Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 5 Issue 1 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

تفسیر روح المعانی کی روشنی میں حضرت عیسی (علیہ السلام) کی رفع سماوی کا تحقیقی جائزہ |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

5

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060029336_664

Pages

28-42

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/135/126

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/135

Subjects

Christian Gospel Apostle Quran Rooh-ul-Mani

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبروں میں سے ہیں جوبنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے پیغمبروں میں آخری پیغمبر ہیں۔ آپ (علیہ السلام) کی تمام زندگی ،ولادت سے لے کر رفع سماوی تک گوناگو معجزات سے بھری پڑی ہے ۔آپ (علیہ السلام) کی ولادت بھی معجزہ ہے اور بچپن بھی اور رفع سماوی بھی ۔ آپ (علیہ السلام) کی تمام زندگی کےلیے ایک بڑی کتا ب کی ضرورت ہے ۔ایک مقالہ میں زیرِ بحث نہیں لائی جاسکتی اس لیے یہاں صرف ایک ہی موضوع رفع سماوی پرتفسیر روح المعانی کی روشنی میں بحث کی جائی گی اور یہاں پر چند بنیادی سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی جائی گی ، مثلاً،حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی رفع سماوی سے کیا مراد ہے ؟

یہ رفع سماوی عیسی ٰ (علیہ السلام)موت سے پہلے واقع ہوئی یا بعد میں ؟اس بارے میں اسلام اور مسیحیت کے مواقف کی وضاحت کی جائی گی اور اس بارے میں اشتباہ کیوں پیش آئی؟

رفع سماوی پربحث کرنے سے پہلے یہ زیادہ مناسب ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کس قسم کے حالات میں دُنیا میں تشریف لائیں اور ساتھ اُن کا مختصر تعارف بھی پیش کیا جائے۔ اِ ن حالات کے بارے میں محمدتقی عثمانی([1]) نے اس طرح لکھا ہے : “مکابیوں کی اس چھوٹی سے سلطنت سے قطع نظر ،اس زمانے میں پوری یہودی قوم منتشر ہوچکی تھی ،بحیرہ روم کے آس پاس اُن کی مختلف آبادیاں قائم تھیں ،بابل کی جلاوطنی کے اختتام پر یہودیوں کی خاصی بڑی تعداد فلسطین میں آبسی تھی ،لیکن اُن کی اکثریت بابل میں آبادتھی ،فلسطین کے ایک حصہ پر رومیوں کی حکومت تھی ،مگریہ سلطنتِ روما کے تابع اورماتحت تھے،یروشلم رومی حکومت کا ایک صوبہ تھا ،مادی اسباب کے لحاظ سے یہودیوں کےلیے پھر آزاد فضا میں سانس لینے کا کوئی امکان نہ تھا ،اس لیے قدرۃً ان کی نگاہیں مستقبل پر لگی ہوئی تھیں ،ان میں سے بیشتر افراد خدا کی طرف سے ایک نجات دہندہ کے منتظر تھے ،جو انہیں غلامی کی زندگی سے چھڑاکرپھر بادشاہت نصب کرے۔

یہ حالات تھے جب شہنشا ہ روم اگستس کی بادشاہت اور یہودیہ ہیرودیس کی حکومت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پیداہوئے ، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی کا کوئی مستند ریکارڈ اب ہمارے پاس موجود نہیں ،صرف اناجیل ِ ہی وہ چار کتابیں ہیں جنہیں آپ ؑ کی حیاتِ طیبہ معلوم کرنے کا واحد ذریعہ کہاجاسکتا ہے ،لیکن ہمارے نزدیک اُن کی حیثیت کسی قابلِ اعتماد نوشتے کی نہیں ہے[2]۔

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا تعارُف مولانا عبدالحق حقانی([3]) نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :

"عیسٰی (علیہ السلام)اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبروں میں سے ہیں ۔بے باپ کے اللہ تعا لیٰ نے اپنی قدرت ِ کاملہ سے ا ُن کو پید اکیا ہے وہ شب وروز دین ِ حق کے پھیلانے میں مصروف تھے اس وقت کے یہود یوں کو اُن پر حسد آیا ایک مکان میں ان کو قتل کےلیے گھیر کرلے گئے ،خدا کی قدرت سے چھت پھٹ گئی ، عیسیٰ (علیہ السلام)کو ملائکہ آسمان پر لے گئے اور اُن میں سے ایک شخص جو اندر آیا تھا وہی عیسیٰ (علیہ السلام)کی شکل میں ہوگیا ، اس کو یہودیوں نے قتل کیا ۔پس جب سے عیسیٰ (علیہ السلام)آسمان پر ہیں دجّا ل کے قتل کو دُنیا میں آئے گا"([4]) ۔

رفع سماوی کا مفہوم

اس بات پر مسیحی اور مسلمانوں کی اکثریت متفق ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام)کو آسمانوں پر اُٹھا گیا ہے ۔ ارشادِ خداندی ہے:وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ([5])

ترجمہ :“حالانکہ نہ اُنہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کوقتل کیاتھا ،نہ اُنہیں سولی دے پائے تھے ،بلکہ اُنہیں اشتباہ ہوگیاتھا ۔اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں ختلاف کیا ہے ،وہ اس سلسلے میں شک کا شکار ہیں ،انہیں گُمان کے پیچھے چلنے کے سوا اس بات کا کوئی علم حاصل نہیں ہے اور یہ بالکل یقینی بات ہے کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل نہیں کرپائے ،بلکہ اللہ تعا لیٰ نے اُنہیں اپنے پا س اُ ٹھالیا تھااور اللہ تعا لیٰ بڑا صاحب ِاقتدار اور بڑا حکمت والا ہے”

اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام)صحیح وسلامت آسمان کی طرف اُٹھائے گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے یہود کو آپ (علیہ السلام)کو قتل کرنے کی توفیق نہیں دی ہے۔ سید طنطاوی لکھتے ہیں :

والذى يجب اعتقاده بنص القرآن الكريم أن عيسى - عليه السلام لم يقتل ولم يصلب ، وإنما رفعه الله إليه ، ونجاه من مكر أعدائه ، أما الذى قتل وصلب فهو شخص سواه([6]) .

ترجمہ :اورقرآن کے نص کے مطابق جس بات کا اعتقاد لازم ہوجاتا ہے وہ یہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام)کو نہ قتل کیاگیا اور نہ سولی پر چڑھایا گیا ،بلکہ اللہ تعا لیٰ نے اُنہیں اپنے پا س اُ ٹھالیا اور اُنہیں ان کے دشمنوں کے چالوں سے نجات دیدی اور جہا ں تک اُس آدمی کا تعلق ہے جسے پھانسی دیدی گئی ،وہ اُس کے سوا ایک دوسرا شخص تھا ” ۔ اسی طرح ابوحیان الاندلسی لکھتے ہیں :

{ بل رفعه الله إليه } هذا إبطال لما ادعوه من قتله وصلبه ، وهو حي في السماء الثانية على ما صح عن الرسول صلى الله عليه وسلم في حديث المعراج. وهو هنالك مقيم حتى ينزله الله إلى الأرض لقتل الدجال ، وليملأها عدلاً كما ملئت جوراً ، ويحيا فيها أربعين سنة ثم يموت كما تموت البشر.وقال قتادة : رفع الله عيسى إليه فكساه الريش وألبسه النور ، وقطع عنه المطعم والمشرب ، فصار مع الملائكة ، فهو معهم حول العرش ، فصار إنسيًّا ملكياً سماوياً أرضياً. والضمير في إليه عائد إلى الله تعالى على حذف التقدير إلى سمائه ، وقد جاء { ورافعك إليّ } وقيل : إلى حيث لا حكم فيه إلا له” ([7])

ترجمہ :اُنہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل اور سولی پر چڑھانے کا جو دعویٰ کیا تھا یہ اُس کا ابطال ہے ۔ اور وہ یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) دوسرے آسمان میں ہیں اور زندہ ہیں جیسا کہ رسول ﷺ سے حدیثِ معراج میں ثابت ہے ۔ اور وہ وہاں مقیم ہیں اُس وقت تک کہ اللہ تعا لیٰ اُسے دجّا ل کے لیے نیچے اُتا ردے اور اس لیے کہ وہ زمین کو عدل سے بھر دے جیسا کہ وہ ظلم سے بھری ہوئی ہوگی اور یہا ں چالیس سا ل تک زندہ رہیں گے اور پھر عام انسانوں کی طرح فوت ہوجائیں گے۔ اور قتادہ ؒ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام)کو اپنی طرف اُٹھالیا اور اُسے پَر پہنایا اورنورکا لباس پہنایا اور اُس سے کھانا کھانے اور پینے کی صفات ختم کردی ۔پس و ہ ملائک کی طرح بن گئےپس وہ عرش کے گرد اُن کے ساتھ ہیں ۔پس وہ ملکوتی صفا ت والا آسمانی اور زمینی دو نوں صفات والا مخلوق ہے۔اور إليه میں جو ضمیر ہے وہ اللہ تعا لیٰ کی طرف عائد ہے اور جملہ میں تقدیر محذوف ہے اور جملہ اس طرح ہے إلى سمائه۔ اور دوسری جگہ اس طرح بھی ہے: ورافعك إليّ ۔ اور کہا گیا ہے کہ ایسی جگہ کو اُٹھا گیا کہ اُس میں اللہ تعا لیٰ کے علاوہ کسی کاحکم نہیں چلتا”۔ اور ابوحیان الاندلسی آگے لکھتے ہیں کہ:

وقال أبو عبد الله الرازي : أعلم الله تعالى عقيب ذكره أنه وصل إلى عيسى أنواع من البلايا ، أنه رفعه إليه فدل أنّ رفعه إليه أعظم في إيصال الثواب من الجنة ومن كل ما فيها من اللذات الجسمانية ، وهذه الآية تفتح عليك باب معرفة السعادات الروحانية انتهى.وفيه نحو من كلام المتفلسفة۔{ وكان الله عزيزاً حكيماً } قال أبو عبد الله الرازي : المراد من المعزة كمال القدرة ، ومن الحكمة كمال العلم ، فنبه بهذا على أنّ رفع عيسى عليه السلام من الدنيا إلى السموات وإن كان كالمتعذر على البشر ، لكنْ لا تعذر فيه بالنسبة إلى قدرتي وحكمتي انتهى.وقال غيره : عزيزاً أي قوياً بالنقمة من اليهود ، فسلط عليهم بطرس الرومي فقتل منهم مقتلة عظيمة.حكيماً حكم عليهم باللعنة والغضب.وقيل : عزيزاً أي : لا يغالب ، لأن اليهود حاولت بعيسى عليه السلام أمراً وأراد الله خلافه.حكيماً أي : واضع الأشياء مواضعها.فمن حكمته تخليصه من اليهود ، ورفعه إلى السماء لما يريد وتقتضيه حكمته تعالى.وقال وهب بن منبه : أوحى الله تعالى إلى عيسى على رأس ثلاثين سنة ، ثم رفعه وهو ا بن ثلاث وثلاثين سنة ، فكانت نبوته ثلاث سنين.وقيل : بعث الله جبريل عليه السلام فأدخله خوخة فيها روزنة في سقفها ، فرفعه الله تعالى إلى السماء من تلك الروزنة”([8]).

ترجمہ :اور عبداللہ الرازی نے کہ :اللہ تعالیٰ نے خبر دارکیا کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام)کو مختلف آزمائشوں میں مبتلا کرنے کے بعد آپؑ کو اپنی طرف اُٹھالیا (اللہ تعالیٰ کا یہ قول اس پر) دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اُسے اوپر اُٹھایا جانا، جنّت اوراس میں جو جسمانی لذّات ہیں اُن تمام سے ثواب کےلحاظ سے بہتر ہے اور یہ آیت تجھ پر روحانی سعادتوں کی معرفت کے دروازے کھول دیتی ہے ۔ اور اس میں فلسفیوں کےکلا م ہے ۔ وكان الله عزيزاً حكيماً ابو عبداللہ الرازی نے کہا کہ المعزۃ سے مراد کا مل قدرت ہے اور حکمت سے مراد کمالِ علم ہے اور اس آیت میں اللہ تعا لیٰ نےخبردار کیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام)کادُنیا سے آسمانوں کو اُٹھا نا انسانوں کےلیے گویا ناممکن ہے لیکن میری قدرت اور حکمت کے لحاظ سے ناممکن نہیں ہے۔ اور اُس کے علاوہ دوسروں نے کہا کہ عزيزاً یعنی یہود سے انتقام لینے یا اُن کوسزا دینی کی طاقت رکھتا ہے۔(اور اُن کو سزا دینے کی خاطر )اُن پر بطرس رومی کو مسلّط کیا ،تو اُس نے ان میں سے بہت بڑی تعداد کو قتل کردیا ۔ حكيماًیعنی اُن پر لعنت اور غضب کا حُکم کیا ۔اور یہ بھی کہا جاتاہے کہ عزيزاً یعنی اُس کومغلوب نہیں کیا جاسکتا ،کیونکہ یہود نے عیسیٰ (علیہ السلام)پر ایک فیصلہ کیا اوراللہ تعالیٰ نے اُس کے خلاف کا فیصلہ کیا(اور اُس کا فیصلہ نافذہوا یعنی یہود اُس کو مغلوب نہ کرسکا)۔ حكيماً یعنی اشیاء کو اُن کے محل میں رکھنے والاہے اور اُ س کی حکمت میں سے یہ ہے کہ اُس نے عیسیٰ (علیہ السلام)کو یہود دسے چُھڑالیا اورآپ (علیہ السلام)کو آسمان پر جیسا کہ اُس کی حکمت کاتقاضا تھا ، اُٹھالیا ۔اور وھب بن منبہ نےکہا :کہ اللہ تعالیٰ نےتیس سال کی عمر میں عیسیٰ (علیہ السلام)کو وحی نازل کی اور جب آپ(علیہ السلام) کی عمر تینتیس سا ل ہوئی ،تو اُن کو اوپر اُٹھالیا ۔پس آپ(علیہ السلام) کی نبوّت کا دورانیہ تین سال کا تھا۔ اور کہا گیا کہ جبریل (علیہ السلام)نے اُسے ایک ایسے کمرے میں داخل کردیا جس کےچھت میں روشن دان تھا ۔اللہ تعالیٰ نےاُس روشندان سے اُس کو آسمان پر اُٹھالیا” اور مولانا محمد ادریس کاندھلوی اس بارے میں لکھتے ہیں:“اور یہودیوں نے بالیقین حضرت عیسیٰ (علیہ السلام)کو قتل نہیں بلکہ یقینی بات یہ ہے کہ جس زندہ شخصیت کو وہ قتل کر کے اس کی حیات کوختم کرنا چاہتےتھے اللہ تعالیٰ نے اس کوزندہ اور صحیح سلامت اپنی طرف اُٹھالیا تاکہ قتل اورصلب کاامکان ہی ختم ہوجائے اس لیے کہ قتل وصلب تو جب ہی ممکن ہے کہ وہ جسم اُن کے اندر موجود رہے اور جب اللہ تعالیٰ نے اس جسم ہی کو اپنی طرف اُٹھالیا تو قتل اور صلب کاامکان ہی ختم ہوا” ([9]) اس آیت کی تشریح میں علامہ روح المعانی لکھتے ہیں :

{ بل رفعه الله إليه } أي بل رفعه سبحانه إليه يقينا ، ورده في «البحر» بأنه قد نص الخليل على أنه لا يعمل ما بعد بل فيما قبلها ، والكلام رد وإنكار لقتله وإثبات لرفعه عليه الصلاة والسلام”[10]

یعنی اللہ تعالیٰ نے یقیناً اپنی طرف اُٹھالیا ہے ورده في «البحر» بأنه قد نص الخليل على أنه لا يعمل ما بعد بل فيما قبلها اور کلام آپؑ کے قتل کے رد اور انکار ہے اور آپؑ کے اوپر اُٹھا نے کو ثابت کرنے والا ہے ”۔

[تفسير الألوسي 4/ 304، بترقيم الشاملة آليا]

اس بارے میں مولانا نے امین احسن اصلاحی صاحب نے کچھ اس طرح لکھتےہیں: “اس میں یہودکےدعوائے قتل ِ مسیح کی فوری تردید کردی گئی ہے ۔اس فوری تردید سے دو پہلو سامنے آتے ہیں ۔ایک تو یہ کہ اللہ کے رسو ل اس کی حفاظت میں ہوتے ہیں ،ان کےخلاف اس کے دُشمنوں کی چالیں خدا کامیاب نہیں ہونے دیتا ۔اس وجہ سے یہود کایہ دعویٰ کہ اُنہوں نے اُن کو قتل کردیا ،یا سولی دی بالکل بے بنیاد ہے ۔وہ اپنی اس شرارت میں بالکل ناکام رہے۔البتہ ایک جھوٹے دعوے کا بار اپنے سر لے کر ہمیشہ کےلیے مبغوض و ملعون بن گئے۔دوسرایہ کہ نہ مسیح کے قتل کا واقعہ پیش آیانہ سولی کا لیکن پال( Paul)کےمتبع نصاریٰ نے اس فرضی افسانے کو لے کر ایک پوری دیومالا تصنیف کرڈالی ”([11])۔ اس بارے میں قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی کاتبصرہ کچھ اس طرح ہے: “صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ عیسیٰ ؑ آخر زمانہ میں آنحضور ﷺ کے ایک وفادار جنرل کی حیثیت میں آسمان سے نازل ہوکر دجّال اکبر اور اس کے یہودی اتباع کو قتل کرلینگے ،صلیب توڑدیں گے اور تمام دُنیا کے بسنے والے انسانوں کو شریعت ِ محمدیہ پر چلائیں گے ۔ اور وفات پاکر آنحضو ر ﷺ کےپہلوئے مبارک میں ہی دفن ہو ں گے”([12]

“غرض ان روایات اور احادیث ِصحیحہ کاصحابہ رضی اللہ عنہم وتابعینؒ ،تبع تابعینؒ یعنی خیرالقرون کے طبقات میں اس درجہ شیوع ہوچکاتھا اور وہ بغیر کسی انکار کے اس درجہ لائقِ قبول ہو چکے تھیں کہ ائمہء حدیث کے نزدیک حضرت مسیح ؑ کی حیات ونزول سے متعلق ان احادیث کو مفہوم ومعنی کے لحاظ سے درجہ تواتر حاصل تھا اور اسی لیے وہ بے جھجک اس مسئلہ کو احادیث ِمتواترہ سے ثابت اور مسلّم کہتے تھے ”([13]) البتہ بعض مسلمان ماہرین اس رائے کے بھی قائل ہیں کہ اُسے آسمان پر نہیں بلکہ ایک بلند مقام پراُٹھا ئےگئے ہیں اور اس طرح یہود کو اُنہیں قتل یا پھانسی پر چڑھانے کی توفیق نہ ملی ،جیسا کہ ماوردی نے لکھا ہے :

فيه قولان :أحدهما : أنه رفعه إلى موضع لا يجري عليه حكم أحد من العباد ، فصار رفعه إلى حيث لا يجري عليه حكم العباد رفعاً إليه ، وهذا قول بعض البصريين . والثاني : أنه رفعه إلى السماء ، وهو قول الحسن ”([14]).

ترجمہ :اس بارے میں دوقول ہیں۔ ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (علیہ السلام)ؑ کو ایسے مقام پر اُٹھا یا ہے کہ وہاں کسی بھی بندہ کا حکم نہیں چلتا یعنی وہا ں کسی بھی بندہ کا فیصلہ نافذ نہیں ہو سکتا ، پس اُس کا اُٹھا نا ایسی جگہ کےلیے ہوا کہ جہاں کسی بندہ کا حکم نہیں چلتا ۔ اوریہ بعض بصریوں کا قول ہے ۔اور دوسرا قول یہ ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے آپؑ کو آسمان پر اُٹھایا ہے اور یہ حسن کا قول ہے” اس طر ح تفسیرالبحرالمحیط میں بھی ایک عبارت اس طرح نقل کی گئی ہے :“وقيل : إلى حيث لا حكم فيه إلا له”([15])“اور کہا گیا ہے کہ ایسی جگہ کو اُٹھا گیا کہ اُس میں اللہ تعا لیٰ کے علاوہ کسی کاحکم نہیں چلتا”۔انجیل ِ مرقُس نے اس بات کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے :“جب خداوند یسوع اُن سے کلام کرچکا تووہ آسمان پر لیا گیا اور خُد ا کے دہنی طرف بیٹھ گیا” ([16]) اور لوقا کی عبارت اس طرح ہے:“جب وہ اُنہیں برکت دے رہا تھا تو ایسا ہوا کہ اُن سے جدا ہوگیا اور آسمان پر اُٹھا یا گیا ”([17])

ان عبارتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ عیسیٰ ؑ کو آسمان پر اُٹھائےگئے ہیں ۔اب اس بارے میں مسیحیوں اور مسلمانوں کااختلاف ہے کہ یہ رفع آسمانی عیسیٰ (علیہ السلام)کی موت سے پہلے واقع ہوئی یا بعدمیں ۔

مسلمانوں کی اکثریت اس بات کے قائل ہیں کہ رفع سماوی موت سے پہلے واقع ہوئی اوراس طرح یہود کو یہ توفیق نہ ملی کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام)کو قتل کرے یا پھانسی پر چڑھا لے ، جیساکہ مندرجہ بالا حوالوں سے ظاہر ہے ۔ جبکہ عیسا ئیوں کی رائے یہ ہے کہ یہ رفع سماوی، قتل اور پھانسی کے بعد واقع ہوئی یعنی جب اُنہیں دُشمنوں نے پھانسی پرچڑھایا تو اس کے تیسر ے روز اُنہیں زندہ کر کے آسمان پر اُٹھا یاگیا ۔ اس بات کاثبوت اناجیل کی چند عبارات سے ہوتی ہے۔

“ ہفتہ کے پہلے روز جب وہ سویرے جی اُٹھا تو پہلے مریم مگد لینی کو ،جس میں سے اُس نے سات بد روحیں نکالی تھیں دکھائی دیا ۔ اُس نے جاکر اُس کے ساتھیوں کو جو ماتم کرتے اور روتے تھے خبردی اور ا ُنہوں نے یہ سُن کر کہ وہ جیتا ہے اوراُس نے اُسے دکھا ہے یقین نہ کیا ”([18])

مزید لکھاہے :“جب سبت کادن گزر گیا تومریم مگدلینی،یعقوب کی ماں اور سلومی خوشبودار چیزیں خرید کرلائیں تاکہ اُنہیں یسوع کی لاش پرملیں۔ اور ہفتہ کےپہلے دن صبح سویرے سورج کے نکلتے ہی وہ قبر پر آئیں ۔اور آپس میں کہنے لگیں کہ ہمارے لیے قبر کے منہ پر سے پتّھر کو کون لڑھکائے گا ؟ لیکن جب اُنہوں نےاُوپرنگاہ کی تو دیکھا کہ وہ بھاری پتھر پہلے سے لڑھکا پڑا ہے جب وہ قبر والی غا ر کے اندرگئیں تو اُنہوں نے ایک جوان آدمی کو سُفید چُغہ پہنے دائیں طرف بیٹھے دیکھا اور وہ خوف زدہ ہو کر رہ گئیں۔لیکن اُس نے اُن سے کہا : حیران مت ہو۔تُم یسوع ناصری کو جومصلوب ہواتھا ڈھونڈتی ہو۔وہ جی اُٹھا ہے ،یہا ں نہیں ہے ۔دیکھو یہ وہ جگہ ہے جہاں اُنہوں نے اُسے رکھاتھا”([19])اور لوقا نے حضرت عیسی ٰ (علیہ السلام) کے جان دینے کا وا قع اس طرح بیان کیا ہے:“تقریبا دوپہر کا وقت تھا کہ چاروں طرف اندھیرا چھاگیا اور تین بجے تک یہی حالت رہی۔سورج تا ریک ہوگیا اور ہیکل کاپردہ پھٹ کردو ٹکڑے ہوگیا اور یسوع نے اونچی آواز سے پکار کہا : اے باپ !میں اپنی روح تیرے ہاتھو ں سونپتا ہوں اور یہ کہہ کر دم توڑدیا”([20]) حضرت عیسی ٰ (علیہ السلام) کے مصلوب ہونے کے واقعہ کو یوحنا نے اس طر ح بیا ن کیا ہے کہ آپ ؑ کے ساتھ دواور آدمیوں کو پھانسی دی گئی ۔اس بار ے میں کی اُن کی عبارت اس طر ح ہے:“یسوع اپنی صلیب اُٹھا کر کھوپڑی کے مقام کی طرف روانہ ہوا ،جیسے عبرانی زبا ن میں گُلگُتا کہتے ہیں ،وہاں اُنہوں نے یسوع کو اور ساتھ دواور آدمیوں کو مصلوب کیا ”([21])

متیٰ نے حضرت عیسی ٰ (علیہ السلام) کے مصلوب کرنے کا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ پیلاطیس نے حضرت عیسی ٰ (علیہ السلام) کی لاش شاگرد کے مطالبہ پردیدیا لیکن ساتھ آپ ؑ کے قبر کے پہرہ داری کا بھی انتظام کیا تاکہ کہیں شاگر د لاش کوچُراکر نہ لے جائے ۔ملاحظہ ہو متیٰ کی عبارت: “جب شام ہوئی تو یوسف نام ارمتیاہ کا ایک دولتمند آدمی آیا جوخود بھی یسوع کا شاگرد تھا ۔اُس نے پیلاطیس کے پاس جاکر یسوع کی لاش مانگی اور پیلاطیس نے دیدینے کا حکم دیدیا ۔ اور یوسف نے لاش کو لے کر ایک صاف مہین چادرمیں لپیٹا ۔ اور اپنی نئی قبرمیں جو اُس نے چٹان میں کھدوائی تھی رکّھا ۔پھر ایک بڑاپتھر قبر کے منہ پرلُڑھکا کرچلاگیا ۔اور مریم مگدلینی اور دوسری مریم وہاں قبر کے سا منے بیٹھی تھیں ۔ دوسرے دن جو تیّاری کے بعدکادن تھا سردارکاہنوں اور فریسیوں نے پیلاطیس کے پاس جمع ہوکر کہا ۔خُداوند ہمیں یاد ہے کہ اُس دھوکےباز نے جیتے جی کہا تھا کہ میں تین دن کے بعد جی اُٹھوں گا ۔پس حکم دےکر تیسرے دن تک قبر کی نگہبانی کی جائے کہیں ایسا نہ ہوں کہ اُس کے شاگرد آکر اُسے چُرالے جائیں اور لوگوں سے کہہ دیں کہ وہ مردوں میں سے جی اُٹھا اوریہ پچھلا دھوکہ پہلے سے بھی بُرا ہو۔پیلاطیس نےاُن سے کہا تُمہارے پاس پہرے والے ہیں ۔جاؤ جہاں تک تُم سے ہوسکے اُس کی نگہبانی کرو۔ پس وہ پہرے والوں کو ساتھ لے گئے اور پتھر پر مہر کرکےقبر کی نگہبانی کی ۔ اور سبت کے بعد ہفتہ کے پہلے دن پَو پھٹتے وقت مریم مگدلینی اور دوسری مریم قبر کو دیکھنے آئیں ۔ اور دیکھو ایک بڑابھونچال آیا کیونکہ خداوندکا فرشتہ آسمان سے اُترا اور پاس آکر پتھر کولُڑھکا دیا اور اُس پر بیٹھ گیا ۔اُس کی صورت بجلی کی مانند تھی اور ا ُس کی پوشاک برف کی مانند سفیدتھی ۔ اور اُس کےڈر سے نگہبان کانپ اُٹھے اور مردہ سے ہوگئے ۔ فرشتہ نے عورتوں سے کہا تُم نہ ڈرو کیونکہ میں جانتاہوں کہ تم یسوع مسیح کو ڈھونڈتی ہو جومصلوب ہواتھا ۔وہ یہاں نہیں ہے ہے کیونکہ اپنے کہنے کے مطابق جی اُٹھا ہے ۔آؤ یہ جگہ دیکھو جہاں خداوند پڑاتھا ۔اور جلد جاکر اُس کے شاگردوں سے کہوکہ وہ مردوں میں سے جی اُٹھا ہے”[22]

ان کے علاوہ اناجیل سے یہ بھی پتا چلتا ہےکہ عیسی ٰؑ مرنے کےبعد تیسرے روز جی اُٹھا اور آسمان کی طرف گیا جبکہ مسلمانوں کا عقید ہ یہ ہے کہ عیسیٰ ؑ بالکل مصلوب اورمقتول نہیں ہو ا ۔ اب تفسیر روح المعانی کی طرف آتے ہیں ۔

عیسی ٰؑ کے قتل کے بارےمیں تفسیر روح المعانی کی روایت کردہ روایتیں

اس بارے میں علامہ آلوسی نے تین روایتیں نقل کردیے ہیں ہیں۔پہلی روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ یہود نے عیسیٰ ؑ اورآپ ؑ کی ماں کو گالیاں جس پر ناراض ہوکر عیسیٰ (علیہ السلام) نےاُن کو بد دُعادی جس کی نتیجے میں وہ لوگ خنزیر اوربندر بن گئے ،جس پر اُنہوں نے آپؑ کو قتل کرنا چاہا لیکن اللہ تعالیٰ آپؑ کو آسمانوں پر اُٹھالیا ۔ ملاحظہ ہو علامہ آلوسی کی عبارت :

{ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ } حال أو اعتراض { ولكن شُبّهَ لَهُمْ } روي عن ابن عباس رضي الله تعالى عنهما أن رهطاً من اليهود سبوه عليه السلام وأمه فدعا عليهم فمسخوا قردة وخنازير فبلغ ذلك يهوذا رأس اليهود فخاف فجمع اليهود فاتفقوا على قتله فساروا إليه ليقتلوه فأدخله جبريل عليه السلام بيتاً ورفعه منه إلى السماء ولم يشعروا بذلك فدخل عليه طيطانوس ليقتله فلم يجده وأبطأ عليهم وألقى الله تعالى عليه شبه عيسى عليه السلام فلما خرج قتلوه وصلبوه ” ([23])

ترجمہ :ابنِ عبّاس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام)اوراُس کی ماں کویہودکی ایک جماعت نے گالیاں دی،تواس پر آپؑ نے اُن کو بد دُعا دی،پس وہ مسخ ہوکر بندر اورخنزیر بن گئے۔اس بات کی خبریہود کےسردار یہوذا کو پہنچی،پس وہ ڈرگیااور یہود کوجمع کیااور عیسیٰ (علیہ السلام)کے قتل پرمتّفق ہوئے۔پس عیسیٰ کوقتل کرنے کے لیےاُس کے پاس گئے،پس جبریلؑ نے اُسے گھر میں داخل کردیا،اوروہاں سے اوپر آسمان کواُٹھالیااوراِن کواس کاپتا نہ چل سکا،پس طیطانوس اُس کوقتل کرنے کےلیے گھرمیں داخل ہوا،پس اُس کوگھرمیں نہ پایا۔اورساتھیوں کے پاس آنے میں دیرکردی۔ اوراللہ تعالیٰ نے اُس پرعیسیٰ کاشِبہ ڈال دیاپس جب وہ باہرنکلا ،تواُنہوں نے اُسے قتل کردیااور سولی پرچڑھایا” ۔

علامہ آلوسیؒ نے دوسری روایت جو نقل کی ہے ،وہ اس طرح ہے کہ عیسیٰ ؑ اپنے ساتھیوں سمیت ایک مقام میں مقیم تھےکہ اسی اثناء میں کچھ دشمن آئے اور عیسی ٰؑ کو قتل کرنے کےلیےاُن پر داخل ہوئے ۔اللہ تعالیٰ نے تمام کو عیسیٰؑ کے مشابہ بنادیا پس اُن کےلیے عیسیٰؑ پہچاننا مشکل ہو گیا پس عیسیٰؑ کے ساتھیوں میں ایک جنت کی خاطر اپنے آپ کو قربان کرنے کےلیے تیا رہوا ،پس اُنہوں نے اُس کو سولی پر چڑھایا اور اُنہوں نے یہ گمان کیا کہ ہم نے عیسیٰؑ کو مصلوب کیا ۔ ملاحظہ ہو علامہ آلوسی کی عبارت :“وقال وهب بن منبه في خبر طويل رواه عنه ابن المنذر : «أتى عيسى عليه السلام ومعه سبعة وعشرون من الحواريين في بيت فأحاطوا بهم فلما دخلوا عليهم صيرهم الله تعالى كلهم على صورة عيسى عليه السلام فقالوا لهم : سحرتمونا ليبرزن لنا عيسى عليه السلام أو لنقتلنكم جميعاً فقال عيسى لأصحابه : من يشتري نفسه منكم اليوم بالجنة؟ فقال رجل منهم : أنا ، فخرج إليهم فقال : أنا عيسى فقتلوه وصلبوه ورفع الله تعالى عيسى عليه السلام» ، وبه قال قتادة والسدي ومجاهد وابن إسحاق ، وإن اختلفوا في عدد الحواريين” ([24])

ترجمہ : اوروھب بن منبہ نے ایک طویل روایت ابن المنذرسے روایت کی ہے، کہ:یہ لوگ عیسیٰ (علیہ السلام)کے پاس آئے اور عیسیٰ (علیہ السلام)کے ساتھ ایک گھرمیں ستائیس حواری موجود تھے۔تو اُنہوں نے اس گھرکا اِحاطہ کیا،پس جب وہ اُن پرداخل ہوئے، تواللہ تعالیٰ نےہرایک کو عیسیٰ (علیہ السلام)کے شکل میں مشابہ کردیا،پس اُنہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام)اوراُن کے ساتھیوں سے کہا کہ تُم نے ہم پرجادو کردی ،اب تُم ہمارے لیے خوامخواہ عیسیٰ (علیہ السلام)نکالیں گے یاہم تُم سب کوقتل کریں گے۔پس عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ساتھیوں سے کہا : تُم میں سے کون آج کے دن اپنے نفس جنّت کے بدلے فروخت کردےگا؟پس اُن میں سے ایک آدمی نے کہا :میں ،پس وہ اُ ن کی طرف نکلا اور کہا :میں عیسیٰ (علیہ السلام)ہوں ،پس اُنہوں نے اُسے قتل کردیا اور سولی پر چڑھایا اور اللہ تعا لیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام)کو اُوپر اُٹھا لیا ۔اور قتادہ اور سدّی اورمجاہد اورابن اسحاق نے بھی یہی کہا ،اگرچہ اُنہوں نے حواریّن کی تعداد میں اختلاف کیا ہے”۔ تیسری روایت جو علامہ آلوسیؒ نے نقل کی ہے اُس سے ثابت ہوتا ہے کہ عیسیٰؑ کی جگہ ایک ایسی شخص کو سولی پر چڑھایا گیا جو عیسیٰؑ سے منافقت کر تا تھا ۔اس بارے میں علامہ آلوسیؒ کی عبارت اس طرح ہے : علامہ آلوسیؒ “وقيل : كان رجل من الحواريين ينافق عيسى عليه السلام فلما أرادوا قتله قال : أنا أدلكم عليه وأخذ على ذلك ثلاثين درهماً فدخل بيت عيسى عليه السلام فرفع عليه السلام وألقى شبهه على المنافق فدخلوا عليه فقتلوه وهم يظنون أنه عيسى عليه السلام ، وقيل غير ذلك ” ( [25])،اورکہا گیا ہے کہ حواریوں میں سے ایک آدمی عیسیٰ سے منا فقت کرتاتھا ،پس جب اُنہوں نے اُس کے قتل کا ارادہ کیا تو اس شخص نے کہا :کہ میں تُم کو وہ بتاوں گا اور اِس پر اُس نے تیس درھم لے لی ،پس عیسیٰ (علیہ السلام) کے گھر کو داخل ہو گیا ،پس عیسیٰ (علیہ السلام)کو اُٹھا لیا گیا اور اِ س منافق آدمی پر اُس کا شبہ ڈا ل دیاگیا، پس یہ لوگ اُس پر داخل ہوئے اور اُسے قتل کردیا اور اُن کاگُمان تھا کہ یہ عیسیٰ (علیہ السلام) ہے،اور اس کے علاو ہ اس معاملہ میں بہت کچھ کہا گیا ہے” ۔

ان روایتوں سے دوباتوں کا پتا چلتا ہے ۔ایک یہ کہ یہود نے عیسیٰ (علیہ السلام) سمجھ کر ایک آدمی کو بےشک سولی پر چڑھا یا ۔اور دوسری اس بات کا کہ وہ حقیقت میں عیسیٰؑ کو قتل نہ کرسکے بلکہ وہ اس بارے میں اشتبا ہ میں پڑگئےجیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے:

وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ([26])ترجمہ :“حالانکہ نہ اُنہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کوقتل کیاتھا ،نہ اُنہیں سولی دے پائے تھے ،بلکہ اُنہیں اشتباہ ہوگیاتھا ۔

اشتبا ہ کی حقیقت

قرآن مجیدمیں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ یہود حقیقت میں عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل نہ کرسکے بلکہ اس بارے میں اشتباہ میں پڑ گئے ۔ اس شتباہ میں کیوں کر پڑگئے ؟اس اشتباہ کی حقیقت کیا تھی ؟ وغیرہ قسم کے سوالات کے جوابات تو کسی حد تک مندرجہ بالا روایات سے واضح ہوجاتے ہیں ۔ہاں ! اس سلسلے میں روح المعانی نے مزیداس طرح لکھاہے:

{ شُبّهَ } مسند إلى الجار والمجرور ، والمراد وقع لهم تشبيه بين عيسى عليه السلام ومن صلب ، أو في الأمر على قول الجبائي أو هو مسند إلى ضمير المقتول الذي دل عليه { إِنَّا قَتَلْنَا } أي شبه لهم من قتلوه بعيسى عليه السلام ، أو الضمير للأمر و { شُبّهَ } من الشبهة أي التبس عليهم الأمر بناءاً على ذلك القول ، وليس المسند إليه ضمير المسيح عليه الصلاة والسلام لأنه مشبه به لا مشبه ” ([27]).

“اُن کے لیے عیسیٰؑ اور جس کو اُنہوں نے سولی پر چڑھایا تھا کے درمیان اشتباہ واقع ہوایا جُبائی کے قول کے مطابق کام میں اشتباہ واقع ہوا،یاھُوَمقتول کی ضمیر کی طرف مسند ہے جار اورمجرور کی طرف مسند ہے،اور مراد یہ ہے کہ اُن کےلیے عیسیٰ (علیہ السلام)اورجسے پھانسی دی گئی کے درمیان تشبیہ واقع ہوا،یا جُبائی کے قول کے مطابق معاملہ میں تشبیہ واقع ہوا،یا وہ مقتول کی ضمیر کی طرف مسند ہے جواس پردلالت کرتا ہے{ إِنَّا قَتَلْنَا }یعنی جسے اُنہوں نےقتل کیا وہ اُن کے لیے عیسیٰ (علیہ السلام)کے مشابہ ہوا،یا ضمیر معاملہ کے لیے ہے اور { شُبّهَ } شبھۃ سے ہے یعنی اسی قول کی بناء پرمراد یہ ہےکہ اُن پرمعاملہ مشتبہ ہوااور مسیحؑ کی ضمیر اُس کی طرف مسند نہیں کیو نکہ وہ مشبہ بہٖ ہے مشبہ نہیں” ۔

اشتباہ کی وجہ سے یہود کاتردّد میں مبتلا ہونا

جس بھی معاملہ کے بارے میں علمِ یقینی حا صل نہ ہوں ،تو اُس سے کبھی بھی اطمئنان اور یکسوئی حا صل نہیں ہوسکتی بلکہ آدمی تردد اور اضطراب کا شکار ہوجاتا ہے یعنی ایسی صورت ِ حا ل میں آدمی اپنے نفس تک کو مطمئن نہیں کرسکتا بلکہ اضطراب کا شکار ہوجاتا ہے ،تو جب ایک پوری جماعت کا معاملہ ہو ،تب تو تردد سے نکلنا اور ایک بات پر یکسو اور مطمئن ہوجانا ناممکن ہے ۔ عیسیٰؑ کے قتل کے بارےمیں چونکہ یہود کو علمِ یقینی حا صل نہیں تھا ،اسی وجہ سے وہ تردد میں مبتلا تھے ۔جس کے بارے میں علامہ آلوسی ؒ یوں لکھتے ہیں: “{ وَإِنَّ الذين اختلفوا فِيهِ } أي في شأن عيسى عليه السلام فإنه لما وقعت تلك الواقعة اختلف الناس فقال بعضهم : إنه كان كاذباً فقتلناه ( حقاً ) ، وتردد آخرون فقال بعضهم : إن كان هذا عيسى فأين صاحبنا؟ وإن كان صاحبنا فأين عيسى؟ا وقال بعضهم : الوجه وجه عيسى والبدن بدن صاحبنا ، وقال من سمع منه إن الله تعالى يرفعني إلى السماء إنه رفع إلى السماء” ([28])

ترجمہ: پس جب واقعہ رونما ہوا،تو لوگوں نےاختلاف کیا، بعض نےکہاکہ وہ جھوٹا تھا ،ہم نےحقیقتاًقتل کیا،اور دوسروں نے تردد اختیارکیااور بعض نےکہا کہ:اگر یہ عیسیٰ (علیہ السلام)ہے تو ہماراساتھی کدھر گیا؟اوراگریہ ہمارا صاحب ہوں، تو عیسیٰ (علیہ السلام)کدھر گیا؟اوربعض نے کہاکہ :چہرہ عیسیٰ (علیہ السلام)کاتھا اوربدن ہمارے صاحب کاتھا،اور جنہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام)سےسُناکہ اللہ تعالیٰ نےمجھے آسمان پر اُٹھا لیا،تو اُنہوں نےکہا کہ اُسے آسمان پراُٹھایا گیا،اور جو عیسائی عیسیٰ (علیہ السلام)کی ربوبیّت کادعویٰ کرتے ہیں ، اُنہوں نےکہا کہ ناسوت کوپھانسی دی گئی اور لاہوت اوپر چڑھ گیا ”۔

تردُّد یعنی علمِ یقینی نہ ہونے کی باوجود اُنہوں نے قتل کاارتکاب کیوں کیا؟

اس کی وجہ یہ تھی کہ اُنہوں نے اُس گھر کا محاصرہ کیا ہُوا تھا جس میں عیسیٰ (علیہ السلام) موجود تھے لیکن جب پتا چلا کہ وہ موجود نہیں ،تو وہ لوگ اس حقیقت کو تو ماننے کےلیے تیارنہیں تھے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) واقعی اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہے اور اُسے واقعی اللہ تعالیٰ کی تائید حاصل ہے ، اور یہاں یہ بات تسلیم کرنے سے یہ حقائق سامنے آتےتھے اس لیے اُنہوں نے علمِ یقینی حاصل نہ ہونے کی باوجود قتل کا ارتکاب کیا ۔ اس پر علامہ آلوسی ؒ نے اس طرح تبصرہ کیا ہے :

وقال أبو علي الجبائي : إن رؤساء اليهود أخذوا إنساناً فقتلوه وصلبوه على موضع عال ولم يمكنوا أحداً من الدنو منه فتغيرت حليته ، وقالوا : إنا قتلنا عيسى ليوهموا بذلك على عوامهم لأنهم كانوا أحاطوا بالبيت الذي به عيسى عليه السلام فلما دخلوه ولم يجدوه فخافوا أن يكون ذلك سبباً لإيمان اليهود ففعلوا ما فعلوا” ([29])

ترجمہ: اورابو علی الجبائی نے کہا:بے شک یہود کے سرداروں نے ایک انسان کو پکڑکر قتل کردیا اور ایک اُونچی مقام پر سولی پر چڑھا دی اور کسی کواُس کے قریب جانے نہ دیااور اُنہوں نے کہا کہ ہم نے عیسیٰ (علیہ السلام)کوقتل کردیا تاکہ عوام کو یہ گُمان کرادے کیونکہ اُنہوں نے اُس گھر کااِحاطہ کیا تھا جس میں عیسیٰ (علیہ السلام)تھے ،لیکن جب اُس میں داخل ہوئے اور اُس کو نہ پایا تو وہ اس پر ڈر گئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ یہود کے اِیمان لانے کاسبب بن جائے، تو اُنہوں نے وہ کچھ کیا جو کیا ”

علامہ آلوسی اور مسیحیوں پر اس با رے میں تنقید

مسیحی چونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام)کی ربوبیّت کادعویٰ کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ اُسے مقتو ل ومصلوب ہونے کے بھی قائل ہیں۔جیسا کہ اناجیل کے مندرجہ با لا حوالوں سے ظاہرہے۔ ان کے اس عقیدےپر اعتراضات وارد ہو تے ہیں ۔ تو اُن اعتراضات سے بچنے کے لیے اُنہوں نے لاہوت اور ناسوت کی اصطلاحات ایجاد کیے لیکن اُن پربھی اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔ان پر علامہ آلوسی اس طرح تبصرہ کرتے ہیں :

وقالت النصارى الذين يدعون ربوبيته عليه السلام : صلب الناسوت وصعد اللاهوت ، ولهذا لا يعدون القتل نقيصة حيث لم يضيفوه إلى اللاهوت ويرد هؤلاء إن ذلك يمتنع عند اليعقوبية القائلين : إن المسيح قد صار بالاتحاد طبيعة واحدة إذ الطبيعة الواحدة لم يبق فيها ناسوت متميز عن لاهوت والشيء الواحد لا يقال : مات ولم يمت ، وأهين ولم يهن . وأما الروم القائلون : بأن المسيح بعد الاتحاد باق على طبيعتين ، فيقال لهم : فهل فارق اللاهوت ناسوته عند القتل؟ فإن قالوا : فارقه فقد أبطلوا دينهم ، فلم يستحق المسيح الربوبية عندهم إلا بالاتحاد ، وإن قالوا : لم يفارقه فقد التزموا ما ورد على اليعقوبية وهو قتل اللاهوت مع الناسوت ، وإن فسروا الاتحاد بالتدرع وهو أن الإله جعله مسكناً وبيتاً ثم فارقه عند ورود ما ورد على الناسوت أبطلوا إلهيته في تلك الحالة ، وقلنا لهم : أليس قد أهين؟ وهذا القدر يكفي في إثبات النقيصة إذ لم يأنف اللاهوت لمسكنه أن تناله هذه النقائص ، فإن كان قادراً على نفيها فقد أساء مجاورته ورضي بنقيصته وذلك عائد بالنقص عليه في نفسه ، وإن لم يكن قادراً فذلك أبعد له عن عز الربوبية ، وهؤلاء ينكرون إلقاء الشبه ، ويقولون : لا يجوز ذلك لأنه إضلال ، ورده أظهر من أن يخفى ، ويكفي في إثباته أنه لو لم يكن ثابتاً لزم تكذيب المسيح ، وإبطال نبوته بل وسائر النبوات على أن قولهم في الفصل : إن المصلوب قال : إلهي إلهي لم تركتني وخذلتني ، وهو ينافي الرضا بمرّ القضاء؛ ويناقض التسليم لأحكام الحكيم ، وأنه شكى العطش وطلب الماء والإنجيل مصرح بأن المسيح كان يطوي أربعين يوماً وليلة إلى غير ذلك مما لهم فيه إن صح مما ينادي على أن المصلوب هو الشبه كما لا يخفى . فالمراد من الموصول ما يعم اليهود والنصارى جميعاً ” ([30])

ترجمہ: اور اسی وجہ سے وہ قتل کو نقیصہ شمار نہیں کرتے ،کیونکہ وہ لاہوت کوقتل کی اضافت نہیں کرتیں،اور یہ اس کی تردید کرتے ہیں کہ یعقوبیہ کے ہاں یہ ممتنع ہے کیونکہ وہ یہ کہنے والے ہیں :بے شک مسیح ؑ اتحاد سے طبیعۃ واحدہ بن گئی،اورطبیعۃِ واحدہ میں ناسوت لاہوت سے متمیَّز نہیں رہا،اورایک ہی چیزکے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مرگیا اور نہیں مرا،اورذلیل ہوااورنہیں ہوا۔اورجہاں تک روم کاتعلق ہے تووہ کہنے والے ہیں کہ مسیح اتحاد کے بعد دوطبیعوں میں باقی رہا ،پس اُن سے کہاجائےگاکہ کیاقتل کے وقت لاہوت ناسوت سے جُداہوا؟پس اگر اُنہوں نےکہا کہ جُدا ہوا،تواُنہوں نےاپنے دین کوباطل کردیا،کیونکہ اُن کےنزدیک عیسیٰ (علیہ السلام)اتحاد کےبغیرربوبیَّت کامستحق نہیں۔اوراگرکہیں کہ جُدانہیں ہوا، تواُن پروہی اعتراض واردہوگاجویعقوبیہ پروارد ہوااور وہ لاہوت کاناسوت کے ساتھ قتل ہونا ہے۔اوراگر اُنہوں نے اتحاد کی تفسیر تدرُّع سے کیا اوراس کامطلب یہ ہے کہ الٰہ نے مسکن اورگھر اختیار کیا ،پھر ناسوت پر جووارد ہونے والا تھا اُس کے واردہونے کےساتھ لاہوت نے اُس سے جُدائی اختیارکر لی تواس حال میں اس کی الٰہیّۃ باطل ہوئی ،اور ہم اُن سے کہتے ہیں ،کہ کیا یہ ذلَّت نہیں ؟ اوراُس کی الہٰیّۃ میں نقیصہ کی اثبات کے لیے یہی کافی ہے کہ لاہوت اپنے مسکن کو اِن نقائص کا پہنچنا بُرا نہ مانے،اگروہ اس کی نفی پر قدرت رکھتا ہو ں ،تو یقیناً اُس نےاپنے پڑوس سے بُرائی کی اور اُس میں نقیصہ کی موجود گی پر راضی ہوا،اور اس سےاُس میں خود نقص ہوتا ہے ۔اور اگر وہ اس پر قادر نہ ہو ، تو یہ تو اُس کو ربوبیّت سے بہت دور لے جانے والا ہے ،اوریہ لوگ اِلقاء شبہ کا انکار کرتے ہیں،اور کہتے ہیں کہ یہ جائز نہیں کیونکہ یہ گُمراہی ہے اور اس کا رد کرنا اس کو مخفی رکھنے سے زیادہ اظہر ہے یعنی یہ اس کو مخفی رکھنے کے بجائے اس کا رد کرنا زیادہ مناسب ہے ۔ اور اس کی اثبات کےلیے یہی کا فی ہے کہ اگر اس کو ثابت نہ ما نا جائے ،تو مسیح ؑ کی تکذیب اور اُ س کی نبوت کاابطال بلکہ اُن کے قول سے تمام نبوتوں کا ابطال لازم آتاہے(کیونکہ وہ کہتے ہیں ) کہ فصل کے وقت مصلوب (مسیحؑ)نےکہا کہ میرے الٰہ میرے الٰہ تُونے مجھے کیوں چھوڑا اور رسوا کیا، (مسیحؑ کا یہ قول )قضا ء پر رضا ء کے خلاف ہے ( اس قول سے پتا چلتا ہے کہ وہ اللہ کے فیصلوں پر راضی نہیں تھے ) اور اُس حکیم ذات کے فیصلوں کوتسلیم کرنے کی بجائے مخالفت کرتےتھے۔ اور یہ کہ اُنہوں نے پیاس کی شکا یت کی اور پانی کا مطالبہ کیا یعنی پانی مانگا اور حالانکہ انجیل اس بارے میں تصریح کرنے والا ہے کہ مسیح ؑ چالیس دن ورات اس کے بغیر گُزارا کرتاتھا یعنی چالیس دن ورات کچھ کھائے پیے بغیر گزارتےتھے جیسا کہ پکاراجاتا ہے کہ مصلوب شِبہ تھا ،اگر یہ صحیح ثابت ہوجائے ،جیسا کہ اس کا صحیح ثابت ہونا مخفی بات نہیں ”۔

سولی پر چڑھانے کے بعدحواریوں کو نظر آنے کے بارے میں روح المعانی کی وضاحت

اناجیل سے یہ بات ثابت ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) جب مصلوب کیے گئے تو اس کے تیسرے روز وہ زندہ ہوکر آسمانوں پر اُٹھائے گئے اور یہ بات بھی ثابت ہےکہ حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) دوبارہ زند ہ ہونے کے بعدشاگردوں ملے اور اُن کومختلف ہدایت دیدی ۔ لیکن مسلمانوں کا عقیدہ اس بارے یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) مصلوب نہیں ہوئے بلکہ مصلوبیت سے پہلے پہلے آسمانو ں پر اُٹھائے گئے ہیں تو یہ سوال سامنے آتا ہے کہ تیسرے روز شاگردوں وغیرہ کو کیسے نظر آیا ؟ تو اس کا جواب روح المعانی اس طرح دیتے ہیں:

وأما رؤية بعض الحواريين له عليه السلام بعد الصلب فهو من باب تطور الروح ، فإن للقدسيين قوة التطور في هذا العالم وإن رفعت أرواحهم إلى المحل الأسنى ، وقد وقع التطور لكثير من أولياء هذه الأمة ، وحكاياتهم في ذلك يضيق عنها نطاق الحصر .

وأما رؤية بعض الحواريين له عليه السلام بعد الصلب فهو من باب تطور الروح ، فإن للقدسيين قوة التطور في هذا العالم وإن رفعت أرواحهم إلى المحل الأسنى ، وقد وقع التطور لكثير من أولياء هذه الأمة ، وحكاياتهم في ذلك يضيق عنها نطاق الحصر”([31]) .

ترجمہ: اور جہاں تک بعض حواریُّوں کےسولی پرچڑھنے کے بعد دیکھنے کا تعلق ہے،پس یہ روح کی ترقی کے باب میں سے ہے،بے شک قد سیّو ں کے لیے اس عالم میں قوّۃ تطوّر ہوتاہے اگر چہ اُن کی ارواح بلند پایہ محلات میں اُٹھائے گئے ہوں ،اور یہ تطوُّر ([32])اس اُمت کے بہت سے اولیاء کے لیے واقع ہوئی ہے اور ا س سلسلے میں اُن کی واقعا ت بہت زیادہ ہیں ”۔

خلاصۃ البحث

اس بحث سے ہم یہ نتائج اخذ کرتے ہیں کہ: حضرت عیسیٰ (علیہ السلام)جو اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر ہے ،یہود نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہم نے اُسے قتل کرکے سولی پر چڑھا دی ہے لیکن اللہ تعالی ٰنے اس کا نکار کردیا اور فرمایا کہ اُسے اللہ تعالیٰ نے یہود کے چال سے بچا دیا ہے۔ اور تمام مسلمان اس پر متفق ہیں کہ عیسیٰ ؑ کو اللہ نے واقعی یہود کے چال بچادیاہے ، البتہ آسمان پر اُٹھا یا ہے یاکسی اور جگہ پناہ دی ہے تو اس بارے میں اتفاق موجود نہیں ۔ہاں مسلمانو ں کی اکثریت اس بات کےقائل ہیں کہ عیسیٰ ؑ کو اللہ تعا لیٰ نے آسمان پر اُٹھایا ہے اور وہ وہاں زندہ ہے اور قربِ قیامت کو زمین پرعدل قائم کرنے اور دجّا ل کو قتل کرنے کے لیے آئے گا ۔

مسیحیوں کی اکثریت کااس بارے میں یہ عقید ہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام)کویہود نے سولی دے کر قتل کردیا اور پھرزمین میں دفن میں کردیا اس کے بعد زند ہ ہوکر آسمان پر چلا گیا اور وہا ں یعنی اللہ کے ساتھ بیٹھا ہے ۔

حوالہ جات

  1. () مشہور مفتی ،عالم اور دارالعلوم کراچی پاکستان کا نائب مہتمیم ہے۔دیوبند میں1943ءمیں پیدا ہوئے تھےاور تا حال بہ قید حیات ہے۔
  2. () محمدتقی عثمانی، بائبل سے قرآن تک،مکتبہ دارالعلوم کراچی،1416ھ/1996 ،ج1ءص90
  3. ()مولانا عبدالحق حقانی گمتھلہ گڈھ(رانابہاؤالدین) میں پیداہوئے ۔اپنے وقت کے جید عالم تھے، مختلف فنون میں مہارت رکھتے تھےآپؒ کے بہت سے تصانیف ہیں ،جن میں تفسیرِ فتح المنان اور عقائد الاسلام کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔آپؒ نے سنہء 1917ء کودہلی میں وفات پائی،حقّانی ،عبد الحق ، عقائد الاسلام ،ادارہ اسلامیات ،لاہور،1480ھ/ 1988ء،ص269
  4. ( )حقّانی ،عقائد الاسلام ،ص 188
  5. ( )سورہ النسا:157 ،158
  6. ( ) سیدطنطاوی،تفسیرالوسیط، دار الفکر،بیروت،لبنان1417ھ/1996ء،سورہ النساء،آیت 157
  7. ( )ابوحیان الاندلسی ،محمد بن یوسف ،تفسیرالبحرالمحیط، دار الفکر،بیروت،1417ھ/1996ء،سورہ النساء،آیت 157
  8. () ابوحیان الاندلسی ،تفسیرالبحرالمحیط، سورہ النساء،آیت 157
  9. () کاندھلوی ،محمد ادریس ،معارف القرآن ،فرید بک ڈپو،دہلی ، 2001ء، سورہ النساء،آیت 157
  10. آلوسی ، محمود بن عبد اللہ ،رو ح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع ا لمثانی ، دار الفکر،بیروت،لبنان1417ھ/1996ء،النساء،آیت 157
  11. ( )اصلاحی ،امین احسن ،تدبّرقرآن ،فاران فاونڈیشن ،لاہور ،2001ء، سورہ النساء،آیت 158
  12. ( )قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی ،قاموس القرآن ،دارالاشاعت ،مولوی مسافرخانہ کراچی ،س۔ن،ص377
  13. ( ) محمد حفظ الرحمٰن سیوہاروی ،قصص القرآن ،مکتبہ مدنیہ ،لاہور ،س۔ن،ج4،ص141
  14. ( ) ماوردی:ابو الحسن علی بن محمد بصری بغدادی ماوردی ، النكت والعيون ،دار الفکر،بیروت،لبنان1417ھ/1996ء،النساء،آیت 157
  15. ( ) ابوحیان ،البحرالمحیط،،النساء،آیت 157
  16. () مرقُس،باب 16،آیت19
  17. ( ) لوقا ،باب24،آیت51
  18. () مرقُس ،باب16،آیت10۔11
  19. () مرقُس ،باب 16،آیت 6۔7
  20. ( ) لوقا،باب 23،آیت44۔46
  21. () یوحنّا ،باب 19،آیت19
  22. () متّی،باب 27،آیت57۔66
  23. ( ) آلوسی ، رو ح المعانی ،النساء ،آیت 157
  24. () ایضاً
  25. ()ایضاً
  26. ( ) ایضاً
  27. ( ) ایضا
  28. ( ) ایضاً
  29. ( ) ایضاً
  30. () ۔ آلوسی ، رو ح المعانی ،النساء ،آیت 157
  31. () آلوسی ، رو ح المعانی ،النساء ،آیت 157
  32. ()تطوّرکامطلب ایک ہیئت یا حال سے دوسرے ہیئت یاحال کومنتقلی ،اور ملک اور ولی کی تطوّریعنی ایک حالت سے دوسرے میں منتقلی بھی ہے، المناوی ، محمد عبدالرؤوف ،التوقیف علی مھمات التعاریف، دارالفکر،بیروت ،1410ھ/1989ء،ص183
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...