Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 2 Issue 1 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

سپین اور ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی زوال کے مشترک اسباب اور اسلامی تعلیمات |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

1

Year

2015

ARI Id

1682060029336_858

Pages

64-77

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/85/76

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/85

Subjects

Muslims Spain India Bad governance Nationalism

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

بر صغیر پاک و ہند اور اُندلس ہر دو سلطنتوں پر مسلمانوں کی اقتدار کی کرنیں چمکیں تھیں ۔ دونوں ہماری روایات اور تہذیب و تمدن کے انمیٹ نقوش آج بھی سینے پر سجائے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کی عظیم تاریخی ورثے جس میں فن تعمیر، آرٹ ،مذہب، زبان اور رسوم و روایات شامل ہیں،یہ دونوں علاقے اُس کے امین ہیں۔

زوال کے مشترکہ اسباب:

مسلمانوں نے اپنے عظیم قدم سپین اور ہندوستان کی سرزمین پر رکھے اور وہاں پر ایک منظم اور باوقار حکومت کا قیام لائے اور پھر ایک ایسا دور بھی آیاکہ مسلمان اس سرزمین میں دوسروں کے غلام بن کر زندگی بسر کرنے لگے۔آخر وہ کون سے وجوہات تھے۔جنہوں نے مسلمانوں کو بادشاہت کے تخت سے اتار کر غلامی کی زنجیروں میں قید کر لیا؟ذیل میں اُن عوامل کا مختصر تذکرہ پیش کیا جاتا ہے۔

)۱(مسئلہ خلافت۔

خلافت مصدر ہے۔اس کا مادہ  ’’ خلف ‘‘ ہے اور اسی سے ’’ خلیفہ ‘‘ ہے ۔خلافت کے لغوی معنی نیابت اور قائم مقام کے ہیں۔ خَلَفَ  کے معنی پیچھے رہ جانے اور کسی کا جانشین ہونے کے ہیں۔یہ  تَقَدَمَ اور سَلَفَ کی ضد ہے۔ جو مرتبہ میں گرا ہوا ہو،اسے  خَلف بھی کہا جاتا ہے۔اسی بنا پر ردی چیز کو خَلفُ کہتے ہیں۔(1)نبی کریم ﷺ کے بعدخصائص و نتائج کے اعتبار سے خلافت دو سلسلوں میں منقسم ہو گئی۔پہلا سلسلہ خلافت راشدین کا تھا۔وہ صحیح معنوں میں منصب نبوت کے جانشین اور دوسرا سلسلہ مجرد حکومت و بادشاہت کا تھا۔اسلام نے قیام اقتدار اور تشکیلِ حکومت کے لئے شوری کا طریقہ تجویز کیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"اور ان کا ہر کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے"۔(2)

حضرت ابوبکر صدیقؓ،حضرت عمر ؓ،حضرت عثمان ؓ،حضرت علیؓ کا طریقہ انتخاب ہمارے سامنے موجود ہے(3)کیونکہ انسان اس دنیا میں خلیفہ بھیجاگیا ہے۔جس کے بارے میں قرآن واضح فرماتا ہے۔

وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ إِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الأَرْضِ خَلِیْفة(4)

"جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہاکہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں"۔

لیکن یہ خلافت صحیح اور جائز خلافت صرف اُسی صورت میں ہو سکتی ہے جب کہ یہ مالک حقیقی کے حکم کے تابع ہو۔اگر اس کی روگردانی کی جائےتو پھر وہ خلافت نہیں بغاوت بن جاتی ہے۔ ارشاد باری ہے:

هُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلَائِفَ فِیْ الْأَرْضِ فَمَن کَفَرَ فَعَلَیْهِ کُفْرُهُ وَلَا یَزِیْدُ الْکَافِرِیْنَ کُفْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ إِلَّا مَقْتاً وَلَا یَزِیْدُ الْکَافِرِیْنَ کُفْرُهُمْ إِلَّا خَسَاراً۔ (5)

" اسی نے تمہیں زمین میں جانشین بنایا ہے۔کفرکرنے والے ہی پر اس کا کفر پڑے گا۔کا فروں کا کفر انہیں ان کے رب کے ہاں بیزاری اور ناخوشی میں ہی بڑھاتا ہے اور کافروں کاکفر کا فروں کے حق میں سوائے نقصان کے اور کچھ زیادتی نہیں کرتا"۔

احادیث  مبارکہ کی روشنی میں خلیفہ کا مقام یہ ہونا چاہیے:

" ابوھریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم حکومت کا لالچ کرو گے اور یہ قیامت کے دن تمھارے لئے باعث ندامت ہو گی۔پس کیا ہی بہتر ہے دودھ پلانے والی اور کیا ہی بُری ہے دودھ چھڑانے والی"۔(6)

یہی جھگڑے امت مسلمہ کی حکومت کو سپین اور ہندوستان میں ختم کرنے کا سبب بنیں۔سپین میں مختلف ادوار میں ملوک الطوئف،ہشام ثانی(۳۶۶ھ )میں اُن کی حکومت،المرابطین اور الموحدین کا یکے بعد دوسرے اندلس پر مسلط ہونا،بنو نصر کے وقت اورابوالحسن کی تخت نشینی کے مسائل،(7)ہندوستان میں محمود غزنوی کے بیٹوں کے درمیان جھگڑا،جلال الدین خلجی کا تخت سنبھالنا اور اُن کے بیٹے اور شہزادوں کے ساتھ اُ ن کا سلوک ،سادات خاندان کی اولاد،لودھی کی اولاد اور پھر مغل خاندان کی آپس میں خلافت کا حصول یہی طریقہ رائج تھا۔(8)لہذا مسلمانوں کی سیاسی زوال میں مسئلہ خلافت  سے روگردانی کا اہم کردار تھا۔

)۲(تخت کے حصول کیلئے خلفاء کی آپس کی دشمنی:

قرآن آپس کی دشمنی اور  اس بدنظمی کی مذمت کرتا ہے۔ ابتدائے خلیفت میں جب خدا نے اپنے خلیفہ کی حیثیت سے انسان کی تخلیق کا ارادہ فرمایاتو اُن سے عہد و میثاق لیاکہ وہ خون ریزی نہیں کریں گے۔قرآن پاک کا بیان یوں آیا ہے:

وَإِذْ أَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ لاَ تَسْفِکُونَ دِمَاءکُمْ وَلاَ تُخْرِجُونَ أَنفُسَکُم مِّن دِیَارِکُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنتُمْ تَشْهَدُون۔(9)

"اور جب ہم نے تم سے وعدہ لیاکہ آپس میں قتل نہ کرنا اوراپنوں کو جلاوطن نہ کرنا۔تم نے اس کا اقرار کیااورتم اس کے شاہد بنے"۔

اس طرح کی خانہ جنگی اور اقتدار کے حصول کے لئے دوسروں کو نیچا دکھانے،  کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَا تَعْثَوْا فِیْ الْأَرْضِ مُفْسِدِیْن ۔(10)"اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو"۔

دوسری جگہ ارشاد ہے: إِنَّ اللّهَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلَی أَهلِهَا۔(11)

"اللہ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ"۔اور جب کوئی خلیفہ ان قوانین کے مطابق اقتدار میں آجائے تو اُن کے ساتھ اللہ کی مدد اوررضا شامل ہوتی ہے۔قرآن میں ارشاد ہے:

وَآتَیْنَاهُ الْحِکْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ۔(12)        

"اور ہم نے اسے (امور حکمرانی بہتر طور پر چلانے کے لئے)حکمت ودانائی اور فیصلہ کن بات کرنے کی صلاحیت عطا فرمائی"۔

لہذا قوم کے نمائندے وہ اشخاص ہوں جو صاحب حکمت و بصیرت ہوں۔معاملات کی صحیح سوجھ بوجھ رکھیں۔بخاری شریف کی حدیث ہے۔

حدثَنَا عبد الرحمٰن بن سمرة(13) قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه و سلم يا عبدالرحمن بن سمرة لا تسأل الإمارة فإنك إن أعطيتها عن مسألة وكلت إليها وإن أعطيتها من غير مسألة أعنت عليها وإذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فكفر عن يمينك وائت الذي هو خير۔(14)

"عبدالرحمن بن سمرہؓ نے بیان کیاکہ اُن سے رسول ﷺ نے فرمایا:اے عبد الرحمن ابن سمرۃؓ حکومت طلب مت کرنا۔کیونکہ اگر تمہیں مانگنے کے بعد امارت ملی تو تم اُس کے حوالے کر دئیے جاؤ گے اور اگر تمہیں مانگے بغیر ملی تو اس میں تمھاری مدد کی جائے گی۔اور اگر تم کسی بات پر قسم کھا لواور پھر اُس کے سِوا

دوسری چیز میں بھلائی دیکھو تو وہ کرلوجس میں بھلائی ہواور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرو"۔

اسی طرح حضرت محمد ﷺ کی ایک اور  حدیث ہے۔

عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ(15)، قَالَ دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَا وَرَجُلاَنِ مِنْ

قَوْمِي فَقَالَ أَحَدُ الرَّجُلَيْنِ أَمِّرْنَا يَا رَسُولَ اللهِ وَقَالَ الآخَرُ مِثْلَهُ فَقَالَ إِنَّا لاَ نُوَلِّي هَذَا مَنْ سَأَلَهُ، وَلاَ مَنْ حَرَصَ عَلَيْهِ۔(16)

" ابو موسیٰ ؓ نے بیان کیاکہ میں نبی ﷺ کے خدمت میں اپنے قوم کے دو آدمیوں کو لے کر حاضر ہوا۔اُن میں سے ایک نے کہاکہ یا رسول اللہ ہمیں کہیں کا حاکم بنا دیجئےاور دوسرے نے بھی یہی خواہش ظاہر کی۔اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا:کہ ہم ایسے شخص کو ذمہ داری نہیں سونپتے جو اسے طلب کرے اور نہ اسے دیتے ہیں جو اس کا حریص ہو"۔(17)

یہی آپس کے جھگڑے مسلمانوں کی سپین اور ہندوستان میں حکومت کے خاتمے کے سبب بنے۔(18)مثلاََ سپین میں خلیفہ سلیمان کا قتل،سلطان ہشام کے خلاف اُن کے بھائیوں کا دعویٰ،المنصور اور خود خلیفہ ہشام کا قتل،علی بن حمود کے بعد بغاوتیں،یوسف ابن الاحمر اور بعد میں پیدا ہوئی بغاوتیں۔(19)ہندوستان میں سبکتگین کی اولاد میں لڑائی،محمود غزنوی کے بیٹوں کی آپس کی لڑئی،التمش اور دوسرے شہزادوں میں لڑائی،رضیہ سلطانہ کا دور،خلجی حکومت کی آپس کی لڑائی،جلال الدین کی اولاد کی تباہی،تغلق دور میں بہائوالدین ،ابراہیم لودھی کی اولاد،شیرشاہ سوری دور میں اور شاہ جہان کی اولاد میں لڑائی (20)یہ ظاہر کرتی ہے کہ مسلمانوں کے سیاسی  زوال میں یہ نقطہ  اہم کردار ادا کر رہا تھا۔

)۳ ( نسلی اور قبائلی تعصب:

دین اسلام کےظہور کے ساتھ نسلی اورقبائلی تعصب ختم ہوا۔قرآن میں جماعت اور قبیلہ کے لئے  شُعُوباً وَقَبَائِل (21)کا لفظ استعمال کیا گیاہے۔اَلشَّعِبُ اس قبیلہ کو کہتے ہیں جو ایک قوم سے پھیلا ہو۔اس کی جمع  شَعْوُب بیان کی گئی ہے۔(22)اندلس کے  فتح کے بعد  ایک اہم وجہ قوم بربر پر اسلامی تمدن کا ایک ایسا اثر ہوا کہ وہ اپنے آپ کو عربوں کے برابر سمجھنے لگے مثلاََ سپین میں موسیٰ بن نصیر کے ساتھ رویا،امیر ایوب بن حبیب اللخمی اور امیر الحر بن عبدالرحمن کے درمیان مسئلہ،ہشام ابن عبدالملک کا دور،عبدالرحمن ثالث کا دور ،بنو نصر اور بربر قوموں کی بغاوت،جو شروع سے جاری تھی۔اس کے علاوہ مختلف ادوار میں جاگیریں اور مراعات دینا بھی نسلی تعصب کا ایک اہم ذریعہ بنا۔(23)ہندوستان جس میں شروع سے ذات پات کا نظام رائج تھا،مسلم دور میں علاؤ الدین کا دورحکومت ،التمش کے بعد اُن کے غلاموں کا کردار، معزالدین کے دور میں نظام الدین کا کردار،شہاب الدین بن علأو الدین کے دور میں خاندانِ علائی کے ساتھ سلوک اور مغل دور

میں مختلف یورش کا اصل مسئلہ یہی تھا۔(24)قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:

یَا أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاکُم (25) ۔ "اے لوگو ! ہم نے تم سب کو ایک مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو۔تمھاری جماعتیں اور قبیلے بنا دئیے ہیں۔اللہ کے نزدیک تم سب میں سے عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہو"۔

قرآن میں دوسری جگہ پر نسلی وحدت کے بارے میں ارشاد ہے:

یَا أَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً کَثِیْراً وَنِسَاءّ۔(26)

"لوگو اپنے اس پروردگار سے ڈروجس نے تمہیں ایک شخص سے پیدا کیااور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کرکے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں"۔

حضورﷺ کی ایک حدیث مبارکہ ہے :

عن جبیر بن مطعمٍ (27)  ان رسول الله ﷺ قال لیس منا من دعا الی عصبیة ولیس منا من قاتل علی عصبیة ٍ ولیس منا من مات علی عصبیة۔(28)

"جبیر بن مطعم ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ہم میں سے نہیں جو شخص بلاوے لوگوں کو تعصب کی طرف اور جو شخص لڑے تعصب سے اور جو شخص مرے تعصب پر"۔

لہذا سیاسی زوال میں نسلی اور قبائلی تعصب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

)۴( نااہل خلفاء۔

اگر ہم برصغیر پاک و ہند کی مسلم تاریخ کا مطالعہ کریں تو مختلف ادوار میں ایسے بادشاہ گزرے ہیں جنہوں نے اپنی نااہلیت ثابت کی ہے ۔جیسے کہ محمود غزنوی کے بعد اُن کی اولاد،تغلق خاندان کے آخری فرماں روا،مبارک شاہ کا شہزادوں کو قتل کرنا،ناصرالدین کا دور اور شہاب الدین کے بعد اُن کی اولاد کا تخت کے حصول کے لئے لڑنا اُن کی نا اہلی ثابت کرتی ہے۔(29)دوسری طرف سپین کے  مسلم دور کے مطالعے کے بعد ہمیں پتہ چلتا ہے کہ سپین میں شروع سے بادشاہ تبدیل کرنا اُن کی ایک عادت بن گئی تھی۔عبدالرحمن اول ایک اچھے انسان تھے پر اُن کے جانشینوں نے نااہلی کا ثبوت دیا۔المنصور کا دور حکومت،المہدی (۱۰۱۰ء)اور اُن کی عیش و عشرت،بنوحمودکے دور حکومت میں تخت نشینی ،المرابطین اور الموحدین کے آخری جانشین ،بنو نصر اور الاحمرکے آخری فرماں رواؤں کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہےکہ ان جانشینوں میں کافی لوگ نااہل تھے ۔(30)

قرآن و حدیث میں خلفاء کے حوالے سے  مکمل قوانین درج ہیں۔قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

‘‘اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ’’۔(31)

اس کے ساتھ اللہ نے قرآن میں یہ بھی فرمایاہے کہ ظالم فاجر ،خدا سے غافل،اور حد سے گزر جانے والے کی امارت اسلام کی نظر میں باطل ہے۔

وَلَا تُطِیْعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَ()  الَّذِیْنَ یُفْسِدُونَ فِیْ الْأَرْضِ وَلَا یُصْلِحُونَ۔(32)

"بے باک حد سے گزر جانے والوں کی اطاعت سے باز آجاؤجو ملک میں فسادپھیلا رہے   ہیں اور اصلاح نہیں کرتے"۔

قرآن کی طرح حدیث میں بھی خلفاء کے منتخب کرنے کا طریقہ اور اُن کے خصوصیات بتادئیے گئے ہیں۔صحیح بخاری کی حدیث ہے۔

عن معقلٍ (33) سمعته من رسول الله ﷺ یقول مامن عبد استرعاه الله رعیةً فلم یحطهٰا بتصیحةٍ الا لم یجد رائحةَ الجنةِ۔(34)

"معقلؓ نے بیان کیاکہ ایک ایسی حدیث جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔آپؐ نے فرمایا:جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو کسی رعیت کا نگران بناتا ہے اور وہ خیر خواہی کے ساتھ اس کی حفاظت نہیں کرتاتو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پا سکے گا"۔

ایک اور حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا ہے۔

عن عبد الله بن عمر(35)  قال: قیل لعمر الا تستخلف؟ قال ان اَستخلف فقد اترک من هو خیر منی رسول ﷺ فانتوا علیه فقال۔۔الخ۔۔۔۔ولا علیّ لا اتجلها حیاوّ میتاً۔(36)

" عبد اللہ بن عمر ؓ نے بیان کیاکہ عمرؓ سے کہاگیاکہ آپ کسی کو خلیفہ کیوں منتخب نہیں کرتے ۔آپؓ نے فرمایاکہ اگر کسی کو خلیفہ منتخب کر لیتاہوں۔( تو اس کی بھی مثال ہے کہ)اس شخص(ابوبکرؓ) نے اپنا خلیفہ منتخب کیا تھاجو مجھ سے بہتر تھا۔اور اگر میں اُسے چھوڑتا ہوں۔تو(اُس کی بھی مثال موجود ہے کہ) اس ذات (رسولﷺ)نے ( تو خلیفہ کا انتخاب مسلمانوں کے لئے )چھوڑ دیا تھاجو مجھ سے بہتر تھے۔ لوگوں نے آپ کی تعریف کی۔پھر آپ نے فرمایاکہ مجھے رغبت بھی ہے اور ڈرتا بھی ہوں اور میری تو یہ تمنا بھی ہے کہ (خلافت کی ذمہ داریوں کے سلسلے میں اللہ کی بارگاہ میں )برابر نجات پاؤں۔مجھے کچھ ثواب ملے اور نہ کوئی عذاب ۔ میں زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی اس کے بار کو نہیں اٹھاؤں گا"۔

(۵)عیش و عشرت:

قرآن میں عیش و عشرت کو  ’’ مُتْرِف’‘‘‘ کے لفظ سے یاد کیا گیا ہے۔اور اَلتَرفۃَ  عیش و عشرت میں فراخی اور وسعت کو کہتے ہیں۔(37)ہندوستان کے مسلم دور میں رکن الدین فیروز،علأوالدین اور معزالدین  کی عیش و عشرت،مبارک شاہ کے دور میں عورتوں کی فراوانی اورمذہبی حالت،مغل دور میں جیسے داراشکوہ(شاہ جہان)اور بعد کے اکثر مغل بادشاہ نے عیش و عشرت کی انتہا کر دی۔(38)دوسری طرف سپین کے مسلم دورمیں المہدی کا دور ،الناصر سے پہلے چند بادشاہ،ہشام الموئد کا دور،محمد مہدی بااللہ،المستعین باللہ اور المستظہرکے دور میں یہ معاملہ کافی عروج پر پہنچ گیا تھا۔(39)

ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِکَ قَرْیَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِیْهَا فَفَسَقُواْ فِیْهَا۔(40)

"جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا ارادہ کر لیتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو کوئی حکم دیتے ہیں پس وہ اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں"۔

نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے :

عن أبی هریرة رضي الله عنه عن النبی ﷺ قال لا تقوم الساعَة۔۔الخ۔۔۔۔ والروم فقال ومن الناس ِ الاَ اولٰئکً۔(41)

" ابوہریرہؓ سے روایت  ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: قیامت اُس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک میری امت اس طرح پچھلی امتوں کے مطابق نہیں ہو جائے گی۔جیسے بالشت بالشت کے اور ہاتھ ہاتھ کے برابر ہوتا ہے۔پوچھا گیایا رسول اللہ ﷺ اگلی امتوں سے کون مراد ہیں؟پارسی اور نصرانی ؟آپ ؐ نے فرمایا: پھر اور کون ؟"۔

خلفاء راشدین میں حضرت ابوبکر ؓ کی زندگی ابتدأ سے لے کر  وفات تک یہ ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح آپؓ کی زندگی نہایت سادہ اور عیش وعشرت سے پاک تھی۔(42)دوسری طرف خلیفہ حضرت عمرؓ فاروق جس نے مسلم حکومت کی بنیادوں کو تقریبا ۲۲ لاکھ مربع میل پر قائم کیا تھالیکن اس کے باوجود آپؓ نہایت سادہ  زندگی گزارتے تھے۔دن کے وقت رعایا کی خدمت میں مصروف عمل تھے ہی رات کو بھی اللہ کی عبادت کے ساتھ ساتھ رعایا کا حال پوچھنے کے لئے نکلتے  تھے۔(43)خلیفہ سوم حضرت عثمانؓ  کی سخاوت کے کئی واقعات مشہور ہیں جیسے  بئر رومہ اورغزوہ تبوک کے موقع پرآپؓ کی خدمات کو نہیں بھولا جا سکتا۔(44)اسی طرح خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کی ساری زندگی مختلف مثالوں سے بھری پڑی ہے لیکن سپین اور ہندوستان میں مسلمانوں نے  اپنے پیغمبرﷺ اور ان خلفأ راشدین کے کارناموں کو سراسر نظر انداز کیاتھا۔

(۶)دولت کی غیر منصفانہ تقسیم:

معاشرے میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم معاشرے کو ختم کر دیتی ہے۔دولت کی گردش سے ہی معاشرہ ترقی کرتا ہے۔’’ الدَّوْلةُ وَالدُّوْلةُ‘‘دونوں کے ایک معنی ہیں۔یعنی گردش کرنا۔جس کے ذریعے لین دین کیا جائے۔او ر  دَوْلَۃُ‘ مصد ر ہے۔یعنی لین دین کرنا۔(45)قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

کَیْلَا یَکُونَ دُولَةً بَیْنَ الْأَغْنِیَاء مِنکُم۔(46)۔

"تاکہ تمھارے دولت مندوں کے ہاتھ میں ہی یہ مال  دست گرداں نہ رہ جائے"۔

جو لوگ مال و دولت کو جمع کرتے ہیں اوراللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے اُن کے لئے دردناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ یُنفِقُونَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِیْم۔(47)

"اور جو لوگ سونے چاندی کو جمع کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دے"۔

حضورﷺ کا ارشاد ہے:

قال رسول ﷺ یا ابن ادم الخ........خیر من الید السفلیٰ۔ (48)

" ابوامامہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: اے بنی آدم ! اپنی ضرورت سے زیادہ جو مال رکھتا ہے اس کو خرچ کر ے گا تو بہتر ہے اور اگر جمع کرے گا تو وہ بُرا ہے۔بقدر ضرورت اور پیٹ بھر مال رکھنے پر تم کو سزا نہ ملے گی۔اول اپنے اہل و عیال پر صرف کرو کیونکہ دینے والا ہاتھ مانگنے والے سے اچھا ہوتا ہے"۔

مسلم تاریخ میں عبدالرحمن اول نے اپنے عزیزوں کو دور سے بلوا کر اچھے اچھے عہدوں پر فائز کیا۔تلواروں کو مزین کرنا ، جاگیریں اور القابات دینا،اسی طرح عبد اللہ کے دور حکومت میں بعض لڑائیاں ان چھوٹی چھوٹی آرائش و زیبائش پر لڑی گئیں۔(49)ہندوستان کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو تقریباََ ہر دور میں القابات اور اپنے لوگوں کو آگے بڑھنے کی ترجیح کا رواج عام  تھااور یہی امیر لوگ بادشاہ کا تختہ اُلٹ دیا کرتے تھے۔جیسے آرام شاہ کی دور حکومت کے حالات،رکن الدین کا دولت عیاشی پر اُڑانا اورالتمش کا غلاموں کی ایک بڑی تعداد قائم کرناجب کہ معزالدین کیقباد،مبارک شاہ اورعلأو الدین کی عیاشی،تغلق اورخاندان سادات کےابتدائی دور کے حالات کے مطالعے سے ہمیں دولت کی تقسیم کابہ خوبی اندازہ ہوتا ہے۔(50)

(۷)ماحول کا اثر:

عام لفظ میں ماحول قرب و جوار، گردو نواح اور وہاں کے طبعی اور ثقافتی حالات کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔(51)سپین کی معاشرتی کیفیت ابتداء ہی سے تنگ نظری ،تعصب ،جہالت ،بے دینی،گمراہی ،تاریکی ،زناکاری ،شراب خوری اورقمار بازی  پر مشتمل تھی۔(52)دوسری طرف ہندوستان کے ہر علاقے کا اپنا ایک ثقافتی مزاج تھا۔جب حضرت عثمانؓ  خلیفہ ہوئے تو عبداللہ بن عامرؓ (53)کو عراق کا گورنر مقرر کیا۔ آپ ؓ نے اُن کو لکھاکہ ہندوستان میں کسی ایسے شخص کو بھیجو جو یہاں کے حالات سے واقف ہواور وہاں کی خیر خبر لائے۔عبداللہ بن عامرؓ نے اس کام کے لئے حکیم بن جبلہ العدوی کو چُنا۔جب وہ ہندوستان سے واپس آئے تو اُنہوں نے دربار خلافت میں ایک خط روانہ کر دیااور حالات کچھ اس طرح بیان کئے کہ حضرت عثمانؓ نے لشکر کو اُس طرف بھیجنا مناسب خیال نہ کیا۔(54)جب محمد بن قاسم نے سندھ کے راستے حملہ کیااور وادی  کوفتح کیاتوہندؤوں کی شکست کے اسباب میں دوسرے مسائل کے ساتھ  اخلاقی اور بے دینی کے وجوہات بھی تھے۔

دراصل زوال اور شکست کے اسباب کا مسئلہ ایسا ہے جس میں عمومامشکل ہوتا ہے کہ قطعی اور بالکل صحیح فیصلہ کر سکیں۔اقوام عالم میں صرف مسلمان ہی وہ قوم ہے جو سب سے زیادہ شاندار تاریخ رکھتی ہے اور سب سے بڑھ کر اپنے بزرگوں کے کارناموں کی نسبت ایسا یقینی علم حاصل کر سکتی ہے جو ہر قسم کے شک و شبہ سے  پاک ہے کیونکہ نہ مسلمانوں کو کسی شاہناموں کی ضرورت ہے اور نہ افسانوں کی۔اسلام سے بیشتر دنیا میں فن تاریخ نویسی کا نام ہی نہیں تھا ۔مسلمانوں نے علم حدیث کی ترتیب و تدوین سے اس کا آغاز کیاجو دنیا والوں کے لئے بالکل ایک نئی چیز ثابت ہوئی۔

مغلیہ سلطنت کے زوال کے اسباب پر اے۔ایچ حسنی لکھتے ہیں:

"مغلیہ حکومت کے زوال کے اسباب میں  درجہ ذیل امور ہو سکتے  ہیں (۱)جانشین کی کمزوری اور نا اہلی (۲)تخت نشینی کا مسئلہ(۳)مغل امراء کا باہمی کشمکش(۴)فوج کی کمزوری اور خامیاں(۵)انتظامی بے ضابطگیاں(۶)مسلسل جنگ اور اقتصادی بد حالی(۷)ہندٔووں کی بیداری "۔(55)

بلبن کہا کرتا تھاکہ"اگر کوئی بادشاہ با رعب نہیں ہوتاتو اس کی رعایا سرکشی اور بغاوت کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔(56)

خلاصہ:

سپین اور برصغیر پاک و ہند پر مسلمانوں نے اپنے دور حکومت میں وہ کارنامے انجام دئیے جس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ لیکن ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ بعض مسلمان بادشاہوں سے وہ غلطیاں سرزد ہوئیں جس کی وجہ سے ان  سلطنتوں  کا شیرازہ بکھرنے لگا۔ اس تاریخی مقالہ کے لکھنے کا مطلب اور مقصود یہ ہےکہ آج بھی مسلم اقوام اگر ماضی سے سبق سیکھ لیں اور اپنے آباء واجداد کی ان لحظوں والے اغلاط کو نہ دہرائیں   جن کی وجہ سے صدیوں نے سزا پائی  تو یقیناً وہ دور بعید نہیں کہ اس دنیا پر ایک بار خلافت راشدہ والا دور آسکتا ہے اور دنیا پھر سے مسلمانوں کے قدموں میں ہوگی۔انشاء اللہ  

 

حوالہ جات

1: اصفہانی ، امام راغب ا، مفردات القران ،اہل حدیث اکادمی لاہور۔تاریخ طباعت جنوری  ۱۹۷۱؁ء   جلد اول۔ص  ،    ۳۱۲۔

2:سورہ الشوریٰ  : ۳۸۔

3: ابو جعفر الطبری ، محمد بن جریر،    تاریخ الامم والملوک(تاریخ طبری)۔مطبعۃ الاستقامۃ با القاھرۃ،  شارع نو بار باشا۱۴۔۱۳۵۸ ھ۔۱۹۳۹ م ۔ج  ، ۵ ، ص ،  ۱۵۲۔

4:سورۃ البقرہ:  ۳۰۔

5:سورہ فاطر :   ۳۹۔

6:ابو عبداللہ بخاریؒ ، محمد بن اسماعیل،   صحیح   البخاری ، دارالسلام للنشر والتوزیع الریاض۔ذوالحجہ  ۴۱۹ مارس  ،  ۱۹۹۹کتاب

الحکام۔باب ۷۔مَا یُکرَہ مِن الحرصِ عَلَی الامَارة۔

7:خلافت اندلس ، نواب ذوالقدر جنگ بہادر ،ص  ،  ۱۴۲  ، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور ۲۰۰۶؁۔

8: محمد قاسم فرشتہ ترجمہ عبد الحی خواجہ  ، تاریخ فرشتہ۔شیخ غلام علی اینڈ سنز لمٹڈ  پبلشرز لاھور، کراچی، حیدرآباد۔ اشاعت  نومبر  ۱۹۶۲،جلد اول ، ص  ،۸۷۔ اے ایچ حسنی ،  تاریخ سلطنت مغلیہ۔حق برادرز انار کلی  لاہور۔ ص ، ۲۲۱۔

9:سورۃالبقرہ  :  ۸۴۔

10:سورۃالعنکبوت:   ۳۶۔

11:سورۃالنساء :  ۵۸۔

12:سورۃص :  ۲۰۔

13:عبد الرحمٰن بن سمرہؓ بن حبیب بن عبد الشمس القرشی، ابو سعید، ایک عظیم صحابی تھے۔آپؓ فتح مکہ کے دن ایمان لائے تھے اور جنگ موتہ میں شریک ہوئے تھے۔ الزرکلی،  خیر الدین ، االاعلام، الجز الربع،الطبعۃ الثانیہ،دارالعلم للملایین،بیروت ،لبنان،۱۹۸۰ ،ص،۷۹۔

14:صحیح بخاری ، کتاب الاحکام ۹۴۔باب ،  ۶۔من سال الامارة ومل الیها۔حدیث  ،  ۷۱۴۷۔

15:عبد الله بن قیس بن سلیم بن حضار بن حرب، الامام الکبیر،صاحب رسول الله ﷺ التمیمی،الفقیه المقری۔شمس الدین الذھبی، محمد بن احمد بن بن عثمان (۷۴۸ھ۱۳۷۴م) سیر اعلام النبلأ ، موسسۃ الرسالہ،بیروت،الطبعۃ الثالثہ،۱۴۰۵ ھ۔۱۹۸۵م،جلد،۲،ص،۳۸۰۔

16:صحیح بخاری ۔کتاب الحکام ۹۴۔باب ۷۔ما یکره من الحرص علی الامارة۔حدیث  ،  ۷۱۴۹۔

17:ترجمہ محمد داود راز  ، صحیح بخاری  ؒ۔جلد ۸ ۔کتاب الاحکام ۹۴۔باب ۷۔حدیث  ، ۷۱۴۹۔ ص  ، ۔۳۷۹

18:مزید مطالعہ کیلئے۔: ابوالکلام آزاد ، مسئلہ خلافت۔دار الشعور یوسف مارکیٹ غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور۔اشاعت جون  ، ۱۹۹۹ء۔

19:خلافت اندلس ،  ص  ،  ۵۴ تا ۲۳۲   ۔

20:تاریخ فرشتہ  جلد اول، ص  ، ۹۸ تا ۴۰۵۔

21:سورۃحجرات:  ۱۳۔                                      

22:مفردات القران جلد اول ۔ص ، ۵۴۰ ۔ باب   ، ش ع ب۔

23: تاریخ اندلس بنی امیہ،عبدالقوی ضیاء ،   ایجوکیشن بکڈپو اسکول روڈ حیدرآباد پاکستان ۱۹۵۷؁ص  ،  ۳۱  تا ۱۲۶۔

24:تاریخ فرشتہ ،ص  ، ۲۶۷  تا  ۴۹۵۔               

25: سورۃحجرات : ۱۳۔

26: سورۃالنساء:۱۔

27: :جبیر بن مطعم بن عدی بن نوفل بن عبد مناف القریشی ،ابو عدی،ایک عظیم صحابی تھے۔ الاعلام ، الجز الثانی،الطبعۃ الثانیہ ، ص،۱۱۲۔

28:سنن ابی داود،  صحیح دارالسلام للنشر والتوزیع الریاض۔ذوالحجہ  ۴۱۹ مارس  ،  ۱۹۹۹  کتاب الادب  ،  ۵۳۷۔باب فی العصبۃ۔ حدیث   ،  ۱۶۸۲۔

29:تاریخ فرشتہ،ص  ، ۱۷۱ تا ۴۶۷،سلطنت مغلیہ ص ، ۲۲۱۔

30:خلافت اندلس ، ص ، ۱۴۷ تا ۲۳۲۔

31:سورۃ النساء: ۵۸ ۔

32:سورہ  شعراء  ۲۶:  ۱۵۱  ، ۱۵۲۔

33:معقل بن یسارؓ بن عبد اللہ المزنی،حدیبیہ سے پہلے مسلمان ہوئے تھےاور بیعت رضوان کے موقع پر موجود تھے۔نہر معقل آپؓ کے نام سے مشہور ہے۔۔ الاعلام،خیر الدین الزرکلی،الجلد سابع،ص،۲۷۱۔

34:صحیح بخاری ۔کتاب الحکام باب ،۸۹۔من استرعی رعیة فَلَمْ ینصح۔حدیث  ،  ۷۱۵۰۔

35:عبد اللہ بن عمرؓبن خطاب العدوی،ابو عبد الرحمٰن،(۱۰ ھ تا ۷۳ ھ)صحابی،فتح مکہ کے دن آپ بھی وہاں پر موجود تھے۔ الاعلام،خیر الدین الزرکلی،الجز الربع،الطبعۃ الثانیہ ،ص،۲۴۷۔

36:صحیح بخاری ۔کتاب الحکام ۔باب ، ۱۱۸۵۔الاستخلاف ۔حدیث  ، ۲۰۸۲۔

37:مفردات القرآن جلد اول۔ کتاب التاء ۔ت ر ف۔ ص ،  ۱۴۴۔

38:تاریخ فرشتہ  ، ص ، ۲۵۷ ، سلطنت مغلیہ ،ص  ، ۲۶۲۔

39:تاریخ اندلس بنی امیہ،عبدالقوی ضیاء ، ص  ،۶۴۴ ۔

40:سورۃ بنی اسرائیل: ۱۶ ۔

41:صحیح بخاری ۔کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ ۹۷۔باب  ،  ۱۴۔،حدیث  ،  ۷۳۱۹۔

42:مزید تفصیل ،بخاری شریف،باب ،ھجرت النبیؐ واصحابہ الیٰ المدینہ۔طبقات ابن سعد۔ج  ، ۳۔ص  ،  ۱۳۶۔

43:صحیح بخاری ۔فضائل اصحابہؓ النبیؐ۔باب  ، ۶ ۔مناقب عمرؓ ،حدیث  ، ۳۶۸۰۔

44:ایضاً۔باب  ،۷۔مناقب عثمانؓ۔

45:مفردات القرآن جلد اول۔کتابُ الدّال۔د ، و، ل۔ ص  ، ۳۵۳۔

46:سورۃحشر  :  ۷۔      

47: سورۃتوبہ:  ۳۴۔

48:ابو عیسیٰ ترمذی ،  سنن ترمذی ۔ حدیث ،  ۴۰۔

49:تاریخ اندلس،ص  ، ۹۳۰ ، ریاست علی ،  تاریخ اُندلس حصہ اول  ، مدرسہ شمس الہدا آینہ،اعظم گڑھ  ۱۹۵۰؁ء ص  ، ۳۱۹۔ خلافت اندلس ،ص  ، ۲۵۹۔

50:تاریخ فرشتہ، ص  ،  ۲۴۷۔ مغلیہ سلطنت،ص  ، ۸۵ تا ۳۹۲۔

51:ڈاکٹر محمد ہاشم قریشی ،  انسان اور اُس کا ماحول۔ فاونڈیشن فار ایجوکیشن ڈولپ مینٹ ، ۱۶۲ ۔جوگا بائی ایکسٹینشن جامعہ نگر نئی دہلی ۱۱۰۰۲۵۔سن اشاعت۔۱۹۹۳ء۔ ص  ، ۸۔

52: تاریخ اندلس ، عبدالقوی ضیاء، دورِ بنی اُمیہ  ۷۱۱ء؁  مطابق  ۹۲ھ  تا  ۱۲۲۵ء  مطابق  ۶۲۰ھ  الایئڈ بک کارپوریشن۳۷ لبرٹی مارکیٹ حیدر آباد سندھ پاکستان جون ۱۹۵۷؁    ۔ص  ،  ۲۹۔

53:عبد اللہ بن عامر بن کریز بن ربعۃ الاموی(۴ ھ تا ۵۹ ھ)،ابو عبد الرحمن،آپ عثمانؓ کے دور میں بصرہ کے حاکم تھے۔ الاعلام،خیر الدین الزرکلی،الجز الربع،الطبعۃ الثانیہ ،ص،۲۲۸۔

54:احمد بن یحیی بن جابر البغدادی ،  فتوح البلدان ۔(بالقاھرہ المغربۃ۔الاولی)طبع مطبعۃ الموسوعات،  شارع باب الخلق عصر۔سن ۱۳۱۹ ھ۔(المکتبہ الحجازیۃ لاھور)  باب فتوح سند ۔ص  ،   ۴۳۸۔

55:مغلیہ سلطنت اے ایچ حسنی ،ص  ،  ۳۹۲۔

56:تاریخ فرشتہ ،ص  ،  ۲۸۳۔

 

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...