Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 34 Issue 1 of Al-Tafseer

قرون اولی میں مناہج اصول فقہ اور اس کا نشو و ارتقاء |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

34

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060084478_1061

Pages

96-108

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/116

Subjects

Legal maxims Jurisprudence Islamic Law.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

قرآن مجیدآخری صحیفۂ ہدایت اور انسانیت کے لیے مکمل ضابطہ حیات ہے۔ تمام شعبہ ہائے زندگی کے لیے بنیادی اصول وقواعد اس میں بیان فرمادیے گئے ہیں۔ کہیں صراحت سے معاملے کی وضاحت فرمادی اور کہیں اشارۃً اصول بیان فرمادیے اور قرآنی تعلیمات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی کے عمل کو امت کے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیا۔ رسول اللہﷺ نے اس ابدی ضابطہ حیات کے ایک ایک حکم پر عمل کرکے دکھایا تاکہ قرآن کے مفہوم ومطالب کو سمجھتے اور اس پر عمل کرنے میں کسی قسم کی دشواری پیش نہ آئے۔ یہ ذمے داری اللہ ذوالجلال نے عطا فرمائی۔

وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ([1]) ان اصولوں اور ضابطوں کی تفصیلی وضاحت ‘ نکات کی تشریحات اور اجمال کے بیان کے لیے گویا قرآن نقشہ ہے اور رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی اس نقشے کے مطابق عملی عمارت ہے۔ اسی لیے قرآنِ کریم میں جگہ جگہ وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ([2]) کا حکم دیتے دیتے ایک جگہ یہ فرمادیا کہ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ ([3]) یعنی صرف رسول اللہﷺ کی اطاعت ہی کافی ہے کیونکہ وہ اطاعت دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے کیونکہ رسول اللہﷺ کا کوئی عمل اطاعت الہٰی سے خالی نہیں اور آپؐ کا ہر عمل وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰی اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی([4]) کا مصداق ہے۔ شریعت کیا ہے اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے احکامات اور طریقوں پر عمل کرنا۔

قرآن وسنت میں قیامت تک آنے والے انسانوں کے بعض معاملات کی وضاحت اور بعض معاملات کے لیے رہنما اصول قائم کردیے ہیں تاکہ ہر زمانے میں آنے والے مسائل ان اصولوں اور مبادیات کی روشنی میں شریعت کے دائرے میں رہ کر حل کئے جائیں۔ صحابہ کرام، جو اللہ اور اس کے رسول کے سچے شیدائی اور فاستبقو الخیرات کے جذبے سے سرشار تھے، قرآن کے نزول واسباب سے واقف‘ کلام اللہ کے معانی واسرار ورموز سے آگاہ۔ زبان وادب کے ماہر‘ ان کے لیے قرآن سمجھنا کوئی دشوار نہ تھا۔ باوجود اس کے قرآن میں غور وفکر وتدبر اور عمیق مطالعہ جاری رہا اور مسلسل ذہن کھلتے گئے اور اس بحر ِ بے کنار کی تہہ سے قیمتی علمی موتیوں کے خزانے تلاش کرتے رہے۔

ساتھ ہی رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ کا گہری نظر سے مطالعہ بھی جاری رہا۔ رسول اللہﷺ کی ہر ادا کو بغور دیکھتے اور اس پر عمل کرتے رہے۔

یہ اندازہ کرنے میں انھیں دشواری نہیں تھی کہ رسول اللہﷺ کس عمل کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں کس پر مواظبت اختیار کرتے ہیں اور کس عمل پر مواظبت اختیار نہیں کرتے۔ احادیث بیان کرنے والوں کے لیے کسی جرح و تعدیل کی بھی ضرورت نہ تھی وہ ایک دوسرے کے کردار وافکار سے واقف تھے۔

فرض ، واجب،مستحب، مباح یہ اصطلاحیں بعد کی پیداوار ہیں۔ فقہاء نے دلیل کی قوت وضعف کی بنا پر یہ اصطلاحیں ایجاد کیں۔ رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں یہ اصطلاحیں نہیں تھیں۔ رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی تشریحی حیثیت کی مالک تھی۔ آپ کا فرمان قانون کی حیثیت رکھتا ہے اس لیے ارشاد فرمایا کہ: وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۗ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ([5])

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْـَٔلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ ۚ وَ اِنْ تَسْـَٔلُوْا عَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ ؕ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ(المائدہ:101)

اسی لیے کثرت سوال سے منع فرمایا ۔([6])

مشہور روایت ہے کہ حج کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا کہ’’اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے۔‘‘ ایک شخص نے سوال کیا کہ ہر سال؟ آپﷺ خاموش رہے اس نے تین مرتبہ سوال دہرایا ‘ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ ’’اگر میں ہاں کہہ دیتا تو حج ہر سال فرض ہوجاتا اور اگر ایسا ہوتا تو ہر سال حج کرنا تمھارے لیے ممکن نہ ہوتا ۔“([7])

عرب معاشرہ سادہ تھا تہذیت وتمدن کی وہ چہل پہل جو فارس اور روم میں تھی اس سے عرب ناآشنا تھے۔ سادہ زندگی کی جو بھی ضروریات ومسائل تھے ان کے لیے وحی کے ذریعہ ہدایات دی جاتی رہیں۔ ہدایت کا مرکز رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی تھی جو معاملہ درپیش ہوتا صحابہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر مسئلے کا حل دریافت کرتے۔ اس پر وحی نازل ہوتی یا پھر خود رسول اللہ ﷺاس معاملے میں حل بیان فرماتے۔ اللہ تعالیٰ علیم وخبیر ہے وہ جانتا ہے کہ کس زمانے میں کیا ضرورت پیش آئے گی اس لیے ایسے اصول وضوابط بھی بیان فرمادیے جو قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہے۔

انھیں اصولوں کی روشنی میں صحابہ نے اصول ِ فقہ کی بنیاد رکھی اور رہتی دنیا کے لیے ایسی مثالیں قائم کیں جن پر بعد والوں نے مزید غور وفکر کرکے ایک ایسے علم کی بنیاد رکھی جس کی نظیر دنیائے قانون میں کہیں نہیں ملتی۔

ڈاکٹر حمید اللہ اسلامی قانون کے متعلق لکھتے ہیں:

”اسلامی قانون رسول اللہﷺ کی نبوت کے بعد سے شروع ہوتا ہے جس کی ابتدا میں کچھ پرانے رسم ورواج جو کہ مکہ میں تھے ،وہ شامل رہے اور رفتہ رفتہ اس کی ترمیم واصلاح قرآن وحدیث کے ذریعے ہوتی رہی۔ اس میں بعض اور چیزوں کو بھی گوارا کیا جاتا رہا۔ جیسے معاہدات‘ سابقہ امتوں کی شریعتیں جو اسلام نے برقرار رکھیں اور اسی طرح کی بعض اور چیزیں۔جبﷺ کی وفات ہوگئی اور قانون کا سرچشمہ بند ہوگیا یعنی وحی کے ذریعے سے قانون کو بنانے اور بدلنے کی جو صلاحیت ہم میں پائی جاتی تھی وہ ختم ہوگئی تو ہم مجبور ہوگئے کہ رسول اللہﷺ نے اپنی وفات کے وقت جو چیزیں ہم میں چھوڑی ہیں انہی پر اکتفا کریں۔ عام حالتوں میں ہمارے لیے یہ بات مشکلات کا باعث بن جاتی‘ اگر اس قانون کی ترقی کی صورت خود قانون ساز نے یعنی خدا اور رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نہ بتائی ہوتی۔“([8])

ڈاکٹر محمود احمد غازی لکھتے ہیں:

”دنیا کے ہر مذہب کو ایک پیچیدہ اور مشکل صورتِ حال پیش آئی‘ جس سے عہدہ برآ ہونے میں اکثر مذاہب ناکام رہے ہیں۔ وہ مشکل یہ ہے کہ مذہبی معاملات میں عقل کے کردار کو کس حد تک اور کیسے تسلیم کیا جائے اور دنیاوی معاملات میں مذہب واخلاق کے کردار کو کس حد تک جگہ دی جائے۔ بعض مذاہب اور اقوام نے اس کا حل یہ نکالا کہ خالص روحانی اور اخروی معاملات مذہب کے سپرد کیے جائیں اور دنیاوی معاملات عقل کو سونپ دیے جائیں۔ اس کو کامیابی کے ساتھ اور انتہائی توازن اور باریک بینی کے ساتھ جس نظام نے حل کیا ہے وہ شریعت کا نظام ہے جس میں بیک وقت عقل کے تمام تقاضوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شریعت کے دیے ہوئے اصول یعنی وحی الہٰی کی رہنمائی ‘ مکمل طور پر کارفرما رہتی ہے۔ اس امتزاج اور توازن کا اگر کوئی سب سے نمایاں اور منفرد نمونہ ہے تو وہ علم اصول ِ فقہ ہے ۔“([9])

خلفائے راشدین کے زمانے میں کبھی کبھی اجتماعی غوروفکر بھی ہوتا تھا۔ لوگ آپس میں بحث کرتے کہ اس بارے میں کیا کرنا چاہیے۔ ایک صاحب اگر ایک چیز بیان کرتے تو دوسرے صاحب اس پر اعتراض کرتے‘ نہیں صاحب! یہ نہیں ہوسکتا۔ اس میں فلاں خامی ہے‘ یوں کرنا چاہیے۔ اور اس آپس کے بحث مباحثے سے لوگ کسی نتیجے پر پہنچ جاتے۔ اس زمانے میں خاص کر یہ چیز مفید ثابت ہوئی۔ کیوں کہ رسول اللہﷺ کے فرمودہ احکام واقوال ابھی تک جمع نہیں ہوئے تھے۔ بخاری‘ مسلم اور صحاح ستہ کی کتابیں ابھی لکھی نہیں گئی تھیں۔ بلکہ لوگوں کے علم اور حافظے میں تھیں جب آپس میں مشورہ کرتے تو اس وقت بعض بھولی بسری باتیں یاد آجاتیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک دن یوں فرمایا تھا۔ اس طرح اسلامی قانون کے متعلق جو معلومات حدیث میں تھیں ان کو جمع کرکے قانونی احکام استنباط کرنے کا آغاز ہوگیا۔جو بھی احکام آنحضرتﷺ نے صادر فرمائے‘ مسلمانوں کے لیے مسلمہ طور پر ایسی تشریعی اور قانونی حیثیت رکھتے ہیں جن کی اتباع امت پر واجب ہے۔ خواہ یہ وحی خفی ہوں یا اجتہاد‘ جب آنحضرتﷺ کے عہد ہی میں فتوحات کو وسعت ملی تو کئی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین قاضی کے عہدے پر متمکن ہوئے اور اپنے فرائض منصبی کی بجا آوری کے دوران انھوں نے اپنے اپنے اجتہادات کی روشنی میں فیصلے صادر فرمائے۔ اس عمل کی اجازت انھیں بارگاہ رسالت ہی سے مرحمت ہوئی تھی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو رسول اللہﷺ نے جب یمن کا حاکم بنا کر روانہ کیا تو ارشاد فرمایا تھا:

ان اللہ سیھدی قلبک یثبت لسانک فاذا جلس بین یدیک الخصمان فلا تقضین حتی تسمع من الآخر کما سمعت من الاول فانہ احری ان یتبین لک القضاء ([10])

”یقینا اللہ تعالیٰ جلد تمھارے دل میں (اس منصب کے حوالے سے) آثار رہبری پیدا فرمادے گا اور تمھارے فیصلے میں قوت پیدا فرمادے گا‘ یہ بات ملحوظ رکھنا کہ جب بھی دو جھگڑنے والے تمہارے روبرو پیش ہوں تو اس وقت تک (تنازع کا) فیصلہ نہ کرنا جب تک کہ تم فریق ثانی کی بات بھی اسی طرح توجہ سے نہ سن لو جس طرح فریق اول کی بات سنی تھی‘ یہی بات تمھارے لیے صحیح فیصلے کے لیے آثار ظاہر کردے گی۔“

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان اسباب وعوامل کو جو کسی فیصلے کے وقت انسانی فہم وبصیرت پر اثر انداز ہوسکتے ہیں‘ شریعت اسلامی میں اگر ایک طرف بے پناہ اہمیت حاصل ہے تو دوسری طرف اس امر میں بھی کسی کو سرمو مجال انکار نہیں ہوسکتی کہ درست اور نادرست کے مابین فرق کے لیے بہرحال انسانی عقل وخرد پر انحصار کیے بغیر چارہ نہیں ہے۔ اسی طرح حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جب آنحضرتﷺ نے یمن کا قاضی مقرر فرما کر بھیجنا چاہا تو ان سے پوچھا:

کیف تقضی اذا عرض لک القضاء؟ قال اقضی بکتاب اللہ ‘ قال فان لم تجد فی کتاب اللہ ؟ قال فبسنۃ رسول اللہ ﷺ‘ قال فان لم تجد فی سنۃ رسول اللہ ﷺ ولا فی کتاب اللہ؟ قال اجتھد برائی ولا الو فضرب رسول اللہ صلی علیہ وسلم صدرہ فقال الحمد للہ الذی وفق رسول اللہ ﷺ لما یرضی رسول اللہ ([11])

”تمھیں اگر (دو فریقوں کے مابین) فیصلہ کرنا ہو تو کیسے کروگے؟ جواب دیا کہ کتاب اللہ سے‘ پھر سوال کیا کہ اگر اس میں نہ پائو تو‘ عرض کیا سنت رسول اللہﷺ سے‘ فرمایا: اگر اس میں بھی نہ پائو تو عرض کیا کہ اپنے اجتہاد سے۔ اور کوئی دقیقہ نہیں چھوڑوں گا۔ پھر رسول اللہﷺ نے ان کے دل پر دستِ مبارکہ رکھا اور دعا دی اللہ کی حمد ہے جس نے رسول اللہ ﷺ کے رسول کو جس چیز کی توفیق دی اس سے تیرا رسول خوش ہے۔“

اس سے بڑھ کر اور کوئی تعریف نہیں ہوسکتی۔ یہ چیز اسلامی قانون کو زندگی دینے والی‘ برقرار رکھنے والی اور ہر ضرورت میں کام آنے والی اس وجہ سے ایک غیر جانبدار شخص بھی کہہ سکتا ہے کہ اسلامی قانون چودہ سو سال سے لے کر آج تک چلا آرہا ہے اور اس میں آئندہ بھی چلنے کی قوت باقی ہے۔([12])

مذکورہ حدیث ِ مبارکہ میں اجتہاد کی اجازت نے اسلامی قانون کو وسیع اور لچک دار بنادیا۔ اگر صرف قرآن وحدیث کے ظاہری احکامات تک ہی قانون سازی کی اجازت ہوتی تو یقیناً بڑے بڑے علماء اور ماہرینِ قانون اس موقعے پر بے بس نظر آتے جہاں انھیں قرآن وحدیث میں مسئلے کا حل واضح نہ ملتا‘ اس طرح اسلامی قانون جمود کا شکار ہوجاتا۔

تشریع اسلامی کے بنیادی مآخذ قرآن وسنت ہیں اور یہ دونوں عربی لغت میں ہیں۔ صحابہ کرام اور تابعین کی زبان بھی عربی تھی، اس لیے انھیں کسی مسئلے کو سمجھنے میں ذرا بھی دقت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ رسول اللہﷺ کی صحبت میں اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزارنے کے باعث مسائل کا کوئی گوشہ ان کی نظر سے اوجھل اور پوشیدہ نہیں تھا، قرآنِ کریم کی ہر آیت کے سبب نزول اور مقام ووقت نزول تک سے واقف تھے۔ اس کے علاوہ انھیں سند حدیث پر بھی غور وفکر کی چنداں ضرورت نہ تھی اس لیے کہ راویان حدیث یا تو ان کے ہمعصر تھے یا قریب العصر، وہ ان کے حالات سے بخوبی واقف تھے۔ چنانچہ عباس متولی فتاویٰ صحابہ سے متعلق لکھتے ہیں:

”علماء نے فتاویٰ صحابہ کے متعلق کہا ہے کہ ان کے فتاویٰ صرف مسائل واقعیہ تک محدود تھے ان میں اقامت دلیل وبرہان طرز کی کوئی علمی ملمع سازی نہیں ہوتی تھی۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ یہی تھی یعنی کہ انھیں زبان پر ملکہ حاصل تھا اور انھی میں بعضے تو وہ تھے جنھوں نے نزول قرآن کا زمانہ بھی پایا اور اس کے اسلوب بیان کو صاحب وحی کی سیرت وتعلیمات کی روشنی میں سیکھا اور سمجھا۔ اس طرح وہ وہبی ذہانت کے ساتھ ساتھ صحبت رسول اللہﷺ کی وجہ سے سلامت فکر اور طہارت باطنی کے بھی حامل تھے اور اسرار شریعت کے محرم بھی۔ اس لیے قرآن وسنت سے استفادۂ معانی اور استخراج احکام میں انھیں لغت یا کسی نئے بتائے ہوئے اصول یا قاعدے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔‘‘([13])

محمد یوسف موسیٰ نے اصولِ فقہ کے ارتقاء پر حسبِ ذیل الفاظ میں روشنی ڈالی ہے:

لم یکن الصحابۃ والتابعون مھتمون بالعناوین والمصطلحات التی ظھرت بعدھم مثال الرأی والقیاس والاستحسان ولکنھم فی آرائھم وفتاویھم واقضیتھم کانوا یفزعون بلاریب الی الاجتھاد الذی اذن فیہ الرسولﷺ وذالک عند مالا یجدون فی الحادثۃ نصامن کتاب اللہ او سنۃ رسول اللہ ([14])

صحابہ کرام اور تابعین کے دور میں نہ تو کسی عنوان کا اہتمام کیا جاتا تھا اور نہ ہی ایسی فنی اصطلاحات وضع کی گئی تھیں جو کہ بعد میں منظر ِ عام پر آئیں۔ مثلا ً رائے، قیاس اور استحسان وغیرہ۔ اس کے بجائے ہر ایسے معاملے میں کہ جس میں کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ ﷺسے کوئی نص دستیات نہ ہوتی تو بغیر کسی تردد کے وہ اپنی آراء،فتاویٰ اور فیصلوں کے معاملے میں اجتہاد کی طرف رجوع فرماتے تھے جس کی اجازت انہیں بارگاہ نبوی ہی سے مرحمت ہوئی تھی۔

یہ بات مسلمہ ہے کہ صحابہ کرام کو استخراج احکام میں گو کہ لغوی اور علمی قواعد کی ضرورت نہ تھی تاہم ان کے طریقہ کار سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ بھی استنباط احکام میں کچھ اصول ضرور سامنے رکھتے تھے اگرچہ یہ اصول وقواعد لفظی جامہ میں منظر ِ عام پر نہیں آئے تھے بلکہ ان کے ملکۂ فطری اور سلامت فکر کا نتیجہ ہوتے تھے۔

شیخ محمد ابوزہرہ لکھتے ہیں:

فان الفقھاء من بینھم کابن مسعود‘ وعلی ابی طالب وعمر بن الخطاب ‘ ما کانوا یقولون اقوالھم من غیر قید ولا ضابطہ‘ فاذا سمع السامع علی بن ابی طالب یقول فی عقوبۃ الشارب‘ انہ اذا شرب ھذی‘ واذا ھذی قذف‘ فیجب حد القذف یجد ذالک الامام الجلیل ینھج منھاج الحکم بالمآل ([15])

فقہاء صحابہ میں سے مثلاً حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہم کے اقوال حدود وقیود سے بھی خالی نہ ہوتے تھے۔ مثلا ً حضرت علی رضی اللہ عنہ نے شارب خمر پر حد قذف جاری کرنے کا فتویٰ دیا۔ اس میں ان کا طرزِ استدلال یہ تھا کہ جب شراب پیے گا یاوہ گوئی کرے گا اور جب یاوہ گوئی کرے گا، تو زنا کی تہمت لگائے گا، جب تہمت لگائے گا تو حد قذف لازم ہوجائے گی۔ اس طرح ہمیں معلوم ہوا کہ ایک جلیل القدر امام نے استنباط احکام کے معاملے میں اعتبار مآل کا منہاج طے فرمادیا۔

اس گفتگو سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ فقہی احکام کے اخذ واستنباط کی ابتدا عہدِ رسالت مآبﷺ ہی میں ہوگئی تھی اور بعد میں ادوار عہد صحابہ وتابعین تو ایسی امثلہ اور نظائر سے مملو ہیں کہ فقہ اور اصول فقہ کی ترقی وفروغ کا یہ شجر تو روز افزوں نموپذیر رہا۔ تاآنکہ ایک گھنے سایہ دار تناور درخت کی صورت اختیار کرلیاگیا۔

اصول فقہ کی تدوین اور اس کا ارتقائی عمل تمام تر تدریجی ہے یہ کسی ایک شخص کی کاوشوں کا نتیجہ نہیں اور نہ ہی یکبارگی اس کے جملہ قواعد و اصول وضع کیے گئے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے پیچھے ایک صدی سے زائد کا عرصہ اکابرین امت کی محنت شاقہ جہد مسلسل اور سعی پیہم کار فرماہے۔ سالہا سال قرآن و حدیث میں غوروفکر کے نتیجے میں اور آثار صحابہ کی روشنی میں فقہائے کرام نے جو اجتہادات کیے ہیں انھی کی بنیاد پر اصول فقہ کی تدوین ہوئی ہے۔ بعد میں آنے والوں نے اسے مزید وسعت و ترقی دے کر اس علم کو اس مقام پر پہنچا دیا جہاں اسے دیگر علوم کے مقابلے میں ایک نمایاں مقام اور ممتاز حیثیت حاصل ہوگئی اور باقاعدہ ایک مستقبل فن کی حیثیت اختیار کرگیا جو قانون سازی میں ریڑھ کی ہڈی حیثیت رکھتا ہے۔

صدر اول میں چونکہ اصول فقہ کی بنیاد پڑچکی تھی اور اس کے بہت سے اہم قواعد خود اکابر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے وضع فرمادیے تھے، جن میں اسلامی قانون سازی کا منہاج اور اس کے بنیادی اصول طے ہوئے اور عمومی رہنمائی مہیا فرمادی گئی۔ قارئین کی دلچسپی کیلیے چند نظائر پیش کئے جاتے ہیں جو اصول فقہ کے قواعد کے حوالے سے خود صحابہ کرام کی زبانوں سے صادر ہوئے۔

۱۔ ہجرت کے بعد شرا ب نوشی حرام قراردی گئی تھی۔ شراب پر پابندی کا حکم تو نازل ہوچکا تھا لیکن اس حکم کی خلاف ورزی یعنی شراب نوشی کی صورت میں کوئی معینہ سزا طے یا تجویز نہیں کی گئی تھی۔ شرابی کے لیے سزا کا اعلان کرنے کے بعد لاتوں اور مکوں سے حاضرین چند ضربیں لگادیتے تھے۔ ([16]) اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے چالیس کوڑوں کی سزا مقرر فرمائی، حضرت عمر فاروقؓ کے ابتدائی دور تک اسی پر عمل درآمد ہوتا رہا۔ جب فتوحات میں وسعت ہوئی، جداگانہ تہذیب و ثقافت اور مذاہب کے لوگ مسلمان ہوئے تو شراب نوشی کی شکایت عام ہوگئی۔ عادی مجرم آئے دن پکڑے جاتے، سزا اتنی کم تھی کہ باز آنے کے بجائے ان کے عادی مجرم بننے کے امکانات بڑھ گئے۔ اس لیے حضرت عمر فاروق ؓ نے اکابر صحابہ کے سامنے اس صورتحال کو رکھا اور سزا میں اضافے کی ناگزیریت کا عندیہ دیا تاکہ روز بروز بگڑتی ہوئی صورتحال پر قابو پایا جاسکے۔ اکابر صحابہ کے درمیان مشاورت ہوتی رہی۔ بالآخر حضرت علی کرم اللہ نے فرمایا:

انہ اذا شرب ھذی، واذاھدی افتری فیجب ان یحذ القاذف۔([17])

”یعنی جب وہ شراب پیے گا تو لازما یاوہ گوئی کرے (ہزیان بکے) گا اور جب یاوہ کوئی کرے گا تو افترا پردازی بھی کرے گا۔ لہذا اس کو وہ سزا دی جائے جو قاذف (کسی بے گناہ عورت پر بدکاری کی تہمت لگانے والے) کو دی جاتی ہے۔“

تمام صحابہ نے اس رائے کو بالاتفاق پسند کیا اور حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے اس استدلال کو تمام اکابرین کی رائے سے قبول فرمالیا اور شراب نوشی کی سزا ۸۰ کوڑے مقرر فرمادی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے اس استدلال سے دو قواعد کلیہ کی بنیاد قائم ہوئی: ایک ’’حکم بالمال‘‘ اور دوسرا ’’سدالذرائع‘‘ جو بعد میں اصول فقہ کے دو اہم اور واضح اصولوں کی شکل اختیار کرگئے۔ ان کا مطلب یہ ہے کہ کسی فقہی مسئلے کا فیصلہ کرتے وقت صرف اس کی ظاہری صورت ہی کو نہ دیکھا جائے کہ یہ جائز ہے یا کہ نہیں بلکہ اس کے نتائج کو بھی سامنے رکھ کر فیصلہ کیا جائے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ برائی کو روکنے کے لیے ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے اس کے دروازے مسدود ہوجائیں اور ایسا ماحول ہی باقی نہ رہے جس میں برائی کے پنپنے کی گنجائش موجود ہو۔

۲۔ حضرت عمر فاروق ؓکے عہد خلافت میں عراق فتح ہوا تو سوادی زمینوں کے متعلق صحابہ کرام کے درمیان شدید اختلاف واقع ہوگیا کہ ان زمینوں کا کیا کیا جائے۔ ان زمینوں کے مستقل انتظام اور بندوبست کے بارے میں دو طرح کے نقطہ نظر سامنے آئے، ایک رائے یہ تھی کہ اس زمین کو فاتحین میں تقسیم کیا جائے جیسے کہ آنحضرت ﷺ کے دور اقدس میں مفتوحہ زمینیں مجاہدین میں تقسیم کردی جاتی تھیں۔ دوسری رائے یہ تھی کہ ان زمینوں کو سابقہ مالکان کے پاس رہنے دیا جائے اور ان کی حیثیت صرف مزارع کی ہو زمینوں کا حق ملکیت اسلامی ریاست کے پاس ہو۔ ان سے جزیہ لیا جائے اس سے خزانہ میں مستقل آمدنی کے ذرائع پیدا ہوجائیں گے۔ اس رائے کے حامیوں میں حضرت عمر فاروقؓ بھی شامل تھے۔ دونوں فریق اپنے اپنے نقطہ نظر کو صیحح ثابت کرنے کے لیے دلائل دیتے رہے۔ ایک ماہ تک یہ مباحثہ چلتا رہا۔ بالآخر حضرت عمر فاروقؓ نے جو فیصلہ دیا وہ یہ ہے:

قدراء یت ان احبس الارضین بعلوجھا واضع علی اھلھا الخراج، وفی رقابھم الجزیہ یوء دونھا، فتکون فینا للمسلمین المقاتلۃ والزریۃ ولمن یاتی بعدھم اراء یتم ھذہ المدن العظام، الشام والجزیرۃ والکوفۃ ومصر، لابدلھا من ان تشحن بالجیوش وادرارالعطاء علیھم، فمن ائین یعطی ھولاء اذا قسمت الارضون والعلوج۔ ([18])

” میری رائے یہ ہے کہ میں ان زمینوں کو ان کے کارندوں سمیت روک رکھوں۔ ان پر کام کرنے والوں پر خراج اور ان کی اپنی ذات پر جزیہ عائد کردوں جسے یہ ادا کرتے رہا کریں۔ اس طرح یہ زمینیں مسلمان مجاہدین، ان کی اولاد اور بعد والوں کے لیے آمدنی کا مستقل ذریعہ بن جائیں گی۔ آخر آپ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ یہ بڑے بڑے علاقے شام، عراق، کوفہ اور مصر موجود ہیں جہاں زیادہ تعداد میں فوجیں رکھنی پڑتی ہیں اور انھیں تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں۔ اگر یہ زمینیں کارندوں سمیت تقسیم کردی گئیں تو پھر ان لوگوں کی تنخواہیں کہاں سے دی جائیں گی۔“

اس فیصلے میں حضرت عمر فاروقؓ نے ملکی مفاد اور مصلحت عامہ کو ملحوظ رکھا۔ اسی فیصلے کی بنیاد پر بعد میں اصول فقہ کا ایک اہم اصول قائم ہوا، جسے ــ’’مصالح‘‘ کا نام دیا گیا اور فقہی مسائل کے استنباط کی اساس قرار پایا۔

۳۔ آنحضرتﷺاور حضرت ابو بکرصدیقؓ کے دور میں غلاموں اور باندیوں کی خرید و فروخت عام تھی، فتوحات میں جب وسعت ہوئی تو غلاموں اور باندیوں کی بہتات ہوگئی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ کچھ عرصہ اپنی باندیوں سے فائدہ اٹھاتے، بچہ ہونے کی صورت میں اسے فروخت کردیتے لہٰذا وہ باندی کسی ایک شخص کے پاس مستقل نہ رہتی۔ اس طرح بچے کی کفالت کا ذمہ کوئی نہ لیتا۔ یہ ایک سماجی برائی تھی جسے حضرت عمر فاروقؓ نے روکا اور اپنے دور میں ام ولد (باندی) کو فروخت کرنے، تحفہ میں دینے اور میراث میں تقسیم کرنے کی ممانعت فرمادی اور فرمایا کہ جب تک مالک زندہ رہے فائدہ حاصل کرے مالک کے مرنے کے بعد اسے آزاد کردیا جائے۔([19]) اس سلسلے میں مزید فرمایا:

مابال رجال یطئون ولائدھم ثم یدعوھن یخرجن لاتاتینی ولیلدۃ یعترف سیدھا ان قدالم بھا الاقدالحقت بہ ولدھا فارسلوھن بعد اوامسکوھن۔ ([20])

” حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایاکہ لوگو! تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ اپنی کنیزوں سے تمتع کرتے ہو پھر انھیں پھرنے کے لیے چھوڑدیتے ہو، آئندہ کوئی کنیز میرے پاس آئی اور اس کے مالک نے اعتراف کیا کہ اس نے اس سے تمتع کیا ہے تو میں اس کا بچہ اس کے ساتھ کردوں گا اس لیے تم ان باندیوں کو آزاد کردویا اپنے پاس رکھو۔“

۴۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے عہد خلافت میں سب سے اہم مسئلہ مانعین زکوۃٰ کا تھا، دینی اعتبار سے بھی نہایت اہم و حساس اور ریاستی نظم و نسق کو برقرار رکھنے کے لیے بھی ناگزیر ہوا۔ یوں کہ آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد مدینہ کے اطراف کے کچھ قبائل نے زکوٰۃدینے سے انکار کردیا۔ اس صورتحال کے پیش نظر حضرت صدیق اکبرؓ نے ان قبائل کے خلاف جہاد کرنے کا عندیہ دیا کیونکہ خلافت کے لیے دو طرح سے نقصان دہ تھا۔ یعنی زکوٰۃ کے اہم ترین فریضے سے دست برداری اور دوسرا مرکزیت میں انتشار۔ حضرت صدیق اکبرؓ کے اس فیصلے پر حضرت عمر فاروقؓ کا استدلال یہ تھا:

کیف تقاتل الناس وقد قال رسول اللہ ﷺ امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوالالہ الااللہ فمن قال لاالہ الا اللہ عصم من مالہ ونفسہ الابحقہ وحسابہ علی اللہ۔ ([21])

” آپ ان لوگوں سے کیسے قتال کریں گے جبکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کہنے تک قتال کروں جس نے ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کہہ دیا اس نے اپنی جان و مال کی حفاظت کرلی، اور اس کا حساب اللہ کے ذمے ہے ہاں اگر اس کلمہ کا کوئی حق ہوتو اور بات ہے۔“

حضرت ابو بکر صدیقؓ نے جہاد کا استدلال قرآن کریم کی اس آیت سے لیا۔

فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَهُمْ ([22])

” اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑدو۔“

اس آیت سے یہ اصول اخذ کیا گیا کہ زکوۃ اور نماز دونوں لازم و ملزوم ہیں اگر ان میں سے ایک فرض بھی ساقط ہوگا تو قتال کا حکم باقی رہے گا۔

چنانچہ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اس حدیث اور مذکورہ آیت میں بیان کردہ حکم کو سامنے رکھتے ہوئے زکوٰۃ کو نماز پر ’’قیاس‘‘ کرتے ہوئے فرمایا:

واللہ لا قاتلن من فرق بین الصلوۃ الزکوۃ فان الزکوۃ حق المال ([23])

” اللہ کی قسم! اس شخص سے ضرور جہاد کروں گا جس نے نماز اور زکوٰۃ کے درمیان تفریق کی کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔“

امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیقؓ کے اس اجتہاد سے دو باتیں خاص طور پر واضح ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ علت مشترکہ کی بنیاد پر ایک مسئلے کو دوسرے پر قیاس کیا جانا اور دوسرا قرآن و حدیث سے مسئلے کے استنباط کا اسلوب۔ یہ دونوں باتیں بعد میں اصول فقہ کا موضوع اور شریعت کا منبع قرار پائیں۔

۵۔ حضرت عمر فاروقؓ نے چند دنوں کے لیے کسی غرض خاص مثلاً حج و عمرہ وغیرہ کے لیے باقاعدہ اجازت لے کر نکلنے کے ماسوا اکابر صحابہ پر مدینے سے نکلنے پر پابندی عائد فرمادی تھی، حالانکہ کسی کی ملکیت یا شخصی آزادی کا حق چھین لینا جائز نہیں۔ لیکن انھوں نے ایسا اس لیے کیا کہ مصلحت عامہ متاثر نہ ہو۔ اس فیصلے میں دو مصالح پوشیدہ تھے۔ ایک یہ کہ حضرت عمر فاروقؓ تمام مسائل میں اکابر صحابہ سے مشورہ فرماتے تھے۔ اگر اکابر صحابہ مدینہ سے باہر جاکر مقیم ہوگئے تو ان کے قیمتی مشوروں سے استفادہ نہیں کرسکیں گے۔ دوسرا یہ کہ اگر یہ حضرت جزیرۃ العرب سے باہر نکل گئے تو لوگ ان کو اصحاب رسول اللہﷺ ہونے کی نسبت سے ہاتھوں ہاتھ لیں گے، زیادہ جائیدادوں کے مالک بن جائیں گے اور اس سے ریاست کا نظم و نسق متاثر ہوگا۔ چنانچہ بعد میں حضرت عمر فاروقؓ کی عمیق بصیرت کا راز افشا ہوگیا۔ جب حضرت عثمان غنیؓ نے یہ پابندی اٹھالی تو اکابر صحابہ بلاد اسلامیہ میں پھیل گئے۔ ہر جگہ ان کی پذیرائی ہوئی۔ اس سلسلے کی دو واضح مثالیں ہیں ایک یہ کہ حضرت زبیر ؓ کو بصرہ والوں نے اپنا خلیفہ یا امیر بنادیا اور حضرت طلحہؓ کو کوفہ والوں نے خلیفہ بنالیا۔ ایک اسلامی ریاست میں لوگوں نے کئی کئی امیر بنانا شروع کردیے۔اس طرح ریاسست میں فتنہ و فساد ایسا پھیلا کہ اس نے ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔([24])

۶۔ حضرت عمر فاروقؓ کے اجتہادات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ کے دور خلافت میں مدینہ میں قحط پڑا۔ کھانے کی اشیا ناپید ہوگئیں، لوگ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے چوریاں کرنے لگے۔ اس اضطراری صورتحال کو دیکھ کر حضرت عمر فاروقؓ نے چوری کی سزا ’’قطع ید‘‘ کو موقوف کردیا حالانکہ قرآن کریم نے چور کے لیے قطع ید کی سزا مقرر فرمائی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَیْدِیَهُمَا ([25])

” چوری کرنے والا مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ دو۔“

حضرت عمر فاروقؓ نے یہ اجتہادی فیصلہ اس حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے کیا۔([26]) جس میں رسول اللہﷺ نے فرمایا:لاتقطع الایدی فی السفر([27]) ”سفر میں چور کے ہاتھ نہ کاٹے جائیں۔“

حضرت عمر فاروقؓ کے اس فیصلے اور ’’حد‘‘ کو محدود دونوں تک موقوف کرنے سے یہ اصول سامنے آیا کہ شریعت میں بندوں کے حالات و احوال کی بڑی رعایت دی گئی ہے، لہذا کسی بھی فیصلے میں زمانے کے حالات و واقعات کو مد نظر رکھا جائے۔

انھیں آثار کی روشنی میں اصولی قاعدہ ’’رفع الحرج‘‘ وضع کیا گیا۔

۷۔ مفقود النجر شوہر کے سلسلے میں یہ اصول تھا کہ اس شخص کے فی الواقع مرجانے کی تحقیق کی جائے یا پھر اس کے ہم عمروں کے انتقال کرجانے کی شرط تھی، اس کے بعد اس عورت کو نکاح ثانی کرنے کی اجازت تھی، ظاہر ہے کہ اس اثناء میں عورت بوڑھی ہوجاتی تھی۔ نکاح کی عمر اس انتظار میں گزر جاتی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اس اہم نوعیت کے مسئلے کو اجتہاد کے ذریعہ حل فرمایا۔ آپ نے ان تمام شرائط کو ختم کرکے چار سال تک انتظار کرنے کا حکم دیا۔ چار سال کے بعد عورت کو نکاح کرنے کی اجازت دے دی گئی۔([28])

اس اجتہاد کے ذریعے علمائے اصول نے استصواب کا قاعدہ وضع کیا۔

۸۔ قرآن کریم میں بیوہ عورتوں کی عدت کے سلسلے میں واضح ہدایات موجود ہے جو چار ماہ دس دن ہے۔

وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًا ([29])

” اور تم میں سے جو لوگ وفات پاجائیں اور پیچھے بیویاں چھوڑجائیں تو وہ چار مہینے دس دن تک انتظار کریں۔“

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ جو جلیل القدر صحابی اور فقیہ تھے۔ کوفہ کے قاضی مقرر ہوئے، تو ایک دن آپ کے سامنے ایک عورت کا قضیہ آیا جس کے شوہر کا انتقال ہوچکا تھا اور اس وقت وہ عورت حاملہ تھی۔ اس کی عدت کا مسئلہ تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فیصلے میں اس آیت سے استدلال کیا۔

وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ([30])

”حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ ان کا حمل وضع ہوجائے۔“

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے یہ فیصلہ دیا کہ اس عورت کی عدت چار مہینے دس دن نہیں بلکہ وضع حمل ہے۔ اس فیصلے میں آپ کا استدلال یہ تھا۔

اشھد ان سورۃ النساء الصغری نزلت بعد سورۃ النساء الکبری ([31])

” میں گواہی دیتا ہوں کہ چھوٹی سورہ نساء بڑی سورۃ نساء کے بعد نازل ہوئی۔“

اس فیصلہ میں یہ بتادیا کہ بعد میں نازل ہونے والا حکم پہلے حکم کا ناسخ ہوتا ہے یا بعض شرائط کے ساتھ مخصوص۔

مذکورہ مثالوں کے ساتھ کئی مثالیں کتب احادیث، فقہ اور تاریخ میں موجود ہیں جن سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صحابہ کرام بھی اپنے اجتہاد میں اصولی منہاج کا التزام کرتے تھے۔ اگرچہ ہر احوال کی صراحت نہیں کی۔

حضور رسالت مآبﷺ اور آپ سے قریب ترین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عہد مبارک زندگی کے ’’جواہر‘‘ کو نشونما دینے اور اسلامی فکر کو آگے بڑھانے کا عہد تھا۔ اس بنا پر ان کی زیادہ تر توجہ جہاد اور عمل پر مرکوز تھی، دیگر مسائل پر سوچنے کی فرصت کم تھی۔ ایک صالح اور اجتماعی سادہ زندگی کے جو مسائل و مصالح ہوسکتے تھے بس وہی زیر بحث آئے۔ مثبت اور منفی دونوں پہلوئوں کی وضاحت تک رسول اللہﷺ کی تعلیمات تھیں، تاہم یہ تعلیمات عموماً اور اصولی اور دستوری رنگ میں تھیں۔ جنھیں بنیاد بنا کر قانون کی عمارت کھڑی کی جاسکتی تھی۔ بہت سی جزئیات کی تشریحات ایسی تھیں جو بڑی حدتک حالات و زمانہ کے تقاضوں پر مبنی تھیں۔ کہیں تو ایسا ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے نیا حکم نافذ کیا اور اکثر ایسا بھی ہوا کہ جو حکم موجود اورمروج تھا اسی میں ترمیم و اصلاح کرکے اپنالیا۔

صحابہ کرام ورضوان اللہ علیہم اجمعین کا مسائل کے استنباط کا طریقہ گزشتہ امثلہ سے واضح ہو گیا ہے کہ وہ فیصلہ کرتے وقت کس قدر احتیاط کا مظاہرہ کرتے تھے اور ان کے فیصلوں کا منبع و سرچشمہ قرآن و حدیث ہی ہوتے تھے، اپنی ذاتی رائے کا استعمال بہت کم فرماتے تھے۔

ڈاکٹر عبدالکریم زیدان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طرق استنباط احکام کے متعلق لکھتے ہیں:

وکان نھجھم فی الاستنباط انھم کانوا اذا وردت علیھم الواقعۃ التمسواحکمھا فی کتاب اللہ، فان لم یجدوا الحکم فیہ رجعوا الی النسۃ، فان لم یجدوہ فی السنۃ اجتھدوا فی ضوء ماعرفوا من مقاصد الشریعۃ، وماتومئی الیہ نصوصھا اوتشیر، ولم یجدواعسرافی الاجتھاد۔ ([32])

” صحابہ کرام کے استنباط کا منہاج یہ تھا کہ جب بھی ان کے سامنے کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو اس کا حل کتاب اللہ میں تلاش کرتے۔ اس میں مطلوبہ حکم نہ پاتے تو سنت رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع کرتے اور اگر سنت میں بھی نہ پاتے تو مقاصد شریعت کی روشنی میں اجتہاد کرتے جس کی طرف نصوص شرعیہ نے اشارے کردیے تھے اور انھیں اجتہاد کرتے ہوئے کوئی دشواری پیش نہیں آتی تھی۔“

اصول فقہ کا باقاعدہ علم اور اس کی ہیئت کذائی بعد کی چیز ہے، سلف اس سے بے نیاز تھے، الفاظ سے استفادۂ معانی کے لیے عربی زبان میں ملکہ حاصل ہونے کی بنا پر کسی اور چیز کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔ احکام الہیٰ کے استنباط کے لیے جن جن قوانین کی بعد میں ضرورت پیش آئی وہ ان کی گھٹی میں پڑے تھے۔ اسی طرح انھیں اسانید احادیث پر غور و فکر کرنے کی حاجت بھی نہ تھی کیونکہ یہ راویان حدیث سب ہم عصر تھے یا قریب العصر۔ اس لیے ان کے حالات ان کے سامنے آئینے کی طرح روشن تھے، جب سلف کا دور ختم ہوا اور تمام علوم صناعت کے در پہ آئے تو فقہاء اور مجتہدین نے ضروری ضروری قواعد و قوانین کو ضبط تحریر میں لانے کی ضرورت محسوس کی تاکہ ان کی روشنی میں ادلہ شرعیہ سے احکام مستنبط کیے جاسکیں۔ اب یہ قوانین ایک مستقل علم و فن کی شکل اختیار کرگئے جن کا نام۔ ’’اصولِ فقہ‘‘ قرار دیا۔

 

حوالہ جات

  1. ۔النحل:۴۴
  2. ۔المائدہ:۹۲
  3. ۔النساء:۸۰
  4. ۔النجم:۴۱۳
  5. ۔الحشر:۷
  6. ۔المائدہ:۱۰۱
  7. ۔مسلم بن حجاج،صحیح مسلم، کتاب الحج، قدیمی کتب خانہ،۱۹۵۶ء،ج1،ص۴۳۲
  8. ۔حمیداللہ، ڈاکٹرمحمد، مقالات بہاولپور، حاجی حنیف اینڈ سنز پرنٹنگ پریس،لاہور،۲۰۱۲ء،ص۱۲۱۔۱۲۲
  9. ۔غازی، محمود احمد ڈاکٹر، محاضرات فقہ،طبعہ محبوب پرنٹرز ،لاہور،۲۰۱۷ء، ص۶
  10. ۔ابو داؤد سلیمان بن اشعت، سنن ابی داؤد ، مکتبہ امدادیہ،کراچی، ۱۳۱۶ء،ج2،ص۱۴۸
  11. ۔ایضاً،ص۱۴۹
  12. ۔حمید اللہ، ڈاکٹرمحمد ، مقالات بہاولپور،محوالہ بالہ،ص۱۲۲
  13. ۔عباسی متولی، اصول الفقہ، عطیہ دارالتالیف،مصر،۱۹۶۸ء، ص ۱۹
  14. ۔موسیٰ، محمد یوسف ، تاریخ فقہ الاسلامی، دارالکتاب العربی،قاہرہ،۱۹۵۸ء، ص۲۵۴
  15. ۔ابو زہرہ ، شیخ محمد، اصول الفقہ، دارالفکر لاعربی،مصر، ۱۹۵۷ء، ص۱۱
  16. ۔ابو داؤد، سلیمان بن اشعت سجستانی سنن ابی داؤد، زاہد بشیر پرنٹرز،لاہور،ج3، ص ۴۰۲۔ ابی داؤد فرماتے ہیں کہ عروبہ کی روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے کھجور کی شاخوں اور جوتیوں سے چالیس ضربیں ماریں۔ شعبہ کی روایت کے مطابق دو لکڑیوں سے چالیس ضربیں لگائیں۔
  17. ۔ابو زہرہ ، شیخ محمد, اصول الفقہ، دارالفکر العربی،مصر، ۱۹۵۷ء، ص ۶
  18. ۔ابو یوسف، امام ابراہیم بن یعقوب، کتاب الخراج، مطبعہ، ببولاق،مصر، ۱۳۵۲ء، ص ۲۳ تا ۲۷
  19. ۔مالک بن انس، امام ،موطا امام مالک، میر محمد کتب خانہ،کراچی، ص ۵۴۰۔ ان عمر بن الخطاب قال ایما ولیدۃ ولدت من سیدھافانہ لایبیعھا ولا یھبھا ولا یورث وھو یستمتع منھا فاذا مات فھی حرۃ
  20. ۔ایضاً، ص ۶۴۲
  21. ۔مسلم بن حجاج قشیری،صحیح مسلم، کتاب الایمان، محولہ بالا، ج۱،ص38
  22. ۔التوبہ:۵
  23. ۔مسلم بن حجاج قشیری، صحیح مسلم، محولہ بالا
  24. ۔شلبی، محمد مصطفی، الفقہ الاسلامی اساس التشریع، اہرام التجاریہ،مصر،۱۳۶۱ھ، ص۱۴۷، ۱۴۹
  25. ۔المائدہ: ۳۸
  26. ۔ابن قدامہ، عبداللہ بن احمد بن محمد، المغنی، دارالمنار،مصر، ۱۳۶۷ھ، ج ۸،ص68
  27. ۔ابو داؤد، سلیمان بن اشعث، سنن ابی داؤد، مکتبہ امدادیہ،ملتان، ۱۲۱۶ھ، ج2،ص ۲۵۷
  28. ۔صدیقی ، ڈاکٹر ساجد الرحمن ، اسلامی فقہ کے اصول و مبادی، تعمیر ادب پرنٹنگ پریس، لاہور،ص ۳۹
  29. ۔البقرہ: ۲۳۴
  30. ۔الطلاق:۴
  31. ۔ابو زہرہ ، شیخ محمد ، اصول الفقہ، محولہ بالا، ص ۱۱
  32. ۔زیدان، ڈاکٹر عبدالکریم، الوجیز فی اصول الفقہ، مؤسسہ الرسالہ،بیروت، ۱۹۸۷ء،ص ۱۵
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...