Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 35 Issue 1 of Al-Tafseer

فقہی مسائل میں تطبیق: ” کتاب المیزان “ کا تعارف و جائزہ |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

35

Issue

1

Year

2020

ARI Id

1682060084478_1015

Pages

257-272

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/140

Subjects

Sharȃni Kitab Ul-Mizȃn Fiqh Tatbeeq scholarly disagreement.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

 

اسلام وحئ الٰہی پر مشتمل ایک مکمل ضابطہ ءحیات ہے۔ اس ضابطہ میں لچک اور ارتقاءکی صلاحیت کے حامل ایسے اصول و قواعد موجود ہیں جن میں تا قیامت پیش آنے والے مسائل کا حل موجود ہے۔ عہد ِنبوی میں جب کوئی ایسا حکمِ شرعی وارد ہوتا جس کے فہم میں کوئی اشتباہ یا اجمال ہوتا تو صحابہ کرام بارگاہِ رسالت مآبﷺ سے رجوع کر کے اپنی تشفی فرماتے تھے۔ قرآن مجید کی تبیین وتعلیم نبی اکرمﷺ کے منصب ِ جلیلہ کا تقاضا تھا۔([1]) آپﷺ کے وصال کے بعد

جب کوئی ایسی صورت حال پیش آتی تو صحابہ کرام قرآنی آیات اور سنت نبوی سے اس سلسلے میں رہنمائی حاصل کرتے تھے، اگر وہ قرآن وسنت میں درپیش مسئلے کی وضاحت نہ پاتے تو مجتہد صحابہ کرام کی آراءسے استفادہ کرتے تھے۔

جب اسلامی تہذیب کا دائرہ وسیع ہوااور اسلام نے خطہءعرب سے نکل کر عجم کو بھی نورِ ہدایت سے منور کرنا شروع کیا تو وسعتِ زمان ومکان سے نت نئے مسائل سامنے آنے لگے۔ فقہاءنے قرآن و سنت سے رہنمائی پاتے ہوئے بذریعہ اجتہاد و استنباط پیش آمدہ جزوی مسائل کا حل پیش کیا، لیکن اسی دوران میں مختلف وجوہ کی بناءپر فقہاءکے مرتب کردہ احکام میں اختلاف واقع ہونے لگا اور مختلف مسالکِ فقہ کی بنیاد پڑی۔

فقہی مسالک میں سے حنفی اور مالکی فقہ کی حیثیت تعمیری فقہ کی ہے۔حنفی فقہ کا مرکز عراق تھا جو کہ مشرق کی اسلامی ریاستوں کا سیاسی مرکزبھی تھا۔ مغرب سے آنے والے علماءمصر سے ہوتے ہوئے سیدھے حجاز مقد س پہنچتے تھے۔ عراق ان کی راہ گزر سے دور تھا اس لیے وہ امامِ دارالہجرہ امام مالک ؒاور ان کے شاگردوں سے فقہ و حدیث کا درس لے کر واپس اپنے وطن چلے جاتے۔ مشرق میں جو حیثیت امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد قاضی ابو یوسفؒ کو حاصل ہوئی، مغرب میں قریباً وہی مقام امام مالکؒ کے شاگرد یحییٰ بن یحییٰ لیثی ؒ کو ملا۔ یوں دونوں اطراف کی اسلامی ریاستوں میں بالترتیب حنفی اور مالکی فقہ حکومتوں کا دستور العمل قرار پائیں۔

شافعی اور حنبلی فقہ کی حیثیت زیادہ تر تنقیدی فقہ کی تھی۔ ان کے علماءنے فقہ کے پہلے سے موجود مقتدر مسالک کو تنقیدی نگاہ سے دیکھا اور اپنی اختلافی آراءکے ذریعے فقہ میں وسعت کے در وا کیے، تاہم اس اختلاف میں ائمہ کے آپس کے تعلق ،باہمی احترام اور مقام شناسی کو کسی موقع پر بھی پسِ پشت نہیں ڈالا گیا،جس کا واضح ثبوت امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں امام شافعیؒ کا یہ قول ہے:

الناس عیال فی الفقہ علی ابی حنیفة ([2])

”لوگ فقہ میں ابو حنیفہؒ کے دست نگر ہیں۔“

جزوی اور فروعی احکام میں مجتہدین اور ائمہ کا یہ فطری اختلافِ آراءآئندہ ادوار میں شدت اختیار کرنے لگا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ایک مسلک کا حامی دیگر مسالک کو یکسر غلط قرار دینے لگا۔ مختلف مسالکِ فقہ کے حوالے سے کئی طرح کی غلط فہمیاں در آئیں۔

فقہی اختلافات کے مابین تطبیق اور درآمدہ غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے علماءنے قابل قدر خدمات سر انجام دیں۔ مختلف فیہ فقہی اقوال کے ما بین رفعِ تعارض اور توافق کے لیے فقہی ادب میں تلفیق، مراعاة الخلاف اور اختیار ایسر المذاہب وغیرہ کی صورت میں مختلف نظریات اور طریقے موجود ہیں۔ تاہم کسی ایسے مجتہد کی ضرورت باقی تھی جو اختلافِ فقہاءکے مابین کوئی ایسا تطبیقی حل سامنے لائے جس کی روشنی میں اختلافی اقوال کی توجیہ کر کے ان کے بارے میں درست رائے قائم کی جا سکےاور حد سے بڑھا ہوا اختلاف ختم ہو جائے۔

دسویں صدی ہجری میں مصر سے جو شخصیات علم و فضل اور اصلاحِ امت کا حوالہ بن کر ابھریں ان میں امام عبد الوہاب شعرانیؒ(۸۹۸ھ، ۱۴۹۳ء۔ ۹۷۳ھ، ۱۵۶۵ء) کا نام نمایاں نظر آتا ہے۔([3]) آپ اختلافِ ائمہ کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے ”کتاب المیزان“ کے نام سے ایک منفرد تالیف سامنے لائے جس کے مطابق ائمہ کا اختلاف نہ صرف دین میں وسعت اور سہولت و تخفیف کا سبب ہے بلکہ اس دین کے مبنی بر دوام اوصاف کا مظہر اور باعث ِ رحمت امر بھی ہے۔ آپ نے اس کتاب کے ذریعے ائمہ فقہ کے اقول میں منفرد تطبیق پیدا کی اور فقہ و فقہاءسے متعلق پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا۔

شعرانیؒ ایک جامع الکمالات شخصیت تھے۔ انھوں نے اپنے وقت کے ان نامور علماءوصلحاءسے کسبِ علم و فیض کیا جن کے علمی آثار آج بھی موجود اور رائج ہیں۔ آپ نے اپنے اساتذہ کی تعداد پچاس کے قریب ذکر کی ہے۔([4]) آپؒ کا شمار اسلام کے کثیر التصانیف مشاہیرمیں ہوتا ہے۔ اگرچہ آپ کی تصانیف کی ایک غالب تعداد براہِ راست تزکیہ و احسان پر ہے، تاہم آپ نے قرآنی علوم، حدیث ،عقائد، فقہ ،نحو، طبقات اور طب کے میادین میں بھی اہم علمی خدمات سر انجام دی ہیں۔([5]) قدرت نے آپ کے ذہن کو زرخیزی اورفکر کو وسعت بخشی تھی۔ تجدید و اصلاح آپ کی تصانیف کا خاصہ ہے۔ آپ تمام نقلی و عقلی علوم، خصوصاً علم ِظاہر یعنی فقہ اور علم ِباطن یعنی تصوف کے جامع تھے اور یہ جامعیت آپ کی کتابوں کے مختلف مضامین میں بھی نمایاں نظر آتی ہے۔ اسی وجہ سے علماءو صوفیہ، دونوں طبقوں میں آپ کی تصانیف بے حد مقبول رہی ہیں۔ آپ کی تصانیف کی تعداد تین سو سے زائد ہے، جن میں سے پچیس تصانیف ایسے موضوعات پر ہیں جو بالکل نئے اور اچھوتے ہیں ، ان پر شعرانیؒ سے قبل کسی نے بھی قلم نہیں اٹھایا۔([6])

شیخ عبدالوہاب شعرانیؒ اگرچہ مسلکاً شافعی تھے مگر آپ نے چاروں مذاہب کا بالاستیعاب مطالعہ کیا۔ ائمہ مجتہدین کے تمام مذاہب میں آپ کے تبحر کے باعث اور تمام مذاہب کی توجیہات اور دلائل پر عبور کی وجہ سے اگر کوئی حنفی مذہب پر آپ کی گفتگو سنتا تو آپ کو حنفی خیال کرتا اور اگر مذہب ِحنبلی یا مالکی پر آپ دلائل دے رہے ہوتے تو حنبلی یا مالکی سمجھتا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ تمام ائمہ کے اقوال اور اُصولوں سے پوری طرح واقف ہوگئے تھے اور آپ نے ان کے جمیع ادلہ کا احاطہ کرلیا تھا۔([7])

امام شعرانیؒ اگرچہ میدانِ تصوف کے شاہ سوار کی حیثیت سے معروف ہیں مگر آپ ایک بلند پایہ فقیہ بھی ہیں۔ فقہ اور اس کے اصول و قواعد میں امام شعرانیؒ نے بہت گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ اس میدان میں بھی آپ ایک مصلح ، مجدد اور جامع کی حیثیت میں نظر آتے ہیں۔ آپ کی فقہی خدمات کو اجاگر کرنا بایں طور اہمیت رکھتا ہے کہ آپ کی شخصیت کا یہ پہلو بھی متعارف ہو اور دورِ حاضر کی شدت پسندی میں آپ کے معتدل افکار سے توازن و اعتدال کی راہ ہموار کرنے میں بھی معاونت حاصل ہو۔ ”ادب القضاة“،”الاقتباس فی علم القیاس“،”الفصول فی علم الاصول“،”ذم الرائ وبیان تبرّءالائمة المجتہدین منہ“ اور ”منہاج الوصول الیٰ مقاصد علم الاصول“ ایسی بیس کے لگ بھگ تالیفات امام شعرانیؒ کے تفقہ کا مظہر ہیں۔ مگر ان میں نمایاں ترین تالیف” کتاب المیزان“ ہے۔

کتاب المیزان

میزان کا مادہ ”و۔ز۔ن“ہے۔ لغت میں ”وزن“ کا معنیٰ کسی چیز کے ثقیل یا خفیف ہونے کو جانچنا ہے۔ اہلِ لغت نے اسے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

الوزنُ رَوزُ الثَقل والخِفةِ ([8])

قرآن مجید میں کلمہ’المیزان‘ تین معانی میں استعمال ہوا ہے۔

۱۔ میزان بمعنیٰ آلہءوزن، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَالسَّمَآءَ رَفَعَھَا وَوَضَعَ المِیزَانَ ([9])

”اللہ تعالیٰ نے آسمان کو بلند کیا اور میزان (ترازو) قائم کر دیا۔“

۲۔ میزان، مصدر (وزن کرنا) کے معنی میں، ارشاد فرمایا:

اَلَّا تَطغَوا فِی المِیزَانِ ([10])

”کہ تم وزن کرنے میں کمی بیشی نہ کرو۔“

۳۔ موزون(وزن کی گئی چیز) کے معنیٰ میں، حکم ہوا:

وَاَقِیمُوا الوَزنَ بِالقِسطِ وَلَا تُخسِرُوا المِیزَانَ ([11])

”درست وزن قائم رکھو اور میزان (موزون) میں کمی نہ کرو۔“

قرآن مجید میں باقی مقامات پر بھی یہ کلمہ انھی تین معانی میں استعمال ہوا ہے۔ امام شعرانیؒ نے فقہی اقوال میں تطبیق اور رفعِ تعارض کے اپنے اس تصور کے لیے قرآنی کلمہ ”میزان“ مستعار لیا اور اس کتاب کو اس سے موسوم کیا ،گویا یہ کتاب ایک ایسا آلہ ءوزن ہے جس پر جمیع اقوالِ فقہاءکے مابین توازن قائم کرتے ہوئے ان کا قرآن و سنت کے مطابق ہونا ثابت کیا گیا ہے۔([12])

نام کتاب

کتاب کامکمل نام”المیزان الکبریٰ الشعرانیةالمدخلة لجمیع اقوال الائمة المجتہدین ومقلدیہم فی الشریعة المحمدیة“ہے۔صاحب ِتذکرة اولی الالباب نےتھوڑےسےفرق کےساتھ اس کانام”المیزان الشعرانیة المدخلة لجمیع اقوال الائمة المجتہدین ومقلدیہم الی الشریعة المحمدیة“ ذکر کیا ہے۔([13]) شیخ شعرانیؒ کے شاگرد اور معروف مؤرخ عبد الرؤوف مناویؒ نے اختصار اپناتے ہوئے صرف ”المیزان“ لکھا ہے۔([14]) دیگر تذکرہ نگار بھی عام طور پر اختصار کے پیشِ نظر ’کتاب المیزان‘ یا ’المیزان الکبریٰ‘ درج کرتے ہیں۔مذکورہ بالا پہلا نام مکمل اور درست ہے۔

طبعات

یہ کتاب مذکورہ بالاپہلے مکمل نام سے مکتبہ بولاق، مصر سے۱۲۷۵ھ میں اور مکتبہ مصر سے ۱۲۷۹ھ میں شائع کی گئی۔ پھر اس کے حاشیہ پر ”رحمة الامة فی اختلاف الائمة“ (از محمد بن عبد الرحمن دمشقیؒ) کے ساتھ مکتبہ مصطفی البابی الحلبی مصر سے۱۳۰۲ھ میں ”المیزان الکبریٰ“ کے نام سے شائع ہوئی۔ مکتبة الشرفیة سے اورمکتبة المیمنیة سے ایک ہی سال ۱۳۰۶ھ/۱۸۸۸ءمیں اور مکتبہ عبد الرزاق سے ۱۳۱۱ھ/۱۸۹۳ءمیں شائع ہوئی۔ ([15]) بعد ازاں ۱۳۱۷ھ/۱۹۰۰ءمیں شرکة القدس سے، اور اسی سال مکتبة الثقافة الدینیة سے شائع کی گئی۔

۱۹۸۹ءمیں عبد الرحمن عمیرہؒ کی تحقیق و تخریج اور تعلیقات کے ساتھ دار عالم الکتب، بیروت سے ۳ جلدوں میں ’کتاب المیزان‘ کے نام سے شائع کی گئی۔ اس کتاب کی یہ اب تک کی سب سے اچھی تخریج ہے، اگرچہ یہ بھی ایک نا مکمل تخریج ہے اور جدید طرزِ تحقیق پہ پورا نہیں اترتی۔ محققین عام طور پہ اسی طباعت سے اعتناءکرتے ہیں۔

۱۹۹۸ءمیں عبد الوارث محمد علی کی تصحیح اور جزوی تخریج کے ساتھ دار الکتب العلمیة، بیروت سے طبع ہوئی۔ اس میں صرف آیاتِ قرآنی کی تخریج کی گئی ہے، کہیں کہیں مختصر حواشی بھی ہیں جن کی تعداد بہت کم ہے۔ اس کا دوسرا ایڈیشن ۲۰۰۹ءمیں اور تیسراایڈیشن ۲۰۱۳ءمیں شائع کیا گیا ہے۔ تینوں ایڈیشنز میں سر ورق کا رنگ تبدیل کیا گیا ہے۔ جلد بندی، کاغذ اور طباعت کا معیار عمدہ ہے۔

کتاب المیزان کی زبان عربی ہے۔ فرانسیسی اور اردو کے ساتھ ساتھ دیگر زبانوں میں بھی اس کے تراجم ہوئے ہیں۔ اردو ترجمہ ”مواہب ِرحمانی ترجمہ میزانِ شعرانی“ کے نام سے بھارت کے علاقہ روہیل کھنڈ سے تعلق رکھنے والے مولانا محمد حیات سنبھلی علیہ الرحمہ نے کیا ۔ مترجم کے مبسوط مقدمہ کے ساتھ دو جلدوں میں ادارہ اسلامیات (کراچی۔ لاہور) سے نومبر ۲۰۰۷ءمیں شائع ہوا۔ یہی ترجمہ مفتی محمد اقبال کھرل (خطیب جامع مسجد میاں میر) کی نظر ثانی کے ساتھ دو جلدوں میں ”میزانِ شعرانی“ کے نام سےاکتوبر ۲۰۰۸ءمیں ادارہ پیغام القرآن، لاہور سے بھی شائع کیا گیا۔

موضوع

جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اس کتاب کا موضوع فقہی اقوال میں تطبیق ہے۔ اس کتاب میں آپ نے ائمہ مجتہدین کی آراءمیں جمع و توفیق کا کارنامہ سر انجام دیا ہے اور ان کے بظاہر متضاد نظر آنے والے دلائل کا حقیقت میں غیر متضاد ہونا ثابت کیا ہے۔ آپ نے دلائل سے واضح کیا ہے کہ ائمہ مجتہدین کے اقوال میں سے کوئی قول بھی شریعت سے خارج نہیں ہے۔ اختلاف ِ ائمہ کی حقیقت پر بحث کرتے ہوئے جو مؤقف آپ نے اختیار کیا ہے وہ بہت محتاط ہے، فقہ اسلامی کی تاریخ میں ایسا مؤقف کہیں اور نظر نہیں آتا۔ آپ نے ”کتاب المیزان“ میں فقہی مذاہب کے مابین جو تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی ہے وہ تراثِ اسلامی کا ایک سرمایہ ہے۔

کتاب کے مقدمہ میں امام شعرانیؒ نے شریعت مطہرہ کو ایک ایسے دریا سے تشبیہ دی ہے جس سے تمام علومِ نافعہ کی نہریں اور ندیاں پھوٹتی ہیں۔ جس طرح ایک ہی دریا سے نکلنے والی نہریں اور ندیاں اگرچہ مخالف سمتوں میں رواں دواں ہوتی ہیں لیکن اپنے منبع اور اصل کے اعتبار سے ایک ہوتی ہیں، اسی طرح فروعی معاملات میں اقوالِ مجتہدین اگرچہ مختلف ہیں مگر ان کی بنیاد شریعت ہی ہے۔

دوسری مثال سے یوں وضاحت کی کہ شریعت مطہرہ ایک عظیم اور پھیلے ہوئے درخت کی مانند ہے اور علمائِ شریعت کے اقوال شاخوں کی طرح ہیں۔ درخت کی شاخیں شرقاً غرباً اور شمالاً جنوباًمخالف سمتوں میں پھیلی ہوتی ہیں مگر ان کا مرکز ایک ہی ہوتا ہے اسی طرح اقوالِ فقہاءکا مرکز بھی ایک ہی ہے۔ مزید برآں جس طرح کوئی پھل ٹہنی کے بغیراور کوئی شاخ جڑ کے بغیر نہیں پائی جاتی، اسی طرح ائمہ فقہ کے اقوال میں سے کوئی قول ایسا نہیں جس کی بنیاد میں اصولِ شریعت میں سے کوئی اصل موجود نہ ہو۔ آپ کا قول ملاحظہ ہو:

ان الشریعة کالشجرة العظیمة المنتشرة واقوال علمائھا کالفروع والاغصان، فلا یوجد لنا فرع من غیر اصل ولا ثمرة من غیر غصن ([16])

”شریعت مطہرہ ایک عظیم اور پھیلے ہوئے درخت کی طرح ہے اور علمائے شریعت کے اقوال اس درخت کی شاخیں اور ٹہنیاں ہیں۔ پس کوئی شاخ، جڑ کے بغیر اور کوئی پھل ، ٹہنی کے بغیر نظرنہیں آتا۔“

بعد ازاں آپ اختلاف کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بلحاظِ امر ونہی ، شریعت کا ایک مرتبہ نہیں بلکہ دومرتبے ہیں، ایک تخفیف اور دوسرا تشدید۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان اور جسم کے اعتبار سے ہر دور میں مکلف دو اقسام کے ہیں ،یا وہ قوی ہوں گے یا ضعیف۔ جو قوی ہیں وہ تشدید اور مبنی بر عزیمت احکام پر عمل کرنے کے مکلف ہیں اور جو ضعیف ہیں وہ رُخصتوں والے احکام پر عمل کرنے کے مکلف ہیں۔ اس طرح دونوں طرح کے مکلفین ہدایت پر ہوں گے۔ قوی کو رُخصت پر اتر آنے کا حکم نہیں دیا جائے گا اور نہ ضعیف کو عزیمت پر عمل کرنے کا پابند کیا جائے گا۔ جو شخص اس میزان پر عمل کرے گا وہ تمام ادلہء شرعیہ اور اقوالِ علماءکے اختلاف کو رفع کرسکے گا۔ ([17])

اس کے بعد امام شعرانیؒ نے شرح وبسط کے ساتھ اس کی وضاحت کی ہے کہ تمام خلافی مسائل میں شریعت مطہرہ اوامر ونواہی میں دو مرتبوں پر وارد ہے، تخفیف اور تشدید۔ تمام شریعت کا حاصل یہ ہے کہ ہر امر اور نہی ان دونوں مرتبوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ یوں کل چار قسمیں(امر مخفف، امر مشدد، نہی مخفف، نہی مشدد)بن گئیں۔ پانچویں قسم مباح ہے جس کی جانبین برابر ہیں۔ اس میں نیت کا اعتبار کیا جائے گا، نیت اچھی ہے تو مستحب، اگر نیت فاسد ہے تو وہ مباح امر مکروہ ہو گا۔

بعض ائمہ کے نزدیک امر مطلق ، جو وجوب یا استحباب کے قرینہ سے خالی ہو، وہ وجوب کو ثابت کرتاہے جب کہ بعض کے نزدیک اس سے صرف استحباب ثابت ہوتا ہے، جب تک وجوب کا قرینہ نہ پایا جائے۔ اسی طرح مطلق نہی سے بعض ائمہ کے نزدیک حرمت ثابت ہوتی ہے، اور بعض دیگر کے مطابق ایسی نہی کو صرف کراہت پر محمول کیا جائے گا جب تک حرمت کا قرینہ موجود نہ ہو۔

پھر ان میں سے ہر دو مرتبہ پر عمل کرنے کے لیے مکلفین کی بھی دو اقسام ہیں۔ چنانچہ جو شخص جسم اور ایمان کے اعتبار سے قوی ہے ، وہ اس عزیمت اور تشدید کا مخاطب ہے جو شریعت میں وارد ہوئی ہے۔ اس کے بر عکس جو اپنے مرتبہءایمان اور جسمانی لحاظ سے ضعیف ہے وہ تخفیف کا مخاطب ہے اور رخصت پر عمل کرنے کا مجاز ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ اختیار کرنے کا حکم استطاعت کے مطابق دیاہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ خطاب عام ہے۔ ([18]) اسی طرح رسول اللہﷺ نے بھی اسی مضمون کو متضمن حکم ارشاد فرمایا کہ زبانِ رسالت سے جو بھی فرمان جاری ہو، اس کو اپنی طاقت اور استطاعت کے مطابق بجا لاؤ۔([19])

لہٰذا جو شخص جسم اور رتبہء ایمان کے لحاظ سے قوی ہو اسے مرتبہء تشدید چھوڑ کر تخفیف ورخصت پر اتر آنے کی اجازت نہیں ہے، جب تک وہ تشدید پر عمل کر سکتا ہے۔ کیوں کہ ایسا کرنا دین کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے۔اسی طرح ضعیف کو مرتبہء عزیمت و تشدید پر عمل کرنے کا پابند نہیں کیا جائے گا۔ ہاں اگر وہ خود مشقت برداشت کر کے عزیمت پر عمل کرے تو اسے روکا بھی نہیں جائے گا جب تک شریعت کی ممانعت نہ ہو۔([20]) جہاں شریعت مانع ہو وہاں اسے منع کیا جائے گا۔ دونوں کی مثال حالت ِسفر میں روزہ رکھنا اور نماز کو قصر کرنا ہے۔مسافر کو روزہ چھوڑ دینے کی رخصت ہے، اگر وہ روزہ رکھ لیتا ہے تو اسے منع نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح مسافر کو نماز قصر کرنے کی رخصت بھی دی گئی ہے لیکن وہ اگر نماز قصر نہیں کرتا اور عزیمت پر عمل کرنا چاہتا ہے تو اسے منع کیا جائے گا کیوں کہ سفر میں مکمل نماز پڑھنے سے شریعت مانع ہے۔

اس بحث کا حاصل یہ ہے ہر وہ مسئلہ جس میں ایک سے زائد احادیث یا اقوالِ ائمہ ہوں، اس میں امر اور نہی، ہر دوجہت سے دو مرتبے جاری ہوتے ہیں، ایک تخفیف اور دوسرا تشدید۔ تخفیف میں رخصت والے احکام ہیں اور تشدید میں عزیمت ہے۔ دوسری طرف تمام مکلفین بھی ایمانی، جسمانی اور موجود حالات کے اعتبار سے دو قسم پر ہیں، قوی اور ضعیف۔ قوی کوتشدید سے خطاب ہے اور اسے عزیمت پر عمل کرنے کا حکم ہے جب کہ ضعیف کے لیے تخفیف ہے اور اسے رخصت پر عمل کرنے کا حکم ہے۔ قوی کو رخصت پر عمل کرنے کی اجازت نہیں ہے اور ضعیف کو عزیمت کا پابند نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں ہی اپنے اپنے مرتبہ کے مطابق عمل کرتے ہوئے شریعت پہ ہی عمل پیرا ہیں اور اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں۔

امام شعرانیؒ کے دور تک یہ منطقی بحث بھی عام تھی کہ حق ان فقہی مذاہب میں دائر ہے، متعین نہیں ہے اور ”المصیب واحد لا بعینہ“ یعنی کسی مسئلہ میں حق کو پہنچنے والا مجتہد ایک ہی ہے لیکن ہمیں معین طور پہ معلوم نہیں کہ وہ کون سا ہے، اگرچہ ہر ایک میں یہی احتمال ہے کہ وہ حق پر ہو گا۔ اس کی تائید میں دلیل یہ دی جاتی تھی کہ حق ایک ہے، متعدد نہیں ہیں، لہٰذا وہ ایک جگہ ہی پایا جا سکتا ہے متعدد جگہ نہیں۔

امام شعرانیؒ نے اس نظریے کی مدلل طریقے سے تغلیط کرتے ہوئے دلائل سے واضح کیا کہ تمام ائمہ اور ان کے مذاہب بر حق ہیں کیونکہ ہر ایک کے پاس قرآن وسنت سے اخذ کردہ کوئی بنیاد اور دلیل موجود ہے۔ المصیب واحد لا بعینہ کی جگہ آپ نے کلّ مجتہد مصیب (ہر مجتہد راہِ صواب پر ہے) کا تصور دیا۔ آپ نے متعدد مقامات پر واضح کیا ہے کہ جمیع الائمة علی ھدی من ربھم تمام ائمہ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں۔ حق کو غیر معین کہنے کی بجائے آپ نے یہ تصور دیا کہ ہماری شریعت میں اتنی وسعت ہے کہ تمام ائمہ کے اختلافی اقوال اس میں سما سکتے ہیں۔ کتاب المیزان کا سب سے مرکزی اور بنیادی نکتہ یہی ہے کہ نہ صرف مذاہب ِاربعہ، ملکہ تمام مذاہب اپنی جگہ درست اور صائب ہیں اور شریعت میں ان تمام مذاہب اور اقوالِ ائمہ کی گنجائش موجود ہے۔

شروع میں دیگر علماءکی طرح امام شعرانیؒ بھی پہلے نظریہ کے حامل تھے۔ اپنے مذہب کو دوسروں پر ترجیح دیتے تھے اور ائمہ میں سے ایک امام کو ہی بر حق سمجھتے تھے۔ بعد ازاں امام شعرانیؒ کو اپنے میزانی تصور کے حوالے سے جب پوری طرح انشراحِ صدر ہو گیا تو آپ نے اپنے سابقہ مؤقف سے رجوع کر لیا۔ کشادہ ظرفی سے اس رجوع کا ذکر کتاب المیزان میں کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب تمام مذاہب میرے نزدیک شریعت کے دریا سے اس طرح متصل ہیںجس طرح انگلیاں ہتھیلی سے، یا سایہ اصل چیز سے متصل ہوتا ہے۔ میں اپنے سابقہ خیال سے رجوع کر تا ہوں جس سے میں اپنے مذہب کو دوسروں پر ترجیح دیتا تھا او ریہ سمجھتا تھا کہ ائمہ میں سے حق تک پہنچنے والا ایک ہی امام ہے اگرچہ وہ معین نہیں۔ اس رجوع پر مجھے انتہاءدرجہ کی مسرت ہو ئی ہے۔([21]) آپ اختلافِ ائمہ کو امت کے لیے باعث ِرحمت کہتے ہیں اور اس کی حکمت یہ بیان فرماتے ہیں کہ اس سے اُمت کے لیے تخفیف و سہولت کی کئی صورتیں سامنے آتی ہیں اور یہ اختلافِ آراءدین میں وسعت اور دوام کے اوصاف کا بھی مظہر ہے۔

فقہ اسلامی کی تاریخ میں یہ پہلی تطبیقی کاوش ہے جو تمام فقہی اقوال پر عمل کو ممکن ثابت کرتی ہے اور جو ہر قسم کے مسلکی وگروہی تعصب سے بالا تر ہے۔ فقہی آراءواقوال میں جمع و توفیق کی اور بھی کوششیں کی گئی ہیں مگر تصورِ میزان سب سے منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ امام شعرانیؒ کا پیش کردہ تصور آپ کا ایک اجتہادی کارنامہ ہے جس سے ائمہ فقہ کے باہمی اختلافات میں بایں طور تطبیق ہوجاتی ہے کہ ان کے کسی قول کو رد کرنے یا اس کے خلافِ شریعت ہونے کا قضیہ ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اس طرح ایک طرف تو ائمہ فقہ کے جملہ اقوال کی تصویب ہوجاتی ہے اور دوسری طرف مکلّفین کے لیے یُسر وتخفیف کے کئی پہلو سامنے آجاتے ہیں۔ یوں شریعت ِاسلامیہ کا تاقیامت قابل ِعمل اور سدا بہار ہونے کا وصف ، جو صرف اسی کے شایانِ شان ہے ، ظاہر وباہر ہوجاتا ہے۔

سبب ِتالیف

امام شعرانیؒ کے پیشِ نظر کتاب المیزان کی تالیف کے مختلف اسباب تھے۔ پہلا اور بڑا سبب یہ ہے کہ اس تالیف سے مسلمان بھائیوں کے لیے اس حکم پر عمل کی راہ ہموار ہو جائے جو اس آیت میں دیا گیا ہے:

شَرَعَ لَکُم مِّنَ الدِّینِ مَا وَصّٰی بِہ نُوحاً وَّالَّذِی اَوحَینَا الَیکَ وَمَا وَصَّینَا بِہِابرَاہِیمَ وَمُوسٰی وَعِیسٰی اَن اَقِیمُوا الدِّینَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیہِ ([22])

”اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کے لیے وہی دین جاری کیا جس کا اس نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا،اور وہی ہم نے آپ کی طرف وحی کیا ہے، اور جس کاحکم ہم ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) کو دیا تھا،کہ اس دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔“

اللہ تعالیٰ نے دین کو قائم رکھنے کا حکم دیا اور اس میں تفرقہ ڈالنے سے منع کیا ہے اس لیے اس میزان کی تالیف کے ذریعے فقہا کے مابین مختلف اقوال کو اس طرح جمع کیا جائے کہ ان میں کوئی تعارض نظر نہ آئے اور تفرقہ پیدا ہونے کا شائبہ بھی نہ ہو۔

اس تالیف کا دوسرا سبب یہ ہے کہ عام لوگ جو زبان سے یہ اقرار کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے تمام امام رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں، جب ان کو یہ واضح ہو جائے کہ اختلافی اقوال میں کوئی تعارض نہیں ہے تو ان کا قلبی اعتقاد بھی زبانی اقرار کے موافق ہو جائے، تاکہ وہ دل سے تمام ائمہ کی تعظیم کر کے اللہ کے ہاں اجر کے مستحق ہوں۔ اگر کوئی شخص زبانی اقرار تو کرے مگر دل سے یہ اعتقاد نہ رکھے کہ تمام ائمہ حق پر ہیں تو یہ صورت نفاق کی ایک ادنیٰ علامت ہے اور اس سے مسلمانوں کو بچانا مقصود ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کافروں کے کفر سے زیادہ منافقوں کے نفاق کی مذمت کی ہے۔ مثلاً ارشاد ہوا:

یَا اَیُّھاَ الرَّسُولُ لاَ یَحزُنکَ الَّذِینَ یُسَارِعُونَ فِی الکُفرِ مِنَ الَّذِینَ قَالُوا آمَنَّا بِاَفوَاہِہِم وَلَم تُؤمِن قُلُوبُہُم ([23])

”اے رسول (ﷺ)! کفر میں جلدی کرنے والے آپ کوغم میں نہ ڈالیں جو منہ سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے،حالاں کہ ان کے دل ایمان سے خالی ہیں۔“

لہٰذا اللہ تعالیٰ کے ہاں جو بات کفار ومنافقین میں معیوب ہے، مسلمانوں کو اس کے تشبہ سے بھی گریز کرنا چاہیے۔

تیسری غرضِ تالیف یہ تھی کہ کسی ایک امام کا مقلد ایک ایسے شخص کی تکذیب نہ کرے جو اس امام کے مذہبی قواعد کی مخالفت کرتا ہو اور اہل ِاجتہاد میں سے ہو۔کیوں کہ اہل ِاجتہاد اللہ کی طرف سے ہدایت پر ہوتے ہیں۔ جب ہر مجتہد کی دلیل ظاہر کر دی گئی تو انکار وتکذیب کی راہ بند ہو جائے گی۔([24])

اس کتاب کے تالیفی پس منظر کے بارے میں امام شعرانیؒ نے جو بیان کیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ دورانِ تدریس کئی بار طلبہ نے اس ضرورت کا احساس دلایا کہ جس طرح ہم تمام ائمہءاسلام کے برحق ہونے کا زبانی دعویٰ کرتے ہیں، کوئی ایسی صورت پیدا ہونی چاہیے کہ دل سے بھی اس بات کا اسی قدر پختہ اعتقاد حاصل ہو۔ جب بارہا یہ تقاضا کیا گیا تو آپ نے ادلہء شرعیہ اور اقوالِ علماءمیں عمیق غور و فکر شروع کر دیا کہ کس طرح تمام ائمہ کے کلام کا شریعت میں داخل ہونا باور کرایا جا سکتا ہے۔([25]) اس دوران میں آپ نے ایک کتاب ”المیزان الخضریة“ لکھی۔ اسے المیزان الصغریٰ بھی کہا جاتا ہے۔ المیزان الصغریٰ کے پس منظر سے متعلق امام شعرانیؒ کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ احسان کیا کہ ایک رات مسجد کی چھت پہ خضر ؑسے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ مجھے کوئی ایسا میزان سکھائیں جس سے مجتہدین کے مذاہب کو جمع کر سکوں اور ان سب کو شریعت کی طرف لَوٹا کر ان کا موافقِ شرع ہونا واضح کر سکوں، تو انھوں نے یہ میزان سکھایا۔ ([26]) المیزان الخضریة کی تالیف کے بعد اس کی شرح وتوضیح کی جانب متوجہ ہوئے تو ’المیزان الکبریٰ‘ معرضِ وجود میں آئی۔ یوں کتاب المیزان کی بنیاد ’المیزان الخضریة‘ ہے۔

جب اس کتاب کی تالیف مکمل ہو گئی تو آپ نے بعض تلامذہ کو اس کی تعلیم دینا شروع کی، لیکن وہ اسے پوری طرح دائرہء فہم میں نہ لا سکے تو آپ نے چاروں مذاہب کے علماءکو جمع کیا۔ان کے اور اپنے تلامذہ کے سامنے اسے پڑھا اور اس کے مسائل کی وضاحت کی تو تمام مذاہب کے اقوال کی عمدہ توجیہات دیکھ کر ہر دو گروہ نے اس کی فضیلت کا اعتراف کیا اور باقاعدہ اس کی تدریس کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

امام شعرانیؒ نے یہ کتاب اپنے زمانہ کے اکابر مشائخِ اسلام اور ائمہ کے مشورے سے تصنیف کی۔ احاطہء تصنیف میں لانے سے قبل آپ نے اس کتاب کے مباحث ان کے سامنے رکھے اور کہا کہ اس میں آپ لوگ غور و فکر کریں، اگر آپ متفق ہوں تو اس کو مکمل کروں اور اگر آپ راضی نہ ہوں تو اسے محو کر دوں، کیوں کہ میں اس معاملے میں اتفاق کا متمنی ہوں۔([27])

کتاب کے ابتدائی مسودہ کی زبان بہت ادق تھی۔ دورانِ تدریس طلبہ اکثر عبارت کے مشکل ہونے کی شکایت کرتے اور تقاضا کرتے تھے کہ زیادہ آسان اور واضح عبارت کے ساتھ اسے دوبارہ لکھیں تا کہ ہر کسی کو اس سے استفادہ آسان ہو سکے۔ دورانِ تدریس ہی شیخ جب بھی کسی باب میں دو مختلف احادیث یا اقوال کے مابین مطابقت واضح کرتے تو طلبہ مزید دو احادیث یا اقوالِ ائمہ پیش کر دیتے کہ ان دونوں کا بھی بیک وقت صحیح ہونا ثابت کریں تا کہ ایک کو دوسرے پر ترجیح نہ رہے۔یوں روزانہ علمی مذاکرے کا یہ سلسلہ چلتا رہتا۔ بعد ازاں شعرانیؒ نے اللہ تعالیٰ سے بذریعہ استخارہ مدد کی درخواست کی اور اس کتاب کودوبارہ آسان الفاظ میں، بسط و وضاحت کے ساتھ لکھنا شروع کر دیا۔ مذاکرے کے دوران میں جس قدر مزید احادیث اور فقہی اقوال زیر بحث آئے تھے وہ بھی اس میں شامل کر دیے گئے۔([28])یوں بہت طویل، صبر آزما اور کٹھن مراحل کے بعد یہ کتاب نکھر کر منصہ شہود پر آئی۔

اجزاء

کتاب المیزان دو اجزاءپر مشتمل ہے۔ پہلے جزءکا آغاز مؤلف کے مبسوط مقدمہ سے ہوتا ہے،جس میں میزان کی تالیف کی غرض وغایت، اختلافِ مذاہب میں حکمت ِالٰہی اور جمیع ائمہ کے برحق ہونے جیسے مسائل پر اہم گفتگو کی ہے۔ اس کے بعد شیخ نے 29فصول میں اپنے تصورِ میزان کے ایک ایک پہلو کی بالتفصیل وضاحت کی ہے۔ اس وضاحت میں نقشوں اور حسی مثالوں کو بھی بغرضِ تفہیم بروئے کار لایا گیا ہے۔ پھر۵ فصول میں بصراحت ائمہ اربعہ اور دیگر فقہاءکی آراءنقل کی ہیں کہ وہ دلیل کے بغیر صرف رائے پر فیصلہ کرنے کو کس قدر مذموم خیال کرتے تھے۔ اس کے بعد ۶ فصول امام ابو حنیفہؒؒ پر وارد ہونے والے اعتراضات کے رد، امام موصوف کے دفاع اور ان کے تبحر علمی کے بیان پر مشتمل ہیں۔

بعد ازاں ابوابِ فقہ کی ترتیب کے مطابق ۷ فصول میں ایسی احادیث مبارکہ ذکر کی ہیں جن کا مفہوم بظاہر مختلف ہے، اور ان میں تصورِ میزان کے مطابق تطبیق دی ہے۔پھر اسی طرز پر مختلف فیہ اخبار وآثار میں تطبیق کی صورت واضح کی ہے۔ اس کے بعد تمام فقہی ابواب کے اختلافی مسائل میں تصورِ میزان کا عملی انطباق شروع کرتے ہیں،اس کا آغاز کتاب الطہارت سے ہوتا ہے اور کتاب الجنائز پر پہلا جزءختم ہو جاتا ہے۔ اسی انداز میں دوسرا جزءکتاب الزکوٰة سے شروع ہوتا ہے اور ابوابِ فقہ کے اواخر تک جا کے اختتام پذیر ہوتاہے۔ آخری بحث امہات الاولاد سے متعلق اجماعی اور اختلافی مسائل کے بیان پر مشتمل ہے۔

کتاب کا خاتمہ امام شعرانیؒ کے مرشد شیخ علی خواصؒ کے ملفوظات پر ہوتا ہے جن میں احکامِ شریعت کے اسرار بیان کیے گئے ہیں۔شعرانیؒ نے کتاب کے دیباچہ میں اس کاذکر کیا تھا کہ خاتمہ میں یہ ملفوظات بیان کروں گا کیونکہ ان کا کتاب کے مضامین سے گہرا تعلق ہے۔ یہ خاتمہ دیگر تمام طبعات میں موجود ہے مگردکتور عبد الرحمن عمیرہ نے اپنی تخریج کردہ کتاب المیزان میں اسے عمداً ذکر نہیں کیا اور حاشیہ میں وضاحت کی ہے کہ یہ خاتمہ اہل تصوف سے متعلقہ امور پر مشتمل ہے اور باقی کتاب فقہی امور سے بحث کرتی ہے اس لیے اسے ترک کیا جا رہا ہے اور ایک الگ کتاب کی صورت میں تحقیق و تخریج کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔([29])

منہج کتاب

امام شعرانیؒ نے جن فصول میں تصورِ میزان کی وضاحت کی ہے ان میں زیادہ تر اور دیگر مقامات پر کہیں کہیں متکلمانہ انداز اختیار کیا ہے۔ پہلے سوال قائم کرتے ہیں، پھر اس کے جواب میں اپنے مؤقف کی وضاحت کرتے اور اس کے دلائل دیتے ہیں۔

آپ نے اس کتاب کو فقہی ابواب پہ مرتب کیا ہے۔ ہر باب میں اولاً وہ مسائل ذکر کرتے ہیں جن پر فقہا ء کرام کا اتفاق ہے۔ بعد ازاں وہ مسائل لاتے ہیں جن میں اختلاف ہے۔ مختلف فیہ مسائل ذکر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اختلافی اقوال مع ان کے قائلین کے ذکر کرتے ہیں، پھر ان کا اپنے میزان کے دو پلڑوں کے مطابق مشدد یا مخفف ہونا واضح کرتے ہیں اور اس کے بعد کسی تعصب یا مخالف رائے کے استخفاف کے بغیرہر قول کی علت اس انداز سے بیان کرتے ہیں کہ اس میں نہاں تمام ممکنہ حکمتیں واضح ہو جاتی ہیں اور یوں تطبیق کا راستہ پوری طرح ہموار ہو جاتا ہے۔

کتاب المیزان میں مذاہب اربعہ کے ساتھ کہیں کہیں مذاہبِ معدومہ مثلاً مذہب ِعائشہؓ ، مذہبِ داؤدؒ، مذہبِ لیثؒ و دیگر فقہاءکے مختار مذاہب کے بعض احکام بھی مذکور ہیں۔([30]) بعض مسائل ایسے ہیں جن میں ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے مگر دیگر فقہاءمیں سے کسی کا اختلاف ہو تو اسے بھی ذکر کر دیا گیا ہے۔ اس سے شعرانیؒ کی وسعتِ مطالعہ کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مذاہب اربعہ کے ساتھ دیگر مذاہب کے اصول ودلائل پہ بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔

شیخ شہاب الدین شلبی حنفیؒ اس کتاب کو عاریتاً لے گئے۔ کچھ دن اپنے پاس رکھ کے واپس لائے اور شیخ سے کہنے لگے کہ یہ آپ ہی کی خصوصیت ہے کہ دلائل کے ساتھ تمام مذاہب اور ان کی علل وحکم کے بیان پر عبور حاصل ہے، اپنے دائرہء مذہب سے باہر گفتگو کرنا میرے لیے تو ہر گز ممکن نہیں ہے۔([31])

مصادرِ کتاب

امام شعرانیؒ نے کتاب المیزان کی تالیف میں قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ جن کتب پر اعتماد کیا ان کی تعداد کافی زیادہ ہے اور ان میں سے اکثر کا شمار بنیادی مصادر میں ہوتا ہے۔ کتب ِتفاسیر میں سے تفسیر قرطبی، تفسیر بغوی، تفسیر ابن کثیر، تفسیر زمخشری، تفسیر جلالین، تفسیر بیضاوی ، کتب ِحدیث میں سے صحاح ستہ، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان، مسند احمد، مؤطا امام مالک، بیہقیؒ کی سنن کبریٰ، شروحِ حدیث میں سے علامہ عینیؒ کی عمدة القاری، حافظ ابن حجر کی فتح الباری، قاضی عیاضؒ کی شرح مسلم، ابن ملقنؒ کی شرح ترمذی اس کتاب کے مآخذ میں نمایاں طور پر قابلِ ذکر ہیں۔

فقہ میں امام نوویؒ کی ’منہاج الطالبین فی فروع الشافعیة، اصولِ فقہ میں امام تاج الدین سبکیؒ کی جمع الجوامع کے علاوہ شرح المہذب، شرح المنہاج، شیخ زکریا انصاری کی ’کتاب الروض‘ امام شافعیؒ کی کتاب الاُم اور قواعد زرکشی سے بھی امام شعرانیؒ نے یہ کتاب لکھتے وقت خاطر خواہ استفادہ کیا۔ دیگر فنون کی کتب میں سے شیخ عز الدینؒ کی قواعد الکبریٰ اور قواعد الصغریٰ، کتب لغات میں الصحاح، قاموس، النہایة اور تہذیب الاسماءواللغات، اصول میں سے امام غزالیؒ کی المستصفیٰ اور احیاءالعلوم، فتاویٰ میں سے فتاویٰ بلقینی، فتاویٰ شیخ زکریا انصاری اور فتاویٰ شیخ شہاب الدین رملی بھی ان مصادر میں شامل ہیں جن کو اس کتاب کی تالیف میں پیش نظر رکھا گیا۔

کتاب المیزان کا علمی مقام

امام شعرانیؒ کو اللہ تعالیٰ نے ذہانت و ذکاوت، دقت ِنظر، حاصلِ مطالعہ میں غورو فکر اور اس کے ساتھ ساتھ انکساری وعاجزی اور ورع وتقویٰ جیسی صفات سے نوازا تھا۔ آپ نے مروجہ ہر علم وفن میں کمال حاصل کیا۔ اس لیے آپ علمی لحاظ سے بلند مقام پر فائز تھے۔ آپ کی تمام تالیفات اپنے اپنے میدان میں منفرد حیثیت کی حامل ہیں۔ ان تالیفات میں سے کتاب المیزان سب سے زیادہ طبع ہونے والی اور پڑھی جانے والی کتاب ہے اور اس کا بنیادی سبب اس کتاب کا علمی مقام و مرتبہ ہے۔

فقہی فروعی اختلافات اور ان کے مابین تطبیق کے موضوع پر امام شعرانیؒ سے ما قبل اور مابعد بہت سے علمی آثار موجود ہیں مگر کتاب المیزان اپنے اسلوبِ بیان ، ندرتِ فکر اور مضامین کے بے نظیر ہونے کے باعث نمایاں ہے۔ اس کتاب کے تالیف کیے جانے کے بعد اس موضوع پر قلم اٹھانے والے بہت کم ایسے ہوں گے جنھوں نے اس سے استفادہ یا اس کا ذکر نہ کیا ہو۔

کتاب المیزان کی علمی قدر وقیمت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں۰۰ ۲ سے زائد آیات مبارکہ اور ۴۵۰ سے زائد احادیث شریفہ سے استدلال و استشہاد کے علاوہ ۵۰۰ سے زائد اعلام کے اقوال سے اعتناءکیا گیا ہے۔۶۰ سے زائد ایسے اہم مراجع کا بالواسطہ یا بلاواسطہ ذکر موجود ہے جن سے اخذ واستفادہ کیا گیا ہے۔

اس کتاب نے ماہرین ِادبِ اختلاف اور مختلف فیہ مسائل میں تطبیق کی کوشش کرنے والے علماءکی فکر پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ آپ کا میزانی تصور اس حد تک معتدل اور قرین ِقیاس ہے کہ ان کے بعد اس موضوع پر قلم اٹھانے والا کوئی بھی محقق اس کتاب سے اعتناءکیے بغیر اپنی تحقیق کو آگے نہیں بڑھا سکتا۔

امام شعرانیؒ سے قبل مختلف فیہ اقوالِ مجتہدین میں جتنی بھی کاوشیں کی گئیں، ان کی نوعیت مختلف ہے۔ان کے مطابق کسی نے اختلافِ فقہاءکو صرف بیان کرنے پر اکتفاءکیا،جیسا کہ ابن جریر طبریؒ وغیرہ، کسی نے آگے بڑھ کر ان کے ادلہ بھی بیان کر دیے۔ کسی نے ان دلائل میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دی، یا کسی نے اپنے مذہب کے دلائل کواز سرِ نو مرتب کر دیا۔ اس موضوع پر تالیف کی گئی اکثر کتب میں صرف اختلافی مسائل کا بیان یا ان کے قائلین کے دلائل ذکر کیے گئے ہیں لیکن اختلافی مسائل کے بیان کے ساتھ ساتھ ان اقوال کے مابین تطبیق دینا اور ان کو اس طرح جمع کرنا کہ دونوں اطراف ہی قابل عمل نظر آئیں، ایسی کوئی ٹھوس، سنجیدہ اور قابل ذکر کوشش امام شعرانیؒ کی میزان الکبریٰ سے پہلے نظر نہیں آتی۔

آپ نے جو مؤقف اختیار کیا کہ ان مسائل میں کوئی اختلاف نہیں، جو مختلف صورتیں ملتی ہیں وہ تشدید و تخفیف کے گرد گھومتی ہیں اور یہ دونوں شریعت کے مقاصد میں سے ہیں، یہ مؤقف آپ سے قبل کسی نے بھی اختیار نہیں کیا اور نہ ہی کوئی آج تک یہ کَہ سکاکہ شعرانیؒ نے یہ فکر کسی اور سے اخذ کی تھی۔ اس تناظر میں شعرانیؒ وہ پہلی شخصیت ہیں جنھوں نے کتاب المیزان کی صورت میں ائمہ کے اجماعی اور اختلافی اقوال کا نہ صرف ایک انسائیکلو پیڈیا تیار کیا بلکہ ائمہ وفقہاءکے مختلف فیہ اقوال کے درمیان توافق اور تطابق کی وہ صورت پیش کی کہ ان کے اس تصور میں تمام اقوال ایک ہی منبع (شریعت) سے پھوٹتے ہوئے نظر آتے ہیں اور یہ تمام اقوال مختلف اوقات اور حالات میں احکامِ شرع پر عمل کرنے کی مختلف صورتیں دکھائی دیتے ہیں۔ شعرانیؒ نے ان اختلافات میں الجھنے کی بجائے ان سے بالاتر ہو کر وسعتِ نظر اور کشادہ دلی سے ان پر غور کیا اور ان مختلف فیہ اقوال کو شریعت مطہرہ کی مختلف توسیعی جہتیں قرار دیا۔

ائمہءفقہ کے بارے میں جن غلط فہمیوں کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی،ان کا رد کرتے ہوئے امام شعرانی ؒنے مضبوط دلائل سے ثابت کیا کہ چاروں ائمہ راہِ حق و صواب پر ہیں۔ ائمہ اربعہ کی کوئی رائے بھی ایسی نہیں ہے جس کی سند میں کوئی قرآنی آیت ، حدیث نبوی ، اثر ِصحابی یا صحیح اصل پر مبنی قیاس نہ پایا جاتا ہو۔ امام شعرانیؒ نے شریعت اور طریقت کے مابین خود ساختہ خلیج کو ختم کرنے کے سلسلے میں بھی اہم علمی خدمات سر انجام دیں اور دونوں کو باہم لازم وملزوم قرار دیا۔

کتاب المیزان کے مطالعہ کی اہمیت درج ذیل نکات کی صورت میں آشکار ہوتی ہے اور یہی نکات خلاصہء بحث بھی ہیں۔

۱۔اس کتاب کے مطالعہ سے فقہاءِِ اسلام کی آراءکے حوالے سے ایک منفرد تطبیقی نکتہءنظر سامنے آتا ہے۔

۲۔ائمہ اربعہ کے پیروکاروں کے مابین موجود کئی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوتا ہے۔

۳۔شریعت وطریقت کے تقاضوں کی عدمِ مناسبت کا تصور جو کہ افراط وتفریط پر منتج ہوتا ہے اور بسا اوقات صاحبانِ شریعت وطریقت کے مابین منافرت کا باعث بنتا ہے، تصورِ میزان اس غیر حقیقی اور غیر فطری فرق کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

۴۔تصورِ میزان کی روشنی میں فقہاءکرام کے اجتہادی اختلافات سے استفادہ کرتے ہوئے عصر حاضر میں اسلامی قانون سازی کے سلسلے میں مدد لی جاسکتی ہے۔

۵۔لوگوں کو مختلف حالات کے تحت کسی مسئلہ میں ایک فقہی رائے سے عدول کر کے دوسری رائے اختیار کرنا پڑتی ہے۔ ایسی صورت میں بعض لوگوں میں ذہنی عدم اطمینان پیدا ہوتا ہے۔ تصورِ میزان اس عدم اطمینان کو ختم کر کے اس کی جگہ یقین و اذعان پیدا کرتا ہے۔

۶۔ائمہ اربعہ کے ساتھ ساتھ تمام فقہاءکی عظمت کا احساس اور احترام کا جذبہ دل میں بیدار ہوتا ہے۔

۷۔معاصرپُر تشدد مسلکی رویوں کی وجہ سے امت بہت سی پیچیدگیوں کا شکار ہے اور مسلم معاشرہ میں گروہی تعصب و اضطراب پایا جاتا ہے۔ اس کتاب کے مباحث کے پیشِ نظر نہ صرف متشدد رویوں میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے بلکہ مختلف مسالک وجود میں آنے کی حکمت اجاگر کرتے ہوئے ایک نیا اندازِ فکر سامنے آتا ہے۔

۸۔تیز رفتار معاشرتی ومعاشی ترقی کی وجہ سے ایسے جدید مسائل سامنے آتے ہیں جن کا حل تلاش کرنے میں ایک سے زائد فقہی مذاہب کی آراءسے استفادہ کرنا پڑتا ہے۔ کتاب المیزان اس ضمن میں بھی بہت معاون ہے۔

۹۔اس کتاب کی روشنی میں فقہی اختلافات، اختلافات نہیں رہتے بلکہ اتفاقات بن جاتے ہیں اور مختلف فقہی آراءو اقوال پر عمل کرنے کی مختلف صورتیں اجاگر ہوتی ہیں۔

 

حوالہ جات

  1. ۔ النحل : ۴۴
  2. ۔ ابن خلکان ، احمد بن محمد، وفیات الاعیان وانباءابناءالزمان، بیروت: دار صادر، ۱۳۹۷ھ، ۵۴۰۹
  3. ۔ امام شعرانیؒ کے احوال و آثار ِ حیات کے لیے ملاحظہ ہو: ۱۔ ابن العماد، عبد الحی بن احمد، شذرات الذھب، بیروت: دار ابن کثیر،۱۹۹۳ء،ج۱۰، ص۵۴۴۔۵۴۷/ ۲۔ مناوی، عبد الرؤوف، الکواکب الدُرّیة فی تراجم السادة الصوفیة، قاہرہ: المکتبة الازہریة للتراث، س ن،ج۴، ص۶۹۔۷۵/ ۳۔ غزی، نجم الدین محمد بن محمد، الکواکب السائرة باعیان المئة العاشرة، بیروت: دار الکتب العلمیة،۱۹۹۸ء،ج۳، ص۱۵۷۔۱۵۸/ ۴۔ملیجی، ابو الانس بن عبد الرحمان، تذکرة اولی الالباب فی مناقب الشعرانیؒ سیدی عبد الوہاب، قاہرہ: الدار الجودیہ،۲۰۰۵ء/ ۵۔ فرغلی، عبد الوہاب الشعرانیؒ امام القرن العاشر، مصر: الہیئة المصریة العامة للکتاب،۱۹۸۰ء/ ۶۔ طٰہٰ عبد الباقی سرور، الشعرانیؒ والتصوف الاسلامی،قاہرہ: مطبعة العلوم،۱۳۷۲ھ/ ۷۔ اسماعیل پاشا بغدادی ، ہدیة العارفین، بیروت: دار احیاءالتراث العربی،۱۹۵۱ء،ص ۶۴۱۔۶۴۲/ ۸۔ کوہن فاسی، ابو علی حسن بن محمدقاسم،طبقات الشاذلیة الکبریٰ، بیروت: دار الکتب العلمیة،۲۰۰۵ء، ص ۱۳۰۔۱۳۴
  4. ۔غزی، نجم الدین محمد بن محمد، الکواکب السائرة باعیان المئة العاشرة، بیروت: دار الکتب العلمیة،۱۹۹۸ء،ج ۳، ص۱۵۸
  5. ۔ شعرانیؒ کی تالیفات کی فہرست کے لیے ملاحظہ ہو: ملیجی، ابو الانس بن عبد الرحمان، تذکرة اولی الالباب فی مناقب الشعرانیؒ سیدی عبد الوہاب، (المناقب الکبریٰ) قاہرہ: الدار الجودیہ،۲۰۰۵ءص ۷۹۔۸۲
  6. ۔ ایضاً، ص ۴
  7. ۔ شعرانیؒ ، عبدالوہاب بن احمد، لطائف المنن والاخلاق، دمشق:دارالتقویٰ، ۱۴۲۵ھ، ص ۹۱
  8. ۔ ابن ِمنظور، محمد بن مکرم افریقی، لسان العرب، قاہرہ: دار المعارف، س ن،ج ۶، ص۴۸۲۸/ فیروز آبادی، محمد بن یعقوب، القاموس المحیط، بیروت: مؤسسة الرسالة،۱۴۲۶ھ، ۲۰۰۵ء، ص ۱۲۳۸
  9. ۔ الرحمٰن: ۰۷
  10. ۔ ایضاً: ۰۸
  11. ۔ ایضاً: ۰۹
  12. ۔ عمیرہ، عبد الرحمن، مقدمہ کتاب المیزان، بیروت: عالم الکتب، ۱۹۹۸ء،ج۱، ص۵۱
  13. ۔ ملیجی، تذکرة اولی الالباب، ص ۵۱
  14. ۔ مناوی، عبد الرؤوف، الکواکب الدُرّیة فی تراجم السادة الصوفیة، قاہرہ: المکتبة الازہریة للتراث، س ن،ج۴، ص۷۱
  15. ۔ سرکیس، یوسف الیان، معجم المطبوعات العربیة والمعربة،قاہرہ: مکتبة الثقافة الدینیة،س ن، ص ۱۱۳۴
  16. ۔ شعرانی، کتاب المیزان، بیروت: عالم الکتب، ۱۴۰۹ھ،ج۱، ص۵۹
  17. ۔ ایضاً ، ص ۶۲۔۶۳
  18. ۔ التغابن: ۱۶
  19. ۔ صحیح البخاری، باب الاقتداءبسنن رسول اللہﷺ، حدیث نمبر ۷۲۸۸/صحیح المسلم، باب فرض الحج مرة فی العمر، حدیث نمبر ۱۳۳۷
  20. ۔ شعرانی، کتاب المیزان،ج۱، ص۶۷۔۶۸
  21. ۔ ایضاً، ج۱، ص۱۲۶
  22. ۔ الشوریٰ:۱۳
  23. ۔ المائدہ: ۴۱
  24. ۔ شعرانی، کتاب المیزان، ج۱، ص۶۵۔۶۶
  25. ۔ ایضاً، ج۱، ص۹۵
  26. ۔ سرکیس، یوسف الیان، معجم المطبوعات العربیة والمعربة، ص ۱۱۳۳
  27. ۔ شعرانی، کتاب المیزان، ج۱، ص۶۴
  28. ۔ ایضاً،ج۱،ص۷۸
  29. ۔ عمیرہ، عبد الرحمن ، مقدمہ کتاب المیزان، ج۳،حاشیہ ص۹ ۴۴
  30. ۔ مثلاً دیکھیے،کتاب المیزان، ج۱، ص ۸۴، ۱۴۶، ۳۵۶، ۳۷۴ وغیرہ
  31. ۔ شعرانی، لطائف المنن والاخلاق، ص ۹۲
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...