Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 35 Issue 1 of Al-Tafseer

امام غزالی کے فکری اسفار کا مطالعہ |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

35

Issue

1

Year

2020

ARI Id

1682060084478_502

Pages

273-284

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/141

Subjects

Sufism religion modern science orthodox knowledge.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

Al-Ghazali has been referred to, by some historians, as the single most influential Muslim after Prophet Muhammad .His work was so highly acclaimed by his contemporaries that he was awarded the honorific title "proof of Islam" (Hujjat al-Islam).Al-Ghazali argued that some fundamen- talists, who perceive philosophy to incompatible with religion, tend to categorically reject all views adopted by 'philosophers' including scientific facts like lunar and solar eclipses, but when later persuaded of a certain view, they tend to blindly accept all other views held by the philosophers. He encouraged people to gain knowledge and was not against modern science, rather he was against the idea of viewing religious faith through the principles of modern science, also brought the orthodox Islam of his time to close contact with Sufism making it increasing possible for individuals to combine the two.

اللہ تعالی نے انسان کو مرکب بنایا جسم وروح کا اور انسانی ذات کے وجود میں آنے کے بعد کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جس میں ان مرکب شدہ عناصر کی نشوونما نہ ہورہی ہویہ ہی وجہ ہے کہ جسمانی ضرویات کومدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالی نے کل اسماء کا علم انسانی ذات میں ودیعت کیا تاکہ انسان غوروفکر کے ہتھیار سے لیس ہوکر اس مسخر شدہ کائنا ت کا مربوط مطالعہ کریں اور وہ رحمتیں اور نعمتیں جو کہ خالق کائنات نے انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے رکھ دی ہیں ان کو نہ صرف اپنے مصرف میں لائے بلکہ کائنات کے حقائق سے بھی روشناس ہوسکے۔ روحانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پیغمبروں کا سلسلہ قائم کیا گیا تاکہ معاشرے کی ایسی تعلیم وتربیت ہو جس سے وہ اخلاقی نظام وجود میں آئے جوکہ اللہ تعالی

کو مطلوب ہے ۔ انبیاء، ؑ انسان کے فکری عوامل کی اس طرح سے بتدریج نشوونما کرتے ہیں کہ انسان اللہ تعالی کے احکامات کو اس کی صحیح روح کے مطابق سمجھتا ہوا اللہ تعالی کی رضا اور اُس مقصد کو سمجھ سکے جس کے باعث کائنات تخلیق کی گئی۔یہ ہی وجہ ہے کہ شریعت محمدیﷺمیں وہ تما م بنیادی تعلیمات موجو د ہیں کہ جن کی مد د سے ہر دور کا انسان غوروفکر کرتے ہوئے ہر جدیددینی و دنیاوی مسائل پر اللہ کی رضاکومعلوم کرسکتا ہےاور یہ ہی وہ خاص نعمت ہے جو کہ امت محمدیہ کا خاصہ،امتیاز اور افتخار ہے۔

انسانی معاشرے میں علمی وفکری بگاڑ اس ہی وقت رونما ہوتاہے جب ان دینی و دنیاوی علوم کی صداقت کو ان ہی علوم کے مسلمہ اصولوں پر پر کھنے کے بجائے ایک دوسرے کے معیار کی کسوٹی پرجانچا جائے اس عمل کا لازمی نتیجہ نہ صرف علم کے انکار کی صورت میں ظاہر ہوتاہے بلکہ ان علوم کے ماننے والوں کے درمیان جنگ وجدل کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے انسان اشرف المخلوقات کے منصب سے نیچے اور اس مقصد سے دور ہوجاتا ہے کہ جس کی وجہ سے اس کوتخلیق کیاگیا۔

امام غزالی ؒ کی جامعیت کا راز اس ہی میں مضمر ہے کہ انہوں نے حقائق کی جستجو کیلئے علوم و فنون، رسم ورواج اور تقلیدی روایات کو غور وفکر کے ترازو اور شریعت محمدیﷺکی روشنی میں سمجھا،تمام فکری عوامل کو ان ہی کی حدود میں سمجھ کر معاشرے اورزمانے سے ہم آہنگ کیا اور ایسی الہی فکر جو کہ مسلم اُ مہ میں ناپید ہوچلی تھی اس کو پھر سے روشناس کروایا کہ جس پر عمل پیرا ہوکر انسان قرب خداوندی ، معرفت الہی اور تسخیر کائنات کا مقصد حاصل کرسکے ۔

امام غزالی ؒ ؒکے ذہنی تغیرات

امام غزالی ؒ کے دل ودماغ میں یہ سوالات کیسے پیدا ہوئے ،ان کے ہم عصر علماء وفقہا کا طرز معاشرت تو یہ تھا کہ وہ دوسرے مکتبہ فکر علماء سے ملنا اچھا نہیں سمجھتے تھے ایک ماحول سے دوسرے ماحول میں آنا چاہتے ہی نہ تھے برخلاف اس کے امام غزالی ؒ سب سے ملتے تھے اور ان کے خیالات معلوم کرتے تھے شاید اس لیے ان کے دل میں سوالات پیداہوئے۔سوالات کا آغاز یوں ہوا کہ امام غزالی ؒ ؒنے اپنے چاروں طرف اختلاف مذہب وملت اور افکار وخیالات کا ایک طوفان دیکھا، ہر مسلک والا اپنے مسلک پر مطمئن اشعری، معتزلی،متکلم، فلسفی اور باطنیہ وغیرہ وغیرہ اپنی اپنی جماعتوں کو حق بجانب ٹہرانے کی فکر میں مصروف عمل اور ایک دوسرے سے دست وگریباں رہتے تھے۔”امام غزالی ؒ نے دیکھا کہ عیسائی اور یہودی اپنے عقائد کو برحق صرف اس بنا پرقرار دیتے تھے کہ اُن کی پیدائش اس عقیدے پر ہوئی“([1]) آپ ؒ کے نزدیک موروثی عقائد اور اس پرکامل یقین اور معا شرتی تقلیدی عناصر انسانی تحقیقی و تخلیقی ذہنی رُوحجان کو کم وپیش ختم کردیتے ہیں، یہ امام غزالی ؒؒ کی ذاتی تلاش حق تھی کہ وہ تقلیدی نظریات پر اکتفا نہ کرسکے۔

امام غزالی ؒ ؒکی عظیم شخصیت کا راز در اصل اس بات میں پوشیدہ ہے کہ امام غزالی ؒؒ وہ پہلے شخص ہیں جو علمیت کے بڑے درجے تک پہنچنے کے بعد بھی اپنے موجودہ علم پر مطمئن نہیں تھے،وہ اپنے علم و تحقیق میں اضافے کے لیے اپنے ذہن میں سوال نامے ترتیب دیتے رہے اور حق کی تلاش کے لیے سر گرداں رہتے، اس سفر حق میں اُنھوں نے کئی قسم کی زحمتیں اور تکالیف برداشت صرف اس لیے کی کہ امام غزالی ؒؒ کے زمانے میں جو علوم وفنون رائج تھے اور جن کا لوہادنیامیں مانا جاتا تھاآپ ؒ کی نظر میں ان کی حثیت مشکوک ہوگئی تھی اس لیے انہوں نے علوم کا از سر نو جائزہ لیا اور اس کے بارے معاشرے میں رائج رسوم ورواج کی اندھی تقلید نہیں کی،اُنھوں نے گہری سوچ و فکر اور غیر جانبداری کے ساتھ ہر مذہب اور فرقے کے نظریات کی چھان بین کی، آپ ؒ’ہر فرقہ کے عقیدوں کی کھوج میں لگا رہتے تھے اُ ن کے نزدیک دین حق کہلانے کا مستحق صرف وہ ہی دین ہوگا جو انسانی ذہن میں اُٹھنے والے ہر صحیح سوال کا صحیح جواب دے اور اس کا جواب صرف بذریعہ عقل نہ ہو کہ ا س میں غلطی کی گنجائش موجود ہے بلکہ ایسی جگہ سے ہو جہاں ”صرف عقل اس کی طرف رہنمائی نہیں پاتی“([2]) و اس لیے انھوں نے بے خوف وخطر ہر مذاہب کی غیر جانبدارنہ تحقیق کی۔

امام غزالی ؒؒ کے سامنے یہ مسئلہ نہیں تھا کہ انھیں کچھ موروثی عقیدوں کی حمایت کرنی ہے بلکہ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جس چیز کو اس وقت تک تسلیم کرتے چلے آئے تھے اورجن علوم وفنون، عقائد وافکار کی تعلیم وتعلم میں عمر عزیز کا بڑا حصہ صرف کر دیا تھا دراصل ان کی حقانیت ان کی نظروں میں مشکوک ہوگئی تھی فقہ کی موشگافیاں، علم کلام کی نکتہ آفرینیاں،باطینیہ کے عقائد اور ابن سینا وفارابی کے مسلمات سے ان کی تسکین نہیں ہوتی تھی اور یہ سب ان کی پیاس کو بجھانے،ان کے قلب وذہن کی خلش دور کرنے میں اپنا اعتبار کھو بیٹھے تھے۔سوالات نے اس درجہ دل ودماغ پر قابو پالیا تھا کہ فکروعقل کا کوئی درجہ بھی ان کے پاس قابل اعتماد نہیں رہاتھا۔حتی کہ محسوسات کے یقینی ہونے میں بھی انہیں شبہ تھا اس قسم کے شبہ کے اسباب کیا تھے اس کی تفصیل ان ہی کے الفاظ میں درجہ ذیل ہے:

من أین الثقۃ بالمحسوسات، وأقواھا حاسۃ البصروہی تنظر الی الظل فتراہ واقفا غیر متحر ک، وتحکم بنفی الحرکۃ،ثم بالتجربۃ والمشاہدۃ بعد ساعۃ تعرف أنہ متحرک وأنہ لم یتحرک دفعتہ بغتۃ بل علی التدریج ذرۃذرۃ، حتی لم تکن لہ حالۃ وقوف۔وتنطر الی الکواکب فتراہ صغیرا فی مقدار الدینار۔ ثم الأدلۃ الھندسیۃ، تدل علی أنہ أکبر من االأرض فی المقدار‘‘([3])

”محسوسات پر بھی کیونکر بھروسہ کیا جائے جب کے ان میں قوی تر حاسہ بصر ہے، اس کی کیفیت یہ ہے جب کہ وہ سایہ کو دیکھتاہے تو سکون کی حالت میں جس میں کوئی حرکت وجنبش نہیں لہذا اس کو ساکن ہی سمجھا جاتا ہے۔ پھر تجربہ ومشاہدہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سایہ تو برابر حرکت کررہا ہے۔ہاں اس کی حرکت دفعتاً اور اچانک نہیں ہوتی،بلکہ آہستہ آہستہ اور بتدریج ہوتی ہے اور مطلق سکون تو کبھی نہیں ہوا،اسی طرح یہ حاسہ ستاروں کو دیکھتا ہے تو اسے یہ بہت چھوٹا نظر آتا ہے گویا ایک دینار سے زیادہ اس کا جسم نہیں لیکن پھر ہندسی دلائل سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تو زمین سے بھی کہیں بڑا ہے۔“

محسوسات میں گنجائش اس شبہ کی بناء پر نکلتی ہے کہ ہر حاسہ سے علم حاصل کرنے کے لیے کچھ شرائط ہیں کہ جب تک وہ نہ پائے جائیں ان کے ذریعہ جو علم حاصل ہوتا ہے وہ قطعی ویقینی نہیں ہو سکتا ،مثلا حاسہ بصر سے جو علم ہوتا ہے وہ اس بات پر ہے کہ وہ چیز جس کو ہم دیکھ رہے ہیں کیا اس کا ہر ہر حصہ ہمارے سامنے ہے یا نہیں ،کیا ہم میں اور اس چیز میں اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا کہ صحیح طور پر دیکھنے کے لیے درکار ہے اور کیا وہ جگہ روشن ہے یا نہیں ،جہاں وہ چیز رکھی ہوئی ہے یاجس کو ہم دیکھنا چاہتے ہیں تو درمیان میں کوئی چیز حائل تو نہیں ہے ۔ ان میں سے اگر کوئی شرائط بھی نہیں پائی جائے گی تو دیکھنے میں غلطی ہو سکتی ہے ۔ اس کے برعکس عقلیات وریاضیات بہر حال قطعی ہے ۔ دو اور دو چار ہونگے اور دس کا عدد ہر حال میں تین اور چار سے زیادہ ہے ۔ لیکن امام غزالی ؒؒ کہتے ہیں کہ جب میں نے اس حقیقت پر غور کیا تو مجھے یہ محسوس ہوا کہ کہیں عقلیات اور ریاضیات میں بھی اعتماد کا وہی حشر نہ ہو جس کا تجربہ مجھے محسوسات میں ہورہا ہے دراصل امام غزالی ؒ حقیقت کی رسائی کے لیےایسے ذریعے کی تلاش میں تھے جہاں عقل خود سربہ سجود ہو جائے شاید ادراک عقل کے سواء کوئی اور تقاضہ بھی ہو جو واضح ہوکر خود عقل کے فیصلے کو جھٹلادے ۔ آپ اس سچائی کو پالینے میں کامیاب ہوئے جس کو حا صل کرنے کے لیے انہوں نے مسنددرس کو چھوڑا ، اہل وعیال سے علیحدگی کی اختیار کی تھی اور جبہ وعبا کے بجائے فقیرانہ پوشاک کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تھا ۔

ابتدائی تعلیم وتربیت

امام غزالی ؒ نے ابتدائی تعلیم روایتی طور وطریقوں سے حاصل کی اس زمانے میں درس کا یہ قاعدہ تھا کہ استاد مطالب علمیہ پر جو تقریر کرتا تھا شاگرد اس کو قلمبندکرتا جاتا ان ہی تقریروں کے مجموعہ کو تعلیقات کہا جاتا تھا ۔ امام صاحب نے ’’فقہ کی ابتدائی کتابیں احمد بن محمد راز کافی سے پڑھی جو کہ امام صاحب کے شہر ہی میں مقیم تھے اس کے علاوہ ابو حامد اسفرائینی اور احمد بن جہینی جیسے جید علماء کرام سے بھی اکتساب علم کیا ۔ طوس سے نکل کر جرجان کا قصد کیا اور امام ابو نصر اسماعیلی سے تحصیل علم شروع کی،نشوو نما شافعی مذہب اور اشعری فرقہ کے عقائد ومسلک میں ہوا،ابتداًاسی طرز کی تعلیم حاصل کی جو اس زمانے میں دنیا کی ترقی کا ذریعہ بن سکتی تھی ۔ ‘‘([4]) جرجان سے وطن واپسی کے دوران اتفاق سے راستے میں ڈاکووَں نے آگھیرا اور اما م صاحب سے ان کا سب کچھ چھین لیا جس میں ان کے تقریریوں کا مجموعہ بھی شامل تھا جو امام صاحب کو ابو نصر اسماعیلی نے لکھوایا تھا اور جس کے لیے امام صاحب نے اتنا طویل سفر اور سخت محنت کی تھی آپ ڈاکووَں کے سردار کے پاس گئے اور فرمایا ’’ میں اپنے اسباب اور سامان میں سے صرف اس مجموعہ کو مانگتا ہوں کیونکہ میں نے ان ہی کے سننے اور یاد کرنے کے لیے سفر کیا تھا،سردار نے ان کے کاغذات یہ کہہ کر واپس کر دئیے کہ تم نے خاک سیکھا ،جب کہ تمہاری یہ حالت ہے کہ ایک کاغذ نہ رہاتو تم کورے رہ گئے ۔‘‘ ([5]) امام صاحب پر اس سردار کے اس طنز آمیز فقرے نے گویا ہاتف غیبی کی آواز کا اثر کیا آپ نے ان تمام تقریروں کو زبانی یاد کرنا شروع کر دیا اور تین برس میں آپ ان تمام مسائل کے حافظ بن گئے ۔

امام صاحب کی علمی پیاس اس حد تک بلند ہوگئی تھی کہ معمولی علماء ان کی تشفی مناسب طور پر نہیں کر سکتے تھے اس لیے وہ علوم کی تکمیل کے لیے وطن سے باہر نکلے ،اس زمانے میں تمام ممالک اسلامیہ میں علوم وفنون کے دریا رواں تھے ایک ایک شہر وقصبہ میں کئی کئی مدارس موجود تھے اس کے علاوہ بڑے بڑے شہروں کئی ایسے علماء بھی موجود تھے کہ جن کی درس گاہیں بذات خود مدرسوں کی صورت اختیار کی ہوئی تھی ۔ لیکن اس کے باوجود دو شہر علوم وفنون کے مرکز تسلیم کئے جاتے تھے ان میں ایک نیشاپور کا نام آتا ہے اور دوسرا بغداد ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ خراسان، فارس اورعراق میں دو بزرگ استاد کل تسلیم کئے جاتے تھا ،امام الحرمین اور علامہ ابو اسحاق شیرازی دونوں بزرگ ان ہی شہروں میں درس دیا کرتے تھے ،نیشا پور چونکہ امام غزالی ؒ کے شہر کے قریب واقع تھا اس لیے امام غزالی ؒنے پہلے وہیں جانے کا ارادہ کیا اور وہیں امام الحرمین کی خدمت میں حاضر ہوئیں ۔

آپ نے صدر مدرس امام الحرمین سے فقہ ،حدیث ،علم کلام، معقولات، فلسفہ اور الہیات کا درس لینا شروع کیا اور اپنے مقصد تکمیل علوم کے حصول کے لیے جدوجہد کی آپ پہلے امام الحرمین کے شاگرد رہے اور پھرنائب (معید ومددگار)کی حیثیت سے علمی خدمات انجام دیتے رہے ،کیونکہ بچپن ہی سے آپ میں خداد ذہانت اوراعلی ذکاوت کے آثار نمایاں تھے اس لیے تھوڑی ہی مدت میں تحصیل علم سے فارغ ہوکر آپ امام الحرمین کی نظر میں ممتاز اور تمام معاصرین واقران میں مشہور ومعروف ہوگئے آپ نے امام الحرمین کی صحبت انتقال تک نہیں چھوڑی شاید آپ کی ان سے محبت یا سوچ کہ علم کا کوئی اضافی نقطہ آپ سے رہ نہ جائے یہ وہ زمانہ تھا کہ امام صاحب نے باقاعدہ درس وتدریس اور تصنیف وتالیف شروع کر دی تھی اور علوم متداولہ میں کمال حاصل کرکے آپ نے اپنا حلقہ درس قائم کر لیا تھا اس وقت امام صاحب کی عمر اٹھائیس برس تھی ۔

دور غزالیؒ کے فکری رُوحجانات

بنی آدم کا عروج کسی خاص قوم سے وابستہ یا اس کا خاصہ نہیں بلکہ اللہ تعالی کی مسخر کائنات کی دعوت ہے ،جس کو ہر قوم نے ہر زمانے کے اعتبار سے لبیک کہتے ہوئے اپنا حصہ ڈالا ،امام غزالی ؒکے دور تک مسلمانوں نے نہ صرف اپنی سلطنتوں کو نہ صرف وسعت دیتے رہے بلکہ علوم وفنون کے میدانوں میں بھی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے رہے ،یہ اس لیے ہی ممکن ہوا جب اسلام کی تسخیری قوت نے انسانی اذہان کو مغلوب کیا اور مختلف مذہب واقوام کے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ۔ عربی اور عجمی اقوام کے میل جول سے قوموں کی خصوصیا ت ایک دوسرے میں منتقل ہوجانا فطری عمل ہے اور یہ ہی وہ امر ہے کہ جس کی وجہ سے عجمی اقوام میں موجود علم وتحقیق کا شوق وجستجو امت مسلمہ کے حکمرانوں جن کا تعلق مختلف خاندانوں اور علاقوں سے تھا باہمی رقابتوں کے باوجود اس طرح جذب ہوا کہ وہ خود ان کا علمی مزاج بن گیا ۔ تاریخ دان جان ڈریپر کہتا ہے کہ :

” ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک دوسرے کے سیاسی رقیب تو تھے ہی لیکن علم وحکمت اور ادب انشا کی سرپرستی میں بھی ہر ایک کی کوشش ہوتی کہ دوسروں سے فوق لے جائے‘‘ ([6])

یہ ان ہی حکومتی کاوشوں کا نتیجہ تھا کہ بڑے بڑے تراجم کے دفاتر قائم ہوئے جہاں مختلف مختلف اقوام کے نابغۃ روزگارافراد سے دیگر زبانوں میں محفوظ علوم جیسے طب ، فلکیات،طبعیات ،منطق،فلسفہ ،حساب وغیرہ کو عربی زبان میں منتقل کروایا گیا اس میں کوئی شک نہیں کہ یونان ،اٹلی ،سلی اور اسکندریہ کا کوئی علمی سرمایہ ایسا باقی نہیں رہا جو ترجمے کے ذریعے سے منتقل نہیں ہوا ۔ بقول فلب حتی کے :

The awakening was due in large measure to foreign influences, partly indo-Persian and Syrian but mainly Hellenic and was marked by translations into Arabic from Persian, Sanskrit, Syria and Greek. ([7])

’’یہ بیداری بڑی حد تک بیرونی اثرات کا نتیجہ تھی اس میں کچھ ہندی ،ا یرانی اور شامی اثر تھا اور بڑا حصہ یونانی اثر کا تھا ۔ اس کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس کے زیراثرپہلوی ،سنسکرت اور سریانی زبانوں سے عربی میں ترجمے ہوئے۔ ‘‘

ان علوم کی بدولت اسلام کو ماننے والے دنیا کی ترقی یا فتہ قوم کی حثیت اختیار کرگئے وہی ان ہی کی وجہ سے مذہبی افکار کو جانچنے کے ایسے طریقے رواج پاگئے کہ جس سے اسلام کے اندر نئے نئے فرقے وجود میں آ ئے جیسا کہ معتزلہ ،قدریہ ،باطنیہ وغیرہ جنھوں نے شریعت اسلام کے احکامات اور عقائد کی ایسی تشریحات بیان کی جس سے دین اسلام کی اصل روح مسخ ہوگئی ،امام غزالی ؒ کے دور میں یہ تمام علوم وفنون بام عروج پر تھے ۔

امام غزالی ؒ کی مروجہ علوم وفنون پرتحقیق

امام غزالی ؒ نے علم الکلام ،فلسفہ ،منطق ،طبیعیات ،ریاضیات وغیرہ پر بہت جچی تلی تنقیدات فرمائی ،ریاضیات میں ان کو کوئی اشکال نظر نہیں آتا تھا ،اس حوالے سے صرف ان لوگوں سے ان کو شکایت تھی جو ریاضی کے اُصولوں پر غور کرنے کے بعد ا س حسن ظن میں متبلا ہوجاتے ہیں کہ یہ لوگ الہیات میں بھی ایسی ہی ذہانت کا ثبوت دیتے ہوگے جو ریاضی کالازمی نتیجہ ہے حالانکہ یہ دو بالکل مختلف باتیں ہیں ۔ منطق کے بارے میں ان کا یہ ہی خیال ہے کہ اس کا تعلق صرف براہین وادلّہ کی صحت و عدم صحت سے ہے اس لیے کوئی ایسی بات نہیں جو خلاف دین تصور کی جائے جو قباعت ہے تو فقط یہ کہ لوگ دھو کہ کھا جاتے ہیں کہ جو انداز ومعیار ان کا منطق میں ہے وہ ہی عقائد اور دینیات میں بھی ہوگا ،حالانکہ ایسا نہیں کیونکہ ان کی زیرکی وعقل مند ی صرف اس ہی میدان میں منحصر ہوکر رہی گئی ہے،الہیات میں یہ لوگ حد درجہ کے متاہل اور سہل انگار ہیں ، یہ ہی وجہ ہے کہ آپ علوم و فنون کو بُرا نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ جانتے تھے کہ یہ اُمور دنیا کو چلانے کے لئے لازم ہیں وہ اس بات کو محسوس کرتے تھے کہ دنیاوی علوم کی وجہ سے انسانی ذہن ترقی کی جانب گامزن اور اُس کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے لیکن انسان جن اُصولوں کی بنیاد پر دنیاوی علوم کو پرکھتا ہے اگر اُن ہی بنیادوں پر وہ دینی علوم کو پرکھے گا تو وہ سخت گمراہی اور پستی کی جانب گامزن ہوجائے گا ۔ آپ نے ان ہی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے مسلمان اہل دانش اور علماء حضرات کو اس بات کی ترغیب دی کہ دنیاوی علوم میں بھی مہارت حاصل کریں تاکہ عام عوام الناس پر سے غیر مسلموں کے علمی رُعب کا خاتمہ ہو آپ فرماتے ہیں کہ:

بدارالجھال بمجادلتہ الردعلی ماقررلد یھم کمقا بلتھم بانکار علوم التعالیم الاربعۃ من الھندسۃ والحساب والمنطق ومعرفۃ المواکب وثبوتھا ۔ وھی مقدمات علومھم وعنوان کلا مھم وعنصر براھین ولم یحکموا فیما حاولوا شیءا کا حکامھم لھا ([8])

”ان جاہل لوگوں سے مقابلہ کے لئے جو لادین اور مذہب کو نہیں مانتے اُس سے مقابلے اور رد کے لئے علوم اربعہ، عالم الاعداد، علم ہندسہ، علم منطق اور علم فلکیات کا سیکھناضروری ہے، یہ چار علوم دیگر علوم کے سمجھنے کے لئے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں ، ان علوم کو حاصل کرنے والا کلام و گفتگو اور دلائل کے اعتبار سے اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ مخالفین کا مقابلہ با آسانی کرسکتا ہے ۔“

امام غزالی ؒ کی تنقید کا منشایہ تھا کہ ہر فن کے دائروں کو الگ الگ سمجھا جائے اور جب بھی کسی مسئلہ پر بحث کی جائے اس میں حسن ظن اور تقلید کی بنا پر کوئی رائے قائم نہ کی جائے بلکہ دیکھا جائے کہ نفس مسئلہ کس حد تک صداقت پر مشتمل ہے اور صرف اس مسئلہ کی حد تک ا س میں کیا سقم اور نقص رونما ہوا ہے ،آپ ایسے لوگوں کو اسلام کے نادان دوست سمجھتے تھے جو کہ ایسے علوم جن کی صداقت پر کسی کو شک نہیں ان پر تنقید کرنا اپنی دینی حمیت اور ضرورت تصور کرتے تھے جب کہ ان سے کسی دینی حقیقت کا ابطال بھی نظر نہیں آتا ،جس کی وجہ سے اہل عقل و دانش یوں خیال کرتے کہ گویا مذہب کاسارا کارخانہ جہل و نادانی پر مبنی ہے اور یہ ہی نہیں اس میں سرے سے یہ استطاعت ہی نہیں کہ علم وتجربہ کے حقائق کا کامیابی سے مقابلہ کرسکے آپ کے نزدیک یہ ذہنیت حد درجہ مضرت رساں ہے ۔ آپ نے فلسفہ کے ان موضوعات کو تنقید کا نشانہ بنایا جس کا براہ راست تعلق مذہبی عقائد سے ہے جسے توحید،نبوت ،قیامت وغیرہ ،آپ نے ان ہی منطقی اور فلسفیانہ طریقوں سے ان کے نظریا ت کا ابطال کیا جس کی بنیا د پر اُن کے نظریات کی عمارت کھڑی ہوئی تھی، ڈاکٹرفضل الرحمن کے بقول :

(Imam Ghazli) argued against the philosophers position with the regard to Religious doctrine point by point and revealed both its self-contradictions and its insufficiencyFrom the religious point of view. ([9])

”(امام غزالی ؒ) نے دینی عقائد کے بارے میں فلاسفہ کے موقف کے خلاف نکتہ بہ نکتہ دلائل دیئے اور مذہبی نقطہ نظر سے اُ س کی اندرونی بے ربطی اور اس کے ناکافی پن دونوں کو آشکارا کیا۔“

امام غزالی ؒ کے نزدیک حقائق کے ادراک کیلئے حصول معرفت ضروری ہے اور یہ جب ہی ممکن ہے جب انسان اُ س ہی خدا کی پیروی کریں جس نے کائنات اور انسان کو خلق کیا اوراُ س کے علم میں کوئی تبدیلی یا تغیر نہیں جب کہ غیر مسلم کے علوم اگرچہ دنیاوی طور پر مضبوط ہی کیوں نہ ہو لیکن عقائد کے اعتبار سے فقط خیالات اور اندازوں کا مجموعہ ہیں جس میں سچ اور جھوٹ کی ملاوٹ ہوتی ہے اور ان کے علوم الہیات علم الیقین کے درجہ میں بھی کامل نہیں ہوتے ۔ غیر مسلم کے علاوہ مسلما نوں میں بھی ایسے فرقے ظہور میں آگئے تھے جو مذہب کی تشریح اپنے سیاسی مفادات کے تحت کرتے تھے تاکہ انسانی ہمدردی و جذبات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتدار پر قبضہ جماسکے ،آپ نے مذہب تعلیمہ ([10]) جس کا بنیادی مقصد ہی اسلام کو سیاسی بنیاد پرکمزور کرنا تھا ان کی سازشوں اور مکر وفریب سے خطوط ،کتابوں اور خطبات کے ذریعے عوام الناس کوآگاہ کیا اور اس کے علاوہ ایسے خودساختہ صوفی اور مسلم فلاسفر جو شریعت کی پابندی سے خود کو آزاد سمجھتے تھے جن کے بقول ہم علم کے اُس بلند مرتبہ پر پہنچ گئے جہاں ہم کو شریعت کی پاپندی کی حاجت نہیں آپ نے ان کا رد کیا ۔ آپ کے نزدیک حقیقت کی رسائی کیلئے لازمی ہے کہ شریعت محمدی ﷺ اور سنت پر متابعت لازمی ہو اس کے بغیر انسان اللہ کا مطلوب بندہ نہیں بن سکتا اور اس علم میں اس کا کوئی حصہ نہیں جس کا تعلق نو ر نبوت سے ہے ،طریقت یا حقائق کا علم کا سیکھنا اگرچہ لازم ہے لیکن اس علم کو شریعت کے زیر تابع رکھا گیا ہے، آپ کے بقول:

ان العین عینان ظاہرۃ وباطنۃ من عالم الحس والمشاہدۃ،والباطنۃ من عالم آخر وھو عالم الملکوت و لکل عین من العینین شمس ونور عندہ تصیر کاملۃ الابصار ۔ احداہما ظاہرۃ والاخری باطنۃ والظاہرۃ من عالم الشہادۃ وھی الشمس المحسوسۃ،والباطنۃ من عالم الملکوت وھو القرآن وکتب اللہ المنزلۃ ([11])

’’آنکھیں دو ہیں ظاہری اور باطنی ،نگاہ ظاہر کا تعلق عالم محسوسات ومشاہدے سے ہے اور نگاہ باطن کا تعلق عالم آخر سے اور عالم آخر عالم ملکوت ہے اور دونوں آنکھوں میں سے ہر ایک کے لیےآفتاب ونور ہے جس کے باعث بینائی کامل ہوجاتی ہے آفتاب بھی دو ہیں ایک ظاہر اور ایک باطن ،ظاہری آفتاب تو وہ ہے جو نظر آتا ہے ،باطنی آفتاب قرآن اور اللہ تعالی کی نازل کردہ کتابیں ہیں۔“

انسانی ذات مرکب ہے روح اور جسم کایہ ہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے شریعت کی حقیقت یا معرفت کو طریقت میں رکھا کیوں کہ انسان کے ہر فعل کا اثر اس کی روح اور قلب پر پڑتا ہے اگر انسان شریعت پر عمل پیرا نہیں ہوگا اور گناہ کی لذت میں گرفتار رہے گا تو وہ کبھی اللہ کا قرب نہیں پا سکے گا اگرچہ وہ اپنی صداقت کیلئے کتنی ہی قسم کی شعبدہ بازیاں ہی کیوں نہ کرتا ہو ۔ امام غزالی ؒ نے اپنے دور کے ہراس قسم کے دنیاوی علوم وفنون اور مذہبی نظریات کو سختی سے رد کیا جو انسان کو گمراہی ، پستی اور اللہ سے دور لے جاتے ہیں ۔

امام غزالی ؒ اور حصول معرفت

امام غزالی ؒ کے نزدیک کائنات اور حقائق اشیاء کا دامن صرف مادیات اور عقل ہی کی حد تک سمٹا ہوا نہیں ہے بلکہ اس کے آگے بھی حقیقت ووجود کی فرمانروائی ہے ,ایک عام اور مادہ پرست انسان کی اس تک رسائی نہیں ۔ احیاء العلوم میں امام غزالی ؒ نے تفصیل سے بتایا ہے کہ فہم وعقل کے وہ حسی آلات جو انسان کو دیئے گئے ہیں ان سے مقصود اشیاء کا حقیقت کا پانا نہیں ہے اور نہ یہ ان کے بس کا روگ ہے کہ اعلی روحانی اقدار ومعانی پر قابو پا سکیں ،بلکہ سمع وبصر اور عقل وخیال کو ایسی محدود صلاحیتیں تو صرف اس لئے بخشی گئی ہیں کہ ان سے یہ روز مرہ کی ضروریات کا کام چلا سکے ۔یہ جاننے کے لیے کہ کائنات کیا ہے ،خالق کا کائنات سے کیا تعلق ہے اور بندوں پر کس نوع کے اخلاقی ودینی قوانین عائد ہوتے ہیں ،اس دنیا میں حق کیا ہے اور باطل کیا ہے،ان کے سمجھنے اور حاصل کرنے کے لئے جن احساسات کی ضرورت ہے امام غزالی ؒ کے تجربہ میں وہ مجاہدہ اور ریاضت سے اس وقت حاصل ہوتے ہیں جب قلب کا تصفیہ ہوجاتا ہے اور زندگی ر زائل اور ادنیٰ خواہشات سے رہائی حاصل کر لیتی ہے اس بناء پر امام غزالی ؒ کا مطالبہ بجا ہے کہ اگر حقائق اشیاء کی جستجو مقصود ہے تو دلیل سے الگ ہوکر خدا کے لطف وکرم سے ہمکنار ہو کر دیکھو،یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد امام غزالی ؒ نے جس مسلک کی طرف توجہ کی وہ طریقہ صوفیہ کا تھا جس کو قدرت نے شروع ہی سے ان کی خلقت میں ودیعت کر دیا تھا ،اس بناء پر امام غزالی ؒ کو جو ماحول پسندآیاوہ صوفیہ کا ماحول تھا ،وہ صرف ان ہی کے علم وعمل سے متاثر تھے ۔ امام غزالی ؒ کو صوفیہ کا دامن عمل دنیاطلبی کے داغ دھبوں سے پاک نظر آیا ،اس لیے ان کے مسلک تصوف پر بھروسہ کرنا اور ان کے طریقہ عمل پر گامزن ہونا انھوں نے اختیار کیا ۔ کیوں کہ امام غزالی ؒ خلوص دل کے ساتھ حق کی تلاش میں تھے اسی لیے اللہ تعالی نے آپ کی توجہ اپنے سیدھے راستے کی جانب کروائی ،سب سے پہلے جس چیز نے امام غزالی ؒ کو تصوف کی طرف مائل کیا وہ صوفی کا زہد وتقویٰ تھا ،اُن کا دامن دنیاوی اغراض و مقاصد سے بالکل صاف تھا اور وہ اخلاق عالیہ سے آراستہ تھے دوسری وجہ یہ کہ صوفی کا علم امام غزالی ؒ کی نظر میں صحیح،ان کا عرفان آزمایاہوا اور انداز فکر حکیمانہ تھا ،جو صرف حکماء اور اولیاء کا ہی حصہ ہوسکتا ہے اس بناء پر صوفیہ پر بھروسہ کرنا امام غزالی ؒ کے لیے آسان تھا آپ فرماتے ہیں کہ:

واَن سیرتھم احسن السیر وطریقھم اَصوب الطرق واَخلاقھم اَزکی الاخلاقبل لو جمع عقل العقلاء وحکمۃ الحکماء وعلم الواقفین علی اسرارالشرع من العلماء لیغیروا شیءا من سیرھم واخلاقھم ویبدلوہ بما ہو خیر منہ لم یجدوا الیہ سبیلا فان جمیع حرکاتھم وسکناتھم فی ظاہرھم وباطنھم مقتبسۃ من نورمشکاۃ النبوۃ ولیس ورآء نور النبوۃ علی وجہ الارض نور یستضاء بہ ([12])

’’مجھے محسوس ہوا کہ انھیں کی (صوفیہ)سیرت خوب تر ہے انھیں کا راستہ دوسرے راستوں کی نسبت زیادہ سیدھاہے اور انھیں کی اخلاق زیادہ پاکیزہ ہیں بلکہ اگر تمام عقلاکی عقلیں اور سب حکماء کی دانائیاں اور علماء شریعت اور واقفان دین کے علوم اکھٹاکیے جائیں تب بھی اس لائق نہ ہوں کہ ان کے اخلاق و سیرت کے مقابلہ میں کسی اخلاق وسیرت کو پیش کر سکیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی تمامحرکات وسکنات مشکوۃٰ نبوت سے روشن ہیں اور نور نبوت کےعلاوہ روئے زمین پر اور کوئی نور ہے ہی نہیں جس سے روشنی حاصل ہوسکے ۔“

ان وجوہ کے پیش نظر حق وصداقت کی تلاش میں امام غزالی ؒ کا فیصلہ یہ رہا کہ صوفیہ کے روحانی تجربات سے فائدہ اٹھا یا جائے لیکن اس میں بڑا اشکال یہ تھا کہ یہ لوگ زیادہ صاحب تصنیف نہ تھے اس لئے ان کے احوال ومقامات کی پوری تشریح کتابی صورت میں موجود نہ تھی ۔ اس کا پتہ نہیں چل سکتا کہ مشاہدہ ووجدان اور کثرت عبادت وذوق سے انھیں کیا حاصل ہوا اور جسم وجاں کی اذیتیں اور بھوک وپیاس کی تکلیفوں سے دوچار ہونے کے بعد اُنھوں نے کن روحانی لذتوں کو پایا ۔

ان ہی کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر حقائق سے آشنائی نصیب ہوتی ہے اور ایسے ہی علماء کرام وراثت انبیاء کہلانے کے مستحق ہوتے ہیں ،ان کی تما م زندگی نفس کے مجاہدوں اور شریعت کی پیروی پر مبنی ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کا نفس پاک اور دل اس قابل ہوتاہے کہ اللہ کا نور اور اس کے راز کو اپنے اندر سمو سکے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ:

ومعرفت خدائے تعالی ومشاہدات جمال حضرت وی صفت وی است،وتکلیف بروی است و خطاب بادی است،عتاب وعقاب بعو ی است ،وسعادت وشقاوت اصلی وی راست،وتن ہمہ اندر حال تبع وی است،ومعرفت حقیقتوی معرفت وی کلید معرفت خدائے تعالی است ([13])

’’خداکی معرفت اور اس کے جمال بیمثال کا مشاہدہ اسی دل کی صفت ہے اسی پر تکلیف ِعبادت ہے ،اسی سے خطاب،عذاب اور ثواب ہے،اصلی سعادت وشقاوت اسی کے لئے،ان سب باتوں میں بدن اس کا تابع ہے ، اس کی (دل)حقیقت اور صفتوں کا پہچاننا اللہ تعالی کی معرفت ہے۔“

آپ کے نزدیک اپنی زندگی کواس میدان کا مسافر بناوَاور اپنے اعمال وفکر سے یہ ثابت کرو کہ تمہارے قلب کا آئینہ ایسا صاف اور روشن ہو چکا ہے کہ علم غیب کے اثرات اس پر اپنا سایہ ڈال سکتے ہیں ۔امام غزالی ؒ کا کہنا ہے کہ یہ وجدان سراسر ذوقی چیز ہے اس لیےاس کو ذوق ہی کی مدد سے پانا ممکن بھی ہے امام غزالی ؒ کا تجربہ ہے کہ جس طرح مریض کو صحت کی برکات نہیں سمجھائی جا سکتی تاوقتیکہ وہ تندرستی کی نعمت کو نہ پالے اور جس طرح ایک بھوکا نہیں جان سکتا کہ شکم سیری میں کیا مزے ہیں جب تک وہ خود پیٹ بھر کر نہ کھائے اور جس طرح ایک ایسا شخص جس نے شراب نہیں پی ، وہ نشہ ومستی کی کیفیت کا احاطہ نہیں کر سکتا جب تک وہ پی کر مستی کا لطف حاصل نہ کرلے ۔ ٹھیک اسی طرح وہ شخص اعلی ادراکات سے متمتع نہیں ہو سکتا جس نے زہد وعبادت کا مزہ نہیں چکھا، نفس کو رذائل سے پاک نہیں کیا ،مجاہدہ اور ریاضتوں سے قلب وفکر کی گہرائی میں غوطہ زنی نہیں کی اور وہ اس ذوق وکیف سے آشنا نہ ہوا جو اس جلب انوار کے لئے ضروری ہے ۔ امام صاحب الفاظ یہ ہیں:

۔۔۔مالا یمکن الوصول الیہ بالتعلم بل بالذوق والحال وتبدل الصفات وکم من الفرق بین ان یعلم حد الصحۃ وحد الشبع واسبابھما وشروطھما وبین ان یکون صحیحا وشعبانا وبین ان یعرف حد السکروانہ عبارۃ عن حالۃ تحصل من استیلاءابخرۃتتصاعد من المعدۃ علی معادن الفکر، وبین ان یکون سکرانا، بل السکران لا یعرف حد السکر، وعلمہ وھو سکران ومامعہمن علمہ شئی والصاحی یعرف حد السکر وارکانہ وما معہ من السکر شئی، والطبیب فی حالۃ المرض یعرف حد الصحۃواسبابھا وادویتھا وھو فاقدالصحۃ ،فکذلک فرق بین ان تعرف حقیقۃ الزہد وشروطھا واسبابھا وبین ان یکون حالک الزہدوعزوف النفس عن الدنیا ([14])

’’۔۔۔تصوف تک تم صرف علم کے ذریعے سے نہیں پہنچ سکتے بلکہ ذوق وحال اورصفات کی تبدیلی سے پہنچ سکتے ہو،جو صحت اور سیری سے اس کے اسباب وشرطوں سے واقف ہوتا ہے اس میں اور تندرست اور پیٹ بھرے میں بڑا فرق ہے ،اسی طرح جو مستی کی تعریف جانتا ہے کہ معدہ سے بخارات اٹھتے ہیں اورانسان کی دماغ پرمستولی ہوتے ہیں ،اس جاننے والے اور مست میں بڑا فرق ہے بلکہ مست آدمی مستی کی تعریف اور اس کے عمل کوئی نہیں جانتا پھر بھی مست ہوتا ہے،اس طرح طبیب جب بیمار ہو وہ صحت، اس کے اسباب اور دواؤں کو جانتا ہے مگر صحت کو کھوئے ہوئے رہتا ہے بالکل اسی طرح زہد کی حقیقت اور اس کی شرطوں اور اسباب کو جاننے کے باوجود تم زاہد نہیں ہو سکتے۔ ‘‘

اس کے بعد ہی امام غزالی ؒفرماتے ہیں کہ کوئی بھی شخص اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ جس طرح حسیات سے آگے فہم وشعور کا ایک عالم ہے اسی طرح اس کے آگے ایک عالم وجدان و عرفان کا بھی ہے اور اس ہی کی صراحت سے ایک اور عالم ادراک کے ڈانڈے ملتے ہیں جیسے ہم ماوراء وجدان سے تعبیر کرتے ہیں اور معاملہ صرف اسی مقام پر آکر رک نہیں جاتا بلکہ اس سے بھی آگے ایک عالم نبوت کا ہے جس میں باہمی ربط کی نوعیت عجیب و ناقابل بیاں ہے ۔ امام کہتے ہیں یہ عقدہ فی الحال لاینحل ہے اور اس کو خدائے خبیر وعلیم ہی خوب جانتا ہے ۔ یہ وہ ذہنی و مذہبی تغیرات اور علمی اسفار تھے کہ جن کے بعد امام غزالی ؒ نے راہ حق کو پایا ۔

حاصل کلام

آپ ایک حقیقت پسند اور غیر جانبدار شخصیت کے مالک تھے،حقائق تک رسائی کے لئے آپ نے مروجہ علوم وفنون کا از سر نو جائزہ لیا انہوں نے اپنے پیدائشی مذہب کو حق نہیں سمجھا اور اس تحقیق میں لگ گئے کہ خدا کا سچا راستہ کون سا ہے، آپ نے تقلید ورسوم کو پھر سے پرکھا ،مذاہب وفرق کی دقت نظر سے چھا ن بین کی ،آپ کے نزدیک حقیقی علم چاہے وہ دنیاوی یا دینی اعتبارسے ہو اپنی تہہ میں اذعان و یقین کے پیمانے رکھتا ہے،اس کے اثبات کے لیے معجزات و خوارق کی نہ صرف ضرورت نہیں بلکہ جو بات اس طرح علم کی زد میں آجائے تو وہ نظریات یا عقائد مزید کھل اور نکھر کر سامنے آجاتے ہیں ۔ چنانچہ آ پ نے ان تمام دنیاوی علوم کی تعلیم کو جائز اور ضروری قراددیا جو معاشرتی اعتبار سے لازمی ہیں جب کہ یونانی فلاسفر ، لادینی عناصر، شریعت اور تصوف میں توازن ،جاہل صوفیاء کا رد اور گمراہ فرقوں کے عقائد کے تصور ات پر آپ نے تنقید کی ۔ آپ کے مطابق ہر علم کا اپنا ایک معیار ہے اور اپنے اثبات کے لیے اسے کسی بیرونی سہارے کی ضرورت نہیں ۔

تصوف کی طرف مائل ہونے کی وجہ اس طائفہ کے اخلاق وعادات ،روشن خیالی اور روشن ضمیری ہے کیونکہ تصوف وسلوک کی راہ پر گامزن ہونے کی شرط اول یہ ہی ہے کہ انسان کو خواہشات و جذبات کے احساسات سے اوپر اُٹھنا ہوگا، عقل وفکر اور ذہن و قلب کو ریا ضتوں اور مجا ہدوں سے اس طرح صقیل اور چمکانا ہوگا کہ ان پر انوار الہیہ منعکس ہوسکیں ان کا اپنا تجربہ یہ ہے کہ جب انھوں نے اس راہ کو اپنایا تو دین کے حقائق اس طرح منکشف ہوئے کہ کوئی اس میں اشکال باقی نہ رہا اور ساتھ ہی نظری علوم و فنون کی گرہیں بھی کھلتی چلی گئی ۔

حوالہ جات

  1. ۔غزالی، امام محمد ،المنقذ من الضلال،مشمولہ :مجموعہ رسائل امام غزالی،دارالفکر،بیروت،2۰۰3ء،ص۸۳۵
  2. ۔ایضاً ،احیاء علوم الدین فی الدین، دارالمعرفتہ،بیروت،1984ء،ج۳،ص۱۱
  3. ۔ایضاً ،المنقذ من الضلال،مشمولہ :مجموعہ رسائل امام غزالی ،محولہ بالا، ص۸۳۵،۹۳۵
  4. ۔ابن عساکر،علی ،تبین کذب المفتری،مطبعتہ التوفیق ،دمشق ،1347ھ،ص ۱۹۲
  5. ۔الزبیدی ،محمد الحسینی ،علامہ،اتحاف السادۃ المتقین فی شرح احیاء العلوم ،المطبہ المیمنہ ،مصر ،1311ھ،ج۱،ص ۷
  6. ۔ڈریپر ،جان ولیم ،ڈاکٹر،John Willian Dreaper, A History of the Conflict between , Religion and Science, Appleton and Company , New York,1875, p.239
  7. ۔حتی ،فلپPhilip K Hittie, The Arabs : A Short History, 1960,London, MackMillan &Co, p.85
  8. ۔غزالی، امام محمد،معراج السالکین ،مشمولہ: مجموعہ رسائل امام غزالی ،محولہ بالا،ص84
  9. ۔فضل الرحمن ،ڈاکٹر Islam,1966,London,WeidenFeled & Co,p.120
  10. ۔مذہب تعلیمہ درحقیقت ایک سیاسی تحریک تھی جس کا مقصد حصول اقتدار تھا وہ شرعی احکامات کی ایسی تشریح کرتے جس سے اسلام کی اصل روح مسخ ہوجاتی تھی ۔ آپ ;231; نے ان کے رد میں ایک کتاب مستظہری کے نام سے بھی تحریر کی۔
  11. ۔غزالی، امام محمد،مشکوۃ الانوار، مشمولہ : مجموعہ رسائل امام غزالی ،محولہ بالا،ص۳۷۲
  12. ۔ایضاً،المنقذ من الضلال،مشمولہ :مجموعہ رسائل امام غزالی ،محولہ بالا، ص ۴۵۵،5۵۵
  13. ۔ایضاً، کیمیائے سعادت،شرکت انشارات علمی و فرھنگی،تہران ،1325ھ،ج۱، ص۵۱
  14. ۔ایضاً ،المنقذ من الضلال،مشمولہ :مجموعہ رسائل امام غزالی ،محولہ بالا،ص۲۵۵
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...