Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 34 Issue 1 of Al-Tafseer

عالمی تغیرات کے بعد سرزمین ہندوستان پر عورت کی حیثیت اور اسلامی تعلیمات |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

34

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060084478_950

Pages

283-304

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/104

Subjects

Hindustan Women Islamic law Mughal Empire

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تغیرہر دور میں انقلاب کا محرک ثابت ہوا ہے۔ جب بھی انسانی عقل نے بیداری کے مراحل طے کیے وہیں آگہی اورشعوری بنیادوں پر حقوق کی بات منظر عام پر آئی۔سولھویں صدی کو جدید دور کا سنگِ میل مانا جاتا ہے یہ وہ دور ہے کہ جب عالمی سطح پر جدوجہد کا آغاز ہو چکا تھا۔صدیوں کی اس عرق ریزی کے بعد اٹھارویں صدی میں فرانس کے انقلاب نے پوری دنیا کا زاویہ ِنگاہ بدل دیا انقلابِ فرانس دراصل طبقاتی تقسیم سے پیدا ہونے والی نا انصافیوں کا نتیجہ تھا۔ امراء،رؤسا، چرچ اورحکمران طبقے کو تمام اختیارات حاصل تھے جبکہ مزدور طبقہ یا عام عوام پر ٹیکس کا سخت بوجھ تھا۔ عوام کو روٹی بھی میسر نہ تھی ۔حالاتِ زندگی دگرگوں تھے

جبکہ عوام سے حاصل شدہ ٹیکس کی بنیاد پر امراءاور حکمران طبقہ اپنی عیاشیوں اور تفریح دل کا سامان کرتااورعوام ایک وقت کی روٹی کےلیے ترستے تھے ۔دولت اورمراعات کی غیرمنصفانہ تقسیم کی وجہ سے معاشرتی بدنظمی شروع ہوئی ۔نوبت یہاں تک آئی کہ قحط اور فاقہ نچلے طبقے کا نصیب ہو گیاتب عورتوں نے بھوک سے بلکتے بچوں کی خاطر بیکریوں پر حملہ کر کہ لوٹ مار کی اوریوں نچلی سطح سے عدم مساوات کا نعرہ بلند ہوااس کاوش میں ”روسو “Rousseau کی تحریر وں اور اس کے نظریات کا عکس بھی دکھا ئی دیتا ہے۔ جو کہ اس دورکا ذی شعور دانش ور تھا جو بدلتے ہوئے حالات کے تحت اپنی تحریروں سے لوگوں راہ دکھا رہا تھا۔(۱)اس سیاسی ،مذہبی ،معاشی بحثوں کی ذیل میں ایک اہم کردار عورت کا بھی تھا ۔جس کو مرد کی برابری نہ تعلیمی سطح پر حاصل تھی نہ سیاسی سطح پر،عورت صرف مرد کی میراث تھی، اس کے ہر فیصلے کا اختیار مرد کو تھا۔عورت کو گواہی دینے کا حق ،ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق، شادی اور ملازمت کے مساویانہ حقوق حاصل نہ تھے ۔ (۲) نیزامریکہ ،روس ،ایران کے انقلاب نے بھی صفحہ دنیا پہ منفی اور مثبت تبدیلیاں پیدا کیں اور ان عالمی تغیرات نے پوری دنیا کو آزادی کے لفظ سے روشناس کروایا۔ دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ سر زمینِ ہندوستان پر بھی ان تحاریک و تغیرات کے اثرات پہنچے جس نے بالخصوص عورت کی آواز کو ایوانوں میں پہنچایا۔ (۳)

دنیا جب عالمی اقدار کے تانوں بانوں میں الجھی تھی۔یہی وہ وقت تھا جب سر زمینِ ہندوستان پر بھی حقوق نسواں، انسانی حقوق مساوات ،برابری کی آوازیں اٹھنا شروع ہو چکی تھیں اور تغیرات و انقلاب کا دور شروع ہو چکا تھا۔ لوگ شعوری سطح پر بات کر رہے تھے۔یوں تو اس سرزمین پرسوچ کی تبدیلی کا آغاز اسلام کی آمد ہی سے ہو چکا تھا۔ صوفیہ کی تعلیمات اور افکار نے سوچ کا زاویہ بدل دیاتھا ۔ توحید ،لا شریک کے فلسفے نے مذہبی انتشار کو جنم دیا اور مذہبی تحریکیں نمودار ہوئیں اورہندومصلحین شنکر اچاریہ، رامانج،رامانند نے اپنے فلسفیانہ افکار کا پرچار کیا یوں ہندو تاریخ میں نئے باب کا اضافہ ہوا۔(۴)جدیدیت کی طرف لانے والی سولھویں صدی اور سترھویں صدی میں سر زمینِ ہندوستان پرسلاطین اور مغلیہ اسلامی حکومت نظر آتی ہے۔

اس دور کی معاشرتی حالت یوں ہے کہ اکثریت ہندوؤں کی ہے اور حکومت اسلام کی یعنی اسلام کو بالا دستی حاصل ہے ۔(۵)یہ جدیدیت کا وہ دور ہے کہ جس میں ہر طرح کے خلفشار نے سر اٹھایا ۔عالمی سطح پر فرانس کا انقلاب آمریت کو توڑرہا تھا مساوات کی باتیں کی جارہی تھیں اور اسی کے ذیل میں حقوقِ نسواں کی آوازیں بلند ہو رہیں تھیJean-Jacques Rousseauکے فلسفے نے مزدور طبقے کو جگا ڈالا تھا ۔ادھر اسلام کے اثرات بھی مرتب ہو رہے تھے ۔(۶) دراصل اسلام نے عورت اور مرد دونوں کے حوالے سے ایک واضح لائحہ عمل دیا ہے جو بلا تفریق دونوں کے لیے لازم ہے ۔ دینوی معاملات میں عبادات ،واجبات، فرائض ،اجر، ثواب ،گناہ ،عذاب،جنت ،جہنم ہر جگہ عورت اور مرد کو یکساں احکامات دیے گئے ہیں۔علاوہ دنیاوی ذمے داریوں کے قرآن اس بات کو یوں بیان کرتا ہے :

” پس قبول کر لیا ان کے رب نے ان کی دعاؤں کو(اور فرمایا )میں تم میں سے کسی کاعمل ضائع کرنے والانہیں ہوں خواہ وہ مرد ہو یاعورت تم سبایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔“(۷)

پیغمبر ختمی مرتبت ﷺ نے فرمایا :

”کسی عربی کو عجمی پر کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں پس تقویٰ کی بنیاد پر“(۸) (خطبہ حجة الوداع)

یعنی اسلام مرد اور عورت کے مساوات کی بات کرتا ہے جبکہ ہندو مت کا رجحان مختلف ہے جس کی تعلیمات یوں ہیں کہ:

"Almighty God, you have created this womb. Women may be born somewhere else but sons should be born (from this womb" (9) ( Atharva Ved 6/11/3)

مفہوم : بھگوان آپ نے اس رحم مادر کو پیدا کیا ہے۔بیٹیاں کہیں اور پیدا ہو سکتیں ہیں لیکن بیٹا اس رحم مادر سے پیدا ہونا چاہیے۔

"O Husband protect the son to be born. Do not make him a women" - Atharva Ved 2/3/23

مفہوم :اے شوہر بیٹے کی پیدائش کی حفاظت کراور اس کو بیٹی مت بنا ۔

"Lord Indra himself has said that women has very little intelligence. She cannot be taught" (10) Rig Ved 8/33/17

مفہوم:اندار بھگوان نے کہا کہ عور ت کم عقل ہے اسے کچھ سمجھایا نہیں جا سکتا ۔

"And whilst not coming into contact with Sûdras and remains of food; for this Gharma is he that shines yonder, and he is excellence, truth, and light; but woman, the Sûdra, the dog, and the black bird (the crow), are untruth: he should not look at these, lest he should mingle excellence and sin, light and darkness, truth and untruth." )11(

Satapatha Brahmana 14:1:1:31

مفہوم :شودر ذات کے لیے کہا گیا ہے کہ ان سے کوئی رابطہ نہ رکھا جائے اور شودر اور عورت کی مثال کالے کوے یا کتے سے دی گئی ہے ،

"Men must keep their women dependent day and night, and keep under their own control those who are attached to sensory objects. Her father guards her in childhood, her husband guards her in youth, and her sons (guard her in old age. A woman is never fit for independence." (12 ((Manusmrti 9:2-4)

مفہوم:مرد کو دن رات اپنی عورتوں کو اپنے ماتحت رکھنا چاہیے ۔ بچپن میں اس کے باپ کو اس کا محافظ ہے ، جوانی میں شوہر اور ضعیفی میں اس کا بیٹا اس کی حفاظت کرتے ہیں ، عورت کبھی بھی آزادانہ نہیں رہ سکتی.

"Women donot care for beauty, nor is their attention fixed on age (thinking)"It is enough he is a man." They give themselves to the handsome and to the ugly."

مفہوم: خوبصورتی ، اور عمر یا (تعلیم ،شعور)کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ایک عورت کے لیے صرف مرد کا ساتھ ہونا ہی کافی ہے ۔ خواہ وہ بے شعور ہو۔

اسلام نے چودہ سو سال پہلے عورت کی حیثیت کے متعلق جدید اقدامات اٹھائے اور خا ص قوانین وضع کیے، اسے معاشرے میں مقام عطا کیا۔ وراثت کا حق دار بنایا، وصیت کی گنجائش دی، شریک حیات کے لیے حقِ انتخاب ،طلاق و خلع کا حق، بیوہ کوشادی کا حق ،تعلیم حاصل کرنے کا حق۔جہالت کے اس دور میں قرآن کا نازل ہونا اور عورتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا اسلام کی وسعتِ نظر ی اور جدیدیت کی اعلیٰ مثال ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات نے سر زمین ہندوستان کے قدیم ہندو مذہب میں دراڑیں پیدا کر دیں۔(14) جس کا مطالعہ شہنشاہ اکبر کے دور میں بخوبی کیا جاسکتا ہے ۔لیکن اس سے قبل اسلام کی ان تعلیمات کا بغور مطالعہ ضروری ہے جس نے عالم انسانیت کی توجہ حقوقِ نسواں کی جانب اٹھائی ۔

حقِ وصیت

”والدین اور رشتے داروں کے ترکے میں سے مردوں کے لیے بھی حصہ ہے اور والدین اور رشتے داروں کے ترکے میں سے عورتوں کا بھی حصہ ہے خواہ یہ ترکہ زیادہ ہو یا کم ،یہ حصے (اللہ)کی طرف سے مقرر کیے ہوئے ہیں۔“ (15)

”اللہ تمھاری اولاد کے بارے میں تمھیں ہدایت دیتا ہے کہ بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابرہے اگربیٹیاں دو سے زائد ہیں تو ان کے لیے ترکے کا دو تہائی حصہ ہے اور اگرایک بیٹی ہے تو اس کےلیے آدھا ہے اور میت کے ماں باپ کے لیے ان میں سے ہر ایک کے لیے اس کا چھٹا حصہ ہے جومورث نے چھوڑا ہے بشرطیکہ میت کی اولاد ہو اور اگراس کی اولاد نہ ہو اور اس کی وارث ماں باپ ہی ہو ں تو اس کی ماں کا ایک حصہ تہائی اور اگراس کے بھائی بہنیں ہو تو اس کی ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے یہ حصے اس وصیت کی تعمیل یا ادائے قرض کے بعد ہیں جو وہ کر جاتاہے تم اپنے باپوں اوربیٹوں کے متعلق یہ نہیں جان سکتے کہ تمھارے لیے سب سے زیادہ نفع مند کون ہے یہ اللہ کا ٹھہرایا ہو افریضہ ہے بے شک اللہ ہی علم و حکمت والا ہے۔(16)

وصیت کے حقوق

”اے لوگو جوایمان لائے ہو جب تم میں سے کسی کی موت کاوقت آجائے اور اور وہ وصیت کر رہا ہو تو اس کے لیے شہادت کا نصاب یہ ہے کہ تمھاری جماعت میں سے دوصاحبِ عدل آدمی گواہ بن جائیں یااگر تم سفر کی حالت میں ہو تواور وہاں موت کی مصیبت پیش آئے توغیر لوگوں میں سے ہی دو گواہ لے جائے “ (17)

حقِ انتخاب

”اے ایمان والو تمھارے لیے حلال نہیں ہے کہ عورتوں کے جبراً وارث بن جاؤ “(18)

”تمھارے لیے جائز نہیں کہ عورتوں پر زبردستی قبضہ کر لو اور نہ انھیں جبراً اس غرض کے لیے روکے رکھو۔“ (19)

”اور اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گےتو ان کےسواجوعورتیں تمھیں اچھی لگیں دو دو تین تین یا چار چار ان سے نکاح کرلو اور اگر اس بات کا اندیشہ ہے کہ یکساں سلوک نہ کر سکو گے تو ایک عورت یا لونڈی جس کے تم مالک ہو اس سے تم بے انصافی سے بچ جاؤ گے۔“ (20)

قول رسول عربی ﷺ ہے :

”اور کنواری سے بھی اس کا باپ اجازت لے اگر وہ خاموش رہے تو اسے اجازت سمجھا جائے “ (21)

طلاق اور خلع کا حق

طلاق کے بارے میں اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ یہ ایک مکروہ فعل ہے اور کسی مرد کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی بڑے سبب کے بغیر اپنی بیوی کو طلاق دے لیکن اگر بحالتِ مجبوری اور کوئی صورت نہ ہو تو پھر یہ حق ہے کہ:

”اے نبیﷺ جب تم عورتوں کوطلاق دو تو انھیں ان کی عدت پوری کرنے کے لیے طلاق دو اورعدت کی مدت کا حساب رکھواور اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرونہ تم ان کو گھر سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں اِلا یہ کہ وہ کسی صریح برائی کی مرتکب ہوں یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں۔ “ (۲۲)

بیوہ کی شادی کا حق

”اور تم میں سے جن کی وفات ہو جائے اور اپنے پیچھے اپنی بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ اور دس دن انتظار میں رکھیں پھر جب وہ اپنی معیاد کو پہنچ جائیں تو اس کا تم پر کوئی گناہ نہیں جو وہ اپنے بارے میں پسندیدہ طریقہ اختیار کریں اللہ اس سے خبردار ہے۔“ (23)

گویا معلوم ہوا اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے آج سے چودہ سو سال پہلے عورت کے مقام کو بلندکیا اوراس کے ساتھ روا رکھے جانے والے ناروا سلوک کے خلاف کھلے الفاظ میں مذمت کی اور نئے احکامات جاری کیے۔ہندوستان کی سر زمین پر مسلمانوں نے جب ان احکامات کے ساتھ قدم رکھا کہ جہاں ستی کی رسم عام تھی ،عورت کاوراثت میں کوئی حق نہ تھا، وصیت کی اجازت نہ تھی کیونکہ وہ مال و اسباب میں اپنا کوئی حصہ نہ پاتی۔ بیوہ کو شادی کی اجازت نہ تھی اس پر زندگی کی خوشیاں حرام تھیں وہ بد شگونی کی زندہ علامت تھی، بچپن کی شادی کا رواج تھا ، ترکے میں عورت کا کوئی حصہ نہ تھا ۔عبادت و ریاضت عورت کا فرض تھا ۔ذات پات کی تقسیم، داسی کیے جانے کی رسم، جہیز کی لعنت گویا عورت اپنی زبوں حالی کی ایک ایسی تصویر تھی ۔جس کی رگوں میں بس زندگی دوڑتی تھی اور جہاں حرارت کا نام و نشان نہ تھا ۔ ایسے وقت میں اسلام کی جدید تعلیمات جو اس دور کی اشد ضرورت تھی علماءکرام اور صوفیہکے ذریعے پھیلنی شروع ہوئی ۔نتیجتہً ہندو معاشرے میں آریہ سماج، بھگتی تحریک ،برہمو سماج جیسی تحاریک نے جنم لیا ۔جنھوں نے حقوقِ نسواں کے لیے آواز بلند کی۔(24)

تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ تغیرو انتشار جب بھی بیدار ہوا ،وہ لاوے کی طرح نچلی سطح سے ابھرااور اپنی غلاظت اورنجاست کے ساتھ نادرو نایاب نگینوں کو بھی ساتھ لایا۔ اور اسلام ہی وہ نگینہ تھا جس نے ہندوستان کی تقدیر میں تفکر اور تدبر کا بیج بویا۔(25)

”عہدِ اکبری اور ہندو عورت“

ہندوستان کی سرزمین پر سب سے پہلا نظریاتی تغیر اسلام نے پیداکیا۔ اسلامی تعلیمات اور تبلیغ نے ہندو مذہب کے پروہتوں اور عقیدت مندوں کو عقیدہ و عبادات و معاملات کی طرف نظر ثانی پر مجبور کیا اور شعوری بیداری کی جانب قدم بڑھائے۔ (26) اور جب عیسائیت نے اس زمین پر اپنے پنجے گاڑے تو وہ دور مغلیہ دورتھا کہ جب انگریزوں اور پرتگیزیوں نے ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہااور یہاں اپنے قدم مضبوط کیے (27) دراصل انقلاب کایہ دور ہندو مذہب کو منتشر انہ نظریہ فکر میں الجھا رہا تھا ۔ پہلے بدھ مت کی تعلیمات پھر جین مت اور سکھ ازم اور پھر اسلام اور عیسائیت ۔خوداسلام بھی سخت تنقید کا نشانہ بن رہا تھا ۔اب اس کو ہم شہنشاہِ اکبر کی وسعتِ نظری یا فراخ دلی کہیں یانا اہلی،اکبر کی طبیعت میں خودسری تھی ، اسلامی تعلیمات،فلسفہ اور فقہ پر کوئی دسترس نہ تھی۔ سیاست ا س کا تمغہ امتیاز تھا اور اسی سیاست کی کامیابی و کامرانی کی بناپر ہی اکبر اکبرِ اعظم کے نام سے مشہور ہوا۔ (28)

اس کے پاس ایک اعلیٰ دماغ تھاجو سیاسی چالوں اور حربوں سے لیس تھا۔ یہ اکبرہی کا کمال تھا کہ اس نے ہندوستان کی مختلف المزاج قوم پر کم عمری میں حکومت کی ۔جو اس کی فطرتی صلاحیتوں کی بنا پر ممکن ہوا ۔چونکہ اکثریت ہندوؤں کی تھی لہذٰا ان پر قابو رکھنا اوران کو مطمئن رکھنا نہایت ضروری تھا ۔اکبر اس بات کو بہت جلد بھانپ چکا تھا اسی لیے اس نے سیاسی حربہ استعمال کرتے ہوئے راجپوت پالیسی بنائی جس سے اس نے اس قوم کو متحدکیا ۔لیکن بہت جلد وہ اپنی شخصی شناخت کھو بیٹھا ۔(29)

اکبرکی ہندو راجپوتانہ پالیسی اورہندوعورت

راجپوت ہندو مذہب کی وہ نسل ہے جو بہادری اور جفا کشی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ راجپوت خاندان ہندو مذہب میں اپنی بہادری کی بنیاد پر بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس خاندان کے مرد ہی نہیں عورتیں بھی جفا کش دلیری اور دانش مندی میں اپنا نام رکھتی ہیں کسی سخت مصیبت میں گھر جانے کے باجود خود مقابلے پر نکل آتی ہیں اور قبضہ ہو جانے کی صورت میں غلام یا قیدی کی زندگی سے بسر کرنے سے بہتر خود کونذرِآتش کر نازیادہ معتبر سمجھتی ہیں ۔ راجپوت عورتیں اپنی پاک دامنی اور اورعصمت پر بجا طور پر ناز کر سکتی ہیں جن کی تعریف میں تاریخیں گواہ ہیں ۔(30) ستی کی رسم ان کے یہاں اسی مقصدکے لیے انجام دی جاتی تھی جب کسی بیرونی آفت کی پیش گوئی ہو جاتی اور کوئی مرد قبیلے میں نہ بچتا تو عورتیں قلعے میں بندہو کر مقابلہ کرتیں اور محاصرہ ہو جانے کی صورت میں خود کوحملہ آور قوم کے مردوں سے بچانے کے لیے کسی کنویں یا بڑی جگہ پر آگ بھڑکاکر اس میں کودکر” ستی “ہو جاتیں جس کو ہندو تعلیمات کے مطابق سب سے زیادہ عظیم رتبہ سمجھاجاتا ہے ۔(31) اس حوالے سے سیتا کے کردار کو زندہ کیا جاتا رامائن میں یوں ملتا ہے کہ :

”جب رام نے سیتا کی لنکا سے واپسی کے بعد لوگوں کے ذہنی شک کو دور کرنے کے لیے سیتا کو پریکشا کی کسوٹی پر ڈالا تو اسی وقت دھرتی ماں کے سینے پر آگ روشن کی گئی اور سیتا نے اس میں سے گزر کر اپنی وفا داری کا ثبوت دیا جبکہ رام وشنو کا اوتار ہونے کی نسبت سے سیتا کو انتر آتما سے جانتا تھا “ (32)

یہی وجہ ہے کہ” ستی“ یعنی مرد کی لاش کے ساتھ خود کو جلا ڈالنا کی رسم وفاداری کی صورت میں ادا کی جاتی تھی ۔مگر بعد میں اس کی بگڑی ہوئی شکل سامنے آئی ۔اکبر اپنی تدبر اورتفکر کی نگاہ سے راجپوت کی اس خصوصیت کا گواہ تھا ۔اس نے تدبیر کی راہ استعمال کرتے ہوئے ان سے دوستانہ روابط رکھے کیوں کہ یہ دوستوں اور مہمانوں کو اپنی جان سے بڑھ کر زیادہ عزیز رکھتے اور ان کی حفاظت میں اپنی جان بھی قربان کردیتے یہی ان کا تہذیبی خاصہ تھا ۔(۳۳)

اکبر خود بھی ان سے صاف نیت کے ساتھ مراسم چاہتا تھا اور اپنی کی سیاسی استعداد کو بروئے کار لاتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ اگر بر صغیر پر حکومت کرنا ہے تو راجپوت جیسی بہادر ،فیاض اور وعدہ نبھانے والی قوم کو اپنانا ضروری ہے چنانچہ راجپوتوں سے بہتر تعلقات کے بغیر سلطنت کو مستحکم نہیں کیا جاسکتا۔ اس نے دور اندیش سیاست دان کی حیثیت سے راجپوتوں سے خوشگوار تعلقات قائم کیے۔ راجپو ت پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کیے۔ (34)

عہدِاکبری میں ہندوؤں کی مذہبی آ زادی

اکبر نے اپنی رعایا کو مکمل مذہبی آزادی دے رکھی تھی۔ مذہبی قید بندی یا تعصب کی فضا نہ تھی۔ ہر شخص اپنے مذہب اور مذہبی رسوم کی ادائیگی میں خود مختار تھا۔ اپنے خیالات کی بر ملا تبلیغ کر سکتا تھا۔ مندروں اور گردوارے کی تعمیر میں بھی اکبر نے امدادی کاروائی کی جزیہ جو کہ ٹیکس کی صورت میں ذمیوں سے اسلامی تاریخ میں لیاجاتارہا ،اکبر نے 1564ءمیں اس کی وصولی منسوخ کر دی۔ مذہبی رواداری قائم کی۔ خود اکبرکے دربار میں ہندو، سکھ ،پارسی،جین مت عیسائی جماعتوں کی تقریریں ہوتیں ۔وہ اپنے اپنے نظریات کی وضاحت کرتے اور بادشاہ نہایت دلچسپی سے ان مباحثوں میں حصہ لیتا۔ان حالات کے ساتھ ملک میں امن اور ترقی کی زیادہ ضمانت تھی۔ لیکن تمام مذاہب کا اس قدردل جمعی سے مشاہدہ اکبر کو ذہنی طور پر منقسم المزاج بنا گیا۔ اس کی شخصیت پر اسلامی اقدار کی جگہ ہندستانی اقدار مرتب ہونا شرو ع ہو گئے اور ا ن خیالات نے گھر کر لیا کہ خدا کی پرستش کے بہت سے طریقے ہیں۔ تمام مذاہب مبنی بر حقیقت ہیں، جو لوگ اس نظر یے پر ایمان رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ تمام موجودات مظاہر الٰہی ہیں۔ تو بچھڑے اور ستارے کی صورت میں بھی پرستش کی جاسکتی ہے ۔ اس طبیعت کے ساتھ اس نے اپنے دور میں کچھ ایسے اقدامات کیے جو اسلام کی یکسر نفی کرتے ہیں خود اس کی ذات بھی کئی مذاہب میں الجھ کر تقسیم ہو چکی تھی ۔(35)

اعلیٰ مناصب پر ہندوؤں کی تقرری

ہندوؤں کو اعلیٰ مناصب پرفائز کیا گیا اور ایسے علاقے ان کی تحویل میں دیے گئے جہاں مذہبی تعصب کی بنیاد پر فتوحات کرنا ممکن نہ تھا ۔ا س لیے اکبر نے سیاسی پالیسی کے تحت ان علاقوںمیں ہندوؤں کا تقررکیا اور مفتوحہ علاقوں کی توسیع بلا حیل و حجت کی ۔ہندو راجاؤں کے پاس سفیروں اور تحائف کی لین دین کا سلسلہ قائم کیا اور انھیں دوست بنایا ۔جس کے بدلے میں انھوں نے افغان ،کابل اور ترک امراءکے سر کچلنے میں اکبر کی مدد کی۔ جس جوش اور جنون کی اسے ضرورت تھی اسے اکبر نے حاصل کر لیا اس طرح اس کی سیاسی پالیسی کار گر ہوئی ۔(36)

ہندو رانیوں کو ان کےمذہب پرقائم رکھتے ہوئے ان سےشادی

شہنشاہ اکبر نے ہندو مسلم تفریق کو ختم کرنے کے لیے خود راجپوت خاندان میں راجہ بہاری مل کی لڑکی جودھابی بیسے ہندو مذہب پر قائم رہتے ہوئے شادی کی اور اپنے بیٹے کی شادی بھی راجپوت خاندان کی ہندو لڑکی سے کروائی۔ ان کے علاوہ اور کئی ہندو لڑکیوں کو اپنے حرم میں رکھااوران کو ان کے مذہب اور مذہبی رسوم پر آزاد چھوڑ دیا۔ جس کی وجہ سے محل میں اکثر ہون اور بھجن کا سلسلہ جاری رہتا۔ خود شہنشاہ اکبر مہا رانیوں سے تلک لگواتا ،آرتھی اترواتا برہمنوں اور پنڈتوں کی آمدورفت جاری رہتی ۔ان کو زنان خانے میں داخل ہونے کی بھی اجازت تھی تمام رسوم ورواج کی ادائیگی کی جاتی اور اکبر ان میں پیش پیش ہوتا۔ہندوؤں کی اس دلجوئی سے تمام ہندو برادری اکبر کی ہم نوا تھی اسی معاملہ فہمی کی وجہ سے خود ہندو مذہب میں بھی بڑی تبدیلیاں رونماہوئیں۔یہاں تک کہ ستی کی رسم جو کہ ہندو عقیدے کے مطابق وفاداری اور ہمیشگی کی زندگی پانے کا راستہ تھی اس رسم میں بھی شہنشاہ اکبر نے حالات و واقعات کے تحت آسانی پیدا کی اور حقوق نسواں کے لیے احکامات جاری کیے۔(37) تاریخ کے حوالوں میں اکبر کا دور دراصل ہر سطح پر جدت کی ترجمانی کرتا ہے نا قدین کی نگاہ میں اکبر گمراہ اور لا دین ٹھہرایا گیا اکبر سے قبل ہمایوں نے ستی کی رسم پر پابندی عائد کی تھی مگر باقاعدہ احکامات جاری نہ کیے تھے ۔(38) اکبر کے دور میں ایک واقعہ اسی حوالے سے پیش آیا ۔جب ”رانی دمیا نتی “کو اس کے شوہر کے مرنے کے بعد اس کے بیٹوں نے اس کی اجازت کے بغیر” ستی“ کرنے کا ارادہ کیا۔ جب کے رانی نے اپنے شوہر کی لاش کے ساتھ جل مرنے سے انکار کر دیا تھا۔ شہنشاہ اکبر کو اس واقعے کی خبر ملی تو اس نے خود اپنے گھوڑے کی لگام پکڑی اور نکل پڑا اور اس مقام تک جا پہنچا جہاں یہ رسم ادا کی جا رہی تھی ۔وہا ں پہنچ کر اس نے ”رانی دمیانتی“ کی جان بچائی اور حکم جاری کیا کہ” ستی“ کی رسم کی ادائیگی کے لیے مخصوص مقام کا تعین کیاجائے اور اجازت دی کہ” ستی“ ہونا عورت کے خود کے اختیار میں ہو گا ۔کسی کو زبردستی” ستی “نہیں کیا جاسکتا یہ اصلاحی قدم ایک مسلمان کی حیثیت سے اٹھایا جانا نا قابلِ یقین تھا ۔ (39)اسی کاوش کو رام موہن رائے نے ایک تحریک کی شکل میں چلایا اور پورا کیا ۔ان کی تحریک کا نام ”برہمو سماج “تھا۔

برہمو سماج

روایتی قوانین اور برہمن راج کو توڑنے کے لیے برہمو سماج جیسی تحریک نے جنم لیا۔ برہمو سماج کی تحریک اس دور کی بدلتی ہوئی کیفیات کی صحیح ترجمان ثابت ہوئی۔ اس تحریک نے ہندوعورت کے لیے انقلابی نظریات کا پرچار کیا۔ جو بلا شبہ قدیم تعلیمات کے منافی تھا۔ مگر انسانیت اور جدیدیت کے نظریات سے مطابقت رکھتا تھا۔ اسی تحریک کی بدولت قفس نسواں میں درزپیدا ہوئی اور عورت کو رواجی پابندیوں سے آزادی ملی۔ عورت ذات کی تحقیر اور تذلیل کا سلسلہ جو کئی صدیوں سے رسموں کی آڑ میں چلا آرہا تھا اس کا بھرم مسمار کر دیا گیا ۔یوں تو کسی بھی رواجی قانون کویکسر بدل ڈالنا ناممکن ہے لیکن آزاد ذہنوں نے رسم ورواج کی زنجیروں کوکمزور کیااور اس پر عملی مظاہرے بھی منظرِ عام پر آئے ۔ان انقلابی تحاریک کی بدولت عورت اب مندروں کی داسی نہ تھی۔ ہسپتالوںمیں مسیحائی کر رہی تھی ۔وہ داسی جو کل برہمنوں کی عیاشی کی نشانی کو سینے سے لگائے اپنے دن گزار رہی تھی۔اب انھی کی اولادوں کو مذہبی تعلیمات سے روشناس کروا رہی تھی۔ وہی عورت جو ستی کر دی جاتی تھی گھروں اور مندروں میں چراغ روشن کررہی تھی ۔آج بھی بہت سے مندر اور پاٹ شالا کی داسیاں ذات کے برہمن خاندان کی اولادوں کو وید اور اپنشد اورکی تعلیمات اور بھجن اور ہون کے طریقوں کو سکھا رہی ہیں ۔جو کل تک صرف اورصرف ان کے باپ داداؤں کا پیشہ تھا اور عورت کا اس میں داخل ہونا تو کجا اس کو چھونا بھی گناہ کے متراداف تھا ۔ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ تعلیم نے ذہنوں کی آبیاری کی اور مغلوب ذہنوں کو آزاد کیا ۔ ہندو مذہب رسموں اور رواجوں کے بندھن میں زندہ رہنے والا مذہب ہے۔ اس میں مذہبی اصولوں کی تجدید بھی وقت اور حالات کے پیشِ نظر کی جاسکتی ہے۔ جو جدیدیت سے اس کو ہم آہنگ رکھ سکے یہی ہندو مذہب کی وہ خاصیت جو تمام مذاہب سے اس کو منفرد کردیتی ہے اور اس بات کا ثبوت بھی دیتی ہے کہ یہ کوئی آفاقی مذہب نہیںاور نہ ہی اس کی تعلیمات کو حتمی شکل دی گئی ہے۔ اس کے اصول و ضوابط ہر دور میں وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ (40)

ہندو مذہب میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ بہت سی تبدیلایں پیدا ہوئیں۔ عورت کے حوالے سے ہندو مذہب کی سب سے فرسودہ رسم” ستی“ ہے۔ جس کے خلاف ہندو برہمن گھرانے کے ایک شخص رام موہن رائے نے انیسویں صدی میں آواز بلند کی بلا شبہ کہ اس کا نتیجہ دو رس ثابت ہوا مگر یہ آج بھی اپنا وجود رکھتی ہے ۔ضروری یہ ہے کہ ہم یہاں ہندو عورت کو درپیش ان مثال کو قبل ازانقلاب ہی دیکھ لیں جو راجا رام موہن رائے کی نظر میں قابل اصلاح تھے جس کے لیے انھوں نے تحریک کا آغاز کیا ۔یہاں ہم عورت کو درپیش مسائل کی وضاحت کر رہے ہیں تاکہ رام موہن رائے کے مذہبی اختلافات اور ان کے اٹھائے اس انقلابی قدم کو سمجھا جاسکے ۔

۱۔ ہندو مذہب کے ماننے والوں میں پہلا مسئلہ ذات پات کی تقسیم ہے ۔

۲۔ مذہبی قوانین میں عورتوں اور نچلی ذات والے ہندوؤں کے حقوق کا استحصال بھی معاشرے میں بگاڑ کا سبب تھا جس کی طرف راجا رام موہن نے توجہ دلائی۔

۳۔ ہندو معاشرے میں کم عمر ی کی شادی اور نکاح ثانی کی ممانعت جیسے قوا نین کو توجہ دینے کی درخواست کی ۔

۴۔ بیوہ کو نکاح کا حق نہ دینا جائیداد میں اس کا حصہ نہ دینا اس کی اپنی ملکیت میں بھی کسی مرد خاص کا ولی ہو نا۔یہ مسئلہ بھی ایک مستحکم معاشرے کے قیام میں مسائل کھڑے کر رہا تھا ۔

۵۔ ہندو قوانین میں یل زوجگی کا تصور تھا ۔عورت کو طلاق حاصل کرنے یا علیحدگی اختیار کرنے کی اجازت کا نہ تھی ۔

۶۔ برہمن بلاشرکت ِغیرِکسی بھی ذات کی عورت کا بلا شرط حقدار تھا ۔

۷۔ ستی کی رسم عام تھی، جہیز کی لعنت موجود تھی، لڑکے بیچے جاتے ،لڑکی والوں کو طے شدہ رقم ادا کرنی ہوتی ۔

۸۔ داسی کی حیثیت اور اس سے پیدا ہونے والے بچوں کے حقوق کا مسئلہ بھی معاشرے میں موجود تھا ۔

۹۔وراثت میں عورت کا کوئی حق نہ تھا ۔

10۔ جن لڑکیوں کی شادی کسی بھی وجہ سے نہیں ہو سکتی تھیں ان کے مستقبل اور ا ن کی کفالت کے لیے کوئی مالی معاونت موجود نہ تھی نہ ہی کوئی قانون اس سلسلے میں موجود تھا ۔ اسی مسئلے کی وجہ سے جسم فروشی عام پیشہ بنا ہوا تھا کیوں کہ عورت کوئی ملازمت نہیں کر سکتی تھی اس کی کوئی جائیداد نہیں ہوتی تھی اس کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت بھی نہیں تھی ۔

۱۱۔ اسقاطِ حمل اور نا جائز بچوں کی کفالت کا مسئلہ بھی معاشرے میں موجود تھا ۔

یہ وہ مسائل تھے جو کہ شدید توجہ طلب تھے جن پر برہمو سماج نے آواز اٹھائی اور اپنی تحریک کے ذریعے تبدیلی ممکن کی ،نہ صرف معاشرتی سطح پر بلکہ مذہبی سطح پر بھی کام کیا اور مذہب کی صحیح توضیح معاشرے تک پہنچانے کی کوشش کی۔(41)

پراتھنا سماج

پراتھنا سماج، برہمو سماج جیسی سماجی، رفاہی تحریک تھی۔ جو انیسویں صدی کو درپیش سماجی، مذہبی اور معاشرتی مسائل کے حل کے لیے وجود میں لائی گئی۔ جس طرح بنگال میں برہمو سماج عورت اور عورت سے متعلق مسائل کو معاشرتی سطح پر حل کر کے اس کے لیے اسباب پیدا کر رہی تھی۔ اسی طرح پراتھنا سماج نے بھی دکھتی سسکتی نسوانیت کی آواز کو عوام کی آواز بنایا تاکہ ان دیرینہ مسائل کا حل نکالا جا سکے ۔جن کو سوچنا یا ذکر کرنا بھی مذہب کے خلاف جانے کے مترادف تھا ۔یہ ایسی الجھی ہوئی گتھیاں تھیں جن کو سلجھا نے کے لیے تحاریک کو مذہبی ادب کی ازسر نو ترتیب کرنا پڑی جو کہ دقت طلب مسئلہ تھا۔

یوں دیکھا جائے توہندوستان کی زمین پر مسلمانوں کی آمد نے ہی ایک نظریاتی اختلاف ہندوؤں کے آگے کھڑا کر دیا تھا۔ اسلام کے صوفی طبقے نے اس مذہب کی سختی اور اندھی تقلید پر ضرب لگائی اور چیتنیہ اور کبیر داس جیسے لوگوں کو پیدا کیا ۔پھر مسلمانوں کے معاشرتی اصولوں نے بھی ہندو معاشرے کو متاثر کیا جس کی مثال میں ان تحاریک کے مذہبی نظریاتی افکار کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔(42)

تحریک کا آغاز

پسِ منظر

انگریزی سامراجیت میں جب ہندو تحاریک نے جگہ بنانا شروع کیں اس وقت یہ تحاریک چھوٹی چھوٹی خفیہ جماعت کی صورت میں نظر آ رہی تھیں۔جو چند علاقائی مسائل اور ان کے حل کے لیے تشکیل دی گئی تھیں انھی تحاریک کے ممبر اپنے فارغ وقت میں بھجن اور اشلوک گایا کرتے اور ان پر دلیل اور مباحثے رکھے جاتے جن سے ایک صحت مند سوچ پنپ رہی تھی ایسی خفیہ سماجی جماعت ”گپتا سبھا “کے نام سے جانی جاتی تھی۔ یہ کچھ ہندو اشخاص کی دوستی کا نتیجہ تھی۔ اسی طرح کی ایک اور چھوٹی جماعت جو 1849ءمیں” پرما ہمسا سبھا“کے نام سے بنی۔ جس کے بانی ”رام بال کرشنا“ تھے۔ اس جماعت نے بھی معاشرتی سطح پر اپنی ایک مضبوط حیثیت منظرِ عام پر آئے بغیر بنا لی تھی۔ اس کے ممبرا شلوک اور مذہبی گیتوں بھجنوں کو گاتے اور آپس میں ذکر کی محفلیں منعقد کرتے۔کیوں کہ ہندو مذہب تری مورتی کے عقیدے پر متمکن ہے اس لیے کوئی وشنو کاعقیدت مند تھا ،تو کوئی شیو کا، تو کوئی برہما کا ۔ان محفلوں میں ان کے اوتاروں پر ان کے کرداروں پر ان کی دی گئیتعلیمات پر اور موجودہ حالات پر بحث ہوتی۔ جس کا نتیجہ بہت سود مند ثابت ہو رہا تھا۔ ذہن اور سوچ کی آبیاری انھی چھوٹی جماعتوں کی مرہونِ منت تھی۔ ان محفلوں میں گاﺅں کا کسان بھی تھا ،تو کوئی مزارع بھی تھا، کوئی استاد تھا، تو کوئی درزی تھا، کوئی مسلمان تھا، تو کوئی پارسی بھی تھا ایسا معلوم ہوتا کہ انسانیت کا مذہب تخلیق کیا جارہا ہو۔ سب ایک دوسرے کی لائی چیزوں کو بلا امتیاز کھاتے اور اپنی اپنی تعلیمات کو ایک دوسرے سے بیان کرتے ۔ یہ انگریزوں کی حاکمیت کا وہ دور تھا کہ جس میں ہندو بھی غلام تھے اور مسلمان بھی مسلمانوں کے ہاتھ سے حکومت گئی تھی۔ جس کی بنا پر ان کا زخم تازہ تھا اور ہندو پرانے دکھیارے تھے ۔ بمبئی جیسے شہر میں یہ جماعتیں جگہ جگہ اپنی پناہ گاہ بنائے ہوئے تھیں لیکن سب کچھ خفیہ تھا۔(43)

پراتھنا سماج:(1867ء)

بنگال کی برہمو سماج کے لیڈر کیشب چندر سین نے کئی دفعہ بمبئی کا دورہ کیا اور تقاریب منعقد کیں اور اپنے نظریات کی فضا تشکیل کرنے کی کوشش کی۔ تا کہ بھارتی عوام خود کو پہچانیں۔ اپنے ملک اپنی قوم اور اپنی سلامتی کے لیے بذاتِ خود میدانِ عمل میں آئیں۔ لیکن انیسویں صدی کے نصف میں آپ نے بمبئی کی ہوا میں خود ی کی مہک جانچی اور یہی وہ وقت تھا کہ1867ءمیں” آتما رام پنڈورنگ “نے ”پراتھنا سماج “کی بنیاد رکھی اور تمام چھوٹی جماعتوں نے ایک نام پایا ۔(۴۴) ان کے قریبی دوست ڈاکٹر ولسن نے ذاتی طور پر خصوصی مدد کی۔ مالی معاونت پارسی حضرات اورگجراتی تاجروں نے کی ۔ان کے علاوہ جان نثار دوستوں کا ایک حلقہ جن میں آ پ کے دو بھائی بھی تھے ،ان کی معاونت سے ہفتہ واری بیٹھک کا انتظام کیا گیا ۔جس میں تحریک کے منشور و مقاصد ترتیب دیے گئے ان محفلوں میں عبادت کے بول دہرائے جاتے ۔ویدوں اور بھگوت گیتا کے اشلوک پڑھے جاتے اور ان کا تجزیہ کیا جاتا ۔اس تحریک کی مذہبی سوچ کا دائرہ قدرے وسیع تھا۔جس میں صوفیانہ سوچ کے اثرات بھی ملتے ہیں ۔ان کے عقائد اور ان کے نظریات میں اسلامی تصورِ وحدانیت کی جھلک دکھتی ہے ۔دراصل ہندو مذہب میں کثرت الاصنام کی بدولت ایک ہی گھر میں کئی خدا موجود ہوتے ۔کئی ضابطہ حیات کو پرکھا جاتا یا یوں کہا جائے کہ ہر شخص کا اپنا خدا اور اپنے خدا کے الگ احکاما ت تھے اور ذات پات کی تقسیم ۔یہ وہ عناصر تھے جس سے فرقہ واریت بڑھ رہی تھی اور افرادی قوت کمزور پڑ چکی تھی۔ وحدانیت کے ایک پلیٹ فارم نے ان کو سب کو ایک جگہ جمع کر دیا جس کا اندازہ آئندہ پیراگراف میں لگایا جاسکتا ہے۔(45)

جدیدیت کا آغاز

پہلا ہندو کالج 1816ءمیں کلکتہ میں قائم کیا گیا جس میں کرسچن مشنری کا بہت بڑا کردار رہا اور پھر انھی کی معاونت سے تیس اسکولوں کا آغاز کیا۔ جہاں ہندو لڑکیوں کو مفت تعلیم دی جاتی ۔ ایک بہت اہم اور انقلابی اسکول کی بنیاد رکھی گئی جو کہ برٹش انڈیا کا ایک بڑا کارنامہ تھا۔ یہ اسکول J.E Drink Water Bethune کی نمائندگی میں ۹۴۸۱ءمیں شروع ہوااس کا نامHindu Mahila Vidyalaya ”ہندو مہیلا ویدیالیا“ رکھا گیا۔مگر اس اسکول کی ایک خاص بات یہ تھی کہ یہ اسکول سیکولر سوچ کی نمائندگی کر رہا تھا۔ یہاں داخلہ لینے والوں میں ذات پات کی کوئی قید نہیں تھی ۔اسی اسکول سے مشہور ہندو اسکالر”ایشور چندرا ودھیا ساگر“Ishwar Chandra Vidyasagar کا نیا باب شروع ہوا۔ جن کی تحریک کا ذکر ہم آگے کریں گے۔ لڑکیوں کی تعلیم کے میدان میں آپ کی کاوشوں کا کوئی مقابلہ نہیں۔آپ برہمن گھرانے سے تعلق رکھتے تھے آپ کو ہندو مذہبی دنیا میں” بحرالعلوم“ مانا جاتا ہے اور بنگال کی نشاةثانیہ کی جد امجد سمجھا جاتا ہے ۔آپ جدید ہندو مذہب کے مبلغ ،محرک، عالم، منتظم ، فلاسفر ، مترجم،مصلح اور ہمدرد مانے جاتے ہیں آپ ہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ برٹش انڈیانے سماجی مسائل کی طرف بھی توجہ کی اور 1854 ء Widow Remarriage Act آپ کی محنتوں کا ہی ثمر ہے۔ بیوہ کی شادی نہ ہونے کے نتیجے میں معاشر تی برائیاں جنم لے رہی تھیں اور عورت کی زبوں حالی بیان سے باہر تھی کیوں کہ معاشرہ بیوہ کو دو راستے دیتا تھا یا تو اس کو جل کر مر جانا ہوتا یعنی ”ستی“ کی رسم ادا کرنی ہوتی یا بال کٹوا کر زندگی کی تمام خوشیوں سے بے بہرا ہو جا نا ہوتا ۔ یہی وجہ تھی کہ عورتوں کی ایک بڑی تعداد تلاش معاش کے لیے ہر طرح کے کام کرتیں جس سے معاشرے میں بے راہ روی عام ہو رہی تھی ۔ (46)

”ستی “کی رسم پر پابندی

انیسویں صدی کو در پیش مسائل میں ایک بڑا مسئلہ ستی کی رسم کا بھی تھا ۔جس کو برٹش حکومت نے ختم کیا۔ مرد اور عورت کے مساویانہ حقوق کو واضح کیا ۔” ستی“ ایک رسم تھی جس کو عقیدے کی شکل دے دی گئی تھی۔ انیسویں صدی کی انقلابی سوچ کے ساتھ حکومتی سطح پر غور غوض کے بعد ر اجارام موہن رائے کی تحریک ”برہمو سماج “ کی کاوشوں کے نتیجے میں 1829 ءمیںAnti Sati Act نافذ کیا گیا ۔ جو کہ بہت بڑی کامیابی تھی مذہبی اقدار کے خلاف۔ لیکن یہ ہندو مذہب کا امتیاز ہی ہے کہ اس نے ان معاملات پر اصلاحی اقدام کو قبول کیا ۔فلم بینوں نے ستی کی رسم پر اصلاحی انداز میں لوگوں کو صحیح پیغام دینے کے لیے کئی فلمیں بنائیں جس کو بڑی حد تک پذیرائی بھی ملی ۔ (47)

Devadasi دیوداسی پر پابندی

”دیوداسی “دیو کی داسی یعنی پتنی یہ مذہبی رواج ہے کہ کم عمر لڑکیوں کو مندر میں بھگوان کے نام پر چھوڑدیا جاتا ہے یا ان کی شادی بھگوان سے کر وا دی جاتی ہے۔ ان لڑکیوں کو بھجن گانے اور ناچنے کے لیے رکھا جاتا تھا ان کا کام مندر کی صفائی اور وہاں کی تمام ذمے داریوں کو پورا کرنا ہوتا تھا یہ دیوداسی کا وہ روپ ہے جو کہ مذہبی حوالے سے بہت مقدس ہے ان لڑکیوں سے کوئی شادی نہیں کر سکتا تعلیم کی اجازت ان کو نہیں ہوتی ۔تصویر کا یہ رخ تو پھر بھی بہتر ہے مگر دیوداسی کی آڑ میں ان لڑکیوں کو اپنے استعمال میں بھی رکھا جاتا۔ بھارت کے بہت سے علاقوں میں آج بھی یہ رواج عام ہے۔معاشرتی مصلحین نے ان کے خلاف آواز اٹھائی ہے لیکن یہ مقدس عورتیں مانی جاتی ہیں ۔انیسویں صدی میں جہاں مختلف معاشرتی مسائل کا ذکر کیا گیا وہاں اس مسئلے پر بھی آواز اٹھائی گئی ۔کیونکہ اس رسم کا برا پہلو ایک یہ بھی تھا کہ ضعیفی اور بیماری میں ان کی کوئی پناہ گاہ نہیں ہوتی مختلف افراد سے رابطے میں رہنے کی وجہ سے اور صاف ستھرا ماحول نہ ملنے کی وجہ سے ان کو جان لیوا بیماریاں ہو جاتی ہیں ۔کوئی آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے پاس اپنے علاج کے لیے بھی کچھ نہیں ہوتا اور کیوں کہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے لہذا حکومت اس رواج کے خلاف کام کرتی رہتی ہے ۔مگر بھرپور کامیابی حاصل نہیں ہوسکی کرناٹک ،تامل ناڈو ،اڑیسہ ،آندھرا پردیش اور بہت سے علاقوں میں یہ دیوداسیاں موجود ہیں ۔جن کا کوئی مستقبل نہیں ہے ۔ Anti-Devadasi Act 14 August 1956جاری ہونے کے بعد بھی یہ رسم آج بھی ادا کی جاتی ہے فلم کاروں نے الیکٹرانک میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے اس موضوع پر کئی فلم بنائیں تا کہ لوگوں میں سمجھ پیدا کی جاسکے۔(48)

دوسری شادی کے لیے بنائے گئے قوانین اور ان کی اختراع

ہندو مذہب میں شوہر کے وصال کے بعد عورت کی زندگی میں دو ہی رنگ دیکھے جا سکتے تھے یا تو وہ عورت لال رنگ پہن کہ خود کو ستی کر دے یا سفید رنگ اوڑھ کر ساری زندگی گزار دے۔ ہندو رواج کے مطابق ہندو بیوہ کو دوسری شادی کی اجازت نہ تھی ۔ یہ قانون بیوہ ہو جانے والی عورت کی زندگی کے لیے ایک ناسور بن گیا تھا ۔ اس کا معاشرتی تعلق معاشرے سے ختم ہو جاتا ۔یہاں تک کہ بیواؤں کے لیے ایک علاقہ آبادی سے الگ بنادیا جاتا تاکہ وہ وہیں اپنی زندگی کے آخری دن گزاریں۔ یہ ایک اذیت ناک مرحلہ ہوتا جب بڑھاپے میں انھیں اپنے رشتے دارکی ضرورت ہوتی تو وہ میسر نہ ہوتے ۔یہاں تک کہ بیوہ کو اپنی ضروری حاجات کے لیے بھی طلوع صبح ہی فارغ ہونا پڑتا کیوں کہ اسے کسی مرد کے سامنے آنے کی اجازت نہ تھی ۔بیوہ کے بال کاٹ دیے جاتے ۔اور اسے مہندی چوڑی اور سیندور کو لگانے کی اجازت بھی نہ تھی ۔ وہ مسلسل سوگ کی زندگی گزارتی کسی تہوار کسی خوشی میں اس کی موجودگی کو اچھا نہ سمجھا جاتا۔کیوں کہ یہ معاشرہ یک زوجگی کا قائل تھا ۔اسلام سے اختلاط کے بعد عائلی قوانین میں تبدیلی کی ضرورت شدت سے محسوس کی گئی ۔یہی وجہ تھی کہ ہندو مذہبی قوانین میں گنجائش نکالی گئی۔اور برٹش حکومت نےPandit Ishwar Chandra Vidyasagar,کی تحریک کے پیشِ نظرWidow remarrige Act 1856 جاری کیا ۔اور اسی قانون کے سیکشن ۵کے تحت دوسری شادی کے ساتھ ساتھ وہ تمام حقوق بھی دیے گئے جو ایک نئے شادی شدہ جوڑے کو حاصل تھے یعنی قانون کے تحت اب بیوہ یا طلاق یافتہ عورتیں پر لطف زندگی گزار سکتی تھیں۔(49)

طلاق یا خلع یا علیحدگی کے لیے عائلی قوانین

ہندو مذہب معاشرتی زندگی گزارنے کے لیے” یک زوجگی“ کا تصور دیتا ہے۔اسی بنیاد پر عورت کو نہ تو دوسری شادی کا حق تھا نہ ہی وہ طلاق کا حق رکھتی تھی۔ برٹش حکومت نے مستحکم معاشرے کے قیام کے لیے نکاح ،طلاق ،مطلقہ یا بیوہ کی شادی جیسے مسائل پر نظر ثانی کی اور Divorce dedication with Hindu marrige Act 1955 جاری کیا جس میں مرد اور عورت کو برابری کی بنیاد پر نکاح کرنے اور طلاق دینے کے حقوق دیے گئے اور 1976ء میں اس کی دوبارہ توسیع کی گئی ۔(50)

کم عمری کی شادی

کم سنی کی شادی عام تھی اور اس رسم کو ”بال ویواھ “کہتے ہیں ۔اسی رسم کے پیشِ نظر عورتوں کو تعلیم سے نہیں بلکہ گھریلو کام کاج کے طریقوں سے بہرہ مند کیا جاتا تھا۔ لہٰذا لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی تھی ۔اس شادی میں ان کی مرضی کا کوئی عمل دخل نہ ہوتا نو، دس سال کی عمر میں لڑکی کے والدین کو یہ اختیار تھا کہ وہ اپنے بچوں کی شادی کر دیں ۔برٹش گورنمنٹ نے بچوں کو اس روایات سے بچانے دور رکھنے اور ان کی تعلیم اور تربیت پر صحیح توجہ دینے کے لیے شادی کی عمر Child Marrige Act 1929 کے تحت کم سے کم 15مقرر کی اور1978ء میں اس کی دوبارہ توسیع ہوئی اور 18 سال عمر مقرر کی گئی۔یہ قانون بلا تفریق ہر ذات کے ہندوؤں پہ لاگو ہوا۔ (51)

وراثت میں حصہ کے لیے بنائے گئے قوانین اور ان کا اختراع

ہندو اصول و اقدار میں عورت کے پاس وراثت میں حصہ نہیں ہوتا تھا اور بیٹا بلا شرکت غیرے ہرچیز کا وارث ہوتا تھا۔ لڑکیاں اور عورتیں اس سے مستثنیٰ ہوتیں مگر تعلیم کے ساتھ ساتھ شعور بیدار ہوا اور ہندو عورت نے اپنے حق کی آواز بلند کی لہذا Equal Rights act for daughter and son 1936 میں نافذ کیا گیا اور Hindu womens Rights in property Act 1937 میں نافذ کیا گیاTHE HINDU SUCCESSION ACT OF 1956 اب وہ قانونی طور پر جائیداد میں حصے دار بھی ہے۔اورجائیداد کی خرید و فروخت اور گروی رکھنے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔(52)

پیشہ ورانہ زنا کی ممانعت کا قانون

بھارت women-trafficing کے حوالے سے اخلاقی پستی کا شکار ہے ۔اس کی ایک واضح وجہ ہندو مذہب میں دیوداسی کاایک ایسا کردار ہے جس میں لوگ اپنی بیٹیوں کو مندروں کو دان کر دیتے ہیں اور وہ مقدس مانی جاتی ہیں ۔اور مقدس ذات کی خدمت میں رہتی ہیں ان کی شادیاں نہیں کی جاتیں ۔وہ بھگوان کے نام پر چھوڑی جانے والی لڑکیاں ہوتی ہیں مگر یہ معاشرتی بگاڑ کا سبب بھی ثابت ہوئیں۔اس کی بگڑی ہوئی شکل انگریز سامراجیت میں زیادہ نظر آئی کیونکہ یہی وہ دور تھا جب غلام کو خریدا اوربیچا جا رہا تھا ۔مسلم بادشاہوں نے طوائفوں کا رواج عام کیا یوںایک کالونی بنائی گئی جو آج بھی موجود ہے 1956 میں women trafficing Act نافذ کیا اور ان تمام عورتوں کو باعزت روزگار کے نئے مواقع دیے گئے ۔(53)

جہیز کی ممانعت کا قانون

جہیز دارصل وہ تحفہ ہے جو شادی کے وقت لڑکی کے والدین اپنی بیٹی کو دیتے ہیں ۔مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ لازمی امر قرار دے دیا گیا۔شادی کے لیے لڑکی کے والدین گھریلو اشیائ، لڑکی اور لڑکے کے لیے ضروری سامان سے لے کر گھر،گاڑی جائیداد تک دینے لگے جس میں لڑکی کے ماں باپ کی مرضی اور خوشی سے زیادہ مطالبے نے لے لی جبکہ جہیز نہ لانے والی لڑکی کو تشدد کا نشانہ بنایا جانے لگا۔یہ معاملہ سنگین شکل اختیار کر گیا ۔ اس رسم کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے جہیز کی قطعی ممانعت کا قانونSection 304B and 498A indian penal code 1961 Act کے تحت وضع کیے گئے۔ جس میں جہیز دینے اور لینے والوں کو متنبہ کیا گیا اور سزا کم سے کم ۵سال قیداور پندرہ ہزار انڈین روپے جرمانہ رکھا گیا۔(54)

عالمی تغیرات کے بعد پیدا ہونے والی تبدیلیوں میں ایک بڑی تبدیلی عالمی سطح پر حقوقِ نسواں کی آواز کا بلند ہونا بھی ہے ۔جدوجہد کے ایک طویل دور کے بعد عورت نے قانونی سطح میں تعلیم کا حق ، ملازمت کے مواقع ،جائیداد کی خرید و فرخت کا حق ،وصیت اور وراثت کے آزادانہ اور مساویانہ حقوق حاصل کیے ۔جیسا کہ کوئی بھی انقلاب یا تغیر کسی بھی ایک سطح کے لیے منجمد نہیں ہوتا۔ اس کے اثرات دور رس ہوتے ہیں۔ ہندوستان کی سر زمین بھی اس شعوری بیداری سے دور نہ رہ سکی ۔سب سے پہلا محرک گو کہ اسلام کی تعلیمات ہی ہوئیں جس نے مساویانہ حقوق و فرائض کا زاویہءنگاہ متعارف کروایا ورنہ ہندو مذہب ذات پات کی تقسیم کا قائل تھا ۔اکبر کے دور میں معاملہ فہمی اور دور اندیشی کی بدولت معاشرہ سخت مذہبی جکڑ بندیوں سے آزاد ہوا مصلحین،دانشوروں ،اور مذہبی فلاسفر وں نے ہر سطح پر اپنا بہترین کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں موجودہ بھارت میں اکثریت میں عورت اور مرد جدید قوانین کے تحت اپنی زندگی کے مراحل طے کر رہے ہیں۔آج وہ طبیبہ ہے ،استاد ہے، سائنس دان ہے ،کمپیو ٹر کی دنیا میں اس کا ایک الگ مقام ہے۔فلاسفر ہے، رائٹر ہے فوج میں، ملکی امور میں، کھیل کے میدان میں یہاں تک کہ خلا پر بھی اپنے قدم پہنچا چکی ہے ۔ (55)

یہ کامیابی یہ مقام جو آج ہندو عورت کا نصیب ہے یہ کئی صدیوں کی کاوشوں کا ثمر ہے۔بہت سے علاقوں میں اس اکیسویں صدی میں بھی وہی قدیم قوانین رائج ہیں مگر قانونی سطح پر بڑی بڑی تبدیلیوں کو اس معاشرے نے قبول کیا اور جدیدیت سے ہم آہنگ ہوئے معاشرے کی ترقی کی ضمانت تبدیلی اور تحریک ہے جب معاشروں میں یہ دونوں عمل نہ قبول کیے جائیں وہاں معاشرہ تعفن کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور زوال اس کا مقدر ہوتا ہے ۔

 

حوالہ جات

Entry, "Rousseau" in the Routelege Encyclopedia of Philosophy, Edward Craig, editor, :1 Volume Eight, p. 371
Tuana,Nancy,"The Less Noble Sex",Scientific,Religious and Philosophical Conceptions :2 of Women's Nature, Indiana University Press,(1993), Pg: 161.
Dr.Sukhbir Singh Kapoor , Mrs.Mohinder Kaur Kapoor,HIANDUISM (An Introduction:3 History,Scriptures,Prayers and Philosophy) Hemkunt Publishers Pvt.Ltd. New Delhi, 2005page:60
W. H. Moreland and A. C. Chatterjee, A Short History of India (London, 1945), p. 193
Richards, James (1995). The Mughal Empire. Cambridge University Press.p. 7315074 .
The Social Contract and Other Later Political Writings, Victor Gourevitch :6 (ed. and trans.),Cambridge: Cambridge University Press, 1997 
القران،آل عمران؍سورۃ3؍آیت195
حمد حسین ھیکل ، مترجم ابو یحییٰ امام خان ،حیاتِ محمد، ملک فیض بخش ادارہ ثقافت اسلامیہ کلب روڈ لاہور، 1987،صفحہ618-620
Dr.Sukhbir Singh Kapoor , Mrs.Mohinder Kaur Kapoor,HIANDUISM (An Introduction History, Scriptures, Prayers and Philosophy) Hemkunt Publishers Pvt.Ltd. New Delhi, 2005page:60

http://humanists.net/avijit/article/women_in_hindu_purans.htm http://www.irfi.org/articles/articles_1751_1800/women%20in%20hinduismhtml.htm

10۔ Ralph T.H. Griffith, The Rig Veda, 1896 Publisher, forgotten books page

https://en.wikisource.org/wiki/The_Rig_Veda/Mandala_8/Hymn_33

11۔ https://www.amazon.com/Rig-Veda-Complete-Forgotten-Books/dp/1605065803 translated by F. Max Muller, Julius Eggeling,The Satapatha Brahmana, Part V,Sacred

Books of the East, Vol. 44, Motilal Banarsidass (January 1, 2009), Pg: 44http://www.sacred-texts.com/hin/sbr/sbe44/sbe44117.htm

12۔ Georg Buhler , F. Max Muller ,The Laws of Manu (Sacred Books of the East Vol. 25)(English and Hindi Edition), Motilal Banarsidass January 1, 2001http://www.sacred-texts.com/hin/sbr/sbe44/sbe44117.htmhttp://www.sacred-texts.com/hin/manu/manu09.htm
13۔ Rajaram Gupta,Manusmriti (Hindi),Pustak Mahal 2013,Pg: 112

http://nirmukta.com/2011/08/27/the-status-of-women-as-depicted-by-manu-in-the-manusmriti/

14۔ Peter Gottschalk ,Religion, Science, and Empire: Classifying Hinduism and Islam in British India 1st Edition,Oxford University Press;December 4, 2012 Pg:16
15۔ القران،النساء،؍سورۃ4؍آیت7
16۔ القران،النساء؍سورۃ4؍آیت11
17۔ القران،المائدہ؍سورۃ5؍آیت106
18۔ القران،النساء؍4؍19
19۔ القران،النساء؍4؍19
20۔ القران،النساء ؍4؍3
21۔ باب النکاح،(صحیح البخاری،باب النکاح:6968) chap 11 Sahih al-Bukhari ,6968, Book 90, Hadith 15 
22۔ القران،الطلاق:25
23۔ البقرہ:234
24۔ مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ،غلام رسول،علمی کتب خانہ پبلشر اردو بازار لاہور،صفحہ213-218
25۔ مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ،غلام رسول،علمی کتب خانہ پبلشر اردو بازار لاہور،صفحہ196
26۔ ایضاً
27۔ Wilbur, Marguerite Eyer (1945). The East India Company: And the British Empire in the Far East. Stanford, Cal.: Stanford University Press. p. 18
28۔ "Babur (Mughal emperor)". Encyclop 230 dia Britannica. Retrieved 29 August 2016
29۔ ۔29Muzaffar Alam,State Building under the Mughals: Religion,Culture and Politics,Dat of publication: 1 octobre 1997,Publisher Editions De BoccardPg:107-110
30۔ Claude Markovits (2004). A History of Modern India, 1480-1950. Anthem Press. p 5715058. , Mary Storm (2015). Head and Heart: Valour and Self-Sacrifice in the Art of India. Taylor & Francis. p. 311.
31۔ Lindsey Harlan (1992). Religion and Rajput Women: The Ethic of Protection in Contemporary Narratives. University of California Press. pp. 160
32۔  
33۔ John Merci, Kim Smith; James Leuck (1922). "Muslim conquest and the Rajputs".The Medieval History of India pg 67-115
34۔ ایضاً
35۔ ایضاً
36۔ "Rajput". Encyclop230dia Britannica. Retrieved 27 November 2010.
37۔ Habib, Irfan (1997). Akbar and His India. New Delhi: Oxford University Press. 17 February 2000 Pg: 96
38۔ Chua, Amy (2007). Day of Empire: How Hyperpowers Rise to Global Dominance--and Why They Fall. Doubleday.Pg 30-32
39۔ Ali, M. Athar (2006). Mughal India: Studies in Polity, Ideas, Society and Culture. Oxford University Press, Pg:163150164
40۔ Kenneth W. Jones "Socio-Religious Reform Movements in British India" publ. 1989Cambridge Univ. Press, page 33-34
41۔ J. N. Farquhar, Modern Religious Movements of India, (1915), p. 29
42۔ ۔42J.N. Farquhar, Modren Religious Movments in India Munshi Lal Manohar Lal, 1977, p 74-75,

http://www.philtar.ac.uk/encyclopedia/hindu/devot/prarth.html

43۔ J.N. Farquhar, Modren Religious Movments in India Munshi Lal Manohar Lal, 1977, p 75-76
44۔ J.N. Farquhar, Modren Religious Movments in India Munshi Lal Manohar Lal, 1977, p74-80
45۔ J.N. Farquhar, Modren Religious Movments in India Munshi Lal Manohar Lal, 1977, p24-30
46۔ Carroll, Lucy (2008). "Law, Custom, and Statutory Social Reform: The Hindu Widows' Remarriage Act of 1856". In Sumit Sarkar, Tanika Sarkar (editors). Women and social reform in modern India: a reader. Indiana University Press. p.78 Lal, Mohan (2006). "Ishwarchandra Vidyasagar". The Encyclopaedia of Indian Literature. Sahitya Akademi. pp. 45671504569., Bagal, Jogesh Chandra, History of the Bethune School and College (1849-1949) in Bethune College and School Centenary Volume, edited by Dr. Kalidas Nag, 1949, p33
47۔ Sophie Gilmartin (1997),The Sati, the Bride, and the Widow: Sacrificial Woman in theNineteenth Century, Victorian Literature and Culture, Cambridge University Press, Vol. 25, No. 1, page 141,The Commission of Sati (Prevention) Act, 1987 at Ministry of Women and Child Development
48۔ Davesh Soneji (2012). Unfinished Gestures: Devadasis, Memory, and Modernity in South India. University of Chicago Press. p. 110,Crooke, W., Prostitution, Encyclopaedia of Religion and Ethics, Vol. X, Eds., James Hastings and Clark Edinburg, Second Impression, 1930.Jump up Iyer, L.A.K, Devadasis in South India: Their Traditional Origin And Development, Man in India, Vol.7, No. 47, 1927.Jump up V.Jayaram. "Hinduism and prostitution". Hinduwebsite.com. Retrieved 28 April 2013.

https://en.wikipedia.org/wiki/Devadasi#cite_note-1

49۔ Carroll, Lucy (2008). "Law, Custom, and Statutory Social Reform: The Hindu Widows' Remarriage Act of 1856". In Sumit Sarkar, Tanika Sarkar (editors). Women and social reform in modern India: a reader. Indiana University Press. p. 78.
50۔ "In Fact: Between void and voidable, scope for greater protection for girl child"
51۔ B.S. Chandrababu & L. Thilagavathi. Woman, Her History and Her Struggle for Emancipation. Bharathi Puthakalayam. Pg 260-261
52۔ Ayushi Singhal,Right to Property of Hindu Women, March 19, 2015, Pg 115
53۔ https://en.wikipedia.org/wiki/Prostitution_in_India#cite_note-34 https://web.archive.org/web/20081006062502/http://socialwelfare.delh igovt.nic.in/immoraltraffact.htm
54۔ Paras Diwan and Peeyushi Diwan (1997). Law Relating to Dowry, Dowry Deaths, Bride Burning, Rape, and Related Offences. Delhi: Universal Law Pub. Co. p. 10. Manchandia, Purna (2005). "Practical Steps towards Eliminating Dowry and Bride-Burning in India". Tul. J. Int'l & Comp. L. 13: 305150319.Anjana Maitra-Sinha, Women in Changing Society, Ashish Publishing house Panjabi Bagh New Delhi, p.3-6
55۔ Iyer, L.A.K, Devadasis in South India: Their Traditional Origin And Development, Man in India, Vol.7, No. 47, 1927.

https://www.hinduwebsite.com/hinduism/h_prostitution.asp

"Donors, Devotees, and Daughters of God: Temple Women in Medieval Tamilnadu - Reviews in History". History.ac.uk. Retrieved 20 November 2018.

 

حوالہ جات

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...