Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 4 Issue 2 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

اسلامی تعلیمات جنگ و امن میں انسانی اقدار کا لحاظ و تحفظ: ایک تحقیقی مطالعہ |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

4

Issue

2

Year

2017

ARI Id

1682060029336_529

Pages

32-45

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/127/116

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/127

Subjects

War Peace Islam Human Values Ethics

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

آج کل یہ تصور عام ہے کہ بین الاقوامی تعلقات(International Relations) کے قواعد وضوابط بنانا اور بین الاقوامی قانون مرتب کرنا یورپی ماہرین قانون کا کارنامہ ہے جیسا کہ مشہورآسٹریلوی محقق وقانون دان ڈی ڈبلیوگریگ(D.W.Greig)کے خیال میں یورپی جاگیرداری نظام کے بعدجب قومی سطح پرطاقت کے تصورنے زورپکڑاتوبین الاقوامی تعلقات کی ضرورت پیش آئی۔اس میں حالت جنگ اورحالت امن دونوں قسم کے تعلقات کاتذکرہ کیاجاتاہے۔ البتہ یہ بات ریکارڈپرہے کہ نپولین کی جنگوں کے بعدابتداءً ویانا میں ۱۸۱۵ء میں ایک معاہدہ ہوا اور اس کے بعدیورپی ممالک کے درمیان معاہدات کا ایک تسلسل سے جاری ہے۔یہاں تک کہ ۱۹۲۵ء اور۱۹۴۹ء میں جنیواکے معاہدے سامنے آئے۔انہیں معاہدات کی روشنی میں انجمن بین الاقوام اوربعدمیں اقوام متحدہ کاقیام عمل میں آیا۔اسی سلسلے کی ایک کڑی ادارہ بین الاقوامی قانون(International Law Commission)کاقیام بھی تھامگرحقیقت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے دور کی دیگراقوام کے ساتھ جوتعلقات کانظام جاری فرمایاوہ آج تک دنیابھر کے لیے مشعل راہ ہے اور اسی تعلقات کے سلسلے میں ہم قومی اور بین الاقوامی تعلقات کے قواعد وضوابط کی تشکیل کر سکتے ہیں۔

نبی کریمﷺ نے ہجرت مدینہ کے فوراًبعد مدینہ کی حالتِ امن کومدنظررکھتے ہوئے پہلی مملکت کاجوپہلا دستوردیااس میں دوچیزیں نمایاں تھیں۔ ایک داخلہ پالیسی کی غمازی کرتا ہے تو دوسرا خارجہ پالیسی میں مدد دیتا ہے۔ان میں سے ایک کومؤاخات مدینہ اوردوسری کومیثاق مدینہ کے نام سے یادکیا جاتاہے۔دونوں کی تفصیلات آج تک لفظ بہ لفظ محفوظ ہیں۔مؤاخات میں بحیثیت قوم مسلمانوں کے آپس کے تعلقات کانظام وضع کیاگیا گویا کہ قومی تعلقات کے لیے ایک نمونہ پیش کیا گیااورمیثاق میں مدینہ اوراردگردکے یہودیوں اوردیگراقوام کے ساتھ تعلقات کے اُصول مرتب کیے گئے۔گویا یہ ہماری بین الاقوامی تعلقات کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔

چنانچہ اسلام میں حالتِ امن اورحالتِ جنگ دونوں میں بین الاقوامی تعلقات کے الگ الگ اُصول موجودہیں جوصدیوں تک عملی تجربے سے گزرکراپنی کامیابی اورانسان پروری کاسکہ منواچکے ہیں اور نبی کریمﷺکے یہی فرامین، قواعدوارشاد کو امام محمد بن الحسن الشیبانی ؒ نے اپنی دو کتابوں ‘‘السیر الصغیر’’اور ‘‘السیر الکبیر’’ میں مرتب کرکے بین الاقوامی تعلقات کے اصول وضوابط جس طرح بیان کئے ہیں وہ رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے اور انسانوں کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔

دعویٰ امن اور اصل حقائق:

سولہویں صدی کے آغاز سے جب یورپ میں صنعتی انقلاب آیا اور سائنسی نظریات سے ایک مشینی کلچر متعارف ہوا تو ان کے سامنے دو قسم کے چیلنچز درپیش تھے۔ پہلا تو یہ کہ ان صنعتوں کے لیے خام مال کی ضرورت تھی جو کہ قابل اعتماد اور سستا ہو اور دوسرا چیلنج یہ کہ ان صنعتوں سے تیار شدہ مال کے لیے نئی منڈیاں تلاش کی جا سکے ان دونوں ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ان کے سامنے سب سے بہترین آپشن ایشیائی ممالک تھے جہاں وہ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے پہلے آئے پھر مضبوط ہوئے اور پھر دھوکہ سے قابض ہو گئے۔

بالآخر سترہویں اور اٹھارویں صدی عیسوی میں انہوں نے مشرقی سلطنتوں کو سیاسی طور پر غلام بنایا اور اپنئ ترقی کے لیے ہر ممکن وناممکن راستہ اختیار کیا اور اسی تسلسل سے آج وہ اسلامی اور مشرقی تہذیبوں کو ختم کرکے ان کے مقابلے میں ایک عالمی تہذیب بنانے کی کوشش میں لگے ہیں۔

آج کل دنیا کا ہر فرد،قوم اور ملک امن کی بات کر رہا ہے اور عالمی سطح پر اس کے لیے مختلف عالمی ادارے اور تنظیمیں قائم ہوچکی ہیں جیسے: ورلڈ پیس مؤمنٹ،سیکورٹی کونسل ،ہیومن رائٹسواچ اور کنٹرول آرم کمپینین (Control Arm Companion) وغیرہ۔ امن امان کے نام پر مختلف نظریات کا ہجوم ہے، جیسے پیسف ازم(Pacifism)،گاندھی ازم (Gandhism)،سوشلزم (Socialism)،نیشنلزم(Nationalism)،کمیونزم(Communism)اورسیکولرازم وغیرہ۔ان کے تحت دنیا میں امن واما ن کےفروغ کے لیے مختلف پروگرام ، سیمینارز اورکانفرنسیں منعقد کی جاتی ہیں۔ ان سب کا مقصد ایک ہے کہ دنیا میں امن وامان رہے اور دو یا دو سے زائد ملکوں میں جنگ نہ ہو۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے باوجود چھوٹی بڑی جنگیں ہوتی رہیں اور ان میں انسانی اقدار کی پامالی کے ساتھ لاکھوں اربوں انسانی جانیں ضائع ہوتی رہی ہیں۔ ماضی قریب میں دو عالمی جنگیں ، جنگ عظیم اول ، (۱۹۱۴ء)اور جنگ عظیم دوم(۱۹۳۹ء)اس کی نمایا ں مثالیں ہیں[1]۔ اس کے علاوہ موجود ہ دور میں افغانستان ’ عراق ’ شام ’ مصر ’لیبیا’ تیونس’کشمیر وغیرہ بھی جنگ کا شکار ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ امن وامان قائم کرنے کا نعرہ لگانے والے ممالک اسلحے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ امریکی ویب سائٹ ، کانگریشنل ریسرچ سروس(Congressional Research Service) نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ عالمی سطح پرہتھیاروں کی تجارت ساٹھ ارب ڈالر سالانہ ہے جس میں چالیس فیصد امریکہ کی ہے [2]۔

اگر اسلحہ فروخت کرنے والے ملکوں کی فہرست دیکھی جائے تو نوئما(Knoema World Data Atlas) کی ۲۰۱۳ء کی رپورٹ کے مطابق اسلحہ کی فروخت میں سرفہرست بالترتیب روس، امریکہ ،چین، فرانس اور برطانیہ ہیں جو کہ امن کے لیے سب سے بڑے داعی ہیں اور بے جا امن کے کھوکھلے نعرے لگاتے ہیں جب کہ اسلحہ کی خریداری میں ۲۰۱۴ء کی رپورٹ کے مطابق سر فہرست بالترتیب ہندوستان، سعودی عرب ،ترکی، چین اور انڈونیشیا ہیں جن میں سب سے زیادہ مسلمان ممالک ہیں۔ دفاعی بجٹ کی بات کی جائے تو ۲۰۱۴ء کی رپورٹ کے مطابق سرفہرست عمان 11.06% ،سعودی عرب 10.04%، جنوبی سوڈان 09.03%،لیبیا06.02%، کومبو 05.06% اور ہندوستان 02.04%اپنی مجموعی گھر یلو پیدوار (G.D.P) کا خرچ کرتے ہیں [3]۔یہ وہی ممالک ہیں جو کہ سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثر ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امن کے داعی وہ ممالک ایک طرف تو ان ممالک پر خود اسلحہ فروخت کرتے ہیں دوسری طرف امن سبوتاژ کرنے کا الزام بھی انہی پر لگتا ہے۔

کیا اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے؟

آج کل ایک اعتراض بلکہ ایک جھوٹا پروپیگنڈہ یہ بھی پھیلایا جا رہا ہے کہ اسلام دہشت گردی پھیلاتا ہےاور اپنے پیروکاروں میں جنگی جنون پیدا کرکے اسلام کو زور زبردستی تسلیم کروانا چاہتا ہے اور دوسروں پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ یہ اعتراض دو وجوہات کی بناء پر کیا جاتا ہے یا تو لوگ جنگ وامن کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات سے آگاہ نہیں یا بعض مستشرقین واقفیت کے باوجود منافقانہ طور پر اسلام کے بارے میں غلط پروپیگنڈہ کرکے لوگوں کو اسلام سے متنفر کرنا چاہتے ہیں لہٰذا اِس اعتراض کی نا معقولیت کو مولانا مودودیؒ نے اِن الفاظ میں واضح کیا ہے:

“اس بہتان کی اگر کچھ حقیقت ہوتی تو قدرتی طورپر اس وقت پیش ہونا چاہیے تھا جب پیروان اسلام کی شمشیر خار اشگاف نے کرہ زمین میں ایک تہلکہ بر پا کر رکھا تھا اور فی الواقع دنیا کو یہ شبہ ہو سکتا تھا کہ شاید ان کے یہ فاتحانہ اقدامات کسی خوں ریز تعلیم کا نتیجہ ہوں ۔ مگر عجیب بات یہ یہ ہے کہ اس کے خیالی پتلے میں اس وقت روح پھونکی گئی جب اسلام کی تلوار تو زنگ کھا چکی تھی مگر خود اس کے بہتان کے مصنف ، یورپ کی تلوار بے گناہوں کے خون سے سرخ ہورہی تھی اور اس نے دنیا کی کم زور قوموں کو نگلنا شروع کردیا تھا[4]۔’’

اس سے بھی زیادہ معقول اور واضح جواب جس کا آج کل ہر کوئی مشاہدہ کر رہا ہے کہ آج امریکہ میں دوسرے ادیان کی بہ نسبت اسلام بہت تیزی سے پھیل رہاہے۔روزانہ کئی سولوگ حلقہ اسلام میں داخل ہوتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ کیامسلمان اُنہیں بندوق اورتلوارکے بل بوتے پر مسلمان بنارہے ہیں یاوہ اپنی مرضی سے اسلام قبول کررہے ہیں؟امریکہ جیسی ریاست میں زبردستی کرناتوہرذی ہوش جانتاہے۔اس روشنی میں توجواب ظاہرہے کہ آخری جملہ ہی ہوگاکہ وہ لوگ اسلام کی تعلیمات اوراسلامی نظام ہائے سے متاثرہوکراسلام قبول کرتے ہیں۔انہیں اسلام میں سکون قلب محسوس ہوتاہے جودوسرے ادیان میں ناپیدہے۔اس سے تو صاف ظاہر ہے کہ سب کا یہی جواب ہوگا کہ وہ لوگ اسلامی تعلیمات اور نظام ہائے سے متاثر ہو کر اپنی مرضی سے اسلام قبول کرتے ہیں اور انہیں اس قبولیت میں کسی قسم کا تردد نہیں بلکہ دوسرے ادیان کی بہ نسبت ان کو اسلام میں زیادہ ذہنی سکون اور قلبی اطمینان ملتا ہے۔

فروغِ امن اور اسلام:

اللہ کے نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت امن بھی ہے کسی معاشرے کے لوگ تبھی عیش وراحت سے زندگی گزار سکتے ہیں جبکہ وہ پرامن ہو۔ دوسری نعمتیں چاہے جتنی بھی ہو لیکن امن نہ ہو تو وہ ساری نعمتیں بے کار ہیں چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب مکہ کے بارے میں اللہ سے دعا کرتے ہیں تو تمام نعمتوں سے پہلے وہ امن مانگتے ہیں اس کے بعد رزق اور دوسری نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہیں:

رَبِّ ٱجْعَلْ هَـٰذَا ٱلْبَلَدَ آمِناً [5]ترجمہ:اے میرے رب اس شہر کو امن والا بنا۔

اسلام نے سب سے پہلے انسانی نفوس اور اعراض واملاک کی قدروقیمت وحرمت کو ذہن نشین کرایا ۔انسانی حرمت کو اس حد تک پہنچایا کہ گویا کسی ایک آدمی کے قتل کا گناہ پورے عالم انسانیت کو ختم کرنے کے باربر گردانا اور فرمایا:

أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِى ٱلأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ ٱلنَّاسَ جَمِيعاً [6]

ترجمہ:جس نے کسی کو بغیر (دوسرے انسان کو قتل کیے) ناحق یا فساد فی الارض کے قتل کیا گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا’’

اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے فساد فی الارض ، تخریب کاری اور فصل ونسل کی بربادی کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے، ارشاد ربانی ہے:

وَاِذَا تَوَلّـٰى سَعٰى فِى الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْـهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ[7]’’

ترجمہ: اور جب اسے قتدار حاصل ہو جاتا ہے ، تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اس لئے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے ۔ کھیتوں کو غارت کرے اور نسل انسانی کو تباہ کرے۔ حالاں کہ اللہ (جسے وہ گواہ بنارہا تھا) فساد کر ہر گز پسند نہیں کرتا ۔

اسلام نے انسانوں کو ان تمام کاموں سے روکا جن سے لوگوں کے درمیان عداوت ونفرت پیدا ہوتی ہے۔ جیسے غیبت ، چغل خوری، جھوٹ ، تجسس ، بدگمانی اور ایک دوسرے کا مذاق اڑانا وغیرہ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

يٰأَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُواْ لاَ يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُواْ خَيْراً مِّنْهُمْ وَلاَ نِسَآءٌ مِّن نِّسَآءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْراً مِّنْهُنَّ وَلاَ تَلْمِزُوۤاْ أَنفُسَكُمْ وَلاَ تَنَابَزُواْ بِٱلأَلْقَابِ بِئْسَ ٱلاسْمُ ٱلْفُسُوقُ بَعْدَ ٱلإَيمَانِ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُوْلَـٰئِكَ هُمُ ٱلظَّالِمُونَ يٰأَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُواْ ٱجْتَنِبُواْ كَثِيراً مِّنَ ٱلظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ ٱلظَّنِّ إِثْمٌ وَلاَ تَجَسَّسُواْ وَلاَ يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضاً أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً فَكَرِهْتُمُوهُ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ إِنَّ ٱللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ [8]

ترجمہ:اے لوگوں جو ایمان لائے ہو ! نہ مرد دوسرے مرد کا مذاق اڑائیں ، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کےبعد تو فسق کا نام بھی برا ہے۔ او جو لوگ اس روش سے توبہ نہ کریں تو یہی لوگ ظالم ہیں۔اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ اور ٹوہ میں نہ لگو۔ اور نہ ایک دوسرے کی غیبت کرو۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کر ے گا کہ اپنے مردار بھائی کا گوشت کھائے؟ تم نے تو اس کو ناگوار جانا۔ اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ بڑ ا تو بہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔

بلکہ اللہ نے تمام انسانیت کو آپس میں مربوط ومامون رکھنے اور شروفساد سے بچانے کے لیے تمام انسان کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا اور فرمایا کہ تم سب ایک ہی ماں باپ سے پیدا ہوئے ہو لہٰذا بھائیوں کی طرح پُرامن رہو، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يٰأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُواْ رَبَّكُمُ ٱلَّذِى خَلَقَكُمْ مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ[9]

ترجمہ: اے لوگوں اپنے اس رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا.

اسلام کی خارجہ پالیسی اور تعلیمات جنگ وضرب:

دین اسلام نے دوسری قوموں اور ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے’ ان سے لین دین ’ تجارت اور ان کی صنعت و حرفت سے مستفید ہونے سے منع نہیں کیا ہے۔ مزید یہ کہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو انہیں اپنے مذہب اور عقائد کے مطابق عمل کرنے کو پوری اجازت دی ہے اور مسلمانوں سے جنگ نہ کرنے والوں کے ساتھ انصاف کرنے اور حسن سلوک کرنے کی ہدایت کی ہے۔ قرآن مجیدمیں ارشاد ہے:

لَّا يَنْهٰكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّـذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِى الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَـرُّوْهُـمْ وَتُقْسِطُوٓا اِلَيْـهِـمْ ۚ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ[10]

ترجمہ: اللہ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف کرنے سےنہیں روکتا جنہوں نے دین کے معاملے میں نہ تم سے جنگ کی ہے اور نہ تم کو تمہارے گھروں سےنکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔’’

ان اصول ومبادی سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں امن وامان کو کیا حیثیت دی گئی ہے۔ خود قرآن کریم کی ۱۳۳ سے زیادہ آیتوں میں لفظ سلم اور اس مادے کے دیگر الفاظ موجود ہیں جب کہ لفظ حرب(جنگ) پر مشتمل صرف چھ آیات ہیں۔ اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کےجملہ اغراض و مقاصد میں امن وسلامتی کی فکر کو اہم مقام حاصل ہے۔تاہم کبھی کبھی دفع فساد یا دفاع کے لیے تلوار اٹھانی پڑتی ہے۔ لیکن اس بارے میں یہ جاننا چاہیے کہ اسلام میں جنگ کااصل مقصدحریف اور مدمقابل کوقتل کرنااوراس کونقصان پہنچانانہیں بلکہ اس کے شرکودفع کرناہے تاکہ اللہ کی مخلوق اس کے شرسے محفوظ رہے اوراللہ کاکلمہ بلندہو۔اس وجہ سے اسلام نے قوت کے استعمال کی انہی طبقات کے خلاف اجازت دی ہے جوبرسرپیکارہوں’جن سے شرکااندیشہ ہو۔باقی تمام انسانی طبقات کو اسلام کے نزدیک جنگ کے اثرات سے محفوظ رہناچاہیے اوردشمن کی ان چیزوں تک بھی ہنگامۂ کارزارکے متجاوزنہ ہوناچاہیے جن کوان کی جنگی قوت سے کوئی تعلق نہ ہو۔اسلام نے جنگ کاجو تصوردنیاکے سامنے پیش کیاہے وہ اس تصورسے یک قلم مختلف ہے جوغیرمسلم دماغوں میں موجود ہے۔موجودہ دورمیں جوجنگیں ہوتی ہیں ان میں صرف انسانوں کومارنااورمکانوں کوگرانااورعوام الناس کے دلوں میں دہشت اورہیبت پیداکرناہوتاہے بلکہ موجودہ جنگیں ایک طرح سے بے مقصد جنگیں ہیں۔

اسلام میں جنگ کے مقاصد:

(الف)ظلم کاازالہ:

اسلام نے جو سب سے پہلی بار جہاد کی اجازت دی اس فرمان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس جنگ کا مقصد ظلم وزیادتی کو دور کرنا اور امن وامان کو قائم کرنا ہے تاکہ وہ انسانی اقدار جو کہ ظلم کی وجہ سے پامال ہو گئے تھے بحال ہو جائے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُواْ وَإِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ[11]

ترجمہ:اجازت دے دی گئی ان لوگوں کوجن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے کیوں کہ وہ مظلوم ہیں اوریقیناً اللہ ان کی مددپرقادرہے۔

دوسری جگہ فرمایا:

وَلَمَنِ ٱنتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُوْلَـٰئِكَ مَا عَلَيْهِمْ مِّن سَبِيلٍ[12]

ترجمہ:اورجوظلم ہونے کے بعدبدلہ لیں اُن پرکوئی ملامت نہیں۔

بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ اسلام نے ظالم کو دفع کرنے کی صرف اجازت نہیں بلکہ حکم بھی دیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالْوِلْـدَانِ الَّـذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَـآ اَخْرِجْنَا مِنْ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ اَهْلُـهَاۚ وَاجْعَل لَّنَا مِنْ لَّـدُنْكَ وَلِيًّا وَّاجْعَل لَّنَا مِنْ لَّـدُنْكَ نَصِيْـرًا[13] 

ترجمہ: آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں ، عورتوں اور بچوں کی خاطرنہ لڑو جو کمزور پا کر دبالیے گئے ہیں اور فریاد کر رہےہیں کہ خدا یا ، ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی ومددگار پیدا کردے۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام دنیا میں امن قائم کرنےکے لئے بھی جنگ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن اسی کو جہاد فی سبیل اللہ سے تعبیر کرتاہے۔ اس سے یہ بات بالکل اخذ نہ کی جائے کہ اسلام زبردستی لوگوں کو مسلمان کرتا ہے بلکہ اس بارے میں تو قرآن نے دو ٹوک اور واضح ارشاد فرمایا ہے :

لَآ اِكْـرَاهَ فِى الدِّيْنِ [14]ترجمہ:دین کو قبول کرنے کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔

(ب)روئے زمین سے فتنہ وفساد دور کرنا:

اسلام نے اپنے متبعین کو جو جہاد کا حکم دیا ہے اس کا ایک مقصد فتنہ وفساد کو دفع کرنا بھی ہے تاکہ دنیا تمام اقوام کے لیے امن کا گہوارہ بنے اور دنیا سے فساد مکمل طور پر ختم ہو چنانچہ فرمایا:

وَقَاتِلُوْهُـمْ حَتّٰى لَا تَكُـوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُـوْنَ الـدِّيْنُ كُلُّـه لِلّٰهِ[15]

ترجمہ:ان سے جنگ کروتا آں کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورے کا پورا اللہ کےلیے ہو جائے۔

اس کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے جنگ کرنا اسلام میں جائز نہیں بلکہ اسلامی فقہ کے پورے ذخیرہ میں یہ بات موجود نہیں کہ محض ملک وریاست اور مال ودولت کے حصول کے لیے جنگ کی جائے اور اس پر پورے امت مسلمہ کا اتفاق ہے۔ ہاں جہاں کہیں کوئی مسلمانوں کو تنگ کرکے ان پر ظلم کرنا چاہے تو اسلام اپنے متبعین کو جنگ کرنے کا حکم دیتا ہے اور جو لوگ ظلم وجبر کرتے ہیں ان کے بارے میں فرمایا:

اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوْبُوْا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذابُ الْحَرِيقِ [16]

ترجمہ:ان کو مؤمنوں کی یہی بات بری لگتی تھی کہ وہ خدا پر ایمان لائے ہوئے تھے جو غالب (اور) قابل ستائش ہے۔

دوران جنگ انسانی اقدار کی تحفظ اور اسلامی تعلیمات:

اسلام سے پہلے جتنی بھی جنگیں ہوتی تھی اس کا نام سنتے ہی روح کانپ اٹھتی ہے لیکن اسلام نے سب سے پہلے جنگ کے سلسلے میں گذشتہ طریقوں کی اصلاح کی، اس کے بعد اس کے لیےپاکیزہ اصول طے کیے۔اسلام نے انسانیت کو جو مقام دیا وہ سب کے سامنے ہے حتیٰ کہ حالت جنگ میں بھی اس کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے دیا۔نبی کریم ﷺ کی طر ف سے فوجوں کو روانہ کرتے وقت انسانی اقدار سے متعلق باقاعدہ ہدایات دی جاتی تھیں۔ چناں چہ آپﷺسپہ سالار اور فوج کو پہلے تقویٰ اور خوفِ خدا کی نصیحت کرتے پھر ارشاد فرماتے :

اغزُوْابسم اللہ،وفی سبیل اللہ،قاتِلوا مَن کَفَر باللہ،ولا تَغُلُّوْا،ولا تَغْدِرُوْا،ولا تُمَثِّلُوْا ولا تَقْتُلُوْا ولیداً[17]’’

ترجمہ:جاؤ اللہ کا نام لے کر اور اللہ کی راہ میں ، لڑو ان لوگوں سے جو اللہ سے کفر کرتے ہیں مگر جنگ میں کسی سے بدعہدی نہ کرو، غنیمت میں خیانت نہ کرو، مثلہ نہ کرو اور کسی بچے کو قتل نہ کرو۔

اسلام میں انسانی اقدار کی اتنی پاسداری ہے کہ شریعت اسلامی کے مقاصد کا مدار ہی انسانی اقدار ہے جس کا خلاصہ ہے کہ انسانی جان، مال، عزت ہر حال میں محفوظ ہوں اور اس کےلیے حالت جنگ میں بھی اسلام نے کچھ اصول وضوابط مقرر کیے ہیں۔جن میں سے کچھ اصول اور ضوابط کی تفصیل درجہ ذیل ہے:

بوقت ضرورت اور برائے ضرورت جنگ کرنا:

اللہ تعالیٰ نے جنگ کے حدود مقرر کر دیے ہیں اور اس سے آگے بڑھنے سے منع کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُواْ بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ [18]

ترجمہ: اگر تم بدلہ لو تو اتنا ہی بدلہ لو جتنی تم کو تکلیف دی گئی ہے۔

اب اس سے زیادہ کسی کو تکلیف دینا شرعی اعتبار سے جائز نہیں۔

صلح کے لیے کوشش کرنا:

اسلام ہر حالت میں امن وامان کو ترجیح دیتا ہے اس لیے اسلام نے اپنے دشمن خواہ وہ کیسا بھی دشمن ہو سے صلح کی پیشکش قبول کرنے کا حکم دیا ہے ۔

قرآ ن مجید میں ارشاد ہے:

وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَـهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ ۚ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْـمُ[19]

ترجمہ:اگر وہ صلح کے لئے جھکیں تو تم بھی جھک جاؤ اور اللہ پر بھروسہ رکھو کہ وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔

اس کے بعد اگر وہ صلح کی خلاف ورزی کریں تو چپکے سے ان پر حملہ نہ کیا جائے بلکہ کھل کر ان سے کہہ دیا جائے کہ اب ہمارا معاہدہ ختم ہو گیا ہے لہٰذا اب جنگ کے لیے تیار رہو،جیسا کہ ارشاد ہے:

وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَةً فَانْبِذْ اِلَيْـهِـمْ عَلٰى سَوَآءٍ ۚ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْخَآئِنِيْنَ[20]

ترجمہ:اور اگر کبھی تمہیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو اعلانیہ اس کے آگے پھینک دو، یقینا اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا۔

سفیر کے قتل کی ممانعت

اسلام نے سفیروں کوتحفظ دی ہے’ خواہ وہ کتنا ہی گستاخانہ پیغام کیوں نہ لائیں۔ مسیلمہ کذاب کا سفیر‘‘ عبادہ بن الحارث’’جب رسول اللہﷺ کے پاس آیا تو آپﷺ نے فرمایا:

لو لا انک رسولٌ لَضرَبْتُ عُنُقَکَ[21] ترجمہ:اگر تم قاصد نہ ہوتے تو میں تیری گردن مار دیتا ۔

بے جا تخریب وفساد سے منع:

اسلام نے روایتی جنگوں اور ان کے طریقوں سے منع فرمایا کہ راستے میں جو بھی دشمن کے

املاک نظر آتے ان کو نابود کر دیا جاتا،اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے:

وَاِذَا تَوَلّـٰى سَعٰى فِى الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْـهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ[22]

ترجمہ:اور جب وہ حاکم بنتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ زمین میں فسا دپھیلائے اور فصلوں اور نسلوں کو برباد کرے، مگر اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا ہے۔’’

تاہم کبھی کبھی جنگی مصلحت کی بنا پر کبھی کبھی ایسا ہوا بھی ہے جیسا کہ غزوہ بنی نضیر کے موقع پر ان کے مکانات وتعمیرات کو تباہ کر دیا تھا تاکہ ان کو تکلیف پہنچایا جا سکے۔ اس کے علاوہ جنگ میں جنگی چال چلانا اور کے لیے ظاہری اعتبار سے دشمن کو فریب دینا بھی جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا فرما ن ہے:

الحَربُ خُدْعَۃً [23]ترجمہ: جنگ فریب دہی (چال )ہے۔

تاہم اس میں اسلام کی مسلمہ احکام کی خلاف ورزی نہ ہو۔

حملہ کرنے سے پہلے دشمن کو بتانا:

اسلام نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہے کہ راتو ں رات دشمن پر بے خبری میں حملہ کیا جائے۔ نبی کریمﷺ جب بھی حملہ کرتے تھے تو صبح کی روشنی میں حملہ کرتے تھے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

کان اذا غزا قوما لم یُغِر حتی یُصبِحَ فان سمع أذَانًا اَمسک وان لم یسمع أذانًا اَغار بعد ما یُصبح[24]’’

ترجمہ:نبی کریمﷺ جب کسی دشمن قوم پر( رات کے وقت پہنچتے) تو جب تک صبح نہ ہو جاتی حملہ نہ کرتے تھے۔جب آپ اذان سنتے توان پرحملہ کرنے سے منع ہوجاتے تھے اوراگراذان نہیں سنتے توصبح کے بعدحملہ کرتے۔

باندھ کر یا تکلیف دے کر قتل کی ممانعت:

نبی کریمﷺ نے دشمن کوباندھ کر یا تکلیف دے کر مارنے اور قتل کرنے سےمنع فرمایاہے۔، سیدنا ایوب انصاریؓ سے مروی ہے:

ینھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن قتل الصبر[25]

ترجمہ:نبی کریمﷺ نے قتل صبر ( باندھ کر مارنے سے) منع فرماتے تھے

مثلہ کرنے کی ممانعت:

عرب اور بعض دیگر اقوام جنگ میں دشمنوں کی لاشوں کا مثلہ کیاکرتے تھیں۔ نبی کریمﷺنے انسانی لاشوں کی بے حرمتی کرنے اور مثلہ کرنے سے منع کیا، مغیرۃ بن شعبۃ ؓ سے مروی ہے:

نھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم عن المُثلۃ[26]

نبی کریم ﷺ نے مثلہ (مقتول کے اعضاء کوکاٹنا) سے منع فرمایاہے۔

آگ سے جلا کر مارنے سے منع:

اسلام سے قبل جنگ میں قیدیوں یا دشمنوں کو آگ میں زندہ جلادیا جاتا تھا۔ نبی کریمﷺ نے اس سے منع فرمایا ۔ ارشاد نبوی ہے:

انہ لا ینبغی ان یعذب بالنار اِلا رب النار[27]

ترجمہ:آگ کا عذاب دینا سوائے آگ کے پیدا کر نے والے کے اور کسی کو سز اوار نہیں۔

قیدیوں کے ساتھ برتاؤ:

اسلام نے قیدیوں کے بارے میں انتہائی منصفانہ اور نرم رویہ اختیار کیا ہے۔ ان سے برا سلوک کرنے سے منع فرمایا ، قرآن مجیدمیں ارشادباری تعالیٰ ہے:

حَتّٰٓى اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْهُـمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَۙ فَاِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَآءً حَتّـٰى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَا[28]

یہاں تک کہ جب تم انہیں اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو، اس کے بعد (تمہیں اختیار ہے)یاتو احسان کر کے چھوڑ ویا فدیہ لے کر، تا آں کہ لڑائی اپنے ہتھیارڈال دے۔

اس سے واضح ہے کہ قیدیوں کے بارے میں حکومت کو اختیار ہے یا تو فدیہ لے کر آزاد کریں یا بغیر بدیہ کے آزاد کریں بلکہ اللہ تعالیٰ نے قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان کو کھانا کھلانے کو باعاث نیکی قرار دیا اور اسے مومن کی خوبی بتایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَيُطْعِمُونَ ٱلطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِيناً وَيَتِيماً وَأَسِيراً إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ ٱللَّهِ لاَ نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَآءً وَلاَ شُكُوراً [29]

ترجمہ:اور وہ مسکین،یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں ، اس کی چاہت کے باوجود اور (اس جذبے کے ساتھ )ہم تمہیں صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے کھلاتے ہیں۔ ہم تم سے کسی بدلے اور شکریہ کے طالب نہیں ہیں۔

جہاد کا ایک اور مقصد:

اسلام نے جہاد کے ذریعے مال غنیمت اور خراج وغیرہ جمع کرنے کا مقصد نہیں بنایا بلکہ لوگوں کے دلوں میں اسلام بٹھانے کے لیے جہاد کا حکم دیا چنانچہ ایک مرتبہ حیان بن شریح ؒ کے حضرت عمربن عبد العزیزؒ کو لکھا:

أَنَّ حَيَّانَ بْنَ شُرَيْحٍ عَامِلَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَلَى مِصْرَ كَتَبَ إِلَيْهِ : إِنَّ أَهْلَ الذِّمَّةِ قَدْ أَسْرَعُوا فِي الْإِسْلاَمِ وَكَسَرُوا الْجِزْيَةَ ،فَكَتَبَ إِلَيْهِ عُمَرُ : أَمَّا بَعْدُ،فَإِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا دَاعِيًا،وَلَمْ يَبْعَثْهُ جَابِيًا،فَإِذَا أَتَاكَ كِتَابِي هَذَا فَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ أَسْرَعُوا فِي الْإِسْلاَمِ وَكَسَرُوا الْجِزْيَةَ فَاطْوِ كِتَابَكَ وَأَقْبِلْ.[30]

ترجمہ:عامل مصرحیان بن شریح نے عمربن عبدالعزیزکوخط لکھاکہ :اہل ذمہ تیزی سے اسلام قبول کررہے ہیں اورجزیہ دیناچھوڑدیاہے۔توآپ نے اُسے جواب میں لکھاکہ اللہ تعالیٰ نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کوہدایت دینے کے لیے بھیجاہے مال وصول کرنے کے لیے نہیں۔جب تمہیں میرایہ خط ملے توجب اہل ذمہ اسلام قبول کرے اورجزیہ چھوڑدے توتم اپنارجسٹربندکرکے ان سے اسلام قبول کرو۔

اسی طرح سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ایران کی طرف ربعی بن عامرکوبھیجا تو انہوں نے جنگ قادسیہ سے ذرا پہلے ایرانی قائد’رُستم سے کہا:

فو الله لإِسْلامُكُمْ أَحَبُّ إِلَيْنَا مِنْ غَنَائِمِكُمْ [31]

ترجمہ:اللہ کی قسم تمہارامسلمان ہوناہمیں تمہارے اموال سے زیادہ پسندہے۔

ان واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ جہاد کا مقصد مال جمع کرنا نہیں بلکہ اعلائے کلمۃ اللہ ہے۔

اسلامی غزوات اور موجودہ جنگوں کا موازنہ:

اسلام نے ایک طرف تو امن کا داعیہ لے کر عالم میں روشنی پھیلائی تو دوسری طرف اس راہ کی رکاوٹ دور کرنے کے لیے تلوار کا سہارا بھی لینا پڑا لیکن نبی کریم ﷺ کی زندگی میں کل ۱۹ اور بعض روایتوں کے مطابق ۲۷ غزوات ۔ امام بخاری نے غزوات کی تعداد زید بن ارقمؒ کے حوالے سے انیس (۱۹) لکھی ہے[32] اور ۵۴ سرایا اور بعض کے مطابق ۵۶ سرایا ۲ھ سے ۹ھ کے درمیان آٹھ سال کی مدت میں ہوئے۔نبی کریمﷺ نے یہ جنگیں صرف اس لیے لڑیں کہ خطرات کوشدید ہونے سے پہلے ختم کیاجائے۔ اگر ان لڑائیوں کو جار حانہ اور اقدامی تسلیم کر لیا جائے تو بھی ان میں مجموعی طور سے ۲۵۹ مسلمان شہید ہوئے ۔ مخالفین کی طرف سے مجموعی طور سے‘۷۵۹’افراد قتل کیے گئے اور‘ ۶۵۶ ’قیدی بنائے گئے۔ جن میں سے ‘۶۳۴۷ ’قیدیوں کو نبی کریمﷺ نے ازراہ احسان بلاکسی شرط کے آزاد فرمادیا تھا[33]۔

اِس کے برعکس جنگ عظیم اوّل ۱۹۱۴ء میں کم وبیش ایک کروڑ انسانوں کا خاتمہ ہوا اور دوسری جنگ عظیم ۱۹۳۹ء میں چھ(۶) کروڑ افراد مارے گئے۔ موجودہ دور میں ۱۹۹۰ء کے بعد سے افغانستان ، عراق اور پاکستان میں ہی دہشت گردی کے نام پر ۴ ملین ( ۴۰لاکھ) مسلمان مارے جاچکے ہیں[34]۔ اگر اِس میں شام ’ مصر ’لیبیا’ تیونس اورکشمیروغیرہ کو شامل کر لیا جائے تو مقتولین کی تعداد ۵ ملین (۵۰لاکھ)سے تجاوز کر جائے گی۔ لاکھوں عورتوں ’ بچوں اور بے گناہوں کی تباہی ان کے علاوہ ہے۔ مکانوں ’ شہروں ’ ضروریات زندگی اور غذائی سامانوں کی بربادی کا تو تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ پھر عالم گیر جنگوں کا مقصد توسیع سلطنت’ حصول اقتدار ’ خود غرضی اور اجتماعی ضد اور عصبیت کے سوا کچھ نہیں رہا۔ اسی وجہ سے ان جنگوں میں انسانی اقدار کا تحفظ نہیں کیا گیا۔ اس کے برعکس اسلام میں جہاد کا تصور یکسر مختلف تھا جو کہ تبلیغ اسلام کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا اور ظلم وستم کو دفع کرنا تھاجو کہ وقت کی ضرورت بھی ہے اور اسلام کی اصل روح بھی ہے۔

 

حوالہ جات

  1. مفتی ظفیر الدین’ اسلام کا نظام امن’ قاسمی کتب خانہ جامع مسجد ’ جموں توی ’کشمیر ’ اشاعت دوم’ ۱۹۹۸ء’ صفحہ: ۱
  2. http:/www.fas.org/sgp/crs/weapons/
  3. http:/knoema.com/atlas/National-Defense
  4. سید ابو الا علیٰ مودودی’ الجہاد فی الاسلام ’ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ’ نئی دہلی’ ۲۰۰۷ء’ صفحہ:۱۵۔
  5. القرآن ،ابراہیم۳۵:۱۴
  6. القرآن ،المائدۃ۳۲:۵
  7. القرآن ،البقرۃ۲۰۵:۲
  8. القرآن ،الحجرات۴۹: ۱۲-۱۱
  9. القرآن ،النساء۴ :۱
  10. القرآن ،الممتحنۃ۸:۶۰
  11. القرآن ،لحج ۳۹:۲۲
  12. س القرآن ،الشوریٰ ۴۱:۴۲
  13. القرآن ،النساء۴:۷۵
  14. القرآن ،البقرۃ۲۵۶:۲
  15. القرآن ،الا نفال۳۹:۸
  16. القرآن ، البروج۱۰:۵۸
  17. سنن ترمذی’محمدبن عیسیٰ بن سورۃ الترمذی(۲۷۹ھ)’حدیث:۱۵۵۰’دارابن الہیثم’قاہرہ’س۔ن
  18. القرآن ،النحل۱۲۶:۱۶
  19. س القرآن ،الانفال۸ :۲۱
  20. القرآن ،الا نفال۸ : ۵۸
  21. صحیح ابن حبان’ابو حاتم محمدبن حبان بن احمد(۳۵۴ھ)’حدیث:۴۸۷۹’مؤسسۃ الرسالۃ’بیروت’س۔ن
  22. القرآن ،البقرۃ۲ :۵۰۲
  23. صحیح بخاری’محمدبن اسماعیل’حدیث:۳۰۲۹’دارالسلام’س۔ن
  24. صحیح بخاری’حدیث:۲۹۴۳
  25. سنن ابوداؤد’سلیمان بن اشعث’حدیث :۲۶۸۷’دارالسلام’س۔ن
  26. مسند احمد ’احمدبن محمد بن حنبل’حدیث: ۱۷۶۸۶’دارالحدیث القاہرہ’س۔ن
  27. سنن ابوداؤد’حدیث :۲۶۷۵
  28. القرآن ،محمد۴۷: ۴
  29. القرآن ،الدھر۷۶: ۸
  30. طبقات الکبریٰ’محمدبن سعد(۲۳۰ھ)’۵ : ۳۸۴’دارصادربیروت’۱۹۶۸ء
  31. تاریخ طبری’تاریخ الرسل والملوک’ابن جریرالطبری’ ۳ : ۵۲۸’دارالتراث’بیروت’۱۳۸۷ھ
  32. صحیح بخاری ’حدیث:۳۹۴۹
  33. قاضی محمد سلیمان سلما ن منصور پوری ’رحمۃ للعالمین’ مرکز الحرمین الاسلامی فیصل آباد ’ پاکستان ’۲۰۰۷ء’ جلد: ۲’صفحہ: ۴۲۶-۴۲۳۔
  34. IPPNW (International Physicians for the Prevention of Nuclear War), Casuality Figures after 10 Years of the War on Terror Iraq Afghanistan Pakistan,Washington DC,Berlin Ottaw-March 2015.
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...