Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 33 Issue 1 of Al-Tafseer

معاشرتی زندگی میں قوانین اسلام کی اہمیت و افادیت |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

33

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060084478_1154

Pages

152-164

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/85

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

 

دنیا میں ملکی نظام کو چلانے کے لیے مختلف نظریات کے تحت قوانین بنائے گئے اور ان کے اجرا و نفاذ کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے گئے لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا ،کسی کی جان ، مال اور عزت و آبرو نہ پہلے محفوظ تھی اور نہ اب ہے ۔ اس بارے میں غوروفکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ چوں کہ یہ قوانین انسانی ذہن کی اختراع ہیں،اس لیے آئے دن ان میں کوئی نہ کوئی تبدیلی سامنے آتی رہتی ہے جس سے مسائل مزید پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔

جب کہ اسلامی قوانین چوں کہ مُنزّل من اللہ ہیں اس لیے انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں اور ان پر عمل کرکے ہی سارے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔

انسان کے مدنی الطبع ہونے کی وجہ سے معاشرے سے اس کاتعلق لازمی ہے ۔ تجرد، انفرادیت، اور رہبانیت شرعاً اور عقلاً ہر لحاظ سے قبیح سمجھی جاتی ہے ۔ انسان کائنات ِ عالم کی خوب صورتی اور زینت ہے۔ یہ خوب صورتی ایک اچھے معاشرے کی صورت میں باقی رہے گی۔انسان کی ضروریات اورحوائج کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان اپنی جملہ ضروریات بذات خود پورا نہیں کر سکتا بلکہ معاشرے میں رہ کر ایک دوسرے سے فائدے اور استفادے کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔

انسانی زندگی کے سنوارنے کے لیے اس ضابطۂ حیات کا دوسرا نام ’’قانون‘‘اور’’آئین‘‘ہے۔ علمائے قانون کی نظر میں اس کی جامع تعریف یوں کی گئی ہے:

’’قانون ایسے مجموعے کا نام ہے جس میں مروّجہ،مسلمہ،سماجی،معاشی،تہذیبی اورسیاسی قدروں کا تحفظ کیا جائے۔‘‘

قانون کی ضرورت

اسلام کی نظر میں انسان قانون اور ضابطے کا پابند ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: الدنیا سجن المومن([1]) ”دنیامسلمان کے لیے ایک جیل خانہ ہے“جہاں اس کی ہر ایک حرکت قانون اور ضابطے کے تحت ہو گی ۔ مذہب کے لحاظ سے یہ پابندی لازمی امر ہے ۔ آج کے نام نہاد جمہوریت پسند اور حریت پسند لوگ بھی قانون کے بغیر ایک قدم نہیں چل سکتے، ان کے ہاں بھی قانون کی پابندی لازمی امر ہے ، اگرچہ زبان پر آزادی کا خوش نما نعرہ ہر وقت دھوکہ دینے کے لیے جاری رہتا ہے لیکن ان کی آزادی کی حقیقت صرف اورصرف مذہب اور عقیدے سے آزادی سے عبارت ہے ۔ آج اگر یورپی ممالک کی مثال لی جائے تو وہاں پرقانون کی ضرورت سب سے زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔ مثلاً لاکھوں لوگ مغربی ممالک میں رہائش چاہتے ہیں لیکن قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے وہاں رہائش نہیں رکھ سکتے، اس لیے کہ ان کا بنایا ہواقانون ہی ان لاکھوں افراد کی خواہشات کی تکمیل کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔ اگر انسانی خواہشات کو پابند رکھنا جرم ہے،تو پھر سب سے بڑے مجرم آج کے ترقی یافتہ ممالک ہیں جنھوں نے غریب ممالک کے لوگوں پراپنے ملک کے دروازے بند کر دیے ہیں ۔ ان ممالک میں تاجر و مالک، کارخانہ دار اور مزدور کے درمیان تعلقات بنانے کا واحد ذریعہ قانون سمجھا جاتا ہے ، جب ترقی یافتہ ممالک کی کشتی قانون کے بغیر نہیں چل سکتی تو ترقی پذیر ممالک میں قانون کی ضرورت اس سے بھی زیادہ ہونی چاہیے۔

قانون کی قسمیں

تاریخ کے مطالعے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسانی معاشرے کی اصلاح کے لیے دو قسم کے قوانین وضع ہوئے ۔ پہلی قسم کا قانون وہ ہے جو انسان نے خود اپنے لیے بنایا ، مقنن خود بھی اس کا پابند رہا ، اس قانون میں عموماً وقت اور حالات کی رعایت ہوتی رہی اور مقنن معاشرے کے حالات کو مدنظر رکھ کر قانون مرتب کرتا رہا۔جب حالات کی تبدیلی ایک لازمی امر تھا تو اس قانون میں بھی ترمیم و اضافے روزمرہ کا ایک معمول بن گیا۔ قانون کی اس قسم کو ہم ’’ انسانی قانون‘‘ سے تعبیر کر تے ہیں کیوں کہ اس کا بنانے والا خود انسان ہوتا ہے اور یہ انسانی دماغ کااثر ہے۔

دوسری قسم کا قانون وہ ہے جس کو بنانے والی بالائی طاقت رہی ،یعنی مقنن نے اپنی ضروریات کے لیے نہیں بلکہ دوسروں کی ضروریات کے لیے قانون وضع کیا ، اس میں وقتی مصلحت یا حالات کی ضرورت کی رعایت نہیں رکھی گئی بلکہ ابدی ضرورت کو مدنظر رکھ کر قانون بنایا گیا اس لیے وقت اور ضرورت کی تبدیلی سے اس کی قانونی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑا،یہ عمر بھر کے لیے قابل عمل رہا ، اس قانون کو ’’ رحمانی قانون‘‘ کہا جاتا ہے۔

انسانی قانون کی حقیقت

آج قانون کالفظ بول کر معاشرے میں اس سے اوّل الذکر قانون مراد لیا جاتا ہے ، بلکہ بعض لوگ جو ذہنی جمود کا شکار ہوئے ہیں، ان کے نزدیک قانون صرف انسانی قانون سے عبارت ہے۔ مذہب یا عقیدے کا قانون سے کوئی رشتہ نہیں ، ان لوگوں کے نزدیک قانون اجتماعی زندگی کا محافظ ہے جب کہ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے ۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ قانون ایک انسان کے دوسرے انسان سے تعلقات کا تعین کرتا ہے جب کہ مذہب اللہ اور انسان کے تعلقات کا تعین کرتا ہے ۔ یہ رائے حقیقت اور واقعات سے صریحاً متصادم ہے لہٰذا ایسی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ، تاہم اس سے بھی انکار نہیں کہ انسانی قانون نے کچھ اچھے ثمرات بھی دکھائے ہیں لیکن وَ اِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا ([2]) یعنی ثمرات سے مُضرّات زیادہ ہیں ۔ قانون کی یہ شکل ہر دور میں مختلف رہی ہے ۔ زمانۂ قدیم میں قانون امیر یا خاندانی سربراہ کی زبان سے نکلی ہوئی بات ہوتی تھی، خاندانی سربراہ جو قاعدہ یا ضابطہ مقرر کرتا اسے قانون کا درجہ حاصل ہوتا ، کسی کو اس سے مخالفت کی جرأت نہ ہوتی اور خلاف ورزی کی صورت میں بڑی شدت سے اس کا محاسبہ کیا جاتا۔

رحمانی قانون کی حقیقت

قانون کی دوسری قسم یعنی ’’ رحمانی قانون‘‘ کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدمؑ کو جنت سے اتارکر زمین پر بھیجا تو اس وقت حضرت آدمؑ سے فرمایا: فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًی ([3]) ”یعنی میری طرف سے تمھارے پاس ہدایت نامہ اور ضابطۂ حیات آئے گا ، اور یہ کہ تیری اولاد کے لیے اس کی اتباع ضروری ہو گی۔‘‘

انسانی ہدایت کی یہ حقیقت دوسری جگہ یوں بیان کی گئی ہے کہ : یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْكُمْ ([4])اے اولاد آدم تمھارے پاس میرے رسول آئیں گے جو میری آیتیں بیان کریں گے۔‘‘

ان دونوں آیتوں کو ملا کر پڑھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کے لیے ضابطۂ حیات کے تقرر اور تعین کے لیے دوراہیں متعین کیں۔ ایک راہ ’’ ہدٰی‘‘ یعنی ہدایت اور دوسری راہ ’’ رسول‘‘ ہے ۔ گویا رحمانی قانون کے ماخذ اور مراجع اصولی طور پر یہ دونوں ٹھہرائے گئے ۔

رحمانی قانون کے ماخذ

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ اللہ تعالی نے انسانی ہدایت کے لیے کتنی کتابیں نازل کیں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک سو چار کتابیں اللہ تعالیٰ نے نازل کی ہیں ، دس صحائف حضرت آدمؑ پر ، پچاس صحائف شیثؑ پر، تیس صحائف حضرت ادریسؑ پر اور دس صحائف حضرت ابراہیمؑ پر اتارے اور چار بڑی کتابیں تورات، انجیل، زبور اور قرآن مجید نازل کیں۔

یہ ایک سو چار کتابیں حقیقت میں رحمانی قانون کے مختلف ایڈیشن اور نسخ ہیں ، پھر قانون کا یہ اہم کام ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء ؑ سے لیا گیا۔ گویا ماضی میں یہ دو راہیں یعنی’’ ہدی‘‘ اور’’ رسول‘‘ متعین تھیں ، لیکن جب رحمانی قانون کا آخری کامل اور مکمل نسخہ قرآن کی شکل میں خاتم الرسل حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا تو آئندہ کے لیے سلسلۂ نبوت ختم کرکے اللہ تعالی نے ان دونوں طریقوں کے ساتھ دوسرے دو طریقے اور بھی شامل کیے ، جن کو ’’ اجماع امت‘‘ اور ’’ قیاس‘‘ کہا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَی اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ ([5])

’’ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی پیروی کر و ار اولیٰ الامر کی پیروی کرو اور اگر کسی چیز میں جھگڑا پڑے تو اللہ اور رسول ﷺ کے احکام کی طرف رجوع کرو۔‘‘

اس آیت میں رحمانی ہدایت کے ماخذ اربعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اسلامی قانون او ر رحمانی ہدایت کے چار ماخذ ہیں ۔ اَطِیْعُوا اللّٰهَ سے کتاب اللہ ،سے سنت الرسول، اُولِی الْاَمْرِ سے اجماع اور فَرُدُّوْهُ اِلَی اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ سے قیاس کی طرف اشارہ ہے۔

گویا اسلامی قانون کبھی آدمؑ کی شکل میں آیا کبھی شیثؑ کے پچاس صحیفوں میں آیا، کبھی ادریسؑ اور صحف ادریسؑ کی شکل میں ، کبھی ابراہیم ؑ اور صحفِ ابراہیمؑ کی شکل میں وضع ہوا ، کبھی داؤد ؑ اور زبور ، کبھی موسیٰؑ اور توریت اور کبھی عیسیٰؑ اور انجیل کی شکل میں آیا اور آخری ناقابل ترمیم مسودہ ’’ قرآن‘‘ کی شکل میں اترا جس کی تفصیل سنتِ رسولﷺ ، اجماع ِ امت اور قیاس سے کرائی گئی۔

اسلامی قانون کے اہم شعبے

اگرچہ قانون کےاہم شعبوں یعنی ’’ دستوری قانون‘‘(Constitutional Law)’’انتظامی قانون‘‘ (Administrative Law)اور ’’ خارجہ پالیسی‘‘ کا پوراتذکرہ قرآن و حدیث میں موجود ہے اور عملی تجربہ خلفائے راشدین کے دور خلافت میں نمایاں ہے ۔ دستوری قانون اور انتظامی قانون اظہر من الشمس ہیں کہ ہمارا دستور قرآن وسنت ہے اور اس میں ہر ایک کے اختیارات محدو د ہیں، اور خارجہ پالیسی بھی واضح ہے کہ تعلقات جوڑنے اور توڑنے کے لیے اسلام ہی کو بنیاد ی سبب قرار دیا گیا ہے تاہم غیر مسلم ممالک سے معاملات اور تعلقات رکھنے میں رخصت دے کر تمام دنیا سے خارجی پالیسی بنانے کی اجازت دی ہے لیکن دوستی کا ہاتھ صرف اسلامی ممالک کے ساتھ بڑھایا جائے گا۔

موجودہ وقت میں بین الاقوامی یا ملکی قوانین کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ قانون کے دو شعبے بہت اہم سمجھے جاتے ہیں ۔ رعیت کی خوش حالی و ترقی اور امن و امان کا مسئلہ ان دونوں شعبوں سے تعلق رکھتا ہے جس میں پہلا شعبہ شخصی قانون (Personal Law) اور دوسرا شعبہ ملکی قوانین (Public Law)ہے ۔ ہم پوری تفصیل بیان کیے بغیر ان دونو ں شعبوں کا ایک طائرانہ جائزہ لیتے ہیں تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ انسانی معاشرے کی خوش حالی کا راز صرف اسلامی قانون کی صحیح اور مکمل پیروی میں مضمر ہے۔

اسلام کا شخصی قانون

شخصی قانون کا تعلق عموماً فرد اور خاندان سے ہوتا ہے ۔ اسلام میں فرد کی اصلاح کے لیے تین چیزیں خصوصی طور پر بیان کی گئی ہیں جو نماز ، روزہ، اور حج ہیں ان تینوں عبادات سے نفس کی اصلاح ہوتی ہے،مفسرین ان تینوں کو امور مصلحہ للنفس سے تعبیرکرتے ہیں ۔ ان تینوں عبادات میں باقاعدگی سے انسان میں اتباع قانون ،ایثار اور ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ حدیث اور فقہ کی کتابوں میں ان کا تذکرہ ابتدا میں ہوتا رہتا ہے۔

ان تینوں امور کے بعد گھرانے اور خاندان کے جوڑنے کے لیے نکاح،مہر،نفقہ،حضانت،طلاق کی دفعات کتاب النکاح میں بیان ہوتی ہیں تاکہ اس سے انسان ایک خوش حال گھرانے میں زندگی بسرکرسکے اور طلاق کے قانون کی سہولت بھی دی گئی تاکہ بصورت ناچاقی خلاصی ممکن ہو ۔ گزر اوقات کے لیے اسبابِ مِلک میں بیع اورشراء( خرید و فروخت) وصیت،ہبہ،شفعہ،وراثت کی جائیداد پر ناجائز قبضہ جمانے کا موقع نہ مل سکے،وفات کی صورت میں میت کی جائیداد میں زور آزمائی، ظلم و ستم اور زیادتی سے بچنے کے لیے وراثت کا عظیم قانون موجود ہے۔

اسلام کا ملکی قانون

(Public Law)میں چند چیزوں کی رعایت ضروری سمجھی جاتی ہے اور ان چیزوں کی حفاظت کو قانون میں بنیادی اہمیت حاصل ہے او وہ مندرجہ ذیل ہیں : ۱۔ حفاظتِ نفس ۲۔ حفاظتِ نسب ۳۔ حفاظت ِ مذہب ۴۔ حفاظتِ مال ۵۔ حفاظتِ عمل ۶۔ حفاظتِ عزت … اسلامی قانون میں بحمد اللہ ان چھے چیزوں کو جو تحفظ حاصل ہے وہ کسی دوسرے نظام میں میسر نہیں۔

۱۔حفاظتِ نفس

حفاظتِ نفس کے لیے قرآن کریم نے دو ٹوٹ اعلان کیا : كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی([6]) اس سے قصاص کا منصفانہ قانون نافذ ہوا تاکہ کسی شخص کا خون رائیگاں نہ گرنے پائے۔ یہاں تک کہ دوسرے امو ر میں خطا کو اللہ تعالی نے معاف فرمایا، یعنی حقوق اللہ میں اگر غلطی ہو جائے تو اللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا اشاد گرامی ہے کہ: رفع عن امتی الخطاء و النسیان۔([7]) یعنی میری امت کی خطا اور بھول معاف ہے۔

لیکن انسانی قتل میں خطا کی صورت میں کفارہ اور دیت واجب قرار دی ، پھر بھی اگر قاتل کا علم نہ ہو سکے تو پھر محلے والوں کے لیے ’’ قسامت‘‘ کا قانون نافذ کرکے دیت کی وصولی کے لیے عام اہل محلہ کو ذمےدار ٹھہرایا گیا۔ انسانی نفس تو کیا انسان کے ہاتھ کی چھوٹی انگلی کے ایک ایک پور کی حفاظت کی گئی کہ ایک پور کے بدلے میں ۳/۱ حصہ دیت واجب ہو گی۔

۲۔ حفاظتِ نسب

آج آپ ترقی یافتہ ممالک کی حالت دیکھیں کہ وہ جنسی خواہشات کے غلام بن گئے ہیں جس کی وجہ سے وہاں کا نسب محفوظ نہیں ہے۔اسلام نے نسب کی حفاظت اس انداز میں کی کہ چند سال قبل ہندستان کی اعلیٰ عدالت نے یہ فیصلہ سنایا کہ ’’ چادر اور چار دیواری کی حفاظت اگرمقصود ہے تو مسلمانوں کے قانونِ رجم اور حَد پر عمل کرنا پڑے گا۔‘‘ … زنا اور حرام کاری کی ممانعت کے علاوہ فساد ِ نسب سے بچنے کے لیے نظر کی حفاظت لازمی قرار دی گئی کہ مسلمان مرد اور عورت کو چاہیے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں ۔ پردے کو لازمی قرار دے کر غیر محرم عورتوں سے خلوت اور ناجائز اختلاط ممنوع قرار دے کر فحش کاری کی بیخ کنی کی گئی ، زنا کا جرم ثابت ہوجانے کی صورت میں شادی شدہ ( مرد اور عورت) کو رجم اور غیر شادی شدہ عورت کو سو سو کوڑے لگانے کا حکم دیا گیا ،ارشاد ِ ربانی ہے:

اَلزَّانِیَةُ وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ([8])

ترجمہ:’’ زناکار مرد اور عورت کو سو سو کوڑے لگادیے جائیں۔‘‘

۳۔ حفاظتِ مذہب

انسان کو عقیدے اور مذہب سے بڑا پیار ہوتا ہے ،اسلام میں ’’ ذمی‘‘ کی حقیقت تسلیم کرنے کے بعد اس کے مذہبی اور اعتقادی مسائل میں دخل اندازی ممنوع قرار دی گئی لیکن اسلام جو کہ ابدی اور ازلی مذہب ہے اس کی مخالفت حدِ ارتداد سے کی گئی کہ: من بدل دینہ فاقتلوہ۔ جس نے دین تبدیل کیا اس کو قتل کر دو۔

۴۔ حفاظتِ مال

مال و دولت کی حفاظت عصر حاضر کا بڑا اہم مسئلہ ہے ، آج دولت ہماری حفاظت نہیں کر سکتی بلکہ ہمیں دولت کی حفاظت کرنی پڑتی ہے اسلا م میں پہلے انسان کو حلال خوری کی ترغیب دے کر اس کے حلال مال کی حفاظت یو ں کی گئی کہ کسی مسلمان کا مال غیر شرعی طریقے سے کھانا حرام ہے یہی وجہ ہے کہ ڈاکا زنی، چوری اور دھوکا دہی کو جرم قرار دیا گیا ، اگر کوئی شخص کسی کے حلال مال پر دست درازی کرے تو اس پر ’’ حد سرقہ‘‘ جاری کی جائے گی ۔ مستقل حکم یہ دیا گیا: السارق والسارقۃ فاقطعو ا ایدیھما ([9]) ”چور مرد اور عورت کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔“

۵۔حفاظتِ عقل

عقل انسان کا وہ جوہر ہے جس کو محفوظ رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ عصر حاضر میں منشیات کی وبا عالمی سطح پر حکومتوں کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔امریکہ سمیت پوری دنیا حیران ہے کہ لاکھوں کروڑوں نوجوان اس مکروہ نشے کا شکار ہو کر بالآخر خود کشی پر کیوں آمادہ ہو جاتے ہیں ۔ لیکن بہ حیثیت مسلمان ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اگر حد شرب خمر کا مطالعہ کرکے صرف ’’ کتاب الاشربۃ‘‘ کے باب کا قانون نافذ کرکے حد شرب کا اجرا کر دیا جائے تو پورے ملک میں ہیروئن کا نشہ کرنے والا ایک آدمی بھی نظر نہیں آئے گا۔ اور عقل کی یہ حفاظت حد شرب الخمر کے اجرا کی صورت میں ممکن ہو سکتی ہے۔

۶۔ حفاظتِ عزت

انسان کاسب سے قیمتی جوہر اس کی عزت ہے ، دنیا کے تقریباً ہر ملک میں ہتک عزت کا قانون ہے لیکن اسلام کی یہ دفعہ سب سے اہم اور نرالی ہے اس میں ایک شخص کسی دوسرے کو زانی یا چور جیسے قبیح الفاظ سے پکار بھی نہیں سکتا ورنہ حدِ قذف کے لیے تیار ہونا پڑے گا۔ اس کے علاوہ ہر وہ کلمہ جس سے ایک مسلمان کی عزت و وقار پر حرف آتا ہو قابلِ مواخذہ جرم قرار دیا گیا ہے۔

ان قوانین میں سے ایک تحکیم کا قانون بھی ہے جس کی ایک مثال آگے ملاحظہ فرمائیے۔

اسلام ایک آفاقی مذہب ہے اور اس میں جاری رہنے والے سارے اصول و ضوابط اور احکام و فرمان سب کے لیے سب انسانوں کے بنانے ہونے یا اختیار کردہ نہیں ہیں ، بلکہ احکم الحاکمین او ر مالک الملک یعنی اللہ رب العزت کی طرف سے نافذ کردہ ہیں ، جن کی پیروی کرنا اور بغیر قیل و قال انھیں قبول کرتے ہوئے ان کے مطابق اپنی زندگی گزارنا اللہ کے بندوں کا فرض ہے اور ان سے منھ موڑنا یا ان میں اپنے مفاد اورسہولت پسندی کی بنا پر کسی بھی طرح کا کتر بیونت اور ایساتغیر و تبدل کرنا جو روح شریعت اور اسلامی ڈھانچوں کے خلاف اور متضاد ہو،وہ گویا رب العالمین کی بندگی سے انکار اور انحراف کرنا ہے ، جو کہ عین ہلاکت اور ضلالت و گمراہی ہے۔

یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اسلام دشمن عناصر پوری دنیا میں مختلف صورتوں اور جداگانہ تدابیر اور پروپیگنڈوں سے ہمہ وقت اور ہر آن اسلام کی روشنی بجھانے کے درپے ہیں ۔ خود حکومتی سطح کی تنظیمیں اور ذمے دار قسم کے افراد بھی طرح طرح کا روپ دھار کر امت مسلمہ کو مغالطے میں ڈالنا چاہتے ہیں اور ایسے قوانین اور فیصلوں کو صادر و نافذ کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے دین متین کے خلاف ہو نے کے ساتھ ساتھ پوری مسلم قوم کی دل آزاری کا سبب بنتے ہیں جو اخلاقاً یا قانوناً کسی بھی طرح درست نہیں ہیں اور جس سے اس ملک کی سا لمیت پر بھی ضرب آتی ہے۔

چنانچہ چند سال پہلے ممبئی ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ :’’ طلاق واقع ہونے کے لیے تحکیم کے مرحلے سے گزرنا ضروری ہے ، جب تک شقاق کی نوبت نہ آجائے اور اس کے بعد تحکیم کے ذریعہ مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش نہ کی جائے اگر شوہر طلاق دے بھی دے تو یہ طلاق معتبر نہیں ہو گی اور وہ عورت اس کی بیوی سمجھی جائے گی۔‘‘

ظاہر ہے یہ فیصلہ واضح طور پر اسلامی شریعت کے خلاف ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: الطلاق لمن اخذ بالساق۔یعنی طلاق کا پورا اختیار شوہر کو ہے ۔ اس میں وہ کسی ثالث کے تابع نہیں ہے اور نہ ہی وہ طلا ق دینے میں کسی کا محتاج ہے ۔ کسی ثالث کے فیصلے اور اجازت پر شوہر کی طلاق معلق نہیں ہوا کرتی ، یعنی شوہر نے طلاق دے دی تو بہرحال طلاق واقع ہو جائے گی ، اس کے وقوع و عدم و قوع میں تحکیم یعنی ثالث کے فیصلے اور اجازت کو کوئی دخل نہیں ہے۔

زیرنظر فیصلہ اسی پس منظر میں ہےجس سے کورٹ کے فیصلے کی بالکلیہ تردید ہو جاتی ہے اور شرعی حکم مبرہن ہو کر سامنے آجاتا ہے جو ہماری مسلم قوم کے لیے مشعل راہ ہے۔

قران کریم کے اندر تحکیم کا تذکرہ آیا ہے ۔ تحکیم کے معنی ہیں : حَکم اور فیصل ماننا یا بنانا۔ یعنی میاں بیوی کا اپنے معاملے کے تصفیے اور حل کے لیے اور اپنے ایسے تنازع کو سلجھانے کی خاطر کسی کو فیصل مان کر اس کے فیصلے کے مطابق عمل کرنا۔

آیت کریمہ: فَابْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهٖ وَ حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهَا ([10]) ( یعنی جب میاں بیوی میں نزاع اور جھگڑا پیدا ہوجائے تو دونوں خاندان والوں کو چاہیے کہ ایک ایک حکم ( فیصل) مقرر کر لیں جو ان دونوں کے معاملہ کو افہام و تفہیم کے ذریعہ حل کرے۔) میں تحکیم کی حیثیت جواز اور استحباب کی ہے، واجب اور لازم نہیں ۔ علامہ قرطبیؒ لکھتے ہیں کہ ایک آدمی کو بھی حکم بنا کر بھیجنا جائز ہے، اس لیے کہ نبی کریم ﷺ نے زانیہ عورت کے پاس ایک شخص کو بھیجا اور فرمایا کہ اگر وہ اعتراف کر لیتی ہے تو اسے رجم کر دو ۔ و یجزی ارسال الواحد لان اللّٰہ سبحانہ حکم فی الزنی باربعۃ شھود، ثم قد ارسل النبی علیہ السلام الی المراۃ الزانیۃ انیسا وحدہ وقال لہ ’’ ان اعترفت فارجمھا‘‘ قلت واذا جاز ارسال الواحد فلو حکم الزوجان واحد لاجزا وھو بالجواز اولی اذا رضیا بذلک ، انما خاطب اللّٰہ بار سال الحکام دون الزوجین ، فان ارسل الزوجان حکمین و حکما نفذ حکمھما لان التحکیم عندنا جائز۔ ([11])

امام شافعیؒ نے بھی فرمایا ہے کہ حاکم کے لیے مستحب ہے کہ وہ دو عادل آدمی کو حکم بنا کر بھیجے اور اگر حکمین زوجین کے خاندان سے ہوں تو زیادہ اولیٰ ہے ، ورنہ اجنبی بھی بن سکتے ہیں۔

قال الشافعی المستحب ان یبعث الحاکم عدلین ویجعلھما حکمین ،والاولی ان یکون واحد من اھلہ وواحد من اھلھا الخ فان کانا اجنبیین جاز ۔([12])

نیزآیت بابعثوا حکما الخ اگرچہ امر کا صیغہ ہے ، لیکن یہ وجوب کے لیے نہیں ہے ، بلکہ استحباب کے لیے ، جس کی وضاحت حضور … اور صحابہ ؓ کے زمانے میں واقع ہونے والی طلاق سے ہوتی ہے کہ آپﷺ نے حضرت حفصہ ؓ کو طلاق دی، پھر آپ نے رجعت فرما لی۔ حصرت عبداللہ بن عمرؓ نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی تو آ پ ﷺ نے فرمایا کہ اسے کہو کہ وہ رجعت کر لے۔

عن سعید بن جبیر عن ابن عباس عن عمر ان النبی ﷺ طلق حفصۃ ثم راجعھا۔([13])

عن نافع عن ابن عمر قال طلقت امرأنی علی عھد رسول اللہ ﷺ وھی حائض فذکر ذلک عمر لرسول اللہ ﷺ فقال مرہ فلیرا جعھا ۔الخ ([14])

یہ احادیث اس بات کی شاہد ہیں کہ مذکورہ طلاقیں واقع ہوئیں اور ان کے وقوع کے لیے کسی حکم کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ معلوم ہوا کہ تحکیم کا حکم استحبابی ہے ، وجوبی اور لازمی نہیں۔

اسی طرح تحکیم سے متعلق آیت کا تعلق طلاق سے نہیں ، بلکہ اس میں صرف زوجین کی اصلاح کے لیے حکمین متعین کیے جانے کی ترغیب ہے اور ان کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ وہ زوجین کے درمیان حتی الوسع اصلاح و اتفاق کرنے کی کوشش کریں، اس کے علاوہ ان کا دوسرا کام نہیں ہے ۔ اگر حکمین سے اصلاح نہ ہو سکے تو زوجین کو اپنی حالت پر چھوڑ دیں ، خود زوجین ہی اپنے حال کے مطابق مصالحت،صبر،طلاق یا خلع کے ذریعےاپنا فیصلہ کر لیں گے۔ حکمین کو زوجین کے درمیان تفریق کرانے کی قطعاً اجازت نہیں ہے ۔ ہاں اگر زوجین اپنی تفریق کو حکمین کے سپرد کر د یں تو اس وقت یہ حکمین وکیل ہو جائیں گے اور پھر ان کے لیے زوجین کے درمیان بہ حیثیت وکیل تفریق کرانا جائز ہوگا۔

ذھب الحنفیۃ الی ان مھمۃ الحکمین الاصلاح لاغیر ، فاذا نجحا بہ فبھا والا ترکا الزوجین علی حالھما لیتغلبا علی نزاعھما بنفسھما، امابالمصالحۃ او بالصبر او بالطلاق او بالمخالغۃ ، ولیس للحکمین التفریق بین الزوجین الا ان یفوض الزوجان الیھما ذلک، فان فوضا ھما بالتفریق بعد العجز عن التوفیق کانا وکیلین عنھما فی ذلک وجاز لھما التفریق بینھمابھذہ الوکالۃ( الموسوعۃ الفقہیۃ۔([15])

نیز متذکرہ بالا آیت میں آگے چل کر ایک جملہ اللہ پاک نے فرمایا: ان یریدا اصلاحا یفق اللّٰہ بینھما جو اس بات پر دال ہے کہ بعد حکمین کاجملہ طلاق سے متعلق نہیں ہے ، اگر ایسا ہوتا تو پھر آخروالے اس ٹکرے سے حکمین کے مقصد اور کام کی وضاحت نہ کی جاتی ، البتہ مالکیہ کے نزدیک یہ ہے کہ اگر حکمین سلجھانے سے عاجز آ گئے تو انھیں زوجین کے درمیان تفریق کرانے کا پورا اختیار ہے وکیل بنے بغیر۔

ذھب المالکیہ الی ان واجب الحکمین الاصلاح اولا فان عجز عنہ التحکم الشقاق کان لھما التفریق بین الزوجین دون وکیل۔ ([16])

شوافعؒ اپنے ظاہر قول میں احناف کے ساتھ ہیں ، البتہ قول ثانی میں ان کے یہاں بھی حکمین کو بلااجازت اور رضامندی زوجین کے تفریق کا اختیار ہے۔

وعلی القول الثانی لایشترط رضا الزوجین ببعثھما ویحکمان بما بمایریانہ مصلحۃ من الجمع او التفریق ۔([17])

حنابلہؒ بھی ایک قول میں احناف کے ساتھ ہیں اور دوسرے قول میں شوافع کے ساتھ ہیں ۔وفی قول اخر لھما ذلک( الموسوعۃ) ([18])

لیکن قول راجح احناف کا ہے ۔ جس کی تائید حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی عدالت میں پیش ہونے والے واقعے سے ہوتی ہے ، جس میں حضرت علی ؓ نے حکمین کو ان کی ذمے داری بتائی اور پھر حکمین سے بھی آپ نے رائے معلوم کی۔

روی الدار قطنی من حدیث محمد بن سیرین عن عبیدہ فی ھذہ الایۃ: وان خفتم شقاق بینھما فابعثوا حکما من اھلہ و حکما من اھلھا‘‘ قال جاء رجل و امراۃ الی علی مع کل واحد منھمافئام من الناس فامر ھم فابعثوا حکما من اھلہ و حکما من اھلھا، وقال للحکمین ھل تدریان ماعلیکما؟ علیکما ان رأیتما ان تفرقافرقتھما، فقالت المراۃ رضیت بکتاب اللّٰہ بما علی فیہ ولی ، وقال الزوج اما الفرقۃ فلا ۔ فقال علی کذبت ، واللّٰہ تبرح حتی تقر بمثل الذی اقرت بہ ۔ وھذا اسناد صحیح ثابت عن علی ؓ من وجوہ ثابتۃ عن ابن سیرین عن عبیدۃ، قالہ ابو عمر ، احتج ابوحنیفۃ بقول علی عنہ للزوج لاتبرح حتی ترضی بما رضیت بہ ‘‘ فدل علی ان مذھبہ انھما لایفرقان الابرضا الزوج ، وبان الاصل المجتمع علیہ ان الطلاق بید الزوج اوبید من جعل ذلک الیہ۔([19])

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب عثمانیؒ ’’معارف القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اس واقعے سے بعض ائمہ مجتہدین نے یہ مسئلہ اخذ کیا کہ ان حکمین کا با اختیار ہونا ضروری ہے ، جیسا کہ حضرت علی ؓ نے فریقین سے کہہ کر ان کو بااختیار بنوایا۔ اور امام اعظم ابو حنیفہ ؓ اور حسن بصریؓ نے یہ قرار دیا کہ اگر حکمین کا بااختیار ہونا امر شرعی اور ضروری ہوتا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ارشاداور فریقین سے رضامندی حاصل کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ فریقین کو راضی کرنے کی کوشش خود اس بات کی دلیل ہے کہ اصل میں یہ حکمین بااختیار نہیں ہوتے ، ہاں میاں بیوی ان کو مختار بنا دیں تو بااختیار ہو جاتے ہیں ۔([20])

اسی طرح حضرت تھانوی ؒ نے لکھا ہے کہ ان دونوں حکمین کا اصل کام اتنا ہی ہے : اصلاح حال، البتہ اگر زوجین اپنے حکم کو طلاق یا خلع کا اختیار بھی دے دیں تو وکالتا ًوہ اس کے مختار بھی ہو جائیں گے، مگر اس آیت میں اس سے تعرض نہیں۔([21])

تحکیم طلاق کے لیے شرط کے درجے میں نہیں ہے، فقہاء کے نزدیک طلاق کی شرطیں تین طرح کی ہیں : بعض کا تعلق مُطَلّقِ ( طلاق دینے والے) سے ہے، بعض کا تعلق مطلقہ سے ہے او ر بعض کا تعلق صیغہ طلاق سے ہے ، مُطَلِّق سے متعلق چار شرطیں ہیں: ۱۔ شوہر ہونا، ۲۔ بالغ ہونا، ۳۔ عاقل ہونا، ۴۔ قصد و اختیار والا ہونا ، مطلقہ سے متعلق دو شرطیں ہیں :۱۔ آپس میں زوجیت قائم ہو حقیقتاً ہو یا حکما، ۲۔ مطلقہ کو اشارہ، صفت یانیت کے ذریعہ متعین کرنا۔(موسوعہ۲۹)

طلاق کی مذکورہ شرطوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تحکیم طلاق کے لیے شرط نہیں ہے ۔ بغیر تحکیم کے طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ اگر تحکیم شرط ہوتی تو شرائط کے باب میں ضرور اسے بیان کیا جاتا ، حدیث پاک میں آتا ہے کہ صرف لفظ کا تکلم کرایا اور اس سے حقیقتاً یا مجازاً طلاق مراد نہیں لیا ۔ مذاقاً بھی اگر تکلم کرلے تو بھی طلاق واقع ہو جائے گی۔

عن ابی ھریرۃ ؓ ان رسول الہ ﷺ قال : ثلاث جدھن جد وھز لھن جد: النکاح والطلاق والرجعۃ۔ ([22])

طلاق کے معتبر ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ میاں بیوی میں نزاع اور شقاق پیدا ہو، بلکہ جھگڑا اور نزاع کے پیداہوئے بغیر بھی اگر شوہرنے طلاق دے دی تو واقع ہو جائے گی ۔ حدیث ’’ ثلاث جدھن جد وھزلھن جد‘‘ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وقوع طلاق کے لیے نزاع ضروری نہیں، بلکہ مذاقاً بھی اگر طلاق دے دی تب بھی واقع ہو جائے گی۔

سطور بالا میں پیش کی گئیں چند امثال مشتے نمونہ از خروارے کے طورپر ہیں ورنہ قوانین اسلامی خصوصاً وہ قوانین جن کاتعلق انسان کی معاشرت اور گھریلو زندگی سے ہے،انسان کے مزاج،اس کی فطرت اور معاشرتی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے وضع کیے گئے ہیں اور واضع قوانین کوئی فرد بشر نہیں جس سے غلطی کااحتمال ہو،بلکہ خود خالق کائنات ومالکِ کائنات ہے جواس کائنات کے ذرے ذرے سے باخبر اور سمیع وعلیم ہے اس باعث ان قوانین میں غلطی کاوقوع ناممکن ہے البتہ خود ان قوانین کے خالق نے اپنے قوانین میں بدلتے ہوئے زمانے اور اس کی بدلتی ہوئی ضروریات کے تحت بعض حالات میں جزوی ترمیم وتبدّل کادروازہ کھلا رکھاہے بشرطیکہ کسی قانون کابنیادی ڈھانچہ متزلزل نہ ہو۔

 

حوالہ جات

  1. () مشکوٰۃ،ص۴۳۹
  2. () البقرہ:۲۱۹
  3. () البقرہ:۳۷
  4. () الاعراف:۳5
  5. () النساء:۵۹
  6. () البقرہ:۱۷۸
  7. () اخرجہ الثعلبی فی تفسیر ۲۰؍۳۰۷۔ ابن ماجہ ۳؍۴۴۴ باب طلاق المکرہ و الناسی
  8. () النور:۲
  9. () النور:۲
  10. () النساء:۳۵
  11. () الجامع لاحکام القرآن للشیخ القرطبی،مطبع ،بیروت،لبنان،ج ۵، ص۱۷۸۔۱۷۷
  12. () التفسیر الکبیر للرازی،ج ۱۰، ص۹۳
  13. () ابوداؤد،ج ۱،ص۳۱۱
  14. () مسلم،ج ۱، ص۴۷۴
  15. ()الموسوعۃالفقھیۃ ،ج ۲۹،ص۵۴
  16. () الموسوعۃ،ج ۲۹،ص۴۵
  17. () الموسوعۃ،ج ۲۹،ص۲۵
  18. () الموسوعۃ،ج ۲۹،ص۵۵
  19. () تفسیر قرطبی،ج ۴ ،ص۷۷۱
  20. ()معارف القرآن،ج۲، ص۴۰۴
  21. () بیان القرآن،ج۲، ص۱۱۵
  22. ()ابوداؤد،ج۱، ص۲۹۸
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...