Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 34 Issue 1 of Al-Tafseer

سندھی ہندو سیرت نگار |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

34

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060084478_849

Pages

273-282

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/105

Subjects

Sirah writing Sindh Hindu.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اللہ رب العزت نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی ﷺ کو سارے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ آپ ﷺ کی رحمت کادائرہ صرف مسلمانوں ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ غیر مسلم بھی آپ کی رحمت کے سائبان میں پناہ لیتے ہیں یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ نبی مکرم ﷺ کی تعریف و توصیف میں نعت نگاری کا شرف حاصل کرنے والوں میں غیر مسلموں کی ایک کثیر تعداد ہے۔

نعت نگاری کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں نے سیرت نبویﷺ پر بھی قلم اٹھایا ہے۔ تاریخ کے صفحات میں یہودیوں اور عیسائیوں کے علاوہ ایک معقول تعداد ایسے ہندو سیرت نگاروں کی بھی نظر آتی ہے جنھوں نے تذکرہ رسولِ عربی ﷺ کے ذریعے اپنی تحریر کی حرمت میں اضافہ کیا ہے۔ زیر نظر مقالے میں ایسے ہی چند سندھی ہندو مصنفین کو

موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔

1۔لعل چند امر دنو جگتیانی یا سندھی ہندو سیرت نگار

حیدر آباد سندھ میں 25 جنوری 1885ء کو پیدا ہوئے۔ ہیرانند اکیڈمی سے میٹرک کیا۔ (1) جگتیانی اصل میں پنجاب کے رہنے والے ہیں جو سندھ میں نقل مکانی کرکے پہنچے تھے اس لیے سندھی پنجابی کہلاتے ہیں اور اپنے جد اعلیٰ سیٹھ جگتراءِ کے نام کی وجہ سے جگتیانی کہلاتے ہیں۔ اس نسل سے میروں (ٹالپر فرمانروا حکومت) کی حکومت کے دوران سیٹھ چاندومل مشہور ہوا جو میروں کو ہیرے جواہرات بیچتا تھا اس لیے وہ "میروں کا جوہری" کے لقب سے بھی جانا جاتا تھا۔(2) جدید سندھی ادب میں تین سندھی ہندو ادیب کبھی فراموش نہیں ہوسکتے ۔جیٹھمل پرسرام گلجرانی، بھیرومل مہر چند آدوانی اور لعل چندامر دنو جگتیانی۔(3) حکمت خداوندی کہیں یا قسمت کی خوبی، کہ ایک ہندو ادیب لعل چند امر دنو مل سندھی ہندوؤں میں وہ پہلے ادیب ہیں جنھوں نے رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ پر پہلی مرتبہ نثر میں کتاب لکھ کر چھپوائی۔

مستشرقین نے جب سر زمین سندھ میں علمی مجالس کی بنیاد رکھی اور ڈاکٹر اینی بیسنت یہاں آئے تو لعل چند امر دنو مل نے "محمدؐ جی حیاتی" کتاب لکھ کر سندھی میں پہلے سیرت نگارہونے کی سعادت حاصل کی۔ لعل چند نے اپنی زندگی ایک معلم کی حیثیت سے شروع کی ساتھ ہی ساتھ وہ علمی دنیا سے بھی وابستہ رہے۔ وہ ایک بلند پایہ ادیب ، اورصاحبِ طرز نثر نویس کی حیثیت سے سندھی زبان کے محسنین میں بھی شمار ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر اینی بیسنت کی تھیا سافیکل سوسائٹی نے ان کی عالمانہ خصوصیات کوفروغ دینے میں اپنا کردار اداکیا ۔(4)

لعل چندسپک زبان کے ماہر تھے۔ سندھی سلیس اور سپک زبان پر خاصی قدرت رکھتے تھے۔ اپنی یادداشتوں کا ذکر کرتے ہوئے سیرت رسول ﷺ کی تمہید میں لکھتےہیں کہ: "حضرت محمد ﷺ کی حیات طیبہ پر کتاب لکھنے کے بعد ان کے دوست انھیں "لعل محمد" کہہ کر پُکارتے تھے"۔ لعل چند اعلیٰ ادبی ذوق کے حامل تھے تاہم انھیں افسانوی ادب سے زیادہ دل چسپی تھی ۔ان کی 30 کتابیں مشہور ہوئیں جن میں سے۔ سون وریوں دلیوں، سچ تاں صدقی، سدا گلاب، چودھیں جو چنڈ، شاھانو شاہ، سچل سونھارو، پھلن مٹھ، عمر مارئی، سھنی میھار، کشنی جا کشت، بی رنگی باغ جا گل، دکھن بھری زندگی، شاعرانہ گل۔ سون وریوں دلیوں ترجمہ ہے اس کے علاوہ پھلن مٹھ میں انھوں نے اپنے مضامین کو جمع کیا ہے۔ (5)

لعل چند کا اہل سندھ پر ایک اور احسان یہ بھی ہے کہ سن 1914 ء میں سندھی ساہت گھر کی بنیاد رکھی جس نے آگے چل کربہت سارے مفید رسالے نکالے جس سے سندھی ادب کو بہت زیادہ تقویت ملی۔ (6) انھوں نے1940 ء کے عشرے میں سندھی ادب کے لیے مرکزی صلاح کار بورڈ کے اسسٹنٹ سیکریٹری کے طور پر بھی فرائض بھی انجام دیے اوراس منصب پر فائز ہونے کے بعد لغت کے کام کے لیے جب کمیٹی بنی تو اس کےبھی فعال رکن رہے۔ 1922 ء میں کانگریس ہلچل تحریک کے دوران جیل میں بھی رہے۔ مہران رسالے سے بھی 1946 ء سے 1951ء تک وابستہ رہے۔(7)

لعل چندکی زندگی کا سب سے زیادہ تلخ ترین فیصلہ جس پر ساری زندگی وہ ذہنی اضطراب اور رنج والم میں مبتلارہے ، وہ یہ تھا کہ تقسیم بر صغیر کے بعد سندھ سے بھارت چلے گئے مگر ان کی یہ خواہش تا عمر رہی کہ دونوں ممالک کے سندھی ہمیشہ علمی، ادبی اور ثقافتی میدان میں ایک دوسرے کے ساتھ منسلک رہیں۔ (8) لعل چند کی لکھی ہوئی کتاب "محمد رسول اللہ ﷺ "سب سے پہلے 1911 ء میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد 2004 ء میں اس کو پھر سے سندھی ساہت اکیڈمی حیدر آباد نے شائع کیاہے ۔ان کی کتاب کیونکہ قدیم سندھی متروک الفاظ میں لکھی ہوئی تھی اس لیے منور علی بٹ نے اسے جدید رسم الخط میں بھی تحریر کردیا ہے۔ سندھ کے یہ مایۂ ناز فرزند تقسیم ہند کے وقت ہندوستان کی سرزمین پر چلے تو گئے لیکن سندھی زبان وادب سے ہمیشہ وابستہ رہے سندھ کی مٹی کی محبت ہمیشہ ان کے د ل میں رہی۔ 18/اپریل 1954 ء کو بھارت میں انتقال ہوا اور ان کی وصیت کے مطابق ان کی ارتھیاں ہندو رسم کے مطابق گنگا کی بجائے دریائے سندھ میں18/اپریل 1956 ء کو ہندومذہب کی مکمل رسموں کے ساتھ بہادی گئیں۔(9)

لال چند امر دنو مل کی مشہور کتابوں میں سر کیدارو ، شاہانو شاہ ، شاہانو گل ہیں۔ سداگلاب ، پھلن مٹھ، مسافری جو مزو، ہندوستان جی تاریخ، مانک موتی لعل، سچ تاں صدقی، رام بادشاہ وغیرہ شامل ہیں۔ (10)

تاہم ان کا اصل اعزاز یہ ہے کہ وہ سندھی ہندو برادری کے پہلے ادیب ہیں جنھوں نے سیرت پر "محمد رسول اللہ ﷺ" کے عنوان سے کتاب تحریر کی ہے۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ سن 1911ء میں شائع ہوئی اس کتاب کو لکھنے کا سبب لال چند خود یوں بیان کرتے ہیں کہ مسلم بچوں سے جب وہ سکول میں ان کے نبی کی حیات کے بارے میں پوچھتے تو کوئی بھی بچہ تسلی بخش جواب نہ دیتا ،اس لیے انھوں نے ارادہ کیا کہ حضرت محمد ﷺ کی حیات پر ایک کتاب تحریر کریں ۔اس طرح وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ انھی دنوں کچھ مستشرقین کی کتابوں سے انھیں استفادے کا موقعہ میسر آیا مگراکثرمستشرقین کی کتابوں میں تعصب اور بغض کی بو آرہی ہوتی تھی۔ لہٰذا انھوں نے خودہی کتاب لکھنے کافیصلہ کیااس کتاب کے لکھنے میں ان کی رہنمائی مولانا عبیداللہ سندھی ،پیر جھنڈو اورسعید آباد، ضلع ہالا (اس وقت ہالا نوابشاہ ضلع میں تھا) سندھ مدرسۃ السلام کے فارسی معلم محمد علی شاہ نے کی۔ (11) یہ کتاب اسی دورمیں لکھی گئی جس دور میں کرسچن سوسائٹی کی جانب سے "قرآن جو بنیاد" نامی کتاب چھپی ۔ اس متعصبانہ کتاب کی وجہ سے سندھ کے مسلمانوں کے دل میں انتہائی غم و غصہ پایا جاتا تھا ۔

ہندوستان میں رسول کریم ؐ کی شان کے خلاف لکھنے والے عیسائی اور ہندودونوں تھے۔ ان میں سب سے پہلے جس شخص نے حضور اکرم ﷺ کے خلاف تعصب اور بغض و عناد کی آگ کتابی صورت میں لگائی وہ پادری عمادالدین پانی پتی تھا۔ اس کی کتاب کا نام "تواریخ محمدی" تھا اور یہ سن 1870 ء میں منظر عام پر آئی اس کے بعد پنڈت دیانند سرسوتی کی کتاب " سیتاراتھ پرکاش "مطبوعہ 1883ء بھی اسی زہر افشانی کا نمونہ تھی۔ اس کے بعد پنڈت لیکھ رام کی 1897ء میں لکھی ہوئی بہت ساری کتابیں اسی بغض و عناد کا نمونہ تھیں تاہم ان بے ہودہ کتابوں کارد لکھنے کا سلسلہ تب ہی شروع ہوگیا تھا اور اس کام کا سہرا مولانا ثناء اللہ امرتسری کے سر ہے جنھوں نے پنڈت دیانند سرسوتی کی کتاب کا رد لکھا۔ مولانا کی کتاب کا نام تھا” حق پرکاش “،ساتھ ہی مولانا نے نامعلوم مصنف کی کتاب "رنگیلارسول"(سن تالیف 1924ء )کے جواب میں مقدس رسولؐ لکھی ۔ رنگیلا رسول کتاب نامی انتہائی دل آزار کتاب تھی۔ گو کہ اس کتاب کے مصنف کاقطعی طور پرتو علم نہیں لیکن زیادہ خیال یہی تھا کہ اس کا مصنف سہاشا کرشن تھا جو کہ "پرتاب" کا ایڈیٹر تھا۔ اس 96 صفحات کی کتاب نے پورے برعظم کے مسلمانوں میں ایک آگ سی لگا دی ۔آخرکار غازی علم الدین نے سہاشا کرشن کو قتل کردیا۔

ایسا نہیں کہ اس دور کے غیر مسلم مصنفین نے صرف اس قسم کی کتابیں لکھیں بلکہ اس کے برعکس کچھ معتدل مزاج شخصیات نے بر بنائے عقیدت یا بربنا ئے مصلحت آنحضرتؐ کو بہت شاندار خراج عقیدت پیش کیا۔ اس کی ابتدا 1892ء میں واشنگٹن ارونگ کی کتاب لائف آف محمد کے ترجمے سے ہوئی جولالہ دلیارام گولانی نے سوانح عمری محمدؐ"کے نام سے کیاتھا۔ یہ انیسویں صدی کے اواخراور بیسویں صدی کے اوائل کا زمانہ ہے اب ہندوستان میں پیغمبر اسلام کی صحیح سوانح لکھنے کا رجحان غیر مسلم، شریف النفس لوگوں میں پروان چڑھ رہا تھا۔ جس کی ابتدائی بہترین مثال شرد سے پرکاش کی 1907ء میں لکھی ہوئی کتاب "حضرت محمد صاحب ، بانیٔ اسلام" ہے اس کے بعد جے۔ ایس۔ دارا کی لکھی ہوئی کتاب "رسول عربیؐ " جو کہ جنگ عظیم اول کے دوران 1914ء میں لکھی گئی تھی۔ لکشن پرشاد کی کتاب "عرب کا چاند(سن 1932 ء )،پنڈت سندرلال کی کتاب حضرت محمدؐ اور اسلام"، بابو کنج لال کی تصنیف "حضرت محمد ؐ اور اسلام" رگو ناتھ سہائے کی کتاب پیغمبر اسلام، گوبندرام سیٹھی شاد کی 1944ء میں لکھی ہوئی کتاب چار مینار، پروفیسر لاجیت رائے کی کتاب حضرت محمد صاحب کی سوانح عمری چند نمایاں امثال ہیں۔

مستقل کتابوں کے ساتھ ساتھ ہی ہندو اور سکھ افراد کے وہ مضامین بھی اہم ہیں جو انھوں نے مختلف رسائل و اخبارات میں تحریر کیے تھے۔ ان کو سید بشیر احمد نے "سرور کونینؐ – اغیار کی نظر " نامی کتاب میں جمع کیاہے۔ اس کتاب میں برصغیر کے نامور ہندوا ور سکھ اسکالرز کے لکھے ہوئے مضامین شامل ہیں جن میں مالک رام، پنڈت گوپال کرشن، ماستر شنکر داس گیانی، ڈاکٹر بدہ ویر سنگھ، لالہ رام لال ورما، بی ۔ایس۔ رندھلوا رام سنگھ گیانی، موتی لال ماتھر، سوامی براج نرائن سنیاسی، پنڈت سندر لال، بھگوان داس بھگوان، لالہ دیش بندھو جی وغیرہ شامل ہیں۔اسی طرح ظل عباس عباسی کی کتاب "پیغمبر اسلام غیر مسلموں کی نظر میں" محمد حنیف یزدانی کی کتاب "محمد رسول اللہ ، غیر مسلموں کی نظر میں" اہم ہیں۔ بعض جگہوں پر یقیناً ان غیرمسلم افراد کے مضامین میں کچھ کمی اور کوتاہیاں نظر آئی ہیں جومسلم عقائد کی صحیح ترجمانی نہیں کرتیں لیکن اختلاف رائے برائے عناد نہیں تھا اس لیے اسے نظر انداز کرنا ہی بہتر تھا۔ کیونکہ بظاہر ان کی نیت صاف تھی۔ لیکن چند کتابیں ان مصنف مزاج حضرات نے اپنے ہی ہم مذہب لوگوں کے رد میں لکھیں جن میں ان افراد کی قلعی کھول کے رکھ دی جو حضور اکرم ﷺپر بے جا اور بیہودہ الزامات عائد کرتے ہیں ان تحریروں نے صداقت گوئی کی ایک بہترین مثال قائم کی جو ان من گھڑت قصوں اور پیغمبر ﷺ کی ذات پر لگائے گئے الزامات پر ضرب کاری ہیں۔(12) یہ مشیّت الٰہی کاکرشمہ ہے کہ ایک متعصبانہ اور تاریخی حقائق سے عاری کتاب "قرآن کی تاریخ" کا جواب بھی ایک غیر مسلم ہندو نے اپنی کتاب محمدرسول ؐ کی صورت میں دے کر جیسے مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھا۔ مولانا عبیداللہ سندھی اس کتاب پر رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ کتاب خاصی محنت اور انصاف پسندی سے لکھی گئی ہے۔(13)

لعل چند نے جن کتابوں سے استفادہ کیا ہے ان کی تفصیل انھوں نے خود بیان کی ہے:

1۔"سوانح عمری حضرت محمد ﷺ" از بابو پرکاش دیو

2۔"صحیح البخاری" از امام محمد بن اسماعیل کااردو ترجمہ

3۔مسدس ابوجھو (مولانا الطاف حسین حالی کے کلام کا سندھی منظوم ترجمہ)

اس کے علاوہ انگریزی زبان کی کتابوں میں:

4. "Saying of Muhammad" by Dr. Suharwardy

5. "Spirit of Islam" by syed ameer Ali

6. "Four Great religion" by annie Besant

7. "Life of Muhomet" by washing Irving

8. "Hero and Hero-worship" by Thomas Carlyle

اس کتاب کا اردو زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ 1911ء میں چھپنے کے بعد یہ کتاب جنوری 2007ء میں سندھی ساہت گھر حیدرآباد کی جانب سے 72 صفحات میں دوبارہ شائع ہوئی۔ لال چند امر دنو مل جگتیانی نے کتاب میں جن موضوعات پرقلم اٹھایاہے ان کی تفصیل کچھ یوں ہے:دنیا کے قدیم مذاہب، عرب کے مذاہب، حضرت رسول اقدس ﷺ کا حسب نسب اور بچپن،جوانی اور سیدہ خدیجہ سے نکاح، اولاد رسول کریم ﷺ، حجر اسود، حضرت زید بن حارث، حضور اقدسﷺ کے مشاہدات، پہلے مسلمان، قریش کے مظالم، قریش کا حضور اقدسﷺ کو لالچ دینا، ہجرت حبشہ، حضرت عمر کا قبول اسلام، عام الحُزن، سفر طائف، معطم بن عدی کی مروت، طفیل بن عمر ودوسی،سیدہ عائشہ سے منگنی ، سیدہ سودہ سے نکاح، بیعت عقبہ اول و ثانی، واقعۂ معراج، حضور اقدس ﷺکی ہجرت مدینۃ النبی، قریش کی سازش کہ حضور اقدسﷺ کو شہید کیا جائے، مسجد نبوی کی بنیاد،خیرات دینے کی ترغیب، حضرت عائشہ سے عقد،حضرت علی اور رسول اللہ ﷺکی دختر سیدہ فاطمہ کا نکاح، حضرت محمد ﷺ کی خوراک، حضوراقدسﷺ بحیثیت رئیس مدینہ، جنگ بدر، جنگ احد، حضرت حفصہ سے نکاح ،رسول اللہ ﷺ سےیہود کی بدعہدی، غزوہ ٔبنو مصطلق اور حضرت جویریہ سے رسول اللہ ﷺ کے نکاح کا واقعہ، غزوۂ خندق، قبیلہ یہود بنو قریظہ کی بدعہدی کی سزا، حضور اقدسﷺ کا عمرے کی نیت سے مکہ جانے کا قصد اور قریش کی مزاحمت، صلح حدیبیہ، سفارتی خطوط،غزوہ ٔخیبر، حضرت ام حبیبہ سے نکاح، حضرت میمونہ سے نکاح، جنگ موتہ، قریش مکہ کی بدعہدی، فتح مکہ، بنو ہوازن اور بنو ثقیف کا حملہ، عام الوفود، غزوہ ٔتبوک، قبیلہ طی سے جنگ، پورےعرب کا مشرف بہ اسلام ہونا، حجۃ الوداع، دو کذابوں کا ظہور یعنی مسیلمہ اور اسود عنسی اور آخر میں حضور اقدس ﷺ کی رحلت۔ لال چند کا نام سندھی ادب میں تو پہلے ہی بلندتھا لیکن حضورﷺ کے حالات لکھ کر انھوں نے اپنا مرتبہ مزید بلند کردیا۔

کتاب سے چند اقتباسات

یہودین جی انبنت

مسلمان مدینے میں آیا تنھن دینھن کھاں وٹھی یہودین کھین پائی دنو ہیکاری بھریندے ئی مسلمانن جی بدر جی لڑائی میں جیت تھی سو پچکو اچی لگن اندر ئی جلی سڑی رکھ تھی وین کن تہ وٹھی پیغمبر تے ٹوکیبازی جا قصیدہ ٹھاہیا کن وری قریشن کھے شورائن لاءِ راگ ٹھاہیا۔ محمد صاحب شب میں گھنو شرماین ائیں مٹھ محبت میں سمجھاین، پر آتاسا ہوا لگو اتھلیو وری بہ چرچ کھاں نہ رھیا۔ نیٹھ محمد صاحب بہ برتھی چین "ہانی مرضی آہے اوھانجی، مسلمانن سانن ئی ردبدل کئی، تہ آءُ کونہ جھلیندو سان پجی کھائجوں۔(14)

ترجمہ: یہودیوں سے کش مکش

”جس دن سے مسلمان مدینے میں آئے تھے اسی دن سے یہودیوں نے انھیں تنگ کرنا شروع کردیا تھا اوپر سے مسلمانوں کی آتے ہی جنگ بدر میں زبردست جیت ان کے لیے وجہ تشویش بنی ہوئی تھی۔ ان کے اندر آگ لگی ہوئی تھی ان میں سے کچھ نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں نازیبا قصیدے لکھےکچھ نے قریش کو طیش دلانے کے لیے ہجویہ اشعار لکھے۔محمد ﷺ نے ان کی ان حرکتوں پر انھیں بہت شائستگی کے ساتھ پیار اور محبت سے سمجھایا مگر وہ کہاں پیار اور محبت کی زبان سمجھتے تھے وہ اپنی لگائی بجھائی میں ویسے ہی مصروف رہے ۔آخر رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا کہ "اب مرضی ہے تمھاری اب اگر مسلمانوں نے اس حرکت پر تم لوگوں کو روکا اور لڑے تو میں ان کو نہیں روکوں گا۔ پھر جو ہو اس کے تم خود ذمے دار ہو۔ “

2۔امر لعل وسن مل ہنگورانی

ضلع نوشہر و فیروز، سندھ کے علاقے کھاہی نواب شاہ میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم نواب شاھ سندھ میں حاصل کی۔ ان کے والد کا نام وسن مل ہنگورانی تھا۔ 1930ء میں ڈی ۔جے۔ کالج سے بی۔ اے ۔کرنے کے بعد ایل-ایل-بی۔ کی سند بھی لی اور جلد ہی وکالت کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔

امر لعل ہنگورانی سیرت رسول کریم ﷺ پرسندھی نثر میں لکھنے والے غیر مسلم حضرات میں شامل ہیں ان کی تصنیف کردہ سیرت کی کتاب کا نام "میر محمد عربی" ہے۔ امر لعل کو سندھی زبان میں حقیقت نگاری کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل ان کی کہانیاں پھلواڑی، اسافر؟ مہرآن، آشا اور سندھ میں چھپ چکی تھیں۔ کہانی نویس ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک اچھے مضمون نگار بھی تھے۔ امر کی سب سے اچھی کہانی "ادو عبدالرحمان" ہے جو کہ کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے۔( 15)

میر محمد عربی

ہندو ادیب اوردانشور امر لال وسن مل ہنگورانی کی سیرت رسول اللہ ﷺ پر لکھی ہوئی کتاب"میر محمدعربی" سندھی نثر میں لکھی ہوئی کسی بھی ہندو فرد کی دوسری کتاب ہے امر لال کی یہ کتاب پہلی بار کراؤن سائز کے 64 صفحات میں برہم پٹ لائین پرنٹنگ پریس ،کراچی سے چھپی مؤلف نے ذاتی خرچ سےکتاب شائع کی ۔دراصل یہ کتاب، ہنگورانی صاحب نے مختلف انگریزی کتابوں سے استفادہ کرکے لکھی تھی ۔جن کتابوں سے انھوں نے استفادہ کیا ان کا ذکر ڈاکٹر محمد ادریس سومرو صاحب اس طرح کرتے ہیں لائف محمد(غالباً لائف آف محمد ازسر ولیم میور بایوگرافی آف محمد"، "محمد پرافیٹ پول"،اور "اسپرٹ آف اسلام" مؤخر الذکر کتاب جسٹس امیر علی کی ہے۔(16)

"میر محمدعربی"پہلی بار 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد شائع ہوئی کیونکہ تقریظ میں مولانا دین محمد وفائی نے 16 /ستمبر 1947ء لکھا ہے۔17؎مولانا دین محمد وفائی نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے نہ صرف ان کی اس کتاب پر انھیں مبارکباد پیش کی ہے بلکہ ان کی سندھی زبان کو بھی سراہا ہے۔ ساتھ ہی وہ ان کے غیر متعصب ہونے پر بھی انھیں تحسین وآفرین سے نوازتے ہیں۔

” ہک ہندو علم ائیں قلم وارے انسان کھاں ، ان کھاں ودھیک بی کہڑی سھنی ائیں سلونی زبان جی امید رکھی سگھجی تھی۔“(18)

یعنی"ایک ہندو علم ا ور قلم رکھنے والے انسان سے اس سے اورزیادہ اچھی اور عمدہ اسلوب تحریر کی کیا امید رکھنی چاہیے"۔

سندن جان ائیں جگر جو دشمن ابو جھل ابو سفیاں جو بھین پرنیو ھو۔ رسول کریم ﷺ جی برخلاف ابو جہل داچی وانگر دھ ھندو ھو تہ ابو سفیاں تو دی وانگر تیرنھن ھنندو ھو سندن بھین ام جمیل پان پنھنجی مڑس کھی رسول کریم ﷺ جی برخلاف چھیڑیندی ھئی (19)

”آپ ﷺ کا کٹر دشمن ابو جہل، ابو سفیان کی بہن سے عقد کیے ہوئے تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے خلاف اگر ابو جہل دشمنی میں کٹر تھا تو ابو سفیان اس سے بھی دو ہاتھ آگے تھا۔ اس کی بہن امِ جمیل رسول اللہ ﷺ کے خلاف ہمیشہ اپنے شوہر کےکان بھرتی رہتی تھی۔“

3۔جیٹھمل پرسرام گلجرانی

دین اسلام، برہمو سماج، سناتن دھرم اور تصوف کاوسیع علم رکھنے والے ہندو وادیب اوردانش ورجیٹھمل پرسرام گلجرانی سندھ میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ انھوں نے بہت سی کتابوں کے علاوہ حضور ﷺ کی حیات اقدس پر بھی ایک کتاب انگریزی زبان سے سندھی میں "اسلام جو پیغمبر" کے عنوان سے ترجمہ کی تھی ۔ اس کے علاوہ اوم کی کہانی، سدھیوں ائیں چکر، فلاسافی چھا آہے، موت آہے ئی نہ، شاہ جوں کہانیوں، روح رہان کی 21 جلدیں نیز سندھ کی تاریخ اور تہذیب و تمدن پر سندھی زبان میں بہت سے مضامین و مقالات تحریر کیے ہیں۔(20) جیٹھمل پرسرام نے 1914ء میں" بھائی- کالا چند" کی سوانح عمری لکھ کر تصنیف وتالیف کی ابتدا کی۔ (21) ان کےتصنیف کردہ مضامین ، جو کہ "روح رہان" کے نام سے مشہور ہیں، دراصل تصوف اور تھیو سافیکل نظریے کے باریک پہلوؤں کااحاطہ کرتےہیں یہ مضامین انھوں نے 1923ء سے 1944 ء کے درمیان لکھے تھے۔گلجرانی نے تصوف اور تھیاسافیکل فلسفے پرلیکچر دینے کا سلسلہ1923ء سے شروع کیا جو 1944ء تک جاری رہا جس میں تمام مذاہب بالخصوص قرآن ، گیتا، ویدانیت کے باریک مضامین کو بڑی خوبی سے پیش کیا جاتا تھا۔

جیٹھمل کی زندگی سندھی سماج کی عکا س ہے ۔ ان کو تصوف اور ویدانیت پر کافی دسترس تھی۔ یہ کہنا بیجانہ ہوگا کہ وہ تصوف پر ایک یونیورسٹی تھے۔ سندھ سے محبت اس حد تک تھی کہ مرنے کے بعد ان کی وصیت کے مطابق ان کی ارتھیاں ہندو مذہب کے رواج کے مطابق ویسے تو گنگا میں بہانی تھیں لیکن دریائے سندھ میں بہائی گئیں۔ وہ کہتے تھے کہ سندھ اور گنگا میں کچھ فرق نہیں۔ مرحوم غلام محمد بھرگڑی کے ساتھ ان کے بہت گہرے تعلقات تھے ان کے متعددمضامین ہندو-مسلم اتحاد پر اپنی مثال آپ تھے جو کہ سندھی اور انگریزی زبان کے مختلف اخباروں میں شائع ہوتے رہے۔انھوں نےسیاست میں بھی بھرپور حصہ لیا اور موہن داس کرم چند گاندھی کے ساتھ جیل بھی گئے۔ آپ پر مسلم صوفیہ کے کلام کا بہت گہرا اثر تھا۔ آگے چل کر اینی بلیسنت کے ساتھ ہوگئے اور تھیاسا فیکل تحریک کے سرگرم رکن بن گئے اور اس تحریک اوراس کے نظریے پر متعدد لیکچر دیے۔(22)

جیٹھمل 1885 ء میں حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ وہ جوانی میں وادھو مل چئنانی کی ہندو کمار منڈلی سے بھی وابستہ رہے۔ جن میں حق، حسن اور خیر پر لیکچر وغیرہ جاتے تھے۔جیٹھمل نے شاہ عبداللطیف، سامی، دکھپت، سچل بیکس، روحل مراد فقیر، ہندوستان کے گرو نانک، بھگت کبیر ، میراں بائی اور کالیداس کو کافی پڑھا ہوا تھا۔ مغرب میں شیکسپیئر، شیلی اور گوئٹے ان کے علاوہ فارسی کے حافظ ،رومی اور خواجہ فریدالدین عطار کا بھی بڑا گہرئی سے مطالعہ کیا تھا تقابل ادیان ان کاپسندیدہ موضوع تھا ،انھیں قرآن، وید گیتا، بائبل پر کمال کا درک حاصل تھا ۔

گلجرانی نے جیل کی زندگی پر ایک کتاب "ترنگ جو تیرتھ" لکھی تھی اینی بلیسنت کے ساتھ منسلک ہونے کے بعد سیاست سے کنارہ کشی کی۔ کئی اخبارات واسی سندھ واسی، ماہوار روح رہان اور ہفتہ وار سندھ کااجراان کے کارناموںمیں شامل ہیں۔ ان کاایک اہم کام سندھ ساہت سوسائٹی کے نام سے ایک ادبی ادارے کا سنگ بنیاد رکھنا ہے۔ سندھ کا یہ عظیم فرزند 7/ جولائی 1948 ء کو ممبئی میں انتقال کر گیا اس کی ارتھیاں دریائے سندھ میں بہائی گئیں۔ (23)

ہندو سیرت نگاروں میں ایک نام ہوت چند دے مل جگتیانی کا بھی ہے۔ ان کی ترجمہ کردہ کتاب "اسلام جو پیغمبر" (حضرت محمد صاحب جی حیاتی جو بیان)، کوڑومل سندھی ساہت منڈل حیدرآباد، سندھ سے 1931ء میں شایع ہوئی۔ درحقیقت یہ چھوٹی سی کتاب احمدی جماعت انجمن اشاعت اسلام کی انگریزی میں لکھی ہوئی سیرت کا ترجمہ ہے جو لاہور سے چھپا۔ حیدرآباد کے کلکٹر مسٹر جے-اے۔ تھامس نے جیل میں قیدیوں کےلیے اس کتاب سے چند چیدہ چیدہ واقعات جیل میں بند سزایافتہ قیدیوں کو سنانے کے لیے جگتیانی کو مقرر کیا تھا جس سے قیدیوں کی ذہنی کیفیت میں تبدیلی آئی اس کتاب نے جلد ہی ان جرائم پیشہ افراد کے اخلاق میں مثبت تبدیلی لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ (24)

خلاصۂ بحث

سطور بالا میں چند ہندو سیرت نگاروں کا مختصر احوال پیش کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ بھی کئی ایسے ہندو سندھی ادیب ہیں جنھوں نے سیرت رسول ﷺ کو بطور موضوع اختیار کیا ہے۔ اس مختصر مقالے میں تفصیل کی گنجائش نہیں تھی اسی باعث مشتے نمونہ از خروارے چند سیرت نگاروں کے تذکرے پر اکتفا کیا گیا ہے اور ان سیرت نگاروں کا یہ تذکرہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نبی مکرم ﷺ کی رحمت کا دائرہ مسلم و غیر مسلم سبھی کو محیط ہے۔ اور یہ آپ کی بے پایاں رحمت کا اعجاز ہی تو ہے جس نے غیر مسلموں کو بھی سیرت پاک کے درخشاں پہلوؤں کو حوالۂ قرطاس کرنے پر مجبور کردیا۔ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر نے درست کہا تھا:

عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیںصرف مسلم کا محمد ؑ پر اجارہ تو نہیں

 

حوالہ جات

1۔ سید،جی۔ایم،جنب گذاریم جن سیں (زندگی بسر کی جن کے ساتھ) ،ناشر :ناز سنائی، جی۔ ایم۔ سید اکیڈمی، سن، ضلع دادو،2004ء،ص 475

2۔ آدوانی، بھیرومل مہر چند،سندھ جی ہندن جی تاریخ ، گلشن پبلی کیشن،حیدرآباد لاڑکانہ، 2003ء،حصہ دوئم ، ص 195

3۔ کھلانی ،لکشمی(مرتب)،سندھی نثر جا تھنبھا، انسٹیٹیوٹ آف سندھالاجی، گجرات انڈیا، ص 64۔65

4۔ گرامی، غلام محمد،ویاسی وینجھار، سندھی ادبی بورڈ ،جامشورو، جون 1995ء،ص 25۔26

5۔ جونیجو ، عبدالجبار، ڈاکٹر،سندھی ادب جی مختصر تاریخ، روشنی پبلی کیشن ،کنڈیارو، 1997ء، ص 181

6۔ ملکانی، منگھارام، سندھی نثر جی تاریخ، سندھی ساہت گھر ،حیدرآباد،2007ء ص 46

7۔ سید،جی۔ایم۔،محولہ بالا،ص 476

8۔ الانا ،غلام علی، ڈاکٹر، سندھی نثر جی تاریخ، سندھی ساہت گھر،1997ء،ص 197

9۔ سید،جی۔ایم۔،محولہ بالا،ص ،ص 477

10۔ لاڑک،راہب علی(تحقیق مرتب)،شاہ لطیف جا شیدائی،حصہ اول،سمبارا پبلی کیشن،حیدرآباد،فروری 2016ء،ص 71

11۔ جگتیانی، لال چند امر دنو مل ، محمد رسول اللہ ﷺ،سندھی ساہت گھر، حیدرآباد، 2007ء، ص 4۔5

12۔ انور، محمود خالد،ڈاکٹر،اردو نثر میں سیرت رسول،اقبال اکادمی، لاہور، 1989ء، ص467۔470

13۔ جگتیانی، لال چند امر دنو مل ،محولہ بالا ، ص 6

14۔ ایضاً،ص 49

15۔ انسائیکلوپیڈیا سندھیانا، سندھی لینگویج اتھارٹی، حیدرآباد جلد اول ،ص 274

16۔ سومرو ، محمدادریس، السندھی،ڈاکٹر،سندھی میں لکھیل اسلامی کتابن جو تنقیدی جائزہ، سندھی ادبی بورڈ، جامشورو،ص 251

17۔ ہنگورانی ،امر لال وسن مل ،میر محمد عربی، سندھی ساہت گھر، حیدرآباد، مارچ 2007ء،ص 6

18۔ایضاً ، ص 5

19۔ ایضاً ،ص 36

20۔ گرامی، غلام محمد،ویاسی وینجھار، سندھی ادبی بورڈ ،جامشورو، جون 1995ء،ص 7

21۔ جونیجو، عبدالجبار ،ڈاکٹر، کٹھمال، انسٹیٹیو ٹ آف سندھالاجی ،یونیورسٹی آف سندھ ،2002ء،ص 544

22۔گرامی، غلام محمد،محولہ بالا، ص 5۔6

23۔ سید،جی۔ایم۔،محولہ بالا،ص418۔420

24۔جگتیانی، لال چند امر دنو مل ،(مترجم)،اسلام جو پیغمبر،کوڑومل سندھی ساہت منڈل،حیدرآباد،سندھ،1931ء

حوالہ جات

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...