Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 5 Issue 2 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

عظیم شخصیات کے اوصاف وخصائص: سیرت طیبہ کی روشنی میں |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

5

Issue

2

Year

2018

ARI Id

1682060029336_965

Pages

49-67

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/147/141

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/147

Subjects

Great personalities Features Sýrah Muhammad (SAW)

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اعلی نسب، حسن اخلاق، امانت داری، صدق، جرأت وبہادری، وفاداری، جود وسخا، حیا، عجز وانکساری، شکر گزاری، اللہ تعالی پر توکل اور بھروسہ ، تعلیم وتربیت،چھوٹوں بڑوں خادموں اور جانوروں پر رحمت وشفقت، حق کی پاسداری، صبر وتحمل وغیرہ عظیم شخصیات علامات تصور کی جاتی ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظیر پیدا ہوئی نہ ہوگی، یہ اور بہت ساری دیگر اعلی صفات کی وجہ سے دشمن بھی آپ کو صادق وامین ماننے پر مجبور ہوئے اور کہا کرتے تھے کہ محمد ہر گز جھوٹا نہیں ہے لیکن ہم انہیں اللہ کا رسول نہیں مانتے، آپ کے کردار پر آج تک کوئی غیر مسلم مستشرق بھی انگلی نہیں اٹھا سکا اور نہ ہی قیامت تک کوئی ایسا کر سکتا ہے۔

باپ بیٹے کا ایک دوسرے کے خلاف تلوار سوتنا، دوستی اور دشمنی کا معیار بدل جانا، غلام آقا کے خلاف آقا غلام کے خلاف میدان میں نکل آنا، تپتی ریت پر اَحد اَحد کے نعرہ لگانا، جام شہادت نوش کرنے کو کلمہ کفر پر ترجیح دینا، شوہر سے بیوی چھن جانا اور ماں سے شیر خوار بچوں کو جدا کر دینا، چہرے مبارک پر گستاخانہ وار کر کے حلیہ تبدیل کر دینا، کبھی حبشہ کی ہجرت پر مجبور اور کبھی شعب ابی طالب میں محصور اور کبھی یثرب کی طرف رات کے اندھیروں میں چھپ چھپ کر نکلنا، آخر یہ سب کیوں برداشت کیا گیا؟ تمام تعلقات کو منقطع کر کے صرف ایک ہی تعلق کو کیوں باقی رکھا گیا؟ آخر وہ کون سی قیادت تھی جن کے اشاروں پر تن من دھن قربان کرنے کیلئے لوگ تیار ہو گئے؟ اور اس عظیم ہستی میں وہ کون سی صفات پائی جاتی تھی جن کی وجہ سے ظلم وستم اور جہالت کے اندھیرے چھٹ گئے اور ہر میدان میں انقلاب برپا ہوگیا؟ دنیا میں جتنے عظیم انسان گزرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ان میں سر فہرست رہے ہیں جس کا کفار ومشرکین ومستشرقین نے بھی خندہ پیشانی سے اعتراف کیا، اور اس موضوع میں لکھی جانے والی کتب میں صفحہ اول میں جگہ دینے پر مجبور ہوئے، ہم اس مختصر مقال میں یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ وہ کون سے اوصاف وخصائص ہیں جن کی بنا پر شخصیات کو عظیم جانا جاتا ہے، اس عظیم ہستی کی چنداہم صفات مندرجہ ذیل ہیں:

1ـ حسب ونسب میں اعلی ہونا

حسب اور نسب کا اعلی ہونا ایسی خصوصیت ہے جسے انسان خود اختیار نہیں کرتا بلکہ اسے وراثت میں ملتی ہے، جدید سائنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ انسان کے جسمانی، نفسیاتی اور عقلی طور پر قوی اور ضعیف ہونے والی بہت ساری صفات ایسی ہیں جو اسے والدین اور خاندان سے وراثت میں ملتی ہیں، اسلام میں اگرچہ شرف اور مکرمہ کا معیار تقوی کو قرار دیا گیا ہے مگر پھر بھی بہت سارے مقامات پر حسب ونسب کا اعتبار ہے، خصوصاً نکاح میں جو کفو کے نام سے کتب فقہ میں اصطلاح مذکور ہے، انسان ہمیشہ سے اپنے حسب ونسب پر فخر کرتا آ رہا ہے، نوعِ انسانی کے ہر زبان کے شعراء اپنے قوم وقبیلہ پر فخر کرتے رہے ہیں، اور دوسری قوموں کو نچلا دکھاتے رہے ہیں، جاہلیت میں سب سے عمدہ اور اچھی خصلت نسب وحسب ہی کو سمجھا جاتا رہا ہے، مشہور اموی شاعر فرزدق اپنے آباء اجداد پر فخر کرتے ہوئے کہتا ہے:

أَولَئِكَ آبَائِي فَجِئنِي بِمِثْلِهمْ ... إِذَا جَمَعتنا يَا جَريرُ المجَامعُ ([1])

ترجمہ: وہ میرے آباء واجداد ہیں ، تم ان جیسا کوئی لے کر آؤ، اے جریر! ہم تمام اچھی اوصاف کے منبع ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب وحسب عرب وعجم کے تمام خاندانوں سے پاکیزہ اور سب سے اعلی وارفع تھا، آپ نے خود اس پر فخر کیا، حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:« إِنَّ اللهَ اصْطَفَى كِنَانَةَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ، وَاصْطَفَى قُرَيْشًا مِنْ كِنَانَةَ، وَاصْطَفَى مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ، وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ»([2]). اللہ تعالی نے اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے کنانہ کو منتخب فرمايا اور کنانہ سے قریش کو منتخب فرمايا اور قریش سے بنو ہاشم کو منتخب فرمايا ، اور بنو ہاشم سے مجھے منتخب فرمايا ۔

2ـ جود وسخا

یہ ایسی وصف ہے جسے اسلام تو کیا ہر زمانے کی تمام اقوام میں ممدوح تصور کی جاتی رہی ہے، نصیحت کرنا،جمع زبانی خرچ کرنا، بڑی باتیں کرنا تو بہت آسان ہے مگر بڑی محنت ومشقت سے جمع کیا ہوا رزقِ حلال دو منٹ میں کسی اجنبی پر خرچ کر دینا بہت مشکل کام ہے، دوسروں پر خرچ کرنا تو در کنار لوگ خود پر خرچ کرنے سے بھی کتراتے ہیں کہ کل کیا ہوگا، ہوس ولالچ انسان کی طبیعت کا حصہ ہے، نفس امارہ انسان کو خوف میں ہمیشہ مبتلا رکھتا ہے اورهل من مزيد کی تلقین کرتے نظر آتا ہے، جو لوگ اپنا عمدہ مال دوسروں پر خرچ کرتے ہیں تاریخ انہیں یاد رکھتی ہے، حاتم طائی، عتبہ بنت عفیف ، سفانہ اور حنظلہ کے قصے ہمارے کتابوں کی زینت بنے ہوئے ہیں، ہر زمانے کے شعراء اپنے اپنے ممدوح کو سخاوت کے اوصاف سے متصف ہونے کے اشعار پڑھتے رہے ہیں، بخل کی وصف ہمیشہ بری سمجھی جاتی رہی ہے، سخی ہمیشہ لوگوں میں محبوب سمجھا جاتا رہا ہے خواہ اس میں کتنے ہی عیوب ہوں جیسا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ کا مشہور شعر ہے:

تَسَتَّر بِالسَخاءِ فَكُلُّ عَيبٍ ... يُغَطّيهِ كَما قيلَ السَخاءُ([3])

ترجمہ: سخاوت سے اپنے تمام کو عیبوں کو چھپا لیجئے، کیونکہ یہ تمام عیوب کو ڈھاپ لیتی ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے تمام سخیوں میں سرے فہرست تھے، جب کسی نے مانگا جو ہاتھ میں آیا اٹھا کر دے دیا، کبھی مال ودولت جمع نہیں کی، جب کسی کو کجھ درکار ہوتا وہ آپ کا دروازہ کھٹکھٹاتے، کبھی سائل نا مراد نہیں لوٹا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عروہ سے فرمایا: اے میرے بھانجے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں آگ جلائے بغیر دو دو ماہ گزر جاتے تھے، تو میں نے عرض کیا: آپ کیا کھاتے تھے؟ فرمایا:

الأَسْوَدَانِ التَّمْرُ وَالمَاءُ، إِلَّا أَنَّهُ قَدْ كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِيرَانٌ مِنَ الأَنْصَارِ، كَانَتْ لَهُمْ مَنَائِحُ، وَكَانُوا يَمْنَحُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَلْبَانِهِمْ، فَيَسْقِينَا»([4])

ترجمہ: صرف پانی اور کھجور البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ انصاری پڑوسی تھے جن کے ہاں دودھ دینے والی بکریاں تھیں اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا دودھ بطورتحفہ بھیجا کرتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ دودھ ہمیں بھی پلایا کرتے تھے ۔

امام بخاری نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جود وسخا کے بارے میں بہت عمدہ حدیث روایت فرمائی ہے کہ سہل بن سعد سے روایت ہے کہ ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بردہ(چادر) لے کر آئی، سہل نے لوگوں سے پوچھا کیا آپ جانتے ہو بردہ کیا ہوتا ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ ایک قسم کی چادر ہوتی ہے۔ سہل نے کہا: یہ ایسی چادر ہے جس کے کناروں پر کشیدہ کاری کی گئی ہوتی ہے۔ اس عورت نے عرض کیا: یا رسول اللہ،میں نے یہ چادر اپنے ہاتھوں سے بُنی ہے اور یہ آپ کو پہنانے آئی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر اپنے حجرے مبارک میں تشریف لے گئے اور اسے بطور تہہ بند زیب تن فرما کر باہر تشریف لائے کیونکہ آپ کو اس کی ضرورت تھی ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین میں سے ایک نے اسے دیکھ کر عرض کیا: یا رسول اللہ، کیا ہی پیاری چادر ہے! کیا یہ چادر آپ مجھے دینا پسند فرمائیں گے؟ آپ نے فرمایا: کیوں نہیں( تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر مبارک انہیں پیش فرما دی) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس مجلس سے باہر تشریف لے گئے تو صحابہ کرام نے اس صحابی کو ملامت کیا اور کہا: کیا آپ کو نہیں معلوم کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی ضرورت تھی؟ اور یہ بھی آپ کو معلوم ہے کہ جب بھی کسی نے آپ سے کوئی چیز مانگی تو آپ نے کبھی منع نہیں فرمایا تو پھر آپ نے یہ کیوں مانگی؟ اس صحابی نے کہا:

إِنِّي وَاللَّهِ، مَا سَأَلْتُهُ لِأَلْبَسَهُ، إِنَّمَا سَأَلْتُهُ لِتَكُونَ كَفَنِي، قَالَ سَهْلٌ: فَكَانَتْ كَفَنَهُ»([5])

ترجمہ: میں نے یہ چادر پہننے کیلئے نہیں لی بلکہ جب میری موت آئے تو مجھے اس میں کفن دیا جائے۔ حضرت سہل فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ اسی چادر میں انہیں دفنایا گیا تھا۔

3ـ شکر گزاری اور تواضع

عظیم شخصیات شکر گزاری اور تواضع سے لیس ہوتی ہیں، کبھی کسی نا شکرے انسان نے ترقی نہیں کی، کفران نعمت بری صفت ہے، احسان کا تقاضہ ہے کہ معطی کا شکر ادا کیا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَا يَشْكُرُ اللَّهَ مَنْ لَا يَشْكُرُ النَّاسَ»([6]).

ترجمہ: جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالی کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔

قرآن میں متعدد مقامات پر شکر کرنے کا حکم دیا گیا ہے، شكر كا معني احسانات كا اعتراف کرنا ہے، خواہ وہ زبان سے ہو یا افعال سے یا دل سے، شاعر شکر کے سیاق وسباق میں کہتا ہے:

أَفَادَتْكُم النَّعْمَاءُ مِنِّي ثَلَاثَةً ... يَدِي وَلِسَانِي وَالضَّمِيْرَ المُحَجَّبَا([7])

ترجمہ: کہ مجھ سے تمہیں تین طریقوں سے فائدہ پہنچا ہے، میرے ہاتھ، زبان اور میرے پوشیدہ دل سے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کی بارگاہ میں شکر گزاری کی انتہاءکو پہنچے ہوئے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر قیام اللیل فرمایا کرتے تھے کہ آپ کے قدم مبارک پھول جاتے تھے، ایک دفعہ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ، آپ ایسا کیوں کرتے ہیں جبکہ اللہ تعالی نے آپ کو معصوم بنایا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَفَلاَ أُحِبُّ أَنْ أَكُونَ عَبْدًا شَكُورًا»([8])

ترجمہ: کیا یہ مجھے پسند نہیں کہ میں اللہ تعالی کا بہت زیادہ شکر ادا کرنے والا بندہ بنوں۔

اور تواضع میں بھی سب سے ممتاز تھے، تاریخ کے اوراق کو اگر آپ پلٹ کر دیکھیں تو کوئی عظیم شخصیت متکبر نہیں ملے گی، تواضع پھل دار شاخ کی مانند ہے جو جھکی ہوئی ہوتی ہے، کسی نے کیا خوب کہا کہ پہاڑی پر چڑھنے والا شخص ہمیشہ آگے جھکا ہوا ہوتا ہے، اور اترنے والا شخص پیچھے کی جانب اکڑا ہوتا ہے، تو جھکنے میں ترقی ہے، رفعتِ منزلت کی علامت ہے، اکڑنے میں پستی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت متواضع اور رقیق القلب تھے جب کسی محفل میں تشریف فرما ہوتے تو آنے والے کو پتہ نہیں چلتا تھا کہ آپ کا اسم گرامی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے کیونکہ آپ نے کبھی کوئی الگ لباس زیب تن نہیں فرمایا، آپ کی تواضع کی دلیل اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ آپ نے اپنے ذاتی وجوہات کی بناء پر کبھی غصہ نہیں فرمایا، حضرت انس رضی اللہ فرماتے ہیں:« إِنْ كَانَتِ الأَمَةُ مِنْ إِمَاءِ أَهْلِ المَدِينَةِ لَتَأْخُذُ بِيَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَنْطَلِقُ بِهِ حَيْثُ شَاءَتْ»([9])

ترجمہ: مدینہ منورہ کی کوئی باندی اگر آپ کا ہاتھ مبارک پکڑ کر کہیں چل پڑتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ چل پڑتے اور وہ جہاں چاہتی لے جاتی۔

4ـ بہادری، توکل اور خوف خدا

بزدل شخص کا اچھا لیڈر اور اعلی شخصیت کا مالک ہونا تو در کنار اپنی سیدھی سادی زندگی گزارنا بھی مشکل ہو جاتا ہے، بہادری اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے، بزدلی سے قوموں کا زوال آتا ہے، یونان کے چھوٹے سے قصبے سپارٹا کا نام اڈھائی ہزار سال گزرنے کے باوجود کتب میں نقش ہے، بہت ساری بزدل قوموں کے نام ونشان دنیا سے مٹ گئے، بہادری ایسی طاقت ہے جس سے انسان اپنی کمزوریوں کو شکست دے سکتا ہے، بہادری کے ساتھ اللہ تعالی پر توکل اور خوف خدا لازم وملزوم ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام صفات سے مزین تھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم یوم بدر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سہارا لیتے تھے:

وَهُوَ أَقْرَبُنَا إِلَى الْعَدُوِّ، وَكَانَ مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ يَوْمَئِذٍ بَأْسًا»([10])

ترجمہ: اور آپ ہم سب سے زیادہ دشمن کے قریب تھے، اور وہ اس دن سب سے زیادہ بہادر شخص تھے۔ اور فرماتے ہیں: كُنَّا إِذَا احْمَرَّ الْبَأْسُ وَلَقِيَ الْقَوْمُ الْقَوْمَ اتَّقَيْنَا بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا يَكُونُ مِنَّا أَحَدٌ أَدْنَى مِنَ القَوْمِ مِنْهُ»([11])

ترجمہ: جب جنگ میں لوگوں کی مد بھیڑ ہوتی دو فوجیں آپس میں ٹکراتیں ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سہارا لیتے، اور آپ ہم سب سے زیادہ دشمن کے قریب ہوتے۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک غزوہ سے واپس آ رہے تھے کہ راستے میں ایک گھنے درختوں والی وادی میں آرام کرنے کا فیصلہ کیا گیا، آپ ایک گھنے درخت کے نیچے آرام فرما ہوئے اور تلوار مبارک ایک ٹہنی پر لٹکا دی ہم سب لوگ بھی درختوں کے نیچے چلے گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچانک ہمیں بلایا اور ہم نے دیکھا کہ آپ کے پاس ایک اعرابی بیٹھا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ هَذَا اخْتَرَطَ عَلَيَّ سَيْفِي وَأَنَا نَائِمٌ، فَاسْتَيْقَظْتُ وَهُوَ فِي يَدِهِ صَلْتًا، فَقَالَ: مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي؟ فَقُلْتُ: اللَّهُ - ثَلاَثًا - وَلَمْ يُعَاقِبْهُ وَجَلَسَ»([12])

ترجمہ: کہ میں سو رہا تھا کہ اچانک ایک اعرابی آيا جس سے میری آنکھ کھل گئی میری تلوار ہاتھ میں لے کر کہتا ہے: آپ کو میرے ہاتھوں سے کون بچا سکتا ہے؟ میں نے کہا: اللہ تعالی۔ اس نے یہ لفظ تین دفعہ دہرائے اور میں نے کہا: اللہ تعالی۔ پھر تلوار ایک طرف رکھ دی اور اب یہ میرے پاس بیٹھا ہے، اور آپ نے اسے کسی قسم کی سزا نہیں دی۔

اس جرات وبہادری کے ساتھ خوف خدا بھی تھا کہ ہمیشہ اللہ تعالی سے پناہ مانگا کرتے تھے، اور امت کی فکر کرتے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا عَصَفَتِ الرِّيحُ، قَالَ:« اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا، وَخَيْرَ مَا فِيهَا، وَخَيْرَ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا، وَشَرِّ مَا فِيهَا، وَشَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ

ترجمہ: کہ جب آندھی چلتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: یا اللہ، میں آپ سے بھلائی چاہتا ہوں اور جو اس ہوا میں ہے اس کی بھلائی، اور جو اس میں بھیجا گیا ہے اس کی بھلائی، اور میں اس کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور جو اس میں شر ہے اس سے بھی اور جو شر اس میں بھیجا گیا ہے اس سے بھی پناہ مانگتا ہوں۔ اور فرماتی ہیں:

وَإِذَا تَخَيَّلَتِ السَّمَاءُ تَغَيَّرَ لَوْنُهُ، وَخَرَجَ وَدَخَلَ وَأَقْبَلَ وَأَدْبَرَ، فَإِذَا مَطَرَتْ، سُرِّيَ عَنْهُ، فَعَرَفْتُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: لَعَلَّهُ، يَا عَائِشَةُ كَمَا قَالَ قَوْمُ عَادٍ:﴿ فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا﴾[الأحقاف: 46/24]([13])

ترجمہ: کہ جب آسمان کا رنگ تبدیل ہوتا تو آپ بے چینی کی کیفیت میں کمرے میں داخل ہوتے پھر باہر جاتے، آگے جاتے پھر پیچھے ہوتےاور جب بارش ہو جاتی تو آپ مطمئن ہو جاتے یہاں تک کہ آپ کے چہرہ پر خوشی محسوس ہوتی، ایک دفعہ میں نے اس بے چینی کی وجہ دریافت کی تو فرمایا: اے عائشہ، مجھے یہ حالت کچھ ایسے محسوس ہوتی ہے جیسا کہ قوم عاد نے بادلوں کو اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے دیکھ کر کہا تھا: یہ بادل ہمارے اوپر برسنے والے ہیں۔ لیکن ان کو نہیں معلوم تھا کہ ہم پر درد ناک عذاب آنے والا ۔

5ـ اچھا معلم ہونا

اچھا معلم ہونا با کمال لوگوں کی نشانی ہے، عظیم شخصیات ہمیشہ اچھا معلم ہوا کرتی ہیں، جسے اپنی بات صحیح ڈھنگ سے دوسروں تک پہنچانا نہیں آتی وہ شخص کبھی اعلی صفات کا حامل نہیں ہو سکتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں اچھے معلم کی تمام صفات پائی جاتی تھیں، ایک اچھے معلم کی صفت یہ ہے کہ وہ قدوہ حسنہ سے لوگوں کو تعلیم دے، اس کے اقوال اور افعال کا آپس میں تضاد نہ ہو، اس وصف کو قرآن کریم نے یوں بیان فرمایا:

لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ [ الأحزاب: 33/21]ترجمہ: کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے درمیان قدوۃ حسنہ ہیں۔

ایک اچھے معلم کی صفت یہ ہے کہ وہ ہر طالب علم کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے اس کے سؤال کا جواب موقع مناسبت سے دیتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر صحابی کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے ایک ہی سوال کا الگ الگ جواب دیا کرتے تھے، ایک دفعہ صحابی نے عرض كيا یا رسول اللہ: آپ مجھے ایسی وصیت فرمائیں جو میرے لیے سود مند ہو۔ فرمایا:« تقوى الله». تقوی اختیار کرو۔ اسی طرح کا سؤال ایک اور صحابی نے پوچھا تو فرمایا:« لا تغضب». غصہ مت کرو۔ ایک اور دفعہ کسی اور نے یہی سؤال پوچھا تو فرمایا:« أمْسكْ عليك لسانَك». اپنی زبان قابو میں رکھو۔ ایک دفعہ اسی سؤال کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:« تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلاَمَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ»([14]). ترجمہ:بھوکوں کو کھانا کھلاؤ ہر شخص کو سلام کرو خواہ تم اسے جانتے ہو یا نہیں۔

ایک اچھے معلم کی صفت یہ نہیں ہے کہ وہ بولتا ہی چلا جائے بلکہ اچھا معلم کبھی سوال کرتا ہے، اور کبھی جواب دیتا ہے، اور کبھی بحث ومباحثہ کرتا ہے تاکہ طلبہ اس میں شریک ہوں، اور بات اچھی طرح ذہن نشین ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا فرمایا کرتے تھے، چنانچہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا: «أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ؟» کیا آپ جانتے ہو مفلس کون ہے؟ عرض کیا: جس کے پاس دینار ودرہم نہیں، فرمایا:

إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ، وَصِيَامٍ، وَزَكَاةٍ، وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا، وَقَذَفَ هَذَا، وَأَكَلَ مَالَ هَذَا، وَسَفَكَ دَمَ هَذَا، وَضَرَبَ هَذَا، فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ، ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ»([15])

ترجمہ: میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے روز ڈھیر ساری نمازیں، روزے اور زکاتیں لے کر آئے گا مگر ساتھ ہی اس حال میں آئےگا کہ کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پہ تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگی ہوگا، کسی کو مارا ہوگا پھر ان کو اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی یہاں تک کہ حساب پورا ہونے سے قبل اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی، پھر ان دعوے داروں کے گناہ اس پر ڈال دیے جائیں گے، اور پھر وہ سر کے بل آگ میں ڈال دیا جائےگا۔ایک دفعہ صحابہ سے پوچھا:« تَدْرُونَ مَنِ الْمُسْلِمُ»([16])؟ کیا تم جانتے ہو مسلمان کون ہے؟ ایک اور دفعہ پوچھا:« أَ تَدْرُونَ مَا حَقُّ الْجَار»»([17])؟ کیا تم جانتے ہو پڑوسیوں کا حق کیا ہوتا ہے؟

ایسا نہیں ہو سکتا کہ تمام طلبہ ایک جیسی صلاحیات کے مالک ہوں، کوئی جلدی بات سمجھتا ہے اور بعض بہت دیر سے سمجھتے ہیں، کچھ طالب علم مشکل سے مشکل بات کو فورا سمجھ جاتے ہیں اور بعض طلبہ آسان سے آسان بات کو بھی بہت اچھے طریقے سے بھی نہیں سمجھ سکتے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر شخص کو ان کی عقلی اور نفسیاتی صلاحیات کے مطابق جواب دیا کرتے تھے، ابو امامہ رضی الله تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زنا کی اجازت مانگی، جواب میں ڈانٹا نہیں بلکہ فرمایا:

أَتُحِبُّهُ لِأُمِّكَ؟... أَفَتُحِبُّهُ لِابْنَتِكَ؟... أَفَتُحِبُّهُ لِأُخْتِكَ؟... أَفَتُحِبُّهُ لِعَمَّتِكَ؟... أَفَتُحِبُّهُ لِخَالَتِكَ؟...»([18]) ترجمہ: کیا تم خود اپنی والدہ یا اپنی بیٹی، یا اپنی پھوپھی، اپنی خالہ کیلئے یہ پسند کرتے ہو؟ کہا: نہیں یا رسول اللہ، آپ نے فرمایا ایسے لوگ بھی پسند نہیں کرتے کہ ان کی والدہ بیٹی بہن پھوپھی یا خالہ کے ساتھ کوئی ایسا کام ہو، تو وہ خود بخود اس عمل سے رک گیا۔

نا کام استاذ وہ ہے جو خود بول رہا ہو اور اس کے طلبہ سو رہے ہوں یا جسم اور کپڑوں یا اپنے بالوں وغیرہ سے کھیل رہے ہوں، اور اسے اپنے طرف متوجہ کرنا نا آتا ہو، اچھا استاذ مختلف طریقوں سے سامعین کو اپنی طرف متوجہ کرنا جانتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ کو اپنے طرف متوجہ کرنا بخوبی جانتے تھے، چنانچہ ایک دفعہ صحابہ سے پوچھا « أَيُّ يَوْمٍ هَذَا». فَسَكَتْنَا حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ سِوَى اسْمِهِ، قَالَ:« أَلَيْسَ يَوْمَ النَّحْرِ» قُلْنَا: بَلَى، قَالَ:« فَأَيُّ شَهْرٍ هَذَا» فَسَكَتْنَا حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، فَقَالَ:« أَلَيْسَ بِذِي الحِجَّةِ» قُلْنَا: بَلَى، قَالَ...([19])

ترجمہ: کہ تمہیں معلوم ہے آج کون سا دن ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول کا بہتر جانتا ہے۔ پھر ہم سب خاموش ہو گئے یہاں تک کہ ہمیں لگا کہ اب خود نام لے لیں گے، فرمایا: کیا آج یوم النہر نہیں؟ ہم نے عرض کیا جی یا رسول اللہ، پھر فرمایا: یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے، آپ خاموش ہو گئے یہاں تک کہ ہمیں لگا کہ اب خود نام لے لیں گے، فرمایا: کیا یہ ذو الحجہ نہیں؟ عرض کیا جی یا رسول اللہ، پھر فرمایا۔۔۔ کبھی آپ لیٹے ہوئے گفتگو فرما رہے ہوتے اچانک بیٹھ جاتے سب لوگ متوجہ ہوتے پھر اہم بات بتاتے، جب بہت اہم بات ہوتی تو لب و لہجہ حسب ضرورت تبدیل فرماتے۔

بات کرتے ہوئے جلدی کرنا یا تیزی سے بولنا اچھے استاذ کی علامت نہیں ہےکیونکہ ایسے کرنے سے بات طلبہ کے سروں سے گزر سکتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے سکینہ اور وقار سے گفتگو فرماتے کہ اگر کوئی حروف گننا چاہے تو گن سکتا تھا، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعِيدُ الكَلِمَةَ ثَلَاثًا لِتُعْقَلَ عَنْهُ»([20]). ترجمہ:کہ بعض دفعہ بات کو تین دفعہ دہراتےتاکہ سامعین صحیح طریقے سے سمجھ سکیں۔

دنیا نے جب سے ترقی کی ہے تب سے تدریس کے طرق بھی جدت اختیار کر چکے ہیں، جامعات اور کالجز میں ایجوکیشن کا ایک مستقل شعبہ سامنے آیا ہے جس میں تدریس کے طریقے سمجھائے جاتے ہیں، تاکہ طلبہ صحیح طریقے سے بات سمجھ سکیں، اچھا استاذ موقع ومناسبت سے آلات بھی استعمال کرتا ہے، کبھی قلم اور دوات کا استعمال اور کبھی چاک اور بلیک بورڈ کا، کبھی نقشوں کا استعمال اور کبھی اقلام واوراق کا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی حسب موقع ومناسبت مختلف آلات کا استعمال فرماتے تھے ، کئی دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مثالیں دے کر سمجھاتے اور بعض اوقات زمین پر خط کھینچ کر مسائل سمجھایا کرتے تھے۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

خَطَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطًّا مُرَبَّعًا، وَخَطَّ خَطًّا فِي الوَسَطِ خَارِجًا مِنْهُ، وَخَطَّ خُطَطًا صِغَارًا إِلَى هَذَا الَّذِي فِي الوَسَطِ مِنْ جَانِبِهِ الَّذِي فِي الوَسَطِ، وَقَالَ: هَذَا الإِنْسَانُ، وَهَذَا أَجَلُهُ مُحِيطٌ بِهِ - أَوْ: قَدْ أَحَاطَ بِهِ - وَهَذَا الَّذِي هُوَ خَارِجٌ أَمَلُهُ، وَهَذِهِ الخُطَطُ الصِّغَارُ الأَعْرَاضُ، فَإِنْ أَخْطَأَهُ هَذَا نَهَشَهُ هَذَا، وَإِنْ أَخْطَأَهُ هَذَا نَهَشَهُ هَذَا»([21])

ترجمہ: کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مربع شكل كا ايك خط کھینچا ۔ پھر اس کے درمیان ایک خط کھینچا جو اس مربع خط کے درمیان میں تھا ۔ اس کے بعد درمیان والے خط کے اس حصے میں جو مربع کے درمیان میں تھا چھوٹے چھوٹے بہت سے خطوط کھینچے اور پھر فرمایا کہ یہ انسان ہے اور یہ اس کی موت ہے جو اسے گھیر ے ہوئے ہے اور یہ جو بیچ کا خط باہر نکلا ہوا ہے وہ اس کی امید ہے اور چھوٹے چھوٹے خطوط اس کی دنیا وی مشکلات اور آفات اور مصائب ہیں ۔ پس انسان جب ایک مشکل سے بچ کر نکلتا ہے تو دوسری میں پھنس جاتا ہے اور دوسری سے نکلتا ہے تو تیسری میں پھنس جاتا ہے۔

6ـ اپنے مشن کی تکمیل کیلئے جدو جہد اور صبرو استقامت

دنیا میں کوئی شخص بیکار نہیں ہے، بہتر مستقبل کیلئے ہر شخص جدو جہد کرتا رہتا ہے، عظیم شخصیات کے اہداف اور مقاصد بھی عظیم ہوتے ہیں، اور ان اہداف ومقاصد کے حصول میں کبھی تھکتے نہیں، ان کے کبھی حوصلے پست نہیں ہوتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نوعِ انسانیت میں سے عظیم تر شخص تھے اور آپ کے اہداف بھی عظیم تھے، وہ عظیم مقصد دعوت اسلام کو عام کرنا اور اس میں حائل تمام رکاوٹوں کو ختم کرنا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقصد کے حصول کیلئے ہمیشہ اپنی جدو جہد جاری رکھی، اور کسی فرصت کو ضائع نہیں ہونے دیا، آپ ہمیشہ دعوت تبلیغ کے مواقع کی تلاش میں رہتے جیسے ہی مناسب موقع ملتا فوراً دعوت اسلام پیش فرماتے، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی بچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا ایک دن بیمار ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کرنے اس کے گھر تشریف لے گئے پھر فرمایا: میں آپ کو دعوت اسلام پیش کرتا ہوں آپ اسلام قبول کیجئے۔وہ اپنے والد کو دیکھنے لگا، اس کے والد نے کہا: ابا قاسم کی بات مان لیں اسلام لے ائیں، اور وہ مسلمان ہو گیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھر سے باہر تشریف لانے لگے تو فرمایا: « الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ مِنَ النَّارِ»([22]). تمام تعریفیں اللہ تعالی کیلئے ہیں جس نے اسے آگ سے بچایا۔ آپ اپنی امت کیلئے ہمیشہ فکرمند رہتے تھے، حضرت ابو ہریرۃ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ، فَتَعَجَّلَ كُلُّ نَبِيٍّ دَعْوَتَهُ»([23])

ترجمہ .ہر نبی کو ایک دعاءِ مستجاب عطا فرمائی گئی ہے، ہر نبی نے اپنی وہ دعاءِ مستجاب دنیا ہی میں طلب کرلی۔ میں نے اپنی وہ دعا قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کیلئے چھپا رکھی ہے، میری شفاعت میری امت کے اس فرد کو حاصل ہوگی جو اس طرح مرا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کیا۔

جو صبر واستقامت سے کام لیتے ہیں کامیابی انہیں کے پاؤں چومتی ہے، کمزورشخص وہ نہیں جس کے پاس مال ودولت نہ ہو بلکہ کمزور وہ ہے جس کے پاس ہمت نہ ہو، ہمت نہ ہارنے والا ہار کر بھی جیت جاتا ہے، پست حوصلوں کا مالک جیت کر بھی ہار جاتا ہے، صبر واستقامت میں دنیا کی تمام بھلائیوں اور کامیابیوں کے راز مستور ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قسم کا صبر فرمایا، خواہ وہ مسلمانوں پر آنے والی مصیبتیں اور پریشانیاں تھیں یا کفار کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کے پہاڑ تھے، ہمیشہ ڈٹے رہے، اہداف کے حصول کیلئے ہر قسم کی پیش کش کو ٹھکرا دیا، اور اپنے چچا ابو طالب کو فرمایا:

يا عَمِّ لَو وَضَعتَ الشَّمسَ في يَميني والقَمرَ في يَساري ما تركتُ الأمرَ حتى يَظهره اللهُ أو أُهلكُ في طلَبه»([24]).

ترجمہ:اللہ کی قسم اگر آپ میرے دائیں ہاتھ پر سورج رکھ دیں اور بائیں ہاتھ پر چاند، تب بھی میں دعوت تبلیغ کا کام نہیں چھوڑوں گا، یہاں تک کہ اللہ تعالی دین کا معاملہ واضح کر دے، یا میں اس کے سامنے شہید کر دیا جاؤں۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا اور آپ پر موٹے کناروں والی نجران کی چادر مبارک تھی ایک اعرابی ملا جس نے چادر سے آپ کی گردن کو زور سے دبایا یہاں تک کہ جسم پر چادر کے نشانات ظاہر ہو گئے، پھر کہا:

مُرْ لِي مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي عِنْدَكَ، فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ فَضَحِكَ، ثُمَّ أَمَرَ لَهُ بِعَطَاءٍ»([25]) ترجمہ: اے محمد تمھارے پاس جو اللہ کا مال ہے اس میں سے کچھ مجھے بھی دو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسکرا کر دیکھا پھر حکم دیا کہ اسے کچھ دے دیا جائے۔ واقعہ طائف میں کفار نے جو آپ کو اذیت پہنچائی اس کی نظیر نہیں ملتی، یہاں تک کہ آپ کو مارنے کےلئے آپ کے پیچھے بچے چھوڑ دیے گئے اور آپ کے قدم لہو لہان ہو گئے مگر تب بھی آپ نے انہیں بد دعا نہیں دی بلکہ دعائیں دیتے رہے۔

7ـ رحمت ،شفقت اور بچوں کے ساتھ خوشی طبعی

کسی کو تکلیف پہنچانا، انتقام کے در پئے ہونا، بات بات پر غصہ کرنا کمزور شخص کی علامت ہے، مضبوط شخصیت کے مالک کسی کو نا حق تکلیف نہیں دیتے، گالی گلوچ نہیں کرتے، دوسروں کو معاف کرتے ہیں، دشمنوں سے اچھا سلوک کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ان تمام اوصاف و خصائص کی حامل تھی، آپ کی رحمت تمام لوگوں کو شامل تھی، خواہ کمزور ہوں یا طاقتور غلام ہوں یا ان کے مالک ومولی ، آپ کے قریب ہوں یا آپ سے دور، دوست ہوں یا دشمن، جن ہوں یا حیوانات، پرند ہوں یا چرند، بلکہ اس درخت کو بھی شامل ہے جس کے تنےکو آپ نے بطور منبر استعمال فرمایا اور پھر جب آپ کو منبر پیش کیا گیا تو آپ نے اسے مسجد نبوی سے باہر نکال دیا اور پھر وہ زور زور سے چھوٹے بچے کی طرح زارو قطار رونے لگا ([26])۔ اور ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ اللہ تعالی نے آپ کا دل نرم کر دیا:﴿ فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ الآية ﴾ [آل عمران: 159]. رحمت وشفقت کی چند مثالیں:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ بچوں سے پیار اور شفقت سے پیش آتے تھے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام حسن کو بوسہ دیا اقرع بن حابس نے یہ دیکھ کر کہا: میرے دس بچے ہیں میں نے اب تک کبھی کسی کو بوسہ نہیں دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: « مَنْ لاَ يَرْحَمُ لاَ يُرْحَمُ»([27]). ترجمہ: جو کسی پر رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔

عام طور پر لوگ اپنے خدام کو ڈانتے ہوئے نظر آتے ہیں، کبھی گالی گلوچ کرتے ہیں، کبھی ان کی عزت مجروح کرتے ہیں، ان کے ساتھ کھانے پینے میں اپنی بے عزتی محسوس کرتے ہیں، دور جاہلیت میں غلاموں کو الگ لباس پہنایا جاتا تھا اور سر کے بالوں کی وضع قطع بھی مختلف ہوا کرتی تھی تاکہ ان کی پہچان رہے، اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا تھا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع فرمایا، معرور بن سوید کہتے ہیں کہ میں نے ابو ذر کو دیکھا ان پر اور ان کے غلام پر بھی قیمتی پوشاکیں تھیں، تو میں نے اس کی وجہ دریافت کی تو بتایا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص کی ماں کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کیے، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں شکایت کر دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:« يَا أَبَا ذَرٍّ أَعَيَّرْتَهُ بِأُمِّهِ؟ إِنَّكَ امْرُؤٌ فِيكَ جَاهِلِيَّةٌ، إِخْوَانُكُمْ خَوَلُكُمْ، جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ، فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ، فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ، وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ، وَلاَ تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ، فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ فَأَعِينُوهُمْ»([28]).

ترجمہ:ابو ذر کیا تم نے اس کی ماں کو برا بھلا کہا؟ تمھارے اندر جاہلیت ہے، تمھارے خدام تمھارے بھائی ہیں اللہ تعالی نے تمھارے نیچے کر دیئے ہیں، اگر تمھارا کوئی بھائی تمہارے نیچے ہو تو تم اسے وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو وہی پہناؤ جو خود پہنتے ہو، ان کو کسی ایسے کام پر مامور مت کرو جس میں مشقت ہو اگر کچھ ایسا ہو تو ان کی مدد کرو۔

حضرت ابو قتادہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:« إِنِّي لَأَقُومُ فِي الصَّلاَةِ أُرِيدُ أَنْ أُطَوِّلَ فِيهَا، فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ، فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلاَتِي كَرَاهِيَةَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمِّهِ»([29]). ترجمہ: کہ میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں اور میرا دل چاہتا ہے کہ میں نماز لمبی کروں لیکن مجھے بچے کے رونے کی آواز سنائی دیتی ہے تو میں نماز کو مختصر کر دیتا ہوں تاکہ اس کی ماں کو تکلیف نہ ہو۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:« لَوْلاَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي أَوْ عَلَى النَّاسِ لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ مَعَ كُلِّ صَلاَةٍ»([30]). ترجمہ: اگر میری امت کیلئے بار گراں نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کےلئے مسواک ضروری قرار دے دیتا۔ ایک اور حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ :« مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا أَخَذَ أَيْسَرَهُمَا مَا لَمْ يَكُنْ إِثْمًا»([31]).

ترجمہ: کہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو چیزوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دیا گیا آپ نے ہمیشہ آسان کام پسند فرمایا جب تک وہ کام گناہ نہ ہو۔

بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام مسلمان اور انسان تو در کنار حیوانوں پر بھی شفقت کا حکم دیا ہے، ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:« دَخَلَتِ امْرَأَةٌ النَّارَ فِي هِرَّةٍ رَبَطَتْهَا، فَلَمْ تُطْعِمْهَا، وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الأَرْضِ»([32]).

ترجمہ: ایک عورت ایک بلی کی وجہ سے جہنم میں ڈال دی گئ کہ اس نے اسے باندھ دیا نہ تو خود اسے کچھ کھلایا اور نہ ہی اسے چھوڑا کہ وہ خود زمین سے کچھ کیڑے مکوڑے کھا لے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خدام کے ساتھ خوش طبعی فرماتے تھے، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اچھے اخلاق کے مالک تھے،ایک دفعہ مجھے کام کیلئے بھیجا میں نے کہا: میں کام کرنے نہیں جاؤں گا، اور میرے دل میں تھا جس کام کا اللہ کے رسول حکم دینگے وہ ضرور کروں گا، راستے میں مجھے بچے ملے جو بازار میں کھیل رہے تھے میں انھیں دیکھنے ٹھہر گیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے سے میری گردن پر دست شفقت رکھا، فنَظرتُ إلَيه وهُو يَضحَك. فَقَال: «يا أُنَيس أذَهبتَ حيثُ أمرتُك؟» قال: قلتُ: نعم. أنا أذهبُ يا رسول الله.

ترجمہ: میں نے مڑ کر دیکھا تو آپ مسکرا رہے ہیں، اور پیار سے فرمایا: اے انیس( یعنی چھوٹا سا انس) جس کام کا میں نے کہا تھا وہ کر لیا؟ میں نے عرض کیا جی یا رسول اللہ ابھی جاتا ہوں۔ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

وَاللهِ لَقَدْ خَدَمْتُهُ تِسْعَ سِنِينَ، مَا عَلِمْتُهُ قَالَ لِشَيْءٍ صَنَعْتُهُ: لِمَ فَعَلْتَ كَذَا وَكَذَا؟ أَوْ لِشَيْءٍ تَرَكْتُهُ: هَلَّا فَعَلْتَ كَذَا وَكَذَا»([33]).

ترجمہ: کہ میں نے آپ کی نو سال تک خدمت کی کبھی مجھے یہ نہیں کہا کہ تم نے یہ کیوں کیا اور یہ کیوں نہیں کیا، اور اگر میں نے کوئی کام نہیں کیا تو کبھی ڈانٹ کر یہ نہیں کہا: یہ کام کب کرو گے۔

آپ صحابہ کرام سے بھی خوش طبعی فرمایا کرتے تھے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ہم ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ نے لوگوں سے ایک سوال پوچھا مجھے ایک ایسے درخت کے بارے میں بتاؤ جو مسلمان سے مشابہت رکھتا ہے نہ تو اس کے پتے جھڑتے ہیں اور نہ ہی اس کا نفع منقطع ہوتا ہے؟ میرے دل میں آیا کہ وہ کجھور کا درخت ہے، ابو بکر اور عمر کو میں نے دیکھا دونوں خاموش ہیں، تو میں نے ان سب کے سامنے بولنا پسند نہیں کیا اور خاموش رہا یہاں تک کہ آپ نے خود فرمایا وہ کھجور کا درخت ہے۔ جب مجلس برخاست ہوئی تو میں نے اپنے والد گرامی حضرت عمر کو عرض کیا: میرے دل میں تھا کہ وہ کھجور کا درخت ہے، والد گرامی نے فرمایا: تو آپ نے جواب کیوں نہیں دیا؟ میں نے عرض کیا کیونکہ آپ سب خاموش تھے اس لیے میں نے بولنا مناسب نہیں سمجھا، حضرت عمر نے فرمایا: « لَأَنْ تَكُونَ قُلْتَهَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ كَذَا وَكَذَا»([34]) ترجمہ: اگر آپ جواب دے دیتے تو میرے لیے فلاں فلاں چیز سے زیادہ پسند ہوتا۔

8ـ عدل وانصاف اور حق کی پاسداری

عدل کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا، ہمیشہ ترقی یافتہ قوموں میں عدل وانصاف کا بول بالا رہا ہے، عظیم شخصیات کبھی حق پر سودا نہیں کرتے خواہ اس کی قیمت کتنی ہی چکانی پڑے، معاشرے کے ہر فرد کو برابر حقوق دینا اور برابر ذمہ داریاں عائد کرنا عظیم شخصیات کی نشانی ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مشہور شعر ہے:

تنامُ عَينُكَ وَالمَظلومُ مُنتَبِهٌ ... يَدعو عَلَيكَ وَعَينُ اللَهِ لَم تَنَمِ([35])

ترجمہ:جب آپ سو جاتے ہیں تو مظلوم جاگ کر آپ کو بد دعائیں دے رہا ہوتا ہے، کیونکہ اللہ تعالی کی آنکھیں نہیں سوتیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی سی کوئی تمییز نہیں کی، تمام لوگوں سے برابری کا سلوک فرمایا، اور ایک جیسا سلوک کرنے کا حکم فرمایا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک مخزومیہ عورت نے چوری کی جس کے بارے میں قریش کو فکر لاحق ہوئی کہ کسی طرح اسے سزا سے بچایا جائے، تو انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سفارش کرنے کیلئے اسامہ کے علاوہ کوئی جرأت نہیں کر سکتا کیونکہ آپ ان سے محبت فرماتے ہیں، تو حضرت اسامہ نے آپ سے بات کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: « أَتَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللهِ؟». اللہ کی حدود کے بارے میں تم سفارش کرتے ہو؟ پھر کھڑے ہو گئے اور خطبہ دیا اور فرمایا:« أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمِ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمِ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ، وَايْمُ اللهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا»([36])

ترجمہ: تم سے پہلے قومیں اس لیے ہلاک ہوئیں اگر ان میں سے کوئی غریب آدمی چوری کرتا اس پر حد جاری کرتے اگر کوئی امیر آدمی چوری کرتا اسے چھوڑ دیتے، اللہ کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دوں گا۔

بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حق کی پاسداری کیلئے غصہ بھی فرمایا کرتے تھے، کیونکہ مذموم غصہ وہ ہے جو اپنی ذات اور خواہشات کےلئے کیا جائے جو غصہ حق کی پاسداری کےلئےکیا جائے وہ محمود غصہ ہے، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ فلاں امام فجر کی نماز میں بہت لمبی قراءت کرتے ہیں میرا اتنی دیر تک ان کے پیچھے کھڑا رہنا دشوار ہو جاتا ہے لہذا مجھے جماعت کے آخری حصہ میں مجبورا ًشرکت کرنا پڑتی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے کہ میں نے آپ کو اس سے زیادہ غصہ کرتے ہوئے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا، پھر فرمایا:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ مِنْكُمْ مُنَفِّرِينَ، فَأَيُّكُمْ مَا صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيَتَجَوَّزْ، فَإِنَّ فِيهِمُ المَرِيضَ وَالكَبِيرَ وَذَا الحَاجَةِ»([37])

ترجمہ: آپ میں سے کچھ لوگ دوسروں کو متنفر کرتے ہیں، جو بھی امامت کرے اس چاہیے کہ وہ کمزور بڑی عمر اور ضرورت مند حضرات کا خیال رکھے۔

9ـ بیویوں سے ساتھ حسن سلوک

بیویوں سے حسن سلوک، خندہ پیشانی سے پیش آنا، ان کے آرام کا خیال کرنا، نان ونفقہ اور تعلیم وتربیت کا خیال کرنا اور ان کے تمام حقوق پابندی سے ادا کرنا عظیم انسانوں کا شیوہ رہا ہے، مرد کی مردانگی عورت کے احترام اکرام میں ہے ناکہ گالی گلوچ، مارپیٹ اور غیر انسانی سلوک میں، عورت بھی ایک انسان ہے، مردوں کی طرح اس کے بھی جذبات اور احساسات ہیں، مردوں کی طرح انہیں بھی تکلیف اور خوشی کا احساس ہوتا ہے، عورت ایک مستقل مکلَّف ہے، اس کے بھی مردوں کی طرح حقوق اور واجبات ہیں، انکے حقوق کا خیال کرنا مرد پر لازم ہے جیسے مرد کے حقوق کا خیال کرنا عورتوں پر لازم ہے، عورتیں معاشرہ کی گاڑی کا ایک پیہہ ہیں، ان کے بغیر زندگی ادھوری ہے، لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور خصوصاً بیویوں کے حقوق کی تلقین فرمائی، اور فرمایا:«خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي»([38]).

امام بخاری نے کتاب المظالم میں ایک طویل حدیث نقل فرمائی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زوجات مطہرات سے کیسے حسن سلوک فرمایا کرتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بنوامیہ بن زید کے قبیلے میں جو مدینہ سے ملا ہوا تھا۔ میں اپنے ایک انصاری پڑوسی کے ساتھ رہتا تھا۔ ہم دونوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کی باری مقرر کر رکھی تھی۔ ایک دن وہ حاضر ہوتے اور ایک دن میں۔ جب میں حاضری دیتا تو اس دن کی تمام خبریں وغیرہ لاتااور ان کو سناتا , اور جب وہ حاضر ہوتے تو وہ بھی اسی طرح کرتے۔ ہم قریش کے لوگ اپنی عورتوں پر غالب رہا کرتے تھے۔ لیکن جب ہم ہجرت کرکے انصار کے یہاں آئے تو انہیں دیکھا کہ ان کی عورتیں ان پر غالب تھیں۔ ہماری عورتوں نے بھی ان کا طریقہ اختیار کرنا شروع کر دیا۔ میں نے ایک دن اپنی بیوی کو ڈانٹا تو انہوں نے بھی اس کا جواب دیا۔ ان کا یہ جواب مجھے ناگوار معلوم ہوا۔ لیکن انہوں نے کہا کہ میں اگر جواب دیتی ہوں تو تمہیں ناگواری کیوں ہوتی ہے۔ قسم اللہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج تک آپ کو جواب دے دیتی ہیں اور بعض بیویاں تو آپ سے دن بھر خفا رہتی ہیں۔ اس بات سے میں بہت گھبرایا اور میں نے کہا کہ ان میں سے جس نے بھی ایسا کیا ہوگا وہ بہت بڑے نقصان اور خسارے میں ہے۔ اس کے بعد میں نے کپڑے پہنے اور حفصہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور کہا اے حفصہ ، کیا تم میں سے کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دن بھر غصہ رہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہاں ! میں بول اٹھا :

خَابَتْ وَخَسِرَتْ أَفَتَأْمَنُ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ لِغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَهْلِكِينَ لاَ تَسْتَكْثِرِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلاَ تُرَاجِعِيهِ فِي شَيْءٍ، وَلاَ تَهْجُرِيهِ، وَاسْأَلِينِي مَا بَدَا لَكِ، وَلاَ يَغُرَّنَّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِيَ أَوْضَأَ مِنْكِ، وَأَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ, يُرِيدُ عَائِشَةَ»([39])

ترجمہ: کہ پھر تو وہ تباہی اور نقصان میں رہیں۔ کیا تمہیں اس سے امن ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی کی وجہ سے تم پر غصہ ہو جائں اور تم ہلاک ہو جاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ چیزوں کا مطالبہ ہرگز نہ کیا کرو، نہ کسی معاملہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات کا جواب دو اور نہ آپ پر خفگی کا اظہار ہونے دو، البتہ جس چیز کی تمہیں ضرورت ہو، وہ مجھ سے مانگ لیا کرو، کسی خود فریبی میں مبتلا نہ رہنا، تمہاری یہ پڑوسن تم سے زیادہ خوبصورت اور صاف ستھری ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوزیادہ پیاری بھی ہیں۔ آپ کی مراد عائشہ رضی اللہ عنہا سے تھی۔

بلکہ آپ ازواج مطہرات کے ساتھ خوش طبعی بھی فرمایا کرتے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے اور میرے پاس دو لڑکیاں مدح وفخر کے گیت گا رہی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم منع کیے بغیر اپنے بستر پر تشریف لے گئے اور پھر آرام فرما ہوئے اور اپنا چہرہ مبارک کپڑے سے ڈھانک لیا، ابو بکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور عائشہ کو ڈانٹا اور کہا:« مِزْمَارَةُ الشَّيْطَانِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَقَالَ: دَعْهُمَا. فَلَمَّا غَفَلَ غَمَزْتُهُمَا فَخَرَجَتَا»([40]).

ترجمہ: کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شیطانی مزامیر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم متوجہ ہوئے اور فرمایا: انہیں اپنی حالت پہ چھوڑ دو۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توجہ ہٹائی ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آنکھوں سے انہیں باہر جانے کا اشارہ کیا اور وہ چلی گئیں۔

زوجات مطہرات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفا داری کے بارے میں امام بخاری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث روایت کرتے ہیں کہ آپ فرماتی ہیں مجھے جتنی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر غیرت آتی اور کسی پر نہیں آتی تھی جبکہ میں نے انہیں دیکھا بھی نہیں تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر ان کا ذکر فرمایا کرتے تھے، اور جب کبھی کوئی بکری وغیرہ ذبح کرتے تو اس کے گوشت کا ایک حصہ حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کو بھیجا کرتے تھے، ایک دفعہ میں نے عرض کیا: لگتا ہے کہ خدیجہ کے علاوہ دنیا میں کوئی عورت ہی نہیں جب دیکھو کہتے ہیں: وہ یوں تھی اور یوں تھی اور اس سے میرے بچے تھے([41])۔ ایک اور روایت میں ہے میں نے عرض کہا: وہ ایک بڑی عمر کی عورت تھیں یہاں تک کہ ان کے دانت بھی گر گئے تھے، اور پھر اللہ تعالی نے ان سے بہتر آپ کو عطا کر دی، آپ کا اشارہ اپنی طرف تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:« مَا أَبْدَلَنِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ خَيْرًا مِنْهَا، قَدْ آمَنَتْ بِي إِذْ كَفَرَ بِي النَّاسُ، وَصَدَّقَتْنِي إِذْ كَذَّبَنِي النَّاسُ، وَوَاسَتْنِي بِمَالِهَا إِذْ حَرَمَنِي النَّاسُ، وَرَزَقَنِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَدَهَا إِذْ حَرَمَنِي أَوْلَادَ النِّسَاءِ»([42])

ترجمہ: اللہ کی قسم اللہ تعالی نے ان سے بہتر مجھے عطا نہیں فرمایا، وہ تب مجھ پر ایمان لائیں جب لوگوں نے مجھ پر ایمان لانے سے انکار کر دیا، اس نے میری تصدیق کی جب لوگوں نے مجھے جھٹلا دیا، اس نے اپنے مال ومتاع کے ساتھ میری ہمدردی کی جب لوگوں نے مجھے بے یارو مدد گار چھوڑ دیا، اللہ تعالی نے مجھے اس سے اولاد عطا فرمائی جو کسی اور سے نہیں ہوئی۔ تو کہتی ہیں میں نے عرض کیا:« وَاللَّهِ لا أُعَاتِبُك فِيهَا بَعْدَ الْيَوْمِ».

ترجمہ: اللہ کی قسم آج کے بعد میں کبھی ملامت نہیں کروں گی۔

خلا صۃ البحث

دنیا میں کوئی بھی شخص تب تک عظیم انسان نہیں بن سکتا جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل نہیں کرتا، ایک عظیم انسان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اعلی حسب ونسب سے تعلق رکھتا ہو، جذبہ ایثار، جود وسخا سے سر شار ہو، اپنے محسن کا شکر گزار ہو، متواضع اور با حیاء ہو، توکل، صبر، بہادری اور خوف خدا کےپیمانہ سے لبریز ہو، جو شخص اپنی بات دوسروں تک صحیح معنی میں نہیں پہنچا سکتا وہ کبھی قیادت سمبھالنے کے ہر گز لائق نہیں لہذا ضروری ہے کہ وہ اچھا معلم ہو، لوگوں کو قدوہ حسنہ سے تعلیم دے، اس کے اقوال افعال میں مطابقت ہو، طرق تدریس کے اسلوب سے واقف ہو، جدید آلات کا استعمال جانتا ہو، طلبہ کی صلاحیات، ذہانت اور نفسیات سے واقف ہو، اور حسب موقع محل بات کرے، جو شخص اہداف کے حصول کیلئے صبرو استقامت سے جدو جہد کرنا نہ جانتا ہو وہ کبھی کامیاب انسان نہیں بن سکتا، بچوں، بوڑھوں، اور خدام پر شفقت ومہربانی کرنا انسانیت کا لازم جزء ہے، عورتوں اور خصوصا بیویوں سے حسن سلوک کرنا اچھے انسان کی علامت ہے، اسلام سمیت تمام ادیان نے حق کی پاسداری کیلئے آواز بلند کرنا، تمام لوگوں میں مساوات اور غصہ پر قابو پانے کا ہمیشہ درس دیا ہے، بنی نوعِ انسان میں تمام مذکورہ صفات کا جامع اگر کوئی ہے تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے، لہذا عظمت، شرف اور اکرام صرف اور صرف آپ کی اتباع ہی میں پنہاں ہے۔

 

حوالہ جات

  1. حواشی و حوالہ جات () شرح نقائض جریر وفرزدق: معمر بن مثنی أبو عبید(ت 209 ھ) مجمع ثقافی، أبو ظبی، عرب امارات، ط 2، 1998 ء، محقق: محمد ابراہیم حور/ ولید محمود خالص: 3/824۔
  2. () صحیح مسلم: مسلم بن حجاج ابو الحسن النیسابوری( ت 261 ھ) دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، محقق: محمد عبد الفؤاد الباقی، کتاب الفضائل، باب فضل نسب النبی صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث نمبر(2276): 4/ 1782۔
  3. () صید الافکار فی الادب والاخلاق والحکم والامثال: حسین بن محمد مہدی، ممبر عدالت عالیہ یمن، دار الکتاب، وزارۃ الثقافہ، یمن، ط 2009 ء: 1/572.
  4. ()صحیح بخاری: محمد بن اسماعیل البخاری( ت256 ھ) دار طوق النجاۃ بیروت، ط 1، 1422 ھ،ترقیم عبد الفؤاد الباقی ، کتاب الرقاق, باب كيف كان يعيش صلی الله علیہ وسلم, حديث نمبر(6459): 8/ 97.
  5. () صحیح بخاری ، کتاب الأدب، باب حسن الخلق والسخاء، حدیث نمبر(6036): 8/ 14۔
  6. () سنن ابی داود: سلیمان بن اشعث ابو داود( ت 275 ھ) مکتبہ عصریہ، صیدا، بیروت، لبنان، محقق: محمد محیی الدین عبد الحمید، کتاب الادب، باب فی شکر المعروف، حدیث نمبر(4811): 4/255۔
  7. () ربیع الابرار ونصوص الاخیار: جار اللہ زمخشری( ت583 ھ)، موسسہ الاعلمی، بیروت، لبنان، ط 1، 1412 ھ۔: 5/ 277.
  8. () صحیح بخاری، کتاب تفسیر القرآن، باب لیغفر لک اللہ ما تقدم۔۔۔ حدیث نمبر(4837): 6/135۔
  9. ()صحیح بخاری، کتاب الأدب، باب الکبر، حدیث نمبر(6072): 8/20۔
  10. () مسند امام احمد بن حنبل: احمد بن محمد ابو عبد اللہ( ت 241 ھ) مؤسسہ الرسالہ، بیروت، لبنان، ط 1، 1421 ھ/ 2001 م، محقق: شعیب ارناؤط ، حدیث نمبر(653): 2/81۔
  11. () مسند امام احمد بن حنبل، حدیث نمبر(1348): 2/ 454.
  12. () صحیح بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب من علق سیفہ بالشجر، حدیث نمبر(2910): 4/ 39۔
  13. () صحیح مسلم، کتاب صلاۃ الاستسقاء، باب التعوذ عند رؤیۃ الریح، حدیث نمبر(899): 2/ 616۔
  14. () صحیح بخاری، کتاب الإیمان، باب إطعام الطعام، حدیث نمبر(12): 1/ 12۔
  15. () صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم الظلم، حدیث نمبر(2581): 4/ 1997۔
  16. () مسند احمد بن حنبل ، عمرو بن العاص، حدیث نمبر(6924): 11/ 521.
  17. () شعب الایمان: احمد بن الحسین ابو بکر البیہقی( ت 458 ھ) مکتبہ الرشد، ریاض، سعودیہ، د 1، 1423 ھ/ 2003 ء, تحقیق: ڈاکٹر عبد العلی عبد الحمید، اکرام الجار، حديث نمبر(9113): 12/104.
  18. () مسند احمد بن حنبل، حدیث نمبر(22211): 36/545۔
  19. () صحیح بخاری، کتاب العلم، باب قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رب مبلغ، حدیث نمبر(67): 1/24۔
  20. ()سنن ترمذی: محمد بن عیسی ابو عیسی الترمذی( ت 279 ھ) شرکت مکتبہ مصطفی البابی حلبی، مصر، ط 2، 1395 ھ/ 1975 م، محقق: احمد محمد شاکر، حدیث نمبر(3640): 5/600۔
  21. () صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب فی الأمل وطولہ، حدیث نمبر(6417): 8/89۔
  22. () صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب إذا اسلم الصبی، حدیث نمبر(1356): 2/ 94۔
  23. () صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب اختباء النبی صلى الله عليه وسلم دعوۃ الشفاعۃ لأمتہ،حدیث نمبر(199): 1/ 189۔
  24. () سیرت ابن اسحاق: محمد اسحاق بن یسار مطلبی( ت 151 ھ) دار الفکر، بیروت، لبنان، ط 1، 1398 ھ/ 1978 ء، محقق: سہیل زکار، باب ما نال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ص 154۔
  25. () صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب البرود والحبرۃ والشملۃ، حدیث نمبر(5809): 7/ 146۔
  26. () صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ، حدیث نمبر(3584): 4/ 195۔
  27. () صحیح بخاری، کتاب الأدب، رحمۃ الولد وتقبیلہ، حدیث نمبر(5997): 8/7۔
  28. () صحیح بخاری، کتاب الإیمان، باب المعاصی من أمر الجاہلیۃ، حدیث نمبر(30): 1/15۔
  29. () صحیح بخاری، کتاب الأذان، باب من أخف الصلاۃ عند بکاء، حدیث نمبر(707): 1/ 143۔
  30. () صحیح بخاری، کتاب الجمعۃ، باب السواک یوم الجمعۃ، حدیث نمبر(887): 2/4۔
  31. () صحيح بخاري, کتاب المناقب، باب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، حديث نمبر(3560): 4/ 189۔
  32. () صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق، باب خمس من الدواب فواسق، حدیث نمبر(3318): 4/ 130۔
  33. () صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احسن الناس خلقا، حدیث نمبر(2310): 4/ 1805ـ
  34. () صحیح بخاری، کتاب تفسیر القرآن، باب قولہ: کشجرۃ طیبۃ، حدیث نمبر(4698): 6/ 79۔
  35. () صید الافکار : 1/572.
  36. () صحیح مسلم، کتاب الحدود، باب قطع السارق الشریف، حدیث نمبر(1688): 3/ 1315۔
  37. () صحیح بخاری، کتاب الأدب، باب ما یجوز من الغضب والشدۃ لأمر اللہ، حدیث نمبر(6110): 8/ 27۔
  38. () سنن ابن ماجہ: محمد بن یزید أبو عبد اللہ ابن ماجہ( ت 273 ھ) دار احیاء تراث عربی، بیروت، لبنان، محقق: محمد عبد الفواد باقی، کتاب النکاح، باب حسن معاشرۃ النساء، حديث نمبر(1977): 1/636.
  39. () صحیح بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب الغرفۃ والعلیۃ المشرفۃ، حدیث نمبر(2468): 3/ 133۔
  40. () صحیح بخاری، کتاب الجمعۃ، باب الحراب والدرق یوم العید، حدیث نمبر(949): 2/ 16۔
  41. () صحیح بخاری، کتاب مناقب الأنصار، باب تزویج النبی صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث نمبر(3818): 5/ 38۔
  42. () مسند احمد بن حنبل، حدیث نمبر(24864): 41/ 356۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...