Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 5 Issue 2 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

عقد نکاح میں کفاءت کی حقیقت |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

5

Issue

2

Year

2018

ARI Id

1682060029336_966

Pages

69-80

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/148/138

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/148

Subjects

Kafa'at Compatibility Spouses Islamic Jurisprudence Qura’n

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

کفاءت کا لغوی معنی:

كَفَاءَةٌ كُفْؤٌسے مصدر کا صیغہ ہے اور اس کا معنی مساوات اور برابری کے ہیں۔كُفْوٌیا کُفُوْءٌ (بروزنِ فُعْلٌ اور فُعُولٌ) دونوں طرح استعمال کیا جاتا ہے كُفْوٌ اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی نسبت سے دوسرے کے ہم مثل اور ہم سر ہو1۔لفظ كُفْوٌ ہم سر اور ہم مثل کے معنی میں قرآن کی درج ذیل آیت میں بھی استعما ل ہوا ہے:

وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ 2

ترجمہ:اور اللہ تعالیٰ کا کوئی ہم سر نہیں۔

كفاءت کی اصطلاحی تعریف:

فقہاء کے یہاں”کفاءت“ایک خاص قسم کی اصطلاح ہیں جس کا مفہوم ہے۔

”مساواة الرجل للمرأۃ او کون المرأ ة ادنی.“3

ترجمہ:مرد عورت کے برابر کا ہو یا اس سے فائق ہو۔

مطلب یہ ہےکہ مرد صفات مخصوصہ ممتازہ میں عورت کے برابر یا اس سے اعلیٰ ہو،مقصود یہ ہے کہ جس سے رشتہ کیا جارہا ہو وہ ایسا نہ ہو کہ خود لڑ کی یا اس کے اقربا ءاور اولیاء کے لئے اس سے رشتہ باعث ننگ وعارہو کہ یہ بات ٍ امکانی طور پر مستقبل میں تعلقات کی نا پائیداری اور نا سازی کا موجب بن سکتی ہے،یہ اسلامی نظام ِ کفاءت کی بہتری کا ثبوت ہے کہ میاں بیو ی کے رشتہ کو پائیدار سے پائیدار بنانا چاہتی ہے اس کی واحد شکل یہی ہے کہ نئی خاندانی اکائی میں معاشرتی ،مالی،خاندانی حتی کہ پیشہ اور نفسیانی لحاظ سے برابری ہو ۔

عقد نکاح میں کفاءت کا اعتبار:

فقہاء کے اس میں کئی اقوال ہیں ۔

پہلا قول

یہ ہےکہ کفاءت نکاح کےلزوم کے لئے شرط ہےمطلب اگر عورت نے اپنا نکاح غیرِ کفؤ میں کرلیا ،تو نکاح صحیح ہوگا لیکن ولی کوقاضی کے ہاں اعتراض کا حق حاصل ہوگا،چاہے تو نکاح فسخ کر لیں یا باقی رکھیں،اسی طرح اگر ولی نے عورت کا نکاح غیر ِکفؤ میں کرلیا ،توعورت کواعتراض کا حق حاصل ہو گا ،چاہے تو نکاح فسخ کر لیں یا باقی رکھیں۔یہ جمہور فقہاء کا قول ہیں4۔

پہلے قول کے دلائل

۱۔نبی کریمﷺ نے اپنی بیٹیوں کی شادیاں کرائیں،حالانکہ کوئی شخص یا خاندان آپﷺ کے مرتبے اور حیثیت کے برابر نہیں ہیں،تو اگر کفاءت شرطِ صحت ہوتی نکاح میں تو آپﷺ کے بیٹیوں کا نکاح کسی سے منعقد ہی نہیں ہوتا،لھذا معلوم ہوا کہ کفاءت شرطِ لزوم ہے نہ کہ شرطِ صحت۔

۲۔انْكِحِي أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ،فَكَرِهْتُهُ،ثُمَّ قَالَ:انْكِحِي أُسَامَةَ،فَنَكَحْتُهُ،فَجَعَلَ اللهُ فِيهِ خَيْرًا،وَ اغْتَبَطْتُ بِهِ۔5

ترجمہ:تم اسامہ بن زید سے نکاح کر لو ،فاطمہ بنت قیس کہتی ہیں کہ میں نے اس کو ناپسند کیا ، آپ نے پھر فرمایا:اسامہ بن زید سے نکاح کر لو ،چنانچہ میں نے ان سے نکاح کر لیا ،اللہ تعالیٰ نے اس میں بہت خیر ( اور برکت )فرمائی اور اس وجہ سے مجھ پر رشک کیا جاتا تھا ۔

نبی کریمﷺ نے فاطمہ بنت قیس کو حکم دیا کہ وہ آپﷺ کے آزاد کردہ غلام اسامہ بن زیدسے نکاح کر لیں،تواس نے آپﷺ کی حکم پر اسامہ بن زید سے نکاح کرلیا،تو اگر کفاءت شرطِ صحت ہوتی نکاح میں، تو یہ نکاح منعقدنہ ہوتا ، لھذا معلوم ہوا کہ کفاءت شرطِ لزوم ہے نہ کہ شرطِ صحت۔

۳۔آپﷺنےزیدبن حارث جو کہ آپﷺکے آزاد کردہ غلام تھے زینب بنت جحش سے اس کا نکاح کردیا اور زینب بنت جحش قریشی تھی،تو باوجود اس کہ یہاں کفاءت موجود نہیں تھی پھر بھی یہ نکاح ہوا،تو معلوم ہوا کہ کفاءت شرطِ لزوم ہےورنہ یہ نکاح منعقد نہ ہوتابوجہ عدمِ کفاءت کے۔

دوسراقول

دوسرا قول یہ ہے کہ کفاءت عقد نکاح میں شرطِ صحت ہےاور غیر کفؤ کے صورت میں نکاح سرےِسے منعقد ہی نہیں ہوگا اور میاں بیوی کے درمیان تفریق کر دی جائے گی اوریہ دوسرا قول احناف6 (حسن بن زیاد کے قول کے مطابق)اور حنابلہ7 (ایک قول کے مطابق) کا ہیں۔

دوسرے قول كے دلائل

۱۔قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَا تَنْكِحُوا النِّسَاءَ إِلَّا الْأَكْفَاءَ,وَلَا يُزَوِّجُهُنَّ إِلَّا الْأَوْلِيَاءُ۔8

ترجمہ: نبی کریمﷺ نے فرمایا!کہ عورتوں کا نکاح نہ کراومگر ان کےکفؤ سےاور ان کی نکاح نہ کرائیں مگر ان کے اولیاء۔

اس حدیث مبارکہ میں عورت کا نکاح اس کے کفؤ سے کروانے کا حکم دیا گیا ہے،لھذا معلوم ہوا کہ کفاءت شرطِ صحت ہے نکاح میں۔

۲۔عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ:يَاعَلِيُّ،ثَلاَثٌ لاَ تُؤَخِّرْهَا:الصَّلاَةُ إِذَا أَتَتْ،وَالجَنَازَةُ إِذَا حَضَرَتْ ،وَالأَيِّمُ إِذَاوَجَدْتَ لَهَا كُفْئًا۔9

ترجمہ: علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ان سے فرمایا:” علی! تین چیزوں میں دیر نہ کرو: نمازکو جب اس کا وقت ہوجائے، جنازہ کوجب آجائے، اور بیوہ عورت (کے نکاح کو) جب تمہیں اس کا کوئی کفو (ہمسر)مل جائے“۔

اس حدیث مبارکہ میں بھی عورت کے نکاح کے لئے کفؤ کو لازم قرار دیا گیا ہے،لھذا معلوم ہوا کہ کفاءت شرطِ صحت ہے نکاح میں۔

۳۔عَنْ عَائِشَةَ،قَالَتْ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:تَخَيَّرُوا لِنُطَفِكُمْ،وَانْكِحُوا الْأَكْفَاءَ،وَأَنْكِحُوا إِلَيْهِمْ ۱۰

ترجمہ: ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

اپنے نطفوں کے لیے نیک عورت کا انتخاب کرو اور اپنے برابر والوں سے نکاح کرواور انہیں کو اپنی بیٹیوں کے نکاح کا پیغام دو۔

اس حدیث مبارکہ میں كفؤ سے نکاح کرنے کاحکم ہے،تو یہ حدیث اس بات پر دلیل ہےکہ کفاءت شرطِ صحت ہے نکاح میں۔

تیسراقول:

یہ ہے کہ کفاءت کا نکاح میں کوئی اعتبار نہیں ہے اورکفاءت نکاح میں شرط ہی نہیں اور یہ مذہب ظاہریہ ،امام کرخیؒ،امام جصاصؒ اور امام حسن بصری ؒ 11کا ہے،اور ان کے دلائل درجہ ذیل ہیں۔

۱۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،أَنَّ أَبَا هِنْدٍ،حَجَمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْيَافُوخِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:يَا بَنِي بَيَاضَةَ أَنْكِحُوا أَبَا هِنْدٍ وَأَنْكِحُوا إِلَيْهِ وَقَالَ:وَإِنْ كَانَ فِي شَيْءٍ مِمَّا تَدَاوُونَ بِهِ خَيْرٌ فَالْحِجَامَةُ.12

ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ابوہند نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر میں سینگی لگائی ، اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ اے بنی بیاضہ !ابوہند کا (اپنے میں سے کسی کے ساتھ )نکاح کر دو ، اور اس سے (اس کی کسی عزیزہ کا )نکاح لے لو ”۔اور فرمایا “ اگر تمہاری دواؤں میں سے کسی میں خیر ہے تو وہ سینگی لگانے ہی میں ہے ۔ “

ابو ہند یسار رضی اللہ غلام تھے ،نبی ﷺ نے بنی بیاضہ جیسے عربی خاندان والوں کو فرمایا کہ ان سے رشتہ کرلو،تو معلوم ہوا،کہ کفاءت کا نکاح میں اعتبار نہیں ہے

۲۔يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَلا إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ،وَإِنَّ أَبَاكُمْ وَاحِدٌ،أَلا لا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى أَعْجَمِيٍّ وَلا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ، وَلا لأحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ،وَلا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ إِلا بِالتَّقْوَى۔13

ترجمہ : اے لوگو! خبردار ہوجاؤ کہ تمہارا رب ایک ہے اور بیشک تمہارا باپ (آدم علیہ السلام) ایک ہے، کسی عرب کو غیر عرب پر اور کسی غیر عرب کو عرب پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی سفید فام کو سیاہ فام پر اور نہ سیاہ فام کو سفید فام پر فضیلت حاصل ہے سوائے تقویٰ کے۔

۳۔ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ﴾ 14

ترجمہ : اے لوگو!ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تمہارے طبقات اور قبیلے بنا دیئے تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو، بے شک اللہ کے نزدیک تو تم سب میں عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہو، بے شک اللہ سب کچھ جانتا باخبر ہے۔“

توضیح: اگر لڑکی خود ولی کی رضا کے بغیر ،غیر کفو میں نكاح کرلےتو یہ نکاح منعقد ہوجائے گا یا نہیں ؟ اس سلسلے میں ميں باقی آ ئمہ کرام کا موقف یہ ہے کہ نکاح منعقد ہوجائے گا ،لیکن ولی کو اس نکاح پر اعتراض کرنے اور قاضی سے رجوع کرکے نکاح فسخ کرانے کا اختیار ہوگا،لیکن احناف کے ہاں اس میں دو قول ہیں ، پہلا قول یہ ہےکہ نکاح منعقد ہوجائے گا،لیکن ولی کو اس نکاح پر اعتراض کرنے اور قاضی سے رجوع کرکے نکاح فسخ کرانے کا اختیار ہوگا ،یہ ظاہر روایت ہے اور عام طورپر فتویٰ ظاہر روایت پر دیا جاتا ہےاور دوسرا قول یہ ہے کہ نکاح منعقد نہیں ہو گااور متاخرین احناف کی رائے بھی یہی ہے کہ ایسا نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا اور بعد کے فقہاء نے فساد ِزمانہ كی وجہ اسی قول(نکاح منعقد نہیں ہو گا) پر فتویٰ دیاہے ،لیکن موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ جیسے جیسے لڑکیوں میں تعلیم کی شرح بڑھ رہی ہے ، وہ نکاح میں اپنے حق اختیار کو استعمال کرنا چاہتی ہیں اور تعلیم ، معاشی معیار اور مزاج کی ہم آہنگی کو وہ دوسری باتوں پر ترجیح دیتی ہیں، اس لیے بعض اوقات اولیا ءکے معیار کے لحاظ سے غیر کفو میں نکاح کرلیتی ہیں ، اولیا ءکو اگرچہ یہ رشتہ عدم ِکفائت کی وجہ سے پسند نہیں ہوتا ،لیکن جب نکاح ہوجاتا ہے تو وہ اس پر خاموش ہوجانے میں ہی اپنی عزت کا تحفظ محسوس کرتے ہیں،اب اگر متاخرین کے فتو یٰ کو لیا جائے تو نکاح منعقد نہیں ہوا اور ان کی زندگی معصیت کی زندگی قرار پاتی ہے، چنانچہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی زیر نگرانی عالمی مسائل سے متعلق جو مجموعۂ قوانین مرتب ہوا ہے ، اس میں اسی قول(کہ نکاح منعقد ہوجائے گا، لیکن ولی کو اس پر اعتراض کرنے اور قاضی سے رجوع کرکے نکاح فسخ کرانے کا اختیار ہوگا) پر فتویٰ دیا گیا ہے اور مجمع الفقہ الاسلامی الہند نے بھی اپنے گیارہویں فقہی سیمینار منعقدہ ۱۹۹۹ء میں اجتماعی غور و فکر کے بعد یہ بات طے کی کہ اگرچہ لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنے رشتوں کے انتخاب میں اولیا ءکی رائے کو اہمیت دینی چاہیے ، لیکن اگر عاقلہ بالغہ خاتون نے غیر کفو میں ولی کی رضامندی کے بغیر نکاح کرلیا تو یہ نکاح شرعاً منعقد ہوجائے گا ،البتہ اولیاء کو قاضی کے یہاں مرافعہ کا حق حاصل ہوگا ، اگر اولیا ءاس نکاح پر خاموش ہوجائیں تو نکاح نافذ رہے گا ۔15

کن امور میں کفاءت کا اعتبار کیا جائے گا؟فقہی مکاتب فکر کا نقطہ نظر

کن امور میں کفاءت کا اعتبار کیا جائے گا؟ ان میں فقہاء کرام کے درمیان اختلاف ہیں ۔

احناف کے نزدیک وہ چھ ہیں دین،اسلام ،نسب،حرفت،حریت اور مال۔

مالکیہ کےنزدیک وہ دو /۲ہیں دین اور حال (یعنی مرد ان تمام عیوب سے پاک ہو جن کی وجہ سے زوجہ کے لیے خیارثابت ہوتا ہے)۔

شافعیہ کے نزدیک وہ پانچ ہیں،دین،حریت،نسب ،السلامة من العيوب المثبتة للخيار،اور حرفت۔

حنابلہ کے نزدیک بھی وہ پانچ ہیں، دین،نسب،حرفت،حریت اور مال۔16

کفاءت کے پہلو (امور)اور دورِ حاضر

کفاءت کی علت عار ہےتا کہ اگر غیر کفو میں ولی نکاح کردے تو لڑکی کے لیے باعث عار نہ ہوجائے اور اگر لڑکی ازخود نكاح کرلے تو اس کے خاندان والوں کو ننگ وعار محسوس نہ ہو،اب کونسی چیز باعث عار ہے اور کونسی نہیں ہےاس کا دارومدار عرف پر ہے۔

إِذَا ثَبَتَ اعْتِبَارُ الْكَفَاءَةِ بِمَا قَدَّمْنَاهُ فَيُمْكِنُ ثُبُوتُ تَفْصِيلِهَا أَيْضًا بِالنَّظَرِ إلَى عُرْفِ النَّاسِ فِيمَا يَحْقِرُونَهُ وَيُعَيِّرُونَ. 17

ترجمہ:جب میری گذشتہ باتوں سے فی الجملہ کفاءت کا معتبر ہونا ثابت ہوگیا ،تو اب اس کی تفصیلات کا ثبوت بھی ممکن ہے ،اس طرح کہ لوگوں کے عرف کو دیکھا جائے کہ کو ن سی باتیں ان کے نزدیک باعث حقارت و ننگ ہیں۔

کفاءت کا مسئلہ اجتہادی حیثیت رکھتا ہے اور فقہائے اسلام نے اپنے اجتہادت کی بنیاد پر کفاءت کے شرائط کا تعین کیا ہے ان کے اجتہادت کا محور قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ دو ثانوی مآحذ (عرف و سد ذرائع ) بھی ہیں ،یعنی کفاءت کا انحصار عرف و عادت اور لوگوں کے تعامل پر مبنی ہے جس میں دفع حرج ،یسر اور آسانی ملحوظ رکھا گیاہے کفاءت میں بھی یہی اصول کار فر ما ہے جس طرح عرف میں مرورِ زمانہ سے تبدیلی ہو سکتی ہے اسی طرح کفاءت کے مسئلہ میں تبدیلی ہو سکتی ہے چنانچہ معلوم ہوا کہ کفاءت کے پہلو(امور)میں ہر زمانے اور جگہ کا اپنا عرف معتبر ہےاور عرف کی بنیادی پر کفاءت کے پہلوؤں میں تغیر و تبدّل ہو سکتی ہے،چنانچہ دورِ حاضر کو مدِنظر رکھتے ہوئے بعض ان چیزوں کو بھی امور کفاءت میں شامل کیا جاسکتاہے،جسکی وجہ لڑکی یا اس کے خاندان والوں کو ننگ و عار محسوس ہو۔

لہذااپنے علاقہ کے عرف وعادات کے مطابق نکاح اور دو شخصوں اور خاندانوں کے تعلقات کےاستحکام اور رشتہ کی پائیداری کے لیے ایسا قدم اٹھانا بہترہوگا جو ٹھوس ہو اور آگے چل کر شقاق اور تنافر کا باعث نہ بنے۔

عقدنکاح میں فلسفہ کفاءت :

انسانی نفسیات کی کمزوری کا یہ عالم ہےکہ بہت ہی کم اور شاذ و نادر ایسے حضرات ہوں گے جو صرف“ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللهِ اَتْقٰکُمْ”کے اُصول کو رشتہٴ ازدواج میں کافی سمجھیں اور ان کی نظر نہ لڑکے، لڑکی کی عقل و شکل پر جائے، نہ تعلیم و تہذیب پر، نہ رنگ و نسب پر، نہ جاہ و مال پر۔ رشتہٴ ازدواج چونکہ محض ایک نظریاتی چیز نہیں، بلکہ زندگی کی امتحان گاہ میں ہر لمحہ اسے عملی تجربوں سے گزرنا ہوتا ہے اور اس رشتے سے بڑھ کر (اپنے عملی آثار و نتائج کے اعتبار سے) کوئی رشتہ اتنا نازک، اتنا طویل اور ایسے وسیع تعلقات اور ذمہ داریوں کا حامل نہیں، اس لئے اسلام نے جو صحیح معنوں میں دِینِ فطرت ہےانسانی فطرت کی ان کمزوریوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا ، اس لئے اس نے اپنے ” اُصولِ مساوات “کے مطابق جہاں یہ فتویٰ دیا کہ ایک مسلمان خاتون کا نکاح، بلاتمیز رنگ و نسل، عقل و شکل اور مال و وجاہت ہر مسلمان کے ساتھ جائز ہے، وہاں اس نے انسانی فطرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ پابندی بھی عائد کی ہے کہ اس عقد سے متأثر ہونے والے اہم ترین افراد کی رضامندی کے بغیر بے جوڑ نکاح نہ کیا جائے، تاکہ اس عقد کے نتیجے میں ناخوشگواریوں، تلخیوں اور لڑائی جھگڑوں کا طوفان برپا نہ ہوجائے،یہ حاصل ہے اسلام میں مسئلہٴ کفو کی اہمیت کا۔

اسلامی قانون ازدواج کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ نوع انسانی کی دونوں صنفوں کے درمیان ازدواج کا تعلق مودّدت و رحمت کی بنیاد پر ہو شریعت یہ چاہتی ہے کہ ازدواجی تعلق ایسے مرد اور عورت کے درمیان قائم ہو جن کے درمیان ،غالب حال کے لحاظ سے،مؤدّت و رحمت کی توقع ہو اور جہاں یہ توقع نہ ہو وہاں رشتہ کرنا مکروہ ہے یہی وجہ ہے کہ نبیﷺ نے نکاح سے پہلے عورت کو دیکھ لینے کا حکم دیا ہے (یاکم ازکم مشورہ)دیاہے۔

إِذَا خَطَبَ أَحَدُكُمُ الْمَرْأَةَ،فَإِنِ اسْتَطَاعَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى مَا يَدْعُوهُ إِلَى نِكَاحِهَا فَلْيَفْعَلْ.18

ترجمہ:جب تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کو نکاح کا پیغام دے تو حتی الامکان اسے دیکھ لینا چاہیئےکہ آیا اس میں کوئی ایسی چیز ہے جو اس کو اس عورت سے نکاح کی رغبت دلانی والی ہو۔

اور یہی وجہ ہے کہ شریعت نکاح کے معاملہ میں کفاءت (ہمسری)کو ملحوظ رکھنا پسند کرتی ہے اور غیر کف میں نکاح کو مناسب نہیں سمجھتی،جو عورت اور مرد اپنے اخلاق میں،اپنی دینداری میں،اپنے خاندان کے طور طریقوں میں اور رہن سہن میں،ایک دوسرے سےمشابہت یا کم ازکم قریبی مماثلت رکھتے ہوں ،ان کے درمیان مؤدت و رحمت کا رابطہ پیدا ہونا زیادہ متوقع ہے اور ان کے باہمی ازدواج سے یہ بھی توقع کی جا سکتی ہے کہ ان دونوں کے خاندان بھی اس رشتہ کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہو سکیں گے بخلاف اس کے جن کے درمیان یہ مماثلت موجود نہ ہو ،ان کے معاملہ میں زیادہ تر اندیشہ یہی ہے کہ وہ گھر کی زندگی میں اور اپنے قلبی تعلق میں ایک دوسرے سے متصل نہ ہو سکیں گے اور اگر شخصاً میاں بیوی باہم متصل ہو بھی جائیں تو کم ہی امید کی جا سکتی ہےکہ دونوں خاندان آپس میں مل سکیں ،شرعِ اسلامی میں مسئلہ کفاءت کی یہی فلسفہ ہے

مسئلہ کفاءت میں افراط وتفریط:

عام طور پر لوگ مسئلہ کفاءت میں افراط وتفریط کا شکار ہیں ،بعض وہ لوگ ہیں جو اپنا سلسلۂ نسب کسی بزرگ یا صحابی یا بادشاہ وغیرہ سے جوڑ کر تفاخرو تکبر اختیار کرلیتے ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو سرے سے دنیاوی معاملات میں بھی امتیاز کا انکار کر کے اسےمساواتِ اسلام کا نام دیتے ہیں ،دونوں باتیں نصوص شرعیہ اور احادیث صریحہ کے خلاف ہیں،بالخصوص نکاح کے معاملات میں کفاء ت کو نظر انداز کرنا مساوات اسلام کےمعنوں کی غلط تعبیر ہے ،کیا یہ اندھیر نگری ہے کہ تہذیبی طور پر ایک مہذب اور غیر مہذب ایک ہوجائیں ،شریف و رذیل ، حاکم و محکوم ، مجرم و معصوم ، عالم و جاہل سب ایک پلڑے میں تلنے لگیں اور گدھے گھوڑے سب برابر ہوجائیں ،ایک ہی لاٹھی سے ہانکے جائیں ؟ اس سے نہ صرف دین و مذہب کی بنیادیں اُکھڑتی ہیں بلکہ خود دنیا داری کے بھی لالے پڑ جاتے ہیں اور زندگی وبال ہوجاتی ہے۔قانونِ کفاء ت دراصل اونچ نیچ کے فرق کو ازدواجی زندگی پر اثر انداز ہونے سے روک دیتا ہے ، فرقِ فطرتِ انسانی مٹ نہیں سکتے امتیازاتِ ذہنی تو ہمیشہ رہیں گے قانونِ کفاء ت ان امتیازات کو ازدواجی زندگی میں کوئی طوفان کھڑا کردینے سے پہلے ہی ختم کردیتا ہے۔

کچھ لوگ کم علمی کی وجہ سے کفو کے قائل نہیں ،وہ اسے ہندو دھرم کی طرح کی ذات پات کی تقسیم کے برابر قرار دیتے ہیں یہ نا سمجھی ہے ،اللہ تعالی نے ہرگز انسانوں کو اونچا یا نیچا پیدا نہیں کیا ہے سارے انسان برابر ہیں ہر کلمہ گو مسلمان چاہے عربی ہو کہ عجمی ، کالا ہو کہ گورا ، کوئی کسی پر برتری Superiority نہیں رکھتا ،سب ایک دوسرے کے کفو ہیں لیکن کلمہ گو ہونا کفو ہونے کی پہلی شرط ہے ، شریعت یہ بھی چاہتی ہے کہ انسانوں کے درمیان جو فطری اختلاف Natural Difference ہے جیسے خاندانوں کا ماحول ، علاقوں کا فرق ، زبان کا اختلاف ، مال اور پیسے کی وجہ سے اپنے اپنے معیارِ زندگی کا فرق ، تعلیم کا فرق ، وغیرہ ان کو لازماً پیش نظر رکھا جائے ورنہ ذہنوں میں دوریاں ضرور پیدا ہوتی ہیں ، کفو میں مال سب سے اہم ہے اگر لڑکی مال میں زیادہ ہو اور جوڑا جہیز لانے کے قابل ہو اور نوکری بھی کرتی ہو تو اس کے دو ہی نتائج نکلتے ہیں یا تو شوہر مکمل فرمانبردار ہوجاتے ہیں ، عورت قواّم بن جاتی ہے ، اسکے نتیجے میں آیت الٹ جاتی ہے اور النساء قوامون علی الرجال ہوجاتی ہے یا پھر اگر شوہر حساس ہو تو زندگی دوبھر ہوجاتی ہے ، لڑائی جھگڑوں میں اکثر شوہر غصے سے کہتے ہیں ،میں تمہارے مال کا بھوکا نہیں تمہارا پیسہ تمہارے منہ پر مار دوں گا ، ایسی صورتِ حال پیش آنے سے پہلے ہی اگر مرد حضرات اپنی اوقات کے مطابق لڑکی کا انتخاب کریں تو ان کی خود داری کو کبھی ٹھیس پہنچے گی اور نہ کفو کو نظر انداز کرنے کے نقصانات اٹھانے پڑیں گے۔

اللہ کے نزدیک بڑا اور چھوٹا ہونے کا معیار تقویٰ اور پرہیزگاری ہے، اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقَاکُمْ (القرآن) جو زیادہ متقی ہے، اللہ کی نظر میں وہی زیادہ عزت و مرتبے والا ہے، ذات وبرادری کا فرق محض تعارف کے لیے ہے اور نکاح کے باب میں اس کا لحاظ صرف اس لیے ہے تاکہ زوجین کی زندگی خوشگوار گزرے اور مزاج میں ہم آہنگی رہے، اگر مسئلہ کفاء ت کو بالکلیہ نظر انداز کردیا گیا تو مصالح نکاح کا برقرار رہنا دشوار ہوجاتا ہے۔

بعض احادیث اور روایات میں یہ ترغیب ضرور دی گئی ہے کہ نکاح کفو میں کرنے کی کوشش کی جائے،تاکہ دونوں خاندانوں کے مزاج آپس میں میل کھا سکیں ،لیکن یہ سمجھنا غلط ہے کہ کفو سے باہر نکاح کرنا شرعاً ناجائز ہے،یا یہ کہ کفو سے باہر نکاح شرعاً درست نہیں ہوتا،حقیقت یہ ہے کہ اگر لڑکی اور اس کے اولیاء کفو سے باہر نکاح کرنے پر راضی ہوں ،تو کفو سے باہر کیا ہوا نکاح بھی شرعاً منعقد ہوجاتاہےاوراس میں نہ کوئی گناہ ہے نہ کوئی ناجائز بات ،لہذا اگر کسی لڑکی کا رشتہ کفو میں میسر نہ آرہا ہواور کفو سے باہر کوئی مناسب رشتہ مل جائے تو وہاں شادی کردینے میں کوئی حرج نہیں ہے،کفو میں رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے لڑکی کو عمر بھر بغیر شادی کے بٹھائے رکھنا کسی طرح جائز نہیں ۔

شریعت نے یہ ہدایت ضروردی ہے کہ لڑکی کو نکاح بغیر ولی کے نہیں کرنا چاہئے ،لیکن ولی کو بھی یہ چاہئے کہ وہ کفو کی شرط پر اتنا زور نہ دےجس کے نتیجے میں لڑکی عمر بھر شادی سے محروم ہو جائے اور برادری کی شرط پر اتنا زور دینا تو اور بھی زیادہ بے بنیاد اور لغو حرکت ہے جس کا کوئی جواز نہیں ہے۔

ایک حدیث میں حضور ﷺ کا ارشادہے:

إِذَا جَاءَكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَأَنْكِحُوهُ، إِلَّا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ وَفَسَادٌ. 19

ترجمہ:جب تمھارے پاس کوئی ایسا شخص رشتہ لے کر آئے جس کی دینداری اور اخلاق تمہیں پسند ہوں تو اس سے (اپنی لڑکی کا ) نکاح کردو،اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ و فساد بر پا ہو گا۔

بعض لوگ کا جو یہ خیال ہے کہ سید لڑکی کا نکاح غیر سید گھرانے میں نہیں ہو سکتا ،تو یہ ان لوگوں کی غلط فہمی ہےاور شرعاً یہ بات درست نہیں ہے،ہمارے عرف میں ”سید“ان حضرات کو کہتے ہیں جن کا نسب بنی ہاشم سے جا ملتا ہو،چونکہ حضور پاکﷺ بنی ہاشم سے تعلق رکھتے تھے ،اس لئے بلاشبہ اس خاندان سے نسبی وابستگی ایک بہت بڑا اعزاز ہے ،لیکن شریعت نے ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی کہ اس خاندان کی کسی لڑکی کا نکاح باہر نہیں ہو سکتا، نہ صرف شیوخ ،بلکہ تمام قریشی نسب کے لوگ بھی شرعی اعتبار سے سادات کے کفو ہیں اور ان کے درمیان نکاح کا رشتہ قائم کرنے میں کوئی شرعی رکاوٹ نہیں ہے،بلکہ قریش سے باہر کے خاندانوں میں بھی باہمی رضامندی کے ساتھ نکاح ہو سکتا ہے۔

خلا صۃ البحث

۱۔سماج کو امن اور ترقی کی راہ پر لے جانے کےلئے ضروری ہوتا ہے کہ سماجی مسائل کو صحیح  نہج پراعتدال کےساتھ حل کیا جائے، اس کے لئے جہاں فطری جذبے کا لحاظ ضروری ہوتاہے، وہیں زمینی حقائق و حالات کو نظرانداز کردینا دانش و بصیرت اور قابل لحاظ تقاضوں کےمنافی  ہے، معاشرتی مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ مرد، عورت او رلڑکا لڑکی کے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا بھی ہے، اس سلسلے میں ان تمام امور کا ممکن حد تک لحاظ کیا جانا چاہئے ، جن سے دونوں کی ازدواجی زندگی بہتر طور سےگزر سکے ، کفاء ت (برابری) کا اعتبار ، اس تناظر میں انتظامی لحاظ سے کیا جاتا ہے،لیکن واقعہ  یہ ہے کہ شادی  بیاہ  میں برابری  (کفاءت ) کےسلسلے میں  خاصی افراط  تفریط  پائی جاتی ہے، کچھ لوگ توسرے سے ہی کفاء ت کا انکار کرتے ہوئے فقہ اور فقہاء تک کو تنقید کانشانہ بناتے ہیں ، دوسری طرف کچھ لوگ کفاءت کو شرط او رمدارِ نکاح کا درجہ دیتے ہوئے اپنی اشرافیت و برتری کو بین السطور میں ثابت کرتے ہیں اور غیر کفو میں نکاح  کو ناجائز قرار دیتے ہیں، جب کہ راہِ صواب افراط و تفریط کے درمیان سےہوکر گزرتی ہے،لہذا مسئلہ کفاءت میں افراط و تفریط سے گریز کیا جائے۔

۲۔شریعت نے یہ ہدایت ضروردی ہے کہ لڑکی کو نکاح بغیر ولی کے نہیں کرنا چاہئے ،لیکن ولی کو بھی یہ چاہئے کہ وہ کفو کی شرط پر اتنا زور نہ دےجس کے نتیجے میں لڑکی عمر بھر شادی سے محروم ہو جائے اور برادری کی شرط پر اتنا زور دینا تو اور بھی زیادہ بے بنیاد اور لغو حرکت ہے جس کا کوئی جواز نہیں ہے۔

۳۔لوگ محبت ضرور کریں مگرمحبوب کوپانے کیلئے خاندان اوراسلامی اقدارسے بغاوت نہ کریں ،کیونکہ جہاں خاندان کی حمیت اور غیرت قتل ہوگی وہاں غیرت کے نام پرکشت وخون ہوتا رہے گا،انسان جذباتی فیصلے کرکے اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ اپنے پیاروں کی زندگیاں بھی جہنم بنادیتا ہے،معاشرے میں برائی اوربدکاری کاراستہ روکنے کیلئے نکاح کوآسان بنایاجائے۔

۴۔والدین اپنی اولاد سے دوستانہ برتاؤ رکھیں اور ان کی پسند و ناپسند کو اہمیت دیں، دوسری طرف اولاد بھی بے جا شرم سے اجتناب کرتے ہوئے کھلے طریقے سے اپنی پسند و ناپسند سے والدین کو آگاہ کرے اور تمام معاملات انہی کے ذریعے طے کرے،تاکہ ماں باپ کی حمیت اور خاندان کی آن ملیامیٹ کرکے گھروں سے بھاگ کرشادیوں کے نتیجہ میں بے حیائی کوفروغ نہ ملےہے۔

حواشی و حوالہ جات

1ابن منظور الأفریقی،جمال الدین محمّد بن مکرَّم بن علی [۷۱۱ھ]،لسان العرب،حرف الھمزہ،فصل الکاف،مادّہ 'کفأ '، دارصادر، بيروت۱۴۱۴ھ۔

2 القرآن سوره الاخلاص ۴:۱۲۲

3 الحصفكی،محمد بن علی بن محمد،الحنفی [م۱۰۸۸ھ[،الدرالمختار،ج۳،ص۸۴،دار الفكر،بيروت ۱۴۱۲ھ۔

4 وھبۃالزحیلی،وھبۃ بن مصطفی،الفقه الاسلامی وأدلته،ج۹،ص۶۷۳۸، دار الفكر،سوریہ،دمشق، سطن۔

5 ابو داؤد سلیمان بن الاشعث[م۲۷۵ھ]،سنن ابی داؤد ،رقم الحدیث۲۲۸۴ ،المکتبۃ العصریہ، بیروت ، سطن ۔

6 ابن عابدین،محمد امين بن عمر بن عبد العزيز،[م۱۲۵۲ء]،رد المحتار على الدر المختار،ج۳،ص۸۴ ،دار لفکر ، بیروت۱۴۱۲ھ۔

7 ابن قدامۃ،ابو محمد موفق الدين عبد الله بن احمد بن محمد[م۶۲۰ھ]،المغني،ج۷،ص۳۳،بحوالہ سابق۔

8 الدارقطنی،ابو الحسن علی بن عمر[م۳۸۵ھ]،سنن الدارقطني،رقم الحديث:۳۶۰۱،مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان۲۰۰۴ء۔

9 الترمذی ،ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سورۃ [م۲۷۹ھ]،سنن الترمذی،تحقیق:احمد محمد شاکر و آخرون،رقم الحدیث :۱۰۷۵ ، شرکۃ مکتبۃ و مطبعۃ مصطفی البانی الحلبی ، مصر۱۳۹۵ھ۔

10 ابن ماجہ ،محمد بن يزيد ،ابو عبد الله، القزوينی[م۲۷۳ھ]،سنن ابن ماجه ،رقم الحدیث:۱۹۶۸، دار إحياء الكتب العربیۃ ، سطن۔

11 وھبۃالزحیلی،وھبۃ بن مصطفی،الفقه الاسلامی وأدلته،ج۹،ص۶۷۳۶، دار الفكر،سوریہ،دمشق، سطن۔

12ابو داؤد سلیمان بن الاشعث[م۲۷۵ھ]، سنن ابی داؤد ،رقم الحدیث۲۱۰۲ ۔

13 ابن حنبل،احمد بن محمد بن حنبل ، الشیبانی [م۲۴۱ھ]،مسند الإمام احمد بن حنبل،رقم الحدىث ۲۳۴۸۹ ، مؤسسۃ الرسالۃ۲۰۰۱ء۔

14القران،الحجرات ۱۳:۴۹

15رحمانی،خالد سیف اللہ،مولانا،خواتین کے حقوق اور ہندوستانی علماء،ماہ نامہ زندگی نو،ج۳۸،ش،۱،جنوری۲۰۱۲ء،نئی دہلی ۔

16 وھبۃالزحیلی،وھبۃ بن مصطفی،الفقه الاسلامی وأدلته،ج۹،ص۶۷۴۷، دار الفكر،سوریہ،دمشق، سطن۔

17 ابن الهمام،كمال الدين محمد بن عبد الواحد السيواسی[م۸۶۱ھ] ،فتح القدیر،ج۳،ص۲۹۶، دارالفکر، سطن۔

18 الترمذی ،ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سورۃ [م۲۷۹ھ]،سنن الترمذی،تحقیق:احمد محمد شاکر و آخرون،رقم الحدیث:۲۳۵۲۔

19 ایضاً،رقم الحدیث:۱۰۸۵ ۔

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...