Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 5 Issue 1 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

امام طبری كے حالات زندگی اور تفسیری منہج |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

5

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060029336_548

Pages

43-53

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/136/125

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/136

Subjects

Ibne Jareer Al-Tabari Tibrastan Quran Hadith Commentator Jurisprudent

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

امام طبریؒ کے حالات زندگی

نام و نسب اورپیدائش:آپ کا پورا نام محمد بن جریر بن یزید طبری اور کنیت ابو جعفر ہے۔ یہ بڑے جلیل القدر عالم ،مجتہد مطلق اور صاحب تصانیف مشہورہ تھے ۔آپ طبرستان کے شہر آمل میں ۲۲۴ ھ یا۲۲۵ھ کے شروع پیدا ہوئے۔ آپ کی تاریخ پیدائش میں اس ابہام کے متعلق آپ سے اپنے شاگرد قاضی ابن کامل [م ۳۵۰ھ] نے پوچھا کہ آپ کو سن ولادت کے متعلق شک کیسے پیدا ہوا ؟آپ نے جواب دیا کہ ہمارے شہر میں تاریخ سالوں کی بجائے واقعات(حوادث) کی بناء پر رقم کی جاتی ہے جیسے حضور کی ولادت عام الفیل کو ہوئی۔(1)

تعلیم و تربیت

ابن جریر بچپن سے حصولِ علم كا شغف ركھتے تھے ۔ ساتھ ساتھ والد ماجد نے بھی آپ كی تعلیم و تربیت میں اہم كردار ادا كیا ۔نتیجہ یہ رہا كہ چھوٹی عمر میں قران حفظ كیا اور اور كتابتِ حدیث شروع كی ۔

ابن جریر طبری ؒ کی عمر زیادہ ہوئی تو حصول علم ومعرفت کی تلاش میں دیرپا سفر کا سلسلہ شروع کیا۔۲۰سال کی عمر میں شہر آمل سے راختِ سفر باندھا۔كوفہ ،بصرہ ،فسطاط اور مصر میں اپنی علمی پیاس بجھائی۔ابن جریر نے علوم كی كثرت اپنی ذات كے اند جمع كیے حتی كہ ایك الگ مسسلك كے امام بنے۔

ابن جریر ؒ کی علمیت کے بارے میں جیدعلماء کے اقوال:

(۱)حافظ ابوبکر خطیب بغدادی [م ۴۶۳ھ ]ابن جریرؒ کی تعریف ان الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں کہ۔ وہ حافظ قرآن ،قراءت کے جاننے والے ،معانی میں بصیرت رکھنے والے،احکام القرآن میں سمجھ بوجھ رکھنے والے ،احادیث اور سند احادیث سےبا خبر،حدیث کی صحت و ضعف سے واقف اور ناسخ ومنسوخ حدیث کے ایک بڑے عالم تھے ۔وہ اقوال صحابہ و تابعین اور ان کے بعد احکام میں اختلاف کرنے والے اور حلال اور حرام مسائل سے شنا سائی رکھنے والی شخصیت تھی ۔(2)

(۲)ابن خزیمہ [م ۳۱۱ ھ] نےجب کتاب ”جامع البیان “ پر شروع سے آخر تک نظر دوڑایا تو رائے قائم کی کہ”ما اعلم علی ادیم الارض اعلم من ابن جریر“ (3)

ترجمہ ”میں نے روئے زمین پر ابن جریر ؒ سے علم و فضل میں بڑھ کر کوئی عالم نہیں دیکھا ۔“

(3)علی بن عبید اللہ بن عبد الغفار اللغوی [م۴۱۵ھ] ابن جریر ؒ کی علمی وتصنیفی مصروفیات کے بارے میں حکایت کرتے ہیں کہ

”مکث ابن جرير اربعين سنة يکتب کل يوم منها أربعين ورقة۔“ (4)

ترجمہ ”ابن جریر ؒ نے اپنی زندگی کےچالیس سال اس طرح گزارے کہ وہ ہر روز چالیس صفحات لکھتے تھے۔“

وفات محمدبن جریرالطبری: ؒ

امام ذہبی [م ۷۴۸ھ]نے آپ کی وفات کے متعلق احمد بن کامل [م۳۵۰ھ] کے حوالے سے لکھا ہے:

ُوُفِّی ابْنُ جَرِيرٍ عَشِية الأَحَدِ لِيوْمَينِ بَقِيا مِنْ شَوَّال سَنَةَ عَشْرٍ وَثَلاَثِ مائَةٍ، وَدُفِنَ فِی دَارہ .. بِبَغْدَادَ ۔ (5)

ترجمہ: امام ابن جریرؒ اتوار کی رات کو ۲۸شوال ۳۱۰ھ کو فوت ہوئے۔اوربغداد میں اپنے ہی گھرمیں دفن کئے گئے۔

ابن جریرؒ کی تصنیفی خدمات

علمائے ربانیین کی زندگیوں میں برکت ایک فطری امر ہے۔ ابن جریر ؒ کی تصنیفی خدمات اس دعو ی کی حسی دلیل اور روشن مثال بن سکتی ہے۔تصنیفی کا م آپ کا اوڑھنا بچھونا بن چکا تھا ۔ اپنی زندگی کا اکثر حصہ آپ ؒ نے کتابت میں گزاری ۔علوم دینیہ کا کوئی بھی صنف ایسا نہیں جس میں آپ نےطبع آزمائی نہ کی ہو اور اس کو استحکام نہ بخشا ہو۔درجہ ذیل كتب كی تصنیف اپ كی علمی شحصیت كے شاہد ہیں۔

(1) [تاریخ الامم والملوک / تاریخ الرسل والملوک ، تاریخ طبری]

اسباب تکوین ،آغاز تخلیق اور تاریخ انسانی میں پیش آنے والے سانحات و حوادث کے با رے میں انسانی فطرت ہمیشہ سے متجسس مشاہدہ کیا گیا ہے۔انسان ازل سے ان امور کو جاننے کا شائق واقع ہے۔علامہ نے اس کتاب میں انسان کی فطری رجحنات کا پاس لحاظ ر کھتے ہوئےاس کتاب کو زیب قرطاس کیا ہے۔

حدوث زمان اور اس موضوع سے متعلق دلائل و شواہد اکھٹے کرکے اس کتاب کی ابتداء کی ۔اس کے بعد اس حقیقت کو اشکارہ کیا ہے کہ قلم ہی وہ شئے ہے جس کو تخلیقی اعتبار سے دیگر تمام اشیاء پر سبقت زمانی حاصل ہے ۔بعد از ایں حضرت آدم ؑ کی تخلیق کا واقعہ قلمبند کیا ہے۔پھرترتیب زمان کا لحاظ رکھتے ہوئے اخبار الانبیاء والرسل اور ان کے معاصر ملوک کا تذکرہ کرتا ہے۔کتابت کا یہی انداز برقرار رہتا ہے حتی کہ سرور کونین ؐ کی بعثت تک بات آپہنچتی ہے۔اس کتاب کا خاتمہ ۳۰۲ھ کے حوادثات پر ہوتاہےجو تقریبا مصنفؒ کی زندگی کے آخری آٹھ سال تھے۔(6)

(2) [ذیل المذیل]

یہ کتاب اصحاب رسولؐ کی تاریخ پر مشتمل ہے ۔مصنف نے اس کتاب کی تشکیل میں ترتیب زمانی کو ملحوظ خا طر رکھا ہے۔اس میں ان اصحابِ رسول ؐ کاذکر ہے جو آپﷺ کی حیات طیبہ یا بعدمیں قتل کیے گئے یا فوت ہوئے۔(7)

(3) [تاریخ الرجال من الصحابۃ والتابعین]

اس کتاب میں ان کبار صحابہ اور تابعین کا تذکرہ ملتا ہے جن سے تفسیری اقوال منقول ہے۔(8)

(4) [التبصیر فی معالم الدین]

ابن جریرؒ کلامی مسائل کے ماہر تھے ۔اس کتاب میں آپؒ نے روافض ،معتزلہ اور فرقہ قدریہ کے باطل عقائد کی ابطال کی ہے ۔ اہل اہواء کے عقائد کی ابطال کے ساتھ ساتھ اہل سنت والجماعت کے عقائد کی دفاع بھی کی ہے۔البتہ جو قول بھی ابطال تردید کے طور پیش کیا ہے ان تمام کے ساتھ اسانید ذکر نہیں کرتا ۔ (9)

تفسیر طبری کا تعارف اور مقام

امام طبری نے اپنی تفسیر کا نا م ”جامع البیان عن تاویل القرآن “(10) رکھا ہے ۔آپ نے اپنی تفسیر میں ہر کی علیحدہ تفسیر کی ہے ۔تفسیر سے پہلے آپ نے ایک مقدمہ تحریر کیا ہے جس میں قرآن کی معانی جامعیت ،قرآن کے نزول کی لغت اور اس طرح کے دوسرے مباحث جو تفسر سے متعلق ہیں ،تحریر کیے ہیں۔تفسیر کی ابتداء سورۃ الفاتحہ سے کی ہے۔اس کے بعد بالترتیب دوسری سورتو ں کی تفسیر آیۃ آیۃ تحریر کی ہے اور یہ التزام انہوں نے قرآن کی آخری آیت تک رکھا ہے ۔

امام طبری ؒ کی تفسیر علماء امت کے ہاں تفسیر بالماثور کے قبیل سے ہے،تاہم بعض علماء نے اسے مرجع کی حیثیت سے کم اہمیت دی ہے۔کیونکہ اس نے اپنی تفسیر میں استنباطات اور اقوال تفسیریہ کے ما بین توجیھات اور بعض اقوال کو بعض کے مقابلے میں راجح قرار دینے کی صورت میں عقلی رائے کا استعمال کیا ہے۔(11)

تفسیرِ طبری کا علمی مقام

تمام علماء تفسیر طبری کے حوالے سے علمی مقام کے قائل ہیں ،چنانچہ ابن خزیمہ [م ۳۱۱ ھ]نے اس اس کو دیکھا اور مطالعہ کیا تو بزبان خود اقرا رکیا :

قد نظرت فیه من أوله إلى آخره، وما أعلم على أدیم الأرض أعلم من محمد بن جریر“(12)

ترجمہ : میں نے تفسیر طبری کو اول سے آخر تک مطالعہ کیا اور میں نے روئے زمین پر ابن جریر ؒ سے علم و فضل میں بڑھ کر کوئی عالم نہیں دیکھا۔ “

خطیب بغدادی [م۴۶۳ ھ]جو بہت بڑے نقاد حدیث ہیں آپ کی تفسیر کے متعلق کہتے ہیں:

و له كتاب فی التفسیر لم یصنف أحد مثله۔“(13)

ترجمہ :”ابن جریرؒ ایک کتاب تفسیر سے متعلق ہے اور اس جیسی تفسیر نہیں لکھی گئی ۔

ابو حامد اسفرائینی تفسیر طبری کی تعریف اور اہمیت اس انداز سے بیان کرتے ہیں: ابو حامد اسفرائینی تفسیر طبری کی علمی وقعت بیا ن کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

لو سافر الرجل الی الصین حتی یحصل له کتاب تفسیر محمد ابن جریر لم یکن ذلک کثیر“(14)

ترجمہ ”اگر کسی کو ابن جریرؒ کی تفسیر کے حصول میں چین تک جانا پڑے تو بھی کم ہے۔

شیح الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ[ م۷۲۸ھ ] نے تفسیر طبری ؒ کی صحت و علمی مقام کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے کہ :

” التَّفَاسِيرُ الَّتِی فِی أَيدِي النَّاسِ فَأَصَحُّها " تَفْسِيرُ مُحَمَّدِ بْنِ جَرِيرٍ الطبري " فَإِنَّه يذْكُرُ مَقَالَاتِ السَّلَفِ بِالْأَسَانِيدِ الثَّابِتَةِ وَلَيسَ فِيه بِدْعَةٌ وَلَا ينْقُلُ عَنْ الْمُتَّهمِينَ “ (15)

ترجمہ ” لوگوں کے ہاتھوں میں جو تفاسیر ہیں ان سب میں زیادہ صحیح ابن جریرؒ کی تفسیر ہے كیونكہ آپ ان اسلاف کے اقوال ثابت شدہ سندوں کے ساتھ ذکر کرتے ہیں ،اس میں کسی قسم کی کوئی بدعت نہیں ،اور نہ ہی ایسے راویوں سے نقل کرتا ہیں جو متہم بالکذب ہو “

امام طبری كا تفسیری منہج:

ابن جریر جس عرصہ میں حیات تھے وہ تفسیر كا تیسرا دور تھا ۔ اس دور کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ تفسیر احادیث نبوی ﷺ سے الگ ہو کر ایک علیحدہ اور جداگانہ علم کی حیثیت اختیار کر گیا۔اس دور میں قرآنی ترتیب کے مطابق ہرہر آیت کی تفسیر مرتب کی جا نے لگی ۔اس عرصہ جتنی بھی تفاسیر مرتب کی گئی ان سب کا منبع احادیث نبوی ، اقوال صحابہ اور اقوال تابعین تھے۔ ہم یوں کہ سکتے ہیں کہ اس دور میں مرتب شدہ تفاسیر بالماثور تھیں۔البتہ ابن جریرؒ نے بالماثور کے التزام کے ساتھ اپنا ایک نہج اپنایا جس پر اس سطورِ ذیل میں روشنی ڈالی جاتی ہے۔ابن جریرؒ کا تفسیری منھج درجہ ذ یل عنوانات کے ساتھ ملاحظہ ہو۔

(الف)\emdash القول فی تأويل قوله تعالى:

تفسیر ابن جریرؒ کا تفصیلی مطالعہ کرنے سے اس کا طرز و انداز کھل کر سامنے آتا ہے۔اس تفسیر کا قاری سب سے پہلے یہ بات مشاہدہ کر ے گا کہ ابن جریرؒ قرٓن کریم کی کسی بھی ا ٓیت کی تفسیر کرنا چاہے تو یہ قول ” القول فی تأويل قوله تعالى “یعنی فلاں ٓایت کی تفسیریہ ہے،لے ٓاتا ہے۔ اس کے بعد وہ آیت کی تفسیر کرتا ہے۔تاویل کا لفظ وہ اس لیے ذکر کرتا ہے کہ متقدمین تفسیر و تاویل میں فرق نہیں کرتے البتہ متاخرین کے نزدیک تفسیر و تاویل دو الگ الگ اصطلاحات ہیں۔ابن جریرؒ کا یہ منھج اول سے لے کر ٓاخر تک جاری رہتا ہے ۔نمونے کے طور پر سورہ یوسف میں ار شاد باری تعالیٰ کی اس نہج پر تفسیر ملاحظہ ہو:

إِنَّا أَنْزَلْنَاہ قُرْآنًا عَرَبِیا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴾(16)

ترجمہ : ہم نے اس کو اتارا ہے قرآن عربی زبان کا تاکہ تم سمجھ لو ۔

القول فی تأويل قوله تعالى:إنا أنزلناهذا الكتاب المبین، قرآنًا عربیا على العرب، لأن لسانهم وكلامهم عربی، فأنزلنا هذا الكتاب بلسانهم لیعقلوہ ویفقهوا منه، وذلك قوله: (لعلكم تعقلون) .(17)

ترجمہ :آیت کی تفسیر :بے شک ہم نے اس واضح قران کو عرب پر عربی زبان میں نازل فرمایا کیونکہ ان کی زبان اور کلام عربی ہے ، پس ہم نے اس کو ان کی زبان پر نازل فرمایا،تاکہ وہ اس کو جانے اور اس سے فہم حاصل کرسکے،اور اس کی طرف اشارہ اللہ تعالی ٰ کے اس قول میں موجود ہے(تاکہ تم سمجھ لو)

(ب) —قیام ترجیح:

ابن جریر ؒ كسی آیت كی تفسیر میں مختلف تفسیری اقوال ذكر كر تے ہیں۔ تفسیری اقول ذكر كرنے كے بعد وہ أصح قول كی تعیین میں ترجیح قائم كرتے ہیں۔ قرا ئن كی موجودگی كے باعث اگر كوئی تفسیری قول اسے پسند نہیں آتاتو کہتے ہیں كہ میں اس كو پسند نہیں كرتا۔

اس كی مثال سورہ یوسف كی وہ آیت ہے جس میں یوسف ؑ اپنے باپ حضرت یعقوبؑ كو خوا ب كے متعلق خبر دیتے ہیں۔ارشاد باری تعالى ہے :

إِذْ قَالَ یوسُفُ لِأَبِیه یا أَبَتِ إِنِّی رَأَیتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَیتُهمْ لِی سَاجِدِینَ(18)

ترجمہ: جس وقت کہا یوسف نے اپنے باپ سے اے باپ میں نے دیکھا خواب میں گیارہ ستاروں کو اور سورج کو اور چاند کو دیکھا میں نے ان کو اپنے واسطے سجدہ کرتے ہوئے ۔

اس آیت میں تفسیر طبری میں وارد شدہ اکثر تفسیری اقوال کے مطابق (احد عشرکوکبا) سے مراد بھائی اور (الشمس والقمر ) سے مراد بالترتیب والد اور ماں ہے ۔البتہ ابن جریر ؒ اس قول کو مرجوح قرار دیتے ہیں جو ابن عباس  سے مروی ہے چنانچہ اس کے مطابق (القمر ) سے مراد حضرت یوسف ؑ کی خالہ بتائی گئی ہے۔اس طرح وہ پہلے ذکر شدہ تمام ا قوال کو راجح اور ابن عباس سے مروی قول کو مرجوح تصور کرتاہے ۔ (19)

اسناد کے بارے میں ابن جریر ؒکا موقف: (ج) —

ابن جریرؒ نے اگر چہ تفسیر میں روایات کو مع اسنا دجمع کرنے کا التزام کیا ہے۔مگر اکثر و بیشتر اسناد کی جانچ پڑتال نہیں کرتے۔اصول حدیث کی عام اصطلاح کے مطابق ان کا خیال یہ ہے کہ سند کو ذکر کرکے انہوں نے نقد وجرح کی ذمہ داری قاری پر ڈال دی ہے اور بذات خود سبکدوش ہوگئے۔ اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ مذکورہ اسناد کی چھان پھٹک کا اہتمام کریں اور دیکھیں کہ ٓایا وہ صحیح ہیں یا ضعیف ۔

اس کے بر عکس ابن جریر ؒ کبھی ایک تجربہ کار ناقد کی حیثیت بھی اختیار کر لیتے ہیں اور اسناد پر نقد و تبصرہ کر کے نا قابل اعتماد روایت کو رد کر دیتے ہیں ۔ اس نہج کی دلیل سورہ کہف میں ارشاد باری تعالیٰ کی تفسیر کرتے ہوئے دی جاسکتی ہے ۔

فَهلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلَى أَنْ تَجْعَلَ بَینَنَا وَبَینَهمْ سَدًّا (20)

ترجمہ :کیا ہم آپ کے لئے کچھ خرچ کا انتظام کردیں؟ (اس شرط پر کہ) آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنا دیں ۔

(د)—تفسیر بالرائے کی تردید :

ابن جریر ؒ ٓازاد خیال مفسرین کی پرزور تردید کرتے اور اور اقوال صحابہ و تابعین سے استفادہ کی اہمیت پر زور دیتے ہیں ان کی رائے میں صحیح تفسیر کی علامت یہی ہے کہ وہ صحابہ و تابعین سے مستفاد ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ثُمَّ یأْتِی مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ عَامٌ فِیه یغَاثُ النَّاسُ وَفِیه یعْصِرُونَ (21)

ترجمہ: اس ٓایت کی تفسیر میں ابن جریرؒ نے علمائے سلف کے مختلف اقوال اور اختلاف قرأت کا ذکر کیا اور پھر ان مفسرین پر شدید رد و کد کی ہے جو محض لغت کی مدد سے قرٓا ن کی تفسیر کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ ان کے قول کے ابطال و تردید کا کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا ۔(22)

(ر) —قرأت سے متعلق ابن جریر ؒ کا منہج:

ابن جریر ؒ مختلف قرأتیں ذکر کرنے کا اہتمام کرتے ہیں اور ان معانی و مطالب پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ جو قرأت معتبر ائمہ سے منقول نہ ہو یا اس کے اختیار کرنے سے کتاب اللہ کا مفہوم بدل جاتا ہے ،ابن جریر ان کو رد کردیتے ہیں ۔پھر ٓاخر میں اپنی رائے بیان کرتے ہیں اور اس کے حق میں دلائل و براہین ذکر کرتے ہیں۔ابن جریرؒ نے مختلف قرأتوں کے سلسلہ میں جو اہتمام کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بذات خود ایک مشہور قاری تھے۔(23)

(ظ)—نحوی صرفی مسائل میں ابن جریر کا منہج :

ابن جریرؒ نے اپنی تفسیر میں صرفی و نحوی مسائل سے متعلق کوفی اور بصری علماء کے بے شما ر اقوال ذکر کیے ہیں۔ غرض یہ کہ حسب موقع و مقام ابن جریرؒ لغت عرب اور جاہلی اشعار سے استشہاد کرتے ہیں اور جہاں ضرورت کا تقاضا ہو وہاں صرفی و نحوی مسائل کی تفصیلات بیان کرتے ہیں۔ ان مباحث کی وجہ سے اس تفسیر کی شہرت میں اضافہ ہوا ۔

دراصل اس علمی خزانہ کا بڑا سبب مؤلف کی اپنی ذات ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ابن جریر ؒ ایک جید عالم اور مؤرخ ہونے کے ساتھ ایک زبردست لغوی ادیب اور نقاد بھی تھے ۔یہ امر قابل لحاظ ہے کہ نحوی اور لغوی مباحث کا یہ عظیم ذخیرہ بجائے خود مقصود نہیں بلکہ قرآن کی تفسیر کی حیثیت ایک موثر ذریعہ اور وسیلہ کی ہے۔(24)

(ص) —جاہلی اشعار سے استدلال:

ابن جریر ؒ اپنی تفسیر میں جاہلی اشعار سے بھی استشہاد و احتجاج کرتے ہیں۔سورہ کہف میں اصحاب کہف کی تعداد میں وارد شدہ بیان میں قول باری تعالیٰ اور اس کی تفسیر میں ابن جریرؒ کا یہی نہج ملاحظہ ہو:

سَیقُولُونَ ثَلَاثَةٌ رَابِعُهمْ كَلْبُهمْ وَیقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُهمْ كَلْبُهمْ رَجْمًا بِالْغَیبِ (25)

ترجمہ: کچھ لوگ تو کہیں گے کہ اصحاب کہف تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا، کچھ کہیں گے کہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا غیب کی باتوں میں (اٹکل کے تیر تکے) چلاتے ہیں ۔

اس آیت میں وارد شدہ کلمات (رجما بالغیب) یعنی یقین کے بغیر ظنی بنیاد پر کوئی دعوی کرنا ،کے معنی کی وضاحت کے لئے عمیرہ بن طارق کا قول بطور استشہاد لاتاہے۔ اس کے الفاظ اس طرح وارد ہیں:

وأجعل منی الظن غیبا مرجما. (26)ترجمہ: اور تم میرے یقین كو گمان غیر یقین كے ساتھ تبدیل كرتے ہیں۔

(ک)—علم الکلام میں تفسیر طبری کا منہج:

ابن جریر علم الكلام میں كامل مہارت كے مالك تھے۔اپنی تفسیر میں وہ جا بجا معتزلی عقائد و افکار کی تردید کرتے ہیں ۔اس کی مثال ان آیات کی تفسیر ہے جن سے رؤیت باری تعالیٰ کا اثبات ہوتا ہے ۔ان آیات کی تفسیر میں ابن جریرؒ معتزلی عقائد پر شدید تنقید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔اسی طرح ابن جریرؒ سلف کے عقائد کے ساتھ اظہار اتفاق کرتے ہیں کہ آیا ت صفات کو ان کے ظاہر پر محمول کیا جائے مگر اس کے ساتھ ساتھ تشبیہ و تجسیم کے عقیدہ کی مخالفت کرتے اور ان لوگوں کی سخت تردید کرتے ہیں جو ذات باری کو انسانوں کے مماثل قرار دیتے ہیں ۔ مثال کے طور پر آیت:

وَالْأَرْضُ جَمِیعًا قَبْضَتُه یوْمَ الْقِیامَةِ (27)

ترجمہ: ”اور زمین ساری ایک مٹھی ہے اس کی دن قیامت کے “

اس قسم کی آیات کی تفسیر میں ابن جریر ؒ معتزلی عقائد کی رد کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ اہل سنت کے عقائد بھی سامنے لاتا ہے۔(28)

خلا صۃ البحث

امام طبری کی تفسیر کو اسی نہج پر مکمل کیا جائے اور تفسیر کی علمی افادیت کےپیش نظر دیگر زبانوں میں اس کا ترجمہ بے حد ضروری ہے ۔یہ تفسیر قرآنی مشکلات کے حل کرنے میں خصوصی طور پر اپنی مثال آپ ہے۔اس کے محققانہ طرز استدلال اور حکیمانہ اسلوبِ بیان سے قرآن مجید کے مطالب آسانی سے دل نشین ہو جاتے ہیں اور کم علمی اورکم فہمی سےپیدا ہونےوالےتمام شکوک و شبہات کا ازالہ ہوجاتا ہے۔اس تفسیر کو باریک بینی اور استخراج مسائل واحکام میں دوسری تفاسیرپرایک امتیازی مقام حاصل ہے ۔اس میں اسلاف کے طرز پر عقیدہ کی اصلاح اور بدعت و گمراہی کودلائل کے ساتھ رد کیا گیا ہے ،نیز اس تفسیر میں مفسرین کے مختلف اقوال کو ذکر کر کے ان میں حتّی الامکان انضمام اور توافق پیدا کیا گیا ہے ۔اور جہاں ممکن ہوا ،وہاں راجح قول کو اختیار کیا گیا ہے۔اس تفسیر کا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں تفسیری روایات کاایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔

حواشی وحوالہ جات

(1)ابنِ خلکان ،أبو العباس شمس الدین أحمد بن محمد بن إبراہیم [م۶۸۱ھ ] ،وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان، ج۴،ص۱۹۲،۱۹۱، دارصادر، بیروت ۱۹۹۴ء۔

(2)یاقوت الحموی،ابوعبداللہ یاقوت بن عبداللہ،شھاب الدین[م ۶۲۶ھ]،معجم الادباء،ج۶، ص۲۴۴۲، دارالغرب الاسلامی، بیروت۱۴۱۴ھ

(3)الخطیب البغدای،أبو بكر أحمد بن علی بن ثابت بن أحمد بن مہدی [م ۴۶۳ھ]، تاريخ بغداد ، ج ۲، ص ۱۶۱ دار الغرب الإسلامی بیروت

(4)حوالہ بالا

(5)الذہبی ، ابو عبداللہ محمد بن احمد بن عثمان،شمس الدین[م ۷۴۸ھ]، ، سير أعلام النبلاء، ج۱۴،ص۲۸۲، دارالحدیث، ۱۴۲۸ھ۔

(6)یاقوت الحموی، ابوعبداللہ یاقوت بن عبداللہ،شھاب الدین[م ۶۲۶ھ]، معجم الادباء،ج۶، ص۲۴۴۴، دارالغرب الاسلامی ،بیروت۱۴۱۴ھ۔۔

(7)حوالہ بالا

(8)باشا ،اسمٰعیل بن محمّدامین بن امیر اسلم، البابانی، البغدادی[م۱۳۳۹ھ]، هدية العارفين أسماء المؤلّفين وأثار المصنّفين من کشفِ الظنون، ج۱، ص۲۹۷،دارالکتب العلمیہ،بیروت،۲۰۰۸ء۔

(9)اسمٰعیل باشا ،البابانی [م۱۳۳۹ھ]، کشف الظنون، ج۲، ص۲۸، حوالہ بالا۔

(10)یاقوت الحموی، [م ۶۲۶ھ]،معجم الادباء،ج۶، ص۲۴۵۲، حوالہ بالا۔

(11)محمد السيد حسين الذهبی، الدكتور [م۱۳۹۸ھ]،التفسير والمفسرون ،ج۱،ص۱۱۴، مکتبہ وھبۃ، قاہرۃ، س ن

(12)الخطیب البغدای، [م ۴۶۳ھ]، تاريخ بغداد ، ج ۲، ص۱۶۱،حوالہ سابق۔

(13)حوالہ بالا۔

(14)ابن عساكر، أبو القاسم علی بن الحسن بن ہبة اللہ ،تاريخ دمشق،ج۵۲،ص۱۹۸، دار الفكر للطباعة والنشر والتوزیع ۔

(15)ابن تیمیہ،احمد بن عبد الحلیم،ابو العباس[م۷۲۸ھ]،مجموع الفتاوٰی،ج۱۳،ص۳۸۵، مجمع الملک للطباعۃ والنشر،السعودیۃ۱۴۱۶ھ۔

(16)القرآن:یوسف۲:۱۲

(17)الطبری،ابی جعفر،محمدبن جریر[م۳۱۰ھ]، جامع البیان عن تأ ویل آی القرآن،ج۱۳،ص ۶،اتحقیق :عبد اللہ بن عبد المحسن الترکی ،دار ھجر، س ن۔

(18)القرآن:یوسف۴:۱۲

(19)ابن جریرالطبری، جامع البیان عن تأ ویل آی القرآن،ج۱۳،ص ۱۳، حوالہ سابق۔

(20)القرآن،الکہف ۹۴:۱۸

(21) القرآن،یوسف ۴۹:۱۲

(22)ابن جریرالطبری، جامع البیان عن تأ ویل آی القرآن،ج۱۳،ص ۱۹۷، حوالہ سابق

(23)الدكتور محمد السيد حسين الذهبی (م ۱۳۹۸ھ)،التفسیر والمفسرون، ج۱، ص ۱۷۲، حوالہ سابق۔

(24)ابن جریرالطبری، جامع البیان عن تأ ویل آی القرآن،ج۱۳،ص۶۲۲، حوالہ سابق

(25)القرآن،الکہف ۲۲:۱۸

(26)ابن جریرالطبری، جامع البیان عن تأ ویل آی القرآن،ج۱۵،ص۲۱۸، حوالہ سابق۔

(27) القرآن،الزمر۶۷:۳۹

(28)ابن جریرالطبری، جامع البیان عن تأ ویل آی القرآن،ج۲۰،ص۲۵۳، حوالہ سابق۔

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...