Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 32 Issue 1 of Al-Tafseer

لفظ خاتم کا معنی و مفہوم ائمہ لغت ومفسرین کے اقوال کی روشنی میں ایک تحقیقی جائزہ |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

32

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060084478_1088

Pages

50-67

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/58

Subjects

Finality of Prophet hood Khatim Quran’ic Tafaseer.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

قرآن مجیدنے جہاں خداتعالی کی توحید اورقیامت کے عقیدے کو ہمارے ایمان کاجزو لازم ٹھہرایا۔وہاں انبیا ورسل علیہم السلام کی نبوت ورسالت کااقرارکرنابھی ایک اہم جزو قرار دیاہے اورانبیائے کرام علیہ السلام کی نبوتوں کوماننااوران پرعقیدہ رکھناویسے ہی ا ہم اورلازمی ہے جس طرح خدا تعا لیٰ کی توحیدپر۔ لیکن قرآن مجید کواول سے آخرتک دیکھ لیجیے۔ جہاں کہیں ہم انسانوں سے نبوت کااقرارکرایاگیاہو اورجس جگہ کسی وحی کو ہمارے لیے ماننالازمی قرار دیا گیا ہو۔ وہاں صرف پہلے انبیا کی نبوت و وحی کاہی ذکر ملتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے بعدکسی کو نبوت حاصل ہواور پھراس پرخداکی وحی نازل ہوکہیں کسی جگہ پراس کا ذکرتک نہیں۔نہ اشارۃًنہ کنایۃً۔حالانکہ آنحضرت ﷺ کے بعداگرکسی فرد بشر کونبوت عطاکرنا مقصود ہو تاتوپہلے انبیا کی بہ نسبت اس کاذکرزیادہ لازمی تھااوراس پرتنبیہ کرنا ازحدضروری تھا۔کیوں کہ پہلے انبیا کرام علیہم السلام اوران کی وحی توگزرچکی۔ امت مرحومہ کو تو سابقہ پڑناتھا آنحضرت ﷺ کے بعدکی نبوتوں سے، مگران کانام ونشان تک نہیں۔ بلکہ ختم نبوت کوقرآن مجیدمیں کھلے لفظوںمیں بیان فرماناصاف اور روشن دلیل ہے اس بات کی کہ آنحضرت ﷺ کے بعدکسی شخصیت کونبوت یارسالت عطا نہ کی جائے گی۔ یہ اسلام کا ایک اجماعی اور بنیادی عقیدہ ہے کہ نبوت اور رسالت کا سلسلہ امام الانبیا سیّد المرسلین خاتم النبیین حضرت محمد ﷺپر ختم کر دیا گیا، آپ سلسلۂ نبوت کی آخری کڑی ہیں آپ کے بعد کسی شخص کو منصب ِ نبوت پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ لہذا اس مقالے میں لفظ ’’ خاتم ‘‘ باعتبار لغت ، ومفسرین کے اقوال کی روشنی میں پیش کیا جائے گا۔ لغوی تحقیق سے قبل عربی لغت نویسی کے آغاز و ارتقا کے بعد لفظ خاتم کی لغوی تحقیق پیش کی جائے گی ۔

عربی لغت نویسی کا آغاز و ارتقا

اسلام سے قبل زمانہ ٔجاہلیت میں عربی لغت نویسی پر کتابی یا رسائل کی صورت میں کوئی سراغ نہیں ملتا جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے مسلمانوں نے دیگر علوم کی طرح علم لغت کے آغاز و ارتقامیں موسس اعلیٰ کا کردار ادا کیا ہے ، عرب کی علمی تہذیب کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ہر عربی نہ تو کامل فصیح اللسان تھا اور نہ ہی ہر شخص عربی الفاظ کے معانی و مفاہیم کا مکمل ادراک رکھتا تھا ۔ بسا اوقات الفاظ کے معانی جاننے کے لئے جاہلی شاعری کی طرف رجوع کرتے یا پھر جب کسی شخص کو کسی لفظ کے معنی سمجھنے میں دشواری ہوتی وہ اہل علم لوگوں سے دریافت کرتے ۔ لہذا اسلام کے بعد اولین معلم اور شارح کلام خود نبی اکرم ﷺ تھے ۔ آپ کے علاوہ صحابہ کرام تھے جن میں حضرت ابن عباس کا نام سر فہرست ہے ۔ جیسا کہ ایک مرتبہ آپ ﷺ نے علامات قیامت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَيَكْثُرُ فِيهَا الْهَرْجُ وَالْهَرْجُ الْقَتْلُ ([1])

”ہر ج بہت زیادہ ہوجائے گا ۔ صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ہرج کیا ہے ، آپ ﷺ نے اس لفظ کی تشریح بیان کرتے ہوئے فرمایا :قتل ۔“

اس طرح کی بے شمار مثالیں ہمیں احادیث مبارکہ میں ملتی ہیں ۔ اور صحابہ کرام میں ایک دفعہ دورانِ خطبہ حضرت عمر ؓ نے سامعین سے آیت کے لفظ ’’تخوف ‘‘ کے معنی دریافت کیے جس پر ایک بزرگ نے اس کا معانی ’’تنقص ‘‘ بیان کیا اور بطور دلیل زہیر شاعر کا یہ شعر سنایا:

تخوف الرحل منہا تامکا قردا ، کما تخوف عود النبعۃ السفن ([2])

معلوم ہوا کہ اہل عرب عام عوام ہی نہیں بلکہ خواص بھی الفاظ کے معنی و مفہوم جاننے سے دوسروں سے استفسار یا جاہلی شاعری کی طرف رجوع کرتے ۔ اور پھر اسی طرح الفاظ و معانی کا سلسلہ سوال و جواب کی صورت میں جاری رہتا ۔ حتیٰ کہ خلافت راشدہ میں اور پھر اس کے بعد مسلمانوں کو ملنے والی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا جس کے نتیجے میں عجمی ریاستیں بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوتی گئیں ۔ عرب و عجم کی تہذیب و ثقافت ، میل جول بڑھتا گیا ، اہل علم لوگوں کو اس بات کا گمان تھا کہیں عربی زبان میں عجمی الفاظ داخل نہ ہوجائیں اور دوسری طرف یہ خیال بھی رہتا کہیں کبار علمائے لغت کی اموات سے علم لغت کا بیش قیمت ذخیرہ ضائع نہ ہوجائے ، کیوں کہ عربی لغت ہی فہم قرآن کا واحد ذریعہ ہے ۔ چنانچہ عربی کے محافظوں نے دیہاتوں کی طرف رخ کیا جس کی وجہ یہ تھی ابھی تک دیہات عجمی اختلاط سے پاک تھے ، (اہل عرب کے رواج کے مطابق وہ اپنے بچوں کو دیہاتوں میں بھیج دیا کرتے تھے تاکہ وہ خالص عربی زبان سیکھ جائیں )۔ انھوں نے وہاں سے خالص فصیح عربی سیکھی ، اسی طرح ذخیدرہ ادبِ جاہلی ( جو اشعار ، قصائد اور ضرب الامثال وغیرہ کی صورت میں موجود تھا ) کو بھی پیش نظر رکھا اور نہایت احتیاط سے کام لیتے ہوئے خاص خاص موضوعات ( مثلاً وحشی جانوروں ، درختوں ، اور نباتات وغیرہ ) پر لغت کے باقاعدہ مجموعے مرتب کرنے شروع کردیے ۔ جن میں سرفہرست اصمعی ، ابو عمرو ، اسحاق الشیبانی ، ابوحنیفہ دینوری ہیں ۔ خاص کتب جن میں کتاب الخیل ، کتاب الحشرات ، کتاب الابل ، کتاب جراد ، کتاب خلق الفرس ، کتاب الخیل و خلق الانسان وغیرہ قابل ذکر ہیں ، اور پھر اس کے بعد مختلف موضوعات پر مرتب کردہ کتابوں کو ایک جگہ جمع کر کے ایک مدلل کتاب کی صورت دے دی گئی جس میں ابو عبید کی مختلف موضوعات پر لکھی گئی 30کتابوں کو ایک جگہ جمع کرکے الغریب المصنف کے نام سے مرتب کیا ، اسی طرح ابن سیدہ کی المخصص مرتب کی گئی ۔

اس کے بعد وہ دور آیا جب صاحب علم و صاحب لغت حضرات نے الفاظ لغت کے ذخائر پر مشتمل خاص ترتیبوں کے ساتھ کتابیں تالیف کرنی شروع کیں اور باقائدہ لغت نویسی کی ابتداء ہوئی ۔ لہذا علم لغت کی پہلی باقاعدہ کتاب خلیل بن احمد کی ’’ کتاب العین ‘‘ شمار کی جاتی ہے جیسا کہ الصحاح کے دیباچے میں موجود ہے ۔

أول معجم في العربية كلها إذ لم يؤلف معجم قبله، لان الخليل هو مبتكر فن تأليف المعجمات في العربية كلها

’’ لغت جمع کرنے کا کام خواہ کتنے ہی مراحل سے گزرا ہو لیکن محققین اس بات پر متفق ہیں کہ خلیل ہی وہ پہلا شخص ہے جس نے عربی معجم تیار کی۔ ‘‘([3])

دوسرا قول HYWOOD کا ہے جس کا کہنا ہے کہ:

’’سب سے پہلی تالیف ابو الاسود الدولی نے حضرت علی ؓ سے سیکھ کر گرامر تیار کی اور پھر یہی گرامر کا کام آگے چل کر عربی لغت نویسی اور علم نحو مرتب کرنے کی بنیاد بنا۔ ‘‘ ([4])

قرآن کریم کا اعجاز لغت

قرآن مجید عربی زبان میں ہے جو دنیا کی سب سے زیادہ وسیع اور فصیح وبلیغ زبان ہے۔ اس لیے ضروری ہے جو شخص قرآن مجید کریم کا صحیح مفہوم معلوم کرنا چاہے وہ پہلے اس زبان میں تبحر حاصل کرے اور ان تمام علوم میں مہارت تامہ پیدا کرے۔ جو علوم الٰہیّہ کہلاتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ بھی لازم ہے کہ آنحضرتﷺ کے ارشادات عالیہ اور صحابہ، تابعین اور ائمہ لغت کے اقوال بھی اس کے پیش نظر ہوں اور تفسیر کرتے وقت اسلام کے مسلمات اور اجماع امت سے ادھر سے ادھر نہ جائے۔

ساڑھے تیرہ سو سال سے تمام صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور فقہا، محدثین رضوان اﷲ علیہم اجمعین آیت مذکور لفظ ’’خاتم‘‘ کا یہی مفہوم سمجھتے اور بیان کرتے چلے آئے ہیں کہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ بلکہ خود صاحب رسالت علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی نہایت وضاحت سے فرمایا:

’’لا نبی بعدی‘‘([5])

”میرے بعد کوئی نبی نہیں۔“

اس کے علاوہ صحیحین میں ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ ([6])

”میرا ایک نام عاقب ہے عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔“

لفظ ’’خاتم النبین ‘‘کی لغوی تحقیق

لفظ ’’خاتم‘‘ کا مادہ ’’ختم‘‘ ہے۔ جس کے معنی مہر لگانے اور کسی چیز کے آخر تک پہنچنے اور اسے ختم کر دینے کے ہیں اور یہ لفظ دو طرح سے پڑھا جاتا ہے۔ ’’خاتِم‘‘ (بکسرتا) اور خاتَم (بفتح تا) لیکن خاتِم (بکسرتا) مشہور لغت ہے۔ ماسوائے دو قاریوں کے حسن اور عاصم نے فتح کے ساتھ پڑھا ہے جیسا کہ مختلف لغت میں اقوال موجود ہیں :

احمد بن محمد بن علی (م770ھ) صاحب مصباح المنیر (لغت ) میں لکھتے ہیں :

’’والکسرا شہرت‘‘ ([7])

” کسرہ زیادہ مشہور ہے۔“

صاحب روح المعانی ، شہاب الدين محمود بن عبد الله الحسینی آلوسی (المتوفى: 1270ھ) تحریر فرماتے ہیں:

وقرالجمہور بکسر التاء وفتحہا وقرأ عاصم وخاتم النبیین بالفتح ([8])

”لفظ خاتم بکسر وبفتح تا دونوں طرح پڑھا جاتا ہے اور عاصم نے خاتم النبیین کو بفتح تا پڑھا ہے۔“

لفظ خاتم النبیین کی لغوی تحقیق کتب لغت کی روشنی میں

مفردات القرآن: یہ کتاب امام راغب اصفہانیؒ (ا لمتوفى: 502ھ)کی وہ عجیب تصنیف ہے کہ اپنی نظیر نہیں رکھتی، خاص قرآن کے لغات کو نہایت عجیب انداز سے بیان فرمایا ہے۔ شیخ جلال الدین سیوطیؒ نے اتقان میں فرمایا ہے کہ لغات قرآن میں اس سے بہتر کتاب آج تک تصنیف نہیں ہوئی، لفظ خاتم النبیین کے متعلق اس کے الفاظ یہ ہیں:

وخاتم النبیین لانہ ختم النبوۃ ای تممھا بمجیئۃ ([9])

’’آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپؐ نے نبوت کو ختم کردیا، یعنی آپؐ نے تشریف لاکر نبوت کو تمام فرمادیا۔‘‘

الصحاح تاج اللغۃ وصحاح العربیہ ، از ابو نصر اسماعیل بن حماد الجوہری الفارابی (المتوفى: 393ھ) میں لفظ خاتم کے متعلق تحریر ہے :

والخاتم والخاتم بکسر التأ وفتحہا والخیتام والخاتام کلہ بمعنیً والجمع الخواتیم وخاتمۃ الشئی آخرہ ومحمدﷺ خاتم الانبیاء علیہم السلام ([10])

خاتم ت کی زیر کے ساتھ اور خاتم ت کی زبر کے ساتھ اور خیتام اور خاتام سب کے ایک ہی معنی ہیں اور خواتیم جمع آتی ہے اور خاتمہ کے معنی آخر کے ہیں اور اسی معنی سے محمدﷺ خاتم الانبیاہیں۔

لسان العرب: لغت کی مقبول کتاب ہے۔ عرب و عجم میں مستند مانی جاتی ہے، اس کی عبارت یہ ہے:

خاتمھم و خاتمھم و آخرھم عن اللحیانی و محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیأ علیہ و علیھم الصلوٰۃ و السلام ([11])

’’خاتم القوم بالکسر اور خاتم القوم بالفتح کے معنی آخرالقوم ہیں اورانہی معانی پر لحیانی سے نقل کیا جاتا ہے، محمدﷺ خاتم الانبیا(یعنی آخر الانبیا)ہیں۔‘‘

اس میں بھی واضح بتایا گیا کہ بالکسر کی قرأت پڑھی جائے یا بالفتح کی صورت میں خاتم النبیین اور خاتم الانبیا کے معنی آخر النبیین اور آخر الانبیأ ہوں گے۔ لسان العرب کی اس عبارت سے ایک قاعدہ بھی مستفاد (دال) ہوتا ہے کہ اگرچہ لفظ خاتم بالفتح اور بالکسر دونوں کے بحیثیت نفس لغت بہت سے معانی ہوسکتے ہیں، لیکن جب قوم یا جماعت کی طرف سے اس کی اضافت کی جاتی ہے تو اس کے معنی صرف آخر اور ختم کرنے والے کے ہوتے ہیں۔ غالباً اسی قاعدہ کی طرف اشارہ کرنے کے لئے لفظ خاتم تنہا ذکر نہیں کیا، بلکہ قوم اور جماعت کی ضمیر کی طرف اضافت کے ساتھ بیان کیا ہے۔لغت عرب کے تتبع (تلاش) کرنے سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ لفظ خاتِم بالکسر یا بالفتح جب کسی قوم یا جماعت کی طرف مضاف ہوتا ہے تو اس کے معنی آخر ہی کے ہوتے ہیں۔ آیت ’’خاتم النبیین ‘‘میں بھی خاتم کی اضافت جماعت ’’نبیین‘‘کی طرف ہے۔ اس لیے اس کے معنی آخرالنبیین اور نبیوں کے ختم کرنے والے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتے، اس قاعدے کی تائید تاج العروس شرح قاموس سے بھی ہوتی ہے۔

4۔ تاج العروس من جواہر القاموس : از محمّد بن محمّد بن عبد الرزّاق الحسيني، الزَّبيدي (المتوفى: 1205ھ) یہ کتاب در اصل القاموس المحیط کی شرح ہے جس کے مولف محب الدین ابو الفیض سید محمد مرتضیٰ الزبیدی الواسطی ہیں آپ ۱۱۴۵ھ میں یمن کے شہر زبید میں پیدا ہوئے ۔ لفظ خاتم کے متعلق آپ فرماتے ہیں :

عن اللحیانی ومن اسمائہ علیہ السلام الخاتم والخاتم وھو الذی ختم النبوۃ بمجیئہ([12])

”حضورﷺ کے اسماء میں سے الخاتم اور الخاتم بھی ہے اور خاتم وہ شخص ہے جس نے اپنے تشریف لانے سے نبوت کو ختم کر دیا ہو۔“

5۔القاموس المحیط : از ا بو طاهر محمد بن يعقوب الفيروزآبادى (المتوفى: 817ھ )

الخاتم من کل شئی عاقبتہ واخرتہ کخاتمتہ واخر القوم کالخاتم ([13])

”خاتم بالکسر کے معنی انجام وآخرت ہر شے مثل خاتمہ کے اور آخر قوم کے ہیں۔“

مثل خاتم بالفتح کے اور اس کی شرح تاج العروس میں ہے

الخاتم اخر القوم کالخاتم ومنہ قولہ تعالیٰ وخاتم النبیین ای اخرھم ([14])

” یعنی خاتم اور خاتم کے معنی آخر قوم کے ہیں اور اسی سے خاتم النبیین ہے یعنی آخر نبیوں کے۔“

خلاصہ یہ ہے کہ معتبر کتب لغات سے معلوم ہوگیا ہوگا کہ لفظ خاتم کے زبر اور زیر دونوں کے ساتھ ایک ہی معنی ہیں اور جب کبھی قوم یا جماعت کی طرف مضاف ہوتو لغت عرب میں اس کے معنی آخر کے ہی ہوتے ہیں۔ اس کے سوا اور کوئی معنی نہیں آتے اور لغت عرب میں لفظ خاتم اور خاتم کا زبر اور زیر دونوں کے ساتھ اکثر اور زیادہ تر پانچ معنیٰ میں استعمال ہے تین معنی مشترک ہیں۔

۱۔آخر قوم یہ ہمیشہ جماعت کی طرف مضاف ہوگا۔

۲۔انگشتری جیسے خاتم ذہب، خاتم ذہباًاس کا مضاف الیہ ہمیشہ ہمیشہ تمیز ہوگا۔ اگر اضافت نہ ہوتو من سے استعمال ہوگا۔ ولو خاتماً من حدید اور اضافت لامیہ میں مفرد مفرد کی طرف اور جمع جمع کی طرف مضاف ہوگا۔ کخاتم زید وخواتیم قوم ورنہ لام کا اظہار ضروری ہوگارفعاً للالتباس انہ کالخاتم للقوم لا خاتم قوم وخاتم الخلفاء

۳۔اسم آلہ ما یختم بہ وہ جس سے مہر لگائی جائے یعنی لوہے یا پیتل یا پتھر وغیرہ کی چیز جس پر نام وغیرہ کندہ کیے جاتے ہیں یعنی مہر۔

۴۔اور خاتم زیر کے ساتھ اسم فاعل کا صیغہ کسی چیز کو ختم کرنے والا۔

۵۔خاتم زبر کے ساتھ مہر کا نقش جو کاغذ وغیرہ پر اتر آتا ہے۔

پس آیت خاتم النبیین میں دوسرے اور پانچویں معنی تو کسی طرح بھی درست نہیں ہوسکتے اور پہلے معنی ہر دو قرأت پر صحیح اور درست ہیں اور چوتھے معنی صرف خاتم بالکسر کے ساتھ مخصوص ہیں اور تیسرے معنی حقیقت کے اعتبار سے تومراد ہو ہی نہیں سکتے اور باجماع علمائے لغت جب تک حقیقی معنی درست ہوسکیں اس وقت تک مجاز کو اختیار کرنا باطل ہے۔ اگر مجازی معنی ہی لیے جائیں تو یہ معنی ہوں گے کہ حضورﷺ انبیاء علیہم السلام پر مہر ہیں۔ جس کا مطلب پہلے معنی کے علاوہ کچھ نہیں ۔ کیونکہ عرب میں الختم یعنی مہر لگانے کے معنی کسی چیز کو بند کردینا اور روک دینے کے ہیں۔ عام محاورہ میں کہاجاتا ہے کہ فلاں شخص نے فلاں چیز پر مہر کردی قرآن کریم میں ہے: خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ ([15]) ”اﷲ نے ان کے دلوں پر مہر کر دی۔ یعنی اب قلوب میں ایمان نہ داخل ہوگا۔“

اسی طرح شعرا ئے عرب میں سے لفظ خاتم کا کچھ اس طرح استعمال کیا ہے :

ابو الحسن علی بن احمد بن محمد بن علی الواحدی، النيسابوری، الشافعی (المتوفى: 468ھ) دیوان متنبی میں شعر لکھتے ہیں:

اروح وقد ختمت علی فؤادیبحبک ان الا یحل بہ سواک ([16])

”میں تیرے یہاں سے اس طرح جارہا ہوں کہ تونے میرے قلب پر اپنی محبت سے مہر لگادی ہے تاکہ اس میں تیرے سواکوئی داخل نہ ہوسکے۔“

پس خاتم النبیینﷺ کے وہ نئے معنی جو مرزاقادیانی نے کے حاشیہ میں اور میں بیان کیے ہیں۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:

’’آپ کی مہر سے انبیا بنتے ہیں۔ ایک وہی ہے جس کی مہر سے ایسی نبوت مل سکتی ہے۔ آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے۔‘‘ ([17])

محاورات عرب کے بالکل خلاف ہیں۔ ورنہ لازم آئے گا کہ خاتم القوم کے بھی یہ معنی ہوں کہ اس کی مہرسے قوم بنتی ہے اور خاتم الاولاد کے معنی یہ ہوں کہ اس کی مہر سے اولاد بنتی ہے اور خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ کے معنی بالکل مہمل ہوں۔ غرض جو معنی مرزاقادیانی نے اختراع کئے عرب میں ہرگز ہرگز مستعمل نہیں براہین میں تحریر ہے :

’’میرے بعد میرے والدین کے گھر میں اور کوئی لڑکی یا لڑکا نہیں ہواا ور میں ان کے لئے خاتم الاولاد تھا۔‘‘([18])

ٹھیک اسی طرح خاتم النبیینﷺ کے معنی ہیں کہ حضورﷺ آخرالانبیا ہیں آپﷺ کے بعد کسی کو منصب نبوت نہ دیا جائے گا او ر ازالہ اوہام میں ہے۔

ماکان محمد ابااحد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین ([19])

”یعنی محمدﷺ تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں۔ مگر وہ رسول اﷲ ہے اور ختم کرنے والا نبیوں کا۔‘‘

لفظ ’’خاتم ‘‘ کی قرآنی تفسیر

اب سب سے پہلے دیکھیں کہ قرآن مجید کی رُو سے اس کاکیا ترجمہ وتفسیر کیا جانا چاہیے؟

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ لفظ ’’ ختم‘‘ کے مادہ کا قرآن مجید میں سات مقامات پر استعمال ہوا ہے۔

۱۔خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ ([20]) ”مہر کردی اﷲ نے ان کے دلوں پر۔“

۲۔خَتَمَ عَلٰی قُلُوْبِكُمْ ([21]) ”اور مہرکردی تمھارے دلوں پر۔“

۳۔خَتَمَ عَلٰی سَمْعِهٖ وَ قَلْبِهٖ ([22]) ”مہر کردی اس کے کان پراور دل پر۔“

۴۔اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤی اَفْوَاهِهِمْ ([23]) ”آج ہم مہر لگادیں گے ان کے منہ پر۔“

۵۔فَاِنْ یَّشَاِ اللّٰهُ یَخْتِمْ عَلٰی قَلْبِكَ ([24]) ”سو اگر اﷲ چاہے مہر کردے تیرے دل پر۔“

۶۔رَّحِیْقٍ مَّخْتُوْمٍۙ ([25]) ”مہر لگی ہوئی۔“

۷۔خِتٰمُهٗ مِسْكٌ ([26]) ”جس کی مہر جمتی ہے مشک پر۔“

ان ساتوں مقامات کے اول وآخر‘ سیاق وسباق کو دیکھ لیں ’’ ختم‘‘ کے مادہ کا لفظ جہاں کہیں استعمال ہوا ہے۔ ان تمام مقامات پر قدر مشترک یہ ہے کہ کسی چیز کو ایسے طور پر بند کرنا ۔ اس کی ایسی بندش کرنی کہ باہر سے کوئی چیز اس میں داخل نہ ہوسکے۔ اور اندر سے کوئی چیز اس سے باہر نہ نکالی جاسکے۔ وہاں پر ’’ ختم ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مثلاً پہلی آیت کو دیکھیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کافروں کے دلوں پر مہر کردی۔ کیا معنی؟ کہ کفر ان کے دلوں سے باہر نہیں نکل سکتا اور باہرسے ایمان ان کے دلوں کے اندر داخل نہیں ہوسکتا۔ فرمایا:’’ خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ ‘‘ (حوالہ )اب زیر بحث آیت خاتم النبیین کا اس قرآنی تفسیر کے اعتبار سے ترجمہ کریں تو اس کا معنی ہوگا کہ رحمت دو عالم ﷺ کی آمدپر حق تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ پر ایسے طور پر بندش کردی‘ بند کردیا‘ مہر لگادی‘ کہ اب کسی نبی کو نہ اس سلسلہ سے نکالا جاسکتا ہے اور نہ کسی نئے شخص کو سلسلہ نبوت میں داخل کیا جاسکتا ہے۔

خلاصہ

لفظ ’’ خاتم ‘‘ میں مجازی اور حقیقی معانی کی بحث

یہ ہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ لفظ ’’خاتم‘‘ بعض اوقات مجازی معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے لیکن علمائے بلاغت کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ مجازی معنی اسی وقت لیے جاتے ہیں جب حقیقی معنی متعذر اور مشکل ہوں۔ مثلاً جب کسی شخص کو ’’خاتم المحدثین‘‘ یا ’’خاتم المفسرین‘‘ یا ’’خاتم الشعرا‘‘ لکھا جاتا ہے تو مجازاً اور مبالغۃ کہا جاتا ہے۔ اس وقت حقیقی معنی مراد نہیں ہوتے۔ کیونکہ انسان عالم الغیب نہیں۔ اسے کیا معلوم کہ جس شخص کو وہ کسی خاص فن کا خاتم کہہ رہا ہے اس کے بعد اس جیسے یا اس سے بڑھ کر کتنے شخص پیدا ہوں گے۔ اس لیے انسان کے کلام کو ایسی حالت میں مبالغہ یا مجاز پر محمول کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔ لیکن خداوند تعالیٰ چونکہ عالم الغیب ہے اور اس پر سب کچھ عیاں ہے۔ اس لیے خدا کا کلام حقیقت پر محمول ہوگا۔ خصوصاً ایسے وقت میں جب کہ اس کے سینکڑوں شواہد موجود ہوں۔ بنابریں ایسی تراکیب کو خاتم النبیین کے خود ساختہ معنی کے لیے بطور بند پیش کرنا بعید از عقل ونقل ہے۔

عصر حاضر میں ’’خاتم‘‘ کے خود ساختہ اور من گھڑت معنی کی تائید میں ایک حدیث بھی پیش کی جاتی ہے۔ جس میں آنحضرتﷺ نے حضرت عباسؓ سے فرمایا:

اطمئن یا عم فانک خاتم المہاجرین فی الہجرۃ کما انا خاتم النبیین فی النبوۃ ([27])

”اگر حضرت عباسؓ کے بعد ہجرت جاری ہے تو حضورﷺ کے بعد نبوت بھی جاری ہے۔“

لیکن یہ حدیث تو خود اس امر کی دلیل بیّن ہے کہ خاتم کے معنی آخر کے ہیں۔ کیونکہ ہجرت سے مراد ہجرت مکہ ہے اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اے چچا! آپ مطمئن رہیں۔ آپ کے بعد جو شخص مکے کو چھوڑ کر مدینے میں آئے گا اسے اصلاحی مہاجر کا لقب نہیں ملے گا اور وہ مہاجرین صحابہؓ میں سے شمار نہیں ہوگا۔ جس طرح میں خاتم الانبیاہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ اسی طرح تم خاتم المہاجرین ہو۔ اب تمھارے بعد کوئی صحابی مہاجر نہیں کہلائے گا۔ جس طرح حضرت عباسؓ فتح مکہ سے کچھ ہی پہلے ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تھے اور آپ کے بعد پھر کسی مسلمان نے ہجرت نہیں کی۔ کیونکہ ان کی ہجرت کرنے کے بعد مکہ فتح ہوکر دار السلام ہوگیا اور حضورﷺ نے فرمایا:

لا ہجرۃ بعد الفتح ([28]) ”فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں۔“

اس بیان کی تائید ایک دوسری روایت سے ہوتی ہے۔ جسے علامہ ابن حجر ؒ العسقلانی ( المتوفی 852ھ )نے تہذیب التہدیب میں یوں نقل کیا ہے:

’’استأذن العباس نبی اﷲﷺ فی الہجرۃ فکتب الیہ یا عم یا عم مکانک انت فیہ فان اﷲ یختم بک الہجرۃ کما ختم فی النبوۃ ([29])

حضرت عباسؓ نے آنحضرتﷺ سے ہجرت کرنے کی اجازت طلب کی تو حضورﷺ نے تحریر کر بھیجا۔ ’’اے میرے چچا! اے میرے چچا! تم جس جگہ ہو ابھی وہیں ٹھہرے رہو۔ کیونکہ خداتعالیٰ تم پر ہجرت اس طرح ختم کر دے گا جس طرح اس نے مجھ پر نبوت ختم کر دی۔‘‘

ان دونوں روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عباسؓ نے ہجرت کی اجازت چاہی تو آپﷺ نے اس وقت اجازت نہ دی اور بعدازاں اس وقت اجازت دی کہ ان کی ہجرت کے بعد ہجرت کی ضرورت ہی نہ رہی۔ اس لیے آپ کو خاتم المہاجرین کا لقب ملا۔خاتم بمعنی مہر لگانااگر خاتم کے معنی مہر کے لیے جائیں تو اس صورت میں ’’خاتم النبیین‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرتﷺ تمام پیغمبروں کے بمنزلہ مہر کے ہیں۔ یعنی جس طرح مہر سے تحریر کو ختم کیا جاتا اور کسی چیز پر مہر لگادینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب اس میں کوئی چیز داخل نہ ہوسکے گی۔ اسی طرح حضورﷺ کے وجود باجود کے بعد سلسلۂ نبوت میں کوئی شخص داخل نہ ہو سکے گا۔

لفظ ’’خاتم ‘‘ صحابہ کرام کے اقوال کی روشنی میں

حضرات صحابہ کرام ؓ وتابعین ؒ لفظ ’’خاتم ‘‘ سے متعلق کیا موقف تھا۔خاتم کا ان کے نزدیک کیا ترجمہ تھا؟ یہاں پر صرف دو صحابہ کرام ؓ کی آرا مبارکہ درج کی جاتی ہیں۔

1۔امام ابو جعفر ابن جریر طبری ؒ (متوفی 310ھ)اپنی عظیم الشان تفسیر جامع البيان فی تاویل القرآن میں حضرت قتادہ ؓ ایک جلیل القدر صحابی سے ’’خاتم النبیین ‘‘کی تفسیر میں روایت فرماتے ہیں:

عن قتادۃ ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین ای آخرھم ([30])

”حضرت قتادۃ ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے آیت کی تفسیرمیں فرمایا۔ اور لیکن آپ ﷺ اﷲ کے رسول اور خاتم النبیین یعنی آخرالنبیین ہیں۔“

2۔امام جلال الدین سیوطی ؒ نے درمنثور میں بحوالہ عبدابن حمید حضرت حسن ؓ سے نقل کیا ہے:

عن الحسن فی قولہ وخاتم النبیین قال ختم اﷲ النبیین بمحمد ﷺ وکان آخرمن بعث ([31])

”حضرت حسن ؓ سے آیت خاتم النبیین کے بارے میں یہ تفسیر نقل کی گئی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے تمام انبیا کو محمد ﷺ پر ختم کردیا اور آپ ﷺ ان رسولوں میں سے جو اﷲ کی طرف سے مبعوث ہوئے آخری ٹھہرے۔“

لفظ ’’خاتم النبیین کی تفسیری شہادتیں ائمہ تفسیر کی تفاسیر سے ختم نبوت کی تحقیق:

1۔تفسیر طبری

ولکنہ رسول اﷲ وخاتم النبیین الذی ختم النبوۃ فطبع علیہا فلا تفتح لاحد بعدہ الی قیام الساعۃ ([32])

”لیکن آپ اﷲ کے رسولﷺ اور خاتم النبیین ہیں۔یعنی وہ شخص جس نے نبوت کو ختم کردیا اور اس پر مہر لگادی پس وہ قیامت تک آپؐ کے بعد کسی کے لیے نہ کھولی جائے گی۔“

2۔تفسیر ابن کثیر

فہذہ الایۃ نص فی انہ لانبی بعدہ واذاکان لا نبی بعدہ فلا رسول بالطریق الاولیٰ والاخریٰ لان مقام الرسالۃ اخص من مقام النبوۃ فان کل رسول نبی ولا ینعکس وبذلک وردت الاحادیث المتواترۃ عن رسول اﷲ من حدیث جماعۃ من الصحابۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم ([33])

یہ آیت اس بات میں نص صریح ہے کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا اور جب کوئی نبی نہ ہوگا تو رسول بدرجہ اولیٰ نہ ہوگا۔ کیونکہ رسالت کا مرتبہ نبوت کے مرتبہ سے خاص ہے ہر رسول کا نبی ہونا ضروری ہے اور ہر نبی کا رسول ہونا ضروری نہیں اور ختم نبوت پر آنحضرتﷺ کی احادیث متواترہ صحابہ کرامؓ کی ایک بڑی جماعت سے منقول ہوکر وارد ہوئے ہیں۔

3۔تفسیر کشاف

خاتم بفتح التاء بمعنی الطابع وبکسرھا بمعنی الطابع وفاعل الختم وتقویہ قرأۃ عبداﷲ بن مسعود ولکن نبیاً ختم النبیین فان قلت کیف کان آخرا لانبیأ وعیسیٰ علیہ السلام ینزل فی آخرالزمان قلت معنی کونہ آخرالانبیأ انہ لا ینبئا احد بعدہ وعیسیٰ ممن نبی قبلہ ([34])

”خاتم کے زبر کے ساتھ بمعنی آلہ مہر اور زیر کے ساتھ بمعنی مہرکرنے والا اور ختم کرنے والا اور اس معنی کی تقویت حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کی قرأت ولکن نبیا ختم النبیین کرتی ہے۔ پس اگر تم یہ کہو کہ حضورﷺ آخرالانبیا کس طرح ہوسکتے ہیں۔ حالانکہ عیسیٰ علیہ السلام آخر زمانے میں نازل ہوں گے تو میں کہوں گا کہ آخر الانبیا کے یہ معنی ہیں کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں بنایا جائے گا اور عیسیٰ علیہ السلام ان نبیوں میں سے ہیں جو حضورﷺ سے پہلے نبی بناکر بھیجے گئے۔“

4۔تفسیر مدارک التنزیل

خاتم النبیین بفتح التاء عاصم بمعنی الطابع ای اخرھم یعنی لا ینبأ احد بعدہ وعیسیٰ علیہ السلام ممن نبی قبلہ… وغیرہ بکسر التاء بمعنی الطابع وفاعل الختم و تقویہ قرأۃ عبداﷲ بن مسعود ([35])

”خاتم النبیین عاصم کی قرأۃ میں ت کے زبر کے ساتھ بمعنی آلہ مہر جس سے مراد آخر ہے یعنی آپؐ کے بعد کوئی شخص نبی نہ بنایا جائے گا اور عیسیٰ علیہ السلام آپؐ سے پہلے نبی بنائے گئے۔ اس لیے ان کے نزول سے کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا اور عاصم کے علاوہ سب قاریوں کے نزدیک ت کے زبر کے ساتھ یعنی مہر کرنے والا اور ختم کرنے والا اور اس کی تائید حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کی قرأت بھی کرتی ہے۔“

5۔تفسیر خازن

خاتم النبیین ختم اﷲ بہ النبوۃ فلا نبوۃ بعدہ ای ولا معہ ([36])

”خاتم النبیین یعنی اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کے ساتھ نبوت کو ختم کر دیا۔ پس نہ آپؐ کے بعد نبوت ہے اور نہ آپؐ کے ساتھ کسی کو حاصل۔“

6۔ مواہب لدنیہ

ومنہا انہ خاتم الانبیاء والمرسلین کماقال تعالیٰ ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین ای اخرھم الذی ختمہم اوختموابہ علیٰ قرأۃ عاصم بالفتح… قیل من لا نبی بعدہ یکون اشفق علیٰ امتہ وھو کوالد لو لدلیس لہ غیرہ ولا یقدح نزول عیسیٰ علیہ السلام بعدہ لا نہ یکون علی دینہ مع ان المرادانہ اٰخر من نبی ([37])

”اور آنحضرتﷺ کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ آپؐ سب انبیا اور رسل کے ختم کرنے والے ہیں۔ جیسا کہ اﷲتعالیٰ نے فرمایا ہے: ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین یعنی آخرالنبیین جس نے انبیا کو ختم کیا یا عاصم کی قراۃ کی رو سے جو زبر کے ساتھ ہے یہ معنی ہیں کہ جس پر سب انبیا ختم کیے گئے… کہاجاتا ہے کہ جس نبی کے بعد اور کوئی نبی نہ ہو وہ اپنی امت پر بہت زیادہ شفیق ہوگا اور وہ اس باپ کے مثل ہے کہ جس کی اولاد کی اس کے بعد کوئی نگرانی کرنے والا اور تربیت کرنے والا نہ ہو اور حضورﷺ کے بعد نزول عیسیٰ علیہ السلام سے کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کہ عیسیٰ علیہ السلام بعد نزول کے آپؐ کے دین پر ہوں گے۔ علاوہ اس کے ختم نبوت کے یہ معنی ہیں کہ آپؐ سب سے آخر میں نبی بناکر بھیجے گئے۔“

7۔تفسیر روح المعانی

الخاتم اسم الہ …مآلہ آخرالنبیین… وخاتم بکسر التاء علی انہ اسم فاعل ای الذی ختم النبیین والمراد بہ آخرھم ایضاً… والمراد بالنبی ماھوا عم من الرسول فیلزم من کونہ ﷺ خاتم النبیین کونہ خاتم المرسلین… والمراد بکونہ علیہ الصلوۃ والسلام خاتمہم انقطاع حدوث وصف النبوۃ فی احد من الثقلین بعد تحلیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام بہا فی ھذہ النشأۃ ولا یقدح فی ذلک ما اجمعت الامۃ علیہ واشتہرت فیہ الاخبار ولعلہابلغت مبلغ التواتر المعنوی ونطق بہ الکتاب علی قول ووجب الایمان بہ واکفر منکرہ کالفلا سفۃ من نزول عیسیٰ علیہ السلام اٰخر الزمان لانہ کان نبیاً قبل تحلی نبیناﷺ بالنبوۃ فی ھذہ النشاء ۃ ([38])

”خاتم ت کے زبر کے ساتھ اسم آلہ ہے… جس کا مال آخرالنبیینﷺ ہے اور خاتم ت کی زیر کے ساتھ اسم فاعل کا صیغہ یعنی وہ نبی جس نے نبیوں کو ختم کردیا اور اس سے مراد بھی آخر النبیین ہے اور نبی رسولﷺ سے عام ہے۔ لہٰذا حضورﷺ کا خاتم النبیین ہونا خاتم المرسلین ہونے کو لازم ہے اور حضورﷺ کے خاتم النبیین ہونے سے مراد یہ ہے کہ آپؐ کے اس عالم میں وصف نبوت کے ساتھ متصف ہونے کے بعد وصف نبوت کا پیدا ہونا بالکل منقطع ہوگیا۔ جن وانس میں سے کسی کو اب یہ وصف نبوت عطا نہ کیا جائے گا اور یہ مسئلہ ختم نبوت اس عقیدے کے ہر گز خلاف نہیں جس پر امت نے اجماع کیا ہے اور جس میں احادیث شہرت کو پہنچی ہوئی ہیں۔ شاید درجہ تواتر معنوی کو پہنچ جائیں اور جس پر قرآن نے ایک قول کی بنا پر تصریح کی ہے اور جس پر ایمان لانا واجب ہے اور ا س کے منکر مثلاً فلاسفہ کو کافر سمجھا گیا ہے یعنی عیسیٰ علیہ السلام کا آخرزمانے میں نازل ہونا کیونکہ وہ آنحضرتﷺ کے اس عالم میں نبوت ملنے سے پہلے وصف نبوت کے ساتھ متصف ہوچکے تھے۔

بر صغیر پاک و ہند کی مشہور اردو تفاسیر میں لفظ ’’ خاتم ‘‘ کی تفسیری تحقیق

1۔تفسیر انوار البیان

’’خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺکی ذات گرامی پر وصف نبوت سے متصف ہونا یعنی نبوت جدیدہ سے سرفراز کیا جانا ختم ہوگیا ہے اور سلسلہ نبوت آپ کی ذات گرامی پر منقطع ہوگیا اب نبوت جدیدہ سے کوئی بھی شخص متصف نہیں ہوگا۔ ختم نبوت کے منکر قرآن کے منکر ہیں اسلام سے خارج ہیں آپ ﷺکے بعد جو بھی کوئی شخص نبوت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے، گمراہ ہے، کافر ہے اور اس کی تصدیق کرنے والے بھی گمراہ اور کافر ہیں اور آیت قرآنیہ کے منکر ہیں جس میں صاف اس بات کا اعلان فرما دیا ہے کہ حضرت محمد ﷺخاتم النبیین ہیں۔‘‘([39])

2۔تفسیر احسن البیان

’’ (خاتم) : (ختم کرنے والا ۔ مہر ۔ قرآن کریم میں اس لفظ کی دو قرأتیں ہیں یعنی یہ زبر اور زیر دونوں طرح پڑھا جاتا ہے اور دونوں کے معنی کا حاصل ایک ہی ہے یعنی سلسلۂ نبوت کو ختم کرنے والے ۔ مہر کے معنی بھی آخر کے ہوتے ہیں کیونکہ بند کرنے کے لیے کسی چیز پر مہر بھی آخر ہی میں لگائی جاتی ہے ۔ ‘‘([40])

3۔تفسیر معارف القرآن مفتی شفیع عثمانی

’’وخاتم النبین، لفظ خاتم میں دو قرأتیں ہیں، امام حسن اور عاصم کی قرأت خاتم بفتح تا ہے اور دوسرے ائمہ قرات خاتم بکسر تاپڑھتے ہیں۔ حاصل معنی دونوں کا ایک ہی ہے، یعنی انبیا کو ختم کرنے والے، کیونکہ خاتم خواہ بکسر التاہو یا بفتح التا دونوں کے معنی آخر کے بھی آتے ہیں، اور مہر کے معنی میں بھی یہ دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں، اور نتیجہ دوسرے معنی کا بھی وہی آخر کے معنی ہوتے ہیں کیونکہ مہر کسی چیز پر بند کرنے کے لئے آخر ہی میں کی جاتی ہے۔ لفظ خاتم بالکسر والفتح دونوں کے معنی لغت عربی میں تمام کتابوں میں مذکور ہیں۔‘‘([41])

4۔ خزائن العرفان

’’آخر الانبیا کہ نبوت آپ پر ختم ہوگئی آپ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی حتیٰ کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نازل ہوں گے تو اگرچہ نبوت پہلے پاچکے ہیں مگر نزول کے بعد شریعت محمّدیہ پر عامل ہوں گے اور اسی شریعت پر حکم کریں گے اور آپ ہی کے قبلے یعنی کعبہ معظّمہ کی طرف نماز پڑھیں گے، حضور کا آخر الانبیا ہونا قطعی ہے، نصِّ قرآنی بھی اس میں وارد ہے اور صحاح کی بکثرت احادیث تو حدِّ تواتر تک پہنچتی ہیں۔ ان سب سے ثابت ہے کہ حضور سب سے پچھلے نبی ہیں آپ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں جو حضور کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے، وہ ختم نبوت کا منکر اور کافر خارج از اسلام ہے۔ ‘‘ ([42])

5۔تفسیر نور العرفان

’’اللہ تعالیٰ کا حضور کو آخری نبی بنانا علم و حکمت پر مبنی ہے ، اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضور کے بعد کوئی نبی نہیں بن سکتا ۔ جو،اب کسی نبی کا آنا یا اس کا امکان مانے تو وہ مرتد ہے جیسے لا الہ الا اللہ سے معلوم ہوا کہ خد ا کے سوا کوئی معبود نہیں ہوسکتا ایسے ہی لا نبی بعدی سے معلوم ہوا کہ حضور کے بعد کوئی نبی نہیں بن سکتا یہ دونوں ایک درجہ کے محال ہیں۔ اسی طرح حضور کے زمانے میں کوئی نبی نہ تھا نہ ہوسکتا تھا۔ کیونکہ خاتم النبیین وہ جو سب نبیوں سے پیچھے ہو۔‘‘ ([43])

6۔تفسیر ضیاء القرآن

’’حضور سرور عالم سیدنا محمد رسول اللہ ﷺسب سے آخری نبی ہیں۔ حضور ﷺکی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ حضور ﷺکے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا۔ اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعوے ٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اسلام نے مرتد کے لیےمقرر فرمائی ہے‘‘ ([44])

حجۃ الاسلام امام غزالی (متوفی 505ھ) فرماتے ہیں:

ان الامۃ فہمت من ہذا اللفظ انہ فہم عدم نبی بعدہ ابداً وعدم رسول بعدہ ابدا وانہ لیس فیہ تاویل وتخصیص ومن اولہ بتخصیص فکلا مہ من انواع الہذیان لا یمنع الحکم بتکفیرہ لا نہ مکذب لہذا النص الذی اجمعت الامۃ علی انہ غیر ماول ([45])

”تمام امت محمدیہ نے لفظ خاتم النبیین سے یہی سمجھا کہ آنحضرتﷺ کے بعد ابد تک نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ کوئی رسول اور اس لفظ میں کوئی تاویل اور تخصیص نہیں ہوسکتی۔ جو شخص کسی تخصیص سے اس آیت کی تاویل کرے گا تو اس کا یہ بے معنی اور بیہودہ کلام اسے کافر کہنے سے سے روک نہیں سکتا۔ کیونکہ وہ نص قرآنی کی تکذیب کر رہا ہے جس کے متعلق امت کا اجماع ہے کہ نہ اس میں کوئی تاویل ہے اور نہ تخصیص ۔“

خاتم النبیین اور اصحاب لغت خاتم النبیین ’’ت‘‘کی زبر یا زیرسے ہو قرآن وحدیث کی تصریحات اور صحابہ وتابعین کی تفاسیر اور آئمہ سلف کی شہادتوں سے بھی قطع نظر کرلی جائے اور فیصلہ صرف لغت عرب پر رکھ دیا جائے تب بھی لغت عرب یہ فیصلہ دیتا ہے کہ آیت مذکورہ کی پہلی قرأت پر دو معنی ہوسکتے ہیں۔ آخرالنبیین اور نبیوں کے ختم کرنے والے اور دوسری قرأت پر ایک معنی ہوسکتے ہیں یعنی آخر النبیین۔لیکن اگر حاصل معنی پر غور کیا جائے تو دونوں کا خلاصہ صرف ایک ہی نکلتا ہے۔ اور بہ لحاظ مراد کہا جاسکتا ہے کہ دونوں قرأتوں پر آیت کے معنی لغۃ ً یہی ہیں کہ آپ ﷺ سب انبیائےعلیہم السلام کے آخر ہیں۔ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوسکتا۔ جیسا کہ تفسیر روح المعانی میں تبصریح موجود ہے:

والخاتم اسم آلۃ لما یختم بہ کا لطابع لما یطبع بہ فمعنی خاتم النبیین الذی ختم النبییون بہ ومآ لہ آخر النبیین ([46])

”اور خاتم بالفتح اس آلہ کا نام ہے جس سے مہر لگائی جائے ۔ پس خاتم النبیین کے معنی یہ ہوں گے ( وہ شخص جس پر انبیا ختم کیے گئے) اور اس معنی کا نتیجہ بھی یہی آخرالنبیین ہے۔“

علامہ احمد معروف بہ ملاجیون صاحب نے اپنی تفسیر احمدی میں اسی لفظ کے معنی کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے:

’’ نتیجہ دونوں صورتوں (بالفتح وبالکسر) میں وہ صرف معنی آخر ہی ہیں اور اسی لیے صاحب تفسیر مدارک نے قرأت عاصم یعنی بالفتح کی تفسیر آخر کے ساتھ کی ہے اور بیضاوی ؒنے دونوں قراتوں کی یہی تفسیر کی ہے۔‘‘([47])

روح المعانی اور تفسیر احمدی کی ان عبارتوں سے یہ بات بالکل روشن ہوگئی ۔ کہ لفظ خاتم کے دو معنی آیت میں بن سکتے ہیں۔ ان کا بھی خلاصہ اور نتیجہ صرف ایک ہی ہے۔یعنی آخر النبیین اور اسی بنا پر بیضاوی ؒ نے دونوں قرأتوں کے ترجمے میں کوئی فرق نہیں کیا۔ بلکہ دونوں صورتوں میں آخر النبیین تفسیر کی ہے۔

آئمہ لغت نے صرف اسی پر بس نہیں کی کہ لفظ خاتم کے معنی کو جمع کردیا۔ بلکہ تصریحا ً اس آیت شریفہ کے متعلق جس پر اس وقت ہماری بحث ہے، صاف طور پربتادیا کہ تمام معانی میں سے جو لفظ خاتم میں لغۃً محتمل ہیں اس آیت میں صرف یہی معنی ہوسکتے ہیں کہ آپ ﷺ سب انبیا کے ختم کرنے والے اور آخری نبی ہیں۔خدائے علیم وخبیر ہی کو معلوم ہے کہ لغت عرب پر آج تک کتنی کتابیں چھوٹی بڑی اور معتبر وغیرمعتبر لکھی گئیں۔ اور کہاں کہاں اور کس صورت میں موجود ہیں۔ ہمیں نہ ان سب کے جمع کرنے کی ضرورت ہے اور نہ یہ کسی بشر کی طاقت ہے۔ بلکہ صرف ان چند کتابوں سے جو عرب وعجم میں مسلم الثبوت اور قابل استدلال سمجھی جاتی ہیں۔

خلاصہ مقالہ

اب اگر کوئی شخص لفظ نبی کی کوئی نئی تفسیر اور توجیہہ پیش کرے تو وہ ہرگز قابل قبول نہ ہوگی۔ کیونکہ اصطلاحی الفاظ میں تصرف جائز نہیں۔ اس لیے شریعت نے الفاظ موہمہ کے استعمال سے روکا ہے۔ یعنی ایسے الفاظ کے استعمال کی اجازت نہیں دی۔ جس میں کسی شرعی حکم کے خلاف کا پہلو بھی موجود نہ تھا۔صحابہ رضوان اﷲ علیہم کو حکم ہوتا ہے۔ ’’لا تقولوا راعنا‘‘ یعنی حضورﷺ کو لفظ راعنا سے مخاطب نہ کیا کرو۔ کیونکہ اس میں ذم کا ایک پہلو بھی موجود تھا۔ احادیث میں بہت سے الفاظ استعمال کرنے کی ممانعت اسی بنا پر وارد ہے۔بعض لوگوں کا یہ قول کہ ائمہ لغت نے جو خاتم النبیین میں خاتم کے معنی آخر کے لکھے ہیں، یہ محض ان کے اپنے عقیدے کا اظہار ہے جو حجت نہیں۔ غالب مرحوم کے اس مصرعے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہےکیونکہ موجودہ زمانے میں بہت سے غیرمسلم اہل قلم نے عربی زبان کے لغت مرتب کیے ہیں۔ مگر اس معنی پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ اگر بالفرض یہ معنی غلط ہیں تو کیا ابتدائے اسلام سے لے کر آج تک مسلمانوں میں کوئی ایسا صاحب علم اور محقق پیدا نہیں ہوا جو اس غلطی سے لوگوں کو آگاہ کرتا اور بقول ان کے یہ سب کتب لغت ناقابل اعتبار ہیں تو کیا دنیا میں عربی زبان کا کوئی ایسا لغت بھی ہے جو قابل اعتبار ہو۔ اگر ہے تو کون سا؟ اور اس پر اعتبار کرنے کی وجہ کیا ہے؟ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ بحالت اضافت خاتم کے معنی صرف افضل کے آتے ہیں۔ انھیں چاہیے تھا کہ اپنے اس دعوے کے ثبوت میں کسی امام فن کا قول پیش کرتے۔ جس میں صراحۃً یہ مذکور ہوتا کہ جمع کی طرف مضاف ہونے کی حالت میں خاتم کے معنی صرف افضل کے ہوتے ہیں ۔

 

حوالہ جات

  1. ()نیشاپوری ، مسلم القشیری ، صحیح مسلم ، دار إحياء التراث العربي ، بيروت،حدیث نمبر 6272،جلد 4،ص 2056
  2. ()الذہبی ، محمد السيد حسين ، التفسیر والمفسرون، مكتبة وهبة، قاہرہ، ج1 ، ص29
  3. ()الجوہری ، ابو نصر اسماعیل بن حماد ، دیباچہ الصحاح ، دار العلم للملايين ، بيروت، ص 50
  4. ()Jhon A . Haywood ,Arabic Lexicography, P.11
  5. ()بخاری ، محمد بن اسماعیل ، صحیح البخاری،دار طوق النجاة، حدیث نمبر 3455، ج، 4 ، ص 169
  6. ()نیشاپوری ، مسلم القشیری ، صحیح مسلم ، دار إحيأ التراث العربي ، بيروت،حدیث نمبر 2354،ج 4،ص 1828
  7. ()حموی ، احمد بن محمد بن علی ، مصباح المنیر، کتاب الخأ، المكتبة العلمية ،بيروت، ج ۱ ، ص 163
  8. ()آلوسی ، شہاب الدین محمود بن عبد اللہ ، تفسیر روح المعانی، دار الكتب العلمية ،بيروت، ج11 ،ص213
  9. ()اصفہانی ابو القاسم الحسین بن محمد ، مفردات راغب، دار القلم، الدار الشامية ،بيروت، ص 275
  10. ()الجوہری ، اسماعیل بن حماد ، الصحاح تاج اللغۃ وصحاح العربیہ ، دار العلم للملايين ، بيروت، ج 5، ص 1908
  11. ()افریقی ، جمال الدین ابن منظور ، لسان العرب باب المیم فصل الخأ، 164:12
  12. ()الزبیدی، محمد بن عبد الرزاق ، تاج العروس ، دار الهداية، ج 32، ص 48
  13. ()فیروزآبادی ، محمد بن یعقوب ، القاموس المحیط ، فصل الخأ ، باب المیم ،ج4 ، ص 104
  14. ()الزبیدی محمد بن عبد الرزاق ، تاج العروس ،دار الهداية، ج 32، ص 48
  15. ()البقرہ:7
  16. ()نیشاپوری ، ابو الحسن علی بن احمد ، دیوان متنبی ،ص 398
  17. ()حقیقت الوحی، ص97
  18. ()براہین ،حصہ5 ،ص86
  19. ()ازالہ اوہام ،ص614
  20. ()البقرہ:7
  21. ()انعام :46
  22. ()الجاثیہ :23
  23. ()یٰسین :65
  24. ()الشوریٰ: 24
  25. ()مطففین: 25
  26. ()مطففین: 25
  27. ()الہندی علاو الدین علی بن حسام ،کنز العمال ، حدیث 37340، ج 13،ص 519
  28. ()بخاری ، محمد بن اسماعیل صحیح البخاری ، دار طوق النجاة،حدیث نمبر 2783، ج4 ، ص 15
  29. ()العسقلانی ، ابن حجر ، مطبعة دائرة المعارف النظامية، الهند، حدیث نمبر ۲۱۴، ج ۵ ، ص 122
  30. ()طبری ، اما م ابو جعفر ابن جریر ، مؤسسة الرسالة، ج20، ص 278
  31. ()سیوطی ، جلال الدین ، تفسیر درمنشور،دار الفكر ، بيروت،ج6 ، ص 617
  32. ()طبری ، اما م ابو جعفر ابن جریر ، مؤسسة الرسالة، ج20، ص 278
  33. ()ابن کثیر ، ابو الفداء اسماعیل بن عمر ،تفسیر القرآن العظیم ، دار طيبة للنشر والتوزيع، ج6،ص428
  34. ()زمخشری ، محمود بن عمر ، دار الكتاب العربي ،بيروت،، ج3،ص 544
  35. ()النسفی ابوالبرکات عبد اللہ بن احمد ، تفسیر مدارک التنزیل ،دار الكلم الطيب، بيروت،ج3،ص34
  36. ()علاء الدین علی بن محمد ، تفسیر خازن،دار الكتب العلمية ، بيروت، ج3، ص429
  37. ()زرقانی أبو عبد الله محمد بن عبد الباقي ،شرح مواہب لدنیہ ، دار الكتب العلمية، ج7،ص235
  38. ()آلوسی ، شہاب الدین محمود بن عبد اللہ ، روح المعانی، دار الكتب العلمية ، بيروت، ج11،ص213
  39. ()مدنی، عاشق الٰہیؒ ،تفسیر انوار البیان ،دارالاشاعت، ج4، ص 414
  40. ()سید فضل الرحمن ، احسن البیان ، زوار اکیڈمی پبلی کیشنز،حصہ 6،ص 437
  41. ()عثمانی ، مفتی شفیعؒ ، معارف القرآن، ج 7، ص 163
  42. ()مراد آبادی ، سید نعیم الدین ، کنز الایمان مع خزائن العرفان، مکتبہ المدینہ،ص 783
  43. ()نعیمی مفتی احمد یار خان ،کنز الایمان مع نور العرفان ،ص 675
  44. ()الازہری ، پیر سید کرم شاہ ، ضیأ القرآن،ضیأالقرآن پبلی کیشنز ، ج4 ، ص 65
  45. ()الغزالی ، ابو حامد محمد بن محمود ؒ ، الاقتصاد فی الاعتقاد، دار الكتب العلمية، بيروت – لبنان، ص 137
  46. ()آلوسی شہاب الدین محمود بن عبد اللہ ، روح المعانی،الناشر: دار الكتب العلمية ، بيروت، ج11، ص 213
  47. ()ملا احمد جیون ، تفسیرات احمدیہ ، مترجم: مولانا محمد احمد، الیمزان و ناشران کتب،ص 702
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...