Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tafseer > Volume 35 Issue 1 of Al-Tafseer

مولانا ابو یوسف محمد شریف محدث کوٹلوی کی خدمات حدیث شریف |
Al-Tafseer
Al-Tafseer

Article Info
Authors

Volume

35

Issue

1

Year

2020

ARI Id

1682060084478_1157

Pages

285-297

Chapter URL

http://www.al-tafseer.org/index.php/at/article/view/142

Subjects

Muḥaddith āḥādīth Fiqh-i-Ḥanafī Sunnah

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

 

مولانا ابو یوسف محمد شریفؒ کوٹلی لوہاراں (غربی) ،ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔)م:1951)والد محترم کا نام مولانا حافظ عبدالرحمٰن نقشبندیؒ ( م ۔۱۸۸۱ء ) تھا۔ابتدائی تعلیم ،درس ِ نظامی کی تکمیل اور فن ِمناظرہ کی تربیت اپنے والد محترم ؒسے حاصل کی۔والدِ محترم ؒ کی وفات کے بعد ، آپ مزید تعلیم کے لیے اپنے وقت کے جید علمائے کرام سے فیض یاب ہوئے۔کچھ عرصہ کے لیے آپ انجمن نعمانیہ ہند،لاہور ( ۱۸۸۷ء ) کے قائم کردہ دارالعلوم انجمن نعمانیہ، لاہور میں بھی زیر تعلیم رہے۔([1])

علوم ظاہری کے علاوہ ،علوم باطنی کی تحصیل کے لیے بھی مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒنے اپنے عہد کے کامل اصحاب طریقت کا انتخاب کیا اور ان سے مختلف سلاسل طریقت میں فیض یاب ہوئے۔سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں آپ کو خواجہ فقیر محمدؒ چوراہی (۹۹ء؍۱۷۹۸ء۔۱۸۹۷ء)،چورہ شریف ،ضلع اٹک، پیر سید جماعت علی شاہ لا ثانی ؒ (۶۰ء؍ ۱۸۵۹ء۔ ۱۹۳۹ء)، علی پور سیداں شریف ، ضلع سیالکوٹ(ا ب ضلع نارووال) ، پیر سید جماعت علی شاہ ؒ علی پوری (۱۸۴۱ء۔ ۱۹۵۱ء)، علی پور سیداں شریف ، ضلع سیالکوٹ اور خواجہ حافظ محمد عبدالکریم ؒ نقشبندی (۱۸۴۸ء۔۱۹۳۶ء)،عید گاہ شریف ،راولپنڈی سے فیض حاصل تھا۔جبکہ سلسلۂ قادریہ برکاتیہ رضویہ میں مولانا شاہ محمد احمد رضا خاں بریلویؒ (۱۸۵۶ء۔۱۹۲۱ء) بریلی شریف، اتر پردیش سے بھی نسبت روحانی حاصل تھی۔ مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒ کو موخرالذکر تینوں بزرگوں سے اجازت بیعت او ر خرقہ خلافت بھی حاصل تھا۔

مولا نا ابو یوسف محمد شریف ؒ کو اپنے دورِطا لب علمی ہی سے مطالعۂ حدیث شریف اور علم فقہ سے خصوصی لگاؤ تھا۔ ایک روایت کے مطابق ،آپ کو پچاس ہزار سے زائد مستند احادیث حفظ تھیں۔([2]) آپ کا روزانہ کا معمول تھا کہ تلاوت قرآن مجید کے بعد ، آپ مختلف کتب احادیث کا مطالعہ کرتے اور ان پر ، اپنی یادداشت کے لیے حواشی اور حوالے لکھتے۔([3]) یہ اسی مطالعۂ حدیث شریف کا فیض تھا کہ آپ کی بصارت آخری وقت تک بالکل بحال تھی ۔اس حو الے سے آپ کا ایک قول ملتا ہے۔آپ اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’یہ میری نظر کی بحالی حدیث پاک کے مطالعے سے اور اذان میں حضور اکرم ﷺ کا نام نامی سن کر چوم کر آنکھوں سے لگانے کی بدولت ہے۔ ‘‘([4])

مولانا ابو یوسف محمد شریفؒ نے ساری زندگی حدیث شریف اور فقہ حنفی میں باہمی ربط وتطبیق پیدا کرنے میں بسر کی۔اس سلسلے میں تحدیثِ نعمت کے طور پر ایک جگہ وہ خود کہتے ہیں:

حدیث مصطفی سے ہے دہن پیمانہ کوثرزبان تر مری ہے موجِ بحر فقہ نعمانی([5])

یہی وجہ ہے کہ آپ جنوبی ایشیا کے علمی و دینی حلقوں میں جہاں ’ فقیہ ا عظم‘ جیسے لقب سے معروف ہیں، وہیں آ پ ’استاذ المحدثین‘ ، ’راس المحدثین ‘، ’ زبدۃالمحدثین ‘ ا ور ’ محدّث کوٹلوی ‘ جیسے القابات سے بھی مشہور ہیں۔

مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒ کا انتقال ۱۵/جنوری ۱۹۵۱ء کو عصر اور مغرب کے درمیان، راولپنڈی میں ہوا۔تاہم آپ کی تدفین ۱۶/جنوری کو کوٹلی لوہاراں (غربی)کی تاریخی مسجد دارے والی کے احاطہ میں کی گئی۔آپ کی وفات پر پاکستان اور بھارت کے دینی وعلمی حلقوں میں گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا۔کئی رسائل و جرائد نے تعزیتی شذرے لکھے ۔ ہفت روزہ رضوان (لاہور)نے اپنے ادارتی شذرہ میں لکھا کہ ’’۔۔۔حق یہ ہے کہ آج دنیا ئے سنیت میں ایک ایسے محدث اور عالم باعمل کی کمی ہو گئی ہے۔جس کا پورا ہونا ناممکن ہے۔‘‘([6])

مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒ بحیثیت ایک محدّث

مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒ کو مولانا شاہ احمد رضا خاں بریلوی ؒنے اکتوبر ۱۹۱۹ء میں صحاح ستّہ،ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲخطیبؒ (م ۔۴۰ء؍۱۳۳۹ء) کی مشکوٰۃ المصابیح اور حدیث شریف کی دیگر تمام متداولہ کتب کی اجازت اور سند تبرکاً دی تھی۔اسی طر ح ا ٓپ کو شیخ الحافظ عمر ضیاء الدین الداغستانی ؒ (م ۔۲۲ء؍۱۹۲۱ء) نے جنوری ۱۹۱۰ء میں ابو عبداﷲ محمد بن اسماعیل بخاریؒ (۸۱۰ء۔۸۷۰ء) کی صحیح بخاری شریف کی سند تبرکاً دی تھی ۔شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی ؒ (۱۸۴۸ ء ۔۱۹۳۲ء) نے بھی مولانا ابو یوسف محمد شریفؒ کو تبرکاً سند حدیث شریف دی تھی۔([7]) یہ ا نھی اسانید کا دیا ہوا اعتماد اور حدیث شریف سے اپنے فطری لگاؤ کا نتیجہ تھا کہ مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒنے حدیث شریف کے حوالے سے گراں قدراورنمایاں خدمات سر انجام دیں۔

مولا نا ابو یوسف محمد شریف ؒ کی خدماتِ حدیث شریفسیرت نبوی ﷺ

حضوراکرم ﷺ کے فضائل و محامد ،اوصاف و کمالات اور علوم و اختیارات کا چالیس مستند احادیث سے ثبوت ،مع عام فہم ترجمہ و تشریح اربعین نبویہ([8]) میں بیان کیا گیا ہے۔ساتھ ہی کتاب کے آخر میں صحاح ستّہ سے ماخوذ ’جواہر پارے‘ کے عنوان سے حضور اکرم ﷺ کے پچیس ارشادات مع ترجمہ تحریر کیے گئے ہیں ،جو، ہر انسان کے لیے دینی و دنیاوی ترقی اور فلاح کے ضامن ہیں۔اربعین نبویہ ، الاربعین فی فضائل النبی الامین کے نام سے بھی معروف ہے۔

ارکان اسلام

نماز

اربعین حنفیہ([9]) میں مولاناابو یوسف محمد شریفؒ نے چالیس احادیث بابت نماز درج کی ہیں ، جن کے ذریعے نماز سے متعلق تمام اختلافی مسائل مثلاً فاتحہ خلف الامام،آمین بالجہر، رفع الیدین،وضع الیدین،اوقات نماز،اقامت کا بیان، مرد و عورت کی نماز کا طریقہ ،نماز کے بعد دعا مانگنا اور طریقہ وضو میں نہایت مبسو ط بحث کی گئی ہے اور دلائل ساطعہ و براہین قاطعہ سے ثابت کیا ہے کہ حنفی طریقۂ نماز ہی مطابق بہ احادیث ہے۔

نماز سے متعلقہ ا نھی اختلافی مسائل کو مولانا ابویوسف محمد شریفؒ نے شمس الحق([10]) میں بھی تفصیل سے بیان کیا ہے۔آپ کی تحقیق کے مطابق فاتحہ خلف الامام کے حق میں کوئی حدیث صحیح نہیں ،جتنی احادیث اس کے حق میں بیان کی جاتی ہیں وہ ضعیف ہیں،کسی حدیث صحیح متصل سے حضور اکرم ﷺ کا اپنی وفات ظاہری تک رفع یدین کرنا ثابت نہیں ۔اسی طرح خلفائے اربعہ ؓسے بھی بسند صحیح رفع یدین کرنا ثابت نہیں،کسی صحیح حدیث شریف سے حضور اکرم ﷺ کا ایسے طریقے سے آمین کہنا ثابت نہیں جو پہلی صف کے سارے نمازیوں نے حضوراکرم ﷺ کی آمین کی آواز سنی ہویاحضور اکرم ﷺ نے آمین زور سے کہنے کو فرمایا ہو۔مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒ اس سلسلے میں مزید بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ اور خلفائے راشدینؓ کے مقتدیوں کے زور سے آمین کہنے میں کوئی ضعیف حدیث بھی موجود نہیں۔ وضع الیدین علی الصدر بھی کسی حدیث صحیح مرفوع متصل میں موجود نہیں۔

کامن ا لنسوان فی تردید اعداء النعمان([11]) میں مولانا ابو یوسف محمدشریفؒ نے پنجابی نظم میں احادیث کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ فاتحہ خلف الامام ، رفع یدین،وضع یدین اور آمین بالجہر کہنا کسی حدیث صحیح سے ثابت نہیں۔

نماز مدلّل([12]) میں مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒ نے غسل ،آغاز وضو سے اخیر نماز کے سلام تک ہر ایک فرض،واجب ،سنت اور مستحب کے لیے قرآن مجید اور احادیث سے دلائل بیان کیے ہیں اور مسئلہ فاتحہ خلف الامام ،رفع الیدین،وضع الیدین اور آمین بالجہر پر مفصّل بحث کی ہے اور ان مسائل مختلفہ میں نہایت تحقیق کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ حنفی مذہب میں جو طریقہ نماز پڑھنے کا ہے یہی طریقہ حضور اکرم ﷺ کا تھا۔

پنجابی نظم میں لکھی گئی کتاب نماز مترجم منظوم پنجابی([13]) میں احا دیث کی روشنی میں مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒ نے اخلاص کی ضرورت ، نماز کی فضیلت ، طریقہ نماز، فرض کے بعد دعا مانگنے کا ثبوت اور نماز جنازہ کا طریقہ بیان کیا ہے۔

مسئلہ سنت فجر([14]) میں مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒ نے احادیث اور آثار صحابہ کرامؓ سے بیان کیا ہے کہ افضل یہی ہے کہ فجر کی سنتیں آدمی گھر سے پڑھ کر آئے ۔لیکن اگر وہ گھر سے پڑھ کر نہ آئے اور ایسی حالت میں مسجد آئے کہ جماعت کھڑی ہے اور اسے یقین ہو کہ وہ سنتیں پڑھ کر جماعت میں شامل ہو جائے گا تو جماعت سے الگ ہو کر سنتیں ادا کر لے ۔بصورت دیگر پہلے فرض، جماعت کے ساتھ ادا کر لے ۔ سنتیں طلوع آفتاب کے بعد کہیں بھی پڑھ لے۔

مولانا ابو یوسف محمد شریفؒ نے مستورات کی نماز([15]) میں احادیث کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں خواتین کا مسجد میں نماز کے لیے آنا ایک امر مباح تھا اور وہ بھی چند شرائط کے ساتھ ۔ جبکہ عورتوں کا عیدین میں جانا([16]) میں انھوں نے احادیث ، آثار صحابہ کرامؓ اور شروح کتب احادیث کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ موجودہ زمانے میں عورتوں کا جمعہ اور عیدین اور عام نمازوں کے لیے گھر سے نکلنا، نہ ضروری ہے اور نہ واجب ۔بلکہ ان کا نہ نکلنا ہی اصول شریعت کے مقتضا کے موافق ہے۔

روزہ

مسائل ماہ ِ رمضان([17]) میں احادیث کی روشنی میں مولا نا ابو یوسف محمد شریفؒ نے فضائل و مسائل رمضان بیان کیے ہیں جبکہ کتاب التراویح([18]) میں بیس صحیح احادیث سے انھوں نے ثابت کیا ہے کہ نماز تراویح کی بیس رکعات مسنون ہیں اور آٹھ رکعات کے حق میں جو احادیث مشہور ہیں ،ان کو مولا نا ابو یوسف محمد شریف ؒ نے مضطرب اور ضعیف ثابت کیا ہے۔

مآخذ قانون

اجتہاد

مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒ نے اپنی کتاب اجتہاد([19]) میں قرآن مجید اور احادیث سے اجتہاد کی فضیلت بیان کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ انبیائے کرا م ؑ کو اجتہاد کرنا جائز ہے اور انھوں نے اجتہاد کیا بھی ۔ حضوراکرم ﷺ کی حیات ظاہری میں صحابہ کرامؓ نے اجتہاد کیااور بقول مولانا ابو یوسف محمد شریفؒ ، کتب احادیث میں ایسے بہت سے واقعات ہیں کہ جن کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ نے اپنے اجتہاد سے قیاس کرکے حکم فرمایا اور دوسروں نے اسے تسلیم بھی کیا۔

معاملات؍معاشرت

ختم و فاتحہ کے جواز میں([20]) میں مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒ نے مستند احادیث سے ثابت کیا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے نہ صرف طعام پر دعا مانگی بلکہ ہاتھ اٹھا کر دعا بھی مانگی۔اسی طرح بقول مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒ،دعا سے پہلے آیات قرآنی کی تلاوت کر ناجائز ہے۔ ختم و فاتحہ کے جواز میں ، انتفاع الاموات بالصدقات و الختمات کے نام سے بھی معروف ہے۔

حقیقت نماز جنازہ([21]) میں مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒ نے نماز جنازہ کا طریقہ،دعائیں ، مسائل اور اسقاط کی ترکیب و جواز قرآن مجید اور احادیث سے محققانہ طور پر ثابت کیا ہے جبکہ نماز جنازہ کے بعد دعا([22]) میں انھوں نے قرآن مجید اور احادیث سے ثابت کیا ہے کہ نماز جنازہ کے بعد دعا مانگنا جائز ہے۔

القول الصائب([23]) میں مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒ نے احادیث کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا جائز نہیں۔

تحقیق البدعت([24]) میں مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒ نے پنجابی نظم میں بدعت کی صحیح تعریف بیان کی ہے ۔ جس کے مطابق بدعت شرعی وہ ہے جس کے ذریعے قرآن مجید ، صحیح حدیث ،اجماع یا کسی اثر کے برخلاف ، دین میں کوئی نئی بات ایجاد کی جائے ۔ اس حوالے سے انھوں نے حضور اکرم ﷺ کی حیات ظاہری میں صحابہ کرامؓ کی طرف سے جاری کردہ آٹھ نئی باتیں اور وفات ظاہری کے بعد جاری کردہ بارہ نئی باتوں کا ذکر کیا ہے۔مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒ نے تحقیق البدعت میں ایک اصول بھی بیان کیا ہے کہ کوئی نیا نیک عمل ، جو قرآن مجید ، احادیث یا اجماع کے خلاف نہ ہو، وہ مستحسن ہے البتہ اس پر دوام ضروری ہے ۔ اسی اصول کے تحت ،انھوں نے مجلس میلاد نبوی ، رسوم سوم،دہم اور چہلم اور کتابت برکفن وغیرہ کو جائز ثابت کیا ہے۔

تصور شیخ([25]) میں مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒ نے قرآن مجید ، احادیث اور شروح کتب احادیث سے استدلال کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ تصور شیخ کرنا جائز ہے کیونکہ اس کی ممانعت میں نہ کوئی آیت قرآنی ہے اور نہ کوئی حدیث شریف۔ اس لیے یہ اپنے اصل پر رہے گا۔

مولا ناابو یوسف محمد شریف ؒ نے کشف الغطاء عن مسئلۃ النداء([26]) میں ثابت کیا ہے کہ قرآن مجید اور احادیث میں مطلق درود شریف پڑھنے کی فضیلت آئی ہے۔ اس لیے درود شریف کا کوئی بھی صیغہ ہو، ان سب کے پڑھنے سے فضیلت حاصل ہو جاتی ہے ۔صحابہ کرامؓ ، تابعینؒ اور تبع تابعین ؒسے درود شریف کے کئی ایسے الفاظ مروی ہیں ،جو حضور اکرم ﷺ سے ثابت نہیں۔ مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒ مزید بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کو غائبانہ خطاب کرنا صحابہ کرام ؓ کامعمول تھا اور اس پر ان کا اجماع تھا۔

اباحۃُالسلف البنا ء علیٰ قبُورِ المشائخ و العُلماء([27]) میں مولانا ابو یوسف محمد شریفؒ نے آیات قرآنی اور احادیث صحیحہ سے استدلال کرتے ہوئے ، مشائخ عظام اور علمائے کرام کے مزارات پر چار دیواری اورقبّے بنانے کا جواز اور قبریں ڈھانے اور قبّے گرانے کا رد و ابطال، مدلّل طور پر بیان کیا ہے۔ اس سلسلے میں ابو الحسن مسلم بن الحجاج نیشاپوریؒ (م۔۸۷۵ء) کی صحیح مسلم میں حضرت علی ؓ (۶۰۳ء۔۶۶۱ء) سے رو ایت شدہ حدیث شریف ([28]) پر جرح کرنے کے بعد مولانا ابو یوسف محمدشریف ؒ نے ثابت کیا ہے کہ اس حدیث شریف کی اسانید میں سے ایک سند حبیب بن ابی ثابت ، مدلس ہے ۔اس لیے یہ حدیث شریف قابل حجت نہیں۔ مزید براں ، مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒ کے نزدیک اگر اس حدیث شریف سے استدلال بھی کیا جائے تو اس سے مراد قبور مشرکین ہیں نہ کہ مسلمانوں کی قبور۔

سات آیات قرآنی اور نو احادیث سے استدلال کرتے ہوئے ، مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒنے وہابیہ سے مناکحت([29]) میں ثابت کیا ہے کہ حنفی المذہب کا وہابیہ کے ساتھ باہمی ناطہ کرنا جائز نہیں۔

پردۂ نسواں([30]) میں مولانا ابو یوسف محمد شریفؒ ، قرآن مجید ، احادیث اور آثار ِامہات المومنینؓ سے استدلال کرتے ہوئے پردے کی اہمیت اور افادیت بیان کرتے ہیں۔

مسائل شیعہ، ماتم کا شرعی حکم، کتاب الجنائز اور آ ں حضر ت ﷺ کی نجدیوں سے نفرت میں مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒ نے قرآن مجید اور احادیث کی روشنی میں فرق ِمخالف کا بلیغ اور مدلّل رد کیا ہے۔([31])

تراجم ؍شرح کتب احادیث

۲۸/اگست ۱۹۲۴ ء کے ہفت روزہ ا لفقیہ (امرتسر) میں مولانا محمد نصیر الدین قادری ؒنے علمائے احناف بشمول مولانا ابو یوسف محمد شریفؒ کی توجہ صحاح ستّہ اورحنفی المذہب کی کتب احادیث، مثلاً طحا وی اور شرح معانی الاثار کے سلیس اردو ترجمہ اور شرح کرنے کی ضرورت کی طرف دلائی۔([32])

مولانا نصیر الدین قادری ؒ کی اپیل کی تائید کرتے ہوئے ، ۷/ستمبر۱۹۲۴ء کے الفقیہ میں قاضی فضل احمد لدھیانویؒ نے جنوبی ایشیا کے جید علمائے اہلِ سنت وجماعت کو تجویز دی کہ وہ صحاح ستّہ میں شامل ایک ایک کتاب کا اردو میں ترجمہ و تشریح کریں۔ اس سلسلے میں انھوں نے مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒ کے لیے امام ابودائود سلیمان بن اشعث سجستانی ؒ (م۔۸۸۹ء) کی سنن ابی داؤد کے ترجمہ و تشریح کرنے کی تجویز پیش کی ۔([33]) اس تجویز پر سب سے پہلے مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒ نے صاد کہتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ امام محمد بن حسن شیبانی ؒ (م۔ ۸۰۵ء) کی مؤطا امام محمد کا اردو ترجمہ شروع کرتے ہیں اور وعدہ کیا کہ اگر زندگی رہی توامام محمدؒ کی کتاب الآ ثارامام محمد کا ترجمہ بھی کروں گا ۔ مزید براں اگر احباب نے اصرار کیا تو صحاح ستّہ میں سے جس کا وہ کہیں گے، اس کا ترجمہ کروں گا۔اس کے ساتھ ہی مولانا ابو یوسف محمد شریفؒ اطلاعاً بیان کرتے ہیں کہ وہ مشکوٰۃ شریف کا پنجابی میں جزوی ترجمہ کر چکے ہیں۔([34])اسی طرح انھوں نے اپنی ایک کتاب میں ذکر کیا ہے کہ انھوں نے مشکوٰۃ شریف کی شرح بھی لکھی ہے۔([35])

مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒ نے اپنی مندرجہ بالا مستقل تصانیف و تالیفات کے علاوہ ،اپنے لاتعداد علمی ودینی مضامین اور ہزاروں فتاویٰ کے ذریعے بھی احادیث کی گراں قدر خدمت کی ہے۔علاوہ ازیں انھوں نے اپنی تقاریر اور مواعظ کے ذریعے بھی ،عوامی سطح پر حدیث شریف کے ابلاغ ،اشاعت ، تشریح اور تفہیم کے لیے نمایاں خدمات سر انجام دی ہیں۔

حدیث شریف اور فقہ حنفی کی تطبیق

مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒ نے اپنی تمام تر تصانیف ، تالیفات ، مضامین ، فتاویٰ اور مواعظ کے ذریعے فقہ ، خصوصاً فقۂ حنفی کے مسائل کو احادیث صحیحہ سے ثابت کر کے واضح کیا کہ فقۂ حنفی کے تمام مسائل حضور اکرم ﷺ کے ارشادات کے عین مطابق ہیں۔ اگرچہ مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒ اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن مجید اور احادیث کے ہوتے ہوئے، کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں([36])،لیکن اس کے ساتھ ہی وہ وضاحت کرتے ہیں کہ ہم حنفی المذہب ، امام نعمان بن ثابت ابو حنیفہ ؒ (۶۹۹ء۔۷۶۷ء) کی بتائی ہوئی احادیث کی منشا و مراد کو تسلیم کرتے ہیں کیونکہ امام ابو حنیفہ ؒ احادیث کا موقع و محل اور ان کی منشا کو ہم سے زیادہ سمجھتے ہیں۔([37])

مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒ کے بقول جمہور محدّثین کے نزدیک حدیث سے مراد حضور اکرم ﷺ کے قول ،فعل، تقریر اور صحابہ کرامؓ کے قول ،فعل، تقریر اور تابعین کے قول، فعل، تقریر ہے۔([38]) اس حوالے سے مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒ نے ثابت کیا کہ امام ابو حنیفہ ؒ تابعی تھے کیونکہ انھوں نے حضرت انس بن مالکؓ ،صحابی رسول ﷺ کو کئی بار دیکھا تھا۔اس لیے امام ابو حنیفہ ؒ کا قول، فعل، تقریر، بھی حدیث ہے اس لیے فقہ حنفی بھی حدیث ہے۔([39]) یہی وجہ ہے کہ اکابر محدّثین نے بعد تحقیق و تنقید ، امام ابو حنیفہ ؒ کی فقہ کو تسلیم کر لیا۔([40])

تاریخ جمع و تدوین احادیث بیان کرتے ہوئے ،مولانا ابو یو سف محمد شریف ؒ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ابتدا میں احادیث کے لکھنے کا رواج نہ تھا ۔صحابہ کرامؓ زبانی رواتیں بیان کیا کرتے تھے۔ وضاعین نے موقع پا کر احادیث وضع کرنی شروع کیں اور کئی من گھڑت احادیث بنا کر رواج دیں ۔اس وقت صحیح، ضعیف اور موضوع احادیث کا امتیا ز مشکل ہو گیا۔حضور اکرم ﷺ کا صحیح ارشاد معلوم کرنے کے لیے سند کی ضرورت تھی۔ لوگوں نے اسانید بھی گھڑنی شروع کیں تو اور مشکل پیدا ہو گئی۔ اس لیے اس زمانے کے لوگوں نے بالاتفاق ائمہ اربعہ کو منتخب کیا کہ ا ن ائمہ کی تحقیق پر عمل کیا جائے تا کہ ہر ایک کو نئے سرے سے تحقیق کرنے کی ضرورت نہ رہے۔([41])

محدّثین کے مقابلے میں فقہاء اور مجتہدین کو اہمیت دیتے ہوئے، مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ محدّثین کا صرف اتنا ہی کام ہے کہ وہ روایتیں فقہا ء تک پہنچا دیں تا کہ وہ خوب غور وخوض کر کے ان سے مسائل کا استنباط کریں، جن سے راویوں کی سمجھ قاصر ہو۔([42]) اس سلسلے میں وہ مزید لکھتے ہیں کہ: جو مسئلہ قرآن مجید اور احادیث میں صراحۃً نہ ملے تو مجتہد کا استنباط یا قیاس مانا جاتا ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی قرآنی آیت یا حدیث محتمل المعانی ہو تو ایک معنی متعین کرنے کے لیے مجتہد کی تقلید کی جاتی ہے۔ اسی لیے بقول مولا نا ابو یوسف محمد شریف ؒ ،بجزتقلید نہ کوئی اتباع نبوی کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی حدیث شریف پر عمل کر سکتا ہے ۔ کیونکہ کسی حدیث شریف کے صحیح سمجھنے یا مان لینے میں کئی مراحل ہو تے ہیں ،جو تقلید کے بغیر طے نہیں ہو سکتے ۔ ائمہ اربعہ نے ایسے ایسے اصول وضع کیے ہیں جن پر عمل کرنے سے قرآن مجید اور احادیث پر عمل ہو سکتا ہے ۔ اگر ان کے بتائے ہوئے اصولوں کو اپنا معمول نہ بنایا جائے تو آج ایک حدیث شریف بھی کوئی رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں کر سکتا۔ حدیث شریف کی صحت اور ضعف کے اصول ا نھی ائمہ نے بنائے ، راویوں کی جرح قدح کی تحقیق انھوں نے ہی کی۔عام ، خاص، مشترک، مجمل ، حقیقت اور مجازا نھی ائمہ نے بیان کیے ۔ اسی لیے کوئی شخص ان کی تحقیق کو چھوڑ کر ایک مسئلےبھی صحیح ثابت نہیں کر سکتا۔([43])

مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒ اس بات کے قائل ہیں کہ ہر شخص کیو نکہ یہ صلاحیت نہیں رکھتا کہ وہ خود قرآن مجید اور احادیث سے مسائل کا حل نکال سکے اس لیے علمائے کرام اور فقہا ء نے یہ کام اپنے ذمے لیا اور مختلف آیات قرآنی اور احادیث سے تحقیق کرکے ہر ایک مسئلہ بیان کر دیا اور ہر ایک جزئی کا حکم قرآن مجید اور احادیث سے نکال کر ایک مستقل علم مدوَّن کیا، جس کا نام فقہ ہے۔([44])

علم فقہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے مولانا ابو یوسف محمد شریفؒ لکھتے ہیں کہ فقہ ، قرآن مجید اور احا دیث کے خلاف نہیں کیو نکہ ائمہ کے بیان کردہ مسائل کے استنباطات و قیاسات ا نھی مسائل کے مظہر ہیں جو قرآن مجید اور احادیث میں آئے ہیں۔ اسی لیے ان ائمہ کا یہ کہنا کہ ہمارا قول اگر کسی صحیح حدیث شریف کے خلاف پاؤ ، تو چھوڑ دو، ان کے اس اعتماد اور وثوق کا اظہار تھا کہ ان کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جس کی کوئی دلیل قرآن مجید ، سنت نبوی یا آثار صحابہ کرامؓ سے نہ ملتی ہو اور وہ صحیح حدیث کے خلاف بھی ہو۔([45]) ’’پس اگر آج کسی عالم کو موجودہ کتب حدیث میں سرسری تلاش کے باوجود کسی مسئلہ کی دلیل نہ ملے تو وہ مسئلہ بے دلیل نہیں ہو سکتا۔‘‘([46])

حافظ ابو بکر بن عبداﷲ بن محمد بن ابی شیبہ ؒ (م۔۸۴۹ء) نے حدیث شریف کے بار ے میں ایک کتاب لکھی جس کا نام مصنف ابن ابی شیبہ رکھا۔ اس کتاب میں صحیح ، حسن ،ضعیف بلکہ موضوع احادیث بھی درج کیں ۔ اس کتاب کا ایک معتدبہ حصہ صرف امام ابو حنیفہؒ کے رد میں تھا۔اس حصے میں انھوں نے وہ احادیث جمع کیں جو بادی النظر میں امام ابو حنیفہؒ کے خلاف نظر ا ٓتی ہیں ۔ اس حصے کا نام ، ’کتاب الرّد علی ابی حنیفہ‘ ہے ۔([47]) مولانا ابو یوسف محمد شریفؒ نے تائید الامام با حادیث خیر الانام([48]) کے ذریعے ثابت کیا کہ فقۂ حنفی کا کوئی مسئلہ احادیث صحیحہ کے خلاف نہیں۔

اخبار محمدی (دہلی) کے مدیر محمد دہلوی نے علامہ برہان الدین ابو الحسن علی ابن ابی بکر مرغینا نی ؒ (۱۱۱۷ء ۔ ۱۱۹۷ء) کی مشہور کتاب ہدایہ اور علامہ محمد علاء الدین حصکفیؒ (م۔۱۶۷۷ء) کی معروف کتاب درّ مختار پر بعض اعتراضات کیے اور ان میں درج چند مسائل کو اپنے تئیں قرآن مجید اور احادیث کے خلاف اور متصادم قرار دیا۔ مولانا ابو یوسف محمد شریفؒ نے ہدایہ پر اعتراضات کے جوابات([49])اور درّ مختار پر اعتراضات کے جوابات([50]) کے ذریعے ثابت کیا کہ ہدایہ اور درّ مختار کا کوئی مسئلہ ، قرآن مجید اور احادیث کے خلاف نہیں۔ صداقت الاحناف([51])، جو پنجابی نظم اور اردو نثر میں لکھی گئی ہے ، میں مولانا ابو یوسف محمد شریفؒ نے جہاں مقلدین بالخصوص حنفیہ کی صداقت اور امام ابو حنیفہ ؒکے فضائل بیان کیے ہیں وہیں بعض احادیث کی روشنی میں امام ابوحنیفہ ؒکے بارے میں بعض مبشرات کا ذکربھی کیا ہے۔

حدیث شریف اور سنت میں فرق

مولانا ابو یوسف محمد شریفؒ کے نزدیک حدیث شریف اور سنت میں فرق ہے۔ حدیث شریف کی تعریف اوپر بیان ہوئی جبکہ سنت کی تعریف ،مولانا ابو یوسف محمد شریفؒ یہ کرتے ہیں کہ سنت اس کام کو کہتے ہیں جس پر حضور اکرم ﷺ یا آپ ﷺ کے صحابہ کرامؓ نے مع الترک احیاناً مواظبت کی ہو ۔([52]) اس حوالے سے مولانا ابو یوسف محمد شریفؒ نے مزید وضاحت کے لیے آٹھ ایسی احادیث کا حوالہ دیاہے کہ جس میں حضور اکرم ﷺ نے اپنی سنت (عام طریقے سے) ہٹ کر صرف ایک بار عمل کیا ۔ مثلاً حضور اکرم ﷺ کا ایک کپڑے میں نماز پڑھنا، منبر پر نماز پڑھنا، کھڑے کھڑے پیشاب کرنا، نعلین مبارک پہنے ہوئے نماز پڑھنا،اپنی نواسی حضرت امامہؓ بنت ابو العاص بن ربیع ؓ کو اٹھا کر نماز پڑھنا وغیرہ۔ان واقعات سے استدلال کرتے ہوئے مولانا ابو یوسف محمد شریفؒ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے لیے حضور اکرم ﷺ کی سنت (عام طریقے ) پر عمل کرنا ضروری ہے۔ تاہم اگر کوئی ان ایک بار عمل والی احادیث پر عمل کرے تو وہ جائز تو ہوگا لیکن سنت نبوی نہیں۔([53])

مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒکے بقول احادیث کی کتابوں میں متضاد احادیث ملتی ہیں۔ ان میں کتب فقہ کی طرح مسائل میں فیصلہ کن حکم نہیں ملتا۔ بلکہ بعض مسائل میں تو صاف حکم ہی نہیں ملتا۔([54]) اس سلسلے میں انھوں نے دس ایسے واقعات بیان کیے ہیں کہ جن میں متضاد روایات ملتی ہیں یا کسی مسئلے میں واضح حکم نہیں ملتا ۔ مثلاً حضور اکرم ﷺ کی ظاہری وفات کے وقت عمر سے متعلق تین مختلف روایات ملتی ہیں ، حدیث سہو رسول اکرم ﷺ میں ایک جگہ ظہر کی نماز اور ایک جگہ عصر کی نماز کا ذکر آتا ہے، ایک حدیث شریف میں ہے کہ قے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے جبکہ ایک روایت ہے کہ روزہ نہیں ٹوٹتا، ایک روایت میں رسول کریم ﷺ کے صاحبزادے ؓ کی وفات کے وقت عمر سترہ دن بیان ہوئی ہے جبکہ ایک روایت میں اٹھارہ ماہ بیان ہوئی ہے ،ایک حدیث شریف میں ہے کہ سینگی لگانے اور لگوانے والے کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے جبکہ دوسری روایت ہے کہ نہیں ٹوٹتا، ایک حدیث شریف میں آیاہے کہ مردہ جانور کے چمڑے اور چربی سے نفع لینا درست نہیں جبکہ ایک جگہ ہے کہ مردہ جانور کا چمڑا دباغت دیا جائے تو نفع لینا درست ہے وغیرہ۔([55])

اس تمام بحث کے نتیجے کے طور پر، مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒ بیان کرتے ہیں کہ کیونکہ احادیث میں علاوہ مدلولات ظاہریہ کے ساتھ مدلولات خفیہ بھی ہوتے ہیں جن کو بعض سمجھ سکتے ہیں بعض نہیں۔ اسی طرح احادیث میں بہت کچھ اختلاف واقع ہوا ہے۔ ان کی عبارات میں کئی پہلو ہوتے ہیں جن سے مسائل کا استنباط مختلف طور پر ہو سکتا ہے ، پھراکثر احکام میں علتیں ملحوظ ہوا کرتی ہیں اس لیے شارع کا مقصود سمجھنا اور ہر حکم کی علت کا متعین کرنا، ایسا مشکل کام ہے کہ جس کو ہر کوئی نہیں کر سکتا یہ کام فقیہ اور مجتہد ہی کر سکتے ہیں۔([56])

حدیث شریف سے متعلق مولانا ابو یوسف محمد شریف ؒکے چند اقوال

استخراج احکام میں قرآن مجید مقدَّم ہے پھر حدیث شریف ۔حدیث شریف کو قرآن مجید کے تابع کرنا چاہیے۔([57])

حدیث فعلیہ اور قولیہ میں تعارض ہو تو قولیہ مقدَّم ہوتی ہے۔([58])

حدیث مقدَّم اور متاخّر میں تطبیق نہ ہو سکے تو لا محالہ حدیث مقدَّم منسوخ سمجھی جائے گی۔([59])

جو امر حدیث ضعیف سے ثابت ہو وہ بدعت نہیں ہوتا۔ البتہ یہ شرط ہے کہ وہ کسی حدیث صحیح کے خلاف نہ ہو۔([60])

ضعیف حدیث بھی فضائل اعمال میں مقبول ہوتی ہے۔([61])

حدیث ضعیف میں احتمال ہے کہ ضعیف راوی نے سچ بولا ہو، اس لیے وہ مطلقاً متروک نہیں ہوتی تا وقت یہ کہ کوئی صحیح حدیث شریف اس کے معارض نہ ہو۔([62])

موضوع حدیث پر عمل کرنا جائز نہیں۔([63])

ہر حدیث صحیح الاسناد کا فی الواقع غلط ہونا اور ہر ضعیف الاسناد کا فی الواقع صحیح ہوناجائز اور ممکن الوقوع ہے۔ ([64])

اہل حدیث بحیثیت مذہب ایک الگ فرقہ نہیں۔ متقدمین میں جو لوگ حدیث شریف کی خدمت میں زیادہ مشغول ہوتے تھے وہ با وجود مقلد ہو نے کے، اہل حدیث کہلاتے تھے۔([65])

اہل حدیث وہ لوگ تھے جو راویان اخبار نبوی و جامعان آثار مصطفوی ﷺ گزرے ہیں۔([66])

اختتامیہ

علوم و فنون اسلامیہ میں قرآن مجید کے بعد، احادیث نبویہ کی اہمیت ہے۔ اسی لیے علماء نے قرآن مجید کے ساتھ ساتھ احادیث نبویہ کی تبلیغ و اشاعت کے لیے بھی ہمیشہ گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ مولا نا ابو یوسف محمد شریف محدّث کوٹلویؒ نے بھی اپنی ساری زندگی ، تصانیف ، تالیفات ، مضامین ، فتاوٰی اور مواعظ حسنہ کے ذریعے، اہمیت و حجیّت حدیث شریف بیان کرنےمیں بسر کی۔انھوں نے حنفی المذہب ہونے کی وجہ سے ، فقہ حنفی کو احادیثِ نبویہ کے عین مطابق قرار دیا۔ آپ کی اسی علمی خدمت کی وجہ سے آپ کو محدث کوٹلوی کے ساتھ ساتھ فقیہ اعظم کے القابات سے بھی علمی و دینی حلقوں میں یاد کیا جاتا ہے۔

 

حوالہ جات

  1. ۔فاروقی ،اقبال احمد (مرتب) ، دارالعلوم انجمن نعمانیہ لاہور کا تعارف،انجمن نعمانیہ،لاہور،۱۹۹۰ء ، ص۱۰۔۲۸
  2. ۔نیاز،رشید ، اولیائے سیالکوٹ ، نیاز اکیڈمی ،سیالکوٹ،۱۹۹۲ء، ص ۸۴
  3. ۔نقشبندی ،مشتاق احمد، ’فقیہ اعظم کے دستورات مقدسہ پر ایک مختصر نظر‘، ماہنامہ ماہِ طیبہ (کوٹلی لوہاراں)،مارچ ۱۹۵۶ء ، ص ۲۸۔اس سلسلے میں مسند امام احمد پر ان کے حواشی ملتے ہیں۔ بشیر، ابو النور محمد ، جبریل علیہ السلام کی حکایات ،فرید بک سٹال ،لاہور،۱۹۹۰ء،ص۲۳
  4. ۔بشیر، ابو النور محمد، ’مفتی‘، ماہ طیبہ ، نومبر ۱۹۵۸ء ،ص۴۲
  5. ۔نقشبندی ،محمد رمضان (مرتبہ) ،گلزار نقشبندیہ،لالہ موسیٰ،ن۔ن، ۱۹۳۵ء ،ص ۱۱۲
  6. ۔’آہ حضرت فقیہ اعظم ؒ ‘، ہفت روزہ رضوان ،لاہور، ۲۸/جنوری۱۹۵۱ء ، ص ۱
  7. ۔ رانا،خلیل احمد(مرتب) ، نابغہ فلسطین،دارالفیض گنج بخش،لاہور، ۱۹۹۵ء ،ص ۱۴۔۱۵
  8. ۔ شریف ،ابو یوسف محمد ، اربعین نبویہ ،کتب خانہ ماہ طیبہ، کوٹلی لوہاراں، ت۔ن
  9. ۔ ایضاً، اربعین حنفیہ ،رضا پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۰۲ء
  10. ۔ایضاً، شمس الحق ،مطبع انوار احمدی،سیالکوٹ، ت۔ن
  11. ۔ ایضاً، کامن ا لنسوان فی تردید اعداء النعمان ،انوار احمدی پریس،سیالکوٹ، ت۔ن
  12. ۔ ایضاً ، نماز مدلّل، حامد ا ینڈ کمپنی،لاہور، ت۔ن
  13. ۔ایضاً ، نماز مترجم منظوم پنجابی ،مطبع انوار احمدی ،سیالکوٹ،۱۹۰۲ء
  14. ۔ احمد،مجیب ، تذ کرہ فقیہ اعظم (مرید کے:مکتبہ اشرفیہ، ۱۹۹۴ء) ، ص ۱۸
  15. ۔ ایضاً ، مستورات کی نماز ،ممتاز برقی پریس،سیالکوٹ، ت۔ن
  16. ۔ شریف ،ابو یوسف محمد ، عورتوں کا عیدین میں جانا ،مطبع مجددی ،امرتسر، ت ۔ن
  17. ۔ ایضاً، مسائل ماہ رمضان ، پرنٹنگ پریس،لاہور،ت۔ن
  18. ۔ ایضاً ،کتاب التراویح ،کتب خانہ ماہ طیبہ،کوٹلی لوہاراں، ت۔ن
  19. ۔ایضاً ، اجتہاد ، وزیر ِہند پریس، امرتسر،ت۔ن
  20. ۔ ایضاً،انتفاع الاموات بالصدقات والختمات(حصہ اول) معروف بہ ختم و فاتحہ کے جواز میں ،کریمی پریس،لاہور، ت۔ن
  21. ۔احمد، تذ کرہ فقیہ اعظم، ص ۶۱
  22. ۔شریف ،ابو یوسف محمد، نماز جنازہ کے بعد دعا ،کریمی پریس،لاہور،ت۔ن
  23. ۔احمد، تذ کرہ فقیہ اعظم ، ص ۶۲
  24. ۔اعظم ،فقیہ، تحقیق البدعت ،کتب خانہ ماہ طیبہ، کوٹلی لوہاراں،ت۔ن
  25. ۔شریف ،ابو یوسف محمد ، تصور شیح ،الفقیہ پرنٹنگ پریس،امرتسر، ت۔ن
  26. ۔ایضاً ،کشف الغطاء عن مسئلۃ النداء معروف بہ جواز ندائے یا رسول اللہ ،کریمی پریس،لاہور، ت۔ن
  27. ۔ایضاً ، اباحۃُالسلف البنا ء علیٰ قبُورِ المشائخ و العُلماء ،اسلامیہ سیٹم پریس ، لاہور،ت۔ن
  28. ۔اس حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ حضرت علیؓ نے حضرت ابی الہیاج الاسدیؓ کو فرمایا کہ’ کیا میں تمھیں اس کام کے لیے نہ بھیجوں جس کے لیے حضور اکرم ﷺ نے مجھے بھیجا تھا؟ یہ کہ کوئی تصویر نہ چھوڑ مگر کہ مٹا دے اس کو اور نہ کوئی قبر بلند کہ اس کو برابر کر دے‘۔ سعیدی ، غلام رسول ، شرح صحیح مسلم شریف ،فرید بک سٹال ،لاہور، ۱۹۸۸ء، جلد ثانی، ص۸۱۳۔۸۱۴
  29. ۔شریف ،ابو یوسف محمد، وہابیہ سے مناکحت،ممتاز برقی پریس ،سیالکوٹ، ت۔ن
  30. ۔احمد،تذ کرہ فقیہ اعظم ، ص ۶۲
  31. ۔شریف ،ابو یوسف محمد، ’مسائلِ شیعہ‘، ص ۳۱۔۶۳، ’ ماتم کا شرعی حکم ‘، ص ۶۴۔۷۰ ، ’کتاب الجنائز ‘، ص ۱۶۳۔۱۷۸ اور’آ ں حضرت ﷺ کی نجدیوں سے نفرت‘، ص ۲۸۹۔۳۰۲ ، جمیل، عطاء المصطفیٰ (مرتب) ، دلائل المسائل ،فرید بک سٹال ،لاہور، ت۔ن
  32. ۔قادری ، محمد نصیر الدین ، ’حنفی علمائے کرام کی خدمت بابرکت میں التماس ‘، ہفت روزہ الفقیہ (امرتسر ) ، ۲۸/ اگست ۱۹۲۴ء، ص ۱
  33. ۔احمد،قاضی فضل ، ’التماس ‘ ، الفقیہ،۷/ستمبر ۱۹۲۴ء ، ص ۱۰
  34. ۔شریف ،ابو یوسف محمد ، ’ تراجم صحاح ستّہ ‘، الفقیہ، ۲۱/ستمبر ۱۹۲۴ء، ص ۸
  35. ۔ایضاً ،نماز مدلّل، ص ۹۵
  36. ۔ایضاً ،(مرتب) ، اظہار الحق ،ممتاز برقی پریس ،سیالکوٹ،ت۔ن،ص ۳۲
  37. ۔بشیر، ابو النور محمد، سنی علماء کی حکایات ،فرید بک سٹال ،لاہور، ت۔ن،ص۵۵
  38. ۔شریف ،ابو یوسف محمد ،’فقہ دراصل حدیث ہے‘،جمیل ، عطاء المصطفیٰ (مرتب) ، فقہ الفقیہ ،فرید بک سٹال،لاہور، ت۔ن، ص ۲۸
  39. ۔ایضاً، ص ۲۹۔۳۰
  40. ۔شریف ،ابو یوسف محمد، ’ایک سوال کا جواب ‘، الفقیہ ،۲۰/جنوری ۱۹۲۰ء ، ص ۳
  41. ۔ایضاً ، ’ ایک استفتاء دربارہ تقلید اور اس کا جواب ‘، الفقیہ ،۲۱/اکتوبر ۱۹۳۸ء ،ص ۳
  42. ۔ایضاً ،’ضرورتِ فقہ ‘، فقہ الفقیہ ، ص ۱۲
  43. ۔ایضاً ،’ایک استفتاء دربارہ تقلید اور اس کا جواب ‘، ص ۳۔۴
  44. ۔ایضاً ،’ضرورتِ فقہ‘، ص ۹۔۱۰
  45. ۔اعظم ،فقیہ ، ’ایک استفتاء اور اس کا جواب ‘، ماہ طیبہ، اگست ۱۹۵۵ء ، ص ۸
  46. ۔شریف’ ایک سوال کا جواب ‘، ص ۲
  47. ۔خان ،محمد عمار(تالیف) ، امام اعظم ابو حنیفہ ؒ اور عمل بالحدیث ، ادارہ نشر و اشاعۃ مدرسہ نصرۃالعلوم، گوجرنوالہ،۱۹۹۶ء ، ص ۱۳، ۲۴ ۔۲۷
  48. ۔شریف ،ابو یوسف محمد، ’تائید الاما م با حادیث خیر الانام ‘، فقہ الفقیہ ، ص ۲۵۰۔۳۳۶
  49. ۔ایضاً ، ’ہدایہ پر اعتراضات کے جوابات‘،ایضاً ، ص ۱۴۹۔۲۰۴
  50. ۔ایضاً ، ’ درّمختار پر اعتراضات کے جوابات ‘، ایضا ً ، ص ۲۰۷۔۲۱۹
  51. ۔ ایضاً ، صداقت الاحناف ،صابر الیکڑک پریس ،لاہور، ت۔ن
  52. ۔ایضاً ،کتاب التراویح، ص ۱۲
  53. ۔ایضاً، ’سنت و حدیث ‘، ماہنامہ رضوان،لاہور، نومبر ۱۹۶۴ء، ص ۱۶۔۱۷
  54. ۔ایضاً ، ’غیر مقلدین کی فقہ ‘، ا لفقیہ، ۱۴/مئی ۱۹۳۰ء ، ص ۳
  55. ۔ ایضاً ، ’درہ محمدی کی تائید ‘، الفقیہ، ۷/مئی ۱۹۲۸ ء ، ص۲۔۳
  56. ۔ایضاً ، ’ضرورتِ فقہ‘ ، ص ۱۰۔۱۲
  57. ۔ایضاً ، اربعین حنفیہ ، ص ۱۳
  58. ۔ایضاً ، ص ۱۹
  59. ۔ایضاً،ص ۲۵
  60. ۔ایضاً ، نماز مدلّل ، ص ۷۰
  61. ۔ایضاً ، ’جواب الجواب‘، الفقیہ، ۵/اپریل ۱۹۱۹ء، ص ۴
  62. ۔ایضاً ، اربعین حنفیہ، ص ۳۱
  63. ۔ایضاً، ص ۴۱
  64. ۔ایضاً ، ’ضرورتِ فقہ‘ ، ص ۲۴
  65. ۔ایضاً ،’ ایک محدّث اور امرتسری مفتی‘، الفقیہ، ۵/دسمبر ۱۹۲۰ء، ص ۳۰
  66. ۔ایضاً ، شمس الحق ، ص ۱۲
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...