Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 35 Issue 1 of Al-Tafseer

سماج کے کمزور طبقات کے ساتھ رسول اللہﷺ کا طرز عمل |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

35

Issue

1

Year

2020

ARI Id

1682060084478_847

Pages

208-224

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/137

Subjects

Muhammad (SAW) Behavior Lower Class People.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

رسول اللہﷺ اعلیٰ ترین سماجی خصائل کی حامل شخصیت تھے۔ انھوں نے ایک فلاحی معاشرے کی بنیاد انھی خصوصیات پر رکھی کیونکہ انسانی معاشرے ہمیشہ تعلیم و تربیت اور اخلاق حسنہ سے عروج اور استحکام حاصل کرتے ہیں۔ معاشرے کے امن، خوشحالی اور استحکام کا راز علم، عمل اور اخلاق میں پوشیدہ ہے۔ اسی طرح قیادتیں بھی علم، عمل اور اخلاق حسنہ سے تشکیل پاتیں اور ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ اسی اخلاق حسنہ کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو خلق عظیم کے اعلیٰ درجہ پر فائز کیا۔ ارشاد فرمایا:

اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ ([1])

”بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں۔“

یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓسے حضرت سعد بن ہشام بن عامرؓ نے پوچھا کہ آقا علیہ السلام کے اخلاق حسنہ جن کی تعریف قرآن مجید میں انک لعلی خلق عظیم کہہ کر کی گئی۔ وہ کیا ہیں؟حضرت عائشہ صدیقہ ؓنے پوچھا :

أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟

” کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟“

انھوں نے عرض کیا کہ پڑھتا ہوں۔ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :

فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ ﷲِ کَانَ الْقُرْآن([2])

”حضور نبی اکرم ﷺ کا خلق قرآن ہی تو ہے۔“

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اخلاق حسنہ، خصائل حمیدہ، فضائل کریمہ اور انسان کی عادات شریفہ کا جو جو ذکر، جز، گوشہ اور پہلو بیان کیا ہے، ان ساری خوبیوں کے عملی پیکر کا نام محمد مصطفیﷺہے۔ اللہ رب العزت کے بیان کردہ اخلاق کو اگر تعلیمات کی شکل میں دیکھنا ہو تو اس وجود کا نام قرآن ہے اور اللہ رب العزت کے تعلیم کردہ اخلاق اور خصائل حمیدہ کو اگر ایک انسانی پیکر اور شخصی اسوہ کی صورت میں دیکھنا ہو تو ان کا نام محمد مصطفی ﷺ ہے۔ آپﷺ نے بھی اخلاق کی ترویج و فروغ کو اپنی منصبی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :

إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَکَارِمَ الأَخَلَاق۔([3])

”مجھے مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے۔“

جب ہم حضور نبی اکرم ﷺکی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ چیز واضح نظر آتی ہے کہ آپ ﷺنے اخلاق حسنہ کے ہزارہا گوشوں کی تعلیم دی، انھیں اپنی عملی زندگی میں سمویا اور ان کے ذریعے اپنے اسوۂ حسنہ اور شخصیت مقدسہ کو فکری، علمی اور عملی طور پر انسانیت کے سامنے رکھا۔ الغرض اخلاقِ حسنہ کا نمونہ کامل اور پیکر اتم بن کر آپ ﷺ کائنات خلق اور افق انسانیت پر ظہور پذیر ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے امت کی تربیت کے لیے جس قدر بہترین سماجی طرزِ عمل کا مظاہرہ فرمایا اس کی مثال پیش کرنا محال ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ آپﷺ نے تمام طبقاتِ انسانی کے ساتھ مثالی برتاؤ کیا کہ جس کے اثرات واضح طور پر محسوس کیے گئے۔ مضمون ہٰذا میں ہم چند اہم طبقات کے ساتھ رسول اللہﷺ کے سماجی طرزِ عمل کا مطالعہ پیش کریں گے جو کہ درج ذیل ہیں:

٭بچوں کےساتھ طرزِ عمل٭ بیماروں کےساتھ طرزِ عمل

٭عورتوں کےساتھ طرزِ عمل٭ غلاموں کےساتھ طرزِ عمل

٭غیر مسلموں کےساتھ طرزِ عمل٭ قیدیوں کےساتھ طرزِ عمل

٭مخنث کے ساتھ طرزِ عمل٭ یتیموں کےساتھ طرزِ عمل

بچوں کےساتھ طرزِ عمل

رسول اللہﷺ نے احترامِ آدمیت کا درس دینے کے ساتھ ساتھ ہر چھوٹے بڑے کے ساتھ احسن سلوک روا رکھنے کا حکم دیا ہے۔ایک عرب سردار اقرع بن حابس نے رسول اللہﷺ کو دیکھا ،آپﷺ ننھے حسینؓ کا بوسہ لے رہے تھے، اقرع کہنے لگا:

”حضورﷺ! میرے دس بچے ہیں ، میں کبھی اپنے کسی ایک بچے کو بھی نہیں چوما۔“

اس پر آقا ﷺ نے فرمایا:

من لا یَرحم لا یُرحم۔([4])

”جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔“

مزید برآں ایک موقع پر آپ ﷺ نے چھوٹوں اور بڑوں کا خیال رکھنے کی تلقین ان الفاظ میں فرمائی:

لیس منا من لم یرحم صغیرنا ولم یُوقِّر کبیرنا۔([5])

”وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کا احترام نہ کرے۔“

اسی طرح ایک اور واقعہ ہے کہ ام خالد،جو خالد بن سعید کی بیٹی تھیں‘ بیان کرتی ہیں کہ میں رسول اللہﷺکے پاس اپنے باپ کے ساتھ آئی، میں نے ایک زرد قمیض پہنی ہوئی تھی۔ رسول اللہ ﷺنے مجھ کو دیکھ کر فر مایا: واہ واہ کیا کہنا ”سنہ سنہ” یہ حبشی زبان کا لفظ ہے ام خالد کہتی ہیں: (میں کم سن بچی تو تھی ہی )میں جاکر رسول اللہﷺ کی پشت پر مہر نبوّت سے کھیلنے لگ گئی۔ میرے باپ نے مجھے جھڑکا۔ رسول اللہﷺنے فر مایا: اس کو کھیلنے دے۔ پھر آپﷺ نے مجھے یوں دعا دی:” یہ کپڑ ا پرا نا کر پھاڑ، پرانا کر پھاڑ۔“تین بار یہی فر مایا۔ عبد اللہ کہتے ہیں :

”وہ کرتا تبرک کے طور پر رکھارہا یہاں تک کہ کالا پڑگیا۔“([6])

٭آپﷺ نے ایک بچے کو گود میں اٹھایاتو اس نے کپڑے پر پیشاب کردیا، آپ نے پانی بہا کر صاف کرلیا۔([7])

٭حضرت انس فرماتے ہیں کہ میرا ایک چھوٹا بھائی تھا، اس کانام ابو عمیر تھا،(اس  کے پاس ایک چڑیا تھی) آپ ﷺ آئے ابو عمیر سے فرمانے لگے:یَا أبَا عُمَیْر! مَا فَعَلَ الْنُغَیر؟([8])

”اے ابو عمیر! تمہاری چڑیا کیا ہوئی؟“

آپﷺاپنی انتہائی مصروفیت کے باوجود صحابہٴ کرام کے بچوں کے ساتھ نرمی، محبت اور انسیت کا معاملہ فرماتے، انھیں خوش کرنے کی ترکیبیں اپناتے، ان کے پرندوں تک کے بارے میں استفسار کرتے، آپﷺ کے اس محبت بھرے جملے سے فقہاء عظام نے کئی مسائل نکالے ہیں۔ آپﷺ بچوں کے ساتھ نہایت شفقت کا معاملہ فرماتے اور ایسا ہی کرنے کا حکم دیتے تھے۔

بیماروں کےساتھ طرزِ عمل

رسول اللہﷺ خود بھی بیماروں کی عیادت اور خبر گیری فرماتے اور مسلمانوں کو بھی اس کی ترغیب دیتے۔ چنانچہ بیماروں کی خبر گیری، غمگساری اور ہمدردی کرنا ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا:

”مسلمان کے مسلمان پر چھے حقوق ہیں ،ایک یہ ہے کہ اگر وہ بیمار پڑ جائے تو اس کی عیادت کی جائے۔“([9])

حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

اَطعِمُواالجائع وَ عُودواالمریضَ و فُکُّوا العانِیَ۔([10])

"بھوکے کو کھانا کھلاؤ، مریض کی بیمار پرسی کرو اور قیدی کو آزاد کرو۔"

آپﷺ ایک انصاری کی عیادت کو تشریف لے گئے اور اس سے فرمایا:

”ماموں جان! لا الٰہ الااللہ کہیے۔“

وہ کہنے لگے کہ لا الٰہ الا اللہ کہنا میرے حق میں بہتر ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ”ہاں“ ([11])

٭ مسلمانوں ہی نہیں ، بلکہ آپﷺ تو غیر مسلموں کی کی بیمار پرسی کے لیے بھی تشریف لے جایا کرتے تھے اور ان کو اسلام کی دعوت بھی دیتے تھے۔

٭ایک یہودی کا لڑکا آپ ﷺ کی خدمت میں تھا۔ وہ ایک دفعہ بیمار ہوگیا۔ آپﷺ نے ازخود تشریف لا کر اس کی عیادت فرمائی، اس بچے کے سر ہانے بیٹھے، پھر اس بچے سے فرمایا: اسلام قبول کرو، اس بچے نے اپنے والد پر نظر ڈالی، والد نے بھی کہا: ابوالقاسم ﷺ کی اطاعت کر! لہٰذا وہ بچہ مسلمان ہوگیا، آپﷺیہ کہتے ہوئے نکلے:

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَنْقَذَہ مِنَ النَّار۔([12])

”تمام تعریفیں اسی اللہ کے لیے ہیں جس نے اس کو آگ سے بچالیا۔“

عورتوں کےساتھ طرزِ عمل

رسول اللہ ﷺ نے ازواجِ مطہرات کے ساتھ جس قدر بہترین سلوک کا معاملہ فرمایا اس کی نظیر نہیں ملتی۔ آپﷺنے اپنے عمل اور قول سے مسلمانوں کو عورتوں کے ساتھ نہایت عمدہ رویہ اپنانے کی ترغیب دی۔احادیث میں نبی کریم ﷺ نے بھی اپنی اُمت کو بڑی تاکید فرمائی ہے۔

آپﷺ نے ارشادفرمایا:

إن من أکمل المومنين إيمانا أحسنھم خلقا وألطفھم بأهله"۔([13])

”کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں سب سے بہتر اور اپنے بیوی بچوں پر سب سے زیادہ مہربان ہو۔“

مزید فرمایا:

خيرکم خيرکم لأهله وأنا خيرکم لأهلي ۔([14])

”تم میں سب سے بہتر وہ ہے ، جواپنی بیوی کے حق میں سب سے بہتر ہے اور میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔“

ایک اور روایت میں بیان فرمایا:

خيارکم خيارکم لنسائھم([15])

”تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے۔“

حجۃ الوداع کے موقعے پر نبی ﷺ نے جو اہم باتیں اپنی اُمت کو ارشاد فرمائیں، ان میں ایک یہ بھی تھی:

استوصوا بالنساء خيرا فإنھن عندکم عوان۔([16])

”عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، وہ تمھارے پاس اسیر ہیں۔“

ایک موقعے پر کچھ عورتوں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے خاوندوں کی شکایتیں کیں تو آپ نے ایسے مردوں کی بابت فرمایا:

فلا تجدون أولئك خيارکم۔([17])

”ان لوگوں کو تم اپنے میں بہتر نہیں پاوٴ گے۔“

حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا :

من أحق الناس بحسن صحابتي؟ قال: أمك، قال: ثم من؟ قال: ثم أمك، قال: ثم من؟ قال: ثم أمك، قال: ثم من؟ قال: ثم أبوك۔([18])

”میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: تمھاری ماں۔ اس نے پوچھا: پھر کون ؟ آپﷺ نے فرمایا: تمھاری ماں۔ اس نے پھر پوچھا: پھر کون؟ آپﷺ نے فرمایا: تمھاری ماں۔ اس نے کہا، پھر کون؟ آپﷺ نے جواب میں فرمایا: پھر تمھارا باپ۔“

اس حدیث میں تین مرتبہ ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید فرمانے کے بعد چوتھی مرتبہ باپ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔تین تکلیفیں ایسی ہیں جو صرف ماں برداشت کرتی ہے، بچے کے باپ کا اس میں حصہ نہیں۔ ایک حمل کی تکلیف، جو نو مہینے عورت برداشت کرتی ہے۔ دوسری وضع حمل (زچگی) کی تکلیف، جو عورت کے لیے موت و حیات کی کشمکش کا ایک جاں گسل مرحلہ ہوتا ہے۔ تیسری رضاعت (دودھ پلانے) کی تکلیف، جو دو سال تک محیط ہے۔ بچے کی شیر خوارگی کا یہ زمانہ ایسا ہوتاہے کہ ماں راتوں کو جاگ کر بھی بچے کی حفاظت و نگہداشت کا مشکل فريضہ سرانجام دیتی ہے۔ اس دوران بچہ بول کر نہ اپنی ضرورت بتلاسکتا ہے، نہ اپنی کسی تکلیف کا اظہار کرسکتا ہے۔صرف ماں کی ممتا اور اس کی بے پناہ شفقت اور پیار ہی اس کا واحد سہارا ہوتا ہے۔ عورت یہ تکلیف بھی ہنسی خوشی برداشت کرتی ہے۔یہ تین مواقع ایسے ہیں کہ صرف عورت ہی اس میں اپنا عظیم کردار ادا کرتی ہے اور مرد کا اس میں حصہ نہیں۔ انھی تکالیف کے پیشِ نظر شریعت نے باپ کے مقابلے میں ماں کے ساتھ حسن سلوک کی زیادہ تاکید کی ہے۔

غلاموں کےساتھ طرزِ عمل

پوری دنیا کی طرح عرب معاشرے میں بھی غلامی پوری طرح رچی بسی تھی۔ بڑی حد تک یہ معاشرے کی ناگزیر ضرورت بن چکی تھی۔آئے دن کی لڑائی بھڑائی اس رواج کو مزید تقویت پہنچارہی تھی۔ ان حالات میں اسلام اپنی جملہ خصوصیات کے ساتھ ظاہر ہوا۔ اس نے اسے فوری طور پربرداشت کیا ،رائج خرابیوں کو رفع کرنے کی پوری کوشش کی۔عام لوگوں کے حالات پر غور وفکر کرنے کے بعد اس میں موجود خرابیوں کو دور کرنے کے لیے اللہ کے رسول اللہﷺ نے ہر ممکن کوشش کی ۔ دین کی اشاعت کا محور ومرکز بھی یہی تھا۔اس طرح اللہ کے رسولﷺ کی نظر سماج کے کم زور طبقات پر بھی پڑی۔ ان میں یہ غلام بھی تھے۔آپ نے لوگوں کو حکم دیا کہ ان کے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کیا جائے ۔ آپ نے جس انداز اور فراخ دلی سے انھیں سماج میں بلند مقام ومرتبہ دلایاایک روشن حقیقت ہے۔آپ نے ان کے حقو ق کی بحالی کے لیے مختلف قسم کے قانون بنائے تاکہ غلاموں کو آزادی دی جاسکیں یا وہ ازخود آزادی حاصل کرسکے۔اس ضمن میں آپﷺ نے جو اصول و ضوابط مقرر فرمائے وہ درج ذیل تھے:

عہد نبوی یا اس کے قریبی زمانے میں اسلام کے استحکام کے لیے مدافعانہ جنگیں ہوئیں۔اسلام نے صرف ان قیدیوں کو غلام بنانے کی اجازت دی جو شرعی جنگ میں گرفتار ہوئے ہوں۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

فَإِذا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّی إِذَا أَثْخَنتُمُوھُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنّاً بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاء حَتَّی تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَھَا۔([19])

”پس جب ان کافروں سے تمھاری مڈبھیڑ ہوتو پہلا کام گردنیں مارنا ہے ، یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دوتب قیدیوں کو مضبوط باندھو، اس کے بعد (تمھیں اجازت ہے) احسان کرو یا فدیے کا معاملہ کرلو،تا کہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے۔“

جنگوں کے علاوہ کسی کو زبردستی غلام بنانے کا جو رواج اور دستور تھا،اس کی اسلام نے بالکل اجازت نہیں دی۔ارشادہے:

”اللہ تعالیٰ روز قیامت تین آدمیوں سے جھگڑا کرے گا،ان میں سے ایک شخص وہ ہوگا جو کسی آزاد مسلمان کو غلام بناکر بیچ دے گا۔“([20])

ابتدائے اسلام میں غلاموں کو بیک وقت آزاد بھی نہیں کیاجاسکتا تھا۔لیکن انفرادی طور پر مسلمانوں کو ترغیب دی گئی کہ وہ اپنے غلاموں کو ازخود آزاد کردیں تو عنداللہ وہ اجرو ثواب کے مستحق ہوں گے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلآئِکَةِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیِّیْنَ وَآتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہِ ذَوِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّائِلِیْنَ وَفِیْ الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَی الزَّکَاةَ۔([21])

”بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخرت اور فرشتوں کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبر وں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر،مسکینوں اور مسافروں پر،مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے ۔نماز قائم کرے اور زکوة دے۔“

ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے:

فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ. وَمَا أَدْرٰکَ مَا الْعَقَبَةُ. فَکُّ رَقَبَةٍ. أَوْ إِطْعَامٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَةٍ. یَتِیْماً ذَا مَقْرَبَةٍ. أَوْ مِسْکِیْناً ذَا مَتْرَبَةٍ۔([22])

” مگر اس نے دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کی اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گزار گھاٹی؟ کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا،یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا مسکین کو کھاناکھلانا۔“

غلام اور لونڈیاں خدمت گاری اور منافع حاصل کرنے کے اہم ذرائع تھے۔اس لیے مالک انھیں آسانی سے الگ کرنے کو تیار نہیں ہوسکتے تھے۔ اللہ کے رسول نے بڑے ہی حکیمانہ انداز میں انھیں غلاموں کی آزادی پر آمادہ کیا۔آپﷺ نے فرمایا:

”جو شخص کسی مسلمان غلام کو آزاد کردے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر عضو کے بدلہ میں اس آزاد کرنے والے کے ہر عضو کو آتش دوزخ سے بچائے گا۔“([23])

اسی جذبے کے تحت صحابہ کرام ؓنے بڑی تعداد میں غلاموں کو آزاد کرنا شروع کردیا۔بلکہ صحابہ کرامؓ آخرت میں بلند مقام حاصل کرنے کے لیے اللہ کے رسولؐ سے دریافت کرتے کہ غلام تو بہت سارے ہیں اور ان میں ہر قسم کے غلام ہیں کس طرح کے غلام کو آزاد کرنے پرزیاد ہ ثواب ملے گا۔صحابہ کرام کے اس جوش آزادی کو دیکھ کر آپﷺ فرماتے:

” جو غلام تم کو سب سے زیادہ محبوب ہو اور جوغلاموں میں سب سے اچھا ہو۔“([24])

سیرت طیبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ نے غلاموں کے ساتھ حد درجہ شفقت ومحبت کا معاملہ کیا۔آپ کی محبت اس مظلوم طبقے کے لیے اتنی گہری اور وسعت لیے ہوئے تھی کہ غلام ان کی جگہ اپنے والدین کی محبت کو ہیچ پاتے تھے۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ حضرت زید بن حارثہ کو جب ان کے گھر والے لینے کے لیے آئے تو انھوں نے نبیﷺ کی محبت میں اپنے والدین کے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔([25])

رسول اللہﷺکو غلاموں کی ہر وقت فکر رہتی تھی کہ مبادا انھیں کوئی اذیت پہنچائے اور ان کی حق تلفی کرے۔ہر وقت آپ اپنے اصحاب کو ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید فرماتے رہتے،حتیٰ کہ مرض الموت کے وقت بھی نصیحت کرتے ہیں:

” جو باندی اور غلام تمھارے قبضے میں ہیں ان کے ساتھ معاملہ کرنے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔“([26])

اللہ کے رسولﷺ نے غلاموں کو ’غلام‘ کہہ کر پکارنے سے بھی منع کیا ہے ۔اس میں حقارت کا جو پہلو مضمر ہے وہ واضح ہے۔آپ نے غلاموں کے لیے بڑے ہی خوب صورت القاب وضع کیے اور لوگوں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت فرمائی:

”تم میں سے کوئی ’میرا غلام‘یا میری’باندی‘نہ کہے اور نہ غلام’ میرارب‘ کہے۔مالک کو ’میرے بچے‘ ، ’میری بچی‘ کہنا چاہیے اور غلام کو چاہیے کہ ’میراسردار‘یا ’سردارنی‘ کہے۔کیوں کہ تم سب مملوک ہو اور رب تو سب کا اللہ تعالیٰ ہے۔“([27])

رسول اللہﷺ نےغلاموں کومارنے کی ممانعت اور آزاد کردینے کا حکم صادر فرمایا۔ غلاموں سے بھی اگر کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو انھیں زدو کوب کرنے کے بجائے معاف کردینا چاہیے۔نبی اکرم ﷺنے فرمایا :

”جب تم میں سے کوئی اپنے غلام کو مارے تواللہ کو یاد کرلے۔“([28])

غلاموں کی غلطیوں کو معاف کردینا بڑے ہی اجر کا کا م ہے۔جس طرح ایک عام آدمی سے کوئی غلطی ہوسکتی ہے،اسی طرح غلاموں سے غلطیوں کا صادر ہونا کوئی بعید نہیں ۔ نبی اکرمﷺ کی تعلیمات میں یہ وصف بھی نظر آتا ہے کہ آپﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو حکم دیا کہ اگر غلام سے بھی کوئی غلطی ہوجائے تو اسے سزا دینے کی بجائے معاف کردیا جائے۔ ایک شخص حضورﷺ کی خدمت میں آیا اور دریافت کیا کہ ہم غلاموں کو کتنی بار معاف کردیا کریں۔آپ اس کی بات سن کر خاموش رہے ۔اس نے پھر کہا کتنی مرتبہ اسے معاف کریں ،آپ اب بھی خاموش رہے ۔جب اس نے تیسری بار یہی سوال کیا تو آپﷺ نے فرمایا:

”ہر روز ستر مرتبہ اسے اس کی غلطی پر معاف کردیا کرو۔“([29])

رسول اللہﷺ نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ آقا جو کھائے اور پہنے وہی اپنے غلاموں کو کھلائے پہنائے:

”تمھارے بھائی تمھارے خدمت گار ہیں،اللہ نے انہیں تمھارے ماتحت کردیا ہے ،پس جس شخص کا بھائی اس کے ماتحت ہو، اسے چاہیے کہ جو چیز خود کھائے ،اسی میں سے اسے بھی کھلائے اور جو پوشاک خود پہنے ویساہی اسے بھی پہنائے اور ان پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈالے جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو اور اگر ان کی طاقت سے زیادہ کام لیاجائے توپھر ان کی مددکردیا کرو۔“([30])

غلاموں سے خدمت گاری کا کام لیا جاتا تھا اور یہی لوگ گھروں کے کام کاج انجام دیتے تھے۔مگر ایسا بھی کیا جاتا کہ لوگ ان کی مزدوری فراموش کردیتے تھے۔خود تو ان کے ہاتھ کا بنایا ہوا لذیذکھانا کھاتے ،مگر اس میں سے کچھ بھی غلاموں کو نہ دیتے۔آپ نے ایسا کرنے سے منع فرمایا:

”جب تم لوگوں میں سے کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کرکے لائے تو چوں کہ اس نے کھانے کی تیاری میں آگ کی گرمی اور دھوئیں کی تکلیف اٹھائی ہے ،اس لیے اس کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھلانا چاہیے اور اگر کھاناکم ہوتو تب بھی اس کے ہاتھ پر ایک دولقمے رکھ دینا چاہییں۔“ ([31])

حضور اکرمﷺ نے اپنے آزاد کردہ غلا م حضرت زید بن حارثہؓ کی شادی اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنت جحشؓ سے کرائی۔ تاکہ ان کی معاونت سے کتاب وسنت کی تعلیم عام ہوسکے۔([32])

غلاموں کے ساتھ اس سے بہتر سلوک کی مثال نہیں دی جا سکتی۔مزید بر آں غلاموں کی شادی کی ترغیب دلاتے ہوئے رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

”جس شخص کے پاس کوئی باندی ہو اور اس کی پرورش کرے اور اس کے ساتھ حسن معاشرت کرے،پھر اسے آزاد کرکے اس سے شادی کرلے تو اس کو دو اجر ملیں گے۔“([33])

غیر مسلموں کےساتھ طرزِ عمل

نبیﷺ کے یہ اخلاق صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہ تھے بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا تھا جیسا کہ قرآن میں فرمایا:

وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ۔([34])

"اے نبی ﷺ ہم نے تجھے تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔“

اورآپﷺ نے اپنے عملی نمونے سے خود کو رحمۃ للعالمین ثابت بھی کیا۔غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کا اس سے بہترنمونہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ انھیں تباہی سے بچا لیا جائے اور یہی فکر تھی جو آنحضور ﷺ کو شب و روز رہتی تھی۔ آپ کی اس حالت کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتا ہے:

فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی اٰثَارِھِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا۔([35])

”پس کیاتم شدتِ غم کے باعث اُن کے پیچھے اپنی جان کو ہلاک کردوگےاگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائیں۔“

اسی طرح ایک دوسری جگہ فرمایا:

لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ ([36])

” کیا توُ اپنی جان کو اس لیے ہلاک کر دے گا کہ وہ مومن نہیں ہوتے۔“

عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:

تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَ تَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَی مَنْ عَرَفْتَ وَ مَنْ لَمْ تَعْرِفْ۔([37])

”تم کھانا کھلایا کرو اور ہر کسی کو سلام کیا کرو خواہ تم اسے جانتےہو یا نہیں جانتے۔“

یہودی رسول اللہ ﷺ کی مخالفت میں بہت بڑھے ہوئے تھے اور اپنے شاطر دماغوں سے کوئی نہ کوئی طریقہ آپ ﷺ یا مسلمانوں کو تکلیف دینے کا ڈھونڈتے رہتے تھے۔ لیکن نبیﷺ نے ہمیشہ ان کو نرمی سے جواب دیا اور اپنے اصحاب کو بھی نرمی کی تلقین فرمائی۔چنانچہ حضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ ایک یہودی گروہ آنحضورؐ کی خدمت میں آیا اور انھوں نے شرارتاً اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمِْ کی بجائےاَلسَّامُ عَلَیْکِمْ(یعنی تم پر ہلاکت ہو)کہا۔مجھے سمجھ میں آگیا۔ میں نے انھیں کہا کہ ہلاکت تم پر ہو اور انھیں ملامت کی۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا کہ عائشہ ٹھہرو:

اِنَ اللہَ یُحِبُّ الرِّفْقَ فِی الْاَمْرِ کُلِّہٖ۔

”اللہ تعالی ہر معاملہ میں نرمی پسند کرتا ہے۔“

میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول کیا آپ نے سنا نہیں کہ انھوں نے کیا کہا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا میں نے انھیں جواب میں کہہ دیا تھا کہوَعَلَیْکُمْیعنی تم پر بھی۔([38])

آپﷺ کو سب کے درد کا احساس تھا اس لیے اگر کوئی غیر مسلم بھی بیمار ہوتا تو آپ اس کی تیمارداری کے لیے تشریف لے جاتے۔حضرت انس ؓ بیان فرماتے ہیں:

أَنَّ غُلَامًا لِیَھُوْدَ،کَانَ یَخْدُمُ النَّبِیَّ ﷺ،فَمَرِضَ فَأَتَاہُ النَّبِیُّﷺیَعُوْدُہُ۔([39])

”نبیﷺ کا ایک خادم یہودی تھا جو بیمار ہو گیا۔ نبیﷺ اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔“

کافر کی حد درجہ مہمان نوازی بھی رسول اللہﷺ کے بہترین سماجی طرزِ عمل کی مظہر ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے:

انَّ رَسُوْلَ اللہِﷺضَافَہُ ضَیْفٌ کَافِرٌ،فَأَمَرَلَہُ رَسُوْلُ اللہِﷺبِشَاۃٍفَحُلِبَتْ فَشَرِبَ،ثُمَّ اُخْرَی فَشَرِبَہُ،ثُمَّ أُخْرَی فَشَرِبَہُ حَتَّی شَرِبَ حِلَابَ سَبْعِ شِیَاہٍ،ثُمَّ أَصْبَحَ مِنَ الْغَدِ فَأَسْلَمَ،فَأَمَرَ لَہُ رَسُوْلُ اللہِﷺبِشَاۃٍ فَحُلِبَتْ فَشَرِبَ حِلَابَھَا،ثُمَّ أَمَرَلہ بِاُخْری فَلَمْ یَسْتَتِمَّھَا۔([40])

”رسول کریم ﷺ نے ایک کافر کی مہمان نوازی کی۔نبی کریم ﷺ نے اس کے لیے ایک بکری منگوائی اور اس کا دودھ دوہا گیا۔ وہ اس کا دودھ پی گیا۔ پھر ایک دوسری منگوائی گئی اور اس کا دودھ دوہا گیا تو اس نے اس کا دودھ بھی پی لیا۔ پھر ایک تیسری بکری منگوائی گئی تو وہ اس کا دودھ بھی پی گیا۔ حتیٰ کہ وہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا۔ اگلے دن صبح کے وقت اس نے اسلام قبول کرلیا۔ پھر رسول کریم ﷺ نے بکری منگوائی اور اس کا دودھ دوہا گیا۔ پس اس نے دودھ پی لیا پھر نبی کریم ﷺ نے اس کے لئے ایک اور بکری منگوائی مگر وہ اس کا دودھ مکمل طور پر نہ پی سکا۔“

ایک کافر ہے آپ کے محبوب، خدا کا انکار کرنے والا اس کی مہمان نوازی فرما رہے ہیں اور اس درجہ بڑھ گئے ہیں اس خلق میں کہ وہ دودھ پیتا جا رہا ہے اور آپؐ اس کے لیے دودھ منگواتے جارہے ہیں۔

جب شام فتح ہوا تو مسلمانوں نے شام کے لوگوں سے جو عیسائی تھے ٹیکس وصول کیالیکن اس کے تھوڑے عرصے بعد رومی سلطنت کی طرف سے پھر جنگ کا اندیشہ پیدا ہو گیا جس پر شام کے امیر حضرت ابو عبیدہ ؓ نے تمام وصول شدہ ٹیکس عیسائی آبادی کو واپس کر دیا اور کہا کہ جنگ کی وجہ سے جب ہم تمھارے حقوق ادا نہیں کر سکتے تو ہمارے لیے جائز نہیں کہ یہ ٹیکس اپنے پا س رکھیں۔ عیسائیوں نے یہ دیکھ کر بے اختیار مسلمانوں کو دعا دی اور کہا خدا کرے تم رومیوں پر فتح پاؤ اور پھر اس ملک کے حاکم بنو۔([41])

جب حضورﷺ نے خیبر فتح کیاتویہود خیبر کی درخواست پر انھیں کاشتکاری کی اجازت دی۔ جب فصل کٹنے کا وقت آیا تو حضورﷺ نے حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کو وصولی کے لیے بھیجا تو آپ نے اس وقت کی فصل ،جو کہ کھجوریں تھیں، دو حصوں میں برابر تقسیم فرمائیں۔ اس پر انھوں نے کہا کہ آپ ہمیں ہمارے حصے سے زیادہ تقسیم فرمارہے ہیں کیونکہ ان کے اپنے اصول کےمطابق ان کا حصہ آدھا نہیں بنتا تھا لیکن حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ نے فرمایا تمھیں ضرور آدھی ہی ملیں گی کیونکہ تم سے معاہدہ اسی طرح ہوا تھا۔ اس پر وہ بے اختیار بول اٹھے:

ھٰذَالْحَقُّ وَبِہٖ تَقُوْمُ السَّمَاءُ وَالْارْضُ۔([42])

”یہ حق ہےاوراسی سےآسمان وزمین قائم ہیں۔“

جب نجران کے عیسائی مدینے میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے تو اس وقت آپ مسجد نبوی میں نماز عصر سے فارغ ہوئے تھے۔ یہ لوگ نہایت عمدہ لباس پہنے ہوئے تھے۔ جب ان کی نماز کا وقت ہوا تو وہ مسجد ہی میں نماز ادا کرنے لگے۔ اس پر آپ ؐنے صحابہ سے فرمایا کہ انھیں نماز پڑھنے دو۔ انھوں نے مشرق کی طرف منھ کر کے نماز پڑھی۔([43])

قیدیوں کےساتھ طرزِ عمل

ہجرت مدینہ کے بعد اسلام اور کفر کے درمیان بڑی بڑی جنگیں ہوئیں۔ان میں بڑی تعداد میں دشمن کی فوج کو قید کیا گیا۔باوجود اس کے آپ نے ان کی رہائی کی مختلف سبیلیں نکالیں۔ابن قیم جوزیؒ لکھتے ہیں:

”آپ ﷺ نے جنگی قیدیوں میں سے بعض کو ازراہ احسان رہا کردیا، بعض کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا گیا اور بعض کو قتل کروادیا اور بعض کو مسلمان قیدیوں کے عوض رہا کردیا گیا۔“([44])

حسب تقاضائے مصلحت آپ نے یہ تمام صورتیں اختیار فرمائیں۔ جنگ بدر میں آپ کے چچا حضرت عباس گرفتار ہوئے تو بعض صحابہؓ نے کہا کہ انھیں یوں ہی رہا کردیا جائے ،یا فدیہ لینے میں ان کے ساتھ کچھ نرمی برتی جائے۔آپ نے فرمایا کہ ایک درہم بھی نہ چھوڑا جائے۔([45]) اسی غزوے میں آپ کے داماد یعنی حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے شوہر بھی گرفتار ہوئے ۔ آپ کی بیٹی نے شوہر کی رہائی کے لیے قیمتی ہار روانہ کیا ۔حضو رﷺ کے کہنے پرصحابہ نے زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے شوہر کا فدیہ لیے بغیر انھیں اس شرط پر رہا کردیا کہ وہ مکے جاکر حضرت زینب کو باعزت مدینہ روانہ کردیں گے۔([46])  کچھ قیدی ایسے تھے جن کے پاس فدیہ ادا کرنے کے لیے کچھ نہ تھا۔ نبی نے ان کا فدیہ یہ مقرر کیا کہ وہ مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھادیں اور آزادی حاصل کرلیں۔([47]) اس سے معلوم ہوا کہ مال کے علاوہ کسی کام کو بھی فدیہ قراردیا جاسکتا ہے ۔یہ سربراہ مملکت کی صوابدید پرہے کہ وہ قیدیوں کے ساتھ کس طرح کا معاملہ کرے۔ بنو ہوازن کے قیدیوں کو غنیمت کے طور پر صحابہ کرامؓ میں تقسیم کردیا گیا۔مگر جب ان لوگوں نے ان کی رہائی کی بات آپﷺ کے سامنے رکھی تو آپﷺ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا کہ انھیں واپس کردیا جائے۔([48])

رسول اللہﷺ نہیں چاہتے تھے کہ جنگی قیدیوں کو غلام بنایا جائے ۔ اگر کو ئی ان کی رہا ئی کے بارے میں ذرابھی پہل کرتا تو آپ آگے بڑھ کر آزاد کردیتے تھے۔ جو لوگ کسی طرح سے بھی آزادی حاصل کرنے کی استطاعت نہ رکھتے تھے اور قیدیوں کا سردا ر بھی ا نھیں رہا نہ کروانا چاہتا تھا ،انھیں آپ ﷺ نے بہ شکل مجبوری غلام کی حیثیت سے مسلمانوں میں تقسیم کردیا اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا۔ان قیدیوں کے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین بڑی شفقت ومہربانی سے پیش آتے تھے۔خود روکھا سوکھا کھانے پر اکتفا کرتے اور انھیں عمدہ کھانا فراہم کرتے تھے ۔ان قیدیوں میں بعض کا بیان ہے کہ مسلمانوں کے اس لطف وکرم کو دیکھ کر ہمیں غیرت آنے لگی تھی۔([49])

مخنث کےساتھ طرزِ عمل

یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ مخنث کا مفہوم کیا ہے۔”المنجد“ میں مخنث کا لغوی مفہوم یہ ہے:

المخنث: ڈھیلے اور لچکدار اعضاء کے حامل کو کہتے ہیں۔([50])

ابنِ عابدین رقم طراز ہیں:

”مخنث وہ ہوتا ہے جو کلام کی نرمی ، دیکھنے میں اور حرکات و سکنات میں عورت کے مشابہ ہوتا ہے۔ اور مخنث کے مرد ہونے میں کوئی خفا نہیں ہوتا۔“([51])

مخنث کی دو اقسام ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:

۱۔وہ جو عورت کے مشابہ پیدا کیے گئے ہوں۔

۲۔وہ جو عورت کے مشابہ پیدا نہیں کیے گئے بلکہ انہوں نے خود تکلفاً عورت کی مشابہت اختیار کی ہو۔([52])

سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے:

لعن النبیﷺ المخنثین من الرجالِ والمترجلات من النساءِ و قال اخرجوھم من بیوتکم۔([53])

”نبیﷺ نے تکلفاً عورت بنے مردوں اور تکلفاً مرد بنی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے۔کہ ان کو اپنے گھروں سے نکال دو۔“

بد قسمتی سے ہمارے سماج میں اس صنف کو بے حیائی اور ناچ گانے سے جوڑ دیا گیا ہے۔ یہ بات اکثر مشاہدے سے گزرتی ہے کہ اس صنف کو عزت دینے کی بجائے ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ یہ جنس مجرمانہ حد تک ہماری عدم توجہی اور غفلت کا شکار ہے۔ ہمیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ہم انھیں محض جنسیت کی بنیاد پر ایک مضحکہ خیز زندگی جینے پہ مجبور کریں۔ ہمارے معاشرے میں ان کا جو مقام اور جو کام ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ ان کو ایک نارمل زندگی گزارنے کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ یقیناً اس صورت حال میں ہمارا بھی کوئی کردار بنتا ہے جس سے ہمارا ذمے دار طبقہ چشم پوشی سے کام لیتا ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پہ اس حوالے سے جو رویہ پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ان سے پردے کا اہتمام کرنا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ اور مزید یہ کہ ایک خاص طبقے نے ناچ گانے کے ذریعے ان کو اپنا ذریعہ آمدن بنا لیا ہے۔ اور ایسے میں سادہ لوح لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جنس محض اسی کام کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ بدقسمتی سے ان سے لی جانے والی منفی سرگرمیوں کی وجہ سے معاشرے میں نہ ان سے کوئی تعمیری کام لیا گیا اور نہ ان کو کہیں خود انحصاری کا موقع دیا گیا۔ اسی کشمکش میں کتنے با صلاحیت لوگ اپنی صلاحیتوں کے اظہار سے محروم رہ گئے ہوں گے۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ چونکہ انسانوں سے پیدا ہوتے ہیں ، اس لیے ان کو بھی انسان مانا جائے اور ان کے ساتھ انسانوں جیسا رویہ روا رکھا جائے۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی حیثیت کو شرعی تناظرمیں دیکھا جائے اور سیرتِ طیبہ سے اس ضمن میں راہنمائی حاصل کی جائے۔

رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں یہ جنس موجود تھی،بعض کے نام بھی ملتے تھے کہ وہ معیت ،نافع ، ابوماریہ الجنّہ اور مابور جیسے ناموں سے پکارے جاتے تھے۔ یہ لوگ رسول اللہﷺ کے ساتھ شرائع اسلام ادا کرتےتھے۔ نمازیں پڑھتے ،جہاد میں شریک ہوتے اور دیگر امور خیر بھی بجا لاتے تھے۔ رسول اللہﷺ ان کے متعلق پہلے یہ خیال کرتے تھے کہ یہ بے ضرر مخلوق ہے۔آدمی ہونے کے باوجود انھیں عورتوں کے معاملات میں چنداں دلچسپی نہیں ہے۔ اس لیے آپؐ ان کےازواج مطہرات کے پاس آنے جانے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے، لیکن جب آپ ؐ کو پتہ چلا کہ انھیں عورتوں کے  معاملات میں خاصی دلچسپی ہی نہیں بلکہ یہ لوگ نسوانی معلومات بھی رکھتے ہیں ، تو آپؐ نے انھیں ازواج مطہرات اور دیگر مسلمان خواتین کے ہاں آنے جانے سے منع فرما دیا، بلکہ انھیں مدینہ بدر کرکے روضہ خاخ، حمرآءالاسد اورنقیع کی طرف آبادی سے دور بھیج دیا ، تاکہ دوسرے لوگ ان کے برے اثرات سے محفوظ رہیں۔([54])

رسو ل اللہﷺ نے عورتوں کو حکم دیا کہ انھیں بے ضرر خیال کرکے اپنے پاس نہ آنے دیں ، بلکہ انھیں گھروں میں داخل ہونے سے روکیں۔([55])

رسول اللہﷺ کے پاس ایک ایسا مخنث لایا گیا جس نے عورتوں کی طرح اپنے ہاتھ پاؤں مہندی سے رنگے ہوئے تھے۔ آپ ؐسے عرض کیا گیا کہ یہ ازخود عورتوں جیسی چال ڈھال پسند کرتا ہے تو آپ نے اسے مدینہ بدر کرکے علاقہ نقیع میں بھیج دیا، جہاں سرکاری اونٹوں کی چراگاہ تھی۔ آپ سے کہا گیا اسے قتل کردیا جائے۔ آپ نے فرمایا:

” مجھے نمازیوں کو قتل کرنے سےمنع کیا گیا ہے۔“ ([56])

حج کے معاملے میں ان کے لیے حکم یہ ہے کہ عورتوں جیسا احرام اختیار کرے، یعنی عام لباس پہنے، اپنے چہرے کو کھلا رکھے ، تاہم اگر کوئی اجنبی سامنے آجائے تو گھونگھٹ نکالے، جیسا کہ عائشہؓ کا بیان کتب حدیث میں  مروی ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ حالت احرام میں ہوتیں اور قافلے ہمارے پاس سے گزرتے جب وہ ہمارے سامنے آجاتے تو ہم اپنی چادریں اپنے چہروں پر لٹکا لیتیں اور جب وہ گزر جاتے تو ہم انھیں اٹھا دیتیں۔([57])

یہاں سرِ دست ان کی فلاح کے لیے چند تجاویز پیش ہیں کہ جن پہ عمل کر کے ان کو قومی دھارے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

۱۔انھیں ایک انسان کے طور پر قبول کیاجائے۔

۲۔انھیں تعلیم، تربیت اور روزگار کے مواقع مہیا کیے جائیں۔

۳۔ان سے دین کی تبلیغ و اشاعت کا کام لیا جائے۔

۴۔وہ بھی شرعی احکام کا پابند ہے،اگر مرد ہے تو مردوں جیسے اور اگر عورت ہے تو عورتوں کے احکام پر عمل کیا جائے۔

۵۔ان کے جسموں میں قدرتی طور پر لچک ہوتی ہے۔ اس بنا پر ان کو مختلف کھیلوں اور اور جمناسٹک وغیرہ میں کردار دیا جا سکتا ہے۔

یتیموں کےساتھ طرزِ عمل

اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ کریم میں کئی مقامات پر یتیموں کے ساتھ احسن انداز میں معاملہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور اسی کی روشنی میں رسول اللہﷺ نے نہ صرف اس حکم کی بجا آوری میں کوئی کسر پیچھے نہ چھوڑی بلکہ اپنی امت کو بھی یتامیٰ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تاکید فرمائی۔ مثال کے طور پر ذیل میں کچھ احادیث پیش کی جاتی ہیں:

سہل بن سعد ؓ نبی ﷺسے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا:

أَنَا وَکَافِلُ الْیَتِیمِ فِی الْجَنَّۃِ ھَکَذَا وَقَالَ بِإِصْبَعَیْہِ السَّبَّابَۃِ وَالْوُسْطَی ([58])

” میں اور یتیم کی کفالت کرنے والے جنت میں اس طرح ہوں گے جیسے یہ۔ آپ نے اپنی دو انگلیوں انگشت شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ کرکے بتایا۔“

حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

کَافِلُ الْیَتِیمِ لَہُ أَوْ لِغَیْرِہِ أَنَا وَھُوَ کَھَاتَیْنِ فِی الْجَنَّۃِ وَأَشَارَ مَالِکٌ بِالسَّبَّابَۃِ وَالْوُسْطَی([59])

”میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا خواہ وہ یتیم اس کا رشتے دار ہو یا غیر، جنت میں اس طرح ہوں گے، جیسے یہ دو انگلیاں۔ امام مالکؒ نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ کرکے بتایا۔“

بچہ اپنی ہر ضرورت کے لیے ماں باپ کا محتاج ہوتا ہے۔ اگر وہ ماں باپ کے سہارے سے محروم ہو جائے تو پھر اس سے زیادہ بے بس و بے کس شاید ہی اور کوئی ہو۔چنانچہ آپﷺ نے فرمایا کہ جو شخص کسی یتیم کی ذمے داری اٹھاتا اور اُس کی کفالت کرتا ہے وہ خدا کی نظر میں اتنا پسندیدہ عمل کرتا ہے کہ اسے جنت میں میراساتھ اس طرح میسر ہو گا جیسے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی ساتھ ساتھ ہوتی ہیں۔

حاصلِ تحقیق

تحقیق ہٰذا کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جہالت اور گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبا ہوا معاشرہ، تیئیس برس کے مختصر عرصے میں ایک ایسا انقلاب بپا ہوا کہ وہ ایک صالح ،فلاحی اور مثالی معاشرہ بن گیا تھا۔ اس انقلاب کے اسباب و محرکات پر غور کیا جائے تو واضح انداز میں یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ رسول اللہﷺ نےجس اعلیٰ ترین سماجی طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا اس سے قبل اس کی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ اس کے بعد معاشرے میں مثبت تبدیلی کی آنا یقینی تھا۔ آج ہم اپنے معاشرے پر غور کریں تو اس کا بھی قریب قریب وہی حال ہے جو کہ اُس وقت کے معاشرے کا تھا۔ چنانچہ اگر ہم سیرتِ طیبہ کے سماجی پہلو سے رہنمائی لے کر اصلاحِ احوال کی راہیں نکال سکتے ہیں۔ معاشرے کے ہر فرد پر درجہ بدرجہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ تحقیقِ بالا سے رہنمائی لیتے ہوئے دورِ جدید میں معاشرتی اصلاح کے کام میں اپنا حصہ ڈالیں۔

حوالہ جات

  1. ۔ القلم:4
  2. ۔مسلم بن حجاج، الجامع الصحیح ،دارالسلام للنشر والتوزیع ، الطبعۃ الثانیہ،الریاض۲۰۰۰ء،رقم الحدیث:۱۷۳۹، ص۳۰۱
  3. ۔بيہقی، السنن الکبریٰ، دار صادر،بیروت،۱۰؍۱۹۱، رقم الحدیث: ۲۰۵۷۱
  4. ۔ابوداؤد، سلیمان بن الاشعث سجستانی،السنن ،دارالسلام للنشر والتوزیع الریاض ، ۲۰۰۹ء، رقم الحدیث: ۵۲۱۸، ص۱۰۲۷
  5. ۔ترمذی،ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ،السنن،دارالسلام للنشر والتوزیع، الطبعۃ الاولیٰ،الریاض،۱۹۹۹ء، رقم الحدیث: ۱۹۱۹،ص۴۴۸
  6. ۔بخاری ، محمد بن اسماعیل،الجامع الصحیح،دارالسلام للنشر والتوزیع، الطبعۃ الثانیہ،الریاض،۱۹۹۹ء ، رقم الحدیث:۵۸۲۳، ص۱۰۲۷
  7. ۔ ایضاً، رقم الحدیث: ۶۰۰۲،ص۱۰۵۰
  8. ۔ ایضاً، رقم الحدیث: ۶۱۲۹، ص۱۰۶۸
  9. ۔ مسلم ، الجامع الصحیح،رقم الحدیث:۵۶۵۰،ص۹۶۲
  10. ۔ بخاری، الجامع الصحیح، رقم الحدیث:۵۶۴۹،ص۱۰۰۰
  11. ۔احمدبن حنبل، المسند ،بیروت،مؤسسۃ الرسالۃ ، الطبعۃ الاولیٰ،بیروت،۱۴۲۱ھ ، المسند،۳؍۱۵۴
  12. ۔ ایضاً،۳؍۱۵۴
  13. ۔ ترمذی، السنن، رقم الحدیث: ۲۶۱۲، ص۵۹۴
  14. ۔ ابن ماجہ، محمد بن یزید، السنن،دارالسلام للنشر والتوزیع ،الریاض،۲۰۰۹ء، رقم الحدیث:۱۹۷۷،ص۳۵۳
  15. ۔ ایضاً، رقم الحدیث:۱۹۷۸،ص۳۵۴
  16. ۔ ایضاً، رقم الحدیث: ۱۸۵۱،ص۳۳۱
  17. ۔ ایضاً، رقم الحدیث:۱۹۸۵،ص۳۵۵
  18. ۔ مسلم ، الجامع الصحیح، رقم الحدیث:۶۵۰۰،ص۱۱۱۷
  19. ۔ محمد:۴
  20. ۔ بخاری، الجامع الصحیح، رقم الحدیث: ۲۲۷۰،ص۳۶۱
  21. ۔ البقرہ:۱۷۷
  22. ۔ البلد:۱۱-۱۶
  23. ۔ بخاری، الجامع الصحیح، رقم الحدیث:۲۵۱۷،ص۴۰۷
  24. ۔ایضاً،رقم الحدیث: ۲۵۱۸،ص۴۰۸
  25. ۔ ابن اثیر،اسدالغابہ فی معرفۃ صحابۃ،دارلشعب،قاہرہ،۱۹۷۰ء،۲؍۲۸۲
  26. ۔ ابو داؤد، السنن، رقم الحدیث: ۵۱۵۶،ص۱۰۱۵
  27. ۔ ایضاً، رقم الحدیث: ۴۹۷۵، ص۹۸۲
  28. ۔ ترمذی، السنن، رقم الحدیث:۱۹۵۰، ص۴۵۳
  29. ۔ ابو داؤد، السنن، رقم الحدیث: ۵۱۶۴،ص ۱۰۱۷
  30. ۔ بخاری، الجامع الصحیح، رقم الحدیث:۲۵۴۵،ص۴۱۱
  31. ۔ بخاری، الجامع الصحیح، رقم الحدیث:۲۵۵۷، ص۴۱۲
  32. ۔ ابن اثیر، اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ،۷؍۱۲۵
  33. ۔ بخاری، الجامع الصحیح، رقم الحدیث:۲۵۴۷، ص۴۱۱
  34. ۔ الانبیاء:۱۰۸
  35. ۔ الکہف:۶
  36. ۔ الشعراء:۳
  37. ۔ بخاری، الجامع الصحیح،رقم الحدیث:۱۲،ص۵
  38. ۔ ایضاً، رقم الحدیث:۶۰۲۴،ص۱۰۵۳
  39. ۔ ایضاً، رقم الحدیث:۵۶۵۷،ص۱۰۰۱
  40. ۔ ترمذی، السنن، رقم الحدیث:۱۸۱۹، ص۴۲۹
  41. ۔ البلاذری، فتوح البلدان ،دارالفکرللطباعۃللنشروالتوزیع، بیروت ،ص۱۴۶
  42. ۔ ابو داؤد، السنن، رقم الحدیث:۳۴۱۰، ص۶۹۱
  43. ۔ابن ہشام، السیرہ النبویہ،ص۳۹۶
  44. ۔ابن قیم الجوزی،زادالمعاد، دارالریان للتراث ،قاہرہ ،۱۹۸۷ء،۳؍۱۱۰
  45. ۔بخاری، الجامع الصحیح، رقم الحدیث: ۴۰۱۸،ص ۶۷۸
  46. ۔ابن ہشام ،السیرة النبویہ، ۲؍۲۹۷
  47. ۔احمد بن حنبل، المسند ، ۱؍۲۴۷
  48. ۔بخاری، الجامع الصحیح، رقم الحدیث:۴۳۱۹،ص۷۳۰
  49. ۔ابن جریر طبری،تاریخ طبری،دارالمعارف ،قاہرہ،۱۹۷۷ء،۲؍ ۴۶۱
  50. ۔لوئس معلوف، المنجد فی اللغۃ، المطبعۃ الکاثولیکیہ،بیروت،۲۰۱۰ء،ص۸۴۹
  51. ۔ابن عابدین، ردالمحتار علی الدررلمختار،دار احیاء التراث العربی، بیروت،۳؍۱۸۳
  52. ۔ایضاً، ص: ۱۸۴
  53. ۔بخاری، الجامع الصحیح، رقم الحدیث: ۶۸۳۴، ص۱۱۷۸
  54. ۔بخاری، الجامع الصحیح، رقم الحدیث: ۴۲۳۴، ص۷۱۸
  55. ۔ بخاری، الجامع الصحیح، رقم الحدیث: ۵۲۳۵، ص ۹۳۵
  56. ۔ابو داؤد، السنن، رقم الحدیث: ۴۹۲۸، ص۹۸۳
  57. ۔ایضاً، رقم الحدیث: ۱۸۳۳،ص۳۷۴
  58. ۔ بخاری، الجامع الصحیح، رقم الحدیث:۶۰۰۵،ص۱۰۵۰
  59. ۔مسلم ، الجامع الصحیح، رقم الحدیث:۷۴۶۹،ص۱۲۹۰
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...