Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 6 Issue 2 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

شوکازنوٹس کا طریقۂ کار: قرآنی احکامات کے تناظر میں جائزہ |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

6

Issue

2

Year

2016

ARI Id

1682060029336_889

Pages

34-42

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/169/159

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/169

Subjects

Human rights Correspondence SCN procedure Holy Qur᾽an

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اسلام کا نظام عدل ومساوات اس دین کے عناصرِ کاملیت میں سے وہ عنصر ہے جو معاملاتی حیثیت سے دوسرے ادیان میں اِسے جداگانہ مقام عطا کرتا ہے۔ عدل کا یہ تصور اِتنا واضح اور عیاں ہے کہ ایک بندے کے حقوق کی ادائیگی میں دوسرے کی حق تلفی کا امکان تک نہیں ہوتا۔ خواہ یہ حقوق عقائد، عبادات، معاملات، اخلاق وآداب اور جرم وسزا یعنی عقوبات میں سے کسی بھی پہلو سے تعلق رکھتے ہوں ہر جہت سے اپنے متعلقات کی تعین کرکے دم لیتے ہیں۔ اسلام نے اِن تمام امور میں مساوات قائم کرنے کا درس دیا ہے تا کہ اس دین کے ماننے والے ہر حوالہ سے ایک پُر امن وپُرسکون زندگی بسر کر سکیں۔

مساواتی زندگی کے اِ س میدان میں اگر ہم رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپ ﷺ بھی اپنے آپ کو نظام عدل کے سامنے پیش کرکے رہتی دنیا کے لئے یہ پیغام چھوڑ جاتے ہیں کہ قانون سے کوئی مستثنیٰ نہیں۔ اِس لئے جب قبیلۂ بنو مخزوم کی فاطمہ نامی ایک خاتون نے فعلِ سرقہ کی مرتکب ہوئی اور اس کی سفارش کے لئے سیدنا اسامہ بنِ زیدؓ سامنے آئے تو سیدنارسول اللہ ﷺ نے یہ کہہ کر سفارش ٹال دی کہ اگر فاطمہ ؓ بنتِ محمد (ﷺ)بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔[1]اور یہی عدل بعد میں خلفاء راشدین ؓ نے اپنے لیےمشعل راہ بن بنا کر ترقی کے زینے پار کئے۔ جن میں سرِِِفہرست سیدنا ابو صدیق ؓ کا تطبیقی نظام ِعدل ہے جس میں انہوں نے مالی سہولیات میں خوِد کو ایک عام مزدور کے برابر سمجھ کر دنیا کے لئے ایک نمونہ چھوڑا۔

اگر درج بالا واقعہ میں پیغمبرانہ روش سے ماوراء قانون کے عملی نفاذ کا جائزہ لیا جائے تو کچھ ایسی واقعات رو نما ہوئیں جس میں خالق کائنات نے عالم الغیب ہونے کے باوجودایک ایسا قانونی طریقۂ کار سمجھاکر فیصلہ صادر فرمایا ہےجو عدل وانصاف کے بنیادی اصول بہم فراہم کرتی ہیں اور مخلوق کو ایک متعین قانونی نظام کا پابند بنا کر عدل کا مطالبہ کرتا ہے جو عدل قائم کرنے کے لیے ازحد ضروری ہے۔ یہی طریقۂ کار عدالتی اصطلاح میں شوکاز نوٹس کہلاتا ہے ۔ قرآن کریم نے مختلف واقعات میں جابجا اس نظام کے عملی اقدام کو بیان فرما کر سراہا ہے۔ بہر حال ان واقعات کا بعد میں تفصیلی جائزہ شامل بحث ہوگا تا کہ قرآن مجیدکا پیغامِ امن وعدل صحیح طورسے سمجھا جا سکے۔

شکایت/اعتراض کی تحریری یا تقریری موصولی

جب کسی شخص سے کسی قابلِ مؤاخذہ امر یعنی قول وفعل کا صدور ہوتا ہے یا اس کے خلاف کوئی تحریری یا تقریری شکایت موصول ہوتی ہے تو اس پر مزید کاروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔ جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی ٰ سےعرض کیا کہ تو کیسے مردوں کو زندہ فرماتا ہے تو بہ ظاہر اُن کا یہ قول مشتبہ تھا جس پر اُن سے مزید وضاحت مانگی گئی۔[2] اسی طرح جب سیدنا یوسف علیہ السلام پر حاکم ِ مصر کی بیوی نے با قاعدہ طور پر الزام لگایا کہ اس نے ارادۂ سوء کا ارتکاب کرکے مجھے بری نگاہ سے دیکھا ہے اس الزام تراشی میں کسی قسم کی کوئی غیر واضح کلام موجود نہیں۔ بلکہ جو زلیخا کا مقصد تھا اسی کی نشان دہی کرتا ہے۔ [3]اسی طرح جب ابلیس نے سیدنا آدم علیہ السلام کو [نعوذ باللہ] اُن کا مسخرہ اڑاکر سجدہ کرنے سے انکا ر کیا تو اُن کے اس قول وعمل پر شوکاز نوٹس کا اجراء ہوا کہ وہ اپنے اس انکار کا سبب بتادے ۔ [4]اسی قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک اور اہم واقعہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کے ساتھ پیش آیا جب اس کے لشکر جرار میں سے ہدہد دورانِ حاضری غائب رہاتو اس کی غیر حاضری پر اُس سے وضاحت طلب کی گئی اور اس کے متعلق یہ حکم صادر ہوا کہ یا تو کوئی معقول وجہ بتا دے یا اُسے ذبح کروں گا۔[5]

شکایت کا صحیح اندراج اور دعوی کی وضاحت

اگر کوئی شخص دوسرے کے خلاف کسی چیز کے حوالے سے دعوی دائر کرتا ہے تو قانونی حکام کو اس کا دعویٰ مِن وعن قلم بند کرنا چاہئے اگر مدعی کے دعویٰ میں کہیں پر ابہام پایا جائے تو اُس سے ابہام کی توضیح بھی پوچھ کر نقل کیا جائے۔ کیونکہ جب دعوی ٰ میں ابہام آجاتا ہے تو کئی سوالات جنم لیتے ہیں جو فیصلہ کرنے میں متعدد موافق و مخالف احتمالات پیدا ہونے کا سبب بنتے ہیں ۔شکایت کے صحیح اندراج کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مسئلہ کی سماعت کے دوران دعویٰ میں اگر کوئی قانونی سقم موجود ہو تو ملزم کو اس کا فائدہ دیا جائے۔شائد اِنہی باتوں کو ملحوظِ خاطر رکھ کر اسلام نے لکھنے والے کو لکھنے کے دوران عدل وانصاف کا دامن تھام رکھنے کی تلقین کی ہے۔[6]

عصرِ حاضر میں قابلِ تعمیل توضیح طلبی یا شوکاز نوٹس کا نظام بھی انہی اصولوں پر قائم ہے کہ دعویٰ کا واضح المعنی ہونا ضروری ہے جیسا کہ مشہور وکیل رامانا راؤ شوکاز نوٹس کے متعلق رقم طراز ہے:

The SCN shall clearly state what was alleged against the person. [7]

اور یہی وجہ ہے کہ قصۂ ہدہد میں اس کی غیر حاضری کی دو احتمالی باتیں بیان کی گئیں کہ یا تو مجھے ہدہد موجودگی کے باوجود دکھائی نہیں دیتا یا وہ ہے ہی غائب۔ [8]

جب ابلیس نے سیدنا آدم علیہ السلام کے سامنے سجدۂ تعظیمی کرنے سے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ کو چونکہ عالم الغیب اور حاکم ِ اعلی ٰہونے کی بنیاد پر اپنے حکمِ عدولی کا پتہ تھا اس لیے خود ہی شوکاز نوٹس جاری کیا کہ وہ حکمِ عدولی کے متعلق اپنے موقف کی وضاحت کرے۔

شوکاز نوٹس کے مذکورہ بالا احکامات قطعی طور پر مدعی سے اُس کے دعویٰ کی وضاحت کے متقاضی ہیں۔

مجاز حکام کی طرف سے ملزِم کو شوکاز نوٹس کا اجراء

جب شکایت کی موصولی اوراندراج کا مرحلہ پایۂ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے تو مجاز حکام کی طرف سے ملزم کو شوکاز نوٹس کا اجراء ہوتا ہے جس میں اس کو مدعی کا دعوی سمجھایا جاتا ہے تاکہ مدعی کے دعویٰ کی صحت کی صورت میں اس کی شکایت کا ازالہ کیا جائے اور عدمِ صحت کی شکل میں ملزم کو بری الذمہ قرار دے کر مدعی کو تنبیہ کی جائے۔

توضیح طلبی کی اجراء میں یہ بات بھی واضح ہوگی کہ اگر وہ اپنی صفائی پیش کرنے میں نا کام ہوجاتا ہے تو اُس کو فلاں مجوزہ سزا دی جائے گی ۔

عصری قانون کے ماہرین بھی یہی کہتے ہیں کہ:

The SCN shall clearly state what was alleged against the person, what evidence is on record to substantiate such allegation, what action is proposed to be taken against him.[9]

انسانی زندگی کو خوشحالی و خیرسگالی کا نمونہ پیش کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے خودعملی قانون کا طریقۂ کار سمجھا کرتوضیح طلبی کا نفاذ فرمایا۔ جب ابلیس نے حکمِ الہی سے رو گردانی کی تو اسےشوکاز نوٹس جاری ہوا کہ وہ سیدنا آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ بتائے کہ آیا کسی عذر کی بنا پر سجدہ نہ کیا یا بِلا کسی عذر کے اپنی انانیت کے دوش پر کھڑے ہو کر انکار کامرتکب ہوا ؟[10]

اسی طرح جب سیدنا یوسف علیہ السلام پر زلیخا نے تہمت لگا یا اور ساتھ ہی سزا بھی تجویز کر دی تو سیدنا یوسف علیہ السلام کو جیل جانا پڑا ۔ جب سیدنا یوسف علیہ السلام نے عزیزِ مصر کے غلط فیصلے کے تحت جبری سزا کاٹی اور ایلچی اس کو جیل سے رہائی دینے کے لئے آگئے تو سیدنا یوسف علیہ السلام نے عزیزِ مصر کو ایلچی کے ذریعہ دعویٰ دائر کروایا کہ حاکمِ مصر اس بات کی تحقیق کرے کہ زنانِ مصر نے اپنی انگلیاں کیوں کاٹ ڈالی تھیں ؟ تاکہ اس پر لگائی گئی تہمت کا پول کھل جائے ۔ اس لئے عزیز مصر نے اُن کو زبانی شوکاز نوٹس جاری کر دیا جس میں واقعہ کی تفتیش طلب تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ إِذْ رَاوَدْتُنَّ يُوسُفَ عَنْ نَفْسِهِ.[11] "اُس (بادشاہ) نے عورتوں سے دریافت کیا ( کہ)تمہارا کیا تجربہ ہے اس وقت کا جب تم نے یوسفؑ کو رِجہانے کی کوشش کی تھی ؟"

اور اسی طرح سیدنا سلیمان علیہ السلام کا حکم فرمانا کہ ہدہداپنی غیر حاضری کی وجہ بتائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِيدًا أَوْ لَأَذْبَحَنَّهُ أَوْ لَيَأْتِنِّي بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ.[12]

"(یا تو) میں اسے سخت سزا دوں گا یا اسے ذبح کروں گا یاورنہ اُسے میرے سامنے (اپنی صفائی میں) کوئی معقول وجہ پیش کرنی ہوگی"

درجہ بالا دونوں آیاتِ کریمہ اس بات کی دلالت کرتی ہیں کہ قرآنِ کریم نے طبعی عدل وانصاف کے تمام تقاضوں کو پوری کرنے کا طریقہ سمجھایا ہے تا کہ کسی کے ساتھ نا انصافی کا معاملہ روا رنہ کھا جائے۔ ہر کسی کو اُس کا حق ملے اور کسی کی حق تلفی نہ ہو۔

ملزم کو اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے معینہ مدت کی فراہمی

مختلف امور میں مسائل و دعویٰ کی نوعیت مختلف رہتی ہے اس لیے شرعی قوانین کا جائزہ لے کر یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ ہر ملزم جس کے خلاف شکایت دائر کی گئی ہو اس کو اپنی صفائی کا اختیار حاصل ہے۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو بھی اپنا موقف بیان کرنے کی مہلت دے دی اور اس کا موقف سنا۔ ملزم کے معاملہ کی نوعیت کو دیکھ کر اُس کو صفائی پیش کرنے کے لیے اتنی معقول اورمناسب مدت فراہم کی جائے جو اُس کی صفائی پیش کرنے کے لیے کافی ہو جاتی ہو۔ جیسا کہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے بذریعہ ایلچی عزیز مصر سے زنانِ مصر کو اپنی انگلیاں کاٹ دینے کے متعلق توضیح طلبی کی درخواست جمع کروا دی۔جس یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ مذکورہ معاملہ سلجھانے کے لیے ایلچی پہلے عزیزِ مصر کے پاس گیا پھر زنانِ مصر سے توضیح طلبی ہوئی۔ [13]قرآن مجیدکی سورۂ حجرات نے بھی یہی بات کہی ہے کہ جب آپ کے پاس کے کوئی فاسق کسی خبر کو لے آتا ہے تو اس کی خوب تصدیق کرو۔ [14]

اس آیت قرآنیہ سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ مسئلہ کی تحقیق کرنا چاہئے تاکہ انجانے میں کسی کو نقصان نہ پہنچے جس کی وجہ سے انسان پھر اپنے کئے پر پشیمان ہو جاتا ہے۔

عصری قانون بھی شوکاز نوٹس کےطریقۂ کار میں مذکورہ مدت کی فراہمی کا قائل ہےجیسا کہ رامانا راؤ لکھتاہے:

He shall be afforded sufficient time to reply.[15]

ملزم کی پیش کردہ دلائل کا جائزہ

جب مجاز حکام کے سامنے ملزم پیش ہوگاتومجاز حکام پر یہ بات لازم ہے کہ ملزم کو مکمل آزادی فراہم کرکے بِلا کسی مجبوری و اضطراراور بِدون کسی ذہنی کوفت کے اُسےکھُل کر اپنا موقف بیان کرنے کا حق دیا جائےجس میں اُس پر کوئی قدغن نہ ہوگی۔ حکام بلا کم وکاست ، غیر جانبدارانہ انداز سے تمام بیان کردہ دلائل کا جائزہ لیں گےاور جہاں کہیں گواہ کی ضرورت پڑتی ہےوہاں پر مدعی کو گواہ پیش کرنے کے لیے اتنا موقع فراہم کیا جائے گا جوگواہ حضوری کے لیے عقلا وعرفا مناسب ہوگا۔ مجاز حکام ملزم ومدعی کے دعویٰ، تمام بیان کردہ دلائل اور شاملِ کاروائی گواہوں بمع ثبوت حضوری کا جائزہ لیں گے جس میں قانونی سقم یا گواہی کی ہیرا پھیری کا فائدہ ملزم کودینے کی کوشش کریں گے۔ جب سماعت کا سارا عمل تکمیل کو پہنچ جائے تومجازحکام تمام احوال کی روشنی میں اپنا فیصلہ سنا کر عمل میں لائیں گے۔ فی زمانہ کے اعتبا ر سے چونکہ افراد کی قوتِ یا داشت کمزور ہوتی جا رہی ہے اس لیے بتقاضائےضرورت عدالتی کاروائی کو تحریری طور پر بھی عمل میں لایا جائےگا تاکہ آئندہ پیش آمدہ مماثل واقعات کے حل میں بوقتِ ضرورت اس سے مددلی جا سکے۔

قرآن کریم میں کئی جگہ ذکر شدہ بالا اصولوں کی تطبیقی مثالیں اور عملی نمونہ جات پایا جاتاہے۔جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے ان سے ان کے أحیاء الموتیٰ کی کیفیت کے بابت قول کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے یہ تصفیہ دیا کہ میرا تو اس بات پر ایمان ہے لیکن مشاہدہ سے انسان کو مزید اطمینان حاصل ہو جاتا ہے تا کہ بچشم خوِد دیکھ کر مجھے وہ مرتبہ حاصل ہوجائے۔[16]

اِس نوع کی دوسری مثال اللہ تعالیٰ کا ابلیس سے اُس کے انکارِ سجدہ کی انتباہِ توضیح طلبی کے متعلق ہے جب اس سے انکار کا سبب پوچھا گیا تو خالق کی عظمتِ امر کی بجائے خودپسندی، تکبّر،سیدنا آدم کی تحقیر،اپنی ناری خلقت کی خود ساختہ فضیلت اور سیدنا آدم علیہ السلام کی خاکی جسدی ہیئت کی مفضولیت کی بے سر وپا دلائل بیان کر دیے جو احکم الحاکمین اللہ کی عدالت میں ابلیس کی براءت اور نجات کی سبب نہ بن سکی۔ جب کہ یہی دلائل اُس پر فردِ جرم عائد کرنے کا سبب بنی۔ [17]

جب کہ اس کی تیسری مثال سیدنا یوسف علیہ السلام کی وہ درخواست تھی جس میں زنانِ مصر سے اُن کی انگلیاں کاٹ ڈالنے کی توضیح

طلب کی گئی تھی۔ جب عزیز ِ مصر نے اُن سے وجہ پوچھی تو انہوں نےصدق بیانی کے تقاضوں پر عمل پیرا ہو کراپنے گناہ کا اعتراف

بھی کیا اور سیدنا یوسف علیہ السلام کی پاک دامنی بھی بیان کی ۔ [18]

اس سلسلےکی چوتھی مثال سیدنا سلیمان علیہ السلام کی ہدہد کو جار کردہ وہ انتباہِ توضیح طلبی ہے ۔جس میں ہدہد سے اس کی غیر حاضری کے سبب کا پوچھا گیا تھا۔ہدہد نے آکر کہا کہ میں آپ کی مملکت سےدور ایک ایسی قوم کے پاس گیا تھا جوسورج کی پرستش کرتے ہیں اور اُن کی قیادت وسیادت ایک عورت کی ہاتھ میں ہے ۔ اس نے جو صفائی پیش کی تو مجاز حکام نے فورا اُس کی صحت یاسقم کا فیصلہ کرنے سے گریز کیا تا آنکہ معتبر ذرائع سے اِن دلائل کی تصدیق کروادی۔ [19]

رامانا راؤ اِس حوالہ سےلکھتاہے:

The authority empowered to take action against such person, shall conduct a preliminary Inquiry and satisfy itself that reasonable case exists against such person. This may be followed up by full-fledged inquiry if needed. If such Inquiry (either preliminary or final) apportioned blame on the person complained of misconduct or any other act or omission, and competent authority decides to take action then a SCN should be served on the person giving him an opportunity to say his side of the story.[20]

ملزِم کا مجرم یا بری ثابت ہونا

جب مجاز حکام مسئلہ کی نوعیت کا حتی الوسع جائزہ لیں گے تو دو باتیں سامنے آجاتی ہیں؛ گواہوں کی صحت کا اعتبار یا ملزم کے اعترافِ جرم کے بعد ملزم پر فردِ جرم عائد ہونے کا فیصلہ سنایاجاتا ہے اور یا قانونی سقم کے نتیجے میں ملزم کو بری قرار دیا جاتا ہے۔ براءت کی صورت میں مدعی کو تنبیہ بھی کی جاتی ہے تاکہ وہ آئندہ کے لیے ایسی باتوں میں محتاط رہے۔

قرآن کریم میں مذکورہ بالا واقعات کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا جائے تو یہی باتیں کھل کر سامنے آجاتی ہیں کہ فیصلہ کی صورت یا تو فردِ جرم عائد ہو گیا ہے یا ملزم کو بری قرار دیا گیا ہے۔

توضیح طلبی کے پہلے واقعہ میں جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بات کی وضاحت فرمائی کہ وہ عقیدۂ انکار قیامت کے تحت سوال نہیں کر رہا بلکہ مزید اطمینانِ قلب حاصل ہونے کے لیے أحیاء الموتی ٰ کی کیفیت کے متعلق پوچھ رہا ہے تو نہ صرف اُن کے قول سے صرفِ نظر کیا گیا بلکہ اُن کے اطمینان ِ قلب کی خاطر أحیاء کی عملی مشق پیش کی گئی۔ [21]

توضیح طلبی کے دوسرے واقعہ میں جب زنانِ مصر سے قطع الایدی کی تصدیق کروائی گئی تو انہوں اعترافِ صدق کرکے واقعہ کی صحیح صورتِ حال بیان کی کہ ہم نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو ئی کج خلقی نہیں پائی وہ پاکدامن ہیں۔ زنانِ مصر کے بیان کے بعد سیدنا یوسف علیہ السلام کو بری الذمہ قرار دے کر وزارتِ خزانہ جیسے اہم منصب کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔[22]

جب کہ تیسرے واقعہ میں ابلیس نے اللہ خالق کائنات کے سامنے سیدنا آدم علیہ السلام پر اپنی بڑائی دکھائی اور ایسی بے بنیاد ونا معقول

دلائل کا سہارا لیا جو اس کی مدعا کو ثابت کرنے کے لائق نہیں تھی۔اس لیے اس پر فردِ جرم عائد ہوااور اس کو سزا ہوئی اور جو اس کے

رستہ پرچل پڑا اس کے ساتھ بھی وہی سلوک روا رکھا جائے گا۔ [23]

چوتھے واقعہ میں جب ہدہد کی بات کی جانچ پڑتال کی گئی اور مُلکِ سبا کے پاس خط بھیج دیا گیا جس کو انہوں نے اچھا جواب دیا۔ توہدہد کی

بات کی صداقت ہوگئی کہ وہ سچا ہے اوراُس کی غیر حاضری کی وجہ بھی معقول ہے۔ صورتِ حال اور دلائل کا جائزہ لے کر اُس کو بری الذمہ قرار دیا گیا۔ [24]

براءت کی صورت میں درخواست گزارکو تنبیہ

فیصلہ کی صورت اگر ملزم کو مجرم قرار دیا جاتا ہے تو اُس کو متعلقہ جرم کا متعین سزا سنائی جائےگی۔ اور اگر وہ جرم سے بری ثابت ہوتا ہےتو مسئلہ کی نوعیت کو دیکھ کر اُس کے خلاف شکایت جمع کرنے والے کو تنبیہ کی جائے گی کہ وہ آئندہ کے لیے ایسی الزام تراشی میں محتاط رہا کریں۔

قرآنی واقعات میں اس کی مثال سیدنا یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں ملتا ہے جب زلیخا نے سیدنا یوسف علیہ السلام پر ارادۂ بد کا الزام لگایا تو سیدنا یوسف علیہ السلام کی پاک دامنی ثابت ہونے کے بعد عزیزِ مصر نے اپنی بیوی کو تنبیہ کی کہ یہ ساراکچھ ا ٓپ کا کھرادھرا ہے تم اپنی گناہ کی معافی مانگو۔چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

يُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا وَاسْتَغْفِرِي لِذَنْبِكِ إِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخَاطِئِينَ.[25]

"(اے) یوسف ! اس (معاملہ) سے درگزر کراور(اے بیوی) تو اپنے قصور کی معافی مانگ۔ یقینا تو ہی گناہ کرنے والوں میں سے ہو"۔

نتائجِ بحث

توضیح طلبی کے انتباہ کے مذکورہ بالا مرحلہ وار ترتیب کا جائزہ لینے کے بعد ہمیں درج ذیل نتائج حاصل ہوتے ہیں:

۔اسلامی شریعت نے قیامِ امن اور معاشرتی خیر سگالی کی خاطر تمام بنی نوعِ انسان کو ادائیگی کے اعتبار سے کچھ بنیادی مساوی حقوق دیے ہیں۔

۔اِن بنیادی حقوق کے تحت کسی شخص کے خلاف موصول ہونے والا ہر شکایت حرفِ آخر سمجھ کر فیصلہ نہیں کیا جاتا جب تک ممکنہ قانونی کاروائی عمل میں نہ لائی جائے اور موصولہ شکایت کے متعلق اُس کے موقف کو نہ سُنا جائے۔

۔متعلقہ شخص کےموقف کو سُننے کے لیے مجاز حکام کی طرف سے توضیح طلبی کے انتباہ یعنی شوکاز نوٹس کا اجراء کیا جاتا ہے۔

۔ عصری قوانین میں شوکاز نوٹس کے طریقۂ کار کاجائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ شریعتِ اسلامی کے اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ ہے اورعصری قوانین نے اس کے عملی طورپر لاگو کرنے کا وہی ترتیب تجویز کیا ہے جو آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے اسلام نے عرب کے صحرا نشین سادہ مزاج صحابہ کرامؓ کو سمجھایا تھا۔ یہ قانون نوعِ بشری کے اساسی حقوق کے تحفظ کا علم بردار ہے بشرطیکہ اِس کو اُن شرائط کے ساتھ نافذکیا جائے جن شرائط کے ساتھ قرونِ اولیٰ میں

نافذالعمل رہا۔

۔دینِ اسلام نے انسانوں کے بنیادی حقوق اور فلاح وبہبود کے لیے جو قانون پیش کیا ہے وہ اپنی کاملیت کے لحاظ سے یگانہ اور ممتاز ہے۔ جس میں کسی شخص کی حق تلفی کا بروقت روک تھام کا مناسب اور عام فہم نظام موجود ہے جو کتابی شکل میں دست یابی کے ساتھ ساتھ تطبیقی کیفیت پر زور دیتا ہے جیسا کہ مذکورہ چارقرآنی واقعات میں ہم پڑھ کر آرہے ہیں۔

حوالہ جات

  1. صحیح البخاری، امام بخاری، ج۴، ص۱۷۵، حدیث رقم: ۳۴۷۵، ۴۲۰۴، ۶۷۸۸
  2. سورۃ البقرۃ ۲: ۲۶۰
  3. سورۃ یوسف۱۲: ۲۵
  4. نفسِ مصدر ، آیت : ۲۵
  5. سورۃ نمل ۲۷: ۲۱
  6. سورۃ البقرۃ۲: ۲۸۲
  7. https://www.quora.com/What-is-showcause-notice, 3:13 PM, 17/08/2018
  8. سورۃ نمل ۲۷: ۲۰
  9. https://www.quora.com/What-is-showcause-notice, 3:13 PM, 17/08/2018
  10. سورۃ صٓ ۳۸: ۷۶ٍ۲
  11. سورۃ یوسف ۱۲: ۵۱
  12. سورۃ نمل ۲۷: ۲۱
  13. سورۃ یوسف ۱۲: ۵۱
  14. سورۃ الحجرات ۳۹: ۰۶
  15. https://www.quora.com/What-is-showcause-notice, 3:13 PM, 17/08/2018
  16. سورۃ البقرۃ ۲: ۲۶۰
  17. سورۃ الاسراء ۱۷: ۶۱، ۶۲ ؛ سورۃ صٓ ۳۸: ۷۶
  18. سورۃ یوسف ۱۲: ۵۱
  19. سورۃنمل۲۷: ۲۰تا ۴۴
  20. https://www.quora.com/What-is-showcause-notice, 3:13 PM, 17/08/2018
  21. سورۃ البقرۃ ۲: ۲۶۰
  22. سورۃ یوسف ۱۲: ۵۱
  23. سورۃ صٓ ۳۸: ۸۵
  24. سورۃ نمل۲۷: ۳۵
  25. سورۃ یوسف ۱۲: ۲۹
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...