Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 34 Issue 1 of Al-Tafseer

تفسیر نجوم الفرقان کے فقہی طرز استدلال کا تجزیاتی مطالعہ |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

34

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060084478_657

Pages

43-62

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/119

Subjects

Tafsīr Jurisprudence Sacred Pages Ransom Jurisprudential Opinions

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف

دین اسلام میں فقہ اسلامی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔یہ قرآن کریم کا خلاصہ اور سنت رسولﷺ کی روح ہے۔ شریعت کے عمومی مزاج کا ترجمان ہے اور اسلامی زندگی کے لیے چراغ راہ ہے اس لیے علوم اسلامیہ میں اس کی جو اہمیت وضرورت ہے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ اس کی ضرورت و اہمیت ہر دور میں یکساں رہی ہے۔مجتہدین کرام قرآن و حدیث میں غوطہ زنی کرکے فقہی اصولوں کے ذریعے امت کے پیش آمدہ مسائل کا حل پیش کرتے رہے ہیں اور تا قیامت کرتے رہیں گے۔مرور زمانہ کے ساتھ جب بھی کوئی نیا مسئلہ در پیش آیا فقہا کرام نےقرآن و سنت کی روشنی میں اس کا حل پیش کیا ہے اور قیامت تک کے لیے اس کے اصول و قواعد بھی وضع کردیے ہیں ۔ علامہ بھترالوی نےانھی اصولوں کی روشنی میں بہت سے مسائل کے حل کے لیے قرآن و سنت اور صحابہ کرام کے عمل سے استنباط کیا ہے مثلاً قرآن کریم کی آیت:وَعَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیۡنٍ([1]) کی تفسیر کرتے ہوئے مسا فراور مریض کے روزوں کے بدلے مسا کین کو دیے جا نے والے فدیے کے متعلق ضمنی مسائل کا حل پیش کیا ہے ۔ اسی طرح مَا نَنۡسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنۡسِہَا نَاۡتِ بِخَیۡرٍ مِّنْہَاۤ اَوْ مِثْلِہَا([2]) کے تحت ناسخ و منسوخ کی بحث کرتے ہوئے نسخ السنۃ با لسنۃ کے تحت مرد و خواتین کا قبرستان جانے سے منع کیا جا نا اور پھر بعد میں اس کی اجازت دینے کے متعلق احکام بیان کرتے ہوئے خواتین کے قبرستان جانے کے جواز کےمتعلق احکام کا استنباط کیا ہے ۔ اسی طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے تدوین قرآن کے سلسلہ میں امت مسلمہ کو ایک قرأت پر اکٹھا کرنے کے لیے اضافی نسخوں کو جلانے کا حکم دیا اورفرمایا : وأمر بما سواه من القرآن في كل صحيفة أو مصحف، أن يحرق([3]) یعنی قرأت قر یش کے علاوہ ہر نسخے کو جلادیا جائے ۔ علامہ بھترالوی نے آپ کے اس عمل سے استدلال کرتے ہوئےقرآن کریم کے بوسیدہ اوراق کو جلانے ، پانی میں بہانے اور دفنانے کے متعلق مسائل کا استنباط کیا ہے ۔

ابتدائیہ

قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانیت کوعطا ہو نے والا آخری اور مکمل صحیفۂ ہدایت ہے جو زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کر تا ہے ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب تک ملت اسلامیہ کی حیات اجتماعی قرآنی ہدایات کے زیر اثر رہی اور اس کی روح کو ملت اسلامیہ نے اپنے پیش نظر رکھا عروج اور غلبہ اس کا مقدر رہا ، مگر اس ہدایت کو ترک کرتے ہی ملت اسلامیہ کی عظمت تاریخ کے صفحات کی زینت بن کر رہ گئی ۔ ملت اسلامیہ کا یہ زوال اس کی دلیل ہے کہ اس امت کا تمام تر عروج قرآنی ہدایت سے وابستگی میں ہی مضمر ہے۔ قرآن حکیم اپنے قاری سے تعقل ، تفکر اور تدبر کا تقاضا کر تا ہے۔ارشاد ربا نی ہے:

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوۡبٍ اَقْفَالُہَا([4])

” تو کیا وہ قرآن میں تدبر نہیں کر تے یا ان کے دلوں پر قفل لگے ہوئے ہیں۔“

قرآن حکیم پر غورو فکر ہی اس سے ہدایت خیزی کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ جب تک قرآن کریم سے تعلق مضبوط نہیں ہو گا اس کی تفہیم بھی ممکن نہیں ۔ ہما رے اسلاف نے اس مقصد کے حصول کے لیے اپنے شب و روز لگائے ، مشقتیں بر داشت کیں اور بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے تفہیم قرآن کے لیے آسانیاں پیدا کیں ۔ صحابہ کرام کا یہ معمول تھا کہ نبی ﷺ سے دس دس آیات سیکھا کرتے تھے اور جب تک ان دس آیات کے علوم اور ان کے عملی پہلو ؤں کو جان نہ لیتے مزید آیات نہ سیکھتے جیسا کہ عبد اللہ بن عمر ؓ نے عمر بن خطابؓ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ وہ آٹھ سال تک سورۃ البقرہ کا علم حاصل کرتے رہے پھر صحابہ کرام کی طرح تابعین اور تبع تابعین اور متأخرین ، محدثین اور فقہاء اور مفسرین نے بھی اس علم سے اپنی وابستگی کوقائم رکھا اور کلام اللہ کی صحیح فہم کی خاطر اپنی محنتوں کو صرف کیا اور اس طرح رسو ل اللہ ﷺ کی یہ علمی وراثت نسل در نسل منتقل ہوتی رہی اور ان شا ء اللہ قیامت تک یہ سلسلہ جا ری رہے گا اور اس سلسلے کی ایک کڑی عبد الرزاق بھترالوی ہیں کہ جنھوں نےاسلامی علوم کے حوالے سے اس دورِزوال میں نجوم الفرقان من تفسیر آیات القرآن جیسی علمی تفسیر ،درسی کتب کی شروح ، حواشی ، خلاصہ جات اوربہت سی دیگر کتب سپر د قلم کر کے مو جو دہ دور کی ایک اہم ضرورت کو پورا کیا ہے۔

مفسر کا تعارف

علامہ قاضی حافظ عبد الرزاق بھترالوی بن مولانا قاضی عبد العزیز حطاروی بھترال ضلع راولپنڈی کے ایک علمی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں ۔آپ۱۹۴۷ء میں پیدا ہوئے ۔یہ خانوادہ قاضی خاندان کے نام سے معروف ہے۔([5]) آپ کے آباؤ اجداد حطار ضلع چکوال میں رہائش پذیر تھے جن کا شمار اپنے زمانہ کے معروف علماء کرام اور مدرسین میں ہو تا تھا ۔با لخصوص حضرت علامہ قاضی بر ہا ن الدین ؒوہ جلیل القدر ہستی ہیں کہ جنھیں پیر مہر علی شاہ گو لڑوی ؒ (م: ۱۳۵۶ھ)کے استاد ہو نے کا شرف حاصل ہے ۔ اسی طرح استاد الصرف و النحو حضرت علامہ قاضی غلام رسول بھترالوی کا تعلق بھی اسی علم دوست گھرانے سے تھا۔آپ نے علم الصرف پر کتاب"صرفِ بھترال " تحریر کی جو آج بھی دینی مدارس میں پڑھائی جاتی ہے جس سے ایک عالم فیض یاب ہو رہا ہے۔ علامہ عبد الرزاق بھترالوی چشتی نے اسی علمی گھرانے میں آنکھ کھو لی جس کا اوڑھنا بچھونا درس و تدریس تھااورعلمی لحاظ سے اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا ۔آپ کے جلیل القدر اسا تذہ میں مولانا غلام یوسف گجراتی ،مولانا عبد الواحد، مولانا محمدعرفان نوری ،مولانا غلام محمو د ہزاروی ،مفتی عزیز احمد قادری ،مفتی محمد افضل حسین ، مفتی محمد حسین نعیمی ،علامہ محمد اشرف سیالوی ،اور قاضی محمد اسرار الحق حقانی کے اسمائے مبارکہ شامل ہیں۔

علامہ عبد الرزاق بھترالوی ایک کہنہ مشق مدرس ہیں ۔ آپ جامعہ رضویہ ضیاء العلوم راولپنڈی میں ۴۰ سال تک درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے اور اب اپنے ادارے " جامعہ جماعتیہ مہر العلوم " شکر یال راولپنڈی میں فیضِ علم تقسیم فر ما رہے ہیں۔ جامع مسجد غوثیہ ایف سکس ون، اسلام آباد میں بطور خطیب دعوت و تبلیغ کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے ہیں۔ درس و تدریس اور وعظ و خطابت کے ساتھ ساتھ تحریر کا میدان بھی آپ کے پیش ِ نظر رہا۔آپ کی نوک ِ قلم سے بہت سی کتب وجود پاکر اہل علم سے داد وصول کر چکی ہیں ۔درسی کتب کے حواشی اور شروحات آپ کا خاص میدان رہا ہے ۔آپ کی تحریر کردہ شروحات اور حواشی کو مدارس کے طلباء اور اساتذہ میں قبول عام حاصل ہوا ہے۔ آپ کی تصانیف میں عام قاری اور مدارس میں زیر تعلیم طلباء کے لیے ہی نہیں بلکہ ایک استاد کی سہولت کے لیے بھی وافر علمی مواد مو جود ہے جس کی وجہ سے آپ کی عربی تصانیف کو اہل علم کے ہاں قدر کی نگا ہ سے دیکھا جا تا ہے۔ وطن ِعزیز کے علاوہ بیرون ممالک میں بھی آپ کے تحریرکردہ حواشی اور شروحات کو ایک خاص شہرت حاصل ہے۔ سید حسین الدین شاہ مہتمم و شیخ الحدیث جامعہ رضویہ ضیا ء العلوم راولپنڈی نجو م الفرقان کی پہلی جلد کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ :

”چند سال پہلے مجھے ساؤتھ افریقہ جانے کا اتفاق ہوا ایک علمی مجلس میں انڈیا سے تشریف لائے ہو ئے ایک عالم دین سے ملاقات ہوئی جب انھیں یہ علم ہوا کہ میرا تعلق جامعہ رضویہ ضیاء العلوم راولپنڈی پاکستان سے ہے تو بڑی خو شی کا اظہار فر ما یا اور بتایا کہ حضرت مولانا عبد الرزاق چشتی بھترالوی کا نو ر الایضاح پر عربی حاشیہ ہمارے ہاں بڑا مقبول ہے ۔ اس حاشیہ و تو ضیح کو اہل علم نے بڑا پسند کیا ہے ۔ ہندوستان میں اس حاشیہ کی الگ سے طباعت کرا کر دینی مدارس میں تقسیم کیا جا رہا ہے ۔“(Cite error: Closing missing for tag)

ضرورت واہمیت

علامہ عبد الرزاق بھترالوی دور حاضر کی عظیم علمی شخصیت ہیں ۔ درس نظامی کی کتب اور دیگر کتب پر آپ کا علمی کام انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔درسیات سے متعلق کتب سے اہل علم کا آگاہ ہونا وقت کی اہم ضرورت تھی تا کہ لوگ ان سے استفادہ کرسکیں۔درسی کتب کےکہنہ مشق مدرس ہونے کی وجہ سے احکام والی آیات سے جس طرح موصوف نے فقہی مسائل کا استنباط کیا ہے وہ ہر صاحب علم کے لیے مفید ہے ۔ قرآن و سنت سے فقہی استدلال کر نے کے متعلق اللہ تبارک وتعالیٰ نے خو د تاکید کی ہے جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوۡنَ لِیَنۡفِرُوۡا کَآفَّۃً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنۡ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوۡا فِی الدِّیۡنِ وَلِیُنۡذِرُوۡا قَوْمَہُمْ اِذَا رَجَعُوۡۤا اِلَیۡہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوۡنَ ([6])

”اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب نکلیں تو کیوں نہ ہو کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈر سنائیں اس امید پر کہ وہ بچیں ۔“

اسی طرح آپ ﷺ کا فرمان ہے:

من یرد اللّٰہ بہ خیرا یفقہ فی الدین ۔([7])

” اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے دین میں سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔“

یہ بات تو پوری طرح واضح ہے کہ احکام شرعیہ کے استنباط کا اصل منبع کتاب اللہ رہا ہے، اس کے بعد سنت رسول اللہ ﷺ پھر قیاس و اجماع، جس کی حقیقی تصویر درج ذیل حدیث پاک میں دیکھی جاسکتی ہے :

من أصحاب معاذ بن جبل، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما أراد أن يبعث معاذا إلى اليمن قال:كيف تقضي إذا عرض لك قضاءقال أقضي بكتاب الله، قال:فإن لم تجد في كتاب الله، قال: فبسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:فإن لم تجد في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا في كتاب الله قال:أجتهد رأيي، ولا آلو فضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم صدره، وقال:الحمد لله الذي وفق رسول، رسول الله لما يرضي رسول الله ([8])

”اصحاب رسول ﷺ میں سے جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو نبی کریم ﷺ نے یمن کا قاضی بناکر رخصت کیا تو اس وقت آپﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ: کوئی مسئلہ درپیش ہوتو اپنے فیصلے کی بنیاد کس کو قرار دوگے؟ حضرت معاذؓنے عرض کیا کتاب اللہ کو ۔آپ نے پوچھا اگر اس میں کسی کا حل نہ مل سکے تو؟ فرمایا: احادیث سے فیصلہ کروں گا۔ آپ نے پھر دریافت فرمایا: کہ اگر وہاں بھی نہ ملے تو؟ اخیر میں کہا کہ اپنی رائے سے فیصلہ کروں گا اورحق کی جستجو میں کوئی کوتاہی نہیں کروں گا۔آپ ﷺ نے ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا اس اللہ کا شکر ہے جس نے اپنے رسول کے نمائندے کو حق کی توفیق عطا فر مائی جس پر اس کا رسول راضی ہے ۔“

آپﷺ نے حضرت معاذرضی اللہ عنہکے مزاجِ دین اور مزاجِ شریعت سے ہم آہنگی اور آگہی پر خوشی کا اظہار کیا اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا: تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے اللہ کے رسول کے قاصد کو اس بات کی توفیق دی جس سے اس کا رسول راضی ہے۔اس سے واضح ہوا کہ قرآن و سنت کی روشنی میں مسائل کا حل تلاش کرنا عمل خیر ہے اور اس کی جستجو میں وقت صرف کرنا شریعت میں پسندیدہ ہے ۔ اس میں شرط یہ ہے کہ یہ علم یقین کے درجہ پر ہو جیساکہ علامہ بھترالوی علم فقہ کی تعریف کے بعد لکھتے ہیں :

”فقہ کی تعریف میں لفظ علم استعمال کیا گیا ہے یہ بمعنی یقین کے ہے یعنی جس کے ذریعےاحکام شرعیہ فرعیہ کا یقین حاصل ہو اگر گمان حاصل ہوا تو وہ حقیقی معنی کے لحاظ سے فقہ نہیں اگر چہ مجازاً اسے فقہ کہہ لیا جاتا ہے ۔"([9])

علم فقہ کی اہمیت

عہد صحابہ و تابعین میں فقہ کا لفظ ہر قسم کے دینی احکام کے فہم پر بولا جاتا تھا جس میں ایمان و عقائد، عبادات واخلاق، معاملات اور حدود و فرائض سب شامل تھے، یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒنے فقہ کی تعریف میں فرمایا: الفقه : معرفة النفس، مَالَهَا وما عليها ([10])فقہ نفس کے حقوق اور فرائض و واجبات جاننے کا نام ہے۔"بالعموم فقہائے کرام فقہ کی اصطلاحی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:العلم بالأحکام الشرعية العملية من أدلتها التفضيلية. ([11])احکام فرعیہ شرعیہ عملیہ کو تفصیلی دلائل سے جاننے کا نام فقہ ہے۔صاحب رد المختار کے مطابق : العلم با لاحکام الشرعیۃالفرعیۃ المکتسب من ادلتھاالتفصیلیۃ([12])  ان احکام شرعیہ فرعیہ کا جاننا جو اپنے تفصیلی دلائل سے اخذ کئے گئے ہوں۔ علامہ ابن خلدون کے نزدیک فقہالفقه:معرفة أحكام الله تعالى في أفعال المكلّفين بالوجوب والحذر،والنّدب والكراهة والإباحة([13]) افعال مکلفین کی بابت اس حیثیت سے احکامِ الٰہی کے جاننے کا نام ہے کہ وہ واجب ہیں یا محظور (ممنوع وحرام)، مستحب اور مباح ہیں یا مکروہ۔علامہ عبد الرزاق بھترالوی کے نزدیک فقہ کی تعریف یہ ہے:الفقۃ ھو العلم الحا صل بجملۃ من الاحکام الشرعیۃ الفرعیۃ با لنظروالاستدلال([14])فقہ وہ علم ہے کہ نظر و استدلال سے تمام احکام الشرعیہ فرعیہ حاصل ہوں۔

مقدار فدیہ صوم اور علامہ بھترالوی

روزہ بد نی عبادت ہے ایسےمرد یا عورت جو روزہ رکھنے کی طاقت کھو بیٹھے ہیں چاہے بڑھاپے کے ضعف کے سبب یا کسی ایسی شدید اور خطرناک بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے جو روزہ رکھنے میں حائل ہو ، یعنی اگر اس بیماری کی حالت میں روزہ رکھا جائے تو بیماری اور تکلیف میں اضافہ ہونے کا واضح خدشہ ہو ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ روزہ نہ رکھیں بلکہ اس کے بدلے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا دے دیں جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے :

اَیَّامًا مَّعْدُوۡدٰتٍ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ وَعَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیۡنٍ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡرًا فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ وَ اَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمْ اِنۡ کُنۡتُمْ تَعْلَمُوۡنَ([15])

”گنتی کے دن ہیں تو تم میں جو کوئی بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اور جنھیں اس کی طاقت نہ ہو وہ بدلہ دیں ایک مسکین کا کھانا پھر جو اپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے اور روزہ رکھنا تمہارے لیے زیادہ بھلا ہے اگر تم جانو۔“

یہاں بعض اہل علم نے ہر روزے کے عوض ایک وقت کا کھانا مراد لیا ہے اور اکثر نے یہاں ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کو دو وقت کا کھانا کھلانا مراد لیا ہے . قرین قیاس دو وقت کا کھانا ہی ہے کیونکہ یہ فدیہ رمضان میں ادا کرنے کا حکم ہے تو اس سے مراد سحری اور افطاری دونوں ہوں گے۔فد یة طعام مسکین([16])سے مراد یہ کسی نے بھی نہیں لیا کہ اس کھانے کا معیار وہ ہو جو وہ مسکین عام طور پر کھاتا ہے بلکہ اس سے مراد یہ لیا گیا ہے کہ فدیہ کے طور پر دیا جانے والا کھانا فدیہ دینے والے کے معیار کے مطابق ہو گا , یعنی اس سے مراد وہ کھانا ہو گا جو فدیہ دینے والا عام طور پر کھاتا ہے . لہذا اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس کا تعین فدیہ دینے والے نے خود انفرادی طور پر کرنا ہے . یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ فدیہ کی ایک مقدار مقرر کرنا محال ہے پس یہ ہر فدیہ دینے والے کیلیے اس کے انفرادی معیار کے مطابق کمی و بیشی ہو سکتی ہے۔اس قدر فدیہ ادا کرنے کے بعد شرعی تقاضا پورا ہو جاتا ہے ۔لیکن اس میں اللہ رب العزت نے اضافے کی جو ترغیب دی ہے وہ بھی مد نظر رہنی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ،پس جو اس میں اضافہ کرے گا یہ اس کے اپنے لیے ہی بہتر ہو گا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ فدیہ میں جتنا بھی اضافہ کر لیا جائے وہ اسی قدر باعث ِخیر ہے ۔ فقہی اعتبار سے یہ اضافہ کرنا مستحب عمل ہوگا۔ فدیہ دینے والا اضافہ کرے گا تو وہ اس کے لیے موجب ِخیر ہو گا لیکن اگر وہ اضافہ نہیں کرے گا اور اپنے معیار کے مطابق طعام مسکین بطور فدیہ دینے پر اکتفا کرے گا تو اس کے اوپر کوئی گناہ نہیں ہو گا بلکہ شرعی تقاضا پورا ہو جائے گا ۔ اس سے یہ بات مزید واضح ہوئی کہ فدیہ کی مقدار کا تعلق ہر فدیہ دینے والے پر انفرادی طور پر منحصر ہے , کیونکہ اس میں اضافہ ہر فدیہ دینے والا اپنے ظرف جذبے اور ذوق و شوق کے پیش نظر کرے گا اور جتنا اضافہ کرے گا اس کےلیے اتنا ہی موجب ِخیر و برکت ہو گا ۔ صدقہ فطر کے لیے تو مختلف اجناس اور ان کی مقدار بعض روایات میں بیان کی گئی ہیں لیکن فدیہ کےلیے انتیس یا تیس یوم کےلیے دو وقت کے کھانے کا تعین خود شارع علیہ السلام نے کر دیا ہے ۔ ایسے لوگ جو شیخ فانی ہوں یعنی عمر کے ایسے حصے میں ہوں کہ نہ روزہ رکھ سکتے ہوں اور نہ ہی آئندہ روزہ رکھنے کی امید ہو تو وہ روزے کی جگہ فدیہ دے دیں ۔جو شخص مریض تھا یا مسافر تھا روزے نہیں رکھ سکا ، پھر صحیح ہو گیا یا مقیم ہو اور روزے قضا کرنے کا وقت مل گیا لیکن قضا نہ کر سکا تو اس پر لازم ہے کہ وصیت کر جائے کہ اس کے روزوں کا فدیہ ادا کر دیا جائے ۔ اگر اس نے وصیت کر دی تو اس کے تہائی مال سے اس کے روزوں کا فدیہ ادا کر نا واجب ہو جائے گا ۔ تہائی حصہ سے زائد مال بطور فدیہ تمام ورثاء اتفاق سے اور خوشی سے ادا کر دیں تو جائز ہے ۔ اگر اس شخص نے وصیت تو نہیں کی لیکن ورثاء کو معلوم تھا کہ اس کے ذمے اتنے روزے تھے وہ اپنی مرضی سے اس کا فدیہ ادا کر دیں تو اللہ تعالیٰ سے قوی امید رکھی جائے کہ وہ اس فدیہ کو قبول فرما ئے گا ۔اب سوال یہ ہے کہ فدیہ کی مقدار کیا ہونی چاہیے اس سلسلے میں علامہ عبد الرزاق بھترالوی نے جو مدلل تحقیق کی ہے وہ درج ذیل ہے:

فدیہ صوم کے متعلق علامہ بھترالوی کی تحقیق

علامہ عبد الرزاق بھترالوی نے،پیر مہر علی شاہ اور علامہ احمد رضا خان کے حوالے سے فدیہ کی مقدار اور ان کے پیما نوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہو ئے روزے کے فدیہ کی ادائیگی کے متعلق لکھا ہے:

”یاتو ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کو دو وقت کا کھانا کھلادے یا ہر روزے کے بدلے ایک صاع جو یا ایک صاع کھجور دے یا نصف صاع گندم یا نصف صاع کشمش ادا کرے یا ان میں سے کسی ایک چیز کی قیمت حساب کر کے ادا کرے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ فدیہ کی مقدار وہی ہے جو صدقۃ الفطر کی ہے ۔“([17])

صاع کیا ہے ؟

صاع ایک پیمانہ ہے جس کی مقدار فقہائے کرام نے درج ذیل بیان کی ہے۔

و ھو ای صاع المعتبر ما یسع الفاو اربعین درھماًمن ماش اوعدس ([18])

”صاع وہ ہے جس میں ایک ہزار چالیس درہم کے وزن کے برابر ماش یا مسور سما سکیں۔“

ابن عابدین کی مندرجہ بالا تعریف کے مطابق ایک ہزار چالیس درہم کے تین ہزار چھ سو چالیس ماشے ہو تے ہیں جس کے تین سو تین تولہ چار ماشے بنتے ہیں اور اس کے کلدار روپے تین سو سولہ روپے چھے آنے ہو تے ہیں۔ پس بحساب فی سیر اسی روپیہ کلدار ایک صاع کا وزن تین سیر تین پاؤسوا تین چھٹانک ہو تا ہے علمائے کرام نے صاع کا وزن احتیاطاً پورے چار سیر رکھا ہے ۔

صاع کے بارے میں صاحب نجوم الفرقان کی تحقیق

”مولانا احمد رضا خان نے صاع کی مقدار چار سیر سات چھٹانک بیان کی ہے اختلاف دراصل صاع کی مقدارمیں فقہائے کرام کے مختلف اقوال ہیں بلکہ شامی کے ایک قول کے مطابق صاع میں آٹھ رطل ہوتے ہیں ہر رطل ایک سو چالیس درہم کا وزن ہوتا ہے ۔ اس قول کے مطابق صاع چار سیر سات چھٹانک ہے بعض حضرات نے اس قول کو بھی پیش کیا ہے ۔ کسی قول کو رد کرنا تو ممکن نہیں صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ وزن جو سب سے زیادہ بیان کیا گیاہے اس میں احتیاط ہے لیکن آجکل وزن کلو اور گرام سے ہو رہا ہے سیر اور چھٹانک سے نہیں ہو رہا ۔کلو سیر سے تقریباًڈیڑھ چھٹانک بڑا ہے اس لیے آج کل کے حساب سے احمد رضا خان کے قول کے مطابق بھی نصف صاع کا وزن دو کلو بیان کیا جائے تو کافی ہے اس کے اوپر دس بارہ گرام بنتے ہیں ان کی قیمت لوگ پانچ روپے بنا دیتے ہیں حالانکہ آج کل دس روپے فی کلو کے حساب سے دس گرام کی قیمت دس پیسے بنتی ہے ۔“([19])

صاحب نجوم الفرقان نے صاع کے متعلق جو تحقیق پیش کی ہے عصر حاضر کی تمام تفاسیر میں اتنی تفصیل سےاس کی وضاحت نہیں ملتی۔ یہ اسی تفسیر کا خاصا ہے کہ اس میں آ یات کی تفسیر میں قرآن ،سنت ، اجماع ، قیاس کے ساتھ ساتھ فقہا ئےکرام کی آراء کو بیان کرتے ہوئے دور حاضر کے مطابق مسائل کا حل پیش کیا گیا ہے ۔

عورتوں کا قبرستان جانا

اس حقیقت سے کسی کو بھی انکار نہیں کہ انسان جب بھی قبرستان جا تا ہے یہ عمل اسے موت کی یاد دلاتا ہے ۔ موت کو یاد رکھنا اعمال کے درست کرنےاور خطاؤں سے باز رہنےکی ترغیب دلاتا ہے آخرت کو سنوار نا جتنا مردوں کے لیے ضروری ہے اتنا ہی عورتوں کے لیے بھی ضروری ۔ ہمارے معاشرے میں جہاں دیگر بہت سے مسائل میں اختلاف پایا جا تا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عورت قبرستان جا سکتی ہے کہ نہیں۔ کچھ علمائے کرام اس کے جواز کے قائل ہیں اور کچھ عدم جواز کی طرف گئے ہیں۔یہ بات درست ہے کہ رسول اللہﷺنے پہلے پہل زیارت قبور سے منع فرما دیا تھا لیکن بعد میں آپﷺ نے اجازت دے دی تھی جیسا کہ ارشاد نبوی ﷺ ہے :

قال رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور فزورھا فانھا تزھد فی الدنیا وتذکرالآخرۃ([20])

”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے تمھیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا (اب)تم قبروں کی زیارت کرو کیونکہ اس سے دنیا میں زہدحاصل ہو تا ہے ، اور آخرت کی یا د آتی ہے ۔“

اور اس اجازت میں مرد وعورت دونوں شامل ہیں مگر شرط یہ ہے کہ محض زیارت قبور کی خاطر شدر حال نہ ہو اور عورت بکثرت زیارت نہ کرے کیونکہ حدیث میں ہے :

لا تشد الرحال إلاالیٰ ثلاثة مساجد([21])

”نہ سامان سفر باندھا جائے مگر تین مسجدوں کی طرف۔“

اور ترمذی شریف میں ہے:

لعن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم زوّارات القبور([22])

”رسول اللہﷺ نے ایسی عورتوں پر لعنت کی جو بکثرت زیارت قبور کریں۔“

مندرجہ بالا احادیث مبارکہ پر اگر غورکیا جائے تو یہ با ت واضح ہے کہ عورتوں کا زیارت قبور کی نیت سے قبرستان جانا جائز اورمستحسن امر ہے، بشر طیکہ کہ شرعی آداب و حدود کو ملحوظ رکھا جائے، یعنی ستر و حجاب سے متعلق احکام کی پابندی کی جائے اور رونے پیٹنے سے گریز کیا جائے۔ نبی کریم ﷺ نے مرد و زن ہر دو کو قبروں کی زیارت سے منع فرمایا تھا، لیکن بعدازاں یہ ممانعت ختم کردی اور فرمایا:

كنت نهيتكم عن زيارة القبور ألا فزوروها، فإنه يرق القلب، وتدمع العين، وتذكر الآخرة([23])

”میں نے تمھیں زیارت قبور سے روکا تھا، لیکن اب تم ان کی زیارت کیا کرو کہ اس سے رقت قلب پیدا ہوتی ہے، آنکھیں پرنم ہوتی ہیں اور آخرت کی یاد آتی ہے۔“

یہ امرظاہر ہے کہ جس طرح ممانعت مردوں اور عورتوں کے لیے یک ساں تھی، اسی طرح اب زیارت قبور کا حکم بھی دونوں ہی کے لیے ہے۔ علاوہ ازیں رسول اللہ ﷺ نے زیارت قبور کے جو مقاصد اور حکمتیں بیان فرمائی ہیں، خواتین کو بھی ان کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ مردوں کو، لہٰذا اگر وہ ان کے پیش نظر قبرستان جانا چاہیں، تو ان کو کیوں کر روکا جا سکتا ہے؟اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بھی یہی مؤقف ہے۔ چنانچہ مروی ہے :

عن عبد الله بن أبي مليكة، أن عائشة أقبلت ذات يوم من المقابر فقلت لها: يا أم المؤمنين، من أين أقبلت قالت: من قبر أخي عبد الرحمن بن أبي بكر، فقلت لها: أليس كان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن زيارة القبور قالت: نعم،كان قد نهى، ثم أمر بزيارتها([24])

”عبد اللہ بن ابی ملیکہ سے مروی ہے کہ بیشک ایک دن حضرت عائشہ قبرستان کی طرف سے آرہی تھیں کہ استفسار کیا اے ام المؤ منین آپ کہاں سے آرہی ہیں تو آپ نے جواب دیا ، اپنے بھائی عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما کی قبر سے واپس آرہی ہوں ۔ ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا ، کیا رسول خدا ﷺنے زیارت قبور سے منع نہیں فرمایا؟ ام المومنین نے جواب دیا: ہاں یہ درست ہے، لیکن بعدازاں آپ ﷺ نے اس کی اجازت مرحمت فرما دی تھی۔“

اسی طرح ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ قبروں کے پاس کیا کہنا چاہیے، تو آپﷺ نے یہ کلمات سکھلائے:

السلام على أهل الديار من المؤمنين والمسلمين ويرحم الله المستقدمين منا والمستأخرين وإنا إن شاء الله بكم للاحقون([25])

”اے ان گھروں والے مومنو اور مسلمانو! تم پر سلامتی ہو۔ ہم میں سے آگے جانے والوں اور پیچھے رہنے والوں پر خدا سلامتی فرمائے اور خدا نے چاہا تو ہم بھی جلد ہی تمھیں ملنے والے ہیں۔“

اس حدیث پاک سے استدلال اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ نہیں فرمایاکہ عورتوں کے لیے تو زیارت قبور ہی ممنوع ہے پھر دعا کا سوال کیسا؟ بلکہ آپ ﷺ نے انھیں باقاعدہ دعا بتلائی جس سے عورتوں کے لیے زیارت قبور کا جواز ثابت ہوتا ہے۔

صحیح بخاری میں دوسرے مقام پر اس مؤقف کی مزید تائید درج ذیل حدیث مبارکہ سے ہو تی ہے :

عن أنس بن مالك رضي الله عنه، قال: مر النبي صلى الله عليه وسلم بامرأة عند قبر وهي تبكي، فقال اتقي الله واصبري([26])

”حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ایک خاتون کے پاس سے گزرے جو قبر کے پاس بیٹھی رو رہی تھی، تو آپﷺ نے فرمایا:خدا سے ڈرو اور صبر سے کام لو۔“

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس سے عورتوں کے لیے زیارت قبور کا اثبات ہوتا ہے، کیونکہ رسول اللہﷺ نے اس پرمنع نہیں فرمایا بلکہ صبر کی تلقین کی ہے جس سے مسئلہ واضح ہے کہ آپ کی خاموشی تقریری حدیث ہے جو مسلمانوں کے لیے حجت ہے۔

علامہ عبد الرزاق بھترالوی عورتوں کے قبرستان جانے کے جواز کے قائل ہیں آپ نے سورۃ البقرہ کی درج ذیل آیت مبارکہ کی تفسیر میں ناسخ و منسوخ کی بحث کرتے ہوئے اس مسئلے کی وضاحت کی ہے ارشاد باری تعا لیٰ ہے:

مَا نَنۡسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنۡسِہَا نَاۡتِ بِخَیۡرٍ مِّنْہَاۤ اَوْ مِثْلِہَا اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ([27])

”جب کوئی آیت ہم منسوخ فرمائیں یا بھلا دیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی لے آئیں گے کیا تجھے خبر نہیں کہ اللّٰہ سب کچھ کرسکتا ہے۔“

مندرجہ بالا آیت مبارکہ کی تفسیر میں ناسخ و منسوخ کی بحث کرتے ہوئے نسخ السنۃ با لسنۃ کے تحت جس حدیث کا ذکر کیا ہے وہ یہی ہے کہ تمھیں پہلے قبروں پر جا نے سے منع کیا تھا اب تمھیں اجازت ہے کہ جا یا کرو آپ نے اس حدیث مبارکہ کی وضاحت میں لکھا ہے:

”نبی کریمﷺنے پہلے قبروں کی زیارت سے منع فرمایا تھا کیونکہ زمانۂ جاہلیت قریب تھا لوگ بت پرستی کے عادی تھےاس لیے منع کیا تا کہ لوگ قبر والوں کو معبود نہ سمجھ لیں ۔ جب صحابہ کرام کے دلوں میں اسلام اور اسلامی طور طریقے راسخ ہو گئے تو آ پ ﷺ نے اجازت فرما دی ۔“([28])

اس کے بعد آپ لکھتے ہیں :

”عورتوں کے لیے بھی قبروں کی زیارت کر نا جائز ہے ۔ عام طور پر ایک حدیث پاک بطور دلیل پیش کی جا تی ہے کہ عورتوں کی قبروں کی زیارت کر نے پر لعنت ہے لیکن حدیث پاک کی مکمل وضاحت نہیں کی جاتی جو خود محدثین کرام نے بیان کی ہے۔“([29])

وہ حدیث درج ذیل ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺنے فرمایا : لعن زوّارات القبور ”قبروں کی زیارت کر نے والی عورتوں پر لعنت ہے ۔“ترمذی نے اس حدیث پاک کو حسن صحیح کہا ہے ، اور خود ہی حدیث پاک کی وضاحت ان الفاظ سے کی ہے :

قد رأی بعض اھل العلم ان ھٰذاکان قبل ان یر خص النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی زیارۃ القبو ر فلما رخص دخل فی رخصتہ الرجا ل و نساء و قال بعضھم انما کرہ زیارۃ القبور للنساءلقلۃ صبرھن ولشدۃ جزعھن([30])

”امام ترمذی نے کہا کہ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ اس حدیث پاک کے متعلق وضاحت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے قبروں کی زیارت کی جو رخصت عنایت فر مائی ہے یہ حدیث اس سے پہلے کی ہے کیونکہ پہلے مردوں کو منع کیا گیا تھا اور عورتوں کو بھی منع کیا گیا تھا جب اجازت فرمائی تو مردوں اور عورتوں تمام کے لیے ہی اجازت فرمائی اور بعض حضرات نے فر مایا کہ اگر عورتیں صبر نہ کریں اور قبروں پر جا کر زور زور سے رونا پیٹنا ، جزع و فزع کر نا شروع کر دیں تو ایسی حالت میں ان کا قبروں پر جا نا منع ہے ۔“

مندرجہ بالا تمام دلائل سے یہ بات واضح ہے کہ قبرستان میں جانا منع نہیں ہے چاہے کوئی مرد ہو یا عورت ہو البتہ شریعت کے مزاج کے خلاف کوئی بھی عمل چاہے وہ مرد کرے یا عورت کرے اسے منع کیا جائے گا ۔ آج کے بعض علماء پر افسوس ہو تا ہے کہ جتنا وہ تحریر ی و تقریری زور خواتین کے قبرستان میں جانے کے خلاف لگاتے ہیں اتنا کہیں بازاروں ، سینماؤں ، مخلوط محافل اور دیگر ایسے مقامات کہ جہاں سے فحاشی ، عریانی کی دعوت دی جاتی ہے لگاتے تو یہ کہیں زیادہ بہتر ہو تا کیونکہ قبرستان جا کر عورت نئے فیشن یا بے راہ روی کا شکار نہیں ہوتی بلکہ خوف خدا اور آخرت کی فکر لے کر آتی ہے جبکہ بازاروں اور اس قسم کے دیگر مقاما ت پر جا کر آخرت کو فراموش کر دیتی ہے اور غافل ہو جا تی ہے اورشریعت کی روح یہ ہے کہ آخرت کو یا د رکھا جائے۔باقی رہی یہ بات کہ عورتیں واویلا کرتی ہیں تویہ ہم نے کئی بار مردوں کو بھی دیکھا ہے کہ وہ اونچا اونچا رو پیٹ رہے ہو تے ہیں اور بے صبری کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں ۔ایسی صورت حال میں مردوں کی تربیت کی جاتی ہے اور سمجھا یا جا تا ہے کہ ایسا کرنا شریعت میں منع ہے تو یہی تعلیم عورتوں کو بھی دی جا سکتی ہے ۔

صاحب نجوم الفرقان اورقرآن کریم کے بوسیدہ اوراق کا مسئلہ

دور حاضر کا یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے کہ قرآن کریم کے بوسیدہ او ر پرانے اوراق کو کس طرح اور کہاں محفوظ کیاجائے؟کیونکہ آج کل جس کثرت سےقرآن کریم کی طباعت ہو رہی ہے وہ ایک زندہ حقیقت ہے اگر پڑھنے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے تو اسی تناسب سے ہر مسجداور مدرسے میں شہید قرآن کریم اور مقدس اوراق میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے بے حرمتی کا اندیشہ رہتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر دور میں ایسے نیک و صالح لوگ موجود رہے ہیں کہ جو صدق دل سے قرآن کریم کا احترام کرنے کے ساتھ ساتھ پرانے اوراق کو ٹھکانے لگانے کا بھی اہتمام کرتے رہے ہیں اور آج تک کر رہے ہیں۔ ان سب کے باو جود دیکھا گیا ہے کہ گلی کوچوں میں جا بجا مقدس اوراق پاؤں تلے روندے جا رہے ہوتے ہیں ۔یہ اوراق اشتہاروں ، اخبارات ،اور نصابی کتب کے ہوتے ہیں جن پر آیا ت مبارکہ درج ہوتی ہیں۔ پڑھنے والے ایک مرتبہ پڑھ کرانھیں ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتے ہیں یا سموسے پکوڑے والے اور دیگر دکاندار ان میں سودا سلف دے رہے ہو تے ہیں۔ الغرض کوئی بھی وجہ ہو مقدس اوراق کی بے حرمتی شرع پاک میں حرام ہے اگر کوئی جان بوجھ کر حقارت سے ایسا عمل کرے تو یہ کفر ہے اور اگر غفلت میں ایسا کرے تو یہ گناہ ہے ۔ اگر عوام الناس کو اس مسئلے سے آگاہی ہوجائے تو معاشرہ ایک بہت بڑے گناہ سے بچ سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں آگاہی نہ ہو نے کی وجہ سے بھی بہت سے فسادات اور بگاڑ پیدا ہو جاتے ہیں ۔فقہاء حضرات فرماتے ہیں کہ قرآن کریم اگر تلاوت کے قابل نہ رہے اوراق شہید ہو چکے ہوں تو اسے پانی میں بہادیاجائے یادفنادیا جائے یا جلادیاجا ئے یہ تمام امور جائز ہیں لیکن ہر ایک عمل میں تقدس پا مال نہیں ہونا چاہیے ۔اگر پانی میں بہانا ہو تو ایسے پانی میں بہایا جائے کہ جو گہرا ہو اور دوامی ہو کیونکہ عام نہروں میں بہانے سے بے حرمتی ہو تی ہے ۔جیسے ہی نہر کا پانی خشک ہو تا ہے تو جا بجا قرآن کریم کے نسخے سطح زمین پر پڑے نظر آتے ہیں بھینسیں اوردیگر جانور اوپر چل رہے ہوتے ہیں ۔بسااوقات ان بڑی نہروں سے چھوٹی نہریں نکلتی ہیں یہ مقدس اوراق ان نہروں سے ہوتے ہوئے عام کھا ل اور نالیوں میں جا پہنچتے ہیں جس سےان مقدس اوراق کی بے حرمتی ہوتی ہے اسی طرح دفنانے اور جلانے کے عمل میں بھی احتیاط ضروری ہے ۔حاصل کلام یہ ہے کہ ہر اس عمل سے گریز کیا جائے گا جس سےبے ادبی کا اندیشہ ہو ۔اس موضوع پر لکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس سے عوام الناس کو آگاہی ہو علامہ عبد الرزاق بھترالوی نےنجوم الفرقان کے مقدمے میں اس کی وضاحت کی ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ایک قرأت پر جمع کرنے کے لیے قرآن کریم کے نسخوں کو جلادیا تھاتاکہ لوگ قریش کی قرأت پر اکٹھے ہوں اور نزع برخاست ہو جائے۔([31]) اس کے بعد دیگر محدثین اور ائمہ کبار کے مختلف حوالہ جات بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

” اگر کوئی اور صورت نہ ہو تو اس نیت سے کہ قرآن پاک کے اوراق کی بےحرمتی ہو رہی ہے ، پاؤں کے نیچےآرہے ہیں ۔بکھرے پڑے ہیں پیٹھ آرہی ہے جن بوریوں اور تھیلیوں میں ہیں ان کے پیچھے لوگ اپنے جوتے بھی رکھ لیتے ہیں۔اس طرح کی بے حر متیوں سے بچانے کے لیے اگر کوئی شخص قرآن پاک کے اوراق کو جلاکرراکھ دفن کردے یا کسی دریا میں بہادے تو جائز ہے۔“([32])

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا عظیم کارنامہ

علامہ بھترالوی اپنے مؤقف کی تائید میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا درج ذیل عمل لائے ہیں ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے جس وقت قرآن پاک کے نسخے تیار کرنے کو کہا توانھیں تیار کر کے ہر علاقے میں ایک ایک نسخہ ارسال کیا، اور اس نسخے کے علاوہ ہر قسم کا قرآنی نسخہ جلانے  کا حکم دیتے ہوئے تمام امت مسلمہ کو ایک قرأت پر اکٹھا کیا جیسا کہ سید قاسم محمود لکھتے ہیں:

”حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو جامع قرآن کہا جاتا ہے ۔ اس میں اصل صورت یہ ہے کہ خلا فت راشدہ کے زمانے میں عجمی علاقوں کی فتوحات سے اسلام عرب سے نکل کر عجم کے علاقوں میں پھیلنا شروع ہوا تو تلاوت قرآن میں عجمی انداز غالب ہو نے لگا تو حضرت عثمان ؓ نے تمام مسلمانوں کو قرآن مجید کی ایک قرأت پر جمع کیا یعنی قرأت قریش پر اور باقی تمام قسم کی قرأتوں کو ختم کرنے کا حکم دیا ۔“([33])

مندرجہ بالا معاملہ اس وقت ہوا جب آپ کی بارگا ہ میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نےآکر عرض کیا کہ یا امیر المؤمنین ،اس سے پہلے کہ امت کتاب اللہ میں اختلاف کرنے لگے جیسے یہود ونصاریٰ نے کیا۔ اس کو سنبھال لیجیے۔ یہ بات سننے کے بعد آپ نے ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی طرف پیغام بھیجا کہ جو قرآن کریم کا نسخہ آپ کے پاس ہے وہ دے دیجیے تاکہ اس سے مزید نقول تیار کرکے مختلف علاقوں کی طرف بھیجی جا سکیں جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :

أن حذيفة بن اليمان، قدم على عثمان وكان يغازي أهل الشأم في فتح أرمينية، وأذربيجان مع أهل العراق، فأفزع حذيفة اختلافهم في القراءة، فقال حذيفة لعثمان: يا أمير المؤمنين،أدرك هذه الأمة، قبل أن يختلفوا في الكتاب اختلاف اليهود والنصارى، فأرسل عثمان إلى حفصة: أن أرسلي إلينا بالصحف ننسخها في المصاحف، ثم نردها إليك، فأرسلت بها حفصة إلى عثمان، فأمر زيد بن ثابت، وعبد الله بن الزبير، وسعيد بن العاص، وعبد الرحمن بن الحارث بن هشام فنسخوها في المصاحف ، وقال عثمان للرهط القرشيين الثلاثة: إذا اختلفتم أنتم وزيد بن ثابت في شيء من القرآن فاكتبوه بلسان قريش، فإنما نزل بلسانهم ففعلوا حتى إذا نسخوا الصحف في المصاحف، رد عثمان الصحف إلى حفصة، وأرسل إلى كل أفق بمصحف مما نسخوا، وأمر بما سواه من القرآن في كل صحيفة أو مصحف، أن يحرق([34])

”بےشک حضرت حذیفہ ابن یمان رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ۔ آپ شام ، ارمینیا،آذر بائجان اورعراق کی فتوحات میں شامل تھے ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو قرأت قرآن میں اختلاف کرتے ہو ئے پایا تھاآپ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بار گاہ میں حاضر ہوئے اورعرض کی یا امیر المؤمنین ،اس سے پہلے کہ امت کتاب اللہ میں اختلاف کرنے لگے جیسے یہود و نصاریٰ نے کیا۔ اس کو سنبھال لیجیے۔اس پر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ام المومنین سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ آپ قرآن کریم کا نسخہ (مصحف) ہمیں بھیج دیں تاکہ اسے کئی مصاحف میں ہم نقل کر لیں، پھر آپ کو یہ نسخہ واپس کر دیں گے، سو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے وہ نسخہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدنا زید بن ثابت، سیدنا عبداللہ بن الزبیر، سیدنا سعید بن العاص، سیدنا عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا۔ ان حضرات نے متعدد مصاحف میں اسے نقل فرمایا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان میں سے تین قریشیوں سے فرمایا۔ جب کسی لفظ قرآن میں تم اور زید بن ثابت میں اختلاف ہو تو اسے قریش کی زبان میں لکھناکہ قرآن انھی کی زبان میں اترا ہے۔ سو ان حضرات نے ایسا ہی کیا۔ یہاں تک کہ جب مصاحف کے نسخے تیار ہوگئے تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے وہ نسخہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس واپس کر دیا اور لکھے گئے نسخوں میں سے ہر علاقے میں ایک نسخہ بھیج کر ساتھ ہی یہ حکم دےدیا کہ اس کے علاوہ کسی بھی صحیفے یا مصحف میں لکھا ہوا قرآن جلا دیا جائے۔“

دیگر فقہا ء کرام کی آراء

الدر المختار مع ردالمختار

صاحب درالمختار کی رائے یہ ہے کہ اس قسم کے اوراق کو بڑ ے ہی ادب و احترام سے اس طرح دفنادیا جائے جس طرح انسان کو دفن کیا جا تا ہے۔ ادب و احترام کی وجہ سے ساتھ یہ بھی فر ماتے ہیں کہ کسی عیسائی کو اجازت نہ دی جائے کہ وہ قرآن کریم کو ہاتھ لگائے۔جیسا کہ آپ لکھتے ہیں :

المصحف إذا صار بحال لا يقرأ فيه يدفن كالمسلم ويمنع النصراني من مسه۔([35])

”قرآن مجید کی جب ایسی حالت ہوجائے کہ اس پر تلاوت نہ کی جاسکے تو اسے دفن کردیا جائے گا جیسے مسلمانوں کو دفن کیا جاتاہے۔اور عیسائی کو چھو نے سے منع کیا جائے گا۔ “

فتاویٰ عالمگیری

المصحف اذا صار خلقا لا يقرا منه ويخاف ان يضيع يجعل فی خرقة طاهرة ويدفن ودفنه اولیٰ من وضعه موضعا يخاف ان يقع عليه النجاسة او نحو ذلک ويلحد له لانه لو شق ودفن يحتاج الی اهالة التراب عليه وفی ذلک نوع تحقير الا اذا جعل فوقه سقف بحيث لا يصل التراب اليه فهو حسن ايضاً. المصحف اذا صار خلقا وتعذرت القرأة من لا يحرق بالنار([36])

”جب قرآن کریم پرانا ہو جائے اور پڑھا نہ جائے اور ضائع ہونے کا ڈر ہو تو اسے پاکیزہ کپڑے میں باندھ کر دفن کر دیا جائے اور دفن کرنا اس سے بہتر ہے کہ کسی ایسی جگہ رکھ دیا جائے جہاں اس پر نجاست وغیرہ پڑنے کا ڈر ہو اور دفنانے کے لیے لحد کھودے کیونکہ اگر سیدھا گڑھا کھودا اور اس میں بوسیدہ قرآن دفن کردیا تو اوپر مٹی ڈالنے کی ضرورت پڑے گی اور اس میں ایک طرح کی بے ادبی ہے۔ ہاں اگر اوپر چھت ڈال دے کہ قرآن کریم تک مٹی نہ پہنچے تو یہ بھی اچھا ہے۔ قرآن کریم جب بوسیدہ ہو جائے اور اس سے قرات مشکل ہو جائے آگ میں نہ جلایا جائے۔“

مندرجہ بالا تمام دلائل سےیہ بات واضح ہورہی ہے کہ قرآن کریم کے اوراق کا ادب و احترام ہر حال میں ضروری ہے قطع نظر اس کے کہ وہ درست حالت میں ہیں یا بوسیدہ ہو چکے ہوں۔ سب سے بہترین طریقہ تو یہ ہے کہ بعض ادارے جو قرآن کریم کے شہید اوراق کو اور پرانے قرآن کریم کو ادب و احترام سے ٹھکانے لگانے والے ہیں ان کے سپرد کردیا جائے جیسے صوفی برکت رحمۃ اللہ علیہ(م:۱۹۹۷ء) نےدار الاحسان دالووال سمندری روڈ پر اور اسی طرح دارالاحسان سالار والا سانگلہ ہل میں قرآن محل کے نام سے جگہ مخصوص کی ہوئی ہے جہاں پر پرانے قرآن کریم ،اوراق درست مکمل کر کے سنبھالے جاتے ہیں اور بو سیدہ اوراق کے لیے کنویں کھود کر کر بوسیدہ اوراق کو زمین کےسپرد کیا جا تا ہے ۔ اسی طرح کراچی میں کچھ درد دل رکھنے والے ہیں جو مقدس اوراق کو سمندر برد کردیتے ہیں یہ بھی ٹھیک ہے مگرچھوٹی نہروں میں قطعاًنہیں بہانا چاہیے کیونکہ یہ آئے دن خشک ہو تی رہتی ہیں ۔ رہی بات دفنا دینے کی تو گہری قبر کھود کر مانند مردہ احترام کے ساتھ دفنا دیا جائےتا کہ مٹی اوراق پر نہ پڑے۔

اوراق مقدسہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے

دورحاضر کے معاملات کومد نظر رکھتے ہوئے اگر ان اوراق کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے تو بہتر ہوگا۔ پرانے قرآن کریم کے نسخہ جات کے لیے قرآن محل یا بڑے دریا اور سمندر مناسب ہیں اور یہ عام طور پر کم ہو تے ہیں ۔ دوسرے نمبر پر قاعدے، سپارےاور مقدس آیات والے اوراق جو شہید ہو چکے ہو تے ہیں انھیں جلاکر ان کی راکھ دریا برد کردی جائے یا دفنادی جائے اس طرح ان مقدس اوراق کی حرمت کو پامال ہو نے سے بچایا جا سکتا ہے ۔ یہ کام حکومتی سطح پر ہونا ضروری ہے کہ گورنمنٹ اس کا نو ٹس لے اور اس کے لیے باقاعد ایک ادارہ ہو جو ملک بھر سے ان مقدس اوراق کو اکٹھا کر کے انھیں ٹھکانے لگائے کیونکہ اگر ہر بندہ جلانے بیٹھ جائے تو اس سے بھی بہت سی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں جیسا کہ آئے دن ملک بھر سے یہ خبریں ملتی رہتی ہیں کہ فلاں شخص کو زندہ جلادیا گیا کیونکہ وہ قرآن کریم کی بے حرمتی کر رہا تھا اس طرح معاشرے میں فساد پیدا ہو نے کا اندیشہ ہے اور دوسر ی طرف جو دین دشمن طاقتیں ہیں انھیں بھی بے حرمتی کرنے کا موقع مل سکتا ہے ۔ اگرحکومت کی سطح پر یہ کام ہوگا تو پھر اس قسم کی قباحتیں پیدا نہیں ہوں گی۔

کاغذ کا دوبارہ استعمال

یہ بھی ممکن ہے کہ جس طرح درختوں کے مختلف حصوں کو نرم کر کے کاغذ بنایا جا تا ہے اسی طرح صاف ستھرا طریقہ وضع کیا جائے جس کی بدولت ہر قسم کے مقدس اوراق کو ادب و احترام کا لحاظ کرتے ہوئے ایک نئی شکل میں دوبارہ ڈھال دیا جائے اور پھر اس کاغذ کو صرف قرآن کریم اور سپاروں کے لیے ہی استعمال کیا جائے ۔ آج کے جدید دور میں یہ طریقہ سب سے محفوظ اور کار آمد ہو سکتا ہے اگر ادب و احترام کے تمام تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کام کیا جائے ۔

خلاصۂ کلام

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہےکہ ہماری زندگی کے تمام مسائل کا حل قرآن کریم میں موجود ہے ۔ ہر دور میں علمائے حق نے اس ذمے داری کو بڑے احسن انداز میں نبھا یا ہے۔موجودہ صدی میں پوری دنیامیں تقریباً ہرزبان میں اﷲ رب العزت کے کلام مجید کی تفاسیرلکھی گئی ہیں اورگزشتہ دورمیں بھی لکھی جاتی رہی ہیں اوراسی طرح پاک وہندکے اس خطے میں بھی بہت زیادہ کام ہواہے۔اس پورے دورانیے پرایک طائرانہ نظرڈالی جائے تو ان میں ایک نام علامہ عبدالرزاق بھترالوی کا ہے ۔ آپ نے مختلف درسی کتب کے عربی حواشی ، اردو خلاصہ جات ،مختلف موضوعات پر بیسیوں کتب لکھنے کے ساتھ ساتھ با لخصوص قرآن کریم کی تفسیر نجوم الفرقان لکھ کر کار خیر میں ایک اہم اضافہ کیا ہے۔عام مسلمانوں کے لیے با لعموم اور مدارس کے طلباء اور اساتذہ کے لیے با لخصوص اس میں ہر قسم کا علمی ذخیرہ موجود ہے۔اس تفسیر کا خاصا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ اور انبیاء کرام کے متعلق استعمال کیے گئے الفاظ میں ادب و احترام کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ قرآن وسنت میں ہرمسئلے کی اصل موجودہے جس سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ اہل علم ان دلائل کوبنیادبناکردور ِ حاضرمیں پیش آمدہ مسائل کاحل تلاش کریں ۔علامہ بھترالوی نے قرآن کریم کی تفسیر کرتے ہوئے قرآنی آیات، احادیث مبارکہ ،اور آثار صحابہ سے ہر ہر مقام پر فقہی استنباط کرتے ہوئے مسائل کا حل پیش کیا ہے جیساکہ قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مجبوری کی حالت میں روزہ ترک کر نے کا حکم دیتے ہو ئے واضح فر مایا ہے کہ معذور و مجبور لوگ اپنے روزوں کے بدلے میں فدیہ دیں ۔علامہ بھترالوی فدیہ کی مقدار، تفسیر کی روشنی میں صیاع کےساتھ بیان کی ۔ اسی طرح نسخ کی گفتگو میں نسخ السنہ با لسنہ کی تفسیر میں قبرستان جانے کی ممانعت و بعد ازاں اجازت کے احکام بیان کرتے ہوئے خواتین کے قبرستان جانے کے متعلق اپنی رائے دی ہے ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے امت مسلمہ کوایک قرأت پر متحد کرنے کے لیے باقی قرآن کریم کے نسخوں کو جلانے کا حکم دیا صاحب نجوم الفرقان نے آپ کے اس عمل سے استدلال کرتے ہوئے قرآن کریم اور دیگر مقدس بوسیدہ اوراق کو نظر آتش کرنے ، پانی میں بہانے اور دفنانے کے احکام بیان کیے ہیں ۔مفسر کے علمی کام کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ بےشمار صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں اگر حکومت ان کی سرپرستی کرے تو اس سےمعاشرے کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔

 

حوالہ جات

  1. ۔ البقرہ :۱۸۴
  2. ۔ البقرہ:۱۰۶
  3. ۔ بخاری، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي ،الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه ، صحيح البخاري،المؤلف: ،المحقق: محمد زهير بن ناصر الناصر،الناشر: دار طوق النجاة (مصورة عن السلطانية بإضافة ترقيم ترقيم محمد فؤاد عبد الباقي)الطبعة: الأولى، 1422ھ،کتاب فضائل القرآن ،باب جمع القرآن,رقم الحدیث:۴۹۸۷۔
  4. ۔ محمد: ۲۴
  5. ۔ قاضی خاندان کی وجہ تسمیہ کے بارے میں علامہ عبد الرزاق بھترالوی کا کہنا ہے کہ ہمارے خاندان کی اکثر یت درس و تدریس سے وابسطہ تھی اس زمانے میں اساتذہ کے ساتھ قاضی کا لفظ لگا یا جا تا تھا اسی مناسبت سے ہم اپنے نام کے ساتھ لفظ قاضی لکھتے ہیں ۔
  6. ۔ التوبۃ:۱۲۲
  7. ۔ الصحيح البخاری، کتاب العلم، باب من يرد اﷲ به خيرا يفقهه فی الدين،رقم الحدیث:۷۱
  8. ۔ ابوداؤد،سلیمان بن اشعث ،بن إسحاق بن بشير(م:۲۷۵) سنن أبي داود ،المحقق: محمد محيي الدين عبد الحميد، بیروت المكتبة العصرية، باب اجتھاد الرأی فی القضاء،رقم الحدیث: ۳۵۹۲ ۔
  9. ۔ بھترالوی ،عبد الرزاق ،نماز حبیب کبریاءﷺ۔ص۳۰ ۔
  10. ۔ الزرکشی، أبو عبد الله،بدر الدين محمد بن عبد الله(م: ۷۹۴ ھ)المنثور في القواعد الفقهية ، وزارة الأوقاف الكويتية،الطبعةالثانية، ۱۴۰۵ھ، ج۱ ، ص ۶۸ ۔
  11. ۔ ابن نجیم، زين الدين بن إبراهيم (المتوفى:۹۷۰ ھ) البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ج ۱ ،ص۳ ۔فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت،ج۱،ص۱۳ ۔
  12. ۔ ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز ، الدمشقي الحنفي (م: ۱۲۵۲ھ) رد المحتار على الدرالمختار،بیروت دارالفكر،الطبعة:الثانية،۱۴۱۲ھ؍۱۹۹۲ء،ج ۱، ص ۳۶
  13. ۔ ابن خلدون ،عبد الرحمن بن محمد بن محمد(م :۸۰۸ھ)تاریخ ابن خلدون ،ج ۱ ،ص،۵۵۰ ،بیروت ،دارالقلم ۔ الطبعة: الثانية،۱۴۰۸ھ۔
  14. ۔ بھترالوی ،عبد الرزاق ،نماز حبیب کبریاءﷺ۔ص۳۰ ۔مقدمہ نور الانوار۔
  15. ۔ البقرہ:۱۸۴
  16. ۔ البقرہ:۱۸۴
  17. ۔ بھترالوی، عبد الرزا ق ، نجوم الفرقان، ج ۴ ،ص۵۹۳ ۔
  18. ۔ ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين،(م۱۲۵۲ھ) رد المحتار على الدر المختار،باب صدقۃالفطر ،بيروت ،دار الفكر-الطبعة: الثانية، ۱۴۱۲ھ ، ج۲،ص۳۶۵ ۔
  19. ۔ بھترالوی، عبد الرزا ق ، نجوم الفرقان، ج ۴ ،ص۵۹۳ ۔
  20. ۔ ترمذی،ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ(م:۲۷۹ھ) سنن الترمذی ،باب ماجاء فی الرخصۃ فی زیارۃ القبور،رقم الحدیث :۱۰۵۴ ،بیروت ، دار الغرب الاسلامی، طبع، ۱۹۹۸ء ۔
  21. ۔ بخاری ، کتاب فضل الصلا ۃ فی مسجد مکۃ المکرمہ ، رقم الحدیث:۱۱۸۹ ۔
  22. ۔ احمد بن حنبل ، ابو عبد اللہ ، شیبانی،(م:۲۴۱ھ)مسند امام أحمد بن حنبل ،باب ،مسند ابی ہریرہ،رقم الحدیث ۸۴۳۰ ۔
  23. ۔ أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله بن محمد نيسابوري، (م:۴۰۵ھ) المستدرك على الصحيحين، کتاب الجنائز،رقم الحدیث ۱۳۹۳، بيروت، دار الكتب العلمية، تحقيق: مصطفى عبد القادرعطا،الطبعة:۱۴۱۱ھ۔
  24. ۔ أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله بن محمد نيسابوري، (م:۴۰۵ھ) المستدرك على الصحيحين، کتاب الجنائز،رقم الحدیث ۱۳۹۲، بيروت، دار الكتب العلمية، تحقيق: مصطفى عبد القادرعطا،الطبعة:۱۴۱۱ھ۔
  25. ۔ مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيري النيسابوري(م:۲۶۱ھ) صحيح مسلم، ،باب ما يقال عند دخول القبور والدّعاء لأہلہا.رقم الحدیث:۹۷۴، بیروت ، دار احیاء التراث العربی۔
  26. ۔ بخاری،أبو عبدالله ، محمد بن إسماعيل، (م:۲۵۶ھ)الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه،باب قول الرجل للمرأۃ عند القبر اصبری،رقم الحدیث :۱۲۵۲۔المحقق: محمد زهير بن ناصر الناصر، دار طوق الطبعة: الأولى،۱۴۲۲ھ۔
  27. ۔ البقرہ:۱۰۶
  28. ۔نجوم الفرقان ج۳ ،ص ۵۵۷۔
  29. ۔نجوم الفرقان ،ج۳ ،ص ۵۵۸ ۔
  30. ۔التبریزی، محمد بن عبد الله الخطيب، مشكاة المصابيح، باب زیارۃالقبور، رقم الحدیث :۱۷۷۰ ، تحقيق محمد ناصر الدين الألباني بيروت، المكتب الإسلامي الطبعة :الثالثة، ۱۴۰۵ھ ۔
  31. ۔ سیوطی ،علامہ جلال الدین،۹۱۱ھ،تاریخ الخلفاء،اردو ترجمہ، کراچی ، مدینہ پبلشنگ کمپنی، س ن ،ص ۲۵۲۔
  32. ۔بھترالوی ، عبدالرزاق،نجوم الفرقان ،راولپنڈی، ضیاءالعلوم پبلی کیشنز،۲۰۰۷ ،ج۱ ،ص۷۴
  33. ۔سید قاسم محمود ، اسلامی شاہکار انسائیکلو پیڈیا ، لاہور الفیصل ، اردو بازار،۲۰۰۰ء ۔ص۱۳۱۷
  34. ۔ بخاری، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي ،الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه ، صحيح البخاري،المحقق: محمد زهير بن ناصر الناصر،الناشر: دار طوق النجاة ، الطبعة: الأولى، 1422ھ،کتاب فضائل القرآن ،باب جمع القرآن,رقم الحدیث:۴۹۸۷۔
  35. ۔ ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الدمشقي الحنفي (المتوفى: 1252ھ) الدر المختار مع رد المحتار،، کتاب الطهارة، سنن الغسل، دار الفكر-بيروت۔ الطبعة: الثانية، 1412ھ۔1992ء،ج ۱ ،ص۱۷۷۔
  36. ۔ الفتاوى الهندية، لجنة علماء برئاسة نظام الدين البلخي۔ الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن،بیروت ،دار الفكرالطبعة: الثانية، 1310ھ،ج۵، ص ۳۲۳۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...