Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 3 Issue 1 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

انسانی اعضاء کی پیوندکاری اور عصر حاضر: فقہاء کرام کی آراء کا جائزہ |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2016

ARI Id

1682060029336_549

Pages

154-167

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/112/102

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/112

Subjects

Transplantation Qura’n Sunnah Jurists

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اللہ تعا لیٰ نے زمین آ سما ن کی مخلو قا ت میں انسا ن کو اشر ف المخلو قا ت کا در جہ دیا ہے  اور زمین پر اللہ نے اسے  اپنا خلیفہ مقرر کیا اور ا سے شرف تکر یم عطا ء کیا ۔ اس بارے میں قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ.(التین: 4) "ہم نے پیدا کیا انسان کو (بہت) خوب اندازے پر"۔ امام ابن عربی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات میں انسان سے زیادہ خوبصورت کوئی چیز نہیں ۔ کیونکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے زندگی کے ساتھ عالم، قادر، متکلم، سمیع ، بصیر، مدبر اور حکیم بنایا ہے اور یہ سب صفات در اصل خود اللہ تعالیٰ کی ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی نے سب سے پہلے آدم ؑ کو اپنی صورت پر پید افرمایااور اللہ پاک خود ہر شکل و صورت سے آزاد ہے۔(1)

اس ضمن میں ایک اور قرآنی آیت میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَلَقَدْکَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ(بنی اسرائیل: ۷۰)۔  "اور ہم نے عزت دی آدم کی اولاد کو "۔

یعنی یہ کہ آدم کی اولاد کو تمام مخلوقات پر جو فضیلت دی گئی ہے اس میں تو کسی کو اختلاف کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف حیثیتوں سے ایسی خصوصیات عطافرمائی ہیں جو دوسری مخلوقات میں نہیں مثلاً: حسن صورت، اعتدال جسم، اعتدال مزاج، اعتدال قدو قامت جو انسان کو عطا ہوا ہے وہ کسی دوسرے جاندار میں نہیں ہے، اس کے علاوہ عقل و شعور میں بھی اس کو خاص امتیاز بخشا ہےجس کے ذریعے وہ تمام کائنات آسمانی اور ارضی سے اپنے کام نکالتا ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ نے اس کی قدرت بخشی ہے کہ وہ اللہ کی تمام مخلوقات سے ایسے مرکبات اور مصنوعات تیار کرے جو اس کے رہنے سہنے اور نقل و حرکت اور طعام و لباس میں اس کے کام آ سکیں ، اس کے علاوہ سوچ سمجھ، افہام و تفہیم کی جو مہارت اس کو عطا ہوئی ہے وہ اور  کسی حیوان میں نہیں ہے۔ انسان ہی کو یہ فضیلت ہے کہ عقل و شعور سے اپنے خالق اور مالک کو پہچانے ۔اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں اس طرح فرق کیا گیا ہے کہ عام جانوروں میں خواہشات ہیں لیکن ان میں عقل و شعور نہیں ہیں۔ فرشتوں میں عقل و شعور ہے لیکن ان میں خواہشات جنس نہیں ہے اور انسان ہی ایک ایسی مخلوق ہے جس میں یہ دونوں چیزیں جمع ہیں ۔ یعنی عقل و شعور بھی رکھتا ہے اور خواہشات بھی اس وجہ سے جب وہ خواہشات کو عقل و شعور کے ذریعے مغلوب کر لیتا ہے اور حرام کی چیزوں سے اپنے آپ کو بچا لیتا ہے تو اس کا مقام بہت سے فرشتوں سے بھی اونچا ہو جاتا ہے تو معلوم ہوا کہ اولادِ آدم کو مخلوقات آسمانی اور ارضی اور دیگر تمام جانداروں پر فضیلت دی گئی ہے ،اس طرح جنات جو عقل و شعور میں انسان کی طرح ہیں لیکن ان پر بھی انسان کا افضل ہونا سب کے نزدیک مسلم ہے۔ (۲)

انسان کے جسمانی اعضاء جو کہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی عطیہ ہیں اب اس عطیہ کے بارے میں( جن کو مختلف ذرائع سے نکالا اور تبدیل کیا جا رہا ہے)، مفتی محمد شفیع ؒ مسائل و احکام بیان کرتے ہیں کہ شریعت اسلام میں انسانی اعضاء کی پیوند کاری کرنا جائز ہے یا ناجائز؟ اس ضمن میں دو قرآنی آیات کوبیان کیا گیا ہے۔

هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُم مَّا فِیْ الْاَرْضِ جَمِیْعاًً(البقرہ: ۲۹)۔

"وہی ہے جس نے پیدا کیا تمہارے واسطے جو کچھ زمین میں ہے"۔

کیا انسان کو اپنے جسم میں تصرف کرنے کا اختیارہے کہ وہ اپنے اعضاء کو استعمال کرتا پھرے؟ اس کے پاس یہ جسم اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور وہ اپنے اعضاء کے بارے میں اپنے رب کے سامنے جواب دہ ہو گا ۔

دوسری آیت یہ ہے کہ :

اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولئِٓکَ کَانَ عَنْهُ مَسْؤُوْلاً (بنی اسرائیل : ۳۶ )

"بے شک کان اور آنکھ اور دل ان سب  سے پو چھ گچھ ہو گی "۔

ان دونوں آیات قرآنی کو بیان کرنے کے بعد صاحب تفسیر انسانی اعضاء کی پیوند کاری کے ضمن میں اپنی ایک تصنیف میں رقم طراز ہیں کہ:

الف۔" جس طرح جانوروں کی کھال اور بال الگ کر دئیے جاتے ہیں اور مختلف قسموں کے کاموں میں لگایا جاتا ہے، اسی طرح انسان کے ساتھ بھی یہی معاملہ جو کہ اس کی کھال، بال اور دوسرے اعضاء کو کا ٹ کر استعمال میں لایا جائے تو یہ انسانی شرافت و تکریم اور منشاء تخلیق کائنات کے بالکل منافی ہے اس لیے انسانی اعضاء کی خریدوفروخت اور کاٹ کر استعمال کرنا سنگین جرم اور سخت حرام ہے۔دنیا کے ہر دور کے حکماء نے اس فیصلہ کو تسلیم کیا ہے اور تمام انبیاء کرام کی مختلف شریعتوں کا اس پر اتفاق رہا ہے۔ مسیحی دنیا جو آج کل ان کاموں میں پیش پیش ہے ، ان کابھی اصل مذہب یہی ہے ۔اسلام نے ایک انسان کے عضو کو دوسرے انسان کے لیے استعمال کرنااس کی رضا مندی اور اس کی اجازت کے باوجود بھی ناجائز کہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر اپنی قدرت کاملہ سے جس طرح جسم کی ساخت بنائی ہے کہ سائنس چاہے، جدید ہو یا قدیم ہو دونوں مل کر بھی اس کا ایک حصہ بھی نہیں بنا سکتی۔ انسان کا پورا وجود ایک چلتی پھرتی فیکٹری ہے اور اس میں مختلف مشینیں کام کر رہی ہیں ، یہ سب مشینیں ان کے پیدا کرنے والے نے انسان کو امانت کے طور پر دی ہیں، اس کو ان چیزوں کا مالک نہیں بنایا۔

ب۔ جس طرح انسان کا خودکشی کرنا حرام ہے، اسی طرح انسان کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنا عضو کسی دوسرے کو رضاکارانہ طور پر یا معاوضہ لے کر دے دینا حرام ہے، فقہاء کرام نے قرآن و سنت کی واضح نصوص کی بناء پر فرمایا ہے کہ جو شخص بھوک و پیاس سے مر رہا ہو اس کے لیے مردار جانور اور ناجائز چیزوں کا کھانا تو بقدر ضرورت جائز ہے مگر یہ بات اس وقت بھی جائز نہیں ہو سکتی کہ کسی دوسرے زندہ یا مردہ انسان کا گوشت کھائے اور نہ یہ جائز ہے کہ وہ اپنا گوشت یا عضودوسرے انسان کو بخش دے کیونکہ خرید و فروخت یا ہدیہ صرف اپنی چیزوں میں ہو سکتا ہے، روح انسانی اور اعضاء انسانی اس کی ملک نہیں کہ وہ کسی کو دے۔

ج۔ آج کل ڈاکٹر اور سرجری کی نئی ترقیات نے فنی طور پر بلا شبہ اپنے کمال کا مظاہرہ کیا ہے کہ ایک انسان کی آنکھیں دوسرے نابینا انسان کے چہرے میں لگا کر اس کو روشن کر دکھایا۔ پھر ایک انسان کا گردہ، پتہ، پھیپھڑا دوسرے مریض انسان کے جسم میں لگا کر تندرست کیا ۔ اس وقت جس انداز سے یہ کام جاری و ساری ہے ۔ بظاہران مضرتوں کی روک تھام کا انتظام کر لیا گیا ہے جو اس تماشے کے نتیجے میں پورے انسانی معاشرے کو تباہی میں ڈال سکتی ہیں کیونکہ ایسے اعضاء صرف خالص رضاکارانہ طور پر ان لوگوں سے لیے اور دیے جاتے ہیں جو اس جہاں سے گزرے ہیں۔ خواہ وہ بیماری کے سبب یا سزا کے طور پر قتل ہونے کی وجہ سے لیکن دنیا کے تجربات رکھنے والے کوئی صاحب بصیرت ان عارضی پابندیو ں پر مطمئن نہیں ہو سکتا۔ خدانخواستہ یہ طریقہ علاج رواج پا گیا تو اس کا ایک نتیجہ تو یہ ہو گا کہ غریب انسان کی آنکھیں اور گردے اور دوسرے اعضاء ایک بکا ؤ مال کی طرح بازار میں بکا کریں گے"۔

مفتی محمد شفیع ؒنے اس مختصر بحث میں اپنا نقطہ نظر یہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ انسانی اعضاء کی پیوند کاری ہر طرح سے ناجائز اور حرام ہے ۔ چاہے کوئی انسان اپنی رضامندی سے اپنی آنکھیں، گردہ، پھیپھڑا وغیرہ دے یا پھر ان اعضاء کو کسی مجبور بندے سے خرید  کر اس سے  پیوند کاری  کی جائے تو یہ  ناجائز ہے اس لیے کہ انسان اپنے جسم کے اعضاء کا مالک نہیں ہے کہ وہ اس کو تقسیم کرتا پھرے۔ (۳)

اس مسئلہ کو علامہ سعیدی بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ قرآ ن پاک میں ارشاد ہوتا ہے :

لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ذَلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ(روم :۳۰)

"اللہ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں ہے یہی  صحیح دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے "۔

اپنے جسم کے بعض اعضاء نکلوا کر کسی کو دے دینا :

علامہ سعیدی رقم کرتے ہیں کہ" بعض فقہاء جن میں حافظ ابن البر مالکی بن عطیہ اندلسی ،حافظ ابو القیاس قرطبی اور علامہ بدر الدین عینی حنفی نے مسئلہ فطرت کے معنی پر بحث کی ہے اور دلائل سے واضح کیا ہے کہ جس خلقت اور جس ہیئت پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو صحیح اور سالم اور تمام جسمانی نقائص اور عیوب سے خالی پیدا کیا اور وہی فطرت ہے" ۔

علامہ سعیدی بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ  یعنی اللہ کی خلقت اور بناوٹ میں کوئی تبدیلی نہیں۔یہ کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی خلقت اور ہیئت میں تبدیلی نہ کرو اور اپنے ہاتھ پاؤں کاٹ کر اللہ تعالیٰ کی خلقت میں تبدیلی اور تغیر نہ کرو ، جو لوگ اپنے بعض اعضاء مثلاً گردہ وغیرہ نکلوا کر کسی کو دے دیتے ہیں ان کا یہ فعل بھی اس مذکورہ آیت کی رو سے ممنوع اور حرام ہے ۔اپنے جسم کے اعضاء نکلوانے کے حرام ہونے پر دوسری دلیل قرآن مجید کی اس آیت سے دیتے ہیں کہ اپنے جسم کے بعض اعضاء کو نکلوانا یا کٹوانا تغیر خلق اللہ ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے شیطان کا قول نقل فرمایا :

وَلَاُضِلَّنَّهُمْ وَلَاُمَنِّیَنَّهُمْ وَلآمُرَنَّهُمْ فَلَیُبَتِّکُنَّ آذَانَ الْاَنْعَامِ وَلآمُرَنَّهُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰهِ وَمَن یَتَّخِذِ الشَّیْطَانَ وَلِیّاً مِّن دُونِ اللّٰهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَاناً مُّبِیْناً (النساء : ۱۱۹)

"اور مجھے قسم ہے میں ضرور ان کو گمراہ کر دوں گا اور میں ضرور ان کے دلوں میں (جھوٹی) آرزوئیں ڈالوں گا اور میں ضرور ان کو حکم دوں گا تو وہ ضرور مویشیوں کے کان چیر ڈالیں گے اور میں ان کو ضرور حکم دوں گا تو وہ ضرور اللہ کی بنائی ہوئی صورتوں کو تبدیل کریں گے ۔اور جس نے اللہ کے بجائے شیطان کو اپنا دوست  بنا لیا تو وہ کھلے ہوئے ہوئے نقصان میں مبتلا ہوگیا"۔

اب جو مرد داڑھی منڈواتے ہیں اور عورتوں کی طرح چوٹی رکھتے ہیں اور جو عورتیں مردوں کی طرح بال کٹواتی یا سر منڈاتی ہیں اور جو بوڑھے مرد بالوں پر سیاہ خضاب لگاتے ہیں اور جو مرد خصی ہو جاتے ہیں (جو بعد میں عورتیں بن کر ناچتے ہیں )یا وہ لوگ جو اپنے بعض اعضاء کسی کو دینے کے لیے نکلواتے ہیں تو یہ سب شیطان کے حکم پر عمل کر کے تغیر خلق اللہ کر رہے ہیں اور اللہ کی تخلیق کو تبدیل کررہے ہیں۔سو یہ تمام افعال ناجائز اور حرام ہیں ۔ (۴)

انسانی افراط کے ساتھ پیوند کاری کی تحریم اور ممانعت :

اس طرح کی ایک اور حدیث بیان ہوئی ہے کہ:

عن عائشتة ان جاریته من الانصار تزوجت وانها مرضت فتمرط شعرها فارادو ان یعلوا : فسالو رسول اللّٰهﷺ عن ذالک فلعن الواصلة والمستوصلته۔(۵)

" حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ انصار کی ایک لڑکی کی شادی ہوئی ، وہ بیمار ہو گئی اور اس کے بال جھڑ گئے ،  اس کے گھر والوں نے ارادہ کیا کہ اس کے بالوں کے ساتھ کسی دوسری عورت کے بالوں کو پیوند کر دیں ۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اس بارے میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بالوں میں پیوند کرنے والی اور بالوں میں پیوند کرانے والی پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے "۔

انسانی اجزاء کے ساتھ پیوند کاری کی تحریم اور ممانعت :

علامہ سعیدی فقہاء مذاہب کی تصریحات کو نقل کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ:

علامہ یحییٰ بن شرف نواوی لکھتے ہیں کہ:

واصلہ کا معنی ہے وہ عورت جو کسی عورت کے بالوں میں دوسرے بالوں کا پیوند لگائے اور مستوصلہ کا معنی ہے وہ عورت جو اپنے بالوں میں دوسری عورت کے بالوں کا پیوند لگوائے ۔ مزیدبیان کرتے ہیں کہ ہمارے اصحابؓ نے اس مسئلہ کی تفصیل کی ہے اور یہ کہا کہ اگر عورت نے اپنے بالوں کے ساتھ کسی آدمی کے بالوں کو پیوند کیا ہے تو بالاتفاق حرام ہے ، خواہ وہ مرد کے بال ہوں یا عورت کے اور خواہ وہ اس کے محرم کے بالوں ہیں یا شوہر یا ان کے علاوہ کسی اور کے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ احادیث میں عموم ہے اور اس لیے بھی کہ آدمی کے بالوں اور سارے اجزاء سے اس کی تکریم کی وجہ سے نفع حاصل کرنا حرام ہے).۶(

اب آگے انسانی اعضاء کی پیوند کاری کے ہی ضمن میں قرآنی آیت کے جملہ ’’لا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللَّہِ ‘‘کی روشنی میں احادیث مبارکہ اور فقہاء سے دلائل بیان کرنے کے بعد اسی کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے علامہ سعیدی رقم کرتے ہیں کہ حدیث صحیح میں انسان کے اجزاء کی دوسرے انسان کے اجزاء کے ساتھ پیوند کاری پر اللہ تعالیٰ کی لعنت کی گئی ہے ۔خواہ کسی مرض کی ضرورت کی وجہ سے یہ پیوند کاری کی جائے اور فقہاء مذاہب نے اس کو حرام قرار دیا ہے اور انسان کے بالوں کے ساتھ دوسرے انسان کے بالوں کی پیوند کاری ممنوع ہے تو پھر انسان کے اعضاء کے ساتھ دوسرے انسان کے اعضاء کی پیوند کاری بطریق اولیٰ ممنوع اور حرام ہو گی ۔

ہاں البتہ سونے کی دھات سے یہ پیوند کاری ہو سکتی ہے ۔جیسے روا یا ت میں ملتا ہے کہ:

عن عبد الرحمن بن طرفة: ان جده عرفجة بن اسعد قطع انفه یوم الکلاب فاتخذه انفا من ورق فانتن علیه، فامره النبی صلی اللّٰه علیه وسلم فاتخذ انفا من ذهب (۷)

حضرت عبد الرحمن بن طرفہؓ بیان کرتے ہیں کہ ان کے دادا عرفجہ بن اسعدؓ کی جنگ کلاب میں ناک کاٹ دی گئی تھی۔ انھوں نے چاندی کی ناک لگوائی لیکن وہ سڑ گئی اور اس سے بدبو آنے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا کہ وہ اس کی جگہ سونے کی ناک لگا لے "۔

علامہ سعیدی انسانی اعضاء کی پیوند کاری کی شرعی حیثیت کے عدم جواز پر اپنی نقطہ نظر کو اپنی تصنیف شرح صحیح مسلم میں وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ انسانی اعضاء کی پیوند کاری سونے چاندی کی دھات اور پاک جانوروں کے اعضاء اور ہڈیوں سے پیوند کاری کرنا جائز ہے البتہ کسی زندہ یا مردہ انسان کے اجزاء کو دوسرے انسان کے جسم میں لگانا جائز نہیں۔

ہر چند کہ اعضاء کی ضرورت محتاج اور مضطر ہے لیکن اعضاء دینے والے کو کون سا اضطرار لاحق ہے جس کی وجہ سے وہ یہ حرام کام کر رہا ہے اور اپنے اعضاء کو جسم سے نکلوا کر یا بعد از مرگ نکلوانے کی وصیت کر کے اللہ اور اس کے رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی نافرمانی کر رہا ہے جب کہ ائمہ اربعہ نے تصریح کی ہے کہ کسی انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ بھوک سے مرنے والے انسان کو یہ کہے کہ تم میرا ہاتھ کاٹ کرکھا لو اور اپنی زندگی بچا لو اور یہاں انہوں نے اس بات کی مخالف سوچ رکھنے والوں کا بھی مؤثر انداز میں جواب دیتے ہوئے رقم کرتے ہیں کہ:

مصری علماء نے یہ بیا ن کیا ہے کہ شوافع اورزیدیہ کا ایک قول یہ ہے کہ :

جب کوئی انسان بھوک کی وجہ سے مضطر ہو اور اسے کوئی چیز کھانے کو نہ ملے تو اس کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنا کوئی عضو کاٹ کر کھا لے ۔اورمصری علماء نے اس بات پر قیاس کیا ہے کہ جب انسان اضطرار کے عالم میں اپنا عضو کھا سکتا ہے تو پھر کسی دوسرے مضطر انسان کو اپنا عضو کھلا سکتاہے۔ بنابریں علاج کی ضرورت سے اپنے اعضاء بھی دوسرے انسان کو دے سکتا ہے ۔ ان دونوں باتوں کا جواب یہ ہے کہ :مصری علماء نے اس پر غور نہیں کیا کہ اول تو یہ صرف بعض شوافع اور زیدیہ کا قول ہے ،جمہور فقہاء اہل سنت کا قول نہیں ہے اور اس اہم مسئلہ کے لئے شوافع اور زیدیہ کے قول پر بھی قیاس درست نہیں ہے کہ ایک انسان کسی بھوکے مضطر کو اپنا عضو کاٹ کر کھلا دے، کیونکہ شوافع اور زیدیہ بھوک میں مبتلا شحص کو اپنا عضو کاٹ کر کھانے کی اجازت دے رہے ہیں ۔ اس لیے ان ہی کے قو ل کی بنیاد پر وہ بھوکا شخص اپنا عضو کاٹ کر کھائے، کسی اور کا عضو کاٹ کر کھانے کی نہ انھوں نے اجازت دی ہے اور نہ اس کی ضرورت ہے اور دوسری اصولی بات یہ ہے کہ جو شخص مضطر ہے اس کی حالت اضطرار میں ارتکاب جرم کی اجازت دی جاتی ہے اس لیے جو بھوک سے مر رہا ہے وہ تو مضطر ہے کہ وہ اپنا عضو کاٹ کر کھائے تو پھر کسی دوسرے انسان کو کون سا اضطرار لا حق ہے جس کی وجہ سے اس کو حرام کام کی اجازت دی جائے کہ وہ اپنا ہاتھ کاٹ کر دوسرے کو کھلا دے ۔

انسانی اعضاء کو فروخت کرنا اس عزت اور تکریم کے خلاف ہے، حقیقت یہ ہے کہ بغیر کسی اضطرار اور شرعی مطالبہ کے اپنے اعضاء کو کٹوا دینا اس سے بھی زیادہ تکریم کے منافی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ اعضاء ہم کو اپنے استعمال کے لیے دیے ہیں ، یہ اعضاء ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں ، ان اعضاء کو کاٹ کر کسی اور کو دینا اس امانت میں خیانت ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر ان اعضاء میں تصرف ہے ۔

آگے علامہ سعیدی مزید بیان کرتے ہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے ایک رکن علامہ مفتی محمد حسین نعیمی جو اعضاء کی پیوند کاری کے جواز کے قائل ہیں ، ان سے جب میں نے یہ کہا کہ اعضاء دینے والے کوکون سا اضطرار لاحق ہے جس کی وجہ سے وہ خلاف شرع اپنے اعضاء کٹوا رہا ہے تو انہوں نے جواب میں کہا کہ ایک شخص کو معلوم ہے کہ فلاں شخص کو ایک گردے کی ضرورت ہے اور میرے گردہ دینے سے اس کی جان بچ جائے گی تواس پر واجب ہے کہ وہ اپنا گردہ کٹوا کر اس کو دیدے اور چونکہ علاج کی یہی ضرورت ہے اس لیے وہ مضطر ہے۔ تو علامہ سعیدی کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ اس شخص پر کیا موقوف ہے کہ کراچی شہر کے اسی لاکھ (80لاکھ )انسانوں میں سے اکثر و بیشتر انسانوں کا گردہ اس کے کام آ سکتا ہے تو کیا ان سب لوگوں پر اس کو گردہ دینا واجب ہو گا اور اگر کسی نے گردہ نہ دیا تو کیا پورا شہر گنہگار ہو گا بلکہ اس کی موت کاذمہ دار ہو گا ۔ پھر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کب ہم پر واجب کیا ہے کہ ہم اعضاء کے ضرورت مند لوگوں کو اپنے اعضاء کاٹ کر دیا کریں۔نیز انہوں نے پھر یہ دلیل دی کہ اگر سمندر میں کوئی شخص ڈوب رہا ہو اور کنارے پر کھڑے لوگ اس کو نہ بچائیں تو وہ گنہگار ہوں گے ؟

تو علامہ سعیدی نے اس کا جواب یہ دیا کہ ان پر اس ڈوبتے ہوئے شخص کو بچانا اس وقت فرض ہے جب بچانے کے سلسلہ میں ان کو خود کسی جانی نقصان کا خطرہ نہ ہو ۔ اور اگر سمندر میں شارک مچھلیاں ہوں اور اس کا خطرہ ہو کہ وہ اس کا ہاتھ پیر کاٹ لیں گی یا اس کو خود اپنے ڈوبنے کا خطرہ ہو تو پھر اس کو بچانا فرض عین نہیں بلکہ خود اپنی جا ن کی حفاظت کی خاطر اس پر فرض ہے کہ وہ سمندر میں نہ اترے ، بہر حال علامہ سعیدی یہاں بھی آخر میں بیان کرتے ہیں کہ زندہ یا مردہ کے اعضاء کاٹنے سے پیوند کاری کرنا قطعاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی صریح مخالفت ہے اور ایسا عمل تکریم آدمیت کے خلاف ہے (۸)

انسانی اعضاء کی پیوند کاری کے بارے میں عدم جوا ز کی وجو ہ :

اکثرفقہاء حضرات نے انسانی اجزاء سے انتفاع (فائدہ )کو اسی لئے منع فرمایا ہے کہ انسان صرف خرید و فروخت کی چیز بن کر نہ رہ جائے کیونکہ یہ اس کی شان تکریم کے خلاف ہے اسی سلسلہ میں فقہاء اور علماء کرام کی آراء عدم جوا ز کی وجو ہ کی ضمن میں ہے: علامہ زین الدین ابن نجیم الحنفی فرماتے ہیں کہ:

وشعر الانسان والانتفاع به ای لم یجز بیعه والانتفاع به لان کان الا دمی غیر مبتذل فلا یجوزان یکون شئی عن اجزاءه مهانا مبتذلا (۹)

"انسان کے بال  سے نہ انتفاع جائز ہے اور نہ اس کی بیع جائز ہے اس لئے کہ آدمی مکرم ہے اس کے مقابل کوئی چیز نہیں پس نہیں جائز ہے کہ اس کے اجزاء میں سے کسی جزو کو ذلیل کیا جائے یا استعمال کیا جائے ۔

امام ابی بکر محمد بن احمد بن ابی سھل المبسوط میں بیان کرتے ہیں کہ:

الا تری ان شعر الادمی لا یتنفع به اکراما للادمی (۱۰)

"کیا تو نے نہیں دیکھا  انسانیت کی وجہ سے انسانوں کے بالوں سے بھی فائدہ نہیں لیا جا سکتا"۔

امام علاؤ الدین بن ابی بکر بن مسعود الکاسانی ؒ رقم کرتے ہیں:

واماالنوع الذی لا یباح ولا یرخص بالاکراه اصلاً فهو قتل المسلم بغیر حق سواء کان الاکراه

ناقصا أو تاما وکذا قطع عضو من اعضاه ولواذن له المکره علیه فقال للمکره افعل لا یباح له ان یفعل (۱۱)

"اور وہ قسم جو کہ ناجائز ہوتی ہے اور نہ اس میں رخصت دی جاتی ہے بالکل  مجبور کرنے سے تو وہ ناحق مسلمان کا قتل کرنا ہے۔ برابر ہے کہ اکراہ ناقص ہو یا تام (کم یا پورا )اور اسی طرح مسلمان کے اعضاء میں سے کسی عضو کا کاٹنا اگرچہ مکرہ علیہ اس کو اجازت دے اور مکرہ کوکہے کہ تو یہ کام کر پھر بھی اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ کرے "۔

مولانا مجاہد الاسلام قاسمی فرماتے ہیں :

اضطراری حالت میں خون دینا تو جائز ہے کیونکہ خون عضو نہیں ہے اور پھر دوبارہ بھی نیا خون پیدا ہو جاتا ہے لیکن نکالے ہوئے عضو کی جگہ دوسرا عضو پیدا نہیں ہوتا مثلاً آنکھ، گردہ وغیرہ اگر نکالے جائیں تو یہ دوبارہ پیدا نہیں ہو سکتے اس لئے انسانی اعضاء کی پیوند کاری ناجائز ہے ۔(۱۲)

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رقم طراز ہیں کہ:

"آنکھوں کے عطیہ کا معاملہ صرف آنکھوں تک ہی محدود نہیں ہے ،بہت سے دوسرے اعضاء بھی مریضوں کے کام آ سکتے ہیں اور ان کے دوسرے مفید اعضاء استعمال بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ دروازہ اگر اس طرح کھول دیا گیا تو مسلمان قبرمیں دفن ہونا مشکل ہو جائے گا اور اس کا سارا جسم چندہ ہی میں تقسیم ہو کر رہ جائے گا" ۔(۱۳)

مولانا محمد برھان الدین سنبھلی فرماتے ہیں:

انسان جب اپنے اجزاء و اعضاء کا مالک نہیں ہے تو پھر کسی دوسرے شخص کو کسی بھی صور ت اجازت نہیں دے سکتا ، اگر وہ اجازت دے بھی دیتا ہے تو وہ شرعاً ناقابل اعتبار بلکہ باعث رد ہوگی۔ (۱۴)

مولانا محمد یوسف لدھیانوی اس مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :

اسلامی شریعت انسان اور انسانیت کی ظاہری اور معنوی صلاح و فلاح کی ضامن ہے اس کے لئے کسی حرام اور خطرناک کی طرف دیکھنا اور صرف ظاہر فائد ہ کے بناء پر اس کی اجازت دے دینا ممکن نہیں، اسلام نے نہ صرف زندہ انسان کے درست اعضاء کا نہیں بلکہ کٹا ہو ا یا بے کار اعضاء و اجزاء کا استعمال بھی حرام قرار دیا ہے اور اسی طرح مردہ انسان کے بھی کسی عضو کو کاٹنا ناجائز کہا ہے اور اس معاملہ میں کسی کی رضامند ی اور اجازت سے بھی اس کے اعضاء و اجزاء کے استعمال کی جازت نہیں دی اور اس حکم میں مسلمان و کافر سب برابر ہیں کیونکہ یہ انسانیت کا حق ہے جو سب میں برابر ہے ۔ انسان کے احترام کو شریعت اسلام نے وہ مقام عطا کیا ہے کہ کسی حال میں بھی کسی کو انسان کے اعضاء و اجزاء حاصل کرنے کی لالچ وغیرہ نہ ہو ، اس طرح یہ مخدوم کائنات اور اس کے اعضاء استعمال کے کاموں سے بالاتر ہیں جن کو کاٹ چھانٹ کر یا کوٹ پیس کر غذاؤں ، دواؤں اور دوسرے مفادات کے لئے استعمال کیا جائے اور اس مسئلہ پر ائمہ اربعہ ، فقہائے کرام اور پوری امت متفق ہے، اور نہ صرف شریعت اسلام بلکہ تمام مذاہب کا یہی قانون ہے ۔ (۱۵)

خلا صہ البحث

انسا ن اشر ف المخلو قا ت ہے اور زمین پر خلیفۃ اللہ ہے تما م کا ئنا ت اور اس کی اشیا ء اس کے لیے مسخر کر د ی گئی ہیں اور تمام اشیا ء اُ س کی مخدو م ہیں ۔ انسا ن کو ان سے متنفع ہو نے کی اجازت دی گئی ہے ۔ اگر انسا ن کے جسم کے اصلا ح کے لئے نبا تا ت و جما دا ت کو استعمال کر نا ہو تو اُس کی اجا زت ہے ۔ تمام ذی رو ح اشیا ء کے لئے نہا یت احتیا ط کو پیش نظر رکھنا ہے اگر اضطرا ر پیدا ہو جا ئے تو اُ س کیلئے حرا م سے استفا دہ کر نے کی

  شر یعت میں گنجا ئش ہے تاہم احترام آدمیت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انسان کے اعضاء کو بکاؤ مال اور استعمال کی چیز بنانا ناجائز اور خلاف شرع ہے اور اگر معاشرہ میں اس پر عمل ہونے لگے توپھر زندہ انسان کے علاوہ مردہ جسم کو چیر پھاڑ کر اس سے اعضاء نکالے جا نے لگیں گے جو سراسر انسانی جسم کی توہین ہوگی ۔ اس مسئلہ پر زمانہ قدیم اور جد ید میں علماء کرام کے درمیان بحث و مباحثے ہوتے رہے اور دوران بحث و مباحثہ بعض علماء کرام کے نزدیک انسانی جسم کی پیوند کاری کو بحالت مجبوری جائز قرار دیا ۔ مسئلہ مذکورہ کے ضمن میں  مفسرین اور علماء کا نقطہ نظر کے بعد اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ انسانی اعضاء کی پیوند کاری جدید آلات کے ذریعے صرف اس صورت میں کی جاے کہ مریض کی حالت انتہائی خطرناک ہو، زندہ بچنے کی کوئی صورت باقی نہ ہو تو پہلے پہل کسی ماکول اللحم جانور کے عضو کو استعمال کیا جائے اور اس کے بعد انتہائی اضطراری صورت میں جب کوئی چیز میسر نہ ہو تو پھر کسی انسانی عضو کو نکالا جائے بشرط یہ کہ اس کی رضامندی شامل ہو اور اس کی اپنی صحت پربھی کوئی اثر نہ پڑتا ہو تو مجبوراً ایسی حالت میں انسانی اعضاء کی پیوند کاری کو درست کہا جا سکتا ہے۔

 

حوالہ جات

۱۔ محمد شفیع  ، مولانا،(ت: ۱۹۷۶)،تفسیر معارف القرآن، ج ۸: ص ۵ ۷۷: ادارۃ المعارف کراچی، ۲۰۰۲ء۔

۲۔ ایضاً: ج ۵: ص ۵۰۶۔

۳۔ محمد شفیع  ، مولانا،انسانی اعضاء کی پیوند کاری ، ص ۱۳، داراالاشاعت ، کراچی، ۱۳۸۷ ھ۔

۴۔ سعیدی ، غلام رسول ،علامہ ،تفسیر تبیان القرآن، ج ۹، ص ۱۵۹، فرید بک سٹال ، لاہور، ۲۰۰۴ء۔

۵۔ القشیری، مسلم بن حجاج، (ت: ۲۶۱ھ) صحیح مسلم ( کتاب اللباس ، با ب التحریم فصل الوصالۃ والمستو صلۃ )قم الحدیث ۵۵۶۸۔ دارالصادر،بیروت

۶۔نووی ، یحییٰ بن شرف، ابو ذکریا محی الدین،(ت: ۶۷۶ھ)،صحیح مسلم شرح النواوی،ج ۹، ص ۵۷۸،

مکتبہ نزار، مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ، ۱۴۱۷ھ

۷۔ ابو داؤد سجستانی  ، سلیمان اشعث ، (ت: ۲۷۵ھ) سنن ابی داؤد (کتاب الخا تم، با ب ماجاء فی ربط الاسنان ، بالذھب

رقم الحدیث ۴۲۳۲۔دالاشااعت ،بیروت

۸۔ سعیدی ، غلام رسول ،شرح صحیح مسلم، ج دوم ،ص ۸۶۳،فریدبک سٹال، لاہور، ۱۹۸۸ء۔

۹۔ ابن نجیم، زین الدین بن ابراہیم بن محمد، (ت : ۹۷۰ھ) البحر الرائق ، ج ۶/۵: ص ۸۱، سعید ایچ ایم کمپنی ، کراچی، ۱۹۱۰ء۔

۱۰۔ سرخسی ، محمدبن احمد، ابو سہل، (ت : ۴۸۳ھ)المبسوط، ج۱۵/۱۶، ص ۱۲۵ ، ادارۃ القرآن کراچی، ۱۹۸۷ء۔

۱۱۔ کاسانی ، ابو بکر بن مسعود، علاؤ الدین ، (ت: ۵۸۷ھ) البدائع الصنائع ،ج ۷،ص ۱۷۷، سعید ایچ ایم کمپنی ، کراچی، ۱۹۱۰ء۔

۱۲۔ قاسمی ، مجاہد االاسلام، مولانا، جدید فقہی مباحث ، ج ۱ ، ص ۱۹۵،ادارۃ القرآن و العلوم الاسلامیہ، کراچی ،۱۴۰۹ھ۔

۱۳۔ مودودی، سید ابو الاعلیٰ، (ت : ۱۹۷۹ء)، رسائل و مسائل ، ج ۳، ص ۴ ۲۹، اسلامک پبلشرز لمٹیڈ، لاہور، ۱۹۶۵ء۔

۱۴۔ سنبھلی، محمد برھان الدین، مولانا،جدید مسائل کا شرعی حل، ص ۲۵۲، ادارہ اسلامیات ، لاہور۲۰۰۰ء۔

۱۵۔ لدھیانوی ،محمدیوسف، مولانا(ت : ۲۰۰۰ء)آپ کے مسائل اور ان کا حل، ج۹، ص ۱۷۷، مکتبہ لدھیانوی ، کراچی ، ۱۹۹۹ء۔

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...