Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 34 Issue 1 of Al-Tafseer

سید محمد محسن اور ان کا منظوم ترجمۂ قرآن: ایک تنقیدی مطالعہ |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

34

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060084478_851

Pages

11-29

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/121

Subjects

Qurʼān Versified Translations of Qurʼān Translations of Qurʼān in Poetic form Sayyid Muḥammad Moḥsin Manẓūm Urdu Tarjama

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

مولانا سید محمد محسن کے والد کا نام مولانا سید محمد کاظم اور دادا کا نام سید نجم الحسن تھا۔ سید محمد محسن شیعہ کالج لکھنؤ میں لیکچرار شعبۂ دینیات تھے اور کولکاتا کی مسجد بصراوی کے امام جمعہ وجماعت تھے۔ تلاشِ بسیار کے باوجود راقم سطور مولانا سید محمد محسن کے سوانحی خاکے سے تاحال لاعلم ہے۔ اِن کے ترجمے کے بارے میں تذکرہ ضرور ملتا ہے، مگر ان کے حالاتِ زندگی کے حوالے سے کوئی تحریر یا مقالہ دست یاب نہیں ہوسکا ہے۔ راقمِ مقالہ نے لکھنؤ میں عزیزم مولانا فیصل احمد ندوی بھٹکلی مدرس ندوۃ العلما لکھنؤ کے توسط سے مولانا محمد محسن کی فیملی کے بعض افراد سے متعدد بار رابطے کیے، مگر تاحال تمام کد وکاوش بے سود رہی، لیکن امید کا دِیا روشن ضرور ہے۔

اشاعت ترجمہ

سید محمد محسن کے ترجمے کی اشاعت مطبع نظامی لکھنؤ سے ہوئی، جب کہ اسے مجاہد بک ڈپو لکھنؤ نے پیش کیا۔

کوئی باقاعدہ پرنٹ لائن نہیں ہے، جہاں اس کے سالِ اشاعت کی وضاحت ہو، البتہ بعض نظم نگاروں نے قطعۂ تاریخ لکھا ہے، جس سے ۱۹۸۶ء برآمد ہوتا ہے، ڈاکٹر رئیس نعمانی نے بھی انھی شواہد کی روشنی میں اس کی اشاعت کا سال ۱۹۸۶ء لکھا ہے([1]) مگر صفحہ نمبر ۳ پر گورنر مغربی بنگال کے تأثرات میں ۱۱/ ستمبر ۸۷ء درج ہے۔ ممکن ہے کہ یہ سہوِ کتابت ہو کہ اکثر وبیشتر تقریظ نگاروں کے نام کے ساتھ ۱۹۸۶ء کا اندراج ہے، مزید برآں تاریخی قطعات سے بھی ۱۹۸۶ء برآمد ہوتا ہے۔ بہر حال ’’منظوم اُردو ترجمہ‘‘ کی اشاعت ۱۹۸۶ء میں ہوئی ہے یا پھر ۱۹۸۷ء میں۔

تعارفِ ترجمہ

جلد پر عنوان ’’اُردو منظوم ترجمۂ قرآن مجید‘‘ لکھا ہے، جب کہ سرورق پر ’’قرآن مجید مع منظوم اُردو ترجمہ‘‘ درج ہے۔ ابتدائی ۸ صفحات تقریظوں، تبصروں، تأثرات، قطعاتِ تاریخ، پاروں اور سورتوں کی فہرست کے لیے مختص ہیں، تمام تبصرے اور تقریظیں مختصر ہیں جو دو دو چار چار سطروں پر مشتمل ہیں۔ ان تقریظ نگاروں میں پروفیسر سید نور الحسن، سید سبطِ رضی، پروفیسر حیدر حسین، سید محمد عبادت، سید کلبِ صادق، سید محمد ذکی، سید حمید الحسن، آغا سید محمد موسوی، مرزا محمد اطہر، مرزا محمد اشفاق اور آغا محمد باقر شامل ہیں۔ قطعاتِ تاریخ صفی اختر تقوی اور حسن عباس حسن کے نتیجۂ فکر ہیں۔ اِن آٹھ صفحات کے بعد صفحات کے نمبر از سر نو شروع ہوتے ہیں جو ۹۳۳ تک جاتے ہیں، یوں ’’منظوم اُردو ترجمہ‘‘ کے صفحات کی مجموعی تعداد ۹۴۱ بنتی ہے۔ ہر صفحہ تین کالموں میں منقسم ہے: اوّل میں متنِ قرآن ہے، دو کالموں میں شعری ترجمہ آمنے سامنے مصرعوں کی صورت میں ہے، متن میں آیات کے نمبر ہیں نہ منظوم ترجمے میں، اِس میں مطلوب آیت یا اُس کے مفہوم تک رسائی دیگر منظوم ترجموں کی نسبت قدرے مشکل ہے۔ خال خال آیات کے ترجمے پر موضوع کی نسبت سے عناوین بھی قائم کیے گئے ہیں۔

مدت تالیف

’’منظوم اُردو ترجمہ‘‘ میں نظم نگار نے کہیں یہ وضاحت نہیں کی کہ انھوں نے منظوم ترجمے کا آغاز کب کیا اور یہ کام پایۂ تکمیل کو کب پہنچا؟ البتہ پروفیسر حیدر حسین کاظمی نے اپنے تأثرات میں یہ وضاحت ضرور کی ہے کہ فاضل نظم نگار کو منظوم ترجمہ کرنے میں دو سال سے کم عرصے کا وقت لگا ہے۔([2])

تعدادِ اشعار

بعض تقریظ نگاروں نے اشعار کی تعداد ۲۴ ہزار لکھی ہے، جب کہ بعض تقریظ نویسوں نے ۲۵ ہزار کی تعداد بیان کی ہے۔ ہر صفحے پر اشعار کی تعداد ۲۵ سے ۳۰ ہے، اگر ۲۵ کو ۹۳۳ سے ضرب دیں تو ۲۳۳۲۵ جواب آتا ہے اور اگر ۳۰ کو ۳۳۹ سے ضرب دیں تو ۲۷۹۹۰ جواب آتا ہے، لیکن ظاہر ہے کہ ہر صفحے پر تیس اشعار نہیں ہیں، البتہ ایک محتاط اندازے کے مطابق ۲۴ سے ۲۵ ہزار کے درمیان اِس میں اشعار ضرور ہوں گے۔

صنف ترجمہ

’’منظوم اُردو ترجمہ‘‘ تفسیری ترجمہ ہے، اس میں لفظ بہ لفظ پابندی نہیں ہے۔ اصنافِ سخن میں سے مثنوی ہیئت میں ہے اور نظم نگار نے اس کے لیے بحر متقارب مزحف کو منتخب کیا ہے، جس کا وزن ہے: فعولن فعولن فعولن فعل۔

ماخذ ترجمہ

’’منظوم اُردو ترجمہ‘‘ کے بہ نظر عمق مطالعے سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ اس کا تخلیق کار عربی سے ناآشنا تھا، اُس نے براہِ راست عربی متن سے ترجمہ کرنے کی بجائے اُردو نثری ترجمے کو نظم کا قالب بخشا ہے۔ نظم نگار نے اپنے ترجمے میں کہیں یہ وضاحت نہیں کی کہ ترجمہ کرتے ہوئے اُن کے پیش نظر کون سے اُردو تراجم تھے۔ راقم مقالہ ہٰذا اس ترجمے کے عمیق مطالعے کے بعد اِس نتیجے پر پہنچا ہے کہ فاضل مترجم کا سب سے بڑا مآخذ مولانا حافظ سید فرمان علی کا نثری ترجمہ ہے۔ اس کے کئی داخلی شواہد بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر سورۃ القصص کی آیت:۱۶ قَالَ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ فَغَفَرَلَہٗ اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ کا ترجمہ سید فرمان علی نے تمام اُردو مترجمین سے ہٹ کر کیا ہے۔ عام نثری مترجمین اس کا ترجمہ کرتے ہیں:

’’پھر دعا کرنے لگے کہ اے پروردگار! میں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا، تو مجھے معاف فرما دے، اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا، وہ بخشش اور بہت مہربانی کرنے والا ہے‘‘ ([3])

یہ دعائیہ جملے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اُس وقت کہے تھے، جب اُن کے ہاتھوں نادانستہ ایک قبطی کا قتل ہوگیا تھا، اگرچہ ارادۂ قتل نہ تھا، پھر بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام اِس پر ندامت کا اظہار فرمارہے ہیں کہ کسی نبی کے لیے مناسب نہیں کہ جب تک اُسے قتل کا حکم نہ دیا جائے وہ قتل کرے۔([4]) اِس آیت کے ترجمے میں حافظ فرمان علی نے عام مترجمین سے ہٹ کر مغفرت کا ترجمہ طلبِ معافی کی بہ جائے ’’پوشیدہ رکھنا‘‘ کیا ہے، ملاحظہ ہو:

’’(پھر بارگاہِ خدا میں) عرض کی پروردگارا بے شک میں نے اپنے اوپر آپ ظلم کیا (کہ اس شہر میں آیا) تو تو مجھے (دشمنوں سے) پوشیدہ رکھ، غرض خدا نے انھیں پوشیدہ رکھا، اس میں تو شک ہی نہیں کہ وہ بڑا پوشیدہ رکھنے والا مہربان ہے‘‘([5])

تقریباً یہی مفہوم سید محمد محسن نے اپنے منظوم ترجمے میں بیان کیا ہے، ملاحظہ ہو:

کہا پھر یہ موسیٰ نے پروردگاربچانے کی خاطر مرے یہ خبرتو خالق نے اس کو چھپا بھی دیاتو پوشیدہ رکھنے ہے والا خدا   ستم میں نے خود پر کیا کردگارچھپا دے اسے مالکِ بحر و برّیہ لطف و کرم اُس نے اِن پر کیااور اس بات میں کچھ نہیں شک کی جا([6])

مغفرت کا یہ ترجمہ درست بھی مان لیں اور فَغَفَرَلَہٗ کا مفہوم ’’خدا نے انھیں پوشیدہ رکھا‘‘ یقین کرلیں تو یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے تو اِس معاملے کو پوشیدہ رکھا، لیکن اگلے دن ہی یہ راز تو افشا ہوگیا۔ کیا اس طرح اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ پر حرف نہیں آتا۔ سید فرمان علی اور سید محمد محسن کے ترجموں میں بڑی حد تک مطابقت اس بات کا ثبوت ہے کہ ثانی الذکر نے اوّل الذکر کے ترجمے کو سامنے رکھ کر اپنا ترجمہ نظم کیا ہے۔ اِس کا مزید ثبوت کہ قَالَ یٰمُوْسٰٓی اَتُرِیْدُ اَنْ تَقْتُلَنِیْ کَمَا قَتَلْتَ نَفْسًا بِالْاَمْسِ اِنْ تُرِیْدُ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ جَبَّارًا فِی الْاَرْضِ وَمَا تُرِیْدُ اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْمُصْلِحِیْنَ ([7]) کا قائل جمہور مفسرین کے نزدیک بنی اسرائیلی تھا ([8])، جب کہ سید فرمان علی نے اِس قول کا قائل قبطی کو قرار دیا ہے([9]) اور فاضل نظم نگار نے بھی اُن کے تتبع میں یہ قول قبطی ہی کا قرار دیا ہے ۔([10]) الغرض فاضل نظم نگار کے پیش نگاہ دیگر تراجم بھی ہوں گے، مگر سب سے زیادہ استفادہ سید فرمان علی کے ترجمے سے کیا ہے۔

تسمیہ کا ترجمہ

فاضل مترجم نے قرآن مجید کی تمام سورتوں کے آغاز میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے معمولی فرق کے ساتھ دو ترجمے کیے ہیں، ایک میں رحم پہلے اور ترس بعد میں، جب کہ دوسرے ترجمے میں ترس پہلے اور رحم بعد میں ہے، ملاحظہ ہو:

بنامِ خدا کرتے ہیں ابتدا   رحم اور ترس کھاتا جو ہے سدا

دوسرا ترجمہ

بنامِ خدا کرتے ہیں ابتدا   ترس اور رحم کھاتا جو ہے سدا

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا ترجمہ کرتے ہوئے شاعر سے رحمٰن اور رحیم کا ترجمہ نہیں ہوا، دوسرا جو انھوں نے رحمٰن ورحیم کا ترجمہ کیا ہے، اُس میں فنی اعتبار سے نقص ہے۔ شاعر نے رحم اور ترس دونوں کو نظم میں مفتوح الاوسط باندھا ہے، جب کہ اِن کا درست تلفظ مسکون الاوسط ہے، شعر کو وزن میں رکھ کر پڑھیں تو تلفظ کی حرمت پر حرف آتا ہے اور درست تلفظ کے ساتھ پڑھیں تو شعر وزن سے جاتا ہے۔

حروف مقطعات

حروفِ مقطعات کے معاملے میں سید محسن کا اُسلوب یہ ہے کہ وہ اُن کو نظم کی لڑی میں پروتے ہیں، اس ترجمے کی خوبی یہ ہے کہ نظم نگار نے حروف مقطعات کو نظم کا جامہ بھی پہنایا ہے اور اُن کی مزید تقطیع بھی نہیں کی اور نہ ہی اُن کے معنی ومراد متعین کرنے کی کوشش کی ہے، ورنہ اکثر نظم نگار مترجمین نے حروفِ مقطعات کی مزید تقطیع کردی ہے اور بعض نے اُن کی مراد متعین کرنے کے لیے دور اَز کار تاویلیں بھی کی ہیں۔ فاضل نظم نگار نے حروفِ مقطعات کو بجنسہ نظم کا جامہ پہنایا ہے، ملاحظہ ہو:

ہیں جیسے حروفِ الٰمّ   یہ طٰسٓ ہیں در قرآن حکیم([11])

فاضل نظم نگار یک حرفی حروف مقطعات کے شروع میں حرفِ ندا ’’اے‘‘ لاتے ہیں، اس سے اُن کی کیا مراد ہے، یہ واضح نہیں ہے۔ نمونۂ کلام ملاحظہ ہو:

تو اے صاد کھا کر کہتے ہیں قسم   ہے قرآں برائے نصیحت بہم([12])

دوسرے شعر کا پہلا مصرع بے وزن ہے اور پورا شعر ادائے مفہوم میں مبہم ہے۔

تفسیری ترجمہ

’’منظوم اُردو ترجمہ‘‘ نام سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ منظوم ترجمہ ہے، لیکن فی الحقیقت ایسا نہیں ہے، بل کہ یہ منظوم تفسیر ہے یا پھر کم از کم اِسے تفسیری ترجمہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ نمونے کے طور پر یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَیْتُمْ اِلَی اللہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ([13]) کا ترجمہ ملاحظہ کریں:

تو اب مومنو ہے ضروری یہ باتتم اپنے کو محفوظ رکھو ضرورچلو گے جو تم سیدھے رستے پہ گرتو وہ جو ہوں گمراہ سب مرد و زنتمھارا کوئی اُن سے نقصاں نہیںبالآخر تو تم سب کے سب بالیقیںتو اس وقت تم کو وہ ربّ انامکیا کرتے تھے زندگی میں جو کام   مہیا کرو اپنی اعلیٰ صفاتنہ ہو سیدھے رستے سے تم لوگ دورنتیجے میں اس کے یہ ہوگا اثروہ چلنے لگیں گے تمھارا چلنسمجھ رکھو اس کو تم اے مومنیںپلٹ کر کے جاؤ گے رب کے قریںخبردار کردے گا وہ لاکلامبتادے گا رب تم کو سارے تمام([14])

آیت میں الفاظ کی تعداد سے زیادہ تو مصرعوں کی تعداد ہے، اسے ترجمہ کی بجائے تفسیر کہنا مناسب ہوگا۔مذکورہ آیت کی تفسیر آٹھ اشعار میں ہونے کے باجود بھی آیت کے مفہوم کے درست ابلاغ سے عاری ہے۔ اس آیت کا راست ترجمہ ہے:

’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنی فکر کرو، کسی دوسرے کی گمراہی سے تمهارا کچھ نہیں بگڑتا، اگر تم خود راہِ راست پر ہو، اللہ کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمھیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو‘‘([15])

اس نثری ترجمے اور منظوم ترجمے میں فرق محتاجِ بیان نہیں ہے، نظم نگار کا ترجمہ، ترجمہ ہے نہ کوئی عمدہ شاعری، اور نہ ہی زبان وبیان درست ہے۔ پہلا شعر آیت کے کسی جزو کا ترجمہ نہیں ہے، ماسوا ’’مومنو‘‘ کے، ’’اعلیٰ صفات مہیا کرنا‘‘ کوئی بلیغ تعبیر نہیں ہے، کسی اور کو مہیا کرو یا کسی اور سے مہیا کرو، واضح نہیں ہے، دونوں صورتوں میں یہ تعبیر جچی نہیں ہے۔ دوسرا شعر بھی آیت کے مفہوم مبین کے مقابلے میں مبہم ہے۔ تیسرے شعر کے اوّل مصرعے میں حرفِ جو اور گر کا اکھٹا ہونا زبان وبیان کی رو سے غلط ہے، دونوں حرفِ شرط ہیں، مگر دونوں میں فرق یہ ہے کہ جو موصول کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے اور حرفِ شرط کے طور پر بھی، یہاں یہ حرفِ شرط کے طور پر ہے، جب کہ ’’گر‘‘ صرف حرفِ شرط کے طور پر آتا ہے۔ بہرحال دونوں کا ایک مصرعے میں مجتمع ہونا، اس کی زبان وبیان اجازت نہیں دیتی۔ اگلے مصرعے میں نتیجے اور اثر میں سے ایک لفظ زائد ہے، دونوں میں سے ایک ہونا چاہیے تھا۔ چوتھے شعر کے پہلے مصرعے میں حرفِ جو اضافی ہے، جو شعر کی روانی کو بھی متأثر کررہا ہے۔ دوسرے مصرعے میں ’’چلن چلنا‘‘ محاورے کی غلطی ہے۔ پانچویں شعر میں ’’اُن‘‘ اور ’’سمجھ رکھو‘‘ دونوں بلیغ اُردو کی راہ میں حائل ہیں۔ اس سے اگلے شعر میں حرفِ تو کی طرح بالآخر اور بالیقیں میں سے ایک فالتو ہے۔ ساتویں شعر میں وہ (یعنی رب) کے بعد لاکلام کا لفظ لانا گستاخی کے زمرے میں آتا ہے۔ شاعر اسے بلاشبہ کے معنی میں لانا چاہتے تھے، مگر ’’وہ‘‘ چوں کہ اسم اشارہ ہے، اِس کے بعد لازمی بات ہے کہ مشارٌ الیہ ہو، اس سے یہ جملہ بن رہا ہے کہ وہ رب لاکلام، یعنی وہ ایسا رب ہے کہ جس کا کوئی کلام نہیں ہے۔ یقیناً شاعر نے لاکلام کو مشارٌ الیہ کے طور پر نہیں باندھا، بلاشبہ کے معنی میں برتا ہے، لیکن شعر کی موجودہ بندش سے اس کا مفہوم داغ دار ہوگیا ہے۔ شاعر موصوف اپنے اشعار میں لفظ تو، لاکلا م اور سب کے سب وغیرہ جیسے الفاظ کثرت سے لاتے ہیں۔ لاکلام نہ تو شاعری میں برتا جاتا ہے اور نہ ہی نثر میں۔ آخری مصرعے میں بھی سارے اور تمام میں سے ایک کا استعمال صحیح ہے، دونوں کا اکھٹے لانا زبان وبیان کے قواعد سے روگردانی ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے، مابقیہ ترجمے کو اسی پر قیاس کرلیا جائے۔

مسلکی نمائندگی

فاضل مترجم چوں کہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، مسلکی رنگ اُن کے ترجمے میں بھی نمایاں ہے، آیتِ وضو : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُءُ وْسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ ([16]) میں اہل سنت مترجمین کے نزدیک وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ ’’فَاغْسِلُوْا‘‘ سے متعلق ہے اور اس کا عطف ’’وُجُوْہَکُمْ‘‘ پر ہے، اِن کے نزدیک وضو میں غسلِ رجلین فرض ہے، جب کہ اہل تشیع مترجمین اس کو مسح رأ س سے متعلق کرتے ہوئے وضو میں مسحِ رجلین کی فرضیت کے قائل ہیں۔ مولانا سید محمد محسن نے بھی اپنے ترجمے میں مسحِ رجلین کو فرض قرار دیا ہے، ملاحظہ ہو:

تو اے مومنو بات یہ بھی سنواگر تم کھڑے ہو برائے نمازبرائے وضو دھولو چہروں کو تمکہ کہنی سے ہاتھوں تلک دھولو ہاتھتری سے اسی سر کا مسح کروپڑھو بعد اس کے تم اپنی نماز   جو کہتے ہیں تم اس سے غافل نہ ہوتو ہے حکم دیتا تمهيں کارسازکرو بعد اس کے یہ تعمیلِ حکمنہ نیچے سے اوپر کو تم دھونا ہاتھتو پیروں کا بھی اس سے مسح کروطہارت ہے یہ شرطِ اوّل نماز([17])

پہلے شعر میں ’’اے مومنو‘‘ کے سوا سب حشو وزوائد ہیں، شاعر سے اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ کا ترجمہ بھی نہیں ہوا۔ ’’کہ کہنی سے ہاتھوں تلک دھولو ہاتھ، نہ نیچے سے اوپر کو تم دھونا ہاتھ‘‘ سے شاعر نے اپنے مسلک کی نمائندگی کی ہے، کیوں کہ اہلِ تشیع کے ہاں وضو کا دوسرا فرض ’’دونوں ہاتھوں کا کہنیوں سے لے کر انگلیوں کے سروں تک دھونا ہے‘‘۔([18]) عربی میں حرفِ إلیٰ غایت یعنی کسی چیز کی انتہا بیان کرنے کے لیے آتا ہے، کسی چیز کی ابتدا کے لیے حرفِ ’’مِنْ‘‘ آتا ہے، شاعر کا مفہوم تبھی درست ہوتا جب قرآن مجید میں من المرافق إلی الیدین ہوتا۔ ’تم‘اور ’حکم‘ قافیہ کی غلطی ہے، یہ دونوں لفظ ہم قافیہ نہیں ہوسکتے، تم میں میم ساکن ماقبل ضمہ ہے اور حکم میں میم موقوف ماقبل ساکن ہے۔ آخری تینوں شعر ردیف تو رکھتے ہیں مگر بے قافیہ ہیں، جو فنی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ شاعر نے آخری سے ماقبل کے شعر میں مسح کو سین مشدّد کے ساتھ نظم کیا ہے، جب کہ اِس کا درست تلفظ سین کے سکون کے ساتھ ہے۔ آخری شعر کا آخری مصرع ’’طہارت ہے یہ شرطِ اوّل نماز‘‘ ایک نامکمل جملہ ہے۔

شاعر نے اپنے مسلک کی نمائندگی کرتے ہوئے قرآن مجید میں وارد لفظ ’’شِیْعَةٌ ‘‘ بہ معنی گروہ، فرقہ، جس کی جمع شِیَعٌ اور اَشْیَاعٌ آتی ہے ([19]) کا ترجمہ ’’شیعہ‘‘ سے کیا ہے، آیت مع ترجمہ ملاحظہ ہو:

فَوَجَدَ فِیْہَا رَجُلَیْنِ یَقْتَتِلٰنِ ہٰذَا مِنْ شِیْعَتِہٖ وَہٰذَا مِنْ عَدُوِّہٖ فَاسْتَغَاثَہُ الَّذِیْ مِنْ شِیْعَتِہٖ عَلَی الَّذِیْ مِنْ عَدُوِّہٖ([20])

تو لڑتے ہوئے اُن کو آئے نظرکہ کرتے ہیں دونوں جدال و قتالیہ اک شخص تو اُن کے شیعوں میں تھاجو شیعہ تھا اُس نے پکارا انھیں   یہ دو آدمی اک جگہ سر بہ سرعجب لڑتے لڑتے ہے اُن دو کا حالمگر دوسرا قبطی دشمن وہ تھامدد کے لیے تھا بلایا انهیں([21])

’’شیعہ‘‘ کا ترجمہ اسی لفظ سے کرنا جب کہ اِس وقت یہ ایک معروف مکتبۂ فکر کا نام ہے، اس لفظ کے اطلاق سے ذہن فوراً اس مسلک کی طرف جاتا ہے، نہ کہ گروہ یا جماعت کی طرف، ایسا ترجمہ کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس مثال میں تیسرا شعر مردّف ہے، مقفّیٰ نہیں ہے۔ الغرض یہ مسلک شیعہ کا نمائندہ ترجمہ ہے، قرآن مجید کی آیات کی تعبیر وتوضیح میں جہاں جہاں اہل سنت اور اہلِ تشیع مترجمین کے مابین اختلاف ہے، سید محمد محسن اپنے مسلک کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔

ضمائر کے مراجع کے تعیّن میں فروگزاشتیں

قرآن مجید میں وارد ضمائر کے مراجع کی تعیین میں انتہائی حزم واحتیاط، بیدار مغزی اور وسعتِ مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے، تھوڑی سے غفلت مفہوم قرآن میں تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے۔ ضمیروں کے مراجع متعین کرنے میں سید محسن بھی خطا کر بیٹھے ہیں۔ مثال کے طور پر سورۂ عنکبوت کی آیت۲۶ فَاٰمَنَ لَہٗ لُوْطٌ وَقَالَ اِنِّیْ مُہَاجِرٌ اِلٰی رَبِّیْ اِنَّہٗ ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ کا مرقوم الذیل منظوم ترجمہ ملاحظہ ہو، جہاں شاعر سے ضمیر کے مرجع میں غلطی ہوئی ہے:

تو تصدیق کی لوط نے لاکلامانھیں نے جو ملت کا دیکھا یہ حالچلا جاؤں گا چھوڑ کر میں وطننہیں شک ہے اس میں نہیں ہے کلام   مصدق وہی اُن کے تھے خاص و عامتو اُن کا زباں سے ہوا یہ مقالجہاں پر ہے کہتا وہ ربِّ زمنبہت رکھتا حکمت ہے ربِّ انام([22])

ان اشعار سے یہ مترشح ہورہا ہے کہ یہ حضرت لوط علیہ السلام نے کہا تھا کہ میں وطن چھوڑ کر چلا جاؤں گا، فی الحقیقت ایسا نہیں ہے، قال کی ضمیر کے مرجع اور اِنِّیْ مُہَاجِرٌ اِلٰی رَبِّیْ اِنَّہٗ ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ کے قائل حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔([23]) اسی طرح فاضل مترجم قَالَ یٰمُوْسٰٓی اَتُرِیْدُ اَنْ تَقْتُلَنِیْ کَمَا قَتَلْتَ نَفْسًا بِالْاَمْسِ اِنْ تُرِیْدُ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ جَبَّارًا فِی الْاَرْضِ وَمَا تُرِیْدُ اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْمُصْلِحِیْنَ ([24]) میں قال کے مرجع میں غلطی کھا کر خرابی میں جاپڑے ہیں۔ اِس آیت کا ترجمہ ملاحظہ ہو:

تو قبطی نے موسیٰ سے بڑھ کر کہااسی طرح جیسے کیا کل ہلاکنہیں چاہتے تم ہو اس کے سوایہ مقصد ہے جبّار ثابت ہو تمنہیں چاہتے تم صلح اور ملاپجو ہیں صلح جو ان میں ہو تم شریک   تہیّہ ہلاکت کا میری ہے کیاکیا اُس کے اہلاک میں کچھ نہ باکہے ظاہر تمھارا یہی مدعااسی خیال میں تم بظاہر ہو گمجو کہتے ہیں باور کریں اس کو آپتمھارا نہیں قصد کہتا ہوں ٹھیک([25])

قال کی ضمیر کا مرجع قبطی نہیں بل کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا بنی اسرائیلی ہے، جس نے ایک یوم قبل بھی ایک قبطی کے خلاف حضرت موسیٰ علیہ السلام سے استمداد کیا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اُس کی مدد کی خاطر قبطی کو ایک مکا مارا، جس سے اُس کا کام تمام ہوگیا تھا۔ اس واقعے کا چشم دید گواہ یہی بنی اسرائیلی تھا، نہ کہ قبطی۔ تمام مفسرین کے نزدیک درج بالا آیت میں قال کی ضمیر کا مرجع بنی اسرائیلی ہے، کیوں کہ آج پھر جب اُس بنی اسرائیلی سے ایک اور فرعونی کا جھگڑا ہوگیا اور اتفاق سے موسیٰ علیہ السلام وہاں آپہنچے، پھر اس نے آپ سے مدد چاہی، تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے گزشتہ واقعے کی وجہ سے اسے برا بھلا کہا اور غصے کا اظہار کیا، باوجود اس کے کہ جب اسرائیلی کی مدد کے لیے فرعونی کے خلاف ہاتھ بڑھایا، تو اسرائیلی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ڈانٹنے اور غصے کے اظہار کی وجہ سے یہ سمجھا کہ شاید میری طرف ہاتھ بڑھا رہے ہیں، اس لیے اُس نے کہا کہ اے موسیٰ! کیا تو مجھے قتل کردینا چاہتا ہے، جس طرح تونے کل ایک آدمی کا قتل کردیا تھا ۔([26]) جس طرح نظم نگار کو قال کی ضمیر کے مرجع میں غلط فہمی ہوئی ہے، اسی طرح جو اِن کے پیشِ نگاہ ترجمہ تھا، اُس کے تخلیق کار سید فرمان علی سے بھی یہو سہو ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو:

’’تو قبطی کہنے لگا: اے موسیٰ! جس طرح تم نے کل ایک آدمی کو مار ڈالا (اسی طرح) مجھے بھی مار ڈالنا چاہتے ہو، تم تو بس یہی چاہتے ہو کہ روئے زمین میں سرکش بن کر رہو اور مصلح (قوم) بن کر رہنا نہیں چاہتے‘‘ ([27])

قال کی ضمیر کے مرجع کے معاملے سے صرف نظر بھی کرلیں تو بھی نظم نگار مترجم سے ترجمہ نہیں ہوا، فاضل مترجم قرآن مجید کا ایسے ترجمہ کررہے ہیں جیسے کوئی قصہ گوئی کررہے ہوں۔ بہت سے الفاظ اور جملے، بل کہ شعر اور مصرعے بھرتی کے ہیں، ان کا متن قرآن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آخری دو اشعار میں تو تناقض ہے، آخر شعر کا پہلا مصرع کہتا ہے کہ اے موسیٰ جو صلح جُو ہیں آپ اُن میں شریک ہو، جب کہ اِس کے ماقبل کے شعر اس بات پر دلالت کررہے ہیں کہ اے موسیٰ تم صلح اور ملاپ نہیں چاہتے ہو۔ ترجمۂ قرآن جس سنجیدگی ومتانت کا متقاضی ہے، نظم نگار مترجم نے کما حقہٗ لحاظ نہیں رکھا۔

ناقص ترجمہ

مولانا سید محمد محسن بسا اوقات ایک مختصر آیت کے ترجمے میں چھے چھے آٹھ آٹھ اشعار صرف کردیتے ہیں اور بعض اوقات آیات یا اُن کے اجزا سے صرفِ نظر کرتے ہوئے انھیں بے ترجمہ چھوڑ دیتے ہیں، اِس افراط وتفریط کی نمائندہ مثال سورۂ نمل کی آیت نمبر ۲۷ یٰمُوْسٰی اِنَّہٗٓ اَنَا اللہُ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ کو بے ترجمہ چھوڑ دیا ہے، اس آیت کے مقابل خالی جگہ ہے۔ اسی طرح سورۃ الانعام کی آیت ۱۵۱ کے جزو اَلَّا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا کو بھی در خورِ اعتنا نہیں سمجھا۔

اُسلوبِ بیان سے اعراض

’’منظوم اُردو ترجمہ‘‘ کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں قرآنی الفاظ وتراکیب اور اُن کی ترتیب ونظم کا بالکل لحاظ نہیں رکھا گیا ہے۔ تخلیق کار کسی ترجمہ اور تفسیر کا مطالعہ کرتے ہیں، جو مفہوم وہ سمجھتے ہیں، الفاظ کی ترتیب ونظم کا لحاظ رکھے بغیر اُس کو نظم کا جامہ پہنانے کی اپنے تئیں کوشش کرتے ہیں۔ کہیں ایسا بھی ہے کہ قرآن مجید میں ایجابی اُسلوب اختیار کیا گیا ہے، جب کہ نظم نگار مترجم نے سلبی اُسلوب میں ترجمہ یا تفسیر کی ہے، جس کی نمائندہ مثال آیتِ حدِّ زنا کے جزو وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ([28]) کا ترجمہ ہے، ملاحظہ ہو:

بوقت سزا ان کے یہ ہے ضرورہوں موجود کچھ مومنین کرامکہ وہ اس سزا کے رہیں سب گواہ   نہ تم منومنوں کو رکھو اس سے دورہے لازم تمھارے لیے یہ مدامعمل کرنا اس پر ہے حکم الٰہ([29])

ان تین اشعار کو ترجمہ تو قرار نہیں دیا جاسکتا، ’’مومنوں کو اس سے دور نہ رکھو‘‘ یہ آیت کے کس جزو کا ترجمہ ہے۔ اس جزو آیت کا راست ترجمہ ہے: ’’اور چاہیے کہ اُن کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت بھی موجود ہو‘‘([30]) اس مختصر مفہوم کے لیے شاعر نے تین شعر یعنی چھے مصرعے صرف کیے ہیں، اس کا مفہوم ایک مصرعے میں یا کم از کم ایک شعر میں ادا کیا جاسکتا تھا۔ مزید بر آں چھے مصرعے صرف کیے سو کیے، قرآنی اُسلوبِ بیان سے اعراض کیا سو کیا، تو زبان وبیان تو بلیغ ہونی چاہیے تھی۔ یہ اشعار، بل کہ پورا ترجمۂ قرآن مجید کوئی عمدہ اور بلیغ زبان میں نہیں ہے۔ درج بالا مثال میں ’’منومنوں‘‘ سہو کتابت ہے، اصل لفظ مومنوں ہے۔ ایک آیت چھوڑ کر اگلی آیت کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے کہ جہاں شاعر نے قرآنی اُسلوبِ بیان کا بالکل لحاظ نہیں رکھا، آیت مع ترجمہ ملاحظہ ہو:

وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَاءَ فَاجْلِدُوْہُمْ ثَمَانِیْنَ جَلْدَۃً وَّلَا تَقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَۃً اَبَدًا وَّاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ([31])

وہ جو عورتیں رکھتی شوہر ہیں سبرکھو اُن پہ ہرگز نہ تم اتّہامکہ ہوں عورتیں پاک دامن بھی سبکہ تہمت جو اُن پر لگائیں اگروہ شاہد جو عادل ہوں لائیں وہ چارکہ اسّی انھیں کوڑے مارو ضرورنہ اُن کی گواہی کرو تم قبولہے جھوٹے یہ دعوے کی ان کے سزا   تو ان کے لیے منع کرتا ہے ربنہ ہو گر گواہی کا کچھ انتظامتو اس کے لیے صاف کہتا ہے ربازاں بعد دعوت میں اپنے ادھرنہ لائیں تو کہتا ہے یہ کرد گاریہی حکم دیتا ہے ربِّ غفورکبھی بھی کہ فاسق ہیں سب یہ جہولنہ تھا جو حقیقت انھیں کے کہا([32])

’’وہ جو عورتیں رکھتی شوہر ہیں سب‘‘ انتہائی مضحکہ خیز ہے، شعر کی موجودہ بندش سے ایک سے زائد شوہر کا مفہوم سمجھ آرہا ہے، ’’شوہر رکھنا‘‘محاورے کی غلطی ہے؟ دوسرے شعر سے بھی بین السطور دو اور مفاہیم نکل رہے ہیں، اِتہام کی ممانعت صرف شوہر والی عورتوں سے ہے، جن عورتوں کے شوہر نہیں ہیں اُن پر اِتہام رَوا ہے۔ دوسرا مفہوم جو متبادر ہورہا ہے کہ گواہی کا انتظام کرکے تہمت لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ العیاذ باللہ دونوں مفاہیم روحِ قرآن کے خلاف ہیں۔ یقیناً شاعر کا ارادہ بھی ایسا نہیں ہوگا، مگر شعر کا موجودہ در وبست اِن مفاہیم کی اجازت دیتا ہے۔ قرآن مجید میں محصنہ پر تہمت کا بیان غائب کے صیغوں کے ساتھ کیا گیا ہے، جب کہ فاضل مترجم نے مخاطب کے صیغوں کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ چوتھے شعر کا دوسرا مصرع ’’ازاں بعد دعوت میں اپنے ادھر‘‘ بھرتی کا ہے، اس کا نہ ماسبق سے کوئی واسطہ ہے اور نہ مابعد سے کوئی تعلق ہے۔ آخری سے ماقبل کے شعر کا پہلا مصرع اپنے مفہوم کے ابلاغ میں خود کفیل نہیں ہے، ’’تم اُن کی گواہی کبھی بھی قبول نہ کرو‘‘ کو ایک مصرعے میں ہونا چاہیے تھا۔ اِس قسم کی اغلاط ’’منظوم اُردو ترجمہ‘‘ میں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ آخری شعر میں زبان وبیان کی اغلاط محتاجِ بیان نہیں ہیں۔

بے سر وپا تفسیری ترجمہ

مولانا سید محمد محسن کے ’’منظوم اُردو ترجمہ‘‘ میں بعض مقامات ایسے مغلق اور مبہم ہیں کہ اُن سے کوئی واضح مفہوم اخذ کرنا ناممکن نہیں تو ناممکن حد تک مشکل ضرور ہے، جس کی نمائندہ مثال میں سورہ توبہ کی پہلی آیت بَرَآءَ ۃٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی الَّذِیْنَ عٰہَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ کا منظوم ترجمہ ملاحظہ کریں:

تو اے مسلموں کون سے جو عہدعہد تم نے جو مسلموں سے کیاتو جن سب سے تم نے ہے پیمان کیابرأت کا نامہ انهیں ہے دیا   کیا تم نے اُن سے تھا پیمان و عہدجو مشرک ہیں اُن سے عہد یہ کیاتو اس پر خدا نے کرم یہ کیاصلہ مشرکوں کو عہد کا ملا([33])

ان چار اشعار سے کوئی مفہوم اخذ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مترجم اس آیت کا مفہوم سمجھ ہی نہیں سکے ہیں۔ ان اشعار کو آیت سے الگ کرکے صرف شاعری طور پر بھی پڑھیں تو پھر بھی کوئی واضح مفہوم اخذ نہیں ہوتا۔ آخری شعر سے تو یوں لگ رہا ہے كہ مشرکین کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی برأت یعنی بیزاری کا اعلان کوئی اچھی چیز ہے، حالاں کہ یہاں مذمت بیان ہورہی ہے اور اُن سے لاتعلقی کا اعلان کیا جارہا ہے۔ اب مولانا فرمان علی کا راست ترجمہ ملاحظہ ہو، جو نظم نگار کے پیشِ نظر بھی تھا:

’’(اے مسلمانو) جن مشرکوں سے تم لوگوں نے (صلح کا) عہد وپیمان کیا تھا، اب خدا اور اس کے رسول کی طرف سے ان سے (یک دم) بیزاری ہے‘‘ ([34])

بے سر وپا شاعری کی ایک اور مثال ملاحظہ کیجیے کہ شاعر نے وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ کِتٰبًا فِیْ قِرْطَاسٍ ([35]) کا ترجمہ عجیب وغریب کیا ہے، کہ قاری کو اس سے کوئی واضح مفہوم اخذ کرنا ناممکن حد تک مشکل ہے:

جو کاغذ پہ لکھا ہوا اے نبی   تمھیں ہم ہیں دیتے نہیں ہے نفی([36])

غالباً شاعر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس بات کی نفی نہیں ہے، یعنی یقیناً جو کاغذ پہ لکھا ہوا ہم تمھیں دیتے ہیں، مگر اس مفہوم کو واضح طور پر نظم کرنے سے عاجز رہے ہیں۔ یہ مفہوم بھی قرآنی آیت کے مدلول سے انحراف ہے، ’’نَزَّلْنَا‘‘ کا ترجمہ ’ہم دیتے ہیں‘، درست نہیں ہے، معروف ترجمہ تو یہ ہے: ہم نے نازل کیا، ہم نے اُتارا۔ اس جزوِ آیت کا راست ترجمہ ہے: اور اگر اتاریں ہم تجھ پر لکھا ہوا کاغذ میں۔([37])

ان دونوں مثالوں میں فنی اعتبار سے بھی بڑے نقائص ہیں، پہلی مثال کے پہلے مصرعے میں لفظ ’’عہد‘‘ کو شاعر نے مفتوح الاوسط باندھا ہے، جب کہ اس کا درست تلفظ مسکون الاوسط ہے۔ دوسرے مصرعے میں اسی لفظ کو صحیح تلفظ کے ساتھ نظم کیا ہے۔ پہلے تینوں شعر ردیف تو رکھتے ہیں، مگر ہم قافیہ نہیں ہیں۔ دوسری مثال کے شعر میں نبی کا قافیہ نفی لانا فنی غلطی ہے۔ نفی بروزن خفی نہیں ہوتا، اس کا درست تلفظ فا کے سکون کے ساتھ ہے۔

من مانی تفسیر

فاضل مترجم اثنائے ترجمہ بعض ایسے جملے لاتے ہیں، جو متن قرآن کے ظاہر کے برعکس ہیں، مثال میں یُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ ہٰذَا وَاسْتَغْفِرِیْ لِذَنْبِکِ اِنَّکِ کُنْتِ مِنَ الْخٰطِئِیْنَ ([38]) کا ترجمہ ملاحظہ کریں:

تو یوسف تم اعراض اس سے کروکہو یہ جو عورت ہے اس سے کہ توسراسر خطاوار تو ہی تو ہے   مناسب ہے ذکر اس کا تم مت کروطلب کر معافی کہ خاطی ہے توکیا بدعمل جس نے تو ہی تو ہے([39])

پہلے شعر کا پہلا مصرع یُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ ہٰذَا کا ترجمہ ہے، دوسرے مصرعے میں اس کی مزید تفسیر ہے، جب عزیز مصر پر حضرت یوسف علیہ السلام کی پاک دامنی اور زلیخا کی چال بازی واضح ہوگئی تو وہ حضرت یوسف علیہ السلام سے گویا ہوئے کہ اے یوسف!اس سے اعراض کرو یعنی اس معاملے کو رفع دفع کرو اور زلیخا سے مخاطب ہوکر کہا کہ تو اپنے گناہ کی معافی مانگ، بے شک خطا تیری ہی ہے۔ یہی ترجمہ مولانا فرمان علی نے کیا ہے، ملاحظہ ہو:

’’(اور یوسف سے کہا) اے یوسف اس کو جانے دو اور (عورت سے کہا کہ) تو اپنے گناہ کی معافی مانگ، کیوں کہ بے شک تو ہی از سرتا پا خطاوار ہے‘‘ ([40])

سید محمد محسن کے ترجمے سے یہ متبادر ہورہا ہے کہ عزیز مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام سے کہا کہ اِس عورت سے کہو کہ وہ اپنے خطا کی معافی طلب کرے۔ اس مفہوم کی عربیت اجازت دیتی ہے نہ کسی مفسر یا مترجم نے یہ مفہوم بیان کیا ہے، یہ محض شاعر کی اپنی تخیل آرائی ہے۔ زلیخا کے لیے خاطی کا لفظ درست نہیں ہے۔ ’’خاطی‘‘ مذکر کا صیغہ ہے، جب کہ مؤنث کے لیے ’’خاطئہ‘‘ کا لفظ ہے۔

غلط ترجمہ

مولانا سید محمد محسن کے ’’منظوم اُردو ترجمہ‘‘ میں ’’غلط ترجمہ‘‘ کی مثالیں بڑی کثرت سے ہیں، آیت کا مدلول ومنطوق کچھ اور ہے اور نظم نگار نے مفہوم کچھ اور نظم کیا ہے۔ اس کی واضح مثال اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئَہُمْ اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ فَہُمْ لَایُؤْمِنُوْنَ ([41]) کا ترجمہ نظم کرتے ہوئے ’’اَبْنَآئَہُمْ‘‘ کا ترجمہ ’’رسولوں‘‘ کیا ہے۔’’ابناء‘‘ ابن کی جمع ہے اور اس کے معنیٰ ہیں بیٹا۔ ملاحظہ ہو:

عطا کی کتاب ہم نے جن کو وہ سبرسولوں کو جیسے ہیں یہ جانتےپڑھیں گے یہ کلمہ نہ ایمان کا   ہیں پہچانتے تم کو شاہِ عرباسی طور تم کو ہیں پہچانتےکہ جن سب نے اپنے کو ضائع کیا([42])

یہ آیت اہلِ کتاب کے بارے میں ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی بابت اِس طرح معرفت رکھتے ہیں، جس طرح اپنی اولاد کی بابت رکھتے ہیں، جس طرح اپنے بیٹے کی معرفت اور پہچان کرنے میں کسی کو دقت اور دشواری نہیں ہوسکتی، اسی طرح ان لوگوں پر سرکارِ دو عالم ﷺ کا اللہ کا آخری نبی ہونا بھی مخفی نہیں ہے، اتنا ہی ظاہر باہر ہے، جتنا کوئی اپنی اولاد کو جانتا پہچانتا ہے، کیوں کہ آپ ﷺ کی خصال وصفات کا ذکر اُن کی کتابوں میں موجود تھا، الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ([43]) ’’جن (کے اوصاف)کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں‘‘۔ نظم نگار كا بيان كرده مفہوم مقتضائے آیت کے خلاف ہے۔ یہی مضمون سورۂ بقرہ میں بهی بیان ہوا ہے، وہاں بھی فاضل نظم نگار آیت کا راست مفہوم نظم کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ آیت مع منظوم ترجمہ ملاحظہ ہو:

اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئَہُمْ وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنْہُمْ لَیَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ ([44])

تو وہ لوگ جن کو کتاب ہم نے دیکہ جس طرح سے اُن کے بیٹے تمامانھیں میں فریق ایک ایسا بھی تھایہ اس پر کہ یہ لوگ جتنے بھی تھے   ہیں اس امر سے واقف ان میں سبھیبہر کیف واقف تھے سب لاکلامچھپاتا تھا حق بات کو برملایہ حق بات کو خود سمجھتے بھی تھے([45])

یہاں ’’ابناء‘‘ کا ترجمہ اگرچہ ’’بیٹے‘‘ کیا ہے، مگر یہاں بھی مفہومِ قرآن کو بدل دیا ہے۔ آیت کے اقتضا کے برعکس یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ جس طرح وہ پہچانتے ہیں، اسی طرح اُن کے بیٹے بھی جانتے ہیں۔ شاعر پہلی مثال میں اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ فَہُمْ لَایُؤْمِنُوْنَ کا ترجمہ کرنے میں نارسا رہے ہیں اور زبان وبیان بھی درست نہیں ہے۔ اس جزو آیت کا راست ترجمہ ہے: ’’جنھوں نے اپنے تئیں نقصان میں ڈال رکھا ہے، وہ ایمان نہیں لاتے‘‘ ([46]) دوسری مثال میں پہلے دو شعر معنوی تحریف، جب کہ دوسرے دو شعر شاعر کی عربی سے ناشناسی کو ظاہر کررہے ہیں۔

غلط ترجمے کی ایک اور مثال ملاحظہ کیجیے کہ شاعر موصوف نے سورۂ نمل کی آیت نمبر ۷ کے جزو اِذْ قَالَ مُوْسٰی لِاَہْلِہٖ میں اہل کا ترجمہ ’’کارواں‘‘ کیا ہے، ملاحظہ ہو:

کرو یاد وہ وقت بھی تم زرا   کہا کارواں سے جو موسیٰ نے تھا([47])

’’ کارواں‘‘ کا اطلاق تو افراد کی ایک کثیر تعداد پر مشتمل قافلے پر ہوتا ہے ۔ مفسرین نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ یہ واقعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مدین سے مصر کی طرف واپسی کے وقت پیش آیا، جب وہ راستہ بھٹک گئے تھے اور انھیں ایک آگ دکھائی تھی، جو در حقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کے نور کی تجلی تھی، اس سفر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ صرف اُن کی اہلیہ تھیں۔([48]) صرف اہلیہ کے لیے کارواں کا اطلاق قطعاً درست نہیں ہے۔ فاضل مترجم نے لفظ ’’ذرا‘‘ اکثر مقامات پر زا کے ساتھ لکھا ہے، حالاں کہ اس کا درست املا ذال کے ساتھ ہے۔ غلط ترجمے کی ایک اور مثال ملاحظہ کیجیے کہ جہاں نظم نگار نے قرآن مجید کے مدلول کے بالکل برعکس ترجمہ کیا ہے۔ آیت مع ترجمہ ملاحظہ ہو:

وَاَدْخِلْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَاءَ مِنْ غَیْرِ سُوءٍفِیْ تِسْعِ اٰیٰتٍ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَقَوْمِہٖ اِنَّہُمْ کَانُوْا قَوْمًا فَاسِقِیْنَ([49])

تو ہاتھ اب گریباں میں داخل کروگریباں سے اس کو نکالو گے جبچمکتا ہوا آئے گا وہ نظرتمهیں ساتھ لو معجزوں کے مزیدنہیں بھیجتے ہم ہیں اب لاکلامجو ہے قومِ فرعون فاسق تمام   یہ ہے فعل بہتر اسے تم کروتو تم اس کو دیکھو گے اس وقت تبنہ پاؤ گے عیب اُس میں کچھ راہبرعطا کرکے دو معجزات جدیدطرف اس کے جس کا ہے فرعون نامہے اس میں بھی بھیجا تمهیں لاکلام([50])

پہلے شعر کا پہلا مصرع وَاَدْخِلْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ کا ترجمہ ہے، واؤ عاطفہ کا ترجمہ ’’تو‘‘ سے کیا گیا ہے۔ دوسرا مصرع آیت کے کسی جزو کا ترجمہ نہیں ہے، بل کہ زائد ہے اور محض تکمیل شعر کے لیے ہے۔ اس شعر میں ’’کرو‘‘ تو ردیف بن رہا ہے، داخل اور تم کبھی ہم قافیہ نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح دوسرے اور تیسرے شعر کے آخری مصرعے بھی محض تکمیل شعر کے لیے ہیں۔ آخری تین شعر فِیْ تِسْعِ اٰیٰتٍ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَقَوْمِہٖ اِنَّہُمْ کَانُوْا قَوْمًا فَاسِقِیْنَ کا ترجمہ یا تفسیر ہیں، جو کہ قرآنی مدلول کے بالکل برعکس ہے۔ یہ جزو آیت جملہ مستانفہ ہے، یعنی نحوی اعتبار سے نئے جملے کا آغاز ہورہا ہے، اس سے پہلے محذوف ہے، تقدیر عبارت ہوگی: مرسل أنت بهن إلی فرعون ’’ تو ان معجزات کے ساتھ فرعون کی طرف بھیجا جانے والا ہے‘‘،اِلٰی فِرْعَوْنَ وَقَوْمِہٖ کے قرینے کی وجہ سے ’’مرسل‘‘ کا ذکر ترک کردیا گیا ہے ([51])، یا فِیْ تِسْعِ اٰیٰتٍ فعلِ محذوف ’’اذهب‘‘ سے متعلق ہوگا، اِس صورت میں ترجمہ ہوگا: (اے موسیٰ) آپ اِن نو معجزات کے ساتھ فرعون اور اُس کی قوم کی طرف جائیے۔([52]) فاضل نظم نگار نے اس جزوِ آیت کا جو تفسیر نما ترجمہ دیا ہے، اُس سے یہ مفہوم اخذ ہورہا ہے کہ اے موسیٰ! ہم آپ کو فرعون کی طرف نہیں بھیجتے، بل کہ قوم فرعون کی طرف بھیجتے ہیں جو تمام کی تمام فاسق ہے۔ یہ مفہوم جہاں مترجم کی عربی زبان سے ناشناسی کو آشکار کررہا ہے، وہاں یہ قرآن مجید میں معنوی تحریف کے زمرے میں بھی آتا ہے۔

’’تمهیں ساتھ لو معجزوں کے مزید‘‘ میں ’’لو‘‘ شاید ’’نو‘‘ ہے، یہ سہوِ کتابت ہے، مترجم کی رائے میں عصا اور ید بیضا یہ منجملہ اُن نو معجزات میں سے دو نہیں ہیں، بل کہ یہ دو معجزات اُن نو کے علاوہ ہیں۔

غیر سنجیدگی کا مظاہرہ

نظم نگار کی غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ اُردو ترجمے میں املا کی اغلاط کی کثرت کے ساتھ متن قرآن میں بھی املائی اغلاط وافر مقدار میں موجود ہیں، متن قرآن کی حروف خوانی جس ہوش مندی اور بے دار مغزی کا تقاضا کرتی تھی، اس کا لحاظ نہیں کیا گیا۔ مثال کے طور پر یُنَبَّؤُ الْاِنْسَانُ یَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَo بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌo وَّلَوْ اَلْقٰی مَعَاذِیرَہٗ ([53]) کو ’’ یُنَبَّؤُ الْاِنْسَانُ یَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَتْ اَخَّرَo بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی بَصِیْرَۃٌo وَّلَوْ اَلْقٰی مَعَازِیرَہٗ‘‘ لکھا ہے۔([54]) ان آیات کے متن کے ساتھ اِن کے مفہوم میں بھی غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو:

تو انساں نے جو پہلے پچھلے کیاہے انسان خود اپنے اوپر گواہتو پھر سارے عصیاں کی وہ معذرت   اسے سب وہ بتلادیا جائے گاسب اُن پر جو اس نے کیے ہیں گناہکرے جس قدر رکھتا ہے مقدرت([55])

پہلا شعر مبہم بھی ہے اور زبان وبیان کی رو سے غلط بھی، پہلے پچھلے سے کیا مراد ہے؟ اُسے کیا بتلادیا جائے گا؟ شاعر اظہار مافی الضمیر میں ناکام رہے ہیں۔ پہلے پچھلے اور کیا میں عدم مطابقت ہے، جو مخفی نہیں ہے، ’’جو پہلے پچھلے کیے ‘‘ ہوتا یا پھر ’’جو پہلا پچھلا کیا ‘‘ہوتا۔ تینوں شعر اپنے اظہارِ مدعا میں واضح نہیں ہیں۔

ردیف قافیہ سے ناآشنا شاعری

’’منظوم اُردو ترجمہ‘‘ میں بہت سے اشعار صرف ردیفوں سے بنائے گئے ہیں، وہ بے قافیہ ہیں، حالاں کہ اہلِ فن کے نزدیک شعر کا مقفّیٰ ہونا ضروری ہے، مردّف ہونا ضروری نہیں ہے۔ اِس ترجمے میں غیر مقفّیٰ مردّف اشعار کا کثرت سے ہونا شاعر کی فنی پختگی پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ اسی طرح قافیہ بندی میں بھی اغلاط کثرت سے پائی جاتی ہیں، جو شاعر کی قافیہ ردیف سے ناآشنائی کی علامت ہیں۔اس بات کے امکان کو بھی ردّ نہیں کیا جاسکتا ہے کہ فاضل نظم نگار ردیف ہی کو قافیہ سمجھتے ہوئے مطمئن ہوجاتے ہوں، چوں کہ جہاں بھی ردیف لائے ہیں، وہاں قافیہ نہیں لائے، الّا یہ کہ اتفاقی طور پر کوئی الفاظ ہم قافیہ ہوگئے ہوں تو ہوگئے ہوں، ورنہ اُن میں بھی شاعر کے ارادے کا عمل دخل نہیں لگتا۔ اس قسم کی مثالیں پیچھے کثرت سے آچکی ہیں، کہیں تو قافیہ ردیف کی غلطی کی نشان دہی کی گئی ہے اور کہیں دوسرا معاملہ اہم ہونے کی وجہ سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔

حاصلِ بحث

’’منظوم اُردو ترجمہ‘‘ میں ہر قسم کی اغلاط پائی جاتی ہیں، مترجم نے قرآنی الفاظ وتراکیب اور ترتیب ونظم کا ادنیٰ سا بھی خیال نہیں رکھا۔ ترجمے پر قصہ گوئی کا اُسلوب غالب ہے۔ اوّل تو ترجمے کا دعویٰ ہے، اسی تناظر میں اس کو پرکھنا چاہیے، لیکن اگر اِس کو تفسیر بھی تصور کرلیں، تو بھی یہ کوئی عمدہ تفسیر نہیں ہے۔اِس میں بہت سے مقامات پر قرآنی مدلولات کے بالکل برعکس مفہوم نظم کیا گیا ہے اور اِس کا دوسرا بڑا نقص یہ ہے کہ شاعر ضمائر کے مراجع کے تعیّن میں جا بہ جا خطا کے مرتکب ہوئے ہیں۔ مراجع کی تعیین کی اغلاط دیگر تمام منظوم ترجموں کی نسبت ’’منظوم اُردو ترجمہ‘‘ میں زیادہ ہیں۔ آیتوں یا اُن کے اجزا سے فروگزاشتیں بھی تعداد میں کم نہیں ہیں۔ایسے اشعار بھی صفحہ بہ صفحہ نظر آتے ہیں کہ قاری اُن سے کوئی مفہوم اخذ کرنے سے قاصر رہتا ہے، بالکل بے سر وپا شاعری ہے۔ شاعر موصوف قافیہ ردیف کی مبادیات سے بھی واقف نہیں ہیں، ہر صفحے پر آٹھ دس اشعار ایسے ہیں جن میں صرف ردیف سے کام چلایا گیا ہے، ان میں قافیہ نہیں ہے۔

اس ترجمے کو متنِ قرآن سے علاحدہ کرکے صرف شاعری کے طور پر بھی پڑھیں اور حظ حاصل کرنا چاہیں تو نامراد رہتے ہیں۔ اِس میں زبان وبیان کی مبادیات کی غلطیاں ہیں، باوجودیکہ مترجم لکھنوی پس منظر رکھتے ہیں۔ ایک وہ دور تھا کہ لکھنؤ کو اُردو زبان کا اُم القریٰ سمجھا جاتا تھا، دہلی اور الٰہ باد کے ساتھ ساتھ اس شہر کی آغوش میں اُردو پلی بڑھی اور جوان ہوئی ہے۔ اِس سرزمین کے ایک سپوت سے اُردو زبان وبیان کی اس قدر اغلاط ہوں گی، اس کی توقع نہ تھی۔ بلوچستان، خیبر پختون خوا، سندھ، آسام اور بنگلہ دیش کا کوئی شخص اُردو کے ساتھ اس قسم کا سلوک کرتا تو بات سمجھ میں آتی ہے، لیکن لکھنؤ کا فرزند ایسا کرے گا، اس کا تصور بھی محال تھا۔

 

حوالہ جات

  1. ۔ نعمانی، رئیس احمد، ڈاکٹر، قرآن پاک کے منظوم تراجم یا کتاب اللہ کے ساتھ کھلواڑ،گوشۂ مطالعاتِ فارسی،علی گڑھ ، ۲۰۱۳ء/۱۴۳۴ھ، ص۴
  2. ۔ محمد محسن، سید، مولانا، منظوم اُردو ترجمہ، مطبع نظامی،لکھنؤ ، ۱۹۸۶ء، ص۴
  3. ۔ جونا گڑھی، محمد، مولانا، قرآن کریم مع اُردو ترجمہ وتفسیر،شاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکس،مدینہ منورہ ، ۱۴۱۹ھ، ص۱۰۷۳
  4. ۔ طبری، ابو جعفر محمد بن جریر (م:۳۱۰ھ)، جامع البیان عن تاویل آی القرآن، تحقیق :احمد محمد شاکر، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ط:۱، ۱۴۲۰ھ/ ۲۰۰۰ء، ج۱۹، ص۵۴۱
  5. ۔ فرمان علی، حافظ، مولانا، القرآن الحکیم مترجم، عمران کمپنی،لاہور ، س ن، ص۶۱۷
  6. ۔ محمدمحسن، منظوم اُردو ترجمہ، ص۵۹۰
  7. ۔ القصص ۲۸: ۱۹
  8. ۔ ابن کثیر، ابو الفدا اسماعیل ابن کثیر (م:۷۷۴ھ)، تفسیر القرآن العظیم، تحقیق: سامی بن محمد سلامہ،دار طیبہ،بیروت، ط:۲، ۱۴۲۰ھ/۱۹۹۹ء)، جزو ۶، ص۲۲۵
  9. ۔ فرمان علی، القرآن الحکیم مترجم، ص۶۱۷
  10. ۔ محمد محسن، منظوم اُردو ترجمہ، ص۵۹۰
  11. ۔ ایضاً، ص۵۷۳
  12. ۔ ایضاً، ص۶۹۲
  13. ۔ المائدہ۵: ۱۰۵
  14. ۔ محمد محسن، منظوم اُردو ترجمہ، ص۱۷۰
  15. ۔ مودودی، ابو الاعلیٰ، سید، ترجمۂ قرآن مجید مع مختصر حواشی،ادارہ ترجمان القرآن،لاہور، ط:۴۰، اگست ۲۰۱۴ء، ص۳۲۷
  16. ۔ المائدہ۵: ۶
  17. ۔ محمد محسن، منظوم اُردو ترجمہ، ص۱۴۸
  18. ۔ نقوی، السید منظور حسین، تحفۃ العوام،افتخار بک ڈپو،لاہور، س ن، ص۶۳
  19. ۔ فضل الرحمن، سید، معجم القرآن، زوّار اکیڈمی پبلی کیشنز،کراچی، س ن،ص۲۷۹
  20. ۔ القصص ۲۸: ۱۵
  21. ۔ محمد محسن، منظوم اُردو ترجمہ، ص۵۹۰
  22. ۔ ایضاً، ص۶۰۸
  23. ۔ الزمخشری، جار اللہ، ابو القاسم محمود بن عمرو بن احمد (م:۵۳۸ھ)، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل وعیون الاقاویل فی وجوه التاویل، دار الکتاب العربی،بیروت ، ط:۳، ۱۴۰۷ھ، ج۳، ص۴۵۱؛ بغوی، محی السنہ، ابو محمد حسین بن مسعود(م:۵۱۰ھ)، معالم التنزیل فی تفسیر القرآن المعروف به ’’تفسیر البغوی‘‘، تحقیق: عبد الرزاق المہدی، دار احیاء التراث العربی،بیروت ، ط:۱، ۱۴۲۰ھ، ج۶، ص۲۳۸
  24. ۔ القصص ۲۸: ۱۹
  25. ۔ محمد محسن، منظوم اُردو ترجمہ، ص۵۹۰- ۵۹۱
  26. ۔ بغوی، تفسیر البغوی، ج۶، ص۱۹۸؛ ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ج۶، ص۲۲۵؛ ابو سعود العمادی الحنفی، محمد بن محمد بن مصطفی (م: ۹۸۲ھ)، إرشاد العقل السلیم إلی مزایا الکتاب الکریم المعروف به تفسیر أبی سعود، تحقیق: عبدالقادر احمد عطا، مکتبۃ الریاض الحدیثہ،الریاض ، س ن، ج۴، ص۲۹۸
  27. ۔ فرمان علی، القرآن الحکیم مترجم، ص۶۱۸-۶۱۷
  28. ۔ النور۲۴: ۲
  29. ۔ محمد محسن، منظوم اُردو ترجمہ، ص۵۳۰
  30. ۔ جالندھری، فتح محمد، مولانا، فتح الحمید، تاج کمپنی لمیٹڈ،لاہور۔کراچی ، س ن، ص۵۶۶
  31. ۔ النور۲۴: ۴
  32. ۔ محمد محسن، منظوم اُردو ترجمہ، ص۵۳۱-۵۳۰
  33. ۔ ایضاً، ص۲۷۲
  34. ۔ فرمان علی، القرآن الحکیم مترجم، ص۲۹۷
  35. ۔ الانعام۶: ۷
  36. ۔ محمد محسن، منظوم اُردو ترجمہ، ص۱۷۵
  37. ۔ محمود حسن، شیخ الہند، مولانا، ترجمہ القرآن الحکیم، تفسیر: مولانا شبیر احمد عثمانی، تاج کمپنی لمیٹڈ،لاہور ، س ن)، ص۱۷۰
  38. ۔ یوسف۱۲: ۲۹
  39. ۔ محمد محسن، منظوم اُردو ترجمہ، ص۳۵۷
  40. ۔ فرمان علی، القرآن الحکیم مترجم، ص۳۷۹
  41. ۔ الانعام ۶: ۲۰
  42. ۔ محمد محسن، منظوم اُردو ترجمہ، ص۱۷۷
  43. ۔ الاعراف ۷: ۱۵۷
  44. ۔ البقرۃ ۲: ۱۴۶
  45. ۔ محمد محسن، منظوم اُردو ترجمہ، ص۲۸
  46. ۔ جالندھری، فتح الحمید، ص۲۰۹
  47. ۔ ایضاً، ص۵۷۳
  48. ۔ المراغی، احمد بن مصطفی (م:۱۳۷۱ھ)، تفسیر المراغی، مصطفی البابی الحلبی ،مصر، ط:۱، ۱۳۶۵ھ/ ۱۹۴۶ء، ج۱۹، ص۱۲۲؛ الزمخشری، الکشاف ، ج۳، ص۳۴۹
  49. ۔ النمل ۲۷: ۱۲
  50. ۔ محمد محسن، منظوم اُردو ترجمہ، ص۵۷۵-۵۷۴
  51. ۔ طبری، تفسیر الطبری، ج۱۹، ص۴۳۵
  52. ۔ الزمخشری، الکشاف، ج۳، ص۳۵۱
  53. ۔ القیامہ ۷۵: ۱۵-۱۳
  54. ۔ محمد محسن، منظوم اُردو ترجمہ، ص۸۸۶
  55. ۔ ایضاً
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...