Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 35 Issue 1 of Al-Tafseer

ماحولیات، جدید چیلنج اور تعلیمات نبوی ﷺ |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

35

Issue

1

Year

2020

ARI Id

1682060084478_1148

Pages

238-256

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/139

Subjects

Holy Prophet Global warming environment challenges.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

یہ کرہ ارض انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے آزمائش گاہ ہے، اسے دنیاوی حدود میں رہتے ہوئے جنت میں بنایا جاسکتا ہے، اور جہنم بھی۔ دونوں کی قدرت انسان کو دے دی گئی ہے اور دونوں کے فوائد و نقصانات سمجھادیے گئے ہیں، اور عمل انسان پر چھوڑدیا گیا ہے، جب کہ نتیجہ محفوظ کرلیا گیا ہے، اس معنی میں کہ عمل کی دونوں صورتوں میں کیا نتیجہ نکلے گا، یہ متعین بھی کردیا گیا ہے، اور بتا بھی دیا گیا ہے، اس کائنات کا یہی مقصد ہے، اور دنیاوی حیات کی یہی آزمائش ہے۔ اس آزمائش کو سمجھنے کے لیے خود انسان اور پھر انسان اور کائنات کے رشتے کو سمجھنا از حد ضروری ہے۔

اس کائنات کا محور انسان ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے مخدوم الخلائق کے منصب پر فائز کیا ہے۔ اس کے لیے کائنات میں موجود تمام مخلوق مسخر کردی گئی۔ اس کا ذکر خود قرآن کریم میں کئی مقامات پر کیا گیا ہے۔ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ تخلیق ارض و سما کا بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:

اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۚ وَ سَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِیَ فِی الْبَحْرِ بِاَمْرِهٖ ۚ وَ سَخَّرَ لَكُمُ الْاَنْهٰرَ۔ وَ سَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ دَآىِٕبَیْنِ ۚ وَ سَخَّرَ لَكُمُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ ([1])

”اللہ ہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے مینہ برسایا پھر اس سے تمہارے کھانے کے لیے پھل پیدا کیے اور کشتیوں اور جہازوں کو تمہارے زیر فرمان کیا، تاکہ دریا اور سمندر میں اس کے حکم سے چلیں اور نہروں کو بھی تمہارے زیر فرمان کیا۔“

اسی طرح دوسرے مقام پر فرمایا:

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ وَ الْفُلْكَ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِاَمْرِهٖ ؕ وَ یُمْسِكُ السَّمَآءَ اَنْ تَقَعَ عَلَی الْاَرْضِ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ ([2])

” کیا تم نہیں دیکھتے کہ جتنی چیزیں زمین میں ہیں (سب) اللہ نے تمہارے زیر فرمان کر رکھی ہیں۔ اور کشتیاں (بھی) جو اسی کے حکم سے دریا میں چلتی ہیں۔ اور وہ آسمان کو تھامے رہتا ہے کہ زمین پر (نہ) گر پڑے مگر اس کے حکم سے۔ بے شک اللہ لوگوں پر نہایت شفقت کرنے والا مہربان ہے۔“

یہ تسخیر کیا ہے؟ اپنے اصل موضوع کی طرف جانے سے قبل اس سوال کا جائزہ لینا از بس ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو ایک خاص توازن کو ساتھ تخلیق فرمایا ہے۔ یہی توازن اس کائنات کا حسن بھی ہے، اور اس کی بقا کا ضامن بھی۔ قرآن کریم اس بارے میں بھی توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے:

صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِیْۤ اَتْقَنَ كُلَّ شَیْءٍ ؕ اِنَّهٗ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَفْعَلُوْنَ([3])

”یہ اللہ کی صفت ہے جس نے ہر چیز کو مضبوطی سے بنایا ہے۔ بے شک وہ تمہارے سب افعال سے باخبر ہے۔“

اور دوسرے مقام پر قرآن نے یہ بھی کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں کسی کے لیے ممکن نہیں ہے کہ کوئی فرق اور تفاوت تلاش کرسکے۔ چناںچہ ارشاد ہے:

الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ؕ مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ ؕ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ۙ هَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ۔ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّ هُوَ حَسِیْرٌ ([4])

”اس نے سات آسمان اوپر تلے بنائے۔ (اے دیکھنے والے) کیا تو (اللہ) رحمن کی آفرینش میں کچھ نقص دیکھتا ہے؟ ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھ بھلا تجھ کو (آسمان میں) کوئی شگاف نظر آتا ہے؟ پھر دوبارہ (سہ بارہ) نظر کر، تو نظر (ہر بار) تیرے پاس ناکام اور تھک کر لوٹ آئے گی۔“

اس حسن نظام کو برقرار رکھنے کے دو پہلو ہیں، ایک وہ جو بہ راہ راست اللہ تعالیٰ نے اپنے دست قدرت میں رکھا ہے اور ایک وہ ہے، جو برتنے کے لیے استعمال اور روز مرہ کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے اور سب سے بڑھ کر انسان کے تہذیبی ارتقا کے لیے انسان کو قدرت واختیارعطا کردیا ہے۔اسی بنیادپرجزا وسزا کا تصور پروان چڑھتاہے۔قرآن کریم اس پہلو کو تسخیر کے عنوان سے بیان کرتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نظام اور اس کی طرح طرح کی مخلوقات کو انسان استعمال کرے اور ان کے ذریعے کائنات کے ارتقا میں اپنا حصہ شامل کرے۔

یہی وہ تسخیری صلاحیتیں ہیں جن سے استفادہ کرتے ہوئے انسان اس کائنات کو تسخیر بھی کرسکتا ہے اور اپنی تخریبی حرکتوں کے ذریعے اسے خطرات سے دوچار بھی کرسکتا ہے۔

چنانچہ پہلی نوعیت کے احکامات وہ ہیں،جن میں انسان کا کوئی عمل دخل نہیں،مگر وہ انسان کو بہ راہ راست فائدے بہم پہنچارہے ہیں۔سورج، چاند اورتارے اپنی رفتار سے اپنے طےشدہ نظام کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ان کی آمد و رفت سے دنوں کی تبدیلی، مثلاً گلیشیئر کی تبدیلی، ان کا پگھلنا اور بارشوں کی آمد وغیرہ وابستہ ہوجاتا ہے۔ یہ تمام تبدیلیاں اوراس نوعیت کے دوسرے تغیرات انسان کے فائدے کے لیے ہی ہیں۔سورج کے بروقت طلوع اور غروب سے نہ خود سورج کو کوئی فائدہ ہے، نہ کسی اور مخلوق کو اس سے کوئی خاص فائدہ حاصل ہوتا ہے، ہاں چوں کہ اس سے موسمی تغیر بھی وابستہ ہے، اس لیے اس سے بہ ہرحال جانور، چرند پرند اور نباتات فائدہ اٹھالیتے ہیں لیکن یہ فائدے بھی بالآخر انسان تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔ دوسری نوعیت کے احکام وہ ہیں جو انسان کے قبضۂ قدرت میں دے دیے گئے ہیں، مثلاً سمندر،صحرا، جنگلات،پہاڑ،دریا میدان و بیاباںوغیرہ اور ان جیسی بے شمار چیزوں میں انسان کومن جانب اللہ بہ راہ راست حق تصرف حاصل ہے۔

ہمارے آج کے موضوع کے حوالے سے یہی حق تصرف، جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے بہ طور اعزاز، بہ طور آزمائش اور اظہار صلاحیت عطا کیا گیا، جو انسانیت کے لیے وجہ ندامت اور باعث آزاری بن چکا ہے۔ انسان نے ترقی اور خصوصاً صنعتی اور مادی ترقی کے نام پر جو اقدامات شروع کیے، ابتدا میں تو وہ انسان کے لیے نئی چیز تھی، سو اس کی زیادہ تر توجہ ان مصنوعات اور ایجادات سے استفادے اور انہیں نت نئی صورتیں دینے پر مرتکز رہی، مگر جب آہستہ آہستہ اس کے سحر میں کمی آنا شروع ہوئی تو انسان کے لیے تصویر کے دونوں رخ دیکھنا ممکن ہوسکا۔ بہت جلد یہ عقدہ کھلا کہ اس مشینی اور صنعتی ترقی نے ماحولیات کے نہایت وسیع الجہات بحران سے اس کائنات کو دوچار کردیا ہے۔ اس وقت ماحولیات کو طرح طرح کی آلودگیوں کا سامنا ہے۔ پانی کی آلودگی، فضائی آلودگی، صوتی آلودگی اور شعائی آلودگی اس باب میں سر فہرست ہیں۔

انسان کے اپنے ہاتھ سے کمائی گئی ان آلودگیوں کے نتیجے میں جہاں ایک جانب ہر انسان اپنے اپنے مقام پر بے شمار جسمانی اور ذہنی اور ماحولیاتی خطرات سے دوچار ہے، وہی خطرات اس پوری کائنات اور اس کی صحت و بقا کو لاحق ہوچکے ہیں اور پوری کائنات میں طرح طرح کی کثافتیں مسلسل بڑھتی چلی آرہی ہیں۔

ابتدا میں جب صنعتی ترقی کے نام پر آلودگیوں نے ڈیرہ جمایا اور ان خطرات کی جانب انسان کی توجہ مبذول ہوئی اور انسان نے اس ماحول کی ہول ناکیوں کو محسوس کرنا شروع کیا تب ماحولیات، کو بہ طور فن اورمضمون جامعات میں پڑھانے کا آغاز ہوا۔ یوں ماحولیات کے بہ طورفن اورمضمون متعارف ہونے کا دورانیہ بھی زیادہ قدیم نہیں ہے۔ یہی سبب ہے کہ اہل مغرب یہ تصور رکھتے ہیں کہ تحفظ ماحولیات کا تصور ان کا عطا فرمودہ ہے۔ اس میں صداقت کس قدر ہے، اسے نظر انداز کرتے ہوئے صرف یہ ملاحظہ کیجیے کہ اس حادثے کے امکان کی جانب قرآن کریم نے چودہ صدی قبل کس طرح توجہ دلائی تھی؟ قرآن کریم میں ارشاد ہے؛

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ۔([5])

”خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ہے، تاکہ اللہ ان کو ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے، عجب نہیں کہ وہ باز آجائیں۔“

یعنی یہ سب انسان کا اپنے ہاتھوں کا کسب و اکتساب ہے۔ اس نے اپنے مقام کا درست استعمال نہیں کیا، یہ کائنات اس کے لیے جس مقصد سے تسخیر کی گئی تھی اور اسے جس غرض سے قدرت و اختیار دیا گیا تھا، وہ تعمیر تھی، تخریب نہیں۔ انسان جب تخریب کے راستے پر چل پڑا تو اب اس کے نتائج سے اپنے آپ کو بچانا ممکن نہیں، ہاں ایک ہی صورت ہے اور اس کی جانب یہی آیت کریمہ رہ نمائی کرتی ہے وہ ہے، رجوع الی الفطرۃ، انسان اپنے اصل کی جانب لوٹ آئے تو وہ کام یاب ہوجائے گا، یعنی فطری تقاضے جن باتوں سے مجروح ہورہے ہیں، ان سے انسان رجوع کرلے، اپنا رہن سہن فطرت کے مطابق کرلے اور مصنوعی زندگی کے خول سے باہر آجائے، دنیا بھر میں اب یہ نعرہ ایک تحریک بن چکا ہے، اور خاص کر فوڈ انڈسٹری میں یہ نعرہ Organic Food کے عنوان سے پروان چڑھ رہا ہے۔ ماحولیات کے باب میں اسلام کا مختصر ترین پیغام یہی ہے۔ اسی لیے قرآن حیم نے دوسرے مقام پر فساد فی الارض سے بچنے کی تلقین یوں فرمائی:

وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ۔ (یہ آیت میں نے ڈالی ہے۔اب ترجمے کے حوالے سے کون سی آئے گی؟)

ولا تفسدوا فی الارض([6])

”اور تم زمین میں فساد پھیلاتے مت پھرو۔ “

نیز فرمایا:

ولا تبغ فی الارض الفساد([7])

”اور تم زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش مت کرو۔“

ماحولیات کے جدید چیلنج

اس وقت ماحول کو جو جدید چیلنج درپیش ہیں، ان میں نمایاں ترین چیلنج ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں۔ اس مختصر اشاریے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت انسانیت اور خود اس پوری کائنات کو کتنے ہول ناک مسائل کا سامنا ہے۔

الف: سمندر ۱۹۰۰ء سے لے کر اب تک ۱۹ سینٹی میٹر اپنی سطح بلند کرچکا ہے جس کے نتائج سمجھنا کسی ذی شعور کے لیے مشکل نہیں، مگر سب سے واضح نتیجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں اس کے نتیجے میں بیسیوں جزیرے صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔

ب: جنگلات تیزی سے ختم ہورہے ہیں، جن کی وجہ سے جنگلی حیات کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ فضائی آلودگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے، زمینیں بھی بنجر ہورہی ہیں اور انسان کے لیے صاف فضا میں سانس لینے سے لے کر خوراک تک کے بحران جنم لے رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر ماحول میں تپش اور گرمی کا تناسب بڑھ رہا ہے۔

ج: بعض خطوں میں جانور مسلسل کم ہورہے ہیں۔ جانوروں، چرند، پرند، آبی حیوانات، زمین پر رینگنے والے حشرات، نباتات اور بہت سے پودوں کی قسمیں ناپید ہوچکی ہیں بل کہ اور بہت سی اختتام کے آخری مرحلے میں ہیں، کسی بھی وقت نابود ہوسکتی ہیں۔

ل: ماحولیاتی کثافت مسلسل بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے ہوا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں مسلسل اضافہ نوٹ کیا جارہا ہے۔ یہ ایک خطرناک علامت ہے اور اس کے نتیجے میں حیاتیاتی اجناس کو سخت خطرات لاحق ہیں۔

م: دنیا بھر میں پانی کا بحران سر پر ہے۔ موجودہ پانی کی بڑی مقدار صنعتی اور دیگر فضلات کی وجہ سے آلودہ اور بعض صورتوں میں زہریلی ہوچکی ہے۔

ھ:صنعتی اور مشینی ترقی نے اس کائنات کو سب سے بڑے خطرات سے دوچار کردیا ہے اور صنعتوں سے خارج ہونے والی گیسوں اور دیگر فضلات کی وجہ سے اوزون کی تہہ میں شگاف پڑگیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اب سورج کی مضر اور سخت نقصان دہ شعائیں بہ راہ راست زمین پر پڑ رہی ہیں اور اس کے نتیجے میں کینسر اور دیگر بیماریاں تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہیں۔

یہ چند نکات تھے، ورنہ ماحولیات کے خطرات اور اس کے ذیلی عنوانات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے، مگر وہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ ہم یہاں صرف ماحولیات کی حقیقت، اس مضمون کی جہات اور اصل لاحق خطرات کی ہول ناکی کی جانب چند اشارے کرنا چاہتے ہیں۔

اسلام کا نقطۂ نظر

قرآن حکیم نے ان تمام حوادث سے بچنے کے لیے اس وقت ہدایات فرمادی تھیں جب انسان کے لیے ان حوادث کے بارے میں سوچنا بھی ممکن نہیں تھا۔ قرآن کریم نے اپنے روایتی اسلوب و اعجاز میں اس سارے رویے کو فساد کے لفظ سے ذکر کیا ہے، جیسا کہ سورۂ روم کے حوالے سے ہم ماقبل میں ذکر کرچکے ہیں۔ قرآن کریم واضح الفاظ میں پوری انسانیت کو یہ پیغام دیتا ہے کہ یہ دنیا برتنے کے لیے انسان کو عطا کردی گئی ہے۔ اس میں موجود تمام نعمتیں انسان کے لیے وقف ہیں، مگر اس کا ادب یہ ہے کہ انسان صرف ان نعمتوں کو استعمال کرے، انہیں حدِ اعتدال سے نکل کر فساد کی حدود میں داخل نہیں ہونا چاہیے۔ قرآن کریم واضح طور پر کہتا ہے:

كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰهِ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ([8])

”اللہ کے رزق میں سے کھائو اور پیو، اور زمین میں فساد نہ کرو۔“

تو گویا کائنات میں موجود تمام وسائل انسان کے لیے ہیں۔ مگر وہ ان کے استعمال میں اس قدر آزاد نہیں کہ اس کا استعمال طریقہ اسراف کی حدود میں داخل ہوجائے۔ ان وسائل کے استعمال کا ادب بھی اللہ تعالیٰ نے تلقین و تعلیم فرمایا ہے،اور وہ ہے اعتدال،ان امور میں اعتدال سے باہر نکلنا درحقیقت فساد اور تخریب کی حدود میں داخل ہوجانے کے مترادف ہوگا۔

اس حوالے سے قرآن کریم کی ایک اور آیت کریمہ بھی توجہ طلب ہے۔ مگر اس پس منظر سے پہلے جان لینا چاہیے۔ روایت میں آتا ہے کہ اخنس بن شریق نامی ایک شخص نبی کریمﷺکی خدمت میں حاضر ہوا،اوراپنی محبت کا یقین دلایا۔مگر وہ درحقیقت منافق تھا، پھر جب وہ واپس ہوا تو راستے میں مسلمانوں کی فصلوں، کھیتوں اور جانوروں کے پاس سے گزرا تو ان کی فصلوں کو جلا ڈالا اور جانوروں کو ہلاک کردیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی:

وَ اِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْهَا وَ یُهْلِكَ الْحَرْثَ وَ النَّسْلَ ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ([9])

”اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین میں دوڑتا پھرتا ہے کہ اس میں فتنہ انگیزی کرے اور کھیتی کو (برباد) اور انسانوں اور حیوانوں کی (نسل) کو نابود کرے اور اللہ فتنہ انگریزی کو پسند نہیں کرتا۔“

یہاں اللہ تعالیٰ فساد سے منع فرمارہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ فساد کی بعض شکلوں کی وضاحت بھی فرمارہا ہے کہ بلاسبب فصلوں کو نقصان پہنچانا اور جانوروں کو ہلاک کرنا فساد فی الارض ہے،کیوں کہ یہ وسائل کا ضیاع ہے اور انسان کو یہ قدرت اختیار اس لیے نہیں دیا گیا کہ وہ وسائل کو ضائع کرتا پھرے،کیوں کہ یہ وسائل پوری انسانیت کا اثاثہ ہیں،کسی فردِ واحد کو ان میں آزادانہ تصرف کا حق اس لیے حاصل نہیں کہ اس سے دوسروں کا وابستہ حق متاثر ہونے لگے۔

اسلام کی تجاویز اور اقدامات

پانی

ہر انسان کی بنیادی ضرورت پانی ہے۔ انسانی حیات میں بنیادی عناصر پانی، مٹی اور ہوا کے کردار کسی سے پوشیدہ نہیں، نہ ان کی اہمیت بیان کرنے کے لیے کسی سائنسی توجیہ کی ضرورت ہے۔ اسی پانی کے لیے آج دنیا بحرانی کیفیت میں ہے اور یہ سب سراسر انسانی بداعتدالی کا شاخسانہ ہے۔ اسلام نے اس اہمیت کو عرصہ پہلے قرآن کریم میں بیان فرمادیا تھا۔ ایک مقام پر پانی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد ربانی ہے:

قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَآؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ یَّاْتِیْكُمْ بِمَآءٍ مَّعِیْنٍ([10])

”کہو اکہ بھلا دیکھو تو اگر تمہارا پانی (جو تم پیتے ہو اور برتتے ہوئے) خشک ہوجائے تو (اللہ کے سوا) کون ہے جو تمہارے لیے شیریں پانی کا چشمہ بہالائے۔“

اسلام کا موقف یہ ہے کہ پانی تو حیات انسانی کی بنیاد ہے، چناں چہ ارشاد ربانی ہے:

وجعلنا من الماء کل شی حی ([11])

”اور ہم نے پانی سے ہر جان دار چیز کو بنایا ہے۔“

اس حوالے سے احادیث نبویہ میں بھی تفصیل کے ساتھ احکامات ملتے ہیں۔ دنیائے انسانیت کو شاید کسی بھی مقام پر پہلی بار پانی کی اہمیت کا ادراک ملا ہے تو وہ جناب نبی کریمﷺکے بیان میں اور ان کی تعلیمات سے میسر آیا ہے۔ آپﷺنے پانی کے بارے میں اسراف سے منع کرتے ہوئے عجیب بات فرمائی۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک بار آپﷺکا ایسے مقام سے گزر ہوا جہاں حضرت سعد رضی اللہ عنہا وضو فرمارہے تھے۔ انہیں دیکھ کر آپﷺنے فرمایا کہ یہ اسراف کیسا؟ انہوں نے بالکل برمحل سوال کیا کہ کیا وضو میں بھی اسراف شمار ہوگا؟ اس پر آپﷺنے یہ قیمتی جملہ رہتی انسانیت کو عطا فرمایا:

نعم وان کنت علی نھر جار([12])

”ہاں۔ خواہ تم کسی بہتی نہر کے کنارے وضو کررہے ہو۔“

غور طلب امر یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بہتے دریا کے کنارے وضو کرتے ہوئے تین کے بہ جائے چار یا چھ بار ہاتھ،پیر دھوبھی لے تو کیا مضائقہ ہے؟پانی تو لوٹ کر واپس وہیں دریا میں ہی جائے گا۔دراصل نبی رحمتﷺ ذہنی ساخت تبدیل فرمارہے تھے،اور تربیت فرمارہے تھے۔اگر کسی شخص کو بہتے دریا پر وضو کرتے ہوئے اسراف کی عادت بن جائے تو کم پانی کی موجودگی میں بھی اس سے عادتاًاسراف ہی سرزد ہوگا،جو ماحول کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔اس لیے اس بات سے مرحلہ اول میں ہی روک دیا جائے۔ وضو ہی کے حوالے سے ایک اور روایت میں آپﷺ نے سنت طریق کار کی وضاحت اپنی عملی حدیث میں فرمائی،آپ نے تین تین بار تمام اعضا دھوئے اور ایک بار مسح کیا اور فرمایا:

”یہ ہے وضو، جس کسی نے اس پر اضافہ کیا، یا کمی کی،تو اس نے برا کیا، اور ظلم کیا۔ “([13])

رسول اکرمﷺکی تعلیمات کی رو سے پانی مشترکہ متاع ہے،اسے کسی طبقے کے ساتھ خاص نہیں کیا جاسکتا۔ فرمان نبوت ہے: المسلمون شرکاء فی ثلاث، فی الماء والکلا والنار([14])

”تین چیزوں میں تمام مسلمان شریک ہیں، پانی، گھاس اور آگ میں۔ “

نبی کریمﷺکی تعلیمات کی رو سے پانی کے استعمال کے اوربھی بہت سے آداب ہیں،ایک بات جو مزید توجہ کی حامل ہے، وہ یہ ہے کہ ان تمام احادیث کا مقصد ایک ہے۔ پانی کا احتیاط سے استعمال اور اس کا تحفظ۔

ملاحظہ کیجیے، ایک اور روایت میں رسول اللہ ﷺ کس طرح اس پہلو کی جانب توجہ دلاتے ہیں:

لا یبولن احدکم فی الماء الدائم الذی لا یجری، ثم یغتسل بہ([15])

”تم میں سے کوئی شخص ایسے کھڑے پانی میں ہر گز پیشاب نہ کرے، جو جاری نہ ہو، کہ پھر اسی سے وہ غسل کرے گا۔“

پانی کے حوالے سے اسلامی تعلیمات نظافت کے ساتھ ساتھ لطافت اور طہارت کے باریکیوں کی جانب بھی توجہ دلاتی ہیں،اور حضور اکرمﷺبھی اس حوالے سے رہ نمائی عطا کرتے ہیں۔ایک مقام پر آپﷺنے فرمایا:

لایبولن احدکم فی مستحمہ ثم یغتسل فیہ([16])

”تم میں سے کوئی اپنے نہانے کے برتن میں پیشاب نہ کرے کہ پھر اسی میں نہانا بھی پڑے۔“

درخت اور پودے

ماحولیات کا دوسرا عنوان درخت ہیں، جو نہ صرف ماحول کو خوش گوار رکھتے ہیں بل کہ ماحولیاتی آلودگیوں کے تدارک و ازالے کے لیے بھی ان کا کردار نہایت اہم ہے۔ رسول اللہﷺنے ایک جانب بلا سبب گھاس تک کاٹنے سے منع فرمایا۔ چناںچہ ایک موقع ایسا ہے جب انسان پر عام حالات میں جائز امور بھی کچھ عرصے کے لیے ممنوع قرارپاتے ہیں، وہ موقع حج کا ہے۔ ایسے ہی ایک موقع پر پابندیوں کا ذکر کرتے ہوئے آپﷺنے جن ممنوع چیزوں کا ذکر فرمایا ان سے اذخر نامی گھاس کے کاٹنے کی ممانعت ہوئی۔جواس وقت کی معاشرت میں نہایت ضروری اشیاء میں شامل تھی۔ چناںچہ صحابہ اکرام ؓ کے توجہ دلانے پر آپﷺنے اس کااستثنا فرمایا۔

اس طرح جب رسول اکرمﷺنے مدینہ طیبہ کو حرمِ محترم قراردیا تب بھی آپ نے فرمایا

”نہ تو یہاں درختوں کو کاٹا جائے، نہ جانوروں کو ہلاک کیا جائے گا، البتہ ایندھن کی لکڑیاں اور جانوروں کا چارہ اس سے مستثنیٰ ہے۔“([17])

خود قرآن حکیم نے جب انسانوں کو اپنے انعامات شمار کرائے تو ایک مقام پر یہ اسلوب اختیار کیا، فرمایا:

وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ۚ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ نَبَاتَ كُلِّ شَیْءٍ فَاَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا ([18])

”اور وہی تو ہے جو آسمان سے مینہ برساتا ہے۔ پھر ہم ہی (جو مینہ برساتے ہیں) اس سے ہر طرح کی نباتات اگاتے پھر اس میں سے سبز سبز کونپلیں نکالتے ہیں اور ان کونپلوں میں سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے دانے نکالتے ہیں۔“

آپﷺنے شجرکاری کی جانب متوجہ کرتے ہوئے ایک مقام پر یہ اسلوب اختیار فرمایا:

”کوئی مسلمان اگر کوئی درخت لگاتا ہے یا کوئی فصل کاشت کرتا ہے پھر اس سے کوئی پرندہ، کوئی انسان، یا کوئی درندہ کھالیتا ہے تو وہ صدقہ ہے اور دوسری روایت میں فرمایا کہ اس کا کچھ حصہ چوری ہوجائے تب بھی اس شخص کے لیے صدقے کا ثواب ہے۔“([19])

ایک روایت میں تلقین اس طرح فرمائی کہ جو شخص پودا لگاتا ہے اس کے لیے پودے سے نکلنے والے پھل کی مقدار کے مطابق ثواب لکھا جائے گا۔([20])

اور ایک روایت میں تو رسول اللہ ﷺ نے شجرکاری کی اہمیت کی وضاحت ایسے اسلوب میں فرمادی کہ اس سے بڑھ کر کوئی بیان اہمیت نہیں رکھتا۔ فرمایا: اگر قیامت آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھوں میں کھجور کا پودا ہو، اور وہ شخص قیامت قائم ہونے سے قبل وہ پودا لگاسکتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ پودا لگادے۔([21])

وہ لمحہ آخر جب انسان کا وقت رخصت سامنے ہو، ایسے میں انسان کو کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے؟ ظاہر ہے کہ شجرکاری ان امور میں سے نہیں ہے،مگر رسول اکرمﷺیہ تمثیل اختیار فرمارہے ہیں۔اس سے اس اہم ترین کام یعنی شجرکاری کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، جسے آپﷺنے فریضے کا درجہ عطا فرمادیا ہے۔

حیوانات

جانور، چرند، پرند اور آبی حیات بھی ماحول کا ناگزیر حصہ ہیں اور انسانی صحت اور کائنات کے حسن اوربقا کی مختلف حیوانوں سے ضامن ہے۔ان کے تحفظ اور سا لمیت کےلیے جناب رسول اللہﷺنے مختلف حوالوں سے ہدایات فرمائی ہیں اور اسلام نے ان کو بھرپور تحفظ فراہم کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ یہ کھیل کود کا سامان ہیں،ان کا بھی مصرف ہے، اس لیے ان کے حوالے سے بھی عدم احتیاط پر مبنی ہر رویہ قابل گرفت ہے۔

قرآن کریم نے ان کے حوالے سے واضح طور پر ارشاد فرمایا:

وَ الْاَنْعَامَ خَلَقَهَا ۚ لَكُمْ فِیْهَا دِفْءٌ وَّ مَنَافِعُ وَ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَ۔ وَ لَكُمْ فِیْهَا جَمَالٌ حِیْنَ تُرِیْحُوْنَ وَ حِیْنَ تَسْرَحُوْنَ۔ وَ تَحْمِلُ اَثْقَالَكُمْ اِلٰی بَلَدٍ لَّمْ تَكُوْنُوْا بٰلِغِیْهِ اِلَّا بِشِقِّ الْاَنْفُسِ ؕ اِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۔ وَّ الْخَیْلَ وَ الْبِغَالَ وَ الْحَمِیْرَ لِتَرْكُبُوْهَا وَ زِیْنَةً ؕ وَ یَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ([22])

”اور چارپایوں کو بھی اسی نے پیدا کیا ان میں تمہارے لیے جڑواں اور مشابہت سے فائدے ہیں اور ان میں سے بعض کو تم کھاتے بھی ہو اور شام کو انہیں جنگل سے لاتے ہو اور جب صبح کو جنگل چرانے لے جاتے ہو تو ان سے تمہاری عزت و شان ہے۔ اور دور دراز شہروں میں جہاں تم زحمت شاقہ کے بغیر پہنچ نہیں سکتے وہ تمہارے بوجھ اٹھاکر لے جاتے ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ تمہارا پرودگار نہایت شفقت والا اور مہربان ہے۔ اور اسی نے گھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا کیے، تاکہ تم ان پر سوار ہو اور وہ (تمہارے لیے رونق اور زینت بھی ہیں) اور وہ چیزیں بھی پیدا کرتا ہے جن کی تم کو خبر نہیں۔“

چوں کہ جانور اور حیوانات کائنات کے لیے ناگزیر حیثیت رکھتے ہیں اس لیے ان کے توازن میں کمی بیشی سے ماحولیاتی مسائل پیدا ہونا بدیہی امر ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ان کومختلف اقدامات کے ذریعے تحفظ عطا کیا جائے۔ چناں چہ رسول اکرمﷺنے ان کے حوالے سے ہمیں بہت سی ہدایات فرمائی ہیں۔ جن کا خلاصہ ہم ذیل میں پیش کرتے ہیں۔

۱۔ حیوانات کی خوراک: ہر جاندار کو اپنی بقا کے لیے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے اس حوالے سے کئی مقام پر ہدایات فرمائی ہیں۔ مثلاً ایک روایت میں مذکور ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اذا سافرتم فی الخصب فأعطوا الابل حظھا ([23])

”جب تم بہار کے موسم میں سفر کرو تو زمین سے اونٹوں کو ان کا حصہ حاصل کرنے دو ۔“

۲۔زندہ رہنے کا حق: اسلام نے ہر جاندار کو زندہ رہنے کا حق عطا کیا ہے اس میں کسی کی کوئی تفریق نہیں، اس ضابطے کی رو سے ہر جاندار کو بلاسبب اور بلاضرورت ہلاک نہیں کیا جاسکتا۔ چناںچہ انسانوں کے تفریحی مشاغل بھی اس میں شامل ہیں۔ نبی رحمت ﷺ سے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

”جس کسی نے چڑیا یا اس سے بڑے جانور کو ناحق قتل کردیا تو اس کے قتل کے بارے میں اللہ تعالیٰ باز پرس فرمائیں گے۔“([24])

اور جب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اس کا حق کیا ہے فرمایا کہ اس کو کھانے کے لیے ذبح کرسکتا ہے، بلا ضرورت سر کاٹ کر پھینکنے کی اجازت نہیں ہے۔ ([25])

اصل ضابطہ یہی ہے کہ تمام مخلوق انسان کی خادم ہے۔ وہ اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے انہیں استعمال کرسکتا ہے، مگر تفریح کے لیے، کسی بھی نعمت کا ضیاع قابل قبول نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ تمام نعمتیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے انسان کے پاس امانت ہیں۔

آزادی: جانوروں کی بقا کے لیے بہت سی صورتوں میں آزادی بھی اہم ہے۔ پالتو جانوروں کے علاوہ حیوانات کی بہت سی نسلیں ایسی ہیں، جو قید کی صورت میں اپنا حسن اور بعض صورتوں میں اپنی زندگی تک برقرار نہیں رکھ سکتیں۔ رسول اللہﷺنے اس کی بھی رعایت فرماتے ہوئے اس ضمن میں بھی سخت ہدایت فرمائی ہے۔ عبداللہ بن عبداللہ ؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺکے ساتھ حالت سفر میں تھے، ہم نے ایک لال مادہ دیکھی اس کے دو بچے بھی ساتھ تھے۔ ہم نے بچے پکڑلیے، مادہ اپنے بچوں کے لیے بچھی جانے لگی،آپﷺنے دیکھا تو فرمایا:

”اس کو کس نے اپنے بچے کی طرف سے تکلیف دی ہے اس کے بچے لوٹادو۔“([26])

جانور سے اس کی تخلیق کے مطابق کام لینا

ایک بڑی پُرحکمت تلقین آپﷺنے جانوروں کی تخلیق کے حوالے سے فرمائی ہے۔ صرف جاندار کی بات نہیں، مشین بھی اپنی ساخت کے اعتبار سے کسی نہ کسی مقصد کو سامنے رکھ کر بنائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی مخلوق کو مختلف فرائض تفویض فرمائے ہیں اور ان کی صلاحیت ان مخلوقات میں تخلیق فرمائی ہے۔ اس کو پیش نظر رکھنا لازم و ناگزیر ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت اس کے بارے میں نہایت چشم کشا ہدایت ملتی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص بیل ہانک کر لے جارہا تھا، چلتے چلتے تھک گیا تو وہ بیل پر سوار ہوگیا۔ اس پر بیل مچل اٹھا اور اس نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کی شکایت کی۔آپﷺنے اس کے مالک کو بلاکر اسے جانور کا کیال رکھنے کی تاکید فرمائی۔ ([27])یہ حرف ہدایت ہے جس کی روشنی میں پورا ضابط حیات اور نظام العمل تیار کیا جاسکتا ہے۔ ان میں سے ہر نکتہ ہمارے آج کے ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے روشنی عطا کرتا ہے۔

صفائی: اہم ترین نکتہ جو آج کے ماحولیاتی مسائل میں ہمارے لیے رہ نما خطوط فراہم کرتا ہے، وہ صفائی کا اہتمام ہے۔ جب صفائی کا ذکر کیا جاتا ہے تو قرآن و حدیث میں وہ کسی مخصوص حوالے سے بیان نہیں ہوتی، اسے اسلام ایک مزاج کی تشکیل کرنے والی ہدایات کے طور پر فرماتا ہے۔ چناں چہ قرآن کریم جب قبا میں رہنے والے اہل ایمان کی صفات کا ذکر کرکے ان کی ستائش کرتا ہے تو وہ کہتا ہے:

فِیْهِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَّرُوْا ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ([28])

”اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنے کو پسند کرتے ہیں ، اور اللہ پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“

اور دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

مَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰكِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَهِّرَكُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ([29])

”اللہ تم پر تنگی نہیں کرنا چاہتا لیکن تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے اور تاکہ اپنا احسان تم پر پورا کرے تاکہ تم شکر کرو۔“

خود جناب رسول اکرمﷺنے جو ہدایت فرمائی وہ بالکل واضح ہے کہ آپ نے پاکی اور پاکیزگی کو ایمان کا حصہ قراردیا۔ فرمایا:

الطھور شطر الایمان([30])

”پاکی ایمان کا حصہ ہے۔ “

یہ بھی اسلام ہی کا اعجاز ہے کہ اس نے ظاہری اور باطنی دونوں طرح کی صفائی کو برابر کی حیثیت عطا کی ہے اور عبادت سےاسے اس طرح ہم رشتہ کردیاہے کہ کوئی عبادت ظاہری پاکی اورلطافت کے بغیر ادا ہی نہیں ہوسکتی۔ چناں چہ دیکھ لیجیےایک نماز کی ادائیگی کے لیے جو مومن کا انعام بھی ہے،شعار بھی اور امتیاز بھی، نہ صرف باطنی صفائی نیت کی صورت میں ضروری ہے، بل کہ جسم کا پاک ہونا، لباس پاک ہونا اور اس مقام کا پاک ہونا بھی ضروری ہے، جہاں نماز ادا کی جارہی ہو اور اس مقصد کو وسعت عطا کرتے ہوئے امت محمدیہ کو یہ امتیاز بھی عطا کردیا گیا کہ پوری دھرتی کو پاک اور صاف ہونے کا پروانہ عطا کردیا گیا، سوائے اس صورت کے، جب ظاہری آنکھ سے، نظر آنے والی نجاست موجود ہو، فرمان نبوت ہے:

جعلت لی الارض طھورا و مسجدا ([31])

”میرے لیے ساری زمین سجدہ گاہ اور پاک بنادی گئی ہے۔“

آپ ﷺ نے ایمان کو پاکی و نفاست کے ساتھ منسلک کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا:

النظافۃ تدعو الی الایمان والایمان مع صاحبہ فی الجنۃ ([32])

”نظافت ایمان کی طرف لے جاتی ہے اور ایمان صاحب ایمان کو جنت میں لے جاتا ہے۔“

یہ ہیں تفصیلات جن کے ذریعے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح نبی کریمﷺنے اپنے حکمت بھری تعلیم سے صفائی اور طہارت کا نہایت مثالی نظام قائم فرمایا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے منقول اس قول نبوت پر، اور اس کی معنویت پر غور فرمایے، فرمایا:

”دو ایسی باتوں سے پرہیز کرو، جو لعنت کا سبب ہیں۔ پوچھا گیا کہ وہ کیا ہیں؟ فرمایا: لوگوں کے راستے اور سائے کی جگہ غلاظت کرنا۔ اور دوسری روایت یہ آپﷺنے مسجد میں تھوکنے سے بھی منع فرمایا۔“([33])

نہ صرف یہ بل کہ دل چسپ بات یہ ہے کہ آپﷺنے ایسی صورت میں تھوک کھرچنے اور اسے مٹی میں دفن کرنے کا حکم بھی فرمایا۔ آج کے مشینی عہد میں غلاظتوں کی نت نئی صورتیں رونما ہورہی ہیں۔ یہ تمام انسانیت کے لیے ضرر رساں اور حیات انسانی کے لیے سم قاتل ہیں۔ ان ہدایات نبوی کی روشنی میں صفائی اور ماحولیاتی آلودگی سے بچنا ہماری اولین ذمے داری ہے اور اس تناظر میں دیکھیے کہ اس حکم میں رسول اللہﷺنے صرف گندگی سے بچنے کا حکم ہی نہیں دیا، اسے تلف کرنے کی عملی رہ نمائی بھی فرمائی۔

اسلام نے اس کے ساتھ ساتھ صفائی کے حوالے سے جزوی ہدایات تک عطا فرمائی ہیں، چناں چہ انسانی زندگی میں سب سے زیادہ استعمال ہاتھ کا ہوتا ہے، اس کے لیے فرمایا:

من بات وفی یدہ، (ریح لغمو) فاصا بہ شیٔ فلا الانفسہ([34])

”کوئی شخص اگر اس حالت میں سوئے کہ اس کے ہاتھ میں گوشت کی چکنائی لگی ہوئی ہو اور کوئی جانور اس کو کاٹ لے تو اسے دوسروں کی بہ جائے خود اپنے آپ کو ملامت کرنی چاہیے۔ “

اور دوسری روایت میں فرمایا:

اذا استیقظ احدکم من نومہ فلیغسل یدہ ([35])

”تم میں کوئی جب سوکر اٹھے تو اسے چاہیے کہ اپنے ہاتھ دھولے۔“

نیز ہاتھوں کا نازک ترین حصہ ناخن ہیں،یہ جہاں ہاتھ کی خوش نمائی کا باعث ہیں، وہیں عدم احتیاط کی صورت میں ضرر اور نقصان کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ اور کم سے کم کے درجے میں انسان اپنی اس خدا داد خوش نمائی سے تو محروم ہو ہی جاتا ہے، اس لیے اس جانب بھی توجہ دلائی گئی۔ فرمایا:

قصوا اظافرکم([36])

”اپنے ناخنوں کو تراشا کرو۔“

اسی طرح سر اور بالوں کی حفاظت اور صفائی کے لیے بھی حکم دیا، فرمایا:

من کان لہ شعر فلیکرمہ([37])

”جس شخص کے سر پر بال ہوں، اسے چاہیے کہ وہ ان کا خیال رکھے۔“

پھر منہ کی صفائی کے لیے توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:

لولا ان اشق علی امتی، أوعلی الناس لا مرتھم بالسواک مع کل صلاۃ ([38])

”اگر میری امت پر شاق نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔“

نیز فرمایا:

السواک مطہرۃ للفم، مرضاۃ للرب([39])

”مسواک منہ کو پاک صاف کردیتا ہے۔ اس سے خدا راضی ہوتا ہے۔“

جسم کی صفائی کے بعد کپڑوں اور لباس کی صفائی کی بھی اہمیت ہے، اس جانب بھی توجہ دلائی گئی۔ قرآن کریم کہتا ہے: وَ ثِیَابَكَ فَطَهِّرْ([40])

”اور اپنے کپڑے کو پاک رکھو۔“

نیز فرمانِ الٰہی ہے:

خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ([41])

”تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو۔“

رسول اللہ ﷺ کا فرمانِ مبارک ہے:

البسوا من ثیابکم البیاض فانھا من خیر ثیابکم([42])

”سفید رنگ کا لباس پہنا کرو۔ یہ سب لباس میں بہتر ہے۔“

اہم تقریبات کے مواقع پر انسان کو مزید اہتمام کرنا چاہیے، تاکہ انسان خود بھی خوشی محسوس کرے، اور دوسروں کے سامنے بھی سلیقے کا اظہار ہو، آپﷺسے یہ ہدایت بھی محفوظ ہے، فرمایا:

ماعلی احدکم ان وجداوما علی احدکم ان وجدتم،ان یتخذثوبین لیوم الجمعۃغیرثوبی مھنۃ([43])

”اگر تم میں کسی کے پاس کئی جوڑے ہوں تو یہ بہتر ہے کہ جمعہ کے لیے دو جوڑے ان کپڑوں میں سے منتخب کرے جنہیں وہ محنت و مشقت کے دوران پہنتا ہے۔ “

گھر کی صفائی

انسان کا تعارف اس کا گھر ہے،وہ چھوٹا ہو یا بڑا ہر صورت میں انسان کے ذوق اور سلیقے کا آئینہ دار ہوتا ہے، اس کی دوسری اہمیت یہ بھی ہے کہ گندگی اور فضلے کا بڑامرکزہمارا گھرہی ہے۔اسے طہارت اورنظافت کے اسلامی اصولوں پر استوار کرلیا جائے تو ماحولیاتی آلودگی میں کافی کمی آسکتی ہے۔ آپﷺنے اس حوالے سے کس قدر جامع ہدایت عطا فرمائی، فرمایا:

ان اللہ طیب یحب الطیب، نظیف یحب النظافۃ، کریم یحب الکرم، جواد یحب الجود، فنظفوا افنیتکم([44])

”اللہ تعالیٰ نفیس ہے اور نفاست کو پسند کرتا ہے۔ پاک ہے اور پاکی کو پسند کرتا ہے۔ کریم ہے اور کرم کو پسند کرتا ہے۔ فیاض اور فیاضی کو پسند کرتا ہے۔ لہٰذا اپنے گھر بار کو صاف ستھرا رکھو۔“

راستے کی حفاظت

گندگی اور غلاظت انسانی معاشرے کا حسہ ہے، انسان جہاں بھی بستے ہوںگے وہاں فضلہ اور کچرا مسلسل پیدا ہوتا رہے گا۔ اس سلسلے کو روکا نہیں جاسکتا، ہماری گرفت میں اس حوالے سے دو کام ہیں، دونوں ہی کی تلقین کی گئی ہے:

الف: ایک تو فضلہ اور کچرا مسلسل ٹھکانے لگایا جاتا رہے۔

ب: دوسرا ایسے اقدامات کیے جائیں کہ ان سے انسانی معاشرہ کم سے کم متاثر ہو۔

اس ضمن میں بھی زبان نبوت سے ہمیں رہ نمائی ملتی ہے۔ چناںچہ عام گزرگاہوں کی حفاظت اور انہیں گندگی سے محفوظ رکھنے کا بڑا اہم حکم آپﷺنے اس طرح ارشاد فرمایا:

اتقوالملا عن الثلاث: البراز فی الموارد وقارعۃ الطریق والظل([45])

”تین لعنتوں سے بچو،پانی کی گزرگاہ اور ذخیرے، عام راستے اوردرختوں کے سائے میں قضائے حاجت کرنا۔“

اور ابن عباس کی روایت میں یہ الفاظ مذکور ہیں:

اتقوا الملا عن الثلاث۔ قیل: ما الملاعن یا رسول اللہ؟ قال: ان یقعد احدکم فی ضل سیتظل بہ، او فی طریق، او فی نقع ماء([46])

”تین لعنتوں سے بچو۔جب آپﷺسےپوچھا گیا:یہ تین لعنتیں کون سی ہیں یا رسول اللہﷺ؟ آپﷺنے فرمایا:تم میں سے کوئی درخت کے سائے میں یا عام راستے پر یا پانی کے تالاب میں قضائے حاجت کرے۔“

دوسرا مرحلہ پہلے سے موجود فضلے اور کچرے کی صفائی کا ہے، یہ کام حکومت اور بلدیہ کا ہے، مگر آپﷺ نے اپنے احکامات و ارشادات میں اس ذمے داری میں بھی عام مسلمانوں کو، جو ان راستوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں شریک کیا ہے۔ چناںچہ ابی سعید الخدریؓ سے منقول ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

ایاکم والجلوس علی الطرقات۔ فقالو:مالنا بد، انما ھی مجالسنا نتحدث فیھا۔ قال اذا ابیتم الا المجالس فا عطوا الطریق حقہ۔ قالو: وما حق الطریق؟ قال: غض البصر، وکف الاذی، وردالسلام، والامر بالمعروف، ونھی عن المنکر ([47])

”راستے میں بیٹھنے سے بچو۔ انہوں نے کہا۔ لیکن ہم آپ میں مل بیٹھ کر اپنے معاملات کے بارے میں گفت گو کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم یہاں بیٹھنے پر مصر ہو تو راستے کے آداب کی پابندی کرو۔ پوچھا وہ آداب کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نگاہ نیچی رکھنا، نقصان دہ چیزوں کو راستے سے دور کرنا، سلام کا جواب دینا، نیکی حکم دینا اور بری باتوں سے روکنا۔“

فبما رجل یمشی بطریق وجد غصن شوک علی الطریق فاخرہ، فشکر اللہ لہ، فغفرلہ([48])

”ایک شخص کسی راستے سے گزررہا تھا، اس نے ایک کانٹے دار ٹہنی دیکھی تو اسے دور ہٹادیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا عمل قبول کیا اور اس کی مغفرت فرمادی۔“

ایک روایت میں راستے سے گندگی اور ضرر رساں چیزیں دور کرنے کو بخشش کا سبب بیان فرمایا:

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

نیز اس عمل کو آپ نے صدقے سے تعبیر فرمایا۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

یصح علی کل سلامی من ابن آدم صدقۃ، تسلیمہ علی من لقی صدقۃ، وامرہ بالمعروف صدقۃ، ونھیہ عن المنکر صدقۃ، واماطتہ الاذی عن الطریق صدقۃ، وبضعۃ اہل صدقۃ ([49])

”جب کوئی ابن آدم راستہ چلتا ہو،اگروہ ملنے والوں کو سلام کرے تو یہ صدقہ ہے،اگر وہ نیک کام کی ہدایت کرے تو یہ صدقہ ہے،اگر وہ برے کام سے منع کرے تو یہ صدقہ ہے، اگر وہ راستے سے غلاظت دور کردے تو یہ صدقہ ہے اور اگر وہ اپنے اہل و عیال کی پرورش کرتا ہے تو یہ صدقہ ہے۔“

اور دوسری روایت میں اس عمل کو ایمان کا حصہ قرار دیا فرمایا:

الایمان بضع وسبعون، اوبعض وستون شعبۃ، فافضلھا قول لا الہ الا اللہ، و ادناھا اماطۃ الاذیٰ عن الطریق وارفعھا قول: لا الہ الا اللہ ([50])

”ایمان کی ساٹھ یا ستر قسمیں ہیں۔ جس کی ادنیٰ قسم یہ ہے کہ راستے سے غلاظت دور کردی جائے اور اعلیٰ قسم یہ ہے کہ کہا جائے: لا الہ الا اللہ۔“

ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے سب سے بڑے اور سب سے اچھے اعمال کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:

عرضت علی اعمال امتی حسنھا وسیٔھا فوجدت فی محاسن اعمالھا الاذی یماط عن الطریق، ووجدت فی مساوی اعمالھا التحاعۃ تکون فی المسجد لا تدفن([51])

”میری امت کے اعمال میرے سامنے پیش کیے گئے، ان میں اچھے بھی تھے اور برے بھی! اچھے اعمال میں ایک عمل راستے سے غلاظت دور کی گئی تھی اور برے کاموں میں یہ تھا کہ مسجد میں تھوکا گیا تھا اور پھر اسے صاف بھی نہیں کیا گیا تھا۔“

اسی نوع کی دوسری حدیث المستنیر بن اخضر ابن معاویہ نے اپنے والد سے روایت کی ہے،وہ کہتے ہیں کہ میں معقل بن یسارؓ کے ساتھ جارہا تھا کہ راستے میں ہم نے غلاظت پڑی ہوئی دیکھی۔انہوں نے اسے اٹھاکر پھینک دیا۔ میں نے بھی اسی طرح راستے میں غلاظت دیکھ کر اسے دور کردی۔انہوں نے میرا بازو پکڑ کر کہا: ’’اے میرے بھتیجے! تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘میں نے جواب دیا: چچا! میں نے آپ کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا، لہٰذا میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ پھر انہوں نے کہا میں نے رسول اللہﷺکو یہ کہتے ہوئے سنا ہے:

من اماط اذی من طریق المسلمین کتبت لہ حسنۃ، ومن تقلبت منہ حسنتہ دخل الجنۃ([52])

”جو کوئی مسلمانوں کی راہ سے اذیت پہنچانے والی چیز دور کردے، وہ نیکی کا حق دار ہوجاتا ہے اور جس کی نیکی قبول ہوتی ہے، وہ جنت میں داخل ہوتا ہے۔“

خلاصہ

ماحولیاتی مسائل، جن کے گرداب میں آج پوری دنیا مبتلاہے، انسان کی خود اپنی حماقت کا نتیجہ ہے۔ اور اس کا بڑا سبب انسان کا اپنے مقام کو نہ پہچاننا، جس کی وجہ سے اس سے نیچے اتر آنا ہے۔ انسان اگر اپنے فطری مقام پر برقرار رہتا تو یہ مسائل پیدا ہی نہ ہوتے، یا کم از کم اس قدر سخت صورت حال پیدا نہ ہوتی۔ اسلام نے خصوصاً نبی کریمﷺنے اس حوالے سے جس قدر بھی بنیادی عنوان بنتے ہیں،ہر ایک کے بارے میں کہیں مفصل کہیں اجمالی طور پر ہدایت فراہم کردی ہیں،اور چودہ صدی گزرنے کے باوجود ان کی اہمیت آج بھی واضح ہے،یہ تعلیمات اگر آج ہماری زندگی کا حصہ بن جائیں تو ہمارا ماحول از خود فطری اصولوں پر استوار ہوسکتا ہے۔

 

حوالہ جات

  1. ۔ابراہیم: ۳۳۔ ۳۲
  2. ۔الحج: ۶۵
  3. ۔النمل: ۸۸
  4. ۔الملک: ۴۔ ۳
  5. ۔الروم: ۴۱
  6. ۔البقرہ: ۶۰
  7. ۔البقرہ: ۲۲۲
  8. ۔البقرہ: ۶۰
  9. ۔البقرہ: ۲۰۵
  10. ۔الملک ۳۰
  11. ۔الانبیاء: ۲۱
  12. ۔ابن ماجہ۔ السنن۔ دار المعرفہ، بیروت:ج۱، ص ۱۵۷، رقم ۴۲۵
  13. ۔ابو دائود۔ السنن۔ دار الفکر، بیروت، ۱۹۹۴ء :ج۱، ص ۶۱، رقم ۱۳۵
  14. ۔ابودائود: ج۳، ص ۲۵۸، رقم ۳۴۷۷
  15. ۔بخاری، الصحیح۔ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان۔ ۲۰۰۵ء: ج ۱، ص ۶۵، رقم ۲۳۹
  16. ۔ابودائود: ج ۱، ص ۲۴، رقم ۲۷۔ ترمذی۔ الجامع السنن۔ دار الفکر، بیروت، ۱۹۹۴ء: ج ۱، ص ۹۸، رقم ۲۱
  17. ۔ایضاً
  18. ۔الانعام: 99
  19. ۔مسلم: ج۲، ص ۳۰۹
  20. ۔ایضاً
  21. ۔احمد۔ المسند۔ دار احیاء التراث العربی، بیروت، ۱۹۹۳ء: ج ۳، ص ۱۹۱
  22. ۔النحل: ۵۔ ۸
  23. ۔مسلم: ج۳، ص ۲۷۲، رقم ۱۷۸۔ (۱۹۲۶)
  24. ۔احمد۔ المسند: ج۲، ص ۳۵۲، رقم ۶۵۱۵
  25. ۔ایضاً
  26. ۔ایضاً
  27. ۔ابودائود: ج ۲، ص ۳۶۳، رقم ۲۵۴۹
  28. ۔التوبہ: ۱۰۸
  29. ۔المائدہ: ۶
  30. ۔مسلم: ج ۱، ص ۱۷۱، رقم ۲۲۳
  31. ۔ابودائود: ج ۱، ص ۱۹۶، رقم ۴۸۹
  32. ۔طبرانی۔ المعجم الاوسط۔ دار الفکر، بیروت: رقم الحدیث ۷۳۱۱
  33. ۔نسائی۔ السنن: کتاب المساجد
  34. ۔ترمذی: ج ۳، ص ۳۴۰، رقم ۱۸۶۷
  35. ۔بخاری: ج۱، ص ۵۰، رقم الحدیث ۱۶۲
  36. ۔ابن عساکر۔ التاریخ۔ دار احیاء التراث العربی،بیروت: ج ۵۳، ص ۲۴۷
  37. ۔ابودائود: ج ۴، ص دارالفکر ۴۷، رقم ۴۱۶۳
  38. ۔بخاری: ج۱، ص ۲۱۱، رقم ۸۸۷
  39. ۔ابن ماجہ: ج۱، ص ۱۱۸، رقم ۲۸۹
  40. ۔المدثر: ۴
  41. ۔الاعراف: ۳۱
  42. ۔ترمذی: ج۲، ص ۳۰۱، رقم ۹۹۶
  43. ۔ابودائود: ج ۱، ص ۴۰۵، رقم ۱۰۷۸
  44. ۔ترمذی: ج ۴، ص
  45. ۔ابودائود: ج ۱، ص ۲۴،
  46. ۔احمد: ج ۱، ۴۹۱، رقم ۲۷۱۰
  47. ۔بخاری: ج ۲، ص ۱۱۸، رقم ۲۴۶۵
  48. ۔بخاری: ج ۱، ص ۱۵۸، رقم ۶۵۲
  49. ۔ابودائود: ج۱، ص ۴۸۰، رقم ۱۲۸۵
  50. ۔مسلم: ج۱، ص ۷۱، رقم ۵۸۔۔(۳۵)
  51. ۔ایضاً: ص ۳۱۷، رقم ۵۷۔ (۵۵۳)
  52. ۔بخاری۔ الادب المفرد۔ بیروت: رقم ۵۹۳
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...