Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 5 Issue 2 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

حضرت محمد ﷺ کے معاشرتی رویے اور ان کے نفسیاتی اثرات |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

5

Issue

2

Year

2018

ARI Id

1682060029336_739

Pages

14-27

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/145/135

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/145

Subjects

Prophet Muhammad (SAW) Social Behavior Psychological Impact Role Model

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

مختلف معاشرتی سائنسز اپنے زاویہ نگاہ سے انسان کے معاشرتی مسائل پر روشنی ڈالتی ہیں ۔ نفسیات کی ایک شاخ جوکہ معاشرتی نفسیات ((social psychology ہےیہ انسان کے معاشرتی مسائل کااس تناظر میں مطالعہ کرتی ہے کہ فرد اورگروہ کا باہمی تعامل ((interactionکیساہوناچاہیئے ؟معاشرتی نفسیات دان یہ سمجھتے ہیں کہ فرد کےرویےکا معاشرتی تجزیہ کیاجائےکیونکہ معاشرتی مسائل کے حل کے لئے فرد کے رویےکو سمجھنا ایک ناگزیر امرہے ۔ ایک انسان اپنے رویے کو کس انداز سےپروان چڑھائے؟ اسی طرح معاشرتی ماحول ایک فرد کے رویےپرکس طرح اثراندازہوتا ہے؟نیز ایک فرد دوسرے افراد یا گروہوں سےکس طرح معاملہ کر تا ہے؟ اسی طرح گروہوں کا باہمی رویہ کس طرح کا ہے ؟ معاشرتی نفسیات دانوں کو اس امر پر یقین ہیں کہ معاشرتی نفسیات بہت سے معاشرتی مسائل کو حل کر سکتی ہے بشرطیکہ سائنسی بنیادوں پر اخذ کئے گئے اصولوں کا معاشرتی ماحول پرحقیقی اطلاق کرلیاجائے([1]

لفظ معاشرہ کی لغوی تحقیق

معاشرہ باب مفاعلہ کا مصدر ہے اور باب مفاعلہ کی ایک خاصیت اشتراک ہے یعنی وہ فعل جانبین سے ہوتاہے لہٰذامعاشرہ کامعنیٰ ہے باہم زندگی گذارنا۔

معاشرہ کی اصطلاحی تعریف

معاشرہ کا مطلب افراد کا ایک ایسا اجتماع ہے جس کے پیش نظر کوئی مشترکہ فائدہ ہو اور افراد کا یہ اجتماع اس طور پر ہو کہ مل جل کر منظم انداز سے زندگی بسر کریں اور مقاصد کے حصول کیلئے رسم ورواج اور قانون کی پا بندی

کرتے ہوئے چند ادارے بھی قائم کریں۔

معاشرتی نفسیات کیاہے؟:اکثر ماہرینِ نفسیات نے معاشرتی نفسیات کی تعریف مندرجہ ذیل الفاظ میں کی ہے۔

معاشرتی نفسیات کی تعریف

Social psychology is a broad field whose goals are to understand and explain how our thoughts, feelings, perceptions, and behaviors are influenced by the presence of, or interactions with, others.([2])

معاشرتی نفسیات ایک وسیع مضمون ہے جس کا منتہیٰ یہ سمجھنا اوربیان کرناہوتاہے کہ دوسرں کی موجودگی یا تعامل سےکیسے ہماری سوچیں ، احساسات، ادراکات اور کردار متاثر ہوتے ہیں۔

معاشرتی زندگی میں رویے نہایت اہمیت کے حامل ہوتےہیں بہت سارے ماہرین کےنزدیک معاشرتی نفسیات کا سب سے اہم اور برتر موضوع رویوں کے موضوع کو قرار دیا گیاہےاس لئے ہم اولاََ رویے کی تعریف بیان کرتے ہیں۔

رویے کی تعریف

رویّے کیاہوتے ہیں ؟ان کی حقیقت کیاہے ؟ ان باتوں کو جاننے کے لئے ہم معاشرتی نفسیات کے ماہرین کی بیان کردہ تعریف کوبیان کردیتے ہیں۔

Attitude is relatively stable evaluative disposition directed toward some object or event it consist of feelings behaviors and belief.

ترجمہ: یعنی رویے سے مراد کسی شے یا واقعہ کی طرف کم وبیش مستقل رجحان ہوتاہے اور یہ احساسات، طرز عمل اور اعتقادات پر مشتمل ہوتا ہے([3]

انسانی زندگی پر رویوں کے اثرات

زندگی میں رویوں کابڑا اہم کردارہوتاہے یہی رویے ہماری سوچ اورکردار کے رخ کو کسی ایک جانب متعین کرتے ہیں اور ان میں شدت یاکمی کاباعث بنتے ہیں چنانچہ اس وجہ سے رویوں کا موضوع بھی معا‎‎شرتی نفسیات کا ایک اہم اور بنیادی موضوع ہے۔ معاشرتی نفسیات کوجب بیسویں صدی کے آغاز میں ایک علیحدہ مضمون کی حیثیت دی جانے لگی تو بہت سارے ماہرین کےنزدیک معاشرتی نفسیات کا سب سے اہم اور برتر موضوع رویوں کے موضوع کو قرار دیا گیا معاشرتی نفسیات میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی جستجو کی جاتی ہے کہ کس چیز کے کیامعاشرتی اثر ات مرتب ہوتے ہیں ؟ لوگوں کے رویوں کا مطالعہ سے ہمیں اس سوال کا جواب ملتاہے کیونکہ جب ہم معاشرتی اثرات کے تناظر میں فرد کا مطالعہ کرتے ہیں تو سب سے پہلے افراد کی معاشرتی زندگی رویوں کی شکل میں ہمارے سامنے آتی ہے کیونکہ کسی مسئلہ کے متعلق جب لوگ اپنی آراء کااظہار کرتے ہیں تو در حقیقت وہ اپنے رویوں کا اظہارکرتےہیں اس سے ان کا مقصدد وسرے کے رویوں پر اثرانداز ہونا ہوتاہے لیکن کبھی ایسی صورت بھی پیدا ہوجاتی ہے کہ تبادلہ معلومات کی وجہ سے جب وہ دوسروں کی آراء سے مستفید ہوتے ہیں توپھر تشکیل نو کے عمل سے گذرتے ہوئے اپنے رویوں میں تبدیلی لاتے ہیں چنانچہ جب ایک بچہ معاشرتی ماحول میں پروان چڑھتاہے تو معاشریت کے عمل سےگذرتے ہوئے اس کی شخصیت میں رویوں کا ایک ایسا نظام تشکیل پاتاہےجوکہ اس کےمعاشرتی وقوفات وادراکات اورہیجانات ومحرکات پر مشتمل ہوتاہے اورپھر وہ اس نظام کو اپنے معاشرتی تعامل میں استعمال کرتا ہےاسی وجہ سے کوئی فرداپنے رویوں کی بنیاد پر کسی دوسرے فرد یاجماعت کے ساتھ معاشرتی تعامل سرانجام دیتا ہے۔

رویے اس قدر اہم کیوں ہیں؟: مندرجہ ذیل دو وجوہات کی وجہ سے معاشرتی نفسیات دان رویوں کے موضوع کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں :

1: معاشرتی نفسیات کا بنیادی مقصد معاشرتی کردار کی تشریح اورتعبیر کرنا ہےاورپھر اس کے متعلق پیشن گوئی کرنا ہے مذکورہ امور کےحصول کےلئے رویوں کاعلم ایک لازمی امرہے۔

2: عام طور پر رویے دیرپا ہو تے ہیں تاہم ان میں تبدیلی بھی کی جاسکتی ہے معاشرتی نفسیات کے ماہرین رویوں کی تبدیلی کی وجوہات اور حالات کےبارے میں جاننےکی کوششیں کرتے ہیں چنانچہ اپنے علم کی بنیاد پر یہ ماہرین رویوں کی تبدیلی کے لئے اقدامات کر سکتے ہیں([4]

انسانی زندگی کے بنیادی رویے

ویسے تو معاشرتی زندگی میں ہم مختلف رویّے اختیارکرتے ہیں اسی طرح ہمیں بھی دوسروں کے مختلف رویّوں کا سامنا کرنا پڑتا ہےتاہم کچھ بنیادی رویّے ایسے ہیں جن سے ہماری معاشرتی زندگی بہت متاثر ہوتی ہے ذیل میں ہم انہی بنیادی رویّوں کے متعلق سیرت نبوی ﷺ کی تعلیمات کا جائزہ لیتے ہیں ۔

معاشرتی زندگی میں دوسرے افرادسے میل جول ایک ایسا لازمی عنصر ہے جس سے ہمیں روزانہ باربار واسطہ پڑتاہےاب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جب دوسرے سے ملاقات ہو توایساکونسا رویّہ اختیار کیاجائےجس سے میل جول میں تلخی کے بجائے محبت پیداہواس حوالے سے آپﷺنے زریں نفسیاتی اصولوں سے کام لیتے ہوئے ہمیں مختلف تعلیمات دی ہیں دوسروں کےساتھ محبت سے پیش آنا ایک ایسا بنیادی رویّہ ہے جو ہماری تمام مشکلات حل کرنے کی چابی ہے۔

باہمی محبت کا رویہ

جدید تحقیقات کے مطابق محبت ہماری Emotional Health پرمثبت اثرات مرتب کرتی ہے جب کوئی دوسرا فرد ہمارے ساتھ محبت اور گرم جوشی سے ملتاہےتو اس سے ہمارے رویوں اور کردار پر اچھے اور خوش کن اثرات مرتب ہوتے ہیں اگر وہ ملنے والا اجنبی ہو تو پہلی ملاقات میں ہی اگر اس کی جانب سے محبت اور گرم جوشی پائی جائے تو اس کے متعلق منفی جذبات ذہن میں پیدا نہیں ہوتے اور اس سے اجنبیت محسوس نہیں ہوتی جس کی وجہ سے اس کے متعلق ہمارےطرزِ عمل میں خود بخو دتبدیلی آجاتی ہے اور اس سے اپنائیت محسوس ہوتی ہےاس رویے کی وجہ سےآپس میں ایک دوستانہ ماحول پیداہوتاہے جو بہتر طور پر ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدددیتاہے([5])اسی وجہ سے آپﷺنے ہمیں ایسی تعلیمات اختیار کرنے کا حکم دیاہے کہ اگر ہم اس پر عمل پیرا ہوجائے تو نفرتوں کی بجائے محبتیں جنم لیں گی۔

محبت پیدا کرنے کے ذرائع

محبت پیداکرنے کے آسان ذرائع میں سے ایک ذریعہ سلام کرنا ہےاسی وجہ سے آپﷺ نے ہمیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ جب بھی دو مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے ملاقات کرے تو ایک دوسرے کو سلام کیاکرے اس سے باہمی محبت بڑھتی ہے چنانچہ روایت ہے تم جنت میں داخل نہیں ہو گے جب تک کہ ایمان نہیں لاؤ گے اور کامل مومن نہیں بنو گے جب تک کہ آپس میں محبت نہیں کروگے کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں جب تم اس پر عمل کروگے تو آپس میں محبت کرنے لگ جاؤ گے وہ یہ ہے کہ آپس میں ہر ایک آدمی کو سلام کیا کرو۔ ([6])

اس حدیث میں کامل مومن کی نشانی یہ بتلائی گئی ہے کہ وہ محبت کے رویے کا حامل ہوگا اور محبت کے اس رویے کو پیداکرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ملاقات کے وقت ایک دوسرے کو سلام کے طرزِ عمل کو اختیارکیاجائے کیونکہ سلام دوسرے کے دل کھولنے کی چابی ہے اس سے ایک دوسرے سے الفت اور انسیت پیداہوتی ہے اسی طرح ایک اور حدیث ہے:

أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الإِسْلاَمِ خَيْرٌ؟ قَالَ: تُطْعِمُ الطَّعَامَ وَتَقْرَأُ السَّلاَمَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ([7])۔ ترجمہ:ایک شخص نے نبی کریمﷺ سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں کو کھانا کھلاؤ اور جسے جانتے ہو اور جسے نہ جانتے ہو سب کو سلام کرو۔

مثبت رویے کےاظہارمیں پہل کرنا

ملاقات کے وقت یہ ایک عام معاشرتی رویہ ہےکہ بہت سے لوگ جب دوسروں کے ساتھ ملتے ہیں تو وہ دوسروں سے یہ توقع رکھتےہیں کہ مثبت انداز میں ملنے کاآغاز مدمقابل کرے خود کبھی اپنی طرف سے ایسے امکان کو پیدانہیں کرتے جس کی وجہ سے بہت سے معاشرتی مسائل پیداہوجاتے ہیں مثلا ایک تو بداعتمادی کی فضا بنتی ہےاسی طرح ایک دوسرے سے کٹنے کی وجہ سے انسان تنہائی کاشکارہوجاتاہے([8])چنانچہ اس منفی معاشرتی رویے کو تبدیل کرنے کےلئے آپﷺنےارشادفرمایا:

الْبَادِئُ بِالسَّلَامِ بَرِيءٌ مِنَ الْكِبْرِ([9])

ترجمہ: کہ سلام میں پہل کرنے والا تکبر سے بری ہے۔

مصافحہ کے نفسیاتی اثرات

آپﷺکی سیرت طیبہ کی تعلیمات کے مطابق ملاقات کے وقت اکرام واحترام اور محبت کے رویّےکےاظہار کا ایک ذریعہ مصافحہ بھی ہے ، سلام کے مقابلے میں اس کے نفسیاتی اثرات زیادہ نمایاں ہوتے ہیں اور اس سے دوسرے کے رویّے پر مثبت اثرات پڑتے ہیں کیونکہ مصافحہ بھی قربت کا ایک ذریعہ ہے جیسا کہ ڈسمنڈ مورس نے قربت کا مطلب یہ بیان کیاہے کہ جب دو افراد جسمانی طور پر رابطہ کرتے ہیں اور ملتے ہیں چنانچہ اس کے نزدیک لمس(Touch) چاہے بازوؤں میں کس کر ہویا ہاتھ ملا کرہویہ ایک ایسا ذریعہ ہے جو دو فراد کے درمیان باہمی اطمینان اور راحت کا سبب بنتاہے([10])اسی سبب آپﷺ نے اپنی امت کو مصافحہ کرنے کی تعلیم وترغیب دی ہے چنانچہ روایت ہے:

مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ يَلْتَقِيَانِ فَيَتَصَافَحَانِ إِلاَّ غُفِرَ لَهُمَا قَبْلَ أَنْ يَفْتَرِقَا([11])

ترجمہ:جب دو مسلمان ملاقات کے وقت آپس میں مصافحہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں جدا ہونے سےپہلے بخش دیتا ہے۔

اسی طرح آپﷺ کا اپنا معمول بھی مصافحہ کا تھا چنانچہ روایت ہے کہ جب کوئی شخص نبی ﷺ کے سامنے آتا آپ ﷺ اس سے مصافحہ کرتے اور اس وقت تک اپنا ہاتھ نہ کھینچتے جب تک سامنے والا خود نہ کھینچتا پھر اس وقت تک اس سے چہرہ نہ پھیرتے جب تک وہ چہرہ نہ پھیرتا اور کبھی بھی آپ ﷺ کو سامنے بیٹھنے والے کی طرف پاؤں بڑھاتے ہوئے نہیں دیکھا گیا([12]

مخاطب کے ساتھ اس کی ذہنی سطح کے مطابق رویہّ رکھنا

معاشرتی زندگی میں مختلف افراد سے واسطہ پڑتاہے جن میں سے ہر ایک کی ذہنی سطح الگ الگ ہوتی ہے خوشگوار معاشرتی زندگی کے لئے یہ ایک لازمی امر ہے کہ ہر ایک کے ساتھ اس کی ذہنی سطح کے مطابق رویہّ رکھا جائےتاکہ کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہ بنے اس حوالے سے آپﷺ کی سیرت طیبہ میں ہمیں بے شمار مثالیں ملتی ہیں چنانچہ روایت ہے نبی کریم ﷺ کے پاس ایک دیہاتی آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! میری بیوی نے کالا لڑکا جنا ہے آپ ﷺ نے پوچھا ، تمہارے پاس اونٹ ہیں ؟ اس نے کہا کہ جی ہاں ۔ آپ ﷺ نے پوچھا ان کے رنگ کیسے ہیں ؟ اس نے کہا کہ سرخ ، آپ ﷺ نے پوچھا ان میں کوئی خاکی رنگ کا بھی ہے ؟ اس نے کہا کہ ہاں آپ ﷺ نے پوچھا پھر یہ کہاں سے آ گیا ؟ اس نے کہا میرا خیال ہے کہ کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا جس کی وجہ سے ایسا اونٹ پیدا ہوا ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر ایسا بھی ممکن ہے کہ تیرے بیٹے کا رنگ بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہو ([13]

اسی طرح ایک اور واقعہ ہے ایک نوجوان آپﷺ کی خد مت میں حاضرہوا اور بلا خوف وتردد عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ مجھے زنا کی اجازت دیجئے صحابہ کرام نے ؓ اس نوجوان کوڈانٹنےلگے مگر آپﷺنے اس نوجوان کو قریب بلایا اور فرمایا کیا تم یہ بات اپنی والدہ کے لیے پسند کرتے ہو؟ نوجوان نے کہا میر ی جان آپﷺ پر قربان ہو یہ بات میں اپنی ماں کے لیے کبھی پسند نہیں کر سکتاتو آپﷺنے اسےفرمایاکہ اور لوگ بھی اپنی ماؤں کےلئےاسےپسندنہیں کرتے، پھر آپؐ نے اس کی بہن ، پھوپھی اور خالہ کے بارے میں اس طرح کے سوالات کیےاور بعد میں اس سے پوچھتے کیا تم اسے پسند کرتے ہو وہ ہر بار یہی کہتا میری جان آپﷺ پر قربان ہو خدا کی قسم یہ با ت میں ہر گز پسند نہیں کر سکتا پھر آپﷺنے ا س نوجوان پر اپنےدستِ مبارک کو رکھ کراسکےلئےدعامانگی جس کے بعد وہ کبھی بھی اس کام کی طرف مائل نہیں ہوا ۔ اس روایت سے ہمیں بخوبی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپﷺنے اسے ڈانٹنے کے بجائے اس کی ذہنی سطح کومد نظر رکھتے ہوئےاسکے ساتھ ایسا رویہ اختیارکیا جس سےآئندہ کےلئے اس نوجوان کو اس گنا ہ سے نفرت ہوتی تھی۔ ([14])

یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ عام طور پر دیہات میں تعلیم کے مواقع نہ ہونےکی وجہ سےدیہاتیوں میں گنوارپن بہت زیادہ ہوتاہے اورعموماآدابِ معاشرت سے نابلدہوتے ہیں ، رکھ رکھاؤ، سلیقہ مندی سے بالکل بے نیاز ہوتے ہیں ، جبکہ ان کے مقابلے میں عام طور پر شہریوں میں تعلیم زیادہ پائی جاتی ہے جس کی بناء پر وہ آداب زندگی سے بھی خوب واقف ہوتے ہیں ، سلیقہ مندی ، حسن معاشرت، بہتر انداز میں معاملات طے کرنا، نظافت ونزاکت وغیرہ دیگر اموران کی زندگی میں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں اسی وجہ سے آپﷺ کا طرز عمل دیہاتیوں کے ساتھ بالکل الگ رنگ لئے ہوا تھا جبکہ شہریوں کے ساتھ الگ انداز تھادیہاتیوں کے سخت رویہ اور طرز عمل کے باوجودآپﷺ ان کے ساتھ نرمی اور شفقت کا رویّہ اختیارکرتےانکے الٹے سیدھے سوالات کو بھی برا نہ مانتے ، چنانچہ روایت ہے کہ ایک دفعہ ایک دیہاتی مجمع عام کی موجود گی میں مسجد نبوی میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے لگا ، دوسرے صحابہ نے اسے روکنا چاہا تو آپﷺ نے انہیں منع فرمایا اوراسے پیشاب کرنے دیا جب وہ دیہاتی فارغ ہوا تو آپﷺ نے اسے بلا کر آداب مسجد سکھائے اور ذرا سی ناگواری کا بھی اظہار نہیں کیا([15])

اسکے برعکس جو صحابہ کرام مدینہ ہی میں مقیم تھے تو ان کی غلطیوں کو نظر انداز کر دینے کی بجائے ان سے باز پرس کی جاتی تھی چنانچہ ایک مرتبہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کے درمیان دوران گفتگو کچھ رنجش پیدا ہوئی جس پر آپ ﷺ نے حضرت عمر ؓ پر ناراضگی کا اظہار کیا ([16])

دوسروں کے ساتھ نرمی کے رویّہ کو اپنانا

ہر انسان کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ دوسرے لوگ اس کےساتھ معاملات میں نرمی برتے اور ایسے اشخاص کو ہرمعاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے جونرمی کی خوبی سے آراستہ ہوتے ہیں اصل میں جو شخص نرمی کے رویّہ کو اپناتاہے تو اس کی وجہ سے عام لوگوں کے ساتھ اس کی میل جول بڑھ جاتی ہے اور عموما نرم خو انسان اور لوگوں کے مقابلہ میں زیادہ دوسروں کو فائدہ پہنچاتاہےچنانچہ اس صفت کی وجہ سے وہ ہر دل عزیز ہوجاتاہےاس وجہ سے آپﷺنے نرمی اختیار کرنے کی تعلیم دی ہےچنانچہ آپﷺکاارشاد ہے:

إِنَّ اللَّهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ، وَيُعْطِي عَلَيْهِ مَا لَا يُعْطِي عَلَى الْعُنْفِ([17])

ترجمہ:بیشک اللہ تعالیٰ مہربان ہے ، اور مہربانی اور نرمی کرنے کو پسند فرماتا ہے ، اور نرمی پر وہ ثواب دیتا ہے جو سختی پر نہیں دیتا۔

اسی طرح آپﷺنے معاملات میں نرمی برتنے کے حوالے سے ارشاد فرمایا:

رَحِمَ اللَّهُ عَبْدًا سَمْحًا إِذَابَاعَ، سَمْحًا إِذَا اشْتَرَى، سَمْحًا إِذَا اقْتَضَى([18])

ترجمہ: اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم کرے ، جوبیچتے وقت نرمی کرے جب خریدے تب بھی نرمی کرے، اور جب تقاضا کرے تو نرمی کےساتھ کرے۔

نرمی کی اہمیت کا پتہ اس حدیث سے بخوبی واضح ہوجاتاہے جس میں آپﷺنے ارشادفرمایا:

مَنْ يُحْرَمِ الرِّفْقَ، يُحْرَمِ الْخَيْرَ([19])

ترجمہ:جوفرد نرمی سے محروم کر دیا جاتا ہے تووہ تمام خیر سے محروم کر دیا جاتا ہے۔

یعنی اس فرد میں کوئی بھلائی نہیں جس میں نرمی نہ ہو ۔

حیوانات کے ساتھ بھی نرمی کرنا

آپﷺ نرمی کے رویّے کو بہت پسند فرماتے تھے انسان تو انسان ہے آپﷺ نے حیوانات کے ساتھ بھی نرمی اختیار کرنے کا حکم دیاہے چنانچہ روایت ہے:

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْدُو إِلَى هَذِهِ التِّلَاعِ، وَإِنَّهُ أَرَادَ الْبَدَاوَةَ مَرَّةً، فَأَرْسَلَ إِلَيَّ نَاقَةً مُحَرَّمَةً مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ، فَقَالَ لِي: يَا عَائِشَةُ، ارْفُقِي فَإِنَّ الرِّفْقَ لَمْ يَكُنْ فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا زَانَهُ، وَلَا نُزِعَ مِنْ شَيْءٍ قَطُّ، إِلَّا شَانَهُ ([20])ترجمہ:رسول اللہ ﷺ ان ٹیلوں پر جایا کرتے تھے ، آپﷺ نے ایک بار صحراء میں جانے کا ارادہ کیا تو میرے پاس صدقہ کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ بھیجا جس پر سواری نہیں ہوئی تھی اور مجھ سے فرمایا عائشہ اس کے ساتھ نرمی کرنا کیونکہ جس چیز میں بھی نرمی ہوتی ہے وہ اسے عمدہ اور خوبصورت بنا دیتی ہے اور جس چیز سے بھی نرمی چھین لی جائے تو وہ اسے عیب دار کر دیتی ہے ۔

غلطی کرنے والے کےساتھ کیسا رویّہ رکھاجائے؟

سماجی میل جول میں اس بات کا قوی امکان ہوتاہےکہ کوئی ایک فرد غلطی کربیٹھے اس صورتحال میں اس فرد کے ساتھ کیسا رویّہ رکھنا چاہیئے؟تو اس حوالے سے آپﷺ نے اولاََ اس بات کی تعلیم دی ہے کہ کسی انسان سے غلطی کا سرزدہونا ایک فطری امر ہے چنانچہ آپﷺکاارشاد ہے:

كُلُّ بَنِي آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ([21])

ترجمہ: کہ سارے انسانوں سے غلطی ہوتی ہیں اور بہترین خطاکار توبہ کرنے والے ہوتے ہیں ۔

اگریہ حقیقت ہمارے ذہن میں رہے تو پھر کسی بھی غلطی کاازالہ کرنا نفسیاتی طور پر آسان ہوتاہےکیونکہ اس صورتحال میں مد مقابل جذبات کے رَو میں بہہ کر توازن نہیں کھو بیٹھتااور غلطی کرنے والے کے ساتھ سختی کرنے کے بجائے نرمی کا رویہ اختیارکرتاہے کیونکہ مقصد اسے ذہنی اذیت نہیں بلکہ اس کی اصلاح کرناہے۔

غلطی کرنے والے کے درجہ کالحاظ کرنا

بسااوقات ایک شخص کی ایسی غلطی برداشت کی جاتی ہے کہ اگر دوسرے اس کا ارتکاب کرتے تو انہیں معاف نہیں کیاجاتا ، اس فرق کو مدنظر رکھتے ہوئےدوسرے کے ساتھ اس کے مناسب رویہ اختیار کرناچاہیئےچنانچہ اگر کسی سے لاعلمی یا غیر ارادتی طور پر کوئی غلطی ہوجائے تو اس کے ساتھ نرمی اور معاف کردینے کا رویہ رکھنا آپﷺ کی سنت ہے چنانچہ روایت ہے:

بَيْنَا أَنَا أُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقُلْتُ: يَرْحَمُكَ اللهُ فَرَمَانِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ، فَقُلْتُ: وَاثُكْلَ أُمِّيَاهْ مَا شَأْنُكُمْ؟ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ فَجَعَلُوا يَضْرِبُونَ بِأَيْدِيهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يُصَمِّتُونَنِي لَكِنِّي سَكَتُّ فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبِأَبِي هُوَ وَأُمِّي مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِيمًا مِنْهُ فَوَاللهِ مَا كَهَرَنِي وَلَا ضَرَبَنِي وَلَا شَتَمَنِي قَالَ إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ([22])

ترجمہ:میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک نماز میں کھڑا تھا کہ اسی دوران ایک شخص کو چھینک آئی تومیں نےاسے يَرْحَمُكَ اللهُ کہا تو لوگوں نے مجھے ترچھی نظروں سے دیکھنا شروع کیا تو میں اس پر غصہ میں آ گیا ، میں نے کہا : تم لوگ میری طرف کنکھیوں سے کیوں دیکھتے ہو ؟ تو وہ لوگ اپنی رانوں پر ہاتھ مارنے لگےجب میں نے دیکھا کہ یہ مجھے چپ کراناچاہتےہیں تومیں خاموش ہوگیاپھر جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو میرے ماں باپ آپﷺ پرقربان ہوجائےمیں نے آپ ﷺ سے بڑھ کر شفیق اور مہربان معلم نہ کسی کو پہلے دیکھا نہ ہی بعد میں ، اللہ کی قسم نہ توآپﷺنے مجھے ڈانٹا نہ ہی مارااور نہ ہی مجھے برابھلاکہابلکہ فرمایاکہ دوران نماز عام باتیں کرنا درست نہیں ہے بلکہ نماز تو بس قرآن پڑھنے اور اللہ کا ذکر اورتسبیح کرنے کے لیے ہے۔

مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص لاعلمی کی بناپرغلطی کاارتکاب کرےتو اسے تعلیم دینے کی ضرورت ہےکیونکہ اگر اسے سمجھائے بغیر ڈانٹنا شروع کردیاجائے تو اس کے غلط اثرات ظاہرہونگے کیونکہ ناواقف تو اپنے آپ کو صحیح تصور کرتاہےلہٰذا اگر اسے تعلیم دئے بغیر اس پر تنقید کی جائےتواس سے اس کے دل ودماغ میں نفرت کے جذبات پیداہونگے نتیجتاََ وہ انکارکرےگاجو صورتحال کو سلجھانے کے بجائے بگاڑ کی طرف لے جائےگااور اگر غلطی بھولے سے ہوجائے تو پھر یاد دہانی کی ضرورت ہے اور اگر اسے معمول بنالیاجائےتو پھر تنبیہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

آپﷺ کارویّہ خوش طبعی

آپﷺ کی سیرت دنیائے انسانیت کے لئے ایک حسین تحفہ ہےآپﷺ کے بیان کردہ احکام و قوانین اور ارشادات عین انسانی فطرت سے ہم آہنگ اور موافق ہیں کیونکہ آپ اللہ تعالی ٰکےآخری پیغمبرہیں جس نے انسانی فطرت اور مزاج کوتخلیق فرمایا ہےلہٰذا انسان کا مزاج شناش اور فطرت شناش، خالقِ انسان سے زیادہ اور کون ہوسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ آپﷺ کی سیرتِ طیبہ میں انسانی فطرت اور مزاج کی جو رعایت نظر آتی ہےیقیناََ اس کی نظیر اور مثال کہیں اور نہیں ملتی ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ خود ساختہ انسانی قوانین میں ردوبدل اور ترامیم ہوتی رہتی ہیں مگر آپﷺکی سیرتِ طیبہ میں اس کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی بلکہ وہ ہر ملک کے باسی اور ہر زمانے کے پیدائشی انسان کے مزاج اور فطرت کے بالکل مطابق ہےخلاصہ یہ کہ آپﷺکی سیرت میں انسانی نفسیات اور فطرت کی مکمل رعایت رکھی گئی ہےانسانی نفسیات کی کوئی بھی کیفیت ہو چاہے وہ خوشی یا غمی ہو، بیماری ہو یا صحت، بچپن کادورہو یا جوانی کازمانہ یا بڑھاپا طاری ہوآپﷺنے ہرحال، ہر آن اور ہر مرحلہ پر انسانی مزاج کے موافق احکام وقوانین مقرر کئے ہیں۔ انسانی فطرت کا ایک لازمی حصہ دل لگی اورمزاح ہے جو خود خالق انسان نے اس میں ودیعت فرمایا ہے۔

      خوش طبعی بلاشبہ ایک عظیم نعمتِ خداوندی ہے خوش طبعی اور مزاح ایک ایسی سرور آگیں اورپُرکیف کیفیت ہے جو اللہ تعالیٰ نے تقریباً ہر انسان میں ودیعت فرمائی ہےیہ ایک الگ معاملہ ہے کہ کسی کو کم تو کسی کوزیادہ نوازا ہے انسان سے اس کا ظہور بکثرت خوشی کے موقع پر ہوتا رہتا ہے، خوش طبعی دلوں کی پژمردگی کو دور کرکے ان کو سرور و انبساط کی کیفیت سے ہمکنار کرتی ہے۔ عقل وفہم کی تھکاوٹ دور کرکے نشاط اور چسُتی پیداکرتی ہےاسی طرح جسمانی اضمحلال کو ختم کرکے فرحت وراحت پہنچاتی ہے روحانی تکدر اورآلودگی کو مٹاکر آسودگی کی نعمت سے روشناس کراتی ہےیہ ایک عمومی مشاہدہ ہے کہ اسی نعمت کےذریعہ مصیبت زدہ اور غم کے مارےہوئے انسان کے سرسے غم واندوہ کے بادلوں کو ہٹایا اور چھٹایا جاتا ہے([23]

ذیل میں آپﷺ کے کچھ مزاحی رویّوں کو نقل کیا جاتا ہے تاکہ متبعین سنت کے لئے یہ فطری اور نفسیاتی جذبہ بھی دیگر متعدد فطری جذبات کی طرح عبادت بن جائےچنانچہ روایت ہےکہ آپﷺ ازراہ مذاق انس ؓکو بلاتے وقت فرماتے:

يَا ذَا الأُذُنَيْنِ اے دوکانوں والے([24])

اسی طرح ایک دیہاتی صحابی تھا جس کانام زاہر بن حرام([25]) تھا آپﷺ اس کے ساتھ مزاح کیاکرتے تھے چنانچہ اس حوالے سے ایک روایت ہے زاہر بن حرام نامی ایک دیہاتی تھاجو آپﷺ کے لئے دیہات سے ہدیہ لایاکرتاتھا اور جب وہ واپس جاتے تو آپﷺ بھی اسے سامان ضرورت سے نوازتےاور فرماتے کہ زاہر ہمارا دیہاتی ہے اور ہم اس کے شہری ہیں ، (مطلب یہ کہ وہ ہمارے لئے دیہات کی اشیاء لاتا ہے اور ہم اسے شہری چیزیں عنایت کرتے ہیں)آپﷺ اس سے محبت رکھتے تھے اور وہ صورت کے اعتبار سے خوبصورت نہ تھے، ایک دن آپﷺ تشریف لائے اور زاہرؓ اپناسامان فروخت کررہے تھے تو آپﷺنے اسے پیچھے سے پکڑلیا جبکہ زاہرؓ کو آپﷺ نظرنہیں آرہےتھے تو اس نے کہا، ارے کون ہے؟ مجھے چھوڑ دوجب اس نے پیچھے مڑکر آپﷺ کو پہچاناتو آپﷺ کے سینہ مبارک کے ساتھ اپنے آپ کو اور زیادہ چمٹالیا اور آپﷺ آواز لگانے لگے کہ کون اسے خریدے گا؟ زاہر نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ تب توآپ مجھے کھوٹا پائینگے(مطلب یہ کہ میں تو حسن وجما ل سے عاری ہو )تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم اللہ کے ہاں کھوٹےنہیں ہو۔ ([26])

ایک دفعہ ایک صحابی ؓ نے آپﷺ سے اونٹ کامطالبہ کیا تو آپﷺنے ازراہِ تفنن اسے فرمایا میں تمہیں سواری کے لیے اونٹنی کا بچہ دوں گا اس آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں اونٹنی کا بچہ لےکر کیا کروں گا ؟ توآپ ﷺ نے فرمایا بھلا اونٹ کو اونٹنی کے سوا کوئی اور بھی جنتا ہے ؟ یعنی جب سائل کو تعجب ہوا کہ اونٹنی کا بچہ تو اس قابل نہیں ہوتا کہ اس پر سواری کی جائےاورمجھےتو سواری کی ضرورت ہے تو آپﷺ نے اپنے مزاح کا انکشاف کرتےہوئے اور اس کے تعجب کو دور کرتے ہوئے فرمایا کہ بھائی میں تجھے سواری کے قابل اونٹ ہی دے رہا ہوں مگر وہ بھی تو اونٹنی ہی کا بچہ ہے([27])اسی طرح ایک معمر صحابیہؓ نے آپﷺ سے دخولِ جنت کی دعا کی درخواست کی تو اس پر آپ ﷺنے مزاحاً فرمایاکہ بڑھیا جنت میں داخل نہیں ہوگی وہ عورت قرآن پڑھی ہوئی تھی اس نے عرض کیا بوڑھی کے لئے دخولِ جنت سے کیا چیز مانع ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کیا تم نے قرآن میں نہیں پڑھا ہم جنتی عورتوں کو پیدا کریں گے پس ہم ان کو کنواریاں بنادیں گے([28]

خلاصۃ البحث

ان تمام مباحث کا خلاصہ یہ نکلتاہےکہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو انسانی نفسیات کے علم سےخوب نوازاتھاچنانچہ آپﷺنے ایسے رویّےاپنارکھے تھےجوعین انسانی نفسیات کے مطابق تھے۔اور حضرت محمد ﷺ کا اسوہ حسنہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے ۔ اگر آج کےاس ڈپریشن اور اعصابی تناؤکے دورمیں ہم آپﷺکے رویّوں کو اپنالے تو ہماری معاشرتی زندگی میں خود بخود خوشیوں بھرا ماحو ل پیداہوجائےگااور ہمارے بہت سارےمعاشرتی اور نفسیاتی مسائل بہت آسانی سے حل ہوجائینگے ،کیونکہ جس طرح معاشرہ میں افراتفری اور بے چینی اور بے یقینی کی صورتحا ل ہے اس کی بنیادی وجہ بھی اسلامی تعلیمات سے انحراف اور محمدرسول اللہ ﷺ کے کامل اتباع سے دوری ہے۔

 

حوالہ جات

  1. ۔ مغل،طارق محمود، معاشرتی نفسیات، ص22،اردوسائنس بورڈلاہور،2013ء۔
  2. ۔ Rod Plotnik, Haig Kouyoumdjian, Introduction to Psychology, page581,ninth edition.
  3. ۔ ٹی ایم یوسف، صائمہ یوسف، جدیدنفسیات ، ص387، علمی کتب خانہ، لاہور، 2006ء۔
  4. ۔ ایضا، ص198۔
  5. ۔ دلائی لامہ، خوش رہنے کافن، ص52،مترجم ، سیدعلاؤالدین، سٹی بک پوائنٹ کراچی، 2014ء۔
  6. ۔ مسلم، مسلم بن الحجاج ابوالحسن القشيري (المتوفی261ھـ)، الجامع الصحیح ج1، ص74، دار احياء التراث العربي – بيروت،1954ء۔
  7. ۔ بخاری، ابو عبداللہ محمد بن اسماعيل(ف256ھ)، الجامع الصحیح ، ج1،ص12،دار طوق النجاةبیروت،2001ء۔
  8. ۔ خوش رہنے کافن ، ص52۔
  9. ۔ بیہقی، احمد بن الحسين بن علي(المتوفى: 458ھـ)، شعب الإيمان ، ج11، ص202، مكتبۃ الرشد للنشر والتوزيع رياض،2003 ء۔
  10. ۔ خوش رہنے کافن ، ص60۔
  11. ۔ ترمذی،ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ(ف279ھ)،السنن، ج4، 3712،مصطفى البابی الحلبی،مصر،1975ء۔
  12. ۔ایضا، ج4، ص 235۔
  13. ۔ بخاری ج7، ص53۔
  14. ۔ حنبل، ابو عبد الله احمد بن محمد بن حنبل، مسنداحمد (ف، 241ھـ) ج36، ص545، مؤسسۃ الرسالۃ ، 2001 ء۔
  15. ۔ بخاری، الجامع الصحیح ، ج8، ص30۔
  16. ۔ ایضاََ، ج6 ، ص59۔
  17. ۔ ابن ماجہ، ابو عبدالله محمدبن يزيد ، (ف273ھ)، السنن، ج4، ص646، داراحياءالكتب العربیۃ بیروت، 2009ء۔
  18. ۔ ایضاََ، ج3، ص321۔
  19. ۔ مسلم ، ج4، ص2003۔
  20. ۔ امام ابوداود، ابوداودسليمان بن الاشعث(ف 275ھ)، السنن، ج7، ص186، المكتبۃ العصريۃ، صيدا، بيروت، س اشاعت ندارد۔
  21. ۔ ابن ماجہ، السنن، ج2، ص1420۔
  22. ۔ مسلم ،ج14، ص381۔
  23. ۔ اداریہ، ماہنامہ دارالعلوم دیوبند، ص2، 2008ء۔
  24. ۔ ترمذی، السنن، ج3، ص426 ۔
  25. ۔یہ بدری صحابی ؓتھےحجازکےرہنےوالےتھے نسبااشجعی تھے،اور یہ دیہات میں رہتےتھے۔الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب،ج2،ص509۔
  26. ۔ ملا علی قاری، علي بن محمد(المتوفى: 1014ھـ)، مشكاة المصابيح، ج3، ص 1370، دار الفكربيروت لبنان، 1422ھ/2002ء۔
  27. ۔ترمذی، السنن، ج3، ص425۔
  28. ۔ابو عبد الله، محمدبن عبدالله الخطيب العمری(المتوفى:741ھـ)، مشكاة المصابيح، ج 3، ص1369، المكتب الاسلامی بيروت، 1985۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...