Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 34 Issue 1 of Al-Tafseer

صحیح بخاری کی کتاب التفسیر کے فنی مباحث کا اختصاصی مطالعہ |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

34

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060084478_898

Pages

109-123

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/115

Subjects

Sahi Bukhari Imam annotates Quranic information.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

انسانیت کے لیے ہدایت کا سب سے معتبر ذریعہ ہمیشہ سے وحی رہا ہے ،آدم علیہ السلام سے ختم المرتبت محمدﷺتک سینکڑوں صحائف کے علاوہ چار مستقل کتابیں نازل ہوئی ہیں۔یہ انسانیت کی خوش نصیبی ہے کہ آج اس سارے ذخیرے میں صرف قرآن مجید ہی ایک ایسی کتاب ہے کہ جس کا متن اس کی اصل زبان کے ساتھ محفوظ ومامون ہے۔اس کتاب ِمبین نے تاریخ و تہذیب کے مختلف اَدوار اور مر احل میں جو اَثرات مرتب کئے ہیں ، انھیں کفر و ایمان کی کشمکش میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔اسی نے نفوسِ بشریہ کا تزکیہ کیا، ان کی جبلتوں کی تہذیب کی، ان کے عقائدِ باطلہ کی درستی کی اور ان کے اَعمال کو خیر وشر کی تمیز سکھائی ۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ،جو نزول قرآن کے شاہد ہیں، نے رسول اللہ ﷺ سے تفسیر سیکھی ان کے بعد تابعین اور تبع تابعین رحمہم اللہ میں سے بہت سی ایسی شخصیات گزری ہیں۔جنھوں نے قرآن اور اس سے متعلقہ علوم بطور ِ خاص ، علم ِ تفسیر میں مہارت حاصل کرنے کے لیے زندگیاں کھپادیں۔تاریخ ان کا اِحاطہ کرنے سے قاصر ہے ۔ تابعین اور تبع تابعین رحمہم اللہ کے بعد بھی یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ آگے بڑھتا چلا گیا اور علمائے امت نے محنت شاقہ سے قرآن کے الفاظ اور اس کےبیان یعنی تفسیر کو ہم تک پہنچایا۔ لاریب یہ ان کا ہم پہ احسان عظیم ہے انھی علمائے سلف میں سے ایک درخشندہ ستارے امام بخاری ؒ ہیں جنھوں نے تشریحِ قرآن یعنی حدیث کو محفوظ کیا اور خالص دین ہم تک پہنچانے میں نمایاں کارنامہ سرانجام دیا ۔

صحاح ستہ میں تفسیر القرآن

صحاح ستہ میں سے اصحاب الجوامع نے اپنی اپنی تصانیف میں کتاب التفسیر کو بیان کیا ہے جن کا مختصر جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔

1۔سنن ترمذی میں کتاب التفسیر میں کل 95/ابو اب ہیں اور 519 /احادیث ہیں ( ابواب فضائل القرآن ، ابواب القراءات اس سے الگ ہیں )

پہلاباب اور حدیث

بَابُ مَا جَاءَ فِي الَّذِي يُفَسِّرُ القُرْآنَ بِرَأْيِهِ:حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَالَ فِي القُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. ([1])

آخری باب اور حدیث

وَمِنْ سُورَةِ الْمُعَوِّذَتَيْنِکے بعد بغیر کسی عنوان کے دو بار باب لائے ہیں اور آخری باب میں یہ حدیث لائے ہیں :حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: حَدَّثَنَا العَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ الأَرْضَ جَعَلَتْ تَمِيدُ، فَخَلَقَ الجِبَالَ، فَقَالَ بِهَا عَلَيْهَا فَاسْتَقَرَّتْ، فَعَجِبَتِ الْمَلاَئِكَةُ مِنْ شِدَّةِ الجِبَالِ. قَالُوا: يَا رَبِّ هَلْ مِنْ خَلْقِكَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ الجِبَالِ؟ قَالَ: نَعَمُ الحَدِيدُ، قَالُوا: يَا رَبِّ فَهَلْ مِنْ خَلْقِكَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ الحَدِيدِ؟ قَالَ: نَعَمُ النَّارُ. فَقَالُوا: يَا رَبِّ فَهَلْ مِنْ خَلْقِكَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ النَّارِ؟ قَالَ: نَعَمُ الْمَاءُ. قَالُوا: يَا رَبِّ فَهَلْ مِنْ خَلْقِكَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ الْمَاءِ؟ قَالَ: نَعَمُ الرِّيحُ. قَالُوا: يَا رَبِّ فَهَلْ مِنْ خَلْقِكَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ الرِّيحِ؟ قَالَ: نَعَمْ ابْنُ آدَمَ، تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ بِيَمِينِهِ يُخْفِيهَا مِنْ شِمَالِهِ. ([2])

۲۔سنن نسائی الکبریٰ میں 114/ابواب اور 749/احادیث ہیں ۔

پہلاباب اور حدیث

باب سورَةُ الْفَاتِحَةِ :أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: سَمِعْتُ حَفْصَ بْنَ عَاصِمٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِهِ وَهُوَ يُصَلِّي فَدَعَاهُ قَالَ: فَصَلَّيْتُ ثُمَّ أَتَيْتُهُ، قَالَ: «مَا مَنَعَكَ أَنْ تُجِيبَنِي؟» قَالَ: كُنْتُ أُصَلِّي، قَالَ: " أَلَمْ يَقُلِ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ} [الأنفال: 24] أَلَا أُعَلِّمُكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ؟ " قَالَ: فَذَهَبَ لِيُخْرِجَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، قَوْلَكَ، قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِيَ وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ " ([3])

آخری باب اور حدیث

سورة الإخلاص بسم الله الرحمن الرحيم :أنا قتيبة بن سعيد عن مالك والحارث بن مسكين قراءة عليه عن بن القاسم قال حدثني مالك عن عبيد الله بن عبد الرحمن عن عبيد بن حنين قال سمعت أبا هريرة يقول أقبلت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فسمع رجلا يقرأ قل هو الله أحد فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم وجبت قلت ما وجبت قال الجنة ([4])

۳۔سنن ابی داؤد میں کتاب التفسیر نہیں ہے۔([5])

۴۔ سنن ابن ماجہ میں کتاب التفسیر نہیں ہے۔([6])

۵۔ صحیح مسلم میں کل ابواب 7 اور ان میں 40 احاديث بيان ہوئیں ہیں ۔

پہلاباب اور حدیث

باب في قوله تعالى{ ألم يأن للذين آمنوا أن تخشع قلوبهم لذكر الله } حدثني يونس بن عبدالأعلى الصدفي أخبرنا عبدالله بن وهب أخبرني عمرو بن الحارث عن سعيد بن أبي هلال عن عون بن عبدالله عن أبيه أن ابن مسعود قال ما كان بين إسلامنا وبين أن عاتبنا الله بهذه الآية { ألم يأن للذين آمنوا أن تخشع قلوبهم لذكر الله }[ 57 / الحديد / 16 ] إلا أربع سنين ([7])

آخری باب اور حدیث

باب في قوله تعالى { هذان خصمان اختصموا في ربهم } حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة حدثنا وكيع ح وحدثني محمد بن المثنى حدثنا عبدالرحمن جميعا عن سفيان عن أبي هاشم عن أبي مجلز عن قيس بن عباد قال سمعت أبا ذر يقسم لنزلت هذان خصمان بمثل حديث هشيم ([8])

۶۔ صحیح بخاری کتاب التفسیر میں 548/احادیث ہیں جن میں سے 465 موصول اور باقی معلق ہیں۔

صحیح بخاری میں کتاب التفسیر کے امتیازا ت وخصوصیات

اگر چہ دیگر اصحاب صحاح ستہ میں سے بعض نے اپنی کتب میں تفسیر قرآن بیان کی ہے لیکن جس طرح اپنے مقام ومرتبے میں صحیح بخاری کو دیگر کتب حدیث پر تقدم حاصل ہے اسی طرح کتاب التفسیر میں بھی اسے کئی پہلوؤں سے دیگر کتب پر امتیاز حاصل ہے ، جن میں سے بعض کا ذکر کیا جائے گا ۔

بدء الوحی سے ابتدا

امام بخاری  کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے صحیح بخاری کی ابتدا کیف کان بدء الوحی سے کی ہے جس سے وہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان کا مقصد وحی الہی کو جمع کرنا ہے کیونکہ جو تفسیر قرآن رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے وہ بھی وحی الہی ہے اور قرآن کا بیان ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ٰ ہے : وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ([9])

ا سی لیے امام صاحب نے تفسیر قرآن کے لیے صرف کتاب التفسیر پر اکتفانہیں کیا بلکہ اکثر ابواب میں عنوان کی مناسبت سے ساتھ آیات ذکر کرتےہیں اور ان کے معانی بیان کرتے ہیں حافظ ابن حجر ؒ نے احادیث تفسیر کو ایک کتاب میں جمع کیا ہے جس کانام :’’تجريد التفسير من صحيح البخاري على ترتيب السور“رکھا ہے۔

اسلوب تفسیر

امام بخاری نے صحیح بخاری میں تین طرح سے تفسیر قرآن ذکر کی ہے: 1۔ عمومی ابواب میں تفسیر قرآن ، 2۔ کتاب فضائل القرآن ، 3۔کتاب التفسیر ۔ذیل میں ہم تینوں طریقوں کی مختصر وضاحت کریں گے۔

عمومی ابواب میں تفسیر قرآن

الف۔ کسی موضوع کے متعلق جب کتاب قائم کرتے ہیں تو ا س کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کے لیے بطور استشہاد قرآن مجید کی آیات پیش کرتے ہیں جیسے کتاب الایمان میں باب قائم کیا ہے : باب الإيمان وقول النبي صلى الله عليه و سلم ( بني الإسلام على خمس ) وهو قول وفعل ويزيد وينقصاور پھر بطور استشہاد درج ذیل آیات پیش کی ہیں :

لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَعَ إِيمَانِهِمْ (الفتح: 4) وَزِدْنَاهُمْ هُدًى (الكهف: 13) وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدًى (مريم: 76) وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ (محمد: 17) وَقَوْلُهُ: وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا (المدثر: 31) وَقَوْلُهُ: أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَذِهِ إِيمَانًا فَأَمَّا (ص:11) الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا (التوبة: 124) وَقَوْلُهُ جَلَّ ذِكْرُهُ:فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا (آل عمران: 173) وَقَوْلُهُ تَعَالَى:وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا (الأحزاب: 22) ([10])

ب ۔ حدیث میں اگر کوئی لفظ استعمال ہوا ہے اور وہ لفظ قرآن مجید میں بھی استعمال ہوا ہے تو اس کی توضیح کرتے ہیں ۔ جیسے سور ۃالفاتحہ کی فضیلت میں یہ حدیث لائے ہیں : لَأُعَلِّمَنَّكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي القُرْآنِ ([11])

پھر حدیث میں بیان شدہ لفظ اعظم کی وضاحت کرتے ہوئے قرآن مجید کی یہ آیت پیش کی ہے :وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ ([12])

ج۔ جن الفاظ سے باب قائم کرتے ہیں اگر وہی لفظ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے تو باب میں ہی وہ آیت بطور تائید پیش کرتے ہیں جیسے: باب كيف كان بدء الوحي إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم میں یہ آیت پیش کی ہے: ([13])

إنا أوحينا إليك كما أوحينا إلى نوح والنبيين من بعده ([14])

کتاب فضائل القرآن

امام بخاری ؒ نے صحیح بخاری میں کتاب التفسیر سےکے علاوہ کتاب فضائل القرآن قائم کیا ہے اور اس میں 37/ ابواب قائم کرکے فضائل قرآن کے متعلق 79/احادیث ذکر کی ہیں جن میں پہلی اور آخری حدیث بطور نمونہ پیش کی جا تی ہے۔

پہلی حدیث : (باب كيف نزول الوحي وأول ما نزل) حدثنا عبيد الله بن موسى عن شيبان عن يحيى عن أبي سلمة قال أخبرتني عائشة وابن عباس رضي الله عنهم قالا : لبث النبي صلى الله عليه و سلم بمكة عشر سنين ينزل عليه القرآن وبالمدينة عشر سنين ([15])

آخری حدیث : باب ( اقرؤوا القرآن ما ائتلفت عليه قلوبكم )حدثنا أبو النعمان حدثنا حماد عن أبي عمران الجوني عن جندب بن عبد الله عن النبي ﷺ قال : ( اقرؤوا القرآن ما ائتلفت قلوبكم فإذا اختلفتم فقوموا عنه ) ([16])

کتاب التفسیر

عمومی ابواب اور کتاب فضائل القرآن کے علاوہ امام بخاری ؒ نے کتاب التفسیر میں 548/احادیث ذکر کی ہیں جن میں سے جن میں سے 465/احادیث مرفوع ہیں اور باقی معلق اور ان احادیث میں سے 400 روایات ایسی ہیں جو امام صاحب کتاب التفسیر سے پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں اور کتاب التفسیر میں انھیں مکرر لائے ہیں ۔([17])

کتاب التفسیر کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ کتاب درج ذیل خصوصیات کی حامل ہے ۔

۱۔ تمام سورتوں کی تفسیر کے لیے الگ الگ باب

قرآن مجید کی 114 سورتوں کے لیے امام بخاری ؒ نے 114/ابواب قائم کیے ہیں گویا ہر سورت کے لیے الگ باب پھر ہر باب میں ایک سورت کی کئی آیات کی تفسیر کی اس میں ان کااسلوب یہ ہے کہ وہ شروع میں اس سورت کے تمام مشکل الفاظ کو اکٹھا بیان کرکے ان کی لغوی تشریح کرتے ہیں اور اگر وہ لفظ قرآن مجید میں کہیں اور بھی استعما ل ہواہے تو ا س کا ذکر بھی کرتے ہیں جیسے سورۃ توبہ کی تفسیر میں درج ذیل الفاظ کےمعانی بیان کیے ہیں :{ وليجة} / 16 / كل شيء أدخلته في شيء .{ الشقة } / 42 / السفر .الخبال الفساد والخبال الموت . { ولا تفتني } / 49 / لا توبخني . {كرها } و { كرها } / 53 / واحد . { مدخلا } / 57 / يدخلون فيه . { يجمحون } / 57 / يسرعون . {والمؤتفكات } / 70 / ائتفكت انقلبت بها الأرض { أهوى } / النجم 53 / ألقاه في هوة . { عدن } / 72 / خلد عدنت بأرض أي أقمت ومنه معدن ويقال في معدن صدق في منبت صدق . { الخوالف } / 93 / الخالف الذي خلفني فقعد بعدي ومنه يخلفه في الغابرين ويجوز أن يكون النساء من الخالفة وإن كان جمع الذكور فإنه لم يوجد على تقدير جمعه إلا حرفان فارس وفوارس وهالك وهوالك{ الخيرات } / 88 / واحدها خيرة وهي الفواضل{ مرجون} / 106 / مؤخرون الشفا الشفير وهو حده والجرف ما تجرف من السيول والأودية { هار } / 109 / هائر يقال تهورت البئر إذا انهدمت وانهار مثله.{ لأواه } / 114 / شفقا وفرقا ([18])

تفسیر کے معنی میں وسعت

امام بخاری ؒ کےہاں تفسیر سے مراد لغوی وضاحت یا اجمال کی تفسیر نہیں بلکہ اگر کوئی روایت کسی بھی طرح سے قرآن مجید کی آیت سے تعلق رکھتی ہے تو امام صاحب اسےپیش کردیتےہیں ،اسی لیے بعض شارحین بخاری ؒ کے اس اسلوب سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے بخاری پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ باب یا اس حدیث کی موافقت نہیں جیسا کہ علامہ بدرالدین عینی ؒنےسورۃ فاتحہ میں اس باب پر اعتراض کیا ہے :هَذَا بَاب فِيهِ ذكر قَوْله تَعَالَى: صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ  [الفاتحہ:7]، وَلَا وَجه لذكر لفظ: بَاب هُنَا، وَلَا ذكره حَدِيث الْبَاب هَهُنَا مناسباً، لِأَنَّهُ لَا يتَعَلَّق بالتفسير، وَإِنَّمَا مَحَله أَن يذكر فِي فضل الْقُرْآن ([19])

اس بارے میں مولانا محمد زکریا کا ندھلوی ؒ فرماتے ہیں :

وقد نقل عن جماعة من أهل العلم في هذا المقام، ومنه: قول محمد أنور الكشميري (ت: 1352): «ثم اعلم أن تفسير المصنف ليس على شاكلة تفسير المتأخرين في كشف المغلقات وتقرير المسائل، بل قصد فيه إخراج حديث مناسب متعلق به، ولو بوجه»وقال أبو مسعود رشيد أحمد الكنكوهي (ت: ۱۳۲۳): «الذي ينبغي التنبه له أن التفسير عند هؤلاء الكرام أعم من أن يكون شرح كلمة، أو تفصيل قصة مما يتعلق بالكلام، أو بيان فضيلة، أو بيان ما يقرأ بعد تماما السورة، ولا أقلَّ من أن يكون لفظ القرآن واردًا في الحديث"([20])

کتب احادیث میں سب سے جامع تفسیر

محدثین میں اصحاب سنن اور جوامع نے اپنی اپنی کتب میں کتاب التفسیر قائم کرکے قرآن مجید کی تفسیر کی ہے لیکن جس طرح صحیح بخاری کو دیگر کتب حدیث پر امتیاز حاصل ہے کیونکہ اس میں متقدمین کے تمام اسالیب تفسیر کو یکجاکیا ہے جیسے تفسیر اور تفسیر بالرائے وتفسیر بالماثور ، لغوی تفسیر اور اسی طر ح ہر سورت کے لیے الگ باب قائم کرکے اس کے متعلق کوئی حدیث یا اثر ضرور نقل کیا ہے ۔

تفسیر بالماثور

تفسیر بالماثور سے مراد احادیث مرفوعہ ، اقوال صحابہ یا اقوال تابعین سے کی جانے والی تفسیر ہے امام بخاری کی کتاب التفسیر میں تفسیر کی یہ تینوں اقسام موجود ہیں ۔

احادیث مرفوعہ

امام بخاری ؒ کو اگر کسی آیت کی تفسیر میں حدیث مرفوع ان کی شروط کےمطابق مل جاتی ہےتواما م صاحب اسے نقل کرتے ہیں جیسے سورۃ البقرۃمیں{ادْخُلُوا البَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ ([21]) کی تفسیرکرتے ہوئے یہ حدیث نقل کی ہے : حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنِ ابْنِ المُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " قِيلَ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ: {ادْخُلُوا البَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ} (البقرة: 58). فَدَخَلُوا يَزْحَفُونَ عَلَى أَسْتَاهِهِمْ، فَبَدَّلُوا، وَقَالُوا: حِطَّةٌ، حَبَّةٌ فِي شَعَرَةٍ " ([22])

اقوال صحابہ

اقوال صحابہ میں امام بخاری ؒزیادہ تر حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے اقوال نقل کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کی دعا کی وجہ سے علم تفسیر میں وہ دیگر صحابہ سےممتازہیں اس لیے امام بخاری ؒ نے ان کو ترجیح دی ہے ـ

اقوال تابعین

تابعین سے نقل کرنے میں امام صاحب حضرت عبد للہ بن عباس ؓ کے شاگر د امام مجاہد ؒپر اعتماد کرتے ہیں لہذا اقوا ل تابعین میں زیا دہ حصہ انھی سےمروی ہے۔

تفسیر بالرائے

امام بخاری ؒ کی تفسیربالرائے کودو قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :

۱۔ کسی مسئلے کے متعلق اپنی رائے کے اظہار کے لیے آیت کے ساتھ ترجمۃ الباب قائم کرتے ہیں اور پھر اس کے ضمن میں حدیث لاتے ہیں جس کا ظاہر ی طور پر آیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن امام بخاری ؒ اس سے کوئی خاص استدلال کرتے ہیں . جیسے سورۃ البقرہ میں باب قائم کیا :باب قول الله تعالىٰ{يعرفونه كما يعرفون أبناءهم وإن فريقا منهم ليكتمون الحق وهم يعلمون}اور اس میں یہ حدیث پیش کی ۔حدثنا يحيى بن قزعة، حدثنا مالك، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، قال: بينا الناس بقباء في صلاة الصبح، إذ جاءهم آت، فقال: «إن النبي ﷺ قد أنزل عليه الليلة قرآن، وقد أمر أن يستقبل الكعبة فاستقبلوها، وكانت وجوههم إلى الشأم، فاستداروا إلى الكعبة«. ([23])

اس حدیث کا ظاہر ی طور پر آیت سے کوئی تعلق نہیں لیکن امام بخاری ؒ اس سے یہ استدلال فرمارہے ہیں کہ یہود کعبۃ اللہ کا قبلہ ہونا ایسے ہی پہچانتے ہیں جیسے اپنی اولاد کوپہچانتے ہیں ۔

۲۔ مفسرین کے ا قوال میں سے کسی قول کا انتخاب

امام بخاری ؒ کا اسلوب یہ ہے کہ وہ جن کتب سے اقوال نقل کرتے ہیں اگر چہ وہاں ایک سے زائد اقوال موجود ہیں لیکن امام بخاری﷫ ان میں سے صرف ایک قول ذکر کرتے ہیں جو ان کے ہاں راجح ہوتا ہے کیونکہ صحیح بخاری مستقل تفسیر کی کتاب نہیں جس میں تمام اقوال نقل کیے جائیں جیسے سورۃ البقرۃ میں ﴿ وَمَا خَلْفَهَا﴾ کی تفسیر میں فرماتےہیں:عبرة لمن بقيحالانکہ اس میں دیگر اقوال بھی موجودتھے۔وفي معنى الخلف أقوال، منها:

۱۔ لما بين يديها من القرى وما خلفها.۲۔ لما بين يديها من معاصيهم، ولما خلفها من معاصيهم التي عملوها بعد هذه الفعلة. ([24])

تکراراحادیث

امام بخاری ؒ نے کتاب التفسیر میں 548/احادیث ذکر کی ہیں جن میں سے 465/احادیث مرفوع ہیں اور باقی معلق ۔ اور ان احادیث میں سے 400 روایات ایسی ہیں جو امام صاحب کتاب التفسیر سے پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں اور کتاب التفسیر میں انھیں مکرر لائے ہیں ۔ ([25])

سابقہ علماء سے استفادہ

امام بخاری ؒنے دوسرے ائمہ محدثین کی طرح کتاب التفسیر میں متقدمین کے اقوال کو نقل کیا ہے خصوصا لغت کے حوالے سے وہ ابوعبید کے اقوال نقل فرماتےہیں اس بارے میں امام صاحب کا اسلوب یہ ہے :

۱۔ اسلاف میں سے کسی کے قول معلق ذکر کرتے ہیں اور قائل کا نام لیتے ہیں جیسے :قَالَ مُجَاهِدٌ:» ﴿بالدين ﴾ [الانفطار: 9]: بِالحِسَابِ، ﴿مدينين﴾ [الواقعة: 86]: مُحَاسَبِينَ ([26])

۲۔ کسی کی عبارت کا مفہوم معلق ذکر کرتے ہیں اور قائل کا نام ذکر نہیں کرتے جیسے دین کی تفسیر میں فرماتے ہیں : الجَزَاءُ فِي الخَيْرِ وَالشَّرِّ، كَمَا تَدِينُ تُدَانُ ([27]) اصل میں یہ عبارت مجاز القرآن سے نقل کی گئی ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں : الحساب والجزاء، يقال فى المثل: كما تدين تدان ([28])

۳۔قائل کی تصریح نہیں کرتے اور اس کی عبار ت کا اختصار پیش کرتے ہیں جیسے سورۃ الفاتحہ کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : أَنَّهُ يُبْدَأُ بِكِتَابَتِهَا فِي المَصَاحِفِ، وَيُبْدَأُ بِقِرَاءَتِهَا فِي الصَّلاَةِ۔

ابن حجر ؒ فرماتے ہیں : هو كلام أبي عبيدة في أول مجاز القرآن، لكن لفظه: «ولسور القرآن أسماء، منها: أن الحمد لله، تسمى أم الكتاب؛ لأنه يبدأ بها في أول القرآن، وتعاد قراءتها فيقرأ بها في كل ركعة قبل السورة. ويقال لها: فاتحة الكتاب؛ لأنه يفتتح بها في المصاحف فتكتب قبل الجميع ([29])

فضائل سور کا بیان

مفسرین نے عام طور پر اس میں تساہل برتاہے اور سورتوں کے فضائل میں ضعیف بلکہ موضوع روایات کو بھی ذکر کر دیا ہے لیکن امام صاحب نے اس ضمن میں بھی معیار صحت کا مکمل لحاظ رکھا ہے اور اگر کسی سورت کی فضیلت پر دلالت کرنے والی روایت امام صاحب کی شرط پر ہوتو امام بخاری اسے روایت کرتے ہیں جیسے سورۃ الفاتحہ کی فضیلت میں یہ حدیث لائے ہیں :حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي خُبَيْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ المُعَلَّى، قَالَ: كُنْتُ أُصَلِّي فِي المَسْجِدِ، فَدَعَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ أُجِبْهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ أُصَلِّي، فَقَالَ: " أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ: {اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ} [الأنفال: 24]. ثُمَّ قَالَ لِي: «لَأُعَلِّمَنَّكَ سُورَةً هِيَ أَعْظَمُ السُّوَرِ فِي القُرْآنِ، قَبْلَ أَنْ تَخْرُجَ مِنَ المَسْجِدِ». ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ، قُلْتُ لَهُ: «أَلَمْ تَقُلْ لَأُعَلِّمَنَّكَ سُورَةً هِيَ أَعْظَمُ سُورَةٍ فِي القُرْآنِ»، قَالَ: {الحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَالَمِينَ} [الفاتحة: 2] «هِيَ السَّبْعُ المَثَانِي، وَالقُرْآنُ العَظِيمُ الَّذِي أُوتِيتُهُ» ([30])

مکی ومدنی کا بیان

یہ علم بھی علوم القرآن کی ایک اہم شاخ ہے کیونکہ اس علم کی بدولت ناسخ و منسوخ کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس طرح ایک ہی موضوع سے متعلق منسوخ آیت کو ترک کردیا جاتا ہے۔اوران مراحل کی معرفت ہو جاتی ہے جن سے شریعت اسلامی گزری کہ کس طرح مخاطب کے گوناگوں حالات میں اس کی رہنمائی کرکے اس کے اندر قبولیت واستعداد کی صلاحیت پیدا کی ۔ یہ سب کچھ بتدریج ہوا ۔

....جب مقام نزول ، اس کا زمانہ وسبب معلوم ہو توآیات کے فہم میں غلطی کا امکان کم ہو جاتاہے اور تفسیر آسان ہوجاتی ہے۔ اس لیے امام بخاری ؒ نے کتاب التفسیر میں اس علم کوبیان کیا ہے مثلا : سورۃ الفاتحہ کے بارےمیں اختلاف ہے کہ وہ مکی ہے یامدنی تو امام بخاریؒ اس کے مکی ہونے پر سورۃالحجر کی درج ذیل آیت پیش کرتے ہیں : وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعاً مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ([31])

اس سے استدلال یوں کرتے ہیں کہ اس میں سَبْعاً مِّنَ الْمَثَانِي سے مراد فاتحہ ہے تومعلوم ہوا کہ سورۃالحجر سے قبل سورۃ الفاتحہ نازل ہو چکی تھی اور جب سورۃ الحجر بالاتفاق مکی ہے تو سورۃ الفاتحہ بھی مکی ہوئی۔

شان نزول کا بیان

قرآن کا اکثر حصہ تو وہ ہے جو ابتداً موعظت وعبرت یا اصولِ دین اور احکامِ تشریع کے بیان میں نازل ہوا ہے لیکن قرآن کا کچھ حصہ وہ ہے جو کسی حادثےیا سوال کے جواب میں اُترا ہے۔ علماء نے ان حوادث یا سوالات کو اَسباب سے تعبیر کیا ہے ۔

اسبابِ نزول کے علم سے چونکہ آیت کا پس منظر سمجھ آتا ہے کہ جس سے بغیر تفسیر قرآن ممکن نہیں اس لیے اسبابِ نزول کی معرفت کو علم تفسیر میں خاص اہمیت حاصل رہی ہے اور علماء نے علومِ قرآن پر مستقل کتابیں لکھی ہیں صحیح بخاری کتاب التفسیر میں میں ہمیں اس علم کا بیان بھی ملتا ہے مثلاسورۃ البقرۃ کی آیت :علم الله أنكم كنتم تختانون أنفسكم فتاب عليكم وعفا عنكم ([32]) کی تفسیر میں امام بخاری ؒ یہ حدیث لائے ہیں:

حدثنا عبيد الله عن إسرائيل عن أبي إسحاق عن البراء . وحدثنا أحمد بن عثمان حدثنا شريح بن مسلمة قال حدثني إبراهيم بن يوسف عن أبيه عن أبي إسحاق قال سمعت البراء رضي الله عنه : لما نزل صوم رمضان كانوا لا يقربون النساء رمضان كله وكان رجال يخونون أنفسهم فأنزل الله { علم الله أنكم كنتم تختانون أنفسكم فتاب عليكم وعفا عنكم } ([33])

اوراسی طرح سورۃ بقرہ ہی کی دوسری آیت : {وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ } [البقرة: 196] کی تفسیر میں یہ حدیث پیش کی ہے :

حدثنا أبو الوليد حدثنا شعبة عن عبد الرحمن بن الأصبهاني عن عبد الله بن معقل قال : جلست إلى كعب بن عجرة رضي الله عنه فسألته عن الفدية فقال نزلت في خاصة وهي لكم عامة حملت إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم والقمل يتناثر على وجهي فقال ( ما كنت أرى الوجع بلغ بك ما أرى أو ما كنت أرى الجهد بلغ بك ما أرى تجد شاة ) . فقلت لا فقال ( فصم ثلاثة أيام أو أطعم ستة مساكين لكل مسكين نصف صاع" ([34])

{ ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس } کی تفسیر میں امام صاحب نے یہ حدیث پیش کی ہے :

حدثنا فرة بن أبي الغراء حدثنا علي بن مسهر عن هشام بن عروة قال عروة : كان الناس يطوفون في الجاهلية عراة إلا الحمس والحمس قريش وما ولدت وكانت الحمس يحتسبون على الناس يعطي الرجل الرجل الثياب يطوف فيها وتعطي المرأة المرأة الثياب تطوف فيها فمن لم يعطه الحمس طاف بالبيت عريانا وكان يفيض جماعة الناس من عرفات ويفيض الحمس من جمع . قال وأخبرني أبي عن عائشة رضي الله عنها أن هذه الآية نزلت في الحمس { ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس } . قال كانوا يفيضون من جمع فدفعوا إلى عرفات. ([35])

غریب القرآن کا بیان

علم غریب القرآن سے مراد قرآن مجید کے مشکل الفاظ کی تفسیر لغت عرب سے کرنا یعنی اس کی توضیح کے لیے کلام عرب سے استشہاد پیش کیا جائے امام بخاری ؒ کتاب التفسیر میں اس کا بھی اہتمام فرماتے ہیں جیساکہ (الدین) کے معنی میں عربی کا مقولہ پیش کیا ہے کما تدین تدان.([36])

نظائر قرآنیہ کا بیان

اس سے مرد ہے کہ ایک لفظ جو قرآن مجید میں ایک سے زائد بار ایک ہی معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ امام بخاری ؒ کا اسلوب یہ ہے کہ وہ ان مقامات کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ اشتقاق اصغر کا اعتبار کرتے ہوئے قریب المادہ لفظ کو بھی اسی ضمن میں بیان کردیتے ہیں جیسے :قال البخاري:«وَالدِّينُ: الجَزَاءُ فِي الخَيْرِوَالشَّرِّ، كَمَا تَدِينُ تُدَانُ. وَقَالَمُجَاهِدٌ :  بِالدّيِنِ (الإنفطار:9):بالحساب، مَدِينِينَ (الواقعة:86): مُحَاسَبِينَ ([37])

اس میں لفظ دین جو سورۃ الفاتحہ ، سورۃ الانفطار اور سورۃ التین میں آیا ہے اس کا معنی حساب کیا اور اشتقاق اصغر کا اعتبار کرتے ہوئے مدین اور دین کو ایک ہی مادہ میں ہم معنی قرار دیتے ہوئے اس پر امام مجاہد کا قول بطور دلیل پیش کیا ہے ۔

احادیث اور قرآن میں لفظی موافقت کا بیان

صحیح بخاری کتاب التفسیر کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ قرآن اور حدیث میں لفظی موافقت ذکر کرتے ہیں اور یہ ایسا امتیاز ہے کہ بہت کم لوگوں نےاس طرف توجہ دی ہے اس سے مراد یہ ہے اگر ایک لفظ قرآن مجید میں آیا ہے اور وہی لفظ حدیث مبارکہ میں استعمال ہوا ہے تو امام صا حب کا اسلوب یہ ہے کہ وہ قرآنی معنی کی وضاحت کے لیے وہ حدیث پیش کرتے ہیں جس سے مقصد یہ ہوتا ہےکہ حدیث قرآن کی تفسیر کر تی ہے جیسے :  (وَلَقَدْ ءَاتَيْنَكَ سَبْعًا مِّن الْمَثَانِى وَالْقرْآنَ الْعَظَيمَ﴾ ([38]) میں لفظ عظیم کی موافقت میں لَأُعَلِّمَنَّكَ سُورَةً هِيَ أَعْظَمُ السُّوَرِ فِي القُرْآنِ ([39])حدیث پیش کی ہے۔

علم عدد الآیات کا بیان

علوم قرآن میں ایک اہم علم آیات کی تعداد کا علم ہے علماء سلف نےجس کا اہتمام کیا اور اس پر مستقل کتب تحریر کیں صحیح بخاری سے ہمیں اس طرف بھی رہنمائی ملتی ہے جیسے سبعا من المثانی سے سورۃ فاتحہ کی سات آیات مرادلینا اسی طرح امام صاحب نے صراط الذین انعمت علیھم کی بجائے غیر المغضوب علیھم ([40]) پر الگ باب قائم کرکے اس کے الگ آیت ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے ۔

قرأت کا ذکر

چونکہ مختلف قرأت سے تفسیر قرآن میں معاونت ملتی ہے اور اس سے مختلف پہلوسامنے آتے ہیں اس لیے مفسرین تفسیر قرآن میں اس علم کا اہتمام کرتے ہیں تو امام بخاری ؒ نے بھی یہی انداز اختیار کیا ہے کہ اگر کسی لفظ میں مختلف قراءات ہیں تو ان کا ذکر کرتےہیں اور ان کی حیثیت بھی متعین کرتے ہیں یعنی یہ قراءات مشہورہ ہے یا غیر مشہورہ جیسے { يطيقونه } کی تفسیر میں فرماتے ہیں :( قراءة العامة ) أي قراءة عامة القراء { يطيقونه } وقرأ ابن عباس رضي الله عنهما { يطوقونه } كما في الحديث الآتي وقراءة العامة أكثر وأشهر وهي المتواترة ] ([41])

فقہی مباحث

قرآن مجید میں چونکہ عملی احکام بھی بیان ہو ئے ہیں اسی لیے عام طور پہ مفسرین کا اسلوب یہ ہوتا ہے کہ جہاں کوئی فقہی حکم بیان ہورہا ہو اس آیت کے ضمن میں اس فقہی حکم کی مکمل وضاحت کرتے ہیں امام بخاری ؒ نے اختصارکا اسلوب کیا ہے اور اس مسئلہ کا حکم بیان کرتے ہوئے اس کی دلیل پیش کرتے ہیں: جیسے :{وعلى الذين يطوقونه فدية طعام مسكين}کی تفسیر میں ابن عباس کا یہ قول نقل فرماتے ہیں:حدثني إسحاق أخبرنا روح حدثنا زكرياء بن إسحاق حدثنا عمرو بن دينار عن عطاء : سمع ابن عباس يقرأ { وعلى الذين يطوقونه فدية طعام مسكين } . قال ابن عباس ليست بمنسوخة هو الشيخ الكبير والمرأة الكبيرة لا يستطيعان أن يصوما فيطعمان مكان كل يوم مسكينا ([42])

اجمالی تفسیر

صحابہ کرام ؓ کا طریقہ تفسیر یہ تھا کہ وہ عام طور پر قرآن مجید کی اجمالی تفسیر کر تے تھے یعنی صرف الفاظ کے معانی ومفہوم کے بیان تک محدود رہتے . امام بخاری ؒ نے اسی طریقہ کو اختیار کیا ہے اور جب کسی سورت کی تفسیر کرتے ہیں تو آغاز میں اس سورت کے مختلف الفاظ کے معانی ایک ہی جگہ پہ بیان کردیتے ہیں اور اگر وہ لفظ اس سورت کے علاوہ کسی اور جگہ بھی آیا ہے تو اس کی وضاحت کرتے ہوئے اس کا معنی بھی بیان کرتے ہیں . جیسے سورۃ البقرہ کی تفسیر میں درج ذیل الفاظ کے معانی بیان کیے ہیں :

قَالَ مُجَاهِدٌ: {إِلَى شَيَاطِينِهِمْ} (البقرة: 14) أَصْحَابِهِمْ مِنَ المُنَافِقِينَ وَالمُشْرِكِينَ {مُحِيطٌ بِالكَافِرِينَ} (البقرة: 19): اللَّهُ جَامِعُهُمْ {عَلَى الخَاشِعِينَ} (البقرة: 45): عَلَى المُؤْمِنِينَ حَقًّا قَالَ مُجَاهِدٌ: {بِقُوَّةٍ} (البقرة: 63): يَعْمَلُ بِمَا فِيهِ وَقَالَ أَبُو العَالِيَةِ: {مَرَضٌ}(البقرة: 10): شَكٌّ {وَمَا خَلْفَهَا} (البقرة: 66): عِبْرَةٌ لِمَنْ بَقِيَ {لاَ شِيَةَ} (البقرة: 71): لاَ بَيَاضَ وَقَالَ غَيْرُهُ: {يَسُومُونَكُمْ} (البقرة: 49): " يُولُونَكُمُ الوَلاَيَةُ، - مَفْتُوحَةٌ - مَصْدَرُ الوَلاَءِ، وَهِيَ الرُّبُوبِيَّةُ، إِذَا كُسِرَتِ الوَاوُ فَهِيَ الإِمَارَةُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: الحُبُوبُ الَّتِي تُؤْكَلُ كُلُّهَا فُومٌ " وَقَالَ قَتَادَةُ: {فَبَاءُوا}: فَانْقَلَبُوا وَقَالَ غَيْرُهُ: {يَسْتَفْتِحُونَ} (البقرة: 89): يَسْتَنْصِرُونَ، {شَرَوْا} (البقرة: 102): بَاعُوا، {رَاعِنَا} (البقرة: 104): مِنَ الرُّعُونَةِ، إِذَا أَرَادُوا أَنْ يُحَمِّقُوا إِنْسَانًا، قَالُوا: رَاعِنًا، {لاَ يَجْزِي} (لقمان: 33): لاَ يُغْنِي، {خُطُوَاتِ} (البقرة: 168): مِنَ الخَطْوِ، وَالمَعْنَى: آثَارَهُ {ابْتَلَى} (البقرة: 124): اخْتَبَرَ " ([43])

ائمہ فن سے روایت

امام بخاری ؒ نے کتاب التفسیر میں کسی آیت کی تفسیر میں روایت کرتے ہوئے اس بات کا لحاظ رکھا ہے کہ ہرفن کے امام سے روایت کی جائے مثلا صحابہ ؓ میں ابن عباس ؓ کو زیادہ ترجیح دی تابعین میں سے امام مجاہد ؒ سے زیادہ روایات نقل کیں اورلغوی ابحاث کرتے ہوئے سب سے زیادہ اعتماد ابوعبید پر کیا ۔

عربی اشعار سے استشہاد

مفسرین کا یہ اسلوب عام ہے کہ وہ کسی لفظ کی لغوی تشریح کرتے ہوئے کسی شاعر کا قول پیش کرتے ہیں امام بخاری ؒ نے مفسرین کے اس اسلوب کی پیروی کرتے ہوئے شعرائےعرب کے کلام سے استشہاد کیا ہے . جیسے : سورۃ توبہ کی تفسیر میں {لأواه} کی تشریح میں یہ شعر پیش کیا ہے:وقال الشاعر: إذا ما قمت أرحلها بليل * تأوه آهة الرجل الحزين ([44])

اس بارے میں امام صاحب کا اسلوب یہ ہے کہ وہ شاعر کا نام نہیں لیتے اور نہ مرجع کا ذکر کرتے ہیں صرف شعر پیش کرنے پر اکتفاکرتے ہیں تتبع سے معلوم ہوا کہ اس میں بھی امام صاحب ؒ کا زیادہ تر انحصار ابوعبیدہ کی مجاز القرآن پر ہے جیسے مذکورہ شعر امام صاحبؒ نے مجاز القرآن سے لیاہے اور وہاں شاعر کے نام کے ساتھ یہ شعر یوں بیان ہواہے :وقال المُثقِّب العَبْدِيُّ:إذا ما قمتُ أَرحَلُها بليلٍ تأوَّهُ آهَةَ الرجلِ الحزين.

حاصل بحث

الجامع اَلصحیح کی کتاب التفسیر کے مطالعے سے درج ذیل نکات اخذ ہوتے ہیں :

1۔ صحیح بخاری کی کتاب التفسیر کتب حدیث میں جامع ترین کتاب ہے اور بہت سی خصوصیات کی بنا پر اسے دوسری کتب حدیث میں بیان شدہ کتب تفسیر پر تفوق حاصل ہے ۔

2۔امام بخاری ؒ نے کتاب التفسیر میں ہر سورت کی الگ الگ تفسیر کی ہے اور اس کے لیے سورتوں کی تعداد کے برابر 114/ ابواب قائم کیےہیں اور ان میں 548/احادیث ذکر کی ہیں جن میں سے 465 موصول اور باقی معلق ہیں اور ان میں سے بھی 100/احادیث وہ ہیں جوپہلے ذکر نہیں ہوئیں باقی مکرر ہیں۔

3۔ امام صاحب ؒ نے کتاب التفسیر میں تفسیر بالماثور اور تفسیر بالرائے دونوں اسالیب اختیار کیے ہیں جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امام صاحب ؒ تفسیر بالرائے محمود کی حلت کے قائل ہیں ۔

4۔ کتاب التفسیر سے بہت سے علوم قرآنی اخذ کیے جاسکتے ہیں جیسے : سبب نزول ، مکی ومدنی ، عد الآی ، علم القرات ، غریب القرآن وغیرہ ۔

5۔صحیح بخاری کی کتاب التفسیر سے ان خصوصیات کا اخذ یہ حرف آخر نہیں ہے بلکہ نقطۂ آغاز ہے۔

حوالہ جات

  1. ۔ ترمذی ، ابو عيسى محمد بن عيسى ، سنن الترمذی،دار احياء التراث العربی - بيروت ،5؍ 199
  2. ۔ سنن الترمذی :5؍ 454
  3. ۔نسائی،ابو عبد الرحمن احمد بن شعيب ، السنن الكبرى، دار المعرفہ ببيروت، الطبعۃ الخامسۃ، 1420ھ ،6؍ 264
  4. ۔سنن الكبرى للنسائی، 6؍ 492
  5. ۔ابو داود، سليمان بن الاشعث السجستانی، سنن أبی داود ،دار الكتاب العربی، بيروت
  6. ۔ابن ماجہ ، محمد بن يزيد القزوينی،سنن ابن ماجہ،دار الرسالۃ العالمیہ،طبع اولیٰ، 1430ھ ۔ 2009ء
  7. ۔مسلم بن الحجاج ، القشیری ، صحيح مسلم، دار احياء التراث العربی۔ بيروت ،تحقیق: محمد فواد عبد الباقی ،4؍ 2319
  8. ۔ صحيح مسلم ،4؍ 2322
  9. ۔ النحل: 44
  10. ۔ صحيح البخاری،کتاب الایمان ،باب قول النبی ﷺنبی الاسلام علی خمس ،1؍ 7
  11. ۔ صحيح البخاری،کتاب التفسیر القرآن ،باب( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا، اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ....) ،4؍ 1913
  12. ۔ الحجر: 87
  13. ۔ صحيح البخاری،کتاب التفسیر القرآن،باب كيف كان بدء الوحي الى رسول الله ﷺ،1؍ 3
  14. ۔ النساء :163
  15. ۔ بخاری ، ابو عبدالله ،محمد بن اسماعیل ، الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول الله ﷺ وسننه وأيامه ،4؍ 1905ء، دار ابن كثير ، بيروت ،الطبعہ الثالثہ ، 1407 ۔ 1987
  16. ۔ صحيح البخاری ،4؍ 1929
  17. ۔ ابن حجر،احمد بن علی بن حجر العسقلانی، فتح الباری شرح صحيح البخاری، دار المعرفہ، بيروت ، 1379ھ، 8؍ 743
  18. ۔ صحيح البخاری،کتاب التفسیر القرآن ،بَابُ (الآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضُعْفًا) الآيَةَ)،4؍ 1707
  19. ۔ عینی ، بدرالدین الحنفی ، عمدة القاری شرح صحيح البخاری،مکتبہ شئون الاسلامیہ،1984ء ، 34؍ 98
  20. ۔ كاندھلوی، محمد زكريا ،الابواب والتراجم لالجامع الصحیح، دار الکتب العلميہ،بيروت ، لبنان ، 2013ء،ص: 221
  21. ۔ البقرة2: 58
  22. ۔ صحيح البخاری ،6؍19
  23. ۔ صحيح البخاری،3؍ 1330
  24. ۔ایضاً،4؍ 1624
  25. ۔فتح الباری شرح صحيح البخاری ، 8؍ 743
  26. ۔ صحيح البخاری ،4؍ 1621
  27. ۔ ایضاً،4؍ 1621
  28. ۔ابو عبيدہ ،مجاز القرآن، مکتبہ شئون الاسلامیہ ،ص:9
  29. ۔ فتح الباری لابن حجر ،8؍ 156
  30. ۔ صحيح البخاری ،؍ 17
  31. ۔ الحجر:87
  32. ۔ البقرة: 187
  33. ۔ صحيح البخاری ،4؍ 1639
  34. ۔ ایضاً،2؍ 645
  35. ۔ ایضاً،6؍ 17
  36. ۔ ایضاً،4؍ 1621
  37. ۔ایضاً
  38. ۔ الحجر:87
  39. ۔ صحيح البخاری،4؍ 1623
  40. ۔ ایضاً،4؍ 1623)
  41. ۔ ایضاً، 4؍ 1637
  42. ۔ ایضاً،4؍ 1638
  43. ۔ ایضاً، 6؍ 18
  44. ۔ایضاً، 4؍ 1707
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...