Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 33 Issue 1 of Al-Tafseer

عصر حاضر میں آرائش انسانی کے جدید سائنسی انقلابات اور اسلامی نقطۂ نظر |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

33

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060084478_951

Pages

120-136

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/83

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

 

اﷲرب العزت کی تخلیق کی ہوئی اس پرکشش اور رنگین دنیا میں جہاں نظر اٹھایئے ہر شے کامل اورحسین دکھائی دیتی ہے۔قدرت کی صناعی کوجو تخلیق مکمل کرتی ہے وہ انسان ہے جسے ’اشرف المخلوقات‘ کا درجہ دے کر اﷲ رب العزت نےافضل قرار دے دیا ۔ پھر اس کو غورو فکر کی دعوت دیتے ہوئے مشاہدے اور تجربات کی روشنی میں کائنات کو مسخر کرنے کا حکم روزاول سے اپنے بندوں کواسی لیے فرمایاتاکہ ہم اس کے ذریعے کائنات خداوندی کی باریک سے باریک تخلیقات کو جانتے ہوئے ان سے بھرپور فائدہ اٹھاسکیں۔

دنیاوی رنگینیوں میں دلکشی کا پایا جانا ہی انسان کی آزمائش کا راز ہے۔اس حسین کائنات میں ہرسو اﷲ رب العزت کی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ اللہ نے جو چیزیں انسان کو عطا کی ہیں انھیں بڑی خوبصورتی سے تخلیق کیا ہے ۔ اس دنیا کی ایک ایک شے سے اللہ کی تخلیق کی عظمت ٹپکتی ہے۔ ساتھ ہی یہ تمام تخلیقات اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے اور جنت کاحصول کا ذریعہ ہیں۔ اس لیے انسان کو ان انعاماتِ خداوندی سے لطف اندوز ہوتے وقت اپنا یہ اہم مقصد کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ہم جانتے ہیں کہ عقل ہی علم سے واقفیت کرواتی ہے اور رب کی رضا تک پہنچاتی ہے۔ ارشاد ہوتاہے:

قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ؕ اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ ([1])

”آپ فرما دیجیے کہ کیا علم والے اور بے علم کہیں برابر ہوتے ہیں ۔“

یعنی علم والوں کو بے علموں پر فضیلت حاصل ہے اور نصیحت بھی وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہوتے ہیں۔ علم ہی تاریکیوں میں روشنی کی شمع جلاتا ہے ۔علم ہی بھٹکے ہوﺅںکو راہ دکھلاتا ہے۔اور یہی علم انسان کو اوج ِ ثریا تک پہنچاتاہے۔ گویا یہ علم انسان میں حکمت اوردانائی کے ایسے اوصاف ِ حمیدہ پیدا کرتاہے کہ اس کی دنیا و آخرت کے لیے یہ علم نفع کا سامان بن جاتا ہے۔ وقت اپنے ساتھ حیرت انگیز مشاہدوں اور تجربات کی صورت میں جدیدیت اور منفرد ایجادات لے کر بدلتا رہتا ہے ۔صدی جب کروٹ بدلتی ہے تو ایک ’ممکن‘ کو ’حقیقت‘ کا روپ مل چکا ہوتا ہے۔پچھلی نسل جس ترقی کی خواہش کرتی تھی موجودہ نسل اسے کئی منزلیں پیچھے چھوڑ چکی ہے([2]) طبیعیات، نباتات،فلکیات ،حیاتیات،سرجری، آلات خواہ کوئی بھی سائنسی شاخ ہو، وہ چیزیں جن کے متعلق 50 یا 100 سال پہلے سوچنا بھی محال تھا وہ سب ممکن ہوچکا ہے اور ساتھ ہی ہمیں غور کی دعوت دے رہا ہے ۔ متعدد سائنسی حقیقتیں جو آج منظرِ عام پر آئی ہیں قرآن نے 1433 سال پہلے ان کا اعلان کردیا تھا۔ارشاد ہوتا ہے:

وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ ([3])

”ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی (جسے صراحتہََ یا کناےتہ بیان نہ کردیا ہو)“

گویا اس کائنات کے ظہور پذیر ہونے اور اس کے بعد رونما ہونے والے ہر اسرارِ کائنات اور مظہرِ خداوندی سے متعلق تمام باریکیوں کا ذکر شریعت ِاسلامیہ نے قرآن و حدیث میں کسی نہ کسی زاویے سے کرڈالا ہے ۔ تمام معاملاتِ زندگی اس کے ارد گرد گھومتے نظر آتے ہیں ۔ مذہب نے قدرت کے رازوں پر غور و فکر کی دعوت دی ہے اور تما م سائنسی ایجادات و انقلابات اس کی عملی شکل ہیں۔مذہب اور سائنس میں عدم تضاد کی اہم وجہ یہ ہے کہ دونوں کی بنیادیں ہی جدا جدا ہیں۔ درحقیقت سائنس کا موضوع ’علم‘ ہے جبکہ مذہب کا موضوع’ایمان‘ہے۔ علم ایک ظنی شے ہے،اسی بنا پر اس میں غلطی کا امکان پایا جاتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف ایمان کی بنیاد ظن کی بجائے یقین پر ہے ، اس لیے اس میں خطا کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ([4])

نبی کریم ﷺ کی آمد کے بعد علم ، تدبر اور تفکرکے ایک عظیم باب کا آغاز ہوا اور قرآنِ پاک کی بدولت غورو فکر کے نئے دروازے انسانیت کے لیے کھلے جس نے انسان کی تخلیق ،کائنات کا نظام اور اس کے حقائق کو عقل کی منزلوں پر پرکھنے کی طرف متوجہ کیا۔ آغازِ حیات کاجو فکر و فلسفہ مذہبِ اسلام نے دیا اس نے تحقیق اور فکر کے نئے در وا کیے۔ چونکہ اﷲ رب جلیل نے انسانی تخلیق میں آغاز حیات جینسس GENESIS کے بہترین عناصر ہی استعمال کیے ہیں اس لیے جسمانی طور پربھی انسان بہترین ساخت کا حامل ہے ۔ عمومی طور پر جینیسس GENESIS کا یہ نظام اﷲکے نظام کی خصوصات کا پرتو ہے یعنی اﷲ کی پاک خصوصیات نظر آنے والی چیزوں میں نا قابل ِ فہم طریقے سے ظاہر ہوتی ہیں۔ تخلیق کے اس نظام میں تخلیق کی ہم آہنگی اور ترتیب میں اﷲ خوبصورتی اور حسن کو جیسے تخلیق کرتا ہے اس لحاظ سے انسان میں تو یہ حسن سب مخلوق سے زیادہ ودیعت کیا گیا ہے۔([5])

مستشرقین نےاسلام پر جو اعتراضات اٹھائے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ مذہب کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں اور اسی نظریے کی ترویج کے ذریعے انھوں نے مغربیت کو فروغ دیا۔ مادیت پرست عناصر سائنس کے شعبے میں اپنی شکست پر پردہ ڈالنے کے لئے پروپیگنڈے کے ہتھکنڈوں سے کام لینے لگتے ہیں،اس سلسلے میں ان کا پرانا پروپیگنڈا یہ ہے کہ ”سائنس مذہب سے متصادم ہے“۔ یہ جملہ ان کی مطبوعات میں اکثر دہرایا جاتا ہے ۔ اس خیال کو تقویت پہنچانے کے لیے کئی کہانیاں گھڑی گئی ہیں ۔ تاہم سائنس کی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے اس دعوے کا جھوٹ واضح ہوجاتاہے۔([6])

آج کا دور سائنسی عروج کا دور ہے ۔جس کا ماضی، حال اورمستقبل سائنسی انقلابات سے بھرا پڑا ہے۔ ترقی کی یہ منازل طے کرتا ہوا انسان کامیابی و ناکامی کے نشیب و فراز سے گزرتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے ۔مسلمان مفکرین اورمحققین آج بھی اسی تلاش میں سرگرداں ہیں کہ یہ ترقی وتبدیلی اسلامی شرعی قوانین کے خلاف نہ ہو اور ہر ترقی اور جدت کو اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تاکہ دینوی و دنیاوی دونوں فائدےحاصل ہوسکیں۔اسلامی شریعت ایک Universal Codeہے اور اس میں ایک خاصیت اور لچک موجود ہے جو انسان کو جدت طرازی کے ساتھ آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کو حدود وقیود اور ضابطوں کی پابندی بھی سکھاتاہے ۔ دور جدید میں زیب و آرائش کے حوالے سے جو ترقی ہوئی ہے وہ اپنے اندر حلت و حرمت سے متعلق سے کئی سوالوں کو جنم دیتی ہے اسلامی شریعت کی روشنی میں اس حوالے سے مزید تحقیق اورتجربوں کی ضرورت ہے ۔ تاکہ رب کی عطا کردہ نعمتوں سے شرعی حدود میں رہ کر استفادہ کیا جاسکے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتُهَا ۚ وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰی ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ([7])

”اور جو چیز تم کو دی گئی ہے وہ دنیا کی زندگی کا فائدہ اور اس کی زینت ہے۔ اور جو اﷲکے پاس ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔ کیا تم سمجھتے نہیں؟“

یہاں انسان کو دنیا کی زندگی پر آخرت کی زندگی کو ترجیح دینے کی بات کی گئی ہے۔ یعنی اللہ رب العزت نے جو نعمتیں اور فائدے دنیا میں ہم کو عطا کیے ہیں وہ فانی ہیں ایک دن ختم ہو جائیں گے اور جو زندگی ہمارے لیے آخرت میں رکھی ہے اس کے فائدےبے شمار اور کبھی نہ ختم ہونے والے ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اس دنیا کو برتنا چھوڑ دیں ،دنیا میں رہتے ہوئے اس کی تمام نعمتوں کو بروئے کار لائیں اور اللہ کے آفاقی پیغام کو سمجھتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہوں ۔ اپنے ایمان کو عقل اور فکر سے شناسا کرواکے اس عظیم علمی متاع کو محفوظ کرسکیں۔ ہمار ے گردو پیش کا ماحول اور وہ کائنات جس میں ہم رہتے ہیں نشاناتِ تخلیق سے بھری پڑی ہے مچھر کی اندرونی ساخت میں کارفرما نظام ، مور کے پروں پر فنکارانہ نقش ونگار،آنکھوں جیسی پیچیدہ ساخت اور ان کا حسنِ کارکردگی اور زندگی کی کروڑوں دیگر اشکال ، وجودِ خداوندی کے واضح اور روشن ترین نشانات ہیں ۔ ([8]) غرض یہ کہ ہرشے انسان کو ایک نئے تجربے اور نئے مشاہدے کی دعوت دیتی نظر آتی ہے۔تاکہ انسان ان پر غور و فکر کرکے کائنات کو مسخر کرے اور اوج ثریا تک جا پہنچے۔

یہ قرآن کا اعجازہے کہ قرآن مجید اور جدید سائنس کی ثابت شدہ حقیقتوں میں زبردست مطابقت پائی جاتی ہے ۔ساتھ ہی جدید سائنسی ترقی نے بالخصوص سرجری، جنس کی تبدیلی ،لیزر اور نقوش کی تبدیلی کی فیلڈ میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کی ہیں جو اسلامی قوانین اور اصول و ضوابط کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دیتی ہیں۔لہٰذا جدیدعصری تقاضوں کے پیشِ نظر بننے سنورنے کی خواہشات کو اس طرح پورا کرنا کہ جاذبِ نظر دکھنے کی تمنا بھی پوری ہوجائے اور دین کے بتائے ہوئے اصول وضوابط سے بھی تجاوزنہ ہو۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب جدید سائنسی ایجادات اور علاج کا درست علم ہو اور پھر اس علم کی افادیت کو شریعت کی روشنی میں پرکھا جائے تاکہ اس کے فوائد اور نقصانات سے آگاہی ہو سکے۔لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں ہے اس لیے کہ عام انسان کی پہنچ اور شعور اتنا بلند نہیں ہوتا کہ وہ تما م باریکیوں کو بخوبی سمجھ سکے اور یہ جان سکے کہ اس کے حق میں کیا اچھا ہے اور کیا برا۔یہ محققین اور مفکرین کا کام ہوتا ہے کہ نئے نئے مفروضات،تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں ان تمام نئی سائنسی ترقی اور ایجادات کا جائزہ لیں اور پھران مشاہدات سے حاصل ہونے والے معانی و مفاہم کو دینی امور کی روشنی میں پرکھیں ۔تجربات اور مشاہدات کا سلسلہ جاری ہے تاہم کچھ سوالات اور مسائل کے حل کی تشنگی ابھی باقی ہے جیسے:* کیا سائنس اوراسلام ایک دوسرے کے متضاد ہیں ؟

  • کیا تغیر خلق اللہ کی دین میں اجازت ہے اور اگر ہے تو اس کی حدودو قیود کیا ہیں ؟
  • آرائشِ انسانی کے سلسلے میں دینی احکامات کیا کہتے ہیں؟
  • اگر ان حدود سے تجاوز کیا جائے تو اس کے معاشرے پر انفرادی اور اجتماعی کیااثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟
  • جدیدزیب و آرائش کیا ہے اور اس کے طریقے کیاہیں ؟
  • آرائشِ انسانی کے ان طریقوں کو جدید سائنس نے کس طرح نیا رنگ دیاہے اور اس کے فائدے اور نقصانات کیاہیں؟

ان تمام سوالات کے جوابات کا اسلامی نقطہ نظر جاننا اور پھر اس کی عوام الناس میں آگاہی تب ہی ممکن ہے جب تمام مفکرین اور محققین نئے تجربات اور مشاہدات کو اسلامی قوانین کی روشنی میں پرکھیں ۔ جس طرح ہر خیر کے ساتھ شر ہے اسی طرح ہر نفع کے ساتھ نقصان ہے۔ کوئی بھی معاشرہ زندگی گزارنے کے تمام امور میں توازن اور تناسب برقرار رکھ کر ہی کامیاب معاشرہ قرار پاتا ہے۔ قوموں کی ترقی کا راز جدید یت کے ساتھ انسان کے اندر جدت پسندی ایک فطری جذبہ ہے جو اگر وقت کے ساتھ ساتھ نہ پنپتا تو انسان قدیم دورہی میں سانسیں لے رہا ہوتا۔ جدید سائنس نے قدیم طریقوں کو نئے اصولوں اور رنگوں سے روشناس کرواتا ہے۔جن میں سب سے زیادہ ترقی سرجری اور سرجری میں بھی پلاسٹک سرجری یا کاسمیٹک سرجری میں ہوئی ہے۔اب بھی مشاہدات اور تجربات کا سلسلہ جاری ہے اور آنے والا ہر دن ایک نئی ایجاد کو جنم دیتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان خواہشات کی تکمیل میں کہیں شرعی قوانین کی خلاف ورزی نہ ہونے پائے کیونکہ بے شک تجمل ےعنی جمال اللہ کو پسند ہے لیکن وہ جمال جو اللہ سے نزدیک کردے نہ کہ وہ خوبصورتی جو اللہ سے دور کردے اور اس کی ناراضگی کا سبب بنے۔ حلال اور حرام کی تمیز ختم کردے وہ انسان کے لیے زہرِ قاتل ہے۔

”یقینااﷲ تعالیٰ اپنے بندے پر اپنی نعمت کے اثر کو دیکھنا پسند فرماتا ہے۔“ ([9])

یہ شکر کا ایک انداز ہے کہ بندہ اﷲ کی دی ہوئی نعمتوں کا کھل کر اظہار کرے کیونکہ شکر بھی خوبصورتی کی ایک قسم ہے جو انسان کا باطن خوبصورت بناتی ہے۔ہر وہ زیب و زینت جو اﷲ نے اتاری ہے اس کا اظہار کرنا اس کو پسند ہے۔ حدیث پاک سے اس کی وضاحت ہوجاتی ہے:

” ابو الا حوص جشمیؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے مجھے پھٹے پرانے لباس میں دیکھاتوفرمانے لگے کیا تیرے پاس کوئی مال ہے تو میں نے جواب دیا اﷲ تعالیٰ نے مجھے اونٹ اور بکریاں بکریاں وغیرہ دی ہیں تو نبی ﷺ فرمانے لگے ، جس وقت اﷲ تعالیٰ تجھے کوئی مال دے اﷲ تعالیٰ کی نعمت کا اثر اور اس کی کرامت کا نشان تجھ پر نظرآنا چاہیے ۔“ ([10])

مذکورہ حدیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو ظاہری اور باطنی دونوں جمال پسند ہیں۔ لیکن اس کے ا ظہار کا طریقہ بھی وہی ہونا چاہیے جو شریعت کی رو سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ہو۔ حدوں سے آگے بڑھنا انسان کے اپنے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ۔

اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں روایت ہے کہ:

”ایک صحابی حضرت عرفجہ بن ا سعدرضی اللہ عنہ کی زمانہ جاہلیت میں جنگ کلاب میں ناک کٹ گئی تو انھوں نے چاندی کی ناک لگوائی تو اس سے کچھ عرصے بعد بدبو آنے لگی آپ ﷺ نےانھیں سونے کی ناک لگوانے کا حکم اور اجازت دی تو انھوں نے سونے کی ناک لگوالی۔“ ([11])

سونااگرچہ مردکے لیے حرام ہے لیکن آپﷺ نے شدید ضرورت کے پیشِ نظر اس کی اجازت دی۔ اسی ضمن میں حماد بن ابی سلیمان کہتے ہیں :”میں نے مغیرہ بن عبد اﷲ کو دیکھا ، انھوں نے اپنے دانت سونے کے تار کے ساتھ باندھے ہوئے تھے ، یہ بات ابراہیم نخعی ؒ سے ذکر ہوئی تو انھوں نے کہا ’اس میں کوئی حرج نہیں ‘۔“([12])

مذکورہ حدیث ہی کی بنیاد پر علمانے سونے کی ناک، سونے کا دانت لگوانا جائز قرار دیا۔گویا ضرورت کے وقت ایسی چیز مباح ہو جاتی ہے جو عام طور پر ناجائز و حرام ہوتی ہے ۔جسم کے کسی حصے کا کٹ جانا یا ٹوٹ جانا مصنوعی اعضایا دانت وغیرہ کا ٹوٹ جانا جو انسان کی ضرورت اور حاجت ہوتے ہیں ان کا لگوانا جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کے ساتھ اس کا علاج بھی پیدا فرمایا ہے۔ جب کسی طور جائزاور حلال اسباب سے بیماری کا حل یا علاج نہ نکل سکے تو معالج کے لیے یہ ناگزیر ہوجاتا ہے کہ وہ مریض کو بچانے کے لیے کوئی بھی طریقہ استعمال کرے یہی عمل شریعت میں رخصت کہلاتاہے ۔ غرض یہ کہ قرآن پاک اور سنت نبوی ﷺ کی پیروی میں ہمیں تمام مسائل کا حل مل جاتا ہے ۔ یہی وہ سیدھی راہ ہے جو قرآن پاک ہمیں دکھاتا ہے۔چنانچہ ارشاد ہوتاہے کہ:

اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ یَهْدِیْ لِلَّتِیْ ([13])

”حقیقت یہ ہے کہ قرآن وہ راہ دکھاتاہے جو بالکل سیدھی ہے۔“

جب راہ متعین ہوگئی تو کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ مذہب سائنس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور جو لوگ سائنسی تحقیق کے لیے عقل و شعورکو استعمال میں لاتے ہیں ان کا ایمان مزید پختہ ہوجاتا ہے کیونکہ وہ خدا کی نشانیوں کو زیادہ قریب سے دیکھتے ہیں ۔ اس لیے کہ وہ اپنی جستجو اور تحقیق کے ہر قدم پر ایک بے خطا اور کامل ترین نظام کو نہایت قریب پاتے ہیں ۔ ہرہر لمحے ان پر لطیف سے لطیف تر نکات منکشف ہوتے چلے جاتے ہیں ۔([14])

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ضرورت کی بنا پرحرام چیز بھی مباح ہوجاتی ہے اور ان ضرورت اور حاجات میں انفرادی اور اجتماعی حاجات دونوں شامل ہیں تاکہ کسی بھی مشقت سے بچا جاسکے۔ سائنسی انقلابات کے اس جدید دور میں کاسمیٹک سرجری نے بھی محققین اور مفکرین کے لیے غورو فکر کا ایک وسیع سمندر سامنے کھڑا کردیا ہے جو ہر نئے دن کے ساتھ ایک نئی سرجری ایک نئے طریقہ علاج کی شکل میں ہزاروں سوال کھڑے کرتا جارہا ہے۔ ہمیں ہماری آنے والی نسلوں کے ایمان ،اعتقاد اور یقین کو مضبوط کرنے کے لیے ان سوالوں کے جوابات فقہ اسلامی کی روشنی میں ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ کون سا طریقہ علاج ضرورت ہے اور کونسانہیں ، شریعت میں طبی اخلاقیات کیا ہیں اور ان کے کیا حدودوضوابط ہیں ؟

جس طرح بھوک کے وقت اگر جان جانے کا اندیشہ ہو تو حرام کھانا بھی جائز ہو جاتا ہے اسی طرح اگر جسم کا کوئی حصہ ضائع ہوجائے تو اس کا متبادل ڈھونڈ ھ کر علاج کروانا بھی ضرورت میں شامل ہوجاتا ہے۔ اسے عمل جراحی (Surgery)کہتے ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جراحی کے شعبے میں نت نئی تبدیلیاں ہوتی آئی ہیں ۔پلاسٹک سرجری یعنی اصلاحی عمل جراحی وجود میں آئی جس نے کئی زندگیوں کو دوام بخشا اور بے شمار لوگوں کو جینے کی امنگ عطا کی۔عصرِ حاضر میں کاسمیٹک سرجری یعنی جمالیاتی عمل جراحی نے سرجری میں ایک نیاباب رقم کیا۔ کاسمیٹک سرجری یا کاسمیٹک جراحی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے انسانی وضع قطع یا ظاہری شکل و صورت میں مکمل یا جزوی طور پر تبدیلی آجائے ۔یعنی زیب و زینت یا آرائش کی خاطر انسان جب اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے اپنے جسم کی ساخت کو معمولی یا مکمل طور پرتبدیل کرتا ہے تو اسے کاسمیٹک سرجری کا نام دیا جاتا ہے۔اس کو تزویقات بھی کہا جاتاہے۔ یعنی یوں کہہ سکتے ہیں کہ انسان اپنی آرائش کی خاطر (یا بعض اوقات جسم کی کسی غیر معمولی ساخت کو درست کرنے کی خاطر )جو اشیایا طریقہ کار استعمال کرتا ہے ان کو تزویقات کہا جاتا ہے۔ انسان کی اس خواہش کا دائرہ کار خاصا وسیع ہے اور اسی بناءپر چند شعبہ جات ِ زندگی میں کاسمیٹکس کو ایک ذیلی شعبے کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ ([15])

دورِ جدید میں جہاں دنیا انسان کی خواہشات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بن چکی ہے وہیں یہ عجیب و نت نئی ایجادات اور طریقہ علاج گہری تحقیق اور فکر کا تقاضا کررہے ہیں تاکہ آنے والی نسلیں اپنی خواہشات کو بے لگام نہ چھوڑ بیٹھیں۔ہر جدت اپنے ساتھ نفع اور نقصان لاتی ہے ہماری حدود و قیود شریعت نے ہمیں عطا کردی ہیں یہ ہمارے رب کا ہم پر کرم ہے کہ ہمیں قرآن و سنت کا وہ پیمانہ عطا کیا ہے کہ جس میں ہم اپنے تمام نفع و نقصان کو ناپ کر اپنے اچھے برے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن جناب رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم چاہتے ہو کہ تمھیں دنیا اصل شکل میں دکھادوں؟یہ فرماکر میرا ہاتھ پکڑا اور ایک ایسی جگہ لے جاکر جہاں آدمیوں اور بکریوں کی کھوپڑیاں، پرانے کپڑے اور لوگوں کی گندگی پڑی تھی فرمایا کہ تمھارے سروں کی طرح یہ سر بھی حرص وہوا سے پُر تھے آج یہ ایسی ہڈیاں ہیں جن پر گوشت نہیں اور یہ بھی جلد خاک ہوجائیں گی اور یہ گندگی وہ انواع واقسام کے کھانے ہیں جن کو بڑی محنت سے لایا جاتا تھا اور اب اس طرح پھینک دیا ہے کہ سب لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں اور یہ کپڑے(چیتھڑے)وہ لباسِ فاخرہ ہیں جو ہوا میں اُڑتے تھے اور یہ ہڈیاں چوپایوں اور سواریوں کی ہیں ان کی پشت پر سوار ہوکر دنیا میں سیر سپاٹے کرتے تھے بس یہی دنیا کی حقیقت ہے اب جو شخص اس پر رونا چاہے اس سے کہہ دو کہ رولے کہ یہی رونے کی جگہ ہے چنانچہ حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ جتنے لوگ موجود تھے سب رونے لگے۔([16]) یہی اس دنیا کی حقیقت ہے جس کا ادراک ہم میں سے بعض کو ہو جاتا ہے اور بعض اپنی نفس پرستی میں گم ہوکر اپنا آپ نقصان میں ڈال دیتے ہیں۔

سائنس کے یہ کرشمے بے شک انسان کی فلاح کے لیے ہی وجود میں آئے لیکن ان کا صحیح استعمال اوران سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہماری عقل و شعور پر منحصر ہے۔ ہمارے دین نے ہم کو قدرت کی تمام زینتوں،آسائشوں اور آسانیوں کو حضرتِ انسان کے فائدے کے لیے کھول کر بیان فرما دیااور اس سے استفادے کے بارے میں اصول و ضوابط بھی وضع کرڈالے اوراعتدال کی راہ اختیار کرنے کا حکم بھی دے دیا۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا ؕ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَا ؕ لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ؕ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ۙۗ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ([17])

” تو تم ایک طرف کے ہوکر دین پر سیدھا منھ کیے چلے جاؤ، اﷲ کی فطرت کو جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے(اختیار کیے رہو) اﷲ کی بنائی ہوئی (فطرت) میں تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ “

اسلام ایک آفاقی نظامِ حیات ہے جس میں انسان کے لیے جینے کے تمام اصول وضع کردیے گئے ہیں ۔ وہ عبادات ہوں،معاملات ہوں یا ظاہری شکل و صورت اور شباہت کے اصول وقواعد غرض یہ کہ زندگی کے ہر پہلو اور اس سے متعلق تمام مسائل کا حل ہم کو اسی آفاقی نظام نے عطا کیا ہے۔قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ:

وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا ([18])

”اور اسی طرح ہم نے تم کو ایک امت معتدل بنایا۔“

ہمیں دین کہیں بھی اپنی خواہشات کا گلا گھوٹنے کو نہیں کہتا بلکہ فطرت کے تمام حسن وجمال اور رعنائیوں سے حدود و قیود میں رہ کر تمام تر فائدے اٹھانے کی پوری اجازت دیتا ہے لیکن دین میں افراط و تفریط کی اجازت نہیں۔ اب یہ حدود اور اصول و ضوابط کیا ہیں اور ان کی تفصیل اور دلیل کیا ہے ان کے فائدے اور نقصانات کیا ہیں سائنس اس کا جواب دینے سے قاصر ہے ۔حرام ،حلال ۔جائز،ناجائز۔ یہ وہ احکامات و معاملات ہیں جن پر دین نے کھل کر بیان فرمایا ہے۔ کےونکہ جس نے حسن کو تخلیق کیا ہے وہی اس کے تمام اسرار و رموز سے واقف ہے اورپھر ان تمام اسرار ورموز کو قرآن پاک میں بیان فرما دیا ساتھ ہی اپنے پےارے محبوب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے راستے پر چلنے کوکامیابی اور بہترین نمونہ قرار دے دیا۔ارشاد ہوتا ہے:

الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ؕ مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ ؕ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ۙ هَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ o ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّ هُوَ حَسِیْرٌ ([19])

”اسی نے اوپر تلے سات آسمان بنائے ، تو رحمٰن کی کاریگری میں کوئی فرق نہ دیکھے گا، ذرا دوبارہ آنکھ اٹھاکر دیکھ ، کیا تجھے کہیں خلل نظر آتا ہے؟ہاں پھر بار بار آنکھ اٹھا کر دیکھ ہر بار تیری نگاہ تھک کر ناکام لوٹے گی۔“

موجودہ دور میں سائنسی علوم نے جو ترقی کی ہے اس نے انسان پر حیرت کے دروازے کھول دیے ہیں۔ شریعت مطہرہ نے فطری تقاضوں کے پیش نظر نہ صرف آرائش و زیبائش کی اجازت دی بلکہ بعض صورتوں میں ترک زیبائش پر ملامت بھی کی ہے۔ارشاد ربانی ہے:

قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰهِ الَّتِیْۤ اَخْرَجَ لِعِبَادِهٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ ؕ قُلْ هِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا خَالِصَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ ؕ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ([20])

”آپ ان سے کہہ دیجیے کہ جو زیب زینت (آرائش) اور کھانے (پینے) کی چیزیں اﷲ نے اپنے بندوں کےلئے پیدا کی ہیں ان کو حرام کس نے کیا ہے؟ کہہ دیجیے کہ یہ چیزیں دنیا کی زندگی میں ایمان والوں کے لئے ہیں اور قیامت کے دن خاص ان ہی کا حصہ ہوں گی ۔ اسی طرح اﷲپاک اپنی آیتیں سمجھنے والوں کے لیے کھول کھول کر بیان فرماتاہے۔“

اس آیت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ کائنات اور اس کی تمام تر نعمتیں اﷲ نے انسانوں کے لیے بطور نعمت اتاریں اور ان نعمتوں سے خوب فائدہ اٹھانے کا حکم بھی دے ڈالاجس کی مزیدوضاحت اس حدیث سے ہو جاتی ہے۔

”جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ تو ایک شخص کہنے لگا کہ ایک آدمی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور جوتے اچھے ہوں ۔تو آپﷺ نے فرمایا :بلا شبہ اﷲتعالیٰ خوبصورت ہے اورخوبصورتی کو پسند فرماتاہے ۔تکبر یہ ہے کہ حق کا انکار کیا جائے اور لوگوں کو حقیر اور اپنے آپ کو اونچا سمجھاجائے۔“ ([21])

یعنی وہ رب جس نے یہ کائنات، زمین و آسمان ،خوشبو، پھول اور پتے، پہاڑ، سمندراور ایسی ہی ان گنت حسین چیزیں تخلیق کیں وہ اپنی سب سے خوبصورت تخلیق یعنی انسان کو خوبصورت بننے یا دکھنے سے منع کیوں کر فرمائے گا ۔وہ تو چاہتا ہے کہ اس کے بندے پر اس کی نعمتیں نظر آئیں اور انسان قدرت کی ہر نعمت کا استعمال کرکے اس رب کا شکر گزار بنے لیکن ان کے استعمال کی حدود بھی مقرر کردیں تاکہ انسان اپنے دنیا میں آنے کا اصل مقصد نہ بھول جائے یعنی اپنے خالق کی اطاعت جو اس کے احکامات کی پیروی میں ہے۔ اور اس کے لیے رب کریم نے اپنے پیغمبر دنیا میں بھیجے جو اس کی اطاعت کا اور دنیا میں زندگی گزارنے کا طریقہ لے کر آئے تاکہ ہم تک ہدایت پہنچ سکے۔

نبی پاک ﷺ پر نازل ہونے والی آخری کتاب یعنی قرآن مجید ہر دور کی رہنمائی کے لیے نازل ہوا ہے ۔دنیا چاہے کتنی ہی ترقی کرلے کسی مذہب میں یہ لچک ،جدت پسندی اور حقیقت پسندی موجود نہیں کہ ازل سے ابد تک کی ہر فکر ،ہرسوال اور ہر سوچ کا جواب دے کر انسان کو حیرت میں ڈال سکے۔ انسان کو عصرِ حاضر میں درپیش تمام تر چیلنجوں کا سامنا کرنے اور اس کی رہنمائی کی جو صلاحیت قرآن میں ہے وہ یقینا کلامِ الٰہی کا ہی معجزہ ہے۔

قرآن ِمجید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲتعالیٰ نے انسان کو سب سے پہلے جو علم عنایت فرمایا تھا وہ علمِ شریعت نہیں بلکہ علمِ فطرت تھا۔اس کی تعبیر قرآن میں ’علمِ اسمائ‘ یعنی علم ِ اشیائے عالم کے عنوان سے کی گئی۔ ([22])

یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًا ؕ وَ لِبَاسُ التَّقْوٰی ۙ ذٰلِكَ خَیْرٌ ؕ ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ ([23])

”اے بنی آدم ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمھارا ستر ڈھانکے اور زینت دے اور پرہیز گاری کالباس سب سے اچھا ہے ۔ یہ اﷲ کی نشانیاں ہیں تاکہ لوگ نصیحت پکڑیں۔“

اس آیت کریمہ سے یہ واضح ہورہا ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے تمام نعمتوں کا اتارا جانا انسان کی خواہشات اور طبیعت کے مطابق رکھا ہے اور پھر فرما دیا کہ اس کو جو لباس پسند ہے وہ پرہیزگاری کا لباس ہے تقویٰ کا لباس ہے۔ بے شک خالق سے زیادہ مخلوق کو کون جان سکتا ہے۔اسی نے انسان کی طبیعت میں پسند نا پسند کا عنصر ڈالااور پھر اس کے لیے نعمتوں کے انبار لگا دیے تاکہ وہ اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے ان نعمتوں سے بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہوسکے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

سَنُرِیْهِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ([24])

”ہم ان کو آفاق و انفس میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر اس (کلامِ برتر) کی حقانیت واضح ہو جائے گی۔ “

یعنی یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جب سے یہ کائنات معرضِ وجود میں آئی ہے ارتقائی منازل طے کرتا ہوا انسان تبدیلیوں کے مختلف مراحل سے گزرتا رہا ہے اور یہ تبدیلیاں انسان کی انفرادی، اجتماعی اور معاشرتی زندگی پر کبھی مثبت تو کبھی منفی اثرات مرتب کرتی رہی ہیں۔گویا کائنات کی فطرت تبدیلی پر رکھی گئی ہے اور یہی تبدیلی کی چاہت انسان کی فطرت میں بھی رچی بسی ہوئی ہے۔ اور اسی فطرت اور مزاج کے ساتھ اﷲپاک نے اس کائنات کو ایسا حسین اور مکمل تخلیق کیا کہ انسان کی ہر ضرورت اور آنکھوں کو خیرہ کردینے والی خوبصورتی سے مزین کردیا۔

کیاکوئی یہ بتا سکتا ہے کہ دنیا میں کتنے رنگ کے پھول پائے جاتے ہیں پھر ان میں کتنی اقسام کی خوشبوئیں ہیں؟ اتنے رنگ کے جانور ،اتنے اقسام کے پرندے،ان گنت ستارے، اور پھر انسان کی تبدیلیوں کے ہچکولے کھاتی ہوئی فطرت جو ےکسانیت سے جلداکتا جائے تو کیسے ممکن تھا کہ ایسی رنگارنگ دنیا ہوتی اور تبدیلیوں کی اجازت نہ ہوتی۔تمام الہامی ذرائع ایک اٹل حقیقت بیان کرگئے ہیں جو تبدیل نہیں ہو سکتی مگر انسان ابھی شعوری بالیدگی کے عمل سے گزر ہا ہے اور عقل ِ کل نہیں بنا،لہٰذا جب انسانی ذہن اپنی خود ساختہ حد بندیاں توڑ کر آگے کی طرف بڑھتا ہے تو اسے روشنی کی نئی دنیائیں اور سوچوں کے نئے زاویے اور رابطے(Angles & Channel) دریافت ہوتے ہیںجبکہ الہامی باتیں ازل سے ابد تک کی خبر دیتی ہیں۔ ([25])

بس یہیں سے ہماری سوچ اور فکر بھی بٹ جاتی ہے کیونکہ جس طرح انواع و اقسام کی چیزیں انسان نے اپنی آسانیوں کے لیے بنائیں اسی طرح ان کا استعمال بھی سب نے اپنی اپنی سوچ اور سمجھ کے مطابق کیا۔ اچھی اور مثبت تبدیلیاں انسان میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کرتی ہیں اور ان کی دین ِفطرت نے ہمیں حدوں میں رہ کراجازت بھی دی ہے۔ لیکن اس کی پرکھ اور سمجھ ہم پر چھوڑ دی گئی ۔اب یہ انسانی دماغ اور اس کی خواہش پر منحصر ہے کہ وہ ان آسانیوں کا استعمال قدرت کے وضع کردہ اصولوں کے تحت کرتا ہے یاحلال وحرام،جائز و ناجائز اور ضروری و غیر ضروری کے تمام اصولوں کو روندتاہوا اپنی خواہشات کا غلام بن کر جیتا ہے۔ذیل میں مختصراََ ان جدید آرائش وزینت کے طریقوں کا ذکر ہے جو ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی سے مشہور ہوگئے ہیں اور جن کا حصول اب ہر خاص وعام کی ضرور ت بنتا جا رہا ہے۔ چونکہ یہ بننے سنورنے کے طریقے مغرب کی دین ہیں اس لیے ان طریقوں پر حلت و حر مت کے حوالے سے کئی سوالات اٹھتے ہیں جن پر تحقیق اور غور و فکر کرنا وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔

عصرِ حاضر میں زیب و زینت کے معروف طریقے:

لائیپوسکشن LIPOSUCTION

وہ سرجری جس میں انسان کے جسم سے چربی کی زیادتی کو ایک خاص قسم کی ٹیوب کے ذریعے نکال لیا جاتا ہے۔

بوٹوکس BOTOX

وہ سرجری جس میں چہرے کی جھریوں یا ہونٹوں اور پیشانی کی شکنوں کو انجکشن کے ذریعے ہموار کر دیا جاتا ہے۔

انجیکٹیبل فلرز INJECTIBLE FILLERS

یہ چہرے پر موجود جھائیوں کو دور کرنے یا گڑھوں کی بھرائی کرنے کا طبی طریقہ ہے۔

فیس لفٹنگ FACE LIFTING

وہ سرجری جس میں چہرے کی جلد سے اوپر کی ایک باریک سی تہ اتار دی جاتی ہے جس کے نیچے صاف اور ہموار جلد نکل آتی ہے ۔

ناک کی سرجری RHINOPLASTY(Nose Job)

ناک کی سرجری کے ذریعے اس کی ساخت تبدیل کروانا۔

پیٹ کی چربی نکلواناTUMMY TUCK

پیٹ کی سرجری جس کے ذریعے پیٹ کو کم کروانا اور پیٹ کی جلد کو کھنچواکر سخت کروانا۔

جنس کی تبدیلیGENDER RE-ASSIGNMENT THERAPY

آپریشن کے ذریعے مرد کے ظاہری اعضا کو عورت کے ظاہری اعضا میں تبدیل کرنا ، یا عورت کے ظاہری اعضا کو مرد کے ظاہری اعضا میں تبدیل کرناتبدیلی جنس کہلاتا ہے۔

مصنوعی بال یا بالوں کی پیوندکاری HAIR TRANSPLANT

سرجری کے ذریعے انسانی یا غیر انسانی مصنوعی بال پیوست کروانا۔

مستقل بنیادوں پر جسم کے بالوں کو جڑوں سے دور کرنا LASER HAIR REMOVAL

لیزریعنی شعاعوں کے ذریعے بھی جسم کے غیرضروری بالوں کو مستقل بنیادوں پریا طویل عرصے کے لیے دور کردیا جاتا ہے۔اس طریقہ میں خاص قسم کا لیزر علاج کے لیے استعمال ہوتا ہے جو جڑوں سے جڑے ہوئے غیر ضروری بالوں کو لمبے عرصے کے لیے ختم کردیتا ہے۔

جسم گدوانا BODY TATTOS

جسم پر نقش و نگار بنوانا : اس عمل میں جسم کومصنوعی مشین سے گودا جاتا ہے ۔

جسم چھدوانا BODY PIERCING

جسم چھدوانے سے مرادجسم کے مختلف حصوںجیسے ہونٹ،پیٹ(belly button) ،بھنووں ،پیر، ماتھے ، زبان اور گالوں کوچھدواکر ان میں طرح طرح کی بالیاں ےازیورات پہنناجسم چھدوانا کہلاتا ہے۔

دانتوں کا برابر کروانا خوبصورتی کے لئے GAPING ONE'S TEETH

خوبصورتی کے لیے دانتوں کو برابر کروانا جبکہ ان میں کوئی نقص نہ ہو۔

ہمارے دین میں ایسی زینت اختیار کرنے کو بھی منع فرمایا گیا ہے جس میں کسی دوسری جنس کی مشابہت ہو۔اس حوالے سے تشبہ کے متعلق مشہور ہے کہ تشبہ کا حکم اس وقت لگایا جائے گا جبکہ تشبہ کی نیت و ارادہ بھی ہویا اس انداز میں کام کیا جائے کہ دیکھنے والے کا ذہن پہلی نگاہ میں یہ فیصلہ کرے کہ یہ فلاں کے ساتھ مشابہت ہے۔

”کسی مسلمان کا اچھاعمل یہ ہے کہ وہ غیر متعلقہ چیزوں میں نہ پڑے۔“امام ابو داﺅد نے اس حدیث کو چوتھائی اسلام کہا ہے۔کیونکہ بہت سے لوگ امور مشتبہ یا مکروہہ سے اجتناب نہ کرنے میں کوئی جھجک اور حجاب محسوس نہیں کرتے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ بہرحال حرام تو نہیں ہے۔“([26])

آج جس دور میں ہم سانس لے رہے ہیں وہ مفید اور غیر مفید ایجادات کا ایک ایسا سلسلہ ساتھ لیے ہوئے ہے جس کا عام اور خاص سب پر یکساں اثر ہے اور ان اثرات کی بدولت ان ایجادات کوفروغ ملتا ہے لیکن ان کے نامناسب استعمال کی وجہ سے کیا کیا حالات پیش آسکتے ہیں اس کا اندازہ ان کے استعمال کے بعد ہی ہوتاہے۔اکثر و بیشتر دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگوں کے بننے سنورنے کے شوق ان کو اتنے بھاری پڑ جاتے ہیں کہ اس کے باعث ان کی زندگی میںایسی تبدیلی آتی ہے جو مثبت نہیں بلکہ منفی اثر ڈالتی ہے اور وہ ڈپریشن کا شکار ہو کر اپنے آپ کو نقصان پہنچالیتے ہیں۔یہی ان ایجادات کا سب سے بڑامنفی اثر ہوتا ہے۔اسلامی شریعت کے حوالے سے ان امور پر مزید تحقیق اور تجربوں کی ضرورت ہے ان پر مسلم اور غیر مسلم ممالک میں مسلمان تحقیق اورتجربوں کی بنیاد پر نئی راہوں کو دریافت کررہے ہیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں کسی شک و شبہ کا شکار ہوئے بغیر زندگی کی رعنایﺅں اور سائنس کے کرشمات سے لطف اندوز ہوسکیں۔”کوئی دوڑ خواہ کتنی برق رفتار اور کتنی حیرت انگیز کیوں نہ ہو، اگر اس کی سمت صحیح اور مقصد درست نہیں ، تو وہ انسانیت کے لیے کوئی فائدے کی چیز نہیں ہوسکتی ۔ ٹائن بی نے صحیح کہا ہے کہ سائنس سے فائدہ اٹھانے کے لیے روحانی سرجری کی ضرورت ہوتی ہے۔“([27])

اسلامی شریعت نے جواصول وضوابط متعین کیے ہیں اللہ کی تخلیق کردہ ہر چیزان اصولوں پر کام کرنے کی پابند ہے ۔ اچھی اور مثبت تبدیلیاں انسان میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کرتی ہیں اور ان کی دین ِفطرت نے ہمیں حدوں میں رہ کراجازت بھی دی ہے۔ بے شک اللہ جمال کو پسند فرماتا ہے۔ جمالیاتی حوالے سے ہر وہ تبدیلی جائز ہے جس کی شریعت میں اجازت ہے جو خواہشات حدوں میں رہ کرپوری کی جائیں وہ اللہ کی رضا کا باعث بنتی ہیں ۔ اسلام نے جو اصول وضع کیے ہیں ان کی روشنی میں اپنی ہرخواہش کو عملی جامہ پہنانا ایک مسلمان کی کوشش ہونی چاہیے۔

The rule in Islam is that individuals should be satisfied with the way Allah has created them. Islam welcomes, however, the practice of plastic surgery as long as it is done for the benefit of patients. Even if it clearly considers “changing the creation of Allah” as unlawful, Islamic law is ambiguous regarding cosmetic surgery. Its objection to cosmetic surgery is not absolute. It is rather an objection to exaggeration and extremism. It has been mentioned that “Allah is beautiful and loves beauty”.([28])

غرض یہ کہ دین اسلام وہ واحد مذہب ہے جو وقت اور حالات کے تقاضوں کے اعتبار سے عصری علوم سے ہر دور میں فائدہ اٹھانے کی اجازت دیتا ہے تاکہ اس پر چلنے والے دین اور دنیا دونوں میں اپنابلند مرتبہ و مقام حاصل کرسکیں ۔جس کو پانے کے لیے راستہ اور راہ بھی وہی اختیار کرنی ہوگی جو شریعت اور دین کے قواعد و ضوابط پر مبنی ہو۔کیونکہ جس نے ساری کائنات کاحسن تخلیق کیا ہے اس پاک ذات سے زیادہ اپنی تخلیق سے کوئی پیار نہیں کرسکتا۔اسی نے اپنی تخلیق کو تمام خیر و شرسے آگاہ کیا ہے اور اسے عقل عطا کی۔ارشاد ہوتا ہے:

اَفَمَنْ كَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ كَمَنْ زُیِّنَ لَهٗ سُوْٓءُ عَمَلِهٖ وَ اتَّبَعُوْۤا اَهْوَآءَهُمْ ([29])

”تو جو لوگ اپنے پروردگار کے واضح راستے پر ہوں کیا وہ ان لوگوں کی طرح ہو سکتے ہیں جن کی بد عملی ان کو بھلی معلوم ہوتی ہو اور جو اپنی نفسانی خواہشات پر چلتے ہوں۔“

لہٰذا اس واضح راستے پر چلنے کی خواہش رکھنے والا اپنی زندگی کے تمام امور کو اپنے رب کی خواہشات ہی کے تابع رکھے گا چاہے وہ اس کے بننے سنورنے کی خواہش ہی کے معاملات کیوں نہ ہوں ۔ان امور کو سمجھنے کو لیے وقت کے ساتھ چلنا نہاےت ضروری ہے۔ جدید سائنسی ترقی نے بالخصوص سرجری، جنس کی تبدیلی ،لیزر اور نقوش کی تبدیلی کی فیلڈ میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کی ہیں جو اسلامی قوانین کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دیتی ہیں آیا کہ یہ ترقی وتبدیلی اسلامی شرعی قوانین کے خلاف تو نہیں؟ یہ methodsجائز ہیں کہ ناجائز؟ ان میں استعمال ہونے والے اجزاحلال ہیں کہ حرام؟ عصری تقاضوں کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کس طرح پورا کیا جاسکتا ہے ؟

اس بات کی تائید میں امام بخاری ؒ نبی کریم ﷺ کی حدیث پاک روایت کرتے ہیں :

”حلال(بھی) ظاہر ہے اور حرام (بھی) ظاہر ہے اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں ، پس جس نے اس چیز کو ترک کردیا جس میں گناہ کا شبہ ہو تو جس میں گناہ ظاہر ہو ، وہ اس کو زیادہ ترک کرنے والا ہوگا اور جس نے اس چیز پر جرات کی ، جس میں گناہ کا شک ہو توعنقریب وہ اس میں واقع ہوجائے گاجس میں گناہ ظاہر ہواور تمام ممنوعہ کام اﷲ تعالیٰ کی خاص چراگاہ ہیں اور جو (جانور) بھی چراگاہ کے گرد چرے گا تو اس کا اس چراگاہ میں جانے کا خطرہ ہے“([30])

حاصل بحث یہ ہے کہ اس جدید سائنسی دور میں ہمیں جدید رہنمائی کی ضرورت ہے جو ہر آنے والی نئی ایجاد کے ساتھ اس کے منافع و مفاسد کا بھی تعین کرسکے ۔ایسی تحقیق اور فکر کو عمل میں لانے کا یہی صحیح وقت ہے تاکہ مناسب اور متوازن معاشرہ تشکیل دیاجاسکے۔عقل کو جذبات پر فتح تب ہی ملتی ہے جب خواہشات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ نفس کی پناہ میں آجاتا ہے۔ ورنہ جذبات کی کشتی میں سوار انسان محض وقتی راحت کے ہچکولے کھاتا رہ جاتا ہے اور یہ کشتی کبھی پار نھیں لگتی۔

بقول شاعرِ مشرق علامہ اقبال :

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گذرگاہوں کااپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکاجس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیازندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکااپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایساآج تک فیصلہ نفع وضرر کر نہ سکا ([31])

حوالہ جات

  1. ()الزمر:9
  2. ()القادری،پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر،اسلام اورجدید سائنس،منہاج القرآن پبلی کیشنز،2001ء،ص22
  3. ()الانعام:59
  4. ()القادری،پروفیسرڈاکٹرمحمدطاہر،اسلام اورجدید سائنس،منہاج القرآن پبلی کیشنز،2001ء،ص22
  5. ()گیلانی،مترجم:سیدمحمود فیروز شاہ،قرآنی آیات اورسائنسی حقائق،س۔ن،ص269
  6. ()ہارون یحیٰ،مترجم:محمدیحییٰ،قرآن رہنمائےسائنس،مکتبہ رحمانیہ،لاہور،س۔ن،ص86
  7. ()القصص:60
  8. () ہارون یحییٰ،مترجم:محمدیحییٰ،قرآن رہنمائےسائنس،مکتبہ رحمانیہ،لاہور،س۔ن،ص83
  9. ()الترمذی،امام محمدابوعیسیٰ،سنن ترمذی،حدیث نمبر۳۶۹۲،المکتبہ الرشیدیہ،دہلی،ہند،س۔ن
  10. ()العمری،مترجم:امام ولی الدین محمد بن عبداﷲالخطیب،مشکوٰة شریف،مکتبہ رحمانیہ،کراچی،حدیث نمبر4155، س۔ن،ج3
  11. ()ایضاََ،حدیث نمبر4202،س۔ن،ج2
  12. ()حنبل ؒ،امام احمد،مترجم مولانامحمدظفراقبال،مسندامام احمدبن حنبلؒ،حدیث نمبر23،س۔ن
  13. ()الاسرا:9
  14. () ہارون یحییٰ،مترجم:محمد یحییٰ،قرآن رہنمائے سائنس،مکتبہ رحمانیہ،لاہور،س۔ن،ص15
  15. ()سنگھار کے سامانhttp://ur.m.wikipedia.org/wiki/Retrived on 3rd April 2018 3:40 pm
  16. () الغزالی رحمتہ اللہ علیہ،حُجّة الاسلام امام ابوحامد محمد،کیمیائےسعادت،مکتبہ ٔرحمانیہ اردو بازار ،لاہور،س۔ن،390
  17. ()الروم:30
  18. () ایضاََ،البقرہ:143
  19. () ایضاََ،الملک:3۔4
  20. () ایضاََ،الاعراف:32
  21. () نعیمی،مفتی احمد یارخان،المناجیح شرح،مشکوٰة المصابیح،حدیث نمبر5108،س۔ن
  22. ()ندوی،محمدشہاب الدین،اسلام اورجدیدسائنس،زاہد بشیرپرنٹرز لاہور،س۔ن،ص17
  23. ()الاعراف:7
  24. () ایضاَ،حمٰ سجدہ:53
  25. () محمدالطاف گوہر،اسلام اورجدت پسندی،http://m.urdupoint.com/islam/articles/ all/islam-orjidat-pasandi-235.html
  26. () سعیدی،علامہ غلام رسول،شرح صحیح مسلم،رومی پبلیکیشنز،لاہور،جلدرابع،1416ھ،ص411
  27. () عثمانی،مفتی محمدتقی،راہِ سنت،مکتبہ دارالعلوم،کراچی،س۔ن،ص82
  28. () Aesthetic Surgey and Religion by BS Atiyeh.Retrived on 9th April 2018,8:15 pm at, https://link.springer.com/article/10.1007/s00266-007-9040-7
  29. () محمد:14
  30. () سعیدی،علامہ غلام رسولؒ، نعمتہ الباری فی شرح صحیح بخاری،فرید بک اسٹال،اردو بازار،لاہور،س۔ن،ج4، ص578
  31. ()علامہ اقبال،ڈاکٹر،ضربِ کلیم،اقبال اکیڈمی ،پاکستان،2002ء
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...