Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 32 Issue 1 of Al-Tafseer

متقدمین و متاخرین فقہا کی آراء کی روشنی میں مال حرام کا منافع |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

32

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060084478_1149

Pages

121-138

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/62

Subjects

Sharia profit unlawful income charity.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اسلامی معاشی نظام میں کسب ِحلال کی اہمیت کسی سے مخفی نہیں قرآنی نصوص اور ذخیرۂ احادیث اس بات پر شاہد ہیں کہ شریعتِ اسلامیہ اپنے ماننے والوں کو حلال کمائی کی ترغیب دیتی ہےچنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا )[1]( ”یعنی اے لوگو! زمین میں سے حلال رزق ہے اس کو کھایا کرو۔“

اسی طرح کا ارشادِ گرامی ایک اور آیت میں بھی فرمایا گیا:فَكُلُواْ مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلاَلاً طَيِّبًا وَاتَّقُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ([2])

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا گیا:فَكُلُواْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّهُ حَلالاً طَيِّبًا وَاشْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ([3]) ”پس کھاؤ اس رزق میں سے جو اللہ نے تمھیں عطا کیا ہے حلال اور پاک۔اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم خاص اس کی عبادت کرتے ہو۔“

بلکہ اس سے بڑھ کر سورۃ الجمعہ میں جمعہ کی نماز کے بعد اللہ کے فضل کو طلب کرنے کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا۔ جس کے بارے میں اکثر مفسرین کی یہی رائے ہے کہ اس کا مطلب خرید و فروخت ہے۔ارشاد باری تعالی ہے :

فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ([4])

اسی آیت کی تفسیر میں مفتی محمد شفیع صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت عراک بن مالک جب نماز جمعہ سے فارغ ہو کر باہر آتے تو دروازۂ مسجد پر کھڑے ہو کر یہ دعا کرتے تھے :

اللهم انی اجبت دعوتک وصلیت فریضتک وانتشرت کما امرتنی فارزقنی من فضلک و انت خیر الراز قین۔

”یعنی یا اللہ میں نے تیرے حکم کی اطاعت کی اور تیرا فرض ادا کیا اور جیسا کہ تو نے حکم دیا ہے نماز پڑھ کر میں باہر جاتا ہوں تو اپنے فضل سے مجھے رزق عطا فرما اور تو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔ “

اور بعض سلف صالحین سے منقول ہے کہ جو شخص نماز جمعہ کے بعد تجارتی کاروبار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے ستر مرتبہ برکات نازل فرماتے ہیں ۔ اسی آیت کے آخر میں فرمایا گیا کہ   واذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ، کہ معاشی سر گرمیون میں مشغول ہونے کی اجازت دی گئی ہے مگر اللہ تبارک وتعالی کے ذکر سے غافل نہ جاؤ بلکہ خرید و فروخت اور کاروباری سر گرمیوں میں مشغول ہوتے ہوئے بھی اللہ کا ذکر جاری رکھو۔

اسی طرح احادیث میں بھی کسب حلال کی بہت فضیلت آئی ہے۔صحیح بخاری کی روایت ہے:

عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قام على المنبر فقال ...... وَنِعْمَ صَاحِبُ الْمُسْلِمِ لِمَنْ أَخَذَهُ بِحَقِّهِ، فَجَعَلَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ،الخ ([5])

”حضرت ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ ایک مرتبہ منبر پر فرمانے لگے کہ مسلمان کا مال کتنا عمدہ ہے جس نے اسے حلال راستوں سے حاصل کیا اور پھر اس کو اللہ کے راستے میں اور فقرا اور مساکین کی ضروریات میں خرچ کرتا رہا۔“

اسی طرح ارشاد نبوی ہے:أطيب الكسب عمل الرجل بيده وكل بيع مبرور([6]) ”انسان کے لیے سب سے حلال اور پاک مال وہ ہے جو انسان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہو اور ہر ایسی بیع و تجارت جس میں خیانت نہ ہو۔“

حرام مال کی ممانعت

شریعت اسلامیہ نے جس طرح کسب حلال کا حکم دیا ہے اسی طرح حرام سے ممانعت کا حکم دیا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ ([7])

”اے ایمان والو! ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھایا کرو۔ سوائے اس کے کہ رضامندی کے ساتھ تجارت کی صورت میں ہو۔“

اسی طرح رشوت کو بھی اموال خبیثہ میں شمار کرتے ہوئے اس سے ممانعت کا حکم دیا گیا۔ فرمایا گیا:

وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَی الْحُكَّامِ ([8])

”ایک دوسرے کے اموال باطل طریقے سے نہ کھایا کرو اور نہ اس کو (بطور رشوت)حاکموں تک پہنچایا کرو۔“

نیز سود کی کمائی کوحرام اموال اور کسب خبیثہ قرار دیتے ہوئے حرام فرمایا گیا:

وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا ([9])

”اور اللہ نے سود کو حرام اور خرید و فروخت کو جائز قرار دیا۔“

بلکہ سود کو اللہ اور رسول کے ساتھ جنگ کے مترادف قرار دیا ۔ ارشاد باری تعالی ہے:

فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ([10])

”اگر تم اس سود سے نہ رکے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے۔“

اسی طرح یتیم کے مال کو نا حق کھانے کو آگ کھانے کے مترادف قرار دیا گیا۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ نَارًا ([11])

”جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ ڈالتے ہیں۔“

نصوص قرآنیہ کے ساتھ ساتھ ،احادیث نبویہ میں بھی حرام مال کھانے اور کھانے والےوالے کی مذمت کی گئی ہے اور اس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد نبوی ہے:

عن طريف أبي تميمة قال: شهدت جندب بن عبد الله البجلي رضي الله عنه وهو يوصي صفوان بن محرز وأصحابه , فقالوا: أوصنا نی, فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إن أول ما ينتن من الإنسان بطنه , فمن استطاع أن لا يأكل إلا طيبا فليفعل ([12])

”عبداللہ بجلی ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ انسان کو سب سے پہلے فاسد کرنے والی چیز پیٹ ہے پس حلال اور پاک چیزوں ہی کو کھانا چاہیے۔“

اس طرح کی بہت ساری روایات میں حلال کھانے کا حکم دیا گیا بلکہ متعدد روایات میں مشکوک چیزوں سے بھی اجتناب کا حکم دیا گیا۔جیسا کہ حضرت حسن بن علیؓ سے روایت ہے:

عن أبي الحوراء السعدي قال: قلت للحسن بن علي - رضي الله عنهما -: ما حفظت من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ ,قال: حفظت من رسول الله صلى الله عليه وسلم: " دع ما يريبك إلى ما لا يريبك۔([13])

”حضرت ابی الحوراؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حسن ابن علی ؓ سے عرض کیا کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ سے (جو کچھ) یاد فرمایا (اس میں سے ہمیں بھی کچھ بیان فرما دیجیے)انھوں نے ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مشکوک چیزوں کو یقینی چیزوں کے لیے چھوڑ دیا کرو۔“

اسی طرح کی ایک اور روایت میں یہی مضمون زیادہ وضاحت سے ارشاد فرمایا گیا ہے

عن النعمان بن بشير رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"الحلال بين,والحرام بين وبينهما أمور مشتبهات لا يدري كثير من الناس أمن الحلال هي أم من الحرام فمن اتقى الشبهات استبرأ لدينه وعرضه ومن وقع في الشبهات, وقع في الحرام ([14])

”حضرت نعمان ابن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ حلال اور حرام دونوں واضح ہیں اور ان دونوں کے درمیاں کچھ چیزیں مشتبہ ہیں بہت سارے لوگ نہیں جانتے کہ حلال ہیں یا حرام پس جو شبہات سے اپنے آپ کو بچاتا ہے اس نے اپنے دین کو بچا لیا۔اور جو شبہات میں پڑ گیا وہ حرام میں پڑ جا ئے گا۔“

مال کی اقسام

حرمت اور اباحت کے لحاظ سے مال کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں: ۱۔مال حرام ۲۔ مال مباح

مال مباح وہ مال کہلاتا ہے جس سے استفادہ کرنا شرعامباح ہو جبکہ اس کے مقابلے میں مال حرام وہ کہلاتا ہے جس سے استفادہ کرنا شرعا جائز نہ ہو۔([15])

مال حرام کی اقسام

علامہ بسیونی محمد عبدالسلام نے اپنی کتاب المنھیات الشرعیہ فی کتاب رب البریہ میں مال حرام کی ان اقسام کا ذکر کیا ہے جو قران کریم میں ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سب سے پہلے انھوں نے اکل اموال الناس بالباطل کو رکھا ہے اور اس قسم میں ان تما م قسم کی اموال کو شامل کیا ہے جو ناحق اور باطل ذرائع سے حاصل کی گئی ہوں ان میں غصب، چوری وغیرہ شامل ہیں ۔دوسرے نمبر پر یتیم کے مال کو ناحق کھانے کو رکھا ہے تیسرے نمبر پر سود کھانے کو جبکہ چوتھے نمبر پر رشوت کھانا جبکہ پانچویں نمبر پر بلا استحقاق اور عمل معاوضہ یا اجرت کی وصولی کو مال حرام قرار دیا ہے ۔([16])

اس لیے فقہا کرام نےذات کے لحاظ سے مال حرام کی دو اقسام کی ذکر کی ہیں :

(الف)حرام لذاتہ: وہ مال کہلاتا ہے جو اپنی ذات اور وصف دونوں کے لحاط سے حرام ہو یعنی ایسی چیز جس کی ذات میں بھی حرمت ہو اور وصف کے لحاظ سے بھی اس کی حرمت ہو جیسے کہ مردار،خون وغیرہ۔۔علامہ قرافی ؒ مال حرام کی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

وهو ماکان حراما فی اصله ووصفه([17]) ”جو شے اپنی اصل اور وصف دونوں میں حرام ہو وہ حرام لذاتہ ہے۔“

(ب)حرام لغیرہ: وہ مال کہلاتا ہے جو اپنی ذات کے اعتبار سے حلال اور جائز ہو لیکن کسی خارجی وصف کی وجہ سے اس میں حرمت پیدا ہوئی ہو تو وہ حرام لغیرہ کہلاتا ہے۔ جیسے: یتیم کا مال ناحق کھانا، دوسرے کا مال بغیر اجازت کے لینا یا چوری کا مال وغیرہ تو ان صورتوں میں اگرچہ مال اپنی ذات کے اعتبار سے حلال ہوگا لیکن کسی اور کی ملکیت ہونے کی وجہ سے اس کے غیر شرعی استعمال کو حرام قرار دیا جاتا ہے۔([18])

مال حرام کی مزید قسمیں بھی بیان کی گئیں ہیں:

۱۔ مال حرام کی وہ قسم جس کو مالک کی رضامندی کے بغیر حاصل کیا گیا ہو اب یا تو یہ مال اصل مالک سے زبردستی لیا گیا ہو جیسے غصب میں یا اس طریقے سے لیا گیا ہو کہ مالک کو اس کا پتہ نہ چلا ہو جیسے چوری کا مال۔

۲۔مال حرام کی وہ قسم جس کو مالک کی رضامندی کے ساتھ حاصل کیا گیا جیسے مثلا ناجائز خدمات کے بدلے میں مال حاصل کیا جائے شراب کی فروختگی سے حاصل کیا گیا مال یا گانے بجانے کے عوض حاصل کیا گیا مال۔([19])

اسی تقسیم کو ڈاکٹر وہبہ زحیلی نے اپنی شہرہ ٔآفاق تصنیف میں اختیار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

سواء كان لحرمته لذاته، بما فيه من ضرر أو خبث كالميتة والخمر، أم لحرمته لغيره، لوقوع خلل في طريق اكتسابه، لأخذه من مالكه بغير إذنه كالغصب، أو لأخذه منه بأسلوب لا يقره الشرع ولو بالرضا كالربا والرشوة. ([20])

”مال حرام کی حرمت چاہے اپنی ذات کے اعتبار سے ہو کہ اس کی ذات میں خبث ہو جیسے کہ شراب اور مردار سے حاصل کیا گیا مال یا وہ مال جس میں حرمت کسی اور خلل کی وجہ سے آیا ہو یعنی اس کے کمانے کے طریقے کی وجہ سے حرمت آئی ہوئی اور وہ مال فی نفسہٖ حلال ہو مثلا: اس کے مالک سے بلا اجازت لینے کی وجہ سے اس میں حرمت آئی ہو۔ جیسے: کسی سے چھینا ہوا مال یا اگرچہ مالک کی رضامندی سے وہ مال لیا گیا ہو لیکن ایسے طریقے سے وہ مال حاصل کیا گیا ہو جس کو شریعت نے جائز قرار نہیں دیا ہو۔مثلا سود یا رشوت کے ذریعے سے لیا گیا مال۔“

مال حرام کا مصرف

درج بالا اقسام کو دیکھتے ہوئے فقہائے کرام نے مال حرام کے مصرف اور اس کے توبہ کے طریقۂ کار کا تعین کیا ہے لہذا اگر کسی بصورت غصب یا چوری لیا گیا ہو تو اگر اصل مالک معلوم ہو تو اس کو مال لوٹانا لازم ہے یہی توبہ کی قبولیت کی شرط بھی ہے اور اگر اصل مالک معلوم نہ ہو تو اس کے ورثا کو مال دیا جائے گا اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اس صورت میں اصل مالک کی طرف سے صدقہ کرلیا جائے گا۔ ڈاکٹر وہبہ زحیلی لکھتے ہیں:

حائز المال الحرام لخلل في طريقة اكتسابه لا يملكه مهما طال الزمن، ويجب عليه رده إلى مالكه أو وارثه إن عرفه، فإن يئس من معرفته وجب عليه صرفه في وجوه الخير للتخلص منه وبقصد الصدقة عن صاحبه. ([21])

”جس کے پاس حرام مال ہو اور وہ اسی طریقے سے حاصل کیا گیا ہو وہ اس کا مالک نہیں بن سکتا چاہے کتنا ہی عرصہ کیوں نہ گزر جائے اور اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اس کو اصل مالک کو لوٹا دے یا اس کے وارثوں کو لوٹا دے اگر ان کو جانتا ہو۔اگر ان تک پہنچنا ممکن نہ ہو( اور کسی بھی ذریعے سے ان تک مال پہنچانے کی کوئی صورت نہ بنے )اور مایوس ہوجائے تو اس کے لیے لازم ہے کہ اس مال کو نیکی کے کاموں میں خرچ کرلے ۔“

علامہ زرکشی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

ان من شرط التوبة ان ترد الظلامة الی اصحابها،فان کان ذالک فی المال وجب اداؤه عینا او دینا او ما دام مقدورا عليه فان کان صاحبه قد مات دفع الی ورثته وان لم یکن فالی الحاکم والا تصدق به علی الفقرا ([22])

”علما احناف کی رائےکو عالمگیریہ میں نقل کیا گیا ہے کہ امام محمد ؒ سے نقل کیا گیا ہے کہ اگر زبردستی کسی سے عطیات یا ہدایا وصول کیے ہوں اور اب وہ ان ہدایا کو ان کے اصل مالکوں کو واپس کرنا چاہتا ہے تو اس کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اگر ممکن ہو تو اصل مالکوں کو ان کی اشیا واپس لو ٹا دے اگر ان کو واپس لوٹانا ممکن نہ ہو تو اس کوبیت المال میں رکھ دے اور پورا واقعہ اس کے ساتھ لکھ کربیت المال میں جمع کردے اور اس پر لقطہ کے احکام جاری ہوں گے۔“ ([23])

اب اس صورت میں کہ جہاں پر حرام مال کسی حرام کام یا حرام اشیا کے بدلے میں لیا گیا ہو مثلا گانا گانے،شراب بیچنے کی رقم وغیرہ تو اس صورت میں اگرچہ بعض حضرات کی رائے ہے کہ اس کو بھی اصل مالک کی طرف لوٹانا لازم ہے۔تاہم اکثر علما و محققین اس رائے سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کے رائے یہ ہے کہ اس صورت میں یہ مال فقراو مساکین پر صدقہ کیا جائے اور اصل مالک کو نہ لوٹایا جائے اگرچہ اس کا مالک معلوم ہو علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں:

مَن قَبَضَ ما ليس له قَبْضُهُ شرعًا، ثُمَّ أرادَ التخلصَ منه، فإنْ كان المقبوضُ قد أُخِذَ بغيرِ رضا صاحِبِه، ولا اسْتَوفَى عِوَضَهُ؛ رَدَّهُ عليه، فإنْ تَعَذَّرَ رَدُّهُ عليه، قَضَى به دينًا يَعلَمُهُ عليه، فإنْ تَعَذَّرَ ذلك رَدَّه إلى وَرَثَتِهِ، فإنْ تعذَّر ذلك تَصَدَّق به عنه، فإنِ اخْتارَ صاحبُ الحقِّ ثوابَه يومَ القيامَةِ كان له، وإنْ أَبَى إلا أنْ يأخذَ مِن حسناتِ القابضِ اسْتَوفَى منه نظير مالِهِ، وكان ثوابُ الصَّدَقةِ للمُتَصدِّق بها؛ كما ثَبَتَ عن الصحابةِ - رضِيَ اللهُ عنهم - وإنْ كان المقبوضُ برضا الدَّافِعِ، وقد استوفَى عِوَضَه المحرَّم؛ كَمَنْ عَاوَضَ عَلَى خمرٍ أو خنزيرٍ، أو عَلَى زنًا أو فاحشةٍ، فهذا لا يجبُ ردُّ العِوَضِ عَلَى الدافعِ؛ لأنَّه أخْرَجَه باختيارِهِ، واستوفَى عِوَضَه المحرَّمَ، فلا يجوزُ أنْ يُجْمَعَ له بين العِوضِ والمُعَوَّضِ، فإنَّ في ذلك إعانةً له عَلَى الإثمِ والعُدْوانِ، وتيسير أصحابِ المعاصِي عليه، وماذا يُرِيدُ الزَّانِي وفاعلُ الفاحشةِ إذا عَلِمَ أنَّه ينال غرضه، ويسترد ماله؟ فهذا مما تُصانُ الشريعةُ عن الإتيانِ به، ولا يُسَوَّغُ القولُ به ..."، لكن لا يَطِيبُ للقابضِ أكلُهُ، بل هو خبيثٌ؛ كما حَكَمَ عليه رسولُ الله - صلَّى اللهُ عليه وسلَّم - ولكن خبثه لخُبْثِ مكسبِهِ، لا لظلمِ مَن أخذ منه، فطريقُ التَّخَلُّصِ منه، وتمام التوبة بالصدقة به، فإنْ كان محتاجًا إليه فله أنْ يأخُذَ قدرَ حاجَتِه، ويَتَصَدَّقَ بالباقي، فهذا حكمُ كلِّ كسبٍ خبيثٍ لِخُبْث عوضه عينًا كان أو منفعة. ([24])

اس عبارت سے درج ذیل امور کی وضاحت ہوتی ہے۔

۱۔بنا رضامندی کسی کی کوئی چیز لینا جائز نہیں۔

۲۔اگرکسی اور کی چیز بنا اجازت کے لے لی تو اس کو واپس کرنا ضروری ہے۔

۳۔اگر اس شخص کو واپس کرنا ممکن نہ ہو مثلا وہ شخص فوت ہو گیا ہو تو اس کے ورثاءکو وہ مال واپس کرے۔

۴۔اگر اس کے ورثاء کوواپس کرنا ممکن نہ ہو پھر اس کی طرف سے صدقہ کردے۔

۵۔اگر حرام مال رضامندی سے ساتھ قبضہ میں آیا ہو جو کسی حرام کام کا عوض ہو تو اس کو واپس نہ کرے کیونکہ یہ گناہ میں اعانت کی صورت ہے۔نیز اس صورت میں جس شخص نے غیر شرعی کام کے بدلے میں کو ئی عوض دیا ہو تو اگر اس کو اس کا دیا ہوا مال بھی واپس کر دیا جائے تو عوض اور معوض ایک شخص کے ہاتھ میں جمع ہو جائیں گے۔

۶۔ اس طرح کے مال کو خود اپنے تصرف میں لانا بھی درست نہیں کیونکہ یہ بھی اموال خبیثہ میں سے ہے۔

۷۔اس سے خلاصی اور توبہ کی یہی صورت ہے کہ اس کو فقراء اورمساکین پر صدقہ کردے۔

۸۔ اگر یہ شخص خود مستحق ہے تو بقدر ضرورت اس مال کو اپنے تصرف میں لا سکتا ہے۔

اس آخری نکتے کو صاحب اختیار نے بھی بیان فرمایا ہے۔ ان کے رائے یہ ہے کہ اگر ملک خبیث کے ذریعے اس کی ملکیت میں کوئی مال آجائے تو اس کا مصرف صدقہ کرنا ہے البتہ اگر اس نے اپنی ضروریات میں اس حرام مال کو خرچ کرلیا تو اگر یہ خود مستحق اور نادار ہے تو اس کے لیے گنجائش ہے اور اگر یہ شخص مال دار ہے تو جتنا مال اس نے اپنی ضروریات میں صرف کیا اتنا مال فقرا میں صدقہ کردے۔([25])

بہرحال اس بات پر تمام محققین کا اتفاق ہے کہ مال حرام کا اگر مالک کو لوٹانا ممکن نہ ہو تو اس کا صدقہ کرنا لازم ہے۔اور اگر یہ مال کسی حرام کام یا اشیا کا عوض ہو تو اسے فقرا اور مساکین میں صدقہ کردے۔ اور اگر یہ شخص خود نادار ہے تو بقدر ضرورت اس مال کو اپنے استعمال میں لانے کی گنجائش ہے۔

مال حرام سے لی گئیں چیز یں اور حرام مال کے منافع

درج بالا صورتیں تو وہ تھیں کہ جن میں کسی کے ملکیت میں کوئی حرام مال آجائے تو اس کا حکم کیا ہوگا۔ لیکن اگر کسی کے پاس حرام مال ہو یا ایسا اثاثہ ہو جو حرام ذریعے سے حاصل کیا گیا ہو یا حرام مال کی جائز اورحلال سرمایہ کاری کی گئی ہو تو اس صورت میں ان اشیا کاکیا حکم ہوگا؟اس کے بارے فقہائے کرام کی آرا مختلف ہیں۔

امام شافعی ؒاور امام احمد ؒ کی ایک ایک روایت یہ ہے کہ چونکہ یہ مال ایسے مال کا منافع تھا جو ناجائز تھا اس لیے اس کامنافع غاصب کے لیے حلال نہیں ہے۔بلکہ ان منافع کا مستحق مال کا اصل مالک ہے۔

علامہ مرداوی ؒ تحریر فرماتے ہیں:

وان اتجر بالدراهم فالربح لمالكها یعنی اذا اتجر بعین المال او بثمن العیان المغصوبة فالمال وربحه لمالكها وهذا هوالصحیح من المذهب ونص عليه ونقله الجماعة وعليه الاصحاب([26])

”اگر مال حرام کے مالک نے ان دراہم و دنانیر کے ساتھ تجارت کی تو اس مال کا منافع مالک کا ہوگا یعنی عین مال مغصوبہ اور عین ثمن کے ساتھ اور یہی ہمارا مذہب ہیں صحیح ہے اور اس کو علما کی جماعت نے نقل کیا ہے۔“

علامہ بہوتیؒ فرماتے ہیں: ان نصوص احمد متفقة علی ان الربح للمالک۔([27]) ”امام احمد ؒ کے ہاں یہ بات متفقہ ہے کہ ایسے مال کا منافع مالک کو ملے گا۔“

علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

ولا یطیب له ما شراه بالعین او بثمنها ولا یصیر ملکا له ولم یاذن الشرع بذلک ولا سوغه وهكذا لا یطیب له الربح بل یجب عليه ارجاعه لمالكه هكذا ینبغی ان یقال فی مثل هذا البحث عملا لما تقتضيه القواعد الشرعيه۔([28])

”مال حرام کے ذریعے جو خریداری کی گئی ہو اہ بھی حلا ل نہیں اس شخص کے لیے اور نہ ہی اس کی ملکیت میں وہ چیز آسکتی ہے اسی طرح اس مال سے حاصل ہونے والا منافع بھی اس شخص کے لیے جائز نہیں ہے بلکہ اس کے لیے واجب ہے کہ اس کو منافع سمیت ( جو منافع اس مال مغصوب سے حاصل ہوا) کو اصل مالک کو لوٹا دے اور یہی قواعد شرعیہ ما مقتضاء ہے۔“

حضرات مالکیہ ، بعض حضرات شافعیہ اور احناف میں سے حضرت امام ابو یوسف ؒ فرماتے ہیں کہ: مال حرام سے جو منافع حاصل ہوئے ہیں ان منافع کا مالک غاصب ہوگا۔

علامہ ابن رشد ؒ فرماتے ہیں:ان ما اغتل من المغصوب بتصریفه وتحویل عینه کالدنانیر یغتصبها الغاصب فیتجر فيها فیربح فالغلة له قولا واحدا فی المذهب۔” یعنی مال مغصوب میں جو منافع اور ااضافہ حاصل ہو جائے تو وہ غاصب کا ہوگا۔“([29])

علامہ نووی شافعی ؒ اس کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:

ان الغاصب اذا اشتری بالمال ا لمغصوب عرضا واستفاد منه ربحا لم یخل عقد ابتیاعه من ان یکون الشراء قد وقع بعین المال او بغیرعینه بان کان بعین المال فالشراء باطل لان العقد علی المغصوب باطل ومع بطلان الشراء یفوت الربح وان کان الشراء فی ذمة الغاصب والثمن مدفوع من المال المغصوب فالشراء صحیح لثبوت الثمن فی الذمة وفی مستحقه قولان : الثانی وهوا لقول الجدید ان الربح للغاصب دون المغصوب منه۔([30])

”اگر عین مال مال حرام سے کوئی چیز خریدی گئی اور اس سے منافع حاصل ہوا تو یہ عقد بیع اور اس کا منافع جائز نہیں کیونکہ مال مغصوب کے ذریعے بیع باطل ہے اور اور اگر غاصب کے ذمے مال کی ذمہ داری آجائے اور اس کی ادائیگی مال مغصوب سے کی جائے تو اس کی خریداری درست ہے اس صورت میں اگر منافع حاصل ہوجائے تو اس میں دو قول ہیں ۔قول جدید یہ ہے کہ اس کا منافع غاصب کو ملے گا نہ کہ مغصوب منہ کو۔“

اس کی مزید توضیح کرتے ہوئے یہ دلیل بھی دی گئی ہے کہ فقہ اسلامی کا مشہور قاعدہ ہے :الخراج بالضمان([31]) جس کا معنی ہے کہ جو بھی کسی کاروبار میں نقصان کی ذمے داری اٹھاتا ہے تو اس کا منافع بھی اسی کو ملتا ہے اور اس صورت میں غاصب ہی اس کاروبار میں نقصان کی ذمے داری اٹھاتا ہے نہ کہ مغصوب منہ اس لیے منافع کا حق دار غاصب ہی ہونا چاہیے ۔([32])

علامہ ابن تیمیہ ؒ کی رائے:

علامہ ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ اس مال کے منافع کو غاصب اور مغصوب کے درمیان آدھا آدھا تقسیم کیا جائے گا۔ کیونکہ یہ منافع اصل مالک کے مال اور غاصب کی محنت سے حاصل ہوا ہے تو دونوں کو ان کی سرمایہ کاری کےبقدر حصہ ملے گا۔چونکہ غاصب کا عمل اس کے لیےاستعمال ہوا ہے اس لیے وہ آدھے حصے کا حق دار ہوگا اور اس منافع کے حصول میں مالک کا مال اور سرمایہ لگا اس لیے وہ آدھے حصے کا حق دار ہے۔“([33])

مجموع الفتاوی میں نقل کیاگیا ہے:

أما المال المغصوب إذا عمل فيه الغاصب حتى حصل منه نماء ففيه أقوال للعلماء- هل النماء للمالك وحده؟-أو يتصدقان به؟ أو يكون بينهما؛ كما يكون بينهما إذا عمل فيه بطريق المضاربة والمساقاة والمزارعة، وكما يدفع الحيوان إلى من يعمل عليه بجزء من دره ونسله؟- أو يكون للعامل أجرة مثله إن كانت عادتهم جارية بمثل ذلك؟ كما فعل عمر بن الخطاب لما أقرض أبو موسى الأشعري ابنيه من مال الفيء مائتي ألف درهم وخصَّهما بها دون سائر المسلمين، ورأى عمر بن الخطاب أنَّ ذلك محاباة لهما لا تجوز، وكان المال قد ربح ربحاً كثيراً بلغ به المال ثمانمائة ألف درهم، فأمرهما أن يدفعا المال وربحه إلى بيت المال، وأنه لا شيء لهما من الربح لكونهما قبضا المال بغير حق فقال له ابنه عبد الله: إنَّ هذا لا يحل لك فإنَّ المال لو خسر وتلف كان ذلك من ضماننا؛ فلماذا تجعل علينا الضمان ولا تجعل لنا الربح؟فتوقف عمر.فقال له بعض الصحابة: نجعله مضاربة بينهم وبين المسلمين؛ لهما نصف الربح وللمسلمين نصف الربح.فعمل عمر بذلك.وهذا مما اعتمد عليه الفقهاء في المضاربة؛ وهو الذي استقر عليه قضاء عمر بن الخطاب ووافقه عليه أصحاب رسول الله، وهو العدل.فإنَّ النماء حصل: بمال هذا، وعمل هذا، فلا يختص أحدهما بالربح، ولا تجب عليهم الصدقة بالنماء؛ فإنَّ الحق لهما لا يعدوهما، بل يجعل الربح بينهما كما لو كانا مشتركين شركة مضاربة([34])

اس عبارت میں امام ابن تیمیہ ؒ نے مال حرام کے منافع کے حوالے سے علما کے مختلف اقوال کا تذکرہ فرمایا ہے اور پھر غاصب اور مغصوب منہ کے درمیان منافع کی آدھی آدھی تقسیم کے حوالے سے حضرت عمر فاروق ؓ کا مشہور واقعہ نقل فرمایا ہے۔ جہاں حضرت عمر فاروق ؓ کے بیٹوں کو حضرت ابو موسی اشعریؓ نے مال فئی میں سے دو لاکھ درہم مدینے منورہ پہنچانے کے لیے دی اور فرمایا کہ اگر وہ چاہیں تو اس سے کچھ سامان خرید کر وہاں بیچ دیں اور نفع خود رکھ لیں چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا اور اس میں ان کو بہت سارا منافع ہوا اور مال کی مقدار آٹھ لاکھ درہم تک پہنچ گئی حضرت عمر فاروق اعظمؓ نے انھیں حکم دیا کہ اصل مال کو بمع منافع کے بیت المال میں جمع کردیں تو ان کے بیٹے عبد اللہؓ نے فرمایا کہ یہ بیت المال کے لیے بھی جائز نہیں ہوگا کہ وہ منافع رکھ لے کیونکہ اگر یہ مال ضائع ہوجاتا تو ہم ہی ضامن ہوتے۔تو ضمان اگر ہمارے اوپر تھا تو اس کا نفع بھی ہمارا ہونا چاہیےاس جواب کے بعد حضرت عمرؓ نے توقف فرمایا اور ان کو بعض صحابہ نے مشورہ دیا کہ اس کو مضاربت کی صورت بنا دیجیے اور آدھا حصہ ان کو بطور مضاربت کے نفع کے دیجیے اور آدھا حصہ بیت المال کے لیے مختص ہو جائے بطور رب المال۔حضرت عمر ؓ نے اسی پر عمل کیا اور اسی پرصحابہ کرام نے عمل فرمایا۔ اسی لیے اس صورت میں بھی ان پر صدقہ واجب نہیں بلکہ اس مال کو ان دونوں کے درمیان تقسیم کیا جانا چاہیے گویا کہ یہ دونوں شرکت مضاربت کر چکے ہوں۔

اسی واقعہ کو امام مالک رحمۃ اللہ نے موطا میں بھی نقل فرمایا ہے۔([35] )

اسی طرح ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے علامہ ابن تیمیہ ؓ نے اس کی مزید وضاحت کی ہے فرماتے ہیں:

وسئل رحمه الله تعالى عن المال المغصوب من الإبل وغيرها إذا نمت عند الغاصب ثم تاب كيف يتخلص من المال؟وهل هو حرام أم لا ؟فأجاب: أعدل الأقوال في ذلك أن يجعل نماء المال بين المالك والعامل؛ كما لو دفعه إلى من يقوم عليه بجزء من نمائه.ثم إنَّ الأصل ونصيب المالك إذا تعذر دفعهإلى مالكه صرفه في مصالح المسلمين ([36])

”امام ابن تیمیہ ؒ سے مال مغصوب کے بارے میں سوال کیا گیا کہ جب ان میں اضافہ ہو جائے اور پھر وہ توبہ کرنا چاہے تو اس مال سے کیسے چھٹکارہ حاصل کرے؟اور کیا یہ مال حلال ہے یا حرام؟تو انھوں نے فرمایا کہ میرے نزدیک ان میں منصفانہ قول یہ ہے کہ اس مال کا منافع مالک اور عامل کے درمیان تقسیم ہونا چاہیے اس کی مثال یوں ہے کہ کوئی کسی کے ساتھ بطور مضاربت کوئی معاملہ کرے۔پھر اس صورت میں اگر اصل مالک کومال پہنچانا ممکن نہ ہو تو اس کو مسلمانوں کے مصالح میں خرچ کرنا چاہیے۔“

اسی رائے کو عصر حاضر کے بعض علما نے بھی اختیار فرمایا ہے۔ علامہ محمد ابن ابراہیم التویجری اسی رائے پر فتوی دیتے ہوئےتحریر فرماتے ہیں:

فهذا يجب عليه رد رأس المال المغصوب لصاحبه مع نصف الأرباح، والباقي له كأنهم شركاء، هذا منه المال، وهذا منه العمل، وإن خسر فيجب على الغاصب ضمان رأس المال كله؛ لأن يده يد متعدية فيضمنه۔([37])

”اس صورت میں( یعنی مال مغصوب سے منافع کے حصول کی صورت میں) اس شخص پرلازم ہے کہ اصل راس المال اور آدھا منافع مالک کو واپس کردے اور باقی منافع اس شخص کے لیے لینا جائز ہے گویا کہ ہم فرض کر لیں گے کہ یہ دونوں شریک تھے اور ایک جانب سے مال اور دوسرے جانب سے عمل ۔اور اگر نقصان ہوا تو اس صورت میں غاصب پر پورے راس المال کا ضمان ہوگا کیونکہ اس کا قبضہ زور زبردستی سے تھا تو وہ ضامن ہوگا۔“

احناف ؒ کی رائے

اس بات پر تو احناف کے ہاں اتفاق رائےپایا جاتا ہے کہ اگر غاصب مال مغصوبہ کا ضمان ادا کردے تو اس کی ملکیت میں وقت غصب سے اس کی ملکیت شے مغصوب پر متصور ہوگی۔اور اس کے لئے شے مغصوب مالک کو واپس کرنا ضروری نہیں تاہم اس مال سے حاصل شدہ منافع سے استفادہ کے حوالے فقہا احناف ؒ کی آرا مختلف ہیں:

۱۔ حضرت امام ابو یوسف ؒ کی رائے یہ ہے کہ ضمان کی ادائیگی کے بعد غاصب کے لیے اس نفع سے مستفید ہونے کی گنجائش ہے اور وہ حاصل شدہ منافع کو اپنے استعمال میں لا سکتا ہے۔جبکہ حضرات طرفین یعنی حضرت امام ابو حنیفہؒ اور حضرت امام محمدؒ کی رائے یہ ہے کہ حاصل شدہ منافع سے استفادہ کرنا غاصب کے لیے جائز نہیں۔

صاحب ہدایہ علامہ برہان الدین مرغينانی ؒ فرماتے ہیں:

قال: "ومن غصب عبدا فاستغله فنقصته الغلة فعليه النقصان"؛ لما بينا "ويتصدق بالغلة" قال رضي الله عنه: وهذا عندهما أيضا. وعنده لا يتصدق بالغلة، وعلى هذا الخلاف إذا أجر المستعير المستعار. لأبي يوسف أنه حصل في ضمانه وملكه. أما الضمان فظاهر، وكذا الملك؛ لأن المضمونات تملك بأداء الضمان مستندا عندنا. ولهما أنه حصل بسبب خبيث وهو التصرف في ملك الغير، وما هذا حاله فسبيله التصدق، إذ الفرع يحصل على وصف الأصل والملك المستند ناقص فلا ينعدم به الخبث. . ([38])

اگر کسی نے غلام چھین لیا کسی سے اور پھر اسے منافع بخش کاموں میں استعمال کیا اور اسی وجہ سے اس کی قیمت میں کمی آئی تو اس نقصان کا ذمے دار غاصب ہوگا اور جو منافع حاصل ہوا وہ غاصب صدقہ کرے گا اور یہ حضرات طرفین کا قول ہے جبکہ حضرت امام ابو یوسف ؒ کی رائے یہ ہے کہ حاصل شدہ منافع کا صدقہ کرنا ضروری نہیں۔اور یہی اختلاف اس وقت بھی ہے جب کوئی عاریۃً لینے والی چیز کو اجرت پر دے۔امام ابو یوسف ؒ کی رائے یہ ہے کہ ضمان اور ملکیت دونوں اس صورت میں غاصب کے ہیں اس لیے اس سے حاصل ہونے والے منافع بھی غاصب کے ہونے چاہییں۔ ضمان تو اس لیے کہ اگر مال مغصوب ہلاک ہوجاتا تو اس کی ذمے داری بہر صورت غاصب پر آتی اور ملکیت تو اس لیے ہے کہ احناف رحمہم اللہ کے ہاں یہ قاعدہ متفقہ ہے کہ مضمونات میں ضمان کی ادائیگی کی صورت میں ملکیت سابقہ وقت کی طرف منسوب ہوتی ہے۔جس کو استناد کہا جاتا ہے۔حضرات طرفین رحمہم اللہ کی رائے یہ ہے کہ ملکیت اگرچہ غاصب کی ہو جاتی ہے تاہم اس ملک کے لیے سبب خبیث ہے اور اسی طرح سے جو بھی ملکیت ثابت ہوجائے اس کا طریقہ تصدق ہی ہے کیونکہ فرع اصل ہی کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے اور ملکیت بھی اس میں کامل نہیں بلکہ ناقص ہے اس لئے اس سے خبث زائل نہیں ہو پاتی۔

تاہم اس مال کی خباثت چونکہ عدم ملک کی وجہ سے ہے اس لیے اگر غصب شدہ چیز غاصب سے ضائع ہو جائے تو حضرات طرفین کے ہاں بھی اس حاصل شدہ کمائی سے اس کا ضمان ادا کیا جاسکتا ہے اس صورت میں اصل مالک کو ادائیگی کی وجہ سے اس مال میں خباثت کا وصف نہیں رہے گا۔

فلو هلك العبد في يد الغاصب حتى ضمنه له أن يستعين بالغلة في أداء الضمان"؛ لأن الخبث لأجل المالك، ولهذا لو أدى إليه يباح له التناول فيزول الخبث بالأداء إليه ([39])

حضرات احناف کے ہاں اس حوالے سے بھی روایات ملتی ہیں کہ غاصب یا تو ان حاصل شدہ منافع کو صدقے کردے اور اگر ان کو اصل مالک کے حوالے کردے تو اس کی بھی گنجائش ہے: مجمع الضمانات میں ہے:

لَوْ أَجَّرَ الْمُرْتَهِنُ الرَّهْنَ مِنْ أَجْنَبِيٍّ بِلَا إجَازَةِ الرَّاهِنِ فَالْغَلَّةُ لِلْمُرْتَهِنِ،وَيَتَصَدَّقُ بِهَا عِنْدَ الْإِمَامِ وَمُحَمَّدٍ كَالْغَاصِبِ يَتَصَدَّقُ بِالْغَلَّةِ أَوْ يَرُدُّهَا عَلَى الْمَالِكِ۔ ([40])

اگر مرتہن مرہون کو راہن کی اجازات کے بغیر اجارےپر دے تو اس کا نفع مرتہن کاہو گا (امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے ہاں) اور طرفین کے ہاں اس کا صدقہ کرنا ضروری ہے اس کی مثال غاصب کی طرح ہے کہ اس کے لیے بھی منافع کا صدقہ کرنا ضروری ہے یا یہ کہ وہ ان منافع کو مالک کے واپس کردے۔

اسی تخییر کے حوالے سے علامہ زیلعی نے بھی تصریح کی ہے کہ غاصب کے لیے ان منافع کو جس طرح صدقہ کرنے کا اختیار ہے اسی طرح وہ ان منافع کو اصل مالک کو بھی لوٹا سکتا ہے۔کیونکہ اس میں خباثت ناقص ملکیت کی وجہ سے آئی تھی جو مالک کی ملک میں نہیں ہے۔([41])

لیکن ان صورتوں سے وہ صورت مستثنیٰ ہے کہ جہاں غاصب نے شئی مغصوب میں ایسی زیادتی کی ہو جو متصل ہوں اور اس کی وجہ سے شئی مغصوب کی ہیئت بدل گئی ہو کہ اس صورت میں تصدق کا حکم استحبابی ہے۔([42])

غاصب کا مال مغصوب کے منافع کا استعمال

اگرچہ اس بات پر تمام فقہا متفق ہیں کہ اگر مال حرام کا اصل مالک معلوم ہو اور یہ مال کسی ناجائز کام کے بدلے میں حاصل نہ کیاگیا ہو تو اس صورت میں اصل مالک کو ان کا پہنچانا ضروری ہے اور اگر اصل مالک یا اس کے ورثا کا علم نہ ہو تو اس صورت میں اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ ان اموال کو اصل مالک کی طرف سے صدقہ کیا جائے سوائے اس صورت کے کہ جس میں خود یہ شخص مستحق ہو تو بقدر ضرورت اس کو اپنے استعمال میں صرف کرسکتا ہے۔ ([43])

اب اگر ان اموال کو کسی نے تجارت وغیرہ میں استعمال کرلیا تو اس صورت میں حضرت امام ابو یوسف ؒ کے ہاں ان اموال کے منافع کا استعمال خود غاصب کے لیے جائز ہے لیکن حضرات طرفین کی رائے اس میں مختلف ہے۔ ان کے نزدیک یا تو غاصب اس مال کو صدقہ کردے یا ان اموال کو اصل مالک کو واپس کردے۔ لیکن کیا ان حضرات کے ہاں کوئی ایسی صورت ہے کہ جس میں ان اموال کو یہ شخص اپنے استعمال میں لا سکتا ہے یا نہیں؟

اگرچہ قیاس کے اعتبار سے اس بات کی گنجائش معلوم ہوتی ہے کہ جہاں اصل مالک معلوم نہ ہو تو اس صورت میں اگر یہ شخص خود مستحق ہو تو محققین علمانے ایسے شخص کو ان اموال سے استفادہ کرنے کی گنجائش دی ہے تو اس بات کی بھی گنجائش بظاہر گنجائش ہونی چاہیے کہ اگر یہ شخص مستحق ہو تو اس مال کے منافعےسے اپنے اور اپنے اہل و عیال کے اوپر بقدر ضرورت خرچ کرلے۔

بلکہ علامہ سرخسی ؒ نے اس شخص کو فقراسے مقدم قرار دیا ہے اور اس کا حکم لقطہ کے حکم کی طرح کا قرار دیا ہے کہ جیسے وہاں پر غنی کیے اس کا تصدق لازم ہے اور مستحق کے لیے اس کے استعمال کی گنجائش ہے اسی طرح اس مسئلے میں بھی اس کی گنجائش ہے۔ فرماتے ہیں:

وحاجته تقدم علی حق الفقراء وانما قلنا ذالک لان حق الفقراء فی هذا المال بمنزلة حقهم فی اللقطة علی معنی ان له ان یتصدق وله ان یردها علی المالک ان شاء([44])

اور لقطہ کے بارے میں یہ بھی منقول ہے کہ امام کی اجازت سے بطور قرض لقطہ کے اموال کو غنی بھی استعمال کرسکتا ہے۔جیسا کہ اموال بیت المال میں امام کو تصرف کا حق حاصل ہوتا ہے اسی طرح وہ ان اموال میں سے کسی غنی کو بھی بطور قرض ان اموال کے استعمال کی اجازت سے سکتے ہیں۔

عصر حاضر مین غنی کے لیے اس طرح کے اموال کی بطور قرض استعمال کی اجازت کے بارے میں مفتی محمد تقی عثمانی تحریر فرماتے ہیں کہ چونکہ اس طرح کے مسائل آج کل حکمرانوں کے سامنے پیش نہیں کیے جاتے اس لیےاس طرح کے مسائل میں اگر کسی راسخ فی العلم متقی مفتی کسی شخص کو اس طرح کے اموال کو بطور قرض استعمال کی اجازت دے تو اس کی بھی گنجائش ہونی چاہیے۔([45])

خلاصۃ البحث

احناف کےمتاخرین اہلِ فتویٰ حضرات سےاس حوالے سے مختلف اقوال منقول ہیں جیسے فتاویٰ فریدیہ میں مال ِحرام سے کمائے گئے منافع کو علی الاطلاق کمانےو الے کے لیے جائز کہاگیاہے۔([46]) جبکہ کچھ اہل فتوی نے حرام مال سے کمائے جانے والے اموال کو قابل تصدق اموال قرار دیتے ہوئے کمانے والے کے لیے اس کو جائز قرار نہیں دیا سوائے اس صورت کے جب وہ خودمستحق ہو۔([47])

اسی طرح کچھ اہل افتا حضرات کی رائے یہ ہے کہ کسبِ حرام کے ذرائع دو طرح کے ہیں۔ ایک تو وہ ذرائع ہیں جن کی بنیاد ہی حرام ہے مثلاً کسب مغنیہ، یا سود کی کمائی یا کہانت سے حاصل کی گئی کمائی تو ان اشیا سے حاصل کی گئی کمائی اس کمائی اور اس کے منافع کو بھی منجز ہوتی ہے۔مثلا کتے (غیر معلم )کی ذات میں خباثت موجود ہے۔ اگر اسے بیچ دیا جائے تو اس سے حاصل ہونے والی رقم بھی حرام اور خبیث ہوگی۔ شراب حرام ہے، اس کے بیچ دینے کے بعد رقم کا استعمال بھی ناجائز ہے ۔ اشیائے محرمہ مسلمان کی ملکیت میں داخل نہیں ہوتیں اسی طرح ان اشیا کا حاصل و منافع بھی مسلمان کی ملکیت میں داخل نہیں ہوتا ۔اسی طرح اگر کسی نے سودی رقم سےجائیداد بنائی، عمارتیں تعمیر کی ہوں یا کوئی بھی کاروبار کیا ہو وہ سب کا سب حرام ہے اس کے حاصل و منافع میں خباثت بدستور قائم ہے۔یہ رائے رکھنے والے حضرات یہ بھی فرماتے ہیں ایسا کہنا بھی درست نہیں کہ حرام کمائی سے جو جائیدادیں بنائی گئیں خریداری یا بناتے ہوئے اس میں جو حرام رقم یا سودی رقم خرچ ہوئی تھیں وہ صدقہ کرنے سے وہ جائیداد پاک یا حلال نہیں ہوں گی۔اِن کی رائے یہ ہے کہ ایسا صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے جہاں پر مال مخلوط یا مال مغصوب ہو اور اصالتا ان میں حرمت کی کوئی وجہ نہ ہو بلکہ سبب حرام یا سبب مجاورت کی وجہ سے ان میں حرمت آئی ہو۔ اور اگر وہ سبب زائل ہو جائے تو اس مال میں فی نفسہٖ حرمت کی کوئی اور وجہ نہ ہو تو اس وقت یہی حکم ہوگا کہ اس صورت میں غاصب کے ضمان کی ادائیگی کی بعد ان منافع اور اموال کی ملکیت غاصب کے حق میں ثابت ہو جائے گی۔جبکہ سود یا وہ ذرائع جو اصالتا حرام ہوں ان میں حرمت کی تجزی کا حکم ہے کہ جو کمائی ان کی فروخت سے حاصل ہو وہ بھی ناجائز اور حرام ہے۔ان میں حلت کسی بھی صورت نہیں آسکتی۔([48]) ان حضرات کی رائے کے مطابق سودی رقم سے بنائی گئی جائیداد یا کاروبار یا لین دین سے حاصل کیا گیا نفع کی حیثیت سود ہی کی طرح ہے اور شریعت میں سود کاجو حکم ہے وہ ان اموال اور منافع و جائیداد پر بھی جاری ہوگا۔تاہم ضرورت کے وقت یہ حضرات بھی اس مال کو حرام سمجھتے ہوئے اس کے سب کے لیے استعمال کی گنجائش کے قائل ہیں۔([49])

اسی طرح کچھ اہل ِفتویٰ کی رائے سود اور اور کمائے گئے اموال حرام کے حوالے سے حلّت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ان اموال کے منافع جو حلال ذرائع سے حاصل کیے گئے ہوں ان کا استعمال کمانے والے شخص کے لیے جائز ہے جبکہ اموال مغصوبہ کے حوالے سے ان کی رائے ضمان کی ہے کہ اصل مالک کو منافع کی قیمت کی واپسی ضروری ہوگی بھلے اس چیز کو کمائی کے لیے بنایا گیا ہو یا نہ بنایا گیا ہو۔([50])

تجاویز وسفارشات

ان اقوال کی بنیاد اس حوالے سے نقل ہونے والی مختلف روایات احناف ہیں جن میں سے ہر ایک نے انھی اقوال کو بطور دلیل لیاتاہم اس حوالے سے عصر حاضر میں معاشرتی وجوہات کی بنا پر درج ذیل سفارشات اہل علم کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں:

۱۔اموال مغصوبہ اور چوری کے اموال کے علاوہ سود وغیرہ کی کمائی کی صورت میں بہتر یہی ہے کہ اصل سود اور اس سے ہونے والی کمائی کو صدقہ کیا جائے اور اس کو اپنے استعمال میں نہ لایا جائے تاکہ اموال خبیثہ سے بچا جا سکے۔

۲۔اگر اس صورت میں یہ خود مستحق ہو تو بقدر ضرورت ان اموال سے نفع سے فائدہ اٹھانے کی گنجائش ہے۔لیکن اس کے لیے پہلے اصل مال (سود )صدقہ کردے۔

۳۔ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اصل رقم صدقہ کرنے کے ساتھ ساتھ غالب اندازے کے مطابق اب تک حاصل ہونے والے نفع کو بھی صدقہ کردیا جائے۔

۴۔ اگر اس میں حرج ہوتو پھر صرف اصل رقم صدقہ کرنے کی گنجائش ہونی چاہیے جیسا کہ بعض اہل علم کی رائے ہے۔لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اصل مال کو صدقہ کرلیا گیا ہو ۔

5۔اموال مغصوبہ یا چوری شدہ اموال کی صورت میں اگر ان اشیا سے نفع کمایا گیا ہو تو اصل مالک کو کسی نہ کسی حد تک منافع کی ادائیگی کی صورت کے تعین کے لیے اہل علم حضرات کو حضرت امام شافعیؒ،حضرت امام ابن تیمیہ ؒ اور حضرات طرفین کے ایک قول کہ جس میں انھوں نے اموال مغصوبہ کے منافع کو اصل مالک کو دینے کا فرمایا ہے، پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔([51]) تاکہ عصر حاضر میں لوگ اس طرح کے امور سے بچے رہیں اور لوگوں کے اموال محفوظ رہیں۔

 

حوالہ جات

  1. ()البقرہ: ۱۶۸
  2. () الانفال: ۶۹
  3. () النحل: ۱۱۴
  4. ()   الجمعہ: ۱۰
  5. ()صحيح البخاری، باب فضل النفقة في سبيل الله،حديث نمبر2687
  6. ()سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، علامہ ناصر الدین، الالبانی،مكتبہ المعارف للنشر والتوزيع،رياض، ج۲ ،ص ۱۶۰
  7. ()النسا: ۲۹
  8. ()البقرہ:۱۸۸
  9. ()البقرۃ : ۲۷۵
  10. () البقرۃ :279
  11. () النسا: ۱۰
  12. () صحیح البخاري: بَابُ مَنْ شَاقَّ شَقَّ اللَّهُ عَلَيْهِ،حدیث نمبر۷۱۵۲
  13. ()سنن نسائی ،باب الْحَثُّ عَلَى تَرْكِ الشُّبُهَاتِ،حدیث نمبر۶۷۱۱
  14. () صحیح بخاری ،باب الحَلاَلُ بَيِّنٌ،وَالحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ،حدیث نمبر۲۰۵۱
  15. ()لسان العرب، ابن منظور افریقی، محمد ابن مکرم، ،طبع سوم،سن1414ھ ، دار صادر، بيروت ،ج 12، ص 120 ۔121
  16. () المنھیات الشرعیہ فی کتاب رب البریہ ،بسیونی عبدالسلام،دارالقلم للطباعۃ والنشروالتوزیع،بیروت،لبنان ج۱، ص۱۵۵
  17. ()ا لفروق ،القرافی، شہاب الدین احمد، عالم الكتب ،بيروت ،بدون طبع وبدون تاريخ ،ج۳،ص۹۶
  18. () الفتاوى الكبرى ٰ،تقي الدين ، أحمد بن عبد الحليم ، دار الكتب العلمية ،ج۴، ص ۲۱۰
  19. () مجموع الفتاوى: تقي الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم بن تيمیہ الحرانی، مجمع الملك فهد لطباعۃالمصحف الشر يف، المدينہ النبويہ،المملكہ العربيہ السعوديہ1995ء،ج۲۸،ص۳۰۵
  20. () الفقہ الاسلامی وادلتہ ،دکتور وھبہ الزحیلی،دار الفكر،شام،دمشق،طبع چہارم،ج۱۰، ص ۷۹۴۵
  21. () ايضاً
  22. () القواعد،الزرکشی،دارلكتب العلميہ،بیروت،سن ۲۰۰۰ء، ج۲،ص۲۴۵
  23. () الفتاوی الہندیہ ، لجنۃ علماء برئاسۃ نظام الدین البلخی،طبع دوم ، 1310ھ دارلفکر بیروت،ج۲،ص۲۳۴
  24. () ذاد المعاد فی ھدی خیرالعباد، ابن قیم،محمد ابن ابی بکر، طبع۲۷ ،۱۹۹۴،مئوسسۃ الرسالۃ بیروت، ج۵،ص۷۷۸
  25. () الاختیار لتعلیل المختار،لابن مودود، طبع دوم،1937ء، دار الكتب العلميۃ بيروت ج۳،ص۶۱
  26. ()الانصاف ،فی معرفۃ الراجح من الخلاف، ابوالحسن علی بن سلیمان المرداوی،طبع دوم،داراحیاءالتراث العربی بیروت ج۶، ص ۲۰۸
  27. ()کشاف القناع، منصور بن يونس بن إدريس البہوتى الحنبلی، دار الكتب العلميہ ،ج۴، ص ۱۱۳
  28. ()السیل الجرارمحمد بن علی الشوکانی،دارابن حزم ،بیروت،ج۳، ص ۱۱۳
  29. ()بدایۃ المجتھد، أبو الوليد محمد بن أحمد بن محمد بن أحمد بن رشد القرطبي الشهير بابن رشد،دارالحديث القاہرة، بدون طبع،2004ء، ج۲،ص۲۴۱
  30. ()روضۃ الظالبین، المكتب الإسلامي، بيروت- دمشق- عمان، طبع سوم،1991ء، ج۴ ص ۲۱۱
  31. ()سنن ترمذی ، ابو عیسی محمد ابن عیسی ، بَابُ مَا جَاءَ فِيمَنْ يَشْتَرِي العَبْدَ وَيَسْتَغِلُّهُ ثُمَّ يَجِدُ بِهِ عَيْبًا ،حدیث نمبر۱۲۸۵،ج۳، ص ۵۸۲
  32. () https://fatwa.islamonline.net/11242 dated : December 10,2018.
  33. () احکام المال الحرام ،دکتور عباس احمد محمد الباز، دارالنفائس للنشروالتوزیع ،ص ۳۷۹
  34. ()مجموع الفتاوى، ابن تیمیہ ج۳۰ ص ۳۲۲ تا۳۳۰
  35. ()موطا امام مالک ،باب ماجاء فی القراض،حدیث نمبر ۱۱۹۵
  36. () المصدر السابق ج۳۰،ص ۳۷۸
  37. ()موسوعۃ الفقہ الاسلامی ،محمد ابن ابراہیم التویجری، بيت الأفكار الدوليہ ،بیروت،طبع اول،۲۰۰۹ء، ص ۱۷۱ ا
  38. () الہدایہ فی شرح بدايۃ المبتدی : أبو الحسن برهان الدين، علی بن أبی بكر الفرغانی المرغينانی، طبع وسن ندارد، داراحيا التراث العرب، بيروت، لبنان ،ج۴،ص۲۹۸
  39. ()محولہ بالا
  40. ()مجمع الضمانات فی مذہب الامام ابی حنیفہ، محمد غانم ابن محمد البغدادی ،دارالکتاب الاسلامی ،طبع اول،۱۹۹۹ء،ج۱،ص ۱۰۹
  41. ()تبیین الحقائق،عثمان بن علی فخر الدين الزيلعی ، المطبعۃ الكبرى الأميريہ - بولاق، قاہرہ ،طبع اول، ۱۳۱۳ھ، ج۵،ص۲۲۵
  42. () فقہ البیوع ،محمد تقی عثمانی،مکتبہ معارف القران کراچی،طبع اول ،۲۰۱۵ء،ج۲ ص ۱۰۴۵
  43. () الاختیار لتعلیل المختار، ابن مودود، ج۳،ص۶۱
  44. ()المبسوط، محمد بن أحمد بن أبی سهل شمس الأئمۃ السرخسی ،بدون طبع،۱۹۹۳ءدار المعرفۃ،بيروت ،ج۱۱،ص۷۷
  45. ()فقہ البیوع، محمد تقی العثمانی ،ج۲،ص ۱۰۵۲
  46. ()فتاوی فریدیہ ،مفتی محمدفرید،طبع سوم ۲۰۰۹ء،دارالعلوم صدیقیہ صوابی پاکستان،ج۷ ص ۲۵۵، منتخبات نظام الفتاوی،مفتی نظام الدین اعظمی ،ایبا پبلی کیشنز،نیودہلی،انڈیا،طبع اول مارچ ۲۰۱۳،ج۱، ص ۳۲۲
  47. ()http://www.scsguide.com/index.php/shares-and-investment/189-prize-bond- اور احسن الفتاوی،مفتی رشید احمد،ج۸،ص۱۰۳)money-was-earned-by-business-profit-is-forbidden
  48. ()فتاوی بینات،مجلس دعوت وتحقیق اسلامی ،جامعہ بنوری ٹاون کراچی،۲۰۰۶ء، ج۴ ،ص ۷۶ تا ۸۵
  49. ()حوالہ بالا
  50. ()فتاوی دارالعلوم زکریا، مفتی رضاء الحق، زمزم پبلشرز،اردوبازارکراچی،،۲۰۰۷ء،ج۶،ص ۹۹ تا ۱۱۰
  51. ()درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام، علی حیدر،دارعالم الکتب بیروت،۲۰۱۵،ج۶، ص ۵۸۵،المادہ ۵۹۶
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...