Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 4 Issue 1 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

اسلام کے ابتدائی عہد میں فقہی و قانونی سرگرمیوں پر تحقیقی نظر |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

4

Issue

1

Year

2017

ARI Id

1682060029336_527

Pages

20-39

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/116/106

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/116

Subjects

Fiqh Prophet Muhammad (S.A.W) Khulafa Compilation Ijtihad Legal status

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی مرضیات کو قرآن عظیم کی صورت میں نبی آخر الزماں محمد رسول اللہ کے ذریعہ بنی نوع انسان تک منتقل کیا۔ ذات باری تعالیٰ نے اپنی کتاب کی تبیین کا فریضَہ آپ کو سونپ کر توضیحات وتشریحات نبی کو بھی دینی اساس ٹھہرایا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبوی علوم معارف سے براہِ راست استفادہ کرکے اساسیات دین کی تحفیظ وانتقال کا بے مثل کارنامہ سرانجام دیا۔ تابعین اور تبع تابعین کے طبقات نے دینی روایت کی تدوین وترویج کا فریضَہ اپنے ذمہ لے کر اس کا حق ادا کردیا۔

  • اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہ علوم اسلامیہ و عربی،جی سی یونیورسٹی ،فیصل آباد

نصِ قرآنی رسول اکرم کی بحیثیت رسول چار کاموں پر مامور فرمائے جانے کا ذکر کرتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِھٖ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ (۱)

ترجمہ :حقیقت میں اللہ نے (بڑا) احسان مسلمانوں پر کیا جب کہ انہی میں سے ایک پیغمبر اُن میں بھیجا جو اُن کو اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک صاف رکھتا ہے اور انہیں کتاب اور حِکمت کی تعلیم دیتا ہے اور بے شک یہ لوگ کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔

مذکورہ آیت کے مطابق رسالت کے چار وظائف ہیں:

۱۔ تلاوت آیا ت۲۔ تزکیۂ نفس

۳۔ تعلیم کتاب۴۔ تعلیم حکمت

سورۂ آل عمران کی اس آیت میں رسالت محمدی کا چوتھا وظیفہ حکمت کی تعلیم ذکر کیا گیا ہے۔ امام راغب اصفہانی حکمت کے معانی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حکمت علم و عقل کے ذریعے حق بات دریافت کر لینا ہے

الحکمۃ اصابۃ الحق بالعلم والعقل (۲)

امام المفسرین ابن جریرطبری لکھتے ہیں مفسرین کے درمیان الحکمۃ کے معانی کی تعیین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض نے اس سے مراد سنت لی ہے اور بعض کے نزدیک حکمت سے مراد معرفت وتفقہ فی الدین ہے۔ (۳)

علامہ طبری نے ابن وہب کی روایت ذکر کی ہے کہ انہوں نے مالک سے حکمۃ کا معانی پوچھا تو مالک نے اس سے مراد معرفت وتفقہ فی الدین اور اتباع دین کو قرار دیا۔ (۴)

امام شوکانی کے نزدیک حکمت سے مراد معرفتِ دین، آیات قرآنی میں تفقہ اور فہم شریعت ہے۔ (۵)

مذکورہ آراء کی روشنی میں حکمت سے مراد تفقہ اور فہم شریعت ہے ۔ اس کی تائید عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ جب نبی کریم ا نے ان کے لیے دعا فرمائی : ’’اللھمّ علمہ الحکمۃ‘‘ (۶)یعنی اے اللہ اس کو حکمت (تفقہ فی الدین) سکھا۔ اور دوسری روایت میں ’’اللھمّ فقھہ فی الدین‘‘ (۷)اے اللہ اسے دین کا گہرا ادراک عطا فرما۔کے الفاظ مذکور ہیں۔

ما قبل منقول آراء سے یہ بات بخوبی سمجھی جاسکتی ہے کہ حکمت سے مراد تفقہ فی الدین ہے جس کی تعلیم کے لیے رسول اکرم اﷺمامور من اللہ تھے۔

صحابہ کرام کی فقہی تربیت:

قرآن کریم کی تبیین وتشریح کا فریضَہ سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ نبی کریم ﷺنے نصوص کی تفہیم کے لیے تعقل وتفقہ کی تعلیم بھی دی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کی عملی طور پر مشق کروائی تاکہ استنباط احکام اور تفہیم دین کے میادین میں حضرات صحابہ مہارت تامہ کے حامل ہوجائیں اور پیش آنے والے حوادث ونوازل پر حکم لگا سکیں۔ نبی کریم ﷺکے اختیار کردہ اسلوبِ تربیت کو تین مراحل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

پہلا مرحلہ:

نبی کریم ﷺاپنے اصحاب کو مختلف تعبیرات کے ذریعہ اجتہاد و تفقہ پر اُبھارتے تھے۔ آپ ﷺنے متعدد مواقع پر تفقہ کی فضیلت واہمیت بیان کی تاکہ صحابہ کرام غوروفکر کرکے مسائل کا حل نکالنے میں پختگی حاصل کرلیں۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا:

من یرد اللہ بہ خیراً یفقہ فی الدین (۸) ترجمہ : اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں اسے دین کا گہرا فہم عطا کرتے ہیں۔

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:

اذا حکم الحاکم فاجتھد فاصاب فلہ اجران،واذا حکم فاجتھد، ثم اخطا فلہ اجر (۹)

ترجمہ : جب کوئی حاکم کسی مسئلہ میں فیصلہ دے اور اجتہاد سے کام لے تو فیصلہ درست ہونے کی صورت میں اس کو دہرا ثواب ملے گا اور اس سے فیصلہ میں غلطی ہو جائے تو تب بھی اس کو ثواب ملے گا۔

پہلی روایت میں فقیہ کی عظمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ جس سے بھلائی کا ارادہ رکھتے ہیں تو اسے فقہی بصیرت عطا فرماتے ہیں جب کہ دوسری روایت میں صحابہ کرام کو اجتہاد کی وجہ سے دوہرے اجر کی خوش خبری سنائی۔

دوسرامرحلہ:

رسول اکرم ﷺنے استنباط احکام کے لیے تعقل کے استعمال پر زور دیا اور اس کے لیے عملی اسلوب اختیار فرمایا جس کی متعدد مثالیں ہمارے دینی ادب میں محفوظ ہیں۔ چند نمونے ذیل میں مذکور ہیں:

نبی اکرم ﷺکے ایک صحابی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ میری بہن نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن وہ حج نہ کرسکیں اور وفات پاگئیں تو کیا میں ان کی جگہ حج کرسکتا ہوں۔ رسول اکرم ﷺنے فرمایا:

’’لوکان علیھا دین اکنت قاضیہ؟ قال نعم قال: فاقض دین اللہ احق بالادا (۱۰)

ترجمہ :اگر اس پر قرض ہوتا تو کیا تم ادا کرتے اس نے کہا ہاں آپ ﷺنے فرمایا اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔‘‘

یہاں حضور اکرم ﷺنے اللہ تعالیٰ کے قرض کو انسان کے قرض پر قیاس فرمایا کیوں کہ یہ علت دونوں میں موجود ہے۔ اسی طرح ایک دن سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ ایک دن میں نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لیا( تو کیا اس سے روزہ جاتارہا؟)

رسول اکرم ﷺنے فرمایا: ارایت لو مضمضت من الماء وانت صائم (۱۱)

ترجمہ : یعنی روزے کی حالت میں کلی کرنے سے جیسے روزہ نہیں ٹوٹتا ایسے ہی اس عمل سے نہیں ٹوٹتا۔

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺسے عرض کی کہ مالدار لوگ صدقہ خیرات کرتے ہیں روزہ رکھتے ہیں اس وجہ سے وہ آخرت میں ہم سے بازی لے جائیں گے رسول اللہﷺ نے فرمایا تم بھی یہ کرتے ہو۔ حضرت ابوذررضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کی وہ صدقہ و خیرات کرتے ہیں ہم صدقہ و خیرات نہیں کرتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارے لیے بھی صدقہ ہے تمہارا راستے سے ہڈی اُٹھانا صدقہ ہے تمہارا گناہ سے بچنا بھی صدقہ ہے تمہارا کمزور کی مدد کرنا بھی صدقہ ہے اور رتمہارا اپنی بیوی سے ہم بستری کرنابھی صدقہ ہے۔

عرض کی گئی کہ اے اللہ کے رسول(ﷺ)!کیا ہمیں اپنی شہوت پوری کرنے پر بھی اجر دیا جاتا ہے۔ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: اگر تم اپنی بیوی کے علاوہ کسی اور کے ساتھ کرتے تو کیا تم گناہ گار نہ ہوتے؟ حضرت ابوذررضی اللہ عنہ نے کہا:جی!ایسا ہی ہے(یعنی گناہ گار ہوتے)۔ (۱۲)

تیسرامرحلہ:

صحابہ کرام کی فقہی تربیت کے لیے جو متعدد طرق اختیار کیے گئے ان میں سے ایک طریقہ ان حضرات کو مختلف معاملات میں فیصلہ کرنے کی ذمہ داری سونپنا تھا۔ تاکہ عملی مشق کرکے فیصلہ سازی میں گہری بصیرت حاصل کی جاسکے۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دو آدمی جھگڑتے ہوئے نبی اکرم ﷺکے پاس آئے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا عمرو! ان کے درمیان فیصلہ کرو انہوں نے عرض کی رسول اللہ ﷺ آپ مجھ سے زیادہ اس کے حق دار ہیں۔ رسول اکرم ﷺنے فرمایا :ہاں! اس کے باوجود تم کرو ۔ (۱۳)

اسی طرح غزوۂ بنو قریظہ کے موقع پر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے فیصلہ کے لیے کہا گیا اور ان کے فیصلہ کو سراہتے ہوئے نبی اکرم ﷺنے فرمایا:’’لقد حکمت فیھم بحکم اللہ‘‘ (۱۴)یعنی تحقیق تو نے ان کے درمیان جو فیصلہ کیا اللہ کا بھی وہی فیصلہ ہے۔

رسول اکرمﷺ نے فرد کی تعلیم اورتعمیر وتربیت کو بنیادی اہمیت دی ۔ عصر حاضر کی طرح مختلف میادین میں مستقل شعبہ جات کا قیام آپ ﷺکا مقصد نہیں تھا بلکہ علم واخلاص اور تقویٰ واحساس جواب دہی سے مزین افراد کی تیاری رسول اکرم ﷺکے نزدیک زیادہ اہمیت کی حامل تھی۔ آپﷺ نے صحابہ کرام کی صورت میں ایک ایسا طبقہ تیار فرمایا کہ جس کا ہر فرد ایک ادارہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ دینی وسیاسی اور معاشی ومعاشرتی غرض تمام معاملات میں لوگ ان حضرات کی طرف رجوع کرتے اور مشکوٰۃ نبوت سے فیض یافتہ اذہان وقلوب کے حاملین سے مسائل کا حل پاتے۔

بارگاہِ رسالت میں حاضری اورمحبت وخدمت نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایسا جلاونور پیدا کردیا تھا کہ مشکل سے مشکل مسائل کو حل کرنا اور ان پر عمل کرنا انہیں آسان تھا۔ نبوی اسلوب تربیت نے ان میں مزاج شریعت سے مناسبت اور رسوخ وپختگی کا ملکہ پیدا کردیا تھا۔ علم وتفقہ کے درجات میں اختلاف کے باوجود طبقہ صحابہ مرجع خلائق تھا۔ ابن سعد نے حضرت مسروق رحمہ اللہ کا ایک قول نقل کیا ہے:

لقد جالست اصحاب محمد ﷺ فوجدتھم کالاخاذ فالاخاذ یروی الرجل والاخاذ یروی الرجلین والاخاذ یروی العشرۃ والاخاذ یروی الماءۃ (۱۵)

امام مسروق رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں صحابہ کی مجلسوں میں بیٹھا میں نے انہیں چھوٹے بڑے حوضوں کی طرح پایا کوئی حوض ہے جس سے ایک ہی سوار آسودہ ہو، کوئی ہے جو دو سوار آسودہ کر سکے، کوئی ہے جو دس کو آسودہ کر دے اور کوئی ایسا کہ سو سواروں کو آسودہ کرے۔

دورِرسالت میں فقہ اسلامی کے مآخذ:

علم فقہ یا فقہ اسلامی اسلام کی قانونی جہت کا نمائندہ علم ہے اس کا آغاز بھی نبی کریم ﷺکی نبوت کے ساتھ ہوا اور رسول اکرم ﷺکا دور فقہ اسلامی کا ابتدائی دور ہے۔ اس اوّلین دور میں فقہ اسلامی کا مرجع ومصدر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ تھی۔قرآن کریم کی آیات موقع ومناسبت سے اور حسب ضرورت نازل ہوتیں۔ قرآنی آیات وہدایات کبھی تو بہت واضح ہوتیں اور کبھی صرف اصولی رہنمائی دی جاتی یا مجمل حکم بیان ہوتا اور رسول اکرمﷺ اپنی سنت سے اس کی تشریح وتوضیح فرماتے۔ قرآن عظیم کا نزول دو ادوار میں ہوا۔ مکی دور میں قرآن کا خاص موضوع دعوت ایمان اور اصلاح عقیدہ تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بعض اُصولی احکام بھی اس دور میں دئیے گئے۔جیسے قتل ناحق کی ممانعت(الانعام:۱۵۱) زنا کی حرمت (المومنون:۵۔۷) یتیموں کے ساتھ بدسلوکی کی ممانعت اور ناپ تول کی درستی کی ہدایات (الانعام:۸) مدنی دور میں عملی زندگی سے متعلق احکامات دیئے گئے۔

دور نبوی میں فقہ اسلامی کا دوسرا ماخذ سنت رسول اللہ تھی۔ دین کے سلسلے میں نبی اکرم ﷺ کے جملہ ارشادات، آیات قرآنیہ کی توضیحات وتشریحات اور آپ ﷺکے تمام اعمال کو وحی الہٰی کے احکام میں شمار کیا گیا۔ صحابہ کرام،حضور اکرمﷺ کے دینی ارشاد وعمل کے مطابق اپنے روز وشب بتاتے تھے۔

اجتہاد عہد رسالت میں:

عہدِ رسالت میں احکام شرعیہ کا اصل مآخذ تو قرآن وحدیث ہی تھے لیکن آپﷺ سے اجتہاد کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ ایک خاتون آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ ان کے ذمہ نذر کے روزے باقی تھے کیا میں ان کی طرف سے روزے رکھ لوں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر تمہاری ماں پر کسی کا دَین(قرض) باقی ہوتا تو آپ ادا کرتیں؟ خاتون نے کہا ہاں!آپ ﷺنے فرمایا کہ اللہ کا دین زیادہ قابل ادائیگی ہے۔ (۱۶) اگر رسول اللہ ﷺسے اجتہادی خطاکا ارتکاب ہوجاتا تو اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف سے متنبہ فرمادیا جاتا۔ غزوۂ بدرکے موقع پر جب آپﷺنے قیدیوں سے فدیہ لے کر رہا کرنے کا فیصلہ فرمایا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ نازل ہوئی۔دورِ رسالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اجتہاد کرتے تھے اور قیاس سے بھی کام لیتے تھے۔جس کی چند مثالیں ما قبل ذکر ہوچکی ہیں۔ صحابہ نے بعض مواقع پر آپﷺ کی موجودگی میں اور بعض مواقع پر عدم موجودگی میں اجتہاد کیا۔ آپ ﷺ کی موجودگی میں اجتہاد کی نمایاں مثال غزوۂ بنو قریظہ کے وقت حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی اجتہادی رائے ہے جب کہ عدم موجودگی میں اجتہاد کرنے کی اجازت بھی آپﷺ نے فرمائی تھی۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے یمن بھیجے جانے والا واقعہ اجتہاد کی اجازت پر مطلع کرتا ہے۔

بعثت معاذاً إلی الیمن فسالہ: بم تقضی إن عرض قضاء؟ قال: اقضی بما فی کتاب اللہ قال: فإن لم فی کتاب اللہ؟ قال: قلت : اقضی بما قضی بہ الرسول قال فإن لم یکن فیما قضی بہ الرسول؟ قال: قلت اجتھد رای ولا آلو قال: فضرب صدری وقال الحمد للّٰہ الذی وفّق رسول اللہ بما یرضی رسول اللہ (۱۷)

جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے یمن کا قاضی بنا کر بھیجا تو فرمایا فیصلہ کیسے کرو گے عرض کیا کتاب اللہ کے مطابق!آپﷺ نے فرمایا اگر اس کا صریح حکم کتاب اللہ میں نہ ہو؟ عرض کیا سنت رسول اللہ کے مطابق! فرمایا اگر سنت رسول اللہ میں بھی نہ ہو؟ عرض کیا گیا پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور غور و فکر میں کوتاہی نہیں کروں گا۔معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ہے کہ اس نے فرستادہ رسولﷺ کو رسول اللہﷺ کے لیے پسندیدہ طریق کی توفیق دی۔

عہدِ رسالت میں صحابہ کرام کی خدمتِ افتاء :

نص قرآنی کے مطابق فتوی دینا رسول اللہﷺ کا فرض منصبی تھا۔ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: یستفتونک (۱۸)’’لوگ آپ سے حکم دریافت کرتے ہیں۔‘‘

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپﷺ سے شرعی حکم معلوم کرتے۔ نبی کریمﷺ نے مہاجرین وانصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی خاص تربیت کی تھی ۔ وہ حضرات آپ کی غیر موجودگی میں آپ کے اذن سے فتوی ٰدیتے۔

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ لکھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے اپنی حیاتِ طیبہ میں انہیں مدینہ منورہ میں مفتی مقرر فرمایا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:

جہاں تک قانون کا تعلق ہے رسول خدا نے اپنی زندگی ہی میں ان کو مدینہ منورہ میں مفتی مقرر فرمایا تھا کہ جس کسی کو کسی مسئلے کے متعلق قانونِ اسلام دریافت کرناہو عام طور پر انہیں سے رجوع کرلے اور یہ وہ واحد شخص ہیں جو خود رسول اللہﷺ کی موجودگی میں فتویٰ دیتے تھے۔ (۱۹)

الطبقات الکبریٰ کی روایت کے مطابق چھ صحابہ کو افتاء کے میدان میں شہرت حاصل تھی۔

’’کان الذین یفتون علی عھد رسول اللہ ثلاثۃ نفر من المھاجرین وثلاثۃ من الانصار عمر وعثمان وعلی وابی بن کعب ومعاذ بن جبل وزید بن ثابت (۲۰)

عہد رسالت میں فتویٰ دینے والوں میں سے تین لوگ مہاجرین اور تین لوگ انصار میں سے تھے اور وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ تھے۔

علامہ ابن الجوزی نے عہدِ رسالت میں مفتیان صحابہ کرام کی تعداد چودہ نقل کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

من کان یفتی علی عھد رسول اللہ ابوبکر وعمر وعثمان وعلی عبدالرحمن بن عوف وابن مسعود وابی ومعاذ وعمار وحذیفۃ وزید بن ثابت وابوالدرداء وابو موسی وسلمان (۲۱)

مذکورہ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ عہدِ رسالت میں صحابہ فتوے دیتے تھے اور ان کی اجتہادی آراء پر عمل کیا جاتا تھا۔رسول اکرم ﷺنے صحابہ کرام کی فقہی تربیت کا جو اہتمام کیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ تفقہ فی الدین اسلام کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔آپ کے اصحاب کی اکثریت فقہی بصیرت سے آراستہ تھی۔ابواسحاق شیرازی لکھتے ہیں:

اعلم ان اکثر اصحاب رسول اللہ الذین صبحوہ ولا زموہ کانوا فقہاء (۲۲)

صحابہ کرام کی اکثریت جسے رسول اکرم ﷺکی طویل رفاقت کا شرف حاصل رہا ہے فقیہ تھی۔

نبی کریم ﷺکے بعد فتویٰ کی ذمہ داری کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سنبھالا اور احسن طریقے سے سرانجام دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو فتویٰ دیا کرتے تھے ان کی تعداد ایک سو تیس سے کچھ اوپر ہے۔ علامہ ابن قیم لکھتے ہیں:

مکثرین (کثرت سے فتوی دینے والے)سات صحابہ ہیں:

۱۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ۲۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ

۳۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ۴۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا

۵۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ۶۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ

۷۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ

دوسرے درجے پر وہ صحابہ ہیں جو متوسطین شمار ہوتے ہیں ان میں:

۱۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ۲۔ حضرت اُم سلمی رضی اللہ عنہا

۳۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ۴۔ حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ

۵۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ۶۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ

۷۔ حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما ۸۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ

۹۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ۱۰۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ

۱۱۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ۱۲۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ

۱۳۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ (۲۳)

تیسرے درجے میں جو صحابہ ہیں وہ مقلین کہلاتے ہیں۔

وہ صحابہ جن سے بہت کم فتوے منقول ہیں:

باقی کے اور حضرات کے فتاویٰ بہت ہی کم ہیں یہاں تک کہ ان میں سے بعض کے تو صرف دوایک مسائل میں ہی فتوے ہیں۔ ان سب کے فتاویٰ اگر جمع کیے جائیں تو ممکن ہے کہ کوئی چھوٹی سی کتاب تیار ہوجائے۔ اور وہ بھی پوری تلاش وتفتیش کے بعد۔ان کے نام ملاحظہ ہوں:

ابوالدرداء ، ابو الیسر، ابو سلمہ مخزومی، ابو عبیدہ بن الجراح، سعید بن زید، حسن بن علی، حسین بن علی، نعمان بن بشیر،ابو مسعود، ابی بن کعب، ابو ایوب، ابو طلحہ، ابو ذر، ام عطیہ، ام المومنین صفیہ،حفصہ، ام حبیبہ، اسامہ بن زید،جعفر بن ابوطالب، براء بن عازب، قرہ بن کعب، نافع ابوبکرہ کے سوتیلے بھائی، مقداد بن اسود، ابوالسنابل، جارود عبدی، لیلیٰ بنت قانف، ابو محذورہ، ابو شریح کعبی، ابوبرزہ اسلمی، اسماء بنت ابی بکر، ام شریک، خولاء بنت تویت،اسید بن حضیر، ضحاک بن قیس، حبیب بن مسلمہ، عبداللہ بن انیس، حذیفہ بن یمان، ثمامہ بن اثال، عمار بن یاسر، عمرو بن عاص، ابوالغاذیہ سلمی، ام درداء کبریٰ، ضحاک بن خلیفہ مازنی، حکم بن عمرو غفاری، وابصہ بن معبد اسدی، عبداللہ بن جعفر برمکی،عوف بن مالک، عدی بن حاتم، عبداللہ بن ابی اوفی، عبداللہ بن سلام، عمرو بن عبسہ، عتاب بن اسید، عثمان بن ابی عاص، عبداللہ سرجس،عبداللہ بن رواحہ، عقیل بن ابی طالب، عائذبن عمرو، ابو قتادۃ عبداللہ بن معمر عدوی، عمی بن سعد، عبداللہ بن ابی بکر صدیق ان کے بھائی عبدالرحمن، عاتکہ بنت زید بن عمرو، عبداللہ بن عوف زہری، سعد بن معاذ، سعد بن عبادہ، ابو منیب، قیس بن سعد، عبدالرحمن بن سہل، سمرہ بن جندب، سہل بن سعد ساعدی، عمرو بن مقرن، سوید بن مقرن، معاویہ بن حکم، سہلہ بنت سہیل، ابو حذیفہ بن عتبہ، سلمہ بن اکوع، زید بن ارقم، جریر بن عبداللہ بجلی، جابر بن سلمہ، اُمّ المومنین جویریہ، حسان بن ثابت، حبیب بن عدی، قدامہ بن مظعون، عثمان بن مظعون، مالک بن حویرث، ابو امامہ باہلی، ام المومنین میمونہ، محمد بن مسلمہ، خیاب بن ارت، خالد بن ولید، ضمرہ بن فیض، طارق بن شہاب، ظہیر بن رافع، رافع بن خدیج، سیدۃ النساء فاطمہ بنت رسول اللہﷺ، فاطمہ بنت قیس، ہشام بن حکیم بن حزام، ان کے والد حکیم بن حزام، شرحبیل بن سمط، اُمّ سلمہ، دہیہ بن خلیفہ کلبی، ثابت بن قیس بن شماس، ثوبان مولیٰ رسول اللہ ﷺ، مغیرہ بن شعبہ، بریدہ بن خصیب اسلمی، رویفع بن ثابت، ابو حمید، ابو اسید، فضالہ بن عبید، ابومحمد جن سیوتر کے وجوب کی روایت ہے۔ ان کا نام مسعود بن اوس انصاری ہے یہ نجاری ہیں، بدری ہیں اور زینب بنت ام سلمہ اور عتبہ بن مسعود اور بلال موذن اور عروۃ بن حارث اور سباہ بن روح یا روح بن سباہ اور ابو سعید معلیٰ اور عباس بن عبدالمطلب اور بشر بن ارطاۃ اور صہیب بن سنان اور اُمّ ایمن، اور اُم یوسف اور غامدیہ اور ماعز اور ابوعبداللہ بصری رضی اللہ عنہم پس یہ صحابہ ہیں جن سے فتوے منقول ہیں۔ (۲۴)

مدینہ کے مفتی:

مدینہ کے تابعی مفتیوں کے نام یہ ہیں:

ابن المسیب، عروۃ بن زبیر، قاسم بن محمد، خارجہ بن زید، ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام، سلیمان بن یسار، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود یہ سب بزرگ بڑے پائے کے فقیہ تھے۔ان کے علاوہ یہ حضرات بھی مفتی تھے: ابان بن عثمان، سالم، نافع، ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف، علی بن حسین، ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم اُن کے دونوں لڑکے محمد اور عبداللہ اور عبداللہ بن عمر بن عثمان وغیرہم۔ (۲۵)

عہدِ رسالت مآب میں شعبہ قضاء :

مفتی ہونے کے ساتھ ساتھ نبی کریم اسلام کے پہلے قاضی بھی تھے اور یہ منصب بھی آپ کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا تھا۔ ارشاد ربانی ہے:

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ (۲۶)

ترجمہ : سو آپ کے پروردگار کی قسم ہے کہ یہ لوگ ایمان دار نہ ہوں گے جب تک یہ لوگ اس جھگڑے میں جو ان کے آپس میں ہو، آپ کو حَکم نہ بنا لیں۔

رسول اللہ ﷺنے اپنی حیات طیبہ میں شعبہ قضاء کی بنیاد رکھی آپ ﷺ نے بطورِ قاضی کئی معاملات کے فیصلے کیے۔ احادیث کی طرح آپ ﷺکے فیصلوں کوبھی صحابہ وتابعین نے محفوظ کیا۔ شعبہ قضا کی بنیاد رکھنے کے ساتھ ساتھ نبی اکرم ﷺنے اپنی زندگی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کئی معاملات میں فیصلہ کرنے پر مقرر فرماکر انہیں میدانِ قضاۃ کی مبادیات اور حدود وقیود سے روشناس کرایا اور پھر ان تربیت یافتہ صحابہ میں سے بعض کو بطورِ قاضی مختلف علاقوں کی طرف روانہ کیا۔ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو آپ نے قاضی مقرر فرما کریمن روانہ کیا۔ اسی طرح سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو غزوۂ تبوک کے بعد بطورِ قاضی یمن روانہ کیا گیا۔(۲۷) سیدنا علاء بن الحضرمی بحرین میں قاضی بنا کر روانہ کیے گئے ۔ سیدنا عتاب بن اُسید رضی اللہ عنہ کو رسول اکرمﷺ نے فتح مکہ کے بعد ۸ہجری میں مکہ کے اندر قاضی مقرر فرمایاجو رسول اکرم ﷺکے وصال کے بعد بھی قاضی رہے۔فاتح مصرسیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو نبی کریم ﷺنے عمان روانہ کیا تھا۔ سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ، سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ اور سیدنا حذیفہ بن یمان کو دربارِرسالت سے باہمی تنازعات میں فیصلہ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔شعبہ قضاء کے ان معروف صحابہ کے علاوہ بھی بعض اور اصحاب کے بارے میں روایات موجود ہیں کہ جو ان کے دورِرسالت میں حکم اور قاضی بنائے جانے کا پتہ دیتی ہیں۔

تدوین فقہ عہدِ رسالت میں:

نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ کا یہ امتیاز ہے کہ آپﷺ نے اپنی زندگی ہی میں دین اسلام کو جملہ شعبہ ہائے حیات میں نافذ کرکے دکھایا۔ صحابہ کرام اپنے تمام مسائل ومعاملات میں رہنمائی کے لیے آپﷺ کی طرف رجوع کرتے اور آپﷺ ان کو حل فرماتے۔ رسول اکرم ﷺنے قرآن وسنت کی بنیاد پر اسلامی معاشرہ کی بنیاد رکھی اوراجتہاد واستنباط کی مشق کروا کر پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے کا ڈھنگ بھی سکھا دیا۔ افتاء وقضاء کے شعبہ جات قائم کرکے اسلامی نظام قانون کو وجود بخشا۔

عہدِ رسالت میں نبی کریمﷺ خود موجود تھے اور آپﷺ پر وحی جلی اور خفی نازل ہورہی تھی۔ اس لیے مسلمانوں کو احکام شرعیہ جاننے کے لیے کوئی مشکل پیش نہ آتی اگر کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو آپ ﷺکی ذاتِ گرامی قدر کی طرف رجوع کیا جاتا اور آپﷺ اس کو حل فرما دیتے۔جملہ معاملات میں صحابہ کرام کا مرجع رسول کریم ﷺکی ذات تھی۔ صحابہ کرام باہمی اختلاف کی صورت میں بھی آپﷺ کی طرف رجوع کرتے۔ اس لیے عہد رسالت میں فقہ اسلامی کی مستقل الگ علم کے طور پر تدوین کی ضرورت پیش نہیں آئی۔شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

اعلم ان رسول اللہ لم یکن الفقہ فی زمانہ الشریف مدونًا (۲۸)

ترجمہ :رسول اللہﷺ کے زمانے میں فقہ ایک باضابطہ فن کی صورت میں مدون نہیں تھا۔

ابتداء میں فقہ اسلامی ایک مستقل علم کے طور پر تو مدوّن نہ ہوالیکن چوں کہ یہ علم قرآن وسنت سے ماخوذو مستنبط ہے اور یہ دونوں ما خذ احکامِ الہٰیہ شرعیہ کے اُصول اور تشریحات پر مشتمل ہیں اور ان کی تدوین کا آغاز عہد نبوی ہی میں ہوا اس لیے اس اعتبار سے یہ کہنا بجا ہوگا کہ تدوین فقہ کا آغاز دورِ رسالت ہی میں شروع ہوا۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ لکھتے ہیں:

’’جہاں تک فقہ کے موجودہ مفہوم کا تعلق ہے اور جس میں عبادات معاملات اور حدود وتعزیرات یعنی سزائیں داخل ہوتی ہیں۔ عہدِ نبوی ہی سے اس کے لکھنے کی کوشش شروع ہوچکی تھی۔(۲۹)

رسول اکرم ﷺکی احادیث مبارکہ(احکام و قوانین سے متعلقہ احادیث بھی) کو لکھنے اور مدون کرنے کا آغاز آپ ﷺ کی حیات طیبہ ہی میں ہوگیا تھا۔ متعدد مواقع پر آپ ﷺنے خود ضروری احکام وہدایات کو قلم بند کروایا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ فتح مکہ کے سال قبیلہ خزاعہ کے لوگوں نے بنی لیث کے ایک شخص کو قتل کردیا تھا جب آپﷺکو اس واقعہ کی اطلاع دی گئی تو آپﷺ نے اپنی سواری پربیٹھ کر خطبہ دیا جس میں حرم محترم کی عظمت وحرمت اس کے آداب کی تفصیل اور قتل کے سلسلے میں دیت وقصاص کا بیان تھا۔ خطبہ سے فارغ ہوئے تو ایک یمنی صحابی حضرت ابو شاہ رضی اللہ عنہ نے اُٹھ کر درخواست کی کہ یارسول اللہ ! یہ خطبہ میرے لیے لکھوا دیں ۔ آپ ﷺنے درخواست منظور کرکے حکم دیا:’’اکتبوا لابی شاہ‘‘(۳۰)ابوشاہ کے لیے لکھ دو۔

حافظ ابن عبدالبر نے ایک روایت نقل کی ہے۔ لکھتے ہیں:

وکتب رسول اللہ کتاب الصدقات والدیات والفرائض والسنن لعمرو بن حزم وغیرہ(۳۱)

ترجمہ :رسول اکرمﷺ نے عمرو بن حزم وغیرہ کے لیے صدقات،دیات،فرائض اور سنن کے متعلق ایک کتاب رقم کروائی تھی۔‘‘

امام دار قطنی نے حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت نقل کی ہے کہ آپﷺنے اہل یمن کی طرف حارث بن عبدکلال اور ان کے ساتھ معافر وہمدان کے دیگر یمنیوں کے نام ایک تحریر لکھی تھی جس میں زرعی پیداوارکے بارے میں احکامات درج تھے۔(۳۲)

اہل یمن کے نام احکام زکوٰۃ سے متعلق نبی کریم ﷺکی ایک تحریر کا تذکرہ امام شعبی نے کیا ہے۔ مصنف ابوبکر ابن ابی شعبہ کی کتاب الزکوٰۃ میں اس نوشتہ کی کئی احادیث امام شعبی کی روایت سے منقول ہیں۔امام ترمذی نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ذکر کی ہے کہ آپ نے کتاب الصدقۃ تحریر فرمائی اور اس کو عاملوں کی طرف روانہ کرنے سے قبل آپ رحلت فرماگئے۔ یہ کتاب آپ کی تلوار کے ساتھ رکھی تھی۔ پھر سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اس پر عمل کیا ان کے وصال کے بعد سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اس کے مطابق عمل کیا یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی ۔(۳۳)

رسول اکرمﷺ کے املاء فرمودہ احکام کے ایک مجموعے کا تذکرہ مصنف عبدالرزاق میں موجود ہے:

ان النبی کتب کتاباً فیہ ھذہ الفرائض فقبض النبی قبل ان یکتب الی العمال فاخذ بہ ابوبکر وامضاہ بعد علی ما کتب(۳۴)

ترجمہ : نبی اکرم ﷺنے فرائض و احکامات کی ایک کتاب املاء کروائی تھی لیکن عمال کو روانہ کرنے سے قبل آپﷺ کا وصال ہو گیا آپ ﷺ کے بعد وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور انہوں نے اس پر عمل کروایا۔

ان مجموعہ ہائے احکامات کے علاوہ مختلف قبیلوں کو تحریری ہدایات عمال و ولاۃ کے نام احکام،معاہدات،صلح نامے،امان نامے اور اسی طرح کی بہت سی مختلف تحریریں تھیں جو نبی کریمﷺنے وقتاًفوقتاً قلم بند کروائیں۔

عہد خلفائے راشدین اور فقہ اسلامی کی تشکیل وتدوین:

عہدِ رسالت کے بعد خلفائے راشدین کے دور کا آغاز ہوا۔ کبار صحابہ میں یہ خلفاء علم وفضیلت کے اعتبار سے اعلیٰ مقام پر فائز تھے اور اُصول ہائے شریعت کا گہرا ادراک رکھتے تھے۔ اسی وجہ سے رسول اکرمﷺ نے ان کی اتباع کی تلقین فرمائی۔ آپﷺ نے فرمایا:

فعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین من بعدی عضوا علیھا بالنواجذ وإیاکم ومحدثات الامور (۳۵)

ترجمہ : میرے بعد میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت خوب مضبوطی سے پکڑنا اور نئے نئے کام ایجاد کرنے سے بچنا۔

حضرات خلفائے راشدین نے افتاء وقضاء میں شرعی حکم کی معرفت اور استخراج کے لیے اسی طریقہ کار کو اختیار کیا جس کی انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے تربیت پائی تھی۔ مسائل کے حل کے لیے وہ اوّلاً کتاب اللہ کی طرف رجوع کرتے اگر وہاں سے کوئی حکم نہ ملتا تو پھر سنت رسول کی طرف رجوع کرتے اگر وہاں سے بھی نہ ملتا تو فقہی میدان کے ماہر صحابہ کو جمع کرکے مشورہ کیا جاتا اور کسی رائے پر اتفاق کی صورت میں اس پر عمل کیا جاتا۔ علامہ ابن قیم لکھتے ہیں:

کان ابوبکر الصدیق إذا ورد علیہ حکم نظر فی کتاب اللہ تعالی فان وجد فیہ ما یقضی بہ قضی بہ وإن لم یجد فی کتاب اللہ نظر فی سنۃ رسول اللہ فان وجد فیھا ما یقضی بہ قضی بہ فإن اعیاہ سال النّاس : ھل علمتم ان رسول اللہ قضی فیہ بقضاء فربما قام یلیہ القوم فیقولون: قضی فیہ بکذا وکذا فإن لم یجد سنۃ سنھا النبی جمع روساء النّاس فاستشارھم فاذا اجتمع رایھم علی شیء قضی بہ (۳۶)

ترجمہ :حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے جب کبھی کوئی مسئلہ آتا تو آپ کتاب اللہ میں دیکھتے اگر اس میں پاتے تو اسی کے مطابق فیصلہ فرماتے اور اگر نہ پاتے تو حدیث رسول ﷺ کو دیکھتے اور اس کے مطابق حکم لگاتے اگر اس میں بھی عاجز آجاتے تو لوگوں کو جمع کر کے ان سے پوچھتے کہ تم میں سے کسی کو اس مسئلہ کی حدیث معلوم ہے بسا اوقات لوگ کھڑے ہو جاتے اور بتلا دیتے کہ اس میں رسول اکرم ﷺکا یہ فرمان ہے اگر ا س پر بھی کوئی فیصلہ ہاتھ نہ لگتا تو بڑے بڑے لوگوں کو بلاتے اور ان سے مشورہ کرتے اگر سب مل کر ایک ہی بات کہتے تو آپ وہی حکم دے دیتے۔

سیدنا ابوبکر صدیق ؓنے رسول اکرﷺم کی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں پیش آمدہ مسائل کے بارے میں تفقہ اور تدبر سے بھرپور کام لیا آپؓ نے میراث کے معاملے میں دادا کو باپ پر قیاس کرتے ہوئے اُسے باپ ہی قرار دیا۔(۳۷)

اسی طرح آپ نے مانعین زکوٰۃ کے خلاف قتال کرتے وقت زکوٰۃ کو نماز پر قیاس کیا تھا۔(۳۸)سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد بھی خلفاء کا یہی طریق رہا۔ وہ حوادث و نوازل کے بارے میں اجتہاد سے کام لیتے رہے۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے قاضی شریح کو خط لکھا اور معاملات ومسائل کے حل کے لیے قرآن وسنت اور اجماع واجتہاد کی طرف رجوع کی نصیحت فرمائی ۔ ابن قیم لکھتے ہیں:

وفی کتاب عمر بن الخطاب إلی شریح: اذا وجدت شیئا فی کتاب اللہ فاقض بہ وتلتفت إلی غیرہ وإن اتاک شیئی لیس فی کتاب اللہ فاقض بما سنّ رسول اللہ فإن اتاک ما لیس فی کتاب اللہ ولم لیسُنّ رسول اللہ فاقض بما اجمع علیہ الناس وإن اتاک ما لیس فی کتاب اللہ ولا سنۃ رسول اللہ ولم یتکلم فیہ احد قبلک فإن شئت ان تجتھد رایک فتقدم(۳۹)

ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قاضی شریح کو لکھا کہ جو کتاب اللہ میں مل جائے اسے لے لیا کر پھر کسی سے پوچھنے کی مطلقاًضرورت نہیں، اس کے بعد سنت رسول اللہ پر نظر ڈال جو اس میں مل جائے اسے مان لے اگر سنت میں نہ ملے تو لوگوں کی اجماعی رائے پر فیصلہ کر اور اگر کتاب اللہ، سنت رسول اللہ اور لوگوں کی اجماعی رائے خاموش ہیں تو پھر تو چاہے تو اجتہاد کر اپنی رائے سے۔

سیدنا عمر فاروقؓ بھی پیش آمدہ نئے مسائل کے حل کے لیے قرآن و سنت کی طرف رجوع کرتے اور اگر اُن کا حل نصوص میں نہ پاتے تو اجتہاد سے کام لیتے مختلف معاملات میں آپ کی اجتہادی آراء کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے آپ کی اجتہادی آراء میں مصارف زکوٰۃ میں سے مؤلفۃ القلوب کی مد میں مال زکوٰۃ کو خرچ نہ کرنا، گھوڑوں پر زکوٰۃ، اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح پر پابندی اور قحط کی حالت میں حد سرقہ کا عدم اطلاق وغیرہ شامل ہیں۔(۴۰)

خلفائے راشدین کے دور میں اسلامی سلطنت نے وسعت حاصل کی،فارس،عراق،شام اور مصر جیسے ممالک زیرنگیں آئے۔ مختلف عادات واعراف کے حاملین سے اختلاط ہوا ۔ ان سے معاملات کرنے پڑے تو اس بات کی ضرورت پیش آئی کہ ایسی صورت میں تعلقات ومعاملات کی شرعی نوعیت کی تعیین بھی کی جائے، بہت سارے ایسے مسائل سامنے آئے کہ جن کے بارے میں قرآن وسنت میں براہِ راست کوئی واضح حکم موجود نہیں تھا تو ایسے غیر منصوص مسائل میں اجتہاد کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اس لیے صحابہ نے اجتہاد کیا۔ وہ مشابہ اُمور کو دوسرے مشابہ پر قیاس بھی کرتے اور امثال بالامثال کے قیاس پر حکم فرمایا کرتے اور اس میں شریعت نے احکام میں جن اُمور کی رعایت کی ہوتی اس کو پیش نظر رکھتے، اُن کے درمیان اختلاف رائے بھی پیدا ہوا لیکن نقاطِ نظر کے اختلافات کو صحابہ مذموم نہیں سمجھتے تھے، وہ وسعتِ قلبی سے کام لیتے ہوئے دوسرے کو اختلاف کا حق دیتے تھے۔ صحابہ کی اختلافی آراء کتب فقہ اور حدیث کی شروح میں مشاہدہ کی جاسکتی ہیں۔

افتاء کے ساتھ ساتھ قضاء وقانون کے میدان میں بھی خلفائے راشدین نے عہدِ رسالت سے ماخوذ اُصولوں کی روشنی میں ارتقائی منازل طے کیں۔ عہدِ رسالت کی طرح دورِ صدیقی میں بھی عمومی طور پر عاملین انتظام وعدالت کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے تھے۔لیکن بعض مقامات پرکچھ صحابہ خاص طور پر بطورِ قاضی مقرر کیے گئے۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِخلافت میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو محکمہ قضاۃ کا سربراہ مقرر کیا تھا۔(۴۱)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺکے متعین کردہ عاملین وقضاۃ کو برقرار رکھا ان میں چند کے نام ذکر کیے جاتے ہیں:

عتاب بن اُسید مکہ میں، عثمان بن ابی العاص طائف میں، ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ زبید ورمع میں، معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ الجند میں، مھاجر بن ابی اُمیہ صفاء میں، العلاء بن الحضرمی رضی اللہ عنہ بحرین میں، زیاد بن لبید حضرموت میں، یعلی بن امیہ خولان میں، جریربن عبداللہ نجران میں،عبداللہ بن ثور ثور میں، عیاض بن غنم دومۃ الجندل میں۔(۴۲)

حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں اسلامی سلطنت نے وسعت پائی نئے ممالک وشہر مسلمانوں کے زیر اقتدار آئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ان علاقوں میں عاملین وقضاۃ متعین کیے ان میں سے چند کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے:

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ مدینہ میں،زید بن ثابت رضی اللہ عنہ مدینہ میں،یزید بن سعید مدینہ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کوفہ میں،سلیمان بن ربیعہ الباہلی قادسیہ میں اور پھر کوفہ میں، شریح بن الحارث کوفہ میں، جبیر بن القشعم بن یزید مدائن میں، ابو قرۃ الکندی مدائن میں،ایاس بن صبیح بصرہ میں، کعب بن سورالازدی بصرہ میں، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بصرہ میں، قیس بن ابی العاص مصر میں، عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ شام میں۔(۴۳)

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ بھی شیخین کی طرح پیش آمدہ مسئلوں کے بارے میں اجتہاد سے کام لیتے مثلاً ایک شخص اگر مرض الموت میں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے اور پھر فوت ہو جاتا ہے تو ایسے شخص کی بیوی کیا اُس کی وارث ہو گی یا نہیں حضرت عثمان نے ایسے شخص کی بیوی کو اُس کا وارث بنایا ہے اگرچہ خاوند کی وفات کے وقت اُس کی عدت بھی کیوں نہ گزر چکی ہوآپ کا یہ اجتہادی فیصلہ سد ذریعہ کے طور پر تھا۔(۴۴)

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے متعین کرد ہ بعض قاضیوں کو ان کے عہدوں پر قائم رکھا اور بعض عاملین وقضاۃ کو آپ نے مقرر کیا ان میں سے چند بڑے نام ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں:

ابو الدرداء عویمر بن مالک دمشق میں،نافع بن عبدالحارث الخزاعی مکہ میں، سفیان بن عبداللہ الثقفی طائف میں، عبداللہ بن ابی ربیعہ یمن میں،ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کوفہ میں، عبداللہ بن عامربصرہ میں، معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہ دمشق میں، عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ مصر میں قاضی مقرر ہوئے۔(۴۵)

چوتھے خلیفہ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اقضی الصحابہ کے خطاب سے نوازا گیا اورآپ رضی اللہ عنہ عہدِ رسالت میں اور بعد میں تینوں خلفاء کے دور میں بھی فیصلے فرماتے رہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اجتہادی فیصلوں کی متعدد مثالیں موجود ہیں مثلاً حضرت عمر فاروق کے زمانے میں صنعاءعلاقے کی ایک عورت کا شوہر کہیں گیا اور اپنا ایک لڑکا جو اس عورت کے بطن سے نہ تھا اس کے پاس چھوڑ گیا بعد میں اُس عورت نے ایک شخص سے تعلق قائم کر لیا اور اس سے کہا کہ یہ لڑکا ہمارا راز نہ فاش کر دے اس لیے اس کو قتل کر دیتے ہیں پھر چھ مردوں اور اُس عورت نے مل کر اُس لڑکے کو قتل کر دیا ۔ حضرت عمر فاروق نے حضرت علی سے مشورہ کیا تو حضرت علی نے فرمایا کہ امیر المومنین اگر ایک اونٹ کو کئی افراد مل کر چوری کریں اور اُس کا ایک ایک عضو کاٹ کر لے جائیں تو کیا آپ اُن سب کے ہاتھ کاٹیں گے یا نہیں؟ سیدنا عمر فاروق نے اثبات میں جواب دیا تو حضرت علی نے فرمایا تو پھر یہاں بھی یہی صورت ہے سیدنا علی نے یہاں قتل کو سرقہ پر قیاس کیا۔(۴۶)

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے دور میں بعض قاضیوں کو اپنے عہدوں پر قائم رکھا اور بعض نئے قاضی مقرر کیے جن میں سے چند مشہور نام یہ ہیں:

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ یمن میں،عثمان بن حنیف بصرہ میں،قیس بن سعد مصر میں،قثم بن العباس مدینہ میں اور بعد میں مکہ و طائف میں، محمد بن یزید کوفہ میں، سعید بن نمران کوفہ میں، مصعب بن زبیر کوفہ میں مقررکیے گئے۔(۴۷)

خلفائے اربعہ اپنے ادوار میں خود مقدمات سنتے اور فیصلہ صادرفرماتے۔ یہ فیصلے محفوظ کیے گئے اور عصر حاضر میں مستقل کتب کی صورت میں موجود ہیں۔حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں محققین لکھتے ہیں کہ انھوں نے بڑے پیمانے پر قضاۃ کا مستقل تقرر کیا۔ خلفائے راشدین اپنے مقرر کردہ عاملین وقضاۃ کو احکامات صادر کرتے رہتے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرف سے سیدنا ابوموسیٰ اشعری کو ستر کے قریب مکتوب ملے جن میں انتظامی وسیاسی موضوعات کے ساتھ ساتھ نظم وقانون کے معاملات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک خط خاص اہمیت کا حامل ہے جس کی استنادی حیثیت علمی حلقوں میں موضوعِ بحث رہی ہے۔ یہ خط قانونی واخلاقی ہدایات پر مشتمل ہے اور اسلامی قانونِ فکر کی ایک اہم دستاویز ہے۔

خلفائے اربعہ کے ادوار میں فقہ اسلامی عملی اور واقعاتی رہی۔ پیش آمدہ حل طلب مسائل کوطے کیا جاتا۔اس لیے کہ نظری مسائل اور بعد میں پیش آنے والے مسائل کی طرف توجہ کی فرصت نہیں تھی اس دور میں فتاویٰ واحکام فقہیہ کو مدون تو نہیں کیاگیا لیکن تحفیظ بالصدر والعمل کا اہتمام ضرورکیاگیا۔

خلفائے راشدین کے دورمیں عظیم فقیہ صحابی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ موجود رہے ان کے تلامذہ میں سے قبیصہ بھی تھے جوکہ مدینہ کے مشہور فقیہ تھے وہ فرائض میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے ایک کتاب کی روایت کرتے تھے یہ کتاب چھٹی صدی ہجری تک موجود رہی اور فرائض کے میدان میں یہی کتاب امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی معتمد علیہ رہی۔ امام زہری کا بیان ہے کہ اگر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ یہ کتاب نہ لکھتے تو یہ علم معدوم ہوجاتا۔ اسی طرح حضرت زید کی ایک اور کتاب کتاب الدیات کا بھی پتہ چلتا ہے جو محفوظ نہ کی جاسکی ۔ تدوین فقہ کی ابتدائی اور انفرادی کوششوں میں ایک اہم کاوش حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی کتاب بھی ہے۔ ان کے شاگرد حسین بن شفی بن مانع الشفعی نے مصر میں ان سے قضی رسول اللہﷺ (رسول اللہ ﷺ کے فیصلے) روایت کی۔(۴۸)

بہت ساری روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بعض فقہی معاملات کے بارے میں مراسلات لکھ کر آپس میں تبادلہ معلومات کرتے تھے۔ مثلاً نافع بن الزرق کے بارے میں روایت میں آتا ہے کہ میراث میں اقرباء کے حصوں کے بارے میں انھوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے استفسار کیا تھا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ساتھ تابعین عظام بھی فقہی اُمور سے متعلقہ تحریریں محفوظ ومنتقل کرتے تھے۔ امام شعبی کے بارے میں مجاہد بیان کرتے ہیں کہ وہ صدقات اور فرائض کے بارے میں عبارتیں لکھواتے رہتے تھے۔ اسی طرح امام صاحب کی دو کتب کتاب الفرائض اور کتاب الجراحات کا بھی پتہ چلتا ہے۔(۴۹)

خلافت راشدہ کے بعد کا زمانہ (پہلی صدی ہجری کے اختتام تک)صغار صحابہ واکابر تابعین کا دور کہلاتا ہے۔ اس دور میں بھی اجتہاد واستنباط کا وہی منہج رہا جو صحابہ کرام نے اختیار کیا تھا۔اس دور میں فقہی میدان کے ماہر صحابہ کا مختلف علاقوں اور شہروں میں ورود ہوا جہاں لوگ ان سے مستفید ہوئے اور ان جگہوں پر ان فقہاء صحابہ کی آراء وفتاویٰ کو قبولیت حاصل ہوئی۔ مدینہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ مکہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور ان کے تلامذہ،کوفہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ان کے شاگرد،بصرہ میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ، حضرت حسن بصری،حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ، شام میں سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ، مصر میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کے فتاویٰ پر اعتماد کیا جاتا۔ اس دور میں اختلاف رائے کی کثرت ملتی ہے کیوں کہ صحابہ وفقہاء تابعین مختلف شہروں میں مقیم تھے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں کبار صحابہ کو مدینہ سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی تھی اور اس فیصلہ میں کئی حکمتیں مضمر تھیں۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں علماء وفقہاء صحابہ کی بڑی تعداد مختلف علاقوں کی طرف روانہ ہوئی۔ اور ان کے درمیان رابطہ یا رابطے کے وسائل مفقود تھے۔ اس لیے اس دور میں اجتماعی اجتہاد کی جگہ انفرادی اجتہاد کا غلبہ دکھائی دیتا ہے۔

اس دور میں اجتہاد واستنباط کے میدان میں دو مکاتب فکر منظر عام پر آئے ایک وہ جو ظاہر حدیث پر قانع تھے۔ یہ لوگ اصحاب الحدیث کہلائے اور دوسرے وہ جو نصوص اور ان کے مقاصد ومصالح کو مد نظر رکھ کر رائے قائم کرتے تھے۔یہ لوگ اصحاب الرائے کہلائے دونوں مکاتبِ فکر کے ہاں اکابر صحابہ موجود تھے۔ اصحاب الحدیث کا مرکز مدینہ تھا جب کہ اصحاب الرائے عراق میں موجود تھے۔ اصحاب الرائے کا ایک بڑا امتیاز یہ ہے کہ وہ ان مسائل کے بارے میں جو ابھی وجود میں نہیں آئے لیکن ان کے وقوع پذیر ہونے کا امکان ہے۔ ان پر غوروفکر کرتے اور اپنے رائے کا اظہار کرتے۔ ایسی آراء فقہ تقدیری کہلائیں اصحاب الرائے کو اس طرزِ عمل پر مطعون کیاگیالیکن آج اسی فقہ تقدیری کا نتیجہ ہے کہ پیش آمدہ نئے مسائل کو حل کرنے کے لیے قدیم فقہی ذخیرہ سے کام لیا جارہا ہے۔اس دور میں سیاسی اختلافات کی وجہ سے مسلمانوں میں تقسیم پیدا ہوئی مسلمان معاشرے میں اہل السنہ، خوارج اور شیعہ تین گروہ بن گئے۔ اختلاف کی بنیاد تو سیاسی تھی لیکن بعد میں اس نے مذہبی رنگ اختیار کیا۔

پہلی صدی ہجری میں صحابہ کرام کے بعد ان کے تربیت یافتہ علماء وفقہاء نے تحفیظ وانتقال شریعت کا فریضَہ سرانجام دیا۔ فقہی وقانونی میادین میں انہوں نے تفریعات اسلام پر بہت عرق ریزی کی ۔ یہ قرآن وسنت کی جامعیت اور ان اصحاب کے صائب اجتہادات تھے کہ جن کی بدولت اسلام کے پیغام نے کرۂ ارض کو متاثر کیا۔ اسی طرح پہلی صدی ہجری میں فقہی سرگرمیوں کی وسعت اور فقہی سرمایہ کی حفاظت وتدوین کے لیے کی گئی کوششوں سے پتہ چلتا ہے کہ علمائے اُمت نے علم فقہ کو کتنی اہمیت دی اور محنت شاقہ سے مبادیات فقہ کو محفوظ کرکے ما بعد کے علماء کے لیے سہولت کا سامان کردیا۔

___________________________________حوالہ جات

۱۔آل عمران۳: ۱۶۴۲۔الراغب الاصفہانی، ابی القاسم الحسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن،المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، مکتبہ نزار مصطفی الباز،ل۔ت، ۱/۱۶۸۳۔الطبری،ابوجعفر محمد بن جریر، جامع البیان عن تاویل آی القرآن، بیروت، دارالمعرفۃ، الطبعۃ الاولی ، ۱۳۲۳ھ،۱/۶۴۵۴۔ ایضاً۵۔الشوکانی ،محمد بن علی، فتح القدیر، القاہرہ، دارالوفاء ، ل۔ت، ۱/۲۸۶۶۔ الجامع الصحیح للبخاری،کتاب فضائل الصحابہ ،باب ذکر ابن عباس رضی اللہ عنہ ،حدیث:۳۷۵۶، ۵/۲۷۷۔ الجامع الصحیح للبخاری،کتاب الوضوء ، باب وضع الماء عند الخلاء ،حدیث:۱۴۳،۱/۴۱۸۔ الجامع الصحیح للبخاری،کتاب العلم ، باب من یرداللہ بہ خیراً،حدیث:۷۱ :۱/۲۵۹۔ الجامع الصحیح للبخاری،کتاب الاعتصام ، باب اجر الحاکم إذا اجتھد ،حدیث:۷۳۵۲، ۹/۱۰۸

۱۰۔ الجامع الصحیح للبخاری،کتاب الایمان والنذور ،باب من مات وعلیہ نذر،حدیث: ۶۶۹۹ ، ۸/۱۴۲۱۱۔سنن ابی داود ،کتاب الصوم ،باب القبلۃ للصائم ،حدیث:۲۳۸۵ ،۴/۶۰۱۲۔الجامع الصحیح المسلم، باب بیان ان السم الصدقۃ یقع علی کل نوع من المعروف، حدیث:۱۰۰۶، ۲/۶۹۷۱۳۔مسند احمد بن حنبل، ۲۳۷۴، ۴/۲۰۵۱۴۔ الجامع الصحیح للمسلم ،کتاب الجھاد، باب جواز قتال من نقض العھد، حدیث:۱۷۶۸، ۳/ ۱۳۸۸۱۵۔ محمد بن سعد،ابوعبداللہ، الطبقات الکبری، بیروت، دار صادر،الطبعۃ الاولی ،۱۹۶۸ء ، ۲/۳۴۲۱۶۔ الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الصوم، باب من مات وعلیہ صوم، حدیث:۱۹۵۳، ۳/۳۵۱۷۔ محمد بن سعد، ابوعبداللہ، الطبقات الکبری، ۲/۳۴۷۱۸۔ سورۃ النساء : ۴/۱۷۶۱۹۔حمید اللہ ،ڈاکٹر، امام ابو حنیفہ کی تدوین قانون اسلامی ،کراچی ،اُردو اکیڈمی سندھ، طبع پنجم،۱۹۶۵ء ، ص۲۵۲۰۔محمد بن سعد، ابوعبداللہ، الطبقات الکبری،۲/۳۴۷۲۱۔ ابن الجوزی، ابی الفرج، جمال الدین بن علی بن محمد، المدہش، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، الطبعۃ الثانیۃ، ۱۹۸۵ء ، ص۲۹۲۲۔الشیرازی،ابی اسحاق ، طبقات الفقھاء ، بیروت، دارالقلم، ل۔ت، ص ۳۲۳۔ابن قیم الجوزیۃ، ابی عبداللہ محمد بن ابی بکر، اعلام الموقعین عن رب العالمین، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، دارابن الجوزی ، الطبعۃ الاولی،۱۴۲۳ھ، ۲/ ۱۸۔ ۲۰۲۴۔ ایضاً ، ص۲/۱۹، ۲۲۲۵۔ایضاً ، ص۲/۱۴،۴۲۲۶۔سورۃ النساء ۴ : ۶۵۲۷۔ الزحیلی، الدکتور محمد، تاریخ القضاء فی الإسلام، بیروت، دارالفکر المعاصر، الطبعۃ الاولی، ۱۹۹۵ء ، ص۶۵۲۸۔ الدہلوی، شاہ ولی اللہ محدث، انصاف فی بیان سبب الاختلاف، بیروت، طبعۃ دارالنفائس، الطبعۃ الثانیۃ، ۱۴۰۴ھ، ص ۲۲۹۔حمید اللہ، ڈاکٹر محمد، امام ابو حنیفہ اور تدوین فقہ ، ص۳۲۳۰۔ الزحیلی، الدکتور محمد، تاریخ القضاء فی الإسلام، ص۶۵۳۱۔ابن عبدالبر، الاندلسی، جامع بیان العلم وفضلہ، (باب ذکر الرخصۃ فی کتاب العلم حدیث:۳۹۲)، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، دارابن الجوزی، ص ۳۰۳

۳۲۔ سنن الترمذی، کتاب الزکوۃ، باب ماجاء فی زکوۃ الإبل والغنم، حدیث:۶۲۱، ۳/۸۳۳۔ الزحیلی، الدکتور محمد، تاریخ القضاء فی الإسلام ، ص۶۵۳۴۔مصنف عبدالرزق، کتاب الزکوۃ ، باب البقر، حدیث:۶۸۵۳ ،۴/۲۵۳۵۔سنن الترمذی ، کتاب العلم ، باب ماجاء فی الاخذ بالسنۃ واجتناب البدع ،حدیث:۲۶۸۶، ۵/۴۴۳۶۔ابن قیم الجوزیۃ، اعلام الموقعین ،۱/۶۵۳۷۔شعیب احمد، حافظ ، خلفاء راشدین کا اجتہادی منہج و نوعیت اور عصر حاضر میں اس سے استفادہ،ص۱۴۵، لاہور، دارالنوادر، ۲۰۱۳۳۸۔حوالہ بالا۳۹۔ابن قیم الجوزیۃ، اعلام الموقعین ،۱/۶۵۴۰۔شعیب احمد، حافظ ، خلفاء راشدین کا اجتہادی منہج و نوعیت اور عصر حاضر میں اس سے استفادہ،ص۱۶۲۔ ۱۶۶۴۱۔وکیع، محمد بن خلف، اخبار القضاۃ، مراجعہ سعید محمد اللحام، بیروت، عالم الکتب،ل۔ت ص۷۴۴۲۔الزحیلی، الدکتور محمد، تاریخ القضاء فی الاسلام، ۱۳۹,۱۳۸۴۳۔ایضًا، ص ۱۴۵-۱۴۲۴۴۔شعیب احمد، حافظ ، خلفاء راشدین کا اجتہادی منہج و نوعیت اور عصر حاضر میں اس سے استفادہ،ص۱۷۹۴۵۔ایضًا، ص ۱۴۸۔۱۴۹۴۶۔شعیب احمد، حافظ ، خلفاء راشدین کا اجتہادی منہج و نوعیت اور عصر حاضر میں اس سے استفادہ،ص۱۸۵۴۷۔الزحیلی، الدکتہ ور محمد، تاریخ القضاء فی الاسلام،ص ۱۵۵-۱۵۳۴۸۔فواد سیزکین، تاریخ التراث العربی، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، ادار الثقافۃ والنشر بالجامعۃ،۱۹۹۱ء ،۵/۳۔۶۴۹۔ایضًا، ص ۳/۷۔۸

 

حوالہ جات

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...