Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 1 Issue 2 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

عالمی مذاہب میں عورت کا مقام: تقابلی مطالعہ |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

2

Year

2014

ARI Id

1682060029336_964

Pages

29-46

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/50/47

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/50

Subjects

Women rights religion importance analysis

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

کائنات میں اللہ رب العالمین نے زندگی کا نظام چلانے کے لئے مرد کے ساتھ عورت کو بھی پیدا کیا، ان کا دائرہ کار متعین کیا اور پھر اس نظام زندگی کو چلانے کے لئے مرد اور عورت کے حقوق و فرائض متعین کئے جس میں ہر ایک صنف اپنا حصہ وصول کرنے کے ساتھ ساتھ دوسری صنف کے فرائض بھی ادا کرنے کا پابندہے تاکہ کسی ایک میں بھی احساس محرومی اور ردعمل پیدا نہ ہو۔ انسان اور انسانی تہذیب جہاں اپنی فطری کمزوری کے سبب افراط وتفریط کا شکار ہوتی ہے وہاں سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہونا شروع ہوگیا ۔قدیم جاہلیت نے سارا زورمرد کی برتری ثابت کرنے پر لگا دیا  اور جدید جاہلیت نے ردعمل کا شکار ہو کر عورت کو برابری کی دوڑ میں شریک کرنا چاہا لیکن وہ اپنی حیثیت سے آگے نکلی کہ اب اسے بالمقابل کھڑا مردسست لگ رہا ہے ۔

ان ادوار کے درمیان دورِاسلام کو اگر ہم دیکھتے ہیں تو وہاں سورةالتکویر کی آیت ہمارے سامنے آجاتی ہے ۔

وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ () بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ (1)۔

"اور جب اس لڑکی سے جو زندہ دفنا دی گئی ہو پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ کے جرم میں ہلاک کی گئی "۔

سورةالتکویرکی اس آیت کی صدا سے جو مقدمہ اللہ کی عدالت میں درج ہوتا ہے اس کے جواب میں اسلام میں کائنات پر عورت

کی عظمت اور اس کا مقام ہر مرد کا جزو لا ینفک بناکر دونوں کے درمیان حقوق و فرائض کا جو متوازن نظام تشکیل دیا وہ قابل عمل

بنایا گیا جو آج بھی بھٹکی ہوئی انسانیت کے لئے رہنما اصول ہیں۔کیونکہ اسلام ایک مضبوط پائیدار معاشرہ کی بقاءچاہتا ہے ۔اس کے لیے خاندان کااستحکام ، معاشرہ کا استحکام اور خاندان کی بربادی معاشرہ کی بربادی ہے ۔

مختلف مذاہب میں عورت کا مقام:

الف۔عورت کا مقام یونانی اور رومی تہذیب میں:

          یونانیوں اور رومیوں نے تہذیب وتمدن اور علوم و فنون میں اس قدر ترقی کی کہ اس بنیاد پر بہت سی تہذیبیں اور بہت سے علوم وجود میں آئے لیکن ان کے ہاں عورت کا مقام بہت ہی بے وقعت تھا ، عورت کو انسانیت پر بار سمجھتے تھے اور اس کا مقصد ان کے نزدیک سوائے اس کے کچھ نہیں تھا کہ خادمہ کی طرح گھر والوں کی خدمت کرتی ر ہے (2)۔اہل یونان اپنی معقولیت پسندی کے باوجود عورت کے بارے میں اپنے تصورات رکھتے تھے ، ان کا قول تھا :

” آگ سے جل جانے اور سانپ کے ڈسنے کا علاج ممکن ہے لیکن عورت کے ستر کا مداوامحال ہے“(3)۔

اسی طرح منفی تعلق دو تہائیوں کے درمیان حرکت کرتارہا۔ ایک مرتبہ صرف اسے حیوانی تعلق سمجھا گیا، پھر شیطانی گندگی اور نجاست خیال کیا گیا اور پھر دوبارہ حیوانی تعلق خیال کیاگیا ۔یہ سب کچھ ہو ا مگر مغرب کے جاہلی نظام ہائے حیات میں کبھی اس مسئلہ میں ایسا کوئی معتدل رویّہ اختیار نہیں کیا گیا جو انسان کی فطرت کے مناسب ہو۔ ان کے یہاں عورت کے بارے میں یہ تصور کبھی بھی نہیں ابھرا کہ عورت نفس انسانی کا ایک حصہ، جنس بشری کی خالق ،بچوں کے کاشانہ زندگی کی محافظ اورانسان کے عناصر وجود کی امانت دار ہے اور کسی نظام اور عمل کی بہتری کی بجائے اسے انسان کی فلاح و بہبود کے فرائض انجام دیناہے(4)۔

افلاطون نے بلا شبہہ مرد اور عورت کی مساوات کا دعویٰ کیا تھا لیکن یہ تعلیم محض زبانی تھی عملی زندگی اس سے با لکل غیر مؤثر تھی ۔ازدواج کا مقصد خالص سیاسی رکھا گیا یعنی یہ کہ اس سے طاقتور اولاد پیدا ہو جو حفاظت ملک کے کام آئے اور یونان کے قانون میں تو یہ تصریح موجود تھی کہ کمسن و ضعیف شوہروں کو اپنی بیویاں کسی نوجوان کے حبالہءعقد میں دے دینا چاہیے تاکہ فوج میں قوی سپاہیوں کی تعداد میں اضافہ ہو(5)۔

یونانیوں کے بعد جس قوم کو دنیامیں عروج نصیب ہوا وہ اہل روم تھے،عورت کا مرتبہ رومی قانون نے بھی ایک عرصہ دراز تک

نہایت پست رکھا ۔افسر خاند ان جو باپ ہوتا یا شوہر اسے اپنے بیوی بچوں پر پورا اختیار حاصل تھا اور وہ عورت کو جب ،جیسا چاہے  گھر سے نکال سکتا تھا۔ جہیز یا دلہن کے والد کو نذرانہ دینے کی رسم کچھ بھی نہ ہوتی اور باپ کو اس قدر اختیار حاصل تھا کہ جہاں چاہے اپنی لڑکی کو بیاہ دے ،بلکہ بعض دفعہ تو وہ شادی کر کے توڑ سکتا تھا۔زمانہ ما بعد یعنی دورِ تاریک میں یہ حق باپ کی طرف سے شوہر کی طرف منتقل ہو گیا اور اب اس کے اختیارات یہاں تک وسیع ہوگئے کہ وہ          چاہے تو بیوی کو قتل کر سکتا تھا۔ 520ءتک طلاق کا کسی نے نام بھی نہ سنا(6)۔

اسلام اور مغرب کے تہذیبی مسائل کے مصنف لکھتے ہیں کہ:

"رومی لوگ جب وحشت کی تاریکی سے نکل کر تاریخ کے روشن منظر پر نمودار ہوتے ہیں تو ان کے نظامِ معاشرت کا نقشہ یہ

ہوتاہے کہ مرد اپنے خاندان کا سردار ہے اس کو اپنے بیوی بچوں پر پورے مالکانہ حقوق حاصل ہیں بلکہ بعض حالات میں وہ

بیوی کو قتل کردینے کا بھی مجاز ہے(7)۔

یہاں بھی عورت کا مقصد خدمت اور چاکری سمجھا جاتا ،مرد اسی غرض سے شادی کرتا کہ وہ بیوی سے فائدہ اٹھا سکے گا حتیٰ کہ کسی معاملے میں اس کی گواہی تک کا اعتبار نہیں کرتا تھا۔ رومی سلطنت میں اس کو ثانوی طور پر کوئی حق حاصل نہیں تھا ۔ البتہ اس کی طبعی کمزوریوں کی بناءپر اس کو بعض سہولتیں دی گئیں تھی (8)۔

مزید یہ کہ اس میں شک نہیں کہ بعد کے ادوار میں رومیوں نے اس کو حقوق بھی دیئے لیکن اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کو مرد کے مساوی درجہ کبھی نہیں ملا ۔تہذیب وتمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ اہل روم کا نظریہ عورت کے بارے میں بدلتا چلا گیا ،اور رفتہ رفتہ نکاح وطلاق کے قوانین اور خاندانی نظام کی ترکیب میں اتنا تغیر رو نما ہوا کہ صورتِ حال سابق حالات کے بالکل برعکس ہو گئی ۔نکاح محض ایک قانونی معاہدہ (Ciricl contract) بن کر رہ گیا۔جس کا قیام وبقا فریقین کی رضامندی پر منحصر تھا ۔ازدواجی تعلق کی ذمہ داریوں کو بہت ہلکا سمجھا جانے لگا ۔عورت کو وراثت اور ملکیت مال کے پورے حقوق دیئے گئے  اور قانون نے اسے باپ کے اقتدار سے بالکل آزاد کر دیا ۔رومی عورتیں معاشی حیثیت سے نہ صرف خودمختار ہو گئیں بلکہ قومی دولت کا ایک بڑا حصہ بتدریج ان کے اختیار میں چلا گیاوہ اپنے شوہروں کو بھاری شرح سود پر قرض دیتی اور مالدار عورتوں کے شوہر عملاً ان کے غلام بن کر رہ جاتے ۔طلاق کی آسانیاں اس قدر بڑھیں کہ بات بات پر ازدواج کا رشتہ توڑا جانے لگا (9)

مشہوررومی فلسفی ومدبر سینکاسختی کے سا تھ رومیوں کی کثرت طلاق پرماتم کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اب روم میں طلاق کوئی شرم کے قابل چیز نہیں رہی ،عورتیں اپنی عمر کا حساب شوہروں کی تعداد سے لگاتی ہیں(10)۔

اس دور میں عورت یکے بعددیگر ے کئی کئی شادیاں کر جاتی تھیں ۔مارشل (43 تا 104ء) ایک عورت کا ذکر کرتا

ہے جو دس خاوند کر چکی تھی ۔اسی طرح جو دینل (60 تا 130ء) ایک عورت کے متعلق لکھتا ہے کہ اس نے پانچ سال میں آٹھ شوہر بدلے۔ سینت جروم (340 تا 430ء) ان سب سے زیادہ باکمال عورت کا حال لکھتا ہے جس نے آخری بار تیسواں شوہر کیا تھا ۔ اور اپنے شوہر کی بھی وہ اکیسویں بیوی تھی (11)۔

اس دورِ میں عورت مرد کے غیر نکاحی تعلق کومعیوب سمجھنے کا خیال بھی دلوں سے نکلتا چلا گیا یہاں تک کہ بڑے بڑے معلمین

اخلاق بھی زنا کو ایک معمولی چیز سمجھنے لگے ۔”اسلام اور مغرب کے تہذیبی مسائل “کے مصنف لکھتے ہیں کہ کاٹو (CATO) جس کو 184ق م روم کا محتسب اخلاق مقرر کیا گیا تھا ۔صریح طور پر جوانی کی آوارگی کو حق بجانب ٹھہراتا ہے“ (12)۔

ب۔عورت کے بارے میں چرچ کاتصور:

          کلسیاؤں کا ابتدائی اور بنیادی نظریہ یہ تھا کہ عورت گناہ کی ماں اور بدی کی جڑ ہے۔مرد کے لیے معصیت کی تحریک کا سر چشمہ اور جہنم کا دروازہ ہے ۔تمام انسانی مصائب کا آغاز اسی سے ہواہے۔اس کا عورت ہونا ہی اس کا شرناک ہونے کے لیے کافی ہے ۔اس کو اپنے حسن اور جمال پر شرمانا چاہیے ،کیونکہ وہ شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے ۔اس کو دائماکفارہ ادا کرتے رہنا چاہیے کیونکہ وہ دنیااور دنیاوالوں پر لعنت اور مصیبت لاتی ہے(13)۔مزید لکھتے ہیں کہ ترتولیا ں(TERTULLIAN ) جو ابتدائی دورکے آئمہ مسیحیت میں سے تھا۔ عورت کے متعلق مسیحی تصور کی ترجمانی ان الفاظ میں کرتا ہے:

         ”وہ شیطان کے آنے کا دروازہ ہے ، وہ شجر ممنوع کی طرف لے جانے والی ،خدا کے قانون کو توڑنے والی اور خدا کی تصویر مرد کو غارت کرنے والی ہے ۔اسی طرح کرائی سوسٹم (CHRYSOSTUM)جو مسیحیت کے اولیائے کبار میں شمار ہوتا ہے ،عورت کے حق میں کہتا ہے :ایک نا گزیر برائی ،ایک پیدائشی وسوسہ، ایک مرغوب آفت ،ایک خانگی خطرہ،ایک غارت گر دل ربائی ،ایک راستہءمصیبت“(14)۔

ج۔ ہندو مذہب اورخاتون:

          ہندومذہب دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں شمار ہوتا ہے ۔اس کے پیروکار کروڑوں کی تعداد میں اب بھی موجود ہیں،

تاریخی اعتبار سے اسے ساڑھے تین ہزار سالہ قدیم مذہب کہا جا سکتا ہے (15)۔

ہندو مذہب باقاعدہ ایک نظام حیات ہے اور سماجی قوانین کے مجموعہ پر مشتمل ہے۔وید اس کی مقدس کتب ہیں۔جن کے ساتھ ساتھ اپنشد ،پران ،گیتا اور سماجی قوانین کے مجموعے شا ستر بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں (16)۔

ہندو مذہب کا مرکز ہندوستان رہا ہے۔ ہندوستان ایک مذہبی ملک کی حیثیت سے دوسروں پر غالب رہا ہے ۔یہاں عورت کو غلامی اور محکومی کی زندگی سے نجات نہیں ملی بلکہ اس مذہب میں عورت کی تقدیس کو جس قدر بد ترین تذلیل میں بدلا گیا اور جس قدر عورت کی مٹی اس مذہب میں پلید ہوئی وہ کسی اور مذہب میں نظر نہیں آتی۔دو ہزار سال قبل مسیح ہندوستان میں عورت کا غلبہ تھا ۔  عورت کو دیوتی کا درجہ حاصل تھا اور اس کی پرستش کی جاتی تھی مگر اس کے بعد آرین آئے تو انہوں نے اموی نظام کی کایا پلٹ دیا اور یہی قبائل مردانہ اقتدار کے ایسے رسیا ہوئے کہ انہوں نے عورت کی ذلت کو انتہا تک پہنچادیا حتیٰ کہ عورت کوستی کہا جانے لگا اور اس کی وقعت خشک تنکے سے زیادہ نہ رہی (17)۔

           ہندو مذہب میں عورت کے مقام کو اس کی مقدس کتب اور قوانین کی روشنی میں ہی سمجھاجا سکتا ہے۔ قدیم بھارت کے معروف قانون درج منو راج نے جو قوانین عورتوں کے حقوق وآزادی کے حوالے سے وضع کیے ۔اس سے یہ اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں کہ عورت پیدائش سے لے کر موت تک آزادی اور خود مختاری کی فضا میں سانس لینے سے محروم کر دی گئی تھی۔ اس تناظر میں عورت سے متعلق منو کے درج ذیل مضحکہ خیزقوانین کا جائزہ ملاحظہ کیجئے:

A۔     کم عمرمیں شادی:

ہندو دھرم میں کم عمر کی شادی کا باقاعدہ ایک ضابطہ موجود تھا جس کے تحت مرد کو یہ اختیار کلی دے دیا گیا کہ وہ نہایت کم عمر بچی سے شادی کرسکتا ہے۔منو کے ضابطہ میں بیان کی گئی اس مثالی شادی کا تصور درج ذیل ہے ۔

مرد جب سربراہ خانہ بنتا ہے اور اس کی عمر تیس برس کی ہے تو اسے اپنی پسند سے بارہ سالہ لڑکی سے شادی کرنی چاہیے جب کہ

بیس سالہ شخص آٹھ سالہ لڑکی سے شادی کر سکتا ہے۔

اس ضابطے کے تحت عورتوں کے ساتھ کم عمری ہی سے ظلم برداشت کا آغاز ہو جاتا ہے۔ ہندو مذہب میں بیوہ شادی نہیں کر سکتی۔ لہذاکم عمری میں بیوہ ہونے والی لڑکیاں تاحیات بے آسراورکسمپرسی کی زندگی گزارنے پرمجبورکردی جاتی ہیں۔

B۔      عورتوں کی آزادی اور خود مختاری پر قدغن:  

         ہندو دھرم میں عورت کو اس انداز سے مرد کے تصرف میں دے دیا گیا کہ وہ بلا شرکت غیرے اپنے تمام اختیارات میں حاکم کی حیثیت سے عورت کو جس طرح چاہے اپنی خواہشات کے مطابق استعمال کرے ۔گویا عورت آزادی کی نعمت سے محروم تھی لیکن گھر کی چار دیواری میں بھی اسے ایک غلام کی حیثیت سے زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیا گیا ۔منو کا ضابطہءقانون اس کی عکاسی اس طرح کرتا ہے۔                      

         وہ سربراہ خانہ کے قبضہ اور حفاظت میں گھر کے اندر ٹھہر ی رہیں ۔عورت خواہ ایک نوجوان لڑکی، ایک بالغ دو شیزہ یا ایک بوڑھی عورت ہو وہ خود مختاری سے گھر کے اندر کوئی کام نہیں کر سکتی ۔نوجوانی میں اسے باپ کے اختیار میں اور جوانی میں

اسے خاوند کے اختیار میں رہنا چاہیئے جب خاوند مر جائے تو اسے اپنے بیٹوں کے اختیار میں رہنا چاہیے ۔اسے خود مختاری کو پسند

نہیں کرنا چاہیے۔اسے اپنے شوہر یابچوں سے علیحدگی کی خواہش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ان سے علیحدہ ہو کر دونوں خاندانوں

کے لئے بدنامی کا باعث بنتی ہے(18)۔

          عورت کو گھر کی چار دیواری میں محدود رہنے کے لیے یہ دلیل دی گئی ہے کہ وہ گھر کی بھلائی اور روشنی کے لیے ہیں ۔ گھر میں ایک طرف عورت اور دوسری طرف دولت ،حسن اور تابناکی کے درمیان کوئی فرق نہیں (19) ۔

 عورت فقط اپنے شوہر کی خدمت تک محدود ہے اسے ہر حال میں شوہر کے لیے اپنے آپ کو وقف رکھنا ہے ،زندگی میں اس کی

خدمت کے لیے مامور رہے اور اگر وہ مر جائے تو دوسرے شوہر کا نام بھی نہ لے اور اسی طرح زندگی کے دن پورے کر لے۔ منو کے ضابطہ ءقانون میں لکھا ہے:              

         ”عورت کے لیے قربانی اور برت کرنا گناہ ہے صرف شوہر کی خدمت کرنی چاہیے ،عورت کو چاہیے کہ اپنے شوہر کی

مرنے کے بعد دوسرے شوہر کانام بھی نہ لیوے ،کم خوراکی کے ساتھ اپنی زندگی کے دن پورے کرے“ (20)۔

ہندو مذہب نے جہاں سماجی زندگی میں عورت کو کم تر حیثیت دی وہاں اس نے عورت کی شخصیت کا بنیادی تعارف اس انداز سے کروایا کہ عورت ذات چلاکی، مکّاری،دروغ گوئی اور شیطانیت کا مجموعہ ہے یہی وجہ ہے کہ اس تصور کی روشنی میں پنپنے والے معاشرے میں عورت کو قابل ِ بھروسہ نہیں سمجھا گیا اور اس کی حیثیت ایک مغرور، بے حقیقت شے سے زیادہ نہ رہی ۔ منو کے قانون میں درج ہے کہ ”جھوٹ بولنا عورتوں کا ذاتی خاصہ ہے "(21)۔

عورت معاشرہ کاایک اہم ترین رکن ہے لیکن ویدک دھرم نے ان کوقعرمذلت میں گراکران سے ہرقسم کی معاشرتی حقوق کو چھین لیاہے۔رگویدمنڈل 10سوکت 95منتر15میں لکھتاہے کہ:

"عورتوں کے ساتھ محبت نہیں ہوسکتی۔عورتوں کے دل فی الحقیقت بھیڑیوں کی بھٹ ہیں"۔

دوسری جگہ میں اس طرح وارد ہے:

”اندر(آریوں کے ایشور)نے خودیہ کہاکہ عورت کادل استقلال سے خالی ہے اوروہ عقل کی روسے ایک نہایت ہلکی چیز ہے“(22)۔

درج بالااقتباسات سے چارحکم مستنبط ہوتے ہیں:

         i۔       کسی عورت سے مستقل محبت نہیں کی جاسکتی۔ ii۔      عورت دھوکہ بازہے۔

         iii۔     ہرعورت کی عصمت مشتبہ ہے۔           iv۔     عورت کم عقل ہے۔

C۔      عورت کی معاشرتی حیثیت:

درجہ بالاچاروجوہات کی بناءپربرہمن گرنتھیوں اورشاسترکاروں نے حسب ذیل قوانین مرتب کیے ہیں:

i۔       عورت اورشودردونوں کی نردھن(مال سے محروم)کہاگیاہے(23)۔

ii۔      لڑکی باپ کی جائیدادکی وارث نہیں(24)۔

iii۔     کسی عورت کوخاوندسے حکومت نہیں مل سکتی(25)۔

iv۔     اگرکسی بیوہ کواپنے خاوندکی طرف سے جائیدادملتی ہے تواسے جائیدادکی بیع وفروخت کاکوئی اختیارنہیں(26)۔

v۔      اولادذکرکے نہ ہوتے ہوئے بھی بیٹی وارث نہیں بلکہ متبنیٰ جوغیرکابیٹاہوتاہے۔وارث ہوتاہے(27)۔

vi۔     نکاح ثانی کی ممانعت ہے کیونکہ ایک جائیدادبلاوجہ دوسرے کے قبضہ میں نہیں جاسکتی(28)۔

vii۔    خلع کی ممانعت یعنی خاوندخواہ کتنا ہی بے رحم اورظالم ہو،دائم المریض ہومگرعورت کواس سے علیحدہ ہونے کی جازت نہیں (29)۔

viii۔   عورت کاوجودصرف اس لئے ہے کہ بچے دیں،ان کی پرورش کریں اورہرروزخانہ داری کے کام میں مصروف رہیں(30)

ix۔     عورت کوجوئے میں ہارنے اورفروخت کاجواز(31)۔

x۔      جن لڑکیوں کے بھائی نہ ہوں ان کی شادی نہیں ہوسکتی(32)۔

D۔    ویدک دھرم میں عورت کی روحانی حیثیت:

i۔       عورت کے لئے مذہبی تعلیم کی ممانعت ہے(33)۔

ii۔      مرداورعورت دونوں کے لئے نجات کے الگ الگ راستے ہیں۔مرداپنے زوربازوسے مکتی مارک (طریقہ نجات) پکڑسکتا ہے مگرعورت کی نجات خاوندپرمرمٹنے سے ہی ہوسکتی ہے،وہ براہ راست خداسے نجات حاصل نہیں کرسکتی (34)۔

iii۔     عورت کی عصمت وپاکیزگی کے خلاف منوادھیا،برہمن،رگوید،یجروید،اتھروید اوردیگرمقدس کتب کامطالعہ ضروری ہے۔ بعدکے لیٹریچرمیں بھرتری ہرکادیراگ شتک،یودششٹ میں عورت کوبدترین خلائق قراردیاہے۔

iv۔     اتھرویدمیں لکھاہے کہ:

         ”اگرکسی عورت کے دس خاوندہوں،مگراس کے بعدبرہمن اس کاہاتھ پکڑلے تووہ برہمن کی ہوجاتی ہے،برہمن ہی

خاوند ہے نہ کشتری اورنہ ویش (35)۔

ایک ہندووکیل عورت سے متعلق اپنی رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

"جس طرح درخت اپنے پھلوں سے پہچاناجاتاہے اسی طرح قوموں کے تمدن اورتہذیب پران کے رسم ورواج کااثرہے۔

ہندودھرم میں مردوں کے حقوق نہایت اہمیت کے ساتھ تمام معاملات میں محفوظ کردئیے گئے ہیں۔مگریہ ایک افسوناک امر ہے کہ عورت کے حقوق کی حفاظت نہیں کی گئی ۔نہایت رنجیدہ بات ہے کہ قدیم ہندودھرم کی بناءپرعورت کو جائیداد سمجھا گیا ہے یاایک ایسی ہستی جومرد سے عقل اوراخلاق کی بناءپرنہایت کم تردرجہ پرہے۔اس لئے ہندوشاستروں کازورعورت کے فرائض پرہے حقوق پرنہیں۔اس لئے یہ نتیجہ نکالاجاسکتاہے کہ ہندوسوسائٹی کے بنانے میں عورت کاکوئی حصہ نہیں ۔عورت کے پیدائش سے لے کروفات تک تمام افعال زندگی،مشکلات اورمصائب بلکہ زندگی کے معمولی مقتضیات کھانے پینے،جاگنے سونے ،غسل کرنے،باہرکے معمولی کاروبارمیں مرد کے رحم پرچھوڑدیاگیاہے اورعورت کے لئے نمبر4خدا بنادیا گیا ہے " (36)۔

E۔      مرد اور عورت حقوق میں برابر:

ہندوستانی معاشرے میں جہاں مردوں کااستحصال ہونا تھا وہاں عورتوں کے لیے مساوات اور برابری کے حقوق کی حفاظت کا کوئی تصور موجود نہ تھا ۔معاشرے میں عورت کا مذہبی ،سماجی، کردار نہ ہونے کے برابر تھا ۔بلکہ مذہبی رسومات اور روایات نے عورت کی زندگی اجیرن بنا دی تھی ،ہندوانہ روایات نے مذہب کے بل بوتے پر عورت کو غلام بنا کر رکھ دیا تھا ۔نتیجتاً عام طور پر معاشرے میں گھریلو کام کاج اور مردوں کی عیش وعشرت کا ذریعہ سمجھی جاتی تھی ۔ایسے عالم میں جب فرسودہ مذہبی روایات نے اپنا ڈیرہ جمایا ہوا تھا تو اس دور کے گوتم بدھ نے اس میں اصلاح کے لیے آواز بلند کی ۔اس کا آغاز اس وقت ہوا جب گوتم بدھ کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیا گیا کہ بدھ جماعت میں عورتوںکو شامل کرنا چاہیے کہ نہیں؟اس مسئلے کو بدھ نے کیسے حل کیا ؟اس کو کرشن  کمار اس طرح بیان کرتے ہیں۔

"اس دور میں بدھ بیٹھے سوچ رہے تھے کہ کیا عورت کو بھی مذہبی امور میں شامل کرنا چاہیے یا نہیں ؟ان کا تذبذب اور ہچکچاہٹ ان کے دور کے سماجی رویوں اور روایات کی روشنی میں قابل فہم ہے۔ سماجی دھارے کے رخ نے عورتوں کی سنگھ (جماعت)میں شمولیت کے سوال پر بدھ کو متذبذب تو ضرورکر دیا گیا لیکن روایات شکن دھرم کی تشکیل کرنے والے (مصلح)کو اس تاریخ ساز فیصلے سے باز نہ رکھ سکاکہ دنیا دھرم مردوں کی طرح عورتوں کے لیے بھی ایک کھلے دروازے کی مانند ہے ۔اس فیصلے سے خطے کی عورت پر سماجی اور مذہبی کردار کا تعین ہوا،عورتوں کی غیر گھریلو سرگرمیوں پر لگا رسم و رواج کا پہرہ ٹوٹ گیا اور انہیں پہلی بار احساس ہو ا کہ کچھ معاملات میں وہ مردوں سے بہتر نہیں تو کمتر بھی نہیں ہیں ۔بدھ مذہب نے عورتوں کے   لیے جماعت (مسنگھی)کا ایک شعبہ قائم کر کے گویا اس کو سرپرست کے رتبے سے نوازا گیا۔ اس فیصلے کے بعد عورتوں کی کثیر تعداد بدھ دھرم کی پناہ میں آگئی تو گوتم بدھ نے کھلم کھلا عورت اور مرد کے مساوی حقوق کا اعلان کیا "(37)۔

د۔یہودیت میں عورت کا مقام:

یہودی مذہب کا شمار الہامی مذاہب میں ہوتا ہے۔ یہودیت صرف چند عقائد و نظریات کا مجموعہ نہیں بلکہ ان عقائد و نظریات کی بنیاد پر ایک با قاعدہ عملی نظام کا تصور موجود ہے۔ یہودی مذہب کے سماجی تصورات میں لین دین ،اخلاقیات و سیاسیات کے  نظریات شاید ترقی وار اتقا کی طرف رہنماہوں مگر ان کے افکار نے عورت کو زندگی کے اس دھارے میں کوئی حیثیت نہیں دی ۔ مرد کے مقابلے میں عورت کو کم تر دکھا کر اسے سماجی زندگی میں ایک بد اعتمادی کے دائرے میں مقید کر دیا ہے۔ یہودیت نے عورت کو ازلی گنہگار ٹھرایا ہے اور اس کو پیدائشی بد نیت،مکار اور نسل انسانیت کی دشمن قرار دیا ۔ اس کی تخلیق مرد سے ہوئی اور اسی تصور کے ساتھ مرد کے مقابلے میں اس کی حیثیت کم ہو گئی۔ تخلیق عورت کے بارے میں یہودیوں کے ہاں یہ روایت ہے  کہ عورت یعنی حوا نے آدم کو گمراہ کیا اور اسی جرم کی پاداش میں اس کو مکار اور ازلی گنہگار قرار دیا گیا۔ گویا عورت ذلت اور پست درجے کی طرف دوسرا قدم ہے جس سے اس کی حیثیت مشکوک اور بد اعتمادی کا شکار ہو جاتی ہے ۔عہدنامہ قدیم میں اس روایت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے۔

”تب خداوند نے آدم کو پکارا اور اس نے کہا تو کہاں ہے ؟ اس نے کہا میں نے باغ میں تیری آواز سنی اور میں ڈرا کیونکہ میں ننگا  تھا ۔  اور میں نے اپنے آپ کو چھپایا ۔اس نے کہا تجھے کس نے کہا کہ تو ننگا ہے ؟کہا تو نے درخت کا پھل کھایا جس کی بابت میں نے تجھ کو حکم دیا تھا کہ اسے نہ کھانا ؟ جس عورت کو تو نے میرے ساتھ کیا ہے ۔اس نے مجھے اس درخت کا پھل دیا اور میں نے کھایا اور خداوند نے عورت سے کہا کہ تو نے کیا کیا؟ عورت نے کہا کہ سانپ نے مجھ کو بہکایا تو میں نے کھایا ۔ اور خداوند نے سانپ سے کہا کہ اس لیے تو نے کیا کہ تو سب چوپایوں اور دشتی جانوروں میں ملعون ٹھرا ۔تو اپنے پیٹ کے بل چلے گا اور اپنی عمر خاک چاٹے گا اور میں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالوں گا۔ وہ تیرے سر کو کچلے گا اور تو اس کی ایڑی پر کاٹے گا۔پھر اس نے عورت سے کہا کہ میں تیرے درد حمل کو بہت بڑھاوں گا تو درد کے ساتھ بچے جنے گی اور تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف ہو گی اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا"(38) ۔

اس سے ثابت ہوا کہ یہودیوں کے نظام فکر وعمل میں عورت کو کوئی حیثیت اور مقام نہ مل سکا۔یہودیت میں جو روایتیں بیان کی گئی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ عورت کو مرد کے وجود سے پیدا کر کے اس کو دوسرے درجے کی مخلوق بنایا گیا ہے اور مزید یہ کہ جب اسے مرد کے جسم سے تخلیق کیا گیا تو اس نے مرد کو بہکایا اور مصیبت کا ارتکاب کیا اور آدم کو جنت سے نکلوایا ۔اسی طرح اس کوا ذلی گنہگار اور مکاّر ثابت کر کے تا حیات اس کو عدم اعتماد کی سند عنایت کر دی گئی ۔

ر۔عیسائیت میں عورت کا مقام:

عیسائیت یہودی مذہب کا تسلسل ہے۔ عورت کے ساتھ عیسائیت کی روّش تو اور بھی زیادہ نا پسندیدہ رہی ہے۔ اس مظلوم صنف کو جس قدر پستی میں پھینکا جا سکتا تھا پھینک دیا۔عورت کے بارے میں عیسائیت کے جذبات کا اندازہ طرطولین کے ان الفاظ سے کیا جا سکتا ہے۔

          "عورتو! تم نہیں جانتیں کہ تم میں سے ہر ایک حوّا ہے ،خدا کا قانون ہے جو تمہاری جنس پر تھا وہ اب بھی تم میں موجود

ہو تو پھر جرم بھی تم میں موجود ہو گا تم تو شیطان کا دروازہ ہو ۔تم ہی نے آسانی سے خدا کی تصویر یعنی مرد کو ضائع کیا (39)۔

عیسائیت میں خواتین کا مقام ان کے حقوق کے حوالے سے انجیل مقدس کی روایتوں کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے ۔

عورت گنہگار اوربدی کی جڑہے:

 عیسائیت میں عورت کے متعلق یہ سیاسی نظریہ قائم کیا گیا ہے کہ آدم کے جنت سے نکلوانے کی ذمہ دار عورت ہے اور چونکہ شیطان کے بہکاوے میں عورت آچکی تھی لہٰذا اسی نے آدم کو بھی بہکایا۔ گویا اس طرح عورت کی پہچان یہ کرائی گئی کہ وہ بہکانے والی ہے ۔اسی بناءپر عورت کو کلیسا میں گنہگار اور بدی کی جڑقرار دیا گیا اور اس پر مصیبت کا محرک شیطان کے آنے کا دروازہ اور دوزخ کا راستہ بتایا گیا ہے ۔عورت کو دنیا کی ہر مصیبت ،بدی کی جڑ ،دنیا پر لعنت، ملامت نازل کرنے والی قرار دیا گیا (40) ۔

ڈاکٹر حافظ ثانی اپنی تصنیف ”تجلیات سیرت “میں عورت کے متعلق عیسائی اکا بر کلیساءکی آراءنقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔

سینٹ انتھونی : عورت شیطان کے ہتھیاروں کی کان ہے۔

سینٹ بوناو نیٹر : عورت ایک بچھو ہے جو ڈسنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتا ہے،وہ شیطان کا نیزہ ہے۔

سینٹ گریگری :عورت سانپ کا زہر القی ہے اور اژدھے کا کینہ (41)۔

عیسائی اکابرین کے قول سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ عیسائی مذہب میں خواتین کا کیا مقام ہو سکتا ہے ۔ اس نظریئے کی اساس پرسماجی زندگی کی تشکیل کیسے ہوسکتی ہے ؟ اور عور ت معاشرے میں کیونکر عزت اور اعتماد پاسکتی ہے ؟ جب کہ    اسے بدی

کی جڑاور وحشی درندے سے بھی بد تر قرار دیاگیا ہے۔

س۔اسلام میں خواتین کا مقام اور ان کے حقوق

تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو اسلام میں بنیادی حقوق کا تصور اتنا ہی قدیم ہے جتنا انسان کا وجود ۔خالقِ کائنات نے جس طرح طبعی زندگی کے اسباب ہوا، پانی اور خواراک پیدائش سے پہلے عطا کردئیے تھے اسی طرح ضابطہءحیات سے آدم ؑ اور نسل آدم کو بذریعہ وحی آگاہ کرنے کا سلسلہ بھی شروع کردیا تھاجو آدم ؑ سے شروع ہو کر محمدﷺ پر ختم ہوا(42)۔

A۔     قرآن پاک کی روشنی میں عورت کی حیثیت:

ابوذر قلمونی لکھتے ہیں:

"فرائض کاعلم عورت کو اپنے شوہر یا والدین سے حاصل کرنا چاہیے(43)بچیاں عہد اسلامی میں بہت اہتمام سے علم حاصل کرتی تھیں ،زینب جو حضرت ام سلمہؓ کی بیٹی تھیں۔ ابن عبدالبر نے لکھا ہے کہ وہ اپنے زمانہ کی فقیہ تھیں(44)عیسیٰ ابن مسکین کے بارے میں لکھاہے کہ صبح وہ خود لوگوں کو تعلیم دیتے تو شام کو ان کی بیٹیاں اور بھتیجیاں لوگوں کو تعلیم دیتی تھیں" (45) ۔

خطیب بغدادی نے صحیح بخاری کریمہ بنت احمد المروزی سے پڑھی ہے(46) َ۔

خود نبی کریمﷺنے اپنی بیٹیوں کی اعلیٰ تربیت فرمائی۔ قرآن کریم نے تمام مسلمانوں کو حکم دیا ہے :

قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (47)۔"خود بھی نیک کام کر کے جہنم سے بچو اور اولاد کو بھی بچاؤ"۔

اور یہ صرف اچھی تعلیم وتربیت سے ہی ممکن ہے ،امام ابن جوزیؒ نے ایک حدیث نقل کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

” مَن کُنَّ لَهُ ثَلَاثَ بَنَاتٍ یُودِّبهُنَّ وَیَرحَمهُنَّ وَیَکفُلُهُنَّ فَقَد وَجَبَت لَهُ الجَنَّةُ البَتَّةَ۔قَالُوا یَارَسُولَ الله وَاِن کَانَا اثنَتَینِ؟ قال: وإن كانت اثنتين قَالَ: فَرَای بَعضُ القَومِ ان لَو قِیلَ وَاحِدَة لَقَالَ وَاحِدَة"(48)۔

"جس کی تین بچیاں ہو اور وہ انہیں( اعلیٰ تربیت کے ذریعے )مؤدب ومہذب بنائے ان کے ساتھ رحمدلی کا معاملہ کرے ان کی کفالت کرے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ہر حال میں جنت واجب کر دی ۔ نبی کریم ﷺ سے سوال کیا گیا اگر کسی  کی دو بچیاں ہوں ؟آپ ﷺ نے فرمایا دوہوں پھر بھی یہی حکم ہے۔ بعض افراد کی رائے یہ ہے کہ اگر ایک بچی کا بھی پوچھ لیا جاتا تو آپ ﷺ یہی حکم فرماتے"(49)۔

یہاں خصوصی طور سے بچیوں کا ذکر کیا گیا ہے اس لیے کہ عرب بچوں کی تو اعلیٰ تربیت کرتے ،بچیوں پر توجہ نہیں دیتے تھے ۔

اعلیٰ تربیت اسی وقت ممکن ہے کہ پہلے والدین خود عمل کریں ،پھر بچے بھی عمل کریں گے ۔آپ ﷺ نہ خود صدقہ کھاتے نہ

حسین ؓ کو کھانے دیتے(50)نہ خود جھوٹ بولتے نہ بچوں کو بولنے دیتے (51)بچوں کو کھانا کھاتے ہوئے ادب سکھاتے تھے۔

A۔     عبادت کا حق:

اگر عورت بالغ ہو جائے تو اس پر شرعاً تمام عبادات کی ادائیگی لازم ہو جاتی ہے۔یہ اس کا فریضہ ہے اور حق بھی ہے لہٰذا اسے عبادت سے نہیں روکا جا سکتا جیسا کہ سورة النحل، النساءاور الاحزاب میں حکم دیا گیا ہے(52)۔

B۔      نکاح کا حق:

عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے نکاح کرے۔اسلامی نقطہ نظر سے اسے کسی کے ساتھ نکاح کرنے پر مجبور نہیں

کیا جا سکتا ۔ آپ ﷺ کے پاس جب حضرت علیؓ نے فاطمہ ؓ کے لئے نکاح کا پیغام بھیجا تو آپ ﷺ نے انہیں فرمایا:

اب تک کئی افراد نے فاطمہؓ کے لئے نکاح کا پیغام دیا ہے، میں نے ان کے لئے خودفاطمہؓ سے بات کی مگر فاطمہ ؓ کے چہرے سے ناگواری کا اظہار ملا،اس لئے منع کر دیا گیا، اب تمہاری بات بھی کر لیتے ہیں ۔ پھر فاطمہ ؓ کی رضا مندی سے آپ ﷺ نے یہ رشتہ طے فرما دیا(53)یہ آپ ﷺ کی سیرت تھی ،تعلیمات بھی ملاحظہ فرمائیں۔آپ ﷺ نے فرمایا :

(عَن ابِی سَلَمَةَ، انَّ ابَاهُرَیرَةَ، حَدَّثَهُم انَّ النَبِیﷺ قَالَ: لَاتُنکِحُ الایِّمُ حَتَّی تُستَامَرَ وَلَا تُنکَحُ البِکرُ حَتَّی ُاستَاذَنَ، قَالُوا یَارَسُولَ الله، وَکَیفَ اِذنُهُا؟ قَالَ: اِن تَسکُتُ)       (54)۔

شادی شدہ کی دوسری شادی اس کی مرضی کے بغیر نہ کی جائے اور غیر شادی شدہ سے اس کی اجازت کے بغیر نہ کریں ۔اسی

طرح نکاح شغار جس میں باپ اپنی بیٹی یا بھائی اپنی بہن دوسرے کے نکاح میں بلا مہر دے کر اس کے بدلہ اس کی بیٹی یا بہن کے

اپنے نکاح میں لیتا ہے یہ شرعاً ممنوع ہے اس لئے کہ عورت مال نہیں جس کا تبادلہ کوئی شخص اپنی مرضی سے کر لے  ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اَلمَراَةُ رَاعِیَةٌ  عَلَی اَهلِ بَیتِ زَوجِها وَهِیَ مَسؤلَةٌ عَنهُم(55)۔

"عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران ہے، اس سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا"۔

عورت کی ایک حیثیت اور شناخت بیوی کی ہے۔

C۔      مہر کا حق:

         بیوی کی حیثیت قبول کرتے ہی عورت کو حق حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنا مہر شوہر سے وصول کر ے۔ اسی طرح عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا معقول مہر مقرر کروائے ۔اور مہر میں ملنے والا مال عورت ہی کی ملکیت ہو گا۔ قرآ ن میں مردوں کو واضح حکم دیا گیا ہے: وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَة (56)۔ "عورتوں کو ان کا حق مہر پورا پوراادا کرو"۔

اس کی تاکید دوسری آیت سے بھی ہوتی ہے۔

فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً (57)۔" یعنی جن عورتوں سے استفادہ کرو تو ان کا مہر بھی پورا ادا کرو" ۔

ہاں اگر عورت مہر وصول کرنے کے بعد اپنی خوش دلی سے کچھ یا مکمل مہر شوہر کو واپس کردے تو اس کے لئے اس مہر کو استعمال کرنا جائز ہے۔ مہر کتنا ہو اس کی شریعت نے کوئی حد مقرر نہیں کی ۔حضرت عمر ؓ نے مہر کی حد مقرر کرنی چاہی تو ایک بڑھیا نے کھڑی ہو کر اعتراض کیا اور آپ ؓ نے اس اعتراض کو قبول کیا ۔ البتہ فقہاءکی رائے ہے کہ مہر شوہر کی حیثیت کے مطابق ہواور یہ کہ شوہر اس کے کھانے پینے، لباس اور رہائش کے اخراجات برداشت کرے۔ (58)عورت مرد سے زیادہ مالدار ہو پھر بھی بیوی کا نفقہ شوہر پر فرض ہے ۔سورة طلاق میں حکم ہے :

أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُم (59)۔"اپنی حیثیت کے مطابق ان کو رہنے کا مکان دو "۔

یہی وجہ ہے کہ اگر شوہر اس حق کو ادا کرنے میں ناکام رہے تو صحیح بخاری کی روایت کے مطابق عورت کو حق ہے کہ مطالبہ کرے ”اما ان تطعمنی و اما ان تطلقنی“ ۔"یا تو مجھے کھلاؤ ورنہ طلاق دو"۔ سورة طلاق کے مطابق مرد اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنے کا پابند ہے ۔آپﷺ سے سوال کیا گیا کہ شوہر پر بیوی کے کیا حقوق ہیں تو آپﷺ نے فرمایا :

عَن حَکِیمِ بنِ مُعَاوِیَةَ القُشَیرِیِّ،عَن ابِيهِ، قَالَ: قُلتُ: یَارَسُولَ الله، مَاحَقُّ زَوجَةِ اَحَدِنَا عَلَيهِ؟ قَالَ: اَن تُطعِمَهَا اِذَا طَعِمتَ، وَتَکسُوهَا اِذَا اکتَسَیتَ، اوِکتَسَبتَ، وَلَا تَضرِبِ الوَجهَ، وَلَا تُقَبَّح وَلَاتَهجُر(60)۔

"حکیم بن معاویۃ القشیری اپنے والدسے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺسے پوچھاکہ ہمارے اوپر اپنی بیویوں

کاکیاحق ہے؟آپ ﷺنے فرمایا:کہ جو تم کھاؤ اپنی بیوی کو کھلاؤ، جو تم پہنو اسی درجہ کا لباس اسے پہناؤ ،انہیں چہروں پرنہ

مارو،انہیں برابھلانہ کہواوران سے الگ نہ ہوجاؤ"۔

حقوق زوجیت قائم کرنے کا حق:

اگر کوئی مرد بیوی سے حقوق زوجیت ادا کرنے میں ناکام رہے تو عورت کو حق حاصل ہے کہ وہ عدالت سے نکاح فسخ (ختم)

کروالے(61)۔

D۔     خلع کا حق:

         اگر شوہر کے ساتھ زندگی گزارنانا ممکن نظر آئے ،صلح کی کوئی صورت نہ بن سکے تو بیوی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عدالت سے خلع حاصل کر کے آزاد ہو جائے(62)۔

E۔      مساوات کا حق:

اگر کسی شخص کی اور بھی بیویاں ہو تو مرد پر لازم ہے کہ وہ مساوات کا معاملہ کرے اور یہ عورت کا حق بھی ہے۔

ارشادِ نبوی ہے:”من کانت له ا مراءتان فلم یعدل بینهما جاء یوم القیامة وشقه ساقط “(63)۔

"جس کی دو بیویاں ہوں وہ ان کے درمیان عدل نہیں کرے گا تو قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کا کاندھا

جھکا ہوا ہو گا "۔

F۔      بچے کو دودھ پلانے سے انکار کاحق:

عورت کو حق ہے کہ عام حالات میں دودھ پلانے سے انکار کردے اور شوہر دودھ پلانے کے لیے کسی کو ملازم رکھے، قرآن

سے بھی اس کی اجازت معلوم ہوتی ہے فرمایا: ” وَإِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَى “(64)۔

" اگر دودھ پلانے پر اختلاف ہوجائے تو شوہر دودھ پلانے کے لیے کسی اور عورت سے معاوضہ پر دودھ پلوائے "۔ آپ ﷺ نے بھی حلیمہؓ سے دودھ پیا اور اپنے بیٹے ابراہیم کو بھی دودھ پلوایا۔

ص۔ خواتین کے حقوق و فرائض بحیثیت ماں سیرتِ نبوی کی روشنی میں:

اسلام نےعورت کو  جو مقام اور حقوق عطا کیے اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ ارشادِ نبویﷺ ہے:

” عَن اَنَس بِن مَالِکٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله الجَنَّةُ تَحتَ اَقدَامِ الا مَّهَاتِ(65)۔"جنت ماں کے قدموں تلے ہے"۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "ہم نے والدین سے حسن سلوک کی وصیت کی ہے ۔اس لئے کہ ماں نو ماہ تک پیٹ میں پرورش کی تکلیف اٹھاتی ہے پھر پیدائش کی تکلیف ،اس کے بعد اپنے خون سے بنے ہوئے دودھ سے سیراب کرتی ہے اور اس کی پرورش میں رات کی نیند ،دن کا سکون صرف کرتی ہے"(66)۔

A۔     عزت و احترم کا حق:

ماں کی عزت واحترام باپ سے بھی زیادہ ہے۔ اس لئے کہ آپ ﷺ نے ماں کو باپ پر ایک درجہ زیادہ حق دیا ہے ماں چاہے

سگی ہو، سوتیلی یا رضاعی (دودھ پلانے والی) یا غیر مسلم ہر حال میں یکساں ہے۔ اسی لئے واضح حکم دیا گیا کہ انہیں اف بھی نہ کہو(67) دادا، دادی، نانا، نانی اسی حکم میں ہیں ۔

B۔      عقد ثانی کا حق:

         اگر کسی عورت کے شوہر کا انتقال ہوجائے تو عورت کو دوسرے نکاح کا حق حاصل ہے۔ایسے موقع پر اولاد یا رشتہ داروں کو اسے اپنی غیرت کے خلاف سمجھنا غلط ہے(68)۔

ط۔     خواتین کے مشترکہ حقوق سیرت طیبہ کی روشنی میں:

زندگی کا حق:

قرآن میں ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے اور ایک انسان کی زندگی بچانے کو سارے انسانوں کی زندگی بچانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشادہے:

مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا (69)                    

A۔     برابری کا حق:

اسلام نے تمام انسانوں کو بلا تفریق جنس برابر قرار دیا ہے:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِير (70)

"ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، پھر قومیں اوربرادریاں بنائیں ، تاکہ تعارف میں آسانی ہو، اللہ کے نزدیک

زیادہ معززوہ شخص ہے جو زیادہ متقی ہے"۔

خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر بھی اس کی وضاحت فرمادی ”الا بالتقویٰ“جو زیادہ اللہ سے ڈرتا ہے وہ زیادہ مرتبے والا ہے۔ جنس، نسل یا عہدہ کی بناءپر کوئی بڑا نہیں(71)۔

B۔      ملکیت کا حق:

         خواتین کو ملکیت کا حق نہیں تھا، اسلام نے انہیں ملکیت کا حق دے کر ان کی شخصیت کو مکمل کیا۔معروف مستشرق جرمن فاضلہ پروفیسر اینی میری شمل نے اپنے انٹرویو میں اعتراف کرتے ہوئے کہا: میرے خیال میں یہ حقیقت بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ قرآن مجید نے ساتویں صدی میں خاتون کو یہ غیر معمولی حق عطا کر دیا کہ وہ نکاح کے بعد والدین کے گھر جو

مال و اسباب یا دولت لے کر آئے شادی کے بعد خود کمائے اس پرخالصتاََ خا تون کا اختیار ہو گا، اور شوہر کو بیوی کے املاک اور

جائیداد پر قطعاََ کوئی اختیار اور حق حاصل نہیں۔یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس دور میں جبکہ یورپ میں خواتین سراسر

مردوں کی محتاج تھیں ۔اسلام کتنا ترقی پسند دین تھا(72)۔

خلاصہ البحث:

         احترام ِآدمیت اور نوع ِبشر کی برابری کے نظام کی بنیاد ڈالنے کے بعد اسلام نے اگلے قدم کے طور پر عالم ِانسانیت کومذہبی، اخلاقی،معاشی ،معاشرتی اور سیاسی شعبہءہا ئے زندگی میں بے شمار حقوق عطاکیے ۔انسانی حقوق اور آزادیوں کے بارے

میں اسلام کا تصورآفاقی اور یکساں نوعیت کا ہے۔جو زماںومکاں کی تاریخی اورجغرافیائی حدود سے ماوراءہے۔ اسلام میں حقوقِ انسانی کا منشور اللہ کا عطا کردہ ہے اور ا س نے یہ تصور اپنے آخری پیغمبر نبی کریمﷺکی وساطت سے دیا ہے ۔ اسلام کے تفویض کردہ حقوق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انعام کے طور پر عطاکیے گئے ہیں اوران کے حصول میں انسانوں کی محنت اور کوشش کا کوئی عمل دخل نہیں ۔دنیا کے قانون سازوں کی طرف سے دیئے گئے حقوق کے بر عکس یہ حقوق مستقل بالذات ، مقّدس اور ناقابل تنسیخ ہیں ان کے پیچھے الٰہی منشاوار ادہ کار فرما ہے اس لیے انہیں کسی عذر کی بناءپر تبدیل ،ترمیم یا معطل نہیں کیا جا سکتا ۔ ایک حقیقی اسلامی ریاست میں ان حقوق سے عام شہری مستفیض ہو سکیں گے۔اور کوئی ریاست یا فرد ِو احدان کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔ اور نہ ہی وہ قرآن و سنّت کی طرف عطا کردہ بنیادی حقوق کو معطل یا کا لعدم قرار دےسکتا ہے۔      


       حواشی وتعلیقات

1۔         سورة التکویر: 8، 9۔

2۔         سید جلال الدین عمری ،عورت اسلامی معاشرے میں ، اسلامک پبلیکیشنرز پرائیوٹ لمیٹڈ لاہور ، 1996ء، ص 17۔

3۔         ایضاً۔

4۔         ساجد الرحمن صدیقی ،اسلام اور مغرب کے تہذیبی مسائل ، ادارہ معارف اسلامی کراچی، 1973ء، ص 28۔

5۔         سید جلال الدین عمری ،عورت اسلامی معاشرے میں ، ص18۔

6۔         ایضاً ۔

7۔          ساجد الرحمن صدیقی ،اسلام اور مغرب کے تہذیبی مسائل ، ص38۔

8۔         سید جلال الدین عمری ،عورت اسلامی معاشرے میں ، ص18، 19۔

9۔         اسلام اور مغرب کے تہذیبی مسائل ، ص38۔

10۔       ایضاً۔                                                       

11۔       ایضاً ۔

12۔       ایضاً                                                        

13۔       ایضاً: ص 85۔

14۔       ایضاً ۔

15۔       ڈاکٹر عبدالرشید ،ادیان و مذاہب کا تقابلی مطالعہ ، طاہر سنزکراچی1986ء،ص 31۔

16۔       ایضاً ۔

17۔       سرکار زینی جار چوی،مادرِ کائنات ، شمع بک ایجنسی کراچی،2000ء، ص 265۔

18۔       عبداللہ مرعی بن محفوظ حامی ، مترجم: ثناءاللہ ، مفتی ،اسلام اور دیگرمذاہب و معاشروں میں عورت کے حقوق و مسائل ، دارالاشاعت کراچی،2001ء، ص 36، 37۔                     

19۔       ایضاً۔

20۔        سید جلال الدین عمری،عورت اسلامی معاشرہ میں ، ص29۔

21۔       ایضاً ۔

22۔        رگویدمنڈل سوکت 33منتر18۔

23۔       یجرویدادھیاء8منتر5، منوادھیا8اشلوک416 ، ادھیاء9اشلوک199۔

24۔       اتھرویدکانڈاسوکت 17، منترایجروید، 5: 8، نرکت 8:3، منو19:9

25۔       اتھروویدکانڈاسوکت 17منتر۱۔                              

26۔       ایضاًً۔

27۔       منوادھیاء9۔

28۔       منو 151: 15۔

29۔       منو154: 5۔

30۔       منونواں باب27۔

31۔       نرکت4: 3۔

32۔       اتھرووید1: 17: 1۔                                       

33۔       منو18: 9۔

34۔       منو66: 2۔18: 9اور155: 5۔

35۔       اتھرووید،9، 8، 17، 5۔

36۔       بھگت رام سکیرٹری انجمن ہمدردحیوانات فیروزپورچھاؤنی۔

37۔       گوتم بدھ ، کمار کرشن ، ترتیب و ترمیم ، خالد ارما ن ، لاہور نگارشات ، 2001ء، ص 158، 159۔

38۔       کتاب مقدس (پرانا عہد نامہ) لاہور، بائبل سوسائٹی 2001ء، پیدائش 3آیت 9۔17۔

39۔       تالمود ، ایچ پولانو ، ترجمہ سٹیفن بشیر ، گوجرانوالہ ،مکتبہ عناویم پاکستان ، 2003ء، ص 179۔

40۔        کتاب مقدس (پرانا عہد نامہ) پیدائش3 آیت 21۔22۔

41۔        ففرو الی اللّٰه ،ابی ذر القلمونی،مکتبہ ابن تیمیہ قاھرہ،ص 189۔

42۔       افضل الرحمن ، محمد ایوب منیر ،دورجدید میں مسلمان عورت کا کردار ،فیروز سنز پرائیوٹ لمٹیڈلاہور ، 1994ء، ص 84۔

43۔       دکتور ابراہیم سلیمان الکردی،المرجع فی الحضارة العربیۃالا سلامیۃ،ذات السلاسل الکویت 1978ء،ص 415۔

44۔       ایضاً: ص 417۔                                            

45۔       سورة التحریم: 6۔

46۔       احمدبن حنبل،مسند (محقق):22/150،رقم الحدیث14247،باب مسندجابربن عبداللہ۔

47۔       عبدالرّحمن ابن الجوزیۃ،کتاب البروالصلۃ ،المکتبہ التجاریۃ   مکہ 1993ء،ص 146۔

48۔        جامع الاصول،محمد بن الاثیر الجزری دارالفکر بیروت 1997ء،4/657، رقم، 2748۔مزیدمعلومات کے لئے ملاحظہ :ریاض الصالحین امام النووی(داراحیاءالکتب العربیۃ قاہرة، ص 149۔

49۔       عبداللّٰہ بن وھب بن مسلم القرشی،الجامع فی الحدیث (دارابن الجوزی الریاض 1996ء) ، ج۲ ، 2/610، مسند احمد ، 2/454۔

50۔       سورة النحل: 97، سورة النساء: 124 اور سورة الاحزاب: 38۔

51۔       اسلام میں خواتین کے حقوق ، شہید مرتضٰی مظہری ، ص 103۔

52۔       سلیمان بن اشعث،سنن ابو داؤد ، حدیث نمبر2133، جامع ترمذی ، حدیث نمبر1141 اور کتاب عشرة النساء،ح4۔

53۔       صحیح البخاری،9/62،رقم، 7138۔                                      

54۔       سورة النساء: 4۔

55۔       سورةالنساء: 24 ، اس کی تائید سورة المائدہ: 5 اور سورة النساء: 20سے بھی ہوتی ہے ۔

56۔       یہ واقعہ حافظ ابویعلیٰ نے مسروق کی روایت سے بیان کیاہے۔تفسیرابن کثیر،نے آیت (وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا) کے تحت اس واقعہ کوبیان کیاہے (حافظ ابن کثیر،تفسیرابن کثیر، (مترجم):مولانامحمدخالدسیف،2/68)۔

57۔       سورة الطلاق: 6۔

58۔       سلیمان بن اشعث،سنن ابو داؤد ، کتاب النکاح باب فی حق المراة علی زو جه، حدیث نمبر 2142 اور سنن ابن ماجہ،کتاب النکاح باب حق المراة علی الزوج ، حدیث نمبر 1850۔

59۔       السنن الکبریٰ بیہقی،7/215،بحوالہ عورت اسلامی معاشرہ میں ، سید جلال الدین عمری، ص366، 1994ء۔

60۔       ابوالحسن،برہان الد ین المرغینانی،الھدایۃ:2/413،مکتبہ رحمانیہ،اقرا سنٹر غزنی سٹریٹ۔اُردو بازار لاہور۔

61۔       سلیمان بن اشعث،سنن ابو داؤد ، حدیث نمبر 2133، جامع ترمذی ، حدیث نمبر1114 اور کتاب عشرة النساء،حدیث نمبر 4۔

62۔       سورة الطلاق: 6۔

63۔       ابوعبدالرحمان،احمدبن شعیب بن علی النسائی ،سنن النسائی، کتاب عشرة،ص 225۔

64۔       ابوعبداللہ،محمدبن سلامہ القضاعی المصری،مسندالشہاب،1/102،رقم الحدیث119،موسسہ الرسالہ بیروت لبنان۔

65۔       سورة الاحقاف: 15، آیت کا مفہوم بیان کیا گیا ہے ۔ 

66۔       مولانا اشرف علی تھانوی ،حقوق العباد ، ص 92، 93۔

67۔       ایضاً۔                                                      

68۔       سورة المائدہ: 32۔

69۔       سورة الحجرات: 13۔

70۔       امام احمدبن حنبل،مسند (محقق) 38/474،رقم الحدیث 23489۔

71۔       محسن انسانیت اور حقوق انسانی ، ص 100۔

72۔       ایضاً۔

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...