعروف ونہی عن المنکر کوبڑے واضح الفاظ میں بیان فرمایا اور کامیاب لوگوں کی صفت قراردیا جیساکہ ارشادباری تعالی ہے:

وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ

”اور وہ لوگ نیکی کاحکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں ۔یہی لوگ کامیاب ہیں۔“([1])

امربالمعروف ونہی عن المنکر بھی اس امت کی اہمیت و افضلیت کا ایک بنیادی سبب قراردیا جیسا کہ ارشادباری تعالی ہے:

كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ

”تم بہترین امت ہو جولوگوں میں ظاہرکی گئی کیونکہ بھلائی کاحکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو۔“ ([2])

شریعت اسلامیہ برائی سے روکتی ہے اورساتھ ہی برائی تک لے جانے والے اسباب سے بھی بچنے کا حکم دیتی ہے ۔برائی کی جانب لے جانے والے اسباب کی روک تھام کو سدذرائع سے تعبیرکیاجاتاہے۔

سدِذرائع کی تعریف

”ایساعمل جوفی نفسہ درست ہولیکن وہ مآل وانجام کےاعتبارسے یقینی طورپر فسادکی طرف لےجائیں۔ایسے عمل کی روک تھام کرنے کے لیے ممنوع قراردیناسدذرائع کہلاتاہے۔“

سید عبدالکریم زیدان اپنی مشہور و معروف کتاب “الوجیز فی اصول فقہ” میں لکھتے ہیں کہ :

”ذرائع وسائل کا نام ہے اور ذریعہ کسی چیز تک پہنچنے کےلیے وسیلہ یا راستہ کو کہتے ہیں ۔سدذرائع سے مرادوہ ذرائع جواپنی ذات میں تومباح اور جائز ہو لیکن ان سے حرمت کا دروازہ کھل جائے اوروہ افعال مفسد اشیاء تک پہنچانے والےہو اس لیے شریعت مطہرہ ان سے روکتی ہو۔“

لفظ ذرائع کا اطلاق زیادہ تر ان وسائل پر ہوتا ہے جو مفسد چیزوں تک پہنچاتے ہوں ، جب یہ کہا جائے کہ:

ھذامن باب سد ذرائع

”یعنی یہ چیز سد ذرائع کے قبیل سے ہے۔“

اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا تعلق ان وسائل کو روکنے کے باب سے جو مفسد چیزوں تک پہنچانے والے ہیں ۔([3])

قرآن کریم سدذرائع کا حکم دیتاہے

اللہ تعالی نے برائی سے روکا اور جو راستہ برائی کی طرف لے جانے والے ہیں ان راستوں سے بھی بچنے کا حکم دیا۔اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایمان والوں کو لفظ”راعنا” بولنے سے محض یہود کی مشابہت کی وجہ سے روک دیا حالانکہ مسلمانوں کی نیت اچھی تھی:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ([4])

اے ایمان والوں راعنا نہ کہو بلکہ کہو حضور ہم پر نظر کرم فرمائیں اور پہلے غور سے سن لو۔“

اس آیت کے تحت مفتی نعیم الدین مرادآبادی تفسیر ‘‘خزائن العرفان’’ میں لکھتے ہیں کہ:

”ہمہ تن گوش ہو جاؤ تاکہ یہ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے حضور توجہ فرمائیں کیونکہ دربار نبوت کا یہی ادب ہے۔ مسئلہ: دربار انبیاء میں آدمی کو ادب کے اعلیٰ مراتب کا لحاظ لازم ہے ۔مسئلہ ‘‘کافرین’’ میں اشارہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی جناب میں بے ادبی کفر ہے۔“ ([5])

حدیث رسولﷺبھی سدذرائع کاحکم دیتی ہے

خود نبی کریمﷺ کسی مصلحت کے پیش نظر اس بات کا اہتمام فرماتے کہ عمل جواز سے اجتناب بہتر ہے ایسا نہ ہو کہ لوگ سند جواز بنا کر فساد میں مبتلا ہوجائیں ۔امام بخاری حدیث کا باب ہی اسی انداز میں باندھتے ہیں:

باب من ترک بعض الاختیار مخافۃ ان یقصر فھم بعض الناس عنہ فیقعوا فی اشد منہ

”جس نے بعض اختیاری چیزوں کو اس خوف سے ترک کر دیا کہ بعض لوگوں کی عقلیں اس کو سمجھنے سے قاصر ہوں گی تو وہ کسی بڑے شر میں مبتلا ہوجائیں گے۔“

رسول ﷺ نے بعض امور کو محض اس لیے ترک کیا کہ کہیں فتنے کا دروازہ نہ کھل جائے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے :

قال لی ابن الزبیر انت عائشۃ الیک کثیرا، فما حدثتک فی الکعبۃ؟ قلت قالت لی قال النبی ﷺ یا عائشۃ لا قومک حدیث عھدھم قال ابن الزبیرِ بکفر لنقضت الکعبۃ فجعلت لھا باین باب یدخل الناس و باب یخرجون فقعلہ ابن الزبیر ([6])

”مجھ سے حضرت ابن الزبیر رضی اللہ تعالیٰ نے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تم کو بہت راز کی بات بتاتی ہیں تو کعبے کے بارے میں انھوں نے تم کو کیا بتایا ہے؟ حضرت عائشہ نے یہ بتایا کہ مجھ سے نبی کریمﷺ نے یہ فرمایا: اے عائشہ! اگر تمہاری قوم دورِ جاہلیت کے قریب نہ ہوتی، حضرت ابن الزبیر نے کہا: (یعنی) دورِ کفر کے قریب نہ ہوتی تو میں کعبے کو منہدم کر کے از سر نو تعمیر کرتا اور اس کے دو دروازے بنا دیتا، ایک دروازے سے لوگ کعبے میں داخل ہوتے اور دوسرے دروازے سے باہر نکلتے، پھر حضرت ابن ؛الزبیر نے کعبے کو اسی طرح بنا دیا۔“

حدیث مذکورہ کی توجیہ بیان کرتے ہوئے علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں کہ:

”مذکورہ حدیث میں کسی اختیاری چیز کو کسی حکمت کی وجہ سے ترک کر دینا ہے جیسے کعبے کی از سر نو تعمیر کرنا جائز تھا لیکن نبیﷺ نے اس حکمت کی وجہ سے اس کو ترک کر دیا کہ بعض نو مسلم جو زمانہ کفر کے قریب ہیں ، ان کے دلوں میں یہ چیز ناگوار ہوگی۔ اوراس وجہ سے کہ نبی کریمﷺ نے کعبے کو منہدم کرنے کا ارادہ ترک کر دیا کہ قریش کعبے کی بہت زیادہ تعظیم کرتے تھے تو اگر آپ یہ کام کر لیتے تو ان کے بدظن ہوجانے کا اندیشہ تھا، اس وجہ سے آپ نے اس کام کو ترک کر دیا۔“([7])

سدذرائع کی اہمیت مزید اس حدیث سے واضح ہوتی ہےجس میں رسول کریمﷺ نے حلال و حرام کا قاعدہ و کلیہ بیان فرمایا۔ شریعت اسلامیہ نے جہاں فساد موجود کا ازالہ کیا ہے وہیں فساد مظنون کا بھی ازالہ کیاہے۔اور مظنون حرام سے اجتناب کو اپنی عزت کی حفاظت ٹھرایا اور ایک حسین پیرائے میں مثال دے کر اس بات کو سمجھایا ۔

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ:میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: حلال ظاہر ہے اور حرام ظاہر ہے، اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں ، جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے، پس جو شخص مشتبہ چیزوں سے بچا، اس نے اپنے دین کی اور اپنی عزت کر لی اور جو شخص شبہات میں ملوث ہوگیا، وہ اس چرواہے کی طرح ہے، جو شاہی چراگاہ کے گرد اپنے مویشی چرائے، قریب ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائیں گے سنو! ہر بادشاہ کی ایک مخصوص چراگاہ ہوتی ہے، سنو ! اس زمین میں اللہ کی مخصوص چراگاہ اس کے حرام کیے ہوئے کام ہیں ، سنو! جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، جب وہ درست ہوا تو پورا جسم درست ہوتا ہے، اور جب اس میں فساد ہو تو پورا جسم فاسد ہوجاتا ہے، سنو! وہ دل ہے۔([8])

حضورﷺ بھی لوگوں کی عقل کا اعتبار کرتے اور حکم کی نوعیت اور وقت کا لحاظ کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں :

قال سمعت انسا قال ذکر لی ان النبی ﷺ قال لمعاذ من لقی اللہ لا بشرک بہ شیئا دخل الجنۃ۔ قال الا ابشر الناس؟ قال لا انی اخاف ان یتکل ([9])

”انھوں نے کہا میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سنا، انھوں نے کہا: مجھ سے یہ ذکر کیا گیا کہ بنیﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: جو شخص اللہ سے اس حال میں ملا کہ اس نے اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا ہو وہ جنت میں داخل ہو گا، حضرت معاذ نے کہا: کیا میں اس کی لوگوں کو بشارت نہ دے دوں ؟ آپ ﷺنے فرمایا: نہیں !مجھے خطرہ ہے کہ لوگ پھر اسی پر اعتماد کر لیں گے۔“

نبیﷺ نے اس بشارت کو مخفی رکھنے کا جو حکم دیا تھا۔اس وجہ سے تھاکہ کہیں لوگ ان بشارتوں پر اعتماد کر کے عمل سے کوسوں دور نہ ہوجائیں۔مزیداس میں کیا حکمتیں ہوسکتی ہے ۔اس حوالے سےعلامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں کہ:

۱۔اس بشارت کے ظاہر کرنے کا یہ تقاضا تھا کہ جس نے بھی توحید و رسالت کی گواہی دے دی، وہ دوزخ میں داخل نہیں ہوگا، جب کہ دلائل قطعیہ سے یہ ثابت ہے کہ جن موحدین نے گناہ کیے ہیں ، ان میں سے بعض کو دوزخ میں داخل کیا جائے پھر، اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے یا شفاعت کی وجہ سے دوزخ سے نکال لے گا اور چونکہ یہ معنی مخفی تھے، اس لیے آپ نے حضرت معاذ کو اس بشارت کا اعلان کرنے کا حکم نہیں دیا۔

۲۔اس حدیث کا محمل یہ ہے کہ جو اپنے تمام گناہوں پر توبہ کرنے کے بعد توحید اور رسالت کی گواہی دے اور اسی پر مر جائے، وہ دوزخ میں داخل نہیں ہوگا۔

۳۔یہ بشارت اکثر مسلمانوں کے لیے جو توحید اورسالت کی صدقِ دل سے گواہی دیتا ہے، وہ نیک عمل کرتا ہے اور گناہوں سے مجتنب رہتا ہے، وہ دوزخ میں داخل نہیں ہوگا۔

۴۔اس حدیث سے مراد یہ کہ جس نے توحید اور رسالت کی گواہی دی، وہ ہمیشہ دوزخ میں نہیں رہے گا، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اصلاً دوزخ میں داخل نہیں ہوگا۔

۵۔اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ اس کے پورے جسم کو دوزخ کا عذاب نہیں ہوگا، کیونکہ مسلمان کے جسم کے مواضع سجود کو اور کلمہ پڑھنے والی زبان کو عذاب نہیں ہوگا۔

۶۔ اس حدیث کا محمل یہ ہے کہ جس نے صدقِ دل سے کلمہ شہادت پڑھا اور اس کے تقاضوں پر عمل کیا، اس کو دوزخ کا عذاب نہیں ہوگا۔([10])

صحابہ کرام بھی سدذرائع فرماتے

صحابہ کرام بھی سدذرائع کا خیال فرماتے تھے کیونکہ صحبتِ رسولﷺ سے فیض یاب ہوکر وہ امت کےلئے روشن ستارہ بن چکے تھے:

حدثنا انس بن مالک ان النبی ﷺ۔ و معاذ ردیفہ علی الرحل۔ قال یا معاذ بن جبل قال لبیک ریا رسول اللّٰہ وسعدیک۔ قال یا معاذ۔ قال لبییک یا رسول اللّٰہ و سعیدیک ثلاثا، قال مام من احد یشھد ان الا الہ الا اللہ وان محمد رسول اللّٰہ صدقا من قلبہ الا حرمہ اللہ علی النار، قال یا رسول اللّٰہ افلا اخبر بہ الناس فیستبشروا؟ قال اذا یتکلو و اخبرابھا معاذ عند موتہ تاثما ([11])

”ہمیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی: نبیﷺ (سواری) پالان پر بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت معاذ آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا: یا معاذ بن جبل! انھوں نے کہا: میں حاضر ہوں یا رسول اللہ! آپ کی اطاعت کے لیے موجود ہوں آپ نے (دوبارہ کہا) یا معاذ! انھوں نے کہا: میں حاضر ہوں یا رسول اللہﷺ! اوار آپ کی اطاعت کے لیے موجود ہوں ! یہ تین بار مکالمہ ہوا آپ ﷺنے فرمایا: جو شخص بھی صدقِ دل سے یہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے اور محمد اللہ کے رسول ہیں ، اللہ اس کو دوزخ پر حرام کر دے گا۔ حضرت معاذ نے کہا یا رسول اللہ! کیا میں لوگوں کو اس کی خبر نہ دے دوں تاکہ وہ خوش ہوجائیں آپ ﷺنے فرمایا۔ پھر وہ اسی پر تکیہ کر لیں گے، اور حضرت معاذ نے اپنی موت کےوقت گناہ سے بچنے کے لیے اس کی خبر دے دی۔“

ہمارے اسلاف کرام سدذرائع کاخیال رکھتے تھے

ہمارے اسلاف بھی اس بات کا ادراک رکھتے تھے کہ فساد کے باب کو بند ہی رکھا جائے تاکہ لوگ گمراہی کی جانب مبذول نہ ہوجائیں جیسا کہ:

”جب خلیفہ ہارون رشید نے امام مالک سے ذکر کیا کہ وہ دوبار کعبہ کو منہدم کر کے اس طرح بنانا چاہتا ہے، جس طرح حضرت ابن الزبیر نے بنایا تھا، کیونکہ حضرت ابن الزبیر نے رسول اللہﷺ کی منشا کے مطابق کعبہ کو بنا دیا تھا، جس کو حجاج بن یوسف نے منہدم کر کے دوبارہ قریش کی تعمیر کے مطابق بنا دیا تھا، جب ہارون الرشید نے اپنا ارادہ ظاہر کیا تو امام مالک نے اس سے کہا: اے امیر میں آپ کو قسم دیتا ہوں ، آپ ایسا نہ کریں ورنہ ہر بادشاہ اپنی نام آوری کیلئے کعبے کو منہدم کر کے از سر نو بناتا رہے گا اور لوگوں کے دلوں سے کعبے کی ہیبت نکل جائے گی۔“([12])

اس سے یہ معلوم ہوا کہ جب کوئی کام کرنا صحیح ہو، لیکن اس کام کے کرنے سے زیادہ ضرر کا اندیشہ ہو تو اس کام کو ترک کر دینا چاہیے اور لوگوں کو متنفر کرنے سے احتراز کرنا چاہیے ۔

سدذرائع کی اقسام

وہ افعال جو مفسد اشیاء تک پہنچاتے ہیں ۔ذرائع کا تعلق یاتو فاسد اور حرام سےہوگایاپھروہ اپنی ذات میں تومباح اور جائز ہیں لیکن ان سے حرمت کا دروازہ کھل جائے گا اس لیے شریعت مطہرہ اس سے روکتی ہے۔

ذرائع کا تعلق اگرفاسد اور حرام سےہوگاتویہ ذرائع اپنی طبیعت و مزاج ہی سے شر اور فساد کی طرف لے جاتے ہیں جیسے نشہ آور چیز کا استعمال انسانی عقل کو مفسد کردیتا ہے۔ اور تہمت زنا جس کی وجہ سے مقذوف کا دامن میلا ہوتاہے۔ اور زنا جس کی وجہ سے نسب خلط ملط ہوجاتا ہے۔محض مفسد اشیاء کی طرف سبب کا اعتبار نہیں بلکہ ان اسباب کا اعتبار کیا جائے گا جو اکثری سبب ہیں اور جن کی وجہ سے انسان حرام میں یقینی طور پر مبتلا ہوسکتا ہے لہذا مفسد اشیاء کی طرف سبب کی کئی اقسا م ہیں ۔سید عبدالکریم زیدان اپنی مشہور و معروف کتاب “الوجیز فی اصول فقہ” میں لکھتے ہیں کہ :

پہلی قسم

وہ افعال جو شاذ و نادر ہی خرابی کا ذریعہ بنتے ہیں ۔ اس میں فائدہ راجح اور نقصان مرجوع ہوتا ہے جیسے منگیتر کی طرف دیکھنایا اس کے بارے میں گواہی دینا اور انگور کاشت کرنا۔ پس یہ افعال مفاسد کا ذریعہ بن سکتے ہیں اس دلیل کی وجہ سے انھیں ممنوع نہیں کہا جاسکتا اس لیے کہ ان افعال سے پیدا شدہ خرابی میں ایک راجح مصلحت پوشیدہ ہے اور یہ اصول احکام کی مشروعیت کے بارے میں شریعت کے نقطہ پر دلالت کرتا ہے۔ اس میں علماء کا کوئی اختلاف نہیں ۔ پس شارع نے عدت کے ختم ہونے میں عورت کے قول کو قبول کیا، باوجود اس کہ اس میں جھوٹ کا احتمال موجود ہے اور ایک شخص کی روایت قبول کی جاتی ہے اس کے عدل کی وجہ سے جب کہ یہ احتمال موجود ہے کہ اس نے صحیح بات نہ کی ہو لیکن یہ تمام احتمالات مرجوع ہیں لہٰذا شارع نے ان کی طرف التفاف نہیں کیا اور نہ ان کو قابل اعتبار سمجھا۔

دوسری قسم

وہ افعال جو کثرت سے خرابی کا ذریعہ بنتے ہیں اور ان کا فساد مصلحت سے زیادہ راجح ہے جیسے فتنے کے زمانے میں اسلحہ کی خرید و فروخت، اس شخص کو زمین کرائے پر دینا جو اس کو حرام کام کےلیے استعمال کرے جیسے جوئے کا اڈہ بنانا، اور مشرکین کے باطل معبودوں کوان کی موجودگی میں گالیاں دینا جب کہ یہ جانتا ہو کہ وہ بھی اللہ کو گالی دیں گے جب وہ گالی گلوچ سنیں گے اور ایسے آدمی کو انگور بیچنا جس کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ اس کی شراب بنائے گا۔

تیسری قسم

وہ ذرائع ہیں کہ اگر مکلّف شخص ان کا استعمال ایسے ذرائع میں کرے جو اس کے خلاف اور غیر موزوںنہ ہوں تو ان سے خرابی کی طرف چلا جائے، جیسے وہ شخص جو نکاح کو اپنی مطلقہ ثلاثہ بیوی کو حلال کرنے کی غرض سے وسیلہ بنائے، اسی طرح وہ شخص جو بیع کو سود کو حاصل کرنے کے لیے وسیلہ بنائے جیسے کپڑا ادھار بیچنا ایک ہزار قیمت میں اور نقد نوسو روپے میں ، اس جگہ فاسد چیز کو ترجیح دی جائے گی۔([13])

مذکورہ اقسام سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ہر وسیلے کا اعتبار نہیں کیا جائے گا کیونکہ ہر وسیلے کا اعتبار کرنے میں انسانی زندگی حرج میں مبتلا ہوجائے گی انسانی زندگی کا دشواری میں مبتلا ہونا مزاج شریعت کے خلاف ہے لہٰذا ان تینوں وسائل کے بارے میں ابن قیم کاقول قبول کرتے ہیں۔ ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:

” جب مقاصد ایسے ہوں کہ جن تک رسائی ممکن نہ ہو مگر صرف اسباب و ذرائع کے ساتھ اور وہ ان مقاصد تک پہنچانے والے ہوں تو وہ ذرائع اور اسباب ان کے تابع ہوں گے اور انھی کی وجہ سے معتبر ہوں گے۔ پس حرام اور معاصی کے وسائل مکروہ ہوں گے اس لیے کہ وہ اس مقصد حرام تک پہنچانے والے ہیں اور ان مقاصد کے ساتھ ان کا ربط ہے۔ اور وہ وسائل جو اللہ کی طاعت اور قرب تک پہنچانے والے ہیں وہ اپنے مقصد کی وجہ سے پسندیدہ ہیں ، پس ان مقاصد کی طرف پہنچانے اور ان کی غایت کے اعتبار سے ان کی اجازت ہے۔ کسی مقصد کا وسیلہ اسی مقصد کے تابع ہوتا ہے اور وہ دونوں ہی مقصود ہوتے ہیں لیکن ان میں ایک غایت کی وجہ سے مقصود ہے اور ایک وسائل کی وجہ سے۔“

حدودکانفاذسد ذرائع کے لیے ہے

دین اسلام معاشرے میں تطہیر کو عام کرنا چاہتا ہے اور اللہ کے قانون کی بالادستی کو نافذ کرنا اس کی اولین ترجیح ہے یہ اس وقت ممکن ہے جب معاشرے میں فساد نہ ہو اور نہ ایسا راستہ کھلا ہو جو لوگوں کو آسانی سے فساد میں مبتلا کر دے ازالہ فساد یعنی فساد کو ختم کرنا اسی لیے حدوداورتعزیر کا نفاذ وجود میں آجا تاہے اللہ تعالی نے قرآن پاک میں فرمایا:

وَلَکُمْ فِیْ الْقِصَاصِ حَیَاۃٌ یَاْ أُولِیْْ الأَلْبَابِ َ ([14])

”قصاص میں تمھارے لیے حیات ہے اے عقل والو۔“

مراد اس سے یہی ہے کہ مجرم سزا پائے گا اور جرم کا سوچنے والا جرم سے رک جائے گا۔تفسیر خزائن العرفان میں ہے:

”قصاص مقرر کرنے سے لوگ قتل کرنے سے باز رہیں گے اور جانیں بچیں گی۔“([15])

شرعی سزاؤں میں حد اسی سبب ہے کہ جیسا کہ ”حکمتہ التشریح و فلسفہ ترجمہ شریعت اسلامیہ کی حکمت و فلسفہ“ شیخ علی احمدمترجم پروفیسر ذوالفقار علی ساقی لکھتے ہیں کہ:

”جو شخص گناہ یا جرم کا ارتکاب کرتا ہے اگرچہ رب تعالیٰ نے روزِ حشر اس کے لیے عذاب مقرر کیا ہے لیکن یہ لوگوں کو ایسے جرم کے ارتکاب سے نہیں روکتا جو دنیا زندگی میں عمومی اور خصوصی امور کو نقصان دیتا ہے۔ اسی طرح بعض لوگوں کے پاس قوت اور طاقت ہوتی ہے کمزور اور ناتواں ان سے اپنا حق لینے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس سے حقوق ضائع ہوتے ہیں اور فساد پھیلتا ہے، اسی لیے حدود کو شرعی طور پر نافذ کیا گیا ۔ یہ ہر زمان و مکان کی بشر کی راحت کی کفیل ہیں حتیٰ کہ وہ جرائم ختم ہوجائیں جن کا ارتکاب کیا جاتا ہے اور ہر وہ فعل جو زمین میں فساد کا سبب بنے۔ اس کی اصلاح صرف سزا کے ذریعے ممکن ہوتی ہے۔“([16])

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ:

”حد در حقیقت لوگوں کو گناہوں سے دور رکھنے کےلیے ہے وجہ یہ ہے کہ اس میں تکلیف کا پہنچانا اور اس کو اس فعل سے روکنا مقصود ہوتا ہے اور اس میں یہ راز ہے کہ حکمت الٰہی کا مقتضیٰ ہے کہ اس شخص کی جا ن یا مال سے اس عمل کی سزا دی جائے پس حد قائم کرنا جزا دینے میں ہے ۔“([17])

سد ذرائع میں لوگوں کی عقل کا لحاظ رکھنا بے انتہا ضروری ہے

لوگوں کی عقل کا لحاظ رکھنا بے انتہا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر تعلقات کا حسن بگڑ سکتا ہے ۔فساد مظنون کا ازالہ ، درحقیقت سد ذرائع سے ہے کیونکہ محض ظن کا شریعت مطہرہ اعتبار نہیں کرتی لیکن ظن غالب کا اعتبار کرتی ہے تاکہ فساد میں انسان مبتلا نہ ہوجائے۔جب یہ خطرہ ہو کہ کسی صحیح کام سے لوگ اپنی کم فہمی کی وجہ سے شر میں مبتلا ہوں گے تو اس کام کو ترک کر دیا جائے:

وقال علی حدثوا الناس بما یعرفون اتحبون ان یکذب اللّٰہ ورسولہ

”حضرت علی نے فرمایا: لوگوں سے ایسی احادیث بیان کرو، جن کو وہ سمجھ لیں ، کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی جائے۔“

اس سے حضرت علی کی مراد یہ ہے کہ لوگوں سے ان کی عقلوں کے مطابق کلام کرو، جو چیز ان کے نزدیک غیر معروف ہو، اس کو چھوڑ دو، تم کسی قوم کو ایسی حدیث نہ بیان کرو، جس کی ان کی عقلوں تک رسائی نہ ہو، ورنہ وہ حدیث ان لوگوں کے لیے فتنہ ہوجائے گی۔

سدذرائع کا اعتبار کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اگر اس کا خیال نہ کریں تو عوم الناس کےگناہ میں ضرور مبتلا ہونے کا قوی اندیشہ ہے ،جیسا کہ سید عبد الکریم زیدان لکھتے ہیں کہ:

”فساد مظنون کا اعتبار کرنا بے انتہا ضروری ہے ورنہ فساد یقین میں مبتلا ہونا لازم آئے گا۔ فساد کا احتمال اگرنادر، قلیل یا مرجوع ہوتو وہ اس فعل کے لیے مانع نہیں اور ہماری بات اس بارے میں ہے کہ جب ذرائع فساد کی طرف لے جائیں اور پوری طرح اور غالب گمان یہ ہو کہ فساد واقع ہوجائے گا اور ظن راجح شرعی احکام میں عمل کے اعتبار سے معتبر ہے، اس کے ثبوت کے لیے یقین کی شرط نہیں ، اور ہم نے وہ مثالیں بیان کر دی ہیں جو احکام ان کے غالب ہونے کی بنیاد پر شارع نے ہمیں دیے ہیں جیسے خبر واحد، شہادت اور عدت کی مدت ختم ہونے کے بارے میں عورت کا قول قبول کرنا۔ اور یہ احکالیےم راجح مصلحتوں کو پورا کرنے کےدیے گئے ہیں اگرچہ ان میں مرجوع مفاسد بھی داخل ہیں ، اس لیے کہ اس میں یہ احتمال موجود ہے کہ خبر دینے والے یا گواہ نے یا عورت نے جھوٹ کہا ہو۔“([18])

سدذرائع کااعتبار کرناموافق شریعت ہے

سدذرائع کا اعتبار شریعت اسلامیہ بھی کرتی ہوئی نظر آتی ہے جیسا کہ جمعے کی اذان سے بیع وشراء کی ممانعت ہونا حالانکہ ممانعت کا وقت نماز ہے، لیکن اذان ہی کے وقت ممنوع قرار دینا اس لیے ہے تا کہ ارتکاب حرام سے کوسوں دور رکھاجائے اور احتیاط کادامن مضبوطی سے پکڑاجائےاس حوالے سے سید عبد الکریم زیدان لکھتے ہیں کہ:

”پس جب وہ خاص حالات کی وجہ سے اس فساد کی طرف لے جائے تو وہ ممنوع ہےاور بیع مباح ہے لیکن جمعہ کی نماز کی اذان کے وقت ممنوع ہے۔ اور مشرکین کے باطل معبودوں کو برا بھلا کہنا مباح ہے لیکن اس وقت یہ ممنوع ہوگا جب وہ ردعمل میں اللہ تعالیٰ کو گالی گلوچ کریں ، جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا، اور چوری کی وجہ سےہاتھ کاٹنا فرض ہے لیکن جنگ اور جہاد میں اس کو موخر کرنا ضروری ہے۔ نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ جنگ کے زمانےمیں ہاتھ نہ کاٹیں کہ کہیں وہ بھاگ کر دشمنوں کے ساتھ نہ مل جائے۔ اور یہ کہ ہدیہ دینا مباح ہے بلکہ حدیث کی وجہ سے مستحب ہے کہ ایک دوسرے کو ہدیہ ددو اس سے محبت بڑھتی ہے، لیکن مقروض کے لیے قرض خواہ کو ہدیہ دینا ممنوع ہے اگر اس سے پہلے ان کے درمیان ہدیہ دینے کی عادت مقرر نہ ہو۔ اس کے ممنوع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہدیہ سود ذریعہ بن جائے گا۔ اور منکرات سے روکنا واجب ہے اور اگر یہ کسی بڑے منکر کا ذریعہ بنے تو اس کا ترک جائز ہے۔“

کتاب و سنت کے اندر ہمیں اس کی کئی مثالیں اور نظیر یں نظر آتی ہیں مثلاًنشہ آور اشیاء کی تھوڑی سی مقدار کو بھی حرام قرار دینا کیونکہ تھوڑی مقدار کثرت مقدار کا ذریعہ بنتی ہے لہٰذا تھوڑی مقدار ہی سے روک دیا جائے اجنبیہ عورت کے ساتھ تنہائی میں یکجا ہونے کا حرام ہونا کیونکہ اس سے گناہ کی طرف میلان آسان ہوجاتا ہے ایسی کئی مثالیں اصول فقہ کی کتابوں سے ملتی ہیں۔“ ([19])

موجودہ دور سدباب کےاعتبارسے بہت ضروری ہے کیونکہ اس دور میں لوگ شراب کانام بدل کر پی رہے ہیں جبکہ وہ شراب ہی ہے۔ اسی دور کے حوالے سے نبی کریم ﷺ نے فرمایاتھا ایک ایسا دورآئے گا لوگ شراب کانام بدل کر پیئیں گے۔لہذاآج سدذرائع بہت ضروری ہے۔ اس حوالے سے سید عبد الکریم زیدان لکھتے ہیں کہ:

٭ شراب کے ایک قطرےکی حرمت کی اس وجہ سے ہے کہ یہ گھونٹ گھونٹ پینے کا ذریعہ نہ بن جائے اور گھونٹ گھونٹ پینا اس شراب کا ذریعہ نہ بن جائے جو نشہ لائے اور وہ اس میں مبتلا ہوجائے، اس سے روکا گیا۔ اسی وجہ سے حدیث میں آتا ہے کہ جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ آور ہو اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے اور علت وہی ہے جو پہلے بیان ہوئی۔

٭ اجنبیہ عورت کے ساتھ خلوت حرام ہے اس وجہ سے کہ کہیں وہ گناہ کی طرف نہ لے جائے۔

٭ حالت عدت میں نکاح کرنا اگرچہ وطی موخر کرے حرام ہے۔علت یہ ہے کہ ایسے فعل کی ممانعت ہے جو عدت ختم ہونے سے پہلے دخول کا ذریعہ بنے۔

٭بیع اور قرض کو اکٹھا کرنے سے حضورﷺ نے منع فرمایا ہے تاکہ ان کا ملاپ سود کا ذریعہ نہ بن جائے۔

٭شارع کی جانب سے قاضی اور حاکم کے ہدیہ قبول کرنے پر اس شخص سے جو اس عہدےسے پہلے ہدیہ نہ دیتا ہو۔ نہی وارد ہے۔ علت یہ ہے کہ ہدیہ باطل تحفوں کا ذریعہ نہ بن جائے۔

٭نبیﷺ کا یہ حکم کہ وہ شخص جسے کوئی چیز ملے تو وہ اس پر کسی کو گواہ بنا لے باوجود اس کے کہ وہ امین ہے، سد ذرائع کرتے ہوئے یہ حکم دیا کہ وہ الالچ کی وجہ سے چھپا نہ لے۔

٭شارع نے اس سے منع کیا ہے کہ کوئی اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر اپنا پیغام نکاح بھیجے یا اپنے بھائی کے بھاؤ لگائے یا وہ چیز بیچ رہا ہو تو وہ اس پر اپنی چیز بیچے بعض اور آپس کی دوری سے بچاتے ہوئے۔

٭نبیﷺ نے ذخیرہ اندوزی سے منع فرمایا اور ایک شخص کے لیے آپﷺ فرمایا کہ ذخیرہ اندوزی نہیں کرتا مگر خطا کار، اس لیے کہ یہ عمل لوگوں کو روزمرہ کی چیزوں سے تنگی میں مبتلا کرنے کا ذریعہ ہے۔

٭شارع نے زکوٰۃ دینے والے کو اپنے صدقے کو دوبارہ خریدنے سے منع کیا ہے چاہے وہ اس کو بازار میں بکتا ہوا پائے۔ وجہ یہ ہے کہ کسی محتاج سے کم قیمت پر نہ خریدے۔

٭شارع نے قرض دینے والے کو اپنے مقروض سے ہدیہ قبول کرنے سے روکا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ کہیں وہ اس کو بھی اپنے قرض میں شمار نہ کرلے۔

٭یہ دلائل اور اس جیسے دوسرے دلائل اس بات کی واضح حجت ہیں کہ سد ذرائع ادلہ احکام میں سے ایک دلیل ہے۔

فقہ کا اصول ہے ظن غالب کو ملحق بیقین کا درجہ دیا جاتا ہے اسی وجہ سے اسلحہ کی بیع دہشت گردوں سے کرنا جائز نہیں جیسا کہ اسلحہ کی بیع اس شخص کو باطل ہے جس کے بارے میں یہ یقین ہوکہ وہ دشمنی کی وجہ سے پرامن لوگوں پر اس کا استعمال کرے گا۔ اور انگور کی بیع اس شخص کو باطل ہے جس کے بارے میں یہ یقین ہوکہ وہ اس کے شیرے سے شراب بنائے گا اس لیے کہ یہ گناہ کے کام میں مدد کرنا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی وجہ سے جائز نہیں ۔

وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَی وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ([20])

” اورنیکی اور پرہیز گاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔ “

موجودہ دور میں سدذرائع کے سبب احکام میں تبدیلی

شریعت تحصیل مصلحت سے زیادہ ازالہ فساد کو ترجیح دیتی ہے جیسا کہ مفتی نظام الدین لکھتے ہیں کہ:

”مفاسد کا ازالہ مصالح کے حصول سے اہم وراجح ہے ۔لہٰذا جب کسی محفل میں مفسدہ بھی پایا جائے اور مصلحت بھی تو زیادہ تر مفسدہ کے ازالے کو ترجیح ہوگی اس لیے کہ شریعت نے مامورات کے ازالے کو اہمیت دی ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :جب تمھیں کسی چیز کا حکم دوں تو اسے بجا لاؤ جتنی تمھیں استطاعت ہو اور جب تمھیں کسی چیز سے روکوں تو اس سے بچو احتراز کرو ۔(یعنی ممنوعات سے بچنے میں استطاعت کی قید نہیں رکھی۔)اور یہی وجہ ہے کہ دفع مشقت کے لیے ترک ِ واجب جائز ہے لیکن ممنوعات خصوصاً کبائر پر اقدامات کی اجازت نہیں دی گئی۔“

فساد مظنون بظن غالب کا ازالہ فقہ کے قاعدے

درء المفاسد اولی من جلب المصالح

”مفاسد کو دور کرنا اصول مصالح سے اولیٰ ہے۔“

کیونکہ جب کسی مقام پر مفاسد بھی پایا جائے اور مصلحت بھی ہو تو زیادہ تر مفسدہ کے ازالہ کو ترجیح دی جائے گی اسی بنا پر جب حلال ااور حرام کا اجتماع ہو تو حرام ترجیح پاتا ہے فقہاء کرام اس قاعدے کو اس طرح سمجھاتے ہیں کہ روزہ رکھنا حکم الہٰی کو بجا لانا ہے اور اللہ پاک کی بارگاہ میں مقبول ہونے کا ذریعہ ہے لیکن اگر کسی شخص نے عیدین کے دن روزہ رکھنے کی منت مانی تو وہ منت کو پورا کرنے کا حکم ان ایام کے علاوہ میں دیتے ہیں کیونکہ یہ ایام اللہ کی جانب سے بندوں کے لیے ضیافت کے ایام ہیں لہٰذا اللہ کی ضیافت سے اعراض لازم آئے گا جو مفسدہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس دن روزہ رکھنا حرام ہے۔([21])

عورت کا اپنی مرضی سے غیر کفو کے ساتھ نکاح جائز مگر اب باطل ہے

عورت کا اپنی مرضی سے غیر کفو کے ساتھ نکاح جائز مگر اب باطل ہے کیونکہ ابتداءجواز کا حکم تھامگر بعد میں فساد ظاہر ہونے لگا کہ نکاح کے سبب خون خرابہ بپا ہونے لگا کیونکہ لوگوں میں غیرت کے نام پر قتل کو فخر سمجھا جانے لگا ۔ لہٰذا فقہاء نے کہا کہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا چنانچہ آزاد، عاقل، بالغ عورت اپنی مرضی سے نکاح غیر کفو کے ساتھ کر لے تو امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا مذہب یہ ہے کہ یہ نکاح جائز و منعقد ہے البتہ ولی اقرب کو اس پر حق اعتراض حاصل ہوگا کہ وہ چاہے تو فسخ کرا دے اور چاہے تو باقی رکھے ایسا ہی عامہ کتب فقہ میں ہے۔ لیکن بعد میں فساد زمان کی وجہ سے مشائخ مذہب نے حضرت امام حسن بن زیاد رحمتہ اللہ علیہ کی اس روایت پر فتویٰ دیا کہ نکاح منعقد ہی نہ ہوگا۔

امام قاضی خان اور امام احمد رضا خان کا بھی یہی فتویٰ ہے۔ شرح و قایہ میں ہے:

واما مسالۃ الکفو ففی ظاھر الروایۃ: النکاح من غیر کفو ینعقد لکن للولی الاعتراض ان شاء فسخ وان شاء اجاز۔ وفی روایۃ الحسن عن ابی حنیفۃ: لا ینعقد۔ ا ھ و فیہ ایضاً وعلیہ فتوی قاضی خان ([22])

” ظاہر الروایہ یہ ہے کہ عورت غیر کفو کے ساتھ نکاح کرلے تو نکاح منعقد ہوجائے گا لیکن ولی کو (ننگ و عار کاضرر دور کرنے کے لیے) اعتراض کا حق حاصل ہوگا کہ وہ چاہے تو فسخ کر دے اور چاہے تو نافذ کر دے اور امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ سے امام حسن بن زیاد کی روایت یہ ہے کہ نکاح منعقد نہ ہو۔ اور اسی پر امام قاضی خان کا فتویٰ ہے۔“

فتاوٰی رضویہ میں ہے:

”اور روایت مفتی بہ مختار للفتویٰ یہ ہے کہ بالغہ ذات الاولیا جو اپنا نکاح غیر کفو سے کرے وہ اسی وقت صحیح ہوسکتا ہے کہ ولی شرعی پیش از نکاح صراحۃً اپنی رضا مندی ظاہر کرے اور وہ جانتا بھی ہو کہ یہ شخص کفو نہیں ۔“

در مختار میں ہے:

و یفتی فی غیر الکفو بعدم جوازۃ اصلاً و ھو المختار للفتوی لفساد الزمان فلا تحل مطلقۃ ثلثا نکحت غیر کفر بلا رضا ولی بعد معرفتہ ایاہ فلیحفظ۔

عورت نے اپنے طور پر غیر کفو کے ساتھ نکاح کر لیا تو فتویٰ یہ ہے کہ نکاح بالکل منعقد نہ ہوگا۔فساد زمانہ کی وجہ سے یہی قول مختار للفتوٰی ہے۔ لہٰذا گر تین طلاق والی عورت نے کسی غیر کفو سے نکاح کر لیا اور ولی اس غیر کفو سے آگاہ ہو کر اس سے رضا مند نہ ہوا تو وہ پہلے شوہر کے لیے حلال نہ ہوگی(یہ حلالہ معتبرنہیں)۔“ ([23])

دیہات میں جمعہ

اسی طرح دیہات میں جمعہ کے متعلق منع فرمایا کہ یہ مذہب امام اعظم رحمتہ اللہ علیہ ہے۔ لیکن بعد میں ضرورت و مصلحت کے تحت مذہب اصل سے عدول کیا اور حکم جواز رکھا چنانچہ مفتی احمدرضاخان نے اپنے متعدد فتاویٰ میں یہ وضاحت فرمائی ہے کہ:

” دیہات میں جمعہ کی نماز جائز نہیں ۔ امام اعظم علیہ الرحمہ کا مذہب یہی ہے مگر ایک فتویٰ میں آپ نے بعض دینی مصالح کی بناپر اس سے عدول کر کے امام ابو یوسف رحمتہ اللہ علیہ کی روایت نادرہ پر عمل کی اجازت دی ہے۔ “

آپ رقم طراز ہیں :

”فی الواقع دیہات میں جمعہ و عیدین بالاتفاق ائمہ احناف رضی اللہ تعالیٰ عنہم ممنوع و ناجائز ہے جو نماز شرعاً صحیح نہیں اس سے اشتغال روا نہیں ۔“

فی الدر المختار: وفی القنیۃ صلاۃ العید فی القری تکرہ تحریما ای لانہ اشتغال بما لا یصیح، فی درالمختار: و مثلہ الجمعۃ

”درمختارمیں ہے کہ دیہات میں عید کی نماز مکروہ تحریمی ہے ۔اس میں مشغول ہونا درست نہیں۔اور جمعہ بھی عید کی نماز کی مثل ہے۔“

ہاں ایک روایت نادرہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ سے آئی ہے کہ جس آبادی میں اتنے مسلمان مرد و عاقل، بالغ ایسے تندرست جن پر جمعہ فرض ہوسکے آباد ہوں کہ اگر وہاں کی بڑی سے بڑی مسجد میں جمع ہوں تو نہ سما سکیں یہاں تک کہ انھیں جمعہ کے لیے مسجد جامع بنانی پڑے وہ صحت جمعہ کے لیے شہر سمجھی جائے گی۔ امام اکمل الدین بابرتی عنایہ شرح ہدایہ میں فرماتے ہیں :

”جس گاؤں میں یہ حالت پائی جائے اس میں روایت نوادر کی بنا پر جمعہ و عیدین ہوسکتے ہیں اگرچہ اصل مذہب کے خلاف ہے مگر اسے بھی ایک جماعت متاخرین نے اختیار فرمایا اور جہاں یہ بھی نہیں وہاں ہرگز جمعہ و عید مذہب حنفی میں جائز نہیں ہوسکتا بلکہ گناہ ہے۔“([24])

اس فتوے کے بعد بھی مولانااحمدرضاخان نے دیہات میں جمعہ کے عدم جواز کا حکم جاری کیا ہے اس کی وجہ اس ناچیز راقم السطور کے خیال میں یہ ہے کہ جواز کا فتویٰ کسی اہم دینی مصلحت کی بنا پر دیا تھا اس لیے جہاں وہ مصلحت پائی جائے حکم جواز کا ہوگا اور جہاں نہ پائی جائے وہاں حکم اصل مذہب کے مطابق عدم جواز کا ہوگا۔

ایک مسجد کاسامان دوسری مسجدمیں دینا

بسااوقات مسجد کا سامان زائد ہوجاتاہےاگر اسے دوسری مسجدمیں نہ دیاجائے تومال کاضیاع ہوگا لہذا موجودہ وقت میں اس کی اجازت ہوگی۔مسجد کے سامان کو دوسری مسجد میں دینا ابتداً منع تھا لیکن فقہائے کرام نے زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کا مشاہدہ کیا کہ لوگ تعاون علی البر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں لہٰذا مسجد کے سامان کی منتقلی کی اجازت دے دی گئی ۔جب کے ماضی میں اس کے برخلاف حکم تھا جیسا کہ فتاویٰ رضویہ میں ہے:

لا یجوز نقلہ و لا نقل مالہ الی مسجد اخریجوز للقیم شری المصلیات للصلاۃ علیھا ولایجوز اعارتھا لمسجد اخر ([25])

”ایک مسجد کے سامان کو دوسری مسجد میں منتقل کرنا جائز نہیں۔ اور دوسری مسجد میں ان چیزوں کو عاریت دینا بھی جائز نہیں ۔“

مگر بعد کے فقہائے کرام نے جب اپنے زمانے کے بدلے ہوئے حالات کا مشاہدہ کیا کہ لوگوں میں خدا ترسی پہلے سے بڑھ گئی ہے ۔انہوں نے اصل مذہب کے برخلاف ایسی مسجدوں کے اسباب کو دوسری مسجد میں منتقل کرنے کی اجازت دے دی۔ چناں چہ امام احمد رضاقدس سرہ فرماتے ہیں :

”جو مسجد ویران ہوچکی ہو اس کی آبادی کی صورت نہ ہو، اور اس کے آلات کی حفاظت نہ ہوسکے تو اب فتویٰ اس پر ہے کہ اس کے کڑی، تختے وغیرہ دوسری مسجد میں دیے جاسکتے ہیں۔“([26])

عورت کے ارتدار سے نکاح فسخ نہ ہوگا

ظاہر مذہب یہ ہے کہ زوجین میں سے کوئی ایک ارتداد کرے تو نکاح فوراً فسخ ہوجائے گا لیکن اب ایسا نہیں کہ عورت اسلام سے پھر جائے تو نکاح فسخ ہو ۔وجہ یہ ہے کہ عورتیں جلد باز اور کم عقل زیادہ ہوتی ہیں اس حکم سے وہ اپنے لیے فاسد راہ اختیار کرنا شروع کرسکتی ہیں لہٰذا اب عورت کی ارتدار سے نکاح فسخ نہ ہوگا۔

اب فتویٰ اس پر ہے کہ عورت ارتداد کے سبب نکاح سے خارج نہیں ہوتی۔ مفتی احمد رضا خان فرماتے ہیں :

اب فتویٰ اس پر ہے کہ مسلمان عورت معاذ اللہ مرتد ہوکر بھی نکاح سے نہیں نکل سکتی۔ وہ بدستور اپنے مسلمان شوہر کے نکاح میں ہے:

و من ذلک افتائی مرار ابعدم انفساخ نکاح امراۃ مسلم بارتدادھا لما رایت من تجاسر ھن مبادرۃ الی قطع العصمۃ ([27])

”اسی وجہ سے میں نے بارہا فتویٰ دیا کہ مسلمان کی بیوی کا نکاح اس کے مرتد ہونے سے فسخ نہ ہوگا۔ کیوں کہ میں نے عورتوں کو عصمتِ نکاح سے نکلنے میں جلد باز و جری دیکھا۔“

عورتوں کوفساد زمانہ کی وجہ سے جماعت سے روک دیاگیا

عورتوں کی مسجد کی حاضری عہدِ رسالت میں جماعت اور جمعہ و عیدین کی لیے حاضر ہوا کرتی تھیں ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فساد زمانہ کی وجہ سے ان کو روک دیا۔لوگوں نےحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کی شکایت کی۔آپ نے فرمایااگرنبی کریمﷺوہ حالات مشاہدہ فرماتے جوحضرت عمررضی اللہ عنہ مشاہدہ فرمارہے ہیں تووہ تم کومسجد جانے کی اجازت نہ عطافرماتے۔پھر فقہاء نے لوگوں کی طبیعتوں کا لحاظ کرتے ہوئے عورتوں کے لیے پابندی لگا دی۔

عن عائشہ قالت لوادرک رسول ﷺمااحدث النساء لمنعھن المسجد([28])

”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا:اگر رسولﷺ عورتوں کا یہ حال دیکھتے توضرورانھیں مسجد آنے سے منع فرمادیتے۔“

 

حوالہ جات

  1. ۔آل عمران:۱۰4
  2. ۔ آل عمران:۱۱۰
  3. ۔ زیدان ، سیدعبدالکریم ،الوجیزفی اصول الفقہ ،مکتبہ رحمانیہ اردوبازار،لاہور،ص290
  4. ۔ البقرہ:۱۰۴
  5. ۔مرادآبادی،مفتی نعیم الدین،تفسیر ِخزائن العرفان،ناشر پاک کمپنی،ص۲۹
  6. ۔ بخاری،امام ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل،حدیث :۱۲۶،قدیمی کتب خانہ ،کراچی،ج۱،ص۲۴۵
  7. ۔ شارح علامہ غلام رسول سعیدی,نعمۃالباری شرح بخاری ،فرید بک اسٹال، لاہور،ج۱،ص۲۴۳
  8. ۔ بخاری ،امام ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل،حدیث :۱۹۶،قدیمی کتب خانہ،کراچی،ج۱،ص۲۴۳
  9. ۔ ایضاً،حدیث :۱۲۸،قدیمی کتب خانہ ،کراچی، ج۱،ص۱۳۴
  10. ۔ سعیدی ، علامہ غلام رسول ،نعمۃالباری شرح بخاری ،فرید بک اسٹال ،لاہور،ج۱،ص۲۴۳
  11. ۔ ایضاً،حدیث نمبر ۱۲۶، فرید بک اسٹال،لاہور،ج۲،ص۲۳۴
  12. ۔ مالکی،قاضی عیاض بن موسیٰ ،اکمال المعلم بفوائدمسلم،دارالوفاء،بیروت،ج۴،ص۴۲۸
  13. ۔ زیدان،سید عبد الکریم ،الوجیز فی اصول الفقہ ، مکتبہ رحمانیہ،لاہور،ص۱۲۹
  14. ۔ البقرہ:۱۷۹
  15. ۔ مرادآبادی ،مفتی نعیم الدین ،تفسیر ِخزائن العرفان،ناشر پاک کمپنی،کراچی،ص۲۹
  16. ۔ساقی ، پروفیسر ذوالفقار علی ،شریعت اسلامیہ کی حکمت و فلسفہ ،زاویہ پبلشرز،لاہور،ص۲۵۳
  17. ۔ دہلوی، شاہ ولی اللہ محدث ،حجۃاللہ البالغہ،نا شردارالاشا عت،کراچی،ص۵۳۰
  18. ۔ زیدان، سید عبد الکریم ،الوجیز فی اصول الفقہ ،مکتبہ رحمانیہ،لاہور،ص۲۹۳
  19. ۔ ایضاً،ص۲۹۵
  20. ۔ المائدہ:۲
  21. ۔ رضو ی ،مفتی نظام الدین ،فقہ اسلامی کے سات بنیادی اصول،دار النعمان،لاہور،ص۳۲۵۔۳۲۶
  22. ۔ ابن مسعود، عبیداللہ ،شرح وقایہ ،قدیمی کتب خانہ ،کراچی،ج۲،ص۲۴
  23. ۔ بریلوی، مفتی احمد رضاخان فتاوی رضویہ،رضافاؤنڈیشن،لاہور،ج۵،ص۳۵۶
  24. ۔ بابرتی ، امام اکمل الدین ،عنایہ شرح ہدایہ ،مکتبہ رحمانیہ، لاہور،ج۳،ص۴۳۲
  25. ۔ بریلوی،مفتی احمد رضاخان ،فتاوی رضویہ ،رضافاؤنڈیشن ،لاہور،ج۲،ص۳۵۶
  26. ۔ رضوی ،مفتی نظام الدین ،فقہ حنفی میں حالات زمانہ کی رعایت،الغنی پبلشرز،کراچی،ص۴۸
  27. ۔ بریلوی، مفتی احمد رضاخان ،فتاوی رضویہ ،رضافاؤنڈیشن ،لاہور،ج۱،ص۳۹۳
  28. ۔ بخاری ،امام ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل،حدیث :۱۳۰، قدیمی کتب خانہ،ج۱،ص۱۲۰
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...